You are on page 1of 159

‫ویکلیوار‬

‫ویکلی‬‫ہفتہ‬

‫تحقیقات‬ ‫ی‬ ‫ب‬‫ّ‬ ‫ط‬


‫‪Issue 141 – Vol. 5‬‬

‫ِ‬
‫تحقیقات ‪06 Sep.21 – 12‬‬ ‫ویکلی طِ ّبی‬
‫‪Sep. 2021‬‬
‫ہفتہ وار‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال ہفتہ‬
‫وارجریدہ‬

‫‪Issue 142 – Vol. 5‬‬


‫‪06 Sep.21 – 12 Sep. 2021‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال‬
‫ہفتہ وارجریدہ‬

‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫‪Managing‬‬ ‫‪Editor‬‬
‫‪،‬شمار ‪۱۴۲‬‬ ‫جلد ‪۵‬‬
‫ستمبر ‪ ۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر ‪۱۳ ۲۰۲۱‬‬
‫‪Mujahid Ali‬‬
‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬
‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے‬
‫عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری‬
‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں‬
‫تقریبا پورے پاکستان میں اسکی سرکولیشن کی جاتی‬
‫ہے اورآپکے کاروبار‪ ،‬پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ‬
‫ادارتی ممبران‬
‫کابہترین ذریعہ ہے‬

‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬


‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫مسلم ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات | ‪1‬‬ ‫محمدعباس جلد‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‪,‬‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‪,‬‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تفصیل‬
‫‪ ‬موٹاپے کی پانچ بڑی وجوہات اور ان کا تدارک‬
‫‪Sep 17, 2021 | 19:24:PM‬‬

‫نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) موٹاپے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں تاہم اب ماہرین نے اس‬
‫کی پانچ بڑی وجوہات اور ان کا تدارک لوگوں کو بتا دیا ہے۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق‬
‫ماہرین نے ذہنی دباﺅ‪ ،‬بے خوابی کی بیماری‪ ،‬غیرمتحرک تھائیرائیڈ‪ ،‬خواتین میں حیض کی‬
‫بے قاعدگی اور پولی سسٹک اووری سنڈروم کا عارضہ اور بسیار خوری کی بیماری کو‬
‫‪ ‬موٹاپے کی سب سے بڑی وجوہات قرار دیا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش اور صحت مند انہ خوراک ہمیں ان تمام نقصان‬
‫دہ عوامل سے بچا کر موٹاپے سے محفوظ رکھ سکتی ہیں تاہم تھائیرائیڈ کے غیرمتحرک‬
‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات | ‪2‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہونے‪،‬حیض کی بے قاعدگی‪ ،‬پولی سسٹک اووری سنڈروم اور بسیارخوری کی بیماری‬
‫کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ان بیماریوں میں ‪Binge-eating disorder‬‬
‫ہمارے جسم میں ہارمونز کی کمی بیشی یا عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس سے موٹاپے کے‬
‫عالوہ دیگر کئی طرح کے عارضے بھی الحق ہو سکتے ہیں۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/17-Sep-2021/1341914‬‬

‫کورونا ویکسی نیشن مکمل ہونے کے بعد ’’بوسٹر ڈوز‘‘ کی کوئی‬


‫ضرورت نہیں‪ ،‬ماہرین‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 14  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫بوسٹر ڈوز سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ساری دنیا میں کورونا وائرس کے خالف ویکسی نیشن‬
‫)جلد از جلد مکمل کی جائے۔‬
‫جنیوا‪ :‬طبی ماہرین کے عالمی پینل کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کورونا وائرس کے‬
‫خالف مکمل ویکسی نیشن کروا لی ہے‪ ،‬انہیں‪ ‬تقویتی‪ ‬کو ِوڈ ‪ 19‬ویکسین یعنی ’’بوسٹر‬
‫ڈوز‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکا‪ ،‬برطانیہ‪ ،‬سوئٹزرلینڈ‪ ،‬جمیکا‪ ،‬میکسیکو‪ ،‬جنوبی افریقہ‪ ،‬فرانس اور ہندوستان کے‬
‫عالوہ عالمی ادارہ صحت کے نمائندہ ماہرین کی یہ مشترکہ تحقیق معتبر طبّی جریدے‬
‫’’دی لینسٹ‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہوئی ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسین اور اس کی بوسٹر ڈوز پر کی گئی‬ ‫یہ بات انہوں نے اب تک دنیا بھر میں ِ‬
‫تحقیقات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کہی ہے۔‬
‫ان میں میڈیکل ریسرچ جرنلز میں شائع شدہ تحقیقات کے ساتھ ساتھ وہ طبی تحقیقات بھی‬
‫شامل ہیں جو ’’پری پرنٹ‘‘ سرورز پر حالیہ مہینوں میں شائع کروائی گئی ہیں۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫ان تمام تحقیقات کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ِ‬
‫تمام ویکسینز‪ ،‬اپنی معمول کی خوراک کے حساب سے ناول کورونا وائرس کی تمام اقسام‬
‫کے خالف مؤثر ہیں جن میں ’’ڈیلٹا ویریئنٹ‘‘‪ Œ‬بھی شامل ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے ’’اس مرحلے پر عام ٓابادی کو بوسٹر ڈوز لگانا بالکل‬
‫‘‘بھی مناسب نہیں۔‬
‫ماہرین کی جانب سے یہ اعالن ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے کہ جب بیشتر امیر ملکوں‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی‬ ‫کی اکثریتی ٓابادی میں کورونا ویکسی نیشن مکمل ہوجانے کے بعد ِ‬
‫اضافی خوراکیں (بوسٹر ڈوزز) لگائی جارہی ہیں۔‬
‫سرفہرست ہے جہاں اب تک دس الکھ سے زیادہ افراد کو بوسٹر‬ ‫ان ملکوں میں امریکا ِ‬
‫ڈوزز لگائی جاچکی ہیں جبکہ اس بارے میں خود امریکی ماہرین میں شدید اختالف موجود‬
‫ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک طبقہ بوسٹر ڈوز کے حق میں ہے جبکہ ماہرین کا‪ ‬دوسرا طبقہ اس کے خالف ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت‪ ،‬امریکا اور دوسرے ملکوں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی‬
‫ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے‪ ،‬وہ کورونا وائرس سے بڑی حد تک محفوظ ہوچکے ہیں‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی مزید کسی خوراک کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں۔‬ ‫لہٰ ذا انہیں ِ‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی ’’بوسٹر ڈوز‘‘ پر اصرار‬‫واضح رہے کہ امیر ممالک کی جانب سے ِ‬
‫کے نتیجے میں غریب ملکوں کو مفت کورونا ویکسین فراہم کرنے واال عالمی پروگرام‬
‫’’کوویکس‘‘ شدید طور پر متاثر ہوا ہے اور اب تک متعدد پسماندہ ممالک میں کورونا‬
‫ویکسی نیشن درست طور پر شروع نہیں کی جاسکی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ماہرین کا پیغام بہت واضح ہے‪ :‬بوسٹر ڈوز سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے‬
‫کہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ افراد کی کورونا وائرس کے خالف ویکسی نیشن کا عمل‬
‫جلد از جلد مکمل کیا جائے ورنہ یہ وبا ہمارے لیے مزید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2224630/9812/‬‬

‫چین میں کورونا نے بچوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 14  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسکول میں پھیلنے والی وبا نے ‪ 12‬سال سے کم عمر بچوں میں ویکسی نیشن کرانے اور‬
‫قرنطینہ کی مدت پر سواالت پیدا کر دیے ہیں۔(فوٹو‪ :‬اے ایف پی)‬
‫شیامین‪ :‬چینی صوبے فوجیان کے ‪ 3‬شہروں میں کورونا کے ڈیلٹا ویرئینٹ کا پھیالؤ بڑھ‬
‫گیا‪ 36 ،‬بچوں سمیت ‪ 100‬سے زائد افراد اب تک اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔‬
‫الجزیرہ کے مطابق چین کے شہروں پتیان اور شیامین میں بچوں سمیت ‪ 100‬سو سے زائد‬
‫افراد میں ڈیلٹا وائرس کی موجودگی کے بعد پڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کا ٓاغاز کر دیا گیا‬
‫ہے۔ چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے مطابق قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان شہروں میں کورونا‬
‫ڈیلٹا ویرئنٹ کے پھیالؤ کا ٓاغازجنوب مشرقی شہر پتیان کے ایک پرائمری اسکول سے‬
‫ہوا‪ ،‬جس کے بعد حکام نے وائرس کا پھیالؤ روکنے کے لیے اہم اقدامات کرتے ہوئے‬
‫اسکولوں کو بند کرتے ہوئے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔‬
‫اس بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ فوجیان صوبے کے ‪ 32‬الکھ ٓابادی والے شہر پتیان کے‬
‫تمام شہریوں کو ٹیسٹ کروانے کی ہدایات جاری کردیں گئیں ہیں‪ ،‬شہر میں ڈیلٹا وائرس‬
‫کے کیسز کا تعلق سنگاپور سے واپس ٓانے والے شخص سے جوڑا جا رہا ہے جس کی‬
‫وجہ سے اب تک ‪ 100‬سے زائد افراد ڈیلٹا وائرس کا نشانہ بن چکے ہیں۔‬
‫نینشل ہیلتھ کمیشن کے مطابق گزشتہ روز مقامی طور پر منتقل ہونے والے ‪ 59‬نئے کیس‬
‫رپورٹ کیے گئے ہیں‪ ،‬جب کہ صرف ‪ 4‬دنوں میں فوجیان کے ‪ 3‬شہروں بشمول شیامین‬
‫مجموعی طور پر ‪ 102‬کیسز سامنے ٓاچکے ہیں۔‬
‫حکام کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پراس وبا کے پھیلنے کا سبب پتاؤ پرائمری اسکول میں‬
‫پڑھنے والے بچے کے والدین سے ہے‪ ،‬جنہوں نے گزشتہ ماہ سنگاپور سے واپس ٓاکر‬
‫کورونا کے متعدد ٹیسٹ اورقرنطینہ کی مدت بھی پوری کی تھی۔ تاہم بعد میں ان میں‬
‫کورونا کی عالمات سامنے ٓائیں۔‬
‫گزشتہ ہفتے اسکول میں نیا سال شروع ہونے کے بعد مذکورہ فرد کے ‪ 12‬سالہ بیٹے اور‬
‫اس کے ہم جماعت ڈیلٹا ویرئینٹ کا شکار ہونے والے پہلے مریضوں‪ Œ‬میں شامل تھے۔ ان‬
‫بچوں سے یہ ویرئینٹ پوری کالس میں پھیل گیا اور ‪ 36‬سے زائد بچے اس وائرس میں‬
‫مبتال ہوگئے۔ یہ کورونا وبا کے بعد سے کسی اسکول میں پھیلنے والی سب سے بڑی تعداد‬
‫ہے۔‬
‫سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق اسکول میں پھیلنے والی اس وبا نے ‪ 12‬سال سے‬
‫کم عمر بچوں میں ویکسی نیشن کرانے اور قرنطینہ کی مدت پر سواالت پیدا کر دیے ہیں۔‬
‫جب کہ محکمئہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اب یہ وبا جنوب سے شیامین تک پھیل‬
‫چکی ہے اور رواں ماہ مقامی پھیالؤ کے ‪ 32‬نئے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں‪ ،‬جس میں‬
‫سے ‪ 13‬کیسز صرف ایک ہی دن میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس شہر کے پہلے مریض کا‬
‫تعلق پتیان سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے فرد سے تھا جس میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص‬
‫ہوئی تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حکام نے مزید بتایا کہ نئے کیسز سامنے ٓانے کے بعد شیامین کے کچھ عالقوں میں الک‬
‫ڈاؤن لگا دیا گیا ہے اور اسکولوں کو ٓان الئن کالسز منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ جمز‪،‬‬
‫ریستو ران اور سینیماؤں کو بند کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں جب کہ‬
‫شہریوں کو کورنا وائرس کے ٹیسٹ کروانے کے ساتھ ساتھ شہر نہ‪ ‬چھوڑنے‪ ‬کی ہدایات‬
‫بھی دی گئیں ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2224779/10/‬‬

‫پچاس اقسام کے سرطان شناخت کرنے والے بلڈ ٹیسٹ کی بڑی ٓازمائش‬
‫شروع‬

‫ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 15  ‬ستمبر‪  2021  ‬‬

‫پچاس اقسام کے کینسر شناخت کرنے والے بلڈ ٹیسٹ کی ٓازمائش ایک الکھ چالیس ہزار‬
‫)برطانوی باشندوں پر کی جارہی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لندن‪ :‬برطانیہ میں اس وقت کینسرکی ‪ 50‬سے زائد اقسام کی ممکنہ شناخت کرنے والے‪ ‬‬
‫خون کے ٹیسٹ کی دنیا میں سب سے بڑی ٓازمائش شروع ہوگئی ہے جس میں ایک الکھ‬
‫چالیس ہزار افراد حصہ لیں گے۔ یہ ٓازمائش نیشنل ہیلتھ سروس ( این ایچ ایس) کی جانب‬
‫سے کی جارہی ہے۔‬
‫اس طرح ظاہری عالمات سے پہلے ہی سرطان کی شناخت میں مدد ملے گی اور انسانی‬
‫جانوں کو بچانا ممکن ہوگا۔ اس ٹیسٹ کا نام گیلیری بلڈ ٹیسٹ ہے جو گریل انکارپوریٹڈ‬
‫کمپنی کا وضع کردہ ایک مؤثر ٹیسٹ بھی ‪ ‬ہے۔ خون کا ٹیسٹ مریض کے ڈی این اے کا‬
‫جائزہ لیتا ہے۔ ڈی این اے میں ممکنہ خرابی کی بنا پر کینسر کی شناخت یا پھر پیشگوئی‬
‫کی جاسکتی ہے۔ قبل ازوقت شناخت سے ڈرامائی انداز میں عالج ٓاسان ہوجاتا ہے اور کئی‬
‫جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔‬
‫کنگزکالج لندن سے وابستہ کینسر سے بچاؤ کے ماہر‪ ،‬پیٹر سیسینی اس پروگرام کا جائزہ‬
‫لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیڑھ الکھ افراد پر ٹیسٹ کے بعد اس کی بھرپور افادیت‬
‫سامنے ٓائے گی۔ ڈیڑھ الکھ افراد میں شامل نصف افراد کو گیلیری ٹیسٹ سے گزارا جائے‬
‫گا۔‬
‫برطانیہ میں پھیپھڑوں کا کینسر عام ہے‪ ،‬اس کے ساتھ معدے‪ ،‬پروسٹیٹ‪ ،‬اور سینے کے ’‬
‫سرطان مجموعی طور پر ‪ 45‬فیصد اموات کی وجہ ہیں۔ توقع ہے کہ خون کا صرف ایک‬
‫ٹیسٹ ہی ان سب سے ٓاگاہ کرنے کے لیے کافی ہوگا‪ ‘،‬پروفیسر پیٹر نے کہا۔‬
‫دوسری جانب گیلیری بلڈ ٹیسٹ امریکہ میں بھی استعمال کیا جارہا ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2224820/9812/‬‬

‫زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ ’الٹی سیدھی چیزیں‘ کھانے سے موٹاپا‬


‫ہوتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 15  ‬ستمبر‪  2021  ‬‬
‫جنک فوڈ کم مقدار میں کھانے پر بھی موٹاپے میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے‬
‫ہارورڈ‪ :‬امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپا زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ الٹی سیدھی‬
‫چیزیں کھانے سے ہوتا ہے‪ ،‬چاہے وہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ کھائی جائیں۔‬
‫دی امریکن جرنل ٓاف کلینیکل نیوٹریشن‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی یہ’’‬
‫ڈوگ کی قیادت میں کی گئی ہے جس کے‬ ‫تحقیق بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹر ڈیوڈ لُ ِ‬
‫نتائج اس عام خیال کے برخالف ہیں جو اس وقت ساری دنیا میں مقبول ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫’’‬

‫ٓاپ جتنا زیادہ کھاتے ہیں‪ ،‬اتنے ہی موٹے ہوجاتے ہیں‘‘ اور ’’کم کھائیے‪ ،‬زیادہ حرکت‬
‫کیجیے‘‘ کے روایتی تصور کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ’’انرجی بیلنس ماڈل‘‘ (ای بی‬
‫ایم) کہا جاتا ہے۔‬
‫اس کے مقابلے میں موٹاپے سے متعلق نئے تصور کو ’’کاربوہائیڈریٹ انسولین ماڈل‘‘‬
‫(سی ٓائی ایم) کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬جس کی بنیادیں کم از کم ‪ 120‬سال پرانی ہیں۔‬
‫ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے کم کھانے اور زیادہ چلنے پر بہت زور‬
‫دیا جارہا ہے لیکن پھر بھی موٹے لوگوں کی تعداد اور موٹاپے کی شرح میں مسلسل اضافہ‬
‫ہورہا ہے… کیونکہ گھر میں پکے ہوئے کھانوں کی جگہ صنعتی پیمانے پر تیار کردہ‬
‫غذاؤں (پروسیسڈ فوڈ) کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔‬
‫صنعتی پیمانے پر اشیائے خور و نوش کی تیاری میں قدرتی غذاؤں (پھلوں‪ ،‬سبزیوں اور‬
‫گوشت وغیرہ) میں سے ان کے قدرتی غذائی اجزاء‪ ،‬بالخصوص ریشے (فائبرز) نکال باہر‬
‫کیے جاتے ہیں۔‬
‫دوسری جانب غذائی مصنوعات کی تیاری میں بہت سے ایسے اجزاء بھی شامل کردیئے‬
‫جاتے ہیں جن کی وجہ سے جلدی پیٹ بھرنے کا احساس نہیں ہوتا۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2225081/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ مشینی گردہ شاید ڈائیلیسس مشین کی جگہ لے سکے گا‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬جمعرات‪ 16  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫یونیورسٹی ٓاف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے سائنسدانوں نے دس سال کی محنت سے‬


‫مصنوعی حیاتیاتی گردہ تیار کرلیا ہے۔ فوٹو‪ :‬یوسی ایس ایف‬
‫کیلیفورنیا‪ :‬گردے ناکارہ ہونے کی صورت میں مریضوں کو ہفتےمیں کم ازکم ایک مرتبہ‬
‫تکلیف دہ اور پیچیدہ ڈائلیسس کرانا پڑتا ہے۔ لیکن اب یونیورسٹی ٓاف کیلیفورنیا سان‬
‫فرانسسکو (یوسی ایس ایف) کے سائنسدانوں نے مسلسل دس سال کی محنت سے ایک‬
‫مصنوعی حیاتیاتی گردہ تیار کیا ہے جو ٓاپ کی مٹھی میں سما سکتا ہے۔ جسم اسےقبول‬
‫کرتا ہے اور اضافی دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔‬
‫ہم جانتے ہیں کہ گردے بدن کی چھلنی ہوتے ہیں اور جسم کے زہریلے مائعات فلٹر کرتے‬
‫رہتے ہیں۔ یہ خون کو صاف کرتے ہوئے‪ ،‬بلڈ پریشر کو معمول پر رکھتے ہیں اور‬
‫جسمانی مائعات میں الیکٹروالئٹس‪ Œ‬کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫گردوں کے شدید مرض میں اکثر گردے کا بالکل درست عطیہ نہیں مل پاتا اور یوں مریض‬
‫کو ڈائلیسس کے ایک نہ ختم ہونے والے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ تاہم گردے کی‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پیوندکاری کے بعد بھی جسمانی امنیاتی نظام کی جانب سے گردے کو مسترد کرنے کو‬
‫زائل کرنے والے ادویہ استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔‬

‫یہ نیا قدرتی لیکن مصنوعی گردہ دس سال کی محنت سے تیارکیا گیا ہے۔ کڈنی پروجیکٹ‬
‫کے تحت یہ اہم ایجاد ممکن ہوئی ہے۔ اسے مریض کے جسم میں پیوند کرکے حقیقی کام‬
‫انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کوئی دوا‪ ،‬خون پتال کرنے والے محلون اور‬
‫دیگراشیا کی ضرورت نہیں رہتیں۔‬
‫چوکور بیٹری نما گردہ دو اہم حصوں پر مشتمل ہے۔ سب سے اہم ہیموفلٹر ہے جو سلیکان‬
‫سیمی کنڈکٹر چادر سے بنا ہےجو خون سے مضر مادے فلٹر کرتا ہے۔ دوسری جانب ایک‬
‫حیاتیاتی (بایو) ری ایکٹر ہے جس میں گردے کے ایسے زندہ خلیات موجود ہیں جنہیں‬
‫جینیاتی انجینئرنگ سے تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ خلیات پانی کی مقدار‪ ،‬الیکٹروالئٹ‪ Œ،‬اور دیگر‬
‫افعال کو منظم رکھتےہیں۔‬
‫سب سے پہلے گردے کے الگ الگ حصوں کو کئی انداز سے جانچا گیا۔ اب مکمل نظام‬
‫کو کئی طرح کے ٹیسٹ سے گزارا گیا ہے۔ گردے کو خون کی دو اہم شریانوں سے جوڑا‬
‫جاتا ہے اور اس کی تیسری نلکی پیشاب کی نالی سے جوڑی جاتی ہے۔‬
‫یہ ٓالہ اترتے چڑھتے بلڈ پریشر میں بالکل درست کام کرتا ہے اور اس کا فالتو مائع پیشاب‬
‫کی صورت میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ تاہم مزید طبی ٓازمائش کے لیے اس میں کئی تبدیلیاں‬
‫النا ہوں گی اور ان پر بھی کام جاری ہے۔ اس کے بعد ہی انسانی ٓازمائش کا کوئی مرحلہ‬
‫سامنے ٓاسکے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2225239/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جیب میں سما جانے واال ارزاں اور جدید الٹراساؤنڈ نظام‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 17  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫دنیا کا مختصراور‪ Œ‬مؤثرترین الٹراساؤنڈ نظام جسے ہزاروں افراد پر ٓازمایا گیا ہے۔ فوٹو‪:‬‬
‫بشکریہ بٹرفالئی ٓائی کیو‬
‫نیویارک‪ :‬اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ چارارب افراد ایسے ہیں جنہیں مختلف امراض‪ ‬‬
‫کی تشخیص کے لیے الٹراساؤنڈ اور ایکس رے کی سہولت میسر نہیں۔ اس کا بہترین حل‬
‫ییل یونیورسٹی کے سائنسداں نے دنیا کے سب سے چھوٹے‪ ،‬کم خرچ اور مؤثر ترین‬
‫الٹراساؤنڈ نظام کی صورت میں پیش کیا ہے۔‬
‫جینیات داں پروفیسر جوناتھن روتھبرگ اور ان کی ٹیم نے بٹرفالئی ٓائی کیو نامی ایک ٓالہ‬
‫بنایا ہے۔ انہوں نے ایک عرصے تک تحقیق و تخلیقی عمل انجام دینے کے بعد یہ اہم ایجاد‬
‫کی ہے۔ اس میں دسیوں الکھوں روپے کے بھاری بھرکم الٹراساؤنڈ نظام کی بجائے اسے‬
‫ایک دستی ٓالے میں سمویا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں خردبرقیات(مائیکروالیکٹرانکس) کو‬
‫ٓازمایا گیا ہے اور بڑے سرکٹ کو بہت چھوٹا کرکے ایک ایسے ٓالے میں سمویا گیا ہے جو‬
‫ہاتھ میں سما سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ ٓالہ اس وقت ‪ 150‬ایسے ممالک کو فروخت کیا جارہا ہے جو اس کی قیمت ادا کرسکتے‬
‫ہیں جبکہ بل گیٹس فاؤنڈیشن کے تعاون سے ‪ 53‬غریب ترین ممالک کو بالقیمت فراہم کیا‬
‫جائے گا۔ پروفیسر جوناتھن کے مطابق اگرچہ یہ روایتی الٹراساؤنڈ نظام کی جگہ تو نہیں‬
‫لے سکتا لیکن عین ممکن ہے کہ اس سے الٹراساؤنڈ عکس بندی عام ہوگی اور اس سے‬
‫فوائد حاصل ہوں گے۔‬

‫بٹرفالئی ٓائی کیو کی بنیاد پر اس میں مزید اختراعات کی گئی ہیں ۔ تھوڑی سی تبدیلی کے‬
‫بعد اسے جانوروں کے امراض میں استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب بٹرفالئی ایکسیس‬
‫اور بٹرفالئی اینٹرپرائز سسٹم کی بدولت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور ایک چھوٹے‬
‫سے دیہات میں طبی تشخیص کا پورا نظام مرتب کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس ایجاد کو ٹیلی میڈیسن کے لیے بھی کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ بعض ہسپتالوں کی‬
‫ایمبولینس میں اسے ایمرجنسی کے طور پر بھی کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اسی ٓالے‬
‫کو ایک خالنورد نے خالئی اسٹیشن میں دل کی کیفیت ناپنے کے لیے بھی ٓازمایا ہے۔‬
‫اس طرح بٹرفالئی ٓائی کیو کو کئی اہم طبی امور کے لئے کامیابی سے ٓازمایا جارہا ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2225637/9812/‬‬

‫دل کی بے قاعدہ دھڑکن کے عالج کیلیے جدید ٹیکنالوجی متعارف‬


‫‪ ‬اسٹاف رپورٹر‬

‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہفتہ‪ 18  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫ر‬
‫دل بہت تیزی سے اور بے قاعدگی سے دھڑکنے کا عالج نہ ہونے سے فالج کا حتمی‬
‫خطرہ رہتا ہے ‪،‬ڈاکٹریاور سعید ۔‬
‫کراچی‪ٓ :‬اغا خان یونیورسٹی اسپتال کی کارڈیولوجی اور الیکٹروفزیولوجی ٹیم نے دل کی‪ ‬‬
‫بے قاعدہ دھڑکن کے عالج کے لیے ایک کم خطرے کے حامل نئی ٹیکنالوجی پر مبنی‬
‫پروسیجر کیا۔‬
‫ڈاکٹر یاور سعید‪ ،‬اسسٹنٹ پروفیسر اورکنسلٹنٹ‪ ،‬کارڈیولوجی اور الیکٹروفزیولوجی نے اس‬
‫پروسیجر میں رہنمائی کی‪ ،‬ان کی کارڈیولوجی‪ ،‬الیکٹروفزیولوجی‪ Œ‬کی الگ الگ ٹیم اور‬
‫ریڈیولوجی کے ٹیکنیشنز اس پروسیجر کی مکمل تنظیم اور عمل سیکھنے کے لیے مہینوں‬
‫مصروف رہے۔‬
‫یہ ٹیکنالوجی جو کہ پاکستان میں نسبتا ً نئی ہے‪ ،‬نبض کی بے قاعدگی کے عالج کے لیے‬
‫پرانی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بہت زیادہ موثر‪ ،‬تیز تر اور محفوظ تر ہے‪ ،‬اس جدید‬
‫ترین پروسیجر میں دو سے تین گھنٹے لگتے ہیں‪ ،‬مریض پروسیجر کے ایک ہفتے بعد کام‬
‫پر واپس جاسکتا ہے یا گاڑی چالسکتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر سعید نے اس بات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے‪  ‬بتایا کہ پروسیجر اور طبیعت کی‬
‫بحالی دونوں کا دورانیہ معقول حد تک کم ہوگیا‪ٓ،‬اغا خان یونیورسٹی اسپتال میں دل کی‬
‫دھڑکن سے متعلق دیکھ بھال کے متالشی مریضوں کو دل کی اس پیچیدہ کیفیت کے مٔوثر‬

‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نظم و عالج کے لیے کثیر الشعبہ ٹیم کا فائدہ حاصل ہے‪،‬مریضوں کی ضروریات اور ٓارام‪،‬‬
‫ٓاغا خان یونیورسٹی اسپتال میں ہونے والے ہر‪  ‬عمل میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔‬
‫اس نئی ٹیکنالوجی نے دل کی بے قاعدہ دھڑکن کے عالج کے متالشی مریضوں کے لیے‬
‫اور پاکستان اور دنیا بھر سے کارڈیالوجسٹس کے لیے ٓاغا خان یونیورسٹی اسپتال سے‬
‫ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کردی‪،‬عام ٓابادی میں تقریبا ً ایک سے چار فیصد‬
‫موجودگی کے ساتھ نبض کی بے قاعدگی ایک عام لیکن دل کی دھڑکن کا بہت زیادہ‬
‫خطرے کا حامل مسئلہ ہے جس میں نامناسب برقی تسلسل کی وجہ سے دل بہت تیزی سے‬
‫اور بے قاعدگی سے دھڑکتا ہے۔‬
‫اگر اس کا مناسب طور پر اور بروقت عالج نہ کیا جائے تو یہ فالج کے لیے ایک حتمی‬
‫خطرے کا باعث بن سکتا ہے‪ ،‬ہر چند کہ دل کی دھڑکن کے مسائل کا عالج ٓاغا خان‬
‫یونیورسٹی اسپتال میں باقاعدگی سے جاری ہے‪ ،‬اس نئی ٹیکنالوجی کا استعمال مریضوں‬
‫کو محفوظ اور معیاری صحت کی دیکھ بھال کے لیے خدمات فراہم کرنے کے جاری‬
‫وعدے کا عہد ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2226115/9812/‬‬

‫خطرناک دماغی بیماری کی ابتداء جگر سے ہوتی ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 17  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫الزائیمرز بیماری کی وجہ بننے والے خطرناک پروٹین ’ایمیالئیڈز‘ جگر میں بن کر دماغ‬
‫)تک پہنچتے ہیں۔‬
‫پرتھ‪ٓ :‬اسٹریلوی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دماغ کی ایک خطرناک بیماری‬
‫’’الزائیمرز‘‘ کے اسباب دراصل جگر سے شروع ہوتے ہیں اور وہیں سے دماغ تک‬
‫پہنچتے ہیں۔‬
‫الزائیمرز بیماری میں دماغ کے خلیے تیزی سے مرتے ہیں اور دماغ بھی بتدریج سکڑنے‬
‫لگتا ہے۔ ٓاخرکار یہ عمل مریض کی موت پر جا کر ہی رکتا ہے۔‬
‫اب تک الزائیمرز‪ Œ‬کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کی وجہ دماغ میں‬
‫ہوتے ہیں جو دماغی خلیوں کو ٓاہستہ ٓاہستہ )‪‘‘ (Amyloids‬بننے والے پروٹین ’’ایمیالئیڈز‬
‫ختم کر ڈالتے ہیں۔‬
‫البتہ یہی پروٹین ہمارے جگر میں بھی بنتے ہیں لہذا ایک متبادل مفروضہ یہ بھی تھا کہ‬
‫شاید انسانی جگر میں بننے والے ایمیالئیڈز کسی نہ کسی طرح ہمارے دماغ تک پہنچتے‬
‫ہیں جہاں یہ الزائیمرز بیماری کی وجہ بن جاتے ہیں۔‬
‫اس مفروضے کو ’’ایمیالئیڈز‪ Œ‬ہائپوتھیسس‘‘ بھی کہا جاتا ہے تاہم اس بارے میں اب تک‬
‫ہمارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔‬
‫چوہوں پر کی گئی ایک نئی تحقیق میں بینٹلی‪ٓ ،‬اسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی کے ماہرین‬
‫نے چوہوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جس کے جگر میں انسانی ایمیالئیڈز بن رہے تھے‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جنہوں‪ ‬نے دماغ تک پہنچ کر وہاں موجود خلیوں کے مرنے کی رفتار میں اضافہ کردیا‬
‫جس سے ان کی یادداشت بھی تیزی سے ختم ہونے لگی۔‬
‫یہ وہی مخصوص عالمات ہیں جو الزائیمرز بیماری کی ابتداء سے تعلق رکھتی ہیں۔‬
‫اس طرح کم از کم چوہوں کی حد تک اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ الزائیمرز‪ Œ‬کی ابتداء‬
‫میں دماغ سے زیادہ جگر کا کردار ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کی یہی ٹیم اب انسانی مشاہدات کی تیاری کررہی ہے تاکہ انسانوں کےلیے بھی‬
‫ایمیالئیڈز مفروضے کی حتمی طور پر تصدیق کی جاسکے۔‬
‫اگر یہ بات انسانوں میں بھی درست ثابت ہوئی الزائیمرز کی روک تھام اور ممکنہ عالج‬
‫میں جگر پر بھی توجہ دی جاسکے گی۔‬
‫نوٹ‪ :‬یہ تحقیق ٓان الئن ریسرچ جرنل ’’پی ایل او ایس بائیالوجی‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں‬
‫شائع ہوئی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2226002/9812/‬‬

‫پھل سبزیاں کھائیں اور ورزش کرکے خوشیاں بڑھائیں‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫ہفتہ‪ 18  ‬ستمبر‪2021  ‬‬
‫شیئر‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ورزش کیجئے‪ ،‬پھل اور سبزیاں کھائیے اور خوش رہیں۔‬
‫لندن‪ :‬سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ پھل اور سبزیاں کھانے اور ورزش‪ ‬‬
‫کو معمول بنانے سے ٓاپ کے اطمینان اور مسرت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‬
‫جامعہ کینٹ اور جامعہ ریڈنگ کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھانے اور‬
‫ورزش کی عادت اپنانے سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن بھرپور فوائد کے لیے‬
‫ضروری ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کو کھانے کے ساتھ ساتھ ورزش کو بھی اپنی عادت‬
‫میں شامل کیا جائے۔‬
‫ڈاکٹرایڈیلینا شواڈٹنر اورڈاکٹر سارہ جویل سمیت کئی ماہرین نے کہا ہے کہ ورزش خود‬
‫اپنے ٓاپ پر قابو پانا (سیلف کنٹرول) سکھاتی ہے جس سے خود اعتمادی بڑھتی ہے اور‬
‫مسرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح مرد ورزش کریں تو ان میں فرحت کا احساس بڑھتا‬
‫ہے جبکہ خواتین پھل اور سبزیاں کھائیں تو ان کی خوشی کا احساس بڑھتا ہے۔‬
‫اس طرح پھل‪ ،‬سبزیوں کا استعمال اور ورزش کی عادت صحت اور مسرت دونوں ہی کے‬
‫دوران خون بہتر ہوتا ہے اور مسرت کے ذمے دار‬
‫ِ‬ ‫لیے بہت ضروری ہے۔ ورزش سے‬
‫ہارمون بڑھتے ہیں۔ دوسری جانب پھلوں اور سبزیوں میں موجود کئی جادوئی مرکبات اور‬
‫کیمیائی اجزا ہمیں صحت اور خوشی فراہم کرتے ہیں‬
‫‪https://www.express.pk/story/2226134/9812/‬‬

‫موڈرنا ویکسین لگوانے سے کتنے عرصے کا تحفظ مل سکتا ہے؟‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪15 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ویکسین لگوانے کے بعد اس بیماری سے کتنے عرصے تک تحفظ مل سکتا ہے‬
‫اس حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں‪ ،‬اب حال ہی میں ایک اور نئی تحقیق‬
‫نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے ال جوال انسٹی ٹیوٹ آف امیونولوجی کی‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ موڈرنا ویکسین کی کم مقدار پر مبنی خوراک کا اثر کم از‬
‫کم ‪ 6‬ماہ تک برقرار رہتا ہے اور ویکسی نیشن کروانے والوں کو اضافی خوراک کی‬
‫ضرورت نہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وقت بہت اہم ہے کیونکہ اس عرصے میں حقیقی مدافعتی یادداشت‬
‫تشکیل پانے لگتی ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق موڈرنا کووڈ ویکسین سے ٹھوس سی ڈی ‪ 4‬پلس ہیلپر ٹی سی‪ ،‬سی ڈی ‪8‬‬
‫پلس کلر ٹی سیل اور اینٹی باڈی ردعمل ویکسی نیشن مکمل ہونے کے بعد کم از کم ‪ 6‬ماہ‬
‫بعد برقرار رہتا ہے۔‬
‫اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے خالف مدافعتی ردعمل زیادہ طویل عرصے تک‬
‫برقرار رہ سکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اس ٹھوس مدافعتی یادداشت کا تسلسل ہر عمر کے گروپ‬
‫بشمول ‪ 70‬سال سے زائد عمر کے افراد میں برقرار رہتا ہے‪ ،‬جن میں بیماری کی سنگین‬
‫شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مدافعتی یادداشت مستحکم رہتی ہے جو کہ متاثر کن ہے‪ ،‬جس سے‬
‫ایم آر این اے ویکسینز کے دیرپا ہونے کا اچھا عندیہ ملتا ہے۔‬
‫تحقیق کے لیے ایسے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن کو موڈرنا ویکسین کی ‪25‬‬
‫مائیکرو گرام کی خوراک کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں استعمال کروائی گئی تھی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک خوراک کا چوتھائی حصہ استعمال کرنے‬
‫سے بھی کسی قسم کا مدافعتی ردعمل بنتا ہے یا نہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہمیں موڈرنا ویکسین کے کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں شامل ایسے‬
‫افراد کے نمونے حاصل کرنے کا موقع مال جن کو ویکسین کے ‪ 25 ،25‬مائیکرو گرام کے‬
‫انجیکشن ‪ 28‬دن کے وقفے سے استعمال کروائے گئے تھے۔‬
‫لوگوں کو موڈرنا ویکسین کی ‪ 100‬مائیکرو گرام کی ایک خوراک استعمال کرائی جاتی‬
‫ہے اور پہلے معلوم نہیں تھا کہ کم مقدار کس حد تک فائدہ مند ہے۔‬
‫مگر اب اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کم مقدار بھی اسٹینڈرڈ ڈوز کی طرح ٹی سیل اور‬
‫اینٹی باڈی ردعمل کو پیدا کرتی ہے اور اس کا تسلسل بھی کئی ماہ بعد برقرار رہتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/moderna-vaccine-prevention-duration/‬‬

‫جدید بلڈ ٹیسٹ ‪ :‬عالمات سے قبل خطرناک مرض کی تشخیص ممکن‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪  15 2021‬‬

‫امریکی سائنسدانوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کرلیا ہے جس میں عالمات ظاہر ہونے سے‬
‫قبل ہی کینسر کی تشخیص کی جاسکے گی یعنی بلڈ ٹیسٹ سے بھی کینسر کی تشخیص‬
‫ممکن ہوگی۔‬
‫ہولی گریل طریقہ ڈی این اے میں موجود نہایت چھوٹے کیمیکل سے پتا لگاتا ہے کہ کینسر‬
‫کے جینز متحرک ہیں یا نہیں‪ ،‬نئی ٹیکنالوجی انسانی جسم میں ایک ہی وقت میں ‪ 50‬اقسام‬
‫کے کینسر کی تشخیص کرسکتی ہے۔‬
‫برطانوی این ایچ ایس میں ہولی گریل بلڈ ٹیسٹ کا تجربہ ایک الکھ چالیس ہزار افراد پر‬
‫شروع کردیا گیا ہے جسے کینسر کے عالج میں ایک نیا انقالب قرار دیا جارہا ہے۔‬
‫تاہم یہ ٹیسٹ کینسروں کا پتہ نہیں لگا سکے گا اور این ایچ ایس اسکریننگ پروگراموں کی‬
‫جگہ نہیں لے گا۔‬
‫ماہرین کا ماننا ہے کہ کینسر کو جلدی پکڑنا ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو فوری عالج‬
‫حاصل کرکے اس بیماری کو شکست دے سکتے ہیں اور یہ ٹیسٹ مستقبل میں برطانیہ میں‬
‫ہر سال ہزاروں زندگیاں بچانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔‬
‫ٹیسٹ خلیوں کے ذریعے خون میں جاری ڈی این اے کی اسکریننگ کے ذریعے کام کرے‬
‫گا تاکہ غیر معمولی کیمیائی تبدیلیوں کا پتہ لگا کر ٹیومر کی نشاندہی کی جا سکے۔‬
‫ڈیلی میل کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریبا ‪ 3‬الکھ ‪ 60‬ہزار افراد میں کینسر کی‬
‫تشخیص ہوتی ہے جو کہ روزانہ ایک ہزار کیسز کے برابر ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/modern-blood-tests-diagnosis-of-cancer-‬‬
‫‪screening-program/‬‬

‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫موٹاپے کی بڑی وجہ کھانا ہے یا کچھ اور؟ چونکا دینے واال انکشاف‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪15 2021‬‬

‫جسم کا اضافی وزن اور توند ویسے تو کئی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے مگر حال ہی‬
‫میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موٹاپا عارضہ قلب میں مبتال ہونے کی سب سے بڑی‬
‫وجہ ہے‪ ،‬اب سائنس دانوں نے توند نکلنے وجہ غذائی انتخاب کو قرار دیا ہے۔‬
‫بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول میں ہونے والی حالیہ تحقیق میں سانئس‬
‫دانوں نے غیر معیاری غذا اور پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا انتخاب کو موٹاپے کی وجہ‬
‫قرار دیا ہے۔‬
‫محققین کے تجویز کردہ نئے ماڈل میں موٹاپے کی وجہ موجودہ عہد کے غذائی انتخاب کو‬
‫قرار دیا گیا جس میں ایسی غذاؤں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جو پراسیس اور بہت تیزی‬
‫سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ ان غذاؤں کی وکہ سے میٹابولزم میں تبدیلی رونما ہوتی ہے جو‬
‫جسم میں چربی کو ذخیرہ کرتا ہے جو جسمانی وزنی اضافے کا باعث بنتی ہے۔‬
‫طبی جریدے امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہونے والے نتائج میں کہا گیا‬
‫ہے کہ پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا زیادہ استعمال جسم میں انسولین کا اخراج بڑھاتا اور‬
‫گلوکوز کا اخراج دباتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس عمل کے باعث چربی کے خلیات کو زیادہ کیلوریز جمع کرنے کا سگنل ملتا ہے اور‬
‫مسلز اور میٹابولک متحرک ٹشوز کے لیے دستیاب کیلوریز بہت کم ہوجاتی ہے اور وزن‬
‫میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ جسم کے بڑھتے وزن کو روکنے کےلیے کم چکنائی اور صحت مند‬
‫غذاؤں کا انتخاب کرنا چاہیے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/is-food-the-main-cause-of-obesity-or-something-‬‬
‫‪else-shocking-revelation/‬‬

‫ایسا حیرت انگیز دانت جو اپنی صفائی خود کرتا ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 16 2021‬‬

‫پنسلوانیا ‪ :‬دانتوں کی تکلیف جسم کی دیگر تکالیف سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے‪،‬‬
‫جس سے بچنے کیلئے مریض یا تو دانت جڑ سے ہی نکلوا دیتا ہے اور پھر اس کی جگہ‬
‫مصنوعی دانت لگوانا پڑتا ہے۔‬
‫مصنوعی دانت لگوانے کے بعد اکثر لوگوں کو مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے‬
‫جس میں دانت کی صفائی اور مسوڑھوں پر پڑنے والے مضر اثرات ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دنیا بھر میں لوگ مصنوعی دانت (ڈینٹل امپالنٹ) لگواتے ہیں لیکن ان کی عمر ایک حد‬
‫تک ہی ہوتی اور دوسری جانب وہ مسوڑھوں کی مجموعی صحت کو بھی متاثر کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫اب اس کا حال جامعہ پنسلوانیا کے ماہرین نے ایک ایسے مصنوعی دانت کی صورت میں‬
‫پیش کیا ہے جو بجلی بناتا ہے جس سے میل نہیں جمتا اور مسوڑھے بھی تندرست رہتے‬
‫ہیں۔‬
‫صرف امریکہ میں ہی ‪ 30‬الکھ لوگ ایسے ہیں جو مصنوعی دانت کے ساتھ زندگی‬
‫گزاررہے ہیں‪ ،‬اب جامعہ پنسلوانیہ میں اسکول ٓاف ڈینٹل میڈیسن سے وابستہ پروفیسر‬
‫گیلسو ہوانگ اور ان کے ساتھیوں نے مصنوعی دانت بنایا ہے جو برش کرنے اور چبانے‬
‫کے دوران خود اپنی بجلی بناتا ہے۔‬
‫اس بجلی سے دو کام لیتا ہے یعنی دانت پر میل کچیل کی تہہ نہیں جمتی اور دوم اطراف‬
‫کے مسوڑھے تندرست رہتے ہیں اپنی بجلی کی بدولت مصنوعی دانت معمولی سی روشنی‬
‫خارج کرتا رہتا ہے جو مسوڑھوں کی افزائش کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔‬
‫اس کی وجہ یہ ہے کی مصنوعی دانت کتنے بھی اچھے ہوں اکثر پانچ سے دس برس میں‬
‫گرجاتے ہیں۔ یا پھر وہ مسوڑھوں میں جلن اور بیماریوں کی وجہ بھی بنتے ہیں۔‬
‫مصنوعی دانت کا بیرونی خول خاص نینو ذرات سے بنا ہے جہاں بیکٹیریا جمع نہیں‬
‫ہوسکتے دوم اس میں روشنی خارج کرنے واال نظام ہے جو فوٹوتھراپی کی طرز پر کام‬
‫کرتا ہے۔‬
‫اس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چبانے اور مسواک کرتے ہوئے دانت بجلی بناتا رہتا‬
‫ہے۔ اس کی تفصیالت اے سی ایس اپالئیڈ مٹیریئلز اینڈ انٹرفیسس جرنل میں شائع ہوا ہے۔‬
‫پروفیسرگیلسو کے مطابق فوٹوتھراپی دانتوں کے کئی مسائل حل کرسکتی ہے۔ ضروری‬
‫تھا کہ ایک ایسا دانت بنایا جائے جو داب برق (پیزوالیکٹرک) کی بدولت بجلی پیدا کرے۔‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کام کے لیے الیکٹرانکس میں پہلے سے ہی استعمال ہونے والے مٹیریئل بیریئم ٹیٹانیٹ‬
‫کا انتخاب کیا گیا۔ دوسری جانب یہ دانت اور مسوڑھوں پر بیکٹیریا جمع نہیں ہونے دیتا۔‬
‫پہلے تجربے میں سائنسدانوں نے بیریئم ٹیٹانیٹ پر دانتوں کو کیڑے لگانے والے بدنام‬
‫بیکٹیریئم ’اسٹریپٹو کوکس میوٹانس‘ کو ٓازمایا۔ یہ دانتوں پر جمع ہوکر گہری پیلی پرت کی‬
‫صورت اختیار کرلیتا ہے۔‬
‫مصنوعی دانت کے مٹیریئل پر اس ڈھیٹ بیکٹیریا کی ایک نہ چلی اور وہ اپنی ٓابادی بڑھا‬
‫کر جمع ہونے میں ناکام رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرئیم ٰٹیٹانیٹ اس بیکٹیریا کو‬
‫ہالک کرنے کی صالحیت رکھتا ہے جس کے مزید ثبوت دیکھنا ہوں گے۔‬
‫دوسری جانب مصنوعی دانت کی فوٹوتھراپی سے مسوڑھوں کو ٓارام ملے گا اور دیگر‬
‫صحتمند مسوڑھوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ مصنوعی دانت جس مسوڑھے میں بٹھایا‬
‫جائے گا وہ فوٹوتھراپی سے اسی جگہ کو مضبوط بنائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dentures-dental-implants-phototherapy/‬‬

‫کیا کرونا سے صحت یاب مریضوں پر دوبارہ وائرس کے حملے کا‬


‫خطرہ ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 16 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دعوی کیا ہے کہ کرونا وائرس کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے‬ ‫ٰ‬ ‫امریکی ماہرین نے‬
‫افراد چھ ماہ تک وائرس سے محفوظ رہتے ہیں کیوں کہ ان کے جسم میں موجود وائرس‬
‫ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کا تسلسل انہیں ری انفیکشن سے بچاتا ہے۔‬
‫یہ انکشاف امریکا کی مشی گن یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں ہوا‪ ،‬تحقیق میں کرونا‬
‫وائرس سے متاثر ہونے والے ‪ 130‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کا ابتدائی بیماری‬
‫کے ‪ 3‬اور ‪ 6‬ماہ بعد جائزہ لیا گیا اور ان کے پی سی آر ٹیسٹ کیے گئے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 90‬فیصد متاثرہ افراد میں اسپائیک اور اینٹی باڈیز ردعمل پیدا‬
‫ہوا اور ایک کو چھوڑ تمام افراد میں ان کا تسلسل چھ ماہ تک برقرار رہا۔‬
‫امریکی ماہرین نے کہا کہ کرونا سے متعلق ابتدائی تحقیق کے نتائج پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا‬
‫کہ بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ہی ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔‬
‫تاہم نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کرونا سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں بھی‬
‫اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور وہ کئی ماہ تک برقرار رہتی ہیں۔‬
‫تحقیق کے دورانیے کے دوران جن رضاکاروں میں اینٹی باڈیز بن گئی تھیں وہ دوبارہ اس‬
‫بیماری کے شکار نہیں ہوئے‪ ،‬مگر جن ‪ 15‬افراد میں اینٹی باڈیز ٹیسٹ منفی رہا ان کو ری‬
‫انفیکشن کا سامنا ہوا۔‬
‫واضح رہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں کرونا کی معمولی طور پر متاثرہ ہونے والے‬
‫افراد میں ری انفیکشن کے خطرے میں کمی ثابت ہوئی ہے‪ ،‬اس تحقیق کے نتائج طبی‬
‫جریدے مائیکروبائیولوجی اسپیکٹرم میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/is-there-a-risk-of-re-infection-of-patients-with-‬‬
‫‪coronavirus/‬‬

‫!دل کے دورے سے بچنے کیلئے یہ آسان طریقے اپنائیں‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪16 2021‬‬

‫طب کی دنیا میں دل کے امراض انتہائی سنگین تصور کیے جاتے ہیں کیوں کہ ان‬
‫بیماریوں کے شکار مریضوں کو موت کے خطرات بھی زیادہ الحق ہوتے ہیں۔‬
‫امریکا میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی مناسب مقدار میں پانی پینا دل کے‬
‫دورے سے کافی حد تک بچا سکتا ہے‪ ،‬یومیہ بنیادوں پر ضرورت‪ Œ‬کے مطابق پانی پئیں۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ ٓاسان طریقوں کو اپناتے ہوئے دل کے دورے سے محفوظ رہا جا‬
‫سکتا ہے‪ ،‬جس کا بنیادی نکتہ جسم کو خشکی سے بچانا ہے۔‬
‫خون میں سوڈیم‬
‫امریکی ادارہ امراض قلب‪ ،‬پھیپھڑے اور خون کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق‬
‫میں کہا گیا ہے کہ عمر کی درمیانی حد میں خون میں سوڈیم کی مقدار کے تناسب کا خیال‬
‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫رکھنا اہم ہوتا ہے جبکہ جسم میں رطوبت کے تناسب سے دل کے امراض کے الحق ہونے‬
‫کا خطرہ پتا لگایا جاسکتا ہے‪ ،‬پانی کم پینے سے سوڈیم کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے۔‬
‫بایاں وینٹریکل (دل کا پمپنگ چیمبر)‬
‫تحقیق کے دوران ماہرین نے پانی کے زیادہ استعمال اور بائیں وینٹریکل کی دیوار کی‬
‫موٹائی بڑھنے کے مابین رابطے کے امکان کا بھی جائزہ لیا‪ ،‬بایاں وینٹریکل دل کا اہم‬
‫پمپنگ چیمبر ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکل صورت حال دل کے لیے‬
‫خطرے کا سبب ہو سکتی ہے۔‬
‫روزانہ پانی پئیں‬
‫نتالیہ نامی پروفیسر نے مذکورہ مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہر شخص کو اس‬
‫جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کتنی مقدار میں پانی پیتا ہے‪،‬‬
‫اگر مقدار کم ہے تو اسے بڑھانے کی اشد ضرورت ہوگی‪ ،‬پانی کے مناسب مقدار میں‬
‫استعمال سے دل صحت مند رہتا ہے۔‬
‫پانی‪ ،‬خون کی گردش مناسب طریقے سے جسم میں جاری رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتا‬
‫ہے۔‬
‫بلڈ پریشر‬
‫ماہرین نے کہا کہ اگر جسم کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور وہ خشکی کا شکار ہو رہا‬
‫ہے ایسے میں ردعمل خود کار طریقے سے ہوگا اور پانی کی طلب بڑھ جائے گی جس‬
‫سے بلڈ پریشر کا خطرہ الحق ہونے یا دل کا دورہ پڑنے کا اندیشہ ہوگا۔‬
‫یومیہ پانی کی مقدار‬
‫امریکی قومی اکیڈمی ٓاف سائنسز اینڈ میڈیسن نے مشورہ دیا ہے کہ ایک بالغ مرد کو یومیہ‬
‫‪ 3.7‬لیٹر یا ‪ 15.5‬کپ یومیہ جبکہ خواتین کو ‪ 2.7‬لیٹر یا ‪ 11.5‬کپ پانی پینا چاہیے۔ انسان‬

‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مختلف اقسام کی ڈیری مصنوعات جو چکنائی سے خالی ہوں‪ ،‬کے عالوہ تازہ پھل اور‬
‫سبزیوں کا استعمال یقینی بنائیں‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/how-to-safe-from-heart-attack/‬‬

‫کرونا سے متاثرہ افراد میں بیماری کی شدت کی بڑی وجہ سامنے ٓاگئی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 16 2021‬‬

‫کرونا وائرس کی مہلک وبا سے کچھ افراد کم متاثر ہوتے ہیں جب کہ کچھ افراد میں‬
‫بیماری کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ آٹو اینٹی باڈیز کی شرح میں‬
‫اضافے کو قرار دیا گیا ہے۔‬
‫امریکا کی اسٹینفورڈ میڈیسین کی طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ‬
‫افراد کی بیماری میں شدت کی بڑی وجہ ٓاٹو اینٹی باڈیز ہیں جن کی شرح میں اضافہ‬
‫مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫آٹو اینٹی باڈیز ایسی اینٹی باڈیز کو کہا جاتا ہے جو جسم کے صحت مند ٹشوز یا مدافعتی‬
‫خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔‬
‫ماہرین نے تحقیق میں ایسی اینٹی باڈیز دیکھیں جو مدافعتی خلیات پر ہی حملہ ٓاور ہوتی‬
‫ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ یہ آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کو ضرورت سے زیادہ متحرک‬
‫کردیتی ہیں جسے سائٹوکائین اسٹروم بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬جو بیماری کی عالمات طویل‬
‫عرصے تک برقرار رہنے کا باعث بنتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی سائنس دانوں نے مزید کہا کہ کچھ کیسز میں یہ نئی آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی ردعمل‬
‫کے بہت زیادہ متحرک ہونے کا عندیہ دیتی ہیں جس کے نتیجے میں مریض کے جسمانی‬
‫افعال کو شدید ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫تحقیق کے نتائج سے ویکسینیشن کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے‪ ،‬کرونا ویکسینز سنگل پروٹین‬
‫یعنی اسپائیک پروٹین پر مبنی ہوتی ہیں‪ ،‬ویکسینیشن کی وجہ سے مدافعتی نظام وائرس کے‬
‫حملے پر الجھن کا شکار نہیں ہوتا اور ٓاٹو اینٹی باڈیز کے بننے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا‬
‫ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/main-cause-of-the-severity-of-the-disease-in-‬‬
‫‪people-infected-with-corona/‬‬

‫بچوں میں کووڈ ‪ 19‬الحق ہونے کے خطرات میں اضافہ‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪  17 2021‬‬

‫واشنگٹن‪ :‬امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ کیسز کی‬
‫شرح میں اضافے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی‬
‫اکثریت کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور ان میں بیماری کا خطرہ موجود ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ایک تحقیق کی گئی جس میں طبی ماہرین‬
‫کی جانب سے بچوں اور بالغ افراد میں کووڈ ‪ 19‬کی بیماری کی شدت میں فرق کی جانچ‬
‫کی گئی۔بالغ افراد میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بڑھانے والے عوامل تو کافی‬

‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حد تک سامنے ٓاچکے ہیں مگر بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کے عناصر کے بارے‬
‫میں زیادہ تفصیالت موجود نہیں۔‬
‫اسی کو جاننے کے لیے وینڈر بلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے منرو کاریل جونیئر‬
‫چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے بچوں کے ‪ 45‬ہسپتالوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جہاں ‪20‬‬
‫ہزار مریض زیر عالج رہے تھے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ امریکا بھر میں بچوں میں کووڈ کیسز کی شرح میں اضافے کے بعد‬
‫خدشات بڑھ گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی اکثریت کی ویکسی نیشن نہیں‬
‫ہوئی اور ان میں بیماری کا خطرہ موجود ہے۔‬
‫تحقیق میں بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا باعث بننے والے عناصر کا تعین کیا گیا۔‬
‫تحقیق کے مطابق زیادہ عمر اور مختلف طبی مسائل جیسے موٹاپا‪ ،‬ذیابیطس اور دماغی‬
‫امراض بچوں میں کووڈ کی شدت سنگین بڑھانے والے عناصر ہیں۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ان عناصر سے بیماری کے خالف کمزور بچوں کی شناخت کرنے میں‬
‫مدد مل سکے گی جن میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ نتائج سے‬
‫ان بچوں کے لیے ویکسی نیشن کو ترجیح بنانے کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ کے باعث اپریل سے ستمبر ‪ 2020‬کے دوران ہسپتال‬
‫میں زیر عالج رہنے والے ہر ‪ 4‬میں سے ایک بچے کو سنگین شدت کا سامنا ہوا اور انہیں‬
‫ٓائی سی یو نگہداشت کی ضرورت پڑی۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ کچھ بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہے اور ان‬
‫میں سے بیشتر ویکسی نیشن پروگرام کے لیے اہل نہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/covid-19-in-kids/‬‬

‫موڈرنا ویکسین کی افادیت کتنی ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪17 2021‬‬

‫دنیا بھر میں کووڈ ‪ 19‬سے تحفظ کے لیے مختلف ویکسینز کا استعمال جاری ہے‪ ،‬حال ہی‬
‫میں موڈرنا ویکسین کا نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چال کہ موڈرنا‬
‫ویکسین کی کووڈ سے تحفظ فراہم کرنے کی افادیت کئی ماہ بعد گھٹ جاتی ہے۔‬
‫یہ بات موڈرنا کی جانب سے جاری نئے ڈیٹا میں بتائی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کمپنی کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک ‪ 13‬ماہ قبل دی گئی‬
‫تھی ان میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان ‪ 8‬ماہ کے دوران پہلی خوراک لینے والوں سے‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ویکسی نیشن سے ملنے واال تحفظ ایک سال کے عرصے میں ‪36‬‬
‫فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ یہ ڈیٹا موڈرنا کی جانب سے جاری کلینکل ٹرائل کے تیسرے‬
‫مرحلے میں اکٹھا کیا گیا تھا۔‬
‫اسی کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر امریکا میں ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی‬
‫اور اس کے ابتدائی مرحلے میں شامل افراد کو کمپنی کی ایم ٓار این اے ویکسین یا پلیسبو‬
‫استعمال کروایا گیا تھا۔‬
‫نتائج میں دریافت کیا گیا کہ ٹرائل میں شامل افراد میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان ‪36‬‬
‫فیصد تک کم تھا۔‬
‫ٹرائل ڈیٹا میں دسمبر ‪ 2020‬سے مارچ ‪ 2021‬کے دوران ویکسی نیشن کرانے والے ‪11‬‬
‫ہزار ‪ 431‬رضاکاروں میں سے ‪ 88‬میں بریک تھرو کیسز سامنے آئے تھے۔‬
‫اس کے مقابلے میں جوالئی سے اکتوبر ‪ 2020‬میں ویکسی نیشن کرانے والے ‪ 14‬ہزار‬
‫‪ 746‬افراد میں سے ‪ 162‬بریک تھرو کیسز کی تشخیص ہوئی۔‬
‫موڈرنا کے سی ای او اسٹینف بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ‬
‫گزشتہ سال ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں حالیہ مہینوں میں ویکسی نیشن کرانے‬
‫والوں کے مقابلے میں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس سے ویکسین کی افادیت میں کمی کا عندیہ ملتا ہے اور بوسٹر ڈوز کی‬
‫ضرورت کو سپورٹ ملتی ہے تاکہ تحفظ کی بلند ترین شرح کو برقرار رکھا جاسکے۔‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی ایڈوائزری کمیٹی کا اجالس ‪17‬‬
‫ستمبر کو ہورہا ہے جس میں دستیاب شواہد کی جانچ پڑتال کرکے بوسٹر ڈوز کی منظوری‬
‫دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/new-data-of-moderna-vaccine/‬‬

‫!انٹرنیٹ کے استعمال کی عادت سے انسانی وجود پر پڑنے والے اثرات‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 17 2021‬‬

‫ماہرین کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اس کے زیادہ استعمال سے‬
‫ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‪ ،‬لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کا‬
‫انداز بھی بدل گیا ہے۔‬
‫ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بسنے والے‬
‫افراد پہلے سے کہیں زیادہ انٹرنیٹ سے مربوط ہوئے ہیں‪ ،‬مملکت کی ‪ 3‬کروڑ ‪ 48‬الکھ‬
‫افراد کی ٓابادی کا ‪ 95.7‬فیصد حصہ آن الئن اور آف الئن اور دونوں طرح سے انٹرنیٹ‬
‫کے ساتھ منسلک ہے۔‬
‫سعودی وزیرمواصالت‪ Œ‬و انفارمیشن ٹیکنالوجی عبدہللا السواحہ نے رواں سال کے آغاز میں‬
‫اعالن کیا تھا کہ مملکت ‪ 5‬جی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی رفتار میں عالمی سطح پر‬
‫ساتویں نمبر پر ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی ضمن میں برطانوی کمپنی سوشل امپیکٹ کارپوریشن کے تعاون سے مکہ مکرمہ میں‬
‫المودہ سوسائٹی فار فیملی ڈویلپمنٹ نے اپنی مہم “اسے استعمال کریں‪ ،‬اس کے عادی نہ‬
‫بنیں”کے عنوان سے شروع کی ہے۔ اس اقدام کے تحت جہاں ایک جانب انٹرنیٹ اور‬
‫سوشل میڈیا کی افادیت پر روشنی ڈالی جارہی ہے وہیں منفی اثرات کو بھی مدنظر رکھا گیا‬
‫ہے۔‬
‫اس مہم کے تحت ایک سروے کیا گیا جس میں ‪ 1200‬افراد حصے دار تھے‪ ،‬سروے میں‬
‫معلومات جاننے کے لیے سواالت ٓان الئن اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھیجے گئے جس‬

‫سے پتا چال کہ ‪ 46‬فیصد لوگ دن میں دو سے پانچ گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں یا‬
‫ٓان الئن گیمز کھیلتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایسے افراد جنہوں نے دن میں ‪ 6‬گھنٹے سے زیادہ وقت انٹرنیٹ کے ساتھ گزارا ان کی‬
‫تعداد ‪ 36‬فیصد تھی جبکہ دن بھر میں صرف ایک گھنٹہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی‬
‫تعداد صرف ‪ 6‬فیصد تھی جس سے اندازہ لگایا گیا کہ سعودی شہری بڑی تعداد میں‬
‫انٹرنیٹ سے جڑ چکے ہیں اور کافی وقت اسے دیتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے المودہ سوسائٹی کے ڈائریکٹر جنرل محمد الرادی کا کہنا تھا کہ یہ مہم‬
‫معاشرے کے ایک بڑے طبقے میں انٹرنیٹ کی لت کے خطرات اور کئی میڈیا چینلز کے‬
‫ذریعے عالج کے طریقوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے شروع کی گئی ہے‪،‬‬
‫انٹرنیٹ کو زیادہ وقت دینے سے گھر اور رشتوں کی ذمے داریوں کو باالئے طاق رکھ دی‬
‫جاتی ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی مزاج اور رویوں کے مسائل جنم لے‬
‫رہے ہیں‪ ،‬گیمز اور دیگر ویب سائٹس سے ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/effects-of-internet-use-on-human-existence/‬‬

‫دانتوں میں کیڑا لگنے کی وجوہات اور اس کا عالج‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 17 2021‬‬


‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دانت میں کیڑا لگنا جسے دانتوں کا گلنا یا کیریز بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬عوامل کے ایک مرکب‬
‫کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬یہ خاص طور پر تمام عمر کے لوگوں جس میں بچے‪،‬‬
‫نوعمر اور بوڑھے بھی شامل ہیں ان میں عام ہے۔‬
‫اگر دانت کے کیڑے کا بروقت عالج نہیں کیا جاتا ہے تو وہ بڑے ہوجاتے ہیں اور آپ کے‬
‫دانتوں کی گہری پرتوں کو متاثر کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دانت میں شدید درد‪،‬‬
‫انفیکشن اور دانتوں کے ٹوٹنے کا باعث بن سکتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض دندان‬
‫ڈاکٹرعبدالقادر نے دانتوں کی تکالیف کی وجوہات بیان کیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو اس کے چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہمارے‬
‫دانتوں میں پھنس جاتے ہیں‪ ،‬جب دانتوں میں پھنسے ہوئے کھانے سے منہ میں موجود‬
‫بیکٹیریا آملتے ہیں تو اس کی وجہ سے دانتوں میں “پالک” جمنا شروع ہوجاتا ہے۔‬
‫ڈاکٹرعبدالقادر نے کہا کہ اگر رات کو سونے سے قبل دانتوں کو برش کرلیا ہے تو صبح‬
‫اٹھنے کے فوری بعد صرف کلی اور غرارے کرکے ناشتہ کرلیا جائے اور ناشتے کے بعد‬
‫برش کیا جائے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ذیابیطس ایسی بیماری ہے جو دانتوں پر اثر انداز ہوتی ہے جس کے‬
‫نتیجے میں دانتوں میں گیپ اور مسوڑھوں میں سوجن آجاتی ہے جو کسی طرح بھی ٹھیک‬
‫نہیں۔‬
‫دانتوں میں کیڑا لگ جانے کی عالمات‬
‫دانتوں میں کیڑا لگنے کی بے شمار عالمات ہو سکتی ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو‬
‫ہمیں فوراً معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے دانت میں کیڑا لگ گیا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ٹھنڈا گرم لگنا‬


‫دانتوں میں کیڑا لگنے کی بہت ہی عام سی عالمت یہ ہے کہ ہمیں کھاتے یا پیتے دوران‬
‫ٹھنڈا گرم محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دانتوں کی اوپری سطح جیسے ہی متاثر ہوتی‬
‫ہے ویسے ہی دانتوں میں ٹھنڈا گرم بھی محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‬
‫میٹھا کھاتے ہوئے الگ محسوس ہونا‬
‫دانتوں میں ٹھنڈا گرم لگنے کے عالوہ اگر ٓاپ کو میٹھا کھاتے ہوئے دانتوں پر کچھ الگ یا‬
‫عجیب سا محسوس ہو تو سمجھ لیجیے کہ ٓاپ کے دانت خراب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔‬
‫دانتوں میں تکلیف‬
‫اگر ٓاپ کے دانتوں میں تکلیف محسوس ہونا شروع ہو جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ‬
‫ٓاپ کے دانت خراب ہونا شرع ہوگئے ہیں۔ دانتوں میں کیڑا لگنے کی یہ ایک عالمت اور‬
‫بھی ہے جسے ہم میں سے بہت سے لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔‬
‫دانتوں پر داغ نمودار ہونا‬
‫دانتوں پر ٓاہستہ ٓاہستہ سفید رنگ کے داغ نمودار ہونا دانت خراب ہونے کی عالمت ہے‪،‬‬
‫دانت جتنے خراب ہوتے جائیں گے اُتنا ہی دانت کا اپنا سفید رنگ ماند پڑنا شروع ہوتا‬
‫جائے گا۔‬
‫بہت سے لوگوں کے دانتوں پر سفید‪ ،‬ہلکے کالے یا کتھئی رنگ کے داغ ٓانا شروع ہو‬
‫جاتے ہیں جو کہ دانت میں کیڑا لگنے کی عالمت کو ظاہر کرتے ہیں۔‬
‫دانتوں میں سوراخ ہونا‬

‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر دانتوں میں دھبے نمودار ہونے کے باوجود بھی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے تو اس‬
‫کے نتیجے میں دانت میں سوراخ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر ٓاپ کو دانتوں کے درمیان یا‬
‫داڑھ میں زبان پھیرنے سے سوراخ محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/tooth-worm-dentist-treatment/‬‬

‫چینی ویکسین ‪ 3‬سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار‬


‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪  18 2021‬‬

‫چین میں تیار کی جانے والی ایک کووڈ ‪ 19‬ویکسین ‪ 3‬سال تک کے بچوں کے لیے بھی‬
‫قابل استعمال قرار دی گئی ہے‪ ،‬چین میں اس ویکسین کا استعمال فی الحال ‪ 12‬سال کی‬
‫عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔‬
‫بین االقوامی میڈیا کے مطابق چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین ‪ 3‬سال تک‬
‫کے بچوں کے لیے محفوظ ہے‪ ،‬یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے‬
‫کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج میں سامنے ٓائی۔‬

‫طبی جریدے دی النسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے جس کے مطابق‬
‫یہ ویکسین ‪ 3‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت ہوئی۔‬
‫چین میں اس ویکسین کا استعمال ‪ 12‬سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 2‬خوراکوں والی یہ ویکسین بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل‬
‫اور بالغ افراد جتنی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔‬
‫کمپنی اور چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا‬
‫کہنا تھا کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کا ڈیٹا متحدہ عرب امارات سے اکٹھا کیا جائے گا‬
‫جہاں ‪ 3‬سال کے بچوں کو ویکسی نیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔‬
‫چائنا سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ویکسی نیشن پروگرام کے سربراہ وانگ ہواچنگ‬
‫نے بتایا کہ چین میں ایک ارب افراد کی ویکسی نیشن مکمل کرنے کا سنگ میل طے کرلیا‬
‫گیا ہے مگر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اب بھی ‪ 12‬سال سے کم عمر بچوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوسکی ہے‬
‫اور ان کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جانا چاہیئے۔‬
‫ان ٹرائلز کے پہلے مرحلے میں ‪ 288‬جبکہ دوسرے مرحلے میں ‪ 720‬بچوں کو شامل کیا‬
‫گیا تھا۔‬
‫نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین سے ہونے واال مضر اثر بیشتر بچوں میں معمولی سے معتدل‬
‫تھا‪ ،‬بس ایک بچے کو شدید الرجک ری ایکشن کا سامنا ہوا جس میں پہلے سے فوڈ الرجی‬
‫کی تاریخ تھی‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/kids-vaccination-in-china/‬‬

‫پاکستانی ہوشیار ! چاول کھانے سے کینسر ہو تا ہے ؟‪ ‬برطانوی ادارے‬


‫نے تہلکہ خیز تحقیق جا ری کر دی‬

‫‪16/09/2021‬‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اسالم ٓاباد (مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستانی ہوشیار ! چاول کھانے سے کینسر ہو تا‬
‫ہے ؟‪ ‬برطانوی ادارے نے تہلکہ خیز تحقیق جا ری کر دی۔۔‪ ‬یوں تو چاول نشاستے سے‬
‫بھرپور غذا ہے اور یہ صحت کے لیے نہایت فائدہ مند غذا سمجھی جاتی ہے‪ ،‬لیکن کیا ٓاپ‬
‫جانتے ہیں کہ چاول میں کینسر کی سب سے بڑی وجہ سمجھے جانے والے ٓارسنک شامل‬
‫بھی شامل ہوتے ہیں؟ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک‪ ‬‬
‫رپورٹ کے مطابق ٓارسنک پانی اور مٹی میں شامل ہوتا ہے اور چاول کی فصل کےلیے‬
‫بہت زیادہ پانی لگتا جو ٓارسنک بآاسانی مٹی سے چاول میں شامل ہونے کا باعث بنتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ٓارسنک زہریال ہو سکتا ہے اور یوروپی یونین نے اسے کینسر پیدا‬
‫کرنے والے عناصر میں پہلے درجے میں شامل کیا ہے۔ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی‬
‫کے پروفیسر اینڈی میہارگ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ باسمتی چاول میں دیگر اقسام‬
‫کے مقابلے میں ٓارسنک کی سطح کم ہوتی ہے‬
‫جب کہ برأون رائس میں ٓارسنک زیادہ پایا جاتا ہے۔ ٓارسنک جیسے زہریلے مادوں کے‬
‫خوراک میں موجود ہونے سے انسانی جانوں کو نقصان ہو سکتا ہے‪ ،‬پالش کیے ہوئے ایک‬
‫کلو چاول میں زیادہ سے زیادہ ‪ 0.2‬ملی گرام تک ٓارسنک کی مقدار کو عام لوگوں کی‬
‫صحت اور تجارتی نقطہ نظر سے ٹھیک قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین نے تحقیق میں دریافت کیا‬
‫ہے کہ اگر رات کو چاول بھگو کر رکھ دیئے جائیں اور اگلے روز صاف پانی سے چاول‬
‫کو اچھی طرح دھونے کے بعد پکایا جائے تو اس میں موجود ٓارسنک کی سطح کو کم کیا‬
‫جا سکتا ہے۔ چاول پکانے کے دوران بھی چاول کا پانی ایک ابال ٓانے کے بعد اگر بدل دیا‬
‫جائے تو بھی ٓارسنک کو کم کرنے میں مدد ہوتی ہے‪ ،‬اس طریقے سے چاول پکانے سے‬
‫اس میں موجود ٓارسنک کو ‪ 80‬فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ امریکی ادارے فوڈ سٹینڈرڈز‬
‫ایجینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ‪ 70‬کلو وزن کے حامل شخص کا ‪ 100‬گرام تک‬
‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چاول کھانا ٹھیک ہے۔ پروفیسر اینڈی میہارگ کا خیال ہے کہ بچوں سمیت وہ افراد جو‬
‫زیادہ چاول کھاتے ہیں‪ ،‬ان کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-123309.html‬‬

‫برسوں تک جوان کیسے رہا جا سکتا ہے؟ماہرین نے بتا دیا‬


‫‪     ‬‬

‫‪15/09/2021‬‬

‫فٹنس ایکسپرٹس ‪ ‬اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بڑھتی عمر ‪ ‬ایک قدرتی عمل ہے مگر‬
‫طرز زندگی اور غذا سے ‪ ‬بھی ہے‪ ،‬انسان میں بڑھتی عمر‬ ‫ِ‬ ‫اس کا ‪ 80‬فیصد تعلق ٓاپ کے‬
‫کے اثرات سب سے پہلے چہرے اور بالوں پر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اکثر افراد صبح‬
‫کا ناشتہ یا تو‪ ‬‬

‫مضر صحت غذأوں سے کرتے ہیں‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫گھر سے باہر دفتر میں کرتے ہیں یا گھر میں ہی‬
‫دونوں صورتیں ہی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق صبح کا‬
‫ناشتہ کئے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے یہ دن کی پہلی غذا سارا دن جسم کو‬
‫توانائی فراہم کرتی ہے‪ ،‬اس کے عالوہ کچھ ایسی غذائیں بھی ہیں جو برسہا برس ٓاپ کو‬
‫تندرست و جوان رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ناشتے میں‬
‫َجو کا دلیہ کھانے سے خراب کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے‪َ ،‬جو کے دلیے میں پالنٹ‬
‫فائبر ‪ ،‬نائٹروجن کمپأونڈز‪ ،‬گوند‪ ،‬چینی اور فیٹس کی معمولی مقدار کے عالوہ نشاستہ بھی‬
‫پایا جاتا ہے جو کہ انسانی جسم سے خراب کولیسٹرول کی مقدار کم کر کے تندرست بناتا‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے۔مختلف اقسام کی چائے میں بڑھتی عمر کے اثرات زائل کرنے والے اینٹی ٓاکسیڈنٹس‬
‫پائے جاتے ہیں تاہم دیگر اقسام کی چائے کی نسبت سبز چائے میں اینٹی ایجنگ‬
‫خصوصیات زیادہ پائی جاتی ہیں۔سبز چائے کا استعمال ِجلد کے کینسر سمیت معدے اور‬
‫ٓانتوں کے کینسر کے خالف بھی مزاحمت پیدا کرتا ہے۔پپیتا مختلف اقسام کی اینٹی‬
‫ٓاکسیڈنٹس خصوصیات‪ ،‬معدنیات اور حیاتین پر مشتمل ہوتا ہے۔پپیتے میں موجود خصوصی‬
‫انزائمز (پاپین‪ ،‬بیٹاکیروٹین اور الئیکوپین)‪ Œ‬کی موجودگی اسے صحت اور ِجلد کے لیے‬
‫متعدد فوائد کا حامل بناتی ہے۔لہٰ ذا دن کا ٓاغاز پپیتے جیسے ذائقے دار پھل سے بھی کیا جا‬
‫سکتا ہے۔ بلیو بیریز چھوٹا سا پھل انسانی جسم میں جاکر بیش بہا فوائد کا باعث بنتا ہے۔بلیو‬
‫بیریز اینٹی ایجنگ خصوصیت سیت متعدد بیماریوں کے خالف مزاحمت کا کام کرتی ہیں‪،‬‬
‫بلو بیریز کے استعمال سے طویل عرصے تک چاق و چوبند اور جوان رہا جا سکتا ہے۔‬
‫وٹامنز اور فائبر سے بھرپور یہ پھل چہرے کی سرخی بڑھانے اور ِجلد کی رنگت‬
‫سنوارنے کا کام بھی کرتا ہے۔بلیو بیری میں موجود وٹامن سی اور ای کے باعث ِجلد کی‬
‫شادابی اور جگمگاہٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور ٓانکھوں کی خوبصورتی ماند کرنے والے‬
‫سیاہ حلقوں کا خاتمہ بھی ممکن ہوتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-123201.html‬‬

‫چینی کمپنی کی کووڈ ویکسین ‪ 3‬سال تک کے بچوں کیلئے محفوظ قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪17 2021‬‬

‫رائٹرز فوٹو —‬
‫چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین ‪ 3‬سال تک کے بچوں کے لیے محفوظ‬
‫ہے۔یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج‬
‫میں سامنے آئی۔طبی جریدے دی النسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جس کے مطابق یہ ویکسین ‪ 3‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت‬
‫ہوئی۔چین میں اس ویکسین کا استعمال ‪ 12‬سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔‬
‫ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 2‬خوراکوں والی یہ ویکسین بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل‬
‫اور بالغ افراد جتنی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔‬
‫کمپنی اور چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق میں شامل محققین کا‬
‫کہنا تھا کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کا ڈیٹا متحدہ عرب امارات سے اکٹھا کیا جائے گا‬
‫جہاں ‪ 3‬سال کے بچوں ویکسینیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔‬
‫چائنا سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ویکسینیشن پروگرام کے سربراہ وانگ ہواچنگ‬
‫نے بتایا کہ چین میں ایک ارب افراد کی ویکسینیشن مکمل کرنے کا سنگ میل طے کرلیا‬
‫گیا ہے مگر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اب بھی ‪ 12‬سال سے کم عمر بچوں کی ویکسینیشن نہیں ہوسکی ہے اور‬
‫ان کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔‬
‫ان ٹرائلز کے پہلے مرحلے میں ‪ 288‬جبکہ دوسرے مرحلے میں ‪ 720‬بچوں کو شامل کیا‬
‫گیا تھا۔‬
‫نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین سے ہونے واال مضر اثر بیشتر بچوں میں معمولی سے معتدل‬
‫تھا‪ ،‬بس ایک بچے کو شدید الرجک ری ایکشن کا سامنا ہوا جس میں پہلے سے فوڈ الرجی‬
‫کی تاریخ تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس سے قبل جوالئی میں سائنو ویک نے بچوں میں کلینکل ٹرائلز کے پہلے اور دوسرے‬
‫مرحلے کے نتائج جاری کیے تھے جبکہ تیسرے مرحلے کا ترائل ستمبر ‪ 2021‬میں ہی‬
‫جنوبی افریقہ میں شروع ہوا۔‬
‫دونوں ویکسینز کو پہلے ہی چین میں ‪ 3‬سے ‪ 17‬سال کے بچوں کے لیے ہنگامی استعمال‬
‫کی منظوری دی جاچکی ہے‪ ،‬مگر فی الحال ‪ 12‬سال یا اس سے زائد عمر کی ہی‬
‫ویکسینیشن ہوہری ہے۔‬
‫چین میں اب تک ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے گروپ کے ‪ 91‬فیصد افراد کی ویکسینیشن مکمل‬
‫ہوچکی ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168698/‬‬

‫کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں دوبارہ بیماری کا‬
‫خطرہ ہوتا ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪15 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے بیشتر‬
‫افراد کو ‪ 6‬ماہ تک دوبارہ اس سے متاثر ہونے سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫مشی گن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا‬
‫کرنے والے بیشتر افراد میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کا تسلسل کم از کم ‪ 6‬ماہ‬
‫تک برقرار رہتا ہے اور ان کو ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے دوران کووڈ کا سامنا کرنے والے ‪ 130‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیقق میں ان افراد کا جائزہ ابتدائی بیماری کے ‪ 3‬اور ‪ 6‬ماہ بعد لیا گیا اور ان کے پی سی‬
‫آر ٹیسٹ کیے گئے۔‬
‫ان میں سے ‪ 3‬مریض کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد ہسپتال میں زیرعالج رہے تھے جبکہ‬
‫باقی افراد کا عالج گھر میں ہی ہوا تھا کیونکہ بیماری کی شدت زیادہ نہیں تھی۔‬
‫ان افراد کو سردرد‪ ،‬ٹھنڈ لگنے اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی جیسی‬
‫عالمات کا سامنا ہوا تھا۔‬
‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 90‬فیصد مریضوں میں اسپائیک اور اینٹی باڈیز ردعمل پیدا‬
‫ہوا اور ایک کو چھوڑ تمام افراد میں ان کا تسلسل ‪ 6‬ماہ تک برقرار رہا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے‬
‫والے افراد میں ہی ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے‪ ،‬مگر ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا‬
‫ہے کہ کووڈ سے معمولی بیمار ہونے والے لوگوں میں بھی اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور وہ‬
‫کئی ماہ تک برقرار رہتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں شامل افراد مشی گن میڈیسین ہیلتھ میں کام کرنے والے افراد یا وہاں زیرعالج‬
‫رہنے والے مریض تھے۔‬
‫بیشتر رضاکاروں کو اس سے قبل اسی تحقیقی ٹیم کی ایک اور تحقیق کا حصہ بھی بنایا گیا‬
‫تھا جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ اینٹی باڈی ٹیسٹ سابقہ بیماری کی پیشگوئی کے لیے‬
‫مؤثر ثابت ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے دورانیے کے دوران جن رضاکاروں میں اینٹی باڈیز بن گئی تھیں وہ دوبارہ اس‬
‫بیماری کے شکار نہیں ہوئے‪ ،‬مگر جن ‪ 15‬افراد میں اینٹی باڈیز ٹیسٹ منفی رہا ان کو ری‬
‫انفیکشن کا سامنا ہوا۔‬
‫محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ابتدائی بیماری کے ‪ 3‬ماہ اور ‪ 6‬ماہ بعد بھی وائرس‬
‫ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کے خالف‬
‫کام کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہیں‪ ،‬مگر نئے نتائج سے‬

‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫معمولی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں بھی طویل المعیاد مدافعت کے شواہد ملتے‬
‫ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جس میں کووڈ کی معمولی‬
‫بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں ری انفیکشن کے خطرے میں کمی ثابت ہوا ہے۔‬
‫اب محققین کی جانب سے اس گروپ کے نمونے بیماری کے ایک سال بعد نمونوں کے‬
‫تجزیے کی منصوبہ بنندی کی جارہی ہے تاکہ اینٹی باڈی ردعمل کی مزید جانچ پڑتال کی‬
‫جاسکے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے مائیکروبائیولوجی اسپیکٹرم میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168502/‬‬

‫کووڈ کے کچھ مریض بہت زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں؟ ممکنہ وجہ‬
‫سامنے آگئی‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪15 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا وائرس کے اکثر افراد میں اس کی شدت زیادہ نہیں ہوتی بلکہ عالمات بھی نظر‬
‫نہیں آتیں مگر کچھ جان لیوا حد تک بیمار ہوجاتے ہیں‪ ،‬مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟‬
‫یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دنیا بھر کے ماہرین طب جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔‬
‫اب بظاہر اس کا ایک جواب سامنے آگیا ہے اور وہ ہے آٹو اینٹی باڈیز‪ ،‬جن سے کووڈ ‪19‬‬
‫کی شدت سنگین یا جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫اسٹینفورڈ میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوکر ہسپتال میں‬
‫زیرعالج رہنے والے مریضوں میں نقصان دہ آٹو اینٹی باڈیز کی شرح بڑھنے کا خطرہ‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫آٹو اینٹی باڈیز ایسی اینٹی باڈیز کو کہا جاتا ہے جو جسم کے صحت مند ٹشوز یا مدافعتی‬
‫خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر کوئی فرد کووڈ ‪ 19‬سے بیمار ہوکر ہسپتال پہنچ جائے تو‬
‫ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ضروری نہیں کہ وہ مکمل صحتیاب ہوجائیں۔‬
‫اس تحقیق کے لیے مارچ اور اپریل ‪ 2020‬میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعالج رہنے‬
‫والے ‪ 147‬مریضوں کے خون کے نمونوں میں آٹو اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫محققین نے وائرس کو ہدف بنانے والی اینٹی باڈیز کو شناخت اور ان کی سطح کی جانچ‬
‫پڑتال کی گئی اور ایسی اینٹی باڈیز کو بھی دیکھا گیا جو مدافعتی خلیات پر ہی حملہ آور‬
‫ہوجاتی ہیں۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے ‪ 60‬فیصد مریضوں میں آٹو اینٹی‬
‫باڈیز کو دریافت کیا جبکہ ایک کنٹرول گروپ کے ‪ 15‬فیصد صحت مند افراد میں یہ ان کو‬
‫دیکھا گیا۔‬
‫یہ آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی نظام کو بہت زیادہ متحرک کردیتی ہیں جسے سائٹوکائین اسٹروم‬
‫بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں بیماری کی عالمات طویل عرصے تک برقرار‬
‫رہتی ہیں۔‬
‫محققین نے ‪ 50‬مریضوں کے خون کے نمونوں ہسپتال میں داخلے کے پہلے دن کے ساتھ‬
‫ساتھ مختلف دنوں میں اکٹھے کیے تھے‪ ،‬جس سے انہیں آٹو اینٹی باڈیز کی پیشرفت کو‬
‫ٹریک کرنے کا موقع مال۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں داخلے کے ایک ہفتے کے اندر ‪ 20‬فیصد مریضوں میں ایسی‬
‫آٹو اینٹی باڈیز بن گئیں جو خود ان کے ٹشوز پر حملہ آور ہوسکتی تھیں‪ ،‬بیشتر کیسز میں‬
‫یہ ان آٹو اینٹی باڈیز کی سطح اتنی زیادہ ہوتی ہے جتنی کسی آٹو امیون بیماری کی‬
‫تشخیص میں نظر آتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کچھ کیسز میں یہ نئی آٹو اینٹی باڈیز مدافعتی ردعمل کے بہت زیادہ‬
‫متحرک ہونے کا عندیہ دیتی ہیں جس کے نتیجے میں مریض کے جسمانی افعال کو شدید‬
‫ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کچھ کیسز میں یہ آٹو اینٹی باڈیز بننے کی وجہ وائرل میٹریلز ہوتے ہیں جو ہمارے پروٹینز‬
‫سے مماثلت رکھتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کووڈ کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے باعث‬
‫مدافعتی ردعمل کی شدت بڑھنے کے نتیجے میں وارئل ذرات ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے‬
‫ہیں‪ ،‬جس کے باعث مدافعتی نظام کو وائرس کے ایسے ٹکڑے اور حصے دیکھنے کو‬
‫ملتے ہیں جو اس نے پہلے دیکھے نہیں ہوتے‪ ،‬اگر یہ وائرل ٹکڑے ہمارے اپنے پروٹیشنز‬
‫سے مماثلت رکھتے ہوں تو آٹو اینٹی باڈی بننے کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ نتائج سے ویکسینیشن کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے‪ ،‬کووڈ ویکسینز سنگل‬
‫پروٹین یعنی اسپائیک پروٹین پر مبنی ہوتی ہیں‪ ،‬ویکسینیشن کے نتیجے میں مدافعتی نظام‬
‫وائرس کے حملے پر الجھن کا شکار نہیں ہوتا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن سے ورم کا سامنا بھی بریک تھرو انفیکشن کی صورت میں‬
‫کم ہوتا ہے‪ ،‬تو مدافعتی نظام سے آٹو اینٹی باڈیز بننے کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168504/‬‬

‫فائزر ویکسین کی تیسری خوراک کی افادیت کا ڈیٹا سامنے آگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪16 2021‬‬

‫فائزر ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 6‬ماہ بعد تیسری خوراک دینے سے‬
‫بیماری سے تحفظ کی شرح دوبارہ ‪ 95‬فیصد ہوجاتی ہے۔‬
‫یہ بات فائزر کمپنی کی جانب سے امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے)‬
‫میں جمع کرائے گئے ڈیٹا میں سامنے آئی۔‬
‫یہ ڈیٹا اسرائیل میں فائزر کی تیسری خوراک کے استعمال کے نتائج پر مبنی ہے۔‬
‫فائزر کی جانب سے ‪ 52‬صفحات پر مبنی ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اگرچہ ایم آر این اے ویکسین‬
‫کی افادیت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے مدافعتی ردعمل اسی سطح‬
‫پر پہنچ جاتا ہے جو دوسری خوراک کے بعد نظر آتا ہے۔‬
‫کمپنی نے مزید بتایا کہ اسرائیل کے کووڈ ویکسینیشن پروگرام کے تحت لوگوں کو تیسری‬
‫خوراک فراہم کی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کمپنی کے مطابق ویکسین کی تیسری خوراک سے لوگوں کا مدافعتی ردعمل دوبارہ اتنا‬
‫مضبوط ہوگیا جتنا دوسری خوراک کے استعمال کے بعد ہوتا ہے اور بیماری سے تحفظ‬
‫کی شرح ‪ 95‬فیصد ہوجاتی ہے۔‬
‫یہ ڈیٹا یکم جوالئی سے ‪ 30‬اگست کے درمیان اکتھا کیا گیا تھا جب اسرائیل میں کورونا کی‬
‫قسم ڈیلٹا کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔‬
‫ایف ڈی اے کی جانب سے یہ ڈیٹا اس وقت جاری کیا گیا جب ادارے کو بائیڈن انتظامیہ کی‬
‫جانب سے اگلے ہفتے بوسٹر ڈوز کی منظوری دیئے جانے کا دباؤ ڈاال جارہا ہے۔‬
‫مگر ایف ڈی اے کے عملے نے فائزر کے ڈیٹا میں تیسری خوراک کی ضرورت کے‬
‫حوالے سے مؤقف دینے سے انکار کیا تاہم یہ ضرور کہا کہ ممکنہ طور پر لوگوں کو‬
‫ابھی ویکسین کی تیسری خوراک دینے کی ضرورت نہیں۔‬
‫عملے کا کہنا ہے کہ متعلقہ تحقیقی رپورٹس پر نظرثانی کے دوران فائزر ویکسین کی‬
‫افادیت میں کمی کی بات سامنے آئی ہے مگر ان کے نتائج ملے جلے ہیں اور کچھ ڈیٹا شاید‬
‫دیگر سے زیادہ قابل انحصار ہے۔‬
‫فائزر کا ڈیٹا ایک مشاہداتی تحقیق سے اکٹھا کیا گیا جو رسمی کینکل ٹرائل کے معیار پر‬
‫پوری نہیں اترتی۔‬
‫ایف ڈی اے کے عہدیداران نے اپنے تجزیے میں کہا کہ اگرچہ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس‬
‫میں حقیقی دنیا میں ویکسین کی افادیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے‪ ،‬مگر مختلف‬
‫عناصر ان کے قابل اعتبار ہونے پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فائزر کا ڈیٹا ایف ڈی اے کی ایڈوائزری کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا جس کا اجالس ‪17‬‬
‫ستمبر کو ہونا ہے تاکہ فائزر اور بائیو این ٹیک کی عام آبادی کو بوسٹر ڈوز فراہم کرنے‬
‫کی درخواست کی منظوری دی جاسکے۔‬
‫ڈیٹا کو مدنظر رکھتے ہوئے فائزر نے بتایا کہ اس نے ایسے افراد کو بوسٹر ڈوز فراہم‬
‫کرنے کے الئسنس کی درخواست جمع کرائی ہے جن کی ویکسینیشن کو مکمل ہوئے ‪ 6‬ماہ‬
‫ہوچکے ہیں اور ان کی عمر ‪ 16‬سال سے زیادہ ہے۔‬
‫کمپنی کی جانب سے ‪ 300‬افراد کے ایک کلینکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے ڈیٹا کو‬
‫بھی جمع کرایا گیا ہے۔‬
‫اس ٹرائل میں شامل افراد کی عمریں ‪ 19‬سے ‪ 55‬سال تھی اور ایک تہائی افراد زیادہ‬
‫—جسمانی وزن اور ایک تہائی موٹاپے کے شکار تھے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168508/‬‬

‫کن بچوں میں کووڈ‪ 19-‬کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ ہوتا ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪16 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی طبی ماہرین کی جانب سے بچوں اور بالغ افراد‬
‫میں کووڈ ‪ 19‬کی بیماری کی شدت میں فرق کی جانب توجہ دالئی گئی تھی۔‬
‫اگرچہ بالغ افراد میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ بڑھانے والے عوامل تو کافی‬
‫حد تک سامنے آچکے ہیں مگر بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کے عناصر کے بارے‬
‫میں زیادہ تفصیالت موجود نہیں۔‬
‫اسی کو جاننے کے لیے وینڈر بلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے منرو کاریل جونیئر‬
‫چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے بچوں کے ‪ 45‬ہسپتالوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جہاں ‪20‬‬
‫ہزار مریض زیر عالج رہے تھے۔‬
‫محققین کے مطابق یہ امریکا میں کووڈ ‪ 19‬کے مریض بچوں پر ہونے والی سب سے بڑی‬
‫تحقیق ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ امریکا بھر میں بچوں میں کووڈ کیسز کی شرح میں اضافے کے بعد‬
‫خدشات بڑھ گئے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچوں کی اکثریت کی ویکسینیشن نہیں ہوئی‬
‫اور ان میں بیماری کا خطرہ موجود ہے۔‬
‫تحقیق میں بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا باعث بننے والے عناصر کا تعین کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق کے مطابق زیادہ عمر اور مختلف طبی مسائل جیسے موٹاپا‪ ،‬ذیابیطس اور دماغی‬
‫امراض بچوں میں کووڈ کی شدت سنگین بڑھانے والے عناصر ہیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ان عناصر سے بیماری کے خالف کمزور بچوں کی شناخت کرنے میں‬
‫مدد مل سکے گی جن میں کووڈ کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے ان بچوں کے لیے ویکسینیشن کو ترجیح بنانے کی اہمیت‬
‫بھی ظاہر ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی بتایا کہ کووڈ کے باعث اپریل سے ستمبر ‪ 2020‬کے دوران ہسپتال میں‬
‫زیر عالج رہنے والے ہر ‪ 4‬میں سے ایک بچے کو سنگین شدت کا سامنا ہوا اور انہیں آئی‬
‫سی یو نگہداشت کی ضرورت پڑی۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ کچھ بچوں میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہے اور ان‬
‫میں سے بیشتر ویکسینیشن پروگرام کے لیے اہل نہیں۔‬
‫انہوں نے توقع ظاہر کی کہ احتیاطی تدابیر جیسے ریموٹ لرننگ‪ ،‬سماجی دوری‪ ،‬ہاتھ‬
‫دھونا اور فیس ماسک پہننا بچوں اور نوجوانوں کو بیماری سے بچانے کے لیے مددگار‬
‫ثابت ہوتی ہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168611/‬‬

‫چین میں ایک ارب سے زیادہ افراد کی کووڈ ویکسینیشن مکمل کرلی‬
‫گئی‬
‫ویب ڈیسک‬
‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ستمبر ‪16 2021‬‬

‫چین نے ایک مرتبہ پھر ایسا کام کر دکھایا ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کرسکا اور‬
‫وہ ہے ایک ارب سے زیادہ افراد کی کووڈ ویکسینیشن مکمل کرنا۔‬
‫چین نے ‪ 70‬فیصد آبادی کی ویکسینیشن مکمل کرلی ہے اور اس معاملے میں امریکا اور‬
‫یورپ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جبکہ وبا کی روک تھام کے لیے سخت ترین احتیاطی‬
‫تدابیر کو بھی برقرار رکھنے کا فیصہ کیا ہے۔‬
‫چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ترجمان نے بتایا کہ ‪ 15‬ستمبر تک چین میں ‪ 2‬ارب ‪16‬‬
‫کروڑ خوراکیں استعمال کی جاچکی تھیں اور ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد کی‬
‫تعداد ایک ارب ایک کروڑ ہے۔‬
‫چین نے یہ سنگ میل پہلی ویکسین سائنو فارم کے استعمال کی منظوری کے لگ بھگ ‪10‬‬
‫ماہ میں حاصل کیا اور تاریخ کی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا۔‬
‫چین میں ‪ 6‬مزید مقامی کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے کووڈ ویکسینز کو تیار کیا گیا‬
‫جن کو ‪ 12‬سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے منظوری مل چکی ہے۔‬
‫چین کی ویکسینیشن مہم کی کامیابی کے باوجود حالیہ ہفتوں میں وہاں کورونا کی قسم ڈیلٹا‬
‫کے کیسز سامنے آئے ہیں۔‬
‫ویکسینیشن کی رفتار نے چین کو دنیا کی دیگر معیشتوں پر سبقت دال دی ہے‪ ،‬امریکا اور‬
‫جاپان کی محض ‪ 50‬فیصد آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہوئی ہے جبکہ برطانیہ اور جرمنی‬
‫میں یہ شرح ‪ 60‬فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔‬
‫بھارت میں اب تک ‪ 15‬فیصد سے بھی کم آبادی کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چین کے مشرقی خطے کے بڑے شہروں میں ویکسینیشن مہم توقع سے زیادہ کامیاب رہی‬
‫ہے‪ ،‬دارالحکومت بیجنگ کے ‪ 97‬فیصد سے زیادہ شہریوں کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی‬
‫ہے جبکہ شنگھائی میں یہ شرح ‪ 80‬فیصد ہے۔‬
‫دنیا بھر میں اب تک کووڈ ویکسینیز کی ‪ 5‬ارب ‪ 18‬کروڑ خوراکیں استعمال کی جاچکی‬
‫ہیں‪ ،‬جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ چین کے شہریوں کے لیے استعمال ہوئی ہیں۔‬
‫چین کی جانب سے وائرس کے خطرے سے دوچار افراد بشمول ‪ 60‬سال سے زیادہ عمر‬
‫کے لوگوں کے لیے کووڈ بوسٹر ڈوز دینے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔‬
‫دنیا کے بیشتر ممالک میں ڈیلٹا کے پھیالؤ سے کیسز میں ضرور اضافہ ہوا ہے مگر وہاں‬
‫ویکسینیشن کرانے والے افراد کے لیے پابندیوں کو اس توقع کے ساتھ نرم کیا جارہا ہے کہ‬
‫اس سے بیشتر افراد میں کووڈ کی شدت معمولی رہے گی۔‬
‫مگر چین اس حکمت عملی کو مسترد کرچکا ہے اور چینی وزیر صحت نے اگست ‪2021‬‬
‫میں کہا تھا کہ ان کا ملک وائرس کی جلد تشخیص‪ ،‬بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور جارحانہ‬
‫احتیاطی اقدامات کو جاری رکھا جائے گا۔‬

‫چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے کئی مرتبہ کہا کہ ویکسینیشن کے ساتھ‬
‫پابندیوں کو برقرار رکھ کر ہی وبا کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔‬
‫ویکسینیشن کی وجہ سے ہی چین میں حالیہ ہفتوں میں جو کووڈ کیسز سامنے آئے ان میں‬
‫بیماری کی شدت زیادہ نہیں تھی۔‬
‫چینی حکام نے بتایا کہ ملک کو بتدریج ری اوپن کیا جائے گا اور ویکسینز کے تحفظ پر‬
‫اس وقت انحصار کیا جائے گا جب ایسا کرنا محفوظ ہوگا‪ ،‬مگر ایسا کب تک ہوگا اس‬
‫حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168579/‬‬

‫موڈرنا کووڈ ویکسین کی افادیت میں بتدریج کمی آنے کا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪16 2021‬‬

‫موڈرنا ویکسین کی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کی افادیت کئی ماہ بعد گھٹ جاتی ہے۔‬
‫یہ بات موڈرنا کی جانب سے جاری نئے ڈیٹا میں بتائی گئی۔‬

‫کمپنی کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک ‪ 13‬ماہ دی گئی‬
‫تھی ان میں بریک تھرو انفیکشن (ویکسین کے استعمال کے بعد بیمار ہونے کے لیے‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫استعمال ہونے والی طبی اصطالح) کا امکان ‪ 8‬ماہ کے دوران پہلی خوراک لینے والوں‬
‫سے زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن سے ملنے واال تحفظ ایک سال کے عرصے میں ‪ 36‬فیصد‬
‫تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫یہ ڈیٹا موڈرنا کی جانب سے جاری کلینکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں اکٹھا کیا گیا تھا۔‬
‫اسی کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر امریکا میں ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی‬
‫اور اس کے ابتدائی مرحلے میں شامل افراد کو کمپنی کی ایم آر این اے ویکسین یا پلیسبو‬
‫استعمال کرایا گیا تھا۔‬
‫نتائج میں دریافت کیا گیا کہ ٹرائل میں شامل میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان ‪ 36‬فیصد‬
‫تک کم تھا۔‬
‫ٹرائل ڈیٹا میں دسمبر ‪ 2020‬سے مارچ ‪ 2021‬کے دوران ویکسینیشن کرانے والے ‪11‬‬
‫ہزار ‪ 431‬رضاکاروں میں سے ‪ 88‬میں بریک تھرو کیسز سامنے آئے تھے۔‬
‫اس کے مقابلے میں جوالئی سے اکتوبر ‪ 2020‬میں ویکسینیشن کرانے والے ‪ 14‬ہزار ‪746‬‬
‫افراد میں سے ‪ 162‬بریک تھرو کیسز کی تشخیص ہوئی۔‬
‫پر جاری کیے گئے۔ ‪ medRxiv‬کمپنی کی جانب سے جاری نتائج پری پرنٹ سرور‬
‫موڈرنا کے سی ای او اسٹینف بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ‬
‫گزشتہ سال ویکسینیشن کرانے والے افراد میں حالیہ مہینوں میں ویکسینیشن کرانے والوں‬
‫کے مقابلے میں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ اس سے ویکسین کی افادیت میں کمی کا عندیہ ملتا ہے اور بوسٹر ڈوز کی‬
‫ضرورت کو سپورٹ ملتی ہے تاکہ تحفظ کی بلند ترین شرح کو برقرار رکھا جاسکے۔‬
‫امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی ایڈوائزری کمیٹی کا اجالس ‪17‬‬
‫ستمبر کو ہورہا ہے جس میں دستیاب شواہد کی جانچ پڑتال کرکے بوسٹر ڈوز کی منظوری‬
‫دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‬
‫اس حوالے سے فائزر کمپنی نے بھی ڈیٹا ایف ڈی اے کے پاس جمع کرایا تھا جس کے‬
‫مطابق فائزر ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 6‬ماہ بعد تیسری خوراک دینے‬
‫سے بیماری سے تحفظ کی شرح دوبارہ ‪ 95‬فیصد ہوجاتی ہے۔‬

‫یہ ڈیٹا اسرائیل میں فائزر کی تیسری خوراک کے استعمال کے نتائج پر مبنی ہے۔‬
‫فائزر کی جانب سے ‪ 52‬صفحات پر مبنی ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اگرچہ ایم آر این اے ویکسین‬
‫کی افادیت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے مدافعتی ردعمل اسی سطح‬
‫پر پہنچ جاتا ہے جو دوسری خوراک کے بعد نظر آتا ہے۔‬
‫کمپنی کے مطابق ویکسین کی تیسری خوراک سے لوگوں کا مدافعتی ردعمل دوبارہ اتنا‬
‫مضبوط ہوگیا جتنا دوسری خوراک کے استعمال کے بعد ہوتا ہے اور بیماری سے تحفظ‬
‫کی شرح ‪ 95‬فیصد ہوجاتی ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168619/‬‬

‫کووڈ کے ہر ‪ 3‬میں سے ایک مریض کو طویل المعیاد عالمات کا خطرہ‬


‫ہوتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪16 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے ہر ‪ 3‬میں سے ایک مریض کو بیماری کی طویل المعیاد‬
‫عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں النگ بیچ شہر میں کووڈ کے مریضوں میں النگ‬
‫کووڈ کا جائزہ لیا گیا تھا۔‬
‫النگ کووڈ کی اصطالح ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کو بیماری کو‬
‫شکست دینے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کی تشخیص کے ‪ 2‬ماہ بعد بھی ہر ‪ 3‬میں سے ایک‬
‫کووڈ مریض کو کم از کم ایک عالمت کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ‪ 40‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد‪ ،‬خواتین‪ ،‬پہلے‬
‫سے کسی بیماری سے متاثر لوگوں میں النگ کووڈ کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 366‬بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ‪ 2020‬میں کووڈ کی تشخیص‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫تحقیق کے دوران ‪ 35‬فیصد افراد نے ابتدائی مثبت ٹیسٹ کے ‪ 2‬ماہ بعد بھی کم از کم ایک‬
‫عالمت کو رپورٹ کیا تھا۔‬
‫النگ کووڈ کے ‪ 17‬فیصد مریضوں نے تھکاوٹ‪ 13 ،‬فیصد نے سانس لینے میں مشکالت‬
‫اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی اور ‪ 11‬فیصد نے مسلز یا جوڑوں میں‬
‫تکلیف کو رورٹ کیا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج ماہرین کے لیے اہمیت رکھتے ہیں جن سے انہیں النگ کووڈ کے‬
‫خطرے سے دوچار افراد میں اس مسئلے کی روک تھام اور عالج کی حکمت عملیوں کو‬
‫ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ تحقیق میں شامل افراد کی تعداد محدود تھی اور مزید تحقیق کی‬
‫ضرورت ہے اور یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ عالمات کتنے عرصے تک برقرار رہتی‬
‫ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن سے نہ صرف کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا‬
‫ہے بلکہ ممکنہ طور پر بریک تھرو انفیکشن کے بعد النگ کووڈ میں مبتال ہونے کا امکان‬
‫بھی کم ہوجاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویکلی ‪ Morbidity and Mortality‬اس تحقیق کے نتائج سی ڈی سی کے جریدے‬
‫رپورٹس میں شائع ہوئے۔‬
‫اس سے قبل ستمبر ‪ 2021‬کے آغاز میں برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں بتایا‬
‫گیا تھا کہ ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو اگر بریک تھرو انفیکشن‬
‫(ویکسنیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطالح) کا سامنا ہوتا ہے تو ان‬
‫میں النگ کووڈ کا امکان ‪ 49‬فیصد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یوکے زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈ ایپ کے‬
‫ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو ‪ 8‬دسمبر ‪ 2020‬سے ‪ 4‬جوالئی ‪ 2021‬تک جمع کیا گیا۔‬

‫یہ الکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے ‪ 12‬الکھ ‪ 40‬ہزار ‪ 9‬افراد نے ویکسین کی ایک‬
‫خوراک استعمال کی تھی جبکہ ‪ 9‬الکھ ‪ 71‬ہزار ‪ 504‬نے ‪ 2‬خوراکیں استعمال کی تھیں۔‬
‫محققین نے مختلف عناصر بشمول عمر‪ ،‬جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ‬
‫ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے‬
‫کووڈ کا شکارہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد عالمات کا خطرہ ویکسینیشن نہ‬
‫کرانے والے مریضوں کے مقابلے میں ‪ 49‬فیصد کم ہوتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168623/‬‬

‫سائنو فارم ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت کا ڈیٹا سامنے آگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪17 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫سائنو فارم کی کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے چند ماہ بعد وائرس‬
‫کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں آنے والی کمی بوسٹر ڈوز سے دور کی‬
‫جاسکتی ہے۔یہ بات چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫سن یاٹ سین یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوئی کہ ویکسین کی تیسری خوراک‬
‫سے کورونا وائرس کے خالف خلیات پر مبنی مدافعتی ردعمل بھی مضبوط ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب چین میں بیماری کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد‬
‫کو بوسٹر ڈوز دینے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔‬
‫یہ فیصلہ وقت کے ساتھ ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے خدشات‬
‫پر کیا گیا۔‬
‫سائنو فارم ویکسین پاکستان سمیت متعدد ممالک میں کووڈ کی روک تھام کے لیے استعمال‬
‫کی جارہی ہے اور چین کی ویکسینیشن مہم میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔‬
‫ویکسینیشن کرانے والے ہیلتھ ورکرز کے نمونوں کے تجزیے کے بعد تحقیق میں دریافت‬
‫کیا گیا کہ سائنو فارم کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 5‬ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے‬
‫والی اینٹی باڈیز کی شرح میں ‪ 70‬فیصد تک کمی آئی۔‬
‫مگر ویکسین کی تیسری خوراک کے استعمال کے ایک ہفتے بعد اینٹی باڈیز کی شرح میں‬
‫‪ 7.2‬گنا اضافہ ہوگیا۔‬
‫تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اینٹی باڈیز کی سطح میں تبدیلی سے ویکسین کی افادیت پر‬
‫کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا کورونا کی نئی اقسام کے خالف کتنا تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اس سے قبل فائزر‪/‬بائیو این ٹیک‪ ،‬موڈرنا اور دیگر ویکسینز کی افادیت میں بھی وقت کے‬
‫ساتھ کمی دریافت کی گئی ہے اور کمپنیوں کی جانب سے اس طرح کے ڈیٹا کو بوسٹر ڈوز‬
‫کی منظوری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔‬
‫مگر کچھ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بوسٹر ڈوز کے استعمال کا فیصلہ کرنے کے لیے مزید‬
‫ڈیٹا کی ضرورت ہے۔چین میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ سائنو فارم ویکسین کی‬

‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تیسیر خوراک کے بعد مدافعتی نظام کے ایک اور اہم حصے خلیاتی ردعمل میں بھی‬
‫بہتری آتی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہارمونل اور خلیاتی ردعمل میں تیسری خوراک کے بعد بہت تیزی سے‬
‫ٹھوس اضافہ ہوتا ہے اور خلیاتی ردعمل دیرپا تحفظ کی کنجی ثابت ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر‬
‫جاری کیے گئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168672/‬‬

‫پھلوں‪ ،‬سبزیوں کا استعمال اور ورزش زندگی میں خوشی کا احساس بڑھائے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪17 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫زندگی میں زیادہ خوش رہنا چاہتے ہیں تو پھلوں اور سبزیوں کو زیادہ کھانے کے ساتھ‬
‫ورزش کو عادت بنالیں۔‬
‫یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫کینٹ یونیورسٹی اور ریڈنگ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ پھلوں اور‬
‫سبزیوں کا ورزش کے ساتھ امتزاج خوشی کا احساس بڑھاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگرچہ طرز زندگی اور شخصیت پر خوشگوار اثرات کے درمیان تعلق کے بارے میں‬
‫ماضی میں تحقیقی رپورٹس سامنے آچکی ہیں اور ماہرین کی جانب سے صحت بخش غذا‬
‫اور ورزش کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے‪ ،‬مگر اس نئی تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ‬
‫ان عوامل سے زندگی میں اطمینان بڑھ جاتا ہے۔‬
‫یہ اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس میں پھلوں اور سبزیوں کے استعمال اور ورزش کو‬
‫خوشی کے احساس کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے طرز زندگی کے عناصر اور خوشی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال‬
‫کی گئی اور دریافت ہوا کہ پھلوں‪ ،‬سبزیوں اور ورزش اس حوالے سے کردار ادا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ مرد ورزش زیادہ کرتے ہیں جبکہ خواتین پھلوں اور‬
‫سبزیوں کو زیادہ کھاتی ہیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ طویل المعیاد مقاصد کے لیے رویوں میں تبدیلی النا صحت مند طرز‬
‫زندگی کو برقرار رکھنے میں مددگارر ثابت ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اگر اچھا طرز زندگی ہمیں صحت مند رکھنے کے ساتھ خوش باش بھی‬
‫بناتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ پھلوں اور سبزیوں کو زیادہ کھانے اور ورزش کرنے سے خوشی کا‬
‫احساس بڑھتا ہے جبکہ دیگر طبی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف ہیپی نیس اسٹڈیز میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168695/‬‬

‫کورونا ویکسین کتنی فائدہ مند ہے؟‬

‫تجر‬
‫‪ ‬عابد ضمیر ہاشمی‪ ‬‬
‫‪ Sep 16, 2021‬‬
‫‪ ‬‬
‫چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے پوری ُدنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ‬
‫وائرس جہاں ُدنیا بھر میں ‪ 1.6‬ملین سے زائد انسانوں کو نگل چکا ہے وہیں اِس کے خالف‬
‫جنگ یعنی مزید انسانوں کو موت سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کرنے کا عمل شروع‬
‫کیا گیا۔ اس کے بعد‪ ‬جہاں کورونا ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا‘ وہیں‬
‫افواہیں‘ خود ساختہ کہانیاں‘ اور فلسفے اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے‘ جیسے کورونا‬
‫اور دو سالہ زندگی‘ بانجھ پن‘ انسانی جسم میں مائیکرو چپ وغیرہ‘ اس کے باوجود‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پاکستان میں ‪ 7‬کروڑ سے زائد شہری ویکسین لگوا چکے ہیں‘ ویکسین کی دونوں‬
‫خوراکیں لگوانے والے افراد کی تعداد ‪ 1‬کروڑ ‪ 8‬الکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔‬
‫سوال یہ ہے کہ کیا کورونا ویکسین ُدنیا کی پہلی ویکسین ہے؟ ویکسین صحت عامہ کی‬
‫ایک سب سے کامیاب مداخلت ہے۔ کورونا ویکسین کے عالوہ ہمارے پاس ‪ 26‬مختلف‬
‫بیماریوں سے حفاظت کے لئے ویکسین موجود ہیں‪ :‬جن میں چکن پاکس‘ ڈپتھیریا‘‬
‫ہیپاٹائٹس اے‘ ہیپاٹائٹس بی‘ حب‘ ایچ پی وی‘ خسرہ‘ میننگکوکال‘ ممپس‘ نموکوکل‘ پولیو‘‬
‫روٹا وائرس‘ روبیال‘ شینگ‘ ٹیٹنس‘ پرٹیوسس (اینٹیینوکسرا)‘ اینٹینو وائرس‘ انتھاء‬
‫وائرس‘ ہیضہ‘ جاپانی انسیفالئٹس‘‪ Œ‬ریبیز‘ چیچک‘ تپ دق‘ ٹائیفائیڈ اور پیال بخار شامل‬
‫ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت تقریبا ‪ 25‬دیگر ویکسینز ہیں جن میں دیگر بیماریوں کے لئے‬
‫ترقی جاری ہے۔‬
‫ت عثمانیہ (موجودہ ترکی) کے‬ ‫ُدنیا میں پہلے پہل ویکسین کے طریقہ کار کا استعمال خالف ِ‬
‫دور میں شروع ہوا۔ تاہم‘ یہ عمل اپنی ابتدائی شکل میں تھا جو ترکی میں برطانیہ کے سفیر‬
‫کی اہلیہ لیڈی میری ورٹلی مانٹیگیو کے ذریعے برطانیہ پہنچا‘ جہاں ایک معالج ایڈورڈ‬
‫جینر نے چیچک سے بچاؤ کی پہلی ویکسین تیار کر کے ُدنیا کو اس موذی مرض سے‬
‫نجات دالئی۔اس کہانی کی ابتدا لیڈی مانٹیگیو کے ایک خط سے ہوتی ہے جو انہوں نے‬
‫‪ 1717‬میں استنبول سے لندن میں اپنے ایک دوست کو لکھا۔ اپنے خط میں انہوں نے بڑی‬
‫حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ شاہی طبیب لوگوں کے جسم پر کٹ لگا کر ایک خاص‬
‫چیز لگاتے ہیں جس سے وہ چیچک سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یو ایس الئبریری آف‬
‫میڈیسن اور بیلر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ویب سائٹس کے مطابق لیڈی مانٹیگیو کے‬
‫شوہر ایڈورڈ مانٹیگیو ‪ 1717‬سے ‪ 1721‬تک ترکی میں برطانیہ کے سفیر تھے۔ ان کی‬
‫اہلیہ میری مانٹیگیو کو چیچک کے عالج میں گہری دلچسپی تھی کیونکہ وہ اس موذی‬
‫مرض کے تلخ تجربات اور مشاہدات سے گزر چکی تھیں۔ برطانیہ کے امیر کبیر گھرانے‬
‫کی یہ خاتون بمشکل اس مہلک وبا سے اپنی جان بچا پائی تھیں‘ لیکن یہ مرض ان کے‬
‫جسم پر کئی بدنما داغ چھوڑ گیا تھا۔ ان کے کئی قریبی عزیز اور دوست چیچک سے ہالک‬
‫ہو چکے تھے‘ جس سے ان کے ِدل میں خوف بیٹھ گیا تھا اور وہ اپنے بچوں کو اس وبا‬
‫سے محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔‬
‫ویکسین ترکی میں چیچک کے عالج سے متعلق معلومات کے باوجود برطانیہ کے شاہی‬
‫معالج اس طریقہ عالج کو ٹوٹکا قرار دے کر نظرانداز کرتے رہے‘ لیکن جب ایک‬
‫برطانوی سفیر کے خاندان نے اپنی بیٹی کو اس تجربے کے لیے پیش کیا تو انہوں نے اس‬
‫بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور تاج برطانیہ نے ڈاکٹر میڈ لینڈ کو چھ قیدیوں‬
‫پر یہ تجربہ کرنے کا الئسنس دے دیا۔ انہیں کٹ لگا کر دوا دی گئی اور کچھ عرصے کے‬
‫بعد انہیں چیچک زدہ ماحول میں رکھا گیا‘ لیکن وہ محفوظ رہے۔‬
‫شاہی خاندان اس تجربے سے اتنا متاثر ہوا کہ پرنسز آف ویلز کی دو بیٹیوں کو بھی یہ دوا‬
‫دی گئی جس سے برطانیہ میں ویکسین کی تیاری کی جانب سنجیدہ کوششوں کی ابتدا ہوئی‬
‫اور باآلخر ‪ 1796‬میں ڈاکٹر ایڈورڈ جنز نے چیچک زدہ گائے سے حاصل کردہ مواد سے‬
‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ُدنیا کی پہلی ویکسین متعارف کرائی جس نے آنے والے برسوں میں ُدنیا سے اس موذی‬
‫وباء کا خاتمہ کر دیا۔‬
‫اس کے عالوہ ویکسین ہمیں بیماریوں کے پھیلنے سے روکتی ہیں جن کو ہم پہلے ہی‬
‫‪:‬شکست دے چکے ہیں‬
‫خسرہ – عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق خسرہ کی ویکسین نے سال ‪2018‬‬
‫سے ‪ 2000‬کے درمیان ‪ 23.2‬ملین ہالکتوں کو روکا۔‪ ‬وائلڈ پولیو کے معامالت میں ‪1988‬‬
‫سے اب تک ‪ ٪99‬سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ روبیال ویکسین کی عالمی سطح پر تعداد‬
‫میں‪ 97 ‬فیصد‪ ‬کمی ہوئی‘ ‪ 1964‬اور ‪ 1965‬کے درمیان روبیال پھیل گیا جس نے ‪12.5‬‬
‫ملین امریکیوں‪ Œ‬کو متاثر کیا۔‬
‫بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں (‪ )1914‬میں کالی کھانسی‘ (‪ 1926‬خناق‬
‫کی ویکسین تیار کر لی گئیں تھیں ‪ Tatnus‬اور (‪ )1938‬میں تشنج یعنی )‪(Diphtheria‬‬
‫کے نام سے ایک ہی ٹیکے میں اکٹھا کر لیا گیا اور بچوں )‪ (DPT‬اور ‪ 1948‬میں تینوں کو‬
‫میں اس کا استعمال شروع کر دیا گیا۔ چیچک کی ویکسین کا استعمال پہلے ہی شروع ہو‬
‫چکا تھا۔ لیکن اس عرصے میں عوام بالخصوص والدین پولیو سے اپنے بچوں کو بچانے‬
‫کے لیے بے قرار تھے کیونکہ اس بیماری کے شکار بچے عمر بھر کے لئے معذور ہو‬
‫جاتے تھے۔ امریکہ میں لوگوں نے وائٹ ہاوس کو اس ویکسین کی تیاری کے لیے چندہ‬
‫تک بھجوایا اور ‪ 1955‬میں جب اس ویکسین کی منظوری دی گئی تو اس کا موجد جوناس‬
‫ایک قومی ہیرو قرار پایا۔ )‪ (Jonas Salk‬ساک‬
‫کی ویکسین (‪ )1963‬میں‘ پھر ممپس ‪ measles‬سن ‪ 60‬کی دہائی میں پہلے خسرہ یعنی‬
‫یعنی خسرہ کاذب کی ویکسین کی تیاری کے ‪ Rubella‬اور ‪ 1969‬میں ‪(mumps) 1967‬‬
‫ویکسین کے نام سے استعمال کی ‪ MMR‬بعد ‪ 1971‬میں ان تینوں کو مال دیا گیا اور اب یہ‬
‫جاتی ہے۔ ‪ 70‬کی دہائی میں چیچک کی ویکسین کا استعمال ترک کر دیا گیا کیونکہ ‪1972‬‬
‫میں اس مرض کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کا اعالن ہو گیا اور اب یہ وائرس صرف‬
‫چند لیبارٹریوں میں ہی مقید ہو چکا ہے۔ ویکسینز کی تیاری اور ُدنیا بھر کے بچوں میں ان‬
‫کا استعمال ایک روٹین بن گیا جس سے ایک اندازے کے مطابق کروڑوں نہیں تو الکھوں‬
‫بچوں اور بڑوں کی زندگیاں نہ صرف بچ گئیں بلکہ عمومی سطح پر عوامی صحت کا‬
‫معیار بلند ہو گیا۔‬
‫ویکسین کے میدان میں سائنسی ریسرچ جاری رہی کیونکہ یہ بہتری کا ایک مسلسل عمل‬
‫کی )‪ (Hepatitis b‬ہے جو جاری رہتا ہے۔ اس طرح سن ‪ 1981‬میں کاال یرقان یعنی‬
‫ویکسین متعارف ہوئی جس کا استعمال شروع میں اس بیماری سے ممکنہ طور پر متاثر‬
‫ہونے والے افراد میں شروع کیا گیا‪ ،‬مثالً وہ نوزائیدہ بچے جن کی ماؤں میں اس کے اینٹی‬
‫)‪ (intravenous‬موجود تھے یا طبعی عملہ یا منشیات کے انٹروینس )‪ (antigens‬جنز‬
‫استعمال کے عادی افراد وغیرہ وغیرہ لیکن ان کوششوں کے باوجود اس بیماری کے‬
‫پھیالؤ پر قابو نہ پایا جا سکا۔‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک تحقیق کے مطابق اس بیماری میں مبتال تقریبا ً ‪ 30‬فیصد افراد تو نشاندہی والے گروپس‬
‫میں شامل ہی نہ تھے اور پھر امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سن ‪ 1991‬سے ہر پیدا‬
‫ہونے والے بچے کو یہ ویکسین دی جائے گی اور اس ایک فیصلے کے نتیجے میں اٹھارہ‬
‫سال سے کم عمر افراد میں کاال یرقان تقریبا ً ناپید ہو گیا۔ اسی طرح ‪ 1985‬میں انفلوئنزا‬
‫ویکسین کی منظوری مل گئی‪ ،‬اس کا )‪ (Haemophilus influenza type b‬ٹائپ بی‬
‫استعمال عام ہو گیا اور وہ ممالک جہاں اس کا استعمال روٹین بن گیا وہاں اس انفیکشن کی‬
‫شرح میں ‪ 90‬فیصد تک کمی آ گئی۔‬
‫کے خالف بننے والی )‪ (chickenpox‬اسی طرح ‪ 1995‬میں امریکہ میں چکن پاکس‬
‫کی منظوری دی گئی اور اگلی دہائی میں اس کا استعمال ) ‪ (Varicella Vaccine‬ویکسین‬
‫سے متعلقہ ویکسین کا تعارف اس صدی کی پہلی دہائی میں ہو ‪ HPV‬عام ہو گیا۔ اسی طرح‬
‫متعارف )‪ (meningococcal serogroup B‬گیا۔ سن ‪ 2014‬میں گردن توڑ بخار یعنی‬
‫ہوئی۔ پاکستان سے حج و عمرہ پر جانے والے زائرین تو اس سے واقف ہی ہوں گے‬
‫کیونکہ آپ کو اس ویکسین کے استعمال کا سرٹیفکیٹ دکھانا الزمی ہوتا ہے۔ سعودی‬
‫حکومت کی طرف سے ان ویکسینز بارے ہدایات کی تفصیل تقریبا ً ہر سال اپڈیٹ کی جاتی‬
‫ہے۔‬
‫جیسے دوسری بیماریوں کے خالف ویکسین تیار ہوتی گئیں اسی طرح ان کے استعمال‬
‫بارے سفارشات کا جائزہ اب ساالنہ بنیادوں پر لیا جاتا ہے جس کی بنیاد مسلسل تحقیق پر‬
‫ہے‪ ،‬مثالً کن افراد کو کون سی ویکسین کی ضرورت ہے‘ کس عمر میں زیادہ فائدہ مند‬
‫ہے‘ کتنی خوراکوں کی ضرورت ہے اور یہ کہ ان کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے اور‬
‫یہ کہ کس طرح مختلف ویکسینز کو اکٹھا کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے عالوہ کچھ‬
‫ویکسینز ایسی بھی ہیں جو روٹین میں تو استعمال نہیں ہوتیں لیکن ان کا استعمال مختلف‬
‫عالقائی انفیکشن سے مسافروں کو بچانے اور ان کے پھیالؤ کو روکنے میں اہم ہے۔‬
‫اکیسویں صدی میں انسان نے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے نہ صرف اس جنیاتی‬
‫مواد یعنی ڈی این اے کو تفصیل سے پڑھ لیا‘ بلکہ اس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے‬
‫بھی آگاہی حاصل کر لی۔ اسی علم کو بروے کار التے ہوئے ٹیکنالوجی کی مدد سے‬
‫جنوری ‪ 2020‬میں چین نے کرونا وائرس کی جینیاتی تفصیل جاری کر دی تھی۔‬
‫ایک تصور یہ کہ مائیکرو چپ انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے‬
‫انسانوں کو کنٹرول کیا جائے گا اور یہ کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانی جنیاتی مواد‬
‫یعنی ڈی این اے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ خوف زدہ صرف خواتین نہیں‘ بعض دعوؤں‬
‫میں ویکسین کی وجہ سے مردوں کی تولیدی صحت سے متعلق بھی افواہیں پھیالئی جا‬
‫رہی ہے۔ امریکا میں اس بابت ہونے والی تحقیق نے متضاد نتائج بتائے ہیں۔ محققین نے‬
‫ویکسین لگوانے والے مردوں کا مطالعہ کیا اور ان کی تولیدی صحت میں کوئی فرق نوٹ‬
‫نہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ‪ 45‬مردوں کے اسپرمز کا ویکسین لگوانے سے پہلے اور بعد‬
‫میں مطالعہ کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دوسری جانب میامی یونیورسٹی کے شعبہ یورالوجی کے پرفیسر رامازمے نے سوشل‬
‫میڈیا پر پھیالئی جانے والے افواہوں کو رد کرتے ہوئے ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے‬
‫کہ تولیدی صحت میں خرابی ویکسین کی وجہ سے نہیں ہو رہی البتہ کورونا وائرس کے‬
‫انفیکشنز کی صورت میں تولیدی صحت پر نہایت مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔ یہ دونوں‬
‫باتیں موجودہ سائنسی علم کے مطابق غلط ہیں۔ ہاں انسانی خیاالت پر اثرانداز ہونے کی‬
‫کوشش انتہائی اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے الیکٹرانک آالت جن‬
‫کو )‪ (algorithm‬میں موبائل فون شامل ہیں‌ کے کام کرنے کے اصول اور الگوردھم‬
‫سمجھنا ہو گا۔‬
‫ڈاکٹروں کے تجربات‘ سائنسی تحقیقات کے عالوہ من حاصل امت مسلمہ ہمارا یہ یقین‘‬
‫تعالی کے پاس ہے‘ موت دوسال تو کیا دو سیکنڈ‬ ‫ٰ‬ ‫ایمان ہے کہ زندگی‘موت کا اختیار ہللا‬
‫کی ضمانت بھی نہیں ہے۔ ہمیں حقائق کو دیکھنا‘ سمجھنا اور پرکھنا ہو گا‪ ،‬تبھی ہم حقائق‬
‫‪.‬تک پہنچ پائیں گے کہ کورونا ویکسین کتنی فائدہ مند ہے‬
‫نوٹ‪ :‬ادارے کا قلمکار کے خیاالت اور پیش کردہ مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں‬

‫عابد ضمیر ہاشمی‬


‫عابد ضمیر پیشہ ور صحافی ہیں‪ ،‬کرنٹ افیئرز سمیت دیگر موضوعات پر قلم ٓازمائی‬
‫کرنے کے عالوہ سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر ایکٹو ہیں‬
‫‪http://blogs.dunyanews.tv/urdu/?p=12893‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کی پیچیدگیوں اور وٹامن ڈی کی کمی میں تعلق ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪17 2021‬‬
‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬
‫کیا جسم میں وٹامن ڈی کی مناسب سطح کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪19‬‬
‫کے شکار افراد میں بیماری کی سنگین شدت اور موت کے خطرے سے بچانے میں مدد‬
‫دے سکتی ہے؟‬
‫یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے متعدد ممالک کے سائنسدانوں کی جانب سے‬
‫کام کیا جارہا ہے اور اب اس حوالے سے ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔‬

‫آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج‪ ،‬اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ‬
‫یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسم میں وٹامن‬
‫کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی‬
‫ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں جسم میں جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح ‪ ،‬سورج کی روشنی سے جلد‬
‫میں وٹامن کی پروڈکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کی کمی اور وائرل و بیکٹریل نظام تنفس کی‬
‫بیماریوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔‬

‫اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا‬
‫ذکر کیا گیا‪ ،‬مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے‪ ،‬زیادہ عمر یا‬
‫‪،‬کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے‬
‫تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ‪ 5‬الکھ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا‬
‫جن میں کووڈ سے پہلے یو وی بی ریڈی ایشن کے اجتماع کو دیکھا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے عندیہ مال کہ وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے‬
‫تحفظ فراہم کرتا ہے۔‬
‫محقین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی سے ممکنہ طور پر‬
‫کووڈ کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے‪ ،‬اس حوالے سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے‬
‫کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے ہونے تک وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال محفوظ اور سستا‬
‫طریقہ کار ہے جن سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے خالف زیادہ مؤثر تھراپیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خیال‬
‫میں یہ اہم ہے کہ وٹامن ٰڈ کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد پر ذہن کو کھال رکھا‬
‫جائے۔‬

‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے استعمال کے مشورے کو‬
‫سپورٹ ملتی ہے جس سے نہ صرف ہڈیوں اور مسلز کی صحت کو درست رکھنے میں‬
‫مدد ملتی ہے بلکہ اس سے کووڈ کی پیچیدگیوں سے بھی ممکنہ تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168694/‬‬

‫خواتین کیلئے ایواکاڈو ایک معجزاتی پھل‪ ،‬پیٹ کی چربی کا آسان حل‬
‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫ایک حالیہ سائنسی مطالعے نے ایواکاڈو کی ایک نئی طبی خاصیت کا پتا لگایا ہے جس پر‬
‫کبھی غور نہیں کیا گیا۔اس طبی تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں ایک ایواکاڈو کھانے سے‬
‫خاص طور پر خواتین کو ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے‬
‫چھٹکارا پانا مشکل ہے۔‬
‫سائنسی جریدے "جرنل آف نیوٹریشن" میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ‬
‫ایواکاڈو کا ایک دانہ روزانہ کھانے سے خواتین کو پیٹ کی چربی کم کرنے میں مدد دیتا‬
‫ہے۔ پیٹ کی چربی خواتین کو درپیش مسائل میں ایک عمومی مسئلہ ہے۔ بچے کی پیدائش‬
‫کے بعد خواتین کے پیٹ کا پھول جانا عام بات ہے۔‬
‫یونیورسٹی آف الینوائے کے محققین نے فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ مل کر‬
‫تین ماہ تک خواتین کے ایک گروپ پر اس پھل کا تجربہ کیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ‬
‫ایک دن میں مسلسل ایک ایواکاڈو کھاتے ہیں ان میں ویزرل چربی کم ہوتی ہے۔‬
‫مطالعہ کے مصنف پروفیسر نیمان خان نے کہا کہ ان کا مقصد وزن کم کرنا نہیں تھا بلکہ‬
‫یہ دیکھنا تھا کہ ایواکاڈو کھانے سے لوگوں کے جسم میں چربی پر کیا اثر پڑتا ہے۔‬
‫٭ پیٹ کی چربی کی اقسام‬
‫ماہرین کے مطابق پیٹ میں دو قسم کی چربی ہوتی ہے۔ ایک چربی جو صرف جلد کے‬
‫نیچے جمع ہوتی ہے۔ اسے جلد کے نیچے جمع ہونے والی چربی کہا جاتا ہے۔ دوسری‬
‫چربی پیٹ کی گہرائی میں جمع ہوتی ہے جو اندرونی اعضاء کے گرد گھیرا بنا لیتی ہے۔‬
‫لوگوں کا عام خیال یہ ہے کہ گہری ویزرل چربی والے لوگ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔‬
‫نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خواتین جو باقاعدگی سے ایواکاڈو کھاتی تھیں ان کے پیٹ کی‬
‫چربی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ عام طور پر وہ چربی جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا‬
‫ہے۔ جبکہ انہی خواتین نے ویزرل چربی میں کمی دیکھی جو ان کے جسموں میں چربی‬
‫کی دوبارہ تقسیم کی نشاندہی کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جہاں تک مردوں کی صحت پر اثرات کا تعلق ہے تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مردوں‬
‫کے ایواکاڈو کھانے سے چربی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‬

‫یہ بات قابل غور ہے کہ ایواکاڈو کے بے شمار فوائد ہیں کیونکہ ایک درمیانے درجے کے‬
‫پھل میں تقریبا ً ‪ 12‬ملی گرام وٹامن سی ہوتا ہے جو کہ پٹھوں کے درد کو کم کرنے میں‬
‫مدد دیتا ہے۔‬
‫ایواکاڈو گودے کا استعمال ورزش کے بعد سیسٹولک بلڈ پریشر کو بحال کرنے کے وقت‬
‫کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے اور دل کی دھڑکن کو متوازن کرتا ہے‬

‫‪https://www.aaj.tv/news/30266893/‬‬

‫بہت زیادہ فرصت بھی صحت کےلیے نقصان دہ ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 13  ‬ستمبر‪  2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫روزانہ کئی گھنٹے فارغ رہنے والوں میں اپنے ’’فضول‘‘ اور ’’ناکارہ‘‘ ہونے کا احساس‬
‫جنم لیتا ہے‬
‫پنسلوانیا‪ :‬امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ہر وقت شدید مصروفیت کی طرح بہت‬
‫زیادہ فراغت بھی صحت کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے جس کا نتیجہ اعصاب پر مسلسل دباؤ‬
‫کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔یہ تحقیق ’’جرنل ٓاف پرسنیلٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی‘‘‬
‫کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہوئی ہے جس کی مرکزی مصنفہ مریسا شریف ہیں جن کا تعلق‬
‫یونیورسٹی ٓاف پنسلوانیا سے ہے۔‬

‫مقالے میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ کئی گھنٹے فارغ رہنے والوں میں اپنے ’’فضول‘‘ اور‬
‫’’ناکارہ‘‘ ہونے کا احساس جنم لیتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہو کر‪،‬‬
‫ذہنی و جسمانی کے مختلف مسائل کی وجہ بنتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں مالزمت پیشہ اور کاروباری امریکیوں پر کیے گئے مختلف مطالعات سے‬
‫جمع کی گئی معلومات کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫ان میں سے ایک مطالعہ ‪ 2012‬سے ‪ 2013‬کے درمیان کیا گیا تھا جس میں ‪21,736‬‬
‫امریکیوں میں مصروفیت اور فراغت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں۔‬
‫دوسرے مطالعے میں اگرچہ ‪ 13,639‬افراد شریک تھے لیکن وہ ‪ 1992‬سے ‪ 2008‬تک‪،‬‬
‫یعنی ‪ 16‬سال کی طویل مدت کا احاطہ کرتا تھا۔‬
‫ان اعداد و شمار کے تسلسل میں مریسا شریف اور ان کے ساتھیوں نے دو ٓان الئن تجربے‬
‫کیے جن میں چھ ہزار سے زائد امریکیوں نے حصہ لیا۔‬
‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دونوں تجربات کا مقصد یہ جاننا تھا کہ روزانہ بہت کم (‪ 15‬منٹ)‪ ،‬مناسب‪ /‬اوسط (ساڑھے‬
‫تین گھنٹے) اور بہت زیادہ (‪ 7‬گھنٹے) فارغ رہنے والوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر‬
‫کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫توقع کے مطابق‪ ،‬یہ بات سامنے ٓائی کہ جن افراد کے پاس عموما ً بہت کم فرصت ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬وہ شدید اعصابی تناؤ میں مبتال رہتے ہیں جس کا اثر ان کی صحت پر پڑتا ہے۔‬
‫لیکن‪ ،‬حیرت انگیز طور پر‪ ،‬روزانہ بہت زیادہ فارغ رہنے والے بھی اسی کیفیت کا شکار‬
‫تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے تک روزانہ فراغت کی وجہ سے وہ خود کو بے کار‬
‫محسوس کرنے لگے تھے۔ مسلسل اسی کیفیت میں رہنے کی وجہ سے ان لوگوں میں‬
‫اعصابی تناؤ زیادہ ہوا اور ان کی صحت بھی خراب رہنے لگی۔‬
‫البتہ وہ لوگ جنہوں نے اپنا فارغ وقت مختلف مشاغل اور ورزش وغیرہ میں صرف کیا‪،‬‬
‫انہیں یہ شکایت نہیں ہوئی۔‬
‫مریسا شریف کے مطابق‪ ،‬یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ صرف بہت زیادہ مصروفیت ہی‬
‫نہیں بلکہ حد سے زیادہ فراغت بھی انسان کے جسم و دماغ کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔‬
‫اگرچہ اس کے اثرانداز ہونے کا طریقہ شدید مصروفیت کے مقابلے میں ضرور مختلف‬
‫ہوتا ہے لیکن عملی طور پر نتیجہ وہی ہوتا ہے۔‬
‫لہذا‪ ،‬بہتر یہی ہے کہ اگر ہمارے پاس بہت زیادہ فارغ وقت ہو‪ ،‬تب بھی ہم اسے مسلسل‬
‫ٓارام اور فضولیات میں ضائع نہ کریں بلکہ اچھی اور مثبت سرگرمیوں میں صرف کریں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2224279/9812/‬‬

‫چاند اور انسانی نیند میں پراسرار تعلق دریافت‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬منگل‪ 14  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫چڑھتے ہوئے چاند کی راتوں سے بالخصوص مردوں کی نیند متاثر ہوسکتی ہے‬
‫سویڈن‪ :‬چاند کی پیدائش سے لے کر چودھویں کے چاند بننے تک کا دورانیہ بالخصوص‬
‫مردوں کی نیند پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ تاہم اس کا اثر خواتین پر کم کم ہوتا ہے۔ یہ تحقیق‬
‫ٹوٹل اینوائرنمنٹ نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔‬
‫سویڈن کی اپساال یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں ‪ 492‬خواتین اور ‪360‬‬
‫مردوں کا باقاعدہ سروے کیا ہے جس کے نتائج پچھلے مشاہدات سے قدرے مختلف و‬
‫مخالف ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چڑھتے ہوئے چاند کے پہلے دو ہفتے انسانی نیند‬
‫کو متاثر کرتے ہیں جبکہ دیگر ماہرین اس سے متفق نہیں۔‬
‫چڑھتے چاند کا عمل ’’ویکسنگ‘‘ کہالتا ہے جس میں اس سے منعکس ہونے والی روشنی‬
‫بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ اس دوران رات دیرتک چاند کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ ماہرین‬
‫نے چڑھتے چاند کی راتوں میں تمام خواتین اور مردوں کی نیند ریکارڈ کی۔ اس دوران‬
‫مردوں کی نیند متاثر ہوئی۔‬
‫اسی طرح قمری دورانیے کے دوسرے نصف یعنی ڈھلتے ہوئے چاند کی راتوں میں بھی‬
‫یہ تجربہ دوہرایا گیا تاہم اس عرصے میں مردوں اور خواتین کی نیند پر کچھ خاص اثرات‬
‫سامنے نہیں ٓائے۔ اسی بنا پر تحقیق کے سربراہ کرسچیان بینیڈکٹ نے کہا کہ چاندنی راتیں‬
‫نیند پر اثرانداز ہوتی ہیں اور اس مسئلے پر مزید تحقیق پر زور بھی دیا۔‬
‫اس کی وجہ اب تک سامنے نہیں ٓاسکی لیکن خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے چاند کی منعکس‬
‫شدہ روشنی مردوں کی مختلف دماغی کیفیت کی بنا پر ان کی نیند متاثر کرتی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://www.express.pk/story/2224416/9812/‬‬

‫کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 13 2021‬‬

‫کرونا وائرس کی ایک قسم ایم یو پر کی جانے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ یہ قسم‬
‫اینٹی باڈیز کے خالف بہت زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ‬
‫میں شامل کی جانے والی کرونا وائرس کی ایک قسم کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے‬
‫آئی ہے۔‬
‫تحقیق میں کہا گیا کہ مو یعنی ایم یو قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف‬
‫بہت زیادہ مزاحمت کی صالحیت رکھتی ہے‪ ،‬یہ تحقیق جاپان میں کی گئی۔‬

‫ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے‬
‫خالف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ‬
‫دیگر اقسام سے کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات‬
‫کا موازنہ ایسے ‪ 18‬افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا‪ ،‬جن کی ویکسی نیشن ہوچکی تھی یا‬
‫وہ کووڈ ‪ 19‬کا شکار رہ چکے تھے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ کرونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خالف دیگر تمام اقسام‬
‫بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔ بیٹا کرونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب‬
‫سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں‬
‫گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔‬
‫دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف ‪ 18‬افراد کے نمونوں کا‬
‫تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫مگر ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسی نیشن کروانے والوں یا اس‬
‫بیماری کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے‬
‫میں مدد مل سکے گی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے‬
‫خالف دیگر اقسام کے مقابلے میں ‪ 12‬گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔‬
‫اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسی نیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خالف ‪7.6‬‬
‫گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/research-on-coronavirus-variant-mu/‬‬

‫کووڈ ویکسین کے حوالے سے مزید حوصلہ افزا تحقیقات‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 13 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خالف ویکسی نیشن کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے‪،‬‬
‫حال ہی میں مختلف ویکسینز کے حوالے سے نئی حوصلہ افزا تحقیقات سامنے آئی ہیں۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چال کہ‬
‫کرونا ویکسی نیشن کروانے کے بعد بیمار ہونے کا امکان تو کسی حد تک ہوتا ہے مگر‬
‫کووڈ کی سنگین شدت اور موت کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی جانب سے‬
‫جاری ‪ 3‬تحقیقی رپورٹس کے نتائج میں سامنے آئی۔‬
‫ان تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کرونا کی زیادہ متعدد قسم ڈیلٹا کے پھیالؤ کے‬
‫باوجود ویکسینز کی افادیت برقرار رہتی ہے۔‬
‫پہلی تحقیق میں اپریل سے جوالئی ‪ 2021‬کے دوران ‪ 6‬الکھ سے زیادہ کووڈ کیسز اور‬
‫ویکسی نیشن اسٹیٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسی نیشن نہ کرانے والوں میں کووڈ سے متاثر ہونے کا امکان‬
‫ویکسی نیشن کروانے والوں کے مقابلے میں ‪ 4.5‬گنا زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬اسپتال میں داخلے کا‬
‫خطرہ ‪ 10‬جبکہ موت کا خطرہ ‪ 11‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ ڈیلٹا قسم کے پھیالؤ سے ویکسینز کی افادیت میں کچھ کمی‬
‫آئی ہے بالخصوص ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے‪ ،‬مگر بیماری کی‬
‫سنگین شدت اور موت سے تحفظ کے لیے ٹھوس تحفظ برقرار رہتا ہے۔‬
‫تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ڈیلٹا کے پھیالؤ کے بعد ویکسینز کی بیماری سے بچاؤ کی‬
‫افادیت ‪ 90‬فیصد سے گھٹ کر ‪ 80‬سے نیچے چلی گئی۔‬
‫سی ڈی سی کے مطابق ‪ 20‬جون سے ‪ 17‬جوالئی کے درمیان کووڈ سے بیمار ہو کر‬
‫اسپتال میں داخل ہونے والوں میں صرف ‪ 14‬فیصد وہ تھے جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی‬
‫اور اموات میں یہ شرح ‪ 16‬فیصد تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫رپورٹ کے مطابق یہ اس لیے حیران کن نہیں کیونکہ ویکسی نیشن کی شرح میں ڈرامائی‬
‫اضافہ ہوا ہے اور اسی وجہ سے ویکسی نیشن کے بعد اسپتال میں داخل یا موت کا شکار‬
‫ہونے والے افراد کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔‬
‫سی ڈی سی نے بتایا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ سنگین بیماری اور موت کے خالف‬
‫ویکسینز کی افادیت میں معمولی کمی آئی اور ٹھوس تحفظ برقرار رہا۔‬
‫دوسری تحقیق میں ثابت ہوا کہ موڈرنا ویکسین اسپتال میں داخلے کا خطرہ کم کرنے کے‬
‫حوالے سے فائزر‪/‬بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز کے مقابلے میں کچھ زیادہ‬
‫مؤثر ہے۔‬
‫یہ تینوں ویکسینز کی افادیت کے حوالے سے امریکا میں ہونے والی سب سے بڑی تحقیق‬
‫تھی جس میں اسپتالوں اور طبی اداروں میں موجود جون سے اگست کے شروع تک آنے‬
‫والے ‪ 32‬ہزار مریضوں کے ڈیٹا کو دیکھا گیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ تینوں ویکسینز اسپتال میں داخلے سے تحفظ دینے کے حوالے سے‬
‫مجموعی طور پر ‪ 86‬فیصد تک مؤثر ہیں۔‬
‫تیسری تحقیق میں ‪ 5‬اسپتالوں میں زیر عالج کووڈ کے مریضوں میں ‪ 2‬ایم آر این اے‬
‫ویکسینز (موڈرنا اور فائزر بائیو این ٹیک) کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬
‫یکم فروری سے ‪ 6‬اگست کے ڈیٹا میں دریافت ہوا کہ ایم آر این اے ویکسینز اسپتال میں‬
‫داخلے سے تحفظ کے لیے ‪ 87‬فیصد تک مؤثر ہیں اور ڈیلٹا کے پھیالؤ کے باوجود ٹھوس‬
‫تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-vaccination-benefits/‬‬

‫کرونا کی ڈیلٹا قسم کے متاثرین سے متعلق پریشان کن انکشاف‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫ٹوکیو‪ :‬جاپان میں‌ مرتب ہونے والے اعداد و شمار میں‌ یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ‬
‫کرونا کی متغیر قسم ڈیلٹا کے متاثرین ‪ 4‬گنا زیادہ وائرس خارج کرتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیالت کے مطابق کرونا وائرس کی دیگر اقسام کے متاثرین کے مقابلے میں ڈیلٹا سے‬
‫متاثرہ افراد میں پیتھوجن یعنی مرض کے جرثومے خارج کرنے کی شرح تخمینے کے‬
‫مطابق کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔‬
‫اس سلسلے میں تجربہ گاہ میں ٹیسٹنگ کی خدمات فراہم کرنے والی جاپانی کمپنی ’بی ایم‬
‫ایل‘ نے اعداد و شمار مرتب کیے ہیں‪ ،‬یہ کمپنی کرونا وائرس کے یومیہ ‪ 20‬ہزار تک پی‬
‫سی آر ٹیسٹ کرتی ہے۔‬
‫ایک پی سی آر ٹیسٹ وائرس کی جینز کو ایک نمونے میں ضرب کرتا ہے‪ ،‬جب اس‬
‫ضرب کے عمل میں وائرس کا پھیالٔو کم چکروں کے ساتھ پایا جائے‪ ،‬تو اس کا مطلب یہ‬
‫ہوتا ہے کہ مذکورہ نمونے میں وائرس کی ایک بڑی مقدار موجود ہے۔‬
‫کمپنی کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوری میں ‪ 38‬فی صد نمونوں میں ‪ 20‬سے کم چکروں‬
‫کے بعد وائرس کا پتا چال تھا‪،‬‬
‫اپریل میں جب متغیر قسم الفا پھیل رہی تھی تو یہ تناسب بڑھ کر ‪ 41.4‬فی صد ہو گیا تھا۔‬
‫جب کہ جوالئی میں متغیر قسم ڈیلٹا کے غالب ٓا جانے کے بعد یہ تناسب تقریبا ً ‪ 66‬فی صد‬
‫تک بڑھ گیا اور اگست میں تقریبا ً ‪ 64‬فی صد رہا۔‬
‫واضح رہے کہ ان چکروں کی تعداد کو سی ٹی ویلیو کہا جاتا ہے‪ 40 ،‬یا اس سے کم کی‬
‫قدر‪ ،‬ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/patients-of-delta-variant/‬‬

‫طبی انقالب‪ :‬خون کے ٹیسٹ سے کینسر کی آسان تشخیص‪ ،‬ڈیڑھ الکھ‬


‫افراد پر تجربہ شروع‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫لندن‪ :‬خون کے ٹیسٹ سے کینسر کی جلد تشخیص کی ایجاد کے بعد اب ڈیڑھ الکھ افراد پر‬
‫تجربہ شروع کر دیا گیا‪ ،‬جو ایک نیا طبی انقالب ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق اب بلڈ ٹیسٹ سے بھی کینسر کی تشخیص ممکن ہو گئی ہے‪ ،‬امریکی‬
‫سائنس دانوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ ایجاد کیا تھا جس میں عالمات ظاہر ہونے سے قبل ہی‬
‫کینسر کی تشخیص ممکن ہو گئی ہے۔‬
‫اس سلسلے میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے گریل ہیلتھ کیئر کمپنی کے تیار کر دہ‬
‫بلڈ ٹیسٹ ‘گیلری’ (‪ )Galleri‬کے لیے سب سے بڑے کلینکل ٹرائلز شروع کر دیے ہیں‪،‬‬
‫اس ٹیسٹ میں عالمات ابھرنے سے قبل ہی ‪ 50‬اقسام کے کینسر کی شناخت ممکن ہے۔‬
‫گیلری ٹیسٹ ممکنہ طور پر جینیاتی ‘کوڈ سیل فری ڈی آکسی رائبونیوکلک ایسڈ (‬
‫‪ ’)cfDNA‬کے ٹکڑوں میں کیمیائی تبدیلیوں کا پتا لگا سکتا ہے‪ ،‬یہ ایسڈ ٹیومر سے خون‬
‫کے دھارے میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ یوں یہ سادہ بلڈ ٹیسٹ خون میں کینسر کے ابتدائی‬
‫نشانیوں کو چیک کر سکتا ہے۔‬
‫برطانوی این ایچ ایس کے مطابق گیلری بلڈ ٹیسٹ کا تجربہ ایک الکھ چالیس ہزار افراد پر‬
‫شروع کر دیا گیا ہے‪ ،‬جسے کینسر کے عالج میں ایک نیا انقالب قرار دیا جا رہا ہے۔ این‬
‫ایچ ایس کی چیف ایگزیکٹو‪ Œ‬امانڈا پریچارڈ کا کہنا ہے کہ یہ فوری اور سادہ بلڈ ٹیسٹ کینسر‬
‫کی جلد تشخیص اور عالج کے سلسلے میں ایک نئے انقالب کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے‪،‬‬
‫عالمات کے ابھرنے سے بھی قبل کینسر کا پتا چلنے سے ہمارے پاس اس کے عالج کا‬
‫بہترین موقع بھی میسر آ جائے گا۔‬
‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ ٹیسٹ ان کینسرز کو ڈھونڈنے میں کارآمد ثابت ہوا ہے‪،‬‬
‫جن کا ابتدائی مرحلے میں پتا لگانا عام طور پر بہت مشکل ہوتا ہے‪ ،‬جیسا کہ سر اور‬
‫گردن‪ ،‬آنت‪ ،‬پھیپھڑوں‪ ،‬لبلبے اور گلے کا کینسر۔‬
‫گریل کمپنی کا کہنا ہے کہ گیلری ٹیسٹ نہ صرف کینسر کی وسیع اقسام کا پتا لگا سکتا ہے‬
‫بلکہ یہ بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کینسر جسم میں کس مقام پر موجود ہے‪ ،‬اور یہ ٹیسٹ‬
‫خاص طور سے مہلک کینسرز کی تشخیص میں بہت کارآمد ہے اور غلط نتیجے کی شرح‬
‫اس میں نہایت ہی کم ہے۔‬
‫برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ ان ٹرائلز کے ابتدائی نتائج ‪ 2023‬میں متوقع ہیں۔ واضح‬
‫رہے کہ برطانیہ میں ہر سال تقریبا ً ‪ 3‬الکھ ‪ 60‬ہزار افراد میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/galleri-blood-test-for-cancer/‬‬

‫جانئے‪ ،‬سرسوں کے تیل میں پوشیدہ صحت کے خزانے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 13 2021‬‬

‫سرسوں کا تیل جسم کے لیے انتہائی مفید سمجھاجاتا ہے‪ ،‬سرسوں کے تیل کی خوشبو‬
‫اورذائقہ نہایت فرحت بخش ہوتا ہے‪ ،‬اس میں متعدد وٹامنز اور غذائی عناصر موجود‬
‫ہوتے ہیں جس میں وٹامن ایچ ‪ ،‬وٹامن اے ‪ ،‬کیلشیم ‪ ،‬پروٹین‪ ،‬اور اومیگا ‪ 3‬شامل ہوتے‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سرسوں میں طبی خصوصیات ہونے کی وجہ سے سرسوں کے تیل کو گھریلو عالج کے‬
‫لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‬

‫صحت سے متعلق بعض مسائل سے نمٹنے کے لیے ٓایوروید میں بھی اس کا استعمال کیا‬
‫جاتا ہے۔ اینٹی فنگل‪ ،‬اینٹی بیکٹیرل اور اینٹی انفالمیٹری خصوصیات سے لبریز سرسوں‬
‫کے تیل کا استعمال کرتے ہوئے جب سبزیاں تیار کی جاتی ہیں تب یہ نہ صرف ذائقہ دار‬
‫ہوتی ہیں بلکہ کئی بیماریوں سے بھی بچنے میں مدد کرتی ہے۔‬
‫صرف ٓایوروید میں ہی نہیں بلکہ نیوٹریشن کے ماہرین بھی یہ مانتے ہیں کہ جس گھر میں‬
‫لوگ کھانا بنانے کے لیے سرسوں کے تیل کا استعمال کرتے ہیں وہاں لوگ کم بیمار پڑتے‬
‫ہیں۔‬
‫سرسوں کے تیل کے فوائد‬
‫سرسوں کے تیل میں پکایا ہوا کھانا کسی دوسرے تیل میں پکائے ہوئے کھانے کے مقابلے‬
‫میں آسانی سے ہضم ہوتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں وہ قبض‬
‫کی شکایت کم کرتے ہیں۔‬
‫سرسوں کے تیل میں جراثیم کش خصوصیات ہوتی ہیں‪ ،‬یہ پیشاب کے مسائل کو دور رکھتا‬
‫ہے اور یہ آنتوں اور نظام انہضام سے متعلق انفیکشن سے بھی لڑتا ہے۔‬
‫جلد پر سر سوں کی تیل سے مالش کرنے سے سورج کے بنفشی شعاعوں کے اثرات اور‬
‫ٓالودگی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔اس کے عالوہ یہ جھریاں کو بھی روکتا ہے‪ ،‬اس کا‬
‫استعمال فیس پیک پر بھی ہوتا ہے۔‬
‫سرسوں کے تیل کا جسم پر مساج خون کے دورانیے کو تیز کرنے میں مدد کرتا ہے۔‬
‫سرسوں کے تیل کی مالش کرنی چاہیے اس سے جسم کے اہم اعضاء تک آکسیجن کے بہاؤ‬
‫میں آسانی رہتی ہے‪ ،‬اس کا مساج پٹھوں کے درد کو دور کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ‪  ‬اینٹی فنگل خصوصیات رکھتا ہے ‪ ،‬یعنی یہ فنگس کو مارتا ہے اور اسے بڑھنے سے‪ ‬‬
‫بھی روکتا ہے۔‬

‫سرسوں کا تیل بالوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس میں موجود لینولیک ایسڈ جیسے فیٹی‬
‫ایسڈ بالوں کی جڑوں کی نشوونما کرتے ہیں۔ لمبے وقت تک اس کا استعمال کرنے سے بال‬
‫گرنا ختم ہو جاتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/health-treasures-hidden-in-mustard-oil/‬‬

‫ٹی بیگ‘ کی چائے پینے والے خبردار’‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 13 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دنیا بھر میں چائے کے لیے ٹی بیگز کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن سائنس دانواں نے ٹی‬
‫بیگز کی چائے پینے والوں کو خبردار کردیا۔‬
‫جرمن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹی بیگز میں ایسے اجزا شامل ہیں جن کا استعمال‬
‫انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫جرمن محققین کا کہنا ہے کہ جس کاغذ سے ٹی بیگ بنایا جاتا ہے اس میں انسانی صحت‬
‫کے لیے مضر مادے پائے جاتے ہیں اور بعض صورتوں‪ Œ‬میں یہ کینسر کا باعث بھی بن‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫رپورٹ کے مطابق جرمن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق کے لیے چھ کمپنیوں کے ٹی‬
‫بیگز کو مختلف طریقے سے جانچا گیا جن میں تین مہنگی اور تین ٹی بیگ سستی کمپنی‬
‫کے تھے‪ ،‬تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ ان میں کم از کم چار ایسے اجزا شامل تھے جو‬
‫کیڑے مار ادویات میں شامل ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’ایپی کلوروہائیڈین‘ نامی ایک مادہ اس کاغذ میں شامل ہوتا ہے‬
‫جو ٹی بیگ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہی اس کو صحت کے لیے نقصان دہ بناتا ہے۔‬
‫جرمن سائنسدانوں کے مطابق ٹی بیگ کو تھیلیوں میں لپیٹنے اور ان کو ابلتے ہوئے پانی‬
‫میں ڈالنے سے نقصان دہ مادہ پانی میں مل جاتا ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ پتی کو براہ راست استعمال کرنا پیکٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر‬
‫ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/577487-2/‬‬

‫ت مدافعت یا ہرڈ ایمیونٹی کیا ہے؟‬


‫اجتماعی قو ِ‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫دبئی‪ :‬سپر ہیومن ایمیونٹی یا ہرڈ ایمیونٹی حالیہ دنوں میں استعمال ہونے والی اصطالح‬
‫ہے جو سائنسدان استعمال کررہے ہیں‪ ،‬جنہوں نے کرونا وائرس کے خالف نام نہاد بلٹ‬
‫پروز ایمیونٹی بنائی ہے۔‬
‫متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی اور قدرتی ویکسین‬
‫سے پیدا ہونے والی ایمیونٹی کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔‬
‫برجیل اسپتال کے مشیر مائیکرو بائیولوجسٹ ڈاکٹر سندر الیاپیرومل کا کہنا ہے کہ جب‬
‫سارس کو وی ٹو کے خالف قدرتی طور پر حاصل ہونے والی قوت مدافعت ویکسین سے‬
‫پیدا ہونے والی قوت مدافعت کے ساتھ مل جاتی ہے تو ہماری توقع سے زیادہ مدافعتی‬
‫ردعمل پیدا ہوتا ہے۔‬

‫الفاطمہ ہیلتھ میں چیف کلینکل آفیسر ڈاکٹر تھوالفقار نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی‬
‫سسٹم کا رسپانس اچھی پوزیشن میں ہے ‪ ،‬مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے شخص کے‬
‫بدن میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل مؤثر رہتا ہے جوکہ کرونا وائرس کے خالف فعال کردار‬
‫ادا کرتے ہیں۔‬
‫القوسیسی کے آستر کلینک میں جنرل میڈیسن کے ڈاکٹر محمد سلیمان خان کا کہنا ہے کہ‬
‫کرونا وائرس کی وہ ویکسین جو آر این اے پر بنیاد رکھتے ہوں ‪ ،‬وہ سارس کو ٹو وائرس‬
‫کے انفیکشن کے بعد سپیرئیر ایمیون پروٹیکشن دیتا ہے۔‬
‫یو اے ای میں جہاں کرونا کیسز میں کمی کی روشنی میں ڈاکٹروں نے کہا کہ متحدہ عرب‬
‫امارات کے باشندوں میں ہرڈ ایمیونٹی کا رجحان بڑھ سکتا ہے‪ ،‬دوسری جانب متحدہ عرب‬

‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امارات کی مضبوط ویکسی نیشن مہم کو ڈاکٹروں نے بہترین قرار دیتے ہوئے اسے‬
‫مدافعتی رجحان کے لئے کریڈٹ دیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر الباج کا کہنا ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی عام طور پر اس وقت حاصل کیا جاتا ہےجب کل‬
‫آبادی کا کم از کم اسی فیصد مدافعتی ہوجائے اور یا تو سارے وائرس سے متاثر ہو یا‬
‫ویکسین لگوالیں۔‬
‫ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہم نے ہرڈ ایمیونٹی تقریبا حاصل کی ہو‪ ،‬اس کی وجہ‬
‫یہ ہے کہ آبادی کے بڑے حصے کو کم از کم ایک کرونا ویکسین کا ڈوز مل چکا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/what-is-heard-immunity/‬‬

‫کورونا ویکسین کی کتنی خوارکیں ضروری ہیں؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫لندن ‪ :‬عالمی سطح پر پھیلنے والے وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے دنیا بھر میں‬
‫مختلف ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔‬
‫برطانوی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی شدت‬
‫پر قابو پانے کے لیے ویکسین لگوانا کافی ہے جبکہ بوسٹر خوراک کی فی الحال ضرورت‬
‫نہیں۔‬
‫خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی سائنسی جریدے “دا لینسٹ” میں پیر کو‬
‫شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عام عوام کو ویکسین کی بوسٹر خوراک لگوانے‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خیال رہے کہ چند ممالک نے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے باعث ویکسین کی اضافی‬
‫خوراکیں بھی لگانا شروع کردی ہیں۔‬
‫نئی سامنے آنے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے‬
‫باوجود وبا کی اس اسٹیج پر عام عوام کے لیے بوسٹر خوراک مناسب نہیں ہے۔ اس تحقیق‬
‫کے محققین میں عالمی ادارہ صحت کے سائنس دان بھی شامل ہیں۔‬
‫تحقیق کے محققین نے دیگر سٹڈیز اور کلینکل ٹرائلز کا بھی جائزہ لیا ہے جس سے یہ‬
‫معلوم ہوا کہ ڈیلٹا ویریئنٹ سمیت کورونا کی ہر قسم کی شدید عالمات کے خالف بھی‬
‫ویکسین انتہائی مؤثر رہتی ہے۔‬
‫تحقیق کی مرکزی مصنف اور عالمی ادارہ صحت کی سائنسدان اینا ماریو کا کہنا ہے کہ‬
‫موجودہ سٹدیز معتبر ثبوت پیش نہیں کرتیں کہ کسی بھی شدید بیماری کے خالف تحفظ میں‬
‫ویکسین کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلی ترجیح ان افراد کے لیے ویکسین فراہم کرنے‬
‫کی ہونی چاہیے جنہیں ابھی تک نہیں لگ سکی۔ تحقیق کی مرکزی مصنف اینا ماریو نے‬

‫مزید کہا کہ ویکسین جلد ہی کورونا کے مزید ویریئنٹس پیدا ہونے میں رکاوٹ کا سبب بن‬
‫سکتی ہے۔‬
‫فرانس میں عمر رسیدہ افراد اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ویکسین کی تیسری‬
‫خوراک لگانا شروع کر دی ہے جبکہ اسرائیل میں بارہ اور زیادہ عمر کے بچوں کو‬
‫دوسری خوراک لگانے کے پانچ ماہ بعد تیسری خوراک لگائی جا رہی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ سال کے‬
‫آخر تک ویکسین کی اضافی خوراک دینے سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ نے تمام ممالک کو‬
‫ہدایت کی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک اپنی ‪ 10‬فیصد ٓابادی کو ویکسین لگا لیں جبکہ‬
‫‪ 40‬فیصد کو سال کے آخر تک۔‬
‫برطانوی تحقیق کے مطابق کورونا کے موجودہ ویریئنٹس کی اس حد تک نشونما نہیں ہوئی‬
‫کہ ویکسین ان کے خالف مؤثر نہ ہو۔‬
‫تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ وائرس کی نئی اقسام پیدا ہونے کی صورت میں موجودہ‬
‫ویکسین کی تیسری خوراک لگانے سے بہتر ہے کہ نئے ویریئنٹ کے مطابق ویکسین‬
‫بوسٹرز تیار کیے جائیں جو پھر لوگوں کو لگائے جائیں۔‬
‫لندن کے ایمپیریل کالج میں متعدی بیماریوں کے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ عذرا غنی کا کہنا‬
‫ہے کہ بوسٹر ویکسین کے معاملے پر کوئی ایک نقطہ نظر نہیں اپنایا جاسکتا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-research/‬‬

‫کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی ال کر ذیابیطس ٹائپ ٹو‬
‫یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی‬
‫ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی‬
‫نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پالن تیار کیا گیا اور ‪ 12‬ہفتوں‬
‫تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔‬
‫ان مریضوں کو کم کیلوریز‪ ،‬کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین واال غذائی پالن دیا گیا‬
‫اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ ‪ 2‬کا عالج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت‬
‫کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے‪ ،‬مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی‬
‫ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان‬
‫کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس‬
‫کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس‪ Œ‬والی غذا‬
‫استعمال کرتے ہیں‪ ،‬تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے‬
‫یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا‬
‫کرسکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 50‬فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز‪ ،‬کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین‬
‫والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔‬
‫ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی ‪12‬‬
‫جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔‬
‫محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول‪ ،‬اوسط جسمانی وزن‪ ،‬بلڈ پریشر اور‬
‫مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے‬
‫جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/diabetes-can-be-reversed/‬‬

‫وہ طریقہ کار جو ذیابیطس کو ریورس کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا‬
‫ہے‬
‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫—یہ ایسا مرض ہے جس کا ابھی کوئی عالج دستیاب نہیں‬


‫ذیابیطس کو العالج مرض سمجھا جاتا ہے جس کو دوا اور طرز زندگی کی مدد سے‬
‫کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے مگر اس سے مکمل نجات ممکن نہیں۔‬
‫مگر طبی ماہرین کے خیال میں غذا میں تبدیلی الکر ذیابیطس ٹائپ ٹو سے نجات یا اسے‬
‫ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا۔کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور‬ ‫یہ‬
‫برطانیہ کی ٹیسسائیڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین‬
‫(فارماسٹ) کی نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ماہرین کے زیرانتظام ایک خصوصی غذائی پالن تیار کیا گیا اور ‪ 12‬ہفتوں‬
‫تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔‬
‫ان مریضوں کو کم کیلوریز‪ ،‬کم کاربوہائیڈریٹس‪ ،‬زیادہ پروٹین والی غذائی پالن دیا گیا اور‬
‫ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ ماہرین نے کی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ ‪ 2‬کا عالج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت‬
‫کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے ‪ ،‬مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی‬
‫ضرورت ہے تاکہ لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان کی‬
‫ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس‬
‫کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان کا کہنا تھا کہ جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس والی غذا استعمال‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے یا نہ‬
‫کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرسکتے‬
‫ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 50‬فیصد رضاکاروں کو کم کیلوریز اور کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ‬
‫پروٹین والی غذا کا استعمال کرایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے اس کا معائنہ جاری‬
‫رکھا۔‬
‫ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی ‪12‬‬
‫جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔‬
‫محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول‪ ،‬اوسط جسمانی وزن‪ ،‬بلڈ پریشر اور‬
‫مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے‬
‫جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔‬
‫خیال رہے کہ ‪ 2019‬میں دنیا بھر میں ذیابیطس کے ‪ 46‬کروڑ سے زائد مریضوں کی‬
‫موجودگی کے اعدادوشمار سامنے آئے تھے جن میں سے ‪ 90‬فیصد ذیابیطس ٹائپ ‪ 2‬کے‬
‫شکار ہیں۔‬
‫ذیابیطس کے نتیجے میں امراض قلب‪ ،‬فالج اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے‬
‫جبکہ موٹاپے کو ذیابیطس ٹائپ ٹو کا باعث بننے واال اہم ترین عنصر مانا جاتا ہے‪ ،‬جبکہ‬
‫کچھ جینیاتی عناصر بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل دسمبر ‪ 2020‬میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور اٹلی کی میالن‬
‫یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جسمانی وزن میں کمی الکر ذیابیطس کی‬
‫روک تھام یا اسے ریورس کرنے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔‬
‫تحقیق کے دوران ساڑھے ‪ 4‬الکھ کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر‬
‫‪ 57‬سال تھی اور ان میں ‪ 54‬فیصد خواتین تھیں۔‬
‫ذیابیطس کے موروثی خطرے کے تجزیے کے لیے ‪ 69‬الکھ جینز کا تجزیہ کیا گیا جبکہ‬
‫قد اور وزن کی بھی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫ان افراد کو ان کے جسمانی وزن کے مطابق ‪ 5‬گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا اور پھر ان کا‬
‫جائزہ مزید کئی سال تک لیا گیا‪ ،‬جس کے دوران ‪ 31‬ہزار سے زائد میں ذیابیطس ٹائپ ‪2‬‬
‫کی تشخیص ہوئی۔‬
‫محققین نے دریافت کیا گیا کہ جن افراد کا جسمانی وزن زیادہ تھا‪ ،‬ان میں ذیابیطس کا‬
‫خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 11‬گنا زیادہ تھا۔‬
‫یعنی جسمانی وزن جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی ذیابیطس کا شکار ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جائے‬
‫گا‪ ،‬چاہے جینیاتی خطرات جو بھی ہوں۔‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جسمانی وزن جینیاتی عناصر کے مقابلے‬
‫میں ذیابیطس کی پیشگوئی کا سب سے طاقتور عنصر ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کے بیشتر کیسز کی روک تھام جسمانی وزن کو صحت مند سطح‬
‫پر رکھ کر ممکن ہے جس سے بلڈ شوگر کی سطح میں اضافے کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ذیابیطس کی روک تھام کے لیے جسمانی وزن اور بلڈ شوگر کی جانچ‬
‫پڑتال کو معمول بنانا چاہیے جبکہ جسمانی وزن میں کمی کے لیے کوششیں اس وقت‬
‫شروع کردینی چاہیے جب بلڈ شوگر بڑھنے لگے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168340/‬‬

‫کورونا کی نئی قسم ’مو‘ اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت کرنے‬
‫والی قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اگست ‪ 2021‬کے آخر میں کورونا وائرس کی ایک‬
‫اور قسم کو 'ویرینٹس آف انٹرسٹ' میں شامل کرلیا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اب کورونا کی اس قسم کے حوالے سے ایک نئی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے‬
‫قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف بہت زیادہ مزاحمت )‪ (Mu‬مطابق مو‬
‫کی صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی۔ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر‬
‫جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے خالف انسانی دفاع‬
‫(ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ دیگر اقسام سے کیا‬
‫گیا۔‬
‫اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات‬
‫کا موازنہ ایسے ‪ 18‬افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا‪ ،‬جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی یا وہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کا شکار رہ چکے تھے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خالف دیگر تمام اقسام‬
‫بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔‬
‫بیٹا کورونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار‬
‫دیا جاتا ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں گزرے‬
‫اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔‬
‫دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف ‪ 18‬افراد کے نمونوں کا‬
‫تجزیہ کیا گیا تھا۔مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسینیشن کرانے والوں‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یا اس بیماری کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے‬
‫سمجھے میں مدد مل سکے گی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے‬
‫خالف دیگر اقسام کے مقابلے میں ‪ 12‬گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔‬
‫اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسینیشن (فائزر‪/‬بائیو این ٹیک ویکسین) سے پیدا ہونے والی‬
‫اینٹی باڈیز کے خالف ‪ 7.6‬گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫میں شائع ہوئے۔ ‪ bioRxiv‬اس تحقیق کے نتائج پری پرنٹ سرور‬
‫یا بی ‪ 1.621‬کو ‪ 30‬اگست کو )‪ (Mu‬عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی اس نئی قسم مو‬
‫مانیٹرنگ لسٹ کا حصہ اس وقت بنایا جب یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ نئی قسم ویکسنیشن‬
‫یا بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خالف جزوی مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫اب تک یہ نئی قسم دنیا کے ‪ 44‬ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے وبا کے حوالے سے ہفتہ وار بلیٹن کے مطابق مو قسم میں ایسی میوٹیشنز کا‬
‫مجموعہ ہے جو مدافعتی ردعمل سے بچنے کی خصوصیات کا عندیہ دیتا ہے۔‬
‫کورونا کی یہ نئی قسم سب سے پہلے جنوری ‪ 2021‬میں جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا‬
‫میں دریافت ہوئی تھی اور اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کیسز کو دریافت‬
‫کیا جاچکا ہے۔‬
‫ابتدائی ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کے دفاع کے خالف ممکنہ طور پر اسی‬
‫طرح حملہ آور ہوسکتی ہے جیسے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا کی قسم بیٹا‬
‫کرتی ہے‪ ،‬مگر تصدیق کے لیے مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168271/‬‬

‫اکثر تناؤ کا شکار رہنا جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھائے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫اگر آپ اکثر ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے‬
‫جس کا نتیجہ ہارٹ اٹیک یا فاللج جیسی جان لیوا بیماریوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طبی جریدے جرنل سرکولیشن میں شائع اس تحقیق میں بتایا گیا کہ بہت زیادہ تناؤ کا سامنا‬
‫کرنے والے افراد میں ایک دہائی کے اندر ہائی بلڈ پریشر میں مبتال ہونے کا خطرہ بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک ہارمون کورٹیسول (یہ تناؤ کی سطح بڑھنے پر خارج ہوتا ہے)‬
‫کی سطح میں وقت کے ساتھ بڑھتا ہے تو فالج‪ ،‬ہارٹ اٹیک یا امراض قلب کا خطرہ بھی‬
‫بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ تناؤ‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬چڑچڑاہٹ‪ ،‬غصہ اور زندگی کے بارے میں منفی‬
‫نظریہ نہ صرف لوگوں کی خوشی کو ختم کرتا ہے بلکہ اس سے صحت اور عمر پر بھی‬
‫منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمام ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرنے پر دریافت کیا کہ ذہنی صحت کے‬
‫منفی عناصر جیسے تناؤ اور دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے درمیان واضح تعلق‬
‫موجود ہے۔‬
‫مگر اچھی خبر یہ ہے کہ ذہنی صحت کو بہتر کرکے دل کی صحت پر بھی مثبت اثرات‬
‫مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫محققین کے مطابق تناؤ کے حوالے سے لوگوں کو اپنا ذہن بدلنے کی ضرورت ہے اور‬
‫شعور پیدا کریں کہ تناؤ خود ان کے لیے قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔اس تحقیق میں ‪ 48‬سے ‪87‬‬
‫سال کی عمر کے ‪ 412‬افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے پیشاب کے نمونوں میں تناؤ‬
‫کے دوران خارج ہونے والے ہارمونز کی سطح کی جانچ پڑتال ‪ 2005‬سے ‪ 2018‬کے‬
‫دوران کی گئی تھی۔‬
‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہارمونز کی سطح کا موازنہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے ہائی بلڈ پریشر‪ ،‬دل‬
‫میں تکلیف‪ ،‬ہارٹ اٹیک اور بائی پاس سرجری سے کیا گیا۔‬
‫جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ‪ 3‬ہارمونز کو جانچا گیا تھا جو اعصابی‬
‫نظام کو ریگولیٹ اور دل کی دھڑکن‪ ،‬بلڈ پریشر اور سانس جیسے افعال کو کنٹرول کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫بعدازاں ماہرین نے کورٹیسول کی سطح کا جائزہ لیا جو تناؤ کے دوران جسم کی جانب‬
‫سے خارج ہوتا ہے‪ ،‬مگر تناؤ ختم ہونے پر جسم کی جانب سے اسے بنانے کی مقدار کم‬
‫ہوجاتی ہے‪ ،‬مگر مسلسل تناؤ کے باعث اس کی سطح بھی زیادہ رہتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دیگر ہارمونز کے مقابلے میں کورٹیسول کی سطح دگنی‬
‫بڑھنے سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ ‪ 90‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫چاروں ہارمونز کی سطح میں مجموعی طور پر ‪ 100‬فیصد اضافے سے ہائی بلڈ پریشر کا‬
‫خطرہ ‪ 21‬سے ‪ 31‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے‪ ،‬یہ اثر ‪ 60‬سال کی عمر میں زیادہ نمایاں ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق کسی حد تک محدود تھی کیونکہ اس میں کوئی کنٹرول‬
‫گروپ نہیں تھا اور ہارمونز کے یے صرف ایک پیمانے یعی پیشاب کے نمونوں کو‬
‫استعمال کیا گیا۔‬
‫مگر ان کا کہنا تھا کہ یشاب سے ہارمونز کی جانچ پڑتال کا نوول طریقہ کار ہے‪ ،‬جس‬
‫سے ہم بتا سکتے ہیں کہ کن افراد کو وقت کے ساتھ زیادہ تناؤ کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168346/‬‬

‫کووڈ ویکسینز کی ٹھوس افادیت کے پیش نظر بوسٹر ڈوز کی ضرورت‬


‫نہیں‪ ،‬ماہرین‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ کے لیے کووڈ ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں کی افادیت اتنی‬
‫زیادہ ہے کہ اس وقت کورونا کی وبا کے لیے بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہیں۔‬
‫یہ بات بین االقوامی طبی ماہرین کے ایک گروپ کی جانب سے جاری رپورٹ میں سامنے‬
‫آئی۔ماہرین کی اس ٹیم میں عالمی ادارہ صحت اور امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‬
‫کے ماہرین بھی شامل تھے۔‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ رپورٹ طبی جریدے دی النسیٹ میں شائع ہوئی جس میں کنٹرول ٹرائلز اور تحقیقی‬
‫رپورٹس میں دستیاب شواہد کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬
‫تحقیقی رپورٹس میں مسلسل یہ بات سامنے آئی کہ ویکسینز سے کووڈ کی سنگین شدت‬
‫کے خالف ملنے والے ٹھوس تحفظ کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔‬
‫ان رپورٹس میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن سے ڈیلٹا اور ایلفا جیسی کورونا کی اقسام سے‬
‫بیمار ہونے پر سنگین پیچیدگیوں سے ‪ 95‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ بیمار ہونے سے‬
‫بچانے کے لیے ویکسینز کی افادیت ‪ 80‬فیصد ہے۔‬
‫مجموعی طور پر بیماری کی معمولی شدت کے مقابلے میں سنگین شدت کے خالف‬
‫ویکسینز سے بہت زیادہ تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اگرچہ بغیر عالمات والی بیماری سے بچانے یا وائرس کے آگے پھیالؤ کے خالف‬
‫ویکسینز کی افادیت بیماری کی سنگین شدت کے مقابلے میں کچھ کم نظر آتی ہے‪ ،‬مگر‬
‫وائرس کے پھیالؤ میں ویکسینیشن نہ کرانے والے ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫ٹیم میں شامل ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار ڈاکٹر اینا ماریہ ہیناؤ ریسٹریپو نے بتایا کہ اس وقت‬
‫دستیاب تحقیقی رپورٹس میں ایسے قابل اعتبار شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے بیماری‬
‫کی سنگین شدت کے خالف ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی ثابت ہوئی ہو‪ ،‬جو کہ‬
‫ویکسینیشن کا بنیادی مقصد ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ویکسینز کی محدود سپالئی سے ایسی متعدد زندگیوں کو بچایا جاسکتا‬
‫ہے جن میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬اگرچہ بوسٹر ڈوز سے کچھ‬
‫فائدہ ضرورت ہوسکتا ہے مگر اس کے مقابلے میں وہ فوائد زیادہ ہیں جو ویکسین سے‬
‫دور افراد کو ابتدائی تحفظ فراہم کرکے حاصل ہوسکتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ اگر ویکسینز ان جگہوں پر فراہم کی جائے جہاں بیماری پھیلنے کا خطرہ‬
‫زیادہ ہے تو وبا کے خاتمے کا راستہ کھل سکتا ہے جس سے وائرس کے مزید ارتقا کی‬
‫روک تھام بھی ہوسکے گی۔‬
‫محققین نے یہ بھی بتایا کہ اگر ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں‬
‫وقت کے ساتھ کمی بھی آتی ہے تو ضروری نہیں کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے‬
‫خالف ویکسینز کی افادیت میں کمی آسکتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماری کی سنگین شدت کے خالف تحفظ صرف‬
‫اینٹی باڈی ردعمل سے ہی نہیں ملتا بلکہ میموری ردعمل اور خلیاتی مدافعت بھی اس‬
‫حوالے سے کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫ماہرین نے مزید بتایا کہ ویکسینیشن کی شرح بڑھنے سے بغیر ویکسین والے لوگوں کی‬
‫تعداد کم ہوگی ‪ ،‬جس سے بریک تھرو انفیکشن کیسز تو بڑھ جائیں گے مگر سنگین بیماری‬
‫سے تحفظ برقرار رہے گا‪ ،‬کیونکہ ابھی وائرس کی اقسام ایسی نہیں جو میموری مدافعتی‬
‫ردعمل سے بھی بچ سکیں۔‬
‫ان ماہرین میں شامل ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے بتایا کہ‬
‫اس وقت دستیاب ویکسینز محفوظ‪ ،‬مؤثر اور زندگیاں بچا رہی ہیں‪ ،‬اگرچہ تیسری خوراک‬
‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سے ویکسینیشن کرانے والے لوگوں کی مدافعت کو بڑھانے کا خیال اچھا لگتا ہے کہ مگر‬
‫اس حوالے سے فیصلہ شواہد کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168343/‬‬

‫ماں اور کوالٹی ٹائم کی مسٹری‬

‫صوفیہ کاشف‬
‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫بچے پالنا‪ ،‬ان کی تربیت کرنا میری زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک تھا‬
‫کیونکہ میں اس حوالے سے مکمل طور پر العلم تھی۔ جب جو آپ کی سمجھ میں آئے‪ ،‬جو‬
‫آپ سے بے ساختہ ہو‪ ،‬عادت سے مجبور ہوکر ہو اور آپ کرتے چلے جائیں تو کچھ بھی‬
‫مشکل نہیں لگتا۔‬
‫مشکل تو تب ہوجاتی ہے جب عادت کسی اور چیز کی ہو‪ ،‬بے ساختگی اور فطرت کے‬
‫ہاتھوں مجبوری کچھ اور کروائے جبکہ عقل‪ ،‬شعور اور تعلیم کے تقاضے کچھ اور ہوں۔‬
‫جو آپ کو بتایا اور سمجھایا جارہا ہو کہ فالں صحیح راستہ ہے لیکن آپ فطری اور جبلتی‬
‫طور پر اس کے مخالف چلنے پر مجبور ہوں حاالنکہ یہ جانتے ہوں کہ صحیح راستہ کوئی‬
‫اور ہے۔‬
‫تو میں جانتی تھی صحیح راستہ کوئی اور ہے مگر اس راستے تک پہنچ نہ پاتی تھی کہ‬
‫میرے پاس ادھورا علم تھا‪ ،‬ایسا علم جو میرے آس پاس کے معاشرے کے لوگوں اور‬
‫خاندانوں میں برتا ہی نہ گیا ہو‪ ،‬جسے میں نے زندگی میں کبھی سہہ کر یا چُھو کر دیکھا‬
‫ہی نہ ہو اور میں اس کی جزیات‪ ،‬اس کے مینول اور اس میں درپیش مشکالت سے نمٹنے‬
‫کے طریقے سے العلم تھی۔‬
‫میں کبھی وہ نہ کرسکی جس کا میرا علم تقاضا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ اسی اور بہتی رہی‬
‫جہاں میرا زندگی سے کشید کیا تجربہ اور عادتوں کی مجبوری مجھے دھکیل کر لے جاتی‬
‫رہی‪ ،‬سو میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جہاں سے میں اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں‪ ،‬میں شاید اس‬
‫مشکل امتحان میں بہت کم نمبروں سے پاس ہوتی ہوں۔‬
‫مزید پڑھیے‪ :‬ماں بنی تو ماں کی قدر نہ کرنے کا پچھتاوا ستانے لگا‬
‫بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کس طرح سے حل کرنے ہیں‪ ،‬تھکی ہوئی‪ ،‬کام میں‬
‫پھنسی ہوئی حالت میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کس طرح سننا ہے‪ ،‬چھوٹی چھوٹی‬
‫غلطیوں کو کیسے درگزر کرنا ہے‪ ،‬میرے لیے یہ سب الجبرا سے بھی مشکل کام ثابت ہو‬
‫رہا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیسے کیا جائے؟ آخر کیسے؟ میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری‬
‫آج تک حل نہ ہوسکی۔ میں نے جب بھی خود کو بچوں میں جاکر بٹھایا تو خود کو گمشدہ‬
‫پایا۔ کبھی گھر کی صفائی میں‪ ،‬کبھی گندے برتنوں کی دھالئی میں اور کبھی اپنی نفسیاتی‬
‫اور جذباتی الجھنوں میں خود کو جکڑا پایا۔‬
‫اس کے باوجود کہ میں کم سے کم بھی ایک دہائی دن اور رات بچوں کے قریب رہی‪ ،‬اپنے‬
‫ہی ہاتھوں سے بچوں کو دھویا نہالیا‪ ،‬سنوارا اور کھالیا‪ ،‬مگر کیا میں نے ان کو کوالٹی‬
‫ٹائم دیا؟ نہ مجھے آج تک یہ سمجھ آئی کہ یہ کوالٹی ٹائم کس بال کا نام ہے‪ ،‬کیسے دیا جاتا‬
‫ہے اور اس کے لیے کیسے کوشش کی جاتی ہے؟ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر میں اکثر کھیل‬
‫نہیں سکی‪ ،‬ان سے میں آج تک دوستی نہ کرسکی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر آج تک کارٹون نہ‬
‫دیکھ سکی۔ کیوں؟‬

‫—میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری آج تک حل نہ ہوسکی‬


‫‪Ivaccinate.org‬‬
‫اگر ہم اپنے ماحول میں اور اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کہیں کوئی مثال ایسی‬
‫نہیں ملتی جب ہمیں یا دوسرے بچوں کو کوالٹی ٹائم ملتا ہو۔ یہ حسرت نہیں‪ ،‬یہ اس علم‬
‫سے محرومی کا شکوہ ہے جو اگر آس پاس سے کہیں سے ماخوذ ہوسکے تو اس پر عمل‬
‫کرنے اور دہرانے میں آسانی ہوتی ہے۔‬
‫بچوں کی ضد اور ان کی جانب سے شور مچانے پر کس طرح سے ر ِدعمل ظاہر کرنا ہے؟‬
‫ہم نے عملی زندگی میں صرف ایک چیز دیکھی کہ بچہ تنگ کرے یا شور کرے تو اسے‬
‫ڈانٹ کر بھگا دو‪ ،‬اسے شٹ اپ کال دو اور بس۔‬

‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کتابی علم کہتا ہے کہ بچوں کی سنو‪ ،‬ان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرو‪ ،‬لیکن‬
‫کیسے اس سے متعلق کتابیں خاموش ہیں‪ ،‬خصوصا ً یہ کہ کیسے گھریلو مسائل میں پھنسی‬
‫عورت جو ایک ماں ہے‪ ،‬کاموں میں تھکی اور الجھی ہوئی بیوی ہے‪ ،‬پورے گھرانے کی‬
‫تابعدار بہو ہے‪ ،‬جسے کبھی وقت پر ڈھنگ سے کھانے کا وقت نہ ملتا ہو‪ ،‬جو کبھی وقت‬
‫پر نہانے دھونے کی مہلت نہ نکال پاتی ہو‪ ،‬جس کی ہر جسمانی‪ ،‬نفسیاتی اور اخالقی‬
‫ضرورت ہر وقت سو طرح کے سمجھوتوں سے گزر رہی ہو وہ کس طرح سے کتاب کی‬
‫پڑھی ایک الئن پر اتنا عمل کرسکتی ہے کہ ہر کارفرما عنصر کو نظر انداز کرکے روتے‬
‫ضد کرتے بچے کے الجھے مسائل پیار سے سلجھانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔‬
‫یہ ترکیب کم از کم میں تو ساری عمر نہ ڈھونڈ سکی کیونکہ تجربے کی دنیا میں اس کا‬
‫کہیں بھی کوئی ذکر نہیں تھا‪ ،‬ہاں یہ سوچا اور دیکھا تھا کہ روتے بچے کو ڈانٹ دو‪ ،‬ضد‬
‫کرنے والے کو ایک لگا دو‪ ،‬سزا دے دو‪ ،‬سو ڈانٹتے رہے اور سزائیں دیتے رہے‪ ،‬یہاں‬
‫تک کہ ہمارے بڑے بچے چھوٹوں کو ڈانٹنے اور سزا دینے لگے‪ ،‬پھر جانا کہ کیسا غلط‬
‫انجام ہوا۔‬
‫پچھلے ‪ 50‬سالوں میں پیدا ہونے والی نسلیں اتنی مظلوم تھیں کہ کبھی اپنے مہیا علم کے‬
‫ساتھ فرصت سے زندگی نہ گزار سکیں۔ ‪60‬ء‪ ،‬اور ‪70‬ء کی دہائی سے شروع ہونے والے‬
‫ٹی وی سے لے کر آج کے انٹرنیٹ کی معلومات سے بھرپور دنیا تک ہمیشہ ہمیں وہ کچھ‬
‫دکھایا جاتا رہا جو ہماری زندگیوں کا حصہ نہ تھا۔ شفیق ناز اٹھاتے ماں باپ‪ ،‬تمیز دار‬
‫بچے۔ جو ڈرامہ رائٹر کا خوبصورت تخیل جنم دیتا اور ڈائریکٹر کی مہارت اسے پردہ‬
‫اسکرین پر ڈھال کر ہمارے دماغوں میں انڈیلتی رہی۔‬
‫ہر نیا آنے واال وقت ہمارے حال پر انگلی اٹھاتا رہا‪ ،‬ہمیں خود کو بدلنے پر اکساتا رہا یہاں‬
‫تک کہ علم اور معلومات کا ذخیرہ ہوگیا اور اعمال کسی پولیو زدہ بچے کی طرح اسی قد‬
‫کاٹھ کے رہ گئے‪ ،‬جو نہ پھل پھول سکے اور نہ کسی علم و شعور سے کچھ اخذ کرسکے۔‬
‫علم و عمل کی غیر متوازن صورتحال نے صرف بے چینی کو جنم دیا۔‬
‫ہم‪ ،‬جنہوں نے دراصل زندگی میں ایسے شفیق و نفیس ماں باپ نہ دیکھے ہوں‪ ،‬جو صاف‬
‫استری زدہ کپڑوں سے ہر وقت صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوں‬
‫یا ڈائننگ ٹیبل پر پچکارتے شریف تابعدار بچوں کے ناز اٹھاتے ہوں۔ پاکستان میں کتنے‬
‫فیصد والدین زندگی‪ ،‬معاش اور خاندان کے مسائل سے اس قدر آزاد ہیں کہ بچوں کے ناز‬
‫اس انداز میں اٹھا سکیں؟‬
‫ہم سب نے تھوڑی یا زیادہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے جھڑکیاں کھائی ہیں‪ ،‬ان سے ماریں‬
‫کھائی ہیں‪ ،‬ہمیں گود سے نکال کر ایک مخصوص ڈسپلن میں رکھ کر پاال گیا ہے جہاں‬
‫اختالف کو نافذ کرنا تو ُدور کی بات ہماری اکثریت سے اپنے اختالف کا اظہار تک کرنا‬
‫مشکل تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تو ان خوبصورت ترغیبات کے سائے میں ہم نے اپنی زندگیوں کو ان ترغیبات میں ڈھالنا‬
‫شروع کیا۔ ہم نے جانے انجانے میں کہیں سوچا کہ ہم اپنی زندگیاں اس طرح سے بدلیں‬
‫گے۔ ادھورے اور تخیالتی راستوں پر چلتے ہم بھی وہیں پہنچے جہاں ادھورے خوابوں‬
‫اور نامکمل علم کے پیچھے چلنے والوں کا حشر ہوتا ہے۔ منزل تک تو نہ پہنچے بلکہ‬
‫تھکے ہارے کسی دوسری ہی انتہا پر جا نکلے۔‬
‫ہمارے امڈتے پیار نے بچوں کو ضدی اور خودسر بنا دیا‪ ،‬ہم نے بچوں کو پچکارتے‬
‫پچکارتے زندگی کے اخالق کبھی نہ سیکھنے دیے۔ ہم نے آپ جناب کرکے بچے کو‬
‫رہنمائی دینے کے بجائے اسے گھر کا ڈکٹیٹر بنا دیا۔ ہم سے کبھی وہ بچے نہ بن سکے جو‬
‫کھانے کی میز پر بیٹھے والدین کا احترام و عزت سے جی حضوری کرتے ہوں۔ ہم نے‬
‫ڈرامہ نگاروں کے تخیالتی پرواز کو ترغیبات کے طور پر لیا اور ان سے ادھورا علم اخذ‬
‫کیا۔ ہم نے کبوتر بننے کی کوشش کی اور کوے بھی نہ بن سکے۔‬
‫آج جب ہم پیچھے ُمڑ کر دیکھتے ہیں تو ہماری نسلوں میں نہ احترام رہا‪ ،‬نہ آداب رہے‪ ،‬نہ‬
‫تابعداری رہی نہ فرمانبرداری۔ گورے کا علم تو کہتا ہے بچوں کو اچھے خودمختار انسان‬
‫بناؤ مگر کیا اپنے سے بڑی تجربہ کار نسل کی بات نہ سننے‪ ،‬نہ سمجھنے سے والدین کی‬
‫تربیت اور رہنمائی سے صرف نظر کرنے سے انسان اچھا بن سکتا ہے؟ اس سے تو‬
‫زندگی کے انتہائی بنیادی نظریات و اخالقیات ہی بگڑ کر رہ جاتے ہیں وہاں ان سے اچھے‬
‫انسان کیسے جنم لیں گے؟‬
‫کیا یہ گورے نے کہا تھا یا ہم ہی اپنے غلط مشاہدات و ادھورے علم کی بنا پر اسے‬
‫دوسری انتہا تک دھکیلتے چلے گئے؟ شاید اس لیے کہ جو گورے نے کہا تھا وہ ہم تک‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بہت کم پہنچا۔ ہم نہ اس کی پوری بات سُن سکے اور نہ سمجھ سکے۔ ہم نے گوروں کے‬
‫دیس کو نہ جانا‪ ،‬ان کے خاندانی اور معاشی نظام‪ ،‬رویے اور کردار نہ جانے۔ ہم نے‬
‫محض اس کی چند باتیں سُنیں اور اسے اٹھا کر اپنے حاالت و واقعات‪ ،‬اپنے نظام اور‬
‫اخالق و کردار پر ٹھونسنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری لٹیا پار نہ اتر سکی‬

‫ہم نے آپ جناب کرکے بچوں کو رہنمائی دینے کے بجائے ان کو گھروں کا ڈکٹیٹر بنا دیا‬
‫ہماری پچھلی ‪ 50‬سالہ نسلوں پر اس قدر غیر ضروری علم کا بوجھ تھا کہ تجربات کی‬
‫بھٹی میں جتنی بُری طرح ہمیں پیسا گیا شاید ہی ٹیکنالوجی سے پہلے کے زمانے کا انساں‬
‫پستا ہوگا۔ جہاں ہر وقت ایک نئی تھیوری ہمارے سامنے پیش کردی جاتی ہے جس کا‬
‫ہمارے زمینی حقائق سے‪ ،‬ہمارے معاشرے سے اور ہمارے مسائل سے کسی بھی قسم کا‬
‫نباہ ممکن نہیں۔ جہاں ہمیں ہر روز صبح شام ایک ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے‬
‫ماضی‪ ،‬حال اور مستقبل سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا‬
‫مگر اس کے باوجود ہمیں محسوس کرکے اپنے پیچھے بند آنکھوں سے چال لینے پر قادر‬
‫ہے۔‬
‫ہم مایوسیوں اور مشکالت میں پھنس جانے کے لیے بے بس ہوچکے ہیں۔ ہمارے آس پاس‬
‫کے تربیت دینے والے استاد ناپید ہوچکے ہیں۔ ہم مختلف عالقوں اور ماحول میں رہ کر‬
‫دوسرے معاشروں کو سمجھے اور جانے بغیر ان کے رویے کاپی کرنے کی کوشش میں‬
‫مصروف رہتے ہیں۔‬
‫نتیجتا ً ناکام رہتے ہیں۔ اب تک تو کچھ لوگ یہ علم النے کے لیے خود دوسرے معاشرے‬
‫میں چلے جاتے تھے لیکن آج کل ہر چیز گھر بیٹھے آن الئن آنے لگی ہے۔ چنانچہ آنے‬
‫والی نسلوں کے لیے شاید مایوسیوں اور بے چینیوں کی شرح شاید ہم سے کئی گنا زیادہ ہو‬
‫کہ اب تو سلیمانی شیشے میں ہر وہ چیز ہم اپنے کمرے میں بیٹھے دیکھ لیتے ہیں جو‬
‫دراصل وجود ہی نہیں رکھتی۔ ایسے میں وہاں دستیاب علم کے سہارے پلنے والی نسلیں نہ‬
‫جانے زندگی کے ہاتھوں کس قدر پریشان ہوں گی۔‬
‫تو ثابت یہ ہوا کہ خالی کتابی علم بھی انسانوں کو بدلنے کے لیے اس وقت تک ناکافی ہے‬
‫جب تک وہ علم آپ کے حاالت و واقعات اور معاشرے کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔‬
‫گوروں سے سیکھے ہوئے نسخے شاید ہمارے دیسی معاشروں کے لیے ناقاب ِل عمل ہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167559/‬‬

‫سائنسدانوں نے موٹاپے کی بنیادی وجہ دریافت کرلی جو زیادہ کھانا‬


‫نہیں‬
‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫—یہ انتباہ ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا‬

‫‪.‬ویسے تو مانا جاتا ہے کہ بہت زیادہ کھانا لوگوں کو موٹاپے کا شکار بناتا ہے‬
‫مگر ضرورت سے زیادہ کھانا موٹاپے کی بنیادی وجہ نہیں بلکہ لوگوں کا غذائی اتتخاب‬
‫اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی‬
‫تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫واضح رہے کہ موٹاپے سے امراض قلب‪ ،‬فالج‪ ،‬ذیابیطس ٹائپ ٹو اور کینسر کی‬
‫مخصوص اقسام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول‬
‫کی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ لوگوں موٹاپے کے شکار کیوں ہوتے‬
‫ہیں اور دریافت کیا کہ غیر معیاری غذا اور پراسیس کاربوہائیڈریٹس کا انتخاب موٹاپے‬
‫کی وجہ بنتا ہے۔‬
‫محققین نے کاربوہائیڈرٹ۔ انسولین ماڈل کو بھی تجویز کیا جبکہ موٹاپے کی وجوہات کی‬
‫وضاحت کی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس وقت موجود انرجی بیلنس ماڈل سے جسمانی وزن میں اضافے کی‬
‫وجوہات کی وضاحت نہی ہوسکتی۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ لڑکپن میں روزانہ جزوبدن بننے والی کیلوریز کی مقدار ایک ہزار تک‬
‫پہنچ سکتی ہے‪ ،‬مگر کیا ضرورت سے زیادہ کھانا واقعی موٹاپے کی وجہ بنتا ہے؟‬
‫محققین کے تجویز کردہ نئے ماڈل میں موٹاپے کی وجہ موجودہ عہد کے غذائی انتخاب‬
‫کو قرار دیا گیا جس میں ایسی غذاؤں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جو پراسیس اور بہت تیزی‬
‫سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہ غذائیں ہارمونز ردعمل کا باعث بن کر میٹابولزم میں تبدیلیاں التا ہے‬
‫جس کے باعث جسم میں چربی کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے اور اس کا نتیجہ جسمانی وزن‬
‫میں اضافے اور موٹاپے کی شکل میں نکلتا ہے۔‬
‫محققین نے مزید بتایا کہ جب ہم بہت زیادہ پراسیس کاربوہائیڈریٹس کو زیادہ کھانے لگتے‬
‫ہیں جو جسم میں انسولین کا اخراج بڑھتا ہے اور گلوکوز کا اخراج دب جاتا ہے‪ ،‬جس‬
‫کے باعث چربی کے خلیات کو زیادہ کیلوریز ذخیرہ کرنے کا سگنل ملتا ہے‪ ،‬مسلز اور‬
‫میٹابولک متحرک ٹشوز کے لیے دستیاب کیلوریز بہت کم ہوجاتی ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق جب جسم کو مناسب مقدار میں توانائی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے‬
‫ردعمل میں دماغ بھوک کا احساس بڑھا دیتا ہے‪ ،‬جسم کی جانب سے افعال کے لیے‬
‫درکار ایندھن کو محفوظ رکھنے کی کوشش سے میٹابولزم کی رفتار سست ہوجاتی ہے‪،‬‬
‫جس سے بھی کھانے کے بعد بھوک کا احساس بڑھ جاتا ہے چاہے جسم میں اضافی‬
‫چربی ہی کیوں نہ جمع ہوجائے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ غذا کی کم مقدار طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی وزن میں کمی نہیں‬
‫التی‪ ،‬کاربوہائیڈریٹ۔انسوین ماڈل میں تجویز کیا گیا ہے کہ زیادہ توجہ اس بات پر مرکوز‬
‫کی جائے کہ ہم کیا کھاتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ بہت تیزی سے ہضم ہونے والے کاربوہائیڈریٹس کی بجائے کم چکنائی‬
‫اور صحت کے لیے مفید غذاؤں کا انتخاب کرنا جسم میں چربی کے ذخیرے کو کم کرتا‬
‫ہے‪ ،‬جس سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جبکہ بھوک بھی کم لگتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168405/‬‬

‫خشخاش کے طبی فوائد اور نقصانات‬


‫ستمبر ‪13 2021 ،‬‬

‫قدیم زمانے سے متعدد بیماریوں میں بطور دوا استعمال کیے جانے والے بیج خشخاش کے‬
‫استعمال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں‪ ،‬خشخاش کی افادیت سائنس سے بھی ثابت‬
‫شدہ ہے۔‬
‫زمانہ قدیم سے بزرگ افراد کی جانب سے خشخاش کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے‪ ،‬یہ‬
‫بیچ خصوصا ً خواتین کے لیے بہترین ہے۔‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں سمیت میڈیکل سائنس سے بھی ثابت شدہ خشخاش‬
‫ِ‬ ‫غذائی اور‪ ‬‬
‫کی‪ ‬خصوصیات اور اس کے استعمال سے صحت پر حاصل ہونے والے بے شمار فوائد‬
‫مندرجہ ذیل ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خشخاش بہترین اینٹی ٓاکسیڈنٹ ُجز ہے‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں و غذائی ماہرین کے مطابق خشخاش فائبر سے بھرپور بیج ہے‪،‬‬
‫صرف ‪ 9‬گرام خشخاش یا ایک چائے کے چمچ مقدار خشخاش میں ‪ 46‬کیلوریز‪ 1.6 ،‬گرام‬

‫پروٹین‪ 3.7 ،‬گرام چکنائی‪ 1.7 ،‬گرام فائبر‪ ،‬میگنیز‪ ،‬کاپر‪ ،‬کیلشیم‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬فاسفورس‪،‬‬
‫زنک‪ ،‬تھیامین اور ٓائرن جیسے اہم منرلز بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔‬
‫)‪ ( chemia polyphenol‬ماہرین کا کہنا ہے کہ خشخاش میں ایک جُز کیمیا پولی فینل‬
‫بھی پایا جاتا ہے جو بے شمار اینٹی ٓاکسیڈنٹ کا مجموعہ ہوتا ہے اور صحت پر کئی اچھے‬
‫اثرات کے ساتھ بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے‪ ،‬بیماریوں کے خالف لڑنے میں قوت‬
‫مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔‬
‫خشخاش کی تاثیر گرم ہے‪ ،‬خشخاش میں پایا جانے واال منرل میگنیز ہڈیوں کے لیے‬
‫انتہائی ُمفید غذا ثابت ہوتا ہے جبکہ خشخاش کا استعمال ُخون جمنے سے روکتا ہے اور‬
‫جسم میں خون کی کارکردگی بہتر بناتا ہے جس کہ سبب تمام اعضاء‪  ‬کا نظام بہتر ہوتا ہے۔‬
‫خشخاش کا تیل اومیگا ‪ 6‬اور ‪ 9‬سے بھرپُور ہوتا ہے جبکہ اس میں اومیگا ‪ 3‬کی بھی ُکچھ‬
‫مقدار پائی جاتی ہے۔‬
‫خشخاش کے بیج نیند کی کمی کو دور کرتے ہیں‬
‫خشخاش بہتر نیند کے لیے کارٓامد ہے‪ ،‬پرسکون نیند کے لیے خشخاش کی چائے بنا کر‬
‫بھی پی جا سکتی ہے یا اس کا پیسٹ بنا کر گرم دودھ میں مال کر بھی استعمال کیا جا سکتا‬
‫ہے۔‬
‫ذیابیطس کے لیے مفید‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذیابیطس کے عالج کے لیے خشخاش کے بیج مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں ۔‬
‫‪ ‬صحت مند بالوں کے لیے‬
‫بھیگے ہوئی خشخاش کے بیج‪ ،‬سفید یا کالی مرچ کا دہی کے ساتھ پیسٹ بنا لیں‪ ،‬اب اسے‬
‫اپنے بالوں پر لگائیں‪ٓ ،‬ادھے گھنٹے بعد بال دھو لیں‪ ،‬خشکی کی موجودگی اور اسے دوبارہ‬
‫سے ہونے سے روکنے کے لیے باقاعدگی سے استعمال کریں۔‬
‫خشخاش اور دماغی صحت‬
‫خشخاش دماغی صحت کے لیے بھی بے حد مفید ہے‪ ،‬اگر اسے بادام کے ساتھ پیس کر‬
‫استعمال کیا جائے تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے‪ ،‬ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫‪ ‬وزن میں کمی کا سبب‬
‫اومیگاتھری فیٹی ایسڈ سے بھرپور خشخاش وزن گھٹانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے‪ ،‬اسی‬
‫لیے روزمرہ اس کے استعمال سے وزن میں نمایاں کمی ٓاتی ہے‬
‫جوڑوں کے درد کے لیے‬
‫خشخاش جوڑوں کا درد دور کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہے‪ ،‬اس کا تیل جوڑوں پر لگانے‬
‫اور مساج کرنے سے جوڑوں کے درد میں افاقہ ہوتا ہے۔‬
‫خشخاش قدرتی ’پین کلر‘‪  ‬کا کردار ادا کرتی ہے‬
‫خشخاش میں قُدرتی طور پر ایسے کیمیائی اجزا پائے جاتے ہیں جو درد کو ختم کرنے‬
‫والی ادویات میں بھی شامل ہوتے ہیں‪  ،‬خشخاش کے استعمال سے جسم میں ہونے والے‬
‫درد میں سکون ملتا ہے اور یہ قُدرتی طور پر پُر سکون نیند کا سبب بنتی ہے۔‬
‫خواتین کے صحت کے لیے موزوں‬
‫خشخاش میں ایسے کیمیائی اجزاء بھی پائے جاتے ہیں جو بچوں کی پیدائش میں ٓانے والی‬
‫رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں‪ ،‬اس کا تیل استعمال کر نے سے حمل ٹھہرنے کے مواقع بڑھ‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫خشخاش کے استعمال کے نقصانات‬
‫اگر کسی فرد کا ایلوپیتھی ادویات سے عالج جاری ہے تو خشخاش کے استعمال سے قبل‬
‫اپنے معالج سے مشورہ ضرور‪  ‬کر لیں۔‬
‫خشخاش کو اگر تھوڑی سی مقدار میں استعمال کیا جائے تو ماہرین کے نزدیک یہ نقصان‬
‫دہ نہیں ہے۔‬
‫اسے خریدتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ ُدھلی ہُوئی خشخاش خریدیں‪ ،‬بغیر‬
‫ُدھلی ہُوئی خشخاش میں نشے کے عنصر پائے جاتے ہیں۔‬
‫زیادہ استعمال کے نتیجے میں اسے کھانے کی لت بھی لگ سکتی ہے ل ٰہذا اعتدال کے‬
‫ساتھ‪  ‬استعمال کریں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/984054‬‬
‫کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟‬
‫تحقیقات | ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی ال کر ذیابیطس ٹائپ ٹو‬
‫یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی‬
‫ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی‬
‫نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پالن تیار کیا گیا اور ‪ 12‬ہفتوں‬
‫تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔‬
‫ان مریضوں کو کم کیلوریز‪ ،‬کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین واال غذائی پالن دیا گیا‬
‫اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ ‪ 2‬کا عالج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت‬
‫کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے‪ ،‬مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی‬
‫ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان‬
‫کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس‬
‫کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس‪ Œ‬والی غذا‬
‫استعمال کرتے ہیں‪ ،‬تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے‬

‫تحقیقات | ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا‬
‫کرسکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 50‬فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز‪ ،‬کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین‬
‫والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔‬
‫ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی ‪12‬‬
‫جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔‬
‫محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول‪ ،‬اوسط جسمانی وزن‪ ،‬بلڈ پریشر اور‬
‫مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے‬
‫جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/diabetes-can-be-reversed/‬‬

‫ت مدافعت یا ہرڈ ایمیونٹی کیا ہے؟‬


‫اجتماعی قو ِ‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫دبئی‪ :‬سپر ہیومن ایمیونٹی یا ہرڈ ایمیونٹی حالیہ دنوں میں استعمال ہونے والی اصطالح‬
‫ہے جو سائنسدان استعمال کررہے ہیں‪ ،‬جنہوں نے کرونا وائرس کے خالف نام نہاد بلٹ‬
‫پروز ایمیونٹی بنائی ہے۔‬
‫متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی اور قدرتی ویکسین‬
‫سے پیدا ہونے والی ایمیونٹی کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔‬
‫برجیل اسپتال کے مشیر مائیکرو بائیولوجسٹ ڈاکٹر سندر الیاپیرومل کا کہنا ہے کہ جب‬
‫سارس کو وی ٹو کے خالف قدرتی طور پر حاصل ہونے والی قوت مدافعت ویکسین سے‬
‫پیدا ہونے والی قوت مدافعت کے ساتھ مل جاتی ہے تو ہماری توقع سے زیادہ مدافعتی‬
‫ردعمل پیدا ہوتا ہے۔‬
‫الفاطمہ ہیلتھ میں چیف کلینکل آفیسر ڈاکٹر تھوالفقار نے وضاحت کی ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی‬
‫سسٹم کا رسپانس اچھی پوزیشن میں ہے ‪ ،‬مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے شخص کے‬
‫بدن میں اینٹی باڈیز بننے کا عمل مؤثر رہتا ہے جوکہ کرونا وائرس کے خالف فعال کردار‬
‫ادا کرتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫القوسیسی کے آستر کلینک میں جنرل میڈیسن کے ڈاکٹر محمد سلیمان خان کا کہنا ہے کہ‬
‫کرونا وائرس کی وہ ویکسین جو آر این اے پر بنیاد رکھتے ہوں ‪ ،‬وہ سارس کو ٹو وائرس‬
‫کے انفیکشن کے بعد سپیرئیر ایمیون پروٹیکشن دیتا ہے۔‬
‫یو اے ای میں جہاں کرونا کیسز میں کمی کی روشنی میں ڈاکٹروں نے کہا کہ متحدہ عرب‬
‫امارات کے باشندوں میں ہرڈ ایمیونٹی کا رجحان بڑھ سکتا ہے‪ ،‬دوسری جانب متحدہ عرب‬
‫امارات کی مضبوط ویکسی نیشن مہم کو ڈاکٹروں نے بہترین قرار دیتے ہوئے اسے‬
‫مدافعتی رجحان کے لئے کریڈٹ دیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر الباج کا کہنا ہے کہ ہرڈ ایمیونٹی عام طور پر اس وقت حاصل کیا جاتا ہےجب کل‬
‫آبادی کا کم از کم اسی فیصد مدافعتی ہوجائے اور یا تو سارے وائرس سے متاثر ہو یا‬
‫ویکسین لگوالیں۔‬
‫ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہم نے ہرڈ ایمیونٹی تقریبا حاصل کی ہو‪ ،‬اس کی وجہ‬
‫یہ ہے کہ آبادی کے بڑے حصے کو کم از کم ایک کرونا ویکسین کا ڈوز مل چکا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/what-is-heard-immunity/‬‬

‫کورونا ویکسین کی کتنی خوارکیں ضروری ہیں؟‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪14 2021‬‬
‫لندن ‪ :‬عالمی سطح پر پھیلنے والے وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے دنیا بھر میں‬
‫مختلف ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔‬
‫برطانوی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی شدت‬
‫پر قابو پانے کے لیے ویکسین لگوانا کافی ہے جبکہ بوسٹر خوراک کی فی الحال ضرورت‬
‫نہیں۔‬
‫خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی سائنسی جریدے “دا لینسٹ” میں پیر کو‬
‫شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عام عوام کو ویکسین کی بوسٹر خوراک لگوانے‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫خیال رہے کہ چند ممالک نے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے باعث ویکسین کی اضافی‬
‫خوراکیں بھی لگانا شروع کردی ہیں۔‬
‫نئی سامنے آنے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے‬
‫باوجود وبا کی اس اسٹیج پر عام عوام کے لیے بوسٹر خوراک مناسب نہیں ہے۔ اس تحقیق‬
‫کے محققین میں عالمی ادارہ صحت کے سائنس دان بھی شامل ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪103‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق کے محققین نے دیگر سٹڈیز اور کلینکل ٹرائلز کا بھی جائزہ لیا ہے جس سے یہ‬
‫معلوم ہوا کہ ڈیلٹا ویریئنٹ سمیت کورونا کی ہر قسم کی شدید عالمات کے خالف بھی‬
‫ویکسین انتہائی مؤثر رہتی ہے۔‬
‫تحقیق کی مرکزی مصنف اور عالمی ادارہ صحت کی سائنسدان اینا ماریو کا کہنا ہے کہ‬
‫موجودہ سٹدیز معتبر ثبوت پیش نہیں کرتیں کہ کسی بھی شدید بیماری کے خالف تحفظ میں‬
‫ویکسین کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلی ترجیح ان افراد کے لیے ویکسین فراہم کرنے‬
‫کی ہونی چاہیے جنہیں ابھی تک نہیں لگ سکی۔ تحقیق کی مرکزی مصنف اینا ماریو نے‬
‫مزید کہا کہ ویکسین جلد ہی کورونا کے مزید ویریئنٹس پیدا ہونے میں رکاوٹ کا سبب بن‬
‫سکتی ہے۔‬
‫فرانس میں عمر رسیدہ افراد اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ویکسین کی تیسری‬
‫خوراک لگانا شروع کر دی ہے جبکہ اسرائیل میں بارہ اور زیادہ عمر کے بچوں کو‬
‫دوسری خوراک لگانے کے پانچ ماہ بعد تیسری خوراک لگائی جا رہی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ سال کے‬
‫آخر تک ویکسین کی اضافی خوراک دینے سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ نے تمام ممالک کو‬
‫ہدایت کی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک اپنی ‪ 10‬فیصد ٓابادی کو ویکسین لگا لیں جبکہ‬
‫‪ 40‬فیصد کو سال کے آخر تک۔‬

‫تحقیقات | ‪104‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫برطانوی تحقیق کے مطابق کورونا کے موجودہ ویریئنٹس کی اس حد تک نشونما نہیں ہوئی‬


‫کہ ویکسین ان کے خالف مؤثر نہ ہو۔‬
‫تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ وائرس کی نئی اقسام پیدا ہونے کی صورت میں موجودہ‬
‫ویکسین کی تیسری خوراک لگانے سے بہتر ہے کہ نئے ویریئنٹ کے مطابق ویکسین‬
‫بوسٹرز تیار کیے جائیں جو پھر لوگوں کو لگائے جائیں۔‬
‫لندن کے ایمپیریل کالج میں متعدی بیماریوں کے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ عذرا غنی کا کہنا‬
‫ہے کہ بوسٹر ویکسین کے معاملے پر کوئی ایک نقطہ نظر نہیں اپنایا جاسکتا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-research/‬‬

‫وہ غذائیں جو آپ کا ڈپریشن کم کر سکتی ہیں‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫اگر آپ زندگی کی الجھنوں سے پریشان اور ناخوش ہیں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ روز مرہ‬
‫کی غذا بھی آپ کے ذہنی تناؤ اور پریشانی کو کم کرسکتی ہے؟‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند غذا نہ صرف ہمیں جسمانی فوائد پہنچاتی ہے بلکہ یہ‬
‫ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے جسم سے منفی‬
‫خیاالت و جذبات کو کم کر کے مثبت تبدیلیاں پیدا کرتی ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق ‪ 5‬غذائیں ایسی ہیں جو اگر دن کے ٓاغاز میں کھائی جائیں تو یہ دن بھر‬
‫ہمارے موڈ کو خوشگوار رکھتی ہیں اور ہم سخت اور مشکل حاالت میں بھی منفی جذبات‬
‫و خیاالت سے دور رہتے ہیں۔ وہ غذائیں یہ ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪105‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چاکلیٹ‬

‫ماہرین کے مطابق کئی بار تحقیق میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ چاکلیٹ کھانا انسانی‬
‫صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ یہ دماغی کارکردگی‪ ،‬قوت مدافعت‪ ،‬خون کی روانی اور‬
‫اعصاب کی کارکردگی میں اضافہ‪ ،‬وزن میں کمی اور امراض قلب‪ ،‬فالج اور جلدی‬
‫بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ چاکلیٹ ہمارے جسم کی بے چینی اور ذہنی تناؤ میں ‪ 70‬فیصد تک‬
‫کمی کرسکتی ہے۔‬
‫انڈے‬
‫انڈوں میں موجود وٹامن ڈی ڈپریشن میں کمی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قوت مدافعت‬
‫میں اضافہ جبکہ مختلف موسمی بیماریوں جیسے کھانسی‪ ،‬نزلہ اور سردی سے بچاؤ فراہم‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫بیریز‬
‫مختلف اقسام کی بیریز جیسے اسٹرابیری‪ ،‬رس بھری‪ ،‬بلو بیری اور بلیک بیری ذائقہ میں‬
‫کھٹی اور میٹھی ہوتی ہیں اور ان میں بھرپور اینٹی ٓاکسیڈنٹس مجود ہوتے ہیں۔ یہ عنصر‬
‫ڈپریشن اور ذہنی دباؤ میں کمی کے لیے نہایت مددگار ہے۔‬
‫اخروٹ‬
‫غذائیت بخش چکنائی سے بھرپور اخروٹ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کو معمول کے‬
‫مطابق رکھتا ہے۔ یہ جسم کو ذیابیطس سے تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ جسم کو تناؤ میں‬
‫مبتال کرنے والے ہارمون میں بھی کمی کرتا ہے۔‬
‫کیال‬
‫کیال ایک غذائیت سے بھرپور غذا ہے۔ دن کے ٓاغاز میں اس کا استعمال ٓاپ کو دن بھر‬
‫توانا اور چاق و چوبند کھتا ہے۔ یہی نہیں یہ ٓاپ کے ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کے‬
‫لیے بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/foods-that-make-you-happy/‬‬
‫تحقیقات | ‪106‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫خشک خوبانی کے وہ فوائد جنہیں جان کر آپ حیران رہ جائیں‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪15 2021‬‬

‫خشک خوبانی ایسی توانا و صحت بخش غذا ہے جو پورا سال دستیاب ہوتی ہے‪ ،‬خشک‬
‫خوبانی کا ایک چھوٹا سا دانہ اپنے اندر صحت کا ایک ایسا خزانہ چھپائے ہوتا ہے جس‬
‫سے فائدہ صرف وہی انسان اُٹھا سکتا ہے جو اس کی حقیقت سے واقف ہوتا ہے۔‬
‫خشک خوبانی متعدد طبی فوائد کی مالک ہوتی ہے اوراس کا استعمال ہمیں کئی عام‬
‫امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے کچھ اہم اور خا ص فوائد کے متعلق جا نتے ہیں۔‬
‫خوبانی لذیذ میٹھے ذائقے اور غذائیت سے بھر پور پھل ہے‪ ،‬خوبانی کو تازہ اور اسے‬
‫سکھا کر دونوں طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬خوبانی پوٹاشیم‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬فائبر اور بیٹا‬
‫کروٹین سے ماالمال پھل ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪107‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق تازہ اور خشک دونوں صورتوں میں خوبانی کا استعمال صحت‬
‫کے لیے بے حد مفید ہے جبکہ اسے سکھا کر محفوظ کرنے کے نتیجے میں اس کی‬
‫غذائیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق خوبانی میں وٹامن اے بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اسی لیے اس‬
‫کا استعمال کمزور نظر کو تیز کرتا ہے‪َ ،‬جلد بڑھاپے اور اعصابی کمزوری سے تحفظ‬
‫فراہم کرتا ہے‪ ،‬گھٹنوں‪ ،‬جوڑوں اور پٹھوں کے درد سے محفوظ رکھتا ہے اور دل و دماغ‬
‫کو طاقت بخشتا ہے۔‬
‫خشک خوبانی میں کیلشیم پائے جانے کے باعث یہ ہڈیوں کی بہترین صحت کے لیے بھی‬
‫ضروری ہے‪ ،‬کیلشیم کے عالوہ خشک خوبانی میں پوٹاشیم بھی کافی مقدار میں پایا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫خوبانی سکھا کر خشک میوہ جات کی شکل اختیار کر لیتا ہے جبکہ خشک میوہ ہونے کے‬
‫باعث بھی اس میں فائبر کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے‪ ،‬اس کے عال وہ خشک خو بانی‬
‫میں کیلوریز بھی بہت کم پائی جا تی ہیں‪ ،‬اس میں موجود فائبر نظام ہاضمہ کی کارکردگی‬
‫کو مزید فعال بنا دیتا ہے جو وزن کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫فائبر کی بھاری مقدار کولیسٹرول کی سطح کو بھی کنٹرول کرتی ہے جس کے باعث دل‬
‫کے امراض الحق ہونے کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے‪ٓ ،‬ادھا کپ خشک خوبانی کا‬
‫استعمال دل کی متعدد شکایات دور کرتا ہے اور خون کی گردش رواں دواں بناتا ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ کمزور معدے کے افراد اسے کھانا کھانے‬
‫سے قبل استعمال کر لیں تو بد ہضمی اور پیٹ سے متعلق جملہ امراض سے شفا ملتی ہے‪،‬‬
‫خشک خوبانی قبض دور کریتی ہے۔‬
‫خشک خوبانی میں موجود ٓائرن خون کی کمی کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‬
‫اور ’اینیمیا‘ (خون کی کمی کی بیماری) کے خالف قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی افزائش اور اس کا استعمال پاکستان کے جنوبی عالقوں میں‬
‫زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں پر رہنے والے اور شہری زندگی سے زیادہ کام‬
‫اور مشقت کرنے والے افراد طویل عرصے تک متعدد بیماریوں سے دور‪ ،‬چاق و چوبند‪،‬‬
‫سلم اسمارٹ اور توانا رہتے ہیں۔‬
‫خشک خوبانی ِجلد سے جھریوں کا خاتمہ کرتی ہے اور اسے صاف شفاف بناتی ہے‪ ،‬ساتھ‬
‫ہی سورج کی تپش کے سبب ہونے والی جلن‪ ،‬خارش اور ایگز یما سے بھی بچاؤ ممکن‬
‫بناتی ہے ۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق خوبانی میں پائے جانے والے اینٹی ٓاکسیڈنٹس کینسر کے خطرات‬
‫کو بھی کم کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ خشک خوبانی کے استعمال کے نتیجے میں کیل‬
‫مہاسوں اور جھائیوں کا عالج بھی ممکن ہوتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dried-apricots-health-tips-medical-benefits/‬‬

‫تحقیقات | ‪108‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تربوز کے چھلکے کے "جادوئی" فوائد‬
‫ستمبر ‪13 2021‬‬

‫تربوز کا شمار روح زمین کے مفید ترین پھلوں میں ہوتا ہے‪ ،‬کیونکہ یہ پوٹاشیم اور‬
‫میگنیشیم جیسے اہم وٹامن سے بھرپور ہوتا ہے۔ تاہم ہم میں سے اکثر لوگ اس کے سبز‬
‫چھلکے کو پھینک دیتے ہیں جب کہ یہ کھایا جا سکتا ہے اور یہ ایسے فوائد رکھتا ہے جن‬
‫کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔‬
‫کے مطابق تربوز کے "‪ "Health Line‬طبی امور سے متعلق انگریزی ویب سائٹ‬
‫چھلکے کے متعدد فوائد ہیں۔‬
‫تربوز کا چھلکا ورزش اور مشق کے دوران کھالڑیوں کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد‬
‫گار ہوتا ہے۔ چھلکے کے اندر موجود سٹرولین خون کی شریانوں کو وسیع کرتا ہے۔ عالوہ‬
‫ازیں سٹرولین سپلیمنٹ آکسیجن کو پٹھوں تک پہنچانے کا عمل بہتر بناتا ہے‬

‫بعض تحقیقی مطالعوں کے مطابق تربوز انتہائی موٹاپے سے دوچار افراد کے لیے فشار‬
‫خون کنٹرول کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ سٹرولین سپلیمنٹ بلند فشار خون میں مبتال افراد کا‬
‫بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔ اسی طرح تربوز کو ممکنہ طور پر پیشاب آور شمار کیا جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪109‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تربوز کے چھلکے کا ایک اور فائدہ اس کا ریشے سے بھرپور ہونا ہے۔ ریشے سے‬
‫بھرپور غذائی نظام آنتوں کی حرکت کو منظم رکھتا ہے۔ عالوہ ازیں یہ بڑی آنت کے‬
‫امراض سے متاثر ہونے کے خطرات کو کم کرتا ہے۔اسی طرح ریشہ خون میں کولیسٹرول‬
‫اور شوگر کی سطح کو کم رکھنے میں مدد کرتا ہے‬
‫‪https://www.aaj.tv/news/30266793/‬‬

‫خواتین کیلئے ایواکاڈو‪ Œ‬ایک معجزاتی پھل‪ ،‬پیٹ کی چربی کا آسان حل‬

‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫ایک حالیہ سائنسی مطالعے نے ایواکاڈو کی ایک نئی طبی خاصیت کا پتا لگایا ہے جس پر‬
‫کبھی غور نہیں کیا گیا۔اس طبی تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں ایک ایواکاڈو کھانے سے‬
‫خاص طور پر خواتین کو ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے جس سے‬
‫چھٹکارا پانا مشکل ہے۔‬
‫سائنسی جریدے "جرنل آف نیوٹریشن" میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ‬
‫ایواکاڈو کا ایک دانہ روزانہ کھانے سے خواتین کو پیٹ کی چربی کم کرنے میں مدد دیتا‬

‫تحقیقات | ‪110‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے۔ پیٹ کی چربی خواتین کو درپیش مسائل میں ایک عمومی مسئلہ ہے۔ بچے کی پیدائش‬
‫کے بعد خواتین کے پیٹ کا پھول جانا عام بات ہے۔‬

‫یونیورسٹی آف الینوائے کے محققین نے فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ مل کر‬


‫تین ماہ تک خواتین کے ایک گروپ پر اس پھل کا تجربہ کیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جو لوگ‬
‫ایک دن میں مسلسل ایک ایواکاڈو کھاتے ہیں ان میں ویزرل چربی کم ہوتی ہے۔‬
‫مطالعہ کے مصنف پروفیسر نیمان خان نے کہا کہ ان کا مقصد وزن کم کرنا نہیں تھا بلکہ‬
‫یہ دیکھنا تھا کہ ایواکاڈو کھانے سے لوگوں کے جسم میں چربی پر کیا اثر پڑتا ہے۔‬
‫٭ پیٹ کی چربی کی اقسام‬
‫ماہرین کے مطابق پیٹ میں دو قسم کی چربی ہوتی ہے۔ ایک چربی جو صرف جلد کے‬
‫نیچے جمع ہوتی ہے۔ اسے جلد کے نیچے جمع ہونے والی چربی کہا جاتا ہے۔ دوسری‬
‫چربی پیٹ کی گہرائی میں جمع ہوتی ہے جو اندرونی اعضاء کے گرد گھیرا بنا لیتی ہے۔‬
‫لوگوں کا عام خیال یہ ہے کہ گہری ویزرل چربی والے لوگ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔‬
‫نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خواتین جو باقاعدگی سے ایواکاڈو کھاتی تھیں ان کے پیٹ کی‬
‫چربی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ عام طور پر وہ چربی جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوتا‬
‫ہے۔ جبکہ انہی خواتین نے ویزرل چربی میں کمی دیکھی جو ان کے جسموں میں چربی‬
‫کی دوبارہ تقسیم کی نشاندہی کرتا ہے۔‬
‫جہاں تک مردوں کی صحت پر اثرات کا تعلق ہے تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مردوں‬
‫کے ایواکاڈو کھانے سے چربی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‬
‫تحقیقات | ‪111‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ بات قابل غور ہے کہ ایواکاڈو کے بے شمار فوائد ہیں کیونکہ ایک درمیانے درجے کے‬
‫پھل میں تقریبا ً ‪ 12‬ملی گرام وٹامن سی ہوتا ہے جو کہ پٹھوں کے درد کو کم کرنے میں‬
‫مدد دیتا ہے۔‬
‫ایواکاڈو گودے کا استعمال ورزش کے بعد سیسٹولک بلڈ پریشر کو بحال کرنے کے وقت‬
‫کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے اور دل کی دھڑکن کو متوازن کرتا ہے‬
‫‪https://www.aaj.tv/news/30266893/‬‬

‫تربوز کے چھلکے میں چھپے فوائد‬

‫‪ September 13, 2021‬‬


‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪FacebookTwitterPinterestMessengerPrintWhatsAppWeChat‬‬

‫گرمیوں کے سیزن میں تربوز ہر کسی کی ضرورت بن جاتا ہے‪ ،‬جو بظاہر انسان کے اندر‬
‫پانی کی کمی کو پورا کرتا ہے۔ تربوز کا شمار مفید ترین پھلوں میں ہوتا ہے کیوں کہ یہ‬
‫پوٹاشیم اور میگنیشیم جیسے اہم وٹامن سے بھرپور ہوتا ہے۔‬
‫تاہم ہم تربوز کو کھانے سے پہلے اس کے سبز چھلکے کو پھینک دیتے ہیں کیونکہ اس‬
‫کے فوائد کے بارے میں ہمیں زیادہ ٓاگاہی نہیں۔‬
‫کے مطابق تربوز کے چھلکے ”‪”Health Line‬طبی امور سے متعلق انگریزی ویب سائٹ‬
‫کے متعدد فوائد ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪112‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تربوز کا چھلکا ورزش اور مشق کے دوران میں کھالڑیوں کی کارکردگی بہتر بنانے میں‬
‫مدد گار ہوتا ہے۔ چھلکے کے اندر موجود سٹرولین خون کی شریانوں کو وسیع کرتا ہے۔‬
‫عالوہ ازیں سٹرولین سپلیمنٹ آکسیجن کو پٹھوں تک پہنچانے کا عمل بہتر بناتا ہے۔‬
‫بعض تحقیقی مطالعوں کے مطابق تربوز انتہائی موٹاپے سے دوچار افراد کے لیے فشار‬
‫خون کنٹرول کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ سٹرولین سپلیمنٹ بلند فشار خون میں مبتال افراد کا‬
‫بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔‬
‫تربوز کے چھلکے کا ایک اور فائدہ اس کا ریشے سے بھرپور ہونا ہے۔ ریشے سے‬
‫بھرپور غذائی نظام آنتوں کی حرکت کو منظم رکھتا ہے۔ عالوہ ازیں یہ بڑی آنت کے‬
‫امراض سے متاثر ہونے کے خطرات کو کم کرتا ہے۔‬
‫اسی طرح ریشہ خون میں کولسٹرول اور شوگر کی سطح کو کم رکھنے میں مدد کرتا ہے‬
‫‪https://www.humnews.pk/latest/347665/‬‬

‫بلڈ ٹیسٹ سے کینسر کی تشخیص ممکن‬

‫‪ September 13, 2021‬‬


‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪FacebookTwitterPinterestMessengerPrintWhatsAppWeChat‬‬

‫بلڈ‪ ‬ٹیسٹ‪ ‬سے بھی‪ ‬کینسر‪ ‬کی‪ ‬تشخیص‪ ‬ممکن ہو‬


‫گی‪ ،‬امریکی‪ ‬سائنسدانوں‪ ‬نے‪ ‬ایسا‪ ‬بلڈ‪ ‬ٹیسٹ‪ ‬ایجاد‪ ‬کرلیا‪ ‬جس‪ ‬میں‪ ‬عالمات‪ ‬ظاہر‪ ‬ہونے‪ ‬سے‪ ‬‬
‫قبل‪ ‬ہی‪ ‬کینسر‪ ‬کی‪ ‬تشخیص‪ ‬کردی‪ ‬جائے‪ ‬گی۔‬

‫تحقیقات | ‪113‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہولی‪ ‬گریل‪ ‬طریقہ‪ ‬ڈی‬
‫این‪ ‬اے‪ ‬میں‪ ‬موجود‪ ‬نہایت‪ ‬چھوٹے‪ ‬کیمیکل‪ ‬سے‪ ‬پتا‪ ‬لگاتا‪ ‬ہے‪ ‬کہ‪ ‬کینسر‪ ‬کے جینز‪ ‬متحرک‪ ‬ہیں‬
‫یا‪ ‬نہیں۔‪ ‬نئی‪ ‬ٹیکنالوجی‪ ‬انسانی‪ ‬جسم‪ ‬میں ایک ہی‪ ‬وقت‪ ‬میں ‪ 50‬اقسام‪ ‬کے‬
‫کینسر‪ ‬کی‪ ‬تشخیص‪ ‬کرسکتی‪ ‬ہے۔‬
‫برطانوی‪ ‬این‪ ‬ایچ‪ ‬ایس‪ ‬میں‪ ‬ہولی‪ ‬گریل‪ ‬بلڈ‪ ‬ٹیسٹ‪ ‬کا‪ ‬تجربہ‪ ‬ایک‪ ‬الکھ‪ ‬چالیس‪ ‬ہزار‪ ‬افراد‪ ‬پر‪ ‬شر‬
‫وع‪ ‬کردیا‪ ‬گیا‪ ‬ہے‪ ‬جسے‪ ‬کینسر‪ ‬کے‪ ‬عالج‪ ‬میں‪ ‬ایک‪ ‬نیا‪ ‬انقالب‪ ‬قرار‪ ‬دیا‪ ‬جارہا‪ ‬ہے۔‬
‫اسکریننگ پروگراموں کی جگہ ‪ NHS‬تاہم یہ ٹیسٹ‪ ‬کینسروں کا پتہ نہیں لگا سکے گا اور‬
‫نہیں لے گا۔‬
‫ماہرین کا ماننا ہے کہ کینسر کو جلدی پکڑنا ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو فوری عالج‬
‫حاصل کرکے اس بیماری کو شکست دے سکتے ہیں اور یہ ٹیسٹ مستقبل میں برطانیہ میں‬
‫ہر سال ہزاروں زندگیاں بچانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔‬
‫ٹیسٹ خلیوں کے ذریعے خون میں جاری ڈی این اے کی اسکریننگ کے ذریعے کام کرے‬
‫گا تاکہ غیر معمولی کیمیائی تبدیلیوں کا پتہ لگا کر ٹیومر کی نشاندہی کی جا سکے۔‬
‫ڈیلی میل کے مطابق‪ ‬برطانیہ میں ہر سال تقریبا ‪ 3‬الکھ ‪ 60‬ہزار افراد میں کینسر کی‬
‫تشخیص ہوتی ہے‪ ،‬جو کہ روزانہ ایک ہزار کیسز کے برابر ہے۔‬
‫‪https://www.humnews.pk/latest/347770/‬‬

‫انسٹاگرام نوجوان لڑکیوں کیلئے نقصان دہ ثابت‬


‫‪ September 15, 2021‬‬
‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪FacebookTwitterPinterestMessengerPrintWhatsAppWeChat‬‬
‫فیس بک کی جانب سے انسٹاگرام پر اندرونی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تصاویر‬
‫کی سماجی ویب سائٹ کے نوعمروں بالخصوص نوجوان لڑکیوں میں نقصان دہ اثرات‬
‫دیکھنے کو مل رہے ہیں۔‬
‫امریکی جریدے وال سٹریٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے محققین کی جانب‬
‫سے تین سال پر محیط تحقیق میں یہ پایا گیا ہے کہ انسٹاگرام کے نوعمر صارفین کی ایک‬
‫بڑی تعداد کی نفسیات پرمواد کی وجہ سے برا اثر پڑ رہا ہے۔‬
‫فیس بک کی جانب سے ‪ 2019‬میں پیش کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق انسٹاگرام‬
‫پر تصاویر سے ہر تین میں سے ایک نو عمر لڑکی کو اپنے جسم کے بارے میں نفسیاتی‬
‫خدشات الحق ہوجاتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں رائے دینے والے نو عمروں کے مطابق ایپ کے استعمال سے اضطرات‪ Œ‬اور‬
‫ڈپریشن میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪114‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫فیس بک کی ملکیتی ایپ انسٹاگرام نے اس تحقیق کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئےکہا کہ‬
‫کمپنی نوجوان صارفین کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔‬
‫انسٹاگرام کی پبلک پالیسی کی سربراہ کارینا نیوٹن نے ایک بالگ پوسٹ میں لکھا کہ “تمام‬
‫لوگوں کے اذہان میں یہی سوال موجود ہے کہ کیا سوشل میڈیا معاشرے کے لئے اچھا ہے‬
‫یا برا؟ اس پر تحقیق ملی جلی ہے۔‬
‫اس سے دونوں اثرات اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ انسٹاگرام میں ہم سوشل میڈیا کے مثبت‬
‫”اثرات کو اپنا مقصد بناتے ہوئے اس سے پیدا ہونے والے خطرات پر نظر رکھتے ہیں۔‬
‫نیوٹن کے مطابق “انسٹاگرام نے خودکشی‪ ،‬خود ضربی‪ ،‬کھانے سے متعلق بیماریوں پر‬
‫اگاہی پر بہت تفصیل میں کام کیا ہے تاکہ ایپ کو ہر کسی کے لئے محفوظ بنایا جاسکے”۔‬
‫فیس بک پریزنٹیشن میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں میں جنہوں نے خودکشی کے خیاالت کی‬
‫اطالع دی ‪ 13 ،‬فیصد برطانوی صارفین اور ‪ 6‬فیصد امریکی صارفین نے شامل تھے۔‬
‫محققین نے مبینہ طور پر لکھا ‪“ ،‬بتیس فیصد نوعمر لڑکیوں نے کہا کہ جب انہیں اپنے‬
‫جسموں کے بارے میں برا محسوس ہوتا ہے تو انسٹاگرام اس احساس کو مزید بڑھا دیتا‬
‫ہے‘‘۔‬
‫وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق ‪ ،‬وہ خصوصیات جن کو سوشل میڈیا کمپنی نے سب سے‬
‫زیادہ نقصان دہ قرار دیا ہے وہ اس کے کلیدی الگورتھم کا حصہ ہیں۔‬
‫خیال رہے کہ نوجوان ہی صارفین انسٹاگرام کی کامیابی کی اصل وجہ ہیں۔‪ ‬انسٹاگرام کے‬
‫‪ 40‬فیصد سے زیادہ صارفین ‪ 22‬سال اور اس سے کم عمر کے افراد ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪115‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک بالگ پوسٹ میں‪ ،‬انسٹاگرام کی پبلک پالیسی کی سربراہ ‪ ،‬کرینہ نیوٹن نے اس‬
‫رپورٹنگ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی صارفین کو انسٹاگرام کی مخصوص اقسام پر‬
‫رہنے سے دور کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہی ہے۔‬
‫‪https://www.humnews.pk/latest/348266/‬‬

‫سیکس الئف اور جنسی رجحانات‪ :‬مردوں کے مقابلے خواتین کیوں‬


‫اپنے رویے تبدیل کر رہی ہے؟‬

‫جیسیکا کلین‬ ‫‪‬‬


‫بی بی سی‪ ،‬ورک الئف‬ ‫‪‬‬

‫‪15Sep 2021‬‬

‫سیکس سے متعلق خیاالت اور رویے وقت کے ساتھ بدل رہے ہیں اور وسیع تر بھی ہو‬
‫رہے ہیں۔ مگر جنسی رجحانات کی بات کی جائے تو خواتین کے رویے مردوں کے‬
‫مقابلے کم سخت گیر ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟‬
‫قوس قزح کے پرچم سے ہی واقف تھے۔ مگر آج مختلف‬ ‫ِ‬ ‫ایک وقت تھا جب ہم صرف‬
‫رنگوں کے پرچم پائے جاتے ہیں جو جنسی رجحانات کے تنوع کی بات کرتے ہیں۔‬
‫لوگ اب بظاہر سیکس کے بارے میں کھل کر بات کر لیتے ہیں۔ روایت سے ہٹ کر مختلف‬
‫شناختیں‪ ،‬جو پہلے غائب رہتی تھیں‪ ،‬اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور مین سٹریم کا حصہ‬
‫تحقیقات | ‪116‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہیں۔ اس موضوع پر کھل کر بحث ہونے سے جنسی شناختوں میں اب نرمی آنے لگی ہے‬
‫اور لوگ اپنی جنسی شناخت آسانی سے تبدیل بھی کر پاتے ہیں۔‬
‫نئے تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کئی ملکوں میں یہ تبدیلی ایک گروہ میں زیادہ واضح ہے۔‬
‫خواتین زیادہ آسانی سے اپنی جنسی شناخت تبدیل کر پاتی ہیں‪ ،‬مردوں کے مقابلے اُن کی‬
‫شرح کہیں زیادہ ہے۔‬
‫تو اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس میں کئی عناصر شامل ہیں‪،‬‬
‫خاص کر سماجی ماحول‪ ،‬جن کی بدولت خواتین زیادہ آسانی سے روایتی صنفی کرداروں‬
‫اور شناختوں کو توڑ پاتی ہیں۔‬
‫ان نئی معلومات کے باوجود سوال اب بھی برقرار ہے کہ مستقبل میں تمام صنفوں کے لیے‬
‫اپنے جنسی رجحان کو تبدیل کرنے سے کیا مراد ہو گا؟‬
‫جنسی رجحانات میں ایک بڑی تبدیلی‬
‫نیویارک میں بنگھمٹن ہیومن سیکشویلٹی ریسرچ لیب میں شان میسی اور ان کے ساتھی‬
‫قریبا ً ایک دہائی سے سیکس سے متعلق رویوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‬
‫ہر ایک تحقیق میں وہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ جنسی رجحان اور صنف سے متعلق وہ‬
‫اپنے خیاالت کا اظہار کریں۔ انھیں احساس ہوا ہے کہ وقت کے ساتھ یہ ڈیٹا بہت تبدیل ہوا‬
‫ہے اور ان کے پاس جنسی کشش سے متعلق معلومات کا خزانہ دستیاب ہے۔‬
‫بنگھمٹن یونیورسٹی میں خواتین‪ ،‬صنف اور جنسی مطالعے کے پروفیسر میسی کہتے ہیں‬
‫کہ ’ہم نے سوچا کہ ہم دس سال سے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں‪ ،‬کیوں نہ ہم واپس جا کر دیکھیں‬
‫کہ رجحانات کس طرح تبدیل ہوئے ہیں۔‘‬
‫انھیں پتا چال کہ ‪ 2011‬سے ‪ 2019‬کے درمیان کالج کی خواتین میں صرف مردوں کی‬
‫طرف مائل ہونے کا رجحان تبدیل ہو رہا ہے۔ سنہ ‪ 2019‬میں ‪ 65‬فیصد خواتین نے بتایا کہ‬
‫وہ صرف مردوں میں دلچسپی لیتی ہیں۔‬
‫سنہ ‪ 2011‬کے مقابلے یہ کم ہے جب یہ شرح ‪ 77‬فیصد ہوا کرتی تھی۔ اسی دوران ایسی‬
‫خواتین میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ’جو صرف مردوں سے سیکس کرتی ہیں۔‘‬
‫دریں اثنا اس عرصے میں مردوں کے جنسی رویے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے۔ قریب ‪ 85‬فیصد‬
‫مردوں کا کہنا تھا کہ وہ صرف خواتین میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ قریب ‪ 90‬فیصد کے‬
‫مطابق وہ صرف خواتین کے ساتھ سیکس کرتے ہیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫وقت کے ساتھ زبان و بیان میں خواتین کے 'نان بائنری' ہونے کو تسلیم کر لیا گیا ہے‬
‫برطانیہ اور نیدرلینڈز سمیت دنیا کے دیگر سرویز میں ملتی جلتی معلومات سامنے آئی ہے۔‬
‫ہر سال کے ساتھ مردوں کے مقابلے خواتین کی جانب سے زیادہ سیم سیکس دلچسپی ظاہر‬
‫کی گئی ہے۔‬
‫طاقت اور آزادی‬

‫تحقیقات | ‪117‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میساچوسیٹس میں سپرنگفیلڈ کالج میں نفسیات کی پروفیسر الیزبتھ مورگن کا کہنا ہے کہ‬
‫’اسے مکمل طور پر ایک چیز پر مرکوز کرنا پیچیدہ ہو گا۔‘ لیکن آیا صنفی کردار تبدیل‬
‫ہوئے ہیں یا نہیں‪ ،‬یہ اہم وجہ ہے۔‬
‫میسی اور ان کے ساتھیوں نے سماجی رویوں میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی ہے‪ ،‬جیسے‬
‫فیمنیزم کی ترقی اور خواتین کے حقوق کی تحریک۔ گذشتہ دہائیوں کے دوران ان دونوں‬
‫عناصر نے سماجی و سیاسی صورتحال کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیا ہے۔ تاہم مرد و‬
‫خواتین ان تبدیلیوں سے مختلف انداز میں متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫میسی کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے صنفی کرداروں میں پیشرفت ہوئی ہے اور ایسا مردوں‬
‫کے صنفی کرداروں میں زیادہ نہیں ہوا۔‘ ان کے مطابق ایل جی بی ٹی کیو پلس تحریک‬
‫کی بدولت لوگوں کے جنسی رجحان آج زیادہ متحرک ہیں۔‬
‫مگر وہ کہتے ہیں کہ فیمنیزم اور خواتین کے حقوق کی تحریک خواتین پر زیادہ اثر انداز‬
‫ہوئی ہے۔ تاریخی اعتبار سے مردوں کے لیے کوئی ایسی تحریک سامنے نہیں آ سکی جس‬
‫سے ان کے رویے بڑے پیمانے پر تبدیل ہو سکیں۔‬
‫مورگن کہتے ہیں کہ ’‪ 50‬سال قبل خواتین کے لیے زندگی ممکن نہیں تھی اگر وہ ایک مرد‬
‫سے شادی کر کے گھر نہیں بساتیں‪ ،‬کیونکہ وہ اپنے خاوند پر انحصار کرتی تھیں۔‘‬
‫اس ضمن میں صرف مردوں میں دلچسپی نہ رکھنے سے اب خواتین روایتی صنفی‬
‫کرداروں سے باہر نکل رہی ہیں۔‬
‫دریں اثنا جہاں ایک طرف خواتین کو زیادہ آزادی مل رہی ہے وہیں مردوں کے صنفی‬
‫کردار میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی کیونکہ معاشرے میں اب بھی اکثر جگہوں پر طاقت انہی‬
‫کے پاس ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪118‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مورگن کہتے ہیں کہ ’(مرد) چاہتے ہیں کہ طاقت قائم رکھنے کے لیے اپنے مردانہ صنفی‬
‫کردار کو برقرار رکھیں۔ مردانہ ہونے کا ایک حصہ بھی یہی ہے کہ آپ صرف مخالف‬
‫جنس یعنی خواتین کی طرف مائل ہوں۔‘‬
‫وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جنس پرستی سے معاشرے میں ان کی طاقت کم ہو جائے گی۔ میسی‬
‫کہتے ہیں کہ مرادنگی ایک ’کمزور فلسفہ ہے۔‘ ہم جنس پرستی سے اس کی خالف ورزی‬
‫ہو سکتی ہے۔‬
‫‪ 24‬سالہ سیکس کوچ وائلٹ ٹرننگ کا کہنا ہے کہ خواتین کے جنسی تعلقات کو غیر‬
‫معمولی سمجھا جاتا ہے‪ ،‬خاص کر مردوں کی نظر میں۔ جس کے باعث خواتین کا ہم جنس‬
‫قابل قبول ہوتا ہے‪ ،‬لیکن ایسا غلط وجوہات کی بنا پر ہوتا‬
‫پرست رشتہ معاشرتی طور پر ِ‬
‫قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔‬
‫ہے۔ دریں اثنا‪ ،‬دو مردوں کے درمیان سیکس کے تصور کو اتنا ِ‬
‫سنہ ‪ 2019‬میں ‪ 23‬ممالک کے افراد کے ہم جنس پرست مردوں اور خواتین کے بارے میں‬
‫رویوں کے بارے میں ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ ’ہم جنس پرست مردوں کو ہم‬
‫جنس پرست خواتین سے زیادہ بُرا سمجھا جاتا ہے۔‘‬
‫س ِر عام بحث‬
‫خواتین کے لیے اپنے جنسی رویوں کے حوالے سے کھل کر بات کرنے کے لیے وقت‬
‫کے ساتھ ساتھ مواقعوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔‬
‫علم نفسیات اور جینڈر سٹڈیز کی پروفیسر نے سنہ ‪ 90‬کی‬ ‫دی یونیورسٹی آف یوٹا میں ِ‬
‫دہائی میں جنسی رویوں کے بارے میں تحقیق کا آغاز کیا جس کا مرکز مردوں کو رکھا‬
‫گیا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬

‫تحقیقات | ‪119‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک سے زیادہ سرویز میں وقت کے ساتھ ان خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے جو صرف‬
‫مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں رکھتیں‬
‫اس تحقیق کے شرکا کا تعلق ہم جنس پرست معاونتی گروپس سے تھا اور ان کے شرکا‬
‫زیادہ تر مرد تھے اور ’محققین کے لیے مردوں کو ڈھونڈنا زیادہ آسان تھا۔‘‬
‫تاہم ڈائمنڈ چاہتی تھیں کہ وہ خواتین کے جنسی رویوں کے بارے میں تحقیق کریں۔ انھوں‬
‫نے ایک تحقیق کا آغاز کیا جس میں انھوں نے ‪ 100‬خواتین سے ان کے جنسی رویوں کے‬
‫بارے میں ہر دو سال بعد انٹرویوز کیے اور یہ سلسلہ ‪ 10‬برس تک چلتا رہا۔ ان کی کتاب‬
‫’سیکشوئل فلوئیڈٹی‪ :‬انڈرسٹینڈنگ ویمن لو اینڈ ڈیزائر‘ سنہ ‪ 2008‬میں شائع کی گئی تھی۔‬
‫اس کتاب میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ کیسے کچھ خواتین کے لیے محبت اور‬
‫کشش کا مطلب وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ اس سے قبل پائی جانے والی سوچ‬
‫سے مختلف تھا جس کے مطابق جنسی رویوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ سوچ ایسے‬
‫مقالوں میں خاصی عام تھی جن میں صرف مردوں کو تحقیق کا مرکز بنایا گیا تھا۔‬
‫جس دوران ان کی کتاب شائع کی گئی تھی امریکی سیلبرٹیز جیسے سنتھیا نکسن اور ماریا‬
‫بیلو جنھوں نے ماضی میں خواتین کے ساتھ ڈیٹنگ کی تھی اپنے ہم جنس پرست رویے‬
‫کے بارے میں تجربے کو عام کرتی دکھائی دیں۔‬
‫اوپرا ونفری نے ڈائمنڈ کو اپنے شو پر بال کر خواتین میں جنسی رجحانات کے قاب ِل تبدیل‬
‫ہونے کے تصور کے بارے میں بات کی۔ یعنی اب یہ تصور باضابطہ طور پر عام بحث کا‬
‫حصہ بن چکا تھا۔‬
‫اس کے عالوہ ٹرننگ کا کہنا تھا کہ زبان میں بھی خواتین کے جنسی رویوں میں تبدیلی کو‬
‫پہچانا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ٹرننگ کا کہنا ہے کہ ان کی ہم جنس ساتھی ہائی سکول‬
‫میں ’گے سٹریٹ االئنس‘ کا حصہ تھیں۔‬
‫اس گروہ میں صرف ہم جنس پرست اور مخالف جنس پرست مرد ہوا کرتے تھے اور‬
‫خواتین کی جنسی شناخت کے لیے کوئی لفظ نہیں تھا۔ گے سٹریٹ االئنس کی اس اصطالح‬
‫نے ایک بائنری شخص کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ اس میں لیسبیئن کا ذکر نہیں تھا۔‬
‫ٹرننگ کے مطابق اب خواتین کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ اپنی جنسی شناخت کو‬
‫ہم جنس پرست کہال سکیں کیونکہ اب یہ قابل قبول ہے۔ ’زبان و بیان میں اب خواتین سمیت‬
‫تمام صنفوں کے لیے جگہ بنائی گئی ہے۔‘‬
‫جنسی رویوں میں تبدیلی کا مستقبل کیا ہے؟‬
‫جنسی رویوں میں تبدیلی اب مردوں کے اندر بھی دکھائی دے سکتی ہے۔ ٹک ٹاک پر‬
‫نوجوان لڑکوں کے لیے ہم جنس پرست کردار نبھانا خاصا مقبول ہو رہا ہے۔‬
‫نیویارک ٹائمز کی ایک تحریر کے مطابق ان کی خواتین فالوورز اس سے لطف اٹھاتی ہیں۔‬
‫اس بات سے قطع نظر کہ ان لوگ کے لیے ہم جنس پرست دکھنے میں کوئی ہرج نہیں یا‬
‫وہ صرف کلکس کے لیے یہ سب کر رہے ہیں‪ ،‬اس ٹرینڈ سے پتا چلتا ہے کہ ’مردانہ‘ کے‬
‫تصور سے متعلق بھی رویے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ امکان پیدا ہوتے ہیں کہ‬
‫تحقیقات | ‪120‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مستقبل میں مزید مرد اپنی جنسی شناخت کو تسلیم کر سکیں گے یا اسے تبدیل کرنے میں‬
‫پُرسکون محسوس کریں گے۔‬
‫اس سلسلے میں ایسی خواتین بھی مدد کر سکتی ہیں۔ بہت سی خواتین اب اپنے جنسی‬
‫رجحانات اور رویوں پر کھل کر بات چیت کر رہی ہیں جس سے مزید لوگ اب سخت‬
‫رویوں کے بجائے متبادل کی بات کر سکتے ہیں۔‬
‫ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ ’ہماری ثقافت جنسی رویوں کے حوالے سے شرم کا عنصر پیدا کر‬
‫دیتی ہے۔ ایسا کچھ بھی جو اسے آسان اور معاشرتی اعتبار سے زیادہ قاب ِل قبول بناتا ہے‬
‫یعنی جس میں شرم اور دقیانوسی سوچ کا عمل دخل نہیں ہوتا۔‬
‫’وہ جنسی رویوں میں مزید امکانات کو یقینی بنانے کے بارے میں مدد کر سکتا ہے یا کم‬
‫سے کم اس تصور کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔‘‬
‫میسی نے کہا کہ ’ہمیں مردوں کو الزمی طور پر دوسرے جنس کی طرف مائل ہونے اور‬
‫روایتی مردانگی سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔‘‬
‫’اور شاید اس کا ایک مختلف نتیجہ حاصل ہو سکے‪ ،‬یا شاید ویسا ہی جیسا خواتین میں‬
‫دیکھنے کو مال ہے۔ خاص کر جنسی رویوں میں تنوع کے حوالے سے۔‘‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/vert-cul-58554980‬‬

‫موڈرنا ویکسین سے طویل المعیاد ٹھوس مدافعتی ردعمل بنتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪14 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی —کووڈ ویکسین سے بیماری کے خالف‬
‫مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے؟ اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل‬
‫ہے۔مگر ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے نیا تخمینہ سامنے آیا ہے۔‬

‫امریکا کے ال جوال انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ موڈرنا‬
‫ویکسین کی کم مقدار پر مبنی خوراک کا اثر کم از کم ‪ 6‬ماہ تک برقرار رہتا ہے اور‬
‫ویکسینیشن کرانے والوں کو اضافی خوراک کی ضرورت نہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وقت بہت اہم ہے کیونکہ اس عرصے میں حقیقی مدافعتی یادداشت‬
‫تشکیل پانے لگتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪121‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ موڈرنا کووڈ ویکسین سے ٹھوس سی ڈی ‪ 4‬پلس ہیلپر ٹی سی‪،‬‬
‫سی ڈی ‪ 8‬پلس کلر ٹی سیل اور اینٹی باڈی ردعمل ویکسینیشن مکمل ہونے کے بعد کم از‬
‫کم ‪ 6‬ماہ بعد برقرار رہتا ہے۔‬
‫اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے خالف مدافعتی ردعمل زیادہ طویل عرصے تک‬
‫برقرار رہ سکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اس ٹھوس مدافعتی یادداشت کا تسلسل ہر عمر کے گروپ‬
‫بشمول ‪ 70‬سال سے زائد عمر کے افراد میں برقرار رہتا ہے‪ ،‬جن میں بیماری کی سنگین‬
‫شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ مدافعتی یادداشت مستحکم رہتی ہے جو کہ متاثر کن ہے‪ ،‬جس سے‬
‫ایم آر این اے ویکسینز کے دیرپا ہونے کا اچھا عندیہ ملتا ہے۔‬
‫تحقیق کے لیے ایسے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن کو موڈرنا ویکسین کی ‪25‬‬
‫مائیکرو گرام کی خوراک کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں استعمال کرائی گئی تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک خوراک کا چوتھائی حصہ استعمال کرنے‬
‫سے بھی کسی قسم کا مدافعتی ردعمل بنتا ہے یا نہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہمیں موڈرنا ویکسین کے کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں شامل ایسے‬
‫افراد کے نمونے حاصل کرنے کا موقع مال جن کو ویکسین کے ‪ 25 ،25‬مائیکرو گرام کے‬
‫انجیکشن ‪ 28‬دن کے وقفے سے استعمال کرائے گئے تھے۔‬
‫لوگوں کو موڈرنا ویکسین کی ‪ 100‬مائیکرو گرام کی ایک خوراک استعمال کرائی جاتی‬
‫ہے اور پہلے معلوم نہیں تھا کہ کم مقدار کس حد تک فائدہ مند ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪122‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مگر اب اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کم مقدار بھی اسٹینڈرڈ ڈوز کی طرح ٹی سیل اور‬
‫اینٹی باڈی ردعمل کو پیدا کرتی ہے اور اس کا تسلسل بھی کئی ماہ بعد برقرار رہتا ہے۔‬
‫درحقیقت ماہرین نے دریافت کیا کہ موڈرنا ویکسین سے لگ بھگ ویسا ہی مدافعتی ردعمل‬
‫بنتا ہے جو قدرتی بیماری سے پیدا ہوتا ہے۔‬
‫مگر محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تعین کرنا باقی ہے کہ ویکسین کی کم مقدار کس حد تک‬
‫تحفظ فراہم کرسکتی ہے اور یہ فیصلہ کلینکل ٹرائل سے ہی ہوسکے گا۔مگر کیا دیگر کووڈ‬
‫ویکسینز کا مدافعتی ردعمل بھی اسی طرح ٹھوس ہوسکتا ہے‪ ،‬اس حوالے سے محققین کی‬
‫جانب سے مزید تحقیق کی جارہی ہے۔‬
‫مگر ان کا کہنا ہے کہ حقیقی دنیا کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ مدافعتی یادداشت دیرپا‬
‫ہوسکتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سائنس میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168418/‬‬

‫سال کے وہ دن جب پیداہونیوالے بچےزیادہ کامیاب ہوتے ہیں‬

‫‪Sep 18, 2021 | 19:25:PM‬‬

‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سال کے کون سے دن خوش قسمت ترین ہوتے ہیں کہ ان دنوں‬
‫میں پیدا ہونے والے لوگ سب سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں؟ مائی ہیریٹیج کے تحقیق کاروں‬
‫نے اپنی نئی تحقیق میں اس حوالے سے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔‪ ‬دی سن کے مطابق‬
‫ماہرین نے اس تحقیق میں ایک ہزار ایسے لوگوں کی تاریخ پیدائش معلوم کی جو مختلف‬
‫ایوارڈز جیت چکے ہیں اور اپنے شعبوں میں کامیاب ترین لوگ گردانے جاتے ہیں۔ان‬
‫لوگوں نے جو ایوارڈز جیت رکھے تھے ان میں گرامی‪ ،‬آسکر‪ ،‬ورلڈ کپ‪ ،‬مشعیلین سٹار‬
‫ایوارڈ‪ ،‬گولڈ گلوبز‪ ،‬پلٹزرپرائز‪ ،‬نوبل پرائز‪ ،،‬دی پام ڈی اور دی بُکر پرائزاور اولمپکس‪Œ‬‬
‫میڈلز شامل تھے۔‬
‫جب ان لوگوں کی تاریخ پیدائش کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ‪30‬اپریل سال کا سب سے‬
‫خوش قسمت ترین دن تھا جس روز پیدا ہونے والے سب سے زیادہ لوگ ان ایوارڈز یافتہ‬
‫‪ ‬لوگوں میں شامل تھے۔ ان ‪1000‬لوگوں میں سے ‪11‬افراد ‪30‬اپریل کو پیدا ہوئے تھے۔‬
‫اس کے بعد بالترتیب جن تاریخوں کو خوش قسمت قرار دیا گیا وہ ‪27‬اپریل‪20 ،‬جنوری‪،‬‬
‫‪23‬مارچ‪26 ،‬مارچ‪29 ،‬اپریل‪14 ،‬ستمبر‪26 ،‬ستمبر‪12 ،‬نومبر اور ‪30‬دسمبر تھیں۔ مہینوں‬
‫میں بھی اپریل کا مہینہ سب سے زیادہ خوش قسمت قرار دیا گیا جس میں پیدا ہونے والے‬
‫لوگوں نے سب سے زیادہ ‪99‬ایوارڈز حاصل کیے۔ اس کے بعد بالترتیب نومبر‪ ،‬مارچ‪،‬‬
‫ستمبر‪ ،‬جنوری‪ ،‬اکتوبر‪ ،‬مئی‪ ،‬جوالئی‪ ،‬جون‪ ،‬اگست‪ ،‬دسمبر اور فروری میں پیدا ہونے‬
‫والوں نے زیادہ ایوارڈز حاصل کیے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/18-Sep-2021/1342376‬‬

‫تحقیقات | ‪123‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫موڈرنا ویکسین کی افادیت کتنی ہے‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 17 2021‬‬

‫دنیا بھر میں کووڈ ‪ 19‬سے تحفظ کے لیے مختلف ویکسینز کا استعمال جاری ہے‪ ،‬حال ہی‬
‫میں موڈرنا ویکسین کا نیا ڈیٹا جاری کیا گیا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں پتہ چال کہ موڈرنا‬
‫ویکسین کی کووڈ سے تحفظ فراہم کرنے کی افادیت کئی ماہ بعد گھٹ جاتی ہے۔‬
‫یہ بات موڈرنا کی جانب سے جاری نئے ڈیٹا میں بتائی گئی۔‬
‫کمپنی کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک ‪ 13‬ماہ قبل دی گئی‬
‫تھی ان میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان ‪ 8‬ماہ کے دوران پہلی خوراک لینے والوں سے‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ویکسی نیشن سے ملنے واال تحفظ ایک سال کے عرصے میں ‪36‬‬
‫فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ یہ ڈیٹا موڈرنا کی جانب سے جاری کلینکل ٹرائل کے تیسرے‬
‫مرحلے میں اکٹھا کیا گیا تھا۔‬
‫اسی کلینکل ٹرائل کی بنیاد پر امریکا میں ویکسین کے استعمال کی منظوری دی گئی تھی‬
‫اور اس کے ابتدائی مرحلے میں شامل افراد کو کمپنی کی ایم ٓار این اے ویکسین یا پلیسبو‬
‫استعمال کروایا گیا تھا۔‬
‫نتائج میں دریافت کیا گیا کہ ٹرائل میں شامل افراد میں بریک تھرو انفیکشن کا امکان ‪36‬‬
‫فیصد تک کم تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪124‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٹرائل ڈیٹا میں دسمبر ‪ 2020‬سے مارچ ‪ 2021‬کے دوران ویکسی نیشن کرانے والے ‪11‬‬
‫ہزار ‪ 431‬رضاکاروں میں سے ‪ 88‬میں بریک تھرو کیسز سامنے آئے تھے۔‬
‫اس کے مقابلے میں جوالئی سے اکتوبر ‪ 2020‬میں ویکسی نیشن کرانے والے ‪ 14‬ہزار‬
‫‪ 746‬افراد میں سے ‪ 162‬بریک تھرو کیسز کی تشخیص ہوئی۔‬
‫موڈرنا کے سی ای او اسٹینف بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ‬
‫گزشتہ سال ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں حالیہ مہینوں میں ویکسی نیشن کرانے‬
‫والوں کے مقابلے میں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس سے ویکسین کی افادیت میں کمی کا عندیہ ملتا ہے اور بوسٹر ڈوز کی‬
‫ضرورت کو سپورٹ ملتی ہے تاکہ تحفظ کی بلند ترین شرح کو برقرار رکھا جاسکے۔‬
‫امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی ایڈوائزری کمیٹی کا اجالس ‪17‬‬
‫ستمبر کو ہورہا ہے جس میں دستیاب شواہد کی جانچ پڑتال کرکے بوسٹر ڈوز کی منظوری‬
‫دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-data-of-moderna-vaccine/‬‬

‫کیا وٹامن ڈی کووڈ ‪ 19‬کی شدت میں کمی کرسکتا ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪18 2021‬‬

‫انسانی جسم میں وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ‬
‫فراہم کرتا ہے‪ ،‬ماہرین اس حوالے سے کافی تحقیق کر چکے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪125‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بین االقومی ویب سائٹ کے مطابق ٓائر لینڈ کے ٹرینیٹی کالج‪ ،‬اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ‬
‫یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر‬
‫ہونے سے قبل جسم میں وٹامن کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک‬
‫تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں جسم میں جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح‪ ،‬سورج کی روشنی سے جلد‬
‫میں وٹامن کی پروڈکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کی کمی اور وائرل و بیکٹریل نظام تنفس کی‬
‫بیماریوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔‬
‫اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا‬
‫ذکر کیا گیا‪ ،‬مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے‪ ،‬زیادہ عمر یا‬
‫کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ‪ 5‬الکھ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا‬
‫جن میں کووڈ سے پہلے یو وی بی ریڈی ایشن کے اجتماع کو دیکھا گیا تھا۔ نتائج سے‬
‫عندیہ مال کہ وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ فراہم‬
‫کرتا ہے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی سے ممکنہ طور‬
‫پر کووڈ کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے‪ ،‬اس حوالے سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے‬
‫کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے ہونے تک وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال محفوظ اور سستا‬
‫طریقہ کار ہے جن سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے خالف زیادہ مؤثر تھراپیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خیال‬
‫میں یہ اہم ہے کہ وٹامن ڈی کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد پر ذہن کو کھال رکھا‬
‫جائے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/vitamin-d-against-covid-19/‬‬

‫کیا ٓاپ بھی الجھنوں کا شکار ہیں؟ دماغی بہتری کیلئے ان مشوروں پر‬
‫عمل کریں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 18 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪126‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی ماہرین نفسیات نے دماغی نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کرنے‬
‫کےلیے قیمتی مشورے دے دئیے۔ڈاکٹر ماہرہ وینڈی سوزوکی نے اعصابیات اور نفسیات‬
‫کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررکھی ہے‪ ،‬ڈاکٹر وینڈی نے اپنے تجربے‬

‫کی بنیاد پر لوگوں کو چھ قیمتی مشورے دئیے ہیں جن پر عمل درٓامد دماغی سکون کا‬
‫باعث بن سکتا ہے۔‬
‫اپنے ٓاپ کو مثبت ٹویٹس کیجئے‬
‫ڈاکٹر وینڈی نے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے ٓاپ کو مثبت ‪ ،‬مزاحیہ اور شگفتہ جملے‬
‫بھیجیں‪ ،‬جو دماغی طور پر توانا اور پُرامید رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔‬
‫اگر ٓاپ خود یہ نہیں کرسکتے یا کسی الجھن میں ہیں تو کسی قریبی دوست یا جیون ساتھی‬
‫سے کہیں کہ وہ اس میں ٓاپ کی مدد کریں اور ٹویٹس بھیجیں۔‬
‫مثبت نتائج کا تصور کیجئے‬
‫انہوں نے کہا کہ دن کے ٓاغاز سے ہی اپنے اور اپنے اہل خانہ کیلئے مثبت اختتام سوچیں‬
‫یعنی سب سے بہترین صورتحال کا تصور کیجئے‪ ،‬اس سے نہ صرف دماغ مثبت سوچنے‬
‫لگے گا بلکہ جسم پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔‬
‫بے چینی اور اضطراب کو ترقی میں بدلیں‬
‫ڈاکٹر وینڈی نے کہا کہ انسان کو کئی طرح کے چیلنجز اور مشکالت کا سامنا ہوتا ہے‪ ،‬اگر‬
‫انسان کوشش کرے تو ان مشکالت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‬
‫ایسے مواقع پر ہمیں صورتحال کا جائزہ لیکر خیاالت کو مثبت انداز میں جمع کرکے‬
‫درست فیصلے کرنے چاہیئں‪،‬یعنی بے چینی اور منفی جذبات کو گھماکر دوسرے مثبت‬
‫کاموں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی التعداد مثالیں ہیں۔‬
‫فطرت سے قریب رہیں‬

‫تحقیقات | ‪127‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ متعدد تحقیقیات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سزے‪ ،‬درخت اور‬
‫پُرسکون قدرتی مقامات دماغی سکون کا باعث ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کئی ہفتوں تک‬
‫برقرار رہتے ہیں۔‬
‫نئے کام ٓازمائیں‬
‫ماہرین اعصابیات و نفسیات نے مشورہ ماہر نفسیات نے دیا کہ لوگوں کو چاہیے کہ نئے‬
‫کاموں کو ٓازمائیں اور مفت ٓان الئن کورسز کریں‪ ،‬کھیلوں کے مقابلوں میں حصّہ لیں یعنی‬
‫اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر کچھ نہ کچھ نیا کریں۔‬
‫لوگوں سے رابطہ کیجئے‬
‫انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ کسی نہ کسی بات پر پریشانی کا شکار ہوکر مایوس ہوجاتے‬
‫ہیں‪ ،‬ایسی صورتحال میں انہیں چاہیے کہ وہ اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کریں کیوں‬
‫کہ حوصلہ افزاء اور تسلی بخش جملے ٓاپ کےلیے فائدہ مند ثابت ہوں گے اور ٓاپ کا‬
‫اعتماد بڑھے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/%da%a9%db%8c%d8%a7-%d8%a7%d‬‬

‫کیا بچوں کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے ؟؟‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪  18 2021‬‬

‫ایسے وقت میں جب کہ برطانیہ اور افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم ڈیلٹا‬
‫پھیلنے کی خبریں آ رہی ہیں جو نہ صرف کوویڈ‪ 19‬کے مقابلے زیادہ تیزی سے پھیلتا‬
‫ہے بلکہ بچوں پر بھی حملہ کرتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪128‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہاں یہ سوال پیدا رہا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین بچوں کو دی جا سکتی ہے یا‬
‫نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو اس وائرس کے حملے سے بچانے کیلئے ویکسی‬
‫نیشن بہت ضروری ہے۔کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسین‬
‫لگانے کا عمل بھی جاری ہے تاہم کئی ممالک نے اب اس عمل کو تیز کرتے ہوئے اپنے‬
‫‪ 18‬برس سے کم عمر افراد کو بھی ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔‬
‫دوسری جانب برطانیہ میں بھی ‪ 12‬سے ‪ 15‬برس کے بچوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ‬
‫کے لیے فائزر کی ویکسین دی جائے گی تاہم ابھی انہیں اس ویکسین کی صرف ایک‬
‫خوراک دی جائے گی۔‬
‫اس کے عالوہ کچھ دیگر ممالک بھی بچوں کو ویکسن لگا رہے ہیں لیکن طریقہ کار‬
‫مختلف ہے‪  ،‬پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر(این سی او سی) کے مطابق‬
‫پاکستان میں ‪ 15‬سے ‪ 17‬برس کے بچوں کی ویکسینیشن کا عمل ‪ 13‬ستمبر سے شروع ہو‬
‫چکا ہے۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام “باخبر سویرا” میں پاکستان پیڈیاٹرک‬
‫ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر جمال رضا نے ناظرین سے اہم باتیں شیئر کیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں کہا گیا کہ کورونا وائرس بچوں پر حملہ آور نہیں ہوتا‬
‫لیکن اس کی شرح کم تھی‪ ،‬اب وقت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ نئی قسم ڈیلٹا کے آنے‬
‫سے بچوں کی بڑی تعداد اس سے متاثر ہورہی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ جس طرح بڑی عمر کا کورونا مریض صحت یاب ہونے کے بعد دیگر‬
‫جسمانی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا ہے اسی طرح چھوٹے بچے بھی مختلف بیماریوں میں‬
‫مبتال ہوسکتے ہیِں۔‬
‫اس موقع پر پروفیسر جمال رضا نے عوام سے اپیل کی کہ خدارا اس جان لیوا وائرس سے‬
‫خود کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بچانے کیلئے ان کی ویکسی نیشن الزمی کرائیں۔‬
‫‪ ‬‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccine-for-children-delta-variant/‬‬

‫روز مرہ کی خوراک میں یہ تبدیلی ٓاپ کو خوش باش رکھ سکتی ہے‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 18 2021‬‬

‫ویسے تو صحت مند غذا کھانا جسمانی اور دماغی صحت کے لیے ضروری ہے تاہم حال‬
‫ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ خوش رہنا چاہتے ہیں تو سبزیوں اور‬
‫پھلوں کا استعمال بڑھا دیں‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کا ورزش کے ساتھ‬
‫امتزاج خوشی کا احساس بڑھاتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪129‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگرچہ طرز زندگی اور شخصیت پر خوشگوار اثرات کے درمیان تعلق کے بارے میں‬
‫ماضی میں تحقیقی رپورٹس سامنے ٓاچکی ہیں اور ماہرین کی جانب سے صحت بخش غذا‬

‫اور ورزش کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے‪ ،‬مگر اس نئی تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ‬
‫ان عوامل سے زندگی میں اطمینان بڑھ جاتا ہے۔‬
‫یہ اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس میں پھلوں اور سبزیوں کے استعمال اور ورزش کو‬
‫خوشی کے احساس کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے طرز زندگی کے عناصر اور خوشی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال‬
‫کی گئی اور دریافت ہوا کہ پھلوں‪ ،‬سبزیوں اور ورزش اس حوالے سے کردار ادا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ مرد ورزش زیادہ کرتے ہیں جبکہ خواتین پھل اور سبزیاں‬
‫زیادہ کھاتی ہیں۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ طویل المعیاد مقاصد کے لیے رویوں میں تبدیلی النا صحت مند طرز‬
‫زندگی کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اگر اچھا طرز زندگی ہمیں صحت مند رکھنے کے ساتھ خوش باش بھی‬
‫بناتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پھلوں اور سبزیوں کو زیادہ‬
‫کھانے اور ورزش کرنے سے خوشی کا احساس بڑھتا ہے جبکہ دیگر طبی فوائد بھی‬
‫حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/fruit-and-vegetables-can-make-you-happier/‬‬

‫خطرناک دماغی بیماری ‘ الزائیمرز ‘ سے متعلق اہم تحقیق منظرعام پر‬

‫تحقیقات | ‪130‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 18 2021‬‬

‫الزائیمرز کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کی وجہ دماغ میں بننے‬
‫والے پروٹین ’’ایمیالئیڈز‘‘ ہوتے ہیں جو دماغی خلیوں کو ٓاہستہ ٓاہستہ ختم کر ڈالتے‬
‫ہیں۔‬
‫اب سائنسدانوں نے اس خطرناک بیماری کا ممکنہ سبب معلوم کرلیا ہے‪ٓ ،‬اسٹریلوی ماہرین‬
‫نے دریافت کیا ہے کہ دماغ کی ایک خطرناک بیماری ’’الزائیمرز‘‘‪ Œ‬کے اسباب دراصل‬
‫جگر سے شروع ہوتے ہیں اور وہیں سے دماغ تک پہنچتے ہیں۔‬
‫البتہ یہی پروٹین ہمارے جگر میں بھی بنتے ہیں لہذا ایک متبادل مفروضہ یہ بھی تھا کہ‬
‫شاید انسانی جگر میں بننے والے ایمیالئیڈز کسی نہ کسی طرح ہمارے دماغ تک پہنچتے‬
‫ہیں جہاں یہ الزائیمرز بیماری کی وجہ بن جاتے ہیں۔‬
‫اس مفروضے کو ’’ایمیالئیڈز‪ Œ‬ہائپوتھیسس‘‘ بھی کہا جاتا ہے تاہم اس بارے میں اب تک‬
‫ہمارے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔‬
‫چوہوں پر کی گئی ایک نئی تحقیق میں بینٹلی‪ٓ ،‬اسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی کے ماہرین‬
‫نے چوہوں کی ایک ایسی نسل تیار کی جس کے جگر میں انسانی ایمیالئیڈز بن رہے تھے‬
‫جنہوں نے دماغ تک پہنچ کر وہاں موجود خلیوں کے مرنے کی رفتار میں اضافہ کردیا‬
‫جس سے ان کی یادداشت بھی تیزی سے ختم ہونے لگی۔‬
‫یہ وہی مخصوص عالمات ہیں جو الزائیمرز بیماری کی ابتداء سے تعلق رکھتی ہیں‪ ،‬اس‬
‫طرح کم از کم چوہوں کی حد تک اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ الزائیمرز کی ابتداء میں‬
‫دماغ سے زیادہ جگر کا کردار ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪131‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کی یہی ٹیم اب انسانی مشاہدات کی تیاری کررہی ہے تاکہ انسانوں کےلیے بھی‬
‫ایمیالئیڈز مفروضے کی حتمی طور پر تصدیق کی جاسکے‪ ،‬اگر یہ بات انسانوں میں بھی‬
‫درست ثابت ہوئی الزائیمرز کی روک تھام اور ممکنہ عالج میں جگر پر بھی توجہ دی‬
‫جاسکے گی۔‬
‫یہ تحقیق ٓان الئن ریسرچ جرنل ’’پی ایل او ایس بائیالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع‬
‫ہوئی ہے۔‬
‫واضح رہے کہ الزائیمرز بیماری میں دماغ کے خلیے تیزی سے مرتے ہیں اور دماغ بھی‬
‫بتدریج سکڑنے لگتا ہے‪ٓ ،‬اخرکار یہ عمل مریض کی موت پر جا کر ہی رکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dangerous-mental-illness-alzheimers/‬‬

‫زندگی میں خوشی کیلئے پھل‪ ،‬سبزیاں اور ورزش الزمی قرار‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪ 19 2021‬‬

‫واشنگٹن ‪ :‬امریکی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ صحت مند اور خوشحال زندگی کا راز‬
‫تازہ سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ورزش میں پوشیدہ ہے۔‬
‫یہ بات طبی جریدے‪ ‬جرنل ٓاف ہیپی نیس اسٹیڈیز‪ ‬میں شائع ہونے والی کینٹ یونیورسٹی اور‬
‫ریڈنگ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں سامنے ٓائی ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں‬
‫اور سبزیوں کا ورزش کے ساتھ امتزاج انسان کی خوشی کا احساس بڑھاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے طرز زندگی کے عناصر اور خوشی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال‬
‫کی گئی اور دریافت ہوا کہ پھلوں‪ ،‬سبزیوں اور ورزش اس حوالے سے کردار ادا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪132‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ورزش کی عادت اپنانے سے انسان میں‬
‫خوشی کا احساس بڑھتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق اس طرح کرنے سے انسان متعدد بیماریوں سے بھی بچ جاتا جن میں‬
‫عارضہ قلب‪ ،‬شوگر‪ ،‬کولیسٹرول لیول‪ ،‬بلڈ پریشر اور کینسر جیسی مہلک و جان لیوا‬
‫بیماریاں بھی شامل ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/fruits-vegetables-and-exercise-are-essential-for-‬‬
‫‪happiness-in-life/‬‬

‫وائرس اور اینٹی بایوٹک کے مالپ سے سخت جان بیکٹیریا کا خاتمہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اتوار‪ 19  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫فیج بیکٹیریا اور اینٹی بایوٹکس‪ Œ‬کے مشترکہ عمل سے ان بیکٹیریا کو بھی ہالک کیا جاسکتا‬
‫ہے جو دواؤں سے نہیں مرتے۔‬

‫تحقیقات | ‪133‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پیرس ‪ /‬پٹس برگ‪ :‬فرانسیسی اور امریکی ماہرین کی ایک مشترکہ ٹیم نے ’’بیکٹیریوفیج‬
‫وائرس‘‘ اور ایک اینٹی بایوٹک کے مالپ سے سخت جان بیکٹیریا کا خاتمہ کرنے میں‬
‫کامیابی حاصل کرلی ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’ ِڈزیز ماڈلز اینڈ مکینزمز‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی یہ تحقیق‬
‫فی الحال ایک چھوٹی سی مچھلی ’’زیبرا فش‘‘ پر کی گئی ہے۔‬
‫واضح رہے کہ ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کے خالف جرثوموں (بیکٹیریا)‪ Œ‬کی‬
‫بڑھتی ہوئی مزاحمت اس وقت ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے جسے حل کرنے کےلیے‬
‫دنیا بھر کے طبّی ماہرین سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔‬
‫فرانس کی مونت پیلیے یونیورسٹی اور امریکا کی یونیورسٹی ٓاف پٹس برگ کے ماہرین‬
‫‪‘‘ (Mycobacterium‬نے ان تجربات کے دوران زیبرا فش کو ’’مائیکوبیکٹیریم‪ Œ‬ایبسیسس‬
‫کہالنے والے ایک سخت جان جرثومے سے متاثر کیا۔ )‪abscessus‬‬
‫یہ جرثومہ انسانی پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے جبکہ اینٹی بایوٹکس بھی اس کے‬
‫خالف غیر مؤثر ہوتی جارہی ہیں۔‬
‫وہ زیبرا مچھلیاں جنہیں صرف اینٹی بایوٹک دی گئی‪ ،‬اُن میں سے صرف ‪ 40‬فیصد کو دوا‬
‫سے افاقہ ہوا۔ اسی طرح جن زیبرا مچھلیوں میں صرف ’’بیکٹیریوفیج وائرس‘‘‪ Œ‬داخل کیے‬
‫گئے‪ ،‬ان میں بھی صحت یاب ہونے کی شرح ‪ 40‬فیصد کے لگ بھگ رہی۔‬
‫البتہ جن زیبرا مچھلیوں کا عالج اینٹی بایوٹک اور بیکٹیریوفیج وائرس سے ایک ساتھ کیا‬
‫گیا‪ ،‬ان میں یہ صحت یابی کی شرح ‪ 70‬فیصد تک دیکھی گئی۔‬
‫یہ تجربات ابتدائی نوعیت کے ہیں جنہیں اگلے مرحلے میں مزید جانوروں پر کیا جائے گا۔‬
‫اگر اس مرحلے پر بھی کامیابی حاصل ہوئی تو پھر یہی تجربات انسانوں پر بھی کیے‬
‫جائیں گے لیکن محدود پیمانے پر۔‬
‫ان محدود انسانی تجربات کی کامیابی پر ان کا دائرہ بڑھایا جائے گا اور کامیابی کے بعد‬
‫ہی یہ عالج کا یہ طریقہ رائج ہوسکے گا۔‬
‫اس پورے عمل میں ممکنہ طور پر مزید سات سے ٓاٹھ سال لگ سکتے ہیں ل ٰہذا بیکٹیریوفیج‬
‫وائرس اور اینٹی بایوٹکس کے مالپ سے بیماریوں کے بہتر عالج کی فوری توقع نہیں کی‬
‫جاسکتی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2226282/9812/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کی پیچیدگیوں اور وٹامن ڈی کی کمی میں تعلق ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪17 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪134‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی ۔کیا جسم میں وٹامن ڈی کی مناسب سطح‬
‫کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کے شکار افراد میں بیماری کی سنگین‬
‫شدت اور موت کے خطرے سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے؟‬

‫یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے متعدد ممالک کے سائنسدانوں کی جانب سے‬
‫کام کیا جارہا ہے اور اب اس حوالے سے ایک تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔‬

‫آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج‪ ،‬اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرگ یونیورسٹی اور چین کی زیجیانگ‬
‫یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسم میں وٹامن‬
‫کی اچھی مقدار بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتی‬
‫ہے۔‬
‫اس تحقیق میں جسم میں جینیاتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح ‪ ،‬سورج کی روشنی سے جلد‬
‫میں وٹامن کی پروڈکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کی کمی اور وائرل و بیکٹریل نظام تنفس کی‬
‫بیماریوں کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔‬
‫اسی طرح کچھ مشاہداتی تحقیقی رپورٹس میں بھی کووڈ اور وٹامن ڈی کے درمیان تعلق کا‬
‫ذکر کیا گیا‪ ،‬مگر یہ بھی خیال کیا گیا کہ یہ دیگر عناصر جیسے موٹاپے‪ ،‬زیادہ عمر یا‬
‫‪،‬کسی دائمی بیماری کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے‬

‫تحقیقات | ‪135‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ ‪ 5‬الکھ افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا‬
‫جن میں کووڈ سے پہلے یو وی بی ریڈی ایشن کے اجتماع کو دیکھا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے عندیہ مال کہ وٹامن ڈی ممکنہ طور پر کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے‬
‫تحفظ فراہم کرتا ہے۔‬
‫محقین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ وٹامن ڈی سے ممکنہ طور پر‬
‫کووڈ کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا ہے‪ ،‬اس حوالے سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے‬
‫کنٹرول ٹرائل کی ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے ہونے تک وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال محفوظ اور سستا‬
‫طریقہ کار ہے جن سے بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کے خالف زیادہ مؤثر تھراپیز نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے خیال‬
‫میں یہ اہم ہے کہ وٹامن ٰڈ کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد پر ذہن کو کھال رکھا‬
‫جائے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے استعمال کے مشورے کو‬
‫سپورٹ ملتی ہے جس سے نہ صرف ہڈیوں اور مسلز کی صحت کو درست رکھنے میں‬
‫مدد ملتی ہے بلکہ اس سے کووڈ کی پیچیدگیوں سے بھی ممکنہ تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168694/‬‬

‫موڈرنا ویکسین فائزر اور جانسن اینڈ جانسن کے مقابلے میں زیادہ مؤثر‬
‫قرار‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪19 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫موڈرنا کی کووڈ ویکسین بیماری سے متاثر افراد میں ہسپتال کے داخلے کی روک تھام‬
‫کے لیے مؤثر ترین ہے۔یہ بات امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی‬
‫جانب سے جاری نئی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 5‬ماہ کے عرصے کے دوران موڈرنا‪ ،‬فائزر‪/‬بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ‬
‫جانسن ویکسینز کی افادیت کا موازنہ کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ موڈرنا ویکسین کے استعمال سے ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ‪93‬‬
‫فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪136‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فائزر ویکسین میں یہ شرح ‪ 88‬فیصد اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین میں ‪ 71‬فیصد دریافت‬
‫کی گئی۔تحقیق میں مارچ سے اگست ‪ 2021‬کے دوران ‪ 18‬امریکی ریاستوں کے ‪21‬‬
‫ہسپتالوں میں زیر عالج رہنے والے ‪ 36‬سو سے زیادہ کووڈ مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ‬
‫کیا گیا۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن مکمل ہونے کے ‪ 4‬ماہ بعد تک موڈرنا اور فائزر‬
‫ویکسینز کی ہسپتال میں داخلے کی روک تھام کے حوالے سے افادیت لگ بھگ ایک‬
‫جیسی تھی۔‬
‫مگر ‪ 5‬ویں مہینے میں فائزر کی افادیت ‪ 91‬فیصد سے گھٹ کر ‪ 77‬فیصد تک پہنچ گئی‪،‬‬
‫مگر موڈرنا کی افادیت میں ‪ 5‬ویں مہینے میں محض ایک فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اگرچہ حقیقی دنیا کے ڈیٹا میں ویکسین سے ملنے والے تحفظ کی شرح‬
‫کچھ حد تک مختلف ہوسکتی ہے‪ ،‬مگر تمام ویکسینز سے ہسپتال میں داخلے کے خطرے‬
‫سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔‬
‫محققین نے موڈرنا کی دیرپا افادیت کے حوالے سے چند وجوہات کے بارے میں بھی بتایا‬
‫جیسے فائزر کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین کی دوسری خوراک ایک ہفتے تاخیر سے‬
‫دی جاتی ہے۔‬
‫تحقیق میں کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خال ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی‬
‫تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪137‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے تینوں ویکسینز کی ‪ 2‬مختلف اینٹی باڈیز کا تجزیہ بھی کیا اور انہوں نے دریافت‬
‫کیا کہ موڈرنا سے بننے والی اینٹی باڈیز انسانی خلیات میں داخل ہونے میں کورونا وائرس‬
‫کی مدد کرنے والے پہلو کو زیادہ بہتر ہدف بناتی ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ موڈرنا اور فائزر ویکسینز سے وائرس کے اسپائیک پروٹین کو ہف‬
‫بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح یکساں ہوتی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ موڈرنا اور فائزر ویکسینز میں سب سے بڑا فرق وقت کے ساتھ ان کی‬
‫افادیت میں کمی کے تناسب کا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ موڈرنا اور فائزر ویکسین کی افادیت میں کمی کی ممکنہ وجہ موڈرنا‬
‫ویکسین میں ایم آر این اے مواد زیادہ ہونا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ جانسن اینڈ جانسن کی سنگل ڈوز ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل اور‬
‫ہسپتال کے داخلے کے خالف خطرے کے حوالے سے افادیت دونوں ویکسینز سے کم ہے‬
‫مگر پھر بھی اس کی ایک خوراک سے یہ خطرہ ‪ 71‬فیصد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی‪ ،‬اس میں بچوں‪ ،‬کمزور‬
‫مدافعتی نظام کے حامل بالغ افراد یا کووڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسینز کی افادیت کی جانچ‬
‫پڑتال نہیں کی گئی‪ ،‬جبکہ رضاکاروں کا جازئہ بھی صرف ‪ 29‬ہفتے تک لیا گیا‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168816/‬‬

‫کورونا وائرس دماغ پر کس طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے؟ وہ سب جو‬


‫اب تک معلوم ہوچکا ہے‬
‫‪19 september 2021‬‬

‫فیصل ظفر | عاطف راجہ‬


‫عام طور پر سمجھا جاتا ہے‬
‫کہ نوول کورونا وائرس‬
‫پھپھڑوں کو متاثر کرتا ہے‬
‫مگر اب مختلف رپورٹس‬
‫میں یہ بات سامنے آرہی ہے‬
‫کہ یہ دیگر اہم اعضا کو‬
‫بھی نقصان پہنچا سکتا ہے‬
‫جن میں دماغ بھی شامل‬

‫تحقیقات | ‪138‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے۔مگر کووڈ ‪ 19‬کے دماغ پر براہ راست اثرات کے بارے میں ابھی بھی زیادہ علم نہیں‬
‫ہوسکا۔‬
‫تاہم زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ متعدد مریضوں میں دماغی مسائل بیماری کو شکست‬
‫دینے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی برقرار رہتے ہیں۔مختلف تحقیقی رپورٹس سے اب‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے دماغ پر مرتب اثرات کی ایک تصویر ابھرنے لگی ہے جو کچھ زیادہ اچھی‬
‫نہیں۔ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ کووڈ سے متاثر ہونے والے کتنے افراد بتدریج طویل‬
‫المعیاد اثرات سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں اور کن کو طویل عرصے تک تباہ کن‬
‫نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫اب تک جو تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں ان میں ذہنی اور دماغی مسائل کی درج ذیل‬
‫تصویر سامنے آئی ہے۔‬
‫آئی کیو لیول میں کمی‬

‫کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کے‬
‫خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫امپرئیل کالج لندن‪ ،‬کنگز کالج‪ ،‬کیمبرج‪ ،‬ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس‬
‫مشترکہ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کووڈ ‪ 19‬کس حد تک ذہنی صحت‬
‫اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪139‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس مقصد کے لیے گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کے ‪ 81‬ہزار سے زیادہ افراد کے‬
‫جنوری سے دسمبر ‪ 2020‬کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا‪ ،‬جن میں سے ‪ 13‬ہزار کے قریب میں‬
‫کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫تحقیق کے مطابق ان میں سے صرف ‪ 275‬افراد نے کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور‬
‫بعد میں ذہانت کے ٹیسٹ کو مکمل کیا تھا۔تحقیق میں تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے‬

‫ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ ‪ 19‬کا شکار ہوئے‪ ،‬ان کی ذہنی کارکردگی اس‬
‫بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔‬
‫ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق‪ ،‬مسائل حل کرنے‪ ،‬منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی‬
‫افعال زیادہ متاثر ہوئے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ کووڈ ‪ 19‬سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل‬
‫سے جڑی ہوسکتی ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی‬
‫شدت پر ہوتا ہے۔‬
‫یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی‪ ،‬ان میں ذہنی افعال کی تنزیلی کی‬
‫شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی‪ ،‬درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت‬
‫کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں ‪ 7‬پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النیسٹ میں شائع ہوئے۔‬
‫آئی سی یو میں زیر عالج رہنے والے مریضوں کے لیے زیادہ خطرہ‬

‫تحقیقات | ‪140‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کی زیادہ شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے‬
‫ذہنی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔‬
‫اس حوالے سے کچھ تحقیقی رپورٹس پر کام بھی ہوا جن میں سے ایک نیویارک‬
‫یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کی بھی تھی۔‬
‫اس تحقیق میں کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کے باعث ہسپتالوں میں زیرعالج رہنے والے‬
‫‪ 382‬مریضوں کے ذہنی و دماغی مسائل کی اسکریننگ کی گئی تھی۔‬
‫ان میں سے ‪ 50‬فیصد مریضوں نے دماغی افعال متاثر اور روزمرہ کی سرگرمیوں‪ ،‬چہل‬
‫قدمی یا ہسپتال سے فارغ ہونے کے ‪ 6‬ماہ بعد اپنا خیال نہ رکھ پانے جیسے مسائل کو‬
‫رپورٹ کیا۔‬
‫جو مریض ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے مالزمت کرتے تھے ان میں سے ‪ 47‬فیصد‬
‫ہسپتال سے ڈسچارج کے ‪ 6‬ماہ بعد بھی مالزمت پر لوٹ نہیں سکے۔‬
‫محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان مسائل کا سامنا کرنے والے کچھ مریض ایسے تھے‬
‫جن میں اس طرح کے مسائل کی کوئی تاریخ نہیں تھی مگر ان کے مقابلے میں پہلے سے‬
‫ذہنی مسائل کا سامنا کرنے والے افراد میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫غیر متوقع اثرات‬
‫میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ medRxiv‬مئی ‪ 2021‬کے آغاز میں پری پرنٹ سرور‬
‫النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ‪ ،‬سانس لینے میں مشکالت‪،‬‬
‫سینے میں درد‪ ،‬کھانسی‪ ،‬ذہنی تشویش‪ ،‬ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا‬
‫ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں بلکہ‬
‫‪ 65‬سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 57‬ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی‬
‫آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫النگ کووڈ پر ہونے والی ‪ 51‬تحقیقی رپورٹس کے تجزیے پر مشتمل ایک تحقیق میں بتایا‬
‫گیا کہ طویل المعیاد عالمات کا سامنا کرنے والے ہر ‪ 5‬میں سے ایک مریض کو ابتدائی‬
‫بیماری سے صحتیابی کے ‪ 6‬ماہ بعد بھی دماغی دھند کا سامنا ہوتا ہے‪ ،‬یعنی ذہنی الجھن‪،‬‬
‫چیزیں بھولنا اور توجہ مرکوز نہ کرپانے جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اس سے قبل مئی ‪ 2021‬میں امریکا کی جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا‬
‫کا حجم کم ہوسکتا )‪ (gray matter‬تھا کہ کووڈ کے مریضوں کے دماغ میں گرے میٹر‬
‫ہے۔‬
‫امریکا کی جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اٹلی کے ایک ہسپتال میں کووڈ‬
‫کے مریضوں کو درپیش دماغی و اعصابی عالمات کی جانچ پڑتال کے لیے ہونے والے‬
‫سی ٹی اسکینز کا تجزیہ کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪141‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مجموعی طور پر ‪ 120‬مریضوں کے سی ٹی اسکینز کو تحقیق میں دیکھا گیا جن میں سے‬
‫‪ 58‬کووڈ ‪ 19‬کے مریض تھے اور دونوں گروپس کے نتائج کا موازنہ کیا گیا۔‬
‫کووڈ کے ایسے مریض جن کو آکسیجن کی تھراپی کی ضرورت پڑی ان کے گرے میٹر کا‬
‫حجم کم ہوگیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کے گرے میٹر کے حجم میں کمی آئی ان میں ذہنی‬
‫ہیجان بڑھ گیا‪ ،‬جس کے نتیجے میں مریضوں میں چڑچڑاپن بڑھ گیا۔‬
‫کیا کورونا دماغ کو براہ راست متاثر کرسکتا ہے‬

‫میں چوہوں پر تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ کورونا کے اسپائیک پروٹین‪ ،‬خون‬
‫اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کو عبور کرسکتا ہے۔‬
‫اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس بھی دماغ میں داخل ہوسکتا ہے جو اپنے‬
‫اسپائیک پروٹین جن کو ایس ون پروٹین بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬کو خلیات میں داخل ہونے کے‬
‫لیے استعمال کرتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین اور پیوگیٹ ساؤنڈ ویٹرنز افیئرز ہیلتھ کیئر‬
‫سسٹم کی اس مشترکہ تحقیق کی قیادت کرنے والے ولیم اے بینکس نے بتایا کہ عموما ً‬
‫اسپائیک پروٹین خلیات میں داخلے میں مدد دیتا ہے‪ ،‬مگر ایسے پروٹینز بذات خود بھی اس‬
‫وقت تباہی مچاتے ہیں جب وہ وائرس سے الگ ہوتے ہیں اور ورم بھی بڑھاتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ایس ون پروٹین ممکنہ طور پر دماغ کو سائٹو کائینز اور ورم بڑھانے‬
‫والے مالیکیولز کے اخراج پر مجبور کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪142‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مئی ‪ 2021‬میں امریکا کی لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪19‬‬
‫دماغ کے ‪ 2‬اقسام کے خلیات نیورونز اور آسٹروسائٹس کو متاثر کرسکتی ہے۔‬
‫لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی‬
‫ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی‬
‫عالمات کا باعث بنتی ہے۔‬
‫کورونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا‬
‫ہے‪ ،‬یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں‪ ،‬دل‪ ،‬گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں‪ ،‬مگر اب تک یہ‬
‫واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کورونا وائرس کو حملہ کرنے‬
‫کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔‬
‫اس کو جاننے کے لیے محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس‬
‫ٹو ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا‬
‫اور ان میں ایس ‪ 2‬ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا۔‬
‫یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون‬
‫اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس ٹو ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے‬
‫بعد دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔‬
‫اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین‬
‫کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔‬
‫اسی طرح ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں محققین نے ایک منفرد لیبارٹری ماڈل‬
‫تیار کیا تھا تاکہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مختلف اقسام کے دماغی خلیات کو‬
‫شناخت کیا جاسکے۔‬
‫خلیات کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ‪ glial‬انہوں نے دریافت کیا کہ دماغ کے‬
‫خلیات اور نئے کورونا وائرس کے درمیان تعلق کے حوالے سے زیادہ ‪ glial‬اس سے قبل‬
‫تحقیقی کام نہیں ہوا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ خلیات اعصابی خلیات کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں‪ ،‬ایک حد‬
‫قائم کرتے ہیں اور دماغ کو بیماریوں اور اعصابی خلیات کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز‬
‫سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل جنوری ‪ 2021‬میں امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا‬
‫تھا کہ کووڈ نتھنوں سے جسم میں داخل ہونے پر پھیپھڑوں کی بجائے براہ راست دماغ پر‬
‫برق رفتار حملہ کرتی ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں شدت سنگین ہوتی ہے‪ ،‬چاہے پھیپھڑوں‬
‫سے وائرس کلیئر ہی کیوں نہ ہوجائے۔‬
‫تحقیقات | ‪143‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی تھی مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کا اطالق انسانوں میں‬
‫سامنے آنے والی عالمات اور بیماری کی شدت کو سمجھنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ خیال کہ کووڈ نظام تنفس کی بیماری ہے‪ ،‬ضروری نہیں کہ‬
‫درست ہو‪ ،‬ایک مرتبہ جب یہ دماغ کو متاثر کرلیتا ہے تو جسم کے ہر حصے کو متاثر‬
‫کرسکتا ہے‪ ،‬کیونکہ دماغ ہمارے پھیپھڑوں‪ ،‬دل اور ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے‪ ،‬دماغ‬
‫ایک بہت حساس عضو ہے۔‬

‫مگر امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کووڈ سے ہالک ہونے والے ‪40‬‬
‫افراد کے دماغی خلیات میں وائرل آر این اے یا پروٹینز کے نمونوں کو دریافت نہیں کیا‬
‫جاسکا۔جرنل برین میں شائع تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ سابقہ رپورٹس میں‬
‫دماغی خلیات میں وائرس کی موجودگی پوسٹمارٹم کے دوران ممکنہ آلودگی کی وجہ سے‬
‫ہوئی ہوگی۔‬
‫طویل المعیاد دماغی تنزلی کے امراض کا خطرہ‬
‫دسمبر ‪ 2020‬میں طبی جریدے نیچر نیوروسائنسز میں شائع تحقیق‬
‫اس حوالے سے ابھی کچھ مصدقہ نہیں مگر ابتدائی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے‬
‫کہ کووڈ ‪ 19‬یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ‬
‫طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔‬
‫جوالئی میں الزائمر ایسوسی ایشن کی بین االقوامی کانفرنس میں مختلف تحقیقی رپورٹس‬
‫پیش کی گئی تھیں جن میں اشارہ دیا گیا کہ کورونا وائرس سے دماغی افعال پر دیرپا اثرات‬
‫مرتب ہوسکتے ہیں بالخصوص بزرگ افراد میں۔‬

‫تحقیقات | ‪144‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک تحقیق کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تھی جس میں ‪ 60‬سال یا اس سے زیادہ عمر کے ‪400‬‬
‫سے زیادہ ارجنٹائنی افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے ان افراد کا معائنہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے ‪ 3‬سے ‪ 6‬ماہ بعد کیا‬
‫تھا اور دماغی صالحیتوں‪ ،‬جذباتی ردعمل اور دیگر کی جانچ پڑتال کی۔محققین نے دریافت‬
‫کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا ہوا‪ 60 ،‬فیصد کے‬

‫دماغی افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ہر ‪ 3‬میں سے ایک میں عالمات کی شدت‬
‫سنگین تھی۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی شدت سے دماغی مسائل کی پیشگوئی نہیں‬
‫کی جاسکتی‪ ،‬بلکہ مرض سے ہی ان مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‪ ،‬چاہے آپ جتنے زیادہ‬
‫یا کم بیمار ہوں۔‬
‫محققین کے مطابق اگر بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو لیکن کووڈ کے شکار ہیں‬
‫اور معمر ہیں تو ان مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔‬
‫اسی طرح سونگھنے کی حس سے محرومی بھی دماغی افعال کے مسائل سے جڑی ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬سونگھے کی حس سے محرومی کی شدت جتنی زیادہ ہوگی‪ ،‬دماغی افعال اتنے ہی‬
‫زیادہ متاثر ہوں گے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی‬
‫دماغی تبدیلیاں مستقل ہوتی ہیں یا ان کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔‬
‫دوسری تحقیق یونان کی ٹھیسلے یونیورسٹی کی تھی جس میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے‬
‫کے ‪ 2‬ماہ بعد کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪145‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر ‪ 61‬سال تھی اور ان میں بیماری کی شدت‬
‫معمولی سے معتدل تھی۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ دماغی تنزلی کس حد تک جسمانی فٹنس اور نظام تنفس‬
‫کے افعال سے منسلک تھی۔محققین نے دریافت کیا کہ مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج‬
‫ہونے کے ‪ 2‬ماہ بعد دماغی تنزلی کا سامنا کررہے تھے جبکہ ان میں نظام تنفس کے افعال‬
‫زیادہ خراب ہوچکے تھے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ طبی نگہداشت فراہم‬
‫کرنے والوں کو دماغی تنزلی کو النگ کووڈ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔‬
‫تیسری تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے خون میں الزائمر کا خطرہ بڑھانے والے‬
‫حیاتیاتی اشاروں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫اس مقصد کے لیے نیویارک یونیورسٹی النگون ہیتھ میں زیر عالج رہنے والے ‪310‬‬
‫مریضوں کے پالزما نمونوں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ الزائمر سے منسلک حیاتیاتی اشارے توقع سے زیادہ تھے اور یہ‬
‫حیاتیاتی تبدیلیاں اس سے ملتی جلتی تھیں جو الزائمر اور دیگر دماغی امراض سے منسلک‬
‫کی جاتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر ‪ 69‬سال تھی اور محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھ‬
‫نہیں سکے کہ لوگوں میں یہ حیاتیاتی تبدیلی کیوں آتی ہیں‪ ،‬ہم ابھی نہیں جانتے کہ اس کا‬
‫تسلسل برقرار رہتا ہے یا نہیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے مریضوں میں الزائمر کی عالمات اور اس مرض کی جانب‬
‫سفر کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‬
‫بیماری کی معمولی شدت بھی ذہنی مسائل کا خطرہ بڑھائے‬
‫ہنی اور نفسیاتی عالمات جیسے تھکاوٹ یا توانائی نہ ہونے کا احساس اور ڈپریشن کووڈ ‪19‬‬
‫کے مریضوں میں عام ہوتی ہیں‪ ،‬بالخصوص ایسے افراد میں جن میں بیماری کی شدت‬
‫معمولی ہوتی ہے۔‬
‫لندن کالج یونیورسٹی کے ماہرین نے ‪ 215‬تحقیقی رپورٹس میں فراہم کیے جانے والے‬
‫شواہد کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے ذہنی اور دماغی صحت پر متعدد اقسام‬
‫کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہمیں توقع تھی کہ ذہنی اور نفسیاتی اثرات کووڈ ‪ 19‬کے سنگین کیسز‬
‫میں زیادہ عام ہوں گے مگر اس کے برعکس ہم نے دریافت کیا کہ کچھ عالمات اس سے‬
‫معمولی بیمار ہونے والے افراد میں زیادہ عام ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ بظاہر کووڈ ‪ 19‬سے ذہنی صحت اور دماغ کا متاثر ہونا عام ہے۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے ‪ 30‬ممالک میں ہونے والی ‪ 215‬تحقیقی رپورٹس کا منظم تجزیہ کیا جن میں‬
‫ایک الکھ ‪ 5‬ہزار سے زیادہ کووڈ ‪ 19‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔‬
‫ان رپورٹس میں متعدد عالمات کے بارے میں بتایا گیا تھا اور ان کے نتائج کا موازنہ ایک‬
‫ڈیٹابیس سے کیا گیا۔‬
‫تحقیقات | ‪146‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ سب سے عام ذہنی اور نفسیاتی عالمات میں سونگھنے کی حس‬
‫سے محرومی (‪ 43‬فیصد)‪ ،‬کمزوری (‪ 40‬فیصد)‪ ،‬تھکاوٹ (‪ 38‬فیصد)‪ ،‬چکھنے کی حس‬
‫سے محرومی (‪ 37‬فیصد)‪ ،‬مسلز کی تکلیف (‪ 25‬فیصد)‪ ،‬ڈپریشن (‪ 23‬فیصد)‪ ،‬سردرد (‬
‫‪ 21‬فیصد) اور ذہنی بے چینی (‪ 16‬فیصد) قابل ذکر تھیں۔‬
‫انہوں نے اہم دماغی امراض جیسے فالج (‪ 1.9‬کیسز میں) اور برین ہیمرج (‪ 0.4‬فیصد) کو‬
‫بھی دریافت کیا۔‬
‫اس ڈیٹا میں کووڈ ‪ 19‬سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کی اکثریت تھی اور مجموعی‬
‫طور پر ہسپتال میں زیر عالج رہنے والے مریضوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی لیکن کچھ‬
‫تحقیقی رپورٹس میں ہسپتال سے باہر موجود یعنی معمولی حد تک بیمار یا بغیر عالمات‬
‫والے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کے عالمات والے ایسے کیسز جن میں مریضوں کو ہسپتال‬
‫میں داخل نہیں کیا گیا ان میں بھی ذہنی اور نفسیاتی عالمات عام تھیں۔‬
‫ایسے ‪ 55‬فیصد مریضوں نے تھکاوٹ‪ 52 ،‬فیصد نے سونگھنے کی حس سے محرومی‪،‬‬
‫‪ 47‬فیصد نے مسلز کی تکلیف‪ 45 ،‬فیصد نے چکھنے کی حس سے محرومی اور ‪44‬‬
‫فیصد نے سردرد کو رپورٹ کیا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ معمولی حد تک بیمار افراد میں بھی ان عالمات کی‬
‫شرح سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں جتنی ہی ہو‪ ،‬مگر چونکہ ان کو طبی مراکز‬
‫میں رپورٹ نہیں کرنا پڑتا تو درست شرح سامنے نہیں آپاتی‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168797/‬‬

‫بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات ‪ 12‬ہفتوں سے پہلے ختم‬


‫ہوجاتی ہیں‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪19 2021‬‬
‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫بچوں میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات زیادہ طویل عرصے تک برقرار نہیں رہتیں۔‬
‫یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫مردوخ چلڈرنز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں‬
‫میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کا تسلسل ‪ 12‬ہفتوں بعد برقرار نہیں رہتا اور چند ایک‬

‫تحقیقات | ‪147‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میں ہی یہ دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچوں میں النگ کووڈ کے‬
‫حوالے سے اب تک ہونے واال تحقیقی کام محدود ہے۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ پہلے سے کسی بیماری جیسے موٹاپے‪ ،‬گردوں کے امراض‪ ،‬دل کی‬
‫شریانوں سے جڑے امراض اور مدافعتی عارضے کے شکار بچوں میں کووڈ کی سنگین‬
‫شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق بچوں میں اکثر کووڈ ‪ 19‬کی شدت معمولی ہوتی ہے یا عالمات ہی ظاہر‬
‫نہیں ہوتیں‪ ،‬جس کے باعث ہسپتال میں داخلے کی شرح بھی بہت کم ہے‪ ،‬تو النگ کووڈ‬
‫کے خطرات اور اثرات کے بارے میں زیادہ سمجھا نہیں جاسکا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ابھی تک ہونے والی تحقیق میں عمر بچوں میں النگ کووڈ کیسز کی‬
‫واضح تعریف نہیں ہوئی اور نہ ہی عمر سے متعلق ڈیٹا موجود ہے‪ ،‬بلکہ بچے یا والدین‬
‫کی جانب سے رپورٹ عالمات پر انحصار کیا جاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ النگ کووڈ عالمات کو دیگر امراض سے الگ امتیاز کرنا مشکل‬
‫ہوتا ہے اور اس لیے بھی اس حوالے سے زیادہ تفصیالت جمع نہیں ہوسکیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 19‬ہزار سے زیادہ بچوں پر ہونے والی ‪ 14‬بین االقوامی تحقیقی رپورٹس کا‬
‫تجزیہ کیا گیا تھا جن کی جانب سے کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔‬
‫ان کی جانب سے بیماری کے ‪ 4‬سے ‪ 12‬ہفتوں کے دوران جو عالمات سب سے زیادہ‬
‫رپورٹ کی گئیں ان میں سردرد‪ ،‬تھکاوٹ‪ ،‬نیند متاثر ہونا‪ ،‬توجہ مرکوز کرنے میں‬
‫مشکالت اور پیٹ درد وغیرہ نمایاں تھے۔‬

‫تحقیقات | ‪148‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں کہ بچوں میں النگ کووڈ کا‬
‫دورانیہ ‪ 12‬ہفتوں سے زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬یعنی یہ مسئلہ بچوں کے لیے زیادہ پریشان کن نہیں۔‬
‫مگر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں‬
‫کی ویکسینیشن کے لیے پالیسی فیصلے کیے جاسکیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پیڈیا ٹرک افیکشیز ڈیزیز جرنل میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168819/‬‬

‫چہرے پر جھٹ پٹ نکھار کیلئے کچن کا ُرخ کیجئے‬

‫ستمبر ‪16 2021 ،‬‬

‫اچانک تقریب کا‪  ‬بالوا ٓاجائے یا کسی دعوت پر جاناپڑ جائے تو ایسے میں ہر خاتون جھٹ‬
‫پٹ کسی ایسے فیشل سے متعلق سوچتی ہے جس کے نتیجے میں جلد نکھر بھی جائے اور‬
‫قدرتی چمک بھی ٓاجائے‪ ،‬ایسی صورتحال میں پریشان ہونے کے بجائے ایک چکر کچن کا‬
‫لگا لیں۔‬
‫کچن میں موجود روزانہ کی بنیاد پر استعمال کی جانے والی کچھ اشیاء ‪ ‬میں ایسے اجزا‬
‫پائے جاتے ہیں جن کی افادیت اور استعمال سے خواتین تا حال ناواقف ہیں۔‬
‫اچانک کہیں جانا پڑ جائے تو ہنگامی حاالت میں گھر ہی میں ایمرجنسی ماسک اور فیشل‬
‫تیار کیا جا سکتا ہے جس کے نتائج دیکھ کر ٓاپ خود حیران رہ جائیں گی اور اس فیشل کو‬
‫معمول کا حصہ بنا لیں گی۔‬

‫تحقیقات | ‪149‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کچن میں دستیاب اشیاء سے جھٹ پٹ فیشل کیسے کیا جائے ؟‬
‫جھٹ پٹ فیشل کے لیے سب سے پہلے اپنے چہرے پر کسی ٓائلی کریم سے مساج کریں‪،‬‬
‫انگلیوں‪ ‬کے پوروں پر ہلکا سا دبأو ڈالتے ہوئے مساج کریں۔‬
‫سے ‪ 20‬منٹ بعد چہرہ صاف کر لیں اور اب کسی کھلے منہ والے برتن میں کھولتا ہوا ‪15‬‬
‫پانی لے لیں‪ ،‬ایک تولیے کی مدد سے خود کو ڈھانپتے ہوئے بھاپ لیں۔‬
‫بھاپ والے برتن اور چہرے کے درمیان فاصلہ کم از کم ایک فٹ رکھیں۔‬
‫چہرے پر خوب اچھی طرح پسینہ ٓانے کے بعد ٹشو سے چہرہ خوب اچھی طرح صاف کر‬
‫لیں اور اب چہرے پر عرق گالب کا اسپرے کر لیں۔‬
‫چہرے کے لیے ماسک کی تیاری‬
‫چہرے پر ’انسٹینٹ گلو‘ یعنی چمک کے لیے حسب ضرورت بیسن میں دودھ‪ ،‬لیموں کا‬
‫رس‪ ،‬شہد اور سب سے ضروری جُز ٹماٹر کا خوب پسا ہوا گودا شامل کر لیں۔‬
‫اب اس ماسک کو یکجان مال کر چہرے‪ ،‬گردن اور بازؤوں پر لگا لیں‪ ،‬جب ٓادھا سوکھ‬
‫جائے تو اب کھیرے کے باریک قتلون‪ ‬کو دودھ میں بگھو کر ٓانکھوں پر رکھ لیں۔‬
‫منٹ بعد انگلیوں کے پوروں کی مدد سے گوالئی میں چہرے پر مساج کرتے ہوئے ‪15‬‬
‫ماسک دھو لیں۔‬
‫اب اس کے بعد باالئی سے ‪ 5‬منٹ تک ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں پر مساج کریں اور‬
‫ٹشو سے صاف کر لیں‪ ،‬اب کسی اچھے سے فیس واش سے چہرہ دھو لیں اور عرق گالب‬
‫کا اسپرے کر لیں۔‬
‫اس عمل سے ٓانکھوں کے نیچے سیاہ دھبے دور ہو جائیں گے اور چہرہ مزید شفاف اور‬
‫نکھرا نظر ٓائے گا۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/985297‬‬

‫بھیگے ہوئے بادام اور اخروٹ سے دن کی شروعات کرنا کیسا ہے؟‬


‫ستمبر ‪17 2021 ،‬‬

‫آپ کی صبح کی غذا آپ کے مزاج اور مجموعی صحت کو کئی طریقوں سے متاثر کرتی‬
‫ہے اور ماہرین کی جانب سے اکثر مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنی صبح کی غذا پر خصوصی‬
‫توجہ دی جائے کیونکہ صبح کی خوراک کا اثر ٓاپ کی مجموعی صحت پر ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کہتے ہیں کہ اپنی غذا میں گری دار میوے شامل کرنا کئی ضروری غذائی اجزاء‬
‫کی مقدار کو یقینی بنانے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئے بادام سے‬
‫‪ ‬کرنا ایک پُرانی رسم ہے جس پر بہت سے لوگ عمل کرتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے ماہرین نے کہا ہے کہ اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئی گری دار میوے خاص‬
‫طور پر بادام اور اخروٹ سے کرنے کا مشورہ دیا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪150‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪:‬اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئے اخروٹ اور بادام سے کریں‬

‫اپنے دن کا آغاز بھیگے ہوئے بادام اور اخروٹ سے کرنا انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ یہ‬
‫صحت مند عادت ہارمون کی صحت کو بڑھانے میں مدد دے گی۔ یہ آپ کی ورزش کے‬
‫لیے توانائی بھی فراہم کرے گی اور ان تمام فوائد کو حاصل کرنے کے لیے روزانہ رات‬
‫میں تقریبا َ ‪ 8‬گھنٹے تک پانی میں بادام اور اخروٹ بھیگو دیں۔‬
‫‪:‬بھیگے ہوئے بادام کے فوائد‬

‫بادام پروٹین‪ ،‬وٹامن ای اور میگنیشیم سے بھرپور ہوتے ہیں۔‪  ‬ماہرین کہتے ہیں کہ بادام‬
‫کھانے سے آپ کی یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور کولیسٹرول کی‬
‫سطح کم ہوتی ہے۔‬
‫‪:‬بھیگے ہوئے اخروٹ کے فوائد‬

‫اخروٹ ومیگا ‪ 3‬فیٹی ایسڈ کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ وٹامن ای‪ ،‬فولک ایسڈ‪ ،‬پروٹین اور فائبر‬
‫بھی پیش کر سکتا ہے۔ اخروٹ عام طور پر برین فوڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‬
‫کیونکہ یہ دماغ کے کام کو بہتر بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اخروٹ کیلشیم‪،‬‬
‫پوٹاشیم‪ ،‬آئرن‪ ،‬تانبا اور زنک کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اخروٹ کو‬
‫بھیگونے سے میٹابولزم بڑھتا ہے‪ ،‬بلڈ شوگر لیول کنٹرول ہوتا ہے اور وزن کم کرنے میں‬
‫مزید مدد ملتی ہے۔‬
‫‪:‬مجموعی صحت کو بہتر بنانے کے دیگر طریقے‬
‫‪:‬ورزش‬

‫تحقیقات | ‪151‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ورزش آپ کے معمول کا الزمی حصہ ہونا چاہیے۔ جسمانی طور پر متحرک رہنے سے نہ‬
‫صرف ٓاپ کا جسم توانا رہے گا بلکہ ٓاپ کا جسم بہت سی بیماریوں سے بھی دور رہے گا۔‬
‫‪:‬یوگا‬

‫تناؤ ان دنوں روزمرہ کے معمول کا حصہ ہے۔ یہ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کو‬
‫متاثر کر سکتا ہے۔ لہٰ ذا ‪ ،‬روزانہ کی بنیاد پر یوگا جیسی کچھ تناؤ کو سنبھالنے کی‬
‫سرگرمیوں کو آزمائیں۔‬
‫‪:‬صبح کے وقت کافی پینا چھوڑدیں‬
‫دن کا آغاز چائے یا کافی سے کرنا ایک عام سی بات ہے‪  ‬لیکن یہ پانی کی کمی کا باعث‬
‫بن سکتا ہے۔ ل ٰہذا‪ ،‬صبح چائے یا کافی پینے کا بہترین وقت نہیں ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/985793‬‬

‫شریفے کے کرشماتی فوائد‬


‫ستمبر ‪18 2021 ،‬‬

‫شریفہ گرم ٓاب و ہوا کا پھل ہے۔ اسے ہندی زبان میں ’سیتا‘ جبکہ انگریزی زبان‬
‫میں’شوگر ایپل یا کسٹرڈ ایپل‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اسے کھانا دشوار ہے لیکن اس چھوٹے‬
‫سے پھل میں قدرت نے بے شمار فوائد چُھپا رکھے ہیں کہ یہ پھل اپنے اندر صحت کا‬
‫خزانہ سموئے ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪152‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شریفے میں مناسب مقدار میں اینٹی ٓاکسیڈنٹس‪ ،‬وٹامن سی‪ ،‬بی‪ ،6‬کیلشیم‪ ،‬میگنیشم اور ٓائرن‪ ‬‬
‫وغیرہ پائے جاتے ہیں۔‬
‫‪:‬شریفے کے صحت سے متعلق چند فوائد‬

‫ب صحت بہتر کرتا ہے‬ ‫‪:‬قل ِ‬


‫شریفہ ان چند پھلوں میں سے ایک ہے جس میں پوٹاشیم اور سوڈیم کا ایک متوازن تناسب‬
‫ہوتا ہے جو جسم میں بلڈ پریشر کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔‬
‫شریفے میں میگنیشیم کا زیادہ مواد ہموار دل کے پٹھوں کو آرام دیتا ہے جس کی وجہ سے‬
‫فالج اور دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس پھل میں موجود فائبرز‬
‫خراب کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد دیتے ہے جبکہ جسم میں اچھے کولیسٹرول کو‬
‫‪ ‬بڑھاتے ہیں۔‬
‫‪ٓ:‬انکھوں کی بینائی کیلئے مفید‬
‫شریفہ وٹامن سی اور ربوفالوین کا ایک بھرپور ذریعہ ہے‪ ،‬یہ دو انتہائی ضروری غذائی‬
‫اجزاء ہیں جو آنکھوں کو صحت مند رکھنے کے لیے اہم ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ‪،‬‬
‫کمزور بینائی ایک عام مسئلہ ہے۔ اس دور میں جہاں ہم اپنے فون‪ ،‬ٹی وی‪ ،‬ٹیبلٹ اور لیپ‬
‫ٹاپ کی اسکرینوں سے چپکے ہوئے ہیں تو وہیں ہمارے لیے اپنی آنکھوں کی اچھی دیکھ‬
‫بھال کرنا ضروری ہے۔ شریفے میں موجود ضروری غذائی اجزاء آپ کی آنکھوں کو‬
‫خشک ہونے سے روکتے ہیں تاکہ انہیں مناسب طریقے سے کام کرسکیں۔‬

‫تحقیقات | ‪153‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪:‬کینسر کا خطرہ کم کرتا ہے‬
‫شریفہ فلیوونائڈز سے بھرپور ہوتا ہے جو کئی قسم کے ٹیومر اور کینسر کے عالج میں‬
‫مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس پھل میں الکالئڈز اور ایسیٹوجنن جیسے عناصر بھی ہوتے ہیں‬
‫جو کینسر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ شریفے کی اینٹی آکسیڈنٹ‬
‫خصوصیات صحت مند خلیوں کو متاثر کیے بغیر کینسر پیدا کرنے والے خلیوں کے خالف‬
‫کام کرتی ہیں۔ بلٹاسین اور اسیمیکن دو اینٹی آکسیڈینٹ مرکبات ہیں جن میں اینٹی ہیلمینتھ‬
‫اور اینٹی کینسر خصوصیات ہیں۔ وہ آزاد ریڈیکلز کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں مدد‬
‫کرتے ہیں اور اس طرح ہم کینسر سے بچتے ہیں۔‬
‫‪:‬اینٹی سوزش کی خصوصیات‬
‫شریفہ ان لوگوں کے لیے انتہائی اہم پھل ہے جو سوزش کی بیماریوں میں مبتال ہیں۔ اس‬
‫پھل میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس درد کو روکنے میں مدد کرسکتے ہیں‪ ،‬نہ صرف پھل بلکہ‬
‫اس کے پتے بھی اینٹی سوزش خصوصیات سے ماال مال ہیں۔‬
‫‪:‬وٹامن بی ‪ 6‬کا ذریعہ‬
‫اس میں وٹامن بی ‪ 6‬پایا جاتا ہے جس کی کمی چڑچڑے پَن کا بھی باعث بنتی ہے‪ ،‬ل ٰہذا اس‬
‫پھل کا استعمال ڈیپریشن اور تنأو ُدور کرتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/986308‬‬

‫سونے سے پہلے لیموں ادرک کی چائے پینے کے فوائد‬


‫ستمبر ‪18 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪154‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر آپ کی عمر ‪ 30‬سال تک ہے اور ٓاپ کو نیند ٓانے یا سونے میں دشواری کا سامنا کرنا‬
‫پڑتا ہے تو ٓاپ کو لیموں ادرک چائے کا استعمال ٓاج سے ہی شروع کردینا چاہیے۔‬
‫ہربل ٹانک لیموں ادرک کی چائے آرام دہ اور پرسکون نیند ‪ ،‬اور‪  ‬دن بھر کی تمام تر‬
‫تھکاوٹ دور کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔‬

‫ماہرین غذائیت کے مطابق بے شمار طبی فوائد کی حامل ادرک میں موجود جز ’جینجرول‘‬
‫کے باعث اس میں قدرتی طور پر بیماریوں سے لڑنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‬
‫ادرک کے‪  ‬استعمال سے شوگر‪ ،‬دل کی بیماریاں ‪ ،‬پٹھوں کا درد ‪ ،‬پھیپھڑوں کے مسائل‪،‬‬
‫سوجن میں ٓارام‪ ،‬دائمی بد ہضمی‪ ،‬کینسر سے بچأو‪ ،‬ذہنی دبأو سے نجات سمیت موسمی‬
‫بیماریوں سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫لیموں ادرک کی چائے وزن گھٹانے میں بہت مفید ہے‪ 2012،‬ء میں کی جانے والی ایک‬
‫تحقیق کے مطابق یہ چائے پینے سے بھوک میں کمی ہوتی ہے اور بلڈ شوگر لیول بھی‬
‫متوازن رہتا ہے۔‬
‫قدرتی طور پر طبی جز رکھنے والی ادرک کی چائے حاملہ خواتین کو متلی اور مارننگ‬
‫سکنس سے بچا سکتی ہے‪ ،‬سستی کا حاوی رہنا ‪ ،‬پٹھوں میں درد‪ ،‬سوجن اور تھکاوٹ کا‬
‫بہترین عالج ہے‪ ،‬لیموں ادرک کی چائے مضر اثر سے پاک بھی ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/986312‬‬

‫ناشتے میں انڈے کھانے کے حیرت انگیز فوائد‬

‫تحقیقات | ‪155‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ستمبر ‪19 2021 ،‬‬

‫انڈے قدیم زمانے سے غذا کا بنیادی حصہ رہے ہیں اور ہمارے کھانوں میں ان کی مسلسل‬
‫موجودگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ہمیں صحت سے متعلق کئی فوائد فراہم کرتے ہیں‪،‬‬
‫اُبلے ہوئے انڈے اور آملیٹ پروٹین‪ ،‬کیلشیم‪ ،‬کئی وٹامنز اور غذائی اجزاء کا ذریعہ بھی‬
‫ہیں۔‬
‫ماہرین کہتے ہیں کہ انڈے پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہیں‪ ،‬انڈوں میں دل کی صحت مند‬
‫غیر محفوظ شدہ چربی بھی ہوتی ہے اور یہ اہم غذائی اجزاء‪ ،‬جیسے وٹامن بی ‪ ،6‬بی ‪12‬‬
‫اور وٹامن ڈی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں‪ ،‬ناشتے میں انڈوں کو اپنی خوراک میں شامل‬
‫کرنے کے کچھ فوائد یہ ہیں۔‬
‫‪:‬ناشتے میں انڈے کھانے کے فوائد‬

‫‪:‬انڈے اچھے کولیسٹرول کو بڑھاتے ہیں‬


‫انڈے کھانے سے ہائی ڈینسٹی لیپوپروٹین (ایچ ڈی ایل) کی سطح بلند ہوتی ہے جسے‬
‫’اچھا‘ کولیسٹرول بھی کہا جاتا ہے۔ جو لوگ ایچ ڈی ایل کی سطح زیادہ رکھتے ہیں ان میں‬
‫دل کی بیماری‪ ،‬فالج اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے‬
‫مطابق‪ ،‬چھ ہفتوں تک ایک دن میں دو انڈے کھانے سے ایچ ڈی ایل کی سطح میں ‪10‬‬
‫فیصد اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫‪:‬انڈے آپ کی بینائی کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں‬

‫تحقیقات | ‪156‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جیسے جیسے ہماری ُعمر بڑھتی جاتی ہے تو ہمیں اپنی آنکھوں کا بہتر خیال رکھنے کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے۔ انڈے کی زردی میں لوٹین اور زیکسینتھین کی بڑی مقدار ہوتی ہے‪،‬‬
‫جو مددگار اینٹی آکسیڈینٹس ہیں جو آنکھوں میں موتیا‪  ‬کے خطرے کو کم کرنے میں مدد‬
‫کرتے ہیں۔ انڈوں میں وٹامن اے بھی زیادہ ہوتا ہے جو آنکھوں کی صحت کے لیے فائدہ‬
‫مند ہے۔‬
‫‪:‬انڈے دماغ کی نشوونما اور یادداشت میں مدد کرتے ہیں‬
‫کولین‪ ،‬انڈوں میں پایا جانے واال ایک ضروری غذائی جزو ہے جو دماغ کی نشوونما اور‬
‫افعال کو متحرک کرتا ہے۔ یہ یادداشت برقرار رکھتا اور ہماری دماغی صحت بہتر کرتا‬
‫ہے۔‬
‫‪:‬وزن میں کمی‬
‫انڈا ایک طاقتور غذا ہے جو پروٹین اور چربی دونوں کا شاندار مجموعہ ہے۔ جب روزانہ‬
‫استعمال کیا جاتا ہے تو‪ ،‬یہ نہ صرف آپ کو طویل عرصے تک بھرا رکھتا ہے بلکہ یہ آپ‬
‫کے وزن میں کمی کے سفر میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/986683‬‬

‫معمر افراد کو ویکسین کی تیسری خوراک کی ضرورت پڑے گی‪،‬‬


‫امریکی ماہر صحت‬

‫ستمبر ‪19 2021 ،‬‬


‫‪l Dialog‬‬
‫امریکی ماہر ویکسینالوجی کا کہنا ہے کہ ‪ 60‬سال سے زائد عمر والوں کو کورونا ویکسین‬
‫کی تیسری خوراک دینی چاہیے۔‪ ‬امریکا کی پولٹزر انعام یافتہ سائنس رائٹر لوری گیرٹ نے‬
‫کہا ہے کہ دنیا بھر میں جلد کورونا ویکسین کی تیسری خوراک کی ضرورت پڑے گی۔‬
‫فارن پالیسی میگزین میں اپنے مضمون میں لوری گیرٹ نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس‬
‫سال کے شروع میں کہا تھا کہ کورونا کے خالف جنگ جیتنے میں ہمیں ‪ 36‬ماہ یعنی تین‬
‫سال لگیں گے‪ ،‬ابھی ہم ‪19‬ویں مہینے میں ہیں۔‬

‫انہوں نے ویکسینالوجی کے ماہر اسٹینلے لوٹکن سے بات کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ‬


‫ادویات کی انتظام کاری سے متعلق امریکی ادارے ایف ڈی اے کو فائزر کی یہ درخواست‬
‫مان لینی چاہیے کہ پہلے ‪ 60‬سال سے زیادہ عمر کے افراد کو اور بعد میں دیگر افراد کو‬
‫ویکسین کی تیسری خوراک دی جائے‬

‫‪https://jang.com.pk/news/986838‬‬

‫تحقیقات | ‪157‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫انار کو جنت کا پھل کہا جاتا ہے‪ ،‬اس کے چھلکوں کو ضائع کرنے کے‬
‫بجائے اس کی چائے بنائیں اور ‪ 6‬بڑی بیماریوں سے نجات میں مدد‬
‫پائیں‬

‫‪19/09/2021‬‬

‫‪     ‬‬

‫انار کا شمار ان پھلوں میں ہوتا ہے جن کا ذائقہ ہر عمر کے فرد کو پسند ہوتا ہے اور جس‬
‫کے فوائد اس کی غذائیت کے سبب بے تحاشا ہوتے ہیں‪ -‬مگر انار کے استعمال کے دوران‬
‫العلمی کے سبب لوگ اس کے دانے تو کھا لیتے ہیں مگر اس کے چھلکوں کو کچرہ‬
‫سمجھ کر پھینک دیتے ہیں جب کہ حقیقت میں انار کے چھلکے بے تحاشا غذائیت کے‬
‫حامل ہوتے ہیں‪ -‬‬
‫انار کے چھلکوں کی چائے‬
‫انار کے چھلکوں کو استعمال میں النے کے لیے ان چھلکوں کو اچھی طرح دھوپ میں‬
‫سکھا لیں اس کے بعد ان کو گرائيںڈر میں اس طرح پیس لیں کہ وہ پأوڈر کی شکل اختیار‬
‫کر لےاس پاوڈر کو کسی بھی کافی والی بوتل میں ڈال کر محفوظ کر لیں‪-‬ایک کپ پانی‬
‫ممیں ٓادھا چمچ پسے ہوئے انار کے چھلکے شامل کر لیں اور اس کو چائے کی طرح‬
‫تحقیقات | ‪158‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چولہے پر پکائيں اس کے بعد اس میں حسب ذائقہ لیموں کا رس اور شہد کو شامل کر دیں‬
‫اور اس کو ٹھنڈا یا گرم دونوں صورتوں میں پیا جا سکتا ہے‪ -‬انار کے چھلکوں کی چائے‬
‫کے فوائد بار بار پیشاب ٓانے کے لیے اکثر لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کو بار بار‬
‫پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے اس تکلیف کے لیے دن میں ایک بار انار کے چھلکوں‬
‫کو دن میں ایک بار کسی بھی وقت استعمال کریں اور کچھ ہی دنوں میں فائدہ دیکھیں‪ -‬پیٹ‬
‫کے درد کے لیے اگر کسی وجہ سے پیٹ میں درد ہو رہا ہو اور بدہضمی کی تکلیف کا‬
‫بھی سامنا ہو تو اس صورت میں انار کی چائے ایک اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے اور اس‬
‫چائے کو ٹھنڈا کر کے دو دو گھونٹ کر کے پالئيں کچھ ہی دیر میں پیٹ کے درد سے افاقہ‬
‫ہو جائے گا‪ -‬سانس کی بدبو کے لیے اکثر لوگوں میں معدے کے مسائل کے سبب یا‬
‫مسوڑھوں کی خرابی کی وجہ سے منہ سے بدبو ٓانے کی شکایت ہوتی ہے‬
‫جو سخت شرمندگی کا سبب ہوتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے انار کے چھلکوں کی‬
‫چائے بہت بہترین ہوتی ہے اس چائے سے کلیاں کرنے سے مسوڑھے ٹھیک ہوتے ہیں‬
‫دانت کے درد سے نجات ملتی ہے جب کہ اس کے کچھ گھونٹ پی لینے سے معدے کی‬
‫تکالیف میں ٓارام ملتا ہے اور ہاضمہ بہتر ہوتا ہے‪ -‬بواسیر کے لیے بواسیر چاہے خونی ہو‬
‫یا بادی دونوں کے عالج کے لیے انار کے چھلکے اکسیر کا اثر رکھتے ہیں دن میں دو بار‬
‫انار کے چھلکوں کی چائے کے استعمال سے ہر طرح کی بواسیر کی تکالیف کا خاتمہ ہوتا‬
‫ہے‪-‬‬
‫ٹانسلز اور گلے کی خراش کے لیے اکثر بچوں میں بار بار گلے خراب ہونے کی وجہ‬
‫ٹانسلز قرار دی جاتی ہے جس کے عالج کا واحد حل ان کا ٓاپریشن ہوتا ہے مگر دن میں دو‬
‫بار انار کے چھلکوں کی نیم گرم چائے سے غرارے کر کے ٹانسلز کے ٓاپریشن کے‬
‫خطرے سے بچا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ہمیشہ کے لیے جان بھی چھڑائی جا سکتی‬
‫ہے‪-‬‬
‫وزن کم کرنے کے لیے اگر کسی کا کولیسٹرول بہت بڑھا ہوا ہو اور وہ وزن کم کرنے کا‬
‫بھی خواہشمند ہو تو اس صورت مں اس کو چاہیے کہ وہ انار کی چائے بناتے ہوئے اس‬
‫میں ایک ٹکڑا ادرک کا بھی شامل کر لیں اور دن میں دو بار اس کا استعمال کریں کچھ ہی‬
‫دنوں میں وزن میں قدرتی طور پر کمی ٓانی شروع ہو جائے گی اور چربی پگھلنے لگے‬
‫گی‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-123664.html‬‬

‫تحقیقات | ‪159‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۳ | ۱۴۲‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۹‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like