You are on page 1of 133

‫‪Weekly Tibbi Tehqeeqat‬‬

‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪Issue 123 – Vol. 5‬‬


‫‪03 May -09 May 2021‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع‬
‫ہونے واال ہفتہ وارجریدہ‬
‫‪Managing Editor‬‬

‫‪Mujahid Ali‬‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬

‫|‪1‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ت‬
‫حق ق‬
‫طِب ّی ی ات‬

‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬


‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫شمارہ نمبر‪ ۱۲۳‬جلد نمبر ‪۵‬‬


‫مئی تا ۔ ‪ ۹‬مئ‪۳ ۲۰۲۱‬‬

‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ‬


‫ساتھ مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔‬
‫سرپرست‪:‬محمدعثمان‬
‫اس کے عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫ادارہ جات‪،‬معالجین حکماء‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری اورہرطرح کی‬ ‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔‬
‫اوریوں تقریبا پورے پاکستان میں اسکی‬
‫سرکولیشن کی جاتی ہے اورآپکے کاروبار‪،‬‬
‫پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ کابہترین ذریعہ ہے‬
‫ادارتی ممبران‬
‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬

‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‪%‬‬


‫رحمت ہللا ادارہ فروغ‪ %‬تحقیق الہور‪%‬‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‬
‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے‬

‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬


‫ماہرانہ مشاورت‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫حکیم زبیراحمد‪%‬‬
‫ڈاکٹرواصف‪ُ %‬نور‬
‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹ رمحمدتحسین‬
‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫عثمان پبلی کیشنز‬ ‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‬
‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے‬
‫|‪2‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬

‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیل‬
‫صحت مند زندگی کیلئے خوراک نہیں کیلوریز گھٹائیں‬

‫مئی ‪04 2021 ،‬‬

‫وزن میں کمی اور بہتر صحت کے لیے اکثر افراد ڈائیٹنگ کا سہار ا لیتے ہیں جو کہ‬
‫ماہرین کی جانب سے مضر صحت قرار دی جاتی ہے‪ ،‬صحت مند وزن اور چاق و چوبند‬
‫زندگی گزارنے کے لیے اعتدال میں رہتے ہوئے سب غذأوں کا استعمال اور کیلوریز کو کم‬
‫کرنا نہایت ضروری اور مفید عمل ہے۔‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق وزن کو مطلوبہ سطح پر النے‪ ،‬دل کی صحت اور‬
‫جسمانی اعضا کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ’کریش ڈائٹ‘ کو اپنانے کے بجائے‬
‫روزانہ کی بنیاد پر ہر قسم کی غذا کو اعتدال میں رہتے ہوئے اپنے دسترخوان کا حصہ‬
‫بنانا چاہیے۔‬

‫|‪3‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کی جانب سے بہتر صحت کے لیے بازار سے ملنے والی ریڈی میڈ اور پروسیسڈ‬
‫غذأوں کے استعمال سے ہر حال میں گریز اور گھر کے بنے سادے کھانوں پر زور دیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق سادہ غذا کے استعمال میں ہی صحت اور لمبی زندگی کا راز ہے‪،‬‬
‫ڈبل روٹی یا میدے سے بنی روٹی کھانے کے بجائے چکی کے ٓاٹے کی روٹی کا استعمال‬
‫کرنا مفید ہے‪ ،‬روزانہ کی بنیاد پر دو وقت کے کھانے کے ساتھ سالد بھی الزمی کھانا‬
‫چاہیے جس میں مختلف کچی سبزیاں جیسے کہ گاجر‪ ،‬مولی ‪،‬پیاز‪،‬ٹماٹر‪ ،‬پالک موجود ہو۔‬

‫سادہ اور گھر کے بنے کھانوں میں کیلوریز کم پائی جاتی ہیں اور ان کے استعمال سے‬
‫ہائی بلڈ پریشر‪ ،‬ہائی بلڈ شوگر‪ ،‬کمر کے اِرد گرد اضافی چربی اور کولیسٹرول کی غیر‬
‫قابل ذکر حد تک کمی الئی جا سکتی ہے۔‬ ‫معمولی سطح میں ِ‬
‫دو برس مشتمل ’دی النسیٹ ڈائیبٹیز اینڈ اینڈو کرینالوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق‬
‫کے دوران رضاکاروں کو اپنی کیلوریز کی یومیہ کیلوریز میں ‪12‬فی صد یعنی ‪300‬‬
‫کیلوریز کم کرنے کو کہا گیا‪ ،‬کم کیلوریز لینے کے اس عمل کے دوران ان رضاکاروں‬
‫کے موٹاپے میں ‪16‬پونڈ تک کمی دیکھنے میں ٓائی۔‬

‫تحقیق کے نتائج میں‪ ‬مزید یہ با ت سامنے ٓائی ہے کہ کیلوریز میں کٹوتی انسانی جسم کے‬
‫وزن میں کمی‪ ،‬طویل عمر اور بہتر صحت پر اثرانداز ہوتی ہے جبکہ ورزش صرف‬
‫انسانی صحت کے دورانیے پر اثرانداز ہوتی ہے‪ ،‬ورزش سے زندگی کا دورانیہ نہیں‬
‫بڑھتا۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق ایک بالغ خاتون روزانہ کی بنیاد پر ‪ 1600‬سے ‪ 2400‬کیلور کا‬
‫استعمال کر سکتی ہے جبکہ مرد حضرات کو ‪ 2‬ہزار سے ‪ 3‬ہزار کیلوریز کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ درکار کیلوریز کا براہ راست تعلق انسانی عمر‪،‬‬
‫صنف‪ ،‬وزن اور جسمانی سرگرمیوں کی نوعیت پر ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق کیلوریز میں محدود پیمانے پر کمی الکر انسان اپنی جسمانی صحت کو‬
‫بہتر اور متعدد بیماریوں کے خطرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن یہ بات نہیں‬
‫بھولنی چاہیے کہ ہر شخص کو اس کی عمر‪ ،‬صنف‪ ،‬وزن اور جسمانی سرگرمیوں کے‬
‫مطابق کیلوریز کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقدار سے کم کیلوریز‬
‫لینا اس کی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کرسکتا ہے۔‬

‫ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر صحت کے لیے ہمیں اپنی کیلوریز پر نظر رکھنے‬
‫کے ساتھ روزمرہ زندگی میں باقاعدگی سے صحت مند غذأوں کا استعمال کرنا چاہیے‪،‬‬
‫جیسے تازہ سبزیاں‪ ،‬پھل‪ ،‬الل اور سفید گوشت‪ ،‬گری دار میوے‪ ،‬بیج اور پھلیاں وغیرہ۔‬

‫|‪4‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://jang.com.pk/news/921833‬‬

‫کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد‬


‫کو ہوسکتی ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪4 2021‬‬

‫کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد میں کئی ماہ تک کووڈ ‪ 19‬کی عالمات کو‬
‫دیکھا گیا جسے النگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی‬
‫تحقیق کی ہے۔‬
‫حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے‬
‫ضروری نہیں کہ معمر مریض ہوں بلکہ ‪ 65‬سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا‬
‫خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ‪ ،‬سانس‬
‫لینے میں مشکالت‪ ،‬سینے میں درد‪ ،‬کھانسی‪ ،‬ذہنی تشویش‪ ،‬ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات‬
‫کا سامنا ہوتا ہے۔‬

‫|‪5‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا‬
‫ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق ‪ 57‬ہزار سے زائد کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر‬
‫ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور النگ کووڈ کی عالمات کو مریضوں میں‬
‫بیماری کی تشخیص کے ‪ 2‬یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔‬
‫بعد ازاں ‪ 6‬ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں عالمات کا جائزہ لیا گیا اور ‪ 57‬ہزار مریضوں‬
‫میں سے ‪ 11‬ہزار ‪ 400‬میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔‬
‫ماہرین نے ان افراد میں ‪ 3‬سے ‪ 6‬ماہ بعد اور ‪ 6‬سے ‪ 9‬ماہ بعد نئی عالمات کو کووڈ کے‬
‫نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔‬
‫سے ‪ 6‬ماہ کے دوران ‪ 65‬سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے ‪3 3‬‬
‫گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ ‪ 65‬سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان ‪ 4‬گنا زیادہ تھا‬
‫جبکہ ‪ 6‬سے ‪ 9‬ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔‬
‫سے ‪ 6‬ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان ‪ 65‬سال کی عمر کے ‪3‬‬
‫‪ 35‬فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔‬
‫اسی طرح ‪ 3‬سے ‪ 6‬ماہ کے دوران ‪ 65‬سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین‬
‫کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان ‪ 2.6‬گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫سے ‪ 9‬ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر ‪6‬‬
‫کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔‬
‫اسی عرصے میں ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر‬
‫چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص‬
‫ایام کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں ‪ 65‬سال سے کم عمر خواتین میں النگ کووڈ کی‬
‫عالمات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر‬
‫النگ کووڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں‬
‫کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/long-covid-research/‬‬

‫کرونا وائرس‪ :‬جسمانی وزن کے حوالے سے ایک اور تشویش ناک‬


‫تحقیق‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫|‪6‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مئی ‪4 2021‬‬

‫کرونا وائرس کے حوالے سے نئی نئی ریسرچز جاری ہیں‪ ،‬ماہرین نے موٹاپے کو کرونا‬
‫وائرس کے حوالے سے اہم خطرہ قرار دیا تھا تاہم اب ماہرین نے کہا ہے کہ معمولی سا‬
‫زیادہ وزن بھی کرونا وائرس کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔‬
‫حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی وزن کووڈ ‪ 19‬کے شکار افراد میں‬
‫بیماری کی شدت پر اثر انداز ہونے واال عنصر ہے۔‬
‫طبی جریدے دی النسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرونولوجی جرنل میں شائع تحقیق میں ‪ 20‬ہزار‬
‫سے زیادہ کووڈ ‪ 19‬کے مرریضوں† کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا‪ ،‬یہ مریض کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫پہلی لہر کے دوران اسپتال میں زیر عالج رہے یا ہالک ہوگئے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن کے ساتھ ساتھ کم جسمانی وزن بھی کووڈ‬
‫‪ 19‬کے مریضوں میں سنگین نتائج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 20‬سے ‪ 39‬سال کی عمر کے افراد میں زیادہ جسمانی وزن کے‬
‫نتیجے میں کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے تاہم ‪ 60‬سال سے زائد‬
‫عمر کے افراد میں کم ہوتا ہے۔‬
‫آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے‬
‫کہ جسمانی وزن میں معمولی اضافہ بھی کووڈ ‪ 19‬کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھا‬
‫سکتا ہے اور وزن میں جتنا اضافہ ہوگا‪ ،‬خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ‪ 40‬سال سے کم عمر افراد میں اضافی وزن سے خطرہ زیادہ بڑھ جاتا‬
‫ہے تاہم ‪ 80‬سال کی عمر کے افراد میں اس سے بیماری کے نتائج پر کوئی اثرات مرتب‬
‫نہیں ہوتے۔‬

‫|‪7‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن پالیسیوں میں موٹاپے کے شکار افراد کو ترجیح دی جانی‬
‫چاہیئے۔‬
‫اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ باڈی ماس انڈیکس میں ‪ 23‬کلو گرام یا اس سے زیادہ‬
‫جسمانی وزن والے افراد کو زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہوا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ نہیں جانتے کہ جسمانی وزن میں کمی النا کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫سنگین شدت کا خطرہ کم کرسکتا ہے یا نہیں مگر یہ قابل قبول محسوس ہوتا ہے‪ ،‬جبکہ اس‬
‫کے دیگر طبی فوائد بھی ہوتے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/covid-19-and-body-mass/‬‬

‫کرونا ویکسی نیشن وائرس کے پھیالؤ کا خطرہ کتنا کم کرے گی؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪3 2021‬‬

‫امریکی ماہرین نے ایک ماڈل کی پیشگوئی کی بنیاد پر کہا ہے کہ کووڈ ویکسی نیشن‬
‫کرونا وائرس کے پھیالؤ کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ‬
‫ویکسی نیشن کی شرح کو بڑھانا کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں کمی اور اسے‬
‫کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‬

‫|‪8‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین نے اس حوالے سے ایک کمپیوٹر ماڈل تیار کیا تھا جس کی مدد سے ملک گیر‬
‫سطح پر کووڈ ‪ 19‬کیس کی شرح کی درست پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا‬
‫کہ امریکی ریاست منی سوٹا میں ویکسی نیشن سے مثبت کیسز اور اموات کی شرح میں‬
‫نمایاں فرق ٓایا۔‬
‫طبی جریدے مایو کلینک پروسیڈنگز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ پیشگوئی کرنے واال‬
‫کمپیوٹر ماڈل ویکسنیشن کی رفتار کی بنیاد پر مستقبل میں کیسز کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔‬
‫اس ماڈل کے ذریعے محققین نے تخمینہ لگایا کہ اگر منی سوٹا میں اس موسم بہار میں‬
‫ویکسینشن نہ ہوئی تو ٓائی سی یو میں ‪ 800‬سے زیادہ مریض داخل ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس تخمینے میں کرونا وائرس کی نئی اقسام کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا اور ٓائی سی یو میں‬
‫مریضوں کی تعداد یکم دسمبر کے مقابلے میں دوگنا بتائی گئی تھی۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ریاست کی ‪ 75‬فیصد ویکسینیشن اپریل کے ابتدا میں ہوگئی تو‬
‫جوالئی تک ہسپتالوں اور ٓائی سی یو میں زیرعالج مریضوں کی تعداد نمایاں حد تک کم‬
‫ہوجائے گی۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن کی زیادہ شرح سے کووڈ کیسز اور اسپتال میں زیر‬
‫عالج مریضوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-vaccination-to-reduce-cases/‬‬

‫کرونا وائرس کی ایک اور قسم کے بارے میں پریشان کن انکشاف‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 3 2021‬‬

‫|‪9‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کرونا وائرس کے پھیلنے کے ایک سال بعد اب اس وائرس میں بھی تبدیلیاں ٓارہی ہیں‬
‫جنہوں نے ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے‪ ،‬حال ہی میں کرونا وائرس کی ایک نئی قسم‬
‫کے بارے میں پریشان کن انکشاف ہوا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ برازیل میں‬
‫سب سے پہلے نمودار ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں‬
‫زیادہ متعدی ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ برازیل میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پی ‪1‬‬
‫ماضی میں کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ ٓاور‬
‫ہونے کی صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫برازیل کرونا وائرس کی وبا سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے بالخصوص میناوس نامی شہر پر‬
‫سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ ‪ 2020‬کے وسط میں میناوس کے ‪ 75‬فیصد کے قریب افراد‬
‫کرونا کی پہلی لہر سے متاثر ہوئے تھے اور کچھ ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اس شہر‬
‫میں بیماری کے خالف اجتماعی مدافعت پیدا ہوگئی ہے۔‬
‫مگر سنہ ‪ 2020‬کے اختتام پر اس شہر میں کووڈ کی دوسری لہر سامنے ٓائی جس میں پی‬
‫‪ 1‬قسم کا ہاتھ تھا۔‬
‫تحقیق میں شامل کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ماہرین کہنا تھا کہ ہمارے ماڈل سے عندیہ ملتا‬
‫ہے کہ پی ‪ 1‬کرونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ متعدی ہے اور دیگر اقسام سے ہونے‬
‫والی بیماری سے جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ ٓاور ہوسکتی ہے۔‬
‫محققین نے پی ‪ 1‬میں ‪ 17‬میوٹیشنز کو دریافت کیا جن میں سے ‪ 3‬اسپائیک پروٹین میں‬
‫ہوئی تھیں۔‬

‫| ‪10‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسپائیک پروٹین میں ہونے والی ‪ 3‬میوٹیشنز سے اس نئی قسم کو انسانی خلیات کو مؤثر‬
‫طریقے سے جکڑنے میں مدد ملی‪ ،‬جن میں سے ایک میوٹیشن این ‪ 501‬وائے برطانیہ اور‬
‫جنوبی افریقہ میں دریافت اقسام میں بھی دیکھی گئی تھی۔‬
‫اس میوٹیشن سے وائرس کے لیے انسانی خلیات کو جکڑنا زیادہ ٓاسان ہوجاتا ہے جبکہ‬
‫ایک اور میوٹیشن ای ‪ 484‬کے تھی جو وائرس کو موجودہ مدافعتی ردعمل کو پیچھے‬
‫چھوڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی ‪ 1‬کورونا وائرس کی اوریجنل قسم کے ساتھ ساتھ دیگر‬
‫اقسام کے مقابلے میں ‪ 1.4‬سے ‪ 2.2‬گنا زیادہ متعدی ہے۔‬
‫اسی طرح یہ قسم پرانی اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں پیدا ہونے والی امیونٹی کی‬
‫شرح کو بھی ‪ 10‬سے ‪ 46‬فیصد تک کم کر سکتی ہے‪ ،‬جس سے لوگوں میں دوسری بار‬
‫کووڈ کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق میناوس کے رہائشیوں میں پی ‪ 1‬سسے متاثر ہونے پر موت کا خطرہ‬
‫دیگر اقسام کے مقابلے میں ‪ 1.2‬سے ‪ 1.9‬گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫برازیل میں دریافت ہونے والی یہ نئی قسم پاکستان سمیت متعدد ممالک تک پھیل چکی ہے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-brazilian-variant/‬‬

‫ماہرین نے بریسٹ کینسر سمیت کئی قسم کے کینسر کے عالج سے‬


‫متعلق خوش خبری سنا دی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 3 2021‬‬

‫| ‪11‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ورجینیا‪ :‬امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج سے بریسٹ کینسر سمیت‪y‬‬
‫دیگر کئی اقسام کے کینسر کے عالج سے متعلق ایک نئی امید پیدا ہو گئی ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی کے میسی کینسر سینٹر میں کی‬
‫جانے والی اس تحقیق میں چھاتی کے کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کو دریافت کر لیا‬
‫گیا ہے۔‬
‫اس ریسرچ کی رپورٹ جرنل برائے نیچر پارٹنر جرنلز میں شائع ہوئی ہے‪ ،‬بریسٹ کینسر‬
‫کا سبب بننے واال ہارمون میسی کینسر سینٹر کے محقق چارلس کلیوینجر اور ان کی لیب‬
‫نے دریافت کیا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کی دریافت سے کئی دیگر‬
‫اقسام کے کینسر کا عالج بھی ممکن نظر آنے لگا ہے۔‬
‫ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی میں ہونے والی اس حالیہ تحقیق میں اس بات کے مضبوط‬
‫شواہد ملے ہیں کہ چھاتی میں کینسر کی افزائش کا سبب بننے واال ایک ہارمون پروکلیٹین‬
‫دراصل بریسٹ گروتھ کا سبب بنتا ہے‪ ،‬اور یہ حمل کے دوران ماں کے دودھ میں اضافے‬
‫کی وجہ بھی ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے اس ہارمون کو بریسٹ کینسر کا اہم سبب قرار دیا ہے‪ ،‬انھوں نے خوش خبری‬
‫سنائی کہ یہ ہارمون ٹارگیٹڈ دوا کی تیاری میں کافی مفید ثابت ہوگا‪ ،‬اور اس سے کئی قسم‬
‫کے کینسر کا عالج کیا جا سکے گا۔‬
‫محققین کے مطابق بریسٹ کینسر کا براہ راست سبب بننے والے اس ہارمون کے خلیات‬
‫کی سطح پر پروٹین موجود ہوتا ہے‪ ،‬جسے رسیپٹرز کہتے ہیں۔ یہ ریسپٹرز بائیولوجیکل‬
‫پیغامات وصول کرنے اور بھیجنے کے ساتھ خلیے کے افعال کو بھی ریگولیٹ† کرتے ہیں۔‬

‫| ‪12‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/hormone-that-causes-breast-cancer/‬‬

‫رمضان میں وزن میں کمی اور کولیسٹرول میں اضافہ‪ ،‬حل کیا ہے؟‬
‫جانیں‪ ‬‬
‫‪   ‬‬
‫‪03/05/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)رمضان کے دوران اکثر و بیشتر افراد کا روزے رکھنے کے سبب‬
‫وزن کم ہوتا ہے مگر اس دوران مرغن غذأوں کے استعمال سے کولیسٹرول میں اضافہ‬
‫ہوجاتا ہے جس سے متعلق جاننا اور بر وقت اسے متوازن سطح پر النا نہایت ضروری ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق رمضان مبارک میں کھانے پینے کی ایک روٹین بن جاتی ہے‪ ،‬دو‬
‫کھانوں اور دن کے بڑے حصے کے درمیان ہم کچھ نہیں کھاتے پیتے جس کے نتیجے میں‬
‫اضافی کیلوریز کے روٹین میں سے ختم ہوجانے کے سبب‬
‫صحت بہتر اور وزن میں کمی ٓاتی ہے‪ ،‬مگر ہم کچھ غلطیوں کے نتیجے میں رمضان کا‬
‫فائدہ اٹھانے اور صحت پہلے سے بہتر بنانے کے بجائےمزید بگاڑ لیتے ہیں۔رمضان کے‬
‫دوران ہر گھر میں مرغن غذأوں اور گوشت‪ ،‬انڈے‪ ،‬دودھ‪ ،‬مکھن اورگھی وغیرہ کا استعمال‬
‫باقاعدگی سے کیا جاتا ہے‪ ،‬اس صورت میں روزوں کے سبب وزن تو کم ہو رہا ہوتا ہے‬
‫مگر خون میں منفی کولیسٹرول کی سطح بڑھ رہی ہوتی ہے جس پر بر وقت قابو پانا چاہیے‬
‫ورنہ صحت سے متعلق بڑے مسائل سے دو چار ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ماہرین‬
‫کے مطابق کو لیسٹرول کی زیادتی کے نتیجے میں رمضان کے مہینے میں انسان خود کو‬
‫تروتازہ اور بہتر محسوس کرنے کے بجائے بوجھل‪ ،‬تھکا ہوا‪ ،‬سُست محسوس کرتا ہے اور‬
‫بد ہضمی‪ ،‬تیزابیت کا شکار بھی نظر ٓا تا ہے‪ ،‬ایسے میں‬

‫| ‪13‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کولیسٹرول کی زیادتی کے سبب چہرے پر دانے کیل مہاسے بھی بڑھ جاتے ہیں جو کہ‬
‫واضح اشارہ ہے کہ خون میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ چکی ہے جس سے ِجلد از جلد جان‬
‫چھڑانا الزمی ہے۔طبی و غذائی ماہرین کی جانب سے ‪ 12‬مہینے سبزیوں اور پھلوں کا‬
‫استعمال ہی تجویز کیا جاتا ہے‪ ،‬مرغن اور تلی ہوئی غذأوں کے استعمال کے نتیجے میں‬
‫انسانی صحت دن بہ دن بگڑتی چلی جاتی ہے جسے بہتر بنانے کے لیے ٓاسان اقدامات کیے‬
‫جا سکتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق کولیسٹرول کی خون میں زیادتی بڑا مسئلہ نہیں جس‬
‫پر قابو نہ پایا جا سکتا ہو‪ ،‬سادہ غذا کے استعمال اور روزانہ کی بنیاد پر ہلکی پھلکی ورزش‬
‫کر کے اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے‬
‫۔سبزیوں اور پھلوں میں کولیسٹرول بالکل نہیں پایا جاتا‪ ،‬سبزیاں کھانے سے انسان خود کو‬
‫تروتازہ محسوس کرتا ہے‪ ،‬کولیسٹرول کی سطح متوازن بنانے کے لیے لہسن بہترین جز‬
‫ہے‪ ،‬رمضان کے دوران لہسن کی پودینے اور ٹماٹر کے ساتھ چٹنی بنا کر استعمال کی جا‬
‫سکتی ہے۔دوسری جانب کچی سالدجیسے کے بندگو بھی‪ ،‬پالک اور گاجر کا استعمال بھی‬
‫کولیسٹرول کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے‪ ،‬روزانہ کچی سالد کھانے سے معدہ بھی‬
‫ٹھیک رہتا ہے اور بھوک بھی لگتی ہے‪،‬کولیسٹرول کی مقدار بھی متوازن رہتی ہے ۔ماہرین‬
‫کے مطابق رمضان کے دوران اگر تلی ہوئی غذأوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو کوشش‬
‫کریں اپنی من پسند غذأوں کو زیتون‪ ،‬سویا بین‪ ،‬سورج مکھی‪ ،‬مونگ پھلی یا سرسوں کے‬
‫تیل میں تلیں۔کوشش‪ %‬کریں کہ سحری اور افطاری گھر میں ہی بنائیں‪ ،‬باہر کے کھانوں سے‬

‫| ‪14‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مکمل اجتناب کریں۔بڑھے ہوئے کولیسٹرول کی سطح نیچے النے کے لیے چکی کے ٓاٹے‬
‫کی روٹی کا استعمال کریں۔بیکری سے ملنے والی ڈبل روٹی اور‬
‫دیگر مصنوعات سے پر ہیز کریں‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102198.html‬‬

‫چقندر کا جوس انسانی صحت کیلئے کتنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟‬
‫شہریوں کیلئے بڑی خبر ٓاگئی‬
‫‪     ‬‬
‫‪03/05/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)چقندر کا شمار جڑوں والی میٹھی سبزیوں میں ہوتا ہے‪ ،‬تحقیقات‬
‫بتاتی ہیں کہ اس کا جوس صحت کے لیے کافی فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس میں جسم کے‬
‫لئے ضروری وٹامنز اور معدنیات ہوتے ہیں۔ میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے‬
‫مطابق بلڈ پریشر کو کم کرنے میں چقندر کا جوس فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔‬

‫ماہرین کے مطابق جو لوگ روزانہ چقندر کا جوس پیتے ہیں انہیں بلڈ پریشر کی بیماری کم‬
‫ہوتی ہے۔ چقندر کے جوس میں نائٹریٹ‬
‫| ‪15‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوتا ہے جو خون میں نائٹرک ایسڈ میں تبدیل ہوتا ہے اور خون کی نالیوں میں وسعت اور‬
‫سکون کا باعث بنتا ہے۔چقندر کا جوس پالزما نائٹریٹ کی سطح کو بڑھاتا ہے اور جسمانی‬
‫کارکردگی کو بڑھاتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے بہترین ہے جو سائیکلنگ کرتے ہیں یا‬
‫پیدل سفر کرتے ہیں‪ ،‬اس سے جسم میں ٓاکسیجن کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔چقندر کا جوس‬
‫نائٹریٹ مرکبات پر مشتمل ہوتا ہے‪ ،‬یہ ہضم ہونےکے بعد نائٹریٹ ٓاکسائڈ میں تبدیل ہوجاتا‬
‫ہے‪ ،‬جو بدلے میں شریانوں کو وسعت اور ٓارام دیتا ہے‪ ،‬بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے‪ ،‬اور جسم‬
‫میں خون کی گردش کے بہأو کو ٓاسان بناتا ہے۔ایک طبی تحقیق کے مطابق چقندر میں‬
‫موجود نائٹریٹ خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے دماغ میں خون کے بہأو میں اضافہ‬
‫کرتے ہیں اور ان کےمنفی اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کا ایک کپ دن میں‬
‫استعمال ڈیمنشیا اور دماغ اور دیگر عصبی امراض کو سست کرتا ہے۔چقندرکےجوس میں‬
‫کم کیلوریز اورکم چربی ہوتی ہے‪ ،‬لہذا یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے جو‬
‫ڈائیٹ کرتے ہیں۔چقندر کے جوس میں انتہائی کم کیلوریز اورکم چربی ہوتی ہے ‪ ،‬لہذا اس کا‬
‫جوس ایک بہترین انتخاب ہے جو خاص طور پر دن کے ٓاغاز میں جسم کو توانائی اور‬
‫غذائی اجزا مہیا کرتا ہے۔چقندر کا جوس اینٹی ٓاکسڈینٹ سے ماال مال ہوتا ہے‪،‬‬
‫پانی میں حل ہوجاتا ہے۔ اس میں موجود اجزا میں کچھ کینسر سیلز کے خالف حفاظتی‬
‫صالحیت رکھتے ہیں۔چقندر کے جوس میں شامل ایک اہم اینٹی ٓاکسڈینٹ ہوتا ہے جو خاص‬
‫نوع میں پایا جاتاہے۔ خاص طور پر اس قسم کے اینٹی ٓاکسڈینٹ جسم کو کچھ قسم کے‬
‫کینسرکے خلیوں سے بچاتا ہے۔پوٹاشیم اعصاب اور پٹھوں کو صحیح طریقے سے کام‬
‫کرنے میں مدد کرتا ہے‪ ،‬اور اگر پوٹاشیم کی سطح بہت کم ہو تو تھکاوٹ‪ ،‬کمزوری اور‬
‫پٹھوں میں کھچأوپیدا ہوسکتا ہے۔چقندر کے جوس کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ‬
‫پوٹاشیم سے ماال مال ہوتا ہے‪ ،‬اعتدال میں اسے پینے سے پوٹاشیم کی زیادہ سے زیادہ سطح‬
‫برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔‬
‫چقندر کا جوس خون کو ناپاک اور زہریلے مادوں سے پاک کرتا ہے ‪ ،‬جو جلد صاف اور‬
‫اس کی چمک کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔چقندر کے جوس میں وٹامن سی ہوتا ہے ‪ ،‬جو‬
‫جلد کو صاف کرنے اور اس کو مہاسوں سے بچانے کے لئے بہت ضروری ہے۔چقندر کے‬
‫جوس میں بیتالین ہوتی ہے‪ ،‬جو جسم میں قدرتی طور پر ہومو سسٹین کو کم کرنے کے لئے‬
‫ایک اہم مادہ ہے۔ جسم میں ہومو سسٹین کی گردش کے نظام کے لیےبہت ساری صحت کی‬
‫پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔‪-‬چقندر کے جوس میں کافی مقدار میں پوٹاشیم عام طور پر فالج‬
‫اور دل کی بیماریوں کے امکانات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔سیتی میگزین کے مطابق‬

‫| ‪16‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چقندر کا جوس ایک صحت بخش غذا ہے۔ اس میں بہت سے وٹامنز‪ ،‬اینٹی ٓاکسڈینٹ‪ ،‬اور‬
‫جسم کے لیضروری عناصر ہوتے ہیں۔ اس کے عالوہ بہت سے لوگ اس کا ذائقہ بھی پسند‬
‫کرتے ہیں۔چقندر کے جوس میں فائبر کی کثرت کی وجہ سے اس کا استعمال ہاضمہ کے‬
‫عمل کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے‪ ،‬اور یہ قبض کو روکنے میں بھی مدد کرتا ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102176.html‬‬

‫کیا ٓاپ جانتے ہیں کہ ٓاپ کے جسم کا ایسا کونسا حصہ ہے جس کے بال‬
‫نوچنے سے ٓاپ کی جان بھی جا سکتی ہے؟ جان کر ٓاپ بھی حیران رہ‬
‫جائیں گے‬

‫‪02/05/2021‬‬

‫قدرت نے انسان کے جسم کے مختلف حصوں پر بال دیئے ہیں جن کا مقصد جلد کی اور‬
‫جسمانی اعضاء کی حفاظت کرنا ہے‪ ،‬لیکن ہم میں سے کئی لوگ ان سے پریشان ہو کر ان‬
‫بالوں کو نوچ دیتے ہیں یا ہٹا دیتے ہیں۔لیکن کیا ٓاپ جانتے ہیں کہ اس قسم کی غلطی کتنی‬
‫خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟ نہیں! تو چلیں ٓاج ہم ٓاپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارے جسم کا وہ‬
‫کون سا حصہ ہے جس کے بال نوچنے سے ہم موت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ہم ناک کے‬
‫زریعے سانس لیتے ہیں منہ اور ناک ہمارے جسم کا وہ‬

‫| ‪17‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واحد راستہ یا زریعہ ہے جہاں سے کوئی بھی چیز براہ راست ہمارے جسم کے اندر داخل‬
‫ہو سکتی ہے۔ہم میں سے کئی لوگ ناک کے بال نوچنے کی غلطی کرتے ہیں کیونکہ ہم نہیں‬
‫جاتے کہ یہ عادت ہماری جان بھی لے سکتی ہے‪ ،‬جی ہاں ناک ہمارے جسم کا وہ حصہ ہے‬
‫جس کا براہ راست دماغ سے تعلق ہوتا ہے اور اگر ہم ناک کے بال نوچ لیں تو ناک کی جلد‬
‫میں سوراخ سا بن جاتا ہے جہاں سے بال نوچا گیا ہو۔اور پھر وہی سوراخ بیکٹیریا اور‬
‫وائرس وغیرہ کے لئے ہمارے دماغ تک رسائی کا راستہ بن جاتا ہے‪،‬‬
‫اگر ہم ناک کے بال نوچتے ہیں تو جو سوراخ یا مسام کھال رہ جاتا ہے اس کے زریعے‬
‫ہماری خون کی شریانوں میں گھس کر یہ بیکٹیرا ہمارے دماغ میں داخل ہو کر نظام کو‬
‫تحس نحس کر سکتے ہیں‪ ،‬اور اگر یہ بیکٹیریا جان لیوا ہوں تو موت کا سبب بھی بن سکتے‬
‫ہیں۔اس لئے یہ جان لیں کہ کبھی ناک کے بال نوچنے کی غلطی نہ کریں اگر ضرورت ہو تو‬
‫قینچی کی مدد سے بالوں کو کاٹ لیں مگر انہیں جڑ سے نہ اُکھاڑیں ورنہ ٓاپ کی جان کو‬
‫بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102094.html‬‬

‫پاکستانی اور فن لینڈ کے ماہرین نے مفید پروبایوٹک کی نئی قسم‬


‫تیارکرلی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 3  ‬مئ‪2021  ‬‬
‫پاکستانی اور فِن لینڈ کے ماہرین نے ایک اہم پروبایوٹک کی نئی قسم بنائی ہے جسے‬
‫بآاسانی دودھ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے‬

‫ہیلسنکی‪ :‬پاکستانی اور فِن لینڈ کے ماہرین کی ٹیم نے دودھ ‪ ،‬دہی‪ ،‬خمیری مشروم اور‬
‫دیگر غذاؤں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا اور خمیری اجزا‪ ،‬پروبایوٹک کو جینیاتی‬
‫تبدیلی سے گزارے بغیر ایک نئی قسم تیار کی ہے جو اب بہ ٓاسانی دودھ کا حصہ بن کر‬
‫بالخصوص بچوں اور دیگر افراد کو بہتر صحت فراہم کرسکتی ہے۔‬

‫| ‪18‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫پروبایوٹک کی ایک مشہور قسم ’لیکٹی کیسی بیکیلس رامنو ِسس جی جی‘ کو مختصراً ایل‬
‫جی جی کہا جاتا ہے۔ یہ بہت مفید ہے لیکن دودھ کے کاربوہائیڈریٹس اسے تباہ کردیتے ہیں‬
‫اور یوں بچوں کو نہیں دیئے جاسکتے اور انہیں مصنوعی طور پر دودھ میں مالیا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫اگر یہ دودھ کا حصہ بن جائے تو شیرخوار بچوں کے کئی ہاضماتی مسائل حل ہوسکتے‬
‫ہیں۔ اگرچہ اس سے قبل ایل جی جی کو دودھ میں شامل کرنے کے جینیاتی طریقے اپنائے‬
‫گئے جن میں کامیابی نہیں مل سکی۔‬
‫اب فِن لینڈ کی جامعہ ہیلسنکی اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک‬
‫انجینیئرنگ (نبجی) کے سائنسدانوں نے کسی جینیاتی تبدیلی کے بغیر ایل جی جی کو دودھ‬
‫میں مالنے اور پروان چڑھانے کا طریقہ وضع کیا ہے۔‬
‫اس عمل کو ’کنجیوگیشن‘ کہتے ہیں جس میں ایک بیکٹیریئم† کے خواص دوسرے بیکٹیریا‬
‫میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ اس عمل میں ‪ ‬پہلے وہ چھلے دار ڈی این اے (پالز ِمڈ) کی نقل‬
‫دوسرے بیکٹیریئم میں بنائی جاتی ہے۔ اس طرح ایک خردنامئے کے خواص دوسرے میں‬
‫پیدا ہونے لگتے ہیں۔‬
‫اس طرح اب ممکن ہوا ہے کہ اسے کسی بھی ڈیری مصنوعات میں شروع سے ہی پیدا کیا‬
‫جاسکتا ہے۔ یہاں پیداواری سطح تک ہی ان ایل جی جی کی ٓابادی اچھی خاصی بڑھ جاتی‬
‫ہے اور بعد ازاں اسے مصنوعی طور پر شامل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔‬

‫| ‪19‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایل جی جی کی یہ نئی قسم بچوں کے معدے میں بھی موجود رہتی ہے۔ اس طرح ماں کے‬
‫دودھ میں موجود لیکٹوس† اور کیسائن سے ان کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس طرح‬
‫ایل جی جی لیکٹک ایسڈ بڑھاتا ہے جو بچوں کو کئی بیماریوں سے بچاسکتا ہے۔‬
‫یہ تحقیق اپالئیڈ اینڈ مائیکروبائیلوجی جرنل میں شائع ہوئی ہے‪ ‬جس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ‬
‫فار بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ کی پروبایوٹک لیبارٹری سے وابستہ پروفیسر‬
‫نذر حسین‪ ،‬محمد طارق اور ارسالن زیدی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔‬
‫ماہرین یہاں تک کہہ رہے کہ ایل جی جی کو ڈیری میں شامل کرنے کا طریقہ نہ صرف‬
‫بچوں کے کئی امراض کو ختم کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے بلکہ پروبایوٹک تھراپی کا‬
‫مؤثر طریقہ بھی سامنے ٓائے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2173918/9812/‬‬

‫ٓاواز اور لیزر سے کینسر شناخت کرنے واال دنیا کا پہال امیجنگ نظام‬
‫تیار‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 4  ‬مئ‪2021  ‬‬
‫نوٹنگھم یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جسم کے اندر کی سہ جہتی تصویر کشی کرنے واال‬
‫ایک نیا نظام تیار کیا ہے۔‬

‫نوٹنگھم‪ :‬جامعہ نوٹنگھم کے ماہرین نے اپنی نوعیت کا امیجنگ سینسر بنایا ہے جو‬


‫انسانی جسم میں جاکر خلیاتی سطح پر پوری ساخت کا تفصیلی تھری ڈی (سہ جہتی) ماڈل‬
‫بناتا ہے۔ انسانی بال سے بھی باریک اس سینسر‪ y‬کا سرا ٓاواز (الٹراسانک) امواج اور لیزر‬
‫خلیاتی سطح تک پھینکتا ہے اور تصاویر دیکھ کر ہم کسی جگہ کے ابھار دیکھ کر کینسر‬
‫کی موجودگی یا عدم موجودگی کا اندازہ لگاسکتےہیں۔‬
‫اس طرح یہ دنیا کا پہال فائبرٓاپٹک الٹراسونک† نظام ہے جسے معیاری اینڈواسکوپک† ٓاالت‬
‫کےساتھ مالکر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب تک ہم کسی اینڈواسکوپ سے خلوی سطح کو‬
‫دیکھ نہیں پائے تھے۔ دوسری جانب کسی مقام کو روشن کرنے والے کیمیکلز کی ضرورت‬
‫بھی رہتی ہے۔ تاہم نیا نظام ان سب کے بغیر کام کرسکتا ہے۔‬
‫چونکہ یہ نظام نینوپیمانے پر کام کرتا ہے اس لیے بہت تفصیل سے بدن کے اندر کے‬
‫سرطان کی خبر لی جاسکتی ہے۔ تصویری سینسرمیں لیزرکے دوجوڑے ہیں اورٓاواز کی‬

‫| ‪20‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بلند فری کوئنسی اس کی دھاتی نوک سے خارج ہوتی ۔ ٓاواز کے جھماکوں کو فونون کا نام‬

‫دیا گیا ہے۔ پہلے فونون اطراف کے ٹشوز میں پھینکے جاتے ہیں۔ ٓاواز اندرونی ٹشوز سے‬
‫ٹکرا کر بکھر جاتے ہیں اور یہاں لیزر سامنے ٓاکر ایک سہ جہتی تصویر بناتی ہے۔ اسے‬
‫دیکھ کر ماہرین جسم کے اندر کی تبدیلیوں کو دیکھ سکتے ہیں۔‬
‫دوسری جانب تصویر میں کسی ابھار کی سختی اور نرمی کا بھی معلوم کیا جاسکتا ہے جو‬
‫کینسر کی نشاندہی کرسکتی ہے۔ ‪ ‬یہ پورا نظام ایک واحد ٓاپٹیکل فائبر سے جوڑا جاسکتا‬
‫ہے اور اسی سے کام لیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2174285/9812/‬‬

‫دن بھر کا فاقہ‪ ،‬ڈائٹنگ کے فوائد میں افاقہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 3  ‬مئ‪ 2021  ‬‬
‫صبح سے شام تک فاقہ کرنے کے عمومی صحت پر نہایت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬

‫| ‪21‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برلن ‪ /‬سان انتونیو‪ :‬جرمنی اور امریکا میں ہونے والی دو الگ الگ تحقیقات میں ماہرین‬
‫نے دریافت کیا ہے کہ اگر پورا دن کچھ نہ کھانے کے بعد ڈائٹنگ شروع کی جائے تو اس‬
‫کے فوائد بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔‬

‫عام تاثر کے برعکس‪ ،‬طبّی اصطالح میں ’’ڈائٹنگ‘‘ کا مطلب کھانا پینا چھوڑ دینا نہیں‪،‬‬
‫بلکہ صحت سے متعلق کوئی خاص مقصد حاصل کرنے کےلیے کچھ خاص غذائیں‬
‫استعمال کرنا (اور کچھ مخصوص معموالت اختیار کرنا) ہے۔ موٹاپا اور وزن کم کرنا بھی‬
‫ڈائٹنگ کے انہی مقاصد میں سے ایک ہے۔‬

‫جرمنی میں ‪ 71‬رضاکاروں پر کی گئی تحقیق میں بلڈ پریشر کنٹرول کرنے والی ڈائٹنگ‬
‫سے پہلے ‪ 14‬گھنٹے کچھ نہ کھانے کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا۔ )‪’’‘‘ (DASH‬ڈیش‬
‫تین مہینے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں تقریبا ً نصف رضاکاروں کو ’’ڈیش‘‘† سے‬
‫پہلے‪ ،‬پانچ دن تک صبح کا ناشتہ اور اس کے بعد رات کا کھانا ہی دیا گیا جبکہ اس دوران‬
‫انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔‬

‫باقی کے تقریبا ً نصف رضاکاروں کو ’’پنج روزہ )البتہ انہیں پانی پینے کی اجازت تھی۔(‬
‫فاقہ کشی‘‘ کے بغیر ہی ’’ڈیش ڈائٹنگ‘‘ شروع کروا دی گئی۔‬

‫| ‪22‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے اختتام پر معلوم ہوا کہ پانچ دن تک صبح سے شام تک کچھ بھی نہ کھانے والے‬
‫رضاکاروں میں پیٹ کے جرثوموں کا مجموعہ (مائیکروبایوم) کچھ اس طرح سے تبدیل‬
‫ہوا کہ اس سے ڈیش ڈائٹنگ کا فائدہ بہت زیادہ اور نمایاں ہوگیا۔‬

‫| ‪23‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی نوعیت کی دوسری تحقیق یونیورسٹی ٓاف ٹیکساس‪ ،‬سان انتونیو میں چوہوں پر کی گئی‬
‫جنہیں مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے ایسے ہائی بلڈ پریشر میں مبتال کیا گیا تھا کہ جس‬
‫سے ان میں فالج کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔جن چوہوں کی غذا معمول کے مطابق جاری‬
‫رکھی گئی‪ ،‬تحقیق کے اختتام پر ان کےلیے فالج کا خطرہ جوں کا توں موجود تھا لیکن جن‬
‫چوہوں کےلیے ایک دن فاقہ اور ایک دن کھانے کا معمول رکھا گیا‪ ،‬اُن میں ہائی بلڈ پریشر‬
‫اس حد تک کنٹرول میں ٓاگیا کہ فالج کا خطرہ بھی بہت کم رہ گیا۔‬
‫ان چوہوں میں بھی پیٹ کے جرثوموں کا مجموعہ اس انداز سے تبدیل ہوا کہ اس نے بلڈ‬
‫پریشر کم کرنے میں غذا کی افادیت کئی گنا بہتر بنا دی اور اس طرح صحت کو زبردست‬
‫فائدہ پہنچایا۔‬
‫بالترتیب‪’’ ‬نیچر کمیونی کیشنز‘‘‪ ‬اور‪’’ ‬سرکولیشن ریسرچ‪ ‘‘y‬کے تازہ شماروں میں ٓان‬
‫الئن شائع ہونے والی ان تحقیقات سے یہ بات یقینی طور پر طے ہوگئی ہے کہ فاقہ کرنے‬
‫کی وجہ سے پیٹ کے جرثوموں (بیکٹیریا) میں کچھ ایسی تبدیلیاں ٓاتی ہیں جو بلڈ پریشر‬
‫سمیت‪ ،‬مجموعی صحت پر اچھے اثرات ڈالتی ہیں۔ لیکن یہ بیکٹیریا کس طرح ان اثرات کو‬
‫جنم دیتے ہیں؟ یہ جاننے کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2174113/9812/‬‬

‫افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی پینا آنتوں اور پیٹ میں خون کی فراہمی کو‬
‫محدود کرتا ہے ‪ :‬طبی ماہرین‬

‫‪03 May,2021 10:00 pm‬‬

‫| ‪24‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫الہور‪( :‬ویب ڈیسک) طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی پینا آنتوں اور‬
‫پیٹ میں خون کی فراہمی کو محدود کرتا ہے اور پیٹ میں درد اور عمل انہضام میں‬
‫دشواری پیدا کرتا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق رمضان میں کئی افراد ہاضمے کی دشواری‪ ،‬بڑی آنت اور پیٹ میں‬
‫درد‪ ،‬جلن اور متلی جیسی تکالیف میں مبتال ہوسکتے ہیں۔ ایسا سحری و افطاری میں‬
‫کھانے میں بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ افطار کے بعد مٹھائیاں کھانے سے جسم‬
‫میں چربی کی مقدار دو گنا ہو جاتی ہے۔‬
‫غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہفتے میں زیادہ سے زیادہ ایک‬
‫سے دو بار مٹھائیاں کھانا بہتر ہے۔ طبی ماہرین اس حوالے سے خاص احتیاط کرنے کی‬
‫تلقین کرتے ہیں۔‬
‫طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سحری کے کھانے کے دوران زیادہ پانی پینا گردوں کو دو گنا‬
‫کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پیشاب کو بڑھاتا ہے اور دن میں پیاس کو بھی بڑھاتا ہے۔ یہ‬
‫تلقین بھی کی جاتی ہے کہ پانی آہستہ آہستہ اور تھوڑی مقدار میں پینا چاہیے۔‬
‫اسی طرح تازہ سالد وہ چیز ہے جو بے شمار فوائد رکھتا ہے اور وٹامنز اور معدنیات سے‬
‫ماال مال ہوتا ہے‪ ،‬زیادہ تر لوگ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے چٹ پٹی چیزیں کھاتے ہیں۔‬
‫افطار کے فوراً بعد چائے اور کافی پینا خوراک سے کیلشیم اور آئرن جذب کرنے میں‬
‫رکاوٹ بنتا ہے۔ کھانے کے کم از کم دو گھنٹے تک ان کو ملتوی کرنا بہتر ہے۔ چربی اور‬
‫نشاستے سے بھرپور غیرصحت مند کھانے کی ضرورت سے زیادہ مقدار لینا وزن میں‬
‫اضافے کا سبب بنتا ہے۔‬
‫| ‪25‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین یہ کے مطابق طویل روزے کے بعد جسم کو کھانا کھانے کے لیے تیار کرنا چاہیے‬
‫اس کے بعد شام کا کھانا کھائیں۔ پہلے کچھ کھجوریں کھائیں اور پھر سُوپ یا ہلکی غذا لیں۔‬
‫افطاری کے وقت ٹھنڈا پانی پینا آنتوں اور پیٹ میں خون کی فراہمی کو محدود کرتا ہے اور‬
‫پیٹ میں درد اور عمل انہضام میں دشواری پیدا کرتا ہے۔‬

‫اسی طرح یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ رمضان میں پھلوں کو نظرانداز کرتے‬
‫ہوئے میٹھی چیزیں کھاتے ہیں یا پھر زیادہ مصالحے‪ ،‬مرچ اور نمک والی اشیا اور اچار‬
‫وغیرہ کھاتے ہیں حاالنکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو پیاس کے احساس کو دگنا کرتی ہیں‪ ،‬اور‬
‫جسم کو تیزی سے خشکی کی طرف لے جانے کا باعث بنتی ہیں۔‬

‫اسی طرح یاد رکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ افطاری کے بعد سونے سے پرہیز کیا‬
‫جائے کیونکہ افطاری کے بعد سونے سے جسم زیادہ وزن بڑھاتا ہے اور نقل وحرکت کی‬
‫کمی وجہ سے جسم پر منفی اثرات پڑتے ہیں‬

‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/600173‬‬

‫کیا آپ مچھلی کے تیل کے کیپسول سے ہونے والے نقصان سے آگاہ ہیں؟‬


‫مئ ‪03 2021‬‬
‫ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ مچھلی کے تیل یا اومیگا تھری کیپسول ایسے‬
‫کا باعث بن ‪ atrial fibrillation‬افراد میں دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی النے یا‬
‫سکتے ہیں جن کے خون میں چکنائی یا لپڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس‬
‫کے بارے میں عندیہ دیا جاتا ہے کہ یہ دل کی شریانوں سے جڑے خطرات کو کم کرتے ہیں‬
‫اور یہ ہر جگہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دستیاب ہیں۔‬
‫اس سے قبل کچھ کلینیکل ٹرائلز میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ سپلیمنٹس دھڑکن میں بے‬
‫ترتیبی کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں‪ ،‬اس عارضے کے شکار افراد میں فالج کا خطرہ دیگر کے‬
‫مقابلے میں ‪ 5‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی واال یہ مرض مختلف پیچیدگیوں جیسے خون گاڑھا ہونے‪،‬‬
‫فالج اور ہارٹ فیلیئر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔‬

‫| ‪26‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس کا جامع تجزیہ‬
‫کرکے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان سے دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ کتنا بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ان تحقیقی رپورٹس میں ‪ 50‬ہزار سے زیادہ افراد شامل تھے جن کو مچھلی کے تیل کے‬
‫کیپسول یا پلیسبو کا استعمال ‪ 2‬سے ‪ 7‬سال تک کرایا گیا۔‬
‫مچھلی کے تیل کی روزانہ خوراک ‪ 0.84‬گرام سے ‪ 4‬گرام تھی۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ یہ سپلیمنٹس پلیسبو کے مقابلے میں دھڑکن کی بے ترتیبی کے‬
‫عارضے کا خطرہ ‪ 1.37‬گنا بڑھا سکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس سے دھڑکن‬
‫کی بے ترتیبی کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹرائل میں عندیہ دیا گیا تھا کہ یہ سپلیمنٹ دل کی شریانوں کے لیے‬
‫مفید ہے مگر دھڑکن کی بے ترتیبی کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی فروخت‬
‫ڈاکٹروں کے نسخے پر ہونی چاہیے۔‬
‫خاص طور پر ایسے افراد کے لیے ان کی فروخت روکنی چاہیے جن میں دھڑکن کی بے‬
‫ترتیبی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‬
‫‪https://www.aaj.tv/news/30258193/‬‬

‫ماہواری پر سوشل میڈیا پر بحث‪ :‬ایک فطری جسمانی عمل کے بارے‬


‫میں بات کرتے ہوئے شرم یا فیشن کا خیال کیوں؟‬

‫‪ ‬ثنا آصف‬
‫‪ ‬بی بی سی اردو ڈاٹ کام‪ ،‬اسالم آباد‬
‫‪ 3‬مئ ‪2021‬‬

‫| ‪27‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫’ماہواری پر بات کرنا تو فیشن بنتا جا رہا ہے۔۔۔ ماہواری تو صرف ٹوائلٹ استعمال کرنے‬
‫جیسا ایک قدرتی عمل ہے۔‘‬
‫آپ میں سے اکثر قارئین یقینا ً ایسی سوچ نہیں رکھتے ہوں گے لیکن پاکستان جیسے قدامت‬
‫پسند معاشرے میں‪ ،‬جہاں ماہواری پر بات کرنا ابھی تک انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے‪،‬‬
‫کچھ لوگ آج بھی اس سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔‬
‫یہ بات پاکستانی سوشل میڈیا صارفین پر اس وقت کھلی جب ماہواری کے بارے میں کھلے‬
‫عام بات کرنے کی مخالفت کرنے والے آغا حسن نامی ایک ٹوئٹر صارف نے جب سماجی‬
‫رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنی رائے کا ’کھلے عام‘ اظہار کیا۔‬
‫لیکن خواتین تو ایک طرف‪ ،‬چند مردوں نے بھی اس بارے میں ان کے علم میں اضافہ‬
‫کرنے کی کوشش تو کی لیکن موصوف اس ضد پر ڈٹے رہے کہ اس بارے میں پردہ پوشی‬
‫ضروری ہے۔‬
‫اپنی ٹویٹ میں پیشگی معذرت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا‪’ :‬آخر خواتین کے لیے کھلے‬
‫عام سائیکلز (ماہواری) پر بات کرنا فیشن کیوں بنتا جا رہا ہے؟‘‬

‫| ‪28‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪TWITTER/@AGHAHASANPE‬‬
‫ٹویٹ میں مزید لکھا گیا‪’ :‬میں جانتا ہوں کہ یہ قدرتی عمل ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے‬
‫دن میں چند بار واش روم استعمال کرنا۔ کچھ چیزوں کے بارے میں محتاط رہنا ہی بہتر‬
‫ہے۔ شکریہ۔‘‬
‫سوشل میڈیا پر ردعمل‬
‫اس ٹویٹ کے جواب میں کئی خواتین نے ماہواری‪ ،‬اس کی وجہ سے عورت کے جسم میں‬
‫آنے والی تبدیلیوں اور ہر مہینے اس دوران ہونے والے درد کے بارے میں اپنے ذاتی‬
‫تجربے بھی لکھے اور ان صاحب کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس پر بات کرنا‬
‫کیوں ضروری ہے۔‬
‫آغا حسن کی ٹویٹ کے جواب میں نشاط نامی صارف نے سوالیہ انداز میں لکھا‪’ :‬ہم ہر‬
‫مہینے اس تکلیف سے گزرتے ہیں اور ہم اس بارے میں بات بھی نہیں کر سکتے؟‘‬
‫صحافی تحریم عظیم نے لکھا‪’ :‬میں ان خوش قسمت خواتین میں سے ہوں جنھیں ماہواری‬
‫کا درد نہیں ہوتا لیکن اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ اس ماہ جب مجھے پیریڈز آئے تو‬
‫میں گھر پر نہیں تھی۔ میرے پاس کوئی پیڈ نہیں تھا۔ میں نے ہلکے نیلے رنگ کی جینز‬
‫پہن رکھی تھی‪ ،‬اب ذرا سوچیں میری زندگی کے بدترین دو گھنٹے۔‘‬

‫| ‪29‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪TWITTER/@TEHREEMAZEEM‬‬
‫ایک اور صارف نے لکھا‪’ :‬مجھے ماہواری کے دوران اتنا شدید درد بھی ہوا کہ میں اپنی‬
‫کالس میں بے ہوش ہونے لگتی۔ میں اس بارے میں بات کرتی ہوں کیونکہ آپ کی آدھی‬
‫آبادی اسے سمجھ سکتی ہے۔ اپنے گندے ذہنوں کی صفائی کریں۔‘‬
‫صارف لعلین نے لکھا‪’ :‬اگر ماہواری نہ ہوتی تو آپ کا وجود بھی نہ ہوتا۔‘‬
‫الہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) سے منسلک معلمہ ندا کرمانی نے لکھا‪’ :‬اگر‬
‫آپ مجھ سے پوچھیں تو جب میں بڑی ہو رہی تھی تو میرے لیے یہ ایک بڑی اور خوش‬
‫آئند تبدیلی تھی۔‘‬
‫انھوں نے مزید لکھا‪’ :‬مجھے اس بارے میں خوشی ہے کہ ہماری اگلی نسل شرم کو فطری‬
‫جسمانی عمل سے الگ کر رہی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔‘‬
‫تصویر کا ذریعہ‪TWITTER/@NIDAKIRMANI‬‬
‫ماہواری کا موازنہ واش روم کے استعمال سے کرنے پر بھی کئی صارفین نے شدید‬
‫غصے کا اظہار کیا۔‬
‫ایک اور صارف نے لکھا‪’ :‬کیا لوگ آپ کو دن میں کئی بار واش روم جانے کے بارے‬
‫میں شرمندہ کرتے ہیں؟ آپ کو ہمت کیسے ہوئی ماہواری کا واش روم جانے سے موازنہ‬
‫کرنے پر؟ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہ قدرتی عمل ہے لیکن ابھی بھی اس بارے‬
‫میں شرمندگی پائی جاتی ہے۔ یہ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے بدنما ہے جو اس بارے‬
‫میں بات کرتے ہوئے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔‘‬

‫| ‪30‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫رشم‬
‫نجم نے لکھا‪’ :‬پاکستان میں مرد سڑک کے کنارے ’باتھ روم استعمال‘ کر لیتے ہیں۔ یہ‬
‫ایک جیسا نہیں۔ لڑکیوں کو نو برس کی عمر سے ماہواری آنا شروع ہو جاتی ہے اور زیادہ‬
‫تر کو اس بارے میں پہلے نہیں بتایا جاتا کیونکہ اس بارے مں بات کرنا فیشن نہیں۔ یہ‬
‫انتہائی تکلیف ہو سکتا ہے۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪TWITTER/@RNAJM2‬‬
‫صائمہ اجرم نے لکھا‪’ :‬کبھی کبھی میں خواہش کرتی ہوں کہ مردوں کو بھی پیریڈز ہوتے‬
‫تاکہ وہ سجھ سکتے کہ یہ ہم پر جسمانی اور جذباتی طور پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔‬
‫آپ کو وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‬
‫ارسالن احمد نامی ایک صارف نے لکھا‪’ :‬آپ خاصے بے وقوف ہیں اگر آپ یہ سوچتے‬
‫ہیں کہ خواتین ماہواری پر اس لیے بات کرتی ہیں کہ یہ فیشن ہے۔ اسے صحت اور حفظان‬
‫صحت کے متعلق آگاہی پھیالنا کہتے ہیں۔‘‬

‫| ‪31‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪TWITTER/@SAIMAAJRAM‬‬
‫اس بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟‬
‫خواتین کی زندگی میں ماہواری ایک قدرتی عمل ہے۔ یہ تبدیلی کسی بھی لڑکی کے بالغ‬
‫ہونے کے بعد آتی ہے۔ ماہواری کا عمل قدرتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی معاشرے‬
‫میں خواتین خصوصا بالغ لڑکیاں اس موضوع پر بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔‬
‫تولیدی اور ماہواری صحت کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں معاشرہ مذہب اور سماجی‬
‫اقدار کا سہارا لے کر عورتوں کی جنسیت کو ایک ایسا موضوع بنا کر پیش کرتا ہے جس‬
‫پر گفتگو کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں لڑکیوں کے لیے ماہواری‬
‫سے متعلق معلومات کے حصول کا بنیادی ذریعہ والدہ یا بڑی بہنیں ہوتی ہیں۔‬
‫یہ معلومات بھی لڑکیوں کو اس وقت دی جاتی ہے جب انھیں پہلی مرتبہ ماہواری ہو چکی‬
‫ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی ماہواری کا آغاز بے خبری اور بغیر تیاری‬
‫کے کرتی ہیں۔‬
‫ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک عورت ماہواری کے دوران غیر‬
‫محفوظ طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے۔‬
‫کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫ہارمونز میں تبدیلی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مینوپاز کی عالمات کے لیے‬
‫سب سے پُر اثر عالج ہے‬
‫امراض نسواں ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کے باعث بے شمار خواتین‬‫ِ‬ ‫ماہر‬
‫ِ‬
‫جنسی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔‬
‫’غیر محفوظ طریقوں کا استعمال عورتوں میں پیشاب کی نالی کے انفیکشن کی وجہ بن‬
‫سکتا ہے۔ اس کے عالوہ یہ حیض کی باقاعدگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں‬
‫ماں بننے کی صالحیت کو بھی ختم کر سکتا ہے۔‘‬
‫ڈاکٹر عائشہ کے مطابق اِس طرح نا صرف عورتوں کی مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے‬
‫بلکہ وہ گردوں اور جسم کے نچلے حصے میں ہونے والی دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو‬
‫سکتی ہیں۔‬
‫| ‪32‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اب اس بات کا تو کوئی اندازہ نہیں کہ ماہواری کے بارے میں پردہ پوشی کی حمایت میں‬
‫ٹویٹ کرنے والے صارف کی سوچ میں کوئی بدالؤ آیا یا نہیں لیکن ہمیں یہ یقین ضرور‬
‫ہے کہ اس حوالے سے ہمارے بہت سے قارئین کی سوچ میں مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔‬

‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-56968349‬‬

‫کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں پر ایک سال‬


‫بعد کیا اثرا ت مرتب ہوتے ہیں ؟ طبی تحقیق میں تشویشناک بات‬
‫‪ ‬سامنے آگئی‬
‫‪May 06, 2021 | 23:00:PM ‬‬

‫لندن(ڈیلی پاکستان آن الئن)کورون††ا وائ††رس س††ے ہ††ونے والی بیم††اری ک††ووڈ ‪ 19‬کی س††نگین‬
‫شدت کے باعث زیرعالج مریضوں میں سے متعدد ک††و ای††ک س†ال بع††د بھی منفی اث††رات ک††ا‬
‫سامنا ہے۔یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ای††ک ط††بی تحقی††ق میں س††امنے آئی۔س††او¿تھ ہیمپٹن‬
‫یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گی††ا کہ ک††ووڈ س††ے ہس††پتال میں زی††رعالج رہ††نے والے ای††ک‬
‫تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔‬
‫طبی جریدے دی النسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین‬
‫کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ ‪ 19‬نمونیا کے مریضوں کا جائزہ‬

‫| ‪33‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیتے ہوئے دیکھا کہ ایک سال بعد ان کی حالت کیسی ہے۔اس مقصد کے لیے ‪ 83‬مریضوں‬
‫کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ ‪ 19‬نمونیا کی سنگین شدت کا شکار ہوکر ہسپتال میں‬
‫زیرعالج رہے تھے۔ان مریضوں کا جائزہ ‪ 9 ،6 ،3‬اور ‪ 12‬مہینوں تک لیا گیا یعنی ہر ‪3‬‬
‫ماہ بعد ان کا معائنہ کیاگیا۔‬
‫ہر بار معائنے کے دوران طبی تجزیئے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے افعال کی ان پڑتال‬
‫کی گئی‪ ،‬جس کے لیے سی ٹی اسکین سے پھیپھڑوں کی تصویر لی گئی جبکہ ایک چہل‬
‫قدمی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔‪ 12‬مہینے کے دوران بیشتر مریضوں کی عالمات میں عالمات‪،‬‬
‫ورزش کی صالحیت اور کووڈ ‪ 19‬سے متعلق سی ٹی چینجز میں بہتری آئی۔ایک سال بعد‬
‫اکثر مریض بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے تاہم ‪ 5‬فیصد افراد تاحال سانس لینے میں‬
‫مشکالت کا سامنا کررہے تھے۔ایک تہائی مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال بدستور‬
‫معمول کی سطح پر نہیں آسکے تھے‪ ،‬بالخصوص پھیپھڑوں سے خون میں آکسیجن کو‬
‫منتقل کرنے کی صالحیت زیادہ متاثر نظر آئی۔‬

‫‪https://dailypakistan.com.pk/06-May-2021/1286206‬‬

‫بیک وقت ‪9‬جڑواں بچوں کی پیدائش ‪ ،‬ریکارڈ بن گیا‬


‫‪May 06, 2021 | 18:19:PM‬‬

‫باماکو(مانیٹرنگ‪ %‬ڈیسک) مغربی افریقہ کے ملک مالی کی ایک لڑکی نے بیک وقت‬

‫‪9‬بچوں کو جنم دے دیا۔ دی مرر کے مطابق ڈاکٹروں نے دوران حمل سکین کرکے ‪25‬سالہ‬
‫حلیمہ سیزی نامی اس لڑکی کو ‪7‬بچوں کی خوشخبری سنائی تھی تاہم ڈاکٹر سکین میں‬
‫‪2‬بچے نہ دیکھ پائے تھے۔ حلیمہ کو ڈلیوری کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے مراکش منتقل‬
‫کیا گیا جہاں اس نے ‪9‬بچوں کو جنم دے دیا۔ مالی کی وزیرصحت فانٹا سیبی کا کہنا ہے کہ‬
‫‪ ‬حلیمہ کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں ‪5‬لڑکیاں اور ‪4‬لڑکے شامل ہیں۔‬
‫رپورٹ کے مطابق حلیمہ کو دو ہفتے تک مالی کے دارالحکومت باماکو کے پوائنٹ جی‬
‫ہسپتال میں رکھا گیا اور پھر ڈاکٹروں نے صورتحال کے پیش نظر اسے مراکش منتقل کر‬
‫نے کا کہہ دیا۔ اسے مراکش کے ایک ہسپتال میں ‪20‬مارچ کو داخل کرایا گیا جہاں گزشتہ‬
‫روز اس کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی۔‪ ‬ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کسی خاتون کے ہاں‬
‫‪9‬بچے پیدا ہونا انتہائی نایاب واقعہ ہے۔ عالمی ریکارڈ کے مطابق پہلی بار ‪1971‬ءمیں‬
‫آسٹریلوی شہر سڈنی کی ایک خاتون کے ہاں ‪9‬بچے پیدا ہوئے تھے۔ان میں سے کوئی بھی‬
‫بچہ ایک ہفتے سے زیادہ زندہ نہیں رہ پایا تھا۔ اسی طرح ‪1999‬ءمیں مالئیشیاءمیں ایک‬

‫| ‪34‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خاتون نے‪9‬بچوں کو جنم دیا اور یہ تمام بچے بھی پیدائش کے کچھ ہی وقت بعد انتقال کر‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/06-May-2021/1286176‬گئے تھے۔‬
‫سیب کے سرکے کے صحت پر حیرت انگیز فوائد‬
‫مئی ‪07 2021 ،‬‬

‫سرکہ تقریبا ً ہر گھر میں پایا جاتا ہے مگر اس کا استعمال زیادہ تر چائینیز کھانوں کی ترکیب‬
‫میں ہی کیاجاتا ہے جس کی بڑی وجہ لوگوں کا اس کی افادیت سے ناواقف ہونا ہے‪  ،‬عام‬
‫گھروں میں استعمال ہونے واال اور خصوصا ً سیب کا سرکہ انسان کی مجموعی صحت پر‬
‫بے شمار طبی فوائد مرتب کرتا ہے جس سے متعلق جاننا اور اس کا باقاعدگی سے استعمال‬
‫کرنا ضروری ہے۔‬
‫طبی و غذائی ماہرین کی جانب سے سرکے کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جبکہ اس کے‬
‫استعمال سے حاصل ہونے والے فوائد سائنس سمیت اسالمی تعلیمات سے بھی ثابت ہوتے‬
‫ہیں‪ ،‬سرکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی غذا کا حصہ بنایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں‬
‫انسانی صحت پر صرف فوائد ہی حاصل ہوتے ہیں جبکہ اس کے استعمال سے متعدد‬
‫بیماریوں اور موسمی شکایات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔‬
‫سرکے کی مختلف اقسام‬

‫| ‪35‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سرکہ کئی اقسام کا ہوتا ہے مثالً سیب‪ ،‬گنے‪ ،‬ناریل‪ ،‬کھجور‪ ،‬شہد‪ ،‬کیوی فروٹ‪ ،‬چاولوں‪،‬‬
‫سفید ( عام‪ ،‬سادہ) سرکہ اور کشمش کا سرکہ وغیرہ۔‬
‫سرکے کی دو اقسام دنیا بھر میں زیادہ استعمال کی جاتی ہیں جن میں سادہ اور سیب کا‬
‫سرکہ سر فہر ست ہے اور ان کے فوائد بھی زیاد ہیں۔‬
‫سرکے کے استعمال کے نتیجے میں صحت پر ٓانے والے حیرت انگیز فوائد مندرجہ ذیل‬
‫درج ہیں جنہیں جاننا اس کا باقاعدگی سے استعمال کرنا الزمی ہے۔‬
‫‪ ‬قوت مدافعت اور توانائی بڑھانے میں مددگار‬
‫ورزش کرنے والے افراد کے لیے سیب کا سرکہ حیرت انگیز طور پر فائدہ مند ثابت ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے توانائی میں اضافہ اور جسمانی کارکردگی بڑھتی ہے‪ ،‬ورزش‬
‫کے نتیجے میں جسم میں ہونے والے درد کو کم کرتا ہے اور متاثرہ پٹھوں کی بحالی کے‬
‫کام میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫سرکے میں موجود پوٹاشیم سمیت دیگر اجزا تھکان کی کیفیت کو دور کرنے میں مددگار‬
‫ثابت ہوتے ہیں‪ ،‬بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے ورزش کے بعد ایک یا دو چمچ سیب‬
‫کے سرکے کو ایک گالس میں پانی میں مال کر پیا جا سکتا ہے۔‬
‫ذیابطیس کے لیے مفید‬
‫ماہرین صحت کے مطابق سیب کے سرکے میں ایسیڈک ایسڈ پایا جاتا ہے جو کہ ذیابیطس ‪2‬‬
‫کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔‬
‫سیب کے سرکے کی کچھ مقدار روزانہ پینے سے بلڈ شوگر لیول متوازن رہتا ہے۔‬
‫تازہ سانسوں کے حصول کے لیے‬
‫سیب کے سرکے کے استعمال‪  ‬سے منہ سے ٓانے والی بدبو کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے‪ ،‬سانس‬
‫تروتازہ بنانے کے لیے سیب کے سرکے سے غرارے کریں یا ایک چائے کا چمچ پانی میں‬
‫مال کر پی لیں تاکہ بو پیدا کرنے والے بیکٹریا کا خاتمہ ہوسکے‬
‫بڑھے ہوئے کولیسٹرول‪  ‬کے لیے مفید‬

‫| ‪36‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے سر کے میں پائے جانے والے ایسیڈک ایسڈ کے سبب خراب‬
‫کولیسٹرول کی سطح میں کمی ٓاتی ہے‪ ،‬ایک جاپانی تحقیق کے مطابق روزانہ کچھ مقدار‬
‫میں سیب کا سرکہ استعمال کرنے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح متوازن رہتی ہے۔‬
‫تیزابیت سے نجات دالئے‬
‫سینے میں جلن یا معدے میں تیزابیت کی شکایت ہے تو ‪ 2‬چائے کے چمچ سیب کے سرکے‬
‫کو ایک گالس پانی میں مالئیں اور کھانے کے دوران پی لیں‪ ،‬سیب کا سرکہ معدے کی‬
‫تیزابیت کو کم کرتا ہے جبکہ غذائی نالی اور معدے میں تیزابیت بڑھنے سے بچاتا ہے۔‬
‫‪ ‬وزن میں واضح کمی‬
‫سیب کا سرکہ جسمانی وزن میں کمی کے لیے بھی فائدہ مند ہے‪ ،‬اس میں موجود ایسیڈک‬
‫ایسڈ بھوک کم کر کے میٹابولزم کو تیز کرتا ہے‪ ،‬طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکہ جسم کے‬
‫نظام ہاضمہ کو بھی تیز کرتا ہے اور کیلوریز کو جلنے میں مدد دیتا ہے۔‬
‫ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق موٹاپے کا شکار ‪ 175‬افراد کو تین ماہ کے دوران بال‬
‫ناغہ سیب کا سرکہ پالیا گیا‪ ،‬جن رضاکاروں نے ایک چمچ سیب کا سرکہ استعمال کیا تھا‬
‫انہوں نے ‪ 2.6‬پأونڈ وزن کم کیا اور جن رضاکاروں نے روزانہ ‪ 2‬چمچ سیب کا سرکہ‬
‫استعمال کیا تھا‪  ‬ان کے وزن میں اس عرصے کے دوران ‪ 3.7‬پأونڈ کی کمی دیکھنے میں‬
‫ٓائی تھی۔‬
‫‪ ‬جسم کے درد میں ٓارام‬
‫ماہرین کے مطابق ٹانگوں اور جوڑوں کے درد میں سیب کا سرکہ بے حد مفید ہے‪ ،‬ٹانگوں‬
‫کے درد میں جلد افاقے کے لیے دو چمچ سیب کا سرکہ ایک گالس نیم گرم پانی میں شامل‬
‫کرکے دن میں دو مرتبہ پیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس میں موجود الکالئن خون میں شامل یورک ایسڈ کو ختم کرتا ہے اور اس میں موجود‬
‫پوٹاشیم‪ ،‬کیلشیم اور دوسرے منرلز درد اور سوزش میں ٓارام پہنچاتے ہیں۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق سیب کا سرکہ گردے سے پتھری کے اخراج میں بھی مفید ثابت ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬سرکے میں موجود ایسیڈک ایسڈ گردے سے پتھری کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔‬

‫| ‪37‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سیب کے سرکے میں ‪ 3‬طرح کے ایسڈ ہوتے ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو‬
‫اس کی تاثیر الکالئن (جو جسم کے لیے انتہائی مفید ہے) جسم کو فائدہ پہنچاتی ہے۔‬
‫سرکے کے استعمال کے خوبصورتی پر فوائد‬
‫سیب کا سرکہ ایک قدرتی ٹانک ہے جو ِجلد کو صحت مند بناتا ہے‪ ،‬اس کی جراثیم ُکش‬
‫خوبیاں کیل مہاسوں کو کنٹرول میں رکھتی ہیں۔‬
‫سیب کے سرکہ میں موجود’ ہائیڈروکسل‘ خصوصیت ِجلد کو مردہ خلیات سے نجات اور‬
‫صحت مند و چمکتی ہوئی ِجلد کے حصول میں مدد فراہم کرتی ہے۔‬
‫سیب کا سرکہ اینٹی ایجنگ خصوصیات کا بھی حامل ہے‪ ،‬چہرے کی ِجلد سے جھریوں اور‬
‫بڑھتی عمر کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے سرکہ میں ہم وزن پانی مال کر روئی کے‬
‫ذریعے سیب کا سرکہ چہرے پر لگائیں‪30 ،‬منٹ تک سرکہ لگا رہنے دیں اور اس کے بعد‬
‫ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھو لیں‪ 6 ،‬ہفتوں تک یہ عمل ہفتے میں دو بار ٓازمائیں۔‬
‫‪ ‬وائرل بیماریوں کے لیے مفید‬
‫نزلہ زکام‪ِ ،‬جلدی انفیکشن کا شکار افراد کے لیے سیب کا سرکہ نہایت مفید ثابت ہوتا ہے‪،‬‬
‫اس میں موجود پوٹاشیم ناک کو کھولتا ہے جبکہ ایسیڈک ایسڈ وائرس کی شدت کو کم کرتا‬
‫ہے۔‬
‫استعمال اور احتیاط‬
‫سیب کا سرکہ استعمال کرنے کے منفرد طریقے ہیں‪ ،‬روزمرہ کے کھانوں میں بھی سیب کا‬
‫سرکہ ڈال کر کھا سکتے ہیں اور اسے سالد کی ڈریسنگ کے طور پر بھی استعمال کیا‬
‫جاسکتا ہے۔‬
‫‪ ‬کچھ لوگ اسے مشروبات یا پانی میں مال کر بھی پینا پسند کرتے ہیں۔‬
‫طبی ماہرین کی جانب سے سیب کے سرکے کا زیادہ استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫اس کے استعمال کے ٓاغاز میں ایک گالس پانی میں سرکہ کے دو چمچ استعمال کریں اور‬
‫ٓاہستہ ٓاہستہ مقدار بڑھا سکتے ہیں۔‬
‫سیب کے سرکے کی بہت زیادہ مقدار بھی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے‬
‫| ‪38‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫=‪https://jang.com.pk/news/923093#:~:text‬‬
‫‪%D9%88%D8%B1%D8%B2%D8%B4%20%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB‬‬
‫‪%92%20%D9%88%D8%A7%D9%84%DB‬‬
‫‪%92%20%D8%A7%D9%81%D8%B1%D8%A7%D8%AF%20%DA%A9%DB‬‬
‫‪%92,%D9%85%DB%8C%DA%BA%20%D9%85%D8%AF%D8%AF‬‬
‫‪%20%D9%81%D8%B1%D8%A7%DB%81%D9%85%20%DA‬‬
‫‪%A9%D8%B1%D8%AA%D8%A7%20%DB%81%DB%92%DB%94‬‬

‫کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات کی اصل وجہ کیا ہے؟‬
‫ماہرین نے بتا دیا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪5 2021‬‬

‫واشنگٹن ‪ :‬امریکی محققین کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسی نیشن کے بعد ہونے والے اثرات‬
‫کا تعلق ویکیسن سے ہرگز نہیں بلکہ یہ انسان کے اضطراب کی وجہ سے ہے۔‬
‫اس حوالے سے امریکا کی صحت کی نگرانی کرنے والی ایجنسی مرکز برائے امراض‬
‫کنٹرول اور روک تھام (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ کوویڈ ‪19‬کی ویکسی نیشن کے بعد‬

‫| ‪39‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سامنے ٓانے والے اثرات‪ ،‬بےہوش ہونا‪ ،‬چکر آنا اور متلی‪ ،‬اضطراب کی وجہ سے ہیں اور‬
‫ان کا تعلق ویکسین سے نہیں ہے۔‬
‫غیر ملکی‪ ‬خبر رساں ادارے‪ ‬کی رپورٹ کے مطابق یہ ایڈوائزری† امریکا میں پانچ بڑے‬
‫پیمانے پر ویکسی نیشن کرنے والے مقامات سے جمع کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے اور‬
‫اسے گزشتہ روز سہ پہر کو جاری کیا گیا۔‬
‫مراکز نے اضطراب† سے متعلق ‪ 64‬کیسز کی اطالع دی جن میں اپریل کے اوائل میں‬
‫جانسن اور جانسن ویکسن کی پہلی خوراک ملنے کے بعد بے ہوش ہونے کے‪ 17‬کیسز‬
‫بھی شامل ہیں۔‬
‫امریکی صحت کے اداروں نے ‪ 6‬افراد کے خون کے جمنے کی غیر معمولی شکایت پیدا‬
‫ہونے کے بعد اس ویکسین کی فراہمی کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔‬
‫اپریل کو سی ڈی سی اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے رپورٹ ‪23‬‬
‫ہونے والے کیسز کا مکمل جائزہ لینے کے بعد یہ پابندی ختم کردی تھی اور تمام صحت‬
‫مراکز کو اس ویکسین کا استعمال دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی تھی۔‬
‫تاہم اس کے حالیہ ایڈوائزری میں سی ڈی سی نے ویکسین فراہم کرنے والوں پر زور دیا‬
‫کہ وہ ‘ویکسینیشن کے بعد اضطراب† سے متعلقہ کیسز سے آگاہ رہیں اور ویکسین لگانے‬
‫کے بعد کم از کم ‪ 15‬منٹ تک کسی بھی منفی رد عمل کے لیے کووڈ ‪ 19‬کے تمام ویکسین‬
‫وصول کنندگان کا مشاہدہ کریں۔‬
‫ویکسین کے اثرات کی شکایت کرنے والوں میں اکثریت‪ 61 ،‬فیصد خواتین تھیں جن کی‬
‫اوسط عمر ‪ 36‬سال تھی۔ اس کے عالوہ ‪ 20‬فیصد مریضوں نے ویکسینیشن سائٹ کے‬
‫عملے کو بتایا کہ وہ انجکشن لگنے یا سوئی لگنے سے بیہوش ہوجاتے ہیں۔‬
‫ایسی زیادہ تر عالمات کھانے‪/‬پینے اور آرام کرنے سے ہی ‪ 15‬منٹ کے اندر حل ہوگئیں‬
‫جبکہ ‪ 20‬فیصد مریض مزید تشخیص کے لیے ہسپتال میں داخل ہوئے‪ ،‬ان مراکز میں سے‬
‫‪ 4‬نے ان رد عمل کی تحقیقات کے لیے ویکسینیشن معطل کردی۔‬
‫سی ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویکسینیشن کے بعد اضطراب† سے متعلقہ کیسز‬
‫کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ویکسینیشن فراہم کرنے والوں کو ویکسینیشن جاری‬
‫رکھنے کے بارے میں فیصلے کرنے کے قابل بنائے گا۔‬
‫رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اضطراب کے دورے جانسن اور جانسن کی ویکسین‬
‫سے مخصوص نہیں اور کسی بھی ویکسین لگوانے کے بعد ہو سکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں یہ بھی پتا چال ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق اضطراب کے حملے فلو‬
‫سے وابستہ افراد کے مقابلے میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔‬
‫ویکسین کے اثرات میں کمی‬
‫سی ڈی سی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے صدر‬
‫ڈاکٹر جیفری گیلر نے ویکسین لگوانے کے بعد گہری سانس لینے اور آرام کرنے کا‬
‫مشورہ دیا۔‬

‫| ‪40‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب آپ اس مرکز پر پہنچ گئے‪،‬‬
‫خاص طور پر بڑے ویکسینیشن مرکز تو یہ آپ کا ذہن تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا‪،‬‬
‫لوگ اگر اضطراب† کا شکار ہیں تو انہیں میڈیکل ٹیم کو بتانا چاہیے‪ ،‬اسے خود تک محدود‬
‫نہ رکھیں۔‬
‫جانسن اینڈ جانسن ویکسین پر پابندی کو ختم کرنے والے ایف ڈی اے اور سی ڈی سی کے‬
‫ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کے رکنے سے پہلے ہی‪68‬الکھ خوراک پہلے ہی استعمال کی‬
‫جاچکی تھیں اور ان‪ 68‬الکھ میں سے‪ 15‬وصول کنندگان نے خون کے جمنے اور کم‬
‫پلیٹلیٹ کی شکایت کی۔‬
‫انہوں نے تجویز پیش کی کہ ویکسین فراہم کرنے والوں اور معالجین کو وسیع پیمانے پر‬
‫تعلیم فراہم کی جائے تاکہ وہ ان کیسز کو صحیح طور پر پہچانیں اور ان کا انتظام کریں‬
‫اور درکار عالج کا بندوبست کریں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/reactions-after-corona-vaccination-anxiety-‬‬
‫‪cdc/‬‬

‫کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 6 2021‬‬

‫| ‪41‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرونا وائرس کو نظام تنفس پر حملہ کرنے واال وائرس سمجھا گیا تھا تاہم ایک سال میں‬
‫کی جانے والی ریسرچز سے علم ہوا کہ یہ وائرس دماغ سمیت جسم کے کسی بھی عضو‬
‫کا اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔‬
‫حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے ہونے والی‬
‫بیماری کووڈ ‪ 19‬دماغ کے ‪ 2‬اقسام کے خلیات نیورونز اور ٓاسٹرو سائٹس کو متاثر کر‬
‫سکتی ہے۔‬
‫لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی‬
‫ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی‬
‫عالمات کا باعث بنتی ہے۔‬
‫ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے متعدد اعضا‬
‫بشمول دماغ کو متاثر کر سکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری‪ ،‬تھکاوٹ اور‬
‫دماغی دھند جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کرونا وائرس سے دماغی‬
‫مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔‬
‫کرونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا ہے‪،‬‬
‫یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں‪ ،‬دل‪ ،‬گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں‪ ،‬مگر اب تک یہ‬
‫واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کرونا وائرس کو حملہ کرنے‬
‫کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔‬
‫اس کو جاننے کے لیے ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس‬
‫‪ 2‬ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا‬
‫اور ان میں ایس ‪ 2‬ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا‪ ،‬انہوں نے نیورونز اور ٓاسٹراسائٹس‬
‫جیسے معاون خلیات کا بھی تجزیہ کیا۔‬
‫یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون‬
‫اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس ‪ 2‬ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے بعد‬
‫دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔‬
‫اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین‬
‫کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اقسام کے خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم‬
‫آسٹراسائٹس میں یہ امکان نیورونز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬

‫| ‪42‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین اس حوالے سے کچھ واضح طور پر کہنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے‬
‫مگر ان خلیات کی بہت زیادہ مقدار وائرس کو حملہ کرنے اور اپنی نققول بنانے کا موقع‬
‫فراہم کرتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک بار ٓاسٹروسائٹس وائرس سے متاثر ہوجائے تو وہ ان‬
‫خلیات کو نیورونز تک رسائی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔‬
‫اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں† میں متعدد اعصابی و دماغی عالمات‬
‫بشمول سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی‪ ،‬فالج اور دیگر کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے پہلو محدود تھے یعنی یہ لیبارٹری میں ہوئی اور کسی زندہ انسان کے پیچیدہ‬
‫ماحول میں وائرس کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-on-brain-cells/‬‬

‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫اونٹوں سے کورونا کا عالج؟ ماہرین کا بڑا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫‪ ‬‬
‫مئی ‪6 2021‬‬
‫دعوی ہے کہ ہم ایسی تحقیق کررہے ہیں جس کے ذریعے اونٹوں کی‬ ‫ٰ‬ ‫سائنس دانوں کا‬
‫اینٹی باڈیز کورونا کے عالج کے لیے کارگر ثابت ہوسکیں گی۔‬
‫متحدہ عرب امارات میں سائنس دانوں نے اونٹوں کی اینٹی باڈیز کو بروئے کار النے کے‬
‫لیے ایک تحقیقی مطالعہ شروع کیا ہے۔ تحقیق میں شامل دبئی کی سنٹرل ویٹرینری ریسرچ‬

‫| ‪43‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیبارٹری کے سربراہ ڈاکٹر الریچ ورنرے کا کہنا ہے کہ اس مشن کی تکمیل میں کورونا‬
‫کے عالج سے متعلق بہت سے سواالت کے جواب ملیں گے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ محققین نے کورونا وائرس کے مردہ سیمپل اونٹوں کے اجسام میں داخل‬
‫کیے ہیں تاکہ یہ جاننے کی کوشش کی جاسکے کہ صحرائی جانورں میں کورونا کے‬
‫خالف اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں یا نہیں‪ ،‬کامیابی کی صورت میں اونٹوں کی اینٹی باڈیز‬
‫کورونا متاثرہ مریضوں کے عالج میں معاون ہوں گی۔‬
‫وسطی میں ریسپائریٹری سینڈروم (مرس) وائرس‬ ‫ٰ‬ ‫خیال رہے کہ کورونا سے قبل مشرقی‬
‫پھیال تھا اور اس وائرس کا اونٹ بھی شکار ہوئے لیکن حیران کن طور پر نئے کورونا‬
‫وائرس اونٹوں کو متاثر نہیں کرسکتے۔‬
‫ڈاکٹر الریچ ورنرے کا کہنا تھا کہ اونٹوں میں وائرس منتقل کرنے کا خلیہ موجود نہیں ہوتا‬
‫لیکن دیگر جانوروں میں ہوتا ہے جس کے ذریعے وائرس نظام تنفس تک رسائی حاصل‬
‫کرتے ہیں۔ مرس اونٹوں میں داخل ہوسکتا ہے لیکن اس سے وہ بیمار نہیں پڑتے جبکہ‬
‫کووڈ‪ 19-‬اونٹوں کے نظام تنفس کے خلیوں میں داخل ہی نہیں ہوسکتا۔‬ ‫ِ‬
‫سنٹرل ویٹرینری ریسرچ لیبارٹری کے سربراہ نے امید ظاہر کی کہ اس تحقیق سے کورونا‬
‫کے عالج کے نئے دروازے کھلیں گے اور ایک دن اونٹوں کی اینٹی باڈیز کورونا‬
‫مریضوں کے عالج میں استعمال کی جائیں گی۔‬
‫خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) کے مطابق انسانوں سے وائرس جانور میں‬
‫منتقل ہوسکتا ہے لیکن جانوروں سے انسانوں میں منتقلی کے خطرات کم ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/treatment-of-corona-with-camels-big-claim-by-experts/‬‬

‫کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪7 2021‬‬
‫کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے ٓاچکے ہیں‪ ،‬اب حال ہی میں‬
‫انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬نہ صرف ذیابیطس‬
‫کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے واال مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں‬
‫میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔‬
‫ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬ایسے افراد‬
‫کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔‬

‫| ‪44‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ‬
‫ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ ‪ 2‬وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔‬
‫لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا‬
‫ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔‬
‫اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ‪ 46‬کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین‬
‫کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا‬
‫ہے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے‬
‫شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے افراد میں ٓائندہ‬
‫‪ 6‬ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان ‪ 39‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں‬
‫ہونا پڑا‪ ،‬ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے ‪ 6.5‬میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح اسپتال میں زیرعالج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے ‪ 37‬مریض ذیابیطس کا‬
‫شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو ٓائی سی یو میں‬
‫زیر عالج رہنا پڑا ہو۔کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں‬
‫کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد ‪ 15‬کروڑ سے زیادہ ہے۔‬
‫ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین‬
‫بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خالف‬
‫جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔‬
‫ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ ‪ 19‬ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے‪ ،‬تاہم اس‬
‫حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/scientists-alarmed-by-covid-and-diabetes-link/‬‬

‫| ‪45‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا‬
‫سامنا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 7 2021‬‬

‫کرونا وائرس کے جسم پر تباہ کن اثرات کی فہرست طویل ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ‬
‫‪ 19‬سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی کئی مریض بیمار ہیں۔‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کے باعث زیر‬
‫عالج مریضوں میں سے متعدد کو ایک سال بعد بھی منفی اثرات کا سامنا ہے۔‬
‫ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر عالج رہنے‬
‫والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے‬
‫ہیں۔‬
‫خیال رہے کہ کووڈ ‪ 19‬نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے مگر اکثر مریض‬
‫اس وقت اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جب بیماری کے نتیجے میں پھیپھڑوں پر اثرات مرتب‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬جس کے لیے کووڈ ‪ 19‬نمونیا کی اصطالح استعمال ہوتی ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬نمونیا کے عالج کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر اب تک اس‬
‫بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں کہ مریضوں کی مکمل صحت یابی میں کتنا‬
‫عرصہ لگ سکتا ہے اور پھیپھڑوں کے اندر کیا تبدیلیاں ٓاتی ہیں۔‬

‫| ‪46‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی جریدے دی النسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین‬
‫کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ ‪ 19‬نمونیا کے مریضوں کا جائزہ‬
‫لیتے ہوئے دیکھا کہ ایک سال بعد ان کی حالت کیسی ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے ‪ 83‬مریضوں کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ ‪ 19‬نمونیا کی سنگین‬
‫شدت کا شکار ہو کر اسپتال میں زیر عالج رہے تھے‪ ،‬ان مریضوں کا ‪ 9 ،6 ،3‬اور ‪ 12‬ماہ‬
‫تک جائزہ لیا گیا یعنی ہر ‪ 3‬ماہ بعد ان کا معائنہ کیا گیا۔‬
‫ہر بار معائنے کے دوران طبی تجزیے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ پڑتال‬
‫کی گئی‪ ،‬جس کے لیے سی ٹی اسکین سے پھیپھڑوں کی تصویر لی گئی جبکہ ایک چہل‬
‫قدمی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔‬
‫ایک سال بعد اکثر مریض بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے تاہم ‪ 5‬فیصد افراد تاحال‬
‫سانس لینے میں مشکالت کا سامنا کر رہے تھے۔‬
‫ایک تہائی مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال بدستور معمول کی سطح پر نہیں ٓاسکے‬
‫تھے‪ ،‬بالخصوص پھیپھڑوں سے خون میں ٓاکسیجن کو منتقل کرنے کی صالحیت زیادہ‬
‫متاثر نظر ٓائی۔‬
‫ایک چوتھائی مریضوں کے سی ٹی اسکینز میں دریافت کیا گیا کہ ان کے پھیپھڑوں کے‬
‫کچھ چھوٹے حصوں میں تبدیلیاں ٓارہی تھیں اور یہ ان افراد میں عام تھا‪ ،‬جن کے پھیپھڑوں‬
‫میں اسپتال میں زیر عالج رہنے کے دوران سنگین تبدیلیاں دریافت ہوئی تھیں۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر‬
‫مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے‪ ،‬تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ خواتین کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے‬
‫میں زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ ‪ 12‬ماہ کے بعد مریضوں† کے ساتھ کیا ہوتا‬
‫ہے اور اسی لیے تحقیق کو جاری رکھنا ضروری ہے‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-long-term-effects/‬‬

‫ہر سال کتنے‪ y‬کروڑ ٹن کھانا کوڑے دان کی نذر ہو جاتا ہے؟خبر پڑھ کر‬
‫ٓاپ افسردہ ہوجائینگے‪y‬‬
‫‪06/05/2021‬‬

‫کیلی فورنیا(نیو زڈیسک) اقوام متحدہ کے ایک پروگرام نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں‬
‫ہر سال ‪ 92‬کروڑ ٹن کھانا کوڑے کی نذر ہو جاتا ہے۔تفصیالت کے مطابق دنیا بھر‬

‫| ‪47‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میں ہر سال ‪ 92‬کروڑ ٹن ایسی چیزیں کوڑے کی نذر ہو جاتی ہیں‪ ،‬جو کھانے پینے کے‬
‫قابل ہوتی ہیں‪ ،‬اقوام متحدہ کے‬
‫ماحولیاتی پروگرام (‪ )UNEP‬کے فوڈ ویسٹ انڈیکس کا کہنا ہے کہ دکانوں‪ ،‬گھرانوں اور‬
‫ریستورانوں میں صارفین کے لیے دستیاب ‪ 17‬فی صد خوراک کی منزل کوڑے کا ڈبہ بنتا‬
‫ہے۔رپورٹ کے مطابق جو کھانا ضائع ہوتا ہے اس کا ‪ 60‬فی صد حصہ گھروں سے ٓاتا‬
‫ہے‪ ،‬زیادہ کھانا امیر ممالک میں ضائع ہوتا ہے جب کہ کم ٓامدنی والے ممالک بظاہر کھانے‬
‫کے قابل خوراک کو کم ضائع کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کا ساتھ دینے والے ادارے ‪ WRAP‬کے‬
‫رچرڈ سوانیل کا کہنا ہے کہ ہر سال کھانا ضائع ہونے والی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اسے ‪40‬‬
‫ٹن وزن اٹھانے والے ‪ 2.3‬کروڑ ٹرکوں میں بھرا جا سکتا ہے‪ ،‬اگر یہ ٹرک بمپر سے بمپر‬
‫مال کر ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں تو ان کی یہ قطار دنیا کے گرد ‪ 7‬مرتبہ چکر‬
‫لگانے جتنی طویل ہوگی۔البتہ الک ڈأون کے دوران حیران ُکن طور پر برطانیہ میں گھریلو‬
‫خوراک کے ضیاع میں کمی ٓائی ہے۔ یو این ماحولیاتی پروگرام کی ایگزیکٹو‪ %‬ڈائریکٹر انگیر‬
‫اینڈرسن نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ‪ 2030‬تک خوراک کے ضیاع کی مقدار کو‬
‫نصف پر النے کا عہد کریں۔رچرڈ سوانیل کا کہنا ہےکہ ضائع شدہ خوراک ‪ 8‬سے ‪ 10‬فی‬
‫صد گرین ہأوس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے‪ ،‬اس لیے خوراک کے عالمی ضیاع کو‬
‫اگر ملک گردانا جائے تو یہ گرین ہأوس گیسیں خارج کرنے واال دنیا کا تیسرا سب سے بڑا‬
‫ملک ہو جاتا ہے۔‬

‫| ‪48‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین نے تجویز دی ہے کہ لوگ خوراک کے استعمال کے اندازے بہتر بنائیں تاکہ تمام‬
‫کھانا استعمال ہو اور ضائع نہ ہو‪ ،‬اس کے عالوہ فریج کے درجہ حرارت کو بھی ‪ 5‬درجہ‬
‫سینٹی گریڈ سے کم رکھا جائے۔ادارے کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران منصوبہ بندی میں‬
‫اضافے‪ ،‬اچھی طرح دیکھ بھال اور الک ڈأون میں پکانے میں احتیاط کی وجہ سے ‪2019‬‬
‫کے مقابلے میں گزشتہ سال خوراک کے ضیاع میں ‪ 22‬فی صد کمی ٓائی ہے‪ ،‬جس میں‬
‫گھروں میں ہفتہ بھر کا کھانا ایک ساتھ پکانے کی عادت اور منصوبہ بندی شامل تھی۔‬
‫برطانیہ کی معروف ُکک نادیہ حسین یو این ادارے کے ساتھ مل کر خوراک کو ضائع ہونے‬
‫سے بچانے اور بچی کچھی چیزوں سے نئے کھانے پکانے کی تراکیب پیش کرتی ہیں‪،‬‬
‫دیگر معروف شیفس بھی کھانوں کے ضیاع سے بچنے کی تراکیب بتاتے ہیں۔واضح‪ %‬رہے‬
‫کہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ‪ 69‬کروڑ افراد بھوک سے متاثر ہیں‪ ،‬وبائی حاالت‬
‫کی وجہ سے ان کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102766.html‬‬

‫سر درد کی وجوہات اور بغیر گولی اس کا عالج‪،‬صبح صبح شہریوں‬


‫کیلئے بڑی خبر ٓاگئی‬

‫‪     May 8, 2021 06‬‬

‫اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)سر درد سے ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے جو انتہائی پریشان کن ثابت‬
‫ہوتا ہے۔ سر کا درد مختلف وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے جس میں الرجی اور پانی کی کمی‬
‫بھی شامل ہے۔ سر درد مختلف افراد کو مختلف طریقوں سے پریشان کرتا ہے سب سے‬
‫خطرناک سر درد میگرین کا ہے۔بدقسمتی سے الکھوں روپے صرف اپنے صارفین کو یہ‬
‫یقین دہانی پر خرچ کر دیے جاتے ہیں کہ اس دوائی کے کوئی نقصانات نہیں ہیں۔ہم یہاں ٓاپ‬
‫کو سر درد ختم کرنے کے ‪ 7‬قدرتی طریقے بتا رہے ہیں جس میں سے کئی ایک‬
‫ہومیوپیتھک کے عالج میں استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ٓاج کے جدید دور میں یہ طریقہ‬
‫امریکہ میں بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔جب ٓاپ کو سر کا درد محسوس ہو تو ٓاپ سب‬
‫سے پہلے پانی کا استعمال کریں۔ پانی کی کمی عام طور پر سر درد کی وجہ بنتی ہے۔ ایک‬
‫عام انسان کو دن میں کم سے کم ‪ 8‬گالس پانی کے پینے چاہیئیں۔اگر ٓاپ دن بھر جسمانی‬
‫مشقت یا ورزش کرتے ہیں تو اس صورت میں ٓاپ کو پانی کی مقدار بھی بڑھانی چاہیے‬

‫| ‪49‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیونکہ پانی جسم کی اہم ترین ضرورت میں سے ایک ہے لیکن ہم صرف ضرورت کے‬
‫وقت ہی پانی پیتے ہیں۔ پانی کے استعمال سے ٓاپ کے سر کا درد ‪ 30‬منٹ سے ‪ 3‬گھنٹے‬
‫کے دوران ختم ہو جائے گا۔سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل سوزش ہے اور یہ بھی سر درد‬
‫کی وجہ بنتا ہے۔ قدرتی طور پر سوزش کے کئی عالج ہیں۔ ہلدی سوزش کا بہترین عالج‬
‫ہے کیونکہ اس میں اینٹی سوزش مرکبات پائے جاتے ہیں۔دار چینی بھی سر درد کے لیے‬
‫کافی مفید ہے لیکن اس کے کچھ سائیڈ ایفیکٹ بھی ہو سکتے ہیں اس لیے اسے زیادہ‬
‫استعمال نہیں کرنا چاہے۔جسم میں میگنیشم کی کمی بھی سر درد کی وجہ بنتی ہے اس لیے‬
‫جسم میں اس کی مقدار کو کم نہ ہونے دیں۔ اگر انسانی جسم میں میگنیشم کی کمی طویل‬
‫عرصہ برقرار رہے‪ ،‬تو انسان ذیابیطس‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر‪ ،‬امراض قلب‪ ،‬ہڈیوں کی بوسیدگی‬
‫اور شدید سر درد جیسی موذی بیماریوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس لیے میگنیشم کی مقدار کو‬
‫اپنے جسم میں کم نہ ہونے دیں۔میگنیشم پتوں والی سبزیوں مثالً ساگ‪ ،‬مونگ پھلی‪ ،‬اخروٹ‪،‬‬
‫مچھلی‪ ،‬پھلیوں‪ ،‬ثابت اناج‪ ،‬کیلے اور انجیر میں پایا جاتا ہے۔ تاہم اب یہ ملٹی وٹامن گولیوں‬
‫کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔‬
‫ایک بالغ انسان کو روزانہ کم از کم ‪ 420‬ملی گرام میگنیشم غذا سے حاصل کرنا چاہیے۔‬
‫چائے اور کافی میں کیفین شامل ہوتی ہے جو ہمارے سر درد کو دفع کرنے میں اہم کردار‬
‫ادا کرتی ہے۔ کیفین جسم میں چستی اور پھرتی بھی پیدا کرتی ہے۔ وہ لوگ جو روزانہ چائے‬
‫یا کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں‪ ،‬اگر وہ ان کی مقدار میں کمی کر دیں یا انہیں بالکل ہی‬
‫ترک کر دیں تو انہیں بھی سر میں درد کی شکایت ہوسکتی ہے۔کیفین دماغ کو جگائے‬
‫رکھنے کے عالوہ بھی اعصابی نظام کو مختلف طرح سے فعال رکھتی ہےلونگ ایک‬
‫میٹھی اور مصالے والی جڑی بوٹی ہے۔‬
‫جو سر درد میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ لونگ عام طور پر درد بھگانے والی ادویات میں‬
‫بھی شامل کی جاتی ہے۔گھریلو اور کاروباری مسائل کی وجہ سے ہمارے اعصاب دیر تک‬
‫تنأو کا شکار بھی رہ سکتے ہیں اور یہی تنأو سر میں درد کی شدید لہر پیدا کرسکتا ہے۔ اس‬
‫لیے کوشش کریں کہ کسی بھی طرح کے اعصابی تنأو سے خود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ‬
‫رکھیں کیونکہ اگر اس طرف توجہ نہ دی جائے تو یہی اعصابی تنأو در ِد سر سے ٓاگے بڑھ‬
‫کر بہت سی بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102754.html‬‬

‫| ‪50‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اب کورونا ویکسینیشن کیلئے ویکسین سینٹر ٓانے کی ضرورت نہیں ۔۔‬
‫حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا‬

‫‪06/05/2021‬‬

‫کراچی ( مانیٹرنگ ڈیسک) محکمہ صحت سندھ نے اسپتال نہ ٓاپانے والے افراد کو کورونا‬
‫ویکسین کی فراہمی کا فیصلہ کر لیا۔ تفصیالت کے مطابق محکمہ صحت نے امن ہیلتھ کے‬
‫تعاون سے ہوم ویکسینیشن پروگرام کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس کے تحت اسپتال نہ‬
‫ٓاپانے والے افراد کو گھروں پر ویکسین لگائی جائے گی۔محکمہ صحت کے مطابق یہ‬
‫سہولت‬
‫صرف کراچی اور حیدرٓاباد کے اسپتال نہ ٓاپانے والے مریضوں تک محدود ہے۔مریض یا‬
‫اہلیخانہ ‪ 9123‬یا ‪ 1025‬پر کال کرکے مفت ویکسینیشن کا وقت لے سکتے ہیں۔ امن ہیلتھ‬
‫متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کو ڈیٹا فراہم کرے گا اور ڈی ایچ اوز تصدیق کے بعد گھر ٓاکر‬
‫ویکسینیشن کرے گا‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102890.html‬‬

‫| ‪51‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سبزی فروش خاتون فروٹ مارکیٹ کی مالکن کیسے بنیں؟کہانی جان کر‬
‫ٓاپ حیران رہ جائینگے‪y‬‬

‫‪07/05/2021‬‬
‫‪     ‬‬

‫دمام(نیو زڈیسک) ایک سعودی خاتون کی یہ کہانی جان کر ٓاپ حیران رہ جائیں گے‪ ،‬کہ وہ‬
‫سڑک کنارے سبزی فروخت کرتے کرتے ایک خوب صورت فروٹ مارکیٹ کی مالکن‬
‫کیسے بن گئیں۔یہ ہیں ام زیاد‪ ،‬وہ سڑک کنارے سبزی بیچتی تھیں‪ ،‬ایک سعودی شہری نے‬
‫ان کی توہین ٓامیز ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی جو وائرل ہو گئی۔ام زیاد سے توہین‬
‫ٓامیز برتأو کرنے والے سعودی شہری کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کا غیر انسانی رویہ اس‬
‫غریب محنت کش کی زندگی بدل دے گا‪ ،‬توہین ٓامیز‬
‫سلوک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی دیر تھی کہ ملک کے طول و عرض سے‬
‫عوام کا غم و غصہ جلد ہی ایوان اقتدار تک جا پہنچا۔ڈپٹی گورنر شہزادہ احمد بن فہد بن‬
‫سلمان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چھوٹے سے گھر میں رہنے والی ‪ 9‬بچوں کی متاثرہ‬
‫ماں سے مالقات کی‪ ،‬اور ان کو حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور پر دکان االٹ کرنے‬
‫کے احکامات جاری کر دیے تاکہ وہ با عزت طریقے سے بچوں کے لیے روزی کما سکے۔‬
‫شہزادہ احمد بن فہد کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو سوشل میڈیا کے ذریعے دوسروں کا مذاق‬
‫| ‪52‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اڑانے‪ ،‬کسی کی بے عزتی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔دو دن قبل دمام کے مرکزی‬
‫بازار میں ام زیاد کو دکان االٹ کر دی گئی‪ ،‬یہ دکان ام زیاد کے گھر سے صرف ‪ 10‬منٹ‬
‫کے فاصلے پر ہے‪ ،‬وہ اپنی دکان پر ٓائیں تو گاہکوں کی طرف سے والہانہ استقبال پر حیران‬
‫رہ گئیں‪،‬‬
‫ایک مقامی تاجر نے ام زیاد کو اس کی دکان کے لیے سبزیاں اور فروٹ فراہم کرنے کا‬
‫اعالن بھی کیا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے ام زیاد نے بتایا کہ جس شخص نے‬
‫اس کی ویڈیو بنائی تھی وہ اکثر کالونی میں اس کے ٹھیلے پر ٓاتا رہتا تھا‪ ،‬مجھے کسی کی ہم‬
‫دردی کی ضرورت نہیں‪ ،‬میرا کام اور محنت میرے لیے فخر کا بہتر ذریعہ ہے۔پولیس نے‬
‫خاتون کی کسمپرسی کی ویڈیو بنا کر مذاق اڑانے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے‪ ،‬ام زیاد‬
‫نے بتایا کہ ویڈیو بنانے والے شخص کو جب پولیس نے طلب کیا تو میں پریشان ہوگئی کہ‬
‫شاید مجھے بھی بالیا جائے گا‪،‬‬
‫ویڈیو سامنے ٓانے کے بعد عام لوگ بھی میرے بارے میں گفتگو کرنے لگے تھے۔انھوں‬
‫نے کہا میری خواہش ہے کہ میں اپنا سودا مناسب قیمت پر مگر معیاری طریقے سے‬
‫فروخت کروں اور مجھے روزانہ ‪ 100‬لایر سے زیادہ کمانے کا کوئی اللچ نہیں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102964.html‬‬

‫مسوڑوں کی تکالیف کورونا مریضوں کیلئے خطرے کی گھنٹی‬


‫ہے‪،‬تحقیق نے کھلبلی مچادی‬

‫‪03:35 pm 07/05/2021‬‬

‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)کورونا وائرس سے متاثرہ بعض افراد صحت یاب ہونے کے بعد اس‬
‫کی شدت سے متاثر رہتے ہیں جس کی ایک اہم وجہ سائنسدانوں نے دریافت کرلی‪ ،‬مسوڑوں‬
‫کے امراض کورونا مریضوں کو خطرے کی لکیر تک لے جاتے ہیں۔طبی تحقیق کے‬
‫مطابق کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے والے اکثر افراد‬
‫صحتیاب تو ہوجاتے ہیں مگر چند میں اس کی شدت بہت زیادہ سنگین ہوتی ہے۔ایسا کیوں‬
‫ہوتا ہے؟ اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے اس عالمی وبا‬

‫| ‪53‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کے ٓاغاز سے ہی سائنسدان کام کررہے ہیں اور اب ایک بڑی ممکنہ وجہ سامنے ٓائی ہے۔‬
‫درحقیقت مسوڑوں کے امراض اور کوویڈ ‪ 19‬کی پیچیدگیوں اور اموات کے درمیان تعلق‬
‫سامنے ٓایا ہے۔کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مسوڑوں کے‬
‫ورم کا سامنا کرنے والے افراد میں کوویڈ ‪ 19‬سے موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں‬
‫‪ 8.8‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔اسی طرح ایسے افراد میں کوویڈ ‪ 19‬سے اسپتال میں داخلے کا‬
‫امکان ‪ 3.5‬گنا جبکہ وینٹی لیٹر کی ضرورت ‪ 4.5‬گنا یادہ ہوتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ‬
‫تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ کی اچھی صحت کوویڈ ‪ 19‬کی پیچیدگیوں کی روک تھام‬
‫میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے‪ ،‬کیونکہ مسوڑوں کے امراض اور کوویڈ کے سنگین نتائج‬
‫کے درمیان مضبوط تعلق موجود ہے۔‬
‫دانتوں اور مسوڑوں کے درمیان بیکٹریا کے اجتماع کے نتیجے میں ورم کا سامنا ہوتا ہے‬
‫اور عالج نہ کرانے پر مریض کو مختلف اقسام کے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ماہرین کا‬
‫کہنا ہے کہ منہ کی اچھی صفائی بشمول روزانہ خالل‪ ،‬برش کرنا اور دانتوں کا معائنہ کرانا‬
‫اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔محققین کے مطابق مسوڑوں کے امراض کو پہلے‬
‫ہی متعدد امراض جیسے امراض قلب‪ ،‬ذیابیطس ٹائپ ٹو اور نظام تنفس کے امراض کے‬
‫لیے خطرہ بڑھانے واال عنصر سمجھا جاتا ہے۔اس تحقیق میں قطر کے حماد میڈیکل‬
‫کارپوریشن کے ‪ 568‬مریضوں کے دانتوں اورر صحت کے لیے الیکٹرونک‪ %‬ریکارڈ کا‬
‫تجزیہ کیا گیا تھا۔محققین نے مختلف عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت کیا کہ‬
‫مسوڑوں کے امراض کے شکار افراد کے خون میں ورم کی سطح بہت نمایاں ہوتی ہے۔‬

‫| ‪54‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے بتایا کہ کوویڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں میں ورم کا یہ‬
‫ردعمل پیچیدگیوں اور موت کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹھوس نتائج تک‬
‫ضروری ہے کہ لوگ منہ کی صحت کا خیال رکھیں کیونکہ دونوں امراض کے درمیان‬
‫تعلق موجود ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102973.html‬‬

‫کورونا وائرس‪ :‬انڈین صحافی جو دوسروں کی خبر دیتے دیتے خود‬


‫’خبر‘ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں‬

‫‪May 2021 7‬‬

‫‪ ‬نازش ظفر‬
‫‪ ‬بی بی سی اردو ڈاٹ کام‪ ،‬اسالم آباد‬
‫’میں خود بھی وائرس سے متاثرہ تھی اور میرے والدین بھی ہسپتال میں داخل تھے۔‬
‫ساتھ میں کئی لوگوں کے فون آ رہے تھے کہ آپ بہت لوگوں کو جانتی ہیں‪ ،‬آکسیجن اور‬
‫آئی سی یو کے لیے ہماری مدد کر دیں۔ میں سوچتی تھی کہ میں صحافی ہوں اور مجھے‬
‫اپنے لیے تو معلومات مل نہیں رہیں میں ان کی مدد کیسے کروں۔ یہ الچار ہونے کا‬
‫احساس تھا‪ ،‬جو بہت تکلیف دہ تھا۔‘‬
‫یہ ہے انڈین صحافی ارچنا شکال کی کہانی۔‬
‫انڈیا میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران بہت سے صحافی اس وبا کی کوریج کرتے‬
‫کرتے خود ’کہانی‘ کا حصہ بن رہے ہیں۔‬
‫ارچنا کا کہنا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس نے کورونا کے مریض اور اس‬
‫وائرس سے ہونے والی اموات نہ دیکھی ہوں اور ایسے غیر معمولی حاالت میں انڈین‬
‫صحافی رپورٹنگ کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔‬
‫ارچنا شکال سی این بی سی چینل میں صحت اور دیہی عالقوں کی کوریج کی ایسوسی ایٹ‬
‫ڈائریکٹر ہیں۔‬
‫بی بی سی اُردو سے ہونے والے اِس انٹرویو کے لیے وہ تیار ہو ہی رہی تھیں جب انھیں‬
‫ایک ساتھی صحافی کی کورونا سے ہالکت کی خبر ملی۔‬
‫وہ یہ خبر سننے کے بعد گفتگو کے لیے تیار تو تھیں لیکن‪ ‬ان کا کہنا ہے ایسی اچانک‬
‫اموات‪ ‬کی اطالع انھیں ہال کر رکھ دیتی ہے۔‬

‫| ‪55‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫صحافی ارچنا شکال خود اور ان کے والدین کورونا وائرس سے متاثر ہوئے‬
‫وہ بتاتی ہیں کہ ’پہلی لہر کے دوران ہم ڈرتے تھے لیکن اتنا نہیں‪ ،‬بس احتیاطی تدابیر‬
‫اختیار کر کے کام کے لیے نکل پڑتے تھے۔ لیکن اب اس تیسری لہر کے دوران ہر‬
‫دوسرے دن کسی ساتھی کے وائرس سے متاثر ہونے یا اچانک مرنے کی اطالع آتی ہے‬
‫تو حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن ہم پھر ہمت جمع کر کے خبر پہنچانے کا کام کرنے لگ‬
‫جاتے ہیں۔‘‬

‫| ‪56‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہندوستان ٹائمز کے لیے صحت کے معامالت پر رپورٹنگ کرنے والی صحافی انونا دت کا‬
‫کہنا ہے کہ انھوں نے اس سے قبل ہسپتالوں کے اندر اور باہر وہ مناظر کبھی نہیں دیکھے‬
‫تھے جو اب انھیں دیکھنا پڑ رہے ہیں۔‬
‫’لوگ ادویات اور بیڈز کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ایک ماں نے فون پر مجھ سے اپنے بیٹے‬
‫کے لیے مدد کے لیے کہا جو وینٹیلیٹر پر تھا اور اسے آکسیجن نہیں مل رہی تھی۔ میں نے‬
‫عمر پوچھی تو اس نے کہا ‪ 24‬سال۔ بعد میں اس جوان کی موت کی اطالع ملی۔ اس ماں‬
‫کی آواز میرے ذہن میں پیوست ہو کر رہ گئی ہے۔ ہٹتی ہی نہیں۔‘‬
‫انڈیا میں انسٹیٹیوٹ آف پرسپشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف اپریل کے مہینے میں‬
‫ملک بھر میں ‪ 81‬صحافی کورونا سے متاثر ہو کر ہالک ہوئے ہیں۔‬
‫بڑی تعداد میں صحافیوں کے گھروں میں اور عزیز و اقارب میں کورونا کے متاثرین ہیں۔‬
‫اس پر دن رات کی کوریج اور ڈیڈ الئنز کا دباؤ الگ ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫صحافی انونا دت کا کہنا ہے کہ وہ دن بھر کوشش کرتی ہیں کہ اطالعات اور معلومات بر‬
‫وقت پہنچاتے رہیں کہ کس ہسپتال میں آکسیجن‪ ،‬بیڈز اور ادویات کی صورتحال کیا ہے‬
‫کیونکہ ان کی اطالع سے کسی کی مدد ہو سکتی ہے۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن جب رات کو میں گھر داخل ہوتی ہوں تو موت کا خیال آتا ہے کہ‬
‫جنھیں مرتا دیکھ کر آیا ہوں بھی میری ہی عمر کے لوگ تھے اور میرے جیسے ہی تھے۔‘‬
‫’ہم صحافیوں کو لگتا ہے کہ ہمیں ہر موقعے پر ہر اہم مقام پر موجود ہونا چاہیے۔ لیکن اب‬
‫ایسا لگتا ہے کہ ہمیں صرف گھر میں رہنا چاہیے۔‘‬

‫| ‪57‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫آسام ٹریبیون کے کلیان بروہا کی وفات بھی کووڈ ‪ 19‬سے ہوئی تھی۔ ان کی وفات سے چند‬
‫دن پہلے ان کی صحافی اہلیہ نیالکشی بھٹا چاریا بھی اسی وائرس کے ہاتھوں ہالک ہوئی‬
‫تھیں۔‬
‫صحافی انونا دت‬
‫اس صحافی جوڑے کے مشترکہ دوست جارج کلیا والی‪ ،‬جو خود بھی ایک صحافی ہیں‪ ،‬کا‬
‫کہنا ہے کہ ان کا دوست کلیان آخری دنوں میں وینٹیلیٹر پر رہا اور انھیں امید تھی کہ واپس‬
‫لوٹے گا۔ ’اب میرے پاس صرف ان کے ساتھ لی ہوئی تصویریں ہیں اور ساتھ کیے ہوئے‬
‫سفر کی یادیں ہیں۔‘‬
‫وہ کہتے ہیں کہ 'صحافی صرف ماسک اور سینیٹائزر کے ساتھ کوریج کر رہے ہیں‪ ،‬یہ‬
‫کافی نہیں ہے۔ حکومت کو اور بھی کچھ کرنا ہو گا۔'‬
‫جو صحافی گھروں میں رہ کر کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ہر لمحے‬
‫کسی ساتھی کی بیماری یا موت کی خبر کے لیے تیار رکھتے ہیں‪ ،‬اور جوں جوں کیس‬
‫بڑھ رہے ہیں اُن کے دلوں میں موجود خوف بھی بڑھ رہا ہے۔‬
‫دوسری جانب بہت سے صحافیوں نے دوسرے شہریوں کی طرح مدد کی اپیل کے لیے‬
‫سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔‬
‫پہلے ان کی جانب سے کسی اور کی مدد کی اپیل کی گئی جو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی یا‬
‫اپنے خاندان کے کسی فرد کی مدد کی اپیل میں بدل گئی۔‬
‫معروف صحافی برکھا دت نے چند روز قبل ایک برطانوی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں‬
‫کہا تھا کہ انھیں کہنے کو الفاظ کم پڑ گئے ہیں جو ان کے ‪ 25‬سالہ کرئیر میں کبھی نہیں‬
‫ہوا تھا۔‬
‫صحافی برکھا دت نے چند روز قبل ایک برطانوی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا‬
‫کہ انھیں کہنے کو الفاظ کم پڑ گئے ہیں جو ان کے ‪ 25‬سالہ کرئیر میں کبھی نہیں ہوا تھا‬
‫برکھا دت کے والد وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ہالک ہوئے ہیں۔ برکھا کا کہنا ہے کہ‬
‫ایمبولنس جس میں ان کے والد کو لے جانا تھا اس میں امدادی طبی عملہ نہیں تھا۔ انھیں‬
‫اپنے تمام تر رابطوں اور اثر رسوخ کے باوجود آئی سی یو میں بیڈ کے لیے منت سماجت‬
‫کرنا پڑی اور ایسی ہی صورتحال والد کی آخری رسومات کے وقت پیش آئی۔‬
‫انڈیا میں وبا کی دوسری لہر کے دوران مسلسل کئی روز سے یومیہ کیسز کی تعداد کا‬
‫ریکارڈ ٹوٹ رہا ہے۔ تین الکھ سے بڑھ کر اب یومیہ کیسز کی تعداد چار الکھ کو پہنچ رہی‬
‫ہے اور یومیہ اموات چار ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔‬
‫ایسے میں ہسپتالوں میں عملہ‪ ،‬آکسیجن‪ ،‬ادویات‪ ،‬بیڈز سب کم پڑ چکے ہیں۔ ایسی ویڈیوز‬
‫بھی سامنے آئی ہیں جن میں لوگ منت سماجت کرتے اور مدد کے لیے چالتے نظر آئے‬
‫لیکن ان کے پیاروں نے ان کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔‬
‫کووڈ متاثرین کی الشوں کی تعداد میں بدستور اضافے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر آخری‬
‫رسومات ادا کی گئیں‬

‫| ‪58‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شمشان گھاٹ اور جنازہ گاہیں بھر چکے ہیں۔ سڑکوں پر تدفین اور آخری رسومات ادا کی‬
‫جا رہی ہیں۔یہ تمام مناظر دکھانے والے اور خبر کو ناظرین اور قارئین تک پہنچانے والے‬
‫صحافی ڈیڈ الئنز میں الشیں گنتے گنتے خود متاثرہ اور ہالک شدہ افراد کی گنتی میں‬
‫خاموشی سے شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‬

‫‪https://www.bbc.com/urdu/regional-57005346‬‬

‫کووڈ کے دور میں آخری رسومات کے نت نئے طریقے‪ :‬آپ مرنے کے‬
‫بعد خال میں جانا پسند کریں گے یا سمندر میں؟‬
‫‪ ‬برنڈ ڈیبوسمین جونیئر‬
‫‪ ‬بزنس رپورٹر‬
‫‪ 7‬مئ ‪PKT 03:18 ،2021‬‬

‫ایٹرنل ریفس کی بنائی گئی چٹانیں امریکہ کے مشرقی ساحل کے پاس سمندر میں رکھی گئی‬
‫ہیں‬
‫فلوریڈا کی ایک کمپنی ’ایٹرنل ریفس‘ کا کہنا ہے کہ اس کی غیر معمولی سروس کی مانگ‬
‫میں وبا کے باعث اضافہ ہوا ہے۔‬
‫| ‪59‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سنہ ‪ 1998‬سے یہ کمپ‪%%‬نی م‪%%‬رنے وال‪%%‬وں کی باقی‪%%‬ات کو م‪%%‬ونگے کی مص‪%%‬نوعی چٹ‪%%‬ان بنا کر‬
‫انھیں سمندر کی تہہ میں پہنچ‪%%‬انے میں م‪%%‬دد دی‪%%‬تی ہے‪ ،‬جس کے ل‪%%‬یے اُن کی راکھ کو م‪%%‬احول‬
‫دوست کنکریٹ میں مالیا جاتا ہے۔'ہمارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جن کا س‪%%‬مندر میں ک‪%%‬وئی‬
‫نہ کوئی مفاد ہوتا ہے لیکن ہمارے پاس اکثر ایسے ل‪%%‬وگ بھی آتے ہیں جنھیں زمین کے ل‪%%‬یے‬
‫کچھ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔'‬
‫گذشتہ سال تک کمپنی کے ‪ 2000‬ریف امریکہ کے مشرقی ساحل کے س‪%‬اتھ ‪ 25‬مقام‪%%‬ات پر‬
‫لگائے جا چکے ہیں۔‪ ،‬ل‪%%‬واحقین ان چٹ‪%%‬انوں کو س‪%%‬مندر میں رکھے ج‪%%‬اتے ہ‪%%‬وئے دیکھ س‪%%‬کتے‬
‫ہیں۔کووڈ ‪ 19‬کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں الکھوں لوگ‪%%‬وں کو اپ‪%%‬نے پی‪%%‬اروں کو کھو‬
‫دینے کی وجہ سے تکلیف کا س‪%%‬امنا کرنا پ‪%%‬ڑا ہے۔ اور اس نے ہم سب کو یہ بھی ی‪%%‬اد دالیا ہے‬
‫کہ زندگی فانی ہے۔‬
‫چنانچہ اب پہلے سے زیادہ لوگ اس حوالے سے تخلیقی انداز میں سوچ رہے ہیں کہ وہ‬
‫مرنے کے بعد اپنے جسم یا اپنی راکھ کے ساتھ کیا کروانا چاہتے ہیں۔‬
‫جو لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی باقیات زمین پر ہی رہیں‪ ،‬اُن کے لیے سی ایٹل میں قائم کمپنی‬
‫'ری کمپوز' نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو الش کو زرخیز مٹی کا حصہ بنا دیتی‬
‫ہے۔‬
‫| ‪60‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جسم کو سٹیل کے ایک سیل بند سلنڈر میں لکڑی کے ٹکڑوں‪ ،‬بانس کی ڈنڈیوں اور لوسن‬
‫کے پتوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ’ری کمپوز‘ اس سلنڈر میں کاربن ڈائی‬
‫آکسائیڈ‪ ،‬نائٹروجن‪ ،‬آکسیجن‪ ،‬گرمی اور نمی کی مقدار کو کنٹرول کیے رکھتا ہے تاکہ‬
‫بیکٹیریا اور دیگر جراثیم پنپ سکیں۔‬
‫تقریبا ً ‪ 30‬دن کے بعد یہ مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے اور تین کیوبک فٹ مٹی کو سلنڈر سے‬
‫نکاال جاتا ہے‪ ،‬پھر کچھ ہفتوں تک اسے مزید کچھ مراحل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد‬
‫اسے واشنگٹن کے ایک جنگل میں پھیال دیا جاتا ہے‪ ،‬یا پھر رشتے دار اسے ساتھ لے جا‬
‫سکتے ہیں۔ اس کے عالوہ یہ دونوں کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔‬
‫سنہ ‪ 2017‬میں یہ کاروبار شروع کرنے والی کترینہ سپیڈ کہتی ہیں کہ اُنھوں نے وبا کے‬
‫آغاز سے اپنے ماہانہ پری پیمنٹ پروگرام میں شمولیت کی درخواستوں میں اضافہ دیکھا‬
‫ہے۔‬
‫'یہ ایک طرح سے اپنے آپ اور اپنے خاندان سے ہم کالم ہونے کا طریقہ تو ہے ہی‪ ،‬مگر‬
‫ساتھ ہی ساتھ زمین کے لیے اپنا حصہ ڈالنے کا طریقہ بھی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو‬
‫میرے ساتھ کچھ ایسا کیا جائے جو اس زمین کے لیے بہتر ہو۔‬
‫'ہم نے لوگوں سے سنا ہے جو کہتے ہیں کہ اس سے اُنھیں امید اور دالسا ملتا ہے۔'‬

‫| ‪61‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ری کمپوز کا سسٹم ایسے کام کرتا ہے (اس تصویر میں کوئی حقیقی مردہ نہیں ہے)‬
‫دی بزنس ریسرچ کمپنی کے مط‪%%‬ابق رواں س‪%%‬ال ع‪%%‬المی س‪%%‬طح پر ام‪%%‬وات سے متعلق خ‪%%‬دمات‬
‫فراہم کرنے والے ش‪%%‬عبے کا حجم ‪ 110‬ارب ڈالر رہے گا اور اس کی پیش‪%%‬گوئی ہے کہ‪ ‬س‪%%‬نہ‬
‫‪ 2025‬تک یہ بڑھ کر ‪ 148‬ارب ڈالر ہو جائے گا۔‬
‫اپنے پیاروں کی باقیات کے لیے دستیاب آپشنز میں اضافہ اور متعلقہ ٹیکنالوجی میں ترقی‬
‫ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حالیہ دہائیوں میں میتوں کو جالئے جانے میں اضافہ ہوا ہے۔‬
‫صرف امریکہ میں ہی‪ ‬گذشتہ سال ہالک ہونے والے افراد کا ‪ 56‬فیصد جالیا جانا ہے‪ ‬جبکہ‬
‫توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے ‪ 20‬سالوں میں یہ تعداد ‪ 78‬فیصد تک ہوجائے گی۔ سنہ‬
‫‪ 1960‬کی دہائی میں یہ عدد صرف چار فیصد تھا۔‬
‫برطانیہ میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں‪ ‬سنہ ‪ 2019‬میں ‪ 78‬فیصد ہالک شدہ افراد کو‬
‫جالیا گیا اور وہاں ‪ 1960‬میں یہ تعداد ‪ 35‬فیصد تھی۔‬
‫مردوں کی آخری رسومات کی صنعت کے برطانوی ماہر پیٹر بلنگھم ایک پوڈکاسٹ ڈیتھ‬
‫گوز ڈیجیٹل کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عالمی وبا نے اس شعبے میں‬
‫ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس کی قبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ 'کووڈ کی وجہ سے ان‬
‫تبدیلیوں میں تیزی اُس سے کہیں زیادہ آئی ہے جو ویسے معمول کے حاالت میں آتی۔'‬
‫اس کے عالوہ کووڈ کی پابندیوں کے باعث آخری رسومات کی الئیو سٹریمنگ میں بھی‬
‫اضافہ ہوا ہے۔‬
‫جب رواں سال کے اوائل میں نیویارک کے رہائشی مائیکل بیرن کے والد ہالک ہوئے تو‬
‫اُنھوں نے یہی کیا۔ ٹریبیوکاسٹ نامی کمپنی کی خدمات حاصل کر کے اُنھوں نے آخری‬
‫رسومات کو امریکہ‪ ،‬کینیڈا‪ ،‬انڈیا‪ ،‬اسرائیل‪ ،‬پانامہ‪ ،‬سویڈن اور برطانیہ میں لوگوں تک ہائی‬
‫ریزولوشن ویڈیو اور ساؤنڈ کے ساتھ دکھایا۔‬
‫بیرن کہتے ہیں کہ 'ہر کسی کو ایسے محسوس ہوا جیسے وہ جسمانی طور پر وہاں موجود‬
‫نہ ہوتے ہوئے بھی آخری رسومات میں شریک تھے۔'‬

‫| ‪62‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کنیکٹیکٹ میں قائم ٹریبیوکاسٹ کے شریک بانی بروس لِکلی کہتے ہیں کہ گذشتہ پورے سال‬
‫اُن کی کمپنی کے 'فون بجتے رہے۔'‬
‫'ہم‪%%‬ارے کاروب‪%%‬ار میں ڈرام‪%%‬ائی ط‪%%‬ور پر اض‪%%‬افہ ہ‪%%‬وا۔ ہم اسے ایسے رجح‪%%‬ان کے ط‪%%‬ور پر‬
‫دیکھتے ہیں جو آ رہا تھا مگر عالمی وبا کے باعث اس میں تیزی آئی۔'‬
‫ٹریبیوکاسٹ کا سٹاف یہ یقی‪%%‬نی بناتا ہے کہ آخ‪%%‬ری رس‪%%‬ومات سے قبل کیم‪%%‬رے اور س‪%%‬ٹریمنگ‬
‫کام کر رہی ہو‬
‫ٹریبیوکاسٹ کو ‪ 2017‬میں النچ کیا گیا تھا اور یہ آخری رسومات کی فلمنگ بھی کرتی ہے۔‬
‫بروس کہتے ہیں کہ اس کی ریموٹ اٹینڈنس ٹیکن‪%%‬الوجی پہلے ہی خان‪%%‬دانوں اور دوس‪%%‬توں کے‬
‫گروہوں کی بدلتی نوعیت کی وجہ سے فروغ پا رہی تھی۔‬
‫جہ‪%%‬اں پہلے خان‪%%‬دان اور س‪%%‬ماجی گ‪%%‬روہ مخص‪%%‬وص جغرافی‪%%‬ائی عالق‪%%‬وں تک مح‪%%‬دود اور ایک‬
‫دوسرے کے قریب ہ‪%%‬وتے تھے‪ ،‬وہ‪%%‬اں اب وہ ملک بھر میں اور یہ‪%%‬اں تک کہ ملک سے ب‪%%‬اہر‬
‫تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔‬
‫چنانچہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا اکثر مشکل ہوجاتا ہے‪ ،‬خاص طور پر یہودیوں یا‬
‫مسلمانوں کے لیے‪ ،‬جن کے عقیدے کے مطابق مردے کو ‪ 24‬گھنٹوں میں دفنانا ہوتا ہے۔‬

‫| ‪63‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بروس کہتے ہیں کہ 'تین سے چار سال پہلے تک بھی ہم ہر جنازے میں ‪ 40‬سے ‪ 60‬لوگوں‬
‫کو انٹرنیٹ کے ذریعے شریک ہ‪%%‬وتے ہ‪%%‬وئے دیکھ رہے تھے۔ یہ عجیب ہے کی‪%%‬ونکہ ام‪%%‬ریکہ‬
‫میں کسی جنازے میں جسمانی طور پر بھی اتنے ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔'‬
‫'اور ہم لوگوں کو آخ‪%%‬ری رس‪%%‬ومات میں ڈیجیٹل ط‪%%‬ریقے سے ش‪%%‬مولیت کا موقع ف‪%%‬راہم کر کے‬
‫جنازوں میں لوگوں کی شرکت کو دو گنا کر رہے تھے۔'‬
‫سیلیسٹس نے سنہ ‪ 2006‬میں ناسا کے اس راکٹ پر انسانی باقیات الد کر خال میں بھیجیں‬
‫جہاں چند ل‪%%‬وگ چ‪%%‬اہتے ہیں کہ اُن کے خان‪%%‬دان اور دوس‪%%‬توں میں سے زی‪%%‬ادہ سے زی‪%%‬ادہ ل‪%%‬وگ‬
‫اپنے پیاروں کی آخری رسومات دیکھیں اور کچھ ل‪%%‬وگ چ‪%%‬اہتے ہیں کہ اُن کی باقی‪%%‬ات کا اچھا‬
‫اس‪%%‬تعمال ہ‪%%‬و‪ ،‬وہیں کچھ ل‪%%‬وگ ہیں جو چ‪%%‬اہتے ہیں کہ اُن کی راکھ کے س‪%%‬اتھ کچھ ڈرام‪%%‬ائی کیا‬
‫جائے۔اور امریکی ف‪%%‬رم سیلیس‪%%‬ٹس یہی پیش‪%%‬کش ک‪%%‬رتی ہے۔ یہ کمپ‪%%‬نی گذش‪%%‬تہ ‪ 20‬س‪%%‬الوں سے‬
‫انسانی باقیات خال میں بھیج رہی ہے۔‬

‫خالئی مشن میں جگہ حاصل کر کے یہ لوگ‪%%%%%‬وں کی راکھ کو م‪%%%%%‬دار اور اس سے بھی آگے‬
‫بھیجنے میں م‪%%‬دد ک‪%%‬رتی ہے۔سیلیس‪%%‬ٹس کے ش‪%%‬ریک ب‪%%‬انی اور چیف ایگزیک‪%%‬ٹیو چ‪%%‬ارلس ش‪%%‬یفر‬
‫کہتے ہیں کہ کمرشل خالئی کمپنیوں مثالً سپیس ایکس کی وجہ سے 'ہم اب س‪%%‬ال میں دو سے‬
‫تین مرتبہ النچ کر رہے ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں میرا ان‪%%‬دازہ ہے کہ ہم ہر سہ م‪%%‬اہی میں‬
‫ایسا کر سکیں گے۔'‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-57008893‬‬

‫| ‪64‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چینی ویکسین ’سائنو فارم‘ کا ہنگامی استعمال ‪ ،‬عالمی ادارہ صحت نے‬
‫اہم ہدایت جاری کردی‬
‫‪May 07, 2021 | 21:46:PM‬‬
‫جنیوا(ڈیلی پاکستان ٓان الئن)عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے کورونا سے بچأو کی چینی‬
‫ویکسین سائنوفارم کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے دی ہے۔‬
‫غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سائنو فارم پہلی‬
‫چینی ویکیسن ہے جس کے باقاعدہ استعمال کی اجازت دی گئی ہے‪،‬سائنو فارم ویکسین‬
‫پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی شہریوں کو لگائی جارہی ہے‪،‬اس سے قبل ڈبلیو ایچ او‬
‫فائزر‪ ،‬ایسٹرازینیکا اور دیگر کے استعمال کی بھی اجازت دی چکی ہے‪،‬عالمی ادارہ صحت‬
‫کی اجازت کے بعد سائنو فارم کو کوویکس میں بھی شامل کرلیا گیا ہے جس کے بعد دنیا‬
‫بھر میں دیگر کے ساتھ ساتھ یہ ویکسین بھی کوویکس پروگرام کے تحت غریب ممالک کو‬
‫فراہم کی جائے گی۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/07-May-2021/1286632‬‬

‫کووڈ سے صحتیابی کے بعد ورزش بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫‪8 May 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کے شکار ہونے والے مریضوں کو اگر ورزش کرائی جائے تو اس کے بہت‬
‫اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں‬

‫لندن‪ :‬دنیا بھر میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد دسیوں الکھوں میں‪ ‬‬
‫ہے لیکن بہت سے مریضوں میں کئی مسائل دیکھنے میں ٓائے ہیں۔ اس ضمن میں باقاعدہ‬
‫ورزش اس ہولناک مرض کے کئی حملوں سے بچاسکتی ہے۔‬
‫برطانیہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فارہیلتھ ریسرچ سے وابستہ لیسیٹر تحقیقی مرکز نے کووڈ‬
‫‪ 19‬کے کئی مریضوں کو چھ ہفتے تک ورزش سے گزارا تواس کے حیرت انگیز فوائد‬
‫نظام تنفس کی مضبوطی‪ ،‬تھکاوٹ میں‬‫ِ‬ ‫دیکھنے میں ٓائے۔ ورزش کرنے والے افراد‬

‫| ‪65‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کمی اور دماغی صالحیت میں بہتری بھی نوٹ کی گئی۔ یہ تحقیق جرنل ٓاف کرونک‬
‫رسپائریٹری ڈیزیزمیں شائع ہوئی ہے۔‬
‫اس ضمن میں کورونا سے متاثرہونے ‪ 30‬مریضوں کو کورونا سے صحتیاب ہونے کے‬
‫بعد ہفتے میں دو مرتبہ ورزش کی کالسیں دی گئیں اور انہیں ہسپتال میں بالکر انہیں‬
‫مختلف ورزشیں کروائی گئیں۔ ان میں ایئروبِک ورزشیں‪ ،‬ٹریڈ مل پر دوڑیں‪ ،‬بازو اور‬
‫ٹانگوں کی ورزشیں اور دیگر طرح کی ورزشوں سے گزارا جائے گا۔‬
‫چھ ہفتے میں تمام شرکا نے ورزش میں بہتری دکھائی اور اسے اسکور کے نمبر دیئے‬
‫گئے۔ اس طرح تھکاوٹ اور غنودگی میں بہتری ہوئی۔ اس سے قبل اکثر مریضوں میں‬
‫جسمانی اور نفسیاتی عوارض بھی تھے جو ان کے روزمرہ معموالت کو شدید متاثر‬
‫کررہے تھے۔ بعض افراد سونگھنے اور چکھنے کی حس کھوچکے تھے اور کئی افراد کو‬
‫سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہورہی تھی۔‬
‫اس گروہ میں مردوزن دونوں شامل تھے جن کی اوسط عمر ‪ 58‬برس تھی۔ ان کی ‪87‬‬
‫فیصد تعداد کووڈ ‪ 19‬کی شکار ہوکر ہسپتال میں داخل تھی۔ اکثرمریضوں† نے ‪ 10‬روز‬
‫ہسپتال میں گزارے تھے۔ ان میں سے ‪ 14‬فیصد افراد کو مشینی وینٹی لیشن کے عمل سے‬
‫گزارا گیا اور کئی افراد ٓائی سی یو میں بھی رہ چکے تھے۔ ان میں سے چار افراد کو پہلے‬
‫ہی سانس کا عارضہ مثالً دمہ وغیرہ الحق تھا۔‬
‫اس ضمن میں لیسیٹر ہسپتال کے فزیوتھراپسٹ نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹروں نے‬
‫دیکھا کہ کئی مریضوں† کو چلنے میں ٓاسانی ہوئی اور دیگر مریضوں کو سانس لینے میں‬

‫| ‪66‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بہت بہتری دیکھی گئی۔ کئی مریضوں† کی سمجھ بوجھ اور اکتساب میں بھی بہتری دیکھی‬
‫گئی۔اکثر حاالت میں جب مریضوں کو ورزش کرائی جاتی ہے تو وہ تھکاوٹ اور کمزوری‬
‫محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کووڈ مریضوں میں اس طرح کے منفی ٓاثار نہیں دیکھے گئے‬
‫جو ایک امید افزا بات بھی ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2175767/9812/‬‬

‫ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایڈز کی منتقلی روکنے کا طریقہ دریافت‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪8 2021‬‬

‫طبی محققین نے ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایڈز کی منتقلی روکنے کا طریقہ دریافت کر‬
‫لیا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق سائنس دانوں نے ماں کے خون میں موجود ایچ ٓائی وی (ایڈز) کے‬
‫وسیع پیمانے پر اسٹرینز کو بالک کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔‬
‫نئی ریسرچ نے نوزائیدہ بچوں میں ایچ ٓائی وی (‪)human immunodeficiency virus‬‬
‫کی منتقلی کو روکنا ممکن بنا دیا ہے‪ ،‬محققین کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسا طریقہ دریافت کیا‬
‫ہے جس کی مدد سے ماں کے خون میں وائرس کے اسٹرینز کو بالک کیا جا سکتا ہے۔‬
‫| ‪67‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واضح رہے کہ تحیقی ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایچ ٓائی وی انفیکشن ماں‬
‫کے رحم میں کچھ بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور کچھ میں نہیں ہوتی‪ ،‬تو ایسا کیوں ہوتا‬
‫ہے؟ ویل کورنیل میڈیسن اینڈ ڈیوک یونی ورسٹی کی ٹیم نے اس سوال کے جواب کی تالش‬
‫میں نوزائیدہ بچے میں وائرس کی منتقلی کی روک تھام کا طریقہ معلوم کر لیا۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا ممکنہ طریقہ کار ہے جس کی مدد سے یہ پیش گوئی‬
‫ممکن ہے کہ ماں سے نوزائیدہ بچے میں ایچ ٓائی وی کی منتقلی ہوگی یا نہیں۔‬
‫محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اہم نکتے کی نشان دہی بھی ہوئی ہے کہ وائرس کی اس‬
‫منتقلی کو کس طرح روکا جا سکے گا۔‬
‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو ماں سے دوران حمل‪،‬‬
‫وضع حمل‪ ،‬یا دودھ پالنے کے دوران ایچ آئی وی کی منتقلی کو ’ماں سے بچے کو منتقلی‘‬
‫کہا جاتا ہے۔ کسی بھی عالج کی عدم موجودگی میں اس منتقلی کی شرح ‪ 15‬سے ‪ 45‬فی‬
‫صد تک ہوتی ہے‪ ،‬اگر دوران حمل یا وضع حمل اور دودھ پالنے کے دوران مؤثر عالج‬
‫ہو تو یہ شرح ‪ 5‬فی صد تک بھی کم ہو سکتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/transmission-of-aids-from-mother-to-child/‬‬

‫کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟شہریوں کیلئے صبح‬
‫صبح انتہائی اہم خبر ٓاگئی‬
‫‪07/05/2021‬‬

‫‪   ‬‬

‫‪  ‬اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے ٓاچکے‬
‫ہیں‪ ،‬اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے‬
‫مریض بھی بن سکتے ہیں۔حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے واال مرض‬
‫ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن‬
‫سکتا ہے۔ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪19‬‬
‫ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے‬

‫| ‪68‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫شکار نہیں تھے۔یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا‬
‫ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ ‪ 2‬وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان‬
‫پہنچاتا ہے۔لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں‬
‫تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں‬
‫ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ‪ 46‬کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ‬
‫کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے‬
‫شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے افراد میں ٓائندہ‬
‫‪ 6‬ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان ‪ 39‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کے‬
‫مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا‪ ،‬ان‬
‫میں سے ہر ایک ہزار میں سے ‪ 6.5‬میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے‬
‫۔اسی طرح اسپتال میں زیرعالج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے ‪ 37‬مریض ذیابیطس کا‬
‫شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو ٓائی سی یو میں‬
‫زیر عالج رہنا پڑا ہو۔کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں‬
‫کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد ‪ 15‬کروڑ سے زیادہ ہے۔ماہرین کا خیال‬
‫ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے‬
‫خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خالف جسمانی ردعمل‬
‫| ‪69‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کا باعث بنتا ہے۔ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ ‪ 19‬ہی ذیابیطس کا‬
‫باعث بنتا ہے‪ ،‬تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد‬
‫مل سکے گی۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-102991.html‬‬

‫پی یو ایم اے‪ ،‬اینٹی باڈیزروکنے واال نیا مرض دریافت‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 7  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫فالڈیلفیا کے ایک بچے میں دنیا کی نئی بیماری دریافت ہوئی اور اس کا عالج بھی سامنے‬
‫ٓایا ہے‬

‫فالڈیلفیا‪ :‬گزشتہ ‪ 20‬برس میں ہم ہزاروں نئے امراض دریافت کرچکے ہیں اور اب چلڈرن‬
‫ہسپتال ٓاف فالڈیلفیا (سی ایچ او پی) کے ڈاکٹروں نے ایک بچے میں نئی بیماری کا پتا‬

‫| ‪70‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لگایا ہے جس کے تحت اس کے جسم میں اینٹی باڈیز(ض ِد حیوی) اجزا نہیں بن رہے‬
‫تھے۔‬
‫ہسپتال میں سات ماہ کا ایک بچہ الیا گیا تھا جسے کان کا انفیکشن‪ ،‬چہرے پر سرخ دھبے‬
‫اور مستقل تھکاوٹ کے ٓاثار تھے۔ ڈاکٹروں نے لیوک نامی بچے کا مفصل جائزہ لیا تو‬
‫معلوم ہوا کہ اس کے جسم میں کوئی اینٹی باڈیز موجود نہیں ہیں۔ ‪ ‬اگرچہ یہ کیفیت ایکس‬
‫لنکڈ ایگامیگلوبیوالئیمیا جیسی تھی جو بچوں میں دریافت ہوچکا ہے۔ پہلےان کا خیال اسی‬
‫جانب گیا لیکن مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ لیوک اس مرض کا شکارنہیں ہے۔‬

‫اس کے بعد لیوک کا مکمل جینیاتی تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ‬
‫سے لیوک کا بدن بی سیلز اور اینٹی باڈیز نہیں بنارہا تھا۔ اس طرح وہ ہرطرح کے انفیکشن‬
‫کا نام دیا ‪ PU.1 Mutated agammaglobulinemia‬کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اس مرض کو‬
‫گیا ہے۔ اب اسے مختصراً پی یو۔ایم اے پکارا گیا ہے۔‬
‫اس کے بعد ہسپتال اور یونیورسٹی کے کئی سائنسداں ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور‬
‫بچے پر مکمل تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ بی لمفوسائٹس کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ یہ خلیات‬
‫اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایس پی ٓائی ون نامی جین میں بہت تبدیلی تھی۔‬
‫اگلے مرحلے میں لیوک کے بھائی کی ہڈیوں کا گودا لےکراسے لیوک میں منتقل کیا گیا‬
‫اور اب وہ تندرست ہوچکا ہے۔ اگرچہ یہ ایک نئی نایاب بیماری ہے لیکن اس کا عالج بھی‬
‫سامنے ٓاگیا ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2175356/9812/‬‬

‫جراثیم کو ’پیٹ پھاڑ کر‘ ہالک کرنے والی پرانی اینٹی بایوٹک پر نئے‬
‫تجربات‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 7  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫کولسٹین‘‘ کہالنے والی یہ اینٹی بایوٹک کسی جرثومے کی دونوں حفاظتی جھلیوں کو پھاڑ’’‬
‫کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ (فوٹو‪ :‬امپیریل کالج لندن)‬

‫| ‪71‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لندن‪  :‬امپیریل‪ y‬کالج لندن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ‪ 74‬سال پرانی ایک اینٹی بایوٹک ٓاج‬
‫کے نئے اور سخت جان جرثوموں (بیکٹیریا) کے خالف بھی مؤثر‪ y‬ہے جس کی وجہ شاید‬
‫اس کا وہ منفرد انداز ہے جس سے یہ کسی بھی جرثومے کو ہالک کرتی ہے۔‬
‫واضح رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرثوموں میں ضد حیوی ادویہ (اینٹی‬
‫بایوٹکس) کے خالف مزاحمت پیدا ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے کئی بیماریوں کا‬
‫عالج بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔‬
‫طبّی ماہرین کو خطرہ ہے کہ اگر جرثوموں میں اینٹی بایوٹکس کے خالف مزاحمت اسی‬
‫طرح بڑھتی رہی تو اگلے چند سال میں بیشتر بیماریوں کا عالج ناممکن ہوجائے گا۔‬
‫اسی سوچ کے تحت ماہرین نہ صرف نئی سے نئی اینٹی بایوٹکس ڈھونڈنے کی کوششیں‬
‫جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ پرانی اور متروکہ تدابیر بھی ایک بار پھر ٓازمانے میں‬
‫مصروف ہیں۔‬
‫ہے جو )‪‘‘ (colistin‬تازہ مطالعے میں جس دوا پر تحقیق کی گئی ہے اس کا نام ’’کولسٹین‬
‫‪ 1947‬سے جراثیم کے عالج میں ٓاخری حربے کے طور پر استعمال کی جارہی ہے تاہم‬
‫ٓاج اس کا استعمال بہت کم رہ گیا ہے اور اسے بہت ہی کم مواقع پر تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫بتاتے چلیں کہ کسی بھی جرثومے کے گرد دو جھلیاں ہوتی ہیں جو اسے محفوظ بناتی ہیں۔‬
‫کولسٹین کسی تیز دھار بھالے کی طرح ان دونوں جھلیوں کو پھاڑ کر جراثیم کو موت کے‬
‫گھاٹ اتار دیتی ہے۔‬

‫| ‪72‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے خالف جرثوموں میں اب تک کوئی مزاحمت پیدا نہیں‬
‫ہوسکی ہے۔ لیکن اس تدبیر کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ تب ہی‬
‫استعمال کی جاتی ہے جب دوسری تمام اینٹی بایوٹکس ناکارہ ثابت ہوجائیں۔ البتہ‪ ،‬ایسی‬
‫صورت میں بھی بہت زیادہ احتیاط برتنا ہوتی ہے۔‬
‫امپیریل کالج لندن میں تجربات کے دوران کولسٹین کو مختلف نئے اور سخت جان‬
‫جرثوموں کے خالف ٓازمایا گیا‪ ،‬جو ایک بار پھر ماہرین کی توقعات پر پوری اتری۔‬
‫تاہم اس بار ماہرین کا مقصد اضافی طور پر یہ بھی جاننا تھا کہ کولسٹین ٓاخر کس طرح‬
‫عمل کرتی ہے کہ بیکٹیریا کی دونوں حفاظتی جھلیوں کے پرخچے اُڑا دیتی ہے۔‬
‫اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے تو اسی انداز کو دوسری اینٹی بایوٹکس میں پیدا کرکے ان کی‬
‫اثر پذیری بھی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔‬
‫تازہ تحقیق سے اتنا تو پتا چل گیا ہے کہ کولسٹین کسی جرثومے کی دونوں جھلیوں کو‬
‫یکساں انداز سے پھاڑتی ہے لیکن ابھی اس عمل کی مزید جزئیات کا تعین کرنا باقی ہے‪،‬‬
‫سر نو تیاری میں بھی ٓازمایا‬
‫جس کے بعد اس تکنیک کو دوسری اینٹی بایوٹکس کی از ِ‬
‫جائے گا۔‬
‫نوٹ‪ :‬اس تحقیق کی تفصیالت ٓان الئن ریسرچ جرنل ’’ای الئف‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں‬
‫شائع ہوئی ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2175613/9812/‬‬

‫کن عالمات والے کرونا مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟‬


‫‪May 2021 8‬‬
‫ماہ نور یوسف‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی کے مطابق کرونا کے مریضوں کی عالمات کو دیکھتے ہوئے‬
‫ہی اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا انہیں روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں۔‬
‫کراچی —‪  ‬پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری لہر میں کیسز میں تیزی سے اضافہ‬
‫دیکھنے میں آ رہا ہے جب کہ ملک بھر میں ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے۔‬
‫وبا کی اس بگڑتی ہوئی صورت ِحال کے دوران مسلمانوں کے لیے رمضان کے مہینے‬
‫میں روزے رکھنا بھی اہم ہے۔‬
‫مسلمان اس مہینے میں اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ‬
‫عبادات بھی کر رہے ہیں۔چوں کہ رمضان میں ہمیں سارا دن بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا ہے‬
‫اور ایسے میں اگر کرونا وائرس میں مبتال کوئی مریض روزہ رکھنا چاہے تو اس سے‬
‫متعلق بے شمار لوگوں کے ذہن میں کئی سواالت جنم لیتے ہیں۔‬
‫کرونا وائرس کے مریض کے روزہ رکھنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے سے متعلق سواالت‬
‫کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے پاکستان کے شہر کراچی کی ڈاؤ یونی‬
‫ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ناک‪ ،‬کان‪ ،‬حلق اور پاکستان‬
‫| ‪73‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسالمک میڈیکل ایسوسی ایشن کی کرونا ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر‬
‫عاطف حفیظ صدیقی سے گفتگو کی ہے۔‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی نے بتایا کہ کرونا وائرس میں مبتال مریضوں کو انتہائی کم‬
‫ت‬
‫عالمات سے لے کر سنگین ترین صور ِ‬
‫ان کے بقول کرونا وائرس کے سبب مریضوں کی دو سے دو اعشاریہ پانچ فی صد تعداد‬
‫کی اموات کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔‬
‫کرونا میں مبتال کون سی عالمات والے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی کے مطابق کرونا کے مریضوں کی عالمات کو دیکھتے ہوئے‬
‫ہی اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا انہیں روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں۔‬
‫ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر بیماری میں روزے رکھنے سے متعلق علما کا یہی‬
‫فتوی ہے کہ اگر روزہ رکھنے سے جان کو خطرہ ہو یا صحت کی خرابی‪ ،‬مرض بڑھنے‬ ‫ٰ‬
‫اور انسانی جسم کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تو روزہ چھوڑ دینا چاہیے اور یہ تمام‬
‫فتوی ہے جس کا ہر رمضان میں اعادہ بھی کیا جاتا ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫علما کا متفقہ‬
‫انہوں نے بتایا کہ بحیثیت ایک مسلمان میں یہ سمجھتا ہوں کہ روزہ ایک بہت قیمتی چیز‬
‫ہوتی ہے اور اس کو چھوڑ دینا کوئی بہت آسان کام نہیں ہوتا خصوصا ً ان لوگوں کے لیے‬
‫جو روزہ رکھنے کے عادی ہوتے ہیں یا جو بچپن سے ہی روزے رکھ رہے ہوتے ہیں اور‬
‫ہمیشہ روزے کی پابندی کرتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا کہ اگر کسی مریض کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آ جائے اور‬
‫وہ 'اے سمٹیمیٹک' ہے یعنی اس میں کرونا کی کوئی عالمات ظاہر نہیں ہو رہیں اور وہ‬
‫آئسولیشن میں ہے تو وہ بالکل روزے رکھ سکتا ہے۔‬
‫ان کے بقول ایسے مریض جن کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے اور ان میں کرونا کے 'مائلڈ‬
‫سمپٹممز' ہیں جن میں ایسے مریض شامل ہیں جن کی سونگھنے کی حس متاثر ہوئی ہے یا‬
‫اسے ذائقہ نہیں آر ہا ہے اس کے عالوہ وہ بالکل ٹھیک محسوس کر رہے ہیں تو اسے‬
‫روزے رکھ لینے چاہیے۔‬
‫کرونا مثبت کے کون سے مریض روزے چھوڑ سکتے ہیں؟‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ کے مطابق کسی مریض کی شدت اگر ایسی ہو رہی ہو کہ اسے‬
‫کھانسی‪ ،‬جسم میں بہت درد ہو‪ ،‬بے تحاشا کمزوی محسوس ہو رہی ہو تو ایسے مریض اپنی‬
‫حالت کو م ِد نظر رکھتے ہوئے روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ گھر میں آئسولیشن کے دوران بہت سے مریض ایسے ہیں جن کی‬
‫آکسیجن سیچوریشن بلکل ٹھیک ہے اور انہیں اسپتال جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی البتہ‬
‫انہیں کافی کمزوری محسوس ہوتی ہے اور ایسے میں اگر وہ روزہ رکھیں تو انہیں مزید‬
‫کمزوری ہو جائے اور اس وجہ سے انہیں روزہ توڑنا پڑ جائے تو وہ ایک زیادہ مشکل‬
‫مرحلہ ہو سکتا ہے۔‬

‫| ‪74‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان کے بقول بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی تو ہللا نے ہدایت دی ہے اور اس کی‬
‫قضا بھی ممکن ہے لیکن اگر کسی کو ایسے روزہ توڑنا پڑے تو یہ ایک بہت سخت اور‬
‫مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں جب مریض کی صحت بالکل ہی خراب‬
‫ہو تو اسے روزہ توڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔‬
‫عالوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ کرونا میں مریض کو بخار ہے یا کمزوری ہے تو اسے بار‬
‫بار پھل‪ ،‬جوس یا وٹامنز کی ضرورت پڑتی ہے اور روزے کی حالت میں یہ ممکن نہیں‬
‫ہوتا چنانچہ اگر کسی مریض کو ایسی عالمات ہیں کہ اسے بے حد کمزوری ہو رہی ہو اور‬
‫اسے بخار‪ ،‬کھانسی وغیرہ بھی ہو رہا ہو تو بھی وہ روزہ قضا کر کے اسے بعد میں پورا‬
‫کر لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‬
‫ڈاکٹر عاطف حفیظ کے مطابق کرونا کے مریضوں کی ایک اسٹیج یہ ہوتی ہے جس میں‬
‫مریض کو کھانسی کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی کمی یا اسپتال جانے کی ضرورت پیش آ‬
‫جاتی ہے تو وہاں مریض کو الزمی روزہ چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ اس سے ان کی‬
‫صحت میں مزید خرابی کا اندیشہ ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ کرونا کے مریضوں کو یہ فیصلہ خود کرنا چاہیے کہ کیا وہ اس قابل‬
‫ہیں؟ کیا ان کی صحت ایسی ہے کہ وہ روزہ رکھ سکتے ہیں؟ اور وہ اتنی کمزوری‬
‫محسوس نہیں کر رہے کہ انہیں روزہ رکھنے میں مشکل ہو گی یا روزے کے بعد ان کو‬
‫صحت میں کوئی خرابی محسوس تو نہیں ہو رہی۔‬
‫ان کا مزید کہنا ہے کہ ایسے مریض جو روزہ رکھ رہے ہوں انہیں بھی اس بات کا خاص‬
‫خیال رکھنا ہو گا کہ اس سے ان کی طبیعت خراب نہ ہو رہی ہو۔‬
‫ڈاکٹر عاطف نے کرونا کے مریضوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے وٹامنز لینے کے ساتھ ساتھ‬
‫تازہ پھل اور جوس کا استعمال کریں تا کہ ان کی صحت بہتر رہے۔‬
‫کرونا مریض کے روزہ چھوڑنے کے ح††والے س††ے ک††راچی کے عالقے س††ائٹ کی ج††امعہ‬
‫بنوریہ عالمیہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم کا کہنا ہے کہ اسالم ایک آسان دین ہے اور اس††الم‬
‫میں اس بات کی باقاعدہ اج††ازت ہے کہ روزہ رکھ††نے کی وجہ س††ے اگ††ر کس††ی م††ریض ک††ا‬
‫مرض شدت پکڑ رہا ہو تو ایسی صورت میں اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔‬
‫ان کے بقول جہاں تک کرونا وائرس کا تعلق ہے تو ایسے مریض جس کی عالمات تشویش‬
‫ناک نہ ہوں اور اسے سانس لینے میں بھی مسئلہ نہ ہو اور ڈاکٹرز اسے باآسانی روزہ‬
‫رکھنے کی تجویز کرتے ہیں تو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/covid-paitents-and-fasting-in-ramadan-‬‬
‫&‪05may21/5878784.html+&cd=1&hl=en‬‬

‫| ‪75‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اب شہد کی مکھیاں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص کریں گی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪9 2021‬‬

‫کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے بعد اس کی تشخیص میں کم از کم ‪ 24‬گھنٹے کا وقت لگتا‬


‫ہے لیکن ماہرین نے اس کے لیے نہایت ٓاسان طریقہ دریافت کرلیا۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق نیدر لینڈز کے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کے‬
‫ذریعے کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص میں کامیابی حاصل کی ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کو تربیت فراہم کی جن کی سونگھنے‬
‫کی حس بہت تیز ہوتی ہے اور نمونوں میں انہوں نے سیکنڈوں میں بیماری کی تشخیص‬
‫کی۔‬
‫مکھیوں کی تربیت کے لیے نیدر لینڈز کی ویگینگن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انہیں‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثر نمونے دکھانے کے بعد میٹھا پانی بطور انعام دیا جبکہ عام نمونوں پر‬
‫کوئی انعام نہیں دیا گیا۔‬
‫ان مکھیوں کو اس وقت انعام دیا جاتا جب وہ کوئی متاثرہ نمونہ پیش کرتیں۔‬

‫| ‪76‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سائنسدانوں نے بتایا کہ ہم نے عام شہد کی مکھیاں حاصل کی تھیں اور مثبت نمونوں کے‬
‫ساتھ انہیں میٹھا پانی دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد تھی کہ مکھیاں وائرس کی‬
‫تشخیص پر انعام حاصل کرسکیں گی۔‬
‫عوما ً کووڈ ‪ 19‬کے نتیجے کے حصول میں کئی گھنٹے یا دن لگتے ہیں مگر شہد کی‬
‫مکھیوں کا ردعمل برق رفتار ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار سستا بھی ہے اور سائنسدانون کے‬
‫مطابق ان ممالک کے لیے کارٓامد ہے جن کو ٹیسٹوں کی کمی کا سامنا ہے۔‬
‫اس طرح کا طریقہ کار ‪ 1990‬کی دہائی میں دھماکہ خیز اور زہریلے مواد کو ڈھونڈنے‬
‫کے لیے بھی کامیابی سے اپنایا گیا۔‬
‫یاد رہے کہ شہد کی مکھیوں کو ذہین خیال کیا جاتا ہے اور اس سے قبل بھی شہد کی‬
‫مکھیاں مختلف تجربات میں ذہانت کے مظاہرے پیش کرچکی ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/bees-trained-to-detect-covid-19-infections/‬‬

‫کرونا کی افریقی اور برطانوی اقسام کے خالف کس کمپنی کی ویکسین‬


‫مؤثر ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 9 2021‬‬

‫| ‪77‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دوحہ‪ :‬قطر میں کرونا کی نئی اقسام پر اثر انداز ہونے والی تحقیق میں‌ ایک کمپنی کی‬
‫ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج سامنے ٓائے ہیں۔بین االقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق‬
‫قطر میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ امریکا کی دوا ساز کمپنی فائزر اور‬
‫بائیو این ٹیک کی جانب سے تیار کردہ کرونا ویکسین افریقی اور برطانوی اقسام کے‬
‫وائرس کے خالف مؤثر ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ فائزر کی ویکسین جنوبی افریقی اور برطانیہ میں سامنے‬
‫ٓانے والی کرونا کی خطرناک اقسام کے خالف ‪ 75‬فیصد تک مٔوثر ثابت ہو سکتی ہے۔‬
‫اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی تھی کہ جنوبی افریقا اور برطانیہ‬
‫میں سامنے ٓانے والی کرونا کی اقسام پر کوئی ویکسین اثر انداز نہیں ہوسکتی۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی افریقا میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم فائزر‬
‫اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کی افادیت کو کسی حد تک کم کرنے کا‬
‫باعث بن رہی ہے۔‬
‫ماہرین نے اس مطالعے کے لیے تحقیق میں چار سو ایسے افراد کو شامل کیا‪ ،‬جنہیں کرونا‬
‫کی تشخیص ہوئی یا پھر انہوں نے مذکورہ کمپنی کی تیارہ کردہ ویکسین کی دو خوراکیں‬
‫حاصل کرلیں تھیں۔‬
‫ان مریضوں کی رپورٹس† کا موازنہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے کوویڈ مریضوں سے‬
‫کیا گیا‪ ،‬ان سب مریضوں کی عمریں‪ ،‬جنس اور دیگر عناصر مماثلت رکھتے تھے۔‬
‫کرونا کی جنوبی افریقی قسم بی ‪ 1351‬کو تحقیق میں کوویڈ کے ایک فیصد کیسز میں‬
‫دریافت کیا گیا۔ ‪ ‬تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی تھی کہ ویکسین کی دو خوراکیں استعمال‬
‫کرنے والے مریضوں† میں وائرس کی اس قسم کی شرح ویکسین استعمال نہ کرنے والوں‬
‫کے مقابلے میں ‪ 8‬گنا زیادہ تھی۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ’مذکورہ تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ فائزر ویکسین وائرس‬
‫کی اصل قسم اور برطانیہ میں دریافت قسم کے مقابلے میں جنوبی افریقی قسم کے خالف‬
‫کم مؤثر ہے‘۔ محققین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد کے‬
‫مقابلے میں ویکسین کی دوسری خوراک لینے والے افراد میں جنوبی افریقی قسم کی زیادہ‬
‫شرح کو دریافت کیا‪ ،‬جو بہت زیادہ پریشان کن بات ہے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ ’ان نتائج سے یہ بات سامنے ٓائی کہ جنوبی افریقی قسم کسی حد تک‬
‫ویکسین کے تحفظ میں کمی النے کی صالحیت رکھتی ہے‘۔ یاد رہے کہ اس تحقیق کے‬
‫نتائج کے بعد امریکی کمپنی کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔‬
‫اس سے قبل سابقہ تحقیقی رپورٹوں میں عندیہ دیا گیا تھا کہ فائزر ویکسین بی ‪ 1351‬قسم‬
‫کے خالف دیگر اقسام کے مقابلے میں کم مؤثر ہے تاہم اس کے خالف تحفظ فراہم‬
‫کرسکتی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/africa-and-uk-covid-strain-pfizer-vaccine/‬‬

‫| ‪78‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫!کورونا کے پھیالؤ سے متعلق خطرناک انکشاف‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 9 2021‬‬

‫واشنگٹن‪ :‬امریکا کے طبی حکام نے ہوا کے ذریعے کوروناوائرس کے پھیالؤ کا اعتراف‬


‫کرلیا ہے۔‬
‫غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول‬
‫اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے طبی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ مہلک وائرس ہوا کے‬
‫ذریعے بھی پھیلتا ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق سی ڈی سی کی جانب سے جاری ہونے والی نظرثانی گائیڈالئنز میں‬
‫کہا گیا ہے کہ لوگوں میں کووڈ‪ 19‬کے پھیالؤ کا ایک ذریعہ وائرل ذرات سے آلودہ فضا‬
‫میں سانس لینا بھی ہے‪ ،‬سانس لینے کے دوران نکلنے والے ذرات ہوا کے ذریعے دیگر‬
‫افراد میں منتقل ہوسکتے ہیں۔‬
‫سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے قبل ازیں اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا تھا۔‬
‫گائیڈالئنز میں بتایا گیا ہے کہ ذرات سانس کے ذریعے دیگر افراد کے جسموں میں جاسکتا‬
‫ہے یا ان کی آنکھوں‪ ،‬ناک یا منہ پر گرسکتے ہیں‪ ،‬لوگوں کے درمیان ‪ 6‬فٹ کی دوری‬
‫کورونا کے پھیال کو روکنے کے لیے کافی نہیں تاہم اتنی دوری میں لوگوں میں وائرس کی‬
‫منتقلی کا امکان قریب موجو افرا سے کم ہوتا ہے۔‬

‫| ‪79‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خیال رہے کہ سی ڈی سی نے اپنی پرانی گائیڈ الئنز میں کہا تھا کہ وائرس انسانوں کے‬
‫ٓاپس میں قریب ٓانے سے ہی منتقل ہوتا ہے جبکہ ہوا کے ذریعے اس کا پھیالؤ ممکن نہیں‬
‫ہے۔‬
‫دوسری جانب ورجینیا ٹیک ایروسول ماہر لینسے کا کہنا ہے کہ سی ڈی سی نے اب نئے‬
‫سائنسی شواہد کے مطابق گائیڈالئنز جاری کی ہیں اور وائرس کے پھیالؤ کے حوالے سے‬
‫سوچ سے چھٹکارا حاصل کیا گیا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا جاچکا ہے کہ وائرس ہوا سے‬ ‫واضح رہے کہ مختلف تحقیقی رپورٹس میں بھی‬
‫بھی پھیلتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dangerous-revelation-about-the-spread-of-‬‬
‫‪corona/‬‬

‫دل کو ہمیشہ صحت مند رکھیں‬

‫‪ ‬ڈاکٹر حکیم وقار حسین ‪ ‬‬

‫جمعرات‪ 6  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫| ‪80‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دیگر حیوانات کے دل کی حرکت بھی دماغ کے تابع ہے مگر انسان کا دل دماغ سے صرف‬
‫اشارات حاصل کرتا ہے۔‬

‫ت حیوانیہ یعنی وہ قوت جو انسان کو دیگر جانداروں سے ممتازکرتی ہے‪ ،‬اور انسان‬ ‫قو ِ‬
‫کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے کی ذمہ دار ہے کا مرکز دل ہے۔ دل کو قلب‬
‫بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خون دل سے گزر کر دوبارہ دل کی جانب ٓاتا ہے‪ ،‬اسے اصطالح‬
‫میں خون کا‪  ‬منقلب ہونا کہتے ہیں۔‬
‫عضورئیس ہے کہ سر سے لے کر پائوں تک خون کو پہنچاتا ہے۔ دل کے چار‬ ‫ِ‬ ‫یہی وہ‬
‫خانے ہیں‪ ،‬اور دو اطراف ہیں‪ ،‬داہنی طرف کو جو دیوار بائیں طرف سے الگ کرتی ہے‪،‬‬
‫اس پر ایک نقطہ نما شے ہے یہی نقطہ دل کی غیر ارادی حرکت ’دھڑکن‘ کا ضامن ہے۔‬
‫دیگر حیوانات کے دل کی حرکت بھی دماغ کے تابع ہے مگر انسان کا دل دماغ سے‬
‫صرف اشارات حاصل کرتا ہے۔ رگیں خون کو اعضاء کی طرف بھیجتی ہیں سوائے‬
‫پھیپھڑوں کی جانب ٓانے والی شریانوں اور رگوں کے ‪ ،‬کہ ان کا کام باقی کے برعکس ہے‬
‫۔ اب تعارف کے بعد دل کی ساخت کا علم بھی ضروری ہے۔‬
‫‪:‬دل کی ساخت‬
‫دل کی لمبائی انسان کی بند مٹھی کے برابر ہے ‪ 21‬تا ‪ 40‬سال کی عمر کے حضرات کے‬
‫دل کا اوسطً وزن‪ 289.6‬گرام ہے ‪ ،‬جبکہ اس عمر کی خواتین کے دل کا وزن اوسطً‪ ‬‬
‫‪ 284.7‬گرام ہے۔‪ 61‬تا ‪ 70‬سال‪  ‬کی عمر کے حضرات کے دل کا اوسطً وزن‪ 385.9‬گرام‬
‫اورخواتین کا دل اوسطً ‪ 285.1‬گرام ہے۔ دل کی شکل صنوبری ہے اور اس کا چھوٹا حصہ‬
‫دائیں جانب جبکہ زیادہ حصہ بائیں جانب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ دل ہلکا سا لیٹا ہوا ہے‬
‫دائیں سے بائیں جانب۔ یہ خاص قسم کے عضالت سے بنا ہے جو نہایت پائیدار ہیں ۔‬
‫دل جہاں دائیں اور بائیں جانب شریانوں کی راہ خون پہنچاتا ہے( اصطالحا ً شریان ریوی )‪ ‬‬
‫وہاں جسم کے تمام اعضاء تک بھی خون بہم پہنچاتا ہے۔ یہ فعل دل کی شریا ِن اعظم کے‬
‫ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ شریا ِن اعظم وہ حصہ جو گردن سے دماغ تک‬
‫خون مہیا کرتا ہے اسے شریا ِن سباتی کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬اور جو حصہ کندھوں تک خون‬
‫شریان تحت الکتف ( کندھوں کے نیچے سے گزرنے والی شریان) کہا‬ ‫ِ‬ ‫پہنچاتا ہے اسے‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اس شریان ہی کی شاخیں اور ان شاخوں سے نکلنے والی باریک شاخیں ہاتھ کی‬
‫انگلیوں تک خون کی رسائی کو ممکن بناتی ہیں پھر خم کھاتے ہوئے (گول ہوتے ہوئے )‬
‫شریان اعظم کا نچال حصہ جسم کے تمام اعضاء کو خون پہنچاتا ہے۔‬
‫ِ‬
‫شریان اعظم پشت کے پانچوئے مہرے تک ہے‪ ،‬پھر اس کے حصے جگر ‪ ،‬معدہ ‪ ،‬تلی‪،‬‬ ‫ِ‬
‫ٓانتو ں اور جسم کے نچلے حصوں تک خون پہنچاتے ہیں۔اس† طرح ان اعضاء سے باریک‬
‫رگیں اُگتی ہیں جو ایک سے اگلی مل کر ایک بڑی رگ‪’  ‬اجوف (وینا کیوا)‪  ‬بناتی ہے‪ ،‬یہی‬
‫رگ دل کے دائیں اُذن میں خون پہنچاتی ہے‪ ،‬یہاں دو نوکوں والی کیواڑی کی راہ خون‬
‫دائیں بطن اور یہاں سے یہ خون جو ’ دخانی خون ‘ کہالتا ہے ‪ ،‬پھیپھڑوں میں جاتا اور‬

‫| ‪81‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫صاف ہو کر‪  ‬یعنی نسیم (ٓاکسیجن ) جذب کر کے دل کے بائیں بطن اور پھر شریا ِن اعظم‬
‫تک خون رسائی حاصل کرتا ہے‪ ،‬اس شریا ِن اعظم سے دو شاخیں نکلتی ہیں جو دل کے‬
‫عضالت کو خون پہنچاتی ہیں انہیں شریان اکلیلی (کارونری ٓارٹری) کہتے ہیں۔‬
‫دل کو صحت مند کیسے رکھیں؟‬
‫دماغ کو تازہ رکھیں تاکہ ’سٹریس ہارمون‘ کا افراز نہ ہو یہ ہارمون دل کے عضالت کو‬
‫ضرر پہنچاتا ہے‪ ،‬ورزش کریں تو گہرا سانس لیں تاکہ زیادہ تازہ ہواپھیپھڑوں† میں داخل‬
‫طرز زندگی اپنائیں تاکہ دل کو ریاضت‬ ‫ِ‬ ‫طرز حیات کی بجائے چُست‬‫ِ‬ ‫ہو۔ پُر سکون‬
‫(ورزش) ملے۔خوراک میں پھل مثالً خربوز‪ ،‬تربوز‪ٓ ،‬ام ( ٓام میں دل کے خاص خامرات ’‬
‫کارڈیک گالئیکو سائیڈز‘ ہوتے ہیں‪ ،‬جب دل کی حرکت میں خلل واقع ہو تو ’ڈجی ٹالس‘‬
‫جو کہ دل کا خامراہ ہے دیا جاتا ہے یہ ٓام میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے)۔‬
‫سالن میں عام نمک کی بجائے’ گالبی نمک ‘ استعمال کریں کیوں کہاس میں برق پاشیدے (‬
‫الیکٹروالئٹ ) زیادہ ہیں۔ پھلوں کے عالوہ سالن میں بکرے ‪ ،‬دیسی مرغ ‪ ،‬گائے کا گوشت‬
‫بالخصوص ان کے دل کا استعمال کریں۔ ٓایوروید طریقہ عالج میں جو عضو کھایا جاتا ہے‬
‫وہ انسان میں اسی عضو کی قوت کا باعث ہے۔ مٹھاس بقدر ِ ضرورت ضرور لینی چاہیے‪،‬‬
‫شوگر کے مریضوں کو شوگر کی دیگر پیچیدگیوں‪  ‬مثالً ہاتھ پائوں کا سن ہونا (ڈایابیٹک‬
‫نیوروپیتھی) سے بچاتی ہے۔‬
‫مزید یہ کہ اکثرشوگر کے مریض مٹھاس بالکل ترک کرنے کی وجہ سے دل کے امراض‬
‫کا شکار ہوتے ہیں۔ نیند بھرپور لینی چاہیے۔ اطباء کے نزدیک اگر پہال بول زرد رنگ کا‬
‫ہو تو مطلب ہے کہ نیند کی مقدار پوری ہوگئی ہے‪ ،‬پھر بھی اگر سستی قائم رہے تو‬
‫اعصابی نظام اور خون کی مقدار پر دھیان دینی چاہیے۔ سہانجنہ کے پتے کا سفوف یا‬
‫چائے دل کے لیے نہایت مفید ہے‪ ،‬اس میں تمام لحمیاتی اکائیاں (امائینو ایسڈ) پائی جاتی‬
‫ہیں۔‬
‫دل کو نقصان سے کیس بچائیں؟‬
‫۔ نکوٹین والی اشیاء سے پرہیز کریں‪2 ،‬۔ ہر وقت سوچ بچار سے بچیں‪3 ،‬۔ ہفتے میں ایک‪1‬‬
‫یا کم از کم دو بار سبز عالقوں میں تفریح کریں‪4 ،‬۔ معدے کا دھیان رکھیں کیوں کہ اکثر‬
‫افراد کو گیس کی وجہ سے بلڈپریشر یا خفقان (دل گھبرانا) الحق ہوتا ہے یعنی دل کو اذیت‬
‫پہنچتی ہے‪5 ،‬۔ گھی اور تلی ہوئی غذائیں ‪ ،‬ٹرائی گلیسرائیڈ بڑھاتی ہیں اور دل کی‬
‫شریانوں کے اندرچپک کر دل سمیت باقی شریانوں کی تنگی کا باعث بنتی ہیں‪6 ،‬۔ کوئی‬
‫ورزش جس کی عادت ہو چکی ہو‪ ،‬ایک دم نہ ترک کریں‪ ،‬اس سے دماغی ہارمونز کو‬
‫نقصان پہنچتا ہے جس سے استحالہ (میٹابولزم) خراب ہوتا ہے اور دل کی دھڑکن بڑھ‬
‫جاتی ہے۔‬
‫اگر دھڑکن زیادہ عرصے بڑھی رہے تو دل کی ایک جانب بڑھ جاتی ہے‪7 ،‬۔ ہفتے میں دو‬
‫دن ادر ک ملی چائے ضرور لینی چاہیے کیونکہ یہ خون کو نہ صرف پتال رکھتی ہے بلکہ‬
‫شریان‬
‫ِ‬ ‫غیر ضروری چربی کو بھی پگھالتی ہے‪8،‬۔ کمر پر چوٹ نہ ٓانے دیں‪ ،‬اگر دل کی‬
‫ت قلب بند ہو سکتی ہے‪9 ،‬۔ غم اور غصہ سے‬ ‫اعظم تک ہلکا سا اثر بھی پہنچتا ہے تو حرک ِ‬
‫| ‪82‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بچیں ‪ ،‬یہ سٹریس ہارمون افراز کرنے کا باعث ہیں جو دل کے عضالت کو ضرر دیتا ہے‪،‬‬
‫‪10‬۔‪  ‬الٹا سونے سے گریز کریں یعنی پشت ٓاسمان کی جانب نہ ہو‪ ،‬اس میںخون کا منفی‬
‫دبائو دل پر پڑتا ہے‪ ،‬جس سے دھڑکن کا مرض الحق ہوسکتا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2175050/9812/‬‬

‫پلس ٓاکسی میٹر کے استعمال کا درست طریقہ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 9  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫| ‪83‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫)پلس ٓاکسی میٹر کووڈ‪ 19-‬کے خالف جنگ میں اہم ہتھیاربن چکا ہے۔‬

‫نیویارک‪ :‬کورونا نے عام افراد کو‪  ‬بہت سارے نئے الفاظ‪ ،‬بہت سارے نئے طبی ٓاالت‪ ‬‬
‫سے متعارف کروایا جس میں ایک چھوٹا مگر نہایت اہم طبی ٓالہ ’ پلس ٓاکسی میٹر‘‪ y‬بھی‬
‫ہے۔‬
‫کووڈ‪ 19-‬کے خالف جنگ میں اہم ہتھیار کی‬
‫حیثیت رکھنے واال یہ ٓالہ اب دنیا بھر کے‬
‫بیشتر گھروں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ اس‬
‫ٓالے سے‪  ‬سیچوریشن( خون میں ٓاکسیجن کی‬
‫سطح)‪  ‬کے ساتھ ساتھ نبض کی رفتار‪ ،‬بلڈ‬
‫پریشر کو کہیں بھی کسی بھی وقت چیک کیا‬
‫جاسکتا ہے۔ تاہم اس ٓالے کے غلط استعمال‬
‫سے ٓاپ کی پریشانی میں اضافہ بھی ہوسکتا‬
‫ہے خصوصا جب ٓاپ کورونا کے مریض‬
‫کی سیچوریشن چیک کر رہے ہوں اور میٹر‬
‫اسے ‪ 99‬یا ‪ 95‬کی جگہ ‪ 89‬یا ‪ 85‬ظاہر کرے تو یہ مریض کے تیمار داروں کی ڈوریں‬
‫لگوا سکتا ہے۔‬
‫پلس ٓاکسی میٹر کا درست استعمال ٓاپ کو بال وجہ کی ذہنی کوفت سے بچا سکتا ہے‪ ،‬زیر‬
‫نظر مضمون میں دی گئی معلومات کی بنیاد پر ٓاپ پلس ٓاکسی میٹر کے صحیح استعمال‬
‫میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔‬
‫۔ سیچوریشن چیک کرنے سے کم از کم دس منٹ پہلے مریض کے جسم کر ٓارام دہ حالت‪1‬‬
‫میں الئیں۔‬
‫۔ پلس ٓاکسی میٹر کو شہادت یا درمیانی انگلی پراس طرح پہنیں کہ اس کا سینسر ناخن‪2‬‬
‫‪.‬سے اوپر براہ راست جلد سے َمس ہو۔ ٓاکسی میٹر کو کبھی بھی ناخن پر نہیں پہنیں‬

‫۔ ٓاکسی میٹر کو متوازن رکھیں اور‪3‬‬


‫حرکت نہیں کریں‪  .‬میٹر انگلی پر‬
‫ڈگمگانا نہیں چاہیئے۔‪  ‬جب تک میٹر‬
‫اپنی پیمائش مکمل نہیں کر لیتا اس‬
‫وقت تک حرکت نہ کریں۔۔ پُرسکون‬
‫رہتے ہوئے ٓاکسی میٹر کی‪  ‬ریڈنگز کو‬
‫مستحکم ہونے دیں‪ ،‬ابتدائی ریڈنگز کو‬
‫نظر انداز کردیں۔‬

‫| ‪84‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جو کہ ٓاکسی میٹر میں ( اگر ٓاپ کو صحت کے مسائل درپیش ہپں تو اپنی سیچوریشن‬
‫کو‪  ‬دن میں تین مرتبہ ریکارڈ کریں۔ عموما ‪ 95‬تک )سے ظاہر ہوتی ہے ‪SPO2‬‬
‫سیچوریشن کو نارمل تصور کیا جاتا ہے‪ ،‬تاہم اگر ٓاپ کی سیچوریشن ‪ 92‬سے نیچے پہنچ‬
‫جائے تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2176379/9812/‬‬

‫ڈبلیو ایچ او نے سائنو فارم ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے‬


‫دی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 9  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫‪،‬ایف ڈی اے نے پانچویں کورونا ویکسین کی منظوری دی ہے‬

‫جینیوا‪ :‬عالمی ادارہ برائے صحت نے چینی کمپنی سائنو فارم کی کورونا ویکسین‪ ‬کے‬
‫استعمال کی ہنگامی طور پر منظوری دے دی۔‬

‫| ‪85‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس سے قبل ڈبلیو ایچ او نے صرف فائزر‪ٓ ،‬اسٹرا‬
‫زینیکا‪ ،‬جانسن اینڈ جانسن اور موڈرنا کی جانب سے بننے والی ویکسین کی منظوری دے‬
‫رکھی تھی۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے یہ پہلی ویکسین ہے جسے مغربی ممالک میں تیار‬
‫نہیں کیا گیا۔‬
‫یہ ویکیسن‪  ‬اب تک چین‪ ،‬پاکستان اور دیگر ممالک کے الکھوں افراد کو لگ چکی ہے‬
‫جب کہ بہت سے ممالک خصوصا افریقا‪ ،‬الطینی امریکا اور ایشیا کے غریب ممالک‬
‫کے‪ ‬محکمہ‪  ‬صحت نے انفرادی طور پر اس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری‬
‫دے رکھی ہے۔‬
‫اگرچہ بین االقوامی طور پر جاری ہونے والے ڈیٹا کے مطابق مختلف چینی ویکیسین‪  ‬کی‬
‫افادیت غیر یقینی ہے لیکن‪ ‬عالمی ادارہ برائے صحت نے بیجنگ انسٹی ٹیوٹ ٓاف بایو‬
‫لوجیکل پراڈکٹس کی سائنو فارم ویکسین کی ’ حفاظت‪ ،‬کارکردگی اور معیار‘ کی توثیق کر‬
‫تے ہوئے کہا ہے کہ اس ویکسین کے اضافے سے دنیا کے ایسے ممالک کو ویکسین‪ ‬تک‬
‫رسائی ملے گی جہاں‪ ‬عوام اور ہیلتھ ورکرز‪  ‬خطرے میں ہیں۔‬
‫تاہم یہ ویکسین اٹھارہ سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کو دو خوراکوں میں دی‬
‫جائے گی جب کہ روس کی سپوتنک اور چینی کمپنی سینو ویک کی ویکسین بھی ابھی‬
‫جانچ کے مراحل سے گزر رہی ہے اور ان کی منظوری یا مسترد کرنے کا فیصلہ چند‬
‫دنوں میں سامنے ٓاجائے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2176079/9812/‬‬

‫دلیے کے استعمال کے صحت پر حیرت انگیز اثرات‬


‫مئی ‪09 2021 ،‬‬

‫| ‪86‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫غذائی ماہرین کی جانب سے جو یا گندم کے دلیے کو انسانی صحت کے لیے قدرت کی‬
‫طرف سے خزانہ قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬غذائیت سے بھرپور دلیے کے استعمال کے صحت پر‬
‫حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں جنہیں جاننا اور اسے بطور غذا روٹین میں شامل کرنا‬
‫نہایت ضرری ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق دلیے کے استعمال کے نتیجے میں دل‪ ،‬معدے‪ ،‬گردوں اور ٓانتوں کی‬
‫صحت بہتر اور کینسر کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے‪ ،‬جو اور گندم کا دلیہ وٹامنز‪،‬‬
‫معدنیات‪ ،‬فائبر اور اینٹی ٓاکسیڈنٹ سے بھرپور غذا ہے‪ ،‬سائنسی تحقیق میں بھی یہ بات ثابت‬
‫ہو چکی ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دلیہ کا ایک چھوٹا پیالہ کھانے کے نتیجے میں صحت‬
‫بہتر اور زندگی کا دورانیہ طویل ہوتا ہے۔‬
‫دلیے کا استعمال جہاں فائبر کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے وہیں اس کے استعمال سے بے‬
‫وقت کی بھوک میں کمی واقع ہوتی ہے جس کے سبب وزن میں کمی اور اضافی چربی کا‬
‫مضر صحت منفی کولیسٹرول اور‬
‫ِ‬ ‫خاتمہ ہوتا ہے‪ ،‬دلیے کے استعمال سے خون میں موجود‬
‫شوگر کی سطح بھی متوازن رہتی ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت اور ڈائٹیشنز کے مطابق ‪ 100‬گرام دلیے میں ‪ 389‬کیلوریز‪ 8 ،‬فیصد پانی‪،‬‬
‫ِ‬
‫‪ 66.3‬گرام کاربز‪ 16.9 ،‬گرام پروٹین‪ 10.6 ،‬گرام فائبر جبکہ ‪ 6.9‬گرام فیٹ ہوتا ہے اور‬
‫وٹامنز اور منرلز سے بھر پور دلیے میں ‪ 0‬گرام شوگر پائی جاتی ہے۔‬
‫| ‪87‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫روزانہ کی بنیاد پر دلیے کے استعمال سے مجموعی صحت پر ٓانے والے چند مثبت اثرات‬
‫‪:‬مندرجہ ذیل ہیں‬

‫نظام ہاضمہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے فائبر کا استعمال بہت ضروری ہے‪ ،‬دلیے‬
‫میں فائبر کی مخصوص قسم ’بیٹا گلوکین‘ پائی جاتی ہے جس کی مدد سے جسم میں غذائیت‬
‫بہتر طریقے سے جذب اور ٓانتوں کی صفائی ہوتی ہے‪ ،‬بیٹا گلوکین کا اگر روزانہ استعمال‬
‫کیا جائے تو اس کی مدد سے کولیسٹرول لیول متوازن رہتا ہے‪ ،‬قدرتی طور پر انسولین کی‬
‫متوازن افزائش ہوتی ہے جبکہ معدے میں ُگڈ بیکٹیریاز کے بننے کے عمل میں بھی ٓاسانی‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫جو کے دلیے میں فیٹ کی کم مقدار اور شوگر ‪ 0‬فیصد پائے جانے کے سبب اس کے‬
‫روزانہ استعمال سے وزن میں کمی ٓاتی ہے‪ ،‬دلیے میں فائبر کی بھاری مقدار پائے جانے‬
‫کے سبب پہلے سے موجود چربی کو بھی پگھلنے میں مدد ملتی ہے‪ ،‬انسانی جسم کو جب‬
‫اضافی شوگر اور فیٹ ملنا بند ہو جاتا ہے تو جسم قدرتی طور پر پہلے سے اپنے اندر‬
‫موجود چربی اور شوگر کا استعمال شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں ورزش کیئے‬
‫بغیر ہی چربی پگھلنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وزن میں کمی ٓاتی ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق انسانی صحت کے لیے اینٹی ٓاکسیڈنٹ غذأوں کا استعمال نہایت الزمی‬
‫مضر صحت مادوں کو زائل‬ ‫ِ‬ ‫ہے کیوں کہ ان کی مدد سے ہی جسم اور خون میں موجود‬
‫ہونے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫اینٹی ٓاکسیڈنٹ کی کئی اقسام ہیں جن میں سے دلیے میں پولیفینول نام کا اینٹی ٓاکسیڈنٹ پایا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬دلیے کے استعمال سے سوجن اور خارش جیسی شکایات میں بھی ٓارام ملتا ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق مرغن اور مسالےدار غذأوں سے اجتناب کرنا چاہیئے خصوصا ً‬ ‫ِ‬
‫‪ 30‬سال کی عمر کے بعد‪ ،‬ان غذأوں کے سبب بلڈ پریشر اور شوگر لیول بڑھتا ہے‪ ،‬بلڈ‬
‫پریشر برا ِہ راست دل پر اثر انداز ہو کر دل کے عارضے میں مبتال کر سکتا ہے۔‬
‫ماہرین جلدی امرض کے مطابق انسانی جلد کی صحت کا برا ِہ راست‬‫ِ‬ ‫ماہرین غذائیت اور‬
‫ِ‬
‫تعلق غذا سے ہوتا ہے‪ ،‬اگر مسالے دار مرغن غذأوں کا استعمال کریں گے تو چہرے پر‬
‫کیل‪ ،‬مہاسے‪ ،‬جھائیوں کے بننے کا عمل تیز ہو جائے گا جبکہ جلد پر جھریاں بھی وقت‬
‫سے پہلے ٓا جائیں گی‪ ،‬دلیے کے روزانہ استعمال سے ایک مہینے کے دوران ہی ٓاپ کے‬
‫چہرے کی جلد میں نمایاں اور مثبت اثرات ٓاتے ہیں۔‬

‫| ‪88‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک تحقیق کے مطابق اگر بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی دلیے کا استعمال شروع کروا دیا‬
‫جائے تو اس کے نتیجے میں بچے دمے سے بچ سکتے ہیں جبکہ دلیے کے استعمال سے‬
‫ت مدافعت مضبوط ہوتی ہے اور یہ موسمی انفیکشن سے بچوں کی حفاظت بھی کرتا ہے۔‬ ‫قو ِ‬
‫بچوں کو دمے کے مرض سے بچانے کے لیے ان کی پہلی ٹھوس غذا میں دلیے کا استعمال‬
‫ضرور رکھیں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/924114‬‬

‫مچھلی کے تیل کے کیپسول سے نقصان بھی ہوسکتا ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 4 2021‬‬

‫مچھلی کے تیل اور چکنائی کو انسانی جسم کے لیے نہایت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے اور‬
‫اس کے لیے اس کی کیپسول بھی بازار میں دستیاب ہیں‪ ،‬تاہم اب ماہرین نے اس کا‬
‫نقصان بھی دریافت کرلیا ہے۔‬
‫حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل یا اومیگا تھری کیپسول‬
‫ایسے افراد میں دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی النے کا باعث بن سکتے ہیں جن کے‬
‫خون میں چکنائی یا لپڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔‬

‫| ‪89‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وقت مچھلی کے تیل کے سپلمنٹس‬
‫کے بارے میں عندیہ دیا جاتا ہے کہ یہ دل کی شریانوں سے جڑے خطرات کو کم کرتے‬
‫ہیں اور یہ ہر جگہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دستیاب ہیں۔‬
‫اس سے قبل کچھ کلینیکل ٹرائلز میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ سپلمنٹس دھڑکن میں بے‬
‫ترتیبی کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں‪ ،‬اس عارضے کے شکار افراد میں فالج کا خطرہ دیگر‬
‫کے مقابلے میں ‪ 5‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی واال یہ مرض مختلف پیچیدگیوں جیسے خون گاڑھا ہونے‪،‬‬
‫فالج اور ہارٹ فیلیئر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں مچھلی کے تیل کے سپلمنٹس پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس کا جامع تجزیہ‬
‫کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان سے دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ کتنا بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ان تحقیقی رپورٹس میں ‪ 50‬ہزار سے زائد افراد شامل تھے جن کو مچھلی کے تیل کے‬
‫کیپسول یا پلیسبو کا استعمال ‪ 2‬سے ‪ 7‬سال تک کروایا گیا‪ ،‬مچھلی کے تیل کی روزانہ‬
‫خوراک ‪ 0.84‬گرام سے ‪ 4‬گرام تھی۔‬
‫ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ سپلمنٹس پلیسبو کے مقابلے میں دھڑکن کی بے ترتیبی کے‬
‫عارضے کا خطرہ ‪ 1.37‬گنا بڑھا سکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مچھلی کے تیل کے سپلمنٹس سے دھڑکن‬
‫کی بے ترتیبی کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹرائل میں عندیہ دیا گیا تھا کہ یہ سپلمنٹ دل کی شریانوں کے لیے‬
‫مفید ہے مگر دھڑکن کی بے ترتیبی کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی فروخت‬
‫ڈاکٹروں کے نسخے پر ہونی چاہیئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/omega-3-fish-oil-supplements/‬‬

‫وہ غذائیں جو امراض قلب کا خطرہ کم کرسکتی ہیں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 5 2021‬‬

‫| ‪90‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امراض قلب دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہیں‪ ،‬حال ہی میں ایک تحقیق میں ان غذاؤں‬
‫کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو امراض قلب کے خطرے کو کم کرسکتی ہیں۔‬
‫حال ہی میں ٓاسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں‬
‫کی کچھ مقدار کا روزانہ استعمال دل کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتا ہے۔‬
‫ایڈتھ کووان یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور‬
‫سبزیوں جیسے سبز پتوں والی سبزیوں اور چقندر کی زیادہ مقدار غذا کا حصہ بناتے ہیں‪،‬‬
‫ان کا بلڈ پریشر کس حد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا کہ ان افراد میں برسوں بعد امراض قلب کا خطرہ کتنا ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیق کے دوران ڈنمارک کے رہائشی ‪ 50‬ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا‬
‫تھا جو ‪ 23‬سالہ غذائی‪ ،‬کینسر اور صحت تحقیق کا حصہ بنے تھے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتے‬
‫ہیں ان میں بلڈ پریشر کی سطح ‪ 2.5‬ایم ایم ایچ جی کم ہوتی ہے جبکہ امراض قلب کا خطرہ‬
‫‪ 12‬سے ‪ 26‬فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسی غذاؤں کی شناخت ضروری ہے جو امراض قلب کی روک تھام‬
‫کرسکتی ہوں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ روزانہ ایک کپ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں‬
‫کو کھانے سے لوگ دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کر سکتے‬
‫ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس طرح کی غذا سے امراض قلب کی اس قسم کا خطرہ ‪ 26‬فیصد تک‬
‫کم ہوجاتا ہے جس سے ٹانگوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں‪ ،‬جبکہ ہارٹ اٹیک‪،‬‬
‫فالج اور ہارٹ فیلیئر جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔‬
‫| ‪91‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/foods-high-in-nitrates-good-for-heart/‬‬

‫فضائی ٓالودگی کا ایک اور خطرناک نقصان‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 5 2021‬‬

‫فضائی ٓالودگی جہاں ایک طرف تو انسانی جسم اور صحت کے لیے بے شمار نقصانات‬
‫کھڑے کرسکتی ہے وہیں کئی بار تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ دماغی‬
‫صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔‬
‫حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ محض چند ہفتے کی‬
‫فضائی ٓالودگی ہھی دماغی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے تاہم تحقیق کے مطابق منفی‬
‫اثرات کی شدت کو اسپرین جیسی ورم کش ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫یہ پہلی تحقیق ہے جس میں مختصر المدت فضائی آلودگی اور ورم کش ادویات کے‬
‫استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع تحقیق میں مختلف ایونٹس جیسے جنگالت میں‬
‫آتشزدگی‪ ،‬اسموگ‪ ،‬سگریٹ کے دھویں‪ ،‬کوئلے پر کھانا پکانے سے اٹھنے والے دھویں‬
‫اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے فضائی ٓالودگی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔‬

‫| ‪92‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین نے بوسٹن سے تعلق رکھنے والے ‪ 954‬معمر افراد کی دماغی کارکردگی اور ہوا‬
‫میں موجود ننھے ذرات پی ایم ‪ 2.5‬اور سیاہ کاربن جیسی ٓالودگی کے اثرات کا موازنہ کیا۔‬
‫اس کے عالوہ تحقیق میں ورم کش ادویات کے استعمال سے مرتب اثرات کا تجزیہ بھی کیا‬
‫گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی ایم ‪ 2.5‬کی اوسط سطح میں اضافہ ‪ 28‬دن تک برقرار‬
‫رہنے سے ذہنی ٓازمائش کے ٹیسٹوں میں رضا کاروں کے اسکور کم ہوئے۔ تاہم جو افراد‬
‫ورم کش ادویات استعمال کر رہے تھے ان میں فضائی آلودگی سے دماغی کارکردگی پر‬
‫مرتب ہونے والے اثرات کی شرح دیگر سے کم تھی۔‬
‫ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اسپرین کا استعمال اعصابی ورم کو معتدل رکھتا ہے یا دماغ‬
‫کی جانب خون کے بہاؤ میں تبدیلیاں التا ہے جس سے فضائی ٓالودگی کے منفی اثرات کا‬
‫کم سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ مختصرمدت کے لیے فضائی ٓالودگی بھی صحت پر منفی اثرات‬
‫مرتب کرتی ہے تاہم اسپرین یا دیگر ورم کش ادویات کے استعمال سے ان کی شدت کو کم‬
‫کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/air-pollution-effects-on-mental-well-being/‬‬

‫ویکسینیشن کے بعد سامنے ٓانے والے‪ %‬بیشتر اثرات‪ ،‬اضطراب کی وجہ'‬


‫'سے ہیں‬
‫ڈان اخبار‬
‫مئ ‪03 2021‬‬

‫| ‪93‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ویکسین کے اثرات کی شکایت کرنے والوں میں اکثریت‪ 61 ،‬فیصد خواتین تھیں جن کی‬
‫اوسط عمر ‪ 36‬سال تھی‪ ،‬رپورٹ ‪ -‬فائل فوٹو‪:‬اے ایف پی‬
‫واشنگٹن‪ :‬امریکا کی صحت کی نگرانی کرنے والی اہم ایجنسی 'مرکز برائے امراض‬
‫کنٹرول اور روک تھام' (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کی ویکسینیشن کے بعد‬
‫سامنے ٓانے والے اثرات‪ ،‬بیہوش ہونا‪ ،‬چکر آنا اور متلی‪ ،‬اضطراب کی وجہ سے ہیں اور ان‬
‫کا تعلق ویکسین سے نہیں ہے۔‬
‫ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ایڈوائزری امریکا میں پانچ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن‬
‫کرنے والے مقامات سے جمع کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے اور اسے جمعہ کی سہ پہر کو‬
‫جاری کیا گیا۔‬
‫مراکز نے اضطراب سے متعلق ‪ 64‬کیسز کی اطالع دی جن میں اپریل کے اوائل میں‬
‫جانسن اور جانسن ویکسن کی پہلی خوراک ملنے کے بعد بیہوش ہونے کے ‪ 17‬کیسز بھی‬
‫شامل ہیں۔‬
‫امریکی صحت کے اداروں نے ‪ 6‬افراد کے خون کے جمنے کی غیر معمولی شکایت پیدا‬
‫ہونے کے بعد اس ویکسین کی فراہمی کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔‬

‫| ‪94‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اپریل کو سی ڈی سی اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے رپورٹ ‪23‬‬
‫ہونے والے کیسز کا مکمل جائزہ لینے کے بعد یہ پابندی ختم کردی تھی اور تمام صحت‬
‫مراکز کو اس ویکسین کا استعمال دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی تھی۔‬
‫تاہم اس کے حالیہ ایڈوائزری میں سی ڈی سی نے ویکسین فراہم کرنے والوں پر زور دیا کہ‬
‫وہ 'ویکسینیشن کے بعد اضطراب سے متعلقہ کیسز سے آگاہ رہیں اور ویکسین لگانے کے‬
‫بعد کم از کم ‪ 15‬منٹ تک کسی بھی منفی رد عمل کے لیے کووڈ ‪ 19‬کے تمام ویکسین‬
‫وصول کنندگان کا مشاہدہ کریں'۔‬
‫ویکسین کے اثرات کی شکایت کرنے والوں میں اکثریت‪ 61 ،‬فیصد خواتین تھیں جن کی‬
‫اوسط عمر ‪ 36‬سال تھی۔‬
‫اس کے عالوہ ‪ 20‬فیصد مریضوں نے ویکسینیشن سائٹ کے عملے کو بتایا کہ وہ انجکشن‬
‫لگنے یا سوئی لگنے سے بیہوش ہوجاتے ہیں۔‬
‫ایسی زیادہ تر عالمات کھانے‪/‬پینے اور آرام کرنے سے ہی ‪ 15‬منٹ کے اندر حل ہوگئیں‬
‫جبکہ ‪ 20‬فیصد مریض مزید تشخیص کے لیے ہسپتال میں داخل ہوئے‪ ،‬ان مراکز میں سے‬
‫‪ 4‬نے ان رد عمل کی تحقیقات کے لیے ویکسینیشن معطل کردی۔‬
‫سی ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'ویکسینیشن کے بعد اضطراب سے متعلقہ کیسز‬
‫کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ویکسینیشن فراہم کرنے والوں کو ویکسینیشن جاری رکھنے‬
‫کے بارے میں فیصلے کرنے کے قابل بنائے گا'۔‬
‫رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اضطراب کے دورے جانسن اور جانسن کی ویکسین‬
‫سے مخصوص نہیں اور 'کسی بھی ویکسین لگوانے کے بعد ہو سکتے ہیں'۔‬
‫اس تحقیق میں یہ بھی پتا چال ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق اضطراب کے حملے فلو‬
‫سے وابستہ افراد کے مقابلے میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔‬
‫ویکسین کے اثرات میں کمی‬
‫سی ڈی سی کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے صدر‬
‫ڈاکٹر جیفری گیلر نے ویکسین لگوانے کے بعد گہری سانس لینے اور آرام کرنے کا مشورہ‬
‫دیا۔‬

‫| ‪95‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'ایک بار جب آپ اس مرکز پر پہنچ‬
‫گئے‪ ،‬خاص طور پر بڑے ویکسینیشن مرکز‪ ،‬تو یہ آپ کا ذہن تبدیل کرنے میں مددگار ثابت‬
‫ہوگا‪' ،‬لوگ اگر اضطراب کا شکار ہیں تو انہیں میڈیکل ٹیم کو بتانا چاہیے‪ ،‬اسے خود تک‬
‫محدود نہ رکھیں'۔‬
‫جانسن اینڈ جانسن ویکسین پر پابندی کو ختم کرنے والے ایف ڈی اے اور سی ڈی سی کے‬
‫ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کے رکنے سے پہلے ہی ‪ 68‬الکھ خوراک پہلے ہی استعمال‬
‫کی جاچکی تھیں اور ان ‪ 68‬الکھ میں سے ‪ 15‬وصول کنندگان نے خون کے جمنے اور کم‬
‫پلیٹلیٹ کی شکایت کی۔‬
‫انہوں نے تجویز پیش کی کہ ویکسین فراہم کرنے والوں اور معالجین کو وسیع پیمانے پر‬
‫تعلیم فراہم کی جائے تاکہ وہ ان کیسز کو صحیح طور پر پہچانیں اور ان کا انتظام کریں اور‬
‫درکار عالج کا بندوبست کریں‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159231/‬‬

‫النگ کووڈ کا سامنا ‪ 65‬سال سے کم عمر افراد کو بھی ہوسکتا ہے‪،‬‬


‫تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪03 2021‬‬
‫کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کے شکار زیادہ افراد صحتیاب ہوجاتے‬
‫ہیں‪ ،‬تاہم بیشتر کو طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔صحتیابی کے‬
‫بعد ان افراد کو متعدد عالمات کا سامنا ہوتا ہے جس کے لیے النگ کووڈ کی اصطالح‬
‫استعمال کی جاتی ہے ۔‬
‫اب ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ‬
‫معمر ہوں بلکہ ‪ 65‬سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔‬

‫| ‪96‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے ‪ medRxiv‬پری پرنٹ سرور‬

‫والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ‪ ،‬سانس لینے میں مشکالت‪ ،‬سینے میں درد‪ ،‬کھانسی‪ ،‬ذہنی‬
‫تشویش‪ ،‬ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا ہے‬
‫اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق ‪ 57‬ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر‬
‫ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور النگ کووڈ کی عالمات کو مریضوں میں‬
‫بیماری کی تشخیص کے ‪ 2‬یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔‬
‫بعدازاں ‪ 6‬ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں عالمات کا جائزہ لیا گیا اور ‪ 57‬ہزار مریضوں‬
‫میں سے ‪ 11‬ہزار ‪ 400‬میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔‬
‫محققین نے ان افراد میں ‪ 3‬سے ‪ 6‬ماہ بعد اور ‪ 6‬سے ‪ 9‬ماہ بعد نئی عالمات کو کووڈ کے‬
‫نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔‬
‫| ‪97‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سے ‪ 6‬ماہ کے دوران ‪ 65‬سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے ‪3 3‬‬
‫گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ ‪ 65‬سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان ‪ 4‬گنا زیادہ تھا‬
‫جبکہ ‪ 6‬سے ‪ 9‬ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔‬
‫سے ‪ 6‬ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان ‪ 65‬سال کی عمر کے ‪3‬‬
‫‪ 35‬فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔‬
‫اسی طرح ‪ 3‬سے ‪ 6‬ماہ کے دوران ‪ 65‬سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین‬
‫کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان ‪ 2.6‬گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫سے ‪ 9‬ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر ‪6‬‬
‫کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔‬
‫اسی عرصے میں ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر‬
‫چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص ایام‬
‫کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬

‫مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں ‪ 65‬سال سے کم عمر خواتین میں النگ کووڈ کی‬
‫عالمات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫محققین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر‬
‫النگ کووڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں‬
‫کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔‬
‫یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کووڈ کے نتیجے میں زیادہ بیمار نہیں ہوئے تھے‬
‫اور ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے۔‬
‫اب محققین کی جانب سے ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں پر تحقیق کی منصوبہ‬
‫بندی کی جارہی ہے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159265/‬‬

‫| ‪98‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کم یا زیادہ جسمانی وزن کووڈ ‪ 19‬کی شدت میں اضافے کا خطرہ‬
‫بڑھائے‬
‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪03 2021‬‬

‫جسمانی وزن کووڈ ‪ 19‬کے شکار افراد میں بیماری کی شدت پر اثر انداز ہونے واال عنصر‬
‫ہے۔یہ بات اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫طبی جریدے دی النسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرینولوجی‪ %‬جرنل میں شائع تحقیق میں ‪ 20‬ہزار‬
‫سے زیادہ کووڈ ‪ 19‬کے مرریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫یہ مریض کووڈ ‪ 19‬کی پہلی لہر کے دوران ہسپتال میں زیرعالج رہے یا ہالک ہوگئے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ جسمانی وزن کے ساتھ ساتھ کم جسمانی وزن بھی کووڈ‬
‫‪ 19‬کے مریضوں میں سنگین نتائج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 20‬سے ‪39‬‬
‫سال کی عمر کے افراد میں زیادہ جسمانی وزن کے نتیجے میں کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت‬
‫کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے تاہم ‪ 60‬سال سے زائد عمر کے افراد میں کم ہوتا ہے۔‬

‫| ‪99‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے‬
‫کہ جسمانی وزن میں معمولی اضافہ بھی کووڈ ‪ 19‬کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھا‬
‫سکتا ہے اور وزن میں جتنا اضافہ ہوگا‪ ،‬خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ‪ 40‬سال سے کم عمر افراد میں اضافی وزن سے خطرہ زیادہ بڑھ جاتا‬
‫ہے تاہم ‪ 80‬سال کی عمر کے افراد میں اس سے بیماری کے نتائج پر کوئی اثرات مرتب‬
‫نہیں ہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن پالیسیوں میں موٹاپے کے شکار افراد کو ترجیح دی‬
‫جانی چاہیے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 24‬جنوری سے ‪ 30‬اپریل کے دوران کووڈ ‪ 19‬کے سنگین کیسز کے نتائج‬
‫کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 13‬ہزار سے زیادہ مریض ہسپتال میں زیرعالج رہے‪1602 ،‬‬
‫کو آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا جبکہ ‪ 5479‬مریض ہالک ہوگئے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرنے والے مریضوں میں ‪ 60‬سال سے زیادہ‬
‫عمر کی اکثریت تھی۔تحقیق کے مطابق باڈی ماس انڈیکس میں ‪ 23‬کلوگرام یا اس سے زیادہ‬
‫جسمانی ون والے افراد کو زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہوا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ نہیں جانتے کہ جسمانی وزن میں کمی النا کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫سنگین شدت کا خطرہ کم کرسکتا ہے یا نہیں مگر یہ قابل قبول محسوس ہوتا ہے‪ ،‬جبکہ اس‬
‫کے دیگر طبی فوائد بھی ہوتے ہیں۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159267/‬‬

‫دوران حمل ماں سے بچے میں کورونا منتقل ہونے کا امکان بہت کم ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪04 2021‬‬

‫| ‪100‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫—‬
‫کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی حاملہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں اس‬
‫بیماری کی منتقلی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔یہ بات سوئیڈن میں ہونے والی ایک طبی تحقیق‬
‫میں سامنے آئی۔‬
‫کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور پبلک ہیلتھ ایجنسی کی اس تحقیق میں ایسے نومولود بچوں کا‬
‫جائزہ لیا گیا تھا جن کی مائیں دوران حمل یا زچگی کے دوران کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوئیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ کووڈ سے متاثرہ حاملہ خواتین کے بچوں کی جلد‬
‫پیدائش کا امکان ہوتا ہے مگر ان میں بیماری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔‬
‫طبی جریدے جاما میں شائع تحقیق میں ‪ 11‬مارچ ‪ 2020‬سے ‪ 31‬جنوری ‪ 2021‬تک‬
‫سوئیڈن میں لگ بھگ ‪ 90‬ہزار بچوں کی پیدائش کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ حاملہ خواتین کے بچوں میں مختلف‬
‫امراض کی شرح تھوڑی زیادہ تھی مگر اس کی وجہ قبل ا وقت پیدائش تھی اور کووڈ سے‬
‫اس کا تعل نہین تھا۔‬

‫| ‪101‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مجموعی طور پر ‪ 2323‬بچوں کی پیدائش کووڈ ‪ 19‬سے متاثرہ خواتین کے ہاں ہوئی جن‬
‫میں سے ایک تہائی کے ٹیسٹ پیدائش کے فوری بعد ہوئے۔‬
‫محض ‪ 21‬بچوں میں پیدائش کے بعد ‪ 28‬دنوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں سے‬
‫اکثر میں عالمات ظاہر نہیں ہوئیں‪ ،‬چند بچوں کا عالج کووڈ ‪ 19‬کی بجائے دیگر امراض‬
‫کے لیے ہوا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ کورونا سے متاثر حاملہ خواتین کو نومولود بچوں سے الگ نہیں کرنا‬
‫چاہیے کیونکہ اس سے ماں اور بچے دونوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ماں اور بچے کی نگہداشت ایک ساتھ کرنے‬
‫سے بچے کی صحت کو خطرہ الح نہیں ہوتا‪ ،‬یہ تمام حاملہ خواتین کے لیے اچھی خبر ہے۔‬
‫یہ اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں حاملہ خواتین سے بچوں‬
‫میں منتقلی کے امکان کا جائزہ لیا گیا‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159345/‬‬

‫روزانہ اس غذا کی کچھ مقدار کا استعمال امراض قلب سے بچائے‬


‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪4 2021‬‬

‫نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کی کچھ مقدار کا روزانہ استعمال امراض لب کا خطرہ نمایاں‬
‫حد تک کم کرسکتا ہے۔یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫ایڈتھ کووان یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور‬
‫سبزیوں جیسے سبز پتوں والی سبزیوں اور چقندر کی زیادہ مقدار غذا کا حصہ بناتے ہیں‪،‬‬
‫ان کا بلڈ پریشر کس حد تک کم ہوتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا کہ ان افراد میں‬
‫برسوں بعد امراض قلب کا خطرہ کتنا ہوتا ہے۔‬

‫| ‪102‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دل کی شریانوں سے جڑے امراض دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔‬

‫تحقیق کے دوران ڈنمارک کے رہائشی ‪ 50‬ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا‬
‫تھا جو ‪ 23‬سالہ غذائی‪ ،‬کینسر اور صحت تحقیق کا حصہ بنے تھے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرتے‬
‫ہیں ان میں بلڈ پریشر کی سطح ‪ 2.5‬ایم ایم ایچ جی کم ہوتی ہے جبکہ امراض قلب کا خطرہ‬
‫‪ 12‬سے ‪ 26‬فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ ایسی غذاؤں کی شناخت ضروری ہے جو امراض قلب کی روک تھام‬
‫کرسکتی ہوں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ روزانہ ایک کپ نائٹریٹ سے بھرپور سبزیوں‬
‫کو کھانے سے لوگ دل کی شریانوں کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرسکتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی غذا سے امراض قلب کی اس قسم کا خطرہ ‪ 26‬فیصد تک کم‬
‫ہوجاتا ہے جس سے ٹانگوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں‪ ،‬جبکہ ہارٹ اٹیک‪ ،‬فالج‬
‫اور ہارٹ فیلیئر جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔‬

‫| ‪103‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم ایک کپ سے زیادہ مقدار سے کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوتا جبکہ نائٹریٹ سپلیمنٹس بھی‬
‫اس حوالے سے سبزیوں جتنے مفید نہیں۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین جرنل آف‬
‫ایپیڈیمولوجی میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159346/‬‬

‫کورونا کی وہ ‪ 10‬اقسام جو عالمی ادارہ صحت کی توجہ کا مرکز ہیں‬


‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪05 2021‬‬

‫عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ‪ 10‬نئی اقسام پر باریک‬
‫بینی سے نظر رکھی جارہی ہے۔ان اقسام میں سے ‪ 2‬کو امریکا میں دریافت کیا گیا تھا‪ ،‬ایک‬
‫بھارت سے تعلق رکھتی ہے جو وہاں کورونا کی دوسری لہر کی بڑی وجہ سمجھی جارہی‬
‫ہے۔کورونا وائرس کی نئی اقسام روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہی ہیں کیونکہ یہ وائرس‬
‫مسلسل باشعور ہورہا ہے‪ ،‬مگر ان میں سے چند ہی عالمی ادارہ صحت کی ویرینٹ آف‬
‫انٹرسٹ یا ویرینٹ آف کنسرن کی فہرستوں کا حصہ ہیں۔‬

‫| ‪104‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان اقسام کو میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو ان کو ممکنہ طور پر زیادہ متعدی‪ ،‬زیادہ جان‬
‫لیوا اور ویکسین یا عالج کے خالف زیادہ مزاحمت کی طاقت دیتی ہیں۔‬
‫عالمی ادارے نے برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی ‪ ،117‬جنوبی افریقہ میں دریافت‬
‫ہونے والی قسم بی ‪ 1351‬اور برازیل میں دریافت ہونے والی قسسم پی ‪ 1‬کو باعث تشویش‬
‫سمجھی جانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا ہے۔‬
‫اسی طرح بھارت میں دریافت ہونے والی قسم کو بی ‪ 1617‬فی الحال ویرنٹ آف انٹرسٹ‬
‫کی فہرست میں شامل ہے مگر ادارے کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ اس کے بارے میں مزید‬
‫تحقیق سے اس قسم کے بارے میں معلوم ہوسکے گا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں وائرس کی متعدد اقسام گردش کررہی ہیں اور ان میں سے ہر‬
‫ایک کو مناسب تجزیہ ہونا چاہیے۔‬
‫سائنسدانوں کی جانب سے دیکھا جارہا ہے کہ ہر قسم کس حد تک مامی خطوں میں گردش‬
‫کررہی ہیں‪ ،‬ان میں میوٹیشنز سے بیماری کی شدت یا پھیالؤ میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور‬
‫دیگر عناصر کو بھی مدنظر رکھا جارہا ہے۔‬
‫عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تفصیالت بہت تیزی سے آرہی ہیں اور روزانہ‬
‫کی بنیاد پر نئی اقسام سامنے آرہی ہیں مگر ان میں سے سب اہم نہیں۔‬
‫ویرینٹ آف انٹرسٹ کی فہرست میں شامل دیگر اقسام میں بی ‪( 1525‬سب سے پہلے‬
‫برطانیہ اور نائیجریا میں سامنے آئی)‪ ،‬بی ‪ /1427‬بی ‪( 1429‬امریکا میں سامنے آئی)‪ ،‬پی‬
‫‪( 2‬برازیل میں سامنے آئی)‪ ،‬پی ‪( 3‬جاپان اور فلپائن میں سامنے آئی)‪ ،‬ایس ‪ 477‬این‬
‫(امریکا میں دریافت ہوئی) اور بی ‪( 1616‬سب سے پہلے فرانس میں سامنے آئی) شامل‬
‫ہیں۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان ممالک کے ماہرین کے ذریعے نئی اقسام کی شناخت اور ان سے‬
‫پیدا ہونے والی صورتحال کو سمجھا جارہا ہے۔‬
‫ادارے کے مطابق ہم نے ماہرین کو ایک کمرے میں اکٹھا کیا ہے اور عالمی برادری کو‬
‫اکٹھے مل کر کام کرنا چاہیے۔بیان میں کہا گیا کہ متعدد ممالک میں پریشان کن رجحانات‬
‫نظر آئے ہیں‪ ،‬کچھ میں کیسز کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے‪ ،‬ہسپتالوں اور آئی سی‬

‫| ‪105‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یو میں داخلے کی شرح بڑھی ہے۔یہ وہ ممالک ہیں جن کو ابھی تک ویکسینز تک رسائی‬
‫نہیں ملی۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159348/‬‬

‫باریک برفیلی سوئیوں کا پیوند‪ :‬پگھل کر جسم میں دوا پہنچائے گا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 5  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫اس برفیلے پیوند کے ذریعے پروٹین‪ ،‬پیپٹائیڈ‪ ،‬ایم ٓار این اے‪ ،‬ڈی این اے اور ویکسین وغیرہ‬
‫جسم میں پہنچائی جاسکیں گی۔ (فوٹو‪ :‬سٹی یونیورسٹی ہانگ کانگ)‬

‫ہانگ کانگ‪ :‬سٹی یونیورسٹی ہانگ کانگ کے ماہرین نے انتہائی باریک اور برفیلی‬
‫سوئیوں پر مشتمل ایک ایسا پیوند تیار کرلیا ہے جس کی سوئیاں کھال میں سرایت کرنے‬
‫کے بعد پگھل جائیں گی اور ان سے خارج ہونے والی دوا‪ ،‬خون میں شامل ہوجائے گی۔‬

‫| ‪106‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ابتدائی تجربات میں اس پیوند کے اندر زندہ خلیے بند کرکے جسم میں پہنچائے گئے۔ اس‬
‫کے اگلے اور زیادہ عملی نمونوں میں خلیوں کی جگہ مختلف دوائیں بھری جائیں گی۔‬
‫واضح رہے کہ انتہائی باریک اور چھوٹی چھوٹی سوئیوں والے ان پیوندوں کو ’’مائیکرو‬
‫نِیڈل پَیچ‘‘ کہا جاتا ہے جو مستقبل قریب میں مروجہ انجکشن کا بہتر اور ’’بے تکلیف‘‘‬
‫متبادل بھی قرار دیئے جارہے ہیں۔‬
‫منجمد اور برفیلے پیوند‪ ،‬جنہیں اسی مناسبت سے ’’کرایو† مائیکرو نِیڈل پَیچ‘‘ کا نام دیا گیا‬
‫ہے‪ ،‬اسی میدان میں ایک نئی اختراع ہیں۔‬
‫کسی بھی دوسرے مائیکرو نِیڈل پَیچ کی طرح‪ ،‬اس برفیلے پیوند میں بھی صرف ایک ملی‬
‫میٹر لمبی اور ایک ملی میٹر چوڑی سوئیوں کو ایک سطح پر ترتیب سے جمایا گیا ہے۔‬
‫ہر برفیلی سوئی کے اندر کوئی دوا یا پھر زندہ خلیے بھرے ہوں گے جنہیں خصوصی‬
‫انتظامات کے ذریعے اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ شدید سردی میں بھی اپنی درست اور‬
‫کارٓامد حالت برقرار رکھیں۔‬
‫باریک سوئیوں واال یہ برفیال پیوند اب تک کے تجربات میں سرطان زدہ چوہوں پر کامیابی‬
‫سے ٓازمایا جاچکا ہے۔‬
‫اسے ایجاد کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’کرایو مائیکرو نِیڈل پَیچ‘‘ میں خلیات اور‬
‫ادویہ کے عالوہ پروٹینز‪ ،‬پیپٹائیڈز‪ ،‬ایم ٓار این اے‪ ،‬ڈی این اے اور ویکسینز تک محفوظ‬
‫کرکے جسم کے اندر تک پہنچائی جاسکیں گی۔‬
‫نوٹ‪ :‬اس اختراع کی تفصیل ’’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ٓان الئن‬
‫شائع ہوئی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2174493/9812/‬‬

‫نمک کا زائد استعمال امنیاتی نظام کو متاثر کرسکتا ہے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫‪6 May2021‬‬

‫نمک کی غیرمعمولی مقدار جسمانی امنیاتی نظام اور خلیات کو کمزور کرسکتی ہے۔‬

‫لندن‪ :‬طبی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ نمک کا زائد استعمال جسم کے فوجی (امنیاتی)‪ ‬‬
‫خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نمک مائٹوکونڈریائی افعال پر اثرانداز ہوکر نہ صرف‬
‫امنیاتی نظام کو کمزور کرتے ہیں بلکہ جسمانی سوزش کو بھی بڑھاتے ہیں۔‬
‫امراض قلب ہر مفصل تحقیق ہوچکی ہے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں‬
‫ِ‬ ‫اس سے قبل نمک اور‬
‫کہ نمک کی زیادتی بلڈ پریشرکوبڑھاتی ہے۔ چند برس قبل خون میں سوڈیئم کی زیادتی‬
‫سے ایک قسم کے امنیاتی خلیات مونوسائٹس کا بگاڑ بھی دیکھا گیا تھا۔‬
‫| ‪107‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اب ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ نمک کا غیرمعمولی استعمال امنیاتی خلیات میں‬
‫مائٹوکونڈریائی سرگرمیوں کو کزور کرتا ہے۔ مائٹوکونڈریا ہر خلیے میں پایا جاتا ہے اور‬
‫انہیں خلیاتی بجلی گھر بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫اس طرح امنیاتی خلیات توانائی سے محروم ہوجاتے ہیں جس سے بدن کی امراض سے‬
‫لڑنے کی صالحیت شدید متاثرہوسکتی ہے۔‬
‫تجربہ گاہ میں کئے گئے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ نمک کے انتہائی باریک سالمات‬
‫بھی ایک اینزائم کو روکتے ہیں جو مائٹوکونڈریا پراثر انداز ہوتےہیں۔ اس ضمن میں‬
‫رضاکاروں کو ایک پیزا کھالیا گیا جس میں اوسط دس گرام نمک موجود ہوتا ہے۔ اس کے‬
‫بعد ان کے خون کے نمونے بھی لیے گئے تھے۔‬
‫تمام افراد کے خون کے نمونوں میں دیکھا گیا کہ مائٹوکونڈریا سرگرمی سست پڑچکی‬
‫تھی۔ تاہم ٓاٹھ گھنٹے بعد یہ کیفیت نارمل ہوگئی اور مائٹوکونڈریائی سرگرمی بہتر ہوگئی۔‬
‫لیکن یاد رہے کہ نمک کا مسلسل استعمال اس عمل کو قدرے دیر تک برقرار رکھ سکتا‬
‫ہے۔‬
‫اگرچہ یہ ابتدائی تحقیقات ہیں لیکن نمک کا یہ نیا نقصان کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا‬
‫جاسکتا۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2174666/9812/‬‬

‫| ‪108‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیا ٓاپ کے ناخن بھی ایسے ہیں۔۔۔‪ y‬جانیں ناخن کی شکل ٓاپ کی شخصیت‬
‫کے بارے میں کیا راز بتاتی ہے؟‬
‫‪  ‬‬
‫‪pm 04/05/2021 09:53‬‬

‫جس طرح ہماری ٓانکھیں اور ہمارے بال شخصیت کا مظہر ہوتے ہیں کیا ٓاپ جانتے ہیں‬
‫ہمارے ناخن بھی ہماری شخصیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔جی ہاں ٓاپ کے ناخن کا شیپ‬
‫اور رنگت بتاتی ہے کہ ٓاپ کس طرح کے انسان ہیں اور کیا خصوصیات رکھتے ہیں‪ ،‬مگر‬
‫کیسے؟ یہ ٓاج ہم ٓاپ کو بتائیں گے تو چلیں پھر ٓاپ بھی جان لیں کہ ٓاپ کے ناخن ٓاپ کے‬
‫بارے میں کیا بتاتے ہیں۔ ناخنوں سے شخصیت کی پہچان کیسے کریں؟ چوڑے اور چھوٹے‬
‫ناخن‪ :‬اگر ٓاپ کے ناخن چپٹے اور چوڑے ہیں‬
‫تو یہ جان لیں کہ ٓاپ ایک پرسکون‪ ،‬کھلے دماغ والے اور متوازن سوچ رکھنے والے انسان‬
‫ہیں تو دیکھیں کہیں ٓاپ کے ناخن چوڑے اور یہ بات سچ تو نہیں۔ چوڑے اور لمبے ناخن‪:‬‬
‫بلکل اس ہی طرح جب کے ناخن چوڑے اور لمبے ہوتے ہیں ان لوگوں کو نئے دوست بنانا‬
‫اور نئے نئے لوگوں سے ملنا پسند ہوتا ہیں پُرسکون شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور‬
‫مشکل سے مشکل حاالت میں بھی پرسکون رہتے ہیں۔ چکور ناخن‪ :‬یہ عالمت بے صبرے‬
‫| ‪109‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لوگوں کی ہے چکور ناخن والے افراد بے چین اور بے حد کنجوس ہوتے ہیں۔ لمبے اور‬
‫پتلے ناخن‪ :‬ایسے ناخن والے لوگ بہت خوش مزاج اور رومانوی انداز رکھتے ہیں اور‬
‫سماجی تعلقات بہت زیادہ رکھتے ہیں‪ ،‬انہیں گھر میں رہنے سے زیادہ باہر گھومتے پھرتے‬
‫رہنا پسند ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ناخن‪ :‬جن لوگوں کے ناخن بہت زیادہ چھوٹے چھوٹے‬
‫ہوتے ہیں وہ بہت جلدی اور ٓاسانی سے پر جوش ہو جاتے ہیں یہ لوگ جذباتی ہوتے ہیں‪،‬‬
‫ساتھ ہی یہ لوگ بہت گہری سوچ بھی رکھتے ہیں۔ گول اور انڈے جیسے ناخن‪ :‬اگر ٓاپ کے‬
‫ناخن گول اور انڈے جیسے ہیں تو ٓاپ بہت مثبت سوچ کے مالک ہیں اور بہت ٓاسانی سے‬
‫نئی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جبکہ اپنے کام میں بھی ماہر ہوتے ہیں۔اب ٓاپ بھی اپنے ناخن‬
‫دیکھ کر بتائیں کہ ٓاپ کا ان میں سے کون سے شیپ کا ناخن ہے اور ٓاپ کی شخصیت ایسی‬
‫اظہار خیال کریں‬
‫ِ‬ ‫ہے یا نہیں‪ ،‬ابھی ہماری ویب کے فیس بک پیج پر کمنٹ کریں اور ہم سے‬
‫‪https://dailyausaf.com/interesting-and-weird/news-202105-‬‬
‫‪102463.html‬‬

‫ملک میں کورونا ویکسین کی تیاری‪ ،‬پیکنگ شروع‬


‫مئی ‪06 2021 ،‬‬

‫پاکستان میں پہلی کورونا ویکسین کی تیاری اور پیکنگ شروع کر دی گئی ہے۔‬
‫| ‪110‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حکام قومی وزارت صحت (این ٓائی ایچ) کے مطابق کین سائنو ویکسین کی فارمولیشن اور‬
‫پیکنگ کا خام مال چین سے خریدا گیا ہے‪ ،‬سنگل ڈوز ویکیسن کین سائنو کی فارمولیشن اور‬
‫پیکنگ شروع کی گئی ہے۔‬
‫حکام کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے ٓاخر تک مقامی طور پر فارمولیٹ ہونے والی ویکسین‬
‫عوام کے لیے میسر ہو گی۔‬
‫حکام کے مطابق رواں ماہ کے ٓاخر تک این ٓائی ایچ ایک الکھ سے زائد کورونا ویکسین کی‬
‫خوراکیں تیار کر لے گا۔‬
‫وزارت صحت کے حکام کا بتانا ہے کہ سنگل ڈوز ویکسین کین سائنو کی ایک الکھ ‪20‬‬
‫ہزار خوراکوں کا خام مال ‪ 4‬اور ‪ 5‬مئی کی درمیانی شب پاکستان پہنچا تھا۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/922735‬‬

‫برطانوی ویکسین ایسٹرازینیکا کی ‪12‬الکھ سے زائد خوراکیں ہفتے کو‬


‫پاکستان پہنچیں گی‬
‫محمد وقار بھٹی‬
‫مئی ‪06 2021 ،‬‬

‫کوویکس کے تحت برطانوی ویکسین ایسٹرازینیکا کی پہلی‬


‫کھیپ ہفتے کے روز پاکستان پہنچ جائے گی۔وفاقی وزارت‬
‫صحت کے حکام نے جمعرات کے روز دی نیوز اخبار کو‬
‫بتایا کہ برطانوی ویکسین ایسٹرازینیکا کی پہلی کھیپ ‪12‬‬
‫ڈوزز پر مشتمل ہے جو کہ جنوبی کوریا سے قطر ایئرالئن کی پرواز کے‬ ‫الکھ ‪ 48‬ہزار ِ‬
‫ذریعے اسالم آباد پہنچے گی۔حکام کا مزید کہنا تھا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کے ساتھ ‪12‬‬
‫‪ ‬الکھ ‪ 48‬ہزار سرنجیں بھی مہیا کی جا رہی ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اگلے مہینے ایسٹرازینیکا ویکسین کی بارہ الکھ اڑتیس ہزار ڈوزز پر‬
‫مشتمل دوسری کھیپ بھی پاکستان پہنچ جائے گی۔‬

‫| ‪111‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واضح رہے کہ کوویکس‪ %‬کے تحت پاکستان کو ایسٹرازینیکا ویکسین کی ‪25‬‬
‫الکھ سے زائد خوراکیں مارچ میں ملنی تھی مگر ہندوستان نے سیرم‬
‫انسٹیٹیوٹ آف انڈیا (جہاں یہ ویکسین تیار ہو رہی ہے) کو پاکستان کو‬
‫ویکسین سپالئی کرنے سے روک دیا تھا۔‬
‫حکام کے مطابق پاکستان میں اب تک تیس الکھ لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور‬
‫زیادہ تر لوگوں کو تین مختلف چینی ویکسینز لگائی گئی ہیں جبکہ پاکستان میں پچاس ہزار‬
‫لوگوں کو غیر سرکاری طور پر روسی ویکسین اسپوٹنک بھی لگائی جا چکی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/922698‬‬

‫چاولوں کے فیشل کے چہرے پر حیرت انگیز نتائج‬

‫مئی ‪06 2021 ،‬‬

‫عید کے قریب ٓاتے ہی خواتین کی جہاں کپڑے‪ ،‬جوتے اور میچنگ کی چوڑیوں کی فکر‬
‫بڑھ جاتی ہے ایسے ہی میں سب سے زیادہ چہرے کی مرجھائی ہوئی بے جان ِجلد اور‬
‫پھیکی رنگت بھی پریشانی کا سبب بنتی ہے‪  ‬جس کا عالج ہر گھر میں موجود چند مفید‬
‫اجزا کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔‬
‫| ‪112‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر یہ دوسرا سال ہے جہاں‪  ‬الک ڈأون کے دوران‬
‫متعدد سیلون بھی سیل کیے جا چکے ہیں۔‬
‫اس صورتحال میں اپنی اور اپنے خاندان والوں کی زندگی سے کھیلنے سے بہتر ہے کہ‬
‫گھر ہی میں‪ ‬اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کا اہتمام کر لیا جائے۔‬
‫بغیر پارلر گئے اس عید پر تروتازہ و شاداب دکھنے کے لیے ہر گھر میں با ٓاسانی دستیاب‬
‫چاولوں کا استعمال کرتے ہوئے فیشل کیا جا سکتا ہے جس کے حیرت انگیز نتائج ٓاپ‬
‫کودوبار ہ کبھی پارلر کا رُخ نہ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔‬
‫چاولوں کا استعمال صدیوں سے خوبصورتی† بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے‪ ،‬اب تو بیوٹی‬
‫کاسمیٹکس پراڈکٹس بنانے والی کمپنیز بھی چاولوں کی افادیت جان گئی ہیں‪ ،‬اسی لیے ان‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا جاتا ہے۔‬ ‫کی جانب سے شیمپو اور کریموں میں چاولوں کی موجودگی کا‬
‫چاولوں کو وائٹننگ ایجنٹ قرا ر دیا جاتا ہے‪ ،‬چاولوں کی مدد سے خوبصورتی سے متعلق‬
‫متعدد فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں جن میں گوری رنگت‪ ،‬صاف شفاف ِجلد اور لمبے‬
‫گھنے بال شامل ہیں۔‬
‫گھر ہی میں چند دنوں میں متاثرہ ِجلد کی بحالی کے لیے رائس ٹونر بنا کر لگانا شروع کر‬
‫دیں‪ ،‬عید تک یہ ٹونر کھلے مسام بند کر کے ِجلد کو ترو تازہ و شاداب بنا دے گا۔‬
‫مزید یہ کہ خوبصورتی میں اضافے کے لیے چاولوں کے استعمال کے چند طریقے‬
‫مندرجہ ذیل درج ہیں جن سے پارلر گئے اور وقت ضائع کیے بغیر‪ٓ  ‬اج ہی سے گھر میں‪ ‬‬
‫محفوظ رہتے ہوئے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔‬
‫رائس ٹونر‬
‫رائس ٹونر بنانے کے لیے ایک کپ چاولوں کو دھو لیں‪ ،‬اب اس میں ایک کپ پانی ڈال کر‬
‫ایک گھنٹہ یا پوری رات کے لیے ڈھانپ کر رکھ دیں‪ ،‬پانی سے چاول چھاننے کے بعد‬
‫اسے ایک ہفتے کے لیے فریج میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔‬
‫روزانہ چہرہ دھونے کے بعد ان چاولوں کے پانی سے روئی کی مدد سے اپنا چہرہ صاف‬
‫کریں یا اسپرے بوتل کی مدد سے چہرے پر اسپرے کر لیں۔‬
‫اس سے ٓاپ کی اسکن چمکدار اور نکھر جائے گی‪  ،‬کھلے مسام بند ہو جائیں گے اور جلد‬
‫نرم و مالئم محسوس ہوگی۔‬
‫بہترین نتائج کے لیے رائس ٹونر سے اسکن صاف کرنے کے بعد تولیہ یا سوتی کپڑا نیم‬
‫گرم پانی میں بھگو کر اپنے چہرے پر چند منٹوں کے لیے رکھ لیں۔‬
‫رائس اسکرب‬
‫چاولوں میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ‪ ،‬اینٹی ایجنگ‪ ،‬اینٹی انفالمینٹری‪ ،‬قدرتی سن اسکرین اور قدرتی‬
‫وائٹننگ خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کے استعمال سے کیل‬
‫مہاسوں کی شکایت دور ہو جاتی ہے‪ ،‬داغ دھبے ختم ہو جاتے‪ ،‬بلیک ہیڈز کا خاتمہ اور ڈیڈ‬
‫اسکن کا بھی صفایا ہو جاتا ہے۔‬
‫رائس اسکرب کے استعمال سے ٓاپ کی جلد واضح طور پر چند دنوں میں ہی صاف شفاف‬
‫اور بے داغ ہو جاتی ہے اور ٓاپ کے چہرے پر قدرتی گورا پن ٓا جاتا ہے۔‬
‫| ‪113‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چاولوں کا اسکرب بنانے کے لیے کچے چالوں کو پیس لیں‪ ،‬اب دو چائے کے چمچ پسے‬
‫ہوئے رائس پأوڈر میں دو چائے کے چمچ شہد مکس کر لیں‪ ،‬بہترین اور واضح نتائج کے‬
‫لیے اس اسکرب سے روزانہ ‪ 10‬سے ‪ 15‬منٹ ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں۔‬
‫اگر ٓا پ کو شہد موافق نہیں ہے تو اس اسکرب میں ایلوویرا جیل یا ناریل تیل بھی مال یا جا‬
‫سکتا ہے ۔‬
‫رائس کریم اور رائس ماسک بنانے کا طریقہ‪ ‬‬
‫‪ 4‬چمچ ابلے ہوئے چاول لے لیں اور انہیں میش کر لیں‪ ،‬اب اس میں ‪ 4‬چمچ دہی‪ 1 ،‬چمچ‬
‫ٓاٹا اور ‪ 1‬چمچ بیسن مال لیں‪ٓ ،‬اٹا اور بیسن میں سے کوئی ایک بھی استعمال کر سکتے ہیں‪،‬‬
‫اس پیسٹ کو اچھی طرح مکس کر کے یک جان بنا لیں‪ ،‬اب اس میں چند قطرے ناریل تیل‬
‫کے شامل کر لیں۔‬
‫اس کریم سے ‪ 15‬سے ‪ 20‬منٹ مساج کریں اور صاف پانی سے دھو لیں۔‬
‫اب اس ہی رائس کریم کو فیس ماسک کی طرح چہرے‪ ،‬گردن ‪ ،‬ہاتھوں‪ ،‬بازؤوں پر ‪20‬‬
‫منٹ کے لیے لگائیں اور چھوڑ دیں‪ 20 ،‬منٹ کے بعد صاف اور ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔‬
‫رائس کریم اور رائس ماسک بیوٹی پارلر کے وائیٹننگ فیشل سے کم نہیں‪ ،‬بہترین نتائج‬
‫کے لیے اس عمل کو ہفتے میں ایک بار ضرور دہرائیں۔‬

‫ماسک تیار کرنے کا طریقہ‬


‫چاول کا ماسک تیار کرنے کے لیے ایک بڑا چمچہ چاول کا پأوڈر لے لیں‪ ،‬پھر اس میں‬
‫ایک بڑا چمچہ بیسن اور ایک چٹکی ہلدی شامل کرلیں۔‬
‫ان تمام چیزوں کو یکجا کرنے کے بعد اس میں دودھ یا عرق گالب ڈال کر اپنے چہرے پر‬
‫ہلکے ہاتھ سے مساج کریں۔‬
‫مساج کرنے کے بعد اسے اپنے چہرے پر ‪ 15‬سے ‪ 20‬منٹ کے لیے لگا رہنے دیں۔‬
‫جب ماسک خشک ہوجائے تو اسے دھو لیں‪ ،‬ایسا کرنے سے چہرہ ترو تازہ اور جلد بھی‬
‫مالئم ہوجائے گی۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/922689‬‬

‫رمضان میں قہوے کے استعمال کے حیران کن فوائد‬


‫مئی ‪05 2021 ،‬‬

‫طبی ماہرین کی جانب سے قہوے کا استعمال ہر حال میں مفید قرار دیا جاتا ہے جبکہ‬
‫رمضان کے دوران مختلف قہوؤں کا استعمال کر کے خود کو تروتازہ رکھا جا سکتا ہے‬
‫کیوں کہ قہوے کے استعمال سے غذا َجلد ہضم ہو جانے سمیت متعدد طبی فوائد حاصل کیے‬
‫جا سکتے ہیں۔‬

‫| ‪114‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫رمضان کے دوران افطار کے فوراً بعد چائے کی طلب ہوتی ہے‪ ،‬ماہرین کی جانب سے‬
‫تجویز کیا جاتا ہے کہ افطار کے بعد دودھ والی چائے کے استعمال کے بجائے مختلف اقسام‬
‫کے قہوے جیسے کہ دار چینی‪ ،‬سبز چائے‪ ،‬لیمن گراس‪ ،‬ادرک اور سونف کا قہوہ پینا نا‬
‫صرف غذا کو َجلد ہضم کر کے تروتازہ محسوس کرواتا ہے بلکہ بہتر نیند‪ ،‬مضر صحت‬
‫مادوں کے اخراج ‪ ،‬کولیسٹرول اور شوگر کی سطح متوازن رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتا‬
‫ہے۔‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق قہوہ کا باقاعدہ استعمال جہاں وزن میں کمی کا سبب بنتا ہے‬
‫وہیں رمضان کے دوران اس کے استعمال کے فوائد دگنے ہو جاتے ہیں اور قہوے کے‬
‫استعمال سے وزن مزید تیزی سے کم ہونے سمیت جلد کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫رمضان کے دوران قہوے کے استعمال سے مجموعی صحت پر حاصل ہونے والے چند‬
‫فوائد مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫قہوہ میں موجود قدرتی مرکبات نظام ہاضمہ پر مثبت اور پر سکون اثرات مرتب کرتے ہیں‪،‬‬
‫محققین کا ماننا ہے کہ سبز چائے میں موجود پولی فینولز معدے میں صحت کے لیے فائدہ‬
‫مند بیکٹریا کی افزائش کو بڑھاتے ہیں۔‬

‫| ‪115‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫رمضان کے دوران مرغن اور میٹھی غذاؤں کے استعمال کے نتیجے میں ذیابطیس اور ہائی‬
‫کولیسٹرول کے مریضوں کے لیے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔‬
‫ماہرین کےمطابق ذیابطیس ایک میٹابولک مرض ہے‪ ،‬روزانہ ‪ 2‬سے ‪ 3‬کپ قہوہ پینا‬
‫ذیابطیس ٹائپ ٹو کا خطرہ ‪ 42‬فیصد تک کم کر دیتا ہے جبکہ رمضان کے دوران افطار کے‬
‫بعد ایک سے دو کپ قہوے کا استعمال نہایت مفید ثابت ہوتا ہے اور خون میں شوگر کی‬
‫سطح متوازن رہتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق رمضان کے ٓاتے ہی بہت سے افراد اُن کے پاس معدے کی شکایت‬
‫لے کر ٓا تے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق روزہ افطار کرنے کے دوران مکس فروٹ چاٹ‪ ،‬چنا چاٹ ‪ ،‬دودھ اور‬
‫دہی سے بنے مشروبات اور تلی ہوئی غذاؤں کے استعمال کے سبب معدے کی کاکردگی‬
‫خراب ہو جاتی ہے اور روزے دور پیٹ سے متعلق متعدد بیماریوں میں گِھر جاتے ہیں جس‬
‫کا حل ادرک اور سبز پتی کے قہوے موجود ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق قہوہ میں موجو تیزابیت ٓانتوں کی صفائی کرتی ہے جس سے جسم‬
‫کو غذا ہضم اور جذب کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫قہوے کے استعمال کے نتیجے میں ٓانتوں کی سوجن میں کمی ٓاتی ہے۔‬
‫قہوے کے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے اس میں لیموں اور شہد کا اضافہ بھی کیا جا‬
‫سکتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/922334‬‬

‫معدے کی تیزابیت سے چھٹکارا کیسے ممکن؟‬

‫لیاقت علی جتوئی‬


‫مئی ‪06 2021 ،‬‬
‫تیزابیت یا ایسیڈیٹی نظام ہاضمہ کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے‪ ،‬جو بظاہر تو ایک‬
‫معمولی طبی مسئلہ لگتا ہے‪ ،‬مگر جس شخص کو اس کا سامنا ہوتا ہے‪ ،‬اس کے‬

‫| ‪116‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لیے یہ تجربہ انتہائی ناخوشگوار ثابت ہوتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس مسئلہ کے پیش‬
‫نظربے حد پریشان نظرٓاتی ہے۔‬
‫تیزابیت کی عام وجوہات‬
‫اس کی عام وجوہات میں تنأو‪ ،‬بہت زیادہ مسالے اور گوشت وغیرہ کا استعمال‪ ،‬تمباکو‬
‫نوشی‪ ،‬بے وقت کھانے کی عادت‪ ،‬معدے کے مختلف عوارض اور مخصوص ادویات‬
‫وغیرہ کا استعمال شامل ہے۔‬
‫تیزابیت میں مفید غذائیں‬
‫صحت مند طرززندگی کے حصول کے لئے بہتر غذا کا استعمال بہت ضروری ہے۔ایسی‬
‫غذائیں جن میں ایسڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے انھیں کھانے کے بعد ایسیڈیٹی کی شکایت‬
‫ہونے کااندیشہ رہتاہے۔عموما ً وہ افراد جن کی غذائی نالی کمزور یعنی عضالتی نالی جوحلق‬
‫سے پیٹ تک جاتی ہے‪ ،‬اس میں مقعد کوبند کرنے واالپٹھاہوتاہے جس کے سکڑنے سے‬
‫غذائی نالی کاخارجی راستہ بند ہوجاتاہے۔ اس سے ایسیڈیٹی کی شکایت ہوتی ہے اور‬
‫گیسٹروکامرض الحق ہونے کاخطرہ رہتاہے۔اگرغذاکاصحیح انتخاب کیاجائے تو تیزابیت‬
‫سے بچاجاسکتاہے۔اس کے عالوہ کچھ غذائیں ایسی ہیں جن کے استعمال سے تیزابیت کی‬
‫شکایت کوکم کیاجاسکتاہے۔ گیسٹرک ایسڈ سے بچنے کے لئے ان غذأوں کاروزانہ استعمال‬
‫مفید رہتاہے۔‬
‫| ‪117‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دلیہ‬
‫جی ہاں! یہ بچوں والی خوراک ہے لیکن بدہضمی میں انتہائی مفید ہے۔ اس کا شمار نرم اور‬
‫زود ہضم غذأوں میں ہوتا ہے‪ ،‬اسی وجہ سے ڈاکٹرز تیزابیت میں دلیہ کھانے کا مشورہ‬
‫دیتے ہیں۔ اس میں موجود فائبر اپھارہ اور واٹر ریٹنشن کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتاہے۔‬
‫یہ پیٹ میں موجود اضافی ایسڈ کو جذب کرنے کی صالحیت بھی رکھتاہے۔ کچھ اور فائبر‬
‫سے لبریز غذائیں جیسے گندم اورچاول کی مصنوعات بھی فائدہ مند رہتی ہیں۔‬
‫ادرک‬
‫تیزابیت میں ادرک کااستعمال بہترین ہے۔ ادرک میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ اوراینٹی انفلیمنٹری‬
‫خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تیزابیت کے ساتھ یہ سینے کی جلن‪ ،‬بدہضمی اورپیٹ کے‬
‫دیگرامراض میں بھی مفید ہے۔اگرٓاپ کوتیزابیت کے ساتھ ساتھ سینے میں جلن کی شکایت‬
‫ہوتوادرک کاقہوہ بناکراسے کمرے کے درجہ حرارت پرٓانے پر پی لیں۔ تازہ ادرک کا چھوٹا‬
‫ٹکڑا اسمودھی‪ ،‬سیریل اور دیگر غذأوں کے ساتھ لیاجاسکتا ہے۔‬
‫ہرے پتوں کی سبزیاں‬
‫ہرے پتوں کی سبزیاں جیسے پالک ‪،‬پودینا‪،‬دھنیا‪،‬میتھی‪،‬کیلے‪،‬بندگوبھی وغیرہ کو اگراپنی‬
‫روزمرہ غذاکاحصہ بنالیاجائے تو تیزابیت کی شکایت سے چھٹکارا پایا جاسکتاہے۔ تیزابیت‬
‫کا مسئلہ ہوتا ہی غذا کے غلط استعمال کے سبب ہے ۔ اگرغذا کا متوازن استعمال کیا جائے‬
‫تو اس مسئلے سے بچاجاسکتاہے۔‬
‫دہی‬
‫جب بھی سینے میں جلن اور ایسیڈیٹی کی شکایت ہو تو ایک پیالہ ٹھنڈا دہی استعمال کریں۔‬
‫دہی کھانے کے بعد ٓاپ خود حیران رہ جائیں گے کہ کتنی جلدی ٓاپ کی طبیعت میں بہتری‬
‫ٓاتی ہے۔ دہی میں کیال یا خربوزہ شامل کرکے ٓاپ اس کی افادیت میں مزید اضافہ کرسکتے‬
‫ہیں۔ دہی کی غذائیت اس مسئلہ کوختم کرکے ٓاپ کو توانائی بھی فراہم کرتی ہے۔‬
‫کیال‬
‫کیلے میں الکالئن موجود ہوتاہے اسی لئے یہ ایسیڈیٹی میں کارٓامد رہتاہے۔کسی بھی ایسے‬
‫مسئلے کی صورت میں ٓاپ ایک سے دوکیلے کھاسکتے ہیں۔ کیلے ذائقہ میں مزیدارہوتے‬

‫| ‪118‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہیں اسی لئے انہیں کھانامشکل نہیں ہوتا۔ اس کے استعمال سے ٓاپ کم وقت میں طبیعت میں‬
‫کافی بہتری محسوس کریں گے۔‬
‫خربوزہ‬
‫خربوزہ ایک الکالئن پھل ہے۔ ایسیڈیٹی کی شکایت میں ٓاپ اسے ٹھنڈاکرکے یااسمودھی کے‬
‫طورپربھی لے سکتے ہیں۔یہ پیٹ کے لئے نہایت مفید پھل ہے۔ اس کے استعمال سے منٹوں‬
‫میں ٓارام ٓاتاہے۔ یہ گرمی میں ہونے والی پانی کی کمی کودورکرکے پیٹ کوصحت مند‬
‫رکھتاہے۔‬
‫ُگڑ‬
‫ُگڑ میں میگنیشیم وافرمقدار میں پایا جاتا ہے‪ ،‬جو نظام ہضم کو قوت بخشتا اور تیزابیت ختم‬
‫کرتا ہے۔ کھانے کے بعد ُگڑ کا چھوٹا سا ٹکڑا منہ میں رکھ کر چوسیں۔ اس کے استعمال‬
‫سے جسم کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا ہے۔‬
‫تلسی کے پتے‬
‫تلسی کے پتوں میں بھی معدے کی گیس ختم کرنے والی خصوصیات موجود ہیں۔ ٰلہذا جب‬
‫بھی پیٹ میں گیس محسوس ہو تلسی کے چند پتے دھوکر چبالیں یا دو سے تین پتوں کو ایک‬
‫کپ پانی کے ساتھ اُبالیں‪ ،‬چند منٹ پکنے دیں اور پھر چھان کر پی لیں۔‬
‫سونف‬
‫کھانے کے بعد سونف کے چند دانے کھا لینا بھی تیزابیت سے بچا جاسکتا ہے۔ اس میں‬
‫موجود تیل بدہضمی اور پیٹ کو پھولنے سے بچاتا ہے۔ نظام ہضم درست رکھنے کے لیے‬
‫سونف کی چائے بھی فائدہ مند ہے۔‬
‫ان غذأوں کے عالوہ‪ ،‬کیلے‪ ،‬ٹھنڈا دودھ یا ناریل کا پانی پینا بھی فوری ریلیف فراہم کرسکتا‬
‫ہے۔ زیرہ کے چند دانے چبانا یا اس کا پانی پینا‪ ،‬سبز االئچی کے ‪ 2‬دانوں کو پانی میں اُبال‬
‫کر اُسے ٹھنڈا کرکے پی لینا‪ ،‬ایک چائے کے چمچ سیب کے سرکے کو ایک گالس پانی میں‬
‫مالکر خالی پیٹ استعمال کرنا بھی تیزابیت میں فوری ریلیف فراہم کرسکتا ہے۔‬
‫احتیاط‬

‫| ‪119‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک طرف جہاں مندرجہ باال غذائیں کھانے سے تیزابیت میں معدے کو فائدہ پہنچتا ہے‪،‬‬
‫وہاں ان غذأوں کے ساتھ ساتھ اگر چند احتیاطوں پر بھی عمل کرلیا جائے تو فائدہ زیادہ اور‬
‫تیز تر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٓاہستگی سے کھائیں اور نوالہ اچھی طرح چبائیں‪ ،‬سونے‬
‫سے تھوڑی دیر پہلے کھانے سے گریز کریں‪ ،‬بلکہ ٓاخری غذا نیند سے‪3‬گھنٹے پہلے‬
‫کھائیں‪ ،‬بہت زیادہ مسالے دار کھانوں اور تمباکو نوشی سے گریز کریں‪ ،‬ساتھ ہی ذہنی تنأو‬
‫کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/922657‬‬

‫پالنٹ تھراپی ذہنی صحت بہتر بنانے میں معاون‬


‫عمیر حسن‬
‫مئی ‪06 2021 ،‬‬

‫کیا ٓاپ جانتے ہیں کہ نباتات (درخت‪ ،‬پھول‪ ،‬پودے) صرف ٓاپ کے گھر اور ارد گرد کے‬
‫ماحول کو ہی خوبصورت نہیں بناتے بلکہ اس کے کئی طبی فوائد بھی ہیں جو ہم برسوں‬
‫سے سنتے ٓائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سالوں سے دنیا بھر میں انہیں متعدد طریقوں‬
‫کےتحت عالج کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ پودوں کی طبی خصوصیات پر کی جانے‬

‫| ‪120‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫والی تحقیقات ثابت کرتی ہیںکہ مختلف بیماریوں کے عالج کے لیے جڑی بوٹیوں کا استعمال‬
‫عام دوا سے زیادہ مٔوثر ثابت ہوتا ہے۔‬
‫یہی نہیں‪،‬پودوں سے بنی قدرتی مصنوعات اینٹی انفلیمیٹری‪ ،‬اینٹی ٓاکسیڈنٹس اور اینٹی‬
‫کینسر خصوصیات کے باعث کینسر تھراپی میں بھی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جارہی‬
‫ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ عالج کی غرض سے پودوں کا استعمال قدرتی‬
‫تصور کیا جاتاہے کیونکہ اس طریقہ عالج میں دیگر دوائیوں کے برعکس کم تناسب میں‬
‫سائیڈ ایفیکٹس پائے جاتے ہیں۔‬
‫تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا پودوں کے ذریعے ذہنی امراض کا عالج بھی کیا جاسکتا‬
‫ہے؟ مندرجہ باال وضاحتوں کے پیش نظر اس سوال کا جواب ایک حد تک’ہاں‘ میں دیا‬
‫جاسکتا ہے۔ طبی سائنس میں ایسے بہت سے طریقے موجودہیں جن کے تحت لوگ ذہنی‬
‫بیماریوں (جن میںانزائٹی اور ڈپریشن جیسے امراض بھی شامل ہیں) کی شدت کو کم کرنے‬
‫کے لیے پودوں میں پائے جانے والی خصوصیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ جو‬
‫لوگ بھی باغبانی کا شوق رکھتے ہیں وہ اس کام میں اپنے ہاتھوں کو گندا کرنے‪ ،‬پودوں کو‬
‫اُگتا ہوا دیکھنے اور اپنے ماحول سے مربوط ہونے کے فوائد کے بارے میں جانتے ہیں۔‬
‫پالنٹ تھراپی‬
‫ایک مصروفیت اور تھکا ہارا دن گزارنے کے بعد کسی کو بھی تروتازہ کرنے کے لیے‬
‫پالنٹ تھراپی استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کے عالوہ معمولی بیماریوں کی صورت‬
‫میں‪ ‬پالنٹ تھراپی کو متبادل عالج کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے‪ ،‬جس سے مریض کو‬
‫طویل مدتی کامیابی اور بحالی حاصل ہوتی ہے۔ امریکن ہارٹیکلچر تھراپی ایسوسی ایشن اس‬
‫قسم کی تھراپی کی تعریف کچھ یوں کرتی ہے‪’’ ،‬عالج معالجے کے مخصوص اہداف کو‬
‫حاصل کرنے کے لیے کسی فرد کا تربیت یافتہ تھراپسٹ کے ذریعے باغبانی اور پودوں پر‬
‫مبنی سرگرمیوں میں مشغول ہونا‘‘۔‬
‫ذہنی صحت کی بہتری کے لیےبطور عالج پودوں کے استعمال کے کئی طریقے ہیں۔ ان‬
‫میں سےبہترین طریقے کا انتخاب مریض کی پسند اور شخصیت پرمنحصر ہوتا ہے۔ چنانچہ‬
‫الزمی نہیں جو طریقہ عالج کسی ایک مریض کے لیے بہترین تصور کیا جائے وہی کسی‬
‫دوسرے کے لیے بھی مٔوثر ثابت ہو۔ بہرحال مزاج کو بہتر بنانے‪ ،‬ڈپریشن اورانزائٹی‪%‬‬
‫جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیےبطور عالج پودوں کا استعمال چند مخصوص صورتوں‬
‫میں کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ‪:‬‬
‫| ‪121‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫٭ ایسینشل ٓائلز کا استعمال‬
‫٭ باغبانی ‪/‬پودوں کی دیکھ بھال کرنا‬
‫٭ قدرتی ماحول میں وقت گزارنا‬
‫٭ صحت بخش غذا کا استعمال‬
‫الزمی نہیں کہ ان اشیا کو صرف ذہنی صحت کے لیے ہی استعمال‪ ‬کیا جائے بلکہ انفرادی‬
‫اور مجموعی طور پر صحت مند طرز زندگی اپنانے کے لیے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔‬
‫ذہنی صحت کی بہتری کے لیے ان کا استعمال کس طرح مٔوثر بنایا جاسکتا ہے اس حوالے‬
‫سے ذیل میں‪ ‬بیان کیا جارہا ہے۔‬
‫ایسینشل‪ٓ b‬ائلز‬
‫مختلف تحقیقات کے مطابق ‪ ،‬اروما تھراپی نامیاتی مرکبات کی صورت انسان کی جذباتی ‪،‬‬
‫ذہنی اور جسمانی صحت کوبہتربنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ نامیاتی مرکبات ہی‬
‫دراصل ایسینشیل ٓائلز کہالتے ہیں ۔ مختلف اقسام کے یہ تیل پودوں کے مختلف حصوں‬
‫مثالًبیجوں‪ ،‬جڑوں‪ ،‬پتوںاورپھولوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ تیاری کے بعد انھیں ذہنی دبأو‬
‫دور کرنے‪ ،‬سکون حاصل کرنے اور دیگر بہت سی جسمانی بیماریوں کے عالج میں بھی‬
‫استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ بلڈ پریشر ‪ ،‬نیند کی کمی اور انفیکشن وغیرہ۔‪ ‬‬
‫تاہم اس طریقہ عالج کے پُراثر ہونے کے سائنسی شواہد ناکافی ہیں۔ طبی ماہرین ڈپریشن‬
‫سے نمٹنے کے لیےچند مخصوص ایسینشل ٓائلز تجویز کرتے ہیںمثالً جیسمین‪ ،‬صندل کی‬
‫دَرخت )‪ ،‬بابونہ‪ ،‬گل شمع دانی‬ ‫لکڑی‪ ( Ylang ylang ،‬فِلپائن اور جاوا کا ايک َبڑا َ‬
‫وغیرہ‪،‬جبکہ انزائٹی کے مریضوں کو گالب ‪ ،‬بیخ خس‪ ،‬لُبان‪َ ،‬بگُو گو َشہ اور لیونڈر سے تیار‬
‫کیے جانے والے ایسینشل ٓائلز تجویز کیے جاتے ہیں۔‬
‫باغبانی‬
‫باغبانی بھی پالنٹ تھراپی کی ہی ایک قسم ہے‪،‬جو بعض اوقات عمر رسیدہ افراد کی دیکھ‬
‫بھال یا پھر عالج کی غرض سے باغات کی افزائش کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ باغبانی‬
‫عمررسیدہ افراد کے لئےبہترین ورزش اور تھراپی قرار دی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کے‬
‫مطابق اگر ایسے افراد کی باغبانی میں دلچسپی پیدا کروائی جائے تو نہ صرف ان کا ذہنی‬
‫دبأو بلکہ اکیال پن بھی ختم ہوگا۔‪ ‬‬
‫| ‪122‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذہنی صحت کو فروغ دینے کے لیے پالنٹ تھراپی کی یہ قسم کمپلیمنٹ ٹاک تھراپی اور‬
‫دوسرے طریقہ عالج کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ ہارٹیکلچرل تھراپی انسٹیٹیوٹ کے‬
‫مطابق‪،‬تھراپی کے لیےخوشبودار پودے‪ ،‬پھل دار درخت اور سبزیاں لگانا زیادہ مفید ہے۔‬
‫قدرتی ماحول میں وقت گزارنا‬
‫دن کے ‪24‬گھنٹے گھر یا دفتر میں رہنا ٓاپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے خطرناک‬
‫ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ٓاپ باغبانی میں دلچسپی نہیں رکھتے تو کچھ وقت قدرتی ماحول میں‬
‫گزار کربھی ذہنی صحت پر مثبت اثرات ڈالے جاسکتے ہیں۔’ فرنٹیئرز ان سائیکالوجی میں‬
‫شائع شدہ تحقیقی نتائج میں ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کسی پُرفضا اور سبزے والے مقام‬
‫پر صرف ‪ 20‬منٹ گزارنے سے ڈپریشن اور ذہنی تنأو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں‬
‫خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ اس تحقیق میں ماہرین قدرتی ماحول میں گزارے گئے وقت کو‬
‫فطری دوا قرار دیتے ہیں ۔‬
‫صحت بخش غذا کا استعمال‬
‫بہت سے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ذہنی صحت اور غذا کے مابین ایک ربط ہے۔ ایک‬
‫مطالعے کے مطابق معیاری غذا کھانے والے افراد میں ڈپریشن کا امکان کم ہوتا ہے ‪ ،‬جبکہ‬
‫پروسیس شدہ اور غیر صحت بخش کھانے کی زیادہ مقدار سے اضطراب میں اضافہ ہوتا‬
‫ہے۔ ٰلہذا کوشش کریں کہ باغبانی کرکے پھل اور سبزیاں اُگائیں اور انہیں اپنی خوراک کا‬
‫حصہ بنائیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/922656‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬لوگوں‪ %‬میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھانے کا باعث؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪05 2021‬‬

‫| ‪123‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کووڈ ‪ 19‬نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے واال مرض‬
‫ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن‬
‫سکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬ایسے افراد‬
‫کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔‬
‫محقق زید العلی نے بتایا 'اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل تھا کہ کووڈ واقعی لوگوں کو‬
‫ذیابیطس کا شکار بھی بناسکتا ہے'۔‬
‫یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ‬
‫ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کوو ‪ 2‬وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔‬
‫لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی می‪%%‬ں تبدیل کرتا‬
‫ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کیتعداد ‪ 46‬کروڑ سے زیادہ‬
‫ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں‬
‫اضافہ ہوسکتا ہے۔‬

‫| ‪124‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذیابیطس متعدد جان لیوا پیچیدگیوں بشمول فالج اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھانے‬
‫واال مرض ہے۔‬
‫اس تحقیق کے دوران ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے‬
‫شواہد اکٹھے کیے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ ‪ 6‬ماہ کے دوران‬
‫ذیابیطس کی تشخیص کا امکان ‪ 39‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطاب کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو ہسپتال میں داخل نہیں‬
‫ہونا پڑا‪ ،‬ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے ‪ 6.5‬میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫اس ‪%‬ی طرح ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے ‪ 37‬مریض ذیابیطس کا‬
‫شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں‬
‫زیرعالج رہنا پڑا ہو۔‬
‫کووڈ کے مریضوں کیتعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں‬
‫کووڈ کے مریضوں کیتعداد ‪ 15‬کروڑ سے زیادہ ہے۔طبی جریدے نیچر میں اپریل میں اس‬
‫تحقیق کے نتائج شائع ہوئے تھے۔‬
‫ہفتے بعد برطانیہ میں ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے ‪ 50‬ہزار کے قریب مریضوں پر ‪3‬‬
‫ہونے والی ای‪%%‬ک اور تحقیق کے نتائج جاریہوئے جس میں دریافت کیا گی‪%%‬ا کہ ہسپتال سے‬
‫ڈسچارج ہونے کے ‪ 20‬ہفتے بعد مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کا امکان ‪ 50‬فیصد‬
‫تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫کنگز کالج لندن کیاس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم دو وباؤں کے ٹکراؤ کے‬
‫خطرے کو دیکھ رہے ہیں۔‬
‫کنگز کالج لندن نے کووڈ سے متعلق ذیابیطس کیسز کے حوالے سے ایک عالمیرجسٹری‬
‫کو تشکیل دیا ہے۔‬
‫محققین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلے کے انسولین‬
‫بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کورونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خالف‬
‫جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔‬

‫| ‪125‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک خیال یہ بھی ہے کہ کووڈ کے عالج کے لیے اسٹرائیڈز کے استعمال سے بلڈ شوگر کی‬
‫سطح بڑھتی ہے یا ذیابیطس کے ایسے کیس جن کی پہلے تشخیص نہیں ہوسکی تھی‪ ،‬ان‬
‫میں یہ مرض ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔‬
‫دنیا بھر میں ‪ 500‬ڈاکٹروں نے عالمی ڈائیبیٹس رجسٹریکے ساتھ ڈیٹا شیئر کرنے پر اتفاق‬
‫کیا اور ان کی جانب سے مریضوں میں خطرہ بڑھانے والے عناصر‪ ،‬لی‪%%‬بارٹری نتائج‪،‬‬
‫کلینیکل فیچرز‪ ،‬عالج اور دیگر تفصیالت کو شیئر کیا جائے گا۔‬
‫اس کا مققصد ذیابیطس کے تشکیل پانے کی وجہ کو شناخت کرنا ہے۔‬
‫اب تک اس رجسٹری میں ‪ 350‬کے قریب کیسز کی تفصیالت درج کی گئی ہیں۔‬
‫ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ لوگ ہمیں اس بارے میں بتاتے ہیں‪ ،‬جیسے ایک شخص نے بتایا کہ‬
‫میرے اپنے بیٹے میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہے‪ ،‬وہ ‪ 8‬سال کا ہے اور حال ہی میں‬
‫کووڈ کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہے‪ ،‬کیا یہ کووڈ کی وجہ سے ہوا؟‬
‫ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے‪ ،‬تاہم اس‬
‫حوالے سے ڈیٹا سے کورونا کیوبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔‬
‫الس اینجلس میں ڈاکٹروں نے ایک پری‪%%‬شان کن رجحان کی نشاندہیکی ہے جن میں بچوں‬
‫می‪%%‬ں ذیابیطس ٹائپ ‪ 2‬کے نئے کیسز کی تشخیص شامل ہے۔‬
‫ذیابیطس کییہ قسم موٹاپے اور سست طرز زندگی کے نتیجے میں الحق ہوتی ہے اور عام‬
‫طور پر بالغ بلکہ درمیانی عمر کے افراد میں ہی نظر آتیہے۔‬
‫ان ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ ذیابی‪%%‬طس ٹائپ ٹو سے متاثر ہر ‪ 5‬میں سے ایک بچے کو‬
‫ہسپتال میں داخل ہوکر ذیابی‪%%‬طس کا عالج کرانے کی ضرورت پڑی۔‬

‫ی جبکہ ‪ 2020‬میں ان مریض بوں میں کورونا کی ‪2019‬‬‫میں یہ شرح محض ‪ 3‬فیصد تھ ‪،‬‬
‫ٹیسٹنگ منظم انداز سے نہیں ہوئی‪ ،‬مگر جن کے ٹیسٹ ہوئے ان میں سے ایک تہائی میں‬
‫وائرس کی تصدیق ہوئی‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159404/‬‬

‫کورونا وائرس کس طرح دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے؟‬


‫ویب ڈیسک‬

‫| ‪126‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مئ ‪05 2021‬‬

‫کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬دماغ کے ‪ 2‬اقسام کے خلیات نیورونز اور‬
‫آسٹروسائٹس کو متاثر کرسکتی ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں‬
‫سامنے آئی۔‬
‫لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کینشاندہی ہوتی ہے‬
‫جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابیعالمات کا‬
‫باعث بنتی ہے۔ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے‬
‫متعدد اعضا بشمول دماغ کو متاثر کرسکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری‪ ،‬تھکاو‬
‫اور دماغی دھند جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس سے دماغی‬
‫مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔‬

‫| ‪127‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا‬
‫ہے‪ ،‬یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫اس طرح کے خلیات پھی‪%%‬پھڑوں‪ ،‬دل‪ ،‬گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں‪ ،‬مگر اب تک یہ‬
‫واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کورونا وائرس کو حملہ کرنے‬
‫کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔‬
‫اس کو جاننے کے لیے محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس ‪2‬‬
‫ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تی‪%%‬ار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا اور‬
‫ان میں ایس ‪ 2‬ریسیپٹرز کی موجودگیکو دیکھا۔‬
‫انہوں نے نیورونز اور آسٹراسائٹس جیسے معاون خلیات کا بھیتجزی‪%%‬ہ کیا۔‬
‫یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال می‪%%‬ں اہم کردار ادا کرتے ہ‪%‬یں جبکہ خون‬
‫اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کی‪%%‬ا گیا کہ ان دونوں میں ایس ‪ 2‬ریس ‪%‬یپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے‬
‫بعد دیکھا گیا کہ ی‪%%‬ہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔‬
‫اس مققصد کے لی‪%%‬ے لیبارٹریتجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین کو‬
‫استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانیسے متاثر کرسکتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اقسام کے خلیات کورونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم‬
‫آسٹراسائٹس میں یہ امکان نیورونز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔محققین اس حوالے سے کچھ‬
‫واضح طور پر کہنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ان خلیات کی بہت زیادہ‬
‫مقدار وائرس کو حملہ کرنے اور اپنی نققول بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کی‪%%‬ا گیا کہ ایک بار آسٹروسائٹس وائرس سے متاثر ہوجائے تو وہ ان‬
‫خلیات کو نیورونز تک رسائی کے لی‪%%‬ے استعمال کرسکتا ہے۔اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ‬
‫کووڈ کے مریضوں میں متعدد اعصابی و دماغیعالمات بشمول سونگھنے اور چکھنے کی‬
‫حسوں سے محرومی‪ ،‬فالج اور دیگر کا سامنا ہوتا ہے۔‬

‫| ‪128‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق کے پہلو محدود تھے جیسے یہ لیبارٹری میں ہوئی اور کسی زندہ انسان کے‬
‫پیچیدہ ماحول میں وائرس کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔‬
‫حال ہی میں طبی جریدے جاما سائیکاٹری میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا‬
‫وائرس کے وائرل ذرات دماغ کے اس حصے میں پہنچ سکتے ہیں جہاں خون اور دماغ کی‬
‫رکاوٹ ہوتی ہے۔‬
‫اس ‪%‬ی طرح ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں محققین نے ایک منفرد لیبارٹری ماڈل‬
‫تیار کیا تھا تاکہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مختلف اقسام کے دماغی خلیات کو‬
‫شناخت کیا جاسکے۔‬
‫خلیات کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ‪ glial‬انہوں نے دریافت کیا کہ دماغ کے‬

‫خلیات اور نئے کورونا وائرس کے درمیان تعلق کے حوالے سے زیادہ ‪ glial‬اس سے قبل‬
‫تحقیقی کام نہیں ہوا۔محققین نے بتایا کہ یہ دماغیخلیات انتہائی اہم معاون خلیات ہیں اور اب‬
‫جاکر ہم نے بیماری کے حوالے سے ان کے کردار کو سمجھنا شروع کیا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ خلی‪%%‬ات اعصابیخلیات کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہی‪%%‬ں‪ ،‬ایک حد‬
‫قائم کرتے ہیں اور دماغ کو بیماریوں اور اعصابی خلیات کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز‬
‫سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اسٹیم سیل رپورٹس میں شائع ہوئے۔ اس سے قبل جنوری‬
‫‪ 2021‬میں امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گی‪%%‬ا تھا کہ کووڈ نتھنوں‬
‫سے جسم میں داخل ہونے پر پھیپھڑوں کی بجائے براہ راست دماغ پر برق رفتار حملہ کرتی‬
‫ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں شدت سنگین ہوتی ہے‪ ،‬چاہے پھیپھڑوں سے وائرس کلیئر ہی‬
‫کیوں نہ ہوجائے۔‬
‫یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی تھی مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کا اطالق انسانوں میں‬
‫سامنے آنے والی عالمات اور بیماری کیشدت کو سمجھنے کے لی‪%%‬ے بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ خی‪%%‬ال کہ کووڈ نظام تنفس کیبیماریہے‪ ،‬ضرورینہیں کہ درست‬
‫ہو‪ ،‬ایک بار جب یہ دماغ کو متاثر کرلیتا ہے تو جسم کے ہر حصے کو متاثر کرسکتا ہے‪،‬‬
‫کیونکہ دماغ ہمارے پھیپھڑوں‪ ،‬دل اور ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے‪ ،‬دماغ ایک بہت حساس‬
‫عضو ہے‬

‫| ‪129‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159416/‬‬

‫کووڈ ویکسین اسپرم پر منفی اثرات مرتب نہیں کرتی‪ ،‬تحقیق‬


‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪06 2021‬‬
‫فائزر‪/‬بائیو این ٹیک کووڈ ویکسین سے مردوں کے اسپرم کو نققصان نہیں پہنچتا۔یہ بات‬
‫ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬

‫اسرائیل میں ہونے والی تحقیق کے دوران ‪ 43‬مردوں کے اسپرم کے نمونے ویکسین کے‬
‫استعمال سے پہلے اور استعمال کے ایک ماہ بعد اکٹھے کیے گئے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کے استعمال کے بعد اسپرم کی مقدار‪ ،‬اجتماع اور‬
‫دیگر افعال میں کوئینمایاں تبدیلی آئی۔اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع‬
‫میں شائع کیے گئے۔ ‪ medRxiv‬نہیں ہوئے بلکہ آن الئن پری پرنٹ سرور‬

‫| ‪130‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ابتدائی نتائج سے جوان مردوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ‬
‫ویکسین سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ والدین بننے کے خواہشمند جوڑے بغیر ہچکچاہٹ ویکسین کا استعمال کریں‬
‫کیونکہ ویکسنیشن سے اسپرم متاثر نہیں ہوتے۔‬
‫اس سے قبل سابقہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے متار ہونے‬
‫پر اسپرم کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل اپریل ‪ 2021‬میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ ویکسی‪%%‬ن خواتین میں‬
‫بانجھ پن کا باعث نہیں بنتی۔‬
‫یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی اس تحقیق کے نتائج ابھیکسی جریدے پر جاری ‪Hadassah‬‬
‫میں جاری کیے گئے۔ ‪ medRxiv‬نہیں ہوئے بلکہ آن الئن پری پرنٹ سرور‬

‫اس تحقیق میں ‪ 32‬خواتین کو شامل کیا گیا تھا جن کو ‪ 3‬گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا‪ ،‬ایک‬
‫ویکسین استعمال کرنے واال‪ ،‬دوسرا کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے واال جبکہ تیسرا ایسا تھا‬
‫جس کو نہ تو وائرس کا سامنا ہوا تھا اورر نہ ویکسین استعمال کی تھی۔‬
‫تحقیق کے دوران خواتین کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے تاکہ دیکھا جاسکے کہ بچے‬
‫پی‪%%‬دا کرنے کیصالحیت پر کس حد تک اثرات مرتب ہوئے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کا شکار ہونے والی خواتین کیاس صالحی‪%%‬ت می‪%%‬ں‬
‫کسی قسم کیتبدیلی نہیں آئی تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم یہ دریافت کرکے بہت خوشی محسوس کررہے ہیں کہ ویکسین سے‬
‫خواتین کو ک‪%‬سیقسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ ان میں وائرس کے خالف کام کرنے‬
‫والی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے ان اینٹی باڈی‪%%‬ز کو ٹریک کیا اور ہر‬
‫مریض کے خون اور سیال میں یہ اینٹی باڈیز دریافات کی گئیں‪ ،‬جو کہ اہم ہے کیونکہ اس‬
‫سے تحفظ ملنے کا علم ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ متعدد افراد کووڈ ویکسین سے اس لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہی‪%%‬ں لگتا ہے‬
‫کہ اس سے خواتین بانجھ پن کا شکار ہوسکتی ہیں۔‬

‫| ‪131‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے کہا کہ یہ ایک ابتدائی تحقیق ہے جس میں بہت کم خواتین کو شامل کیا گیا تھا‪،‬‬
‫تاہم ان نتائج کو پیش کرنے پر خوش ہیں کیونکہ اس سے لوگوں کے خدشات کو دور کرنے‬
‫میں مدد مل سکے گی‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1159418/‬‬

‫جرمنی‪ :‬وبائی امراض سے آگاہی کے عالمی مرکز کے قیام کا فیصلہ‬

‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے وبائی امراض کے بڑھتے خطرات کی نگرانی اور‬
‫ان کی روک تھام کے لیے جرمنی میں ایک مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‬

‫‪    ‬‬
‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پانچ مئی بدھ کے روز اعالن کیا کہ ابھرتے ہوئے‬
‫وبائی امراض کے خطرات کا پتہ لگانے کے لیے عالمی ڈیٹا رکھنے کے مقصد سے‬
‫جرمنی میں ایک نیا مرکز قائم کیا جائے گا۔‬
‫وبائی امراض سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا یہ مرکز (ہب فار پینڈمک اینڈ ایپیڈمک انٹیلی‬
‫جنس) اس برس ماہ ستمبر سے برلن میں اپنا کام شروع کر دے گا۔ عالمی ادارہ صحت کا‬
‫کہنا ہے کہ یہ مرکز دنیا بھر میں وبائی خطرات کی پیش گوئی‪ ،‬ان کی روک تھام‪ ،‬اس کے‬
‫لیے تیاری‪ ،‬تالش اور اس کے سد باب کے لیے تیزی سے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کا کام کرے‬
‫گا۔یہ ادارہ عالمی سطح پر دیگر ممالک اور سائنسی اداروں کے درمیان تعاون کو مزید‬
‫| ‪132‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فروغ دینے کا بھی کام کرے گا۔ یہ مرکز موجودہ نظام کے مقابلے وبائی امراض کے‬
‫اشاروں اور عالمتوں کا بہت پہلے پتہ لگا سکے گا۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئس نے اس بارے میں صحافیوں سے‬
‫بات چیت کرتے ہوئے کہا‪'' ،‬کووڈ انیس کی عالمی وبا نے وباوں سے متعلق بین االقوامی‬
‫نظام میں پائے جانے والے خالء کو واضح کر دیا ہے‬
‫ان کا مزید کہنا تھا‪'' ،‬اسی طرح کے مزید وائرس بھی ہوں گے جو وبائی امراض پھیالنے‬
‫کی صالحیت کے ساتھ ابھریں گے۔ وائرس تو بہت تیزی سے پھیلتے ہیں۔ لیکن اعداد و‬
‫شماراس سے بھی زیادہ تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ صحیح معلومات کے ساتھ‪ ،‬دنیا‬
‫کے ممالک اور مختلف برادریاں ابھرتے ہوئے خطرات سے ایک قدم آگے رہ سکتی ہیں‬
‫''اور جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔‬
‫برلن شہر صحت کا مرکز ہے‬
‫جرمن چانسلر انگیال میرکل کا کہنا تھا کہ متعدی امراض پر تحقیق کے لیے معروف‪ ‬‬
‫رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کے ساتھ برلن تو پہلے ہی‪ ‬سے صحت اور ڈیجیٹل‬
‫تحقیق کا مرکز رہا ہے۔‬
‫اس موقع پر ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا‪ '' ،‬اب اگر اس خصوصی علم و مہارت کو‬
‫ڈبلیو ایچ او کا مرکز مزید تقویت بخشتا ہے تو اس سے ہم برلن میں وبائی امراض اور‬
‫صحت کے لیے ایک بہترین ماحول تیار کر سکیں گے۔ ایک ایسا ماحول جہاں سے دنیا بھر‬
‫‪'' ‬کی حکومتوں اور رہنماؤں کے لیے عمل پر مبنی بصیرت ابھر کر سامنے آئے گی۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ مرکز حکومتی‪ ،‬تعلیمی اور نجی شعبوں کو ایک ساتھ النے کا کام‬
‫کرے گا۔ وزیر صحت جینز اسپہان کا کہنا تھا کہ وبائی امراض کے پھیالؤ کو روکنے‪،‬‬
‫انفیکشن اور دیگر بیماریوں کو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے جیسے معامالت کی‬
‫''روک تھام کے لیے موجودہ عالمی نظام ''پوری طرح سے تیار نہیں ہے۔‬
‫جرمنی نے اس مرکز کی شروعات کے لیے تقریبا ًساڑھے تین کروڑ ڈالر کی امداد دینے‬
‫کا بھی اعالن کیا ہے جبکہ باقی بجٹ کے حوالے سے ابھی بات چیت جاری ہے۔موجودہ‬
‫وائرس سے متعلق ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ‬
‫کورونا وائرس سن ‪ 2019‬کے ستمبر میں پیدا ہوا ہوگا‪  ‬جبکہ عالمی اداروں کو اس کا کئی‬
‫مہینوں بعد پتہ چال تھا اور تب اسے ایک عالمی وبا کے طور پیش کیا گیا۔‬
‫ص ز‪ /‬ج ا‪(    ‬اے ایف پی‪ ،‬ڈی پی اے‪ ،‬اے پی)‬
‫‪‬‬ ‫تاریخ‪06.05.2021 ‬‬
‫‪Web‬‬

‫| ‪133‬‬ ‫جلد‪،۵‬شمارہ ‪ ۹ | ۱۲۳‬مئی ‪ ۳-۲۰۲۱‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬


‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

You might also like