Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 18) - 03 May 21-09 May 2021 - Issue 123 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 18) - 03 May 21-09 May 2021 - Issue 123 - Vol 5
Mujahid Ali
+ 92 0333 4576072
meritehreer786@gmail.com
www.alqalam786.blogspot.com
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تفصیل
صحت مند زندگی کیلئے خوراک نہیں کیلوریز گھٹائیں
وزن میں کمی اور بہتر صحت کے لیے اکثر افراد ڈائیٹنگ کا سہار ا لیتے ہیں جو کہ
ماہرین کی جانب سے مضر صحت قرار دی جاتی ہے ،صحت مند وزن اور چاق و چوبند
زندگی گزارنے کے لیے اعتدال میں رہتے ہوئے سب غذأوں کا استعمال اور کیلوریز کو کم
کرنا نہایت ضروری اور مفید عمل ہے۔
طبی و غذائی ماہرین کے مطابق وزن کو مطلوبہ سطح پر النے ،دل کی صحت اور
جسمانی اعضا کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ’کریش ڈائٹ‘ کو اپنانے کے بجائے
روزانہ کی بنیاد پر ہر قسم کی غذا کو اعتدال میں رہتے ہوئے اپنے دسترخوان کا حصہ
بنانا چاہیے۔
سادہ اور گھر کے بنے کھانوں میں کیلوریز کم پائی جاتی ہیں اور ان کے استعمال سے
ہائی بلڈ پریشر ،ہائی بلڈ شوگر ،کمر کے اِرد گرد اضافی چربی اور کولیسٹرول کی غیر
قابل ذکر حد تک کمی الئی جا سکتی ہے۔ معمولی سطح میں ِ
دو برس مشتمل ’دی النسیٹ ڈائیبٹیز اینڈ اینڈو کرینالوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق
کے دوران رضاکاروں کو اپنی کیلوریز کی یومیہ کیلوریز میں 12فی صد یعنی 300
کیلوریز کم کرنے کو کہا گیا ،کم کیلوریز لینے کے اس عمل کے دوران ان رضاکاروں
کے موٹاپے میں 16پونڈ تک کمی دیکھنے میں ٓائی۔
تحقیق کے نتائج میں مزید یہ با ت سامنے ٓائی ہے کہ کیلوریز میں کٹوتی انسانی جسم کے
وزن میں کمی ،طویل عمر اور بہتر صحت پر اثرانداز ہوتی ہے جبکہ ورزش صرف
انسانی صحت کے دورانیے پر اثرانداز ہوتی ہے ،ورزش سے زندگی کا دورانیہ نہیں
بڑھتا۔
طبی ماہرین کے مطابق ایک بالغ خاتون روزانہ کی بنیاد پر 1600سے 2400کیلور کا
استعمال کر سکتی ہے جبکہ مرد حضرات کو 2ہزار سے 3ہزار کیلوریز کی ضرورت
ہوتی ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ درکار کیلوریز کا براہ راست تعلق انسانی عمر،
صنف ،وزن اور جسمانی سرگرمیوں کی نوعیت پر ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کیلوریز میں محدود پیمانے پر کمی الکر انسان اپنی جسمانی صحت کو
بہتر اور متعدد بیماریوں کے خطرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن یہ بات نہیں
بھولنی چاہیے کہ ہر شخص کو اس کی عمر ،صنف ،وزن اور جسمانی سرگرمیوں کے
مطابق کیلوریز کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقدار سے کم کیلوریز
لینا اس کی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کرسکتا ہے۔
ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر صحت کے لیے ہمیں اپنی کیلوریز پر نظر رکھنے
کے ساتھ روزمرہ زندگی میں باقاعدگی سے صحت مند غذأوں کا استعمال کرنا چاہیے،
جیسے تازہ سبزیاں ،پھل ،الل اور سفید گوشت ،گری دار میوے ،بیج اور پھلیاں وغیرہ۔
ویب ڈیسک
مئی 4 2021
کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد میں کئی ماہ تک کووڈ 19کی عالمات کو
دیکھا گیا جسے النگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے ،اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی
تحقیق کی ہے۔
حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے
ضروری نہیں کہ معمر مریض ہوں بلکہ 65سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا
خطرہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ ،سانس
لینے میں مشکالت ،سینے میں درد ،کھانسی ،ذہنی تشویش ،ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات
کا سامنا ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
|6 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
مئی 4 2021
کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی ریسرچز جاری ہیں ،ماہرین نے موٹاپے کو کرونا
وائرس کے حوالے سے اہم خطرہ قرار دیا تھا تاہم اب ماہرین نے کہا ہے کہ معمولی سا
زیادہ وزن بھی کرونا وائرس کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی وزن کووڈ 19کے شکار افراد میں
بیماری کی شدت پر اثر انداز ہونے واال عنصر ہے۔
طبی جریدے دی النسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرونولوجی جرنل میں شائع تحقیق میں 20ہزار
سے زیادہ کووڈ 19کے مرریضوں† کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا ،یہ مریض کووڈ 19کی
پہلی لہر کے دوران اسپتال میں زیر عالج رہے یا ہالک ہوگئے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن کے ساتھ ساتھ کم جسمانی وزن بھی کووڈ
19کے مریضوں میں سنگین نتائج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ 20سے 39سال کی عمر کے افراد میں زیادہ جسمانی وزن کے
نتیجے میں کووڈ 19کی سنگین شدت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے تاہم 60سال سے زائد
عمر کے افراد میں کم ہوتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے
کہ جسمانی وزن میں معمولی اضافہ بھی کووڈ 19کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھا
سکتا ہے اور وزن میں جتنا اضافہ ہوگا ،خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ 40سال سے کم عمر افراد میں اضافی وزن سے خطرہ زیادہ بڑھ جاتا
ہے تاہم 80سال کی عمر کے افراد میں اس سے بیماری کے نتائج پر کوئی اثرات مرتب
نہیں ہوتے۔
ویب ڈیسک
مئی 3 2021
امریکی ماہرین نے ایک ماڈل کی پیشگوئی کی بنیاد پر کہا ہے کہ کووڈ ویکسی نیشن
کرونا وائرس کے پھیالؤ کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ
ویکسی نیشن کی شرح کو بڑھانا کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں کمی اور اسے
کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
مئی 3 2021
کرونا وائرس کے پھیلنے کے ایک سال بعد اب اس وائرس میں بھی تبدیلیاں ٓارہی ہیں
جنہوں نے ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے ،حال ہی میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم
کے بارے میں پریشان کن انکشاف ہوا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ برازیل میں
سب سے پہلے نمودار ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں
زیادہ متعدی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پی 1
ماضی میں کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ ٓاور
ہونے کی صالحیت رکھتی ہے۔
برازیل کرونا وائرس کی وبا سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے بالخصوص میناوس نامی شہر پر
سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2020کے وسط میں میناوس کے 75فیصد کے قریب افراد
کرونا کی پہلی لہر سے متاثر ہوئے تھے اور کچھ ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اس شہر
میں بیماری کے خالف اجتماعی مدافعت پیدا ہوگئی ہے۔
مگر سنہ 2020کے اختتام پر اس شہر میں کووڈ کی دوسری لہر سامنے ٓائی جس میں پی
1قسم کا ہاتھ تھا۔
تحقیق میں شامل کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ماہرین کہنا تھا کہ ہمارے ماڈل سے عندیہ ملتا
ہے کہ پی 1کرونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ متعدی ہے اور دیگر اقسام سے ہونے
والی بیماری سے جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ ٓاور ہوسکتی ہے۔
محققین نے پی 1میں 17میوٹیشنز کو دریافت کیا جن میں سے 3اسپائیک پروٹین میں
ہوئی تھیں۔
https://urdu.arynews.tv/coronavirus-brazilian-variant/
ویب ڈیسک
مئی 3 2021
ورجینیا :امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج سے بریسٹ کینسر سمیتy
دیگر کئی اقسام کے کینسر کے عالج سے متعلق ایک نئی امید پیدا ہو گئی ہے۔
تفصیالت کے مطابق ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی کے میسی کینسر سینٹر میں کی
جانے والی اس تحقیق میں چھاتی کے کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کو دریافت کر لیا
گیا ہے۔
اس ریسرچ کی رپورٹ جرنل برائے نیچر پارٹنر جرنلز میں شائع ہوئی ہے ،بریسٹ کینسر
کا سبب بننے واال ہارمون میسی کینسر سینٹر کے محقق چارلس کلیوینجر اور ان کی لیب
نے دریافت کیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کی دریافت سے کئی دیگر
اقسام کے کینسر کا عالج بھی ممکن نظر آنے لگا ہے۔
ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی میں ہونے والی اس حالیہ تحقیق میں اس بات کے مضبوط
شواہد ملے ہیں کہ چھاتی میں کینسر کی افزائش کا سبب بننے واال ایک ہارمون پروکلیٹین
دراصل بریسٹ گروتھ کا سبب بنتا ہے ،اور یہ حمل کے دوران ماں کے دودھ میں اضافے
کی وجہ بھی ہوتا ہے۔
محققین نے اس ہارمون کو بریسٹ کینسر کا اہم سبب قرار دیا ہے ،انھوں نے خوش خبری
سنائی کہ یہ ہارمون ٹارگیٹڈ دوا کی تیاری میں کافی مفید ثابت ہوگا ،اور اس سے کئی قسم
کے کینسر کا عالج کیا جا سکے گا۔
محققین کے مطابق بریسٹ کینسر کا براہ راست سبب بننے والے اس ہارمون کے خلیات
کی سطح پر پروٹین موجود ہوتا ہے ،جسے رسیپٹرز کہتے ہیں۔ یہ ریسپٹرز بائیولوجیکل
پیغامات وصول کرنے اور بھیجنے کے ساتھ خلیے کے افعال کو بھی ریگولیٹ† کرتے ہیں۔
رمضان میں وزن میں کمی اور کولیسٹرول میں اضافہ ،حل کیا ہے؟
جانیں
03/05/2021
اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)رمضان کے دوران اکثر و بیشتر افراد کا روزے رکھنے کے سبب
وزن کم ہوتا ہے مگر اس دوران مرغن غذأوں کے استعمال سے کولیسٹرول میں اضافہ
ہوجاتا ہے جس سے متعلق جاننا اور بر وقت اسے متوازن سطح پر النا نہایت ضروری ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق رمضان مبارک میں کھانے پینے کی ایک روٹین بن جاتی ہے ،دو
کھانوں اور دن کے بڑے حصے کے درمیان ہم کچھ نہیں کھاتے پیتے جس کے نتیجے میں
اضافی کیلوریز کے روٹین میں سے ختم ہوجانے کے سبب
صحت بہتر اور وزن میں کمی ٓاتی ہے ،مگر ہم کچھ غلطیوں کے نتیجے میں رمضان کا
فائدہ اٹھانے اور صحت پہلے سے بہتر بنانے کے بجائےمزید بگاڑ لیتے ہیں۔رمضان کے
دوران ہر گھر میں مرغن غذأوں اور گوشت ،انڈے ،دودھ ،مکھن اورگھی وغیرہ کا استعمال
باقاعدگی سے کیا جاتا ہے ،اس صورت میں روزوں کے سبب وزن تو کم ہو رہا ہوتا ہے
مگر خون میں منفی کولیسٹرول کی سطح بڑھ رہی ہوتی ہے جس پر بر وقت قابو پانا چاہیے
ورنہ صحت سے متعلق بڑے مسائل سے دو چار ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ماہرین
کے مطابق کو لیسٹرول کی زیادتی کے نتیجے میں رمضان کے مہینے میں انسان خود کو
تروتازہ اور بہتر محسوس کرنے کے بجائے بوجھل ،تھکا ہوا ،سُست محسوس کرتا ہے اور
بد ہضمی ،تیزابیت کا شکار بھی نظر ٓا تا ہے ،ایسے میں
کولیسٹرول کی زیادتی کے سبب چہرے پر دانے کیل مہاسے بھی بڑھ جاتے ہیں جو کہ
واضح اشارہ ہے کہ خون میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ چکی ہے جس سے ِجلد از جلد جان
چھڑانا الزمی ہے۔طبی و غذائی ماہرین کی جانب سے 12مہینے سبزیوں اور پھلوں کا
استعمال ہی تجویز کیا جاتا ہے ،مرغن اور تلی ہوئی غذأوں کے استعمال کے نتیجے میں
انسانی صحت دن بہ دن بگڑتی چلی جاتی ہے جسے بہتر بنانے کے لیے ٓاسان اقدامات کیے
جا سکتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق کولیسٹرول کی خون میں زیادتی بڑا مسئلہ نہیں جس
پر قابو نہ پایا جا سکتا ہو ،سادہ غذا کے استعمال اور روزانہ کی بنیاد پر ہلکی پھلکی ورزش
کر کے اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے
۔سبزیوں اور پھلوں میں کولیسٹرول بالکل نہیں پایا جاتا ،سبزیاں کھانے سے انسان خود کو
تروتازہ محسوس کرتا ہے ،کولیسٹرول کی سطح متوازن بنانے کے لیے لہسن بہترین جز
ہے ،رمضان کے دوران لہسن کی پودینے اور ٹماٹر کے ساتھ چٹنی بنا کر استعمال کی جا
سکتی ہے۔دوسری جانب کچی سالدجیسے کے بندگو بھی ،پالک اور گاجر کا استعمال بھی
کولیسٹرول کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ،روزانہ کچی سالد کھانے سے معدہ بھی
ٹھیک رہتا ہے اور بھوک بھی لگتی ہے،کولیسٹرول کی مقدار بھی متوازن رہتی ہے ۔ماہرین
کے مطابق رمضان کے دوران اگر تلی ہوئی غذأوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کوشش
کریں اپنی من پسند غذأوں کو زیتون ،سویا بین ،سورج مکھی ،مونگ پھلی یا سرسوں کے
تیل میں تلیں۔کوشش %کریں کہ سحری اور افطاری گھر میں ہی بنائیں ،باہر کے کھانوں سے
چقندر کا جوس انسانی صحت کیلئے کتنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟
شہریوں کیلئے بڑی خبر ٓاگئی
03/05/2021
اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)چقندر کا شمار جڑوں والی میٹھی سبزیوں میں ہوتا ہے ،تحقیقات
بتاتی ہیں کہ اس کا جوس صحت کے لیے کافی فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس میں جسم کے
لئے ضروری وٹامنز اور معدنیات ہوتے ہیں۔ میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے
مطابق بلڈ پریشر کو کم کرنے میں چقندر کا جوس فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جو لوگ روزانہ چقندر کا جوس پیتے ہیں انہیں بلڈ پریشر کی بیماری کم
ہوتی ہے۔ چقندر کے جوس میں نائٹریٹ
| 15 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہوتا ہے جو خون میں نائٹرک ایسڈ میں تبدیل ہوتا ہے اور خون کی نالیوں میں وسعت اور
سکون کا باعث بنتا ہے۔چقندر کا جوس پالزما نائٹریٹ کی سطح کو بڑھاتا ہے اور جسمانی
کارکردگی کو بڑھاتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے بہترین ہے جو سائیکلنگ کرتے ہیں یا
پیدل سفر کرتے ہیں ،اس سے جسم میں ٓاکسیجن کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔چقندر کا جوس
نائٹریٹ مرکبات پر مشتمل ہوتا ہے ،یہ ہضم ہونےکے بعد نائٹریٹ ٓاکسائڈ میں تبدیل ہوجاتا
ہے ،جو بدلے میں شریانوں کو وسعت اور ٓارام دیتا ہے ،بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے ،اور جسم
میں خون کی گردش کے بہأو کو ٓاسان بناتا ہے۔ایک طبی تحقیق کے مطابق چقندر میں
موجود نائٹریٹ خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے دماغ میں خون کے بہأو میں اضافہ
کرتے ہیں اور ان کےمنفی اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کا ایک کپ دن میں
استعمال ڈیمنشیا اور دماغ اور دیگر عصبی امراض کو سست کرتا ہے۔چقندرکےجوس میں
کم کیلوریز اورکم چربی ہوتی ہے ،لہذا یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے جو
ڈائیٹ کرتے ہیں۔چقندر کے جوس میں انتہائی کم کیلوریز اورکم چربی ہوتی ہے ،لہذا اس کا
جوس ایک بہترین انتخاب ہے جو خاص طور پر دن کے ٓاغاز میں جسم کو توانائی اور
غذائی اجزا مہیا کرتا ہے۔چقندر کا جوس اینٹی ٓاکسڈینٹ سے ماال مال ہوتا ہے،
پانی میں حل ہوجاتا ہے۔ اس میں موجود اجزا میں کچھ کینسر سیلز کے خالف حفاظتی
صالحیت رکھتے ہیں۔چقندر کے جوس میں شامل ایک اہم اینٹی ٓاکسڈینٹ ہوتا ہے جو خاص
نوع میں پایا جاتاہے۔ خاص طور پر اس قسم کے اینٹی ٓاکسڈینٹ جسم کو کچھ قسم کے
کینسرکے خلیوں سے بچاتا ہے۔پوٹاشیم اعصاب اور پٹھوں کو صحیح طریقے سے کام
کرنے میں مدد کرتا ہے ،اور اگر پوٹاشیم کی سطح بہت کم ہو تو تھکاوٹ ،کمزوری اور
پٹھوں میں کھچأوپیدا ہوسکتا ہے۔چقندر کے جوس کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ
پوٹاشیم سے ماال مال ہوتا ہے ،اعتدال میں اسے پینے سے پوٹاشیم کی زیادہ سے زیادہ سطح
برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
چقندر کا جوس خون کو ناپاک اور زہریلے مادوں سے پاک کرتا ہے ،جو جلد صاف اور
اس کی چمک کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔چقندر کے جوس میں وٹامن سی ہوتا ہے ،جو
جلد کو صاف کرنے اور اس کو مہاسوں سے بچانے کے لئے بہت ضروری ہے۔چقندر کے
جوس میں بیتالین ہوتی ہے ،جو جسم میں قدرتی طور پر ہومو سسٹین کو کم کرنے کے لئے
ایک اہم مادہ ہے۔ جسم میں ہومو سسٹین کی گردش کے نظام کے لیےبہت ساری صحت کی
پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔-چقندر کے جوس میں کافی مقدار میں پوٹاشیم عام طور پر فالج
اور دل کی بیماریوں کے امکانات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔سیتی میگزین کے مطابق
کیا ٓاپ جانتے ہیں کہ ٓاپ کے جسم کا ایسا کونسا حصہ ہے جس کے بال
نوچنے سے ٓاپ کی جان بھی جا سکتی ہے؟ جان کر ٓاپ بھی حیران رہ
جائیں گے
02/05/2021
قدرت نے انسان کے جسم کے مختلف حصوں پر بال دیئے ہیں جن کا مقصد جلد کی اور
جسمانی اعضاء کی حفاظت کرنا ہے ،لیکن ہم میں سے کئی لوگ ان سے پریشان ہو کر ان
بالوں کو نوچ دیتے ہیں یا ہٹا دیتے ہیں۔لیکن کیا ٓاپ جانتے ہیں کہ اس قسم کی غلطی کتنی
خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ نہیں! تو چلیں ٓاج ہم ٓاپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارے جسم کا وہ
کون سا حصہ ہے جس کے بال نوچنے سے ہم موت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ہم ناک کے
زریعے سانس لیتے ہیں منہ اور ناک ہمارے جسم کا وہ
ویب ڈیسک
پير 3 مئ2021
پاکستانی اور فِن لینڈ کے ماہرین نے ایک اہم پروبایوٹک کی نئی قسم بنائی ہے جسے
بآاسانی دودھ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے
ہیلسنکی :پاکستانی اور فِن لینڈ کے ماہرین کی ٹیم نے دودھ ،دہی ،خمیری مشروم اور
دیگر غذاؤں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا اور خمیری اجزا ،پروبایوٹک کو جینیاتی
تبدیلی سے گزارے بغیر ایک نئی قسم تیار کی ہے جو اب بہ ٓاسانی دودھ کا حصہ بن کر
بالخصوص بچوں اور دیگر افراد کو بہتر صحت فراہم کرسکتی ہے۔
پروبایوٹک کی ایک مشہور قسم ’لیکٹی کیسی بیکیلس رامنو ِسس جی جی‘ کو مختصراً ایل
جی جی کہا جاتا ہے۔ یہ بہت مفید ہے لیکن دودھ کے کاربوہائیڈریٹس اسے تباہ کردیتے ہیں
اور یوں بچوں کو نہیں دیئے جاسکتے اور انہیں مصنوعی طور پر دودھ میں مالیا جاتا
ہے۔
اگر یہ دودھ کا حصہ بن جائے تو شیرخوار بچوں کے کئی ہاضماتی مسائل حل ہوسکتے
ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل ایل جی جی کو دودھ میں شامل کرنے کے جینیاتی طریقے اپنائے
گئے جن میں کامیابی نہیں مل سکی۔
اب فِن لینڈ کی جامعہ ہیلسنکی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک
انجینیئرنگ (نبجی) کے سائنسدانوں نے کسی جینیاتی تبدیلی کے بغیر ایل جی جی کو دودھ
میں مالنے اور پروان چڑھانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔
اس عمل کو ’کنجیوگیشن‘ کہتے ہیں جس میں ایک بیکٹیریئم† کے خواص دوسرے بیکٹیریا
میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ اس عمل میں پہلے وہ چھلے دار ڈی این اے (پالز ِمڈ) کی نقل
دوسرے بیکٹیریئم میں بنائی جاتی ہے۔ اس طرح ایک خردنامئے کے خواص دوسرے میں
پیدا ہونے لگتے ہیں۔
اس طرح اب ممکن ہوا ہے کہ اسے کسی بھی ڈیری مصنوعات میں شروع سے ہی پیدا کیا
جاسکتا ہے۔ یہاں پیداواری سطح تک ہی ان ایل جی جی کی ٓابادی اچھی خاصی بڑھ جاتی
ہے اور بعد ازاں اسے مصنوعی طور پر شامل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
ٓاواز اور لیزر سے کینسر شناخت کرنے واال دنیا کا پہال امیجنگ نظام
تیار
ویب ڈیسک
منگل 4 مئ2021
نوٹنگھم یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جسم کے اندر کی سہ جہتی تصویر کشی کرنے واال
ایک نیا نظام تیار کیا ہے۔
دیا گیا ہے۔ پہلے فونون اطراف کے ٹشوز میں پھینکے جاتے ہیں۔ ٓاواز اندرونی ٹشوز سے
ٹکرا کر بکھر جاتے ہیں اور یہاں لیزر سامنے ٓاکر ایک سہ جہتی تصویر بناتی ہے۔ اسے
دیکھ کر ماہرین جسم کے اندر کی تبدیلیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
دوسری جانب تصویر میں کسی ابھار کی سختی اور نرمی کا بھی معلوم کیا جاسکتا ہے جو
کینسر کی نشاندہی کرسکتی ہے۔ یہ پورا نظام ایک واحد ٓاپٹیکل فائبر سے جوڑا جاسکتا
ہے اور اسی سے کام لیا جاسکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2174285/9812/
ویب ڈیسک
پير 3 مئ 2021
صبح سے شام تک فاقہ کرنے کے عمومی صحت پر نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عام تاثر کے برعکس ،طبّی اصطالح میں ’’ڈائٹنگ‘‘ کا مطلب کھانا پینا چھوڑ دینا نہیں،
بلکہ صحت سے متعلق کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کےلیے کچھ خاص غذائیں
استعمال کرنا (اور کچھ مخصوص معموالت اختیار کرنا) ہے۔ موٹاپا اور وزن کم کرنا بھی
ڈائٹنگ کے انہی مقاصد میں سے ایک ہے۔
جرمنی میں 71رضاکاروں پر کی گئی تحقیق میں بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی ڈائٹنگ
سے پہلے 14گھنٹے کچھ نہ کھانے کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا۔ )’’‘‘ (DASHڈیش
تین مہینے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں تقریبا ً نصف رضاکاروں کو ’’ڈیش‘‘† سے
پہلے ،پانچ دن تک صبح کا ناشتہ اور اس کے بعد رات کا کھانا ہی دیا گیا جبکہ اس دوران
انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔
باقی کے تقریبا ً نصف رضاکاروں کو ’’پنج روزہ )البتہ انہیں پانی پینے کی اجازت تھی۔(
فاقہ کشی‘‘ کے بغیر ہی ’’ڈیش ڈائٹنگ‘‘ شروع کروا دی گئی۔
https://www.express.pk/story/2174113/9812/
افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی پینا آنتوں اور پیٹ میں خون کی فراہمی کو
محدود کرتا ہے :طبی ماہرین
الہور( :ویب ڈیسک) طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی پینا آنتوں اور
پیٹ میں خون کی فراہمی کو محدود کرتا ہے اور پیٹ میں درد اور عمل انہضام میں
دشواری پیدا کرتا ہے۔
تفصیالت کے مطابق رمضان میں کئی افراد ہاضمے کی دشواری ،بڑی آنت اور پیٹ میں
درد ،جلن اور متلی جیسی تکالیف میں مبتال ہوسکتے ہیں۔ ایسا سحری و افطاری میں
کھانے میں بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ افطار کے بعد مٹھائیاں کھانے سے جسم
میں چربی کی مقدار دو گنا ہو جاتی ہے۔
غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہفتے میں زیادہ سے زیادہ ایک
سے دو بار مٹھائیاں کھانا بہتر ہے۔ طبی ماہرین اس حوالے سے خاص احتیاط کرنے کی
تلقین کرتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سحری کے کھانے کے دوران زیادہ پانی پینا گردوں کو دو گنا
کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پیشاب کو بڑھاتا ہے اور دن میں پیاس کو بھی بڑھاتا ہے۔ یہ
تلقین بھی کی جاتی ہے کہ پانی آہستہ آہستہ اور تھوڑی مقدار میں پینا چاہیے۔
اسی طرح تازہ سالد وہ چیز ہے جو بے شمار فوائد رکھتا ہے اور وٹامنز اور معدنیات سے
ماال مال ہوتا ہے ،زیادہ تر لوگ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے چٹ پٹی چیزیں کھاتے ہیں۔
افطار کے فوراً بعد چائے اور کافی پینا خوراک سے کیلشیم اور آئرن جذب کرنے میں
رکاوٹ بنتا ہے۔ کھانے کے کم از کم دو گھنٹے تک ان کو ملتوی کرنا بہتر ہے۔ چربی اور
نشاستے سے بھرپور غیرصحت مند کھانے کی ضرورت سے زیادہ مقدار لینا وزن میں
اضافے کا سبب بنتا ہے۔
| 25 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہرین یہ کے مطابق طویل روزے کے بعد جسم کو کھانا کھانے کے لیے تیار کرنا چاہیے
اس کے بعد شام کا کھانا کھائیں۔ پہلے کچھ کھجوریں کھائیں اور پھر سُوپ یا ہلکی غذا لیں۔
افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی پینا آنتوں اور پیٹ میں خون کی فراہمی کو محدود کرتا ہے اور
پیٹ میں درد اور عمل انہضام میں دشواری پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ رمضان میں پھلوں کو نظرانداز کرتے
ہوئے میٹھی چیزیں کھاتے ہیں یا پھر زیادہ مصالحے ،مرچ اور نمک والی اشیا اور اچار
وغیرہ کھاتے ہیں حاالنکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو پیاس کے احساس کو دگنا کرتی ہیں ،اور
جسم کو تیزی سے خشکی کی طرف لے جانے کا باعث بنتی ہیں۔
اسی طرح یاد رکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ افطاری کے بعد سونے سے پرہیز کیا
جائے کیونکہ افطاری کے بعد سونے سے جسم زیادہ وزن بڑھاتا ہے اور نقل وحرکت کی
کمی وجہ سے جسم پر منفی اثرات پڑتے ہیں
https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/600173
ثنا آصف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،اسالم آباد
3مئ 2021
’ماہواری پر بات کرنا تو فیشن بنتا جا رہا ہے۔۔۔ ماہواری تو صرف ٹوائلٹ استعمال کرنے
جیسا ایک قدرتی عمل ہے۔‘
آپ میں سے اکثر قارئین یقینا ً ایسی سوچ نہیں رکھتے ہوں گے لیکن پاکستان جیسے قدامت
پسند معاشرے میں ،جہاں ماہواری پر بات کرنا ابھی تک انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے،
کچھ لوگ آج بھی اس سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔
یہ بات پاکستانی سوشل میڈیا صارفین پر اس وقت کھلی جب ماہواری کے بارے میں کھلے
عام بات کرنے کی مخالفت کرنے والے آغا حسن نامی ایک ٹوئٹر صارف نے جب سماجی
رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنی رائے کا ’کھلے عام‘ اظہار کیا۔
لیکن خواتین تو ایک طرف ،چند مردوں نے بھی اس بارے میں ان کے علم میں اضافہ
کرنے کی کوشش تو کی لیکن موصوف اس ضد پر ڈٹے رہے کہ اس بارے میں پردہ پوشی
ضروری ہے۔
اپنی ٹویٹ میں پیشگی معذرت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا’ :آخر خواتین کے لیے کھلے
عام سائیکلز (ماہواری) پر بات کرنا فیشن کیوں بنتا جا رہا ہے؟‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@AGHAHASANPE
ٹویٹ میں مزید لکھا گیا’ :میں جانتا ہوں کہ یہ قدرتی عمل ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے
دن میں چند بار واش روم استعمال کرنا۔ کچھ چیزوں کے بارے میں محتاط رہنا ہی بہتر
ہے۔ شکریہ۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس ٹویٹ کے جواب میں کئی خواتین نے ماہواری ،اس کی وجہ سے عورت کے جسم میں
آنے والی تبدیلیوں اور ہر مہینے اس دوران ہونے والے درد کے بارے میں اپنے ذاتی
تجربے بھی لکھے اور ان صاحب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس پر بات کرنا
کیوں ضروری ہے۔
آغا حسن کی ٹویٹ کے جواب میں نشاط نامی صارف نے سوالیہ انداز میں لکھا’ :ہم ہر
مہینے اس تکلیف سے گزرتے ہیں اور ہم اس بارے میں بات بھی نہیں کر سکتے؟‘
صحافی تحریم عظیم نے لکھا’ :میں ان خوش قسمت خواتین میں سے ہوں جنھیں ماہواری
کا درد نہیں ہوتا لیکن اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ اس ماہ جب مجھے پیریڈز آئے تو
میں گھر پر نہیں تھی۔ میرے پاس کوئی پیڈ نہیں تھا۔ میں نے ہلکے نیلے رنگ کی جینز
پہن رکھی تھی ،اب ذرا سوچیں میری زندگی کے بدترین دو گھنٹے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@TEHREEMAZEEM
ایک اور صارف نے لکھا’ :مجھے ماہواری کے دوران اتنا شدید درد بھی ہوا کہ میں اپنی
کالس میں بے ہوش ہونے لگتی۔ میں اس بارے میں بات کرتی ہوں کیونکہ آپ کی آدھی
آبادی اسے سمجھ سکتی ہے۔ اپنے گندے ذہنوں کی صفائی کریں۔‘
صارف لعلین نے لکھا’ :اگر ماہواری نہ ہوتی تو آپ کا وجود بھی نہ ہوتا۔‘
الہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) سے منسلک معلمہ ندا کرمانی نے لکھا’ :اگر
آپ مجھ سے پوچھیں تو جب میں بڑی ہو رہی تھی تو میرے لیے یہ ایک بڑی اور خوش
آئند تبدیلی تھی۔‘
انھوں نے مزید لکھا’ :مجھے اس بارے میں خوشی ہے کہ ہماری اگلی نسل شرم کو فطری
جسمانی عمل سے الگ کر رہی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔‘
تصویر کا ذریعہTWITTER/@NIDAKIRMANI
ماہواری کا موازنہ واش روم کے استعمال سے کرنے پر بھی کئی صارفین نے شدید
غصے کا اظہار کیا۔
ایک اور صارف نے لکھا’ :کیا لوگ آپ کو دن میں کئی بار واش روم جانے کے بارے
میں شرمندہ کرتے ہیں؟ آپ کو ہمت کیسے ہوئی ماہواری کا واش روم جانے سے موازنہ
کرنے پر؟ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہ قدرتی عمل ہے لیکن ابھی بھی اس بارے
میں شرمندگی پائی جاتی ہے۔ یہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے بدنما ہے جو اس بارے
میں بات کرتے ہوئے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔‘
رشم
نجم نے لکھا’ :پاکستان میں مرد سڑک کے کنارے ’باتھ روم استعمال‘ کر لیتے ہیں۔ یہ
ایک جیسا نہیں۔ لڑکیوں کو نو برس کی عمر سے ماہواری آنا شروع ہو جاتی ہے اور زیادہ
تر کو اس بارے میں پہلے نہیں بتایا جاتا کیونکہ اس بارے مں بات کرنا فیشن نہیں۔ یہ
انتہائی تکلیف ہو سکتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@RNAJM2
صائمہ اجرم نے لکھا’ :کبھی کبھی میں خواہش کرتی ہوں کہ مردوں کو بھی پیریڈز ہوتے
تاکہ وہ سجھ سکتے کہ یہ ہم پر جسمانی اور جذباتی طور پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔
آپ کو وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘
ارسالن احمد نامی ایک صارف نے لکھا’ :آپ خاصے بے وقوف ہیں اگر آپ یہ سوچتے
ہیں کہ خواتین ماہواری پر اس لیے بات کرتی ہیں کہ یہ فیشن ہے۔ اسے صحت اور حفظان
صحت کے متعلق آگاہی پھیالنا کہتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SAIMAAJRAM
اس بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟
خواتین کی زندگی میں ماہواری ایک قدرتی عمل ہے۔ یہ تبدیلی کسی بھی لڑکی کے بالغ
ہونے کے بعد آتی ہے۔ ماہواری کا عمل قدرتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے
میں خواتین خصوصا بالغ لڑکیاں اس موضوع پر بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔
تولیدی اور ماہواری صحت کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں معاشرہ مذہب اور سماجی
اقدار کا سہارا لے کر عورتوں کی جنسیت کو ایک ایسا موضوع بنا کر پیش کرتا ہے جس
پر گفتگو کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں لڑکیوں کے لیے ماہواری
سے متعلق معلومات کے حصول کا بنیادی ذریعہ والدہ یا بڑی بہنیں ہوتی ہیں۔
یہ معلومات بھی لڑکیوں کو اس وقت دی جاتی ہے جب انھیں پہلی مرتبہ ماہواری ہو چکی
ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی ماہواری کا آغاز بے خبری اور بغیر تیاری
کے کرتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک عورت ماہواری کے دوران غیر
محفوظ طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔
کا ذریعہGETTY IMAGES
ہارمونز میں تبدیلی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مینوپاز کی عالمات کے لیے
سب سے پُر اثر عالج ہے
امراض نسواں ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کے باعث بے شمار خواتینِ ماہر
ِ
جنسی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔
’غیر محفوظ طریقوں کا استعمال عورتوں میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن کی وجہ بن
سکتا ہے۔ اس کے عالوہ یہ حیض کی باقاعدگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں
ماں بننے کی صالحیت کو بھی ختم کر سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اِس طرح نا صرف عورتوں کی مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے
بلکہ وہ گردوں اور جسم کے نچلے حصے میں ہونے والی دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو
سکتی ہیں۔
| 32 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اب اس بات کا تو کوئی اندازہ نہیں کہ ماہواری کے بارے میں پردہ پوشی کی حمایت میں
ٹویٹ کرنے والے صارف کی سوچ میں کوئی بدالؤ آیا یا نہیں لیکن ہمیں یہ یقین ضرور
ہے کہ اس حوالے سے ہمارے بہت سے قارئین کی سوچ میں مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔
https://www.bbc.com/urdu/science-56968349
لندن(ڈیلی پاکستان آن الئن)کورون††ا وائ††رس س††ے ہ††ونے والی بیم††اری ک††ووڈ 19کی س††نگین
شدت کے باعث زیرعالج مریضوں میں سے متعدد ک††و ای††ک س†ال بع††د بھی منفی اث††رات ک††ا
سامنا ہے۔یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ای††ک ط††بی تحقی††ق میں س††امنے آئی۔س††او¿تھ ہیمپٹن
یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گی††ا کہ ک††ووڈ س††ے ہس††پتال میں زی††رعالج رہ††نے والے ای††ک
تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔
طبی جریدے دی النسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین
کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ 19نمونیا کے مریضوں کا جائزہ
https://dailypakistan.com.pk/06-May-2021/1286206
باماکو(مانیٹرنگ %ڈیسک) مغربی افریقہ کے ملک مالی کی ایک لڑکی نے بیک وقت
9بچوں کو جنم دے دیا۔ دی مرر کے مطابق ڈاکٹروں نے دوران حمل سکین کرکے 25سالہ
حلیمہ سیزی نامی اس لڑکی کو 7بچوں کی خوشخبری سنائی تھی تاہم ڈاکٹر سکین میں
2بچے نہ دیکھ پائے تھے۔ حلیمہ کو ڈلیوری کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے مراکش منتقل
کیا گیا جہاں اس نے 9بچوں کو جنم دے دیا۔ مالی کی وزیرصحت فانٹا سیبی کا کہنا ہے کہ
حلیمہ کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں 5لڑکیاں اور 4لڑکے شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حلیمہ کو دو ہفتے تک مالی کے دارالحکومت باماکو کے پوائنٹ جی
ہسپتال میں رکھا گیا اور پھر ڈاکٹروں نے صورتحال کے پیش نظر اسے مراکش منتقل کر
نے کا کہہ دیا۔ اسے مراکش کے ایک ہسپتال میں 20مارچ کو داخل کرایا گیا جہاں گزشتہ
روز اس کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کسی خاتون کے ہاں
9بچے پیدا ہونا انتہائی نایاب واقعہ ہے۔ عالمی ریکارڈ کے مطابق پہلی بار 1971ءمیں
آسٹریلوی شہر سڈنی کی ایک خاتون کے ہاں 9بچے پیدا ہوئے تھے۔ان میں سے کوئی بھی
بچہ ایک ہفتے سے زیادہ زندہ نہیں رہ پایا تھا۔ اسی طرح 1999ءمیں مالئیشیاءمیں ایک
سرکہ تقریبا ً ہر گھر میں پایا جاتا ہے مگر اس کا استعمال زیادہ تر چائینیز کھانوں کی ترکیب
میں ہی کیاجاتا ہے جس کی بڑی وجہ لوگوں کا اس کی افادیت سے ناواقف ہونا ہے ،عام
گھروں میں استعمال ہونے واال اور خصوصا ً سیب کا سرکہ انسان کی مجموعی صحت پر
بے شمار طبی فوائد مرتب کرتا ہے جس سے متعلق جاننا اور اس کا باقاعدگی سے استعمال
کرنا ضروری ہے۔
طبی و غذائی ماہرین کی جانب سے سرکے کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جبکہ اس کے
استعمال سے حاصل ہونے والے فوائد سائنس سمیت اسالمی تعلیمات سے بھی ثابت ہوتے
ہیں ،سرکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی غذا کا حصہ بنایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں
انسانی صحت پر صرف فوائد ہی حاصل ہوتے ہیں جبکہ اس کے استعمال سے متعدد
بیماریوں اور موسمی شکایات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سرکے کی مختلف اقسام
کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات کی اصل وجہ کیا ہے؟
ماہرین نے بتا دیا
ویب ڈیسک
مئی 5 2021
واشنگٹن :امریکی محققین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات
کا تعلق ویکیسن سے ہرگز نہیں بلکہ یہ انسان کے اضطراب کی وجہ سے ہے۔
اس حوالے سے امریکا کی صحت کی نگرانی کرنے والی ایجنسی مرکز برائے امراض
کنٹرول اور روک تھام (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19کی ویکسی نیشن کے بعد
ویب ڈیسک
مئی 6 2021
ٰ
دعوی اونٹوں سے کورونا کا عالج؟ ماہرین کا بڑا
ویب ڈیسک
مئی 6 2021
دعوی ہے کہ ہم ایسی تحقیق کررہے ہیں جس کے ذریعے اونٹوں کی ٰ سائنس دانوں کا
اینٹی باڈیز کورونا کے عالج کے لیے کارگر ثابت ہوسکیں گی۔
متحدہ عرب امارات میں سائنس دانوں نے اونٹوں کی اینٹی باڈیز کو بروئے کار النے کے
لیے ایک تحقیقی مطالعہ شروع کیا ہے۔ تحقیق میں شامل دبئی کی سنٹرل ویٹرینری ریسرچ
ویب ڈیسک
مئی 7 2021
کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے ٓاچکے ہیں ،اب حال ہی میں
انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن
سکتے ہیں۔
حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19نہ صرف ذیابیطس
کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے واال مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں
میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19ایسے افراد
کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔
یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ
ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا
ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین
کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا
ہے۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے
شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19کو شکست دینے والے افراد میں ٓائندہ
6ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں
ہونا پڑا ،ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اسپتال میں زیرعالج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37مریض ذیابیطس کا
شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو ٓائی سی یو میں
زیر عالج رہنا پڑا ہو۔کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں
کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15کروڑ سے زیادہ ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین
بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خالف
جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔
ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے ،تاہم اس
حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی
https://urdu.arynews.tv/scientists-alarmed-by-covid-and-diabetes-link/
ویب ڈیسک
مئی 7 2021
کرونا وائرس کے جسم پر تباہ کن اثرات کی فہرست طویل ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ
19سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی کئی مریض بیمار ہیں۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19کی سنگین شدت کے باعث زیر
عالج مریضوں میں سے متعدد کو ایک سال بعد بھی منفی اثرات کا سامنا ہے۔
ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر عالج رہنے
والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے
ہیں۔
خیال رہے کہ کووڈ 19نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے مگر اکثر مریض
اس وقت اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جب بیماری کے نتیجے میں پھیپھڑوں پر اثرات مرتب
ہوتے ہیں ،جس کے لیے کووڈ 19نمونیا کی اصطالح استعمال ہوتی ہے۔
کووڈ 19نمونیا کے عالج کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر اب تک اس
بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں کہ مریضوں کی مکمل صحت یابی میں کتنا
عرصہ لگ سکتا ہے اور پھیپھڑوں کے اندر کیا تبدیلیاں ٓاتی ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/coronavirus-long-term-effects/
ہر سال کتنے yکروڑ ٹن کھانا کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے؟خبر پڑھ کر
ٓاپ افسردہ ہوجائینگےy
06/05/2021
کیلی فورنیا(نیو زڈیسک) اقوام متحدہ کے ایک پروگرام نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں
ہر سال 92کروڑ ٹن کھانا کوڑے کی نذر ہو جاتا ہے۔تفصیالت کے مطابق دنیا بھر
میں ہر سال 92کروڑ ٹن ایسی چیزیں کوڑے کی نذر ہو جاتی ہیں ،جو کھانے پینے کے
قابل ہوتی ہیں ،اقوام متحدہ کے
ماحولیاتی پروگرام ( )UNEPکے فوڈ ویسٹ انڈیکس کا کہنا ہے کہ دکانوں ،گھرانوں اور
ریستورانوں میں صارفین کے لیے دستیاب 17فی صد خوراک کی منزل کوڑے کا ڈبہ بنتا
ہے۔رپورٹ کے مطابق جو کھانا ضائع ہوتا ہے اس کا 60فی صد حصہ گھروں سے ٓاتا
ہے ،زیادہ کھانا امیر ممالک میں ضائع ہوتا ہے جب کہ کم ٓامدنی والے ممالک بظاہر کھانے
کے قابل خوراک کو کم ضائع کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کا ساتھ دینے والے ادارے WRAPکے
رچرڈ سوانیل کا کہنا ہے کہ ہر سال کھانا ضائع ہونے والی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اسے 40
ٹن وزن اٹھانے والے 2.3کروڑ ٹرکوں میں بھرا جا سکتا ہے ،اگر یہ ٹرک بمپر سے بمپر
مال کر ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں تو ان کی یہ قطار دنیا کے گرد 7مرتبہ چکر
لگانے جتنی طویل ہوگی۔البتہ الک ڈأون کے دوران حیران ُکن طور پر برطانیہ میں گھریلو
خوراک کے ضیاع میں کمی ٓائی ہے۔ یو این ماحولیاتی پروگرام کی ایگزیکٹو %ڈائریکٹر انگیر
اینڈرسن نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 2030تک خوراک کے ضیاع کی مقدار کو
نصف پر النے کا عہد کریں۔رچرڈ سوانیل کا کہنا ہےکہ ضائع شدہ خوراک 8سے 10فی
صد گرین ہأوس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے ،اس لیے خوراک کے عالمی ضیاع کو
اگر ملک گردانا جائے تو یہ گرین ہأوس گیسیں خارج کرنے واال دنیا کا تیسرا سب سے بڑا
ملک ہو جاتا ہے۔
اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)سر درد سے ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے جو انتہائی پریشان کن ثابت
ہوتا ہے۔ سر کا درد مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے جس میں الرجی اور پانی کی کمی
بھی شامل ہے۔ سر درد مختلف افراد کو مختلف طریقوں سے پریشان کرتا ہے سب سے
خطرناک سر درد میگرین کا ہے۔بدقسمتی سے الکھوں روپے صرف اپنے صارفین کو یہ
یقین دہانی پر خرچ کر دیے جاتے ہیں کہ اس دوائی کے کوئی نقصانات نہیں ہیں۔ہم یہاں ٓاپ
کو سر درد ختم کرنے کے 7قدرتی طریقے بتا رہے ہیں جس میں سے کئی ایک
ہومیوپیتھک کے عالج میں استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ٓاج کے جدید دور میں یہ طریقہ
امریکہ میں بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔جب ٓاپ کو سر کا درد محسوس ہو تو ٓاپ سب
سے پہلے پانی کا استعمال کریں۔ پانی کی کمی عام طور پر سر درد کی وجہ بنتی ہے۔ ایک
عام انسان کو دن میں کم سے کم 8گالس پانی کے پینے چاہیئیں۔اگر ٓاپ دن بھر جسمانی
مشقت یا ورزش کرتے ہیں تو اس صورت میں ٓاپ کو پانی کی مقدار بھی بڑھانی چاہیے
06/05/2021
کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک) محکمہ صحت سندھ نے اسپتال نہ ٓاپانے والے افراد کو کورونا
ویکسین کی فراہمی کا فیصلہ کر لیا۔ تفصیالت کے مطابق محکمہ صحت نے امن ہیلتھ کے
تعاون سے ہوم ویکسینیشن پروگرام کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کے تحت اسپتال نہ
ٓاپانے والے افراد کو گھروں پر ویکسین لگائی جائے گی۔محکمہ صحت کے مطابق یہ
سہولت
صرف کراچی اور حیدرٓاباد کے اسپتال نہ ٓاپانے والے مریضوں تک محدود ہے۔مریض یا
اہلیخانہ 9123یا 1025پر کال کرکے مفت ویکسینیشن کا وقت لے سکتے ہیں۔ امن ہیلتھ
متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کو ڈیٹا فراہم کرے گا اور ڈی ایچ اوز تصدیق کے بعد گھر ٓاکر
ویکسینیشن کرے گا
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102890.html
07/05/2021
دمام(نیو زڈیسک) ایک سعودی خاتون کی یہ کہانی جان کر ٓاپ حیران رہ جائیں گے ،کہ وہ
سڑک کنارے سبزی فروخت کرتے کرتے ایک خوب صورت فروٹ مارکیٹ کی مالکن
کیسے بن گئیں۔یہ ہیں ام زیاد ،وہ سڑک کنارے سبزی بیچتی تھیں ،ایک سعودی شہری نے
ان کی توہین ٓامیز ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جو وائرل ہو گئی۔ام زیاد سے توہین
ٓامیز برتأو کرنے والے سعودی شہری کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا غیر انسانی رویہ اس
غریب محنت کش کی زندگی بدل دے گا ،توہین ٓامیز
سلوک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی دیر تھی کہ ملک کے طول و عرض سے
عوام کا غم و غصہ جلد ہی ایوان اقتدار تک جا پہنچا۔ڈپٹی گورنر شہزادہ احمد بن فہد بن
سلمان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چھوٹے سے گھر میں رہنے والی 9بچوں کی متاثرہ
ماں سے مالقات کی ،اور ان کو حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور پر دکان االٹ کرنے
کے احکامات جاری کر دیے تاکہ وہ با عزت طریقے سے بچوں کے لیے روزی کما سکے۔
شہزادہ احمد بن فہد کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو سوشل میڈیا کے ذریعے دوسروں کا مذاق
| 52 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اڑانے ،کسی کی بے عزتی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔دو دن قبل دمام کے مرکزی
بازار میں ام زیاد کو دکان االٹ کر دی گئی ،یہ دکان ام زیاد کے گھر سے صرف 10منٹ
کے فاصلے پر ہے ،وہ اپنی دکان پر ٓائیں تو گاہکوں کی طرف سے والہانہ استقبال پر حیران
رہ گئیں،
ایک مقامی تاجر نے ام زیاد کو اس کی دکان کے لیے سبزیاں اور فروٹ فراہم کرنے کا
اعالن بھی کیا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے ام زیاد نے بتایا کہ جس شخص نے
اس کی ویڈیو بنائی تھی وہ اکثر کالونی میں اس کے ٹھیلے پر ٓاتا رہتا تھا ،مجھے کسی کی ہم
دردی کی ضرورت نہیں ،میرا کام اور محنت میرے لیے فخر کا بہتر ذریعہ ہے۔پولیس نے
خاتون کی کسمپرسی کی ویڈیو بنا کر مذاق اڑانے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے ،ام زیاد
نے بتایا کہ ویڈیو بنانے والے شخص کو جب پولیس نے طلب کیا تو میں پریشان ہوگئی کہ
شاید مجھے بھی بالیا جائے گا،
ویڈیو سامنے ٓانے کے بعد عام لوگ بھی میرے بارے میں گفتگو کرنے لگے تھے۔انھوں
نے کہا میری خواہش ہے کہ میں اپنا سودا مناسب قیمت پر مگر معیاری طریقے سے
فروخت کروں اور مجھے روزانہ 100لایر سے زیادہ کمانے کا کوئی اللچ نہیں۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102964.html
03:35 pm 07/05/2021
اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)کورونا وائرس سے متاثرہ بعض افراد صحت یاب ہونے کے بعد اس
کی شدت سے متاثر رہتے ہیں جس کی ایک اہم وجہ سائنسدانوں نے دریافت کرلی ،مسوڑوں
کے امراض کورونا مریضوں کو خطرے کی لکیر تک لے جاتے ہیں۔طبی تحقیق کے
مطابق کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19سے متاثر ہونے والے اکثر افراد
صحتیاب تو ہوجاتے ہیں مگر چند میں اس کی شدت بہت زیادہ سنگین ہوتی ہے۔ایسا کیوں
ہوتا ہے؟ اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے اس عالمی وبا
کے ٓاغاز سے ہی سائنسدان کام کررہے ہیں اور اب ایک بڑی ممکنہ وجہ سامنے ٓائی ہے۔
درحقیقت مسوڑوں کے امراض اور کوویڈ 19کی پیچیدگیوں اور اموات کے درمیان تعلق
سامنے ٓایا ہے۔کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مسوڑوں کے
ورم کا سامنا کرنے والے افراد میں کوویڈ 19سے موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں
8.8گنا زیادہ ہوتا ہے۔اسی طرح ایسے افراد میں کوویڈ 19سے اسپتال میں داخلے کا
امکان 3.5گنا جبکہ وینٹی لیٹر کی ضرورت 4.5گنا یادہ ہوتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ کی اچھی صحت کوویڈ 19کی پیچیدگیوں کی روک تھام
میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے ،کیونکہ مسوڑوں کے امراض اور کوویڈ کے سنگین نتائج
کے درمیان مضبوط تعلق موجود ہے۔
دانتوں اور مسوڑوں کے درمیان بیکٹریا کے اجتماع کے نتیجے میں ورم کا سامنا ہوتا ہے
اور عالج نہ کرانے پر مریض کو مختلف اقسام کے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کا
کہنا ہے کہ منہ کی اچھی صفائی بشمول روزانہ خالل ،برش کرنا اور دانتوں کا معائنہ کرانا
اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔محققین کے مطابق مسوڑوں کے امراض کو پہلے
ہی متعدد امراض جیسے امراض قلب ،ذیابیطس ٹائپ ٹو اور نظام تنفس کے امراض کے
لیے خطرہ بڑھانے واال عنصر سمجھا جاتا ہے۔اس تحقیق میں قطر کے حماد میڈیکل
کارپوریشن کے 568مریضوں کے دانتوں اورر صحت کے لیے الیکٹرونک %ریکارڈ کا
تجزیہ کیا گیا تھا۔محققین نے مختلف عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت کیا کہ
مسوڑوں کے امراض کے شکار افراد کے خون میں ورم کی سطح بہت نمایاں ہوتی ہے۔
نازش ظفر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ،اسالم آباد
’میں خود بھی وائرس سے متاثرہ تھی اور میرے والدین بھی ہسپتال میں داخل تھے۔
ساتھ میں کئی لوگوں کے فون آ رہے تھے کہ آپ بہت لوگوں کو جانتی ہیں ،آکسیجن اور
آئی سی یو کے لیے ہماری مدد کر دیں۔ میں سوچتی تھی کہ میں صحافی ہوں اور مجھے
اپنے لیے تو معلومات مل نہیں رہیں میں ان کی مدد کیسے کروں۔ یہ الچار ہونے کا
احساس تھا ،جو بہت تکلیف دہ تھا۔‘
یہ ہے انڈین صحافی ارچنا شکال کی کہانی۔
انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران بہت سے صحافی اس وبا کی کوریج کرتے
کرتے خود ’کہانی‘ کا حصہ بن رہے ہیں۔
ارچنا کا کہنا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس نے کورونا کے مریض اور اس
وائرس سے ہونے والی اموات نہ دیکھی ہوں اور ایسے غیر معمولی حاالت میں انڈین
صحافی رپورٹنگ کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
ارچنا شکال سی این بی سی چینل میں صحت اور دیہی عالقوں کی کوریج کی ایسوسی ایٹ
ڈائریکٹر ہیں۔
بی بی سی اُردو سے ہونے والے اِس انٹرویو کے لیے وہ تیار ہو ہی رہی تھیں جب انھیں
ایک ساتھی صحافی کی کورونا سے ہالکت کی خبر ملی۔
وہ یہ خبر سننے کے بعد گفتگو کے لیے تیار تو تھیں لیکن ان کا کہنا ہے ایسی اچانک
اموات کی اطالع انھیں ہال کر رکھ دیتی ہے۔
صحافی ارچنا شکال خود اور ان کے والدین کورونا وائرس سے متاثر ہوئے
وہ بتاتی ہیں کہ ’پہلی لہر کے دوران ہم ڈرتے تھے لیکن اتنا نہیں ،بس احتیاطی تدابیر
اختیار کر کے کام کے لیے نکل پڑتے تھے۔ لیکن اب اس تیسری لہر کے دوران ہر
دوسرے دن کسی ساتھی کے وائرس سے متاثر ہونے یا اچانک مرنے کی اطالع آتی ہے
تو حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن ہم پھر ہمت جمع کر کے خبر پہنچانے کا کام کرنے لگ
جاتے ہیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/regional-57005346
کووڈ کے دور میں آخری رسومات کے نت نئے طریقے :آپ مرنے کے
بعد خال میں جانا پسند کریں گے یا سمندر میں؟
برنڈ ڈیبوسمین جونیئر
بزنس رپورٹر
7مئ PKT 03:18 ،2021
ایٹرنل ریفس کی بنائی گئی چٹانیں امریکہ کے مشرقی ساحل کے پاس سمندر میں رکھی گئی
ہیں
فلوریڈا کی ایک کمپنی ’ایٹرنل ریفس‘ کا کہنا ہے کہ اس کی غیر معمولی سروس کی مانگ
میں وبا کے باعث اضافہ ہوا ہے۔
| 59 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سنہ 1998سے یہ کمپ%%نی م%%رنے وال%%وں کی باقی%%ات کو م%%ونگے کی مص%%نوعی چٹ%%ان بنا کر
انھیں سمندر کی تہہ میں پہنچ%%انے میں م%%دد دی%%تی ہے ،جس کے ل%%یے اُن کی راکھ کو م%%احول
دوست کنکریٹ میں مالیا جاتا ہے۔'ہمارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جن کا س%%مندر میں ک%%وئی
نہ کوئی مفاد ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس اکثر ایسے ل%%وگ بھی آتے ہیں جنھیں زمین کے ل%%یے
کچھ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔'
گذشتہ سال تک کمپنی کے 2000ریف امریکہ کے مشرقی ساحل کے س%اتھ 25مقام%%ات پر
لگائے جا چکے ہیں۔ ،ل%%واحقین ان چٹ%%انوں کو س%%مندر میں رکھے ج%%اتے ہ%%وئے دیکھ س%%کتے
ہیں۔کووڈ 19کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں الکھوں لوگ%%وں کو اپ%%نے پی%%اروں کو کھو
دینے کی وجہ سے تکلیف کا س%%امنا کرنا پ%%ڑا ہے۔ اور اس نے ہم سب کو یہ بھی ی%%اد دالیا ہے
کہ زندگی فانی ہے۔
چنانچہ اب پہلے سے زیادہ لوگ اس حوالے سے تخلیقی انداز میں سوچ رہے ہیں کہ وہ
مرنے کے بعد اپنے جسم یا اپنی راکھ کے ساتھ کیا کروانا چاہتے ہیں۔
جو لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی باقیات زمین پر ہی رہیں ،اُن کے لیے سی ایٹل میں قائم کمپنی
'ری کمپوز' نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو الش کو زرخیز مٹی کا حصہ بنا دیتی
ہے۔
| 60 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
جسم کو سٹیل کے ایک سیل بند سلنڈر میں لکڑی کے ٹکڑوں ،بانس کی ڈنڈیوں اور لوسن
کے پتوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ’ری کمپوز‘ اس سلنڈر میں کاربن ڈائی
آکسائیڈ ،نائٹروجن ،آکسیجن ،گرمی اور نمی کی مقدار کو کنٹرول کیے رکھتا ہے تاکہ
بیکٹیریا اور دیگر جراثیم پنپ سکیں۔
تقریبا ً 30دن کے بعد یہ مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے اور تین کیوبک فٹ مٹی کو سلنڈر سے
نکاال جاتا ہے ،پھر کچھ ہفتوں تک اسے مزید کچھ مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد
اسے واشنگٹن کے ایک جنگل میں پھیال دیا جاتا ہے ،یا پھر رشتے دار اسے ساتھ لے جا
سکتے ہیں۔ اس کے عالوہ یہ دونوں کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔
سنہ 2017میں یہ کاروبار شروع کرنے والی کترینہ سپیڈ کہتی ہیں کہ اُنھوں نے وبا کے
آغاز سے اپنے ماہانہ پری پیمنٹ پروگرام میں شمولیت کی درخواستوں میں اضافہ دیکھا
ہے۔
'یہ ایک طرح سے اپنے آپ اور اپنے خاندان سے ہم کالم ہونے کا طریقہ تو ہے ہی ،مگر
ساتھ ہی ساتھ زمین کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کا طریقہ بھی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو
میرے ساتھ کچھ ایسا کیا جائے جو اس زمین کے لیے بہتر ہو۔
'ہم نے لوگوں سے سنا ہے جو کہتے ہیں کہ اس سے اُنھیں امید اور دالسا ملتا ہے۔'
ری کمپوز کا سسٹم ایسے کام کرتا ہے (اس تصویر میں کوئی حقیقی مردہ نہیں ہے)
دی بزنس ریسرچ کمپنی کے مط%%ابق رواں س%%ال ع%%المی س%%طح پر ام%%وات سے متعلق خ%%دمات
فراہم کرنے والے ش%%عبے کا حجم 110ارب ڈالر رہے گا اور اس کی پیش%%گوئی ہے کہ س%%نہ
2025تک یہ بڑھ کر 148ارب ڈالر ہو جائے گا۔
اپنے پیاروں کی باقیات کے لیے دستیاب آپشنز میں اضافہ اور متعلقہ ٹیکنالوجی میں ترقی
ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حالیہ دہائیوں میں میتوں کو جالئے جانے میں اضافہ ہوا ہے۔
صرف امریکہ میں ہی گذشتہ سال ہالک ہونے والے افراد کا 56فیصد جالیا جانا ہے جبکہ
توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے 20سالوں میں یہ تعداد 78فیصد تک ہوجائے گی۔ سنہ
1960کی دہائی میں یہ عدد صرف چار فیصد تھا۔
برطانیہ میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں سنہ 2019میں 78فیصد ہالک شدہ افراد کو
جالیا گیا اور وہاں 1960میں یہ تعداد 35فیصد تھی۔
مردوں کی آخری رسومات کی صنعت کے برطانوی ماہر پیٹر بلنگھم ایک پوڈکاسٹ ڈیتھ
گوز ڈیجیٹل کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عالمی وبا نے اس شعبے میں
ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کی قبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ 'کووڈ کی وجہ سے ان
تبدیلیوں میں تیزی اُس سے کہیں زیادہ آئی ہے جو ویسے معمول کے حاالت میں آتی۔'
اس کے عالوہ کووڈ کی پابندیوں کے باعث آخری رسومات کی الئیو سٹریمنگ میں بھی
اضافہ ہوا ہے۔
جب رواں سال کے اوائل میں نیویارک کے رہائشی مائیکل بیرن کے والد ہالک ہوئے تو
اُنھوں نے یہی کیا۔ ٹریبیوکاسٹ نامی کمپنی کی خدمات حاصل کر کے اُنھوں نے آخری
رسومات کو امریکہ ،کینیڈا ،انڈیا ،اسرائیل ،پانامہ ،سویڈن اور برطانیہ میں لوگوں تک ہائی
ریزولوشن ویڈیو اور ساؤنڈ کے ساتھ دکھایا۔
بیرن کہتے ہیں کہ 'ہر کسی کو ایسے محسوس ہوا جیسے وہ جسمانی طور پر وہاں موجود
نہ ہوتے ہوئے بھی آخری رسومات میں شریک تھے۔'
کنیکٹیکٹ میں قائم ٹریبیوکاسٹ کے شریک بانی بروس لِکلی کہتے ہیں کہ گذشتہ پورے سال
اُن کی کمپنی کے 'فون بجتے رہے۔'
'ہم%%ارے کاروب%%ار میں ڈرام%%ائی ط%%ور پر اض%%افہ ہ%%وا۔ ہم اسے ایسے رجح%%ان کے ط%%ور پر
دیکھتے ہیں جو آ رہا تھا مگر عالمی وبا کے باعث اس میں تیزی آئی۔'
ٹریبیوکاسٹ کا سٹاف یہ یقی%%نی بناتا ہے کہ آخ%%ری رس%%ومات سے قبل کیم%%رے اور س%%ٹریمنگ
کام کر رہی ہو
ٹریبیوکاسٹ کو 2017میں النچ کیا گیا تھا اور یہ آخری رسومات کی فلمنگ بھی کرتی ہے۔
بروس کہتے ہیں کہ اس کی ریموٹ اٹینڈنس ٹیکن%%الوجی پہلے ہی خان%%دانوں اور دوس%%توں کے
گروہوں کی بدلتی نوعیت کی وجہ سے فروغ پا رہی تھی۔
جہ%%اں پہلے خان%%دان اور س%%ماجی گ%%روہ مخص%%وص جغرافی%%ائی عالق%%وں تک مح%%دود اور ایک
دوسرے کے قریب ہ%%وتے تھے ،وہ%%اں اب وہ ملک بھر میں اور یہ%%اں تک کہ ملک سے ب%%اہر
تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
چنانچہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا اکثر مشکل ہوجاتا ہے ،خاص طور پر یہودیوں یا
مسلمانوں کے لیے ،جن کے عقیدے کے مطابق مردے کو 24گھنٹوں میں دفنانا ہوتا ہے۔
بروس کہتے ہیں کہ 'تین سے چار سال پہلے تک بھی ہم ہر جنازے میں 40سے 60لوگوں
کو انٹرنیٹ کے ذریعے شریک ہ%%وتے ہ%%وئے دیکھ رہے تھے۔ یہ عجیب ہے کی%%ونکہ ام%%ریکہ
میں کسی جنازے میں جسمانی طور پر بھی اتنے ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔'
'اور ہم لوگوں کو آخ%%ری رس%%ومات میں ڈیجیٹل ط%%ریقے سے ش%%مولیت کا موقع ف%%راہم کر کے
جنازوں میں لوگوں کی شرکت کو دو گنا کر رہے تھے۔'
سیلیسٹس نے سنہ 2006میں ناسا کے اس راکٹ پر انسانی باقیات الد کر خال میں بھیجیں
جہاں چند ل%%وگ چ%%اہتے ہیں کہ اُن کے خان%%دان اور دوس%%توں میں سے زی%%ادہ سے زی%%ادہ ل%%وگ
اپنے پیاروں کی آخری رسومات دیکھیں اور کچھ ل%%وگ چ%%اہتے ہیں کہ اُن کی باقی%%ات کا اچھا
اس%%تعمال ہ%%و ،وہیں کچھ ل%%وگ ہیں جو چ%%اہتے ہیں کہ اُن کی راکھ کے س%%اتھ کچھ ڈرام%%ائی کیا
جائے۔اور امریکی ف%%رم سیلیس%%ٹس یہی پیش%%کش ک%%رتی ہے۔ یہ کمپ%%نی گذش%%تہ 20س%%الوں سے
انسانی باقیات خال میں بھیج رہی ہے۔
خالئی مشن میں جگہ حاصل کر کے یہ لوگ%%%%%وں کی راکھ کو م%%%%%دار اور اس سے بھی آگے
بھیجنے میں م%%دد ک%%رتی ہے۔سیلیس%%ٹس کے ش%%ریک ب%%انی اور چیف ایگزیک%%ٹیو چ%%ارلس ش%%یفر
کہتے ہیں کہ کمرشل خالئی کمپنیوں مثالً سپیس ایکس کی وجہ سے 'ہم اب س%%ال میں دو سے
تین مرتبہ النچ کر رہے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں میرا ان%%دازہ ہے کہ ہم ہر سہ م%%اہی میں
ایسا کر سکیں گے۔'
https://www.bbc.com/urdu/science-57008893
ویب ڈیسک
کووڈ 19کے شکار ہونے والے مریضوں کو اگر ورزش کرائی جائے تو اس کے بہت
اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں
لندن :دنیا بھر میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد دسیوں الکھوں میں
ہے لیکن بہت سے مریضوں میں کئی مسائل دیکھنے میں ٓائے ہیں۔ اس ضمن میں باقاعدہ
ورزش اس ہولناک مرض کے کئی حملوں سے بچاسکتی ہے۔
برطانیہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فارہیلتھ ریسرچ سے وابستہ لیسیٹر تحقیقی مرکز نے کووڈ
19کے کئی مریضوں کو چھ ہفتے تک ورزش سے گزارا تواس کے حیرت انگیز فوائد
نظام تنفس کی مضبوطی ،تھکاوٹ میںِ دیکھنے میں ٓائے۔ ورزش کرنے والے افراد
کمی اور دماغی صالحیت میں بہتری بھی نوٹ کی گئی۔ یہ تحقیق جرنل ٓاف کرونک
رسپائریٹری ڈیزیزمیں شائع ہوئی ہے۔
اس ضمن میں کورونا سے متاثرہونے 30مریضوں کو کورونا سے صحتیاب ہونے کے
بعد ہفتے میں دو مرتبہ ورزش کی کالسیں دی گئیں اور انہیں ہسپتال میں بالکر انہیں
مختلف ورزشیں کروائی گئیں۔ ان میں ایئروبِک ورزشیں ،ٹریڈ مل پر دوڑیں ،بازو اور
ٹانگوں کی ورزشیں اور دیگر طرح کی ورزشوں سے گزارا جائے گا۔
چھ ہفتے میں تمام شرکا نے ورزش میں بہتری دکھائی اور اسے اسکور کے نمبر دیئے
گئے۔ اس طرح تھکاوٹ اور غنودگی میں بہتری ہوئی۔ اس سے قبل اکثر مریضوں میں
جسمانی اور نفسیاتی عوارض بھی تھے جو ان کے روزمرہ معموالت کو شدید متاثر
کررہے تھے۔ بعض افراد سونگھنے اور چکھنے کی حس کھوچکے تھے اور کئی افراد کو
سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہورہی تھی۔
اس گروہ میں مردوزن دونوں شامل تھے جن کی اوسط عمر 58برس تھی۔ ان کی 87
فیصد تعداد کووڈ 19کی شکار ہوکر ہسپتال میں داخل تھی۔ اکثرمریضوں† نے 10روز
ہسپتال میں گزارے تھے۔ ان میں سے 14فیصد افراد کو مشینی وینٹی لیشن کے عمل سے
گزارا گیا اور کئی افراد ٓائی سی یو میں بھی رہ چکے تھے۔ ان میں سے چار افراد کو پہلے
ہی سانس کا عارضہ مثالً دمہ وغیرہ الحق تھا۔
اس ضمن میں لیسیٹر ہسپتال کے فزیوتھراپسٹ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹروں نے
دیکھا کہ کئی مریضوں† کو چلنے میں ٓاسانی ہوئی اور دیگر مریضوں کو سانس لینے میں
ویب ڈیسک
مئی 8 2021
طبی محققین نے ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایڈز کی منتقلی روکنے کا طریقہ دریافت کر
لیا ہے۔
تفصیالت کے مطابق سائنس دانوں نے ماں کے خون میں موجود ایچ ٓائی وی (ایڈز) کے
وسیع پیمانے پر اسٹرینز کو بالک کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔
نئی ریسرچ نے نوزائیدہ بچوں میں ایچ ٓائی وی ()human immunodeficiency virus
کی منتقلی کو روکنا ممکن بنا دیا ہے ،محققین کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسا طریقہ دریافت کیا
ہے جس کی مدد سے ماں کے خون میں وائرس کے اسٹرینز کو بالک کیا جا سکتا ہے۔
| 67 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
واضح رہے کہ تحیقی ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایچ ٓائی وی انفیکشن ماں
کے رحم میں کچھ بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور کچھ میں نہیں ہوتی ،تو ایسا کیوں ہوتا
ہے؟ ویل کورنیل میڈیسن اینڈ ڈیوک یونی ورسٹی کی ٹیم نے اس سوال کے جواب کی تالش
میں نوزائیدہ بچے میں وائرس کی منتقلی کی روک تھام کا طریقہ معلوم کر لیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا ممکنہ طریقہ کار ہے جس کی مدد سے یہ پیش گوئی
ممکن ہے کہ ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایچ ٓائی وی کی منتقلی ہوگی یا نہیں۔
محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اہم نکتے کی نشان دہی بھی ہوئی ہے کہ وائرس کی اس
منتقلی کو کس طرح روکا جا سکے گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو ماں سے دوران حمل،
وضع حمل ،یا دودھ پالنے کے دوران ایچ آئی وی کی منتقلی کو ’ماں سے بچے کو منتقلی‘
کہا جاتا ہے۔ کسی بھی عالج کی عدم موجودگی میں اس منتقلی کی شرح 15سے 45فی
صد تک ہوتی ہے ،اگر دوران حمل یا وضع حمل اور دودھ پالنے کے دوران مؤثر عالج
ہو تو یہ شرح 5فی صد تک بھی کم ہو سکتی ہے۔
https://urdu.arynews.tv/transmission-of-aids-from-mother-to-child/
کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟شہریوں کیلئے صبح
صبح انتہائی اہم خبر ٓاگئی
07/05/2021
اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے ٓاچکے
ہیں ،اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے
مریض بھی بن سکتے ہیں۔حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ
کووڈ 19نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے واال مرض
ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن
سکتا ہے۔ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19
ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے
شکار نہیں تھے۔یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا
ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان
پہنچاتا ہے۔لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں
تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں
ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ
کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے
شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19کو شکست دینے والے افراد میں ٓائندہ
6ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کے
مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا ،ان
میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے
۔اسی طرح اسپتال میں زیرعالج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37مریض ذیابیطس کا
شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو ٓائی سی یو میں
زیر عالج رہنا پڑا ہو۔کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں
کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15کروڑ سے زیادہ ہے۔ماہرین کا خیال
ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے
خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خالف جسمانی ردعمل
| 69 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس کا باعث بنتا ہے۔ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19ہی ذیابیطس کا
باعث بنتا ہے ،تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد
مل سکے گی۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102991.html
ویب ڈیسک
جمعـء 7 مئ2021
فالڈیلفیا کے ایک بچے میں دنیا کی نئی بیماری دریافت ہوئی اور اس کا عالج بھی سامنے
ٓایا ہے
فالڈیلفیا :گزشتہ 20برس میں ہم ہزاروں نئے امراض دریافت کرچکے ہیں اور اب چلڈرن
ہسپتال ٓاف فالڈیلفیا (سی ایچ او پی) کے ڈاکٹروں نے ایک بچے میں نئی بیماری کا پتا
اس کے بعد لیوک کا مکمل جینیاتی تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ
سے لیوک کا بدن بی سیلز اور اینٹی باڈیز نہیں بنارہا تھا۔ اس طرح وہ ہرطرح کے انفیکشن
کا نام دیا PU.1 Mutated agammaglobulinemiaکا شکار ہوتا رہا ہے۔ اس مرض کو
گیا ہے۔ اب اسے مختصراً پی یو۔ایم اے پکارا گیا ہے۔
اس کے بعد ہسپتال اور یونیورسٹی کے کئی سائنسداں ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور
بچے پر مکمل تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ بی لمفوسائٹس کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ یہ خلیات
اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایس پی ٓائی ون نامی جین میں بہت تبدیلی تھی۔
اگلے مرحلے میں لیوک کے بھائی کی ہڈیوں کا گودا لےکراسے لیوک میں منتقل کیا گیا
اور اب وہ تندرست ہوچکا ہے۔ اگرچہ یہ ایک نئی نایاب بیماری ہے لیکن اس کا عالج بھی
سامنے ٓاگیا ہے
https://www.express.pk/story/2175356/9812/
جراثیم کو ’پیٹ پھاڑ کر‘ ہالک کرنے والی پرانی اینٹی بایوٹک پر نئے
تجربات
ویب ڈیسک
جمعـء 7 مئ 2021
کولسٹین‘‘ کہالنے والی یہ اینٹی بایوٹک کسی جرثومے کی دونوں حفاظتی جھلیوں کو پھاڑ’’
کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ (فوٹو :امپیریل کالج لندن)
لندن :امپیریل yکالج لندن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 74سال پرانی ایک اینٹی بایوٹک ٓاج
کے نئے اور سخت جان جرثوموں (بیکٹیریا) کے خالف بھی مؤثر yہے جس کی وجہ شاید
اس کا وہ منفرد انداز ہے جس سے یہ کسی بھی جرثومے کو ہالک کرتی ہے۔
واضح رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرثوموں میں ضد حیوی ادویہ (اینٹی
بایوٹکس) کے خالف مزاحمت پیدا ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے کئی بیماریوں کا
عالج بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
طبّی ماہرین کو خطرہ ہے کہ اگر جرثوموں میں اینٹی بایوٹکس کے خالف مزاحمت اسی
طرح بڑھتی رہی تو اگلے چند سال میں بیشتر بیماریوں کا عالج ناممکن ہوجائے گا۔
اسی سوچ کے تحت ماہرین نہ صرف نئی سے نئی اینٹی بایوٹکس ڈھونڈنے کی کوششیں
جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ پرانی اور متروکہ تدابیر بھی ایک بار پھر ٓازمانے میں
مصروف ہیں۔
ہے جو )‘‘ (colistinتازہ مطالعے میں جس دوا پر تحقیق کی گئی ہے اس کا نام ’’کولسٹین
1947سے جراثیم کے عالج میں ٓاخری حربے کے طور پر استعمال کی جارہی ہے تاہم
ٓاج اس کا استعمال بہت کم رہ گیا ہے اور اسے بہت ہی کم مواقع پر تجویز کیا جاتا ہے۔
بتاتے چلیں کہ کسی بھی جرثومے کے گرد دو جھلیاں ہوتی ہیں جو اسے محفوظ بناتی ہیں۔
کولسٹین کسی تیز دھار بھالے کی طرح ان دونوں جھلیوں کو پھاڑ کر جراثیم کو موت کے
گھاٹ اتار دیتی ہے۔
ویب ڈیسک
مئی 9 2021
ویب ڈیسک
مئی 9 2021
ویب ڈیسک
مئی 9 2021
ت حیوانیہ یعنی وہ قوت جو انسان کو دیگر جانداروں سے ممتازکرتی ہے ،اور انسان قو ِ
کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے کی ذمہ دار ہے کا مرکز دل ہے۔ دل کو قلب
بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خون دل سے گزر کر دوبارہ دل کی جانب ٓاتا ہے ،اسے اصطالح
میں خون کا منقلب ہونا کہتے ہیں۔
عضورئیس ہے کہ سر سے لے کر پائوں تک خون کو پہنچاتا ہے۔ دل کے چار ِ یہی وہ
خانے ہیں ،اور دو اطراف ہیں ،داہنی طرف کو جو دیوار بائیں طرف سے الگ کرتی ہے،
اس پر ایک نقطہ نما شے ہے یہی نقطہ دل کی غیر ارادی حرکت ’دھڑکن‘ کا ضامن ہے۔
دیگر حیوانات کے دل کی حرکت بھی دماغ کے تابع ہے مگر انسان کا دل دماغ سے
صرف اشارات حاصل کرتا ہے۔ رگیں خون کو اعضاء کی طرف بھیجتی ہیں سوائے
پھیپھڑوں کی جانب ٓانے والی شریانوں اور رگوں کے ،کہ ان کا کام باقی کے برعکس ہے
۔ اب تعارف کے بعد دل کی ساخت کا علم بھی ضروری ہے۔
:دل کی ساخت
دل کی لمبائی انسان کی بند مٹھی کے برابر ہے 21تا 40سال کی عمر کے حضرات کے
دل کا اوسطً وزن 289.6گرام ہے ،جبکہ اس عمر کی خواتین کے دل کا وزن اوسطً
284.7گرام ہے۔ 61تا 70سال کی عمر کے حضرات کے دل کا اوسطً وزن 385.9گرام
اورخواتین کا دل اوسطً 285.1گرام ہے۔ دل کی شکل صنوبری ہے اور اس کا چھوٹا حصہ
دائیں جانب جبکہ زیادہ حصہ بائیں جانب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ دل ہلکا سا لیٹا ہوا ہے
دائیں سے بائیں جانب۔ یہ خاص قسم کے عضالت سے بنا ہے جو نہایت پائیدار ہیں ۔
دل جہاں دائیں اور بائیں جانب شریانوں کی راہ خون پہنچاتا ہے( اصطالحا ً شریان ریوی )
وہاں جسم کے تمام اعضاء تک بھی خون بہم پہنچاتا ہے۔ یہ فعل دل کی شریا ِن اعظم کے
ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ شریا ِن اعظم وہ حصہ جو گردن سے دماغ تک
خون مہیا کرتا ہے اسے شریا ِن سباتی کا نام دیا گیا ہے ،اور جو حصہ کندھوں تک خون
شریان تحت الکتف ( کندھوں کے نیچے سے گزرنے والی شریان) کہا ِ پہنچاتا ہے اسے
جاتا ہے ،اس شریان ہی کی شاخیں اور ان شاخوں سے نکلنے والی باریک شاخیں ہاتھ کی
انگلیوں تک خون کی رسائی کو ممکن بناتی ہیں پھر خم کھاتے ہوئے (گول ہوتے ہوئے )
شریان اعظم کا نچال حصہ جسم کے تمام اعضاء کو خون پہنچاتا ہے۔
ِ
شریان اعظم پشت کے پانچوئے مہرے تک ہے ،پھر اس کے حصے جگر ،معدہ ،تلی، ِ
ٓانتو ں اور جسم کے نچلے حصوں تک خون پہنچاتے ہیں۔اس† طرح ان اعضاء سے باریک
رگیں اُگتی ہیں جو ایک سے اگلی مل کر ایک بڑی رگ’ اجوف (وینا کیوا) بناتی ہے ،یہی
رگ دل کے دائیں اُذن میں خون پہنچاتی ہے ،یہاں دو نوکوں والی کیواڑی کی راہ خون
دائیں بطن اور یہاں سے یہ خون جو ’ دخانی خون ‘ کہالتا ہے ،پھیپھڑوں میں جاتا اور
ویب ڈیسک
اتوار 9 مئ2021
نیویارک :کورونا نے عام افراد کو بہت سارے نئے الفاظ ،بہت سارے نئے طبی ٓاالت
سے متعارف کروایا جس میں ایک چھوٹا مگر نہایت اہم طبی ٓالہ ’ پلس ٓاکسی میٹر‘ yبھی
ہے۔
کووڈ 19-کے خالف جنگ میں اہم ہتھیار کی
حیثیت رکھنے واال یہ ٓالہ اب دنیا بھر کے
بیشتر گھروں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ اس
ٓالے سے سیچوریشن( خون میں ٓاکسیجن کی
سطح) کے ساتھ ساتھ نبض کی رفتار ،بلڈ
پریشر کو کہیں بھی کسی بھی وقت چیک کیا
جاسکتا ہے۔ تاہم اس ٓالے کے غلط استعمال
سے ٓاپ کی پریشانی میں اضافہ بھی ہوسکتا
ہے خصوصا جب ٓاپ کورونا کے مریض
کی سیچوریشن چیک کر رہے ہوں اور میٹر
اسے 99یا 95کی جگہ 89یا 85ظاہر کرے تو یہ مریض کے تیمار داروں کی ڈوریں
لگوا سکتا ہے۔
پلس ٓاکسی میٹر کا درست استعمال ٓاپ کو بال وجہ کی ذہنی کوفت سے بچا سکتا ہے ،زیر
نظر مضمون میں دی گئی معلومات کی بنیاد پر ٓاپ پلس ٓاکسی میٹر کے صحیح استعمال
میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔
۔ سیچوریشن چیک کرنے سے کم از کم دس منٹ پہلے مریض کے جسم کر ٓارام دہ حالت1
میں الئیں۔
۔ پلس ٓاکسی میٹر کو شہادت یا درمیانی انگلی پراس طرح پہنیں کہ اس کا سینسر ناخن2
.سے اوپر براہ راست جلد سے َمس ہو۔ ٓاکسی میٹر کو کبھی بھی ناخن پر نہیں پہنیں
ویب ڈیسک
اتوار 9 مئ 2021
جینیوا :عالمی ادارہ برائے صحت نے چینی کمپنی سائنو فارم کی کورونا ویکسین کے
استعمال کی ہنگامی طور پر منظوری دے دی۔
غذائی ماہرین کی جانب سے جو یا گندم کے دلیے کو انسانی صحت کے لیے قدرت کی
طرف سے خزانہ قرار دیا جاتا ہے ،غذائیت سے بھرپور دلیے کے استعمال کے صحت پر
حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں جنہیں جاننا اور اسے بطور غذا روٹین میں شامل کرنا
نہایت ضرری ہے۔
ماہرین کے مطابق دلیے کے استعمال کے نتیجے میں دل ،معدے ،گردوں اور ٓانتوں کی
صحت بہتر اور کینسر کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے ،جو اور گندم کا دلیہ وٹامنز،
معدنیات ،فائبر اور اینٹی ٓاکسیڈنٹ سے بھرپور غذا ہے ،سائنسی تحقیق میں بھی یہ بات ثابت
ہو چکی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دلیہ کا ایک چھوٹا پیالہ کھانے کے نتیجے میں صحت
بہتر اور زندگی کا دورانیہ طویل ہوتا ہے۔
دلیے کا استعمال جہاں فائبر کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے وہیں اس کے استعمال سے بے
وقت کی بھوک میں کمی واقع ہوتی ہے جس کے سبب وزن میں کمی اور اضافی چربی کا
مضر صحت منفی کولیسٹرول اور
ِ خاتمہ ہوتا ہے ،دلیے کے استعمال سے خون میں موجود
شوگر کی سطح بھی متوازن رہتی ہے۔
ماہرین غذائیت اور ڈائٹیشنز کے مطابق 100گرام دلیے میں 389کیلوریز 8 ،فیصد پانی،
ِ
66.3گرام کاربز 16.9 ،گرام پروٹین 10.6 ،گرام فائبر جبکہ 6.9گرام فیٹ ہوتا ہے اور
وٹامنز اور منرلز سے بھر پور دلیے میں 0گرام شوگر پائی جاتی ہے۔
| 87 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
روزانہ کی بنیاد پر دلیے کے استعمال سے مجموعی صحت پر ٓانے والے چند مثبت اثرات
:مندرجہ ذیل ہیں
نظام ہاضمہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے فائبر کا استعمال بہت ضروری ہے ،دلیے
میں فائبر کی مخصوص قسم ’بیٹا گلوکین‘ پائی جاتی ہے جس کی مدد سے جسم میں غذائیت
بہتر طریقے سے جذب اور ٓانتوں کی صفائی ہوتی ہے ،بیٹا گلوکین کا اگر روزانہ استعمال
کیا جائے تو اس کی مدد سے کولیسٹرول لیول متوازن رہتا ہے ،قدرتی طور پر انسولین کی
متوازن افزائش ہوتی ہے جبکہ معدے میں ُگڈ بیکٹیریاز کے بننے کے عمل میں بھی ٓاسانی
ہوتی ہے۔
جو کے دلیے میں فیٹ کی کم مقدار اور شوگر 0فیصد پائے جانے کے سبب اس کے
روزانہ استعمال سے وزن میں کمی ٓاتی ہے ،دلیے میں فائبر کی بھاری مقدار پائے جانے
کے سبب پہلے سے موجود چربی کو بھی پگھلنے میں مدد ملتی ہے ،انسانی جسم کو جب
اضافی شوگر اور فیٹ ملنا بند ہو جاتا ہے تو جسم قدرتی طور پر پہلے سے اپنے اندر
موجود چربی اور شوگر کا استعمال شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں ورزش کیئے
بغیر ہی چربی پگھلنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وزن میں کمی ٓاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق انسانی صحت کے لیے اینٹی ٓاکسیڈنٹ غذأوں کا استعمال نہایت الزمی
مضر صحت مادوں کو زائل ِ ہے کیوں کہ ان کی مدد سے ہی جسم اور خون میں موجود
ہونے میں مدد ملتی ہے۔
اینٹی ٓاکسیڈنٹ کی کئی اقسام ہیں جن میں سے دلیے میں پولیفینول نام کا اینٹی ٓاکسیڈنٹ پایا
جاتا ہے ،دلیے کے استعمال سے سوجن اور خارش جیسی شکایات میں بھی ٓارام ملتا ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق مرغن اور مسالےدار غذأوں سے اجتناب کرنا چاہیئے خصوصا ً ِ
30سال کی عمر کے بعد ،ان غذأوں کے سبب بلڈ پریشر اور شوگر لیول بڑھتا ہے ،بلڈ
پریشر برا ِہ راست دل پر اثر انداز ہو کر دل کے عارضے میں مبتال کر سکتا ہے۔
ماہرین جلدی امرض کے مطابق انسانی جلد کی صحت کا برا ِہ راستِ ماہرین غذائیت اور
ِ
تعلق غذا سے ہوتا ہے ،اگر مسالے دار مرغن غذأوں کا استعمال کریں گے تو چہرے پر
کیل ،مہاسے ،جھائیوں کے بننے کا عمل تیز ہو جائے گا جبکہ جلد پر جھریاں بھی وقت
سے پہلے ٓا جائیں گی ،دلیے کے روزانہ استعمال سے ایک مہینے کے دوران ہی ٓاپ کے
چہرے کی جلد میں نمایاں اور مثبت اثرات ٓاتے ہیں۔
ویب ڈیسک
مئی 4 2021
مچھلی کے تیل اور چکنائی کو انسانی جسم کے لیے نہایت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے اور
اس کے لیے اس کی کیپسول بھی بازار میں دستیاب ہیں ،تاہم اب ماہرین نے اس کا
نقصان بھی دریافت کرلیا ہے۔
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل یا اومیگا تھری کیپسول
ایسے افراد میں دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی النے کا باعث بن سکتے ہیں جن کے
خون میں چکنائی یا لپڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
ویب ڈیسک
مئی 5 2021
امراض قلب دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہیں ،حال ہی میں ایک تحقیق میں ان غذاؤں
کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو امراض قلب کے خطرے کو کم کرسکتی ہیں۔
حال ہی میں ٓاسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں
کی کچھ مقدار کا روزانہ استعمال دل کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے۔
ایڈتھ کووان یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور
سبزیوں جیسے سبز پتوں والی سبزیوں اور چقندر کی زیادہ مقدار غذا کا حصہ بناتے ہیں،
ان کا بلڈ پریشر کس حد تک کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا کہ ان افراد میں برسوں بعد امراض قلب کا خطرہ کتنا ہوتا
ہے۔
تحقیق کے دوران ڈنمارک کے رہائشی 50ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا
تھا جو 23سالہ غذائی ،کینسر اور صحت تحقیق کا حصہ بنے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتے
ہیں ان میں بلڈ پریشر کی سطح 2.5ایم ایم ایچ جی کم ہوتی ہے جبکہ امراض قلب کا خطرہ
12سے 26فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسی غذاؤں کی شناخت ضروری ہے جو امراض قلب کی روک تھام
کرسکتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ روزانہ ایک کپ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں
کو کھانے سے لوگ دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتے
ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کی غذا سے امراض قلب کی اس قسم کا خطرہ 26فیصد تک
کم ہوجاتا ہے جس سے ٹانگوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں ،جبکہ ہارٹ اٹیک،
فالج اور ہارٹ فیلیئر جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
| 91 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
https://urdu.arynews.tv/foods-high-in-nitrates-good-for-heart/
ویب ڈیسک
مئی 5 2021
فضائی ٓالودگی جہاں ایک طرف تو انسانی جسم اور صحت کے لیے بے شمار نقصانات
کھڑے کرسکتی ہے وہیں کئی بار تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ دماغی
صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ محض چند ہفتے کی
فضائی ٓالودگی ہھی دماغی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے تاہم تحقیق کے مطابق منفی
اثرات کی شدت کو اسپرین جیسی ورم کش ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں مختصر المدت فضائی آلودگی اور ورم کش ادویات کے
استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع تحقیق میں مختلف ایونٹس جیسے جنگالت میں
آتشزدگی ،اسموگ ،سگریٹ کے دھویں ،کوئلے پر کھانا پکانے سے اٹھنے والے دھویں
اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے فضائی ٓالودگی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
ویکسین کے اثرات کی شکایت کرنے والوں میں اکثریت 61 ،فیصد خواتین تھیں جن کی
اوسط عمر 36سال تھی ،رپورٹ -فائل فوٹو:اے ایف پی
واشنگٹن :امریکا کی صحت کی نگرانی کرنے والی اہم ایجنسی 'مرکز برائے امراض
کنٹرول اور روک تھام' (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ کووڈ 19کی ویکسینیشن کے بعد
سامنے ٓانے والے اثرات ،بیہوش ہونا ،چکر آنا اور متلی ،اضطراب کی وجہ سے ہیں اور ان
کا تعلق ویکسین سے نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ایڈوائزری امریکا میں پانچ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن
کرنے والے مقامات سے جمع کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے اور اسے جمعہ کی سہ پہر کو
جاری کیا گیا۔
مراکز نے اضطراب سے متعلق 64کیسز کی اطالع دی جن میں اپریل کے اوائل میں
جانسن اور جانسن ویکسن کی پہلی خوراک ملنے کے بعد بیہوش ہونے کے 17کیسز بھی
شامل ہیں۔
امریکی صحت کے اداروں نے 6افراد کے خون کے جمنے کی غیر معمولی شکایت پیدا
ہونے کے بعد اس ویکسین کی فراہمی کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔
https://www.dawnnews.tv/news/1159231/
والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ ،سانس لینے میں مشکالت ،سینے میں درد ،کھانسی ،ذہنی
تشویش ،ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔
اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا ہے
اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق 57ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر
ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور النگ کووڈ کی عالمات کو مریضوں میں
بیماری کی تشخیص کے 2یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔
بعدازاں 6ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں عالمات کا جائزہ لیا گیا اور 57ہزار مریضوں
میں سے 11ہزار 400میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔
محققین نے ان افراد میں 3سے 6ماہ بعد اور 6سے 9ماہ بعد نئی عالمات کو کووڈ کے
نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔
| 97 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سے 6ماہ کے دوران 65سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے 3 3
گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ 65سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان 4گنا زیادہ تھا
جبکہ 6سے 9ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔
سے 6ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان 65سال کی عمر کے 3
35فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔
اسی طرح 3سے 6ماہ کے دوران 65سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین
کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان 2.6گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔
سے 9ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے 65سال یا اس سے زائد عمر 6
کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔
اسی عرصے میں 65سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر
چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص ایام
کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں 65سال سے کم عمر خواتین میں النگ کووڈ کی
عالمات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
محققین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر
النگ کووڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں
کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔
یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کووڈ کے نتیجے میں زیادہ بیمار نہیں ہوئے تھے
اور ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے۔
اب محققین کی جانب سے ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں پر تحقیق کی منصوبہ
بندی کی جارہی ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1159265/
جسمانی وزن کووڈ 19کے شکار افراد میں بیماری کی شدت پر اثر انداز ہونے واال عنصر
ہے۔یہ بات اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی جریدے دی النسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرینولوجی %جرنل میں شائع تحقیق میں 20ہزار
سے زیادہ کووڈ 19کے مرریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
یہ مریض کووڈ 19کی پہلی لہر کے دوران ہسپتال میں زیرعالج رہے یا ہالک ہوگئے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن کے ساتھ ساتھ کم جسمانی وزن بھی کووڈ
19کے مریضوں میں سنگین نتائج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ 20سے 39
سال کی عمر کے افراد میں زیادہ جسمانی وزن کے نتیجے میں کووڈ 19کی سنگین شدت
کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے تاہم 60سال سے زائد عمر کے افراد میں کم ہوتا ہے۔
دوران حمل ماں سے بچے میں کورونا منتقل ہونے کا امکان بہت کم ہوتا
ہے ،تحقیق
ویب ڈیسک
مئ 04 2021
—
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی حاملہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں اس
بیماری کی منتقلی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔یہ بات سوئیڈن میں ہونے والی ایک طبی تحقیق
میں سامنے آئی۔
کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور پبلک ہیلتھ ایجنسی کی اس تحقیق میں ایسے نومولود بچوں کا
جائزہ لیا گیا تھا جن کی مائیں دوران حمل یا زچگی کے دوران کووڈ 19سے متاثر ہوئیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ کووڈ سے متاثرہ حاملہ خواتین کے بچوں کی جلد
پیدائش کا امکان ہوتا ہے مگر ان میں بیماری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
طبی جریدے جاما میں شائع تحقیق میں 11مارچ 2020سے 31جنوری 2021تک
سوئیڈن میں لگ بھگ 90ہزار بچوں کی پیدائش کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ حاملہ خواتین کے بچوں میں مختلف
امراض کی شرح تھوڑی زیادہ تھی مگر اس کی وجہ قبل ا وقت پیدائش تھی اور کووڈ سے
اس کا تعل نہین تھا۔
نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کی کچھ مقدار کا روزانہ استعمال امراض لب کا خطرہ نمایاں
حد تک کم کرسکتا ہے۔یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ایڈتھ کووان یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور
سبزیوں جیسے سبز پتوں والی سبزیوں اور چقندر کی زیادہ مقدار غذا کا حصہ بناتے ہیں،
ان کا بلڈ پریشر کس حد تک کم ہوتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا کہ ان افراد میں
برسوں بعد امراض قلب کا خطرہ کتنا ہوتا ہے۔
تحقیق کے دوران ڈنمارک کے رہائشی 50ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا
تھا جو 23سالہ غذائی ،کینسر اور صحت تحقیق کا حصہ بنے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتے
ہیں ان میں بلڈ پریشر کی سطح 2.5ایم ایم ایچ جی کم ہوتی ہے جبکہ امراض قلب کا خطرہ
12سے 26فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔
محققین نے کہا کہ ایسی غذاؤں کی شناخت ضروری ہے جو امراض قلب کی روک تھام
کرسکتی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ روزانہ ایک کپ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں
کو کھانے سے لوگ دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی غذا سے امراض قلب کی اس قسم کا خطرہ 26فیصد تک کم
ہوجاتا ہے جس سے ٹانگوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں ،جبکہ ہارٹ اٹیک ،فالج
اور ہارٹ فیلیئر جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی 10نئی اقسام پر باریک
بینی سے نظر رکھی جارہی ہے۔ان اقسام میں سے 2کو امریکا میں دریافت کیا گیا تھا ،ایک
بھارت سے تعلق رکھتی ہے جو وہاں کورونا کی دوسری لہر کی بڑی وجہ سمجھی جارہی
ہے۔کورونا وائرس کی نئی اقسام روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہی ہیں کیونکہ یہ وائرس
مسلسل باشعور ہورہا ہے ،مگر ان میں سے چند ہی عالمی ادارہ صحت کی ویرینٹ آف
انٹرسٹ یا ویرینٹ آف کنسرن کی فہرستوں کا حصہ ہیں۔
باریک برفیلی سوئیوں کا پیوند :پگھل کر جسم میں دوا پہنچائے گا
ویب ڈیسک
بدھ 5 مئ2021
اس برفیلے پیوند کے ذریعے پروٹین ،پیپٹائیڈ ،ایم ٓار این اے ،ڈی این اے اور ویکسین وغیرہ
جسم میں پہنچائی جاسکیں گی۔ (فوٹو :سٹی یونیورسٹی ہانگ کانگ)
ہانگ کانگ :سٹی یونیورسٹی ہانگ کانگ کے ماہرین نے انتہائی باریک اور برفیلی
سوئیوں پر مشتمل ایک ایسا پیوند تیار کرلیا ہے جس کی سوئیاں کھال میں سرایت کرنے
کے بعد پگھل جائیں گی اور ان سے خارج ہونے والی دوا ،خون میں شامل ہوجائے گی۔
ویب ڈیسک
6 May2021
نمک کی غیرمعمولی مقدار جسمانی امنیاتی نظام اور خلیات کو کمزور کرسکتی ہے۔
لندن :طبی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ نمک کا زائد استعمال جسم کے فوجی (امنیاتی)
خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نمک مائٹوکونڈریائی افعال پر اثرانداز ہوکر نہ صرف
امنیاتی نظام کو کمزور کرتے ہیں بلکہ جسمانی سوزش کو بھی بڑھاتے ہیں۔
امراض قلب ہر مفصل تحقیق ہوچکی ہے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں
ِ اس سے قبل نمک اور
کہ نمک کی زیادتی بلڈ پریشرکوبڑھاتی ہے۔ چند برس قبل خون میں سوڈیئم کی زیادتی
سے ایک قسم کے امنیاتی خلیات مونوسائٹس کا بگاڑ بھی دیکھا گیا تھا۔
| 107 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اب ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ نمک کا غیرمعمولی استعمال امنیاتی خلیات میں
مائٹوکونڈریائی سرگرمیوں کو کزور کرتا ہے۔ مائٹوکونڈریا ہر خلیے میں پایا جاتا ہے اور
انہیں خلیاتی بجلی گھر بھی کہا جاتا ہے۔
اس طرح امنیاتی خلیات توانائی سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے بدن کی امراض سے
لڑنے کی صالحیت شدید متاثرہوسکتی ہے۔
تجربہ گاہ میں کئے گئے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کے انتہائی باریک سالمات
بھی ایک اینزائم کو روکتے ہیں جو مائٹوکونڈریا پراثر انداز ہوتےہیں۔ اس ضمن میں
رضاکاروں کو ایک پیزا کھالیا گیا جس میں اوسط دس گرام نمک موجود ہوتا ہے۔ اس کے
بعد ان کے خون کے نمونے بھی لیے گئے تھے۔
تمام افراد کے خون کے نمونوں میں دیکھا گیا کہ مائٹوکونڈریا سرگرمی سست پڑچکی
تھی۔ تاہم ٓاٹھ گھنٹے بعد یہ کیفیت نارمل ہوگئی اور مائٹوکونڈریائی سرگرمی بہتر ہوگئی۔
لیکن یاد رہے کہ نمک کا مسلسل استعمال اس عمل کو قدرے دیر تک برقرار رکھ سکتا
ہے۔
اگرچہ یہ ابتدائی تحقیقات ہیں لیکن نمک کا یہ نیا نقصان کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا۔
https://www.express.pk/story/2174666/9812/
جس طرح ہماری ٓانکھیں اور ہمارے بال شخصیت کا مظہر ہوتے ہیں کیا ٓاپ جانتے ہیں
ہمارے ناخن بھی ہماری شخصیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔جی ہاں ٓاپ کے ناخن کا شیپ
اور رنگت بتاتی ہے کہ ٓاپ کس طرح کے انسان ہیں اور کیا خصوصیات رکھتے ہیں ،مگر
کیسے؟ یہ ٓاج ہم ٓاپ کو بتائیں گے تو چلیں پھر ٓاپ بھی جان لیں کہ ٓاپ کے ناخن ٓاپ کے
بارے میں کیا بتاتے ہیں۔ ناخنوں سے شخصیت کی پہچان کیسے کریں؟ چوڑے اور چھوٹے
ناخن :اگر ٓاپ کے ناخن چپٹے اور چوڑے ہیں
تو یہ جان لیں کہ ٓاپ ایک پرسکون ،کھلے دماغ والے اور متوازن سوچ رکھنے والے انسان
ہیں تو دیکھیں کہیں ٓاپ کے ناخن چوڑے اور یہ بات سچ تو نہیں۔ چوڑے اور لمبے ناخن:
بلکل اس ہی طرح جب کے ناخن چوڑے اور لمبے ہوتے ہیں ان لوگوں کو نئے دوست بنانا
اور نئے نئے لوگوں سے ملنا پسند ہوتا ہیں پُرسکون شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور
مشکل سے مشکل حاالت میں بھی پرسکون رہتے ہیں۔ چکور ناخن :یہ عالمت بے صبرے
| 109 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لوگوں کی ہے چکور ناخن والے افراد بے چین اور بے حد کنجوس ہوتے ہیں۔ لمبے اور
پتلے ناخن :ایسے ناخن والے لوگ بہت خوش مزاج اور رومانوی انداز رکھتے ہیں اور
سماجی تعلقات بہت زیادہ رکھتے ہیں ،انہیں گھر میں رہنے سے زیادہ باہر گھومتے پھرتے
رہنا پسند ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ناخن :جن لوگوں کے ناخن بہت زیادہ چھوٹے چھوٹے
ہوتے ہیں وہ بہت جلدی اور ٓاسانی سے پر جوش ہو جاتے ہیں یہ لوگ جذباتی ہوتے ہیں،
ساتھ ہی یہ لوگ بہت گہری سوچ بھی رکھتے ہیں۔ گول اور انڈے جیسے ناخن :اگر ٓاپ کے
ناخن گول اور انڈے جیسے ہیں تو ٓاپ بہت مثبت سوچ کے مالک ہیں اور بہت ٓاسانی سے
نئی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جبکہ اپنے کام میں بھی ماہر ہوتے ہیں۔اب ٓاپ بھی اپنے ناخن
دیکھ کر بتائیں کہ ٓاپ کا ان میں سے کون سے شیپ کا ناخن ہے اور ٓاپ کی شخصیت ایسی
اظہار خیال کریں
ِ ہے یا نہیں ،ابھی ہماری ویب کے فیس بک پیج پر کمنٹ کریں اور ہم سے
https://dailyausaf.com/interesting-and-weird/news-202105-
102463.html
پاکستان میں پہلی کورونا ویکسین کی تیاری اور پیکنگ شروع کر دی گئی ہے۔
| 110 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
حکام قومی وزارت صحت (این ٓائی ایچ) کے مطابق کین سائنو ویکسین کی فارمولیشن اور
پیکنگ کا خام مال چین سے خریدا گیا ہے ،سنگل ڈوز ویکیسن کین سائنو کی فارمولیشن اور
پیکنگ شروع کی گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے ٓاخر تک مقامی طور پر فارمولیٹ ہونے والی ویکسین
عوام کے لیے میسر ہو گی۔
حکام کے مطابق رواں ماہ کے ٓاخر تک این ٓائی ایچ ایک الکھ سے زائد کورونا ویکسین کی
خوراکیں تیار کر لے گا۔
وزارت صحت کے حکام کا بتانا ہے کہ سنگل ڈوز ویکسین کین سائنو کی ایک الکھ 20
ہزار خوراکوں کا خام مال 4اور 5مئی کی درمیانی شب پاکستان پہنچا تھا۔
https://jang.com.pk/news/922735
عید کے قریب ٓاتے ہی خواتین کی جہاں کپڑے ،جوتے اور میچنگ کی چوڑیوں کی فکر
بڑھ جاتی ہے ایسے ہی میں سب سے زیادہ چہرے کی مرجھائی ہوئی بے جان ِجلد اور
پھیکی رنگت بھی پریشانی کا سبب بنتی ہے جس کا عالج ہر گھر میں موجود چند مفید
اجزا کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
| 112 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر یہ دوسرا سال ہے جہاں الک ڈأون کے دوران
متعدد سیلون بھی سیل کیے جا چکے ہیں۔
اس صورتحال میں اپنی اور اپنے خاندان والوں کی زندگی سے کھیلنے سے بہتر ہے کہ
گھر ہی میں اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کا اہتمام کر لیا جائے۔
بغیر پارلر گئے اس عید پر تروتازہ و شاداب دکھنے کے لیے ہر گھر میں با ٓاسانی دستیاب
چاولوں کا استعمال کرتے ہوئے فیشل کیا جا سکتا ہے جس کے حیرت انگیز نتائج ٓاپ
کودوبار ہ کبھی پارلر کا رُخ نہ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔
چاولوں کا استعمال صدیوں سے خوبصورتی† بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے ،اب تو بیوٹی
کاسمیٹکس پراڈکٹس بنانے والی کمپنیز بھی چاولوں کی افادیت جان گئی ہیں ،اسی لیے ان
ٰ
دعوی کیا جاتا ہے۔ کی جانب سے شیمپو اور کریموں میں چاولوں کی موجودگی کا
چاولوں کو وائٹننگ ایجنٹ قرا ر دیا جاتا ہے ،چاولوں کی مدد سے خوبصورتی سے متعلق
متعدد فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں جن میں گوری رنگت ،صاف شفاف ِجلد اور لمبے
گھنے بال شامل ہیں۔
گھر ہی میں چند دنوں میں متاثرہ ِجلد کی بحالی کے لیے رائس ٹونر بنا کر لگانا شروع کر
دیں ،عید تک یہ ٹونر کھلے مسام بند کر کے ِجلد کو ترو تازہ و شاداب بنا دے گا۔
مزید یہ کہ خوبصورتی میں اضافے کے لیے چاولوں کے استعمال کے چند طریقے
مندرجہ ذیل درج ہیں جن سے پارلر گئے اور وقت ضائع کیے بغیرٓ اج ہی سے گھر میں
محفوظ رہتے ہوئے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔
رائس ٹونر
رائس ٹونر بنانے کے لیے ایک کپ چاولوں کو دھو لیں ،اب اس میں ایک کپ پانی ڈال کر
ایک گھنٹہ یا پوری رات کے لیے ڈھانپ کر رکھ دیں ،پانی سے چاول چھاننے کے بعد
اسے ایک ہفتے کے لیے فریج میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
روزانہ چہرہ دھونے کے بعد ان چاولوں کے پانی سے روئی کی مدد سے اپنا چہرہ صاف
کریں یا اسپرے بوتل کی مدد سے چہرے پر اسپرے کر لیں۔
اس سے ٓاپ کی اسکن چمکدار اور نکھر جائے گی ،کھلے مسام بند ہو جائیں گے اور جلد
نرم و مالئم محسوس ہوگی۔
بہترین نتائج کے لیے رائس ٹونر سے اسکن صاف کرنے کے بعد تولیہ یا سوتی کپڑا نیم
گرم پانی میں بھگو کر اپنے چہرے پر چند منٹوں کے لیے رکھ لیں۔
رائس اسکرب
چاولوں میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ ،اینٹی ایجنگ ،اینٹی انفالمینٹری ،قدرتی سن اسکرین اور قدرتی
وائٹننگ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کے استعمال سے کیل
مہاسوں کی شکایت دور ہو جاتی ہے ،داغ دھبے ختم ہو جاتے ،بلیک ہیڈز کا خاتمہ اور ڈیڈ
اسکن کا بھی صفایا ہو جاتا ہے۔
رائس اسکرب کے استعمال سے ٓاپ کی جلد واضح طور پر چند دنوں میں ہی صاف شفاف
اور بے داغ ہو جاتی ہے اور ٓاپ کے چہرے پر قدرتی گورا پن ٓا جاتا ہے۔
| 113 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چاولوں کا اسکرب بنانے کے لیے کچے چالوں کو پیس لیں ،اب دو چائے کے چمچ پسے
ہوئے رائس پأوڈر میں دو چائے کے چمچ شہد مکس کر لیں ،بہترین اور واضح نتائج کے
لیے اس اسکرب سے روزانہ 10سے 15منٹ ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں۔
اگر ٓا پ کو شہد موافق نہیں ہے تو اس اسکرب میں ایلوویرا جیل یا ناریل تیل بھی مال یا جا
سکتا ہے ۔
رائس کریم اور رائس ماسک بنانے کا طریقہ
4چمچ ابلے ہوئے چاول لے لیں اور انہیں میش کر لیں ،اب اس میں 4چمچ دہی 1 ،چمچ
ٓاٹا اور 1چمچ بیسن مال لیںٓ ،اٹا اور بیسن میں سے کوئی ایک بھی استعمال کر سکتے ہیں،
اس پیسٹ کو اچھی طرح مکس کر کے یک جان بنا لیں ،اب اس میں چند قطرے ناریل تیل
کے شامل کر لیں۔
اس کریم سے 15سے 20منٹ مساج کریں اور صاف پانی سے دھو لیں۔
اب اس ہی رائس کریم کو فیس ماسک کی طرح چہرے ،گردن ،ہاتھوں ،بازؤوں پر 20
منٹ کے لیے لگائیں اور چھوڑ دیں 20 ،منٹ کے بعد صاف اور ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔
رائس کریم اور رائس ماسک بیوٹی پارلر کے وائیٹننگ فیشل سے کم نہیں ،بہترین نتائج
کے لیے اس عمل کو ہفتے میں ایک بار ضرور دہرائیں۔
طبی ماہرین کی جانب سے قہوے کا استعمال ہر حال میں مفید قرار دیا جاتا ہے جبکہ
رمضان کے دوران مختلف قہوؤں کا استعمال کر کے خود کو تروتازہ رکھا جا سکتا ہے
کیوں کہ قہوے کے استعمال سے غذا َجلد ہضم ہو جانے سمیت متعدد طبی فوائد حاصل کیے
جا سکتے ہیں۔
رمضان کے دوران افطار کے فوراً بعد چائے کی طلب ہوتی ہے ،ماہرین کی جانب سے
تجویز کیا جاتا ہے کہ افطار کے بعد دودھ والی چائے کے استعمال کے بجائے مختلف اقسام
کے قہوے جیسے کہ دار چینی ،سبز چائے ،لیمن گراس ،ادرک اور سونف کا قہوہ پینا نا
صرف غذا کو َجلد ہضم کر کے تروتازہ محسوس کرواتا ہے بلکہ بہتر نیند ،مضر صحت
مادوں کے اخراج ،کولیسٹرول اور شوگر کی سطح متوازن رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتا
ہے۔
طبی و غذائی ماہرین کے مطابق قہوہ کا باقاعدہ استعمال جہاں وزن میں کمی کا سبب بنتا ہے
وہیں رمضان کے دوران اس کے استعمال کے فوائد دگنے ہو جاتے ہیں اور قہوے کے
استعمال سے وزن مزید تیزی سے کم ہونے سمیت جلد کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوتا
ہے۔
رمضان کے دوران قہوے کے استعمال سے مجموعی صحت پر حاصل ہونے والے چند
فوائد مندرجہ ذیل ہیں:
قہوہ میں موجود قدرتی مرکبات نظام ہاضمہ پر مثبت اور پر سکون اثرات مرتب کرتے ہیں،
محققین کا ماننا ہے کہ سبز چائے میں موجود پولی فینولز معدے میں صحت کے لیے فائدہ
مند بیکٹریا کی افزائش کو بڑھاتے ہیں۔
لیے یہ تجربہ انتہائی ناخوشگوار ثابت ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس مسئلہ کے پیش
نظربے حد پریشان نظرٓاتی ہے۔
تیزابیت کی عام وجوہات
اس کی عام وجوہات میں تنأو ،بہت زیادہ مسالے اور گوشت وغیرہ کا استعمال ،تمباکو
نوشی ،بے وقت کھانے کی عادت ،معدے کے مختلف عوارض اور مخصوص ادویات
وغیرہ کا استعمال شامل ہے۔
تیزابیت میں مفید غذائیں
صحت مند طرززندگی کے حصول کے لئے بہتر غذا کا استعمال بہت ضروری ہے۔ایسی
غذائیں جن میں ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے انھیں کھانے کے بعد ایسیڈیٹی کی شکایت
ہونے کااندیشہ رہتاہے۔عموما ً وہ افراد جن کی غذائی نالی کمزور یعنی عضالتی نالی جوحلق
سے پیٹ تک جاتی ہے ،اس میں مقعد کوبند کرنے واالپٹھاہوتاہے جس کے سکڑنے سے
غذائی نالی کاخارجی راستہ بند ہوجاتاہے۔ اس سے ایسیڈیٹی کی شکایت ہوتی ہے اور
گیسٹروکامرض الحق ہونے کاخطرہ رہتاہے۔اگرغذاکاصحیح انتخاب کیاجائے تو تیزابیت
سے بچاجاسکتاہے۔اس کے عالوہ کچھ غذائیں ایسی ہیں جن کے استعمال سے تیزابیت کی
شکایت کوکم کیاجاسکتاہے۔ گیسٹرک ایسڈ سے بچنے کے لئے ان غذأوں کاروزانہ استعمال
مفید رہتاہے۔
| 117 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دلیہ
جی ہاں! یہ بچوں والی خوراک ہے لیکن بدہضمی میں انتہائی مفید ہے۔ اس کا شمار نرم اور
زود ہضم غذأوں میں ہوتا ہے ،اسی وجہ سے ڈاکٹرز تیزابیت میں دلیہ کھانے کا مشورہ
دیتے ہیں۔ اس میں موجود فائبر اپھارہ اور واٹر ریٹنشن کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتاہے۔
یہ پیٹ میں موجود اضافی ایسڈ کو جذب کرنے کی صالحیت بھی رکھتاہے۔ کچھ اور فائبر
سے لبریز غذائیں جیسے گندم اورچاول کی مصنوعات بھی فائدہ مند رہتی ہیں۔
ادرک
تیزابیت میں ادرک کااستعمال بہترین ہے۔ ادرک میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ اوراینٹی انفلیمنٹری
خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تیزابیت کے ساتھ یہ سینے کی جلن ،بدہضمی اورپیٹ کے
دیگرامراض میں بھی مفید ہے۔اگرٓاپ کوتیزابیت کے ساتھ ساتھ سینے میں جلن کی شکایت
ہوتوادرک کاقہوہ بناکراسے کمرے کے درجہ حرارت پرٓانے پر پی لیں۔ تازہ ادرک کا چھوٹا
ٹکڑا اسمودھی ،سیریل اور دیگر غذأوں کے ساتھ لیاجاسکتا ہے۔
ہرے پتوں کی سبزیاں
ہرے پتوں کی سبزیاں جیسے پالک ،پودینا،دھنیا،میتھی،کیلے،بندگوبھی وغیرہ کو اگراپنی
روزمرہ غذاکاحصہ بنالیاجائے تو تیزابیت کی شکایت سے چھٹکارا پایا جاسکتاہے۔ تیزابیت
کا مسئلہ ہوتا ہی غذا کے غلط استعمال کے سبب ہے ۔ اگرغذا کا متوازن استعمال کیا جائے
تو اس مسئلے سے بچاجاسکتاہے۔
دہی
جب بھی سینے میں جلن اور ایسیڈیٹی کی شکایت ہو تو ایک پیالہ ٹھنڈا دہی استعمال کریں۔
دہی کھانے کے بعد ٓاپ خود حیران رہ جائیں گے کہ کتنی جلدی ٓاپ کی طبیعت میں بہتری
ٓاتی ہے۔ دہی میں کیال یا خربوزہ شامل کرکے ٓاپ اس کی افادیت میں مزید اضافہ کرسکتے
ہیں۔ دہی کی غذائیت اس مسئلہ کوختم کرکے ٓاپ کو توانائی بھی فراہم کرتی ہے۔
کیال
کیلے میں الکالئن موجود ہوتاہے اسی لئے یہ ایسیڈیٹی میں کارٓامد رہتاہے۔کسی بھی ایسے
مسئلے کی صورت میں ٓاپ ایک سے دوکیلے کھاسکتے ہیں۔ کیلے ذائقہ میں مزیدارہوتے
کیا ٓاپ جانتے ہیں کہ نباتات (درخت ،پھول ،پودے) صرف ٓاپ کے گھر اور ارد گرد کے
ماحول کو ہی خوبصورت نہیں بناتے بلکہ اس کے کئی طبی فوائد بھی ہیں جو ہم برسوں
سے سنتے ٓائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سالوں سے دنیا بھر میں انہیں متعدد طریقوں
کےتحت عالج کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ پودوں کی طبی خصوصیات پر کی جانے
ویب ڈیسک
مئ 05 2021
کووڈ 19نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے واال مرض
ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن
سکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19ایسے افراد
کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔
محقق زید العلی نے بتایا 'اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ کووڈ واقعی لوگوں کو
ذیابیطس کا شکار بھی بناسکتا ہے'۔
یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ
ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کوو 2وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی می%%ں تبدیل کرتا
ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کیتعداد 46کروڑ سے زیادہ
ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں
اضافہ ہوسکتا ہے۔
ی جبکہ 2020میں ان مریض بوں میں کورونا کی 2019میں یہ شرح محض 3فیصد تھ ،
ٹیسٹنگ منظم انداز سے نہیں ہوئی ،مگر جن کے ٹیسٹ ہوئے ان میں سے ایک تہائی میں
وائرس کی تصدیق ہوئی
https://www.dawnnews.tv/news/1159404/
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19دماغ کے 2اقسام کے خلیات نیورونز اور
آسٹروسائٹس کو متاثر کرسکتی ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں
سامنے آئی۔
لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کینشاندہی ہوتی ہے
جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابیعالمات کا
باعث بنتی ہے۔ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے
متعدد اعضا بشمول دماغ کو متاثر کرسکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری ،تھکاو
اور دماغی دھند جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔
ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس سے دماغی
مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔
خلیات اور نئے کورونا وائرس کے درمیان تعلق کے حوالے سے زیادہ glialاس سے قبل
تحقیقی کام نہیں ہوا۔محققین نے بتایا کہ یہ دماغیخلیات انتہائی اہم معاون خلیات ہیں اور اب
جاکر ہم نے بیماری کے حوالے سے ان کے کردار کو سمجھنا شروع کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ خلی%%ات اعصابیخلیات کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہی%%ں ،ایک حد
قائم کرتے ہیں اور دماغ کو بیماریوں اور اعصابی خلیات کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز
سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع ہوئے۔ اس سے قبل جنوری
2021میں امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گی%%ا تھا کہ کووڈ نتھنوں
سے جسم میں داخل ہونے پر پھیپھڑوں کی بجائے براہ راست دماغ پر برق رفتار حملہ کرتی
ہے ،جس کے نتیجے میں شدت سنگین ہوتی ہے ،چاہے پھیپھڑوں سے وائرس کلیئر ہی
کیوں نہ ہوجائے۔
یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی تھی مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کا اطالق انسانوں میں
سامنے آنے والی عالمات اور بیماری کیشدت کو سمجھنے کے لی%%ے بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ خی%%ال کہ کووڈ نظام تنفس کیبیماریہے ،ضرورینہیں کہ درست
ہو ،ایک بار جب یہ دماغ کو متاثر کرلیتا ہے تو جسم کے ہر حصے کو متاثر کرسکتا ہے،
کیونکہ دماغ ہمارے پھیپھڑوں ،دل اور ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے ،دماغ ایک بہت حساس
عضو ہے
اسرائیل میں ہونے والی تحقیق کے دوران 43مردوں کے اسپرم کے نمونے ویکسین کے
استعمال سے پہلے اور استعمال کے ایک ماہ بعد اکٹھے کیے گئے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کے استعمال کے بعد اسپرم کی مقدار ،اجتماع اور
دیگر افعال میں کوئینمایاں تبدیلی آئی۔اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع
میں شائع کیے گئے۔ medRxivنہیں ہوئے بلکہ آن الئن پری پرنٹ سرور
اس تحقیق میں 32خواتین کو شامل کیا گیا تھا جن کو 3گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا ،ایک
ویکسین استعمال کرنے واال ،دوسرا کووڈ 19کو شکست دینے واال جبکہ تیسرا ایسا تھا
جس کو نہ تو وائرس کا سامنا ہوا تھا اورر نہ ویکسین استعمال کی تھی۔
تحقیق کے دوران خواتین کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے تاکہ دیکھا جاسکے کہ بچے
پی%%دا کرنے کیصالحیت پر کس حد تک اثرات مرتب ہوئے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19کا شکار ہونے والی خواتین کیاس صالحی%%ت می%%ں
کسی قسم کیتبدیلی نہیں آئی تھی۔
محققین نے بتایا کہ ہم یہ دریافت کرکے بہت خوشی محسوس کررہے ہیں کہ ویکسین سے
خواتین کو ک%سیقسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ ان میں وائرس کے خالف کام کرنے
والی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے ان اینٹی باڈی%%ز کو ٹریک کیا اور ہر
مریض کے خون اور سیال میں یہ اینٹی باڈیز دریافات کی گئیں ،جو کہ اہم ہے کیونکہ اس
سے تحفظ ملنے کا علم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متعدد افراد کووڈ ویکسین سے اس لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہی%%ں لگتا ہے
کہ اس سے خواتین بانجھ پن کا شکار ہوسکتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے وبائی امراض کے بڑھتے خطرات کی نگرانی اور
ان کی روک تھام کے لیے جرمنی میں ایک مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پانچ مئی بدھ کے روز اعالن کیا کہ ابھرتے ہوئے
وبائی امراض کے خطرات کا پتہ لگانے کے لیے عالمی ڈیٹا رکھنے کے مقصد سے
جرمنی میں ایک نیا مرکز قائم کیا جائے گا۔
وبائی امراض سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا یہ مرکز (ہب فار پینڈمک اینڈ ایپیڈمک انٹیلی
جنس) اس برس ماہ ستمبر سے برلن میں اپنا کام شروع کر دے گا۔ عالمی ادارہ صحت کا
کہنا ہے کہ یہ مرکز دنیا بھر میں وبائی خطرات کی پیش گوئی ،ان کی روک تھام ،اس کے
لیے تیاری ،تالش اور اس کے سد باب کے لیے تیزی سے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کا کام کرے
گا۔یہ ادارہ عالمی سطح پر دیگر ممالک اور سائنسی اداروں کے درمیان تعاون کو مزید
| 132 جلد،۵شمارہ ۹ | ۱۲۳مئی ۳-۲۰۲۱مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
فروغ دینے کا بھی کام کرے گا۔ یہ مرکز موجودہ نظام کے مقابلے وبائی امراض کے
اشاروں اور عالمتوں کا بہت پہلے پتہ لگا سکے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئس نے اس بارے میں صحافیوں سے
بات چیت کرتے ہوئے کہا'' ،کووڈ انیس کی عالمی وبا نے وباوں سے متعلق بین االقوامی
نظام میں پائے جانے والے خالء کو واضح کر دیا ہے
ان کا مزید کہنا تھا'' ،اسی طرح کے مزید وائرس بھی ہوں گے جو وبائی امراض پھیالنے
کی صالحیت کے ساتھ ابھریں گے۔ وائرس تو بہت تیزی سے پھیلتے ہیں۔ لیکن اعداد و
شماراس سے بھی زیادہ تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ صحیح معلومات کے ساتھ ،دنیا
کے ممالک اور مختلف برادریاں ابھرتے ہوئے خطرات سے ایک قدم آگے رہ سکتی ہیں
''اور جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔
برلن شہر صحت کا مرکز ہے
جرمن چانسلر انگیال میرکل کا کہنا تھا کہ متعدی امراض پر تحقیق کے لیے معروف
رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کے ساتھ برلن تو پہلے ہی سے صحت اور ڈیجیٹل
تحقیق کا مرکز رہا ہے۔
اس موقع پر ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا '' ،اب اگر اس خصوصی علم و مہارت کو
ڈبلیو ایچ او کا مرکز مزید تقویت بخشتا ہے تو اس سے ہم برلن میں وبائی امراض اور
صحت کے لیے ایک بہترین ماحول تیار کر سکیں گے۔ ایک ایسا ماحول جہاں سے دنیا بھر
'' کی حکومتوں اور رہنماؤں کے لیے عمل پر مبنی بصیرت ابھر کر سامنے آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مرکز حکومتی ،تعلیمی اور نجی شعبوں کو ایک ساتھ النے کا کام
کرے گا۔ وزیر صحت جینز اسپہان کا کہنا تھا کہ وبائی امراض کے پھیالؤ کو روکنے،
انفیکشن اور دیگر بیماریوں کو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے جیسے معامالت کی
''روک تھام کے لیے موجودہ عالمی نظام ''پوری طرح سے تیار نہیں ہے۔
جرمنی نے اس مرکز کی شروعات کے لیے تقریبا ًساڑھے تین کروڑ ڈالر کی امداد دینے
کا بھی اعالن کیا ہے جبکہ باقی بجٹ کے حوالے سے ابھی بات چیت جاری ہے۔موجودہ
وائرس سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ
کورونا وائرس سن 2019کے ستمبر میں پیدا ہوا ہوگا جبکہ عالمی اداروں کو اس کا کئی
مہینوں بعد پتہ چال تھا اور تب اسے ایک عالمی وبا کے طور پیش کیا گیا۔
ص ز /ج ا( اے ایف پی ،ڈی پی اے ،اے پی)
تاریخ06.05.2021
Web