Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 37) 13 Sep 2021 2021-19 September 2021 - Issue 142 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 37) 13 Sep 2021 2021-19 September 2021 - Issue 142 - Vol 5
ویکلیہفتہ
ِ
تحقیقات 06 Sep.21 – 12 ویکلی طِ ّبی
Sep. 2021
ہفتہ وار
ٰ
عظمی ہے!قدرکیجئے صحت نعمت
Managing Editor
،شمار ۱۴۲ جلد ۵
ستمبر ۲۱۔ ۱۹ستمبر ۱۳ ۲۰۲۱
Mujahid Ali
مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ مینجنگ ایڈیٹر:مجاہدعلی
+ 92 0333 4576072
مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے
عالوہ یہ پاکستان کی جامعات،تحقیقاتی ادارہ
جات،معالجین حکماء ،محققین،فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری
معاون مدیر :حافظ زبیر
ایڈیٹر :ذاہدچوہدری
اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے
اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں
تقریبا پورے پاکستان میں اسکی سرکولیشن کی جاتی
ہے اورآپکے کاروبار ،پراڈکٹ ،سروسزکے فروغ
ادارتی ممبران
کابہترین ذریعہ ہے
تفصیل
موٹاپے کی پانچ بڑی وجوہات اور ان کا تدارک
Sep 17, 2021 | 19:24:PM
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں تاہم اب ماہرین نے اس
کی پانچ بڑی وجوہات اور ان کا تدارک لوگوں کو بتا دیا ہے۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق
ماہرین نے ذہنی دباﺅ ،بے خوابی کی بیماری ،غیرمتحرک تھائیرائیڈ ،خواتین میں حیض کی
بے قاعدگی اور پولی سسٹک اووری سنڈروم کا عارضہ اور بسیار خوری کی بیماری کو
موٹاپے کی سب سے بڑی وجوہات قرار دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش اور صحت مند انہ خوراک ہمیں ان تمام نقصان
دہ عوامل سے بچا کر موٹاپے سے محفوظ رکھ سکتی ہیں تاہم تھائیرائیڈ کے غیرمتحرک
جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات | 2
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہونے،حیض کی بے قاعدگی ،پولی سسٹک اووری سنڈروم اور بسیارخوری کی بیماری
کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ان بیماریوں میں Binge-eating disorder
ہمارے جسم میں ہارمونز کی کمی بیشی یا عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس سے موٹاپے کے
عالوہ دیگر کئی طرح کے عارضے بھی الحق ہو سکتے ہیں۔
https://dailypakistan.com.pk/17-Sep-2021/1341914
ویب ڈیسک
منگل 14 ستمبر 2021
بوسٹر ڈوز سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ساری دنیا میں کورونا وائرس کے خالف ویکسی نیشن
)جلد از جلد مکمل کی جائے۔
جنیوا :طبی ماہرین کے عالمی پینل کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کورونا وائرس کے
خالف مکمل ویکسی نیشن کروا لی ہے ،انہیں تقویتی کو ِوڈ 19ویکسین یعنی ’’بوسٹر
ڈوز‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔
امریکا ،برطانیہ ،سوئٹزرلینڈ ،جمیکا ،میکسیکو ،جنوبی افریقہ ،فرانس اور ہندوستان کے
عالوہ عالمی ادارہ صحت کے نمائندہ ماہرین کی یہ مشترکہ تحقیق معتبر طبّی جریدے
’’دی لینسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
کووڈ 19ویکسین اور اس کی بوسٹر ڈوز پر کی گئی یہ بات انہوں نے اب تک دنیا بھر میں ِ
تحقیقات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کہی ہے۔
ان میں میڈیکل ریسرچ جرنلز میں شائع شدہ تحقیقات کے ساتھ ساتھ وہ طبی تحقیقات بھی
شامل ہیں جو ’’پری پرنٹ‘‘ سرورز پر حالیہ مہینوں میں شائع کروائی گئی ہیں۔
کووڈ 19کی
ان تمام تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ِ
تمام ویکسینز ،اپنی معمول کی خوراک کے حساب سے ناول کورونا وائرس کی تمام اقسام
کے خالف مؤثر ہیں جن میں ’’ڈیلٹا ویریئنٹ‘‘ Œبھی شامل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے ’’اس مرحلے پر عام ٓابادی کو بوسٹر ڈوز لگانا بالکل
‘‘بھی مناسب نہیں۔
ماہرین کی جانب سے یہ اعالن ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے کہ جب بیشتر امیر ملکوں
کووڈ 19ویکسین کی کی اکثریتی ٓابادی میں کورونا ویکسی نیشن مکمل ہوجانے کے بعد ِ
اضافی خوراکیں (بوسٹر ڈوزز) لگائی جارہی ہیں۔
سرفہرست ہے جہاں اب تک دس الکھ سے زیادہ افراد کو بوسٹر ان ملکوں میں امریکا ِ
ڈوزز لگائی جاچکی ہیں جبکہ اس بارے میں خود امریکی ماہرین میں شدید اختالف موجود
ہے۔
ویب ڈیسک
منگل 14 ستمبر2021
پچاس اقسام کے سرطان شناخت کرنے والے بلڈ ٹیسٹ کی بڑی ٓازمائش
شروع
ویب ڈیسک
بدھ 15 ستمبر 2021
پچاس اقسام کے کینسر شناخت کرنے والے بلڈ ٹیسٹ کی ٓازمائش ایک الکھ چالیس ہزار
)برطانوی باشندوں پر کی جارہی ہے۔
ویب ڈیسک
بدھ 15 ستمبر 2021
جنک فوڈ کم مقدار میں کھانے پر بھی موٹاپے میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے
ہارورڈ :امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپا زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ الٹی سیدھی
چیزیں کھانے سے ہوتا ہے ،چاہے وہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ کھائی جائیں۔
دی امریکن جرنل ٓاف کلینیکل نیوٹریشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ’’
ڈوگ کی قیادت میں کی گئی ہے جس کے تحقیق بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹر ڈیوڈ لُ ِ
نتائج اس عام خیال کے برخالف ہیں جو اس وقت ساری دنیا میں مقبول ہے۔
ٓاپ جتنا زیادہ کھاتے ہیں ،اتنے ہی موٹے ہوجاتے ہیں‘‘ اور ’’کم کھائیے ،زیادہ حرکت
کیجیے‘‘ کے روایتی تصور کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ’’انرجی بیلنس ماڈل‘‘ (ای بی
ایم) کہا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں موٹاپے سے متعلق نئے تصور کو ’’کاربوہائیڈریٹ انسولین ماڈل‘‘
(سی ٓائی ایم) کا نام دیا گیا ہے ،جس کی بنیادیں کم از کم 120سال پرانی ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے کم کھانے اور زیادہ چلنے پر بہت زور
دیا جارہا ہے لیکن پھر بھی موٹے لوگوں کی تعداد اور موٹاپے کی شرح میں مسلسل اضافہ
ہورہا ہے… کیونکہ گھر میں پکے ہوئے کھانوں کی جگہ صنعتی پیمانے پر تیار کردہ
غذاؤں (پروسیسڈ فوڈ) کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔
صنعتی پیمانے پر اشیائے خور و نوش کی تیاری میں قدرتی غذاؤں (پھلوں ،سبزیوں اور
گوشت وغیرہ) میں سے ان کے قدرتی غذائی اجزاء ،بالخصوص ریشے (فائبرز) نکال باہر
کیے جاتے ہیں۔
دوسری جانب غذائی مصنوعات کی تیاری میں بہت سے ایسے اجزاء بھی شامل کردیئے
جاتے ہیں جن کی وجہ سے جلدی پیٹ بھرنے کا احساس نہیں ہوتا۔
https://www.express.pk/story/2225081/9812/
ویب ڈیسک
جمعرات 16 ستمبر2021
یہ نیا قدرتی لیکن مصنوعی گردہ دس سال کی محنت سے تیارکیا گیا ہے۔ کڈنی پروجیکٹ
کے تحت یہ اہم ایجاد ممکن ہوئی ہے۔ اسے مریض کے جسم میں پیوند کرکے حقیقی کام
انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کوئی دوا ،خون پتال کرنے والے محلون اور
دیگراشیا کی ضرورت نہیں رہتیں۔
چوکور بیٹری نما گردہ دو اہم حصوں پر مشتمل ہے۔ سب سے اہم ہیموفلٹر ہے جو سلیکان
سیمی کنڈکٹر چادر سے بنا ہےجو خون سے مضر مادے فلٹر کرتا ہے۔ دوسری جانب ایک
حیاتیاتی (بایو) ری ایکٹر ہے جس میں گردے کے ایسے زندہ خلیات موجود ہیں جنہیں
جینیاتی انجینئرنگ سے تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ خلیات پانی کی مقدار ،الیکٹروالئٹ Œ،اور دیگر
افعال کو منظم رکھتےہیں۔
سب سے پہلے گردے کے الگ الگ حصوں کو کئی انداز سے جانچا گیا۔ اب مکمل نظام
کو کئی طرح کے ٹیسٹ سے گزارا گیا ہے۔ گردے کو خون کی دو اہم شریانوں سے جوڑا
جاتا ہے اور اس کی تیسری نلکی پیشاب کی نالی سے جوڑی جاتی ہے۔
یہ ٓالہ اترتے چڑھتے بلڈ پریشر میں بالکل درست کام کرتا ہے اور اس کا فالتو مائع پیشاب
کی صورت میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ تاہم مزید طبی ٓازمائش کے لیے اس میں کئی تبدیلیاں
النا ہوں گی اور ان پر بھی کام جاری ہے۔ اس کے بعد ہی انسانی ٓازمائش کا کوئی مرحلہ
سامنے ٓاسکے گا۔
https://www.express.pk/story/2225239/9812/
ویب ڈیسک
جمعـء 17 ستمبر 2021
دنیا کا مختصراور Œمؤثرترین الٹراساؤنڈ نظام جسے ہزاروں افراد پر ٓازمایا گیا ہے۔ فوٹو:
بشکریہ بٹرفالئی ٓائی کیو
نیویارک :اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ چارارب افراد ایسے ہیں جنہیں مختلف امراض
کی تشخیص کے لیے الٹراساؤنڈ اور ایکس رے کی سہولت میسر نہیں۔ اس کا بہترین حل
ییل یونیورسٹی کے سائنسداں نے دنیا کے سب سے چھوٹے ،کم خرچ اور مؤثر ترین
الٹراساؤنڈ نظام کی صورت میں پیش کیا ہے۔
جینیات داں پروفیسر جوناتھن روتھبرگ اور ان کی ٹیم نے بٹرفالئی ٓائی کیو نامی ایک ٓالہ
بنایا ہے۔ انہوں نے ایک عرصے تک تحقیق و تخلیقی عمل انجام دینے کے بعد یہ اہم ایجاد
کی ہے۔ اس میں دسیوں الکھوں روپے کے بھاری بھرکم الٹراساؤنڈ نظام کی بجائے اسے
ایک دستی ٓالے میں سمویا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں خردبرقیات(مائیکروالیکٹرانکس) کو
ٓازمایا گیا ہے اور بڑے سرکٹ کو بہت چھوٹا کرکے ایک ایسے ٓالے میں سمویا گیا ہے جو
ہاتھ میں سما سکتا ہے۔
بٹرفالئی ٓائی کیو کی بنیاد پر اس میں مزید اختراعات کی گئی ہیں ۔ تھوڑی سی تبدیلی کے
بعد اسے جانوروں کے امراض میں استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب بٹرفالئی ایکسیس
اور بٹرفالئی اینٹرپرائز سسٹم کی بدولت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور ایک چھوٹے
سے دیہات میں طبی تشخیص کا پورا نظام مرتب کیا جاسکتا ہے۔
اس ایجاد کو ٹیلی میڈیسن کے لیے بھی کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ بعض ہسپتالوں کی
ایمبولینس میں اسے ایمرجنسی کے طور پر بھی کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اسی ٓالے
کو ایک خالنورد نے خالئی اسٹیشن میں دل کی کیفیت ناپنے کے لیے بھی ٓازمایا ہے۔
اس طرح بٹرفالئی ٓائی کیو کو کئی اہم طبی امور کے لئے کامیابی سے ٓازمایا جارہا ہے
https://www.express.pk/story/2225637/9812/
ر
دل بہت تیزی سے اور بے قاعدگی سے دھڑکنے کا عالج نہ ہونے سے فالج کا حتمی
خطرہ رہتا ہے ،ڈاکٹریاور سعید ۔
کراچیٓ :اغا خان یونیورسٹی اسپتال کی کارڈیولوجی اور الیکٹروفزیولوجی ٹیم نے دل کی
بے قاعدہ دھڑکن کے عالج کے لیے ایک کم خطرے کے حامل نئی ٹیکنالوجی پر مبنی
پروسیجر کیا۔
ڈاکٹر یاور سعید ،اسسٹنٹ پروفیسر اورکنسلٹنٹ ،کارڈیولوجی اور الیکٹروفزیولوجی نے اس
پروسیجر میں رہنمائی کی ،ان کی کارڈیولوجی ،الیکٹروفزیولوجی Œکی الگ الگ ٹیم اور
ریڈیولوجی کے ٹیکنیشنز اس پروسیجر کی مکمل تنظیم اور عمل سیکھنے کے لیے مہینوں
مصروف رہے۔
یہ ٹیکنالوجی جو کہ پاکستان میں نسبتا ً نئی ہے ،نبض کی بے قاعدگی کے عالج کے لیے
پرانی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بہت زیادہ موثر ،تیز تر اور محفوظ تر ہے ،اس جدید
ترین پروسیجر میں دو سے تین گھنٹے لگتے ہیں ،مریض پروسیجر کے ایک ہفتے بعد کام
پر واپس جاسکتا ہے یا گاڑی چالسکتا ہے۔
ڈاکٹر سعید نے اس بات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ پروسیجر اور طبیعت کی
بحالی دونوں کا دورانیہ معقول حد تک کم ہوگیآ،اغا خان یونیورسٹی اسپتال میں دل کی
دھڑکن سے متعلق دیکھ بھال کے متالشی مریضوں کو دل کی اس پیچیدہ کیفیت کے مٔوثر
ویب ڈیسک
جمعـء 17 ستمبر 2021
الزائیمرز بیماری کی وجہ بننے والے خطرناک پروٹین ’ایمیالئیڈز‘ جگر میں بن کر دماغ
)تک پہنچتے ہیں۔
پرتھٓ :اسٹریلوی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دماغ کی ایک خطرناک بیماری
’’الزائیمرز‘‘ کے اسباب دراصل جگر سے شروع ہوتے ہیں اور وہیں سے دماغ تک
پہنچتے ہیں۔
الزائیمرز بیماری میں دماغ کے خلیے تیزی سے مرتے ہیں اور دماغ بھی بتدریج سکڑنے
لگتا ہے۔ ٓاخرکار یہ عمل مریض کی موت پر جا کر ہی رکتا ہے۔
اب تک الزائیمرز Œکے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کی وجہ دماغ میں
ہوتے ہیں جو دماغی خلیوں کو ٓاہستہ ٓاہستہ )‘‘ (Amyloidsبننے والے پروٹین ’’ایمیالئیڈز
ختم کر ڈالتے ہیں۔
البتہ یہی پروٹین ہمارے جگر میں بھی بنتے ہیں لہذا ایک متبادل مفروضہ یہ بھی تھا کہ
شاید انسانی جگر میں بننے والے ایمیالئیڈز کسی نہ کسی طرح ہمارے دماغ تک پہنچتے
ہیں جہاں یہ الزائیمرز بیماری کی وجہ بن جاتے ہیں۔
اس مفروضے کو ’’ایمیالئیڈز Œہائپوتھیسس‘‘ بھی کہا جاتا ہے تاہم اس بارے میں اب تک
ہمارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
چوہوں پر کی گئی ایک نئی تحقیق میں بینٹلیٓ ،اسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی کے ماہرین
نے چوہوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جس کے جگر میں انسانی ایمیالئیڈز بن رہے تھے
ویب ڈیسک
ہفتہ 18 ستمبر2021
شیئر
امریکی سائنسدانوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کرلیا ہے جس میں عالمات ظاہر ہونے سے
قبل ہی کینسر کی تشخیص کی جاسکے گی یعنی بلڈ ٹیسٹ سے بھی کینسر کی تشخیص
ممکن ہوگی۔
ہولی گریل طریقہ ڈی این اے میں موجود نہایت چھوٹے کیمیکل سے پتا لگاتا ہے کہ کینسر
کے جینز متحرک ہیں یا نہیں ،نئی ٹیکنالوجی انسانی جسم میں ایک ہی وقت میں 50اقسام
کے کینسر کی تشخیص کرسکتی ہے۔
برطانوی این ایچ ایس میں ہولی گریل بلڈ ٹیسٹ کا تجربہ ایک الکھ چالیس ہزار افراد پر
شروع کردیا گیا ہے جسے کینسر کے عالج میں ایک نیا انقالب قرار دیا جارہا ہے۔
تاہم یہ ٹیسٹ کینسروں کا پتہ نہیں لگا سکے گا اور این ایچ ایس اسکریننگ پروگراموں کی
جگہ نہیں لے گا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ کینسر کو جلدی پکڑنا ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو فوری عالج
حاصل کرکے اس بیماری کو شکست دے سکتے ہیں اور یہ ٹیسٹ مستقبل میں برطانیہ میں
ہر سال ہزاروں زندگیاں بچانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
ٹیسٹ خلیوں کے ذریعے خون میں جاری ڈی این اے کی اسکریننگ کے ذریعے کام کرے
گا تاکہ غیر معمولی کیمیائی تبدیلیوں کا پتہ لگا کر ٹیومر کی نشاندہی کی جا سکے۔
ڈیلی میل کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریبا 3الکھ 60ہزار افراد میں کینسر کی
تشخیص ہوتی ہے جو کہ روزانہ ایک ہزار کیسز کے برابر ہے۔
https://urdu.arynews.tv/modern-blood-tests-diagnosis-of-cancer-
screening-program/
ویب ڈیسک
جسم کا اضافی وزن اور توند ویسے تو کئی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے مگر حال ہی
میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موٹاپا عارضہ قلب میں مبتال ہونے کی سب سے بڑی
وجہ ہے ،اب سائنس دانوں نے توند نکلنے وجہ غذائی انتخاب کو قرار دیا ہے۔
بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول میں ہونے والی حالیہ تحقیق میں سانئس
دانوں نے غیر معیاری غذا اور پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا انتخاب کو موٹاپے کی وجہ
قرار دیا ہے۔
محققین کے تجویز کردہ نئے ماڈل میں موٹاپے کی وجہ موجودہ عہد کے غذائی انتخاب کو
قرار دیا گیا جس میں ایسی غذاؤں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جو پراسیس اور بہت تیزی
سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتی ہیں۔
تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ ان غذاؤں کی وکہ سے میٹابولزم میں تبدیلی رونما ہوتی ہے جو
جسم میں چربی کو ذخیرہ کرتا ہے جو جسمانی وزنی اضافے کا باعث بنتی ہے۔
طبی جریدے امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہونے والے نتائج میں کہا گیا
ہے کہ پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا زیادہ استعمال جسم میں انسولین کا اخراج بڑھاتا اور
گلوکوز کا اخراج دباتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/is-food-the-main-cause-of-obesity-or-something-
else-shocking-revelation/
ویب ڈیسک
پنسلوانیا :دانتوں کی تکلیف جسم کی دیگر تکالیف سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے،
جس سے بچنے کیلئے مریض یا تو دانت جڑ سے ہی نکلوا دیتا ہے اور پھر اس کی جگہ
مصنوعی دانت لگوانا پڑتا ہے۔
مصنوعی دانت لگوانے کے بعد اکثر لوگوں کو مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے
جس میں دانت کی صفائی اور مسوڑھوں پر پڑنے والے مضر اثرات ہیں۔
دنیا بھر میں لوگ مصنوعی دانت (ڈینٹل امپالنٹ) لگواتے ہیں لیکن ان کی عمر ایک حد
تک ہی ہوتی اور دوسری جانب وہ مسوڑھوں کی مجموعی صحت کو بھی متاثر کرتے
ہیں۔
اب اس کا حال جامعہ پنسلوانیا کے ماہرین نے ایک ایسے مصنوعی دانت کی صورت میں
پیش کیا ہے جو بجلی بناتا ہے جس سے میل نہیں جمتا اور مسوڑھے بھی تندرست رہتے
ہیں۔
صرف امریکہ میں ہی 30الکھ لوگ ایسے ہیں جو مصنوعی دانت کے ساتھ زندگی
گزاررہے ہیں ،اب جامعہ پنسلوانیہ میں اسکول ٓاف ڈینٹل میڈیسن سے وابستہ پروفیسر
گیلسو ہوانگ اور ان کے ساتھیوں نے مصنوعی دانت بنایا ہے جو برش کرنے اور چبانے
کے دوران خود اپنی بجلی بناتا ہے۔
اس بجلی سے دو کام لیتا ہے یعنی دانت پر میل کچیل کی تہہ نہیں جمتی اور دوم اطراف
کے مسوڑھے تندرست رہتے ہیں اپنی بجلی کی بدولت مصنوعی دانت معمولی سی روشنی
خارج کرتا رہتا ہے جو مسوڑھوں کی افزائش کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کی مصنوعی دانت کتنے بھی اچھے ہوں اکثر پانچ سے دس برس میں
گرجاتے ہیں۔ یا پھر وہ مسوڑھوں میں جلن اور بیماریوں کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
مصنوعی دانت کا بیرونی خول خاص نینو ذرات سے بنا ہے جہاں بیکٹیریا جمع نہیں
ہوسکتے دوم اس میں روشنی خارج کرنے واال نظام ہے جو فوٹوتھراپی کی طرز پر کام
کرتا ہے۔
اس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چبانے اور مسواک کرتے ہوئے دانت بجلی بناتا رہتا
ہے۔ اس کی تفصیالت اے سی ایس اپالئیڈ مٹیریئلز اینڈ انٹرفیسس جرنل میں شائع ہوا ہے۔
پروفیسرگیلسو کے مطابق فوٹوتھراپی دانتوں کے کئی مسائل حل کرسکتی ہے۔ ضروری
تھا کہ ایک ایسا دانت بنایا جائے جو داب برق (پیزوالیکٹرک) کی بدولت بجلی پیدا کرے۔
ویب ڈیسک
طب کی دنیا میں دل کے امراض انتہائی سنگین تصور کیے جاتے ہیں کیوں کہ ان
بیماریوں کے شکار مریضوں کو موت کے خطرات بھی زیادہ الحق ہوتے ہیں۔
امریکا میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی مناسب مقدار میں پانی پینا دل کے
دورے سے کافی حد تک بچا سکتا ہے ،یومیہ بنیادوں پر ضرورت Œکے مطابق پانی پئیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ٓاسان طریقوں کو اپناتے ہوئے دل کے دورے سے محفوظ رہا جا
سکتا ہے ،جس کا بنیادی نکتہ جسم کو خشکی سے بچانا ہے۔
خون میں سوڈیم
امریکی ادارہ امراض قلب ،پھیپھڑے اور خون کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق
میں کہا گیا ہے کہ عمر کی درمیانی حد میں خون میں سوڈیم کی مقدار کے تناسب کا خیال
تحقیقات | 25 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
رکھنا اہم ہوتا ہے جبکہ جسم میں رطوبت کے تناسب سے دل کے امراض کے الحق ہونے
کا خطرہ پتا لگایا جاسکتا ہے ،پانی کم پینے سے سوڈیم کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے۔
بایاں وینٹریکل (دل کا پمپنگ چیمبر)
تحقیق کے دوران ماہرین نے پانی کے زیادہ استعمال اور بائیں وینٹریکل کی دیوار کی
موٹائی بڑھنے کے مابین رابطے کے امکان کا بھی جائزہ لیا ،بایاں وینٹریکل دل کا اہم
پمپنگ چیمبر ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکل صورت حال دل کے لیے
خطرے کا سبب ہو سکتی ہے۔
روزانہ پانی پئیں
نتالیہ نامی پروفیسر نے مذکورہ مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہر شخص کو اس
جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کتنی مقدار میں پانی پیتا ہے،
اگر مقدار کم ہے تو اسے بڑھانے کی اشد ضرورت ہوگی ،پانی کے مناسب مقدار میں
استعمال سے دل صحت مند رہتا ہے۔
پانی ،خون کی گردش مناسب طریقے سے جسم میں جاری رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتا
ہے۔
بلڈ پریشر
ماہرین نے کہا کہ اگر جسم کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور وہ خشکی کا شکار ہو رہا
ہے ایسے میں ردعمل خود کار طریقے سے ہوگا اور پانی کی طلب بڑھ جائے گی جس
سے بلڈ پریشر کا خطرہ الحق ہونے یا دل کا دورہ پڑنے کا اندیشہ ہوگا۔
یومیہ پانی کی مقدار
امریکی قومی اکیڈمی ٓاف سائنسز اینڈ میڈیسن نے مشورہ دیا ہے کہ ایک بالغ مرد کو یومیہ
3.7لیٹر یا 15.5کپ یومیہ جبکہ خواتین کو 2.7لیٹر یا 11.5کپ پانی پینا چاہیے۔ انسان
https://urdu.arynews.tv/how-to-safe-from-heart-attack/
کرونا سے متاثرہ افراد میں بیماری کی شدت کی بڑی وجہ سامنے ٓاگئی
ویب ڈیسک
کرونا وائرس کی مہلک وبا سے کچھ افراد کم متاثر ہوتے ہیں جب کہ کچھ افراد میں
بیماری کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ آٹو اینٹی باڈیز کی شرح میں
اضافے کو قرار دیا گیا ہے۔
امریکا کی اسٹینفورڈ میڈیسین کی طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ
افراد کی بیماری میں شدت کی بڑی وجہ ٓاٹو اینٹی باڈیز ہیں جن کی شرح میں اضافہ
مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
آٹو اینٹی باڈیز ایسی اینٹی باڈیز کو کہا جاتا ہے جو جسم کے صحت مند ٹشوز یا مدافعتی
خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔
ماہرین نے تحقیق میں ایسی اینٹی باڈیز دیکھیں جو مدافعتی خلیات پر ہی حملہ ٓاور ہوتی
ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ یہ آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کو ضرورت سے زیادہ متحرک
کردیتی ہیں جسے سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے ،جو بیماری کی عالمات طویل
عرصے تک برقرار رہنے کا باعث بنتا ہے۔
تحقیقات | 27 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
امریکی سائنس دانوں نے مزید کہا کہ کچھ کیسز میں یہ نئی آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی ردعمل
کے بہت زیادہ متحرک ہونے کا عندیہ دیتی ہیں جس کے نتیجے میں مریض کے جسمانی
افعال کو شدید ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تحقیق کے نتائج سے ویکسینیشن کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ،کرونا ویکسینز سنگل پروٹین
یعنی اسپائیک پروٹین پر مبنی ہوتی ہیں ،ویکسینیشن کی وجہ سے مدافعتی نظام وائرس کے
حملے پر الجھن کا شکار نہیں ہوتا اور ٓاٹو اینٹی باڈیز کے بننے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا
ہے۔
https://urdu.arynews.tv/main-cause-of-the-severity-of-the-disease-in-
people-infected-with-corona/
ویب ڈیسک
واشنگٹن :امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ کیسز کی
شرح میں اضافے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی
اکثریت کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ان میں بیماری کا خطرہ موجود ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ایک تحقیق کی گئی جس میں طبی ماہرین
کی جانب سے بچوں اور بالغ افراد میں کووڈ 19کی بیماری کی شدت میں فرق کی جانچ
کی گئی۔بالغ افراد میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بڑھانے والے عوامل تو کافی
ویب ڈیسک
دنیا بھر میں کووڈ 19سے تحفظ کے لیے مختلف ویکسینز کا استعمال جاری ہے ،حال ہی
میں موڈرنا ویکسین کا نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چال کہ موڈرنا
ویکسین کی کووڈ سے تحفظ فراہم کرنے کی افادیت کئی ماہ بعد گھٹ جاتی ہے۔
یہ بات موڈرنا کی جانب سے جاری نئے ڈیٹا میں بتائی گئی۔
ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ویکسی نیشن سے ملنے واال تحفظ ایک سال کے عرصے میں 36
فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ یہ ڈیٹا موڈرنا کی جانب سے جاری کلینکل ٹرائل کے تیسرے
مرحلے میں اکٹھا کیا گیا تھا۔
اسی کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر امریکا میں ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی
اور اس کے ابتدائی مرحلے میں شامل افراد کو کمپنی کی ایم ٓار این اے ویکسین یا پلیسبو
استعمال کروایا گیا تھا۔
نتائج میں دریافت کیا گیا کہ ٹرائل میں شامل افراد میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان 36
فیصد تک کم تھا۔
ٹرائل ڈیٹا میں دسمبر 2020سے مارچ 2021کے دوران ویکسی نیشن کرانے والے 11
ہزار 431رضاکاروں میں سے 88میں بریک تھرو کیسز سامنے آئے تھے۔
اس کے مقابلے میں جوالئی سے اکتوبر 2020میں ویکسی نیشن کرانے والے 14ہزار
746افراد میں سے 162بریک تھرو کیسز کی تشخیص ہوئی۔
موڈرنا کے سی ای او اسٹینف بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ
گزشتہ سال ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں حالیہ مہینوں میں ویکسی نیشن کرانے
والوں کے مقابلے میں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ویکسین کی افادیت میں کمی کا عندیہ ملتا ہے اور بوسٹر ڈوز کی
ضرورت کو سپورٹ ملتی ہے تاکہ تحفظ کی بلند ترین شرح کو برقرار رکھا جاسکے۔
https://urdu.arynews.tv/new-data-of-moderna-vaccine/
ویب ڈیسک
ماہرین کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے زیادہ استعمال سے
ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ،لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کا
انداز بھی بدل گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بسنے والے
افراد پہلے سے کہیں زیادہ انٹرنیٹ سے مربوط ہوئے ہیں ،مملکت کی 3کروڑ 48الکھ
افراد کی ٓابادی کا 95.7فیصد حصہ آن الئن اور آف الئن اور دونوں طرح سے انٹرنیٹ
کے ساتھ منسلک ہے۔
سعودی وزیرمواصالت Œو انفارمیشن ٹیکنالوجی عبدہللا السواحہ نے رواں سال کے آغاز میں
اعالن کیا تھا کہ مملکت 5جی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی رفتار میں عالمی سطح پر
ساتویں نمبر پر ہے۔
سے پتا چال کہ 46فیصد لوگ دن میں دو سے پانچ گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں یا
ٓان الئن گیمز کھیلتے ہیں۔
ایسے افراد جنہوں نے دن میں 6گھنٹے سے زیادہ وقت انٹرنیٹ کے ساتھ گزارا ان کی
تعداد 36فیصد تھی جبکہ دن بھر میں صرف ایک گھنٹہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی
تعداد صرف 6فیصد تھی جس سے اندازہ لگایا گیا کہ سعودی شہری بڑی تعداد میں
انٹرنیٹ سے جڑ چکے ہیں اور کافی وقت اسے دیتے ہیں۔
اس حوالے سے المودہ سوسائٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد الرادی کا کہنا تھا کہ یہ مہم
معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں انٹرنیٹ کی لت کے خطرات اور کئی میڈیا چینلز کے
ذریعے عالج کے طریقوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے شروع کی گئی ہے،
انٹرنیٹ کو زیادہ وقت دینے سے گھر اور رشتوں کی ذمے داریوں کو باالئے طاق رکھ دی
جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی مزاج اور رویوں کے مسائل جنم لے
رہے ہیں ،گیمز اور دیگر ویب سائٹس سے ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
https://urdu.arynews.tv/effects-of-internet-use-on-human-existence/
ویب ڈیسک
دانت میں کیڑا لگنا جسے دانتوں کا گلنا یا کیریز بھی کہا جاتا ہے ،عوامل کے ایک مرکب
کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،یہ خاص طور پر تمام عمر کے لوگوں جس میں بچے،
نوعمر اور بوڑھے بھی شامل ہیں ان میں عام ہے۔
اگر دانت کے کیڑے کا بروقت عالج نہیں کیا جاتا ہے تو وہ بڑے ہوجاتے ہیں اور آپ کے
دانتوں کی گہری پرتوں کو متاثر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دانت میں شدید درد،
انفیکشن اور دانتوں کے ٹوٹنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض دندان
ڈاکٹرعبدالقادر نے دانتوں کی تکالیف کی وجوہات بیان کیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو اس کے چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہمارے
دانتوں میں پھنس جاتے ہیں ،جب دانتوں میں پھنسے ہوئے کھانے سے منہ میں موجود
بیکٹیریا آملتے ہیں تو اس کی وجہ سے دانتوں میں “پالک” جمنا شروع ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹرعبدالقادر نے کہا کہ اگر رات کو سونے سے قبل دانتوں کو برش کرلیا ہے تو صبح
اٹھنے کے فوری بعد صرف کلی اور غرارے کرکے ناشتہ کرلیا جائے اور ناشتے کے بعد
برش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ذیابیطس ایسی بیماری ہے جو دانتوں پر اثر انداز ہوتی ہے جس کے
نتیجے میں دانتوں میں گیپ اور مسوڑھوں میں سوجن آجاتی ہے جو کسی طرح بھی ٹھیک
نہیں۔
دانتوں میں کیڑا لگ جانے کی عالمات
دانتوں میں کیڑا لگنے کی بے شمار عالمات ہو سکتی ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو
ہمیں فوراً معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دانت میں کیڑا لگ گیا ہے۔
چین میں تیار کی جانے والی ایک کووڈ 19ویکسین 3سال تک کے بچوں کے لیے بھی
قابل استعمال قرار دی گئی ہے ،چین میں اس ویکسین کا استعمال فی الحال 12سال کی
عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔
بین االقوامی میڈیا کے مطابق چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 3سال تک
کے بچوں کے لیے محفوظ ہے ،یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے
کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج میں سامنے ٓائی۔
طبی جریدے دی النسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے جس کے مطابق
یہ ویکسین 3سے 17سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت ہوئی۔
چین میں اس ویکسین کا استعمال 12سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/kids-vaccination-in-china/
16/09/2021
اسالم ٓاباد (مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستانی ہوشیار ! چاول کھانے سے کینسر ہو تا
ہے ؟ برطانوی ادارے نے تہلکہ خیز تحقیق جا ری کر دی۔۔ یوں تو چاول نشاستے سے
بھرپور غذا ہے اور یہ صحت کے لیے نہایت فائدہ مند غذا سمجھی جاتی ہے ،لیکن کیا ٓاپ
جانتے ہیں کہ چاول میں کینسر کی سب سے بڑی وجہ سمجھے جانے والے ٓارسنک شامل
بھی شامل ہوتے ہیں؟ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک
رپورٹ کے مطابق ٓارسنک پانی اور مٹی میں شامل ہوتا ہے اور چاول کی فصل کےلیے
بہت زیادہ پانی لگتا جو ٓارسنک بآاسانی مٹی سے چاول میں شامل ہونے کا باعث بنتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٓارسنک زہریال ہو سکتا ہے اور یوروپی یونین نے اسے کینسر پیدا
کرنے والے عناصر میں پہلے درجے میں شامل کیا ہے۔ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی
کے پروفیسر اینڈی میہارگ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ باسمتی چاول میں دیگر اقسام
کے مقابلے میں ٓارسنک کی سطح کم ہوتی ہے
جب کہ برأون رائس میں ٓارسنک زیادہ پایا جاتا ہے۔ ٓارسنک جیسے زہریلے مادوں کے
خوراک میں موجود ہونے سے انسانی جانوں کو نقصان ہو سکتا ہے ،پالش کیے ہوئے ایک
کلو چاول میں زیادہ سے زیادہ 0.2ملی گرام تک ٓارسنک کی مقدار کو عام لوگوں کی
صحت اور تجارتی نقطہ نظر سے ٹھیک قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین نے تحقیق میں دریافت کیا
ہے کہ اگر رات کو چاول بھگو کر رکھ دیئے جائیں اور اگلے روز صاف پانی سے چاول
کو اچھی طرح دھونے کے بعد پکایا جائے تو اس میں موجود ٓارسنک کی سطح کو کم کیا
جا سکتا ہے۔ چاول پکانے کے دوران بھی چاول کا پانی ایک ابال ٓانے کے بعد اگر بدل دیا
جائے تو بھی ٓارسنک کو کم کرنے میں مدد ہوتی ہے ،اس طریقے سے چاول پکانے سے
اس میں موجود ٓارسنک کو 80فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ امریکی ادارے فوڈ سٹینڈرڈز
ایجینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق 70کلو وزن کے حامل شخص کا 100گرام تک
تحقیقات | 38 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چاول کھانا ٹھیک ہے۔ پروفیسر اینڈی میہارگ کا خیال ہے کہ بچوں سمیت وہ افراد جو
زیادہ چاول کھاتے ہیں ،ان کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-123309.html
15/09/2021
فٹنس ایکسپرٹس اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بڑھتی عمر ایک قدرتی عمل ہے مگر
طرز زندگی اور غذا سے بھی ہے ،انسان میں بڑھتی عمر ِ اس کا 80فیصد تعلق ٓاپ کے
کے اثرات سب سے پہلے چہرے اور بالوں پر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اکثر افراد صبح
کا ناشتہ یا تو
مضر صحت غذأوں سے کرتے ہیں، ِ گھر سے باہر دفتر میں کرتے ہیں یا گھر میں ہی
دونوں صورتیں ہی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق صبح کا
ناشتہ کئے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے یہ دن کی پہلی غذا سارا دن جسم کو
توانائی فراہم کرتی ہے ،اس کے عالوہ کچھ ایسی غذائیں بھی ہیں جو برسہا برس ٓاپ کو
تندرست و جوان رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ناشتے میں
َجو کا دلیہ کھانے سے خراب کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہےَ ،جو کے دلیے میں پالنٹ
فائبر ،نائٹروجن کمپأونڈز ،گوند ،چینی اور فیٹس کی معمولی مقدار کے عالوہ نشاستہ بھی
پایا جاتا ہے جو کہ انسانی جسم سے خراب کولیسٹرول کی مقدار کم کر کے تندرست بناتا
ویب ڈیسک
ستمبر 17 2021
رائٹرز فوٹو —
چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 3سال تک کے بچوں کے لیے محفوظ
ہے۔یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج
میں سامنے آئی۔طبی جریدے دی النسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے
جس کے مطابق یہ ویکسین 3سے 17سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت
ہوئی۔چین میں اس ویکسین کا استعمال 12سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔
ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ 2خوراکوں والی یہ ویکسین بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل
اور بالغ افراد جتنی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔
کمپنی اور چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق میں شامل محققین کا
کہنا تھا کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کا ڈیٹا متحدہ عرب امارات سے اکٹھا کیا جائے گا
جہاں 3سال کے بچوں ویکسینیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
چائنا سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ویکسینیشن پروگرام کے سربراہ وانگ ہواچنگ
نے بتایا کہ چین میں ایک ارب افراد کی ویکسینیشن مکمل کرنے کا سنگ میل طے کرلیا
گیا ہے مگر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی 12سال سے کم عمر بچوں کی ویکسینیشن نہیں ہوسکی ہے اور
ان کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔
ان ٹرائلز کے پہلے مرحلے میں 288جبکہ دوسرے مرحلے میں 720بچوں کو شامل کیا
گیا تھا۔
نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین سے ہونے واال مضر اثر بیشتر بچوں میں معمولی سے معتدل
تھا ،بس ایک بچے کو شدید الرجک ری ایکشن کا سامنا ہوا جس میں پہلے سے فوڈ الرجی
کی تاریخ تھی۔
https://www.dawnnews.tv/news/1168698/
کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں دوبارہ بیماری کا
خطرہ ہوتا ہے؟
ویب ڈیسک
ستمبر 15 2021
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 90فیصد مریضوں میں اسپائیک اور اینٹی باڈیز ردعمل پیدا
ہوا اور ایک کو چھوڑ تمام افراد میں ان کا تسلسل 6ماہ تک برقرار رہا۔
محققین نے بتایا کہ اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے
والے افراد میں ہی ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے ،مگر ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا
ہے کہ کووڈ سے معمولی بیمار ہونے والے لوگوں میں بھی اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور وہ
کئی ماہ تک برقرار رہتی ہیں۔
تحقیق میں شامل افراد مشی گن میڈیسین ہیلتھ میں کام کرنے والے افراد یا وہاں زیرعالج
رہنے والے مریض تھے۔
بیشتر رضاکاروں کو اس سے قبل اسی تحقیقی ٹیم کی ایک اور تحقیق کا حصہ بھی بنایا گیا
تھا جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ اینٹی باڈی ٹیسٹ سابقہ بیماری کی پیشگوئی کے لیے
مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
تحقیق کے دورانیے کے دوران جن رضاکاروں میں اینٹی باڈیز بن گئی تھیں وہ دوبارہ اس
بیماری کے شکار نہیں ہوئے ،مگر جن 15افراد میں اینٹی باڈیز ٹیسٹ منفی رہا ان کو ری
انفیکشن کا سامنا ہوا۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ابتدائی بیماری کے 3ماہ اور 6ماہ بعد بھی وائرس
ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
محققین کا کہنا تھا کہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کووڈ 19کے خالف
کام کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہیں ،مگر نئے نتائج سے
کووڈ کے کچھ مریض بہت زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟ ممکنہ وجہ
سامنے آگئی
ویب ڈیسک
ستمبر 15 2021
ویب ڈیسک
ستمبر 16 2021
فائزر ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 6ماہ بعد تیسری خوراک دینے سے
بیماری سے تحفظ کی شرح دوبارہ 95فیصد ہوجاتی ہے۔
یہ بات فائزر کمپنی کی جانب سے امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے)
میں جمع کرائے گئے ڈیٹا میں سامنے آئی۔
یہ ڈیٹا اسرائیل میں فائزر کی تیسری خوراک کے استعمال کے نتائج پر مبنی ہے۔
فائزر کی جانب سے 52صفحات پر مبنی ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اگرچہ ایم آر این اے ویکسین
کی افادیت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے مدافعتی ردعمل اسی سطح
پر پہنچ جاتا ہے جو دوسری خوراک کے بعد نظر آتا ہے۔
کمپنی نے مزید بتایا کہ اسرائیل کے کووڈ ویکسینیشن پروگرام کے تحت لوگوں کو تیسری
خوراک فراہم کی گئی۔
کمپنی کے مطابق ویکسین کی تیسری خوراک سے لوگوں کا مدافعتی ردعمل دوبارہ اتنا
مضبوط ہوگیا جتنا دوسری خوراک کے استعمال کے بعد ہوتا ہے اور بیماری سے تحفظ
کی شرح 95فیصد ہوجاتی ہے۔
یہ ڈیٹا یکم جوالئی سے 30اگست کے درمیان اکتھا کیا گیا تھا جب اسرائیل میں کورونا کی
قسم ڈیلٹا کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔
ایف ڈی اے کی جانب سے یہ ڈیٹا اس وقت جاری کیا گیا جب ادارے کو بائیڈن انتظامیہ کی
جانب سے اگلے ہفتے بوسٹر ڈوز کی منظوری دیئے جانے کا دباؤ ڈاال جارہا ہے۔
مگر ایف ڈی اے کے عملے نے فائزر کے ڈیٹا میں تیسری خوراک کی ضرورت کے
حوالے سے مؤقف دینے سے انکار کیا تاہم یہ ضرور کہا کہ ممکنہ طور پر لوگوں کو
ابھی ویکسین کی تیسری خوراک دینے کی ضرورت نہیں۔
عملے کا کہنا ہے کہ متعلقہ تحقیقی رپورٹس پر نظرثانی کے دوران فائزر ویکسین کی
افادیت میں کمی کی بات سامنے آئی ہے مگر ان کے نتائج ملے جلے ہیں اور کچھ ڈیٹا شاید
دیگر سے زیادہ قابل انحصار ہے۔
فائزر کا ڈیٹا ایک مشاہداتی تحقیق سے اکٹھا کیا گیا جو رسمی کینکل ٹرائل کے معیار پر
پوری نہیں اترتی۔
ایف ڈی اے کے عہدیداران نے اپنے تجزیے میں کہا کہ اگرچہ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس
میں حقیقی دنیا میں ویکسین کی افادیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ،مگر مختلف
عناصر ان کے قابل اعتبار ہونے پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
کن بچوں میں کووڈ 19-کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ ہوتا ہے؟
ویب ڈیسک
ستمبر 16 2021
تحقیق کے مطابق زیادہ عمر اور مختلف طبی مسائل جیسے موٹاپا ،ذیابیطس اور دماغی
امراض بچوں میں کووڈ کی شدت سنگین بڑھانے والے عناصر ہیں۔
محققین نے بتایا کہ ان عناصر سے بیماری کے خالف کمزور بچوں کی شناخت کرنے میں
مدد مل سکے گی جن میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے ان بچوں کے لیے ویکسینیشن کو ترجیح بنانے کی اہمیت
بھی ظاہر ہوتی ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا کہ کووڈ کے باعث اپریل سے ستمبر 2020کے دوران ہسپتال میں
زیر عالج رہنے والے ہر 4میں سے ایک بچے کو سنگین شدت کا سامنا ہوا اور انہیں آئی
سی یو نگہداشت کی ضرورت پڑی۔
محققین کا کہنا تھا کہ کچھ بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہے اور ان
میں سے بیشتر ویکسینیشن پروگرام کے لیے اہل نہیں۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ احتیاطی تدابیر جیسے ریموٹ لرننگ ،سماجی دوری ،ہاتھ
دھونا اور فیس ماسک پہننا بچوں اور نوجوانوں کو بیماری سے بچانے کے لیے مددگار
ثابت ہوتی ہیں
https://www.dawnnews.tv/news/1168611/
چین میں ایک ارب سے زیادہ افراد کی کووڈ ویکسینیشن مکمل کرلی
گئی
ویب ڈیسک
تحقیقات | 49 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ستمبر 16 2021
چین نے ایک مرتبہ پھر ایسا کام کر دکھایا ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کرسکا اور
وہ ہے ایک ارب سے زیادہ افراد کی کووڈ ویکسینیشن مکمل کرنا۔
چین نے 70فیصد آبادی کی ویکسینیشن مکمل کرلی ہے اور اس معاملے میں امریکا اور
یورپ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جبکہ وبا کی روک تھام کے لیے سخت ترین احتیاطی
تدابیر کو بھی برقرار رکھنے کا فیصہ کیا ہے۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ترجمان نے بتایا کہ 15ستمبر تک چین میں 2ارب 16
کروڑ خوراکیں استعمال کی جاچکی تھیں اور ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد کی
تعداد ایک ارب ایک کروڑ ہے۔
چین نے یہ سنگ میل پہلی ویکسین سائنو فارم کے استعمال کی منظوری کے لگ بھگ 10
ماہ میں حاصل کیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا۔
چین میں 6مزید مقامی کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے کووڈ ویکسینز کو تیار کیا گیا
جن کو 12سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے منظوری مل چکی ہے۔
چین کی ویکسینیشن مہم کی کامیابی کے باوجود حالیہ ہفتوں میں وہاں کورونا کی قسم ڈیلٹا
کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
ویکسینیشن کی رفتار نے چین کو دنیا کی دیگر معیشتوں پر سبقت دال دی ہے ،امریکا اور
جاپان کی محض 50فیصد آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہوئی ہے جبکہ برطانیہ اور جرمنی
میں یہ شرح 60فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
بھارت میں اب تک 15فیصد سے بھی کم آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے کئی مرتبہ کہا کہ ویکسینیشن کے ساتھ
پابندیوں کو برقرار رکھ کر ہی وبا کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
ویکسینیشن کی وجہ سے ہی چین میں حالیہ ہفتوں میں جو کووڈ کیسز سامنے آئے ان میں
بیماری کی شدت زیادہ نہیں تھی۔
چینی حکام نے بتایا کہ ملک کو بتدریج ری اوپن کیا جائے گا اور ویکسینز کے تحفظ پر
اس وقت انحصار کیا جائے گا جب ایسا کرنا محفوظ ہوگا ،مگر ایسا کب تک ہوگا اس
حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا
https://www.dawnnews.tv/news/1168579/
ویب ڈیسک
ستمبر 16 2021
موڈرنا ویکسین کی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کی افادیت کئی ماہ بعد گھٹ جاتی ہے۔
یہ بات موڈرنا کی جانب سے جاری نئے ڈیٹا میں بتائی گئی۔
کمپنی کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک 13ماہ دی گئی
تھی ان میں بریک تھرو انفیکشن (ویکسین کے استعمال کے بعد بیمار ہونے کے لیے
استعمال ہونے والی طبی اصطالح) کا امکان 8ماہ کے دوران پہلی خوراک لینے والوں
سے زیادہ ہوتا ہے۔
ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن سے ملنے واال تحفظ ایک سال کے عرصے میں 36فیصد
تک کم ہوجاتا ہے۔
یہ ڈیٹا موڈرنا کی جانب سے جاری کلینکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں اکٹھا کیا گیا تھا۔
اسی کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر امریکا میں ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی
اور اس کے ابتدائی مرحلے میں شامل افراد کو کمپنی کی ایم آر این اے ویکسین یا پلیسبو
استعمال کرایا گیا تھا۔
نتائج میں دریافت کیا گیا کہ ٹرائل میں شامل میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان 36فیصد
تک کم تھا۔
ٹرائل ڈیٹا میں دسمبر 2020سے مارچ 2021کے دوران ویکسینیشن کرانے والے 11
ہزار 431رضاکاروں میں سے 88میں بریک تھرو کیسز سامنے آئے تھے۔
اس کے مقابلے میں جوالئی سے اکتوبر 2020میں ویکسینیشن کرانے والے 14ہزار 746
افراد میں سے 162بریک تھرو کیسز کی تشخیص ہوئی۔
پر جاری کیے گئے۔ medRxivکمپنی کی جانب سے جاری نتائج پری پرنٹ سرور
موڈرنا کے سی ای او اسٹینف بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ
گزشتہ سال ویکسینیشن کرانے والے افراد میں حالیہ مہینوں میں ویکسینیشن کرانے والوں
کے مقابلے میں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ ڈیٹا اسرائیل میں فائزر کی تیسری خوراک کے استعمال کے نتائج پر مبنی ہے۔
فائزر کی جانب سے 52صفحات پر مبنی ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اگرچہ ایم آر این اے ویکسین
کی افادیت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے مدافعتی ردعمل اسی سطح
پر پہنچ جاتا ہے جو دوسری خوراک کے بعد نظر آتا ہے۔
کمپنی کے مطابق ویکسین کی تیسری خوراک سے لوگوں کا مدافعتی ردعمل دوبارہ اتنا
مضبوط ہوگیا جتنا دوسری خوراک کے استعمال کے بعد ہوتا ہے اور بیماری سے تحفظ
کی شرح 95فیصد ہوجاتی ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1168619/
ویب ڈیسک
ستمبر 16 2021
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کی تشخیص کے 2ماہ بعد بھی ہر 3میں سے ایک
کووڈ مریض کو کم از کم ایک عالمت کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ 40سال یا اس سے زائد عمر کے افراد ،خواتین ،پہلے
سے کسی بیماری سے متاثر لوگوں میں النگ کووڈ کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں 366بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں 2020میں کووڈ کی تشخیص
ہوئی تھی۔
تحقیق کے دوران 35فیصد افراد نے ابتدائی مثبت ٹیسٹ کے 2ماہ بعد بھی کم از کم ایک
عالمت کو رپورٹ کیا تھا۔
النگ کووڈ کے 17فیصد مریضوں نے تھکاوٹ 13 ،فیصد نے سانس لینے میں مشکالت
اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی اور 11فیصد نے مسلز یا جوڑوں میں
تکلیف کو رورٹ کیا۔
محققین نے بتایا کہ نتائج ماہرین کے لیے اہمیت رکھتے ہیں جن سے انہیں النگ کووڈ کے
خطرے سے دوچار افراد میں اس مسئلے کی روک تھام اور عالج کی حکمت عملیوں کو
ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق میں شامل افراد کی تعداد محدود تھی اور مزید تحقیق کی
ضرورت ہے اور یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ عالمات کتنے عرصے تک برقرار رہتی
ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن سے نہ صرف کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا
ہے بلکہ ممکنہ طور پر بریک تھرو انفیکشن کے بعد النگ کووڈ میں مبتال ہونے کا امکان
بھی کم ہوجاتا ہے۔
یہ الکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے 12الکھ 40ہزار 9افراد نے ویکسین کی ایک
خوراک استعمال کی تھی جبکہ 9الکھ 71ہزار 504نے 2خوراکیں استعمال کی تھیں۔
محققین نے مختلف عناصر بشمول عمر ،جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ
ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی 2خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے
کووڈ کا شکارہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد عالمات کا خطرہ ویکسینیشن نہ
کرانے والے مریضوں کے مقابلے میں 49فیصد کم ہوتا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1168623/
ویب ڈیسک
ستمبر 17 2021
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب چین میں بیماری کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد
کو بوسٹر ڈوز دینے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
یہ فیصلہ وقت کے ساتھ ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے خدشات
پر کیا گیا۔
سائنو فارم ویکسین پاکستان سمیت متعدد ممالک میں کووڈ کی روک تھام کے لیے استعمال
کی جارہی ہے اور چین کی ویکسینیشن مہم میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ویکسینیشن کرانے والے ہیلتھ ورکرز کے نمونوں کے تجزیے کے بعد تحقیق میں دریافت
کیا گیا کہ سائنو فارم کی دوسری خوراک کے استعمال کے 5ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے
والی اینٹی باڈیز کی شرح میں 70فیصد تک کمی آئی۔
مگر ویکسین کی تیسری خوراک کے استعمال کے ایک ہفتے بعد اینٹی باڈیز کی شرح میں
7.2گنا اضافہ ہوگیا۔
تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اینٹی باڈیز کی سطح میں تبدیلی سے ویکسین کی افادیت پر
کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا کورونا کی نئی اقسام کے خالف کتنا تحفظ ملتا ہے۔
اس سے قبل فائزر/بائیو این ٹیک ،موڈرنا اور دیگر ویکسینز کی افادیت میں بھی وقت کے
ساتھ کمی دریافت کی گئی ہے اور کمپنیوں کی جانب سے اس طرح کے ڈیٹا کو بوسٹر ڈوز
کی منظوری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
مگر کچھ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بوسٹر ڈوز کے استعمال کا فیصلہ کرنے کے لیے مزید
ڈیٹا کی ضرورت ہے۔چین میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ سائنو فارم ویکسین کی
https://www.dawnnews.tv/news/1168672/
پھلوں ،سبزیوں کا استعمال اور ورزش زندگی میں خوشی کا احساس بڑھائے
ویب ڈیسک
ستمبر 17 2021
تجر
عابد ضمیر ہاشمی
Sep 16, 2021
چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے پوری ُدنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ
وائرس جہاں ُدنیا بھر میں 1.6ملین سے زائد انسانوں کو نگل چکا ہے وہیں اِس کے خالف
جنگ یعنی مزید انسانوں کو موت سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کرنے کا عمل شروع
کیا گیا۔ اس کے بعد جہاں کورونا ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا‘ وہیں
افواہیں‘ خود ساختہ کہانیاں‘ اور فلسفے اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے‘ جیسے کورونا
اور دو سالہ زندگی‘ بانجھ پن‘ انسانی جسم میں مائیکرو چپ وغیرہ‘ اس کے باوجود
ویب ڈیسک
ستمبر 17 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی
کیا جسم میں وٹامن ڈی کی مناسب سطح کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19
کے شکار افراد میں بیماری کی سنگین شدت اور موت کے خطرے سے بچانے میں مدد
دے سکتی ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے متعدد ممالک کے سائنسدانوں کی جانب سے
کام کیا جارہا ہے اور اب اس حوالے سے ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔
آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج ،اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ
یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسم میں وٹامن
کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی
ہے۔
اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا
ذکر کیا گیا ،مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے ،زیادہ عمر یا
،کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے
تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 5الکھ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا
جن میں کووڈ سے پہلے یو وی بی ریڈی ایشن کے اجتماع کو دیکھا گیا تھا۔
نتائج سے عندیہ مال کہ وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے
تحفظ فراہم کرتا ہے۔
محقین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی سے ممکنہ طور پر
کووڈ کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے ،اس حوالے سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے
کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے ہونے تک وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال محفوظ اور سستا
طریقہ کار ہے جن سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے خالف زیادہ مؤثر تھراپیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خیال
میں یہ اہم ہے کہ وٹامن ٰڈ کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد پر ذہن کو کھال رکھا
جائے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1168694/
خواتین کیلئے ایواکاڈو ایک معجزاتی پھل ،پیٹ کی چربی کا آسان حل
ستمبر 14 2021
ایک حالیہ سائنسی مطالعے نے ایواکاڈو کی ایک نئی طبی خاصیت کا پتا لگایا ہے جس پر
کبھی غور نہیں کیا گیا۔اس طبی تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں ایک ایواکاڈو کھانے سے
خاص طور پر خواتین کو ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے
چھٹکارا پانا مشکل ہے۔
سائنسی جریدے "جرنل آف نیوٹریشن" میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ
ایواکاڈو کا ایک دانہ روزانہ کھانے سے خواتین کو پیٹ کی چربی کم کرنے میں مدد دیتا
ہے۔ پیٹ کی چربی خواتین کو درپیش مسائل میں ایک عمومی مسئلہ ہے۔ بچے کی پیدائش
کے بعد خواتین کے پیٹ کا پھول جانا عام بات ہے۔
یونیورسٹی آف الینوائے کے محققین نے فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ مل کر
تین ماہ تک خواتین کے ایک گروپ پر اس پھل کا تجربہ کیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ
ایک دن میں مسلسل ایک ایواکاڈو کھاتے ہیں ان میں ویزرل چربی کم ہوتی ہے۔
مطالعہ کے مصنف پروفیسر نیمان خان نے کہا کہ ان کا مقصد وزن کم کرنا نہیں تھا بلکہ
یہ دیکھنا تھا کہ ایواکاڈو کھانے سے لوگوں کے جسم میں چربی پر کیا اثر پڑتا ہے۔
٭ پیٹ کی چربی کی اقسام
ماہرین کے مطابق پیٹ میں دو قسم کی چربی ہوتی ہے۔ ایک چربی جو صرف جلد کے
نیچے جمع ہوتی ہے۔ اسے جلد کے نیچے جمع ہونے والی چربی کہا جاتا ہے۔ دوسری
چربی پیٹ کی گہرائی میں جمع ہوتی ہے جو اندرونی اعضاء کے گرد گھیرا بنا لیتی ہے۔
لوگوں کا عام خیال یہ ہے کہ گہری ویزرل چربی والے لوگ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خواتین جو باقاعدگی سے ایواکاڈو کھاتی تھیں ان کے پیٹ کی
چربی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ عام طور پر وہ چربی جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا
ہے۔ جبکہ انہی خواتین نے ویزرل چربی میں کمی دیکھی جو ان کے جسموں میں چربی
کی دوبارہ تقسیم کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ایواکاڈو کے بے شمار فوائد ہیں کیونکہ ایک درمیانے درجے کے
پھل میں تقریبا ً 12ملی گرام وٹامن سی ہوتا ہے جو کہ پٹھوں کے درد کو کم کرنے میں
مدد دیتا ہے۔
ایواکاڈو گودے کا استعمال ورزش کے بعد سیسٹولک بلڈ پریشر کو بحال کرنے کے وقت
کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے اور دل کی دھڑکن کو متوازن کرتا ہے
https://www.aaj.tv/news/30266893/
ویب ڈیسک
پير 13 ستمبر 2021
مقالے میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ کئی گھنٹے فارغ رہنے والوں میں اپنے ’’فضول‘‘ اور
’’ناکارہ‘‘ ہونے کا احساس جنم لیتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہو کر،
ذہنی و جسمانی کے مختلف مسائل کی وجہ بنتا ہے۔
اس تحقیق میں مالزمت پیشہ اور کاروباری امریکیوں پر کیے گئے مختلف مطالعات سے
جمع کی گئی معلومات کا جائزہ لیا گیا۔
ان میں سے ایک مطالعہ 2012سے 2013کے درمیان کیا گیا تھا جس میں 21,736
امریکیوں میں مصروفیت اور فراغت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں۔
دوسرے مطالعے میں اگرچہ 13,639افراد شریک تھے لیکن وہ 1992سے 2008تک،
یعنی 16سال کی طویل مدت کا احاطہ کرتا تھا۔
ان اعداد و شمار کے تسلسل میں مریسا شریف اور ان کے ساتھیوں نے دو ٓان الئن تجربے
کیے جن میں چھ ہزار سے زائد امریکیوں نے حصہ لیا۔
تحقیقات | 66 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دونوں تجربات کا مقصد یہ جاننا تھا کہ روزانہ بہت کم ( 15منٹ) ،مناسب /اوسط (ساڑھے
تین گھنٹے) اور بہت زیادہ ( 7گھنٹے) فارغ رہنے والوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر
کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
توقع کے مطابق ،یہ بات سامنے ٓائی کہ جن افراد کے پاس عموما ً بہت کم فرصت ہوتی
ہے ،وہ شدید اعصابی تناؤ میں مبتال رہتے ہیں جس کا اثر ان کی صحت پر پڑتا ہے۔
لیکن ،حیرت انگیز طور پر ،روزانہ بہت زیادہ فارغ رہنے والے بھی اسی کیفیت کا شکار
تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے تک روزانہ فراغت کی وجہ سے وہ خود کو بے کار
محسوس کرنے لگے تھے۔ مسلسل اسی کیفیت میں رہنے کی وجہ سے ان لوگوں میں
اعصابی تناؤ زیادہ ہوا اور ان کی صحت بھی خراب رہنے لگی۔
البتہ وہ لوگ جنہوں نے اپنا فارغ وقت مختلف مشاغل اور ورزش وغیرہ میں صرف کیا،
انہیں یہ شکایت نہیں ہوئی۔
مریسا شریف کے مطابق ،یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ صرف بہت زیادہ مصروفیت ہی
نہیں بلکہ حد سے زیادہ فراغت بھی انسان کے جسم و دماغ کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
اگرچہ اس کے اثرانداز ہونے کا طریقہ شدید مصروفیت کے مقابلے میں ضرور مختلف
ہوتا ہے لیکن عملی طور پر نتیجہ وہی ہوتا ہے۔
لہذا ،بہتر یہی ہے کہ اگر ہمارے پاس بہت زیادہ فارغ وقت ہو ،تب بھی ہم اسے مسلسل
ٓارام اور فضولیات میں ضائع نہ کریں بلکہ اچھی اور مثبت سرگرمیوں میں صرف کریں۔
https://www.express.pk/story/2224279/9812/
ویب ڈیسک
منگل 14 ستمبر2021
چڑھتے ہوئے چاند کی راتوں سے بالخصوص مردوں کی نیند متاثر ہوسکتی ہے
سویڈن :چاند کی پیدائش سے لے کر چودھویں کے چاند بننے تک کا دورانیہ بالخصوص
مردوں کی نیند پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کا اثر خواتین پر کم کم ہوتا ہے۔ یہ تحقیق
ٹوٹل اینوائرنمنٹ نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
سویڈن کی اپساال یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں 492خواتین اور 360
مردوں کا باقاعدہ سروے کیا ہے جس کے نتائج پچھلے مشاہدات سے قدرے مختلف و
مخالف ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چڑھتے ہوئے چاند کے پہلے دو ہفتے انسانی نیند
کو متاثر کرتے ہیں جبکہ دیگر ماہرین اس سے متفق نہیں۔
چڑھتے چاند کا عمل ’’ویکسنگ‘‘ کہالتا ہے جس میں اس سے منعکس ہونے والی روشنی
بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ اس دوران رات دیرتک چاند کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ ماہرین
نے چڑھتے چاند کی راتوں میں تمام خواتین اور مردوں کی نیند ریکارڈ کی۔ اس دوران
مردوں کی نیند متاثر ہوئی۔
اسی طرح قمری دورانیے کے دوسرے نصف یعنی ڈھلتے ہوئے چاند کی راتوں میں بھی
یہ تجربہ دوہرایا گیا تاہم اس عرصے میں مردوں اور خواتین کی نیند پر کچھ خاص اثرات
سامنے نہیں ٓائے۔ اسی بنا پر تحقیق کے سربراہ کرسچیان بینیڈکٹ نے کہا کہ چاندنی راتیں
نیند پر اثرانداز ہوتی ہیں اور اس مسئلے پر مزید تحقیق پر زور بھی دیا۔
اس کی وجہ اب تک سامنے نہیں ٓاسکی لیکن خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے چاند کی منعکس
شدہ روشنی مردوں کی مختلف دماغی کیفیت کی بنا پر ان کی نیند متاثر کرتی ہے۔
تحقیقات | 68 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
https://www.express.pk/story/2224416/9812/
ویب ڈیسک
کرونا وائرس کی ایک قسم ایم یو پر کی جانے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ یہ قسم
اینٹی باڈیز کے خالف بہت زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ
میں شامل کی جانے والی کرونا وائرس کی ایک قسم کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے
آئی ہے۔
تحقیق میں کہا گیا کہ مو یعنی ایم یو قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف
بہت زیادہ مزاحمت کی صالحیت رکھتی ہے ،یہ تحقیق جاپان میں کی گئی۔
ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے
خالف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ
دیگر اقسام سے کیا گیا۔
ویب ڈیسک
دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خالف ویکسی نیشن کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے،
حال ہی میں مختلف ویکسینز کے حوالے سے نئی حوصلہ افزا تحقیقات سامنے آئی ہیں۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چال کہ
کرونا ویکسی نیشن کروانے کے بعد بیمار ہونے کا امکان تو کسی حد تک ہوتا ہے مگر
کووڈ کی سنگین شدت اور موت کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔
یہ بات امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی جانب سے
جاری 3تحقیقی رپورٹس کے نتائج میں سامنے آئی۔
ان تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کرونا کی زیادہ متعدد قسم ڈیلٹا کے پھیالؤ کے
باوجود ویکسینز کی افادیت برقرار رہتی ہے۔
پہلی تحقیق میں اپریل سے جوالئی 2021کے دوران 6الکھ سے زیادہ کووڈ کیسز اور
ویکسی نیشن اسٹیٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسی نیشن نہ کرانے والوں میں کووڈ سے متاثر ہونے کا امکان
ویکسی نیشن کروانے والوں کے مقابلے میں 4.5گنا زیادہ ہوتا ہے ،اسپتال میں داخلے کا
خطرہ 10جبکہ موت کا خطرہ 11گنا زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ ڈیلٹا قسم کے پھیالؤ سے ویکسینز کی افادیت میں کچھ کمی
آئی ہے بالخصوص 65سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے ،مگر بیماری کی
سنگین شدت اور موت سے تحفظ کے لیے ٹھوس تحفظ برقرار رہتا ہے۔
تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ڈیلٹا کے پھیالؤ کے بعد ویکسینز کی بیماری سے بچاؤ کی
افادیت 90فیصد سے گھٹ کر 80سے نیچے چلی گئی۔
سی ڈی سی کے مطابق 20جون سے 17جوالئی کے درمیان کووڈ سے بیمار ہو کر
اسپتال میں داخل ہونے والوں میں صرف 14فیصد وہ تھے جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی
اور اموات میں یہ شرح 16فیصد تھی۔
ٹوکیو :جاپان میں مرتب ہونے والے اعداد و شمار میں یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ
کرونا کی متغیر قسم ڈیلٹا کے متاثرین 4گنا زیادہ وائرس خارج کرتے ہیں۔
تفصیالت کے مطابق کرونا وائرس کی دیگر اقسام کے متاثرین کے مقابلے میں ڈیلٹا سے
متاثرہ افراد میں پیتھوجن یعنی مرض کے جرثومے خارج کرنے کی شرح تخمینے کے
مطابق کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔
اس سلسلے میں تجربہ گاہ میں ٹیسٹنگ کی خدمات فراہم کرنے والی جاپانی کمپنی ’بی ایم
ایل‘ نے اعداد و شمار مرتب کیے ہیں ،یہ کمپنی کرونا وائرس کے یومیہ 20ہزار تک پی
سی آر ٹیسٹ کرتی ہے۔
ایک پی سی آر ٹیسٹ وائرس کی جینز کو ایک نمونے میں ضرب کرتا ہے ،جب اس
ضرب کے عمل میں وائرس کا پھیالٔو کم چکروں کے ساتھ پایا جائے ،تو اس کا مطلب یہ
ہوتا ہے کہ مذکورہ نمونے میں وائرس کی ایک بڑی مقدار موجود ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوری میں 38فی صد نمونوں میں 20سے کم چکروں
کے بعد وائرس کا پتا چال تھا،
اپریل میں جب متغیر قسم الفا پھیل رہی تھی تو یہ تناسب بڑھ کر 41.4فی صد ہو گیا تھا۔
جب کہ جوالئی میں متغیر قسم ڈیلٹا کے غالب ٓا جانے کے بعد یہ تناسب تقریبا ً 66فی صد
تک بڑھ گیا اور اگست میں تقریبا ً 64فی صد رہا۔
واضح رہے کہ ان چکروں کی تعداد کو سی ٹی ویلیو کہا جاتا ہے 40 ،یا اس سے کم کی
قدر ،ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔
https://urdu.arynews.tv/patients-of-delta-variant/
ویب ڈیسک
لندن :خون کے ٹیسٹ سے کینسر کی جلد تشخیص کی ایجاد کے بعد اب ڈیڑھ الکھ افراد پر
تجربہ شروع کر دیا گیا ،جو ایک نیا طبی انقالب ہے۔
تفصیالت کے مطابق اب بلڈ ٹیسٹ سے بھی کینسر کی تشخیص ممکن ہو گئی ہے ،امریکی
سائنس دانوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ ایجاد کیا تھا جس میں عالمات ظاہر ہونے سے قبل ہی
کینسر کی تشخیص ممکن ہو گئی ہے۔
اس سلسلے میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے گریل ہیلتھ کیئر کمپنی کے تیار کر دہ
بلڈ ٹیسٹ ‘گیلری’ ( )Galleriکے لیے سب سے بڑے کلینکل ٹرائلز شروع کر دیے ہیں،
اس ٹیسٹ میں عالمات ابھرنے سے قبل ہی 50اقسام کے کینسر کی شناخت ممکن ہے۔
گیلری ٹیسٹ ممکنہ طور پر جینیاتی ‘کوڈ سیل فری ڈی آکسی رائبونیوکلک ایسڈ (
’)cfDNAکے ٹکڑوں میں کیمیائی تبدیلیوں کا پتا لگا سکتا ہے ،یہ ایسڈ ٹیومر سے خون
کے دھارے میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ یوں یہ سادہ بلڈ ٹیسٹ خون میں کینسر کے ابتدائی
نشانیوں کو چیک کر سکتا ہے۔
برطانوی این ایچ ایس کے مطابق گیلری بلڈ ٹیسٹ کا تجربہ ایک الکھ چالیس ہزار افراد پر
شروع کر دیا گیا ہے ،جسے کینسر کے عالج میں ایک نیا انقالب قرار دیا جا رہا ہے۔ این
ایچ ایس کی چیف ایگزیکٹو Œامانڈا پریچارڈ کا کہنا ہے کہ یہ فوری اور سادہ بلڈ ٹیسٹ کینسر
کی جلد تشخیص اور عالج کے سلسلے میں ایک نئے انقالب کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے،
عالمات کے ابھرنے سے بھی قبل کینسر کا پتا چلنے سے ہمارے پاس اس کے عالج کا
بہترین موقع بھی میسر آ جائے گا۔
تحقیقات | 74 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ ٹیسٹ ان کینسرز کو ڈھونڈنے میں کارآمد ثابت ہوا ہے،
جن کا ابتدائی مرحلے میں پتا لگانا عام طور پر بہت مشکل ہوتا ہے ،جیسا کہ سر اور
گردن ،آنت ،پھیپھڑوں ،لبلبے اور گلے کا کینسر۔
گریل کمپنی کا کہنا ہے کہ گیلری ٹیسٹ نہ صرف کینسر کی وسیع اقسام کا پتا لگا سکتا ہے
بلکہ یہ بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کینسر جسم میں کس مقام پر موجود ہے ،اور یہ ٹیسٹ
خاص طور سے مہلک کینسرز کی تشخیص میں بہت کارآمد ہے اور غلط نتیجے کی شرح
اس میں نہایت ہی کم ہے۔
برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ ان ٹرائلز کے ابتدائی نتائج 2023میں متوقع ہیں۔ واضح
رہے کہ برطانیہ میں ہر سال تقریبا ً 3الکھ 60ہزار افراد میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔
https://urdu.arynews.tv/galleri-blood-test-for-cancer/
ویب ڈیسک
سرسوں کا تیل جسم کے لیے انتہائی مفید سمجھاجاتا ہے ،سرسوں کے تیل کی خوشبو
اورذائقہ نہایت فرحت بخش ہوتا ہے ،اس میں متعدد وٹامنز اور غذائی عناصر موجود
ہوتے ہیں جس میں وٹامن ایچ ،وٹامن اے ،کیلشیم ،پروٹین ،اور اومیگا 3شامل ہوتے
ہیں۔
صحت سے متعلق بعض مسائل سے نمٹنے کے لیے ٓایوروید میں بھی اس کا استعمال کیا
جاتا ہے۔ اینٹی فنگل ،اینٹی بیکٹیرل اور اینٹی انفالمیٹری خصوصیات سے لبریز سرسوں
کے تیل کا استعمال کرتے ہوئے جب سبزیاں تیار کی جاتی ہیں تب یہ نہ صرف ذائقہ دار
ہوتی ہیں بلکہ کئی بیماریوں سے بھی بچنے میں مدد کرتی ہے۔
صرف ٓایوروید میں ہی نہیں بلکہ نیوٹریشن کے ماہرین بھی یہ مانتے ہیں کہ جس گھر میں
لوگ کھانا بنانے کے لیے سرسوں کے تیل کا استعمال کرتے ہیں وہاں لوگ کم بیمار پڑتے
ہیں۔
سرسوں کے تیل کے فوائد
سرسوں کے تیل میں پکایا ہوا کھانا کسی دوسرے تیل میں پکائے ہوئے کھانے کے مقابلے
میں آسانی سے ہضم ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں وہ قبض
کی شکایت کم کرتے ہیں۔
سرسوں کے تیل میں جراثیم کش خصوصیات ہوتی ہیں ،یہ پیشاب کے مسائل کو دور رکھتا
ہے اور یہ آنتوں اور نظام انہضام سے متعلق انفیکشن سے بھی لڑتا ہے۔
جلد پر سر سوں کی تیل سے مالش کرنے سے سورج کے بنفشی شعاعوں کے اثرات اور
ٓالودگی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔اس کے عالوہ یہ جھریاں کو بھی روکتا ہے ،اس کا
استعمال فیس پیک پر بھی ہوتا ہے۔
سرسوں کے تیل کا جسم پر مساج خون کے دورانیے کو تیز کرنے میں مدد کرتا ہے۔
سرسوں کے تیل کی مالش کرنی چاہیے اس سے جسم کے اہم اعضاء تک آکسیجن کے بہاؤ
میں آسانی رہتی ہے ،اس کا مساج پٹھوں کے درد کو دور کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
سرسوں کا تیل بالوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس میں موجود لینولیک ایسڈ جیسے فیٹی
ایسڈ بالوں کی جڑوں کی نشوونما کرتے ہیں۔ لمبے وقت تک اس کا استعمال کرنے سے بال
گرنا ختم ہو جاتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/health-treasures-hidden-in-mustard-oil/
ویب ڈیسک
دنیا بھر میں چائے کے لیے ٹی بیگز کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن سائنس دانواں نے ٹی
بیگز کی چائے پینے والوں کو خبردار کردیا۔
جرمن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹی بیگز میں ایسے اجزا شامل ہیں جن کا استعمال
انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
جرمن محققین کا کہنا ہے کہ جس کاغذ سے ٹی بیگ بنایا جاتا ہے اس میں انسانی صحت
کے لیے مضر مادے پائے جاتے ہیں اور بعض صورتوں Œمیں یہ کینسر کا باعث بھی بن
سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جرمن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق کے لیے چھ کمپنیوں کے ٹی
بیگز کو مختلف طریقے سے جانچا گیا جن میں تین مہنگی اور تین ٹی بیگ سستی کمپنی
کے تھے ،تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ ان میں کم از کم چار ایسے اجزا شامل تھے جو
کیڑے مار ادویات میں شامل ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’ایپی کلوروہائیڈین‘ نامی ایک مادہ اس کاغذ میں شامل ہوتا ہے
جو ٹی بیگ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہی اس کو صحت کے لیے نقصان دہ بناتا ہے۔
جرمن سائنسدانوں کے مطابق ٹی بیگ کو تھیلیوں میں لپیٹنے اور ان کو ابلتے ہوئے پانی
میں ڈالنے سے نقصان دہ مادہ پانی میں مل جاتا ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ پتی کو براہ راست استعمال کرنا پیکٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر
ہے۔
https://urdu.arynews.tv/577487-2/
دبئی :سپر ہیومن ایمیونٹی یا ہرڈ ایمیونٹی حالیہ دنوں میں استعمال ہونے والی اصطالح
ہے جو سائنسدان استعمال کررہے ہیں ،جنہوں نے کرونا وائرس کے خالف نام نہاد بلٹ
پروز ایمیونٹی بنائی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی اور قدرتی ویکسین
سے پیدا ہونے والی ایمیونٹی کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔
برجیل اسپتال کے مشیر مائیکرو بائیولوجسٹ ڈاکٹر سندر الیاپیرومل کا کہنا ہے کہ جب
سارس کو وی ٹو کے خالف قدرتی طور پر حاصل ہونے والی قوت مدافعت ویکسین سے
پیدا ہونے والی قوت مدافعت کے ساتھ مل جاتی ہے تو ہماری توقع سے زیادہ مدافعتی
ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
الفاطمہ ہیلتھ میں چیف کلینکل آفیسر ڈاکٹر تھوالفقار نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی
سسٹم کا رسپانس اچھی پوزیشن میں ہے ،مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے شخص کے
بدن میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل مؤثر رہتا ہے جوکہ کرونا وائرس کے خالف فعال کردار
ادا کرتے ہیں۔
القوسیسی کے آستر کلینک میں جنرل میڈیسن کے ڈاکٹر محمد سلیمان خان کا کہنا ہے کہ
کرونا وائرس کی وہ ویکسین جو آر این اے پر بنیاد رکھتے ہوں ،وہ سارس کو ٹو وائرس
کے انفیکشن کے بعد سپیرئیر ایمیون پروٹیکشن دیتا ہے۔
یو اے ای میں جہاں کرونا کیسز میں کمی کی روشنی میں ڈاکٹروں نے کہا کہ متحدہ عرب
امارات کے باشندوں میں ہرڈ ایمیونٹی کا رجحان بڑھ سکتا ہے ،دوسری جانب متحدہ عرب
ویب ڈیسک
لندن :عالمی سطح پر پھیلنے والے وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے دنیا بھر میں
مختلف ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔
برطانوی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی شدت
پر قابو پانے کے لیے ویکسین لگوانا کافی ہے جبکہ بوسٹر خوراک کی فی الحال ضرورت
نہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی سائنسی جریدے “دا لینسٹ” میں پیر کو
شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عام عوام کو ویکسین کی بوسٹر خوراک لگوانے
کی ضرورت نہیں ہے۔
تحقیقات | 80 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
خیال رہے کہ چند ممالک نے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے باعث ویکسین کی اضافی
خوراکیں بھی لگانا شروع کردی ہیں۔
نئی سامنے آنے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے
باوجود وبا کی اس اسٹیج پر عام عوام کے لیے بوسٹر خوراک مناسب نہیں ہے۔ اس تحقیق
کے محققین میں عالمی ادارہ صحت کے سائنس دان بھی شامل ہیں۔
تحقیق کے محققین نے دیگر سٹڈیز اور کلینکل ٹرائلز کا بھی جائزہ لیا ہے جس سے یہ
معلوم ہوا کہ ڈیلٹا ویریئنٹ سمیت کورونا کی ہر قسم کی شدید عالمات کے خالف بھی
ویکسین انتہائی مؤثر رہتی ہے۔
تحقیق کی مرکزی مصنف اور عالمی ادارہ صحت کی سائنسدان اینا ماریو کا کہنا ہے کہ
موجودہ سٹدیز معتبر ثبوت پیش نہیں کرتیں کہ کسی بھی شدید بیماری کے خالف تحفظ میں
ویکسین کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلی ترجیح ان افراد کے لیے ویکسین فراہم کرنے
کی ہونی چاہیے جنہیں ابھی تک نہیں لگ سکی۔ تحقیق کی مرکزی مصنف اینا ماریو نے
مزید کہا کہ ویکسین جلد ہی کورونا کے مزید ویریئنٹس پیدا ہونے میں رکاوٹ کا سبب بن
سکتی ہے۔
فرانس میں عمر رسیدہ افراد اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ویکسین کی تیسری
خوراک لگانا شروع کر دی ہے جبکہ اسرائیل میں بارہ اور زیادہ عمر کے بچوں کو
دوسری خوراک لگانے کے پانچ ماہ بعد تیسری خوراک لگائی جا رہی ہے۔
تحقیقات | 81 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ سال کے
آخر تک ویکسین کی اضافی خوراک دینے سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ نے تمام ممالک کو
ہدایت کی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک اپنی 10فیصد ٓابادی کو ویکسین لگا لیں جبکہ
40فیصد کو سال کے آخر تک۔
برطانوی تحقیق کے مطابق کورونا کے موجودہ ویریئنٹس کی اس حد تک نشونما نہیں ہوئی
کہ ویکسین ان کے خالف مؤثر نہ ہو۔
تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ وائرس کی نئی اقسام پیدا ہونے کی صورت میں موجودہ
ویکسین کی تیسری خوراک لگانے سے بہتر ہے کہ نئے ویریئنٹ کے مطابق ویکسین
بوسٹرز تیار کیے جائیں جو پھر لوگوں کو لگائے جائیں۔
لندن کے ایمپیریل کالج میں متعدی بیماریوں کے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ عذرا غنی کا کہنا
ہے کہ بوسٹر ویکسین کے معاملے پر کوئی ایک نقطہ نظر نہیں اپنایا جاسکتا
https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-research/
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی ال کر ذیابیطس ٹائپ ٹو
یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی
ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی
نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
تحقیقات | 82 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پالن تیار کیا گیا اور 12ہفتوں
تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔
ان مریضوں کو کم کیلوریز ،کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین واال غذائی پالن دیا گیا
اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔
ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ 2کا عالج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت
کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے ،مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی
ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان
کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔
انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس
کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس Œوالی غذا
استعمال کرتے ہیں ،تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے
یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ،کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا
کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں 50فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز ،کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین
والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔
ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی 12
جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔
محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول ،اوسط جسمانی وزن ،بلڈ پریشر اور
مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔
انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے
جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔
https://urdu.arynews.tv/diabetes-can-be-reversed/
وہ طریقہ کار جو ذیابیطس کو ریورس کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا
ہے
ویب ڈیسک
ستمبر 13 2021
کورونا کی نئی قسم ’مو‘ اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت کرنے
والی قرار
ویب ڈیسک
ستمبر 13 2021
اب کورونا کی اس قسم کے حوالے سے ایک نئی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے
قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف بہت زیادہ مزاحمت ) (Muمطابق مو
کی صالحیت رکھتی ہے۔
یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی۔ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر
جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے خالف انسانی دفاع
(ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ دیگر اقسام سے کیا
گیا۔
اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات
کا موازنہ ایسے 18افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا ،جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی یا وہ
کووڈ 19کا شکار رہ چکے تھے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خالف دیگر تمام اقسام
بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔
بیٹا کورونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار
دیا جاتا ہے۔
مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں گزرے
اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔
دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف 18افراد کے نمونوں کا
تجزیہ کیا گیا تھا۔مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسینیشن کرانے والوں
ڈبلیو ایچ او کے وبا کے حوالے سے ہفتہ وار بلیٹن کے مطابق مو قسم میں ایسی میوٹیشنز کا
مجموعہ ہے جو مدافعتی ردعمل سے بچنے کی خصوصیات کا عندیہ دیتا ہے۔
کورونا کی یہ نئی قسم سب سے پہلے جنوری 2021میں جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا
میں دریافت ہوئی تھی اور اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کیسز کو دریافت
کیا جاچکا ہے۔
ابتدائی ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کے دفاع کے خالف ممکنہ طور پر اسی
طرح حملہ آور ہوسکتی ہے جیسے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا کی قسم بیٹا
کرتی ہے ،مگر تصدیق کے لیے مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1168271/
ویب ڈیسک
ستمبر 14 2021
طبی جریدے جرنل سرکولیشن میں شائع اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بہت زیادہ تناؤ کا سامنا
کرنے والے افراد میں ایک دہائی کے اندر ہائی بلڈ پریشر میں مبتال ہونے کا خطرہ بڑھ
جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک ہارمون کورٹیسول (یہ تناؤ کی سطح بڑھنے پر خارج ہوتا ہے)
کی سطح میں وقت کے ساتھ بڑھتا ہے تو فالج ،ہارٹ اٹیک یا امراض قلب کا خطرہ بھی
بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ تناؤ ،ڈپریشن ،چڑچڑاہٹ ،غصہ اور زندگی کے بارے میں منفی
نظریہ نہ صرف لوگوں کی خوشی کو ختم کرتا ہے بلکہ اس سے صحت اور عمر پر بھی
منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمام ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرنے پر دریافت کیا کہ ذہنی صحت کے
منفی عناصر جیسے تناؤ اور دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے درمیان واضح تعلق
موجود ہے۔
مگر اچھی خبر یہ ہے کہ ذہنی صحت کو بہتر کرکے دل کی صحت پر بھی مثبت اثرات
مرتب ہوتے ہیں۔
محققین کے مطابق تناؤ کے حوالے سے لوگوں کو اپنا ذہن بدلنے کی ضرورت ہے اور
شعور پیدا کریں کہ تناؤ خود ان کے لیے قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔اس تحقیق میں 48سے 87
سال کی عمر کے 412افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے پیشاب کے نمونوں میں تناؤ
کے دوران خارج ہونے والے ہارمونز کی سطح کی جانچ پڑتال 2005سے 2018کے
دوران کی گئی تھی۔
تحقیقات | 89 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہارمونز کی سطح کا موازنہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے ہائی بلڈ پریشر ،دل
میں تکلیف ،ہارٹ اٹیک اور بائی پاس سرجری سے کیا گیا۔
جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 3ہارمونز کو جانچا گیا تھا جو اعصابی
نظام کو ریگولیٹ اور دل کی دھڑکن ،بلڈ پریشر اور سانس جیسے افعال کو کنٹرول کرتے
ہیں۔
بعدازاں ماہرین نے کورٹیسول کی سطح کا جائزہ لیا جو تناؤ کے دوران جسم کی جانب
سے خارج ہوتا ہے ،مگر تناؤ ختم ہونے پر جسم کی جانب سے اسے بنانے کی مقدار کم
ہوجاتی ہے ،مگر مسلسل تناؤ کے باعث اس کی سطح بھی زیادہ رہتی ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دیگر ہارمونز کے مقابلے میں کورٹیسول کی سطح دگنی
بڑھنے سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ 90فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
چاروں ہارمونز کی سطح میں مجموعی طور پر 100فیصد اضافے سے ہائی بلڈ پریشر کا
خطرہ 21سے 31فیصد تک بڑھ جاتا ہے ،یہ اثر 60سال کی عمر میں زیادہ نمایاں ہوتا
ہے۔
محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق کسی حد تک محدود تھی کیونکہ اس میں کوئی کنٹرول
گروپ نہیں تھا اور ہارمونز کے یے صرف ایک پیمانے یعی پیشاب کے نمونوں کو
استعمال کیا گیا۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ یشاب سے ہارمونز کی جانچ پڑتال کا نوول طریقہ کار ہے ،جس
سے ہم بتا سکتے ہیں کہ کن افراد کو وقت کے ساتھ زیادہ تناؤ کا سامنا ہوسکتا ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1168346/
ویب ڈیسک
ستمبر 13 2021
بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ کے لیے کووڈ ویکسین کی 2خوراکوں کی افادیت اتنی
زیادہ ہے کہ اس وقت کورونا کی وبا کے لیے بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہیں۔
یہ بات بین االقوامی طبی ماہرین کے ایک گروپ کی جانب سے جاری رپورٹ میں سامنے
آئی۔ماہرین کی اس ٹیم میں عالمی ادارہ صحت اور امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن
کے ماہرین بھی شامل تھے۔
صوفیہ کاشف
ستمبر 13 2021
بچے پالنا ،ان کی تربیت کرنا میری زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک تھا
کیونکہ میں اس حوالے سے مکمل طور پر العلم تھی۔ جب جو آپ کی سمجھ میں آئے ،جو
آپ سے بے ساختہ ہو ،عادت سے مجبور ہوکر ہو اور آپ کرتے چلے جائیں تو کچھ بھی
مشکل نہیں لگتا۔
مشکل تو تب ہوجاتی ہے جب عادت کسی اور چیز کی ہو ،بے ساختگی اور فطرت کے
ہاتھوں مجبوری کچھ اور کروائے جبکہ عقل ،شعور اور تعلیم کے تقاضے کچھ اور ہوں۔
جو آپ کو بتایا اور سمجھایا جارہا ہو کہ فالں صحیح راستہ ہے لیکن آپ فطری اور جبلتی
طور پر اس کے مخالف چلنے پر مجبور ہوں حاالنکہ یہ جانتے ہوں کہ صحیح راستہ کوئی
اور ہے۔
تو میں جانتی تھی صحیح راستہ کوئی اور ہے مگر اس راستے تک پہنچ نہ پاتی تھی کہ
میرے پاس ادھورا علم تھا ،ایسا علم جو میرے آس پاس کے معاشرے کے لوگوں اور
خاندانوں میں برتا ہی نہ گیا ہو ،جسے میں نے زندگی میں کبھی سہہ کر یا چُھو کر دیکھا
ہی نہ ہو اور میں اس کی جزیات ،اس کے مینول اور اس میں درپیش مشکالت سے نمٹنے
کے طریقے سے العلم تھی۔
میں کبھی وہ نہ کرسکی جس کا میرا علم تقاضا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ اسی اور بہتی رہی
جہاں میرا زندگی سے کشید کیا تجربہ اور عادتوں کی مجبوری مجھے دھکیل کر لے جاتی
رہی ،سو میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جہاں سے میں اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں ،میں شاید اس
مشکل امتحان میں بہت کم نمبروں سے پاس ہوتی ہوں۔
مزید پڑھیے :ماں بنی تو ماں کی قدر نہ کرنے کا پچھتاوا ستانے لگا
بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کس طرح سے حل کرنے ہیں ،تھکی ہوئی ،کام میں
پھنسی ہوئی حالت میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کس طرح سننا ہے ،چھوٹی چھوٹی
غلطیوں کو کیسے درگزر کرنا ہے ،میرے لیے یہ سب الجبرا سے بھی مشکل کام ثابت ہو
رہا تھا۔
تو ان خوبصورت ترغیبات کے سائے میں ہم نے اپنی زندگیوں کو ان ترغیبات میں ڈھالنا
شروع کیا۔ ہم نے جانے انجانے میں کہیں سوچا کہ ہم اپنی زندگیاں اس طرح سے بدلیں
گے۔ ادھورے اور تخیالتی راستوں پر چلتے ہم بھی وہیں پہنچے جہاں ادھورے خوابوں
اور نامکمل علم کے پیچھے چلنے والوں کا حشر ہوتا ہے۔ منزل تک تو نہ پہنچے بلکہ
تھکے ہارے کسی دوسری ہی انتہا پر جا نکلے۔
ہمارے امڈتے پیار نے بچوں کو ضدی اور خودسر بنا دیا ،ہم نے بچوں کو پچکارتے
پچکارتے زندگی کے اخالق کبھی نہ سیکھنے دیے۔ ہم نے آپ جناب کرکے بچے کو
رہنمائی دینے کے بجائے اسے گھر کا ڈکٹیٹر بنا دیا۔ ہم سے کبھی وہ بچے نہ بن سکے جو
کھانے کی میز پر بیٹھے والدین کا احترام و عزت سے جی حضوری کرتے ہوں۔ ہم نے
ڈرامہ نگاروں کے تخیالتی پرواز کو ترغیبات کے طور پر لیا اور ان سے ادھورا علم اخذ
کیا۔ ہم نے کبوتر بننے کی کوشش کی اور کوے بھی نہ بن سکے۔
آج جب ہم پیچھے ُمڑ کر دیکھتے ہیں تو ہماری نسلوں میں نہ احترام رہا ،نہ آداب رہے ،نہ
تابعداری رہی نہ فرمانبرداری۔ گورے کا علم تو کہتا ہے بچوں کو اچھے خودمختار انسان
بناؤ مگر کیا اپنے سے بڑی تجربہ کار نسل کی بات نہ سننے ،نہ سمجھنے سے والدین کی
تربیت اور رہنمائی سے صرف نظر کرنے سے انسان اچھا بن سکتا ہے؟ اس سے تو
زندگی کے انتہائی بنیادی نظریات و اخالقیات ہی بگڑ کر رہ جاتے ہیں وہاں ان سے اچھے
انسان کیسے جنم لیں گے؟
کیا یہ گورے نے کہا تھا یا ہم ہی اپنے غلط مشاہدات و ادھورے علم کی بنا پر اسے
دوسری انتہا تک دھکیلتے چلے گئے؟ شاید اس لیے کہ جو گورے نے کہا تھا وہ ہم تک
ہم نے آپ جناب کرکے بچوں کو رہنمائی دینے کے بجائے ان کو گھروں کا ڈکٹیٹر بنا دیا
ہماری پچھلی 50سالہ نسلوں پر اس قدر غیر ضروری علم کا بوجھ تھا کہ تجربات کی
بھٹی میں جتنی بُری طرح ہمیں پیسا گیا شاید ہی ٹیکنالوجی سے پہلے کے زمانے کا انساں
پستا ہوگا۔ جہاں ہر وقت ایک نئی تھیوری ہمارے سامنے پیش کردی جاتی ہے جس کا
ہمارے زمینی حقائق سے ،ہمارے معاشرے سے اور ہمارے مسائل سے کسی بھی قسم کا
نباہ ممکن نہیں۔ جہاں ہمیں ہر روز صبح شام ایک ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے
ماضی ،حال اور مستقبل سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا
مگر اس کے باوجود ہمیں محسوس کرکے اپنے پیچھے بند آنکھوں سے چال لینے پر قادر
ہے۔
ہم مایوسیوں اور مشکالت میں پھنس جانے کے لیے بے بس ہوچکے ہیں۔ ہمارے آس پاس
کے تربیت دینے والے استاد ناپید ہوچکے ہیں۔ ہم مختلف عالقوں اور ماحول میں رہ کر
دوسرے معاشروں کو سمجھے اور جانے بغیر ان کے رویے کاپی کرنے کی کوشش میں
مصروف رہتے ہیں۔
نتیجتا ً ناکام رہتے ہیں۔ اب تک تو کچھ لوگ یہ علم النے کے لیے خود دوسرے معاشرے
میں چلے جاتے تھے لیکن آج کل ہر چیز گھر بیٹھے آن الئن آنے لگی ہے۔ چنانچہ آنے
والی نسلوں کے لیے شاید مایوسیوں اور بے چینیوں کی شرح شاید ہم سے کئی گنا زیادہ ہو
کہ اب تو سلیمانی شیشے میں ہر وہ چیز ہم اپنے کمرے میں بیٹھے دیکھ لیتے ہیں جو
دراصل وجود ہی نہیں رکھتی۔ ایسے میں وہاں دستیاب علم کے سہارے پلنے والی نسلیں نہ
جانے زندگی کے ہاتھوں کس قدر پریشان ہوں گی۔
تو ثابت یہ ہوا کہ خالی کتابی علم بھی انسانوں کو بدلنے کے لیے اس وقت تک ناکافی ہے
جب تک وہ علم آپ کے حاالت و واقعات اور معاشرے کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔
گوروں سے سیکھے ہوئے نسخے شاید ہمارے دیسی معاشروں کے لیے ناقاب ِل عمل ہیں
https://www.dawnnews.tv/news/1167559/
.ویسے تو مانا جاتا ہے کہ بہت زیادہ کھانا لوگوں کو موٹاپے کا شکار بناتا ہے
مگر ضرورت سے زیادہ کھانا موٹاپے کی بنیادی وجہ نہیں بلکہ لوگوں کا غذائی اتتخاب
اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی
تحقیق میں سامنے آئی۔
واضح رہے کہ موٹاپے سے امراض قلب ،فالج ،ذیابیطس ٹائپ ٹو اور کینسر کی
مخصوص اقسام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول
کی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ لوگوں موٹاپے کے شکار کیوں ہوتے
ہیں اور دریافت کیا کہ غیر معیاری غذا اور پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا انتخاب موٹاپے
کی وجہ بنتا ہے۔
محققین نے کاربوہائیڈرٹ۔ انسولین ماڈل کو بھی تجویز کیا جبکہ موٹاپے کی وجوہات کی
وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت موجود انرجی بیلنس ماڈل سے جسمانی وزن میں اضافے کی
وجوہات کی وضاحت نہی ہوسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکپن میں روزانہ جزوبدن بننے والی کیلوریز کی مقدار ایک ہزار تک
پہنچ سکتی ہے ،مگر کیا ضرورت سے زیادہ کھانا واقعی موٹاپے کی وجہ بنتا ہے؟
محققین کے تجویز کردہ نئے ماڈل میں موٹاپے کی وجہ موجودہ عہد کے غذائی انتخاب
کو قرار دیا گیا جس میں ایسی غذاؤں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جو پراسیس اور بہت تیزی
سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتی ہیں۔
قدیم زمانے سے متعدد بیماریوں میں بطور دوا استعمال کیے جانے والے بیج خشخاش کے
استعمال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ،خشخاش کی افادیت سائنس سے بھی ثابت
شدہ ہے۔
زمانہ قدیم سے بزرگ افراد کی جانب سے خشخاش کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے ،یہ
بیچ خصوصا ً خواتین کے لیے بہترین ہے۔
ماہرین جڑی بوٹیوں سمیت میڈیکل سائنس سے بھی ثابت شدہ خشخاش
ِ غذائی اور
کی خصوصیات اور اس کے استعمال سے صحت پر حاصل ہونے والے بے شمار فوائد
مندرجہ ذیل ہیں۔
پروٹین 3.7 ،گرام چکنائی 1.7 ،گرام فائبر ،میگنیز ،کاپر ،کیلشیم ،میگنیشیم ،فاسفورس،
زنک ،تھیامین اور ٓائرن جیسے اہم منرلز بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
) ( chemia polyphenolماہرین کا کہنا ہے کہ خشخاش میں ایک جُز کیمیا پولی فینل
بھی پایا جاتا ہے جو بے شمار اینٹی ٓاکسیڈنٹ کا مجموعہ ہوتا ہے اور صحت پر کئی اچھے
اثرات کے ساتھ بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے ،بیماریوں کے خالف لڑنے میں قوت
مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔
خشخاش کی تاثیر گرم ہے ،خشخاش میں پایا جانے واال منرل میگنیز ہڈیوں کے لیے
انتہائی ُمفید غذا ثابت ہوتا ہے جبکہ خشخاش کا استعمال ُخون جمنے سے روکتا ہے اور
جسم میں خون کی کارکردگی بہتر بناتا ہے جس کہ سبب تمام اعضاء کا نظام بہتر ہوتا ہے۔
خشخاش کا تیل اومیگا 6اور 9سے بھرپُور ہوتا ہے جبکہ اس میں اومیگا 3کی بھی ُکچھ
مقدار پائی جاتی ہے۔
خشخاش کے بیج نیند کی کمی کو دور کرتے ہیں
خشخاش بہتر نیند کے لیے کارٓامد ہے ،پرسکون نیند کے لیے خشخاش کی چائے بنا کر
بھی پی جا سکتی ہے یا اس کا پیسٹ بنا کر گرم دودھ میں مال کر بھی استعمال کیا جا سکتا
ہے۔
ذیابیطس کے لیے مفید
ویب ڈیسک
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی ال کر ذیابیطس ٹائپ ٹو
یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی
ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی
نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پالن تیار کیا گیا اور 12ہفتوں
تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔
ان مریضوں کو کم کیلوریز ،کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین واال غذائی پالن دیا گیا
اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔
ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ 2کا عالج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت
کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے ،مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی
ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان
کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔
انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس
کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس Œوالی غذا
استعمال کرتے ہیں ،تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے
دبئی :سپر ہیومن ایمیونٹی یا ہرڈ ایمیونٹی حالیہ دنوں میں استعمال ہونے والی اصطالح
ہے جو سائنسدان استعمال کررہے ہیں ،جنہوں نے کرونا وائرس کے خالف نام نہاد بلٹ
پروز ایمیونٹی بنائی ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی اور قدرتی ویکسین
سے پیدا ہونے والی ایمیونٹی کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔
برجیل اسپتال کے مشیر مائیکرو بائیولوجسٹ ڈاکٹر سندر الیاپیرومل کا کہنا ہے کہ جب
سارس کو وی ٹو کے خالف قدرتی طور پر حاصل ہونے والی قوت مدافعت ویکسین سے
پیدا ہونے والی قوت مدافعت کے ساتھ مل جاتی ہے تو ہماری توقع سے زیادہ مدافعتی
ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
الفاطمہ ہیلتھ میں چیف کلینکل آفیسر ڈاکٹر تھوالفقار نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی
سسٹم کا رسپانس اچھی پوزیشن میں ہے ،مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے شخص کے
بدن میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل مؤثر رہتا ہے جوکہ کرونا وائرس کے خالف فعال کردار
ادا کرتے ہیں۔
تحقیق کے محققین نے دیگر سٹڈیز اور کلینکل ٹرائلز کا بھی جائزہ لیا ہے جس سے یہ
معلوم ہوا کہ ڈیلٹا ویریئنٹ سمیت کورونا کی ہر قسم کی شدید عالمات کے خالف بھی
ویکسین انتہائی مؤثر رہتی ہے۔
تحقیق کی مرکزی مصنف اور عالمی ادارہ صحت کی سائنسدان اینا ماریو کا کہنا ہے کہ
موجودہ سٹدیز معتبر ثبوت پیش نہیں کرتیں کہ کسی بھی شدید بیماری کے خالف تحفظ میں
ویکسین کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلی ترجیح ان افراد کے لیے ویکسین فراہم کرنے
کی ہونی چاہیے جنہیں ابھی تک نہیں لگ سکی۔ تحقیق کی مرکزی مصنف اینا ماریو نے
مزید کہا کہ ویکسین جلد ہی کورونا کے مزید ویریئنٹس پیدا ہونے میں رکاوٹ کا سبب بن
سکتی ہے۔
فرانس میں عمر رسیدہ افراد اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ویکسین کی تیسری
خوراک لگانا شروع کر دی ہے جبکہ اسرائیل میں بارہ اور زیادہ عمر کے بچوں کو
دوسری خوراک لگانے کے پانچ ماہ بعد تیسری خوراک لگائی جا رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ سال کے
آخر تک ویکسین کی اضافی خوراک دینے سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ نے تمام ممالک کو
ہدایت کی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک اپنی 10فیصد ٓابادی کو ویکسین لگا لیں جبکہ
40فیصد کو سال کے آخر تک۔
اگر آپ زندگی کی الجھنوں سے پریشان اور ناخوش ہیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ روز مرہ
کی غذا بھی آپ کے ذہنی تناؤ اور پریشانی کو کم کرسکتی ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند غذا نہ صرف ہمیں جسمانی فوائد پہنچاتی ہے بلکہ یہ
ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے جسم سے منفی
خیاالت و جذبات کو کم کر کے مثبت تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق 5غذائیں ایسی ہیں جو اگر دن کے ٓاغاز میں کھائی جائیں تو یہ دن بھر
ہمارے موڈ کو خوشگوار رکھتی ہیں اور ہم سخت اور مشکل حاالت میں بھی منفی جذبات
و خیاالت سے دور رہتے ہیں۔ وہ غذائیں یہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق کئی بار تحقیق میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ چاکلیٹ کھانا انسانی
صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ یہ دماغی کارکردگی ،قوت مدافعت ،خون کی روانی اور
اعصاب کی کارکردگی میں اضافہ ،وزن میں کمی اور امراض قلب ،فالج اور جلدی
بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چاکلیٹ ہمارے جسم کی بے چینی اور ذہنی تناؤ میں 70فیصد تک
کمی کرسکتی ہے۔
انڈے
انڈوں میں موجود وٹامن ڈی ڈپریشن میں کمی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قوت مدافعت
میں اضافہ جبکہ مختلف موسمی بیماریوں جیسے کھانسی ،نزلہ اور سردی سے بچاؤ فراہم
کرتے ہیں۔
بیریز
مختلف اقسام کی بیریز جیسے اسٹرابیری ،رس بھری ،بلو بیری اور بلیک بیری ذائقہ میں
کھٹی اور میٹھی ہوتی ہیں اور ان میں بھرپور اینٹی ٓاکسیڈنٹس مجود ہوتے ہیں۔ یہ عنصر
ڈپریشن اور ذہنی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت مددگار ہے۔
اخروٹ
غذائیت بخش چکنائی سے بھرپور اخروٹ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کو معمول کے
مطابق رکھتا ہے۔ یہ جسم کو ذیابیطس سے تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ جسم کو تناؤ میں
مبتال کرنے والے ہارمون میں بھی کمی کرتا ہے۔
کیال
کیال ایک غذائیت سے بھرپور غذا ہے۔ دن کے ٓاغاز میں اس کا استعمال ٓاپ کو دن بھر
توانا اور چاق و چوبند کھتا ہے۔ یہی نہیں یہ ٓاپ کے ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کے
لیے بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/foods-that-make-you-happy/
تحقیقات | 106 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
خشک خوبانی ایسی توانا و صحت بخش غذا ہے جو پورا سال دستیاب ہوتی ہے ،خشک
خوبانی کا ایک چھوٹا سا دانہ اپنے اندر صحت کا ایک ایسا خزانہ چھپائے ہوتا ہے جس
سے فائدہ صرف وہی انسان اُٹھا سکتا ہے جو اس کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔
خشک خوبانی متعدد طبی فوائد کی مالک ہوتی ہے اوراس کا استعمال ہمیں کئی عام
امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے کچھ اہم اور خا ص فوائد کے متعلق جا نتے ہیں۔
خوبانی لذیذ میٹھے ذائقے اور غذائیت سے بھر پور پھل ہے ،خوبانی کو تازہ اور اسے
سکھا کر دونوں طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے ،خوبانی پوٹاشیمٓ ،ائرن ،فائبر اور بیٹا
کروٹین سے ماالمال پھل ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
تربوز کا شمار روح زمین کے مفید ترین پھلوں میں ہوتا ہے ،کیونکہ یہ پوٹاشیم اور
میگنیشیم جیسے اہم وٹامن سے بھرپور ہوتا ہے۔ تاہم ہم میں سے اکثر لوگ اس کے سبز
چھلکے کو پھینک دیتے ہیں جب کہ یہ کھایا جا سکتا ہے اور یہ ایسے فوائد رکھتا ہے جن
کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
کے مطابق تربوز کے " "Health Lineطبی امور سے متعلق انگریزی ویب سائٹ
چھلکے کے متعدد فوائد ہیں۔
تربوز کا چھلکا ورزش اور مشق کے دوران کھالڑیوں کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد
گار ہوتا ہے۔ چھلکے کے اندر موجود سٹرولین خون کی شریانوں کو وسیع کرتا ہے۔ عالوہ
ازیں سٹرولین سپلیمنٹ آکسیجن کو پٹھوں تک پہنچانے کا عمل بہتر بناتا ہے
بعض تحقیقی مطالعوں کے مطابق تربوز انتہائی موٹاپے سے دوچار افراد کے لیے فشار
خون کنٹرول کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ سٹرولین سپلیمنٹ بلند فشار خون میں مبتال افراد کا
بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔ اسی طرح تربوز کو ممکنہ طور پر پیشاب آور شمار کیا جاتا ہے۔
تربوز کے چھلکے کا ایک اور فائدہ اس کا ریشے سے بھرپور ہونا ہے۔ ریشے سے
بھرپور غذائی نظام آنتوں کی حرکت کو منظم رکھتا ہے۔ عالوہ ازیں یہ بڑی آنت کے
امراض سے متاثر ہونے کے خطرات کو کم کرتا ہے۔اسی طرح ریشہ خون میں کولیسٹرول
اور شوگر کی سطح کو کم رکھنے میں مدد کرتا ہے
https://www.aaj.tv/news/30266793/
خواتین کیلئے ایواکاڈو Œایک معجزاتی پھل ،پیٹ کی چربی کا آسان حل
ایک حالیہ سائنسی مطالعے نے ایواکاڈو کی ایک نئی طبی خاصیت کا پتا لگایا ہے جس پر
کبھی غور نہیں کیا گیا۔اس طبی تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں ایک ایواکاڈو کھانے سے
خاص طور پر خواتین کو ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے
چھٹکارا پانا مشکل ہے۔
سائنسی جریدے "جرنل آف نیوٹریشن" میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ
ایواکاڈو کا ایک دانہ روزانہ کھانے سے خواتین کو پیٹ کی چربی کم کرنے میں مدد دیتا
گرمیوں کے سیزن میں تربوز ہر کسی کی ضرورت بن جاتا ہے ،جو بظاہر انسان کے اندر
پانی کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ تربوز کا شمار مفید ترین پھلوں میں ہوتا ہے کیوں کہ یہ
پوٹاشیم اور میگنیشیم جیسے اہم وٹامن سے بھرپور ہوتا ہے۔
تاہم ہم تربوز کو کھانے سے پہلے اس کے سبز چھلکے کو پھینک دیتے ہیں کیونکہ اس
کے فوائد کے بارے میں ہمیں زیادہ ٓاگاہی نہیں۔
کے مطابق تربوز کے چھلکے ””Health Lineطبی امور سے متعلق انگریزی ویب سائٹ
کے متعدد فوائد ہیں۔
فیس بک کی ملکیتی ایپ انسٹاگرام نے اس تحقیق کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئےکہا کہ
کمپنی نوجوان صارفین کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
انسٹاگرام کی پبلک پالیسی کی سربراہ کارینا نیوٹن نے ایک بالگ پوسٹ میں لکھا کہ “تمام
لوگوں کے اذہان میں یہی سوال موجود ہے کہ کیا سوشل میڈیا معاشرے کے لئے اچھا ہے
یا برا؟ اس پر تحقیق ملی جلی ہے۔
اس سے دونوں اثرات اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ انسٹاگرام میں ہم سوشل میڈیا کے مثبت
”اثرات کو اپنا مقصد بناتے ہوئے اس سے پیدا ہونے والے خطرات پر نظر رکھتے ہیں۔
نیوٹن کے مطابق “انسٹاگرام نے خودکشی ،خود ضربی ،کھانے سے متعلق بیماریوں پر
اگاہی پر بہت تفصیل میں کام کیا ہے تاکہ ایپ کو ہر کسی کے لئے محفوظ بنایا جاسکے”۔
فیس بک پریزنٹیشن میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں میں جنہوں نے خودکشی کے خیاالت کی
اطالع دی 13 ،فیصد برطانوی صارفین اور 6فیصد امریکی صارفین نے شامل تھے۔
محققین نے مبینہ طور پر لکھا “ ،بتیس فیصد نوعمر لڑکیوں نے کہا کہ جب انہیں اپنے
جسموں کے بارے میں برا محسوس ہوتا ہے تو انسٹاگرام اس احساس کو مزید بڑھا دیتا
ہے‘‘۔
وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق ،وہ خصوصیات جن کو سوشل میڈیا کمپنی نے سب سے
زیادہ نقصان دہ قرار دیا ہے وہ اس کے کلیدی الگورتھم کا حصہ ہیں۔
خیال رہے کہ نوجوان ہی صارفین انسٹاگرام کی کامیابی کی اصل وجہ ہیں۔ انسٹاگرام کے
40فیصد سے زیادہ صارفین 22سال اور اس سے کم عمر کے افراد ہیں۔
15Sep 2021
سیکس سے متعلق خیاالت اور رویے وقت کے ساتھ بدل رہے ہیں اور وسیع تر بھی ہو
رہے ہیں۔ مگر جنسی رجحانات کی بات کی جائے تو خواتین کے رویے مردوں کے
مقابلے کم سخت گیر ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟
قوس قزح کے پرچم سے ہی واقف تھے۔ مگر آج مختلف ِ ایک وقت تھا جب ہم صرف
رنگوں کے پرچم پائے جاتے ہیں جو جنسی رجحانات کے تنوع کی بات کرتے ہیں۔
لوگ اب بظاہر سیکس کے بارے میں کھل کر بات کر لیتے ہیں۔ روایت سے ہٹ کر مختلف
شناختیں ،جو پہلے غائب رہتی تھیں ،اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور مین سٹریم کا حصہ
تحقیقات | 116 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہیں۔ اس موضوع پر کھل کر بحث ہونے سے جنسی شناختوں میں اب نرمی آنے لگی ہے
اور لوگ اپنی جنسی شناخت آسانی سے تبدیل بھی کر پاتے ہیں۔
نئے تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کئی ملکوں میں یہ تبدیلی ایک گروہ میں زیادہ واضح ہے۔
خواتین زیادہ آسانی سے اپنی جنسی شناخت تبدیل کر پاتی ہیں ،مردوں کے مقابلے اُن کی
شرح کہیں زیادہ ہے۔
تو اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس میں کئی عناصر شامل ہیں،
خاص کر سماجی ماحول ،جن کی بدولت خواتین زیادہ آسانی سے روایتی صنفی کرداروں
اور شناختوں کو توڑ پاتی ہیں۔
ان نئی معلومات کے باوجود سوال اب بھی برقرار ہے کہ مستقبل میں تمام صنفوں کے لیے
اپنے جنسی رجحان کو تبدیل کرنے سے کیا مراد ہو گا؟
جنسی رجحانات میں ایک بڑی تبدیلی
نیویارک میں بنگھمٹن ہیومن سیکشویلٹی ریسرچ لیب میں شان میسی اور ان کے ساتھی
قریبا ً ایک دہائی سے سیکس سے متعلق رویوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہر ایک تحقیق میں وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ جنسی رجحان اور صنف سے متعلق وہ
اپنے خیاالت کا اظہار کریں۔ انھیں احساس ہوا ہے کہ وقت کے ساتھ یہ ڈیٹا بہت تبدیل ہوا
ہے اور ان کے پاس جنسی کشش سے متعلق معلومات کا خزانہ دستیاب ہے۔
بنگھمٹن یونیورسٹی میں خواتین ،صنف اور جنسی مطالعے کے پروفیسر میسی کہتے ہیں
کہ ’ہم نے سوچا کہ ہم دس سال سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں ،کیوں نہ ہم واپس جا کر دیکھیں
کہ رجحانات کس طرح تبدیل ہوئے ہیں۔‘
انھیں پتا چال کہ 2011سے 2019کے درمیان کالج کی خواتین میں صرف مردوں کی
طرف مائل ہونے کا رجحان تبدیل ہو رہا ہے۔ سنہ 2019میں 65فیصد خواتین نے بتایا کہ
وہ صرف مردوں میں دلچسپی لیتی ہیں۔
سنہ 2011کے مقابلے یہ کم ہے جب یہ شرح 77فیصد ہوا کرتی تھی۔ اسی دوران ایسی
خواتین میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ’جو صرف مردوں سے سیکس کرتی ہیں۔‘
دریں اثنا اس عرصے میں مردوں کے جنسی رویے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے۔ قریب 85فیصد
مردوں کا کہنا تھا کہ وہ صرف خواتین میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ قریب 90فیصد کے
مطابق وہ صرف خواتین کے ساتھ سیکس کرتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
وقت کے ساتھ زبان و بیان میں خواتین کے 'نان بائنری' ہونے کو تسلیم کر لیا گیا ہے
برطانیہ اور نیدرلینڈز سمیت دنیا کے دیگر سرویز میں ملتی جلتی معلومات سامنے آئی ہے۔
ہر سال کے ساتھ مردوں کے مقابلے خواتین کی جانب سے زیادہ سیم سیکس دلچسپی ظاہر
کی گئی ہے۔
طاقت اور آزادی
میساچوسیٹس میں سپرنگفیلڈ کالج میں نفسیات کی پروفیسر الیزبتھ مورگن کا کہنا ہے کہ
’اسے مکمل طور پر ایک چیز پر مرکوز کرنا پیچیدہ ہو گا۔‘ لیکن آیا صنفی کردار تبدیل
ہوئے ہیں یا نہیں ،یہ اہم وجہ ہے۔
میسی اور ان کے ساتھیوں نے سماجی رویوں میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی ہے ،جیسے
فیمنیزم کی ترقی اور خواتین کے حقوق کی تحریک۔ گذشتہ دہائیوں کے دوران ان دونوں
عناصر نے سماجی و سیاسی صورتحال کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیا ہے۔ تاہم مرد و
خواتین ان تبدیلیوں سے مختلف انداز میں متاثر ہوتے ہیں۔
میسی کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے صنفی کرداروں میں پیشرفت ہوئی ہے اور ایسا مردوں
کے صنفی کرداروں میں زیادہ نہیں ہوا۔‘ ان کے مطابق ایل جی بی ٹی کیو پلس تحریک
کی بدولت لوگوں کے جنسی رجحان آج زیادہ متحرک ہیں۔
مگر وہ کہتے ہیں کہ فیمنیزم اور خواتین کے حقوق کی تحریک خواتین پر زیادہ اثر انداز
ہوئی ہے۔ تاریخی اعتبار سے مردوں کے لیے کوئی ایسی تحریک سامنے نہیں آ سکی جس
سے ان کے رویے بڑے پیمانے پر تبدیل ہو سکیں۔
مورگن کہتے ہیں کہ ’ 50سال قبل خواتین کے لیے زندگی ممکن نہیں تھی اگر وہ ایک مرد
سے شادی کر کے گھر نہیں بساتیں ،کیونکہ وہ اپنے خاوند پر انحصار کرتی تھیں۔‘
اس ضمن میں صرف مردوں میں دلچسپی نہ رکھنے سے اب خواتین روایتی صنفی
کرداروں سے باہر نکل رہی ہیں۔
دریں اثنا جہاں ایک طرف خواتین کو زیادہ آزادی مل رہی ہے وہیں مردوں کے صنفی
کردار میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی کیونکہ معاشرے میں اب بھی اکثر جگہوں پر طاقت انہی
کے پاس ہے۔
موڈرنا ویکسین سے طویل المعیاد ٹھوس مدافعتی ردعمل بنتا ہے ،تحقیق
ویب ڈیسک
ستمبر 14 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی —کووڈ ویکسین سے بیماری کے خالف
مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے؟ اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل
ہے۔مگر ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے نیا تخمینہ سامنے آیا ہے۔
امریکا کے ال جوال انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ موڈرنا
ویکسین کی کم مقدار پر مبنی خوراک کا اثر کم از کم 6ماہ تک برقرار رہتا ہے اور
ویکسینیشن کرانے والوں کو اضافی خوراک کی ضرورت نہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وقت بہت اہم ہے کیونکہ اس عرصے میں حقیقی مدافعتی یادداشت
تشکیل پانے لگتی ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ موڈرنا کووڈ ویکسین سے ٹھوس سی ڈی 4پلس ہیلپر ٹی سی،
سی ڈی 8پلس کلر ٹی سیل اور اینٹی باڈی ردعمل ویکسینیشن مکمل ہونے کے بعد کم از
کم 6ماہ بعد برقرار رہتا ہے۔
اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے خالف مدافعتی ردعمل زیادہ طویل عرصے تک
برقرار رہ سکتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اس ٹھوس مدافعتی یادداشت کا تسلسل ہر عمر کے گروپ
بشمول 70سال سے زائد عمر کے افراد میں برقرار رہتا ہے ،جن میں بیماری کی سنگین
شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ یہ مدافعتی یادداشت مستحکم رہتی ہے جو کہ متاثر کن ہے ،جس سے
ایم آر این اے ویکسینز کے دیرپا ہونے کا اچھا عندیہ ملتا ہے۔
تحقیق کے لیے ایسے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن کو موڈرنا ویکسین کی 25
مائیکرو گرام کی خوراک کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں استعمال کرائی گئی تھی۔
محققین نے بتایا کہ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک خوراک کا چوتھائی حصہ استعمال کرنے
سے بھی کسی قسم کا مدافعتی ردعمل بنتا ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں موڈرنا ویکسین کے کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں شامل ایسے
افراد کے نمونے حاصل کرنے کا موقع مال جن کو ویکسین کے 25 ،25مائیکرو گرام کے
انجیکشن 28دن کے وقفے سے استعمال کرائے گئے تھے۔
لوگوں کو موڈرنا ویکسین کی 100مائیکرو گرام کی ایک خوراک استعمال کرائی جاتی
ہے اور پہلے معلوم نہیں تھا کہ کم مقدار کس حد تک فائدہ مند ہے۔
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سال کے کون سے دن خوش قسمت ترین ہوتے ہیں کہ ان دنوں
میں پیدا ہونے والے لوگ سب سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں؟ مائی ہیریٹیج کے تحقیق کاروں
نے اپنی نئی تحقیق میں اس حوالے سے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ دی سن کے مطابق
ماہرین نے اس تحقیق میں ایک ہزار ایسے لوگوں کی تاریخ پیدائش معلوم کی جو مختلف
ایوارڈز جیت چکے ہیں اور اپنے شعبوں میں کامیاب ترین لوگ گردانے جاتے ہیں۔ان
لوگوں نے جو ایوارڈز جیت رکھے تھے ان میں گرامی ،آسکر ،ورلڈ کپ ،مشعیلین سٹار
ایوارڈ ،گولڈ گلوبز ،پلٹزرپرائز ،نوبل پرائز ،،دی پام ڈی اور دی بُکر پرائزاور اولمپکسŒ
میڈلز شامل تھے۔
جب ان لوگوں کی تاریخ پیدائش کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ 30اپریل سال کا سب سے
خوش قسمت ترین دن تھا جس روز پیدا ہونے والے سب سے زیادہ لوگ ان ایوارڈز یافتہ
لوگوں میں شامل تھے۔ ان 1000لوگوں میں سے 11افراد 30اپریل کو پیدا ہوئے تھے۔
اس کے بعد بالترتیب جن تاریخوں کو خوش قسمت قرار دیا گیا وہ 27اپریل20 ،جنوری،
23مارچ26 ،مارچ29 ،اپریل14 ،ستمبر26 ،ستمبر12 ،نومبر اور 30دسمبر تھیں۔ مہینوں
میں بھی اپریل کا مہینہ سب سے زیادہ خوش قسمت قرار دیا گیا جس میں پیدا ہونے والے
لوگوں نے سب سے زیادہ 99ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کے بعد بالترتیب نومبر ،مارچ،
ستمبر ،جنوری ،اکتوبر ،مئی ،جوالئی ،جون ،اگست ،دسمبر اور فروری میں پیدا ہونے
والوں نے زیادہ ایوارڈز حاصل کیے۔
https://dailypakistan.com.pk/18-Sep-2021/1342376
دنیا بھر میں کووڈ 19سے تحفظ کے لیے مختلف ویکسینز کا استعمال جاری ہے ،حال ہی
میں موڈرنا ویکسین کا نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چال کہ موڈرنا
ویکسین کی کووڈ سے تحفظ فراہم کرنے کی افادیت کئی ماہ بعد گھٹ جاتی ہے۔
یہ بات موڈرنا کی جانب سے جاری نئے ڈیٹا میں بتائی گئی۔
کمپنی کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک 13ماہ قبل دی گئی
تھی ان میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان 8ماہ کے دوران پہلی خوراک لینے والوں سے
زیادہ ہوتا ہے۔
ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ویکسی نیشن سے ملنے واال تحفظ ایک سال کے عرصے میں 36
فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ یہ ڈیٹا موڈرنا کی جانب سے جاری کلینکل ٹرائل کے تیسرے
مرحلے میں اکٹھا کیا گیا تھا۔
اسی کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر امریکا میں ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی
اور اس کے ابتدائی مرحلے میں شامل افراد کو کمپنی کی ایم ٓار این اے ویکسین یا پلیسبو
استعمال کروایا گیا تھا۔
نتائج میں دریافت کیا گیا کہ ٹرائل میں شامل افراد میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان 36
فیصد تک کم تھا۔
ویب ڈیسک
انسانی جسم میں وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ 19کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ
فراہم کرتا ہے ،ماہرین اس حوالے سے کافی تحقیق کر چکے ہیں۔
کیا ٓاپ بھی الجھنوں کا شکار ہیں؟ دماغی بہتری کیلئے ان مشوروں پر
عمل کریں
ویب ڈیسک
کی بنیاد پر لوگوں کو چھ قیمتی مشورے دئیے ہیں جن پر عمل درٓامد دماغی سکون کا
باعث بن سکتا ہے۔
اپنے ٓاپ کو مثبت ٹویٹس کیجئے
ڈاکٹر وینڈی نے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے ٓاپ کو مثبت ،مزاحیہ اور شگفتہ جملے
بھیجیں ،جو دماغی طور پر توانا اور پُرامید رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اگر ٓاپ خود یہ نہیں کرسکتے یا کسی الجھن میں ہیں تو کسی قریبی دوست یا جیون ساتھی
سے کہیں کہ وہ اس میں ٓاپ کی مدد کریں اور ٹویٹس بھیجیں۔
مثبت نتائج کا تصور کیجئے
انہوں نے کہا کہ دن کے ٓاغاز سے ہی اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے مثبت اختتام سوچیں
یعنی سب سے بہترین صورتحال کا تصور کیجئے ،اس سے نہ صرف دماغ مثبت سوچنے
لگے گا بلکہ جسم پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
بے چینی اور اضطراب کو ترقی میں بدلیں
ڈاکٹر وینڈی نے کہا کہ انسان کو کئی طرح کے چیلنجز اور مشکالت کا سامنا ہوتا ہے ،اگر
انسان کوشش کرے تو ان مشکالت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ایسے مواقع پر ہمیں صورتحال کا جائزہ لیکر خیاالت کو مثبت انداز میں جمع کرکے
درست فیصلے کرنے چاہیئں،یعنی بے چینی اور منفی جذبات کو گھماکر دوسرے مثبت
کاموں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی التعداد مثالیں ہیں۔
فطرت سے قریب رہیں
ویب ڈیسک
ایسے وقت میں جب کہ برطانیہ اور افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم ڈیلٹا
پھیلنے کی خبریں آ رہی ہیں جو نہ صرف کوویڈ 19کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھیلتا
ہے بلکہ بچوں پر بھی حملہ کرتا ہے۔
تحقیقات | 128 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہاں یہ سوال پیدا رہا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین بچوں کو دی جا سکتی ہے یا
نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو اس وائرس کے حملے سے بچانے کیلئے ویکسی
نیشن بہت ضروری ہے۔کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسین
لگانے کا عمل بھی جاری ہے تاہم کئی ممالک نے اب اس عمل کو تیز کرتے ہوئے اپنے
18برس سے کم عمر افراد کو بھی ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
دوسری جانب برطانیہ میں بھی 12سے 15برس کے بچوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ
کے لیے فائزر کی ویکسین دی جائے گی تاہم ابھی انہیں اس ویکسین کی صرف ایک
خوراک دی جائے گی۔
اس کے عالوہ کچھ دیگر ممالک بھی بچوں کو ویکسن لگا رہے ہیں لیکن طریقہ کار
مختلف ہے ،پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر(این سی او سی) کے مطابق
پاکستان میں 15سے 17برس کے بچوں کی ویکسینیشن کا عمل 13ستمبر سے شروع ہو
چکا ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام “باخبر سویرا” میں پاکستان پیڈیاٹرک
ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر جمال رضا نے ناظرین سے اہم باتیں شیئر کیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں کہا گیا کہ کورونا وائرس بچوں پر حملہ آور نہیں ہوتا
لیکن اس کی شرح کم تھی ،اب وقت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ نئی قسم ڈیلٹا کے آنے
سے بچوں کی بڑی تعداد اس سے متاثر ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جس طرح بڑی عمر کا کورونا مریض صحت یاب ہونے کے بعد دیگر
جسمانی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا ہے اسی طرح چھوٹے بچے بھی مختلف بیماریوں میں
مبتال ہوسکتے ہیِں۔
اس موقع پر پروفیسر جمال رضا نے عوام سے اپیل کی کہ خدارا اس جان لیوا وائرس سے
خود کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بچانے کیلئے ان کی ویکسی نیشن الزمی کرائیں۔
https://urdu.arynews.tv/corona-vaccine-for-children-delta-variant/
روز مرہ کی خوراک میں یہ تبدیلی ٓاپ کو خوش باش رکھ سکتی ہے
ویب ڈیسک
ویسے تو صحت مند غذا کھانا جسمانی اور دماغی صحت کے لیے ضروری ہے تاہم حال
ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ خوش رہنا چاہتے ہیں تو سبزیوں اور
پھلوں کا استعمال بڑھا دیں
برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کا ورزش کے ساتھ
امتزاج خوشی کا احساس بڑھاتا ہے۔
تحقیقات | 129 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اگرچہ طرز زندگی اور شخصیت پر خوشگوار اثرات کے درمیان تعلق کے بارے میں
ماضی میں تحقیقی رپورٹس سامنے ٓاچکی ہیں اور ماہرین کی جانب سے صحت بخش غذا
اور ورزش کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے ،مگر اس نئی تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ
ان عوامل سے زندگی میں اطمینان بڑھ جاتا ہے۔
یہ اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس میں پھلوں اور سبزیوں کے استعمال اور ورزش کو
خوشی کے احساس کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
اس تحقیق کے لیے طرز زندگی کے عناصر اور خوشی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال
کی گئی اور دریافت ہوا کہ پھلوں ،سبزیوں اور ورزش اس حوالے سے کردار ادا کرتے
ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ مرد ورزش زیادہ کرتے ہیں جبکہ خواتین پھل اور سبزیاں
زیادہ کھاتی ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ طویل المعیاد مقاصد کے لیے رویوں میں تبدیلی النا صحت مند طرز
زندگی کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اچھا طرز زندگی ہمیں صحت مند رکھنے کے ساتھ خوش باش بھی
بناتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پھلوں اور سبزیوں کو زیادہ
کھانے اور ورزش کرنے سے خوشی کا احساس بڑھتا ہے جبکہ دیگر طبی فوائد بھی
حاصل ہوتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/fruit-and-vegetables-can-make-you-happier/
الزائیمرز کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کی وجہ دماغ میں بننے
والے پروٹین ’’ایمیالئیڈز‘‘ ہوتے ہیں جو دماغی خلیوں کو ٓاہستہ ٓاہستہ ختم کر ڈالتے
ہیں۔
اب سائنسدانوں نے اس خطرناک بیماری کا ممکنہ سبب معلوم کرلیا ہےٓ ،اسٹریلوی ماہرین
نے دریافت کیا ہے کہ دماغ کی ایک خطرناک بیماری ’’الزائیمرز‘‘ Œکے اسباب دراصل
جگر سے شروع ہوتے ہیں اور وہیں سے دماغ تک پہنچتے ہیں۔
البتہ یہی پروٹین ہمارے جگر میں بھی بنتے ہیں لہذا ایک متبادل مفروضہ یہ بھی تھا کہ
شاید انسانی جگر میں بننے والے ایمیالئیڈز کسی نہ کسی طرح ہمارے دماغ تک پہنچتے
ہیں جہاں یہ الزائیمرز بیماری کی وجہ بن جاتے ہیں۔
اس مفروضے کو ’’ایمیالئیڈز Œہائپوتھیسس‘‘ بھی کہا جاتا ہے تاہم اس بارے میں اب تک
ہمارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
چوہوں پر کی گئی ایک نئی تحقیق میں بینٹلیٓ ،اسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی کے ماہرین
نے چوہوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جس کے جگر میں انسانی ایمیالئیڈز بن رہے تھے
جنہوں نے دماغ تک پہنچ کر وہاں موجود خلیوں کے مرنے کی رفتار میں اضافہ کردیا
جس سے ان کی یادداشت بھی تیزی سے ختم ہونے لگی۔
یہ وہی مخصوص عالمات ہیں جو الزائیمرز بیماری کی ابتداء سے تعلق رکھتی ہیں ،اس
طرح کم از کم چوہوں کی حد تک اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ الزائیمرز کی ابتداء میں
دماغ سے زیادہ جگر کا کردار ہوتا ہے۔
زندگی میں خوشی کیلئے پھل ،سبزیاں اور ورزش الزمی قرار
ویب ڈیسک
ستمبر 19 2021
واشنگٹن :امریکی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ صحت مند اور خوشحال زندگی کا راز
تازہ سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ورزش میں پوشیدہ ہے۔
یہ بات طبی جریدے جرنل ٓاف ہیپی نیس اسٹیڈیز میں شائع ہونے والی کینٹ یونیورسٹی اور
ریڈنگ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں سامنے ٓائی ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں
اور سبزیوں کا ورزش کے ساتھ امتزاج انسان کی خوشی کا احساس بڑھاتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے طرز زندگی کے عناصر اور خوشی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال
کی گئی اور دریافت ہوا کہ پھلوں ،سبزیوں اور ورزش اس حوالے سے کردار ادا کرتے
ہیں۔
تحقیقات | 132 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
محققین کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ورزش کی عادت اپنانے سے انسان میں
خوشی کا احساس بڑھتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس طرح کرنے سے انسان متعدد بیماریوں سے بھی بچ جاتا جن میں
عارضہ قلب ،شوگر ،کولیسٹرول لیول ،بلڈ پریشر اور کینسر جیسی مہلک و جان لیوا
بیماریاں بھی شامل ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/fruits-vegetables-and-exercise-are-essential-for-
happiness-in-life/
ویب ڈیسک
فیج بیکٹیریا اور اینٹی بایوٹکس Œکے مشترکہ عمل سے ان بیکٹیریا کو بھی ہالک کیا جاسکتا
ہے جو دواؤں سے نہیں مرتے۔
ویب ڈیسک
ستمبر 17 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی ۔کیا جسم میں وٹامن ڈی کی مناسب سطح
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کے شکار افراد میں بیماری کی سنگین
شدت اور موت کے خطرے سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے متعدد ممالک کے سائنسدانوں کی جانب سے
کام کیا جارہا ہے اور اب اس حوالے سے ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔
آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج ،اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ
یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسم میں وٹامن
کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی
ہے۔
اس تحقیق میں جسم میں جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح ،سورج کی روشنی سے جلد
میں وٹامن کی پروڈکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔
ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کی کمی اور وائرل و بیکٹریل نظام تنفس کی
بیماریوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔
اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا
ذکر کیا گیا ،مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے ،زیادہ عمر یا
،کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے
موڈرنا ویکسین فائزر اور جانسن اینڈ جانسن کے مقابلے میں زیادہ مؤثر
قرار
ویب ڈیسک
تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن مکمل ہونے کے 4ماہ بعد تک موڈرنا اور فائزر
ویکسینز کی ہسپتال میں داخلے کی روک تھام کے حوالے سے افادیت لگ بھگ ایک
جیسی تھی۔
مگر 5ویں مہینے میں فائزر کی افادیت 91فیصد سے گھٹ کر 77فیصد تک پہنچ گئی،
مگر موڈرنا کی افادیت میں 5ویں مہینے میں محض ایک فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
محققین نے بتایا کہ اگرچہ حقیقی دنیا کے ڈیٹا میں ویکسین سے ملنے والے تحفظ کی شرح
کچھ حد تک مختلف ہوسکتی ہے ،مگر تمام ویکسینز سے ہسپتال میں داخلے کے خطرے
سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔
محققین نے موڈرنا کی دیرپا افادیت کے حوالے سے چند وجوہات کے بارے میں بھی بتایا
جیسے فائزر کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین کی دوسری خوراک ایک ہفتے تاخیر سے
دی جاتی ہے۔
تحقیق میں کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خال ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی
تھی۔
https://www.dawnnews.tv/news/1168816/
کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کے
خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
امپرئیل کالج لندن ،کنگز کالج ،کیمبرج ،ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس
مشترکہ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کووڈ 19کس حد تک ذہنی صحت
اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔
ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19کا شکار ہوئے ،ان کی ذہنی کارکردگی اس
بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔
ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق ،مسائل حل کرنے ،منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی
افعال زیادہ متاثر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ 19سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل
سے جڑی ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی
شدت پر ہوتا ہے۔
یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی ،ان میں ذہنی افعال کی تنزیلی کی
شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی ،درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت
کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں 7پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النیسٹ میں شائع ہوئے۔
آئی سی یو میں زیر عالج رہنے والے مریضوں کے لیے زیادہ خطرہ
میں چوہوں پر تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ کورونا کے اسپائیک پروٹین ،خون
اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کو عبور کرسکتا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس بھی دماغ میں داخل ہوسکتا ہے جو اپنے
اسپائیک پروٹین جن کو ایس ون پروٹین بھی کہا جاتا ہے ،کو خلیات میں داخل ہونے کے
لیے استعمال کرتا ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین اور پیوگیٹ ساؤنڈ ویٹرنز افیئرز ہیلتھ کیئر
سسٹم کی اس مشترکہ تحقیق کی قیادت کرنے والے ولیم اے بینکس نے بتایا کہ عموما ً
اسپائیک پروٹین خلیات میں داخلے میں مدد دیتا ہے ،مگر ایسے پروٹینز بذات خود بھی اس
وقت تباہی مچاتے ہیں جب وہ وائرس سے الگ ہوتے ہیں اور ورم بھی بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس ون پروٹین ممکنہ طور پر دماغ کو سائٹو کائینز اور ورم بڑھانے
والے مالیکیولز کے اخراج پر مجبور کرتا ہے۔
مگر امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کووڈ سے ہالک ہونے والے 40
افراد کے دماغی خلیات میں وائرل آر این اے یا پروٹینز کے نمونوں کو دریافت نہیں کیا
جاسکا۔جرنل برین میں شائع تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ سابقہ رپورٹس میں
دماغی خلیات میں وائرس کی موجودگی پوسٹمارٹم کے دوران ممکنہ آلودگی کی وجہ سے
ہوئی ہوگی۔
طویل المعیاد دماغی تنزلی کے امراض کا خطرہ
دسمبر 2020میں طبی جریدے نیچر نیوروسائنسز میں شائع تحقیق
اس حوالے سے ابھی کچھ مصدقہ نہیں مگر ابتدائی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے
کہ کووڈ 19یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ
طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔
جوالئی میں الزائمر ایسوسی ایشن کی بین االقوامی کانفرنس میں مختلف تحقیقی رپورٹس
پیش کی گئی تھیں جن میں اشارہ دیا گیا کہ کورونا وائرس سے دماغی افعال پر دیرپا اثرات
مرتب ہوسکتے ہیں بالخصوص بزرگ افراد میں۔
دماغی افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ہر 3میں سے ایک میں عالمات کی شدت
سنگین تھی۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی شدت سے دماغی مسائل کی پیشگوئی نہیں
کی جاسکتی ،بلکہ مرض سے ہی ان مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ،چاہے آپ جتنے زیادہ
یا کم بیمار ہوں۔
محققین کے مطابق اگر بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو لیکن کووڈ کے شکار ہیں
اور معمر ہیں تو ان مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح سونگھنے کی حس سے محرومی بھی دماغی افعال کے مسائل سے جڑی ہوتی
ہے ،سونگھے کی حس سے محرومی کی شدت جتنی زیادہ ہوگی ،دماغی افعال اتنے ہی
زیادہ متاثر ہوں گے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی
دماغی تبدیلیاں مستقل ہوتی ہیں یا ان کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔
دوسری تحقیق یونان کی ٹھیسلے یونیورسٹی کی تھی جس میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے
کے 2ماہ بعد کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19کے عالمات والے ایسے کیسز جن میں مریضوں کو ہسپتال
میں داخل نہیں کیا گیا ان میں بھی ذہنی اور نفسیاتی عالمات عام تھیں۔
ایسے 55فیصد مریضوں نے تھکاوٹ 52 ،فیصد نے سونگھنے کی حس سے محرومی،
47فیصد نے مسلز کی تکلیف 45 ،فیصد نے چکھنے کی حس سے محرومی اور 44
فیصد نے سردرد کو رپورٹ کیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ معمولی حد تک بیمار افراد میں بھی ان عالمات کی
شرح سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں جتنی ہی ہو ،مگر چونکہ ان کو طبی مراکز
میں رپورٹ نہیں کرنا پڑتا تو درست شرح سامنے نہیں آپاتی
https://www.dawnnews.tv/news/1168797/
ویب ڈیسک
ستمبر 19 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی
بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات زیادہ طویل عرصے تک برقرار نہیں رہتیں۔
یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
مردوخ چلڈرنز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں
میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کا تسلسل 12ہفتوں بعد برقرار نہیں رہتا اور چند ایک
تحقیق میں بتایا گیا کہ پہلے سے کسی بیماری جیسے موٹاپے ،گردوں کے امراض ،دل کی
شریانوں سے جڑے امراض اور مدافعتی عارضے کے شکار بچوں میں کووڈ کی سنگین
شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق بچوں میں اکثر کووڈ 19کی شدت معمولی ہوتی ہے یا عالمات ہی ظاہر
نہیں ہوتیں ،جس کے باعث ہسپتال میں داخلے کی شرح بھی بہت کم ہے ،تو النگ کووڈ
کے خطرات اور اثرات کے بارے میں زیادہ سمجھا نہیں جاسکا۔
محققین نے بتایا کہ ابھی تک ہونے والی تحقیق میں عمر بچوں میں النگ کووڈ کیسز کی
واضح تعریف نہیں ہوئی اور نہ ہی عمر سے متعلق ڈیٹا موجود ہے ،بلکہ بچے یا والدین
کی جانب سے رپورٹ عالمات پر انحصار کیا جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ النگ کووڈ عالمات کو دیگر امراض سے الگ امتیاز کرنا مشکل
ہوتا ہے اور اس لیے بھی اس حوالے سے زیادہ تفصیالت جمع نہیں ہوسکیں۔
اس تحقیق میں 19ہزار سے زیادہ بچوں پر ہونے والی 14بین االقوامی تحقیقی رپورٹس کا
تجزیہ کیا گیا تھا جن کی جانب سے کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔
ان کی جانب سے بیماری کے 4سے 12ہفتوں کے دوران جو عالمات سب سے زیادہ
رپورٹ کی گئیں ان میں سردرد ،تھکاوٹ ،نیند متاثر ہونا ،توجہ مرکوز کرنے میں
مشکالت اور پیٹ درد وغیرہ نمایاں تھے۔
اچانک تقریب کا بالوا ٓاجائے یا کسی دعوت پر جاناپڑ جائے تو ایسے میں ہر خاتون جھٹ
پٹ کسی ایسے فیشل سے متعلق سوچتی ہے جس کے نتیجے میں جلد نکھر بھی جائے اور
قدرتی چمک بھی ٓاجائے ،ایسی صورتحال میں پریشان ہونے کے بجائے ایک چکر کچن کا
لگا لیں۔
کچن میں موجود روزانہ کی بنیاد پر استعمال کی جانے والی کچھ اشیاء میں ایسے اجزا
پائے جاتے ہیں جن کی افادیت اور استعمال سے خواتین تا حال ناواقف ہیں۔
اچانک کہیں جانا پڑ جائے تو ہنگامی حاالت میں گھر ہی میں ایمرجنسی ماسک اور فیشل
تیار کیا جا سکتا ہے جس کے نتائج دیکھ کر ٓاپ خود حیران رہ جائیں گی اور اس فیشل کو
معمول کا حصہ بنا لیں گی۔
آپ کی صبح کی غذا آپ کے مزاج اور مجموعی صحت کو کئی طریقوں سے متاثر کرتی
ہے اور ماہرین کی جانب سے اکثر مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنی صبح کی غذا پر خصوصی
توجہ دی جائے کیونکہ صبح کی خوراک کا اثر ٓاپ کی مجموعی صحت پر ہوتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اپنی غذا میں گری دار میوے شامل کرنا کئی ضروری غذائی اجزاء
کی مقدار کو یقینی بنانے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئے بادام سے
کرنا ایک پُرانی رسم ہے جس پر بہت سے لوگ عمل کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہرین نے کہا ہے کہ اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئی گری دار میوے خاص
طور پر بادام اور اخروٹ سے کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئے بادام اور اخروٹ سے کرنا انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ یہ
صحت مند عادت ہارمون کی صحت کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ یہ آپ کی ورزش کے
لیے توانائی بھی فراہم کرے گی اور ان تمام فوائد کو حاصل کرنے کے لیے روزانہ رات
میں تقریبا َ 8گھنٹے تک پانی میں بادام اور اخروٹ بھیگو دیں۔
:بھیگے ہوئے بادام کے فوائد
بادام پروٹین ،وٹامن ای اور میگنیشیم سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بادام
کھانے سے آپ کی یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے ،ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور کولیسٹرول کی
سطح کم ہوتی ہے۔
:بھیگے ہوئے اخروٹ کے فوائد
اخروٹ ومیگا 3فیٹی ایسڈ کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ وٹامن ای ،فولک ایسڈ ،پروٹین اور فائبر
بھی پیش کر سکتا ہے۔ اخروٹ عام طور پر برین فوڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
کیونکہ یہ دماغ کے کام کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اخروٹ کیلشیم،
پوٹاشیم ،آئرن ،تانبا اور زنک کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اخروٹ کو
بھیگونے سے میٹابولزم بڑھتا ہے ،بلڈ شوگر لیول کنٹرول ہوتا ہے اور وزن کم کرنے میں
مزید مدد ملتی ہے۔
:مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے دیگر طریقے
:ورزش
تناؤ ان دنوں روزمرہ کے معمول کا حصہ ہے۔ یہ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کو
متاثر کر سکتا ہے۔ لہٰ ذا ،روزانہ کی بنیاد پر یوگا جیسی کچھ تناؤ کو سنبھالنے کی
سرگرمیوں کو آزمائیں۔
:صبح کے وقت کافی پینا چھوڑدیں
دن کا آغاز چائے یا کافی سے کرنا ایک عام سی بات ہے لیکن یہ پانی کی کمی کا باعث
بن سکتا ہے۔ ل ٰہذا ،صبح چائے یا کافی پینے کا بہترین وقت نہیں ہے۔
https://jang.com.pk/news/985793
شریفہ گرم ٓاب و ہوا کا پھل ہے۔ اسے ہندی زبان میں ’سیتا‘ جبکہ انگریزی زبان
میں’شوگر ایپل یا کسٹرڈ ایپل‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے کھانا دشوار ہے لیکن اس چھوٹے
سے پھل میں قدرت نے بے شمار فوائد چُھپا رکھے ہیں کہ یہ پھل اپنے اندر صحت کا
خزانہ سموئے ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق بے شمار طبی فوائد کی حامل ادرک میں موجود جز ’جینجرول‘
کے باعث اس میں قدرتی طور پر بیماریوں سے لڑنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
ادرک کے استعمال سے شوگر ،دل کی بیماریاں ،پٹھوں کا درد ،پھیپھڑوں کے مسائل،
سوجن میں ٓارام ،دائمی بد ہضمی ،کینسر سے بچأو ،ذہنی دبأو سے نجات سمیت موسمی
بیماریوں سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔
لیموں ادرک کی چائے وزن گھٹانے میں بہت مفید ہے 2012،ء میں کی جانے والی ایک
تحقیق کے مطابق یہ چائے پینے سے بھوک میں کمی ہوتی ہے اور بلڈ شوگر لیول بھی
متوازن رہتا ہے۔
قدرتی طور پر طبی جز رکھنے والی ادرک کی چائے حاملہ خواتین کو متلی اور مارننگ
سکنس سے بچا سکتی ہے ،سستی کا حاوی رہنا ،پٹھوں میں درد ،سوجن اور تھکاوٹ کا
بہترین عالج ہے ،لیموں ادرک کی چائے مضر اثر سے پاک بھی ہے۔
https://jang.com.pk/news/986312
انڈے قدیم زمانے سے غذا کا بنیادی حصہ رہے ہیں اور ہمارے کھانوں میں ان کی مسلسل
موجودگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہمیں صحت سے متعلق کئی فوائد فراہم کرتے ہیں،
اُبلے ہوئے انڈے اور آملیٹ پروٹین ،کیلشیم ،کئی وٹامنز اور غذائی اجزاء کا ذریعہ بھی
ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انڈے پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہیں ،انڈوں میں دل کی صحت مند
غیر محفوظ شدہ چربی بھی ہوتی ہے اور یہ اہم غذائی اجزاء ،جیسے وٹامن بی ،6بی 12
اور وٹامن ڈی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں ،ناشتے میں انڈوں کو اپنی خوراک میں شامل
کرنے کے کچھ فوائد یہ ہیں۔
:ناشتے میں انڈے کھانے کے فوائد
https://jang.com.pk/news/986838
انار کو جنت کا پھل کہا جاتا ہے ،اس کے چھلکوں کو ضائع کرنے کے
بجائے اس کی چائے بنائیں اور 6بڑی بیماریوں سے نجات میں مدد
پائیں
19/09/2021
انار کا شمار ان پھلوں میں ہوتا ہے جن کا ذائقہ ہر عمر کے فرد کو پسند ہوتا ہے اور جس
کے فوائد اس کی غذائیت کے سبب بے تحاشا ہوتے ہیں -مگر انار کے استعمال کے دوران
العلمی کے سبب لوگ اس کے دانے تو کھا لیتے ہیں مگر اس کے چھلکوں کو کچرہ
سمجھ کر پھینک دیتے ہیں جب کہ حقیقت میں انار کے چھلکے بے تحاشا غذائیت کے
حامل ہوتے ہیں -
انار کے چھلکوں کی چائے
انار کے چھلکوں کو استعمال میں النے کے لیے ان چھلکوں کو اچھی طرح دھوپ میں
سکھا لیں اس کے بعد ان کو گرائيںڈر میں اس طرح پیس لیں کہ وہ پأوڈر کی شکل اختیار
کر لےاس پاوڈر کو کسی بھی کافی والی بوتل میں ڈال کر محفوظ کر لیں-ایک کپ پانی
ممیں ٓادھا چمچ پسے ہوئے انار کے چھلکے شامل کر لیں اور اس کو چائے کی طرح
تحقیقات | 158 جلد ، ۵شمارہ ۱۳ | ۱۴۲ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۹ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چولہے پر پکائيں اس کے بعد اس میں حسب ذائقہ لیموں کا رس اور شہد کو شامل کر دیں
اور اس کو ٹھنڈا یا گرم دونوں صورتوں میں پیا جا سکتا ہے -انار کے چھلکوں کی چائے
کے فوائد بار بار پیشاب ٓانے کے لیے اکثر لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کو بار بار
پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے اس تکلیف کے لیے دن میں ایک بار انار کے چھلکوں
کو دن میں ایک بار کسی بھی وقت استعمال کریں اور کچھ ہی دنوں میں فائدہ دیکھیں -پیٹ
کے درد کے لیے اگر کسی وجہ سے پیٹ میں درد ہو رہا ہو اور بدہضمی کی تکلیف کا
بھی سامنا ہو تو اس صورت میں انار کی چائے ایک اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے اور اس
چائے کو ٹھنڈا کر کے دو دو گھونٹ کر کے پالئيں کچھ ہی دیر میں پیٹ کے درد سے افاقہ
ہو جائے گا -سانس کی بدبو کے لیے اکثر لوگوں میں معدے کے مسائل کے سبب یا
مسوڑھوں کی خرابی کی وجہ سے منہ سے بدبو ٓانے کی شکایت ہوتی ہے
جو سخت شرمندگی کا سبب ہوتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے انار کے چھلکوں کی
چائے بہت بہترین ہوتی ہے اس چائے سے کلیاں کرنے سے مسوڑھے ٹھیک ہوتے ہیں
دانت کے درد سے نجات ملتی ہے جب کہ اس کے کچھ گھونٹ پی لینے سے معدے کی
تکالیف میں ٓارام ملتا ہے اور ہاضمہ بہتر ہوتا ہے -بواسیر کے لیے بواسیر چاہے خونی ہو
یا بادی دونوں کے عالج کے لیے انار کے چھلکے اکسیر کا اثر رکھتے ہیں دن میں دو بار
انار کے چھلکوں کی چائے کے استعمال سے ہر طرح کی بواسیر کی تکالیف کا خاتمہ ہوتا
ہے-
ٹانسلز اور گلے کی خراش کے لیے اکثر بچوں میں بار بار گلے خراب ہونے کی وجہ
ٹانسلز قرار دی جاتی ہے جس کے عالج کا واحد حل ان کا ٓاپریشن ہوتا ہے مگر دن میں دو
بار انار کے چھلکوں کی نیم گرم چائے سے غرارے کر کے ٹانسلز کے ٓاپریشن کے
خطرے سے بچا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ہمیشہ کے لیے جان بھی چھڑائی جا سکتی
ہے-
وزن کم کرنے کے لیے اگر کسی کا کولیسٹرول بہت بڑھا ہوا ہو اور وہ وزن کم کرنے کا
بھی خواہشمند ہو تو اس صورت مں اس کو چاہیے کہ وہ انار کی چائے بناتے ہوئے اس
میں ایک ٹکڑا ادرک کا بھی شامل کر لیں اور دن میں دو بار اس کا استعمال کریں کچھ ہی
دنوں میں وزن میں قدرتی طور پر کمی ٓانی شروع ہو جائے گی اور چربی پگھلنے لگے
گی
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-123664.html