Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 21) - 24 May 2021 - 30 May 2021 - Issue 126 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 21) - 24 May 2021 - 30 May 2021 - Issue 126 - Vol 5
وی لی
www.alqalam786.blogspot.com
|1 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ت
حق ق
طِب ّی ی ات
سرپرست:محمدعثمان
مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ مینجنگ ایڈیٹر:مجاہدعلی
ساتھ مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔ معاون مدیر :حافظ زبیر
اس کے عالوہ یہ پاکستان کی جامعات،تحقیقاتی ایڈیٹر :ذاہدچوہدری
ادارہ جات،معالجین حکماء
،محققین،فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری اورہرطرح کی
فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے ادارتی ممبران
اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
اوریوں تقریبا پورے پاکستان میں اسکی
سرکولیشن کی جاتی ہے اورآپکے کاروبار، حضرت موالنا حکیم زبیراحمد*
پراڈکٹ ،سروسزکے فروغ کابہترین ذریعہ ہے رحمت ہللا ادارہ فروغ* تحقیق الہور*
محمدعباس مسلم
شعبہ تحقیق وتالیفات
شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی
ماہرانہ مشاورت
حکیم زبیراحمد
ڈاکٹرواصف ُنور
برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن
ڈاکٹ رمحمدتحسین
Mujahid Ali 0333 457 6072 ڈاکٹرروشن پیرزادہ
ڈاکٹرمحمدمشتاق*
meritehreer786@gmail.com
meritehreer786@gmail.com
www.alqalam786.blogspot.com
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تفصیل
کتے سونگھ کرکورونا وائرس کی تشخیص کرسکتے Bہیں ،تحقیق
ویب ڈیسک
پير 24 مئ 2021
تجربے کے پہلے مرحلے میں کتوں کو کورونا مریضوں کے زیر استعمال ماسک اور
کپڑوں کے نمونے دیے گئے۔(فوٹو:اے ایف پی)
لندن :کورونا وائرس کی تشخیص کے سلسلے میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا
گیا ہے کہ کتوں میں کووڈ 19-انفیکشنز کو سونگھنے کی صالحیت پائی جاتی ہے۔
|3 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس بات کا انکشاف لندن اسکول ٓاف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور ڈر ہم یونیورسٹی کے
اشتراک سے ہونے والے مطالعے میں ہوا۔ سائنس دانوں نے اس تحقیق کا پہال مرحلہ مکمل
کرلیا ہے ،جس سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کنٹرولڈ صورت حال میں کتے کووڈ19-
انفیکشن کو سونگھ کر شناخت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے جیمز لوگان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس تحقیق میں چار
سے چھے سال کے لیبراڈو ،گولڈن ریٹرائیور\ اور کوکر اسپینیئل نسل کے 6کتوں کو شامل
کیا۔ جنہیں 6سے 8ہفتے کی تربیت دی گئی اور تربیت کے بعد یہ کتے کووڈ 19-کی بو
سونگھنے کے قابل ہوگئے تھے۔
تجربے کے پہلے مرحلے میں کتوں کو کورونا مریضوں کے زیر استعمال ماسک اور
کپڑوں کے نمونے دیے گئے۔ ریسرچر نے اس بات کا تجزیہ کیا کہ ٓایا یہ کتے کووڈ19-
کے مثبت اور منفی نمونوں کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں یا نہیں۔
تجزیے سے ظاہر ہواکہ کتوں میں کورونا وائرس کی شناخت میں حساسیت کی شرح 82
سے 94فیصد ہے۔ اس انفیکشن کے کیمیائی تجریئے سے ظاہر ہوا کہ کورونا مثبت کے
مریضوں کی بو جدا ہے۔ تحقیق کے اگلے مرحلے میں اس مخصوص بو کے پس پردہ
موجود کمیکل کی شناخت کی جارہی ہے۔
لوگن کا کہنا ہے کہ مریض میں کورونا کی عالمات ظاہر نہیں ہوئی ہوں تب بھی کتے
تیزی اور درستگی کے ساتھ کووڈ کی شناخت کر سکتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگر
چہ پی سی ٓار ٹیسٹ کووڈ 19-کی شناخت کے لیے موثر ہے لیکن کتے زیادہ جلدی اور
ٓاسان طریقے سے گنجان ٓابادیوں میں کورونا مریضوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔ اس
تحقیق میں مزید پیش رفت جاری ہے۔
https://www.express.pk/story/2181713/509/
کورونا وائرس کی ایک اور خطرناک قسم دریافت ،یہ کس ملک میں
سامنے آئی ؟ تشویشناک خبر آگئی
ہانوئی(ڈیلی پاکستان آن الئن )کورونا وائرس میں جنیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جس کی وجہ
سے نئی نئی اقسام سامنے آرہی ہیں ۔اب ویتنام میں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم کا
انکشاف ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ بہت خطرناک ہے ۔ ویت نام کے
وزیر صحت نگیوین ٹہانا نے 29مئی کو ایک اجالس میں بتایا کہ سائنسدانوں نے کورونا
وائرس سے حال ہی میں متاثر ہونے والے مریضوں کے جینیاتی سیکونسنگ کے دوران
|4 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس نئی قسم کو دریافت کیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی نظر آتی
ہے اور دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا ویت نام نے کووڈ 19کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں بھارت
اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کی میوٹیشنز کا امتزاج موجود ہے۔ویت نام کے
وزیر صحت نے بتایا 'بنیادی طور پر یہ بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ہے جس میں
ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں دیکھنے میں آئی،
اس وجہ سے یہ نئی قسم بہت خطرناک ہے۔لیبارٹری میں ہونے والی تحقیق میں معلوم ہوا
کہ یہ نئی قسم بہت تیزی سے اپنی نقول بنانے کی صالحیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ
اس سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ویت نام میں حال ہی میں اچانک کووڈ کے کیسز
میں تیزی سے اضافہ کیوں ہوا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/30-May-2021/1295821
ض قلب سے چھٹکارا
ایک گالس دودھ روزانہ ،امرا ِ
ویب ڈیسک
جمعـء 28 مئ2021
|5 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ملبورنٓ ،اسٹریلیا :اگرچہ یہ کچھ عجیب خبر ہے لیکن الکھوں Bلوگوں پر کئے گئے
سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دودھ کا باقاعدہ استعمال مضر Bکولیسٹرول Bکو کم کرتا ہے
اور دل کے امراض کا خدشہ کم ہوجاتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں 20الکھ افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ دودھ پینے والوں کے جسم
میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے لیکن مضر کولیسٹرول کی سطح کم رہتی ہے اور المحالہ
امراض قلب کا خطرہ کم کم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کی مکمل سائنسی وجہ سامنے نہیں ِ
ٓاسکی کیونکہ ہم دودھ کو قدرے مختلف انداز میں ہضم کرتے ہیں۔
مئی کو انٹرنیشنل جرنل ٓاف اوبیسٹی میں شائع ایک طویل تحقیق کے مطابق 24
یونیورسٹی ٓاف ریڈنگ ،یونیورسٹی ٓاف ساؤتھ ٓاسٹریلیا اوریونیورسٹی ٓاف ٓاکلینڈ کے
سائنسدانوں نے برطانیہ میں لگ بھگ 20الکھ افراد کا ڈیٹا دیکھا ہے۔ اس میں جینیاتی\
سطح پردودھ پینے والے افراد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ ایک جینیاتی\
تبدیلی کی وجہ سے وہ لیکٹوز ہضم کرلیتے ہیں اور اسی بنا پر ان میں دودھ پینے کی
عادت پیدا ہوجاتی ہے۔
اگرچہ دودھ پینے کی عادت باڈی ماس انڈیکس (بی ایم ٓائی) میں اضافے کی وجہ بنتی
ہے لیکن اس سے اچھے اور برے دونوں قسم کے کولیسٹرول کم ہوتے ہیں۔ مجموعی
امراض قلب میں 14فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ِ طورپردودھ پینے سے
ہے کہ دودھ سیرشدہ چکنائی والی غذا ہونے کے باوجود بھی یہ دل کی بیماریوں کی
وجہ نہیں بنتا۔ یعنی یہ سرخ گوشت جیسا خطرناک ہرگز نہیں ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شاید دودھ میں کوئی ان دیکھا کیمیائی مرکب ہے جو دل کو
تندرست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسری جانب یہ رگوں اور شریانوں کی تنگی کو بھی
دور کرتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2183063/9812/
ویب ڈیسک
ہفتہ 29 مئ2021
سنگاپور کے ماہرین\ نے مچھلی کے چھلکوں اور مینڈک کی کھال سے ہڈی ساز مٹیریئل بنایا ہے۔
فوٹو :نینیانگ یونیورسٹی
|6 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سنگاپور :ہڈیوں کے بعض زخم اور چوٹیں اتنی پیچیدہ ہوتی ہیں کہ انہیں مندمل کرنا
محال ہوجاتاہے۔ اب اس کا حل فطرت سے تالش کیا گیا ہے جس میں مچھلی Bکے
چھلکوں اور مینڈک کی کھال کو ہڈیوں کے عالج میں کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا
ہے۔
عموما ً ران ،کولہے اور ٹانگ کی ہڈیوں میں کسی بیماری ،حادثے یا چوٹ کی وجہ سے
خال پیدا ہوجاتا ہے۔ اس الپتہ ہونے والے ہڈی کے ٹکڑے کو جسم میں ہی افزائش کردہ
ہڈی سے بھرا جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل وقت طلب اور پیچیدہ ہوتا ہے۔
اب سنگاپور کی نینیانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے اسنیک ہیڈ مچھلی اور امریکی بل
فراگ مینڈک سے اس مسئلے کا حل تالش کیا ہے۔ انہوں نے مچھلی کے چھلکوں اور
مینڈک کی کھال سے ایک مٹیریئل تیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں جانور اپنے
گوشت کے لیے فارم میں پالے جارہے ہیں۔
پہلے انہوں نے مینڈک کی کھال کو تمام ٓالودگیوں سے پاک کیا اور اسے پیس کا گاڑھا
محلول بنایا ،پھر پانی مالکر اس میں کوالجن پروٹین کو الگ کیا۔ دوسری جانب مچھلی
کے چھلکوں سے کیلشیئم فاسفیٹ نکاال جو ہائیڈروکسی اے پیٹائڈ کہالتا ہے۔ پھر دونوں
کو خشک کرکے پیسا اور اس کا سفوف بنایا۔ ٓاخر میں اس میں کوالجن کو شامل کیا۔
اس کے بعد سفوف کو سانچے میں ڈھال کر سہ جہتی (تھری ڈی) نفوذ پذیر مچان نما
شکل دی گئی۔ اس مرحلے پر اس میں ہڈی بنانے والے اہم حیاتیاتی اجزا شامل کئے
|7 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
گئے۔ اب جیسے ہی مٹیریئل کو ہڈی پر ڈاال گیا تو ہڈی پیدا کرنے والے اجزا تیزی سے
پروان چڑھے۔ یہ اجزا برابری اور ہموار انداز میں پھیل گئے۔
جانوروں پر ٓازمائش میں جسم کے امنیاتی نظام نے اسے قبول کرلیا اور یوں ایک بالکل
انوکھا بایومیڈیکل مادہ ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے۔
https://www.express.pk/story/2183580/9812/
ابتدائی تجربات میں اس دوا نے چوہوں جیسے جانوروں ’ہیمسٹرز‘ میں کورونا وائرس کا
خاتمہ کامیابی سے کیا ہے۔ (فوٹو :نیٹ جیو /وکی پیڈیا)
پٹسبرگ :Bامریکی سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی ایک ایسی دوا ایجاد کرلی ہے جو
نینوباڈی کہالنے والے حیاتی سالموں (بایو مالیکیولز) پر مشتمل Bہے اور جسے ناک سے
سونگھ کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فی الحال یہ دوا ابتدائی تجرباتی مراحل میں ہے اور اسے ’’ہیمسٹرز‘‘ (چوہے جیسے
جانوروں) پر کامیابی سے ٓازمایا جاچکا ہے۔
|8 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دراصل بہت چھوٹی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں )‘‘ (nanobodiesبتاتے چلیں کہ ’’نینوباڈیز
جنہیں مختلف بیماریوں کے عالج میں اینٹی باڈیز سے زیادہ بہتر اور مؤثر بھی قرار دیا
جاتا ہے۔
کورونا وائرس کے خالف یہ نئی نینوباڈی پٹسبرگ یونیورسٹی کے ماہرین نے تیار کی ہے
کا نام دیا گیا )‘‘ (PiN 21جبکہ اس پر مبنی عالج کو ’’پٹسبرگ اِنہیل ایبل نینوباڈی 21
ہے۔
ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق ،یہ
نینوباڈی نہ صرف کورونا وائرس کو ناکارہ بناتے ہوئے بیماری ختم کرتی ہے بلکہ اسے
دوبارہ حملہ ٓاور ہونے سے بھی روکتی ہے۔
تجربات کی غرض سے ہیمسٹر کے پھیپھڑوں کو مصنوعی\ طور پر کورونا وائرس سے
متاثر کیا گیا۔
اس کے بعد انہیں ’’پِن ‘‘21نینوباڈی کی بہت ہی معمولی مقدار ( 0.6ملی گرام فی کلوگرام
کی شرح سے) سنگھائی گئی۔
نینوباڈی نے ہیمسٹرز کے پھیپھڑوں میں پہنچتے ہی کام دکھانا شروع کردیا اور کورونا
وائرس کی شدت میں کمی ٓانے لگی ،یہاں تک کہ دس دن بعد یہ وائرس مکمل طور پر ختم
ہوگیا۔
صحتیابی کے بعد ان ہیمسٹرز میں ناک کے راستے (سانس کے ذریعے) کورونا وائرس
ایک بار پھر داخل کیا گیا لیکن سائنسدانوں کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ
نے کورونا وائرس کا دوسرا حملہ بھی ناکام بنا دیا۔ ) (PiN 21نینوباڈی
یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی نینوباڈی مؤثر اور سرگرم تھی۔
انہی تجربات کے دوسرے مرحلے میں کورونا وائرس سے متاثرہ ہیمسٹرز کو نینوباڈی
کے بخارات والے ڈبوں میں رکھا گیا۔
اِن ڈبوں کی اندرونی ہوا میں نینوباڈی والے بخارات کی شرح اور بھی کم ،یعنی صرف
0.2ملی گرام فی کلوگرام تھی۔
اس ماحول میں ہیمسٹرز کی ناک اور منہ کے عالوہ ان کا پورا جسم بھی نینوباڈی کے
سامنے تھا۔ان تجربات میں یہ نینوباڈی چھ گنا زیادہ مؤثر ثابت ہوئی اور اس نے بہت تیزی
سے ہیمسٹرز میں کورونا وائرس کا خاتمہ کردیا۔
ہیمسٹرز میں کامیاب تجربات کے بعد ماہرین کی یہ ٹیم انسانوں میں اس نینوباڈی کی ابتدائی
ٓازمائش کےلیے ایف ڈی اے کی جانب سے اجازت کا انتظار کررہی ہے۔
اگر یہ نینوباڈی انسانوں میں بھی اتنی ہی مؤثر ثابت ہوئی تو امید ہے کہ بہت جلد کورونا
بطور خاص اُنِ ویکسین کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اور کم خرچ عالج سامنے ٓاجائے گا جو
لوگوں کےلیے مفید ہوگا جو اس بیماری سے اوسط درجے پر متاثر ہیں۔
یہی نہیں ،بلکہ نینوباڈیز والے اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے دوسری بیماریوں کے
عالج کی ایک نئی راہ بھی ہمارے سامنے ہوگی۔
https://www.express.pk/story/2183689/9812/
|9 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کافی کے استعمال سے نیند کی کمی کیوں ہوتی ہے؟ وجہ سامنے ٓاگئی
ویب ڈیسک
مئی 29 2021
نئی تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کافی نیند کی کمی کے باعث پڑنے والے منفی
اثرات کو کم کرتی ہے۔
امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی ے محققین نے کافی کی اس اثر پذیری کا اندازہ
لگاتے ہوئے کہا کہ کیقین نیند کی کمی کے حوالے سے مدد کرتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں
ہے کہ جیسا کوئی تصور کرے۔
مشی گن یونیورسٹی کی سلیپ اینڈ لرننگ لیب کی سائنسدان اور سائیکالوجی کی ایسوسی
ایٹ پروفیسر کمبرلی فین کے مطابق کیفین نیند کی کمی سے پڑنے والے اثرات کو زائل
کرتی ہے لیکن یہ نیند کا نعم البدل نہیں ہے۔
پروفیسر کمبرلی فین جو کہ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہی بھی کررہی ہیں انکا مزید کہنا ہے
کہ ایک رات کی نیند کی محرومی سے سیکھنے ،یاداشت اور ذہنی صالحیتوں پر جو
اثرات مرتب ہوتے ہیں کیفین اس سے نبرد ٓازما ہوتا ہے۔
پروفیسر کمبرلی فین نے مزید کہا کہ کیفین ٓاپکے جاگنے اور کام کرنے کی صالحیت کو
برقرار رکھتا ہے لیکن یہ طریقہ کار کی غلطیوں کی روک تھام میں معاون ثابت نہیں ہوتا
ہے ،جیسے کہ طبی معامالت اور ڈرائیونگ وغیرہ شامل ہے۔
| 10 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لوگ ٓاسان قسم کے ٹاسک کافی استعمال کرکے پورے کرسکتے ہیں ،تاہم اس تحقیق کے
دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر شرکا مشکل قسم کے ٹاسک سرانجام نہ دے سکے۔
کیفین توانائی کو تو بڑھاتی ہے اور نیند کی کمی کے اثرات کوبھی کم کرکے موڈ بہتر
کرتی ہے لیکن یہ رات کی مکمل نیند کا قطعی نعم البدل نہیں ہے
https://urdu.arynews.tv/551488-2/
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ جب تک دنیا کی 70فیصد ٓابادی کو
کورونا ویکسین نہیں لگ جاتی کورونا کی وبا ختم نہیں ہوگی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے یورپ کے ڈائریکٹر ہانس کلوج
نے یورپ میں ویکسین لگائے جانے کی رفتار کو سست قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔
ہانس کلوج کا کہنا تھا کہ یہ مت سوچیں کہ کورونا وائرس کی وبا ختم ہوگئی ہے۔ کورونا
ویکسین لگنے کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وبا اس وقت ختم
ہوگی جب 70فیصد لوگوں کو ویکسین لگ جائے گی۔
اے ایف پی کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 26فیصد لوگوں کو کورونا ویکسین کی پہلی
خوراک لگ چکی ہے ،جبکہ یورپ میں 36.6فیصد ٓابادی کو کورونا کی پہلی اور 16.9
فیصد کو دوسری خوراک لگ چکی ہے۔
| 11 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہانس کلوج نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو سب سے زیادہ تشویش کورونا کی نئی اقسام
کی وجہ سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر انڈین قسم بی 1617ایک دوسری قسم بی(117برطانوی
قسم) سے زیادہ پھیلتی ہے۔ کورونا کی انڈین قسم 53ممالک میں پھیل چکی ہے۔ تاہم دنیا
بھر میں نئے کیسز اور اموات میں گذشتہ پانچ ہفتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ہانس کلوج نے کہا کہ اگرچہ کورونا ویکسینز نئی اقسام کے خالف کارگر ثابت ہوئی ہیں
لیکن لوگوں کو محتاط رہنا ہوگا۔ یہ قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ ممالک نوجوانوں کو
ویکسین لگانا شروع کر دیں اور خطے کے باقی ملکوں نے طبی عملے اور بزرگ افراد
کو بھی ویکسین نہ لگائی ہو۔
https://urdu.arynews.tv/corona-virus-who-indian-type/
عالمی وبا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے بعد لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا
رہتا ہے کہ کیا اس وائرس سے ہالک ہونے والے افراد کے جسم سے انفیکشن پھیلنے کا
خطرہ رہتا ہے؟
اس سوال کا کوئی مصدقہ جواب ابھی تک سامنے نہیں ٓایا تاہم اب ایک ایسی تحقیقی
رپورٹ سامنے ٓائی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مردہ جسم میں کورونا وائرس 12سے 24
گھنٹے کے درمیان ختم ہو جاتا ہے۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ایک
سال کے دوران تحقیق کی گئی ہے جس کے بعد ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کورونا
وائرس مردہ جسم میں 12گھنٹے کے بعد زندہ نہیں رہتے۔
| 12 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بھارتی ادارے ایمس میں فارنسک ڈیپارٹمنٹ کے چیف ڈاکٹر سدھیر گپتا نے بتایا ہے کہ
کورونا متاثرہ شخص کے مرنے کے 12سے 24گھنٹے بعد اس کی ناک یا گلے سے
انفیکشن پھیلنے کا اندیشہ بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ تب تک مردہ جسم میں وائرس زندہ
نہیں رہ سکتا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایمس میں گزشتہ ایک سال میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے
کے لیے مکمل اور مربوط تحقیق کی گئی ہے ،اس کے بعد ڈاکٹرز اس نتیجہ پر پہنچے ہیں
کہ وائرس مردہ جسم میں 12گھنٹے کے بعد زندہ نہیں رہتے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سدھیر گپتا نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران کورونا متاثرہ
اشخاص کے مردہ جسم پر ایمس کے فورنسک ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچ کی گئی۔
اس ریسرچ میں پوسٹ مارٹم کے بعد پایا گیا کہ وائرس 12گھنٹے کے بعد سرگرم نہیں
رہتے۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایمس کے فورنسک ڈیپارٹمنٹ میں کورونا سے
متاثر تقریبا ً 100مردہ جسموں پر تحقیق کی گئی ہے۔ ان مردہ جسموں میں 12سے 24
گھنٹے کے درمیان کورونا وائرس کی موجودگی کی جانچ پڑتال کی گئی جس کا منفی
نتیجہ سامنے آیا۔
ڈاکٹر گپتا نے مزید بتایا کہ جسم کے کسی بھی اورل یا نیزل (منھ یا ناک) کیویٹی میں 24
گھنٹے کے بعد کورونا وائرس زندہ نہیں رہتا۔ اس لیے مرنے کے 12گھنٹے بعد کسی
کورونا متاثرہ شخص کے جسم سے وائرس کا انفیکشن ہونا تقریبا ً ناممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی طرح کی انہونی سے بچنے کے لیے ہم نے مردہ جسم میں
اورل اور نیزل کیویٹی کو پوری طرح سے بند کر دیا تاکہ اگر کوئی سیال مادہ ان ذرائع
سے ہو کر نکلے تو اس سے انفیکشن نہ ہو۔ اس کے عالوہ احتیاطا ً ہم مردہ جسم کی ٓاخری
رسومات ادا کرتے وقت طبی اہلکاروں کو پروٹیکٹو\ گیئر پہننے کا مشورہ دیتے ہیں جس
میں فیس ماسک اور فیس کور ،پی پی ای ِکٹ ضروری ہے
https://urdu.arynews.tv/corona-virus-dead-body-infection/
کرونا مریض چوبیس گھنٹے میں گھر منتقل ،یو اے ای نے نئے طریقہ
عالج کی منظوری دے دی
ویب ڈیسک
مئی 30 2021
دبئی :متحدہ عرب امارات کے محکمہ صحت اور روک تھام نے کرونا کے نئے طریقٔہ
عالج کی منظوری دے دی۔
عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیربرائے صحت و روک تھام
نے ہنگامی بنیادوں پر کرونا کے نئے اور انتہائی مؤثر طریقٔہ عالج کی منظوری دی۔
| 13 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ا
س منظوری کے بعد متحدہ عرب امارات دنیا کا پہال ملک بن گیا ہے جہاں کرونا کے
مریضوں کا نئے طریقے سے عالج کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق اس طریقہ عالج کا
تصور بین االقوامی ہیلتھ کیئر کمپنی ’جی ایس کے‘ نے پیش کیا تھا ،جس کی امریکی فوڈ
اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے منظوری بھی دی۔
اس عالج کو سوترویمیمب ( )VIR-7831کا نام دیا گیا ہے ،جس کے تحت کرونا سے
متاثرہ شخص کو جلد عالج کی سہولت فراہم کر کے چوبیس گھنٹے کے اندر اسپتال سے
گھر جانے کی اجازت ہوگی۔
ٰ
دعوی کیا کہ اس نئے طریقٔہ عالج سے 85 متحدہ عرب امارات کے محکمہ صحت نے
فیصد اموات میں کمی ہونا ممکن ہے۔
نیا طریقہ عالج کیا ہے؟
اس عالج کے تحت انسانی خون میں موجود سفید خلیوں کی مدد سے نئی اینٹی باڈیز تیار
ہوں گی جبکہ مدافعتی نظام مضبوط بھی ہوگا۔
ُ
رپورٹ کے مطابق یہ طریقہ عالج 12سال یا اس سے کم عمر بچوں کے لیے انتہائی
خطرناک ہوگا ،اسی وجہ سے بچوں پر ابھی اسے ٓازمانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
کلینیکل ٹرائلز میں یہ بات سامنے ٓائی کہ یہ عالج کرونا کی نئی اقسام کے خالف بھی مؤثر
ہے ،جس میں مریض کی مونو تھراپی کی جاتی ہے۔
وزیر صحت عبدالرحمان بن محمد الویس نے بتایا کہ ’کرونا سے متاثرہ مریضوں کو
عالج کا پروٹوکول اور ادویات دی جائیں گی‘۔
انہوں نے بتایا کہ نیا اور مؤثر عالج دراصل خاص ادویات کے ذریعے کیا جائے گا ،جو
مریضوں میں موجود وائرس کو ختم کرنے کی صالحیت رکھتی ہیں
https://urdu.arynews.tv/uae-approves-new-treatment-for-covid-19/
| 14 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چین نے کرونا کی ایک اور ویکسین تیار کرلی
ویب ڈیسک
مئی 30 2021
بیجنگ :چین نے کرونا وائرس کی روک تھام کےلیے ایک اور ویکسین تیار کرلی ،تین
خوراکوں پر مشتمل ری کومبیننٹ Bپروٹین ویکسین کی پہلی کھیپ مارکیٹ میں پہنچ گئی
ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین میں تیار کردہ کرونا وائرس کی
تین خوراکوں پر مشتمل ایک اور ویکسین انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کے ماتحت ادارے انسٹی
ٹیوٹ آف مائکروبیالوجی اور آنہوئی زہیفئی النگ کام بائیوفارماسوٹیکل کمپنی لمیٹڈ نے
مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔
چین نے ری کومبیننٹ پروٹین ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے دی ہے ،جس
کے بعد ویکسین بیجنگ کی مارکیٹوں میں پہنچا دی گئی ہے جب کہ چین کے دیگر
صوبوں کے عوام نے بھی یہ ویکسین لگوالی ہے۔
طبی آزمائش کے دوسرے مرحلے جس میں 18سے 59سال کی درمیانی عمر کے افراد
شامل تھے ،ویکسین کی دو خوراکیں لینے کے بعد پتہ چال کہ83فیصد شرکا میں وائرس
کے خالف اینٹی باڈیز پیدا ہوئیں جبکہ تیسری خوراک کے بعد 97فیصد شرکا میں اینٹی
باڈیز پیدا ہوئیں۔
اس سے قبل چین کی سینوویک بائیو ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19ویکسین وائرس کی روک
تھام کے لیے 80سے زائد فیصد تک مؤثر قرار دی گئی تھی
https://urdu.arynews.tv/china-develops-another-coronavirus-vaccine/
| 15 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کرونا وائرس :ذائقے کی حس سے محرومی کے حوالے سے ایک اور
تحقیق
ویب ڈیسک
مئی 30 2021
کووڈ 19کی اہم عالمت سونگھنے Bاور ذائقے کی حس سے عارضی محرومی ہے اور اب
اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے ٓائی ہے۔
امریکا میں حال ہی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق اگر ٓاپ سے مختلف غذاؤں
کا ذائقہ برداشت نہیں ہوتا تو ٓاپ ممکنہ طور پر سپر ٹیسٹر ہیں اور اس سے کووڈ 19سے
کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔
سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس
ہوتے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ 19سے متاثر ہونے کا
خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ 1کی عالمات اوسطا ً محض 5دن
تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطا ً 23دن تک موجود رہ سکتی ہیں۔
تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ 19کے
خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ
تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی ٓ 2ار 38زبان کے ذائقہ کا احساس دالنے
والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک ٓاکسائیڈ
بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان
کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔
| 16 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کرونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دالنے والے
ریسیپٹرز سے کووڈ 19و باالئی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا
جائزہ لیا گیا ہے۔
اس تحقیق میں 2ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی
ٓازمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔ ان لوگوں کو 3گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا ،ایک نان
ٹیسٹرز ،دوسرا سپر ٹیسٹرز اور تیسرا ٹیسٹرز۔
نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کر پاتے،
سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی
اسے شناخت کرلیتے ہیں ،جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔
تحقیق کے دوران 266افراد میں کووڈ 19کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد
زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ 19کی عالمات کی شدت معمولی سے
معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
https://urdu.arynews.tv/supertaster-against-covid-19/
| 17 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کرونا وائرس سے جڑے خطرات میں
اضافہ کردیتی ہے ،سگریٹ نوش افراد کو کووڈ 19سے موت کا خطرہ 50فیصد زیادہ
ہوتا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر\ جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس
ادہانم کا کہنا ہے کہ کووڈ 19کی وجہ سے بیماری کے سنگین ہونے اور اموات کے
خطرات سگریٹ نوشی کرنے والوں کو 50فیصد زیادہ الحق ہوتے ہیں ،ضروری ہے کہ
سگریٹ نوشی ترک کر کے کرونا وائرس کے خطرات کو کم کیا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کی تمباکو نوشی کے خالف مہم نے ایک ارب سے زائد سگریٹ
نوشوں کو ٹول کٹ سے وسائل میسر کیے ہیں۔ اس مہم میں 29ممالک کو مرکزی توجہ
دی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر ہیلتھ پروموشن ڈاکٹر روڈیگر کرچ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے
کی اس مہم میں تمام ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 39فیصد مرد اور 9فیصد خواتین تمباکو
نوشی کرتی ہیں ،سگریٹ نوشی کی سب سے زیادہ شرح والے ممالک یورپ میں ہیں جہاں
یہ شرح 26فیصد ہے اور اندازوں کے مطابق اگر ان کی حکومتوں نے فوری اقدام نہ کیے
تو سنہ 2025تک ان کی تعداد میں صرف 2فیصد کمی متوقع ہے۔
https://urdu.arynews.tv/smoking-and-coronavirus/
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت کرونا وائرس ویکسی نیشن جاری ہے ،نیشنل کمانڈ
اینڈ ٓاپریشن سینٹر کے مطابق ملک میں اب تک تقریبا ً 20الکھ افراد کو ویکسین کی کم از
کم ایک ڈوز لگ چکی ہے اور 9الکھ 64ہزار سے زائد افراد کو دونوں ڈوزز لگائی جا
چکی ہیں۔
اس حوالے ویکسی نیشن کے سائیڈ افیکٹس پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ،حقیقت
یہ ہے کہ ویکسین لگوانے سے کوئی سنگین خطرہ الحق نہیں۔
کچھ مسائل ایسے ضرور ہیں جو عموما ً ہر ویکسین لگوانے کے بعد پیش ٓاتے ہیں ،کیونکہ
ویکسین لگوانے کے بعد ہمارے جسم میں مدافعت کا نظام کام کرنا شروع ہو جاتا ہے اور
اس میں اصل وائرس سے لڑنے کی صالحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔
| 18 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہ
جاننا بہت ضروری ہے کہ ویکسین لگوانے کے نتیجے میں کون سے سائیڈ افیکٹس ہو
سکتے ہیں۔
سوجن
سب سے عام اور بے ضرر سائیڈ افیکٹ ہے کہ جس بازو پر ٹیکا لگوایا جائے اس میں
سوجن آ جائے لیکن یہ پریشانی کی بات نہیں۔ سب سے پہلے ویکسین لگواتے ہوئے عملے
کو بتائیں کہ ٓاپ کس بازو میں ٹیکا لگوانا چاہتے ہیں۔
اگر ٓاپ اپنے کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں تو ٹیکا بائیں بازو میں لگوائیں تاکہ سوجن کی
صورت میں ٓاپ کے روزمرہ معموالت زیادہ متاثر نہ ہوں۔ اگر زیادہ تکلیف ہو تو سوجن
کی جگہ پر برف سے ٹکور کر لیں۔
بخار
ویکسین لگوانے کے بعد سب سے عام سائیڈ افیکٹ بخار ہونا ہے اور یہ دیگر ویکسینز
لگوانے پر بھی ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ٹیکا لگواتے ہی جسم میں مدافعت
کا نظام تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔
خاص طور پر دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد بخار ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے لیکن ماہرین
درد کش ادویات لینے سے منع کرتے ہیں کیونکہ اس سے ویکسین کے کام میں مداخلت ہو
سکتی ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ ٓارام کریں اور پانی زیادہ پئیں۔ اگر ٹیکا لگوانے کے
بعد 72گھنٹوں بعد بھی عالمات شدید ہوں تو معالج سے رابطہ کریں۔
تھکاوٹ
| 19 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویکسین لگوانے کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونا بھی عام ہے۔ پہلے ٹیکے کے بعد 8اور
دوسرے ٹیکے کے بعد 14فیصد افراد تھکاوٹ محسوس ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔
یہ اور دیگر عالمات مثالً سر اور پٹھوں میں درد عموما ً خواتین اور 55سال اور اس سے
کم عمر کے افراد میں دیکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر اس صورت میں زیادہ سے زیادہ آرام کا
مشورہ دیتے ہیں۔
سر درد
ایک تحقیق کے مطابق فائزر کی بنائی گئی ویکسین کا دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد 13
فیصد افراد نے سر درد کی شکایات کی تھی۔ اس کا حل بھی ٓاسان ہےٓ ،ارام کریں اور سر
درد کی عام گولی کھا لیں۔
متلی
تقریبا ً 3.5فیصد افراد دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد متلی کی شکایت کرتے ہیں جبکہ کچھ
کو قے بھی ہو جاتی ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کرنے کا وقت ہے ،یا پھر جس
چیز سے آپ کی متلی رک جاتی ہے ،اسے استعمال کریں۔
پٹھوں میں درد
فائزر کی ویکسین لگوانے والے 5فیصد افراد نے جسم اور پٹھوں میں درد کی شکایت بھی
کی ہے۔ اگر تکلیف بہت زیادہ ہو تو سر درد کی طرح اس میں بھی کچھ درد ختم کرنے
والی ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں۔
کم ہونے والے سائیڈ افیکٹس
الرجی
ویکسینز کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں لگوانے والے کئی افراد نے الرجی کی شکایت
کی ،لیکن یہ تمام لوگ ایسے تھے جنہیں پہلے ہی الرجی کے مسائل کا سامنا تھا۔ ویکسین
لگوانے کے چند ہی منٹوں بعد انہیں الرجی ہونے لگی۔
عام طور پر ادویات سے الرجی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ٓاپ کو الرجی کا سخت
مسئلہ ہو تو ٓاپ کو ٹیکا لگوانے کے بعد 15سے 20منٹ تک بٹھایا جاتا ہے تاکہ کسی
مسئلے کا اندازہ ہو سکے۔
ویکسین کا پہال ٹیکا لگوانے کے بعد شدید الرجی کا سامنا کرنے والے لوگوں کو دوسرے
ٹیکے سے پہلے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیئے۔
خون جمنا
امریکا نے 13فروری کو ملک میں جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کا عمل روک دیا تھا
کیونکہ ایک خاتون کی رگوں میں خون جمنے کا پتہ چال تھا ،جو مہلک بھی ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد یورپ میں ایسٹرازینیکا\ ویکسین کی وجہ سے ایسی ہی خبریں سامنے آئیں اور
متعدد لوگوں کی ہالکت کا بھی پتہ چال۔
یہ پابندیاں بعد میں ہٹا دی گئیں لیکن انتباہ ضرور دیا جا رہا ہے۔ امریکا میں جانسن اینڈ
جانسن کی ویکسین لگوانے والے 80الکھ افراد میں ایسی شکایات 17افراد نے کی ہیں۔ ان
میں سے زیادہ تر کی 50سال سے کم عمر کی خواتین تھیں۔
| 20 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دل کا مسئلہ
اسرائیل میں ویکسین لگوانے والے 62افراد میں دل کی سوزش کے مرض کا پتہ چال ہے۔
امریکی فوج میں بھی 14ایسے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک ویکسین لگوانے کے بعد
اس مرض کی شرح ایک الکھ میں ایک ہے ،جو زیادہ تر 32سال سے کم عمر مردوں میں
دیکھا گیا ہے اور زیادہ تر کو دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد یہ شکایت ہوتی ہے
https://urdu.arynews.tv/after-effects-of-vaccination/
ویب ڈیسک
مئی 30 2021
عالمی کورونا وبا سے صحت یابی کا دورانیہ مریض کی قوت مدافعت پر انحصار کرتا ہے
لیکن ماہرین نے ایسی چند اشیا کے مفید مشورے بتائے ہیں جو مہلک وائرس کو جلد
شکست دینے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ عمر ،جنس اور صحت مسائل سے بھی کورونا وائرس سے صحت
ماہرین خوراک کے مطابق کورونا سے تیزی سے
ِ یابی کا دورانیہ کم یا زیادہ ہوتا ہے۔
صحت یابی کے لیے چار اشیا کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے جن میں زنک ،وٹامن سی،
ہلدی ور وٹامن ڈی شامل ہیں۔
| 21 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دعوی ہے کہ زنک سے وائرس سے پیدا ہونے والی کمزوری دور ہوتی ہے ،یہ ٰ ماہرین کا
مریض کے جسم میں ٓانے والی کمزوری کو قابو کرتا ہے ،روزانہ کی بنیاد پر اگر 50ملی
گرام زنک استعمال کیا جائے تو جلد وبا پر قابو پانے میں معاونت ملے گی۔
اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ وٹامن سی کورونا وائرس ہونے کی صورت میں جسمانی
سوزش کو قابو کرے گا ،اس سے مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار بڑھے گی
اور نئے لمفی خلیے تخلیق ہوں گے۔
خوراک کے ماہرین کے مطابق ہلدی ٹھنڈ سے نجات حاصل کرنے ،کھانسی کو قابو
کرنے ،سینے کی گھٹن کم کرنے ،بیکٹریا اور وائرس کو توڑنے اور مدافعتی نظام کو
مضبوط بنانے معاون ہوتی ہے۔
وٹامن ڈی کی صالحیت ہے کہ وہ نظام تنفس میں وائرس جانے سے روکتا ہے۔ وبا لگنے
پر بھی مریض اسے استعمال کرتا رہے اور شفا پانے کے بعد بھی اس کا استعمال جاری
رکھے۔
https://urdu.arynews.tv/prescription-for-early-recovery-from-
coronavirus/
| 22 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
شہد ،قدرت کا ایک انمول تحفہ
27/05/2021
شہد انسان کیلئے قدرت کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے جس کانعم البدل کوئی نہیں۔ شہد
ایک قدرتی پیداوار ہے،اس کا رنگ ،ذائقہ اور خوشبو مختلف پھولوں جیسی ہوتی ہے ،جن
کی مدد سے شہد بنتا ہے۔شہد عموما ً دو قسم کا ہوتا ہے۔ایک ہلکا زردی مائل اور شفاف،
اعلی درجے کا شہد مانا جاتا ہے،دوسرا بادامی رنگٰ پتال ،نہایت میٹھا ،یہ چھوٹی مکھی کا
کا قدرے گاڑھاہوتا ہے اور اس کے ذائقے میں فرق ہوتا ہے۔شہد کی افادیت صرف ہمارے
جسم کے اندرونی نظام
کی مضبوطی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اسے لوگ چہرے کی خوبصورتی کی کیلئے
بھی استعمال کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں شہد کی مختلف اقسام دستیاب ہیں۔ کچھ شہد چکھنے
میں میٹھے معلوم ہوتا ہے اور کچھ شہد غذائیت سے بھر پور ہوتا ہے لیکن کچھ شہد کا
ذائقہ تھوڑا سا کڑوا بھی ہوتا ہے۔ ٓاپ اپنی پسند کے مطابق شہد حاصل کرسکتے ہیں۔ ٓاپ
واقعی اس کی افادیت کو چھوڑ نہیں سکتے جبکہ ماہرین ہمیشہ اسے کسی چیز میں مالئے
بغیر کھانے پر زور دیتے ہیں۔احادیث میں بھی شہد کے اندر کم سے کم ستر بیماریوں کی
شفا کا ذکر کیا گیا ہے۔موجودہ دورکی جدید سائنس ہزاروں سال کے بعد ان باتوں کو ثابت
کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایمسٹرڈم کے ایک میڈیکل سینٹر میں شہد کے انسانی جسم پر
مرتب ہونے والے مثبت اثرات پر کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے
کہ شہد میں ایسی صالحیت موجود ہوتی جو جسم میں موجود جراثیم کو ختم کرسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیاں ایک ایسا پروٹین پیدا کرتی ہیں جو انسانی صحت
کیلئے انتہائی شفا بخش اور مفید ہے
۔ڈیفنسن نامی یہ پروٹین قدرتی شہد میں پایا جاتا ہے جو جلد کے امراض اور انفیکشن
سمیت کئی بیماریوں سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے
۔جدید طب نے بھی شہد کو تمام امراض کے لیے اکسیر اور معجزاتی دوا کے طور پر
تسلیم کیا گیا ہے۔ شہد ہرمرض میں استعمال کیا جا سکتا ہے اس کے متعلق یہاں تک کہا
جاتا ہے کہ شہد میں موت کے عالوہ ہر بیماری کا عالج پوشیدہ ہے۔ شہد وٹامن
اورمعدنیات کا خزانہ ہے۔ اس میں داغ اور دھبے وغیرہ مٹانے کی صالحیت موجود ہے۔
یہ جلد کی مختلف کنڈیشن پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے جیسا کہ ایگزیما ،جلد
کا روکھا پند اور جلد کی دیگر بیماری وغیرہ۔ اس کے جادوئی کماالت سے چہرے کی
صفائی ،لوشن اور فیس ماسک بھی بنایا جاتا ہے۔ گرم پانی میں پتال شہد سر کی خشکی اور
گرتے ہوئے بال کو روکنے کیلئے عالج کے طور پر استعمال ہوتا ہے
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106354.html
| 23 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کورونا ویکسین کے ذریعے “چپ” لگائی جارہی ہے یا نہیں؟ حقیقت
سامنے ٓاگئی
28/05/2021
کورونا ویکسین کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف قسم کی افواہیں زیر گردش ہیں ،جس
میں سرفہرست عوام کے اندر مبینہ طور پر بلیو ٹوتھ چپ ڈالنےکی بات کی جارہی ہے،
دوسری جانب سوشل میڈیا پر پھیالئی جانے والی
ان افواہوں کی تردید بھی کی جارہی ہے۔اس بات کا اب تک کوئی مصدقہ ثبوت موجود نہیں
ہے کہ ایسٹرا زینیکا کوویڈ19ویکسین میں بلیو ٹوتھ چپ موجود ہے یا یہ ویکسین وصول
کنندہ کو بلوٹوتھ کی سہولت کو حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔اس سلسلے میں سوشل
میڈیا پر ایک ویڈیو کافی وائرل ہورہی ہے جس میں ویکسی نیشن کرانے واال ایک نامعلوم
شخص ویڈیو ریکارڈنگ کرنے والے شخص سے گفتگو کررہا ہے۔مذکورہ شخص ویکسین
لینے کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ میں
جہاں بھی جاتا ہوں ہر چیز مجھ سے منسلک ہونے کی کوشش کر رہی ہے ،جیسے بلیو
ٹوتھ چپ کے ذریعے مجھ سے رابطہ قائم کیا جارہا ہو۔
اس کا کہنا ہے کہ جب میں کار میں سوار ہوتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری
کار مجھ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں گھر جاتا ہوں تو میرا کمپیوٹر
بھی رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی مجھ سے میرے فون
| 24 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یاد رہے کہ بلوٹوتھ موبائل فون میں موجود ٓاپشنز میں
سے ایک ٓاپشن ہوتا ہے جسے کسی بھی لفظ میں ترمیم کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر ٓاسٹرا زینکا چڈاکس ون ایس کو دکھانے کے لئے کسی بھی موبائل فون
کے نام میں ترمیم کی جاسکتی ہے اور موبائل فون اور ٹیلی ویژن پر ویڈیو میں نظر ٓانے
والے نوٹیفکیشن کا اشارہ کرتے ہوئے اسے استعمال کرنے کی درخواست کی جاسکتی
ہے۔دنیا کے متعدد ممالک نے اسٹرا زینیکا کوویڈ 19ویکسین کو اپنے شہریوں کے لئے
منتخب کیا ہے۔ویکسین کے اجزاء کی مکمل فہرست میں ریکومبیننٹ\ ،ایل ہسٹائڈائن ،ایل
ہسٹیڈائن ہائڈروکلورائڈ مونوہائیڈریٹ ،میگنیشیم کلورائد ہیکسہائیڈریٹ ،پولسوربیٹ ، 80
ایتھنول ،سوکروز ،سوڈیم کلورائد ،ڈیزوڈیم ایڈیٹیٹ ڈہائیڈریٹ ،انجیکشن کے لئے پانی
شامل ہے تاہم ویکسین میں بلیو ٹوتھ چپ موجود نہیں ہے۔بلیوٹوتھ ایک وائرلیس ٹیکنالوجی
ہے جو کم فاصلے میں ڈیٹا شیئر کرنے کے لئے قلیل رینج کی ریڈیو لہروں کا استعمال
کرتی ہے ،بلوٹوتھ صالحیتوں کے ساتھ اینٹینا سے چلنے والی چپ ٓاسٹرا زینیکا کی جزو
کی فہرست میں ایسی کسی چیز کا امکان نہیں ہے۔واضح رہے کہ ٓاسٹرا زینیکا نے تبصرہ
کرنے کے لئے رائٹرز کی اس درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106460.html
بھارت میں تباہی مچانے واال کورونا وائرس پاکستان بھی پہنچ گیا۔۔۔B
وزارت صحت نے تصدیق کردی
28/05/2021
بھارت میں تباہی مچانے واال کورونا وائرس پاکستان بھی پہنچ گیا۔۔۔ وزارت صحت نے
تصدیق کردی
اسالم ٓاباد(ویب ڈیسک )پاکستان میں بھارتی کورونا وائرس کا پہال کیس سامنے ٓاگیا،
وزارت صحت نے تصدیق کردی۔وزارت صحت کاکہناہے کہ جنوبی افریقی ویریئنٹ کے
7اور بھارتی ویریئنٹ کے ایک کیس کی تصدیق ہوئی ہے
،کورونا وائرس کی بھارتی قسم کا یہ ملک میں پہال کیس ہے ،وزارت صحت کا مزید
کہناہے کہ بھارتی اور جنوبی افریقی کیسز کی کنٹیکٹ ٹریسنگ بھی شروع کردی گئی
،وائرس کی عالمی اقسام کی موجودگی کے باعث گائیڈ الئنز پر عمل کی ضرورت ہے ۔
وزارت صحت نے کہاہے کہ ماسک کے استعمال اور کورونا ویکسی نیشن کی بھی
ضرورت ہے ،مئی کے پہلے 3ہفتوںمیں حاصل کردہ نمونوں سے وائرس کی تصدیق ہوئی
،نمونوں کی جانچ قومی ادارہ صحت میں کی گئی ۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106508.html
| 25 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عوام پہلے سے کاٹ کر رکھا ہوا مرغی کا گوشت بالکل نہ خریدیں ،پی
ایم اے
28/05/2021
کراچی(ویب ڈیسک )مرغیوں میں وائرل بیماری سامنے ٓانے پر پاکستان میڈیکل ایسوسی
ایشن نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صحت مند مرغی کو اپنے سامنے ذبح کروا کر
گوشت خریدیں اور کسی بھی صورت میں پہلے سے تیار شدہ گوشت مت خریدیں۔پاکستان
میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) سینٹر کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد
نے کہا ہے کہ حال ہی میں پریس اور میڈیا میں مرغیوں میں پھیلنے والی وائرل بیماریوں
سے متعلق رپورٹ سامنے ٓائی ہیں جب کہ ایسی خبریں بھی ٓائی
ہیں کہ کچھ اللچی لوگ اپنے مخصوص گاہکوں کو انتہائی کم قیمت پر مردہ مرغیوں کا
گوشت بھی فروخت کر رہے ہیں ،مارکیٹ میں موجود ایسی کالی بھیٹریں معصوم لوگوں کی
صحت اور زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔پی ایم اے نے صوبائی حکومتوں سے گزارش کی
ہے کہ وہ اپنے اپنے خوراک کے محکموں کو متحرک کریں کیونکہ اگر عوام بیمارمرغیوں
کا گوشت کھا رہے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہےپی
ایم اے کا کہنا تھا کہ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے کچھ دن پہلے ان رپورٹس کی
تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولٹری فارمرز کو ان وائرل بیماریوں کی وجہ سے مرغیوں
| 26 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کی کثیر تعداد میں اموات کے باعث بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسوسی ایشن
کے مطابق مرغیوں کی شرح اموات اتنی زیادہ ہے کہ بہت سے فارمرز نے اپنا کاروبار بند
کر دیا ہے ،ان رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ مرغیوں میں کس حد تک بیماریاں پھیل چکی
ہیں اور نتیجتا ً مارکیٹ میں غیر صحت مند گوشت فروخت ہو رہا ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106559.html
کیلی فورنیا ( نیو زڈیسک) کیا ٓاپ کبھی یہ سوچ سکتے تھے کہ کورونا ویکسین ٓاپ کو ماال
مال بھی کرسکتی ہے ،جی ہاں ایسا ممکن ہے لیکن وہ خوش نصیب شہری صرف امریکی
ہیں جن کو ویکسی نیشن کرانے پر الکھوں ڈالر انعام میں ملیں گے۔امریکہ میں عالمی وبا
قرار دیے جانے والے کورونا وائرس سے بچأو اور تحفظ کے لیے ویکسین لگوانے والے
شہریوں
کو الکھوں ڈالر انعام دینے کا اعالن کیا گیا ہے۔امریکی ذرائع ابالغ کے مطابق یہ اعالن
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے حکام کی جانب سے کیا گیا ہے جس کی تفصیالت گورنر
نے بیان کی ہیں۔ انعام دینے کے لیے شہریوں کو حکام کی جانب سے ایک ڈیٹ الئن بھی
دی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کیلی فورنیا کے گورنر کا یہ اقدام ویکسی نیشن
| 27 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بڑھانے کے عمل کا حصہ ہے جس کے تحت 15جون سے قبل کورونا ویکسین لگوانے
والے 10افراد میں سے ہر ایک کو 1.5ملین ڈالرز بطور انعام دیے جائیں گے۔امریکی\
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے عالوہ دیگر 30افراد میں سے ہر ایک کو 50ہزار
ڈالرز انعام میں دیے جائیں گے جب کہ پہلے 20الکھ افراد کو 50ڈالرزکےگفٹ کارڈ دیے
جائیں گے۔کیلیفورنیا میں حکام 15جون سے کورونا پابندیاں ختم کرنے کا ارادہ رکھتے
ہیں۔ 15جون سے قبل ویکسین لگوانے والوں کو 116.5ملین ڈالرز کے نقد اور گفٹ کارڈز
دیے جائیں گے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106621.html
السی کے لڈو کے ایسے فوائد جو ٓاپ کو بھی معلوم نہیں ہوں گے ،بس
بتائے گئے طریقے سے استعمال کریں اور بھرپور فائدہ اٹھائیںB
09:11 pm 29/05/2021
قدرت نے پھل ،سبزیوں ،میواجات اور دیگر چیزوں میں بے شمار فوائد پیدا کئے ہیں جن
کو کھانے سے انسان صحت بخش زندگی گزارتا ہے۔ ٓاج ہم ایک اور ضروری غذا کے
بارے میں بات کریں گے جس کے استعمال سے انسان تندرست اور چست زندگی گزار
سکتا ہے ،اس کا نام السی ہے۔ جی ہاں غذائیت سے بھر پور ہونے کی وجہ سے السی کو
بہترین قرار دیا جاتا ہے۔السی کو ہزاروں سے استعمال کیا جارہا ہے ،کیونکہ اس کے بے
شمار فوائد ہیں۔ جنہیں نظر انداز کرنا بیوقوفی ہے ،السی
| 28 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کی تاثیر گرم ہونے کے سبب اس سے بنی موسم سرما کی سوغات السی کی پِنیوں (لڈو) کا
استعمال صحت پر حیران ُکن فوائد مرتب کرتا ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق السی کے بیج
غذائیت اور فوائد سے بھر پور ہوتے ہیں ،السی میں متعدد نسوانی شکایات کا حل بھی
موجود ہے اسی لیے اسے خواتین کے لیے الزمی غذا قرار دیا جاتا ہے ،السی میں زیادہ
تعداد میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے جس کے استعمال سے ٓاپ کی ِجلد صاف ،بال
مضبوط اور لمبے ہوتے ہیں۔السی کا استعمال کھانسی ،نزلہ ،زکام ،بلغم ،جوڑوں کے درد،
سرطان سے بچأو ،موٹاپا ،گردے میں پتھری ،بواسیر،
خواتین کے رحم کی رسولیاں ،دل کے امراض ،تھکن ،سُستی وغیرہ کے لیے معاون ہے۔
جیسا کہ شروعات میں بھی بتایا کہ السی کے بیجوں کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے
تو ٓاپ کو بتائیں کہ السی کے لڈو جنہیں پنیاں بھی کہا جاتا ہے جس کی ترکیب درج ذیل
ہے۔السی کی پنیاں بنانے کے لئے جن اجزاء کی ضرورت پیش ہے ان میں ٓادھا کلو کچی
گندمٓ ،ادھا کلو السی ،گھی تین پأو ( اصلی گھی ہو تو زیادہ اچھا ہے) ،سو گرام گوند ،چینی
تین پأو ،چار مغز سو گرام 100 ،گرام بادام ،پستے 100گرام پستے ،االئچی 10عدد اور
زردے کا رنگ۔٭ السی کے لڈو (پنیاں) بنانے کا طریقہ سب سے پہلے فوند کو فرائ کریں
تاکہ وہ پھول جائے ،پھر کچی گندم اور السی کو الگ الگ ہلکا سا بھون لیں اور خیال کریں
کہ جل نہ پائے،
اب دونوں کو مکس کر کے گرائنڈر میں پیس لیں ،اب اس سفوف کو کڑاہی میں ڈال کر
گھی میں مزید بھونیں ،اب گوند کا چورا کر کے اس میں شامل کر لیں۔اس\ کے بعد چینی کا
شیرا بنا کر اس میں چار مغز ،بادام ،پستے ،االئچی اور زردے کا رنگ (حسب ضرورت)
شامل کرلیں ،اور اچھی طرح سے ہالئیں اور اب اس میں السی گندم اور گوند ڈال کر مکس
کریں۔اچھی طرح سے سب چیزیں مکس ہونے کے بعد یکجان نظر ٓانے پر چولہے سے
اُتار کر ٹھنڈا کریں اور اس کی لڈو کی شکل کی پنیاں بنا کر ایئر ٹائٹ جار میں محفوظ
کرلیں
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106707.html
کیپسول مختلف رنگوں میں کیوں ہوتے Bہیں؟ جانیں ان رنگوں کے
پیچھے چھپے اہم راز
pm 29/05/2021 09:10
دوائی گولیاں ،کیپسولز کھانے کسی کو بھی پسند نہیں ہیں ،ہاں اگر یہ بیوٹی کیپسولز ہوں،
خوبصورتی کو بڑھانے والے ہوں تو سب ہی شوق سے کھاتے ہیں۔ لیکن ان تمام کیپسولز
| 29 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
میں دو چیزیں بالکل یکساں ہوتی ہیں ،ایک تو یہ کہ مختلف رنگوں میں ہوتے ہیں کوئی
الل ،تو کئی نیال ،کوئی ہرا ،تو کوئی گالبی رنگ میں نظر ٓاتا ہے اور دوسری بات جو ان
میں یکساں نظر ٓاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہی کیپسول دو رنگوں میں ہوتا ہے ،ایک سرا
نیال تو دوسرا پیال یا سفید ہوتا ہے ،اس طرح
کے کیپسولز استعمال کرنے کا اتفاق تو ٓاپ کا بھی ہوا ہوگا۔لیکن کبھی سوچا ہے کہ یہ
رنگ برنگے کیپسولز کیوں ہوتے ہیں؟ دراصل اس کی دو وجوہات ہیں جو یہ ہیں:کیپسول
مختلف رنگوں میں ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کون سی بیماری میں کون سے رنگ کا
استعمال جسم کو طاقت دے سکتا ہے ،اس مرض کے لئے وہی رنگ کا استعمال کرتے
ہوئے کیپسول تیار کیئے جاتے ہیں۔ایک ہی کیپسول کے دو مختلف رنگ ہونے کی وجہ یہ
ہے کہ ایک طرف کے حصے میں مرض کے کنٹرول کی دوائی رکھی جاتی ہے اور
دوسری طرف کے حصے میں اس کو بند کرنے کے لئے ایک کوور لگایا جاتا ہے جس
کے اندر ایسے سائیکلک ذرات ہوتے ہیں جو دوائی کو کیپسول کے اندر محفوظ بناتے ہیں
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106703.html
ایسا پھل جسکو کھانے سے پیدا ہونے واال ہر بچہ خوبصورت ہوتا ہے
جان کر حیران ہو جائیں گے
30/05/2021
| 30 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہر انسان کی خواہش ہے کہ وہ خوبصورت ہو اور اس کے ٓانے
والے بچے بھی خوبصورت شکل و صورت کے مالک ہو .خوبصورتی اگرچہ ایک اچھی
صفت ہے لکن اس سے زیادہ خوبصورت اچھے اخالق ہے .لیکن ہمارے ہاں خوبصورتی
سے مراد گورا رنگ مراد لیا جاتا ہے ہر عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ
خوبصورت پیدا ہو ،ہمارے ہاں چونکہ خوبصورتی سے مراد گورا رنگ لیا جاتا ہے>--.
لہذا ایسا بچہ جس کا رنگ گورا ہو وہی خوبصورت سمجھا جاتاہے .مأوں کی شدیدچاہت
ہوتی ہے کہ ان کے بچے کا رنگ صاف اور گورا ہو‘ تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ
ایک پھل ایسا ہے جسے کھانے سے مائیں خوبصورت اور گورے چٹے بچوں کو جنم دے
سکتے ہیں.تحقیق کے مطابق ٓام وہ پھل ہے جسے حمل میں کے دوران کھانے سے پیدا
ہونے والے بچوں کارنگ گورا ہوتاہے .تاہم کسی بیماری میں مبتال خواتین کو ٓام ڈاکٹرز
کے مشورے سے استعمال کرنا چاہئیں .جبکہ بعض محققین کے مطابق خربوزہ یا عرف
عام میں ہندوانہ ایسا پھل ہے جس کے کھانے سے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی
رنگت صاف ہوتی ہے
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106925.html
09:49 pm 30/05/2021
| 31 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
موجودہ عہد میں ایک انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر کیا ہوسکتی ہے؟ اس کا حتمی جواب
تو کوئی نہیں دے سکتا مگر سائنسدانوں کے مطابق ایک فرد 150سال تک زندہ رہ سکتا
ہے۔جریدے نیچر کیمونیکشن میں شائع تحقیق کے مطابق انسان کے لیے ہمیشہ زندہ رہنے
کے مقصد کا حصول ممکن ہی نہیں اور وہ ایک خاص عمر تک ہی زندہ رہ سکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ 150سال ٓاخری حد ہے یعنی اتنے عرصے تک ہی کوئی صحت مند
انسانی جسم خود کو مستحکم رکھ سکتا ہے۔ اس تحقیق
میں ہزاروں افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور ان کے خون کے نمونوں اور روزانہ اٹھانے
جانے والے قدموں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ محققین نے تجزیہ کیا کہ جسم کتنے عرصے
تک مختلف مسائل سے نمٹنے کا اہل ہوتا ہے اور اسی لیے خون کے خلیات کی مقدار اور
روزانہ اٹھانے والے قدم کو دیکھا گیا اور دریافت کیا کہ عمر کے ساتھ ریکوری کا وقت
بڑھنے لگتا ہے۔ سنگاپور کی ایک کمپنی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تمام تر
پیمانوں کی جانچ پڑتال ایک ہی مستقبل کی عکاسی کرتے ہیں ،یعنی ایک فرد 150سال
سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ جیسے جیسے عمر بڑھنے لگتی ہے
ہمارا ڈین این اے اور دیگر مالیکیولز تباہ ہونے لگتے ہیں اور جسمانی مشینری ختم ہونے
لگتی ہے جس کا اختتام موت پر ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ 120سے 150سال کی
عمر میں جسم مختلف طبی مسائل کے خالف مزاحمت کھونے لگتا ہے اور اس سے عندیہ
ملتا ہے کہ یہی انسانی عمر کی حد ہے۔ موجودہ عہد میں سب سے زیادہ عمر پانے والی
شخصیت ایک خاتون جینی کالمیٹ تھیں جو 1997میں 122سال کی عمر میں چل بسی
تھیں۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں عمر کی اس 'حد' میں اضافہ
| 32 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ کسی چیز کے پیمانے کا تعین اس کو بڑھانے کے لیے پہال قدم
ثابت ہوسکتا ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106940.html
صحت اور بیماریوں کا انسان سے پرانا رشتہ ہے ،بیماریاں پہلےقدیم زمانے میں بھی ہوا
کرتی تھیں مگر اُس وقت اُن کی سمجھ بوجھ اور عالج کا شعور نہیں تھآ ،ا ج کل جہاں
سائنس نے بے حد ترقی کر لی ہے وہیں صدیوں سے استعمال کیے جانے واال طریقہ
حجامہ ’ کپنگ تھیراپی‘ ٓاج بھی اپنی اہمیت اور افادیت رکھتا ہے بلکہ اب حجامہ بھی نئی
جدت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
حجامہ صدیوں سے استعمال کیے جانے واال سستا اور اسالمی تعلیمات سے تصدیق شدہ
عالج ہے ،حجامہ ایک ایسا اسالمی طریقہ عالج ہے جس کے ذریعے جسم سے گندا،
مضر صحت خون نکال دیا جاتا ہے اور انسان بہت سی خطرناک بیماریوں سے بچ جاتا
ہے ،یہ عالج اس قدر مفید ہے کہ اب جدید سائنس بھی اس کی افادیت کی ناصرف قائل ہو
| 33 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
گئی ہے بلکہ اب تو مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد اور معروف شخصیات
بھی جسم کو ڈیٹاکس کرنے کے لیے حجامہ کرواتے ہیں۔
حجامہ کیسے کیا جاتا ہے ؟
حجامہ کرنے کے لیے مریض کے جسم کے مختلف حصوں پر گول شکل کے کپ لگا
دیئے جاتے ہیں ،اسی لیے اس طریقہ عالج کو ’کپنگ تھیراپی‘ بھی کہا جاتا ہے ،حجامہ
سے قبل مطلوبہ جسم کے حصے پر زیتون یا کلونجی کا تیل لگا دیا جاتا ہے جس سے جلد
پرسکون رہتی ہے ،بعد ازاں جراثیم سے پاک َکپس میں ویکیوم پیدا کر کے انہیں جلد پر
لگا دیا جاتا ہے۔
ان کپس کو لگانے سے ِجلد ٓاکسیجن نہ ملنے کی صورت میں سوج کر پھول جاتی ہے ،اب
اس سوجی ہوئی جگہ پر بلیڈ کے ذریعے چھوٹے چھوٹے َکٹ لگا دیئے جاتے ہیں ،ان َکٹس
سے جسم پر کوئی تکیلف نہیں ہوتیَ ،کپس دوبارہ جلد پر لگا دیئے جاتے ہیں۔
اس مرحلے میں اب گندا خون جسم سے باہر نکلنے لگتا ہے جسے 10سے 20منٹ بعد
کپس ہٹا کر صاف کر دیا جاتا ہے ،ایسے میں جسم گندے خون سے پاک ہو جاتا ہے اور
انسان موجودہ شکایت سمیت متعدد بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔
حجامہ اسالمی تعلیمات میں تصدیق شدہ
مختلف روایتوں میں ٓاتا ہے کہ حجامہ ایک قدیم ترین اور نبی کریم حضرت
محمدﷺ اور مالئکہ کا تجویز کردہ عمل ہے ،حضرت
محمدﷺ نے حجامہ لگانے کو افضل عمل قرار دیا ہے ،اس قدیم طریقہ
عالج میں جسم کے 143مقامات سے مضر صحت خون نکاال جا سکتا ہے۔
حجامہ اور جدید سائنس
حجامہ کروانے کے نتیجے میں جسم کے اعضاء میں موجود درد میںٓ ارام سے لے کر
صاف ِجلد تک کا عالج ممکن ہے ،جدید سائنس میں حجامہ پر کی جانے والی تحقیق کے
مطابق حجامہ کروانے سے جسم میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے ،جمنے واال فاسد خون
خارج ہو جاتا ہے ،جسم سے زہریال مواد نکل جاتا ہے ،حجامہ کی تعلیمات چین کی قدیم
کتابوں میں بھی ملتی ہیں۔
حجامہ سے کن بیماریوں کا عالج ممکن ہے ؟
حجامہ کروانے سے بلڈ پریشر ،ذہنی دبأو ،جوڑوں ،پٹھوں ،کمر ،ہڈیوں ،سر (درد
شقیقہ) مائیگرین ،یرقان ،دمہ ،ایکنی ،کیل مہاسوں ،قبض ،بواسیر ،فالج ،موٹاپا،
کولیسٹرول ،مرگی ،گنجاپن اور موسمی الرجی سمیت متعدد بیماریوں کا عالج ممکن ہے۔
حجامہ ’کپنگ تھیراپی‘ کرنے والے ماہرین کے مطابق حجامہ کروانے کے نتیجے میں
انسان کا روحانی عالج بھی ممکن ہوتا ہے۔
https://jang.com.pk/news/933274
| 34 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ٓادھے سر کے درد سے خواتین زیادہ متاثر کیوں ہیں؟
مئی 30 2021 ،
کہا جاتا ہے ،انسان عام سر درد کو تو برداشت کر لیتا ہے مگر در ِد شقیقہ بہت شدید اور
خطرناک ثابت ہوتا ہے جو کہ متاثرہ فرد کو شدید کمزوری کا شکار بھی بنا سکتا ہے ،در ِد
شقیقہ کی تا حال نہ کوئی واضح وجہ سامنے ٓا سکی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مٔوثر عالج
ہے۔
مائیگرین یعنی در ِد شقیقہ قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے ،طبی ماہرین کے مطابق
در ِد شقیقہ کا نشانہ زیادہ تر خواتین بنتی ہیں۔
دنیا کے 195ممالک میں در ِد شقیقہ کے حوالے سے کیئے گئے ایک مفصل سروے کے
مطابق یہ بیماری خواتین میں زیادہ عام پائی جاتی ہے ،در ِد شقیقہ کا ہر 15مردوں میں
سے 1اور ہر 5عورتوں میں سے 1عورت شکار ہے۔
مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس بیماری کے زیادہ ہونے کی وجوہات واضح نہیں
ہیں2018 ،ء میں ایریزونا یونیورسٹی میں مادہ اور نر چوہوں پر کی گئی تحقیق میں بتایا
| 35 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
NHE1گیا کہ اس شکایت کی وجہ ایسٹروجن کی سطح اور سوڈیم پروٹون ایکس چینجر
کی نچلی سطح کے مابین تعلق ہو سکتا ہے۔
محققین کے مطابق خواتین در ِد شقیقہ کا زیادہ شکار اس لیے بھی ہوتی ہیں کیوں کہ اِن
میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ NHE1 میں جنسی ہارمونز کا بڑے پیمانے پر اتار چڑھأو
ویں صدی کے ماہرین کا در ِد شقیقہ سے متعلق کہنا تھا کہ اس کا تعلق غریب طبقے 19
کی مأوں سے ہوتا ہے جن کے ذہن روز مرّہ کے کام ،کم نیند ،بار بار دودھ پالنے اور
غذائی قلت کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔
ویں صدی میں اس حوالے سے ایک نیا نظریہ سامنے ٓایا جس کے مطابق در ِد شقیقہ کو 20
جدید لگژری کا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے ،یعنی ایسی چیز جو اونچے طبقے کے مرد و
خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ویں صدی کے دوران اونچے طبقے کے ماحول میں پلنے والوں کے بارے میں تصور 20
کیا جاتا ہے کہ وہ نازک اعصاب کے مالک ہوتے ہیں ،خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے
کہ وہ دانشمندانہ کام کرنے کی صالحیت کم رکھتی ہیں ،جس کے نتیجے میں ان کا نازک
اعصابی نظام فوراً شدید دبأو کا شکار ہو جاتا ہے۔
در ِد شقیقہ اور دور جدید
در ِد شقیقہ پر کی جانے والی حالیہ تحقیق کے مطابق سر درد کی تکلیف اور ذہنی امراض
کے درمیان ایک تعلق ہے ،ایک نئی تحقیق کے مطابق در ِد شقیقہ درحقیقت مختلف نفسیاتی
عوارض کے باعث ہوتا ہے۔
ء میں کی جانے والی ایک تحقیق میں در ِد شقیقہ اور ’بائی پولر ِڈس ٓارڈر‘ کے2016
درمیان مثبت تعلق پایا گیا تھا جبکہ در ِد شقیقہ سے متاثرہ لوگوں کے’جنرل انزائٹی ڈس
ٓارڈر‘ سے متاثر ہونے کا خطرہ 2.5گنا زیادہ تھا جبکہ ڈپریشن کے شکار افراد میں در ِد
شقیقہ کا امکان 3گنا زائد تھا۔
ایک اور تحقیق کے مطابق در ِد شقیقہ سے متاثرہ ہر 6میں سے ایک فرد نے زندگی کے
کسی نہ کسی موقع پر خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا
یونیورسٹی ٓاف ٹورنٹو کے انسٹیٹیوٹ فار الئف کورس اینڈ ایجنگ کے ڈائریکٹر ایسمے فُلر
تھامسن جو خود بھی در ِد شقیقہ کے خودکشی سے تعلق پر تحقیق کر چکے ہیں ،اُن کا کہنا
ہے کہ ’جب کسی شخص کو معلوم نہ ہو کہ در ِد شقیقہ کا حملہ کب ہو جائے گا اور یہ
مالزمت اور خاندانی ذمے داریوں کو کیسے متاثر کرے گا ،تو یہ بات حیران کن نہیں کہ
اس کے باعث زیادہ ذہنی دبأو ہو سکتا ہے‘۔
در ِد شقیقہ کا عالج کیا ہے؟
در ِد شقیقہ ایک عام مرض ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹروں کو اس سے متعلق
عالج یا مریض کو اس سے نجات دالنے کی ٹپس معلوم ہوں مگر ایسا نہیں ہے ،سائنسی
شعبے میں در ِد شقیقہ کا تاحال کوئی مٔوثر عالج سامنے نہیں آ سکا ہے
امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے مئی 2018ء میں ایک ایسی دوا کی منظوری دی
تھی جو سی جی ٓار پی ریسیپٹر پر اثر انداز ہونے کی صالحیت کی حامل تھی۔
| 36 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دماغ کے ریسیپٹر یعنی حس سے متعلق خلیے در ِد شقیقہ کے اٹیک کی وجہ بنتے ہیں اور
یہ مجوزہ دوائی ان خلیوں کو بالک کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
فی الحال لوگ در ِد شقیقہ کے لیے درد سے بچأو کے لیے ادویات (پین کلر) ،انجائنا اور
ہائی بلڈ پریشر کی ادویات استعمال کر رہے ہیں۔
https://jang.com.pk/news/934337
الہور( :دنیا نیوز) سگریٹ نوشی منشیات میں سب سے سستآ ،اسانی سے دستیاب ہونیواال
نشہ ہے۔ سب سے بڑی بات اسے قابل سزا نشہ نہیں سمجھا جاتا جیسے شراب ،افیون،
ہیروئن ،چرس ،وغیرہ کی قانونی طور پر ممانت ہے۔
سگریٹ پینا قانونا ً جرم نہیں ہے۔ وزارت صحت کی صرف اتنی سی ذمہ داری ہے کہ وہ
ہر سگریٹ کی ڈبی پر یہ تحریر کروا دیتی ہے ’’ تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘‘ اس کا
انجام منہ کا کینسر ہے اس کے بعد وزارت صحت کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال 31مئی کو انسدا ِد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ
کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے زیر اہتمام اس دن کو منانے کیلئے تمباکو نوشی
کی تمام اقسام سے 24گھنٹے کیلئے عالمتی طور پر اجتناب کیا جاتاہے ۔اس دن کے منانے
کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو یہ پیغام دینا کہ سگریٹ نوشی انسانی صحت کیلئے
نقصان دہ ہے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
| 37 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو کا استعمال کرنے والے افراد کی
مجموعی تعداد 1ارب سے زائد ہے ۔یعنی ہر پانچواں فرد سگریٹ نوش ہے ۔ایک اندازے
کے مطابق ساالنہ تقریبا ً 60الکھ افراد اس شوق کی نذر ہو جاتے ہیں۔ 2کروڑ افراد ساالنہ
20ارب روپے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔پاکستان میں ہر تیسرا شخص سگریٹ نوشی کی
لت میں مبتال ہے ،ہمارے ملک میں ایسے بھی ہیں ،جن کے پاس تین وقت کا کھانا کھانے
کی اسطاعت نہیں ہوتی،لیکن وہ سگریٹ ضرور پیتے ہیں ،ایک رپورٹ کے مطابق
پاکستان کی 16فیصد خواتین تمباکو نوشی کی لت میں مبتال ہو چکی ہیں۔سگر یٹ نوشی
انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے ہر 8سکینڈ میں ایک شخص کی موت کا سبب بن
رہی ہے۔
تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ 9فیصد سرطان کی وجہ تمباکو نوشی ہے۔ سگریٹ نوشی
کے بے شمار نقصانات ہیں ،جن سے سگریٹ پینے والے بھی ٓاگاہ ہیں ۔مثالَبھوک کا گھٹنا،
تھکاوٹ کا بڑھنا،دماغی صالحیتوں کا منشر ہونا،سانس ٓالودہ ہونا،چہرہ پھیکا ،دانت و
ہونٹ کاسیاہ ہوجانا ۔ڈپریشن،السر،جگر ،پھیپھٹرے ،گلے اور جبڑے کا کینسر،دل کے
دورے ،بلڈپریشر جیسی بیماریوں اورتنگ دستی ،بے روزگاری اور افالس و محتاجی
،سماجی و معاشرتی انتشار و بد نظمی ،وغیرہ سگریٹ نوشی قوت ارادی کو ختم کر دیتی
ہے۔
ہم سگریٹ کے عادی کیوں ہو جاتے ہیں۔ بڑی وجہ تجسس ہے ،پھر فلمی ستاروں اور
اشتہارات کے دلفریب نظارے،بہت سی غلط فہمیاں مثالً غم کو بھالنے کیلئے وہ غم جاناں
ہو یا غم جہاں سگریٹ پینا شروع کی جاتی ہے ۔بیشتر سگریٹ نوش اسے تنأو میں کمی
کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
سگریٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔ دراصل ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔
اگر ہم فیصلہ کر لیں تو ترک سگریٹ نوشی مشکل نہیں ہے۔زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں
جو سگریٹ نہیں پیتے۔
جب سگریٹ کی طلب ہو تو خود سے عہد کریں میں قوت ارادی کا مضبوط ہوں ،میرا
فیصلہ ہے میں سگریٹ نہیں پیوں گا ۔اس کے ساتھ خود ترغیبی کے ذریعے خود کو ہی
سگریٹ کے خالف لیکچر دیں۔مراقبہ ،یوگا اور پابندی سے ورزش کرنے سے سگریٹ
نوشی سے نجات مل جاتی ہے کیونکہ نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی ٓاجاتی ہے جب
ورزش کی جا رہی ہوتی ہے ۔لیکن سب سے اہم ٓاپ کی قوت ارادی ہی ہے ٓ،اٹو سجیشن ہی
ہے ،خود کو سمجھانا ترغیب دینا ،اپنی صحت کے لیے ہے ۔خاندان کے لیے۔بچوں کے
لیے ۔ٓاپ نے خود فیصلہ کرنا ہے اور اس پر ڈٹ جانا ہے ۔
رمضان المبارک میں افطاری کے فوری بعد سگریٹ نوشی کرنے سے امراض قلب کے
خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔افطار ی کے فوری بعد جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں انہیں
جسمانی جھٹکوں اور ہاتھ اور پاؤں میں کپکپاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے عالوہ
چکر بھی ٓاتے ہیں۔ اس لیے کہ طویل وقفے کے بعد سگریٹ پینے سے جسم کا تمام
مدافعتی نظام درہم برہم ہوتا ہے ،جب کہ تھوڑے وقفے سے سگریٹ پینے پر ایسا نہیں
| 38 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہوتا ،رمضان کے مہینے سے فائدہ اٹھا کر سگریٹ نوشی ترک کرنے کا ٓاغاز کیا جانا
چاہیے اور روزے کے طویل اوقات کے دوران جسم کے تمباکو کے عدم استعمال کی
عادت سے مستفید ہونا چاہیے۔
ایک تحقیق کے مطابق مراقبے کی مشق سے تمباکو نوشی کے عادی افراد کیلئے اس لت
سے چھٹکارا پانا ٓاسان ہوجاتا ہے۔ چاہے ٓاپ اسے چھوڑنے کی کوشش نہ بھی کر رہے ہو۔
جو افراد ٓاغاز پر سگریٹ نوشی سے گریز کرنے کی کوشش شروع کرتے ہیں ان کی
کامیابی کا کافی زیادہ امکان ہوتا ہے۔نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی ٓاجاتی ہے جب
ورزش کی جا رہی ہوتی ہے کیونکہ جسمانی مشقت کے دوران دماغ سیروٹینین اور
ڈوپامائن جیسے کیمیکل خارج کرتا ہے جو خوشی اور راحت کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔
سگریٹ کی کشش اس وقت دم توڑ جاتی ہے جب ہمارا دماغ اس کا تعلق بدبو سے جوڑ دیتا
ہے ،ایک اور حالیہ تحقیق کے مطابق دماغ کے روئیے میں یہ تبدیلی اس وقت ٓاتی ہے جب
ہم سو رہے ہوتے ہیں۔
پھلوں اور سبزیوں کا استعمال تمباکو نوش افراد کو سگریٹ سے پاک طرز زندگی بسر
کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ 12ہفتے تک ویٹ لفٹنگ کے پروگرام کا حصہ
بنتے ہیں ان کے تمباکو نوشی چھوڑنے کے امکانات دوگنا زیادہ ہوتے ہیں خاص طور پر
ان افراد کے مقابلے میں جو ڈمبلز سے دور بھاگتے ہیں۔کئی بار جب ٓاپ سگریٹ خریدنے
باہر نکلیں تو اپنے کسی پالتو جانور کو بھی ساتھ لے لیں ،ایک محقق کے مطابق تمباکو
نوشی سے ٓاپ اپنے ان بے زبان ساتھیوں کی زندگیوں کو بھی خطرے کا شکار بنا دیتے
ہیں اور ان سے محبت کرنے والے ان کا خیال رکھتے ہوئے تمباکو نوشی ترک کرنے کے
عزم پر عملدرٓامد کرنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔پُرجوش سرگرمیوں کا حصہ بننا بھی
دماغ کے سکون کا باعث بنتا ہے جیسے نکوٹین ،کسی نئے مشغلے کو اپنانے سے
سگریٹ کی خواہش میں کمی ٓاتی ہے اس لت سے چھڑانے کی سوچ جلد دم توڑ جاتی ہے
لہٰ ذا اس کیلئے مختلف اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔
تحریر :اختر سردار چودھری
https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/603897
ویب ڈیسک
مئ 29 2021
| 39 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دنیا کو کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ موٹاپے کی وبا کا بھی سامنا ہے جس کے
اثرات اتنے ڈرامائی تو نہیں لیکن یہ وبا بھی روزانہ ہزاروں افراد کی ہالکت اور معذوری
کا سبب بن رہی ہے۔
کورونا وائرس اور موٹاپے کی وباؤں کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ متعدی مرض
چند دنوں یا ہفتوں میں انسان کی جان لے لیتا ہے جبکہ موٹاپا کسی بھی انسان کو آہستہ
آہستہ ناقابل عالج بیماریوں میں مبتال کرکے معذور اور موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
موٹاپے کی وبا پر قابو پانے کے لیے مصنوعی میٹھے مشروبات اور فاسٹ فوڈ کو عوام
کی رسائی سے دور رکھنے کے اقدامات کرنے پڑیں گے ،کورونا وائرس کی وبا کے
باعث بچوں میں موٹاپے کی شرح دگنی ہونے کا خدشہ ہے۔
ان خیاالت کا اظہار پاکستانی اور بین االقوامی ماہرین امراض پیٹ وجگر نے ورلڈ
ڈائیجسٹو ہیلتھ ڈے 2021کے موقع پر آن الئن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کے زیرتحت ہونے والے آن الئن سیمینار سے
بھارتی پروفیسر اجے ڈوسیجا ،سعودی عرب سے ڈاکٹر ماجدہ بخاری ،بنگلہ دیش سے
لبنی کامانی،
پروفیسر مامون المحتاب ،پی جی ایل ڈی ایس کی صدر پروفیسر ڈاکٹر ٰ
سوسائٹی کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد ،جناح اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر نازش بٹ،
آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر اسما احمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
بھارتی ماہر امراض پیٹ وجگر پروفیسر اجے ڈوسیجا کا کہنا تھا کہ اگرچہ کورونا وائرس
کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے بچاؤ ممکن ہے لیکن اس کے باوجود یہ ناقابل یقین
رفتار سے پھیل رہا ہے۔
| 40 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ موٹاپے کے متعلق سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ موٹاپے سے بچا جاسکتا
ہے ،موٹاپے سے بچاؤ نہ صرف صحت مند طرز زندگی اختیار کرکے ممکن ہے بلکہ اب
ادویات اور سرجری کے ذریعے بھی اس بیماری پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ موٹاپا ذیابطیس اور بلڈ پریشر کے مرض کا سبب بنتا ہے
لیکن اب ایسے ثبوت موجود ہیں کہ موٹاپا ختم کرکے ان دونوں بیماریوں سمیت کئی
خطرناک بیماریوں سے نجات بھی ممکن ہے۔
پی جی آئی ڈی ایس کی صدر اور لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر
لبنی کمانی نے کہا کہ ورلڈ گیسٹرواینٹرولوجی\ آورگنائزیشن اور عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر ٰ
کے مطابق دنیا کو اس وقت دو عالمی وباؤں کا سامنا ہے ،جس میں کورونا کی وبا پر تو
شاید جلد ہی قابو پالیا جائے لیکن موٹاپے کی وبا کے متعلق نہ لوگوں میں اتنا شعور ہے
اور نہ ہی اس کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان ہے۔
لبنی کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر تیسرا فرد کا جسمانی وزن زیادہ ہے
پروفیسر ٰ
جبکہ 25فیصد افراد موٹاپے کی بیماری کا باقاعدہ شکار بن چکے ہیں ،پاکستان میں
اسکول جانے والے 20فیصد بچے موٹاپے کا شکار ہیں اور کورونا کی وبا کے باعث اس
شرح کے دگنے ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ موٹاپا نہ صرف ذیابطیس ،ہائی بلڈ پریشر ،دل کے دوروں ،فالج
بلکہ جگر کے ناکارہ ہونے کا سبب بھی بن رہا ہے بلکہ موٹاپے کے شکار افراد کی قوت
مدافعت کم ہونے کے باعث وہ کورونا اور دیگر متعدی امراض میں بھی مبتال ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کے متعلق آگاہی پھیالئی جائے
اور عوام کو مصنوعی میٹھے مشروبات سمیت دیگر نقصان پہنچانے والی غذائی اشیاء
سے دور رکھنے کے اقدامات کئے جائیں۔
پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے
شہروں میں کھیلوں اور ورزش کی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں جبکہ جنک فوڈ اور
کولڈڈرنکس کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے موٹاپے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو
چکا ہے ،الک ڈاون جیسے اقدامات کی طرز پر موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بھی الک
ڈاؤن لگانا ضروری ہو چکا ہے۔ویبینار کی موڈریٹر اور جناح اسپتال کراچی سے وابستہ
ماہر صحت ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ ورلڈ گیسٹرو انٹرالوجی اورگنائزیشن ہر سال 29
مئی کو ورلڈ ڈائجسٹو ہیلتھ ڈے بناتی ہے جس کا مقصد عوام میں پیٹ کی بیماریوں کا سبب
بننے والے عوامل کو اجاگر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال اس عالمی دن کی تھیم موٹاپے کی عالمی وبا کے حوالے سے
ہے ،میڈیا سے گزارش ہے کہ موٹاپے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے
متعلق شعور پیدا کیا جائے ،اسالم بھی موٹاپے کو کم کرنے کی ہدایت کرتا ہے ،ورزش
کرنا اور خود کو جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھنا عین اسالمی اور عبادت کے مترادف
ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1160919/
| 41 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
مئ 29 2021
کووڈ 19کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونے والے ہر 10میں سے 7افراد کو
صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے
والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19سے ہسپتال میں داخل
ہونے والے 70فیصد سے زیادہ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر بیماری کے اثرات کا
سامنا ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وبا کے آغاز میں کورونا وائرس سے بیمار ہونے پر طویل المعیاد
نتائج کو مکمل نظرانداز کیا گیا ،مگر اب معلوم ہورہا ہے کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔
| 42 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس کے تعین کے لیے محققین نے جنوری 2020سے مارچ 2021تک شائع ہونے والی
45تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔
ان تحقیقی رپورٹس میں 10ہزار کے قریب کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا ،جن
میں سے 83فیصد ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 72.5فیصد مریضوں کو 84میں سے کم از کم کسی ایک
عالمت کا سامنا ہے۔
ان میں سب سے عام تھکاوٹ تھی جس کا سامنا 40فیصد مریضوں کو تھا 36 ،فیصد کو
سانس لینے میں مشکالت 29 ،فیصد کو نیند کے مسائل 25 ،فیصد کو توجہ مرکوز کرنے،
20فیصد کو ڈپریشن اور ذہنی بے چینی اور 20فیصد کو ہی عام تکلیف اور عدم اطمینان
جیسی عالمات کا سامنا ہوا۔
مریضوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے دیگر مسائل میں سونگھنے اور چکھنے کی
حسوں سے محرومی ،یادداشت سے محرومی ،سینے میں تکلیف اور بخار قابل ذکر تھے۔
تحقیق میں صحتیابی کے کم از کم 60دن بعد بھی عالمات برقرار رہنے کو طویل المعیاد
عالمات کا تسلسل قرار دیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر مریضوں کو طبی نگہداشت کی ضرورت پڑی اور
یہ صحت کے نظام کے لیے ایک بڑا وجھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 70فیصد معتدل سے سنگین حد تک کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد
کو عالمات کے تسلسل کا سامنا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑا نمبر ہے ،درحقیقت یہ چونکا دینے
واال ہے کہ کتنی زیادہ عالمات کا سامنا مریضوں کو ہوتا ہے جس کے لیے النگ کووڈ کی
اصطالح استعمال کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے یہ تحیق اس لیے کی کیونکہ متعدد خبروں اور سائنسی
مضامین میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کے بارے میں بات کی گئی ،مگر بہت کم میں
اس کے بارے میں گہرائی میں جاکر سانسی شواہد اکٹھے کیے گئے کہ یہ عالمات کتنے
عرصے تک برقرار رہتی ہیں اور کون اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اعدادوشمار شاک کردینے والے ہیں بالخصوص تھکاوٹ اور سانس کے
مسائل کا سامنا کرنے والے افرد کی تعداد ،یہ بہت تکلیف دہ عالمات ہوتی ہیں جبکہ کچھ
افراد نے سیڑھیاں چڑھنے میں مشکالت کو بھی رپورٹ کیا۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل اپریل 2021میں النگ کووڈ کے حوالے سے واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف
میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19کو شکست دینے والے بشمول ایسے
مریض جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی ،میں وائرس کی تشخیص کے 6ماہ بعد
موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں کووڈ 19کے 87ہزار سے زائد مریضوں اور لگ بھگ 50الکھ دیگر
مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
| 43 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طبی جریدے جرنل نیچر میں 22اپریل کو شائع ہونے والی تحقیق میں شامل محققین کا کہنا
تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ کی تشخیص کے 6ماہ بعد موت کا خطرہ موجود
ہے ،چاہے مریض میں بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔
محققین نے بتایا کہ یہ تحقیق النگ کووڈ پر ہونے والی دیگر تحقیقی رپورٹس سے مختلف
ہے کیونکہ اس میں اعصابی یا دیگر پیچیدگیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کووڈ 19
سے متعلق تمام بیماریوں کی جامع فہرست مرتب کرنے پر کام کیا گیا۔
تحقیق میں ثابت ہوا کہ کووڈ 19کو شکست دینے کے بعد (بیماری کے اولین 30دن کے
بعد) مریضوں میں اگلے 6ماہ میں موت کا خطرہ عام آبادی کے مقابلے میں لگ بھگ 60
فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ صحتیابی کے 6ماہ بعد کووڈ کو شکست دینے والے ہر ایک ہزار
مریضوں میں سے اوسطا ً 8افراد ہالک ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق کووڈ 19کے ایسے مریض جن کو ہسپتال میں زیرعالج رہنا پڑا ،ان میں
ہر ایک ہزار میں سے 29اضافی اموات کا امکان ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ بیماری کی طویل المعیاد پیچیدگیوں سے ہونے والی اموات ضروری
نہیں کہ کووڈ 19سے ہونے والی ہالکتوں میں ریکارڈ کی جائیں ،کیونکہ اس وقت بیماری
کے کچھ دنوں بعد ہونے والی ہالکتوں کو ہی اموات کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
محققین نے امریکا کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جس میں 73ہزار
سے زیادہ افراد میں کووڈ 19کی تشخیص ہوئی تھی مگر انہیں ہسپتال میں زیرعالج نہیں
رہنا پڑا تھا جبکہ اس کا موازنہ لگ بھگ 50الکھ افراد سے کیا گیا جن میں کووڈ کی
تشخیص نہیں ہوئی تھی۔
بعد ازاں کووڈ 19سے بہت زیادہ بیمار رہنے والے افراد پر طویل المعیاد اثرات کو جاننے
کے لیے مزید 13ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کا موازنہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد کے
فلو سے بیمار ہوکر ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد سے کیا گیا۔
یہ سب مریض ہسپتال میں داخلے کے کم از کم 30دن بعد بیماری کو شکست دینے میں
کامیاب ہوئے تھے اور پھر ان کے 6ماہ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے تصدیق کی کہ النگ کووڈ کے نتیجے میں جسمانی اعضا کا لگ بھگ ہر نظام
متاثر ہوتا ہے جن میں نظام تنفس کے مسائل بشمول مسلسل کھانسی ،سانس لینے میں
مشکالت اور خون میں آکسیجن ،نروس سسٹم کے مسائل بشمول فالج ،سردرد ،یادداشت کے
مسائل اور چکھنے یا سونگھنے کے مسائل ،دماغی صحت کے مسائل بشمول ذہنی بے
چینی ،ڈپریشن ،نیند کے مسائل ،میٹابولزم کے مسائل بشمول ذیابیطس کی تشخیص ،موٹاپا
اور ہائی کولیسٹرول ،دل کے مسائل بشمول ہارٹ فیلیئر ،دھڑکن میں بے ترتیبی اور دیگر،
نظام ہاضمہ کے مسائل بشمول قبض ،ہیضہ اور سینے میں جلن ،گردوں کے مسائل،
ٹانگوں اور پھیپھڑوں میں بلڈ کالٹس ،جلد پر خارش ،بالوں سے محرومی ،جوڑوں میں درد
مسلز کی کمزوری ،خسرہ ،تھکاوٹ اور خون کی کمی قابل ذکر ہیں۔
| 44 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویسے تو کسی مریض کو بھی ان تمام مسائل کا ایک ساتھ سامنا نہیں ہوا مگر بیشتر میں
متعدد مسائل ضرور دریافت ہوئے جس سے صحت اور زندگی کا معیار منفی انداز سے
متاثر ہوا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد میں پیچیدگیوں کا
خطرہ فلو کے مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ موت کا امکان 50فیصد
تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت جتنی زیادہ ہوگی ان کو الحق طبی
خطرات کی شدت بھی اتنی زیادہ ہی ہوگی
https://www.dawnnews.tv/news/1160923/
ویب ڈیسک
مئ 29 2021
چین میں ہر 10الکھ کووڈ ویکسینز کی خوراکوں پر مضر اثرات کے محض —119
کیسز سامنے آئے ہیں۔
درحقیقت یہ شرح مغربی ویکسینز کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو 0.01فیصد ہے۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز پریونٹیشن اینڈ کنٹرول کی جانب سے جاری بیان کے مطابق
دسمبر کے وسط سے ساڑھے 4ماہ کے دوران کووڈ ویکسینز کی 26کروڑ 50الکھ
خوراکیں استعمال کی گئی ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ 31ہزار سے زیادہ مضر اثرات کے کیسز میں صرف 17فیصد اثرات
سنگین تھے جبکہ معتدل اثرات میں بخار اور انجیکشن کے مقام پر سوجن قابل ذکر ہیں۔
اس ڈیٹا میں پہلی بار چینی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسینزز کے مضر اثرات کے بارے
میں بتایا گیا ہے تاہم زیادہ تفصیالت ظاہر نہیں کی گئیں۔
ڈیٹا میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان مضر اثرات کو کیسے ٹریک ،رپورٹ اور ان کی جانچ
پڑتال کی گئی ،کیا لوگوں نے ان کو خود رپورٹ کیا یا یہ ڈیٹا طبی عملے سے اکٹھا کیا
گیا۔
اس کے مقابلے میں برطانیہ نے ویکسینیشن کے عمل سے گزرنے والے ہر 10میں سے
ایک سے زیادہ فرد میں مضر اثرات جیسے تھکاوٹ ،سردرد ،متلی اور بخار کو رپورٹ
کیا۔
برطانیہ یں فائزر /بائیو این ٹیک ،موڈرنا اور ایسٹرازینیکا ویکسینز کا استعمال ہورہا ہے۔
| 45 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویکسینیشن کے سنگین اثرات میں اعضا کو نقصان پہنچنا اور سنگین الرجی ری ایکشن
قابل ذکر ہیں۔
چین کے طبی ادارے کی جانب سے ایک الگ بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین سے مضر
اثرات کا سامنا کرنے والے افراد میں سے صرف 188میں سنگین اثر دیکھنے میں آیا۔
بیان کے مطابق کووڈ 19ویکسینز کے استعمال سے ہونے والے عام اور غیر معمولی
مضر اثرات کی شرح چین میں 2019میں کی جانے والی دیگر ویکسینیشن کے مقابلے
میں کم تھی۔
چین میں اس وقت 5ویکسینز کا استعمال ہورہا ہے جن میں سے 2سائنوفارم اور ایک
سینوویک کی تیار کردہ ہے۔
یہ ڈیٹا دسمبر 2020کے وسط سے اپریل 2021کے آخر تک تھا ،تاہم اس میں یہ واضح
نہیں کیا گیا کہ کس ویکسین سے کن مضر اثرات کا سامنا ہو۔
https://www.dawnnews.tv/news/1160928/
ویب ڈیسک
مئ 29 2021
| 46 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
—
جن افراد کو اکثر ڈپریشن کی عالمات کا سامنا ہوتا ہے ان میں بعد کی زندگی میں گردوں
کے مسائل کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ڈپریشن ایک عام مسئلہ ہے جس کا سامنا متعدد افراد کو ہوتا ہے اور یہ متعدد ذہنی و
جسمانی امراض کا باعث بن سکتا ہے۔
ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں ڈپریشن کی عالمات اور گردوں کے امراض کے شکار
افراد میں گردوں کے افعال میں تیزی سے کمی کو دریافت کیا تھا۔
تاہم اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ ڈپریشن کسی فرد کے گردوں کے صحت مند افعال پر کس
حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔
چین کی سدرن میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4ہزار 700سے زیادہ ایسے افراد
کو شامل کیا گیا تھا جن کے گردے صحت مند تھے
تحقیق کے آغاز میں ان رضاکاروں میں سے 39فیصد میں ڈپریشن کی شدید عالمات
موجود تھیں اور ان کا جائزہ 4سال تک لیا گیا۔اس عرصے میں 6فیصد کے گردوں کے
افعال میں بہت تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔
محققین کے مطابق تحقیق کے آغاز میں ڈپریشن کی عالمات اور آنے والے برسوں میں
گردوں کے افعال میں تیزی سے آنے والی کمی کے درمیان نمایاں تعلق موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اکثر ڈپریشن کی عالمات کا سامنا کرنے والے افراد میں گردوں کے
افعال میں کمی کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 1.4گنا زیادہ ہوتا ہے۔
| 47 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
گردوں کے دائمی امراض دل کی شریانوں سے جڑی بیماریوں ،گردے فیل ہونے اور
اموات کا خطرہ بڑھانے واال اہم عنصر ثابت ہوتے ہیں ،تو ان امراض کا خطرہ بڑھانے
والے عوامل کی شناخت سے متعدد پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
محققین نے کہا کہ اگر نتائج کی مزید تصدیق ہوئی تو ہمارے ڈیٹا سے کچھ شواہد مل
سککیں گے کہ کس طرح ڈپریشن کی عالمات کی اسکریننگ سے گردوں کے امراض کی
روک تھام ہوسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جلد جریدے سی جے اے ایس این میں شائع ہوں گے
https://www.dawnnews.tv/news/1160934/
کچھ غذاؤں\ کا ذائقہ تلخ محسوس ہونا کووڈ سے کچھ تحفظ فراہم کرتا
ہے؟
ویب ڈیسک
مئ 30 2021
اگر آپ سے مختلف غذاؤں کا ذائقہ برداشت نہیں ہوتا تو آپ ممکنہ طور پر 'سپر ٹیسٹر' —
ٰ
دعوی امریکا میں ہونے ہیں اور اس سے کووڈ 19سے کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔یہ
والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس
ہوتے ہیں۔
| 48 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ 19سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا
ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ 1کی عالمات اوسطا ً
محض 5دن تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطا ً 23دن تک موجود رہ سکتی
ہیں۔
تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ 19کے
خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی 2آر 38زبان کے ذائقہ کا
احساس دالنے والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک آکسائیڈ
بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان
کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔
یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کورونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دالنے والے
ریسیپٹرز سے کووڈ 19و باالئی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا
جائزہ لیا گیا ہے۔
اس تحقیق میں 2ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی
آزمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔
ان لوگوں کو 3گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا ،ایک نان ٹیسٹرز ،دوسرا سپر ٹیسٹرز اور
تیسرا ٹیسٹرز۔
نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کرپاتے،
سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی
اسے شناخت کرلیتے ہیں ،جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔
تحقیق کے دوران 266افراد میں کووڈ 19کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد
زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ 19کی عالمات کی شدت معمولی سے
معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔
دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ نئے نتائج قابل فہم ہیں ،اگر آپ غذا میں تلخی کو محسوس
نہیں کرسکتے ،تو آپ کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور خود کو کووڈ سے بچانے کے
لیے فیس ماسکس پہننے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آسان الفاظ میں اگر کچھ غذاؤں جیسے سالد پتہ یا سبز پتوں والی سبزیوں
کا ذائقہ تلخ لگتا ہے تو آپ سپر ٹیسٹر ہیں اور اگر نہیں تو زیادہ احتیاط کریں
https://www.dawnnews.tv/news/1160937/
| 49 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
مئ 30 2021
کورونا وائرس کی ایک 'بہت زیادہ خطرناک' قسم کو ویتنام میں دریافت کیا گیا ہے جو—
بھارت اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کا امتزاج ہے۔
یہ بات ویتنام کے وزیر صحت نگیوین ٹہانا نے 29مئی کو ایک اجالس میں بتائی۔
انہوں نے بتایا کہ سائنسدانوں نے کورونا وائرس سے حال ہی میں متاثر ہونے والے
مریضوں کے جینیاتی سیکونسنگ کے دوران اس نئی قسم کو دریافت کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی نظر آتی ہے اور دیگر اقسام کے
مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا 'ویتنام نے کووڈ 19کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں بھارت اور
برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کی میوٹیشنز کا امتزاج موجود ہے'۔
ویتنام کے وزیر صحت نے بتایا 'بنیادی طور پر یہ بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ہے
جس میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں دیکھنے
میں آئی ،اس وجہ سے یہ نئی قسم بہت خطرناک ہے'۔
| 50 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لیبارٹری میں ہونے والی تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ نئی قسم بہت تیزی سے اپنی نقول
بنانے کی صالحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ویت نام میں حال ہی میں اچانک
کووڈ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ کیوں ہوا ہے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس میں معمولی جینیاتی تبدیلیاں عام ہیں جس کے نتیجے میں نئی
اقسام سامنے آتی ہیں۔
تاہم اب تک عاللمی ادارہ صحت نے بی ( 117سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی
تھی) ،بی ( 1617بھارت میں دریافت ہوئی) سمیت جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت
ہونے والی اقسام کو عالمی سطح پر تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ برطانیہ اور بھارت میں دریافت ہونے والی دیگر کے
مقابلے میں 50فیصد زیادہ متعدی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی کووڈ 19ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ وان کرکوف ہم نے ابھی تک
ویت نام میں دریافت ہونے والی نئی قسم کا تجزیہ نہیں کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا 'ہمیں مزید اقسام سامنے آنے کی توقع ہے کیونکہ وائرس کے پھیالؤ سے
وہ ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سیکونسنگ کی
گنجائش کو بڑھایا جارہا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ وائرس کی ہر نئی قسم کے بارے میں سب سے پہلے عالمی ادارے
کو تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ویت نام میں ہمارا عملہ وزارت صحت کے ساتھ کام کررہا ہے اور ہمیں
جلد مزید تفصیالت ملنے کی توقع ہے ،جس کے بعد ہی ہم اس کے بارے میں کچھ کہہ
سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نئی قسم بی 16172میں ہوسکتا ہے کہ ایک اضافی میوٹیشن ہو ،تاہم
اس بارے میں معلومات سامنے آنے پر ہم جاری کریں گے۔
ویت نام میں کورونا کی وبا کے آغاز سے اب تک 6398کیسز اور 47اموات ریکارڈ
ہوئی ہیں ،تاہم حالیہ چند ہفتوں میں ساڑھے 3ہزار سے زیادہ کیسز اور 35اموات رپورٹ
ہوئی ہیں
https://www.dawnnews.tv/news/1160983/
| 51 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ایسا نظر آتا ہے کہ نئے کورونا وائرس سے جسم کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں۔
کووڈ 19کا باعث بننے واال یہ وائرس پھیپھڑوں کے افعال کو جان لیوا حد تک متاثر
کرسکتا ہے ،دل کے نظام پر اثرات مرتب کرتا ہے ،دماغ ،معدے اور گردے سمیت ہر
جگہ تباہی مچاسکتا ہے۔
مگر اب ایسے شواہد میں اضافہ ہورہا ہے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس مردوں
کے تولیدی نظام کو بھی نقصان پہنچاسکتا ہے۔
جسم پر کووڈ سے مرتب ہونے والے طویل العمیاد اثرات کو جاننے کے لیے طبی ماہرین
کی جانب سے مسلسل کام کیا جارہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ اس وائرس اور ایریکٹائل ڈسفنکشن (ای
ڈی) یا ایستادگی کی صالحیت سے محرومی کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔
اسی طرح یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ یہ وائرس مردوں کے اسپرمز کے نظام کو کس حد
تک متاثر کرسکتا ہے
کووڈ اور اسپرمز کا تعلق
اس حوالے سے نومبر 2020میں یونیورسٹی آف میامی ملر اسکول آف میڈیسین کی ایک
پر ممکنہ ) (male fertilityتحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19سے مردوں کی قوت باہ
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
| 52 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق کے دوران کورونا وائرس سے ہالک ہوجانے والے 6مردوں کے پوسٹمارٹم کے
دوران دریافت کیا گیا کہ ان میں سے کچھ کے اسپرم کے افعال متاثر ہوئے تھے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک مرد میں بھی وائرس کے آثار دریافت کیے جو بانجھ پن
کے عالج کے عمل سے گزرا تھا اور کھ عرصے پہلے کووڈ 19کا شکار تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس مریض میں کووڈ 19کی عالمات ظاہر نہیں ہوئی تھیں بلکہ ٹیسٹ
بھی نیگیٹو رہا تھا مگر ٹیسٹیرون میں وائرس کو دریافت کیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ قابل فہم ہے کہ کووڈ 19مردوں کے اسپرم کے افعال کو ہدف بناتا
ہے کیونکہ جس ریسیپٹر کی مدد سے وہ خلیات کو متاثر کرتا ہے ،وہ جسم کے متعدد
اعضا جیسے گردوں ،پھیپھڑوں ،دل اور اسپرم وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔
بعدازاں جنوری 2021میں اٹلی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19کی
سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مردوں کے اسپرم کا معیار متاثر ہوسکتا ہے ،جس سے
بانجھ پن کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
فلورنس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں کہا گیا کہ پہلی بار ایسے براہ راست شواہد ملے ہیں
جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ 19سے اسپرم کا معیار اور مردوں کا تولیدی نظام متاثر
ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں 30سے 65سال کی عمر کے 43مردوں کے نمونے کووڈ 19سے
صحتیابی کے ایک ماہ حاصل کیے گئے اور ان کا تجزیہ کیا گیا۔محققین نے دریافت کیا کہ
مردوں کا اسپرم کاؤنٹ 25فیصد تک گھٹ گیا اور 20کے قریب مردوں میں اسپرمز ہی
موجود نہیں تھے ،جو کہ دنیا کی عام آبادی کی شرح سے زیادہ ہے۔
| 53 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دنیا بھر میں ایک فیصد مردوں کو اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
جرنل ہیومین ری پروڈکشن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19کی سنگین شدت کے
باعث ہسپتال یا آئی سی یو میں داخل ہونے والے مریضوں میں اسپرم نہ ہونے کے برابر
رہنے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔
مگر محققین نے زور دیا کہ فی الحال یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کورونا وائرس براہ راست اسپرم
کو متاثر کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس بیماری سے پہلے ان مردوں کے اسپرم کاؤنٹ کا
ریکارڈ نہیں تھا۔
تاہم جن افراد میں اسپرمز کی مقدار لگ بھگ ختم ہوگئی تھی ان کی اوالد تھی ،جس سے
یہ عندیہ ملتا ہے کہ ان میں اسپرم کاؤنٹ کسی حد تک زیادہ تھا۔
اسی طرح کووڈ کے عالج کے لیے دی جانے والی ادویات سے بھی اسپرم کاؤنٹ متاثر
ہوسکتا ہے۔
کی Justus Liebig University Giessenجنوری 2021کے آخر میں جرمنی کی
تحقیق میں محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ 19کے شکار مردوں کے اسپرم سیلز میں ورم
اور تکسیدی تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا اور دیگر افعال پر بھی کورونا وائرس سے منفی
اثرات مرتب ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ منفی اثرات وقت کے ساتھ بہتر ہوتے نظر آتے ہیں ،مگر بیماری
کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے ،اتنی ہی تبدیلیاں اندرونی افعال میں آتی ہیں۔
محققین نے کووڈ 19کے شکار مردوں میں ایس ٹو انزائمٹک ایکٹیویٹی\ کی بہت زیادہ شرح
کو بھی دریافت کیا۔
خیال رہے کہ ایس ٹو وہ ریسیپٹر ہے جو کورونا وائرس کو خلیات کے اندر گھسنے میں
سہولت فراہم کرتا ہے۔
یعنی ابھی یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ کووڈ سے براہ راست ایسا ہوتا ہے یا ادویات یا
کسی اور وجہ سے اسپرمز کے افعال متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے طبی ماہرین کی جانب سے مزید تحقیقی کام کیا جارہا ہے
تاکہ ان سواالت کے جواب تالش کیے جاسکیں۔
کووڈ اور ایریکٹائل ڈسفنکشن
مکمل یقین سے تو ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ہاں کافی حد تک یہ ثابت ہوچکا ہے کہ
کورونا وائرس مردوں کی جنسی اور تولیدی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
اس حوالے سے کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق کووڈ 19کو مردوں
میں اچانک ایریکٹائل ڈسفنکشن (ای ڈی) کے مسئلے سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔
اپریل 2021میں اٹلی کی روم یونیورسٹی کی تحقیق میں دونوں کے درمیان تعلق کی
نشاندہی کی گئی تھی۔
درحقیقت تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19کی تاریخ رکھنے والے مردوں میں ای ڈی کا
خطرہ 5.66گنا زیادہ ہوتا ہے اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد بھی اتنا خطرہ
برقرار رہتا ہے۔
| 54 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں بتایا گیا کہ ای ڈی کووڈ 19کی مختصر اور طویل المعیاد پیچیدگی ہوسکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ درحقیقت مردوں کو بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر
خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس طرح وہ اپنی جنسی صالحیت کو نقصان ہونے
سے بچاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ عمر ،ذیابیطس ،زیادہ جسمانی وزن اور تمباکو نوشی کووڈ 19کا
شکار بنانے والے اہم عناصر ہیں اور یہی ای ڈی کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر بھی
ہیں۔
اسی طرح مئی 2021میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وائرس کے نتیجے میں مرد
ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صالحیت سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس مردوں کے مخصوص عضو کے خلیات تک پہنچ
سکتے ہیں اور جنسی صالحیت ختم کرسکتے ہیں۔
تحقیق میں کووڈ 19کے 2مریضوں میں اس مسئلے کو دریافت کیا گیا اور دریافت کیا گیا
کہ یہ وائرس خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا کر اس تباہ کن اثر کا باعث بنتا ہے۔
یونیورسٹی آف میامی ملر اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا
کہ م نے دریافت کیا کہ وائرس سے مخصوص عضو کو خون پہنچانے والی شریانیں متاثر
ہوتی ہیں جس کا نتیجہ ایستادگی کی صالحیت سے محرومی کی شکل میں نکلتا ہے۔
تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ ایک یا 2
مریضوں سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ،مگر اس سے تحقیق کو آگے بڑھانے کی بنیاد ضرور
ملتی ہے۔
| 55 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ کووڈ کو شکست دینے والے مردوں کو ای ڈی کا سامنا ہو تو انہیں طبی
امداد کے لیے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے خیال میں یہ دیرپا اثر ہوسکتا ہے جو خود
ختم نہیں ہوگا۔
درحقیقت ان کا تو مشورہ تھا کہ مردوں کو کووڈ سے بچنا چاہیے اور ویکسین سے خود کو
تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
درحقیقت ایریکٹائل ڈسفنکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کے حوالے سے ماہرین نے چند
وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے
شریانوں اور رگوں پر اثرات
| 56 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ایریکٹائل ڈسفنکشن عموما ً امراض قلب کی پیشگوئی کرنے واال عارضہ ہوتا ہے ،تو یہ
واضح ہے کہ تولیدی نظام اور شریانوں کا نظام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ کووڈ 19کے نتیجے میں پورے جسم میں ورم کا عمل بہت
بڑھ جاتا ہے بالخصوص دل اور اس کے ارگرد کے پٹھوں میں ،جس کے نتیجے میں
تولیدی حصوںن تک خون کی فراہمی بالک ہوسکتی ہے یا وائرس کے باعث شریانیں سکڑ
سکتی ہیں۔
نفسیاتی اثرات
جسمانی تعلقات اور ذہنی صحت میں قریبی تععلق ہے ،وائرس سے متاثر ہونے کے باعث
پیدا ہونے واال تناؤ ،ذہنی بے چینی اور ڈپریشن بھی جنسی صالحیت کو متاثر کرسکتے
ہیں۔
مجموعی صحت متاثر ہونا
ای ڈی عموما ً جسم کے اندر چھپے کسی مسئلے کی عالمت ہوتا ہے ،ناقص صحت کے
شکار مردوں میں ای ڈی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور جن افراد کو کووڈ کی سنگین
شدت کا سامنا ہوتا ہے جس سے بھی صحت خراب ہوتی ہے۔
صحت خراب ہونے سے ای ڈی اور دیگر پیچیدگیوں کے خدشات بڑھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ای ڈی مجموعی صحت کا اشارہ ہوتا ہے ،بالخصوص ایسے نوجوان
اور صحت مند افراد میں جن کو کووڈ 19کے بعد اس مسئلے کا سامنا ہو ،جس سے عندیہ
ملتا ہے کہ انہیں زیادہ سنگین پیچیدگی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ نقصان مستقل ہے یا عارضی یا اس
سے بانجھ پن کا خطرہ بڑھتا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1160985/
| 57 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کی شدت معمولی ہو یا زیادہ ،تمام مریض
اسے آگے لگ بھگ ایک جتنی شرح سے بڑھا سکتے ہیں۔یہ بات جرمنی میں ہونے والی
ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔چیریٹی یونیورسٹی میڈیسین برلن کی اس تحقیق میں 25
ہزار سے زیادہ کووڈ 19کے مریضوں کو شامل کرکے ان کے وائرل لوڈ کی سطح کو
دیکھا گیا۔
تحقیق میں شامل 25ہزار میں سے صرف 8فیصد مریضوں میں وائرل لوڈ کی سطح بہت
زیادہ دریافت کی گئی ،جن میں سے ایک تہائی ایسے افراد تھے جن میں عالمات ظاہر
نہیں ہوئی تھیں ،عالمات نہیں تھیں یا معمولی حد تک بیمار تھے۔تحقیق میں 25ہزار 381
کووڈ مریضوں کے وائرل لوڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھیں۔ان میں سے 24فیصد میں
مرض کی تشخیص ٹیسٹنگ مراکز میں ہوئی تھی 38 ،فیصد ہسپتال میں زیرعالج تھے اور
6فیصد میں سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117کی تشخیص
| 58 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہوئی۔وائرل لوڈ سے مراد وائرس کی نقول کی وہ تعداد ہے جو مریض کے نمونوں میں
موجود ہوتی ہے۔یہ نمونے 24فروری سے 2اپریل 2020کے دوران اکٹھے کیے گئے
تھے اور اس کا مققصد یہ جاننا تھا کہ عالمات سے قبل ،معمولی بیمار یا بغیر عالمات
والے افراد کتنے لوگوں کو آگے وائرس کو منتقل کرسکتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 70سال کی عمر کے عالمات ظاہر ہونے سے پہلے والے
مریض ،بغیر عالمات یا معمولی عالمات کا سامنا کرنے والے افراد میں وائرل لوڈ ہسپتال
میں زیرعالج افراد سے زیادہ ہوتا ہے ،درحقیقت عمر کے ساتھ وائرل لوڈ بڑھتا ہے۔
بی 117سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ دیگر اقسام سے بیمار افراد کے مقابلے میں 1.05
گنا زیاد ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق بچوں میں اوسطا ً وائرل لوڈ کم ہوتا ہے جبکہ مریض میں یہ وائرس کسی
بھی عالمت ظاہر ہونے سے پہلے ہی زیادہ متعدی ہوتا ہے۔
اگرچہ ہسپتال میں زیرعالج مریضوں کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ ان میں وائرل لوڈ کی
سطح زیادہ ہوتی ہے مگر محققین نے دریافت کیا کہ ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد
میں بھی وائرل لوڈ کی سطح مختلف ہوسکتی ہے۔
بغیر عالمات والے یا معمولی حد تک عالمات کا سامنا کرنے والے مریضوں میں اوسطا ً
5.1دنوں میں وائرل لوڈ عروج پر ہوتا ہے جبکہ سب سے زیادہ وائرل لوڈ والے افراد کی
اوسط عمر 8سال ہے۔
محققین نے بتایا کہ درحقیقت بظاہر معمولی حد تک بیمار افراد بھی ہسپتال میں زیرعالج
مریضوں کی طرح ہی وائرس کو آگے پھیال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے مریضوں سے وائرس جھڑے کی سطح ہی بہت زیادہ اہم ہوتی ہے
کیونکہ یہ لوگ برادری میں گھوم رہے ہوتے ہیں اور اس طرح مزید لوگوں میں وبائی لہر
پیدا کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چند افراد زیادہ تر کیسز کی وجہ بنتے ہیں ،درحقیقت
بغیر عالمات والے متعدد افراد کیسز کو بڑھانے کی اہم وجہ ہیں اور وبا کے کنٹرول کے
لیے سماجی دوری اور فیس ماسک پہننے جیسے اقدامات بہت اہم ہیں
https://www.dawnnews.tv/news/1160994/
| 59 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کووڈ وبا کے تناظر میں ہم نے پی سی ٓار ٹیسٹ کے نام سنا جو جینیاتی طور پر نہ صرف
کورونا بلکہ بہت سے بیماریوں کا ٹیسٹ اور ڈی این اے شناخت میں اہم کردار ادا کرتا
ہے۔ اس ضمن اب پورا پی سی ٓار ایک چپ پر منتقل کردیا گیا ہے۔
ریورس ٹرانسکرپشن پولمریز چین ری ایکشن (ٓارٹی پی سی ٓار) کی مدد سے کووڈ 19
کی شناخت میں بہت مدد ملی ہے۔ لیکن اس کے لیے بہت مہنگے اور بھاری بھرکم ٓاالت
کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹیسٹ میں کم ازکم ایک گھنٹہ ضرور لگتا ہے۔ اب امریکن
کیمیکل سوسائٹی کے جرنل میں اس تیزرفتارپی سی ٓار چپ کی روداد شائع ہوئی ہے۔ اس
میں موجود پالزمومائع کی بدولت صرف 8منٹ میں نتیجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح
موجودہ اور مستقبل کی وباؤں کی شناخت میں یہ چپ انقالبی تبدیلیاں السکتی ہے۔
سائنسدانوں نے ڈاک ٹکٹ جتنی ایک چپ بنائی ہے جسے ’پولی ڈائی میتھائل سائلوکسین
چپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں پی سی ٓار ری ایکشن کے چھوٹے چھوٹے چیمبر(خانے)
موجود ہیں۔ جیسے ہی چپ پر تجزیاتی نمونے کا ایک قطرہ ڈاال جاتا ہے ایک ویکیوم انہیں
اندر کھینچ لیتا ہے۔ اس کے اندر شیشے کے باریک ستون ہیں اور ان میں سونے کے
نینوابھار ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی بلبلہ نہ بننے پائے جو نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
جب چپ کے نیچے سفید ایل ڈی جالئی جاتی ہے تو اس کی روشنی حرارت میں بدل جاتی
ہے اور الئٹ بند ہوتے ہی وہ تیزی سے ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ ماہرین نے سارس کوو ٹو
وائرس کے کے حامل جین کا ڈی این اے اس ٓالے پر رکھا تو ایل ای ڈی 40مرتبہ بند ٓان
اور ٓاف ہوئی۔ اس طرح بہت گرم اور ٹھنڈک کے کئی چکر چالئے گئے تو صرف پانچ
| 60 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
منٹ میں کووڈ 19کو شناخت کرلیا گیا۔ سیمپل کو اندر رکھنے میں تین منٹ لگے۔اس طرح
چپ نے صرف 8منٹ میں نتیجہ ظاہر کردیا جو 91فیصد تک درست تھا۔ روایتی پی سی
ٓار 98فیصد تک درست ہوتے ہیں لیکن ان کے نتائک میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
اس انقالبی چپ سے نہ صرف مختلف امراض کی شناخت میں مدد ملے گی بلکہ اسے
غریب اور دورافتادہ عالقوں میں بھی امراض کی تشخیص میں استعمال کرنا ممکن ہوگا
https://www.express.pk/story/2182630/9812/
ویب ڈیسک
آنکھوں کے نیچے پڑنے والے سیاہ حلقے اور سوجن خواتین کی خوبصورتی کو ماند
کردیتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ خواتین آنکھوں کی دلکشی اور خوبصورتی بڑھانے پر
زیادہ توجہ دیتی ہیں۔
آج کے دور میں روز مرہ کی مصروفیات ،ذہنی و جسمانی صحت ،غذائی عادات اور رہن
سہن میں پہلے کی نسبت کافی حد تک نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے ،مصروفیت کے اس
دور میں اب انسان اپنی ظاہری خوبصورتی\ اور دلکشی سے بھی غافل ہو گیا ہے۔
کیا آپ آنکھوں کی سوجن سے دوچار ہیں؟ آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ یہ کوئی غیر
معمولی مسئلہ نہیں ہے۔
سیدتی میگزین میں شائع رپورٹ کے مطابق جینیاتی عوامل ،آنکھوں میں تناؤ یا پھر جلد
کے مسائل یا روزمرہ کی غیر صحت بخش عادات ٓانکھوں میں سوزش کی وجوہات ہو
| 61 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سکتی ہیں۔ آنکھوں کے نیچے کھیرے رکھنے یا کچھ کریم استعمال کرنے کے بجائے اس
کی وجہ تک پہنچنا زیادہ مفید ہوسکتا ہے۔
آنکھوں میں سوجن اور ورم کا کیا سبب ہوتا ہے؟
جسم میں کسی بھی وقت ضرورت سے زیادہ سوجن ہوسکتی ہے ،اسے ورم ہونا کہتے
ہیں۔ چونکہ آنکھوں کے آس پاس کی جلد فطرت کے مطابق پتلی ہوتی ہے ،اس وجہ سے
یہ سوجن کے عالوہ سیاہ ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کو حیرت ہوسکتی ہے کہ اس حصے میں مائع کیوں جمع ہوتے ہیں اور اس
میں سوجن کیوں آتی ہے؟ اس کی بڑی وجہ آپ کی کچھ عادتیں ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آپ خود اپنی آنکھوں کی سوجن میں کردار ادا کرتے
ہیں۔ یہاں کچھ چیزیں ہیں جو آپ کرتے ہیں اس سے آپ کی پریشانی میں اضافہ ہوسکتا
ہے۔
بہت زیادہ نمک کھانا
سب سے پہلے کھانے میں اپنے نمک کی مقدار کو چیک کریں۔ نمک خود بخود جسم کے
مائع کو اکٹھا کرلیتا ہے جو آپ کی آنکھوں اور دل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دل کا دورہ پڑنا
اور فالج ہونے کی یہی وجہ بنتا ہے ،تجویز کیا جاتا ہے کہ آپ روزانہ 2300ملی گرام
سے زیادہ نمک نہ لیں۔
کم مقدار میں پانی پینا
جب جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے تو آنکھیں پھول جاتی ہیں۔ دراصل ،آنکھوں کے
آس پاس کے حصے رگوں اور اعصاب سے بھرے ہوئے ہیں ،پانی کی مقدار میں اضافہ
کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ کافی پانی پی رہے ہیں۔
کم سونا
جب آپ کو مناسب آرام نہیں ملتا تو آپ اگلی صبح صرف اپنی آنکھوں میں دیکھ کر ہی یہ
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب مناسب نیند نہیں لیں گے ت ٓانکھوں کے گرد سوجن ہوگی۔
رات کو کم از کم 8-6گھنٹے اچھی نیند لینا اور مناسب آرام حاصل کرنا ٓانکھوں کی صحت
کے لیے ضروری ہے۔
رات کو میک اپ نہ دھونا
خواتین آنکھوں کے نیچے کے حصے میں بھی میک اپ کا ستعمال کرتی ہیں جاسکتا ہے
اس لیے اس حصے کو تروتازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کو اپنے چہرے کو
دھوئیں۔
تمباکو کی مصنوعات کا استعمال
سگریٹ میں موجود زہریال مواد جلد کی لچک کو ختم کردیتا ہے ،جنیکوٹین ،سگریٹ میں
پایا جانے واال مادہ آپ کو متحرک رکھتا ہے اور نیند کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔
سورج کی تیز روشنی کا سامنا کرنا
| 62 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سورج کی گرمی سے جلد کے ان خلیوں کو نقصان ہوتا ہے جو آپ کی جلد کو لچکدار
بناتے ہیں۔ سورج کے سامنے آنے کے دوران سورج کو براہ راست دیکھنے سے اجتناب
کریں۔
https://urdu.arynews.tv/swelling-in-eyes-health-tips-dark-circles/
اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار ،مزید فوائد بھی
سامنے آگئے
اعجاز االمین
مشرق کی طرح مغرب میں بھی اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا رحجان جاری ہے لیکن
ناقدین کا اصرار ہے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں۔
اونٹنی کا دودھ ،دہی اور مکھن وغیرہ اپنی زبردست غذائیت کی وجہ سے عالمی شہرت
رکھتے ہیں کیونکہ ان میں وٹامن سی ،فوالد ،کیلشیئم ،انسولین اور پروٹین کی بڑی مقدار
پائی جاتی ہے۔
اونٹنی کے دودھ پر عرصہ دراز سے تحقیق کی جارہی ہے اور اب تک اس کے کئی فوائد
سامنے آچکے ہیں تاہم تازہ ترین تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ
اپنے اندر بیش بہا خصوصیات رکھتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید
ثابت ہوسکتا ہے۔
| 63 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
متحدہ عرب امارات یونیورسٹی نے خاص طور پر اونٹنی کے دودھ کے اینٹی ڈئباٹک
خصوصیات کی تحقیقات کرنے کے منصوبے کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے۔
اس منصوبے پر خصوصی توجہ دینے کا مقصد اس دودھ سے مزید فوائد حاصل کرنا ہے
خاص طور پر وہ فوائد جن سے ذیابیطس کے مریض مستفید ہوسکیں۔
اونٹنی کا دودھ متحدہ عرب امارات اور دنیا کے بہت سارے حصوں میں ایک مقبول شے
ہے۔ یہ ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کے خالف اپنے عالج معالجے کی وجہ سے
جانا جاتا ہے۔ یہ بھی وسیع پیمانے پر نوٹ کیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ گلیسیمک کنٹرول
کو راغب کرنے کے لئے درکار انسولین کی خوراک کو کم کرتا ہے اور خون میں گلوکوز
کو بہتر بناتا ہے۔
اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات دنیا بھر میں بہت سارے محققین
نے کی ہیں چنانچہ متحدہ عرب امارات کے کالج آف سائنس کے شعبہ حیاتیات سے ڈاکٹر
محمد ایوب ،ڈاکٹر ساجد مقصود کی لیب ،متحدہ عرب امارات کے زید سینٹر برائے ہیلتھ
سائنسز یو اے ای یو کے تعاون سے ،متحدہ عرب امارات کے محکمہ فوڈ سائنس ،کالج
آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر\ کی لیب نے مشترکہ طور پر اونٹنی کے دودھ کی غذائیت اور
خصوصیات کا مطالعہ کیا۔
اس مطالعے کا مقصد اونٹنی کے دودھ میں پروٹین حصوں سے جراثیم کش اینٹی ڈئباٹک
ایجنٹ کی نشاندہی کرنا اور سالماتی سطح پر اس کے عمل کے انداز کو سمجھنا ہے۔ ڈاکٹر
ایوب اور ڈاکٹر مقصود نے حال ہی میں ایک مطالعہ شائع کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا
| 64 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہے کہ اونٹ کے دودھ سے نکاال جانے واال جیوپیوٹک پیپٹائڈس انسانی انسولین ریسیپٹر
اور خلیوں میں گلوکوز کی نقل و حمل پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اس کے عالوہ ایک اور تحقیق میں اونٹنی کے دودھ میں پروٹین کے عالوہ ذیابیطس سے
بچنے والی خصوصیات کے حق میں بھی ثبوت فراہم کیے گئے جس میں ذیابیطس چوہوں
میں اینٹی ہائپرگلیسیمیک اثر کا تجربہ کیا گیا۔ یہ نتائج انتہائی امید افزا ہیں اور اونٹ کے
دودھ کی بنی مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ذیابیطس کے خالف جنگ میں ایک
پیشرفت کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس طرح اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک ڈیزاسٹ خصوصیات کی تحقیقات سے
ذیابیطس کی پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور متحدہ عرب امارات اور
دنیا میں اس دائمی بیماری کے خالف جنگ میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس کے عالوہ اس طرح کی دریافتیں متحدہ عرب امارات کی معاشی نمو میں خاص طور
پر اونٹنی کے دودھ پر مبنی ذیابیطس کے عالج سے متعلق ادوایات کی دریافت میں اہم
کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کو ایک اہم معاشی وسیلہ
سمجھا جاتا ہے۔
| 65 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اونٹنی کے دودھ کو ذیابیطس کے مریضوں\ کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اونٹ کے
دودھ کے بے تحاشہ فوائد اور بھی ہیں جو اس کے باقاعدہ استعمال سے حاصل ہوسکتے
ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/camels-milk-diabetes-health-tips/
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) پیشاب سے بدبو آنے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ ایک ماہر
امریکی ڈاکٹر نے اس حوالے سے تفصیل بیان کر دی ہے۔ڈیلی سٹار کے مطابق ڈاکٹر
پر بتایا ہے کہ پیشاب سے @dromonimohiاومون ایموئی نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ
بدبو آنے کی کچھ معمولی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ،جن میں جسم میں پانی کی کمی ہو
جانا اور کوئی تیز بو والی چیز کھالینا وغیرہ شامل ہیں۔ تیز بو والی اشیاءکے عالوہ بھی
کچھ کھانے ایسے ہیں جو پیشاب کی بدبو کا سبب بنتے ہیں۔
ڈاکٹر اومون کا کہنا تھا کہ ان معمولی وجوہات کے عالوہ پیشاب سے بدبو آنا کچھ سنگین
بیماریوں کی عالمت بھی ہوتا ہے۔ اگرآپ کو ذیابیطس ہے یا الحق ہونے والی ہے تو ایسی
صورت میں بھی آپ کے پیشاب سے بدبو آنے کا امکان ہوتا ہے۔ پیشاب کی نالی میں
انفیکشن ،ہونا ،جنسی عمل کے دوران الحق ہونے والی انفیکشنزہونا ،گردے میں پتھری
ہوناوغیرہ بھی پیشاب میں بدبو کی وجہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے عالوہ خواتین میں ہارمونز
میں معمول کی تبدیلیاں بھی ان کے پیشاپ میں بدبو پیدا کر سکتی ہیں۔ بالخصوص حاملہ
خواتین میں یہ مسئلہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر اومون کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ کے پیشاب
سے حد سے زیادہ بدبو آ رہی ہے اور کئی دن گزرنے پر بھی اس کی شدت کم نہیں ہوئی
“تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293557
سائنسدان روزانہ ایک گالس دودھ پینے کا حیران کن فائدہ سامنے لے
آئے ،جان کر آپ آج سے ہی عادت بنا لیں گے
May 25, 2021 | 19:15:PM
| 66 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) دودھ ایک بہترین غذا ہے جو بے شمار طبی فوائد کی حامل ہے۔
اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں روزانہ ایک گالس دودھ پینے کا ایسا حیران کن فائدہ بتا
دیا ہے کہ جان کر آپ دودھ پینا اپنی عادت بنا لیں گے۔ میل آن الئن کے مطابق برطانیہ کی
یونیورسٹی آف ریڈنگ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ روزانہ ایک گالس دودھ پینے سے
ہارٹ اٹیک ،دل کی دیگر بیماریوں اور سٹروک کا خطرہ 14فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
روزانہ دودھ پینے سے لوگوں میں کولیسٹرول کا لیول بھی کم رہتا ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ویمل کیرانی نے بتایا ہے کہ ”ہم نے اس تحقیق میں
20الکھ سے زائد امریکی اور برطانوی شہریوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔ ان میں سے جن
لوگوں میں ایک جینیاتی میوٹیشن پائی گئی جس کی وجہ سے لوگ زیادہ دودھ پینے کے
قابل ہوتے ہیں ،ان کودل کی بیماریاں اور سٹروک الحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت
14فیصد تک کم پایا گیا۔ ان لوگوں میں دوران خون کی صحت دوسروں کے مقابلے میں
“کئی گنا بہتر پائی گئی۔
https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293563
| 67 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
https://jang.com.pk/news/931925
ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچوں میں پابندی کے ساتھ کسی بھی قسم کی جسمانی
سرگرمیاں ان کے دماغی افعال کو منظم کرتی ہیں۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ جتنا زیادہ جسمانی سرگرمیاں ہونگی بچوں کا دماغی نیٹ ورک اتنا
ہی منظم اور صحت مند ہوگا۔
یہ تحقیق امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی کے چلڈرن اسپتال کے سائنسدانوں نے اپنے ایک
تجربے کے دوران کی اور اس مقصد کے لیے انھوں نے بلوغت کی جانب رواں دواں عمر
کے تقریبا ً چھ ہزار بچوں کے نیورو امیجنگ ڈیٹا کو استعمال کرکے کیا۔
اور اس تحقیق کے نتیجے میں انکے سامنے یہ بات ٓائی کہ مسلسل جسمانی سرگرمی
بچوں میں مثبت اثرات پیدا کرتا ہے اور ان کے دماغ کے سرکٹس نمو پاتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل سیربرال کورٹیکس میں شائع ہوئے ہیں
https://jang.com.pk/news/931950
طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ عام غذأوں کے ساتھ پھلوں اور ُخشک
میوہ جات کا استعمال بھی الزمی کرنا چاہیے جن کے استعمال سے انسان خود کو توانا،
تروتازہ اور فرحت بخش محسوس کرتا ہے۔
طبی و غذائی ماہرین کے مطابق ہر غذا کے کھانے کا ایک وقت ہوتا ہے جس میں اُس غذا
کے کھانے سے مکمل مستفید ہوا جا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق صبح کا وقت ایسا ہے جب انسان بہتر غذا کے ذریعے اپنی صحت کو
مزید بہتر اور زندگی طویل بنا سکتا ہے اور اسی دوران تازہ پھلوں اورخشک میوہ جات کا
استعمال بھی تجویز کیا جاتا ہے مگر ہر پھل صبح نہار منہ کھانا صحت کے لیے مفید ثابت
نہیں ہوتا۔
صبح ،نہار منہ کن تازہ پھلوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے ؟
تحقیق کے مطابق پھل ہماری صحت کے لیے اہم اور بے حد مفید قدرتی غذا ہے ،پھلوں
میں وٹامنز ،منرلز ،غذائی اجزاء ،فائبر اور پانی کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ مناسب طریقے سے اپنی خوراک میں پھلوں کو شامل کرنے سے
میٹابالزم بہتر اور جسمانی اعضاء اور پٹھوں کی کارکردگی بہتر اور افزائش ہوتی ہے ۔
نہار منہ تازہ پھل کھانے سے جسم کو بہت زیادہ توانائی بھی ملتی ہے ،وزن میں نمایاں
کمی ہوتی ہے اور متعدد بیماریوں سے نجات ممکن ہوتی ہے۔
ماہرین کی جانب سے صبح کے ناشتے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ،اس دوران کونسے
تازہ پھل صحت کے لیے مثبت قرار دیئے جاتے ہیں اُن کی فہر ست مندرجہ ذیل ہے
سیب بہترین انتخاب
| 69 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سیب کو کرشماتی پھل کہا جاتا ہے کیوں کہ سیب میں فائبر وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے
جو جسم میں پانی کو اپنی جانب کھینچ کر ایک جیل تشکیل دیتا ہے جو غذا کے ہضم ہونے
کا عمل سست کرتا ہے۔
روزانہ ایک سیب سے زیادہ دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے اور بلڈ ،شوگر
لیول متوازن جبکہ انسولین کی افزائش مثبت مقدار میں ہوتی ہے ۔
اس کے عالوہ صبح کے اوقات میں روزانہ ایک سیب کھانے سے فالج سے بچأو میں مدد
ملتی ہے ،ایک ڈچ تحقیق کے دوران 10برسوں تک 20ہزار سے زائد رضاکاروں میں
پھلوں اور سبزیوں کے استعمال کا جائزہ لیا گیا ،نتائج سے معلوم ہوا کہ سرخ سیب کھانے
کی عادت رکھنے والے رضاکاروں میں فالج کا خطرہ 9فیصد تک کم ہوجاتا ہے
نارنگی
نارنگی کو دن میں کسی بھی وقت کھایا جاسکتا ہے لیکن اسے صبح ناشتہ میں خصوصا ً
خالی پیٹ کھانے سے گریز کریں ،صبح نہار منہ نارنگی کھانے سے جسم میں الرجی پیدا
ہوسکتی ہے۔
کیال
کیال ایک ریشہ دار غذا ہے ،ناشتہ میں یا دن کے کسی بھی حصہ میں کیال کھانا ٓاپ کے
ہاضمہ کے عمل کو تیز کرسکتا ہے البتہ شام یا رات میں کیال کھانا نقصان کا سبب بن
سکتا ہے لہٰ ذا اسے بھی صبح ناشتے میں کھانا مفید ہے۔
تربوز
صبح نہار منہ تربوز کھانا مثبت قرار دیا جاتا ہے ،صبح نہار منہ تربوز کھانا انسانی جسم
کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ تربوز میں الئکوپین کی زیادہ مقدار موجود ہے جو ٓانکھوں
اور دل کے لیے موثر ہے ،موسم گرما کے اس پھل کے صبح نہار منہ استعمال سے
صحت بہتر اور پانی کی کمی پوری ہوتی ہے
خشک میوہ جات
دن بھر میں خشک میوہ جات کا استعمال ٓاپ کو بے وقت بھوک سے بچائے گا اور بے
وقت نہ کھانے سے وزن میں کمی بھی واقع ہوگی۔
خیال رہے کہ خشک میوہ جات جیسے بادام ،پستہ ،اخروٹ وغیرہ بھرپور غذائیت کے
حامل ہوتے ہیں لہٰ ذا انہیں رات میں کھانے سے پرہیز کرنا چا ہیے۔
بادام بہترین انتخاب
بادام میں مینگنیز ،وٹامن ای ،پروٹین ،فائبر ،اومیگا 3اور اومیگا 6فیٹی ایسڈ بھرپو مقدار
میں پایا جاتا ہے ،بادام کھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انہیں طاق شمار کر لیا جائے اور
رات میں ہمیشہ بھگو کر پھر صبح نہار منہ چھلکے کے بغیر کھایا جائے۔
https://jang.com.pk/news/932265
| 70 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ٓاپریشن نہیں صرف قطرے ،کیسے مسلمان سائنسدان نے قرٓان پاک
سے موتیے کا عالج دریافت کر کے انقالب برپا کردیا؟
25/05/2021
اسالم ٓاباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سویٹزر لینڈ کی ایک دوا بنانے والی فیکٹری نے ایک نئی دوا
تیار کی ہے جسے قرٓان کی دوا کا نام دیا گیا ہے -یہ دوا بنیادی طور پر ٓانکھوں کے موتیا
کیلئے ہے اس سے موتیا سرجری کے بغیر ٹھیک ہو جاے گا-درحقیقت اس دوا یا قطروں
کا نسخہ ایک مصری ڈاکٹر عبدالباسط محمد نے اپنی بہترین تحقیق سے تیار کیا ہے ،یہ دوا
انسان کے پسینے والے غدود سے بنائی گئی ہے اور اس سے شفاء یابی کے امکانات 99
فیصد ہیں جو یورپ میں اور
امریکہ میں رجسٹرڈ ہو چکی ہے ،اور یہ رپورٹ بھیشائع ہو چکی ہے کہ ٓانکھ میں ڈالنے
والے قطرے بنائے جا چکے ہیں-یہ سب کیسے ممکن ہوا ہے اس کیلیے ایک بہت ہی
خوبصورت واقعہ ہے جس سے ڈاکٹر عبدالباسط کے اندر ایک طوفان برپا کر دیا اور اتنا
بڑا جذبہ پیدا ہوا-ڈاکٹر عبدالباسط کہتے ہیں کہ ایک صبح میں سورۃ یوسف پڑھ رہا تھا اور
میری توجہ ٓایت نمبر 84اور اس کے بعد کی ٓایات کی طرف مبذول ہو گئی -کہ “ سیدنا
یعقوب علیہ السالم اپنے بیٹے یوسف علیہ السالم کے غم میں رو رو کر ٓانکھیں ضائع کر
لیں اور ٓانکھیں بالکل سفید ہو گئی ان میں موتیا اتر ٓایا ،اور نظر ختم ہو گئی -اور جب سیدنا
یوسف علیہ السالم کا کرتا ان کی ٓانکھوں کو لگایا گیا تو ان کی ٓانکھیں ٹھیک ہو گئیں ان کا
| 71 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
موتیا ٹھیک ہو گیا اور نظر واپس ٓا گئی! یہاں ٓا کر میرا دماغ روشن ہوا۔۔ تو میں نے سوچنا
شروع کر دیا ،کہ سیدنا یوسف علیہ السالم کے کرتے میں کیا ایسی چیز ہو سکتی ہے جس
نے ان کی ٓانکھوں کو ٹھیک کیا کیونکہ قرٓان میں ہللا فرماتا ہے کہ غور کرنے والوں
کیلئے بہت ساری نشانیاں ہیں ،موتیا کیسے ٹھیک ہو گیا! کون سی چیز ہو سکتی ہے جس
سے ہللا کے حکم سے فائدہ ہوا؟اور ٓاخر کار میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پسینہ کے عالوہ
اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی؟اس کے بعد میں نے اس پر سوچنا شروع کیا اور پسینہ اور
اس کے اندر کون سے کیمیکل اجزا ہوتے ہیں اس پر تحقیق شروع کر دی ،اور پھر میں
نے 350مریضوں پر اس کا تجربہ شروع کر دیا ،اور یہ دوا تین مرتبہ روزانہ دو ہفتوں
کیلٸے استعمال کروائیٓ-اخر کار مجھے 99فیصد نتائج ملے ،اور یہ میرے لیئے بہت بڑی
کامیابی تھی ،اور یہ قرٓان کا بہت بڑا معجزہ تھا۔ اور اب یہ دوا یورپ اور امریکہ کی
کمپنیاں پیٹینٹ نمبر لے کر اس معجزہ کو دوا کی صورت میں ایک بے مثال ایجاد کے
طور پر رکھنے والی ہیں-اپنے بہترین نتایج اور تحقیق کے بعد ایک سوئس کمپنی کے ساتھ
انہوں نے معاہدہ کیا ہے جو اس دوا کو مارکیٹ کرے گی اور اس کا نام ہوگا قرٓان کی دوا،
تعالی فرماتا ہے :ہم نے قرٓان کو زمین پر بھیجا جو کہ شفاء ہے اور رحمت ہے مگرٰ ہللا
جو اس پر یقین رکھتے ہیں!!
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-105947.html
خطرناک برڈ فلو وائرس اگلی عالمی وبا بن سکتا ہے ،چینی ماہرین
ویب ڈیسک
بدھ 26 مئ2021
چھیالیس ممالک میں الکھوں مرغیوں کو ہالک کرنے واال یہ برڈ فلو عالمی انسانی وبا میں
)بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔
بیجنگ :چینی سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اب تک 46ممالک میں الکھوں مرغیوں
ٓانے والے برسوں میں عالمی ) (H5N8کو متاثر اور ہالک کرنے واال خطرناک برڈ فلو
انسانی وبا کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔
تحقیقی مجلے ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ مقالے میں وائیفینگ شی اور
جارج ایف گاؤ نے برڈ فلو (ایویئن انفلوئنزا)\ وائرس کی مختلف اقسام اور ان میں جینیاتی
طور پر ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا ہے۔
برڈ فلو وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس سے متاثر H5N8ان کا کہنا ہے کہ
ہونے والے ممالک کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔
) (H5N8شی اور گاؤ نے اپنی تحقیق میں روس کے ایک پولٹری فارم پر ایچ فائیو این ایٹ
بطور خاص تذکرہ کیا ہے۔
ِ برڈ فلو وائرس سے 7مالزمین کے متاثر ہونے کا
یہ واقعہ دسمبر 2020میں پیش ٓایا تھا جس کی تصدیق کے بعد عالمی ادارہ صحت کو اس
کی اطالع فروری 2021میں دی گئی تھی۔
| 72 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
H5N8یہ خبر اس لیے بھی تشویشناک ہے کیونکہ
| 73 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کووڈ 19سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ
ویب ڈیسک
مئی 26 2021
ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19کے مرض سے صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک
پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ Bسکتا ہے ،پھیپھڑوں کو ہونے واال نقصان عام سی ٹی اسکینز
اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں ٓاتا۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں
کہا گیا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو
اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم 3ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔
شیفیلڈ یونیورسٹی اور ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت
یابی کے بعد بھی کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے واال نقصان عام سی ٹی
اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں ٓاتا۔
ان مریضوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔
مزید ابتدائی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن کو اسپتال
میں داخل ہونا نہیں پڑا مگر سانس لینے میں مشکالت کا سامنا ہوتا ہے ،ان کے پھیپھڑوں
کو بھی ایسا نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے ،اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی
ضرورت ہے۔
| 74 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طبی جریدے ریڈیولوجی میں شائع تحقیق میں ماہرین نے ہائپر پولرائزڈ شینون ایم آر آئی
اسکین سے کووڈ کے کچھ مریضوں میں 3ماہ سے زائد عرصے بعد بھی پھیپھڑوں میں
منفی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا ،کچھ کیسز میں اسپتال سے نکلنے کے 8ماہ بعد بھی
مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ شی ایم ٓار ٓائی سے پھیپھڑوں کے ان حصوں کی نشاندہی ہوئی جہاں
ٓاکسیجن کے استعمال کی صالحیت کووڈ کے اثرات سے متاثر ہوچکی تھی ،حاالنکہ سی
ٹی اسکین میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری تیار کردہ امیجنگ ٹیکنالوجی دیگر کلینکل مراکز میں بھی
متعارف کروائی جائے گی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کئی ماہ
بعد بھی سانس لینے میں مشکالت کا سامنا ہوتا ہے حاالنکہ سی ٹی اسکین میں پھیپھڑے
معمول کے مطابق کام کرتے نظر ٓاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پھیپھڑوں کو ہونے واال یہ نقصان عام ٹیسٹوں سے دریافت نہیں ہوسکتا
جبکہ اس سے دوران خون میں ٓاکسیجن کے پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق اگرچہ یہ ابتدائی نتائج ہیں مگر النگ کووڈ کے شکار 70فیصد
مریضوں کے پھیپھڑوں کو بھی ممکنہ طور پر اسی طرح کا نقصان پہنچا ہوگا ،مگر اس
کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت\ ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنا عام مسئلہ
ہے اور حالت کب تک بہتر ہوسکتی ہے
https://urdu.arynews.tv/effects-after-covid-19-recovery/
04:41 pm 26/05/2021
اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)حاملہ ہونے سے قبل اور حمل ٹھہرنے کے دوران ذہنی تنأو کا سامنا
کرنے والی خواتین کے ہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان دوگنا زیادہ
ٰ
دعوی اسپین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓایا۔گرناڈا بڑھ جاتا ہے۔یہ
یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 108خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔ان خواتین کی مانیٹرنگ
حمل کے ٓاغاز سے بچوں کی پیدائش تک کی گئی اور حمل ٹھہرنے سے قبل ،دوران اور
بعد میں تنأو کی سطح کا جائزہ
| 75 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بالوں اور متعدد نفسیاتی ٹیسٹوں کے ذریعے کیا گیا۔حمل سے قبل تنأو کی سطح کا جائزہ
لینے کا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ اس کا بچے کی جنس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ان
حاملہ خواتین میں تنأو سے منسلک ہارمون کی شرح کا جائزہ حمل کے 8سے 10ویں
ہفتے کے دوان بالوں کے نمونے کے لیے لیا گیا۔ان نمونوں میں بالوں میں گزشتہ 3ماہ
کے دوران کورٹیسول کی شرح کا تعین (ایک ماہ میں بالوں کی سینٹی میٹر نشوونما کے
ذریعے) کیا گیا ،جس سے حمل ٹھہرنے سے قبل ،دوران اور بعد کے عرصے میں تنأو کی
شدت کا عندیہ مال۔محققین نے بتایا کہ نتائج حیران کن تھے کیونکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ
جن خواتین کے ہاں بچیوں کی پیدائش ہوئی ،ان کے بالوں میں کورٹیسول کی شرح حمل
ٹھہرنے ،دوران اور بعد میں زیادہ تھی
۔درحقیقت نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جن مأوں کو حمل ٹھہرنے سے قبل زیادہ تنأو کا
سامنا ہوتا ہے ان میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا
ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل ٓاف ڈویلپمنٹل اوریجن ٓاف ہیلتھ اینڈ ڈیزیز میں
شائع ہوئے۔اس سے قبل 2019میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا
گیا تھا کہ دوران حمل اگر خواتین کو جسمانی یا ذہنی طور پر شدید تنأو کا سامنا ہو تو ان
کے ہاں بیٹے کی جگہ بیٹی کی پیدائش کا امکان بڑھ جاتا ہے
جبکہ قبل از وقت پیدائش کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ماں کا رحم بچے کا
پہال گھر ہوتا ہے اور ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ لڑکے وہاں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔ویسے
قدرتی طور پر اوسطا ً ہر سو بچیوں کے ساتھ 105لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے مگر اس
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسی حاملہ خواتین جو ہائی بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی تنأو
کی عالمات کی شکار ہوتی ہیں ،ان میں یہ شرح ہر 9لڑکیوں پر 4لڑکے ہوتی ہے۔اسی
| 76 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طرح ذہنی تنأو کا سامنا کرنے والی خواتین میں یہ شرح ہر 3لڑکیوں پر 2لڑکوں کی ہے۔
خیال رہے کہ اس نئی تحقیق کے نتائج لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کی شرح میں تعلق تو بیان
کرتے ہیں مگر یہ پتھر پر لکیر نہیں۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106059.html
حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کی صحت کے شعبے میں چین کی ترقی نے دنیا کو
حیران کردیا ہے۔ (فوٹو :یوریکا الرٹ)
بیجنگ :طبّی ماہرین کے ایک عالمی پینل Bکا کہنا ہے کہ چین نے گزشتہ 70سال کے
دوران زندگی کے تمام شعبوں میں زبردست ترقی کے ساتھ ساتھ زچہ و بچہ کی صحت
کے حوالے سے بھی غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
| 77 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہ اعتراف دنیا کے مشہور و معتبر طبّی تحقیقی مجلے ’’دی لینسٹ‘‘ کے تازہ شمارے
میں ’’لینسٹ کمیشن‘‘ کے تحت شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں کیا گیا ہے جو
مرڈوک چلڈرنز ہاسپٹلٓ ،اسٹریلیا کے پروفیسر جارج پیٹن کی سربراہی میں مرتب کی گئی
ہے۔
رپورٹ میں حاملہ خواتین ،زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی صحت و زندگی سے متعلق 70
سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا ہے جو 1949سے 2019کا احاطہ کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کا خالصہ یہ ہے کہ چین میں زچگی کے وقت مرنے والی خواتین کا تناسب
1949میں ایک الکھ میں سے 1500جتنا تھا جو 2019تک کم ہو کر ایک الکھ میں
صرف 17.8رہ گیا۔
شرح اموات 1949میں ہرِ دوسری جانب چین میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی
1000میں سے 200پر تھی جو 2019تک کم ہوتے ہوتے محض 5.6فی 1000رہ گئی۔
عالوہ ازیں خواتین کی تولیدی ،حمل کے دوران ،زچگی کے وقت اور زچگی کے بعد
عمومی صحت کے عالوہ بچوں میں بھی پیدائش سے لے کر بلوغت میں قدم رکھنے تک
صحت سے متعلق 70سالہ اعداد و شمار بھی اس تجزیئے میں شامل کیے گئے۔
ان تمام حوالوں سے بھی چین نے غیرمعمولی ترقی کرتے ہوئے خود کو ماضی کے
مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر بنایا ہے۔
رپورٹ میں سرکاری سطح پر اس عزم کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو اس متعلق پالیسیاں
بنانے اور ان پالیسیوں پر عملدرٓامد میں بھی نمایاں نظر ٓاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ٓاج چین میں صحت سے متعلق سہولیات کا موازنہ کسی بھی ترقی یافتہ
ملک سے کیا جاسکتا ہے جبکہ وہاں بلند معیار کی حامل طبّی سہولیات کی مانگ میں بھی
مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو وہاں صحت کے شعبے میں زبردست ترقی کی غماز ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور بچوں کی صحت کے بنیادی مسائل تقریبا ً مکمل حل
کرنے کے بعد ،جدید چین کو ٓاج نئے چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا تعلق چھوٹے بڑے بچوں
میں نفسیاتی مسائل ،وقتا ً فوقتا ً سر اُٹھانے والی وباؤں اور خواتین کی عمومی صحت وغیرہ
سے ہے۔
زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق دیگر اہداف 2030تک حاصل کرنے پر زور دینے کے
ساتھ ساتھ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم ٓامدنی والے دوسرے ممالک کو بھی
ت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ چین کی طرز پر حکم ِ
https://www.express.pk/story/2182406/9812/
| 78 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
الہور(نیٹ نیوز) طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ ٓالو بخارا کا استعمال ہارٹ اٹیک ،فالج اور
غشی کا خطرہ کم کرتا ہے ۔طبی ماہرین کے مطابق یہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے لہٰ ذا
بالوں کی نشوونما اور جلد کی خوبصورتی کیلئے بہترین ہے جبکہ یہ اینٹی ڈپریسنٹ بھی
ہے اور جسم میں خون کی کمی بھی دور کرتا ہے۔ ٓالو بخارا معدے اور نظام ہاضمہ کو
درست رکھتا ہے جبکہ یہ یرقان ،ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے پتے ناریل کے تیل میں ایک گھنٹہ دھوپ میں رکھیں ،اس کے
بعد اس تیل کو بالوں میں لگائیں بالوں کے متعدد مسائل جیسے خشکی ،بال جھڑنا ،بے
رونقی وغیرہ کا خاتمہ ہوگا اور بال لمبے اور گھنے ہوں گے۔
https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/602963
الہور( :سپیشل فیچر) ہماری غذائی تبدیلیوں کے باعث ملک میں اینگزائٹی کا مرض بہت
ہی عام ہو گیا ہے۔ کوئی کم اور کوئی فرد زیادہ ،اس میں مبتال ہے۔ اس کی کئی وجوہات
| 79 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہیں جن میں خوف اور ذہنی تناؤ بھی شامل ہیں۔ روزمرہ کے کام کا دباؤ ،چڑچڑا پن،
ارتکاز توجہ کی کمی ،کام کا تناؤ اور مسائل ،دل کی دھڑکن ،پٹھوں کے امراض اور
سینے کی جکڑن بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔
اکثر مریضوں کو عالج کی مکمل سہولت بھی دستیاب نہیں لیکن ہم اپنی غذامیں تبدیلی کے
ذریعے اس مرض پر کسی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔ کچھ پھلوں ،سبزیوں ،اجناس ،دالیں
کو خوراک میں شامل کر کے اینگزائٹی سے بچا جا ) (protein Leanاور ہلکی لحمیات
سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی خوراک میں چند تبدیلیاں لے ٓائیں تو پریشانی ہی نہ اٹھانا پڑے۔
سیلینیم والی غذائیں
یہ کیمیکل موڈ کو بہتر بناتا ہے لہٰ ذا جن غذائوں میں سیلینیم پایا جاتا ہے وہ غذائیں
اینگزائٹی میں کمی کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ موڈ کو بہتربنا کر سوزش میں بھی کمی التا
ہے۔سیلینیم انٹی ٓاکسیڈنٹ بھی ہے جو خلیوں کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ
کیمیکل سرطان کو بڑھنے سے بھی روکتا ہے لیکن خیال رہے کہ اس کیمیکل کی مقدار
بالغ
ہرگز بڑھنے نہ پائے،کیونکہ مقدار میں اضافہ کئی خرابیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ہر ٖ
مرد کیلئے 400مائیکرو گرام سے زیادہ سیلینیم کی تجویز نہیں کیا جاتا۔ ل ٰہذا اس کے
سپلیمنٹ ڈاکٹروں کے مشورے سے ہی استعمال کیجئے۔
میوہ جات
میوہ جات حیاتین ای کا اچھا سورس ہیں۔حیاتین ای ٓاکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے اینگزائٹی
کے عالج میں بھی مفید ہے۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ حیاتین ای کی کمی کچھ افراد میں
اینگزائٹی کا باعث بن سکتی ہے۔
فیٹی فش (ٹونا مچھلی یا اومیگا مچھلی)
| 80 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اور ہیرنگ مچھلی بھی اومیگا تھری اور فور کی ) (Mackerelٹرائوٹ ،سامن ،اسقمری
ماخذ ہیں۔ان کا بھی ذہنی صحت سے تعلق ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بہت زیادہ
اومیگا سکس استعمال کرنے والے بھی اگر اومیگا تھری نہ کھائیں تو اینگزائٹی کا شکار ہو
سکتے ہیں۔اومیگا تھری غذائوں میں پایاجانے واال خاص قسم کا تیزاب الفا لینو لینک تیزاب
کہا جاتا‘‘ DHAاور ‘‘ EPAدو مزید اہم تیزابی مادے پیدا کرتا ہے،جنہیں ))ALA
ہے،یہ دونوں تیزابی مادے نیورو ٹرانسمیٹرز کے افعال کو درست بنا تے ہیں اور سوزش
میں کمی التے ہیں،ان دونوں تیزابی مادوں کو دماغی صحت کیلئے الزمی جزسمجھا جاتا
ہے۔اگرچہ مقدار مزید تحقیق کی جا رہی ہے لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہفتے میں
تین بار فیٹی فش کافی رہے گی۔
حیاتین ڈی والی غذائیں
سالمن اور سارڈین مچھلیاں حیاتین ڈی کا بھی خزانہ ہیں ۔محققین نے حیاتین ڈی کا تعلق
بھی موڈ ،ڈپریشن اور اینگزائٹی\ سے جوڑا ہے۔حیاتین ڈی سردیوں میں پیدا ہونے والے
پر قابو پانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ) ‘‘ (SADسیزنل ڈس ٓارڈر
انڈے
انڈے حیاتین ڈی اورپروٹین کاخزانہ ہے۔ اس میں مکمل پروٹین پائی جاتی ہے یعنی امائنو
ایسڈز۔ جو جسمانی نشو و نما کیلئے ناگزیرہیں۔انڈوں\ میں پائی جانے والی ٹرپٹو فین،
سیروٹونین کی تیاری میں بھی مدد دیتی ہیں۔ سیروٹونین بھی موڈ ،یاد داشت ،نیند اور طرز
عمل کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتا ہے۔اس سے ذہنی سکون ملتا ہے۔
کدو اور کیلے کے بیج
کیلے اور کدو کے بیج پوٹاشیم کا خزا نہ ہیں ،جو سٹریس اور اینگزائٹی کی عالمات میں
کمی ال سکتے ہیں۔یہ خون کے دبائو اور الیکٹروالئٹس میں بھی توازن قائم رکھتے ہیں۔کدو
کے بیجوں میں زنک کی موجودگی بھی موڈ کیلئے اچھی ہے۔کیونکہ زنک بھی دماغ اور
اعصابی نظام کی کی نشو و نما کیلئے ضروری ہے۔زنک دماغ میں جذبات سے متعلق
حصے میں بھی پائی جاتی ہے۔
ہلدی
ا سکا ایک )‘‘(Curcuminاس مصالحے کاہمارے ہاں عام استعمال کیاجاتا ہے۔ کرکومین
اہم جزو ہے۔یہ بھی سوزش میں کمی کے ذریعے اینگزائٹی\ پر قابو پانے میں معاون بنتا
ہے۔یہ بالغ اور موٹے افراد میں بھی اینگزائٹی کو کم کرسکتاہے۔یہ خاص قسم کے تیزاب
کی پیداوار میں بھی اضافے کا سبب بن کر اینگزائٹی کو کم کرتا ہے۔ہرفرد کو DHA500
سے 1000ملی گرام یومیہ کرکومین کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ چائے کے ایک چمچے
میں دو سو ملی گرام کرکومین ہوتی ہے۔
| 81 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہ کھٹا میٹھا خوبصورت پھل صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مفید
ویب ڈیسک
مئ 25 2021
کھٹے میٹھے آڑو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو سب سے پہلے 8ہزار سال
سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں کاشت کیا گیا تھا۔
آڑو آلوبخارے ،خوبانی ،چیری اور بادام سے منسلک کیا جاتا ہے جن کے پھل میں ٹھوس
بیج ہوتے ہیں۔
آڑو کو پھل کی شکل میں بھی کھایا جاسکتا ہے اور مختلف اقسام کی سالد اور پکوانوں
کے ذریعے بھی جزوبدن بنایا جاسکتا ہے۔
آڑو متعدد غذائی اجزا سے بھرپور پھل ہے جس سے متعدد طبی فوائد بشمول نظام ہاضمہ
میں بہتری ،ہموار جلد اور دیگر حاصل ہوسکتے ہیں۔
اس پھل کے چند حیرت انگیز فوائد درج ذیل ہیں۔
متعدد غذائی اجزا اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور
آڑو میں متعدد وٹامنز ،منرلز اور مفید نباتاتی مرکبات موجود ہوتے ہیں۔
ایک درمیانے سائز کے آڑو میں سے جسم کو 58کیلوریز ،ایک گروم پروٹین ،ایک گرام
سے کم چکنائی 14 ،گرام کاربوہائیڈریٹس 2 ،گرام فائبر ،وٹامن سی کا روزانہ درکار مقدار
کا 17فیصد حصہ ،وٹامن اے کا روزانہ درکار مقدار کا 10فیصد حصہ ،پوٹاشیم کا
| 82 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
روزانہ درکار مقدار کا 8فیصد حصہ ،وٹامن ای کا روزانہ درکار مقدار کا 5فیصد حصہ،
وٹامن کے کا روزانہ درکار مقدار کا 5فیصد حصہ ،کاپر کا روزانہ درکار مقدار کا 5
فیصد حصہ اور مینگنیز کا روزانہ درکار مقدار کا 5فیصد حاصل ہوتا ہے۔
اس کے عالوہ آڑو میں میگنیشم ،فاسفورس ،آئرن اور کچھ بی وٹامنز کی معمولی مقدار
بھی موجود ہوتی ہے۔
اسی طرح اس پھل میں نباتاتی مرکبات کی شکل میں اہم اینٹی آکسائیڈنٹس ہوتے ہیں جو
تکسیدی نقصان کا مقابلہ کرتے ہیں اور جسم کو عمر میں اضافے اور امراض سے تحفظ
فراہم کرتے ہیں۔
نظام ہاضمہ کے لیے مفید
آڑو نظام ہاضمہ کو صحت مند بنانے میں بھی مددگار پھل تصور کیا جاتا ہے۔
ایک درمیانے سائز کے آڑو سے 2گرام فائبر ملتا ہے جن میں سے 50فیصد حل ہوجانے
واال اور باقی حل نہ ہونے واال فائبر ہوتا ہے۔
حل نہ ہونے واال فائبر قبض سے بچاتا ہے جبکہ حل ہوجانے واال فائبر آنتوں میں موجود
صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی غذا ثابت ہوتا ہے ،جس سے مفید فیٹی ایسڈز بنتے ہیں ،جو
ورم اور ہاضمے کے امراض سے بچاتے ہیں۔
دل کی صحت بھی بہتر کرے
پھلوں بشمول آڑو کو کھانے سے دل کی صحت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔
آڑو کھانے کی عادت ممکنہ طور پر امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر جیسے
ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق آڑو میں موجود مرکبات بائل ایسڈز کو جکڑ کر بلڈ کولیسٹرول
کی سطح میں کمی النے میں مدد کرتے ہیں۔
جانوروں پر ہونے والی تحقیق میں آڑو کے استعمال سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح
میں کمی کو دریاففت کیا گیا تاہم انسانوں پر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
جلد کے لیے مفید
آڑو جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے بھی بہترین پھل ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق اس پھل میں موجود مرکبات جلد کی نمی برقرار رکھنے کی
صالحیت کو بہتر بناتے ہیں جس سے جلد کی ساخت بہتر ہوتی ہے۔
مخصوص اقسام کے کینسر سے ممکنہ تحفظ
بیشتر پھلوں کی طرح آڑو میں ایسے مفید نباتاتی مرکبات ہوتے ہیں جو مخلف اقسام کے
کینسر سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتےہ یں۔
خصوصا ً آڑو کی جلد اور گودا کیروٹین اور کیفیک ایسڈ جیسے 2اینٹی آکسائیڈنٹس کی
مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو کینسر کش خصوصیات کے حامل ہیں۔
اس پھل میں پولی فینولز کی شکل میں ایسے اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہیں جو کینسر زدہ
خلیات کی نشوونما اور پھیالؤ کو ممکنہ طور پر محدود کرسکتےہ یں۔
| 83 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ابتدائی تحقیقی رپورٹس کے مطابق آڑو میں موجود پولی فینولز کینسر زدہ خلیات کو
مارنے کی صالحیت بھی رکھتے ہیں جبکہ صحت مند خلیات کو نقصان نہیں ہوتا۔
اس مقصد کے لیے روزانہ 2سے 3آڑو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مطلوبہ مقدار
میں پولی فینولز جسم میں جاسکیں ،تاہہم اس حوالے سے انسانوں پر مزید تحقیق کی
ضرورت ہے۔
الرجی عالمات میں کمی
آڑو سے الرجی عالمات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔
جب جسم کسی الرجی سے متاثر ہوتا ہے تو ایک ایسا کیمیکل جسم میں خارج ہوتا ہے جس
کا مقصد الرجی سے چھٹکارا ہوتا ہے۔
یہ کیمیکل جسم کے دفاعی نظام کا حصہ ہے اور اس سے الرجی کی عالمات جیسے
چھینکیں ،خارش یا کھانسی متحرک ہوتی ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آڑو سے ممکنہ طور پر الرجی کی عالمات کی شدت کو کم
کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ خون میں اس مخصوص کیمیکل کے اخراج کی روک تھام کرتی
ہے۔
تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مدافعتی نظام مضبوط کرے
آڑو میں مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے والے اجزا اور اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہوتے ہیں
جو کہ مخصوص اقسام کے بیکٹریا سے لڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
زہریلے اثرات سے تحفظ
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آڑو کے ایکسٹریکٹ\ سے تمباکو نوشی کے عادی افراد
میں پیشاب کے ذریعے نکوٹین کے اخراج کو بڑھانے میں مدد ملی۔
بلڈ شوگر کم کرے
تحقیقی رپورٹس کے مطابق آڑو میں موجود مرکبات بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھنے سے
روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ انسولین کی مزاحمت کی روک تھام بھی
کرتے ہیں۔
مگر اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس زیادہ بڑی نہیں تھیں اور مزید تحقیق کی ضرورت
ہے۔
آسانی سے دستیاب
آڑو اس موسم میں ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں اور غذا میں ان کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
پھل کی شکل میں کھا سکتے ہیں سالد ،جوس یا دیگر اشکال میں بھی ان کو کھایا جاسکتا
ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1160680/
| 84 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
موڈرنا کی کووڈ ویکسین 12سے 17سال کے گروپ کیلئے مؤثر قرار
ویب ڈیسک
مئ 25 2021
| 85 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ان رضاکاروں میں سے دوتہائی کو موڈرنا ویکسین کی 2خوراکیں دی گئی جبکہ باقی سب
کو پلیسبو انجیکشن لگائے گئے۔
اس ٹرائل کا مقصد ویکسین کے استعمال سے رضاکاروں کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ
بالغ افراد کے ردعمل سے کرنا تھا۔
کمپنی نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کے استعمال سے 12سے 17سال
کے گروپ میں بننے واال مدافعتی ردعمل بالغ افراد سے ملتا جلتا تھا۔
کمپنی کی جانب سے اب جون کے شروع میں اس ڈیٹا کو ریگولیٹرز\ کو جمع کرانے کی
منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے بھی اسی طرح کی تحقیق کے بعد یو ایس فوڈ اینڈ
ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے بچوں کے لیے ویکسین کے استمال کی منظوری حاصل کی گئی
تھی۔
موڈرنا کی تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد کووڈ
کے عالمات والے کیسز بچوں میں نظر آتے ہیں۔
ٹرائل میں شامل میں 4رضاکاروں میں کووڈ 19کی تشخیص ہوئی اور یہ سب پلسبو
گروپ کا حصہ تھے۔
اس ٹرائل کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔
موڈرنا کے مطابق 12سے 17سال کی عمر کے گروپ میں ویکسن کے قابل برداشت اور
محفوظ ہونے کا تسلسل بالغ افراد کے ٹرائل جیسا ہی ہے۔
اس عمر کے گروپ میں ویکسین کے استعمال سے سب سے عام مضراثرات میں سردرد،
تھکاوٹ ،مسلز میں تکلیف اور ٹھنڈ لگنا قابل ذکر تھے
https://www.dawnnews.tv/news/1160688/
صحت پر بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں جنہیں جاننا اور اِن کا استعمال کرنا صحت
کے لیے نہایت ضروری ہے۔
غذائی ماہرین کی جانب سے لوبیا کو غذائیت سے بھر پور مفید غذا قرار دیا جاتا ہے جبکہ
طبی ماہرین اس کا استعمال بطور غذا ایک کپ روزانہ کی بنیاد پر تجویز کرتے ہیں ۔
| 86 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بینائی کی کمزوری یا خون کی کمی کی شکایت لے کر جب بھی کوئی مریض ڈاکٹر کے
پاس جاتے ہیں تو ایسے میں انہیں معالج راجما کے استعمال کا مشورہ الزمی دیتے ہیں،
ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں\ کو تجویز دی جانے والی مثبت غذاؤں کی فہرست میں
بھی لوبیا ضرور نظر ٓاتا ہے۔
لوبیا میں پروٹین ،فائبر ،فولیٹ ،میگنیشیم ،پوٹاشیم اور دیگر اہم غذائی اجزا بھرپور مقدار
میں پائے جاتے ہیں ،راجما کی افادیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے ’الل لوبیا‘ کو
غریبوں کا گوشت بھی کہا جاتا ہے۔
الل لوبیا کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں جن میں سے چند
:مندرجہ ذیل درج ہیں
لوبیا میں فولیٹ (وٹامن بی )9اور فائبر بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے جس کے سبب اس کا
استعمال دل کی بیماریوں سے بچاتا ہے اور شریانوں کو کشادہ کرتا ہے۔
لوبیا میں موجود ڈائیٹری فائبر نظام ہاضمہ کے راستوں میں جیل کا کام کرتا ہے جو
کولیسٹرول کو جسم سے خارج کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ،اس کے استعمال سے جسم
سے اضافی اور منفی کولیسٹرل کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔
لوبیا اینٹی ٓاکسیڈنٹ خصوصیات کے باعث اینٹی ایجنگ صالحیت کا حامل ہے ،اسے
کھانے سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔
لوبیا بلڈشوگر کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے اور ٓائرن کی کمی دور کرتا
ہے۔
| 87 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لوبیا کا استعمال وزن میں کمی کا ذریعہ بنتا ہے ،اس کا روزانہ استعمال وزن میں تیزی
سے کمی التا ہے۔
لوبیا جسم کے لیے انتہائی ضروری جز پروٹین پر مشتمل اور مضر صحت کولیسٹرول
سے پاک غذا ہے جو مجموعی صحت کی بہتری کے لیے بےحد ضروری ہے۔
الل لوبیا کو استعمال میں کیسے الیا جائے ؟
الل لوبیا کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے ،اسے اچھی طرح دھو کر رات بھر
بھگودیں پھر اسے اُبال کر اس سے مختلف پکوان بنالیں۔
بچوں کو کھالنے کے لیے اسے مختلف طرح کے کٹلس میں شامل کرسکتے ہیں۔
وزن میں کمی کے خواہشمند افراد اسے روزانہ سالد میں شامل کر کے بھی کھا سکتے
ہیں۔
چھوٹے بچے پراٹھا شوق سے کھاتے ہیں ،اسے ٓالو کے ساتھ میش کرکے اس کا پراٹھا بنا
کر بچوں کو کھال سکتے ہیں۔
سوپ کے ذائقے اور غذائیت میں اضافے کے لیے اس میں الل لوبیا شامل کریں۔
جب بھی کوئی سبزی ،ترکاری بنائیں اس میں الل لوبیا شامل کر لیں۔
چناچاٹ کی طرح ٓاپ اس کی بھی مزیدار چاٹ بناسکتے ہیں یا مکس چنا چاٹ میں بھی اس
کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
گھر میں بنائے گئے اسپرنگ رولز اور سموسوں میں بھی اس کا استعمال با ٓاسانی کیا جا
سکتا ہے۔
چائنیز رائس یا پالٔو میں الل لوبیا شامل کر کے ذائقہ اور صحت دونوں کو بڑھایا جا سکتا
ہے ۔
https://jang.com.pk/news/932798
| 88 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ الک ڈاﺅن کے اس فائدے کی وجہ سے ممکنہ طور پررواں اور
آئندہ سال کے دوران ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 32ہزار کی
کمی واقع ہو گی۔ گویا کورونا وائرس کی وجہ سے یہ 32ہزار جانیں بچ گئیں۔تحقیقاتی ٹیم
کے سربراہ گوئیالﺅمے کوئسری کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں ہم نے سیٹالئٹ سے بھی
فضاءکا مشاہدہ کیا ہے اور 36ممالک میں لگے میٹرز سے بھی ماحول میں کاربن ڈائی
آکسائیڈ کی پیمائش کی ہے۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں الک ڈاﺅن کی وجہ
سے ماحول میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں واضح کمی آئی ہے۔اس کمی سے
صرف چین میں 21ہزار اموات کم ہوں گی۔
https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292253
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا شہد کی مکھیوں میں بھی انسانوں کی طرح کی جنسی
عادات پائی جاتی ہیںاور کیا ان کے چھتوں میں بھی ’نائٹ کلب‘ ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے
سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف کر دیا ہے ۔ میل آن الئن کے مطابق
سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں پر کی جانے والی طویل تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ
شہد کی نر مکھیوں کی جنسی زندگی مردوں کے مشابہہ ہوتی ہے۔
نر مکھیاں بعض مخصوص عالقوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں ،جس طرح مرد نائٹ کلبوں
میں زیادہ جاتے ہیں۔ ان عالقوں میں خواتین کی طرح دیگر عالقوں کی مادہ مکھیاں بہت
کم جاتی ہیں۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین نے اس تحقیق میں نر اور مادہ مکھیوں کی
نقل و حرکت اور جنسی تعامل کا سراغ لگانے کے لیے ریڈار ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔
جس میں معلوم ہوا کہ نر مکھیاں بڑے بڑے گروپوں کی شکل میں بعض مخصوص
،جگہوں پر اکٹھی ہوتی ہیں۔ جن جگہوں پر یہ نر مکھیاں اکٹھی ہوتی ہیں
ریڈار کے ذریعے ’کنواری‘ مادہ مکھیوں کے ان جگہوں کی طرف جانے کا بھی سراغ
مال ہے۔ تحقیق میں ان جگہوں کی طرف دیگر مادہ مکھیوں کو بہت کم جاتے دیکھا گیا ۔
| 89 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ووڈگیٹ کا کہنا تھا کہ یہ جگہیں ہوا میں موجود ہوتی ہیں
جہاں یہ نر اور ملکہ مکھیاں مالپ کرتی ہیں۔ ان جگہوں پر عام طور پر 10ہزار تک نر
مکھیاں اکٹھی ہوتی ہیں۔ تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مکھیاں نسل
درنسل انہی مخصوص جگہوں پر ہی مالپ کے لیے اکٹھی ہوتی ہیں ،یا آئندہ نسلیں اپنے
لیے مختلف جگہوں کا تعین کرتی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہو گی۔
https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292257
ویب ڈیسک
مئی 23 2021
کووڈ 19سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے
والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم
ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے 97فیصد افراد میں
ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔
یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں 250ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو
فروری سے اپریل 2020کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ
اوسطا ً ان افراد میں 6ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98فیصد اور
ایک سال بعد 97فیصد تھی۔
| 90 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئیں ان
میں 6ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97فیصد جبکہ ایک سال بعد 96فیصد تھی ،جبکہ
سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 100فیصد تھی۔
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد
میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین عالمات کا سامنا
کرنے والے افراد میں 6ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح 90فیصد تک تھی۔ تاہم
جن افراد میں عالمات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی ،ان میں اینٹی باڈیز کی شرح 6
بعد گھٹ کر 85فیصد اور ایک سال بعد 79فیصد ہوگئی۔
ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں
وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے ،اس لیے
ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔
اس سے قبل مئی 2021میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ
کووڈ 19کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خالف مزاحمت کرنے والی
اینٹی باڈیز کم از کم 8ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو
بھی ہو ،یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8ماہ تک موجود رہتی ہیں۔
اس تحقیق کے دوران 162کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی
پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا ،ان میں سے 29مریض ہالک
ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020میں اکٹھے کیے گئے
اور ایک بار پھر نومبر 2020کے آخر میں ایسا کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز
موجود تھیں ،اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی ٓائی ،مگر بیماری کی تشخیص
کے 8ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔
تحقیق میں صرف 3مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔
https://urdu.arynews.tv/antibodies-in-covid-patients/
| 91 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق برازیل میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ماضی
میں ڈینگی کا سامنا کرنے والے افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے پر کووڈ کی
عالمات ابھرنے کا امکان دگنا ہوتا ہے۔
یونیورسٹی ٓاف ساؤ پاؤلو بائیو میڈیکل سائنس انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں برازیل کے
ایمیزون خطے کے ایک قصبے کے 12سو 85افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا
گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ڈینگی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں ان میں کووڈ
19سے سنگین حد تک بیمار ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ایک طرف کووڈ 19کے نتیجے میں ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات
متاثر ہوئے ہیں ،وہی دوسری جانب ڈینگی سے کووڈ کا شکار ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا
ہے۔
یہ تحقیقی ٹیم عرصے سے اس خطے میں ملیریا کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے
اور 2018میں انہوں نے ہر ماہ بعد قصبے کی آبادی کے سروے کا پراجیکٹ شروع کیا
تھا ،تاہم کرونا وائرس کی وبا کے بعد اس کا رخ کووڈ کی جانب موڑ دیا گیا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ستمبر 2020میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایسے عالقے جہاں
ڈینگی کے کیسز بہت زیادہ رپورٹ ہوچکے ہیں وہاں کووڈ 19سے زیادہ اثرات مرتب
نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ ہم اس خطے کے رہائشیوں کے خون کے نمونے کورونا وائرس
کی وبا کی پہلی لہر سے پہلے اور بعد میں اکٹھے کرچکے تھے ،تو ہم نے ان کو اس خیال
کی جانچ پڑتال کے لیے آزمانے کا فیصلہ کیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس کا سامنا کرنے
والے افراد کو کسی حد تک کووڈ سے تحفظ حاصل ہوتا ہے ،مگر نتائج اس سے بالکل
متضاد رہے۔
| 92 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں جن خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا وہ نومبر 2019اور نومبر 2020میں
اکٹھے کیے گئے تھے اور ان میں موجود اینٹی باڈیز کو ڈینگی تمام اقسام اور کرونا
وائرس کے خالف آزمایا گیا۔
نتائج سے ثابت ہوا کہ 37فیصد افراد نومبر 2019سے قبل ڈینگی جبکہ 35فیصد افراد
نومبر 2020سے قبل کرونا سے متاثر ہوچکے تھے۔
ماہرین کے مطابق شماریاتی تجزیے سے نتیجہ نکاال گیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس سے
متاثر ہونے سے کووڈ سے بیمار ہونے کا خطرہ کم نہیں ہوتا۔ ان کہنا تھا کہ درحقیقت
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈینگی کا سامنا ہوچکا ہے ،ان میں کرونا سے
متاثر ہونے پر عالمات ابھرنے کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/dengue-and-coronavirus/
کوروناوائرس :انسانوں میں نمودار ہونے والے پیچیدہ مسائل اور سنگین
اثرات
ویب ڈیسک
| 93 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عالمی کورونا وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کووڈ 19سے جہاں الکھوں
اموات ہوئیں وہیں ایسے پیچیدہ اور نفسیاتی مسائل بھی سامنے ٓائیں جنہوں نے ماہرین
کو پریشان کردیا ہے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہلک وائرس کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوئیں جن
میں ذہنی تناؤ ،اضطراب ،افسردگی ،عدم یقین جیسی کیفیات عام ہیں ،وبا نے لوگوں کو
جسمانی اور ذہنی اذیت میں مبتال کر رکھا ہے ،جو افراد پہلے سے اعصابی مسائل کا
شکار تھے انہیں کورونا وائرس نے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ صحت عامہ اور فالح
و بہبود کے لیے اچھی ذہنی صحت ضروری ہے ،وائرس نے دنیا بھر میں ذہنی صحت کی
خدمات کو متاثر کیا۔
انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہ\\ا کہ دم\\اغی مس\\ائل کے ش\\عبے میں ک\\ام
کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ماہر ذہنی ام\راض ڈاک\ٹر ت\امر الم\ری کورون\ا وائ\رس کے ذہ\نی ص\حت پ\ر
اثرات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ذہنی صحت پر کورونا وائرس کے متعدد اث\\رات ہیں جن
میں بے چینی کی کیفیت ،ذہنی تناؤ اور زی\ادہ غص\ہ محس\وس کرن\ا ،نین\د میں مش\کل ہون\ا،
روزمرہ کے معمول میں عدم توازن وغیرہ عام ہیں۔
ادھر آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت ہوا ہے کہ کورونا سے صحت ی\\اب ہ\\ونے
والے 18فیصد مریض 3م\\اہ کے ان\\در ہی ذہ\\نی بیم\\اریوں ک\\ا ش\\کار ہوج\\اتے ہیں ،ان میں
مختلف نفسیاتی پریشانیوں کو بھی دیکھا گیا۔
https://urdu.arynews.tv/coronavirus-complex-problems-and-serious-
side-effects-in-humans/
ویب ڈیسک
مئی 24 2021
نئی دہلی :بھارت میں پائی جانے والی کورونا وائرس کی انتہائی مہلک قسم نے تباہی
پھیالئی ہوئی ہے جس کے سدباب کیلئے سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق فائزر /بائیو این ٹیک اور ایسٹرازینیکا /آکسفورڈ یونیورسٹی کی
تیار کردہ کوویڈ ویکسینز بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے
خالف بہت زیادہ مؤثر قرار پائی ہیں۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں
دریافت کی گئی۔
| 94 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان دونوں ویکسینز کی دو خوراکوں سے
کورونا کی بھارتی قسم سے ہونے والی عالمات والی بیماری سے لگ بھگ برطانوی قسم
جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔
تاہم دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے تین ہفتوں بعد بھارت میں دریافت قسم کے خالف
محض 33فیصد تحفظ ہی ملتا ہے ،جبکہ برطانیہ میں دریافت قسم کے خالف دونوں
ویکسینز کی ایک خوراک سے 50فیصد تحفظ ملتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ویکسینز ممکنہ طور پر اسپتال میں داخلے اور اموات کی روک
تھام کے لیے اس سے بھی زیادہ مؤثر ہوں گی۔
برطانیہ میں موڈرنا ویکسین کا استعمال بھی اپریل سے ہورہا ہے مگر تحقیق کے مطابق
بہت کم افراد کو یہ ویکسین دی گئی تو اسے تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کورونا کی دوسری خوراک استعمال کرنے
کے 2ہفتے بعد کورونا کی بھارتی قسم سے 88فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ برطانوی
قسم کے خالف 93فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی کورونا کی بھارتی قسم کے خالف افادیت 60
فیصد ہے جبکہ برطانوی قسم سے بچاؤ میں 66فیصد تک مؤثر ہے۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ
ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے
بعد دی جاتی ہے۔
| 95 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت کو عروج تک پہنچنے کے
لیے زیادہ وقت لگتا ہے۔ تحقیق کے لیے 12ہزار سے زیادہ کیسز کے جینوم سیکونس کے
ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جو 5اپریل سے 16مئی کے درمیان کیے گئے۔
تحقیق میں 5اپریل سے ہر عمر کے گروپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا ،یعنی اس تاریخ
سے جب یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی۔ ان میں سے 154میں کورونا کی بھارتی
قسم یعنی بی 1617کو دریافت کیا گیا۔
یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی ک
https://urdu.arynews.tv/indian-corona-virus-vaccines-are-effective-
research/
واشنگٹن :حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی نئی
قسموں میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو خود کو ویکسین سے پیدا ہونے والے
مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔
| 96 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا
وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو اس وائرس کو
بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد
کرتی ہیں۔
امریکا کے اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں جرمنی اور نیدر لینڈز کے
ماہرین نے بھی کام کیا تھا اور اس میں میوٹیشنز کے بارے میں اہم تفصیالت کا انکشاف
کیا گیا۔
تحقیق میں اسٹرکچرل بائیولوجی تیکنیکوں کا استمال کر کے جانچ پڑتال کی گئی کہ
وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کس طرح وائرس کی اوریجنل قسم اور نئی اقسام کے
خالف کام کرتی ہیں اور ان کے افعال برطانیہ ،جنوبی افریقہ ،بھارت اور برازیل میں
دریافت اقسام کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
کرونا کی تشویش کا باعث بننے والی اقسام میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی
،117جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بی ،1351برازیل میں دریافت قسم پی 1اور بھارت
میں دریافت قسم بی 1617شامل ہیں۔
یہ اقسام ووہان میں پھیلنے والی وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں زیادہ متعدی قرار
دی جاتی ہیں اور حالیہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خالف اوریجنل
وائرس سے بیمار ہونے کے بعد یا ویکسی نیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کم مؤثر ہوتی
ہیں۔
ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی اقسام کچھ کیسز میں ویکسی نیشن کے باوجود لوگوں کو
بیمار کرسکتی ہیں اور اسی لیے ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ یہ اقسام کس طرح
مدافعتی ردعمل سے بچنے کے قابل ہوتی ہیں۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں آنے والی 3
میوٹیشنز کے 417این ،ای 484کے اور این 501وائے پر توجہ مرکوز کی۔
اکٹھے یا الگ الگ یہ میوٹیشنز کرونا کی بیشتر نئی اقسام میں دریافت ہوئی ہیں اور یہ سب
وائرس کے ریسیپٹر کو جکڑنے والے مقام پر ہیں۔
محققین نے اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ان میں سے بیشتر اینٹی باڈیز
کی وائرس کو جکڑنے اور اسے ناکارہ بنانے کی صالحیت کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔
اسٹرکچرل امیجنگ ٹیکنیکس کو استعمال کر کے ماہرین نے وائرس کے مختلف حصوں کا
نقشہ بناکر جانچ پڑتال کی کہ کس طرح میوٹیشنز ان مقامات پر اثر انداز ہوتی ہیں جن کو
اینٹی باڈیز جکڑ کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔
نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی اوریجنل قسم کے خالف اینٹی باڈیز کا ردعمل بہت
مؤثر ہوتا ہے مگر مخصوص اقسام اس سے بچنے کی اہلیت رکھتی ہیں ،چنانچہ بتدریج
ویکسینز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔
https://urdu.arynews.tv/research-on-coronavirus-mutations/
| 97 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سخت گرمی میں کون سی غذائیں کھانی چاہیئں؟ ماہر صحت کا مفید
مشورہ
ویب ڈیسک
مئی 24 2021
گرمیوں کا موسم آتے ہی ہم بہت سے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیز دھوپ ،گرمی اور
لو کی وجہ سے جسم كے درجہ حرارت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس
کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی اور دیگر امراض کا سامنا رہتا ہے۔
گرمیوں میں سب سے اہم چیز جس کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے وہ ہے غذا کیونکہ کھانے
پینے میں چیزوں کا صحیح استعمال ہمیں بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
گرمیوں میں بیکٹیریا اور دیگر وائرسز زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں ،ہیٹ اسٹروک اور لوُ
کے سبب پیٹ کی بیماریاں جنم لیتی ہیں جبکہ صاف ،تازہ ،سادہ اور قدرتی غذأوں کے
سبب انسان متعدد بیماریوں اور موسمی شکایات سے محفوظ رہتا ہے جبکہ مضر صحت
غذا کے استعمال سے صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔
ان بیماریوں اور وائرسز سے بچا کیسے جائے؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے
پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹر عبدہللا بن خالد نے اپنے مفید مشوروں سے
آگاہ کیا۔
| 98 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے بتایا کہ غذا میں اعتدال پسندی بہت ضروری ہے ،پھلوں سبزیوں اور گوشت کے
اپنے اپنے فوائد ہیں جن کا استعمال بہت ضروری ہے۔ لیکن ان کو کھانے کا ٹائم ٹیبل ہونا
چاہیے ،سبزی اور پھل روزانہ استعمال کیے جائیں جبکہ گوشت ہفتے میں ایک بار الزمی
ہے۔
انہوں نے کہا کہ کھانے کی اشیاء وہ استعمال کریں جس میں تیل اور گھی کی مقدار کم ہو،
تلی ہوئی چیزوں سے اجتناب کریں ،اس کے عالوہ سافٹ ڈرنک سے جتنبا بچیں اتنا اچھا
ہے۔واضح رہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ دھوپ کی شدت بڑھتی جارہی ہے ،سخت گرم
موسم دوسرے مسائل کے عالوہ اپنے ساتھ کئی امراض بھی لے کر ٓاتا ہے۔ بیماریوں کے
عالوہ شدید گرم موسم میں ہیٹ اسٹروک یعنی لُو لگ جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/extreme-heat-wave-health-specialist/
| 99 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا
انکشاف
ویب ڈیسک
بڑھاپے میں ذہن و یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمینشیا کے بڑھاپے سمیت کئی
عوامل ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے ٓائی ہے۔
حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ذہنی صحت اور یاداشت کو متاثر کرنے
والی بیماری ڈیمنشیا کے الحق ہونے کے خطرات مرد و خواتین میں یکساں ہوتے ہیں۔
تحقیق میں علم ہوا کہ مردوں میں یہ بیماری ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر یعنی دونوں
صورتوں میں الحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن خواتین میں یہ مرض صرف ہائی
بلڈ پریشر کے باعث ہوتا ہے۔
ماہرین نے وسط زندگی میں ہونے والے امراض قلب کے خطرات پر مبنی فیکٹرز اور
ڈیمنشیا کا دونوں جنس پر تجزیہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے ٓایا کہ مرد و خواتین میں بیماری
الحق ہونے کے امراض قلب پر مبنی خطرات یکساں تھے۔
یہ تحقیق جارج انسٹی ٹوٹ کے ماہرین نے 5الکھ سے زائد افراد پر کی۔ تحقیقی ٹیم کی
سربراہ جسیکا گونگ کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج
کی تصدیق ہوسکے تاکہ اس کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ کر
مستقبل میں اس مرض سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/research-on-dementia/
ویب ڈیسک
مئ 24 2021
| 100 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
| 101 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ
ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے
بعد دی جاتی ہے۔
ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت کو عروج تک پہنچنے کے
لیے زیادہ وقت لگتا ہے۔
تحقیق کے لیے 12ہزار سے زیادہ کیسز کے جینوم سیکونس کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جو
5اپریل سے 16مئی کے درمیان کیے گئے۔
تحقیق میں 5اپریل سے ہر عمر کے گروپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا ،یعنی اس تاریخ
سے جب یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی۔
ان میں سے 154میں کورونا کی بھارتی قسم یعنی بی 1617کو دریافت کیا گیا۔
یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی چیف ایگزیکٹیو\ ڈاکٹر جینی ہیرس نے کہا کہ یہ حقیقی
دنیا میں اس نئی قسم کے خالف ویکسین کی افادیت کا پہال ثبوت ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1160553/
ہم کورونا کی وبا کے خالف حالت جنگ میں ہیں ،انٹونیو گوٹیرش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ دنیا اس وقت کورونا
وائرس کی عالمی وبا کے خالف حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کو جیتنے کے لیے
عالمی برادری کو اپنی جدوجہد میں جنگ کی منطق اپنانا ہو گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش
عالمی ادارے کے سربراہ نے جنیوا میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساالنہ
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیر چوبیس مئی کے روز کہا'' ،ساری دنیا ،ہم سب ،کووڈ
| 102 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انیس کی عالمگیر وبا کے خالف جنگ کی حالت میں ہیں۔ ہم کورونا وائرس کے خالف
جنگ کر رہے ہیں اور اس جنگ میں کامیابی کے لیے ہم سب کو اس وائرس کے خالف
‘‘جنگی منطق سے کام لینا ہو گا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے رکن ممالک کے سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والے ساالنہ
اجتماع سے اپنے افتتاحی خطاب میں انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ کورونا کی عالمی وبا کے
خالف کامیابی کے لیے عالمی برادری کو اپنے جملہ 'ہتھیاروں‘ کو اسی طرح استعمال میں
النا ہو گا ،جیسے حالت جنگ میں کیا جاتا ہے۔
جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر کے بیانات
ڈبلیو ایچ او کے اسی ساالنہ اجالس کے موقع پر جرمن چانسلر انگیال میرکل اور فرانسیسی
صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی شرکاء سے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ بیانات کی صورت
میں خطاب کیا۔ ان دونوں یورپی رہنماؤں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو زیادہ مالی
وسائل مہیا کیے جانا چاہییں تاکہ وہ ہر طرح کی عالمی وباؤں کو پھیلنے سے روکنے کے
لیے متاثرہ خطوں اور ممالک کی مدد کرتے ہوئے ابتدا سے ہی مؤثر اقدامات کر سکے۔
انگیال میرکل اور ایمانوئل ماکروں نے اپنے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ڈبلیو ایچ اور
کو کسی بھی عالمی وبا کے پھوٹنے کو روکنے کے لیے ہر قسم کے قومی طبی ڈیٹا تک
رسائی بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے عالوہ میرکل اور ماکروں نے اس تجویز کی بھی
حمایت کی کہ عالمی ادارہ صحت کی وساطت سے مستقبل میں کسی بھی قسم کی عالمی
وباؤں کی بروقت روک تھام کے لیے ایک نیا بین االقوامی معاہدہ بھی طے کیا جانا چاہیے۔
چوہترویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی
ڈبلیو ایچ او کی رکن ریاستوں کا جو اجالس پیر کے روز شروع ہوا ،وہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی
یا ڈبلیو ایچ اے کہالتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا 74واں اجالس ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی
وبا کے تناظر میں اس سال یہ اجالس خصوصی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ اس میں عالمی
اعلی ترین رہنما آن الئن شرکت کر رہے ہیں۔
ٰ ادارہ صحت کے رکن ممالک کے
ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک کی تعداد 194ہے اور اتنی ہی تعداد میں ممالک امسالہ ڈبلیو
ایچ اے میں شریک ہیں۔ صحت سے متعلق یہ عالمی اسمبلی یکم جون تک جاری رہے گی۔
م م /ع ح (روئٹرز \،اے ایف پی
تاریخ24.05.2021
https://www.dw.com/ur/%DB%81%D9%85-%DA
%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%DA%A9%DB
%8C-%D9%88%D8%A8%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AE
%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%AD%D8%A7%D9%84%D8%AA-
%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-
| 103 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کووڈ :19کیا پاکستان میں کورونا مریضوں Bکی جان بچانے والی
ایمرجنسی ادویات ملنے میں مشکل پیش آ رہی ہے؟
۲۴مئی ۲۰۲۱
کورونا میں مبتال نمرہ کے والد کو ڈاکٹرز نے خون پتال کرنے والے انجیکشن ’کلیزن‘
تجویز کیے لیکن چونکہ تجویز کردہ انجیکشن ہسپتال میں دستیاب نہیں تھا اس لیے
انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں گذشتہ نو دن سے زی ِر عالج اپنے والد کے
لیے نمرہ کو ان انجیکشنز Bکا بندوبست بازار سے خود کرنا تھا۔
’ہم تین بہنیں ہیں۔ میری دو بہنیں ملک سے باہر ہوتی ہیں ،اس لیے اپنے ابو کو آئی سی یو
میں چھوڑ کر ان انجیکشنز کی تالش میں نکلنا میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔‘
نمرہ بتاتی ہیں اس دن انھیں زندگی میں پہلی دفعہ یہ خیال آیا کہ ’کاش ان کا بھی کوئی
بھائی ہوتا جو ان انجیکشنز کی تالش میں اُن کی مدد کر دیتا۔‘
نمرہ نے اسالم آباد اور راولپنڈی کی تمام فارمیسیز چھان ماریں لیکن انھیں یہ انجیکشن
کہیں سے نہیں مال۔ بآلخر انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور درخواست کی کہ اگر
| 104 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کسی کے پاس یہ انجیکشن ہے یا اس بارے میں کوئی معلومات ہے تو اُن کے ساتھ رابطہ
کرے۔
’سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے بعد میرے کچھ دوست یہ انجیکشن حاصل کرنے میں
کامیاب ہو گئے۔ لیکن جب تک یہ انجیکشن مجھے ملے بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
’ادویات یا تو مل نہیں رہی اور اگر مل رہی ہیں تو بہت مہنگی‘
نمرہ کے والد نہیں رہے مگر وہ پاکستان کی واحد شہری نہیں ہیں جنھیں ملک میں کورونا
کی تیسری لہر کے دوران ادویات کے قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس وبا سے متاثر ہونے ہونے والے افراد کے رشتہ دار اور دوست اپنے پیاروں کے لیے
کورونا کی ادویات ہر طرف ڈھونڈتے نظر آئے۔ کوئی احباب سے درخواست کرتا رہا تو
کسی نے سوشل میڈیا پر درخواست کی۔
بالول علی خان کورونا میں مبتال اپنے ایک عزیر کے لیے ’اکٹمرا‘ انجیکشن اسالم آباد
اور راولپنڈی میں تالش کرتے رہے لیکن انھیں یہ انجیکشن عام کیمسٹ کی دوکان پر میسر
نہیں ہوئے اور ان کے مطابق جن کے پاس یہ دستیاب تھے وہ اس کی منھ مانگی قیمت
مانگ رہے تھے۔
’ایکٹمرا انجیکشن دو سو ایم جی کی قیمت تقریبا ً 30ہزار روپے ہے جبکہ ہمیں یہ 70ہزار
روپے میں دیا جا رہا تھا۔‘
بالول کا کہنا ہے کہ کورونا کے ہاتھوں مجبور لوگ ان ادویات کو منھ مانگی قیمت پر
خریدنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں ادویات اور آکسیجن کی قلت کب ہوئی؟
پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کا آغاز جب رواں برس مارچ کے وسط میں ہوا تو
کورونا کیسز کی یومیہ تعداد اتنی تیزی سے بڑھی کہ چند دنوں ہی میں ہسپتالوں کے آئی
سی یو بستر اور وینٹیلیٹرز گنجائش کی حد تک بھر گئے۔
بڑھتے کیسز کے پیش نظر حکومت نے کورونا سے متعلق پابندیاں بڑھاتے ہوئے حفاظتی
اقدامات اٹھانے شروع کر دیے لیکن کورونا کے کیسز بڑھتے چلے گئے۔ 18اپریل 2021
کو وبا کے آغاز کے بعد سے دوسری مرتبہ ملک میں چھ ہزار سے زائد یومیہ کیسز
ریکارڈ کیے گئے۔
دارالحکومت اسالم آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز نے 23اپریل کو اعالن کیا
کہ ہسپتال میں کورونا مریضوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہوگئی ہے لہذا حکومت آئی
سی یو بستروں میں فوراً اضافہ کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ کووڈ سے ہونے والی اموات میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور 28اپریل کو
پاکستان میں وبا کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ 201یومیہ ہالکتیں ریکارڈ کی گئیں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بیان کے مطابق پاکستان اپریل کے آخری ہفتے
میں ملک میں تیار کردہ آکسیجن کا 90فیصد ہسپتالوں میں استعمال کر رہا تھا۔
| 105 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سماجی کارکن سلمان صوفی نے ملک میں آکسیجن کی کمی کے بائث آکسیجن بینک قائم
کرنے کا اعالن کیا۔ اس بینک کا مقصد گھر میں زیر عالج کورونا کے مریضوں کو
حکومت کے طے شدہ قیمت پر آکسیجن سلینڈر فراہم کرنا ہے۔
سلمان صوفی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں آکسیجن کی قلت ہے
لیکن یہ قلت اس پیمانے کی نہیں ہے جیسا کہ ہم نے انڈیا میں دیکھی۔ لیکن کورونا کے
بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر نہ صرف لوگوں نے ضرورت کے بغیر آکسیجن سلینڈر
خریدنا شروع کر دیے بلکہ اس کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے اس کی قیمت بھی کئی گنا
اضافہ ہو گیا۔
’ہم نے کورونا کی دوسری لہر کی دوران بھی لوگوں کو آکسیجن سلینڈرز فراہم کیے لیکن
تیسری لہر کے دوران ان کی مانگ پچھلی دو لہروں سے کہیں زیادہ تھی۔‘
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ تیسری
لہر کے دوران پاکستان میں چند ادویات جیسا کہ ’اکٹمرا‘ انجیکشن کی مانگ میں اضافہ
ہونے کی وجہ سے قلت ہوئی لیکن حکومت نے بروقت ہی اس کو درآمد کر کے اس قلت
پر قابو پا لیا ،اس کے عالوہ ملک میں آکسیجن کی کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ
پاکستان میں آکسیجن پیداوار کا 90فیصد حصہ ہسپتالوں میں استعمال ہو رہا ہے لیکن ملک
میں اس کی قلت نہیں۔
’ہم نے دوسری لہر کے دوران نہ صرف ایک ہزار آکسیجن بستروں کا اضافہ کیا بلکہ اپنی
یومیہ پیداوار بھی بڑھائی۔ اگر ہم اس وقت وہ اقدام نہ کرتے تو اس وقت پاکستان میں بھی
انڈیا جیسے حاالت ہوتے۔‘
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان نے تیسری لہر کے دوران چھ ہزار ٹن آکسیجن اور
5000سلینڈرز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ آکسیجن کی پیداوار کے لیے متعبادل زرائع
بھی تالش کیے جا رہے ہیں جیساکہ کئی سالوں سے بند سٹیل مل کا آکسیجن پالنٹ کو
دوبارہ فعال کیا گیا۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران ادویات ،صحت کی سہولیات اور آکسیجن
کی فراہمی حکومت کا فرض ضرور ہے لیکن شہریوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ وہ مانگ میں اضافہ کو منافع خوری کا موقع سمجھتے ہوئے ذخیرہ اندوزی نہ کریں
اور حکومت کے طے شدہ قمتوں پر اس کی فراہمی یقینی بنائیں۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57220576
امریکی شہری میں کورونا وائرس کی ایسی عالمت سامنے آگئی کہ
کسی کو بھی خوف آجائے
| 106 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں میں اس
موذی مرض کے کئی طرح کے طویل مدتی نقصانات بھی دیکھے جا رہے ہیں تاہم گزشتہ
دنوں امریکہ کے ایک شہری میں اس کا ایک ایسا نقصان دیکھنے میں آیا ہے کہ سن کر
ہی آدمی وحشت زدہ رہ جائے۔ میل آن الئن کے مطابق اس آدمی کا تعلق ہوسٹن سے ہے
جس کی کورونا وائرس کے سبب زبان سوج کر بہت بڑی ہو گئی اور منہ سے باہر نکل
آئی ،جس کی وجہ سے اس کے لیے بولنا اور کچھ کھانا پینا ناممکن ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس سیاہ فام شہری کو حالت سنگین ہونے پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا
جہاں اس کی یہ حالت ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس بیماری کو میکروگلوسیا
کہا جاتا ہے جس میں انسان کی زبان کا سائز بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ)(Macroglossia
عارضہ عام طور پر سٹروک آنے پر الحق ہوتا ہے یا پھر طویل عرصے تک اوندھے منہ
پڑا رہنے سے بھی الحق ہو سکتا ہے۔اس کنڈیشن پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جیمز
میلویلے کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے یہ عارضہ زیادہ تر سیاہ فام شہریوں
میں سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ میں اب تک اس طرح کے 9کیس سامنے آ چکے ہیں جن میں
سے 8سیاہ فام مریض تھے۔
https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292252
شیزو فرینیا ذہنی امراض کی ایک قسم ہے جس میں مبتال افراد کو الیعنی آوازیں سنائی
دیتی ہیں اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا سے
الگ تھلگ ایک تصوراتی دنیا میں محسو س کرتا ہے۔
شیزو فرینیا غیر معمولی بیماری نہیں ہے ،وراثت میں اس بیماری کے پائے جانے سے اس
مرض میں مبتال ہونے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت یا نوجوانی میں عموما
18سے53سال کی عمر کے درمیان شروع ہوتی ہے۔ عورتوں اور مردوں میں اس کا
تناسب برابر ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں یوگا کے ماہر یوگی نعیم
نے اس بیماری سے چھٹکارے کیلئے کچھ کار آمد ٹپس بتائیں جن پر عمل کرنے سے
شیزو فرینیا کے مریضوں کو کافی حد تک افاقہ ہوسکتا ہے۔یوگی نعیم نے بتایا کہ اس
بیماری سے متاثرہ افراد اپنے آس پاس کے لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں اور تنہائی
| 107 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
پسند ہوتے ہیں ،شیزو فرینیا کا لفظی مطلب منقسم دماغ ہے۔ اس بیماری کی وجہ احساس
کمتری بھی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انسان کے دماغ سے جو رگیں جسم تک آتی ہیں ان بیلنس
کرنے کیلئے ایک بہت اہم مشق ہے جو ضرور کرنی چاہیے ،وہ یہ کہ انگلیوں کو ایک
مخصوص طریقے موڑیں اور پھر ناک پر ایک انگلی رکھ سانس اندر لیں اور پھر ناک کی
دوسری جانب انگلی رکھ کر سانس باہر نکالیں۔
یوگی نعیم نے بتایا کہ کوشش کریں کہ ناک سے سانس لے کر پھیپڑوں کی ہوا ناک سے
ہی نکالی جائے بصورت دیگر اس کے نقصانات یہ ہیں کہ منہ میں چھالے ہوسکتے ہیں
اور وقت سے پہلے آپ کے دانت گر سکتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/schizophrenia-symptoms-reasons-treatment/
کورونا وائرس کی نئی قسم کوویڈ 19سے متاثر ہوکر صحت یاب ہونے والے افراد کئی
ماہ تک اس بیماری کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور وائرس کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان
بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
| 108 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19کی
معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی
ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز تیار کرتے
ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس
تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ
سکتا ہے ،جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔
تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کوویڈ 19سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو
بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا
ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار افراد
میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے ،جس کے بعد یہ کہا
جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا ،بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول
میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی عالمت کے 11ماہ بعد
بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا ،یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی
باڈیز بناتے ہیں ،جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافعتی خلیات بہت
تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور
اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں ،بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر
خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
| 109 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر
معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے
ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔
اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ 19سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا
نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔
اس مقصد کے لیے 77افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ 19سے متاثر ہوچکے
تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔
پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر ،3تین ماہ کے وقفے
سے ایسا کیا گیا۔ تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ 19کی شدت زیادہ نہیں تھی اور
صرف 6کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔
محققین نے 18ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے
یا ابتدائی بیماری کو 9ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ موازنے کے لیے محققین نے ایسے 11
افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو کبھی کووڈ 19کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
توقع کے مطابق کووڈ 19کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی
کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی ،تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے 11ماہ بعد
بھی موجود تھیں۔
کووڈ 19کے شکار 15افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود
تھے ،یہ خلیات 4ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں
موجود تھے۔
تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت
نہیں کیا جاسکا۔
محققین نے بتایا کہ کووڈ 19سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس
بیماری کے 2سے 3ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے ،تو ان میں بیماری کے 7یا 11ماہ بعد
متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا۔
یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے
ہیں ،یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت
تک ایسا کرتے رہتے ہیں۔
تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں عالمات ظاہر نہیں ہوتیں
ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے ،تاہم اس حوالے سے وہ مزید
تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔
ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم
کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے
مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں
وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط مدافعتی
ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔
| 110 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین
شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس
حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/recovery-from-corona-patients-antibodies/
ویب ڈیسک
مئی 25 2021
امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19کو
شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی” دماغی دھند” کے تسلسل کا سامنا ہوسکتا
ہے۔
شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں کوویڈ19کی ان طویل المعیاد عالمات کا جائزہ لیا گیا جن
کا سامنا کورونا مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ہوتا ہے۔
ایسے مریضوں کے لیے النگ کوویڈ کی اصطالح بھی استعمال کی جاتی ہے اس حوالے
سے محققین نے بتایا ہے کہ یہ طویل المعیاد عالمات وائرس سے متاثر ہونے کے 3ماہ بعد
بھی برقرار رہ سکتی ہیں۔
| 111 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس تحقیق میں النگ کوویڈ کے شکار 278مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے عالمات
کے بارے میں صحت یابی کے 2ماہ اور پھر 6ماہ بعد پوچھا گیا۔
ان افراد نے 6ماہ کے بعد دماغی عالمات بدتر ہونے کو رپورٹ کیا ،ان کے لیے جملے
بنانا ،توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا اور غائب دماغی کا سامنا ہوا تاہم یہ عالمات شدید
تھکاوٹ جیسی کوویڈ کی طویل المعیاد عالمات کے مقابلے کم سنگین قرار دی گئیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو نیند کے مسائل ،مدافعتی نظام سے
متعلق مسائل ،تکلیف اور ہاضمے کے امراض جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے جو وقت
کے ساتھ بہتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ خاندان
کے افراد اور ڈاکٹر بدلتی عالمات کو سمجھ نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ
ایسے کتنے مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے تاہم ان کا تخمینہ ہے کہ کووڈ 1کے 10
فیصد مریضوں کو طویل المعیاد عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔
مئی 2021کے آغاز میں پری پرنٹ سرور میڈ آرکسیو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ
النگ کوویڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ ،سانس لینے میں مشکالت،
سینے میں درد ،کھانسی ،ذہنی تشویش ،ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔
اسی طرح یاد داشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا
ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ
النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں بلکہ 65سال سے کم عمر
مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق 57ہزار سے زیادہ کوویڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر
ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
محققین کے خیال میں کوویڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر
النگ کوویڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں
کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔
واضح رہے کہ یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کوویڈ 19کے نتیجے میں زیادہ
بیمار تو نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا
https://urdu.arynews.tv/corona-patients-after-recovery-symptoms/
| 112 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
| 113 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
شریانوں کے مرض میں 26فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ سبزیاں کھانے سے ہارٹ فیل اور
فالج سے بچاؤ میں بھی مدد ملتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ان سبزیوں کی اسموتھی یا جوس بھی یکساں طور پر فائدہ مند ہوسکتا
ہے
https://www.express.pk/story/2181446/9812/
فنگس (سیاہ یا سفید) سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ کھانے میں شکر کا استعمال کم
).سے کم کرنا ہے
ممبئی :بھارت میں کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کوکالی کے بعد ’سفید
اور زرد پھپھوندی‘ نے اپنا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
کورونا نے پوری دنیا میں تباہی کی نئی داستانیں رقم کی لیکن کورونا سے ہونے والی جس
تباہی کا سامنا بھارت کر رہا ہے ،اس کی نظیر نہیں ملتی ،بھارت میں اس وائرس نےاپنی
ہیئت تبدیلی کی جسے کووڈ’ 19-انڈین ویریئنٹ‘ کا نام دیا گیا ،پھر شاد و نادر پائی جانے
| 114 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
والی بیماری ’ کالی پھپھوندی‘ بھارتیوں خصوصا کوروناسے صحت یاب ہونے والے
مریضوں کو ٓانکھوں سے محروم کر رہی ہے ،لیکن تباہی کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں
لے رہا ہے۔
بھارتی ریاست ناگ پورمیں فنگس( پھپھوندی) کی نئی اقسام’ سفید اور زرد پھپھوندی‘ نے
کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو اپنے شکنجے میں کسنا شروع کردیا ہے۔
سیفد پھپھوندی کالی پھپھوندی کی نسبت زیادہ ہالکت خیز ہے کیوں کہ یہ جسم کے دوسرے
حصوں کی نسبت پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ یہ پھپھوندی پھیپھڑوں کے عالوہ
اعضائے رئیسہ ،دماغ ،گردوںٓ ،انتوں ،معدے اور ٓانتوں کو بھی ناقابل تالفی نقصان پہنچا
سکتی ہے۔
سفید پھپھوندی کی عالمات کورونا کی عالمات سے ملتی جلتی ہیں ،مریض پھپھڑے
متاثرہونے کی وجہ سے سینے میں درد ،کھانسی اور سانس لینے میں مشکالت کا سامناکر
سکتا ہے جب کہ کچھ مریضوں میں سفید پھپھوندی سر درد ،انفیکشن اور سوجن کا سبب
بھی بنتی ہے۔
جب کہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع غازی ٓاباد میں ’ زرد پھپھوندی ‘ کے کیسز
بھی سامنے ٓانے شروع ہوگئے ہیں ،جو کہ کالی اور سفید پھپھوندی سے زیادہ خطرناک
تصور کی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’زرد پھپھوندی‘ انسانی جسم کے اندرونی اعضا کو اپنا نشانہ بناتی
ہے ،اس کی عالمات میں زخموں کا دیر سے بھرنا ،پیپ کا بہنا اور نسیجوں کا گل جانا
شامل ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اگرچہ ابھی تک’ زرد اور سفید پھپھوندی ‘ کے کیسز بہت کم
ہیں ،تاہم حقیقی اعداد و شماراس سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اگر اس بیماری کا فوری تدارک
نہیں کیا گیا تو ٓاگے چل کر یہ بھی ایک وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
اس بارے میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ فنگس (کالی ،زرد یا سفید) سے بچنے کا سب
سے بہتر طریقہ کھانے میں شکر کا استعمال کم سے کم کرنا ہے ۔ کیوں کہ پھپھوندی کی
یہ دونوں اقسام کم زور قوت مدافعت رکھنے والے افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور
ذیابیطیس کے مریض قوت مدافعت کم زور ہونے کی وجہ سے اس کا ٓاسان شکار ہوتے
ہیں۔
یاد رہے کہ اسی نوع کی پھپھوندی میوکور مائیسیٹس ( کالی پھپھوندی) نے وسطی بھارت
میں تباہی مچائی ہوئی ہے ،اور اب کورونا سے جنگ جیتنے والے مریضوں میں سفید
پھپھوندی نے ماہرین صحت کو تشویش میں مبتال کردیا ہے۔
اس بارے میں ممتاز بھارتی اینڈو کرائنولوجسٹ ہیمانشو پاٹل کی کہنا ہے کہ اس تعدیہ
(انفیکشن) میں ’’میوکور\ مائیسیٹس‘‘\ قسم سے تعلق رکھنے والی پھپھوندیاں انسانی دماغ،
پھیپھڑوں یا پھر ناک /حلق میں جڑیں بنا لیتی ہیں اور بڑھنا شروع کردیتی ہی
https://www.express.pk/story/2181679/9812/
| 115 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
روشنی اور جینیاتی تبدیلی سے نابینا شخص کی بصارت جزوی بحال
ویب ڈیسک
منگل 25 مئ2021
دنیا میں مکمل طور پر نابینا شخص کو ٓاپٹوجینیٹکس کے ذریعے جزوی طور پر دیکھنے
بائیلوجکس
ِ کے قابل بنایا گیا ہے۔ فوٹو :جین سائٹ
پیرس :طویل عرصے سے نابینا شخص کو جینیاتی تبدیلی اور بصریات (ٓاپٹکس) کی مدد
سے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ جزوی طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اس پورے عمل کو
ٓاپٹوجینیٹکس کا نام دیا گیا ہے جس میں بصارت کے ذمے دار خلیات کو جینیاتی طور پر
تبدیل کیا جاتا ہے۔
فرانسیسی کمپنی ’جین سائٹ بائیلو ِجکس‘ نے اپنے ابتدائی نتائج سائنسی جریدے نیچر میں
شائع کرائے ہیں۔ اس میں دنیا کے پہلے شخص کی تفصیل بتائی گئی ہے جوٓاپٹوجینیٹکس\
کے عالج سے گزرا ہے اور مکمل طور پر نابینا شخص تجربہ گاہ میں کئی ٓاالت دیکھ
کران کی شناخت کرسکتا ہے۔ ’ہم انسانی ٓاپٹوجینیٹکس\ پر اپنی پہلی تحقیق پیش کرنے پر
بہت خوش ہیں ‘،منصوبے میں شریک ایڈ بوئڈن نے بتایا جو میساچیوسیٹس ٰ
انسٹی ٹیوٹ ٓاف
ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔
| 116 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اگرچہ ٓاپٹوجینیٹکس تجربہ گاہ میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے کیونکہ اس کی بدولت دماغی
خلیات کو کچھ اس طرح بدال جاتا ہے کہ وہ روشنی کے ر ِد عمل میں سگنل خارج کرتے
ہیں۔ جانوروں پر کی گئی تحقیق سے اس کے کئی فوائد اور دریافتیں سامنے ٓائی ہیں۔ لیکن
انسانون پر اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دماغ کے
اعلی فائبر ٓاپٹکس\ ٹیکنالوجی اور پیچیدہ جراحی
ٰ اندر مخصوص روشنی پہنچانے کے لیے
کی ضرورت پیش ٓاتی ہے۔
ٓانکھ کے کئی عارضوں کا عالج ٓاپٹوجینیٹکس سے کیا جاسکتا ہے اور ایسی ہی ایک
بیماری ’ریٹی نائٹس پگمینٹوسا‘ ہے۔ یہ ایک موروثی کیفیت ہے جس میں ریٹینا متاثر ہوتا
ہے اور روشنی محسوس کرنے والے خلیات ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب جین سائٹ کے
طریقہ عالج میں ٓانکھ میں روشنی محسوس کرنے والی پرت کے نیچے اعصابی خلیات
میں الجی میں پایا جانے واال ایک جین بھی داخل کیا گیا۔ اس کی خاصیت ہے کہ جب اس
پر نارنجی رنگ کی روشنی ڈالی جاتی ہے تو بصری خلیات سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس کے
لیے مریض کو ایک خاص قسم کی عینک پہنائی گئی جس میں کیمرے اور پروسیسر لگے
تھے اور وہ عام روشنی کو نارنجی بنارہے تھے۔
دنیا میں سے سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو 58سالہ فرانسیسی پر ٓازمایا گیا ہے ۔ اب وہ
زیبرا کراسنگ دیکھ سکتا ہے۔ فون اور فرنیچر وغیرہ میں تمیز کرسکتا ہے اور تجربہ گاہ
میں کئی اشیا کو شمار کرسکتا ہے۔ لیکن توقع ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بصارت
مزید بہتر ہوتی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2181854/9812/
کتے ایک سیکنڈ میں کووڈ 19کے مریض کی شناخت کرسکتے ہیں،
تحقیق
ویب ڈیسک
مئ 24 2021
پی سی آر سے زیادہ تیز اور ریپڈ ٹیسٹوں سے زیادہ مستند ،کورونا وائرس کے خالف نیا
ہتھیار کتوں کی شکل میں سامنے آگیا۔
یقین کرنا مشکل ہوگا مگر کورونا وائرس سے متاثر افراد میں ایک مخصوص بو پیدا
اعلی تربیت یافتہ کتے درست حد تک شناخت کرسکتے ہیں۔ٰ ہوجاتی ہے جو
ٰ
دعوی برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا جس کے مطابق تربیت یہ
یافتہ کتے کووڈ 19کے 90فیصد کیسز کی شناخت کرسکتے ہیں چاہے مریض میں
عالمات نہ بھی ہوں۔
| 117 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیک میڈیسین کے ماہرین کی یہ تحقیق پری پرنٹ سرور
پر جاری کی گئی۔
نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے جن کے مطابق کتے وائرس کو سونگھ سکتے ہیں۔
اس تحقیق مین ماہرین نے کووڈ 19کے 200مریضوں کی جرابوں کو کتوں کو سونگھنے
کا ٹاسک دیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ کونسے کتے کووڈ 19کی شناخت کرسکتے ہیں اور
کون سے نہیں۔
کتوں کی حس شامہ میں 22کروڑ ریسیپٹرز ہوتے ہیں (انسانوں میں محض 50الکھ
ریسیپٹرز ہوتے ہیں) اور وہ کسی بو کو انسانوں کے مقابلے میں ایک الکھ گنا زیادہ درست
شناخت کرسکتے ہیں۔
کتوں کی ناک 3اولمپک سائز سوئمنگ پولز میں موجود کسی مواد کے ایک قطرے کی بو
بھی سونگھ سکتے ہیں۔
اس سے قبل کتے کامیابی سے متعدد اقسام کے کینسر ،ملیریا اور دیگر امراض کو سونگھ
کے ہیں۔
محققین کا ماننا ہے کہ کتے مختلف حاالت میں کووڈ کیس کی شناخت میں اہم کردار ادا
کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ کتے دیگر ٹیسٹوں کے مقابلے میں یہ کام برق رفتاری
سے کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کہنا ہے کہ کتوں کو ابتدائی اسکریننگ کا ذریعہ بنانا چاہیے
اور پھر مشتبہ مریضوں کے پی سی آر ٹیسٹ ہونے چاہیے۔
| 118 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس تحقیق میں 6کتوں کو شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے متاثرہ مریضوں کی جرابوں سے
94.3فیصد حد تک درست شناخت کی ،یعنی ہر 100میں سے 94مریض کی شناخت
کرسکتے ہیں۔
اس کے مققابلے میں ریپڈ ٹیسٹوں کی شرح 58سے 77فیصد جبکہ پی سی آر ٹیسٹوں کی
97.2فیصد ہے۔
تاہم کتے رفتار میں پی سی آر ٹیسٹوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ بیماری کی
تشخیص ایک سیکنڈ میں کرلیتے ہیں۔
محققین کے مطابق کتے ان افراد میں بھی بیماری کو پکڑ لیتے ہیں جن میں عالمات ظاہر
نہیں ہووتیں یا وائرل لوڈ بہت کم ہوتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19کی تشخیص کے لیے کتوں کو 8سے 10ہفتوں کی تربیت کی
ضرورت ہوتی ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1160608/
انڈے پروٹین کے حصول کا سب سے آسان ،سستا اور پرتنوع ذریعہ ہے ،مگر اس سے ہٹ
کر بھی یہ بہت کچھ ایسا جسم کو فراہم کرتے ہیں جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔
درحقیقت یہ ان چند غذاؤں میں سے ایک ہیں جن کو سپرفوڈ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ امینو ایسڈز ،اینٹی آکسائیڈنٹس اور آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس کی زردی جسم
میں چربی کے خالف مزاحمت کرنے والے جز کولین کو بڑھاتی ہے جس سے موٹاپے کا
خطرہ کم ہوتا ہے۔
مگر کچھ لوگوں کے خیال میں گرم موسم میں انڈے کھانا فائدے کی بجائے نقصان کا باعث
بن سکتا ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ انڈوں کی تاثیر گرم ہوتی ہے اور اس سے کیل مہاسے ،معدے کے
امراض یا دیگر مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خیال کے پیچھے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں بلکہ
یہ ایک وہم ہے کہ گرم موسم میں انڈوں سے دور رہنا چاہیے۔
| 119 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کچھ غذاؤں کی تاثیر ٹھنڈی اور کچھ کی گرم ہوتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں
مخصوص غذاؤں کو مخصوص موسم میں ہی کھائیں۔
بس غذا کو اعتدال میں رہ کر کھانا ہی اہمیت رکھتا ہے۔
انڈوں کی تاثیر گرم ہوسکتی ہے مگر گرمیوں میں ان سے دوری سے جسم کو ضروری
اجزا سے محرومی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
بس یہ کوشش کرنی چاہیے کہ گرم موسم میں 2انڈوں سے زیادہ مت کھائیں۔
انڈوں سے جسم کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
بہت زیادہ پرغذایئت
انڈے ہماری زمین پر سب سے زیادہ غذائی اجزا والی غذاؤں میں سے ایک ہیں۔
ایک انڈے سے جسم کو وٹامن اے کی روزانہ درکار مقدار کا 6فیصد حصہ ،فولیٹ کی
روزانہ درکار مقدار کا 5فیصد حصہ ،وٹامن بی 5کی روزانہ درکار مقدار کا 7فیصد
حصہ ،وٹامن بی 12کی روزانہ درکار مقدار کا 12فیصد حصہ ،وٹامن بی 2کی روزانہ
درکار مقدار کا 15فیصد حصہ ،فاسفورس کی روزانہ درکار مقدار کا 9فیصد حصہ اور
سلینیم کی روزانہ درکار مقدار کا 22فیصد حصہ ملتا ہے۔
اس کے عالوہ انڈوں میں مناسب مقدار میں وٹامن ڈی ،وٹامن ای ،وٹامن کے ،وٹامن بی ،6
کیلشیئم اور زنک بھی موجود ہوتے ہیں۔
ایک انڈے میں 77کیلوریز 6 ،گرام پروٹین اور 5گرام صحت بخش چکنائی ہوتی ہے
جبکہ دیگر متعدد غذائی اجزا کی بھی کچھ مقدار اس میں موجود ہوتی ہے۔
| 120 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
درحقیقت انڈوں کو لگ بھگ مثالی غذا قرار دیا جاسکتا ہے جس میں لگ بھگ ہر وہ
غذائی جز موجود ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔
کولیسٹرول سے بھرپور مگر بلڈ کولیسٹرول کے لیے نقصان دہ نہیں
یہ درست ہے کہ انڈوں میں غذائی کولیسٹرول کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے ،یعنی ایک
انڈے میں 212ملی گرام ،جبکہ روزانہ غذا کے ذریعے 300ملی گرام کولیسٹرول کو
جزوبدن بنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ غذا میں موجود کولیسٹرول ضروری نہیں کہ خون میں کولیسٹرول
کی سطح میں اضافہ کرے۔
جسم کے اندر جگر روزانہ بڑی مقدار میں کولیسٹرول تیار کرتا ہے اور جب غذائی
کولیسٹرول کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ،تو جگر کولیسٹرول بنانے کی شرح کم کردیتا ہے۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق 70فیصد افراد میں انڈوں کے استعمال سے کولیسٹرول کی
سطح میں بالکل بھی اضافہ نہیں ہوتا ،جبکہ دیگر 30فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں
اس کی شرح میں معمولی اضافہ ہوتا ہے۔
تاہم جینیاتی امراض کے شکار افراد کو انڈوں کا استعمال معالج کے مشورے سے کرنا
چاہیے۔
فائدہ مند کولیسٹرول کی سطح بڑھائے
ایچ ڈی ایل نامی کولیسٹرول کو صحت کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔
جن لوگوں میں ایچ ڈی ایل کی سطح زیادہ ہوتی ہے ،ان میں عموما ً امراض قلب ،فالج اور
دیگر طبی مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
انڈے ایچ ڈی ایل کی سطح میں اضافے کے لیے بہترین ہیں ،ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا
کہ 6ہفتوں تک روزانہ 2انڈے کھانے سے ایچ ڈی ایل کی سطح میں 10فیصد اضافہ
ہوجاتا ہے۔
جسم کے لیے انتہائی اہم کولین سے بھرپور
کولیس ایسا غذائی جز ہے جس کا بیشتر افراد کو علم بھی نہیں ،حاالنکہ وہ انتہائی اہم
مرکب ہوتا ہے اور اکثر بی وٹامنز سے جڑا ہوتا ہے۔
کولیس خلیات کی جھلیوں کو بنانے کا کام کرتا ہے اور دماغ میں سگنل دینے والے
مالیکیول بنانے کے ساتھ متعدد دیگر افعال میں کردار ادا کرتا ہے۔
انڈے اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں اور ایک انڈے میں سو ملی گرام سے زیادہ
مقدار میں یہ غذائی جز موجود ہوتا ہے۔
امراض قلب کا خطرہ کم کرے
نقصان دہ یا ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جسم میں ایل ڈی ایل کی سطح میں اضافے اور امراض قلب کے
خطرے میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے۔ایل ڈی ایل چھوٹے اور بڑے ذرات میں
تقسیم ہوتا ہے اور تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد میں اس کولیسٹرول کے
چھوٹے ذرات کی سطح ہوتا ہے ،انن میں امراض قلب کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
| 121 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انڈوں کے استعمال سے کچھ افراد میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوسکتا
ہے مگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق یہ عموما ً بڑے ذرات کی شکل میں ہوتا ہے ،جو کہ
بہتر ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
آنکھوں کی صحت کے لیے مفید
عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی کمزور ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
متعدد ایسے غذائی اجزا موجود ہیں جو عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی میں آنے والی
کمزوری کے خالف جدوجہد کرتے ہیں۔
ہیں جو بہت طاقتور اینٹی آکسائیڈنٹس ہوتے ہیں zeaxanthin ،ان میں سے 2لیوٹین اور
جو آنکھوں کے قرینے میں جمع ہوتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان غذائی اجزا کی مناسب مقدار کو جزوبدن بنانا موتیے اور
عمر کے ساتھ آنے والی تنزلی کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ساڑھے 4ہفتے تک روزانہ انڈے کی ایک زردی کھانے
کی سطح میں zeaxanthinسے خون میں لیوٹین کی شرح میں 28سے 50فیصد اور
114سے 142فیصد تک اضافہ ہوا۔
انڈوں میں وٹامن اے کی مقدار بھی کافی زیادہ ہوتی ہے جس کی کمی دنیا بھر میں بینائی
سے محرومی کی سب سے عام وجہ سمجھی جاتی ہے۔
معیاری پروٹین سے بھرپور
پروٹین انسانی جسم کے لیے انتہائی اہم جز ہے جو ہر طرح کے ٹشوز اور مالیکیولز بنانے
میں مدد دیتا ہے جو ساخت اور افعال کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔
غذا سے مناسب مقدار میں پروٹین کا حصول بہت اہم ہوتا ہے اور انڈے اس کے حصول کا
بہترین ذریعہ ہیں۔
ایک انڈے میں 6گرام پروٹین ہوتا ہے جبکہ اس غذا میں تمام ضروری امینوایسڈز بھی
درست مقدار میں ہوتے ہیں جو جسم کو پروٹین کے مکمل استعمال کے قابل بناتے ہیں۔
پروٹین کی مناسب مقدار کو جزوبدن بنانا جسمانی وزن میں کمی ،مسلز کو بڑھانے ،بلڈ
پریشر کو کم کرنے اور ہڈیوں کی صحت کو بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے اور یہ تو محض
چند فوائد ہیں ،اس سے ہٹ کر بھی جسم کو بہت کچھ ملتا ہے۔
فالج سے ممکنہ تحفظ
انڈوں میں کولیسٹرول کی زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے انہیں اکثر دل کے لیے نقصان دہ
سمجھا جاتا ہے۔
مگر حالیہ برسوں میں متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت کیا گیا ہے کہ انڈوں کو کھانے اور
امراض قلب یا فالج کے درمیان کوئی تعلق موجود نہیں۔
تاہم کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ذیابیطس کے مریض افرا میں انڈوں کے
استعمال سے امراض قلب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
انڈے خطرہ بڑھاتے ہیں یا نہیں ،یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں مگر اب تک کسی
قسم کا نقصان واضح نہیں ہوسکا۔
| 122 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تاہم کم کاربوہائیڈریٹس والی غذا جیسے انڈے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہترین
ہوتے ہیں ،کیونکہ اس سے امراض قلب اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھانے والے
عناصر کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرے رکھنے میں مددگار
انڈے کھانے کی اشتہا پوری کرنے کے لیے بہترین ہیں ،زیادہ پروٹین کی وجہ سے انہیں
کھانے کے بعد بے وقت کچھ کھانے کی اشتہا نہیں ہوتی۔
درحقیقت انڈوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیٹ بھرنے کے احساس کو دیر تک
برقرار رکھتے ہیں اور دن بھر میں کم کیلوریز کے استعمال میں مدد دیتے ہیں۔
موٹاپے کی شکار 30خواتین پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتے میں
انڈے کھانا پیٹ بھرے رکھنے کا احساس دیر تک برقرار رکھتا ہے جس کے نتیجے میں
اگلے 36گھنٹے میں خودکار طور پر کم کیلوریز جسم کا حصہ بنتی ہیں۔
ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتے میں انڈوں کے استعمال سے 8ہفتوں کے
دوران لوگوں میں جسمانی وزن میں نمایاں کمی آتی ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1160615/
کووڈ 19کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ
بعد بھی ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز
تیار کرتے ہیں۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا
تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ سکتا ہے ،جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔
تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کووڈ 19سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو
بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا
ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار
افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے ،جس کے بعد یہ
کہا جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔
| 123 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا ،بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول
میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی عالمت کے 11ماہ بعد
بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا ،یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی
باڈیز بناتے ہیں ،جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافتی خلیات بہت
تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ
بڑھا دیتے ہیں ،بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں
اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر
معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے
ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔
اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ 19سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا
نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔
اس مقصد کے لیے 77افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ 19سے متاثر ہوچکے
تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔
پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر ،3تین ماہ کے وقفے
سے ایسا کیا گیا۔
| 124 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ 19کی شدت زیادہ نہیں تھی اور صرف 6کو
ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔
محققین نے 18ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے
یا ابتدائی بیماری کو 9ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔
موازنے کے لیے محققین نے ایسے 11افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو
کبھی کووڈ 19کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
توقع کے مطابق کووڈ 19کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی
کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی ،تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے 11ماہ بعد
بھی موجود تھیں۔
کووڈ 19کے شکار 15افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود
تھے ،یہ خلیات 4ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں
موجود تھے۔
تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت
نہیں کیا جاسکا۔
محققین نے بتایا کہ کووڈ 19سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس
بیماری کے 2سے 3ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے ،تو ان میں بیماری کے 7یا 11ماہ بعد
متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا ،یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں
موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے ہیں ،یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے
ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت تک ایسا کرتے رہتےہ یں۔
تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں عالمات ظاہر نہیں ہوتیں
ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے ،تاہم اس حوالے سے وہ مزید
تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔
ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم
کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے،
مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں
وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ،اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط
مدافعتی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین
شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے ،تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس
حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1160623/
| 125 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کووڈ کے 10فیصد مریضوں کو صحتیابی کے بعد طویل المعیاد عالمات
کا خطرہ
ویب ڈیسک
مئ 24 2021
کووڈ کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی 'دماغی دھند' کے تسلسل کا سامنا
ہوسکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں کووڈ کے طویل المعیاد عالمات کا جائزہ لیا گیا جن کا
سامنا مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ہوتا ہے۔
ایسے مریضوں کے لیے النگ کووڈ کی اصطالح بھی استعمال کی جاتی ہے اور محققین
نے بتایا کہ یہ طویل المعیاد عالمات وائرس سے متاثر ہونے کے 3ماہ بعد بھی برقرار
ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں النگ کووڈ کے شکار 278مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے عالمات
کے بارے میں صحتیابی کے 2ماہ اور پھر 6ماہ بعد پوچھا گیا۔
ان افراد نے 6ماہ کے بعد دماغی عالمات بدتر ہونے کو رپورٹ کیا ،ان کے لیے جملے
بنانا ،توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا اور غائب دماغی کا سامنا ہوا۔
تاہم یہ عالمات شدید تھکاوٹ جیسی کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کے مقابلے کم سنگین
قرار دی گئیں۔
| 126 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے بیشتر مریضوں کو نیند کے مسائل ،مدافعتی نظام سے متعلق
مسائل ،تکلیف اور ہاضمے کے امراض جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ
بہتر ہوتے محسوس ہوتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ خاندان
کے افراد اور ڈاکٹر بدلتی عالماات کو سمجھ نہیں پاتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ایسے کتنے مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔
تاہم ان کا تخمینہ ہے کہ کووڈ 1کے 10فیصد مریضوں کو طویل المعیاد عالمات کا سامنا
ہوتا ہے۔
میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ medRxivمئی 2021کے آغاز میں پری پرنٹ سرور
النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ ،سانس لینے میں مشکالت،
سینے میں درد ،کھانسی ،ذہنی تشویش ،ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔
اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا
ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں
بلکہ 65سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق 57ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر
ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
محققین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر
النگ کووڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں
کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔
یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کووڈ کے نتیجے میں زیادہ بیمار نہیں ہوئے تھے
اور ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے
https://www.dawnnews.tv/news/1160625/
ویب ڈیسک
مئ 25 2021
سائنسدانوں نے ایک انقالبی طریقہ کار کی مدد سے دہائیوں سے نابینا شخص کی بینائی کو
جزوی بحال کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
| 127 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طبی جریدے جرنل نیچر میڈیسین میں شائع مقالے میں بتایا گیا کہ ایک نئے جینیاتی طریقہ
کار کی مدد سے اس شخص کی بینائی کو جزوی طور پر بحال کیا گیا۔
اب وہ شخص چھوٹی اشیا کو ایک خاص قسم کے چشمے کو پہن کر دیکھنے کے قابل ہوگیا
ہے۔
اس نئے طریقہ کار کے لیے آپٹوجینیٹکس پر انحصار کیا گیا جس میں عصبی خلیات کو
روشنی کی مدد سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ابھی اس نئے طریقہ کار کو صرف ایک مریض پر آزمایا گیا ہے جو کلینیکل ٹرائل کا حصہ
تھا۔
اس کلینیکل ٹرائل کا مقصد جین تھراپی کے انسانی جسم پر اثرات اور محفوظ ہونے کو
جانچنا ہے ،ٹیسٹنگ کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ تیکنیک نابینا
مریضوں کو روزمرہ کے کاموں میں مدد کے لیے کس حد تک مؤثر ہوسکتی ہے۔
اس طریقہ کار میں آنکھوں کے خلیات میں جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ وہ روشنی کے
حوالے سے زیادہ حساس ہوسکیں۔
محققین نے بتایا کہ پردہ چشم ہماری آنکھ میں موجود کسی حیاتیاتی کمپیوٹر کی طرح ہوتا
ہے۔
پیاز کی طرح اس حیاتیاتی کمپیوٹر میں بھی متعدد تہیں ہوتی ہیں جو آنکھوں میں داخل ہونے
والی روشنی کو فلٹر کرتی ہیں اور ان کا تجزیہ خاص خلیات کا ذریعہ کرتی ہیں۔
اس سے ایک اور خاص خلیے تک سگنل جاتا ہے جس سے انسان کو علم ہوتا ہے کہ وہ کیا
دیکھ رہا ہے۔
| 128 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تاہم آنکھوں کے مخصوص امراض میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں جس سے یہ افعال
کام نہیں کرتے یا ختم ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ بینائی سے محرومی کی شکل میں نکلتا ہے۔
کے retinitis pigmentosaاس 58سال مریض کو آنکھوں کی ایک مخصوص بیماری
باعث بینائی سے محرومی کا سامنا کئی دہائیوں قبل ہوا تھا اور پردہ چشم کسی سگنل کو
شناخت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
اگرچہ اس مریض کے فوٹو ریسیپٹر خلیات فعال نہیں رہے مگر ریٹینل گینگالئن خلیات کام
کررہے تھے اور ان خلیات کو ہی اس نئے طریقہ کار کا ہدف بنایا گیا۔
تحقیقی ٹیم نے ایک وائرل ویکٹر تیار کیا جس نے ایک جین کو ان خلیات تک پہنچایا اور
جب وہ جین آنکھوں میں پہنچ گیا تو اس نے ایک روشنی محسوس کرنے والے پروٹین کو
بنانا شروع کردیا۔
بینائی کی بحالی کے مریض کو ایک ایسا چشمہ پہننے کی ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں
میں آنے والی روشنی کو مونوکرومیٹک تصاویر میں بدل کر رئیل ٹائم میں پردہ چشم کے
تدوین شدہ خلیات تک پہنچاتا ہے۔
یعنی چشمے کے بغیر وہ شخص نابینا ہوتا ہے۔
جین کی منتقلی کے لیے انجیکشن لگانے کے بعد بینائی میں کوئی ماہ تک کوئی اثر مرتب
نہیں ہوا مگر پھر اس نے بتایا کہ وہ چشمہ پہننے کے بعد سفید لکیریں دیکھ رہا ہے۔
انجیکشن لگنے کے 20بعد بھی بینائی میں بہتری آرہی تھی اور محققین کے مطابق موجودہ
ڈیوائس سے مریض چہرہ دیکھ نہیں سکتا یا کچھ پڑھ نہیں سکتا کیونکہ ریزولوشن بہت
زیادہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس طریقہ کار سے مریض کی بینائی عام سطح پر بحال نہیں ہوئی
مگر کسی سطح تک بہتری سے نابینا مریضوں کو روزمرہ کے کام کرنے مین مدد ملے گی
جس سے ان کا معیار زندگی نمایاں طور پر بہتر ہوگا۔
کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس ٹرائل پر کام روکا رہا مگر محققین کو توقع ہے کہ وہ
مزید مریضوں کو اس کا حصہ بناکر 2025تک اسے مکمل کرلیں گے
https://www.dawnnews.tv/news/1160674/
امریکا میں حکام نے کچھ نوجوانوں میں کورونا ویکسین لگوانے کے بعد دل کے مسائل
پیدا ہونے کا نوٹس لے لیا ہے۔ یہ ویکسین بائیو این ٹین فائزر اور موڈیرنا بتائی گئی ہیں۔
| 129 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق بیماریوں کے کنٹرول اور تحفظ کے مرکز (سی
ڈی سی) کو بعض کم عمر نوجوانوں میں ویکسین لگوانے کے بعد دل کے عضالت (مسلز)
میں سوزش پیدا ہونے کی شکایات ملی ہیں۔ اس بیماری کا طبی نام مائیوکارڈائی ٹس
ہے۔ )(Myocarditis
بیماری کی رپورٹس ایک ویکسین سیفٹی گروپ کی جانب سے سامنے ٓائی ہیں۔ سی ڈی سی
کے مطابق یہ شکایات چند نوجوانوں میں پائی گئی ہیں اور ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کا
براہ راست تعلق ویکسین سے ہے یا نہیں۔ حکام کے مطابق شکایات کی انکوائری شروع
کر دی گئی ہے اور تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔
:کورونا سے متعلق بعض ممالک کی صورتحال
امریکا
امریکی شہر الس اینجلس کے حکام کے مطابق خطے میں اس وقت سب سے زیادہ تشویش
وائرس کی برطانیہ سے آنے والی قسم پر ہے۔ وہاں تین مختلف لیبارٹریز میں ترپن فیصد
نمونوں میں برطانوی ویریئنٹ پایا گیا ہے۔ اس سے قبل کیلیفورنیا ویرئنٹ کی موجودگی
زیادہ تھی۔ الس اینجلس میں ہیلتھ حکام کے مطابق بعض لیبارٹری ٹیسٹوں میں وائرس کی
برازیل اور جنوبی افریقی قسم بھی پائی گئی ہے۔
ویتنام
ویتنام میں کورونا وبا میں اضافے کے باوجود پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ سخت
حق رائے دہی استعمال کیا۔ اتوار کو ہونے والی حفاظتی انتظامات میں الکھوں افراد نے اپنا ِ
ووٹنگ میں پانچ سو رکنی قومی اسمبلی کا چناؤ کیا گیا۔
بائیو این ٹیک فائزر نامی کورونا ویکسین جرمنی میں تیار کی گئی ہے
| 130 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویتنام میں اب تک دس الکھ
ٹیکے لگائے جا چکے ہیں اور
وہاں روسی ویکسین تیار کرنے
پر بات چیت جاری ہے۔
بھارت
بھارت میں اتوار کو کورونا کے
ڈھائی الکھ نئے کیس سامنے
آئے جبکہ تین ہزار سات سو
سے زائد افراد وفات کر گئے۔
اس وقت بھارت میں کورونا کی
وجہ سے سب سے زیادہ لوگ
مر رہے ہیں۔
جرمنی
جرمن وزیر صحت ژینس
اشپاہن نے کہا ہے کہ بائیو این
ٹیک فائزر کی ویکسین کا ذخیرہ
کیا جا رہا ہے تا کہ موسم گرما
کی تعطیالت کے بعد طلبا کو بھی ویکسین لگائی جا سکے۔
جرمن حکام کو توقع ہے کہ موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد اسکولوں میں تعلیم کا سلسلہ
معمول کے مطابق شروع ہو جائے گا اور نو عمر افراد کی ویکسینیشن مکمل کر لی جائے
گی۔ جرمنی میں حالیہ دنوں میں مریضوں کی تعداد اور ہالکتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اتوار کو ملک میں بیاسی افراد ہالک ہوئے جس کے بعد کورونا سے کل اموات کی ستاسی
ہزار تین سو اسی ہو گئی ہے۔
ع ح ،ش ج (ںیوز ایجنسیاں)
تاریخ24.05.2021
https://www.dw.com/ur/%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C
%DA%A9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%DB
%8C%DA%A9%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%92-
%D8%A8%D8%B9%D8%B6-%D9%86%D9%88%D8%AC
%D9%88%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB
%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%84-%DA%A9%D8%A7-
| 131 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
برابر مشکالت ،کرونا وائرس نے بھارت میں امیر غریب کا فرق مٹا دیا
بھارت کے شہر گوہاٹی میں حفاظتی سوٹ میں ملبوس طبی عملہ ایک مریض کو اسپتال
منتقل کر رہا ہے۔ 24مئی 2021
— ویب ڈیسک
کرونا وائرس کی نئی لہر نے بھارت میں ،جہاں اب
بھی روزانہ مثبت کیسوں کی تعداد تین الکھ کے لگ
بھگ ہے ،بڑے پیمانے پر مالی وسائل رکھنے والے
امیروں ،دو وقت کی روٹی کے محتاج غریبوں اور
بااختیار بیوروکریٹس Bکو اپنے پیاروں کے عالج کے
لیے ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔
اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر دستیاب نہیں ہیں۔ آکسیجن کی شدید قلت ہے۔ لوگ
ڈاکٹروں اور لیبارٹری ٹیسٹوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کئی کئی دن کے انتظار
حتی کہ کئی مریض اس دوران موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کے بعد باری آتی ہےٰ ،
مرنے والے ہندوؤں کی میت کو مذہبی رسومات کے مطابق جالنے کے لیے لمبی قطاروں
میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں کہ لوگ اپنے
مردے دریائے گنگا میں بہانے لگے ہیں جس سے آلودگی اور بیماریوں کے پھوٹ پڑنے
سمیت کئی اور طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا کی نئی لہر نے ایک ایسے وقت میں
حملہ کیا جب نریندرمودی کی حکومت طویل الک ڈاؤن اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کر
کے کرونا وائرس کے پھیالؤ پر نمایاں کنٹرول حاصل کر چکی تھی۔ اس سال جنوری میں
وزیر اعظم مودی نے اعالن کیا تھا کہ کووڈ 19-کو شکست دے دی گئی ہے۔ اور مارچ
میں وزارت صحت نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ کرونا کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔
دوسری جانب صحت کے ماہرین نئی لہر کے خطرے سے مسلسل آگاہ کر رہے تھے،
لیکن ،بقول ان کے ،کوئی بھی ان کے انتباہ پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھا۔
اسی دوران گنگا میں نہانے کا ایک بڑا مذہبی تہوار ہوا جب میں ملک بھر سے الکھوں
زائرین نے شرکت کی۔ بھیڑ اس قدر تھی کہ کندھے سے کندھا مال ہوا تھا۔ پھر انہی دنوں
کئی ریاستوں میں انتخابات ہوئے جس کے لیے الکھوں ووٹر اپنے گھروں سے باہر نکلے۔
ماہرین کے بقول ،وسیع پیمانے کی اس بے احتیاطی کے بعد کا منظر نامہ دنیا کے سامنے
ہے۔ کئی ہفتوں سے بھارت عالمی سطح پر کووڈ 19-کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں ایک دن میں
| 132 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نئے کیسز اور ہالکتوں کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ گو روزانہ کی بنیادوں پر کووڈ19-
کے پازٹیو کیسز چار الکھ سے گھٹ کر تین الکھ کے لگ بھگ ہو چکے ہیں۔ لیکن
خطرات اب بھی موجود ہیں۔
https://www.urduvoa.com/a/poor-and-rich-covid-19-india/5902396
| 133 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
امراض قلب پر مبنی بے چینی کا شکار افراد دماغی بیماری میں مبتال
ہوسکتے ہیں ،تحقیق
ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جنہیں امراض قلب سے تعلق رکھنے والی بے چینی
محسوس ہوتی ہے ان میں دماغی بیماری میں مبتال ہونے کا بہت زیادہ خطرہ یا امکان ہوتا
ہے۔
امریکا کی ہیوسٹن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات
سامنے ٓائی کہ وہ لوگ جنھیں امراض قلب سے متعلق بے چینی ،ڈپریشن یا ذہنی دبأو
محسوس ہوتا ہے وہ دماغی بیماری مبتال ہونے کے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے ارکان مائیکل زولینسکی ،ہوگ روئے اور للی کرانز کولن جو کہ
یونیورسٹی ٓاف ہیوسٹن کے پروفیسر برائے سائیکالوجی ہیں ،ان تینوں کے مطابق الطینی
نسل کے افراد پر کی گئی تحقیق اور اعداد و شمار ،رویے اور تجزیے سے یہ بات سامنے
ٓائی کہ ہارٹ فوکس اینزائٹی (دل پر دبأو پر مبنی بے چینی) اس میں انفرادی فرق کا تعلق
بھی ہے۔
یہ کیفیت زیادہ شدید بے چینی اور ڈپریشن جیسی عالمات پیدا کرتی ہیں اور ان میں دماغی
بیماری میں مبتال ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں
https://jang.com.pk/news/931435
| 134 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ایلوویرا کے صحت اور خوبصورتی سے متعلق فوائد
مئی 25 2021 ،
صدیوں سے مختلف شکایات میں بطور عالج استعمال کی جانے والی ایلوویرا\ (گھیکوار)
ایک قدرتی جڑی بوٹی ہے ،اس کے استعمال سے بغیر کسی نقصان کے بے شمار فوائد
حاصل کیے جا سکتے ہیں ،ایلوویرا صحت میں اضافےِ ،جلد اور بالوں کی خوبصورتی
بڑھانے کے لیے نہایت مفید پودا ہے۔
ایلوویرا کو کنوار گند کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،ایلو ویرا کو کرشماتی پودا قرار دیا
جاتا ہے ،اس میں وٹامن سی ،اے ،ای ،بی 12اور متعدد منرلز بھی پائے جاتے ہیں،
ایلوویرا تازہ توڑ کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ مارکیٹس میں کاسمیٹک کی
صورت میں بھی ایلوویرا\ جیل دستیاب ہوتا ہے۔
ایلوویرا جیل کا استعمال وزن میں کمی النے ،پیٹ کی چربی تیزی سے گھالنے ،بالوں اور
جلد کی خوبصورتی بڑھانے میں کتنا معاون ہے یہ جان کر ٓاپ بھی اس کا پودا اپنے گھر
میں ٓاج ہی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ایلوویرا کے استعمال سے صحت اور خوبصورتی پر بے شمار فوائد حاصل کرنے کے 5
:طریقے درج ذیل ہیں
نرم مالئم ،پرسکون ،بے داغ ِجلد
ایلوویرا جیل میں امینو ایسڈز پائے جاتے ہیں جس کے سبب اس کے استعمال سے جلد
قدرتی طور پر موسچرائز رہتی ہے اور جھریوں کے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے ،اس
| 135 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کے پودے میں موجود امینو ایسڈ اور کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس مل کر ِجلد کے لیے ایک
مفید ہائیڈریٹنگ ایجنٹ بناتے ہیں جس کے سبب ایلوویرا\ کے ا ستعمال سے ِجلد ہائیڈریٹڈ
رہتی ہے۔
وٹامن سی ،ای اور بیٹا کیروٹین کی موجودگی سے جلد کے خلیے صحت مند ہوتے ہیں اور
چہرے کی جلد سے جھریوں کا خاتمہ ہوتا ہے ،ایلوویرا بغیر کسی چکناہٹ کے اسکن کو
موسچرائز بھی رکھتا ہے اور یہ بہترین اور قدرتی سن اسکرین ہے۔
ایلوویرا زخم کو جلد بھرنے میں مدد دیتا ہے
ایلوویرا کے استعمال سے زخم جلدی بھر جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال جلد پر گہرے
نشانات بھی نہیں پڑنے دیتا ،جلد کے جلنے کی صورت میں بھی بار بار ایلوویرا جیل
لگانے سے زخم جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔
ایلوویرا کا استعمال جلد میں ’کالجین ‘ کی مقدار بڑھاتا ہے جس کے سبب متاثر جلد کو
جلد نئے خلیے بنانے میں مدد ملتی ہے۔
گرتے بالوں کو روکتا ہے ،بالوں کو َجلدی لمبا کرتا ہے
بالوں کا جھڑنا ٓاج کل ہر دوسرے فرد کا مسئلہ ہے ،جھڑتے بالوں کو روکنے کے لیے
ایلوویرا کا استعمال نہایت مفید ہے ،ایلوویرا\ میں موجود ’پروٹیو الئیٹک انزائمز‘ متاثرہ
بالوں کے خلیوں کی مرمت کرنے میں مدد دیتا ہے اور بال ٹوٹنے یا گرنے کے بجائے
صحت مند ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،ایلوویرا بالوں کے لیے قدرتی کنڈیشنر بھی ہے۔
ایلوویرا کے استعمال سے سر کی جلد سے خارش ،خشکی کا بھی خا تمہ ہوتا ہے ،ڈائے
کیے ہوئے بالوں کے لیے ایلوویرا کا جیل ہفتے میں دو بار استعمال کرنے سے بالوں کی
قدری چمک اور مرجھائے ہوئے روکھے بالوں میں جان ٓا جاتی ہے۔
دانتوں کو ’ پالق اور کیویٹیز ‘ Bسے بچاتا ہے
ایلوایرا جیل میں دانتوں کے متعدد مسائل کا بھی حل ہے ،ایلوویرا جیل کے استعمال سے
دانتوں سے خون ِرسنے ،سوجن ،پالق اور کیویٹیز کا عالج بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایلوویرا جیل سے برش کرنے کے نتیجے میں دانتوں کو کیڑا لگنے سے بھی بچایا جا
سکتا ہے۔
سن اسکرین‘ ہے ایلوویرا قدرتی ’ َ
ایلوویرا کے استعمال سے سورج کی شعأوں سے بچا جا سکتا ہے ،گھر سے باہر نکلنے
سے پہلے اگر ایلوویرا\ جیل لگا لیا جائے تو ’ َسن بالک‘ یا ’ َسن اسکرین ‘ کی ضرورت
سے بچاتا ہے۔ ) (UV raysنہیں پڑتی ہے ،ایلوویرا\ جیل کا استعمال الٹرا وائلٹ ریز
ایلوویرا جیل میک اپ سیٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ،اس کے استعمال سے
چہرے پر چکناہٹ بھی نہیں ٓاتی اور نہ ہی اس کی کوئی بو ہے
وزن میں کمی کے لیے بہترین مشروب
ایلو ویرا کا استعمال جہاں بے شمار فوائد کا حامل ہے وہیں اسے براہ راست کھانے یا اس
کا مشروب بنا کر پینے سے پیٹ کے گرد جمی ضدی چربی زائل ہوتی ہے اور مجموعی
وزن میں کمی بھی ٓا تی ہے۔
| 136 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
جسمانی وزن میں کمی کے خواہشمند افراد اسے بطور مشروب روزانہ صبح نہار منہ
استعمال کر سکتے ہیں۔
جسمانی وزن کم کرنے کے لیے ایلویرا کے 3سے 4انچ کے ٹکڑے سے سفید لیس دار
مادہ نکال کر ایک عدد کھیرے کے ساتھ گرائینڈ کر کے پی لیں ،ذائقہ بہتر بنانے کے لیے
اس میں لیموں کا رس یا پھر کوئی اور سبزی جیسے کے بند گوبھی اور گاجر بھی شامل
کی جا سکتی ہے۔
ایلوویرا جیل میں بغیر کوئی سبزی شامل کیے سادہ پانی میں گرائینڈ کر کے بھی استعمال
کیا جا سکتا ہے
تیزابیت اور سینے کی جلن سے نجات دالئے
ایلوویرا جیل ٓانتوں کی صفائی کے لیے بہترین ٓاپشن ہے ،معدے کی جلن سے فوراً
چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ایلو ویرا جیل کو گرائینڈ کر کے (ٓادھا گالس) کھانے سے
پہلے پی لیں ،پیٹ سے متعلق امراض کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ایلوویرا کے صحت پر دیگر فوائد
ایلوویرا جیل کا براہ راست استعمال میٹابالزم تیز کرتا ہے ،قبض سے بچاتا ہے ،کولیسٹرول
لیول متوازن بناتا ہے ،جوڑوں کے درد سے نجات دالتا ہے اور زہریلے مادوں کاجسم سے
اخراج ممکن بناتا ہے۔
ایلوویرا خون کی کمی دور کرنے میں بھی مٔوثر ہے ،ماہرین کے مطابق ایلوویرا جگر کی
خراب کارکردگی بھی بہتر بناتا ہے ،اس کا یرقان کے مریض کو بطور دوا استعمال کرایا
جا سکتا ہے۔
رات سونے سے قبل دو چمچ ایلوویرا کا گودا کھانے کے نتیجے میں قبض اور بواسیر
دونوں مسائل سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
روزانہ ایک چمچ ایلوویرا کا گودا کھانے سے جوڑوں کا درد ختم کرنے میں مدد ملتی
ہے۔
https://jang.com.pk/news/931819
تحقیق کے مطابق جب جسم میں کرونا وائرس کی مختلف قسم داخل ہونے کی وجہ سے
مدافعتی نظام کی فرسٹ الئن یعنی 'اینٹی باڈیز' کمزور پڑ جاتی ہیں تو نظام کا دوسرا حصہ
یعنی 'ٹ سیل' وائرس کے خالف متحرک ہو جاتا ہے۔
| 137 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک —
دنیا بھر میں کرونا کے پھیالؤ کو روکنے کے لیے ویکسی نیشن کے عمل کو تیز کیا جا
رہا ہے اور اس دوران کرونا کی مختلف اقسام بھی سامنے آ رہی ہیں۔
اسی حوالے سے حال ہی میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ
مدافعتی نظام کا ایک حصہ 'ٹی سیل' کرونا کی مختلف اقسام کے خالف تحفظ فراہم کر
سکتا ہے۔
امریکی جرنل 'سائنس امیونولوجی' میں کرونا وائرس کے نئے ویرینٹس اور مدافعتی نظام
کے ر ِد عمل سے متعلق 25مئی کو ایک تحقیق شائع کی گئی ہے۔
تحقیق کے مطابق جب جسم میں کرونا وائرس کی مختلف قسم داخل ہونے کی وجہ سے
مدافعتی نظام کی فرسٹ الئن یعنی 'اینٹی باڈیز' کمزور پڑ جاتی ہیں تو نظام کا دوسرا حصہ
یعنی 'ٹی سیل' وائرس کے خالف متحرک ہو جاتا ہے۔
جب جسم میں کوئی بھی وائرس داخل ہوتا ہے تو انفیکشن سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے
سب سے پہلے مدافعتی نظام کی فرسٹ الئن یعنی اینٹی باڈیز متحرک ہو جاتی ہیں اور یہ
وائرس کو خلیوں (سیل) میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔
| 138 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق کے شریک مصنف اور ماہر متعدی امراض روری دی وریز کا کہنا ہے کہ ٹی سیل
کو پرواہ نہیں ہوتی چاہے وہ اصل یا کسی مختلف قسم کے وائرس کا سامنا کر رہے ہوں،
یہ ہر قسم کے وائرس کے لیے ایک ہی طرح سے متحرک ہوتے ہیں۔
ان کے بقول ،اگر وائرس کی قسم اینٹی باڈیز کو کمزور کر دیتی ہے تو اس کے نتیجے میں
ٹی سیل ر ِد عمل ظاہر کرتے ہیں اور وہ وائرس کو جسم میں پھیلنے سے روکتے ہیں اور
اس سلسلے میں وہ شخص انفیکشن میں تو مبتال ہو سکتا ہے لیکن وہ بیمار نہیں ہوتا۔
ماہر متعدی امراض روری دی وریز کا کہنا ہے کہ ہمیں اینٹی باڈیز کے ر ِد عمل پر آنکھ
بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی یہ سمجھنا چاہیے کہ کرونا کی مختلف قسم کے
خالف اینٹی باڈیز کا ر ِد عمل چار گنا کم ہے تو ویکسین درست کام نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اینٹی باڈیز درست کام نہیں کر رہی تو جسم کے مدافعتی نظام میں
موجود مختلف جُز ہمیں بیماری سے بچانے کا کام کرتے ہیں۔دوسری جانب نیویارک یونی
ورسٹی گروس مین اسکول آف میڈیسن کے ماہر متعدی امراض نتھینئیل لینڈاؤ (جو اس
تحقیق کا حصہ نہیں ہیں) کا کہنا ہے کہ "سائنس دان اس بارے میں نہیں جانتے کہ مدافعتی
نظام کا یہ رخ کتنا اہم ہے۔"
انہوں نے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ اینٹی باڈیز بہت اہم ہیں ،جو بات ہم ابھی نہیں
جانتے وہ یہ ہے کہ ٹی سیل کا ر ِد عمل کتنا اہم ہے۔
https://www.urduvoa.com/a/t-cells-may-protect-against-coronavirus-
نوبی ایشیاvariants-27may2021/5906229.html
امریکہ میں ٹین ایجرز کو ویکسین لگانے کی اجازت حال ہی میں دی گئی ہے۔ 13مئی
2021
— ویب ڈیسک
امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) کے ایڈوائزری گروپ نے
کہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے بعد بعض نوجوانوں میں دل کے امراض
کی شکایات سامنے ٓائی ہیں۔
امیونائزیشن پریکٹیسز کے ایڈوائزری\ کمیٹی نے 17مئی کے ایک بیان میں کہا ہے کہ
ویکسین لگنے کے بعد کچھ نوجوانوں کی رپورٹس سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ ان
| 139 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نوجوانوں میں دل میں سوزش کی شکایات دیکھی گئی ہیں۔ کمیٹی کے مطابق ان میں زیادہ
تر ’ٹین ایجر‘ یعنی 13سے 19سال کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔
سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ شکایت زیادہ پیچیدگی پیدا کیے بغیر خود بخود ختم ہو جاتی
ہے اور اس کی وجہ کئی طرح کے وائرس ہو سکتے ہیں۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ کیسز کی تعداد کسی بھی ٓابادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے لیکن
طبی عملے کو اس قسم کی پیچیدگی کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے۔
امریکی ریاست الی نوائے میں ایک نوجوان طالب علم ویکسین لگواتے وقت اس کی
حمایت میں ایک بینر اٹھائے ہوئے ہے۔ 13مئی 2021
خبر رساں ادارے رائ\\ٹرز کے مط\\ابق کمیٹی نے اس ب\\ارے میں مزی\\د تحقیق ک\\رنے س\\ے
متعلق بیان میں مزید کچھ نہیں بتایا۔
جانز ہاپکنز ہیلتھ سیکیورٹی سینٹر میں سینئر سکالر ڈاکٹر امیش اڈالجا نے رائٹرز سے ب\\ات
کرتے ہوئے کہا کہ ویکسینز کی وجہ سے دل میں سوزش کی بیم\اری ’’م\\ائیو ک\\ارڈائٹس‘‘
الحق ہو سکتی ہے۔
| 140 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
| 141 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کیا لیموں کے بیج میں بھی غذائیت ہوتی ہے؟ جان کر آپ حیران رہ
جائیں گے
ویب ڈیسک
مئی 27 2021
ہم پھلوں کے بیج Bعموما ً پھینک دیا کرتے ہیں ،کچھ بیج تو بہت کڑوے ہوتے ہیں جیسا کہ
لیموں کا بیج ،لیکن اگر آپ لیموں کے بیج کے فوائد اور اس میں موجود غذائیت کے
بارے میں جان جائیں تو آپ کو حیرت ہوگی۔
غذائیت
لیموں کے بیجوں میں اچھی خاصی مقدار میں اینٹی آکسڈینٹ ہوتے ہیں ،جو بنیادی طور پر
وٹامن سی ہیں ،لیموں کے بیجوں میں سیالئیلیک ایسڈ ہوتا ہے ،جو درد کو دور کرنے کی
صالحیت رکھتا ہے ،لیموں کے بیجوں میں امینو ایسڈ ہوتا ہے ،جیسے امرود کے بیجوں
میں ہوتا ہے ،اور ان میں پروٹین اور چربی کی مقدار بھی ہوتی ہے جو صحت کے لیے
اچھی ہوتی ہے۔
فوائد
زہر کو نکالنا :لیموں کے بیج کڑوے ہونے کے باوجود صحت کے لیے بہت مفید ہیں ،یہ
ہمارے جسم سے زہریلے اور دیگر ناپسندیدہ مادوں سے پاک کرنے میں مدد فراہم کرتے
ہیں۔
| 142 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
درد دور کرنا :لیموں کے بیج سر درد اور جسم کے دیگر دردوں کو دور کرنے میں بھی
مددگار ہیں ،ان میں موجود ایسڈ دراصل اسپرین کا ایک اہم جز ہے۔
پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ :لیموں کے بیج سے پیٹ کے کیڑوں کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے،
یہ اس کا ایک قدرتی عالج ہے ،لیموں کے بیج کچل کر انھیں پانی یا دودھ کے ساتھ ابالیں،
پھر بچوں کو کھالئیں۔
جلد کی نشوونما :جلد کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے کچھ مصنوعات میں بھی لیموں
کے بیج استعمال کیے جاتے ہیں ،ان میں وٹامن سی ہوتا ہے ،یہ اینٹی آکسیڈنٹ ہے۔
مہاسوں کا عالج :لیموں کے بیج کا تیل مہاسوں کے عالج میں بہت مؤثر ہے ،اس کے تیل
میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں۔
موڈ میں بہتری :لیموں کے بیجوں کو موڈ کو بہتر بنانے کے لیے اروما تھراپی کے طور
پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی خوش بو سے کمرے سے مچھر بھی بھاگ جاتے
ہیں۔
احتیاط :پورے بیجوں کی بجائے پسے ہوئے بیج کھائیں کیوں کہ پیسے ہوئے بیج ہاضمے
کے لیے کم نقصان دہ ہوتے ہیں ،چڑچڑے پن والے ،آنتوں کے سنڈروم میں مبتال افراد اور
وہ لوگ جو قبض اور پیٹ کی خرابی ،بدہضمی کی بیماریوں میں مبتال ہوتے ہیں ،وہ اس کا
استعمال نہ کریں۔
…Web
ویب ڈیسک
مئی 27 2021
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کی ناک سے خون بہنے لگ جاتا ہے ،نکسیر پھوٹنا ایک عام
مسئلہ ہے لیکن یہ اکثر والدین کے لیے پریشانی اور خوف کا سبب بنتی ہے۔
بچوں میں نکسیر کا مسئلہ عموما ً تھوڑے عرصے رہتا ہے ،تاہم زیادہ خون بہنے کی
صورت میں بچے کو طبی امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے ،نکسیر پھوٹنا ان بچوں میں
عام ہے جن کی عمر دو سے 10سال کے درمیان ہوتی ہے۔
زیادہ تر نکسیر ناک کے اگلے نرم حصے سے آتی ہے کیوں کہ ناک کا یہ حصہ خون کی
بہت سی چھوٹی چھوٹی نالیوں پر مشتمل ہوتا ہے ،جن میں تھوڑا سا اتار چڑھاؤ یا سوجن
ہو جائے تو خون بہنے لگتا ہے ،جب کہ ناک کے پچھلے حصے سے نکسیر بہت کم ہوتی
ہے ،تاہم ہو جائے تو اسے روکنا مشکل ہوتا ہے۔
وجوہ
| 143 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
خشک ہوا :چاہے یہ گرم رہائش گاہوں کے اندر کی ہو ،یا خشک آب و ہوا ہو ،بچوں میں
نکسیر کی سب سے عام وجہ خشک ہوا ہے جو ناک کی جھلیوں کو خشک کر دیتی ہے۔
ناک کو سختی سے صاف کرنا یا رگڑنا :نکسیر آنے کی وجوہ میں سے یہ دوسری سب
سے عام وجہ ہے کیوں کہ ناک کو کھرچنے یا رگڑنے سے ناک میں خارش ہوتی ہے جو
ناک میں خون کی نالیوں سے نکسیر کا سبب بنتی ہے۔
چوٹ :چہرے یا ناک پر گیند لگنے یا گرنے سے چوٹ آئے تو ناک سے خون بہتا ہے،
عموما ً یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر دس منٹ تک خون جاری رہے ،تو طبی امداد
حاصل کرنی چاہیے۔
جلن :کوئی بھی بیماری جس میں ناک کی جلن کی عالمات شامل ہوں ،نکسیر کی وجہ بن
سکتی ہے۔
بیکٹیریل انفیکشن :ناک کے اندر اور ناک کے سامنے والے حصے میں انفیکشن خون
بہنے کا باعث بن سکتا ہے۔خیال رہے کہ کئی بچوں کو سالوں میں صرف ایک یا دو بار
نکسیر آتی ہے ،لیکن کچھ بچوں کو یہ مسئلہ بار بار پیش آتا ہے ،یہ اس وقت ہوتا ہے جب
بچے کی ناک اندر سے کمزور ہوجاتی ہے ،اور معمولی وجوہ سے خون کی نالیوں سے
نکسیر بہنا شروع ہو جاتی ہے۔
بچاؤ
ناک میں پانی ڈالنا ،نمکین پانی کا استعمال کر کے بچے کی ناک کو نم رکھنا ،ناک کو
انفیکشن سے بچانے کے لیے الرجی کا عالج کرنا۔ہوا کی خشکی سے بچانے کے لیے
بچے کے کمرے میں ایئر کنڈیشن چالنا ،کھیل کود کے دوران بچوں کو حفاظتی سامان
استعمال کرانا ،یاد رہے کہ نکسیر کی صورت میں صرف 10فی صد کیسز ہی میں طبی
عالج کی ضرورت پڑتی ہے
https://urdu.arynews.tv/epistaxis-in-children/
| 144 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چینی کورونا ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ محققین نے بتا دیا
ویب ڈیسک
مئی 28 2021
عالمی وبا کورونا وائرس کے خالف چینی دوا ساز کمپنی سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین
73فیصد مفید اور مؤثر قرار دے دی گئی ہے۔ سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین کے دو
ڈوز کی کورونا ویکسین کے خالف افادیت کی شرح 73فیصد ہے۔
مؤقر خلیجی اخبار خلیج ٹائمر نے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع
ہونے والے ایک مضمون کے حوالے سے بتایا ہے کہ سائنو فارم ویکسین سے متعلق ایک
بڑے مطالعے کے بعد یہ پہلی تفصیلی رپورٹ سامنے ٓائی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سائنوفارم کے ووہان شہر میں قائم ایک ذیلی ادارے کی تیار کردہ
ویکسین کا ایک ڈوز لگانے کے دو ہفتے بعد دوسری ویکسین لگوانے کی افادیت 72.8
فیصد سے زائد ظاہر ہوئی ہے۔
فروری میں چینی کمپنی نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے خالف اس کی تیار کردہ
ویکسین کی افادیت کی شرح 72.5فیصد ہے۔
جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق
بیجنگ میں قائم سائنوفارم سے منسلک ایک انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ تیار کردہ ایک اور
ویکسین ،جسے رواں ماہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ہنگامی طور پر استعمال
کی منظوری دی تھی 78.1 ،فیصد مؤثر قرار پائی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج ووہان ا اور بیجنگ میں 40،000سے زائد افراد کو
ٹیکے لگانے کے بعد سامنے ٓائے ہیں۔
| 145 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق
ویکسین لگوانے کے بعد ان شرکاء میں سے صرف دو میں کوویڈ 19کی شدید عالمات
ظاہر ہوئی تھیں۔ تاہم سنگین نوعیت کی روک تھام کے کے حوالے سے اس ویکسین کی
افادیت کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
…Web
ایک طرح کے طبی فاقے ،یعنی انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے دماغی خلیات بڑھتے ہیں اور
یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔
لندن :ماہرین ایک عرصے سے فاقے کے فوائد بتاتے رہے ہیں اور اس ضمن میں اب
انٹرمٹنٹ Bفاسٹنگ کا بہت ذکر ہورہا ہے۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے
عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے طویل مدتی حافظہ بھی بہتر Bہوتا ہے۔
کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے چوہوں پر بعض تجربات کرکے بتایا کہ ہے کہ کس
طرح فاقہ ان میں طویل نوعیت کی یادداشت اور عمررسیدگی سے ہونے والے اعصابی
| 146 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نقصانات کا ازالہ کرتا ہے۔ جدید تحقیق سے فاقے ،روزے اور ڈائٹنگ کے کئی فوائد
سامنے ٓائے ہیں جن کی فہرست بڑی طویل ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے معدے کے خردنامئے تندرست رہتے ہیں ،سرطان
کے عالج میں مدد ملتی ہے اور جسم سے زہریلے پروٹین کی صفائی میں مدد ملتی ہے جو
الزائیمر کی وجہ بن سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی فاقہ کشی خلوی سطح پر مائٹوکونڈریائی
مرمت سے بڑھاپے کو بھی روکتی ہے۔
نئے تجربات میں ماہرین نے چوہیا کو تین گروہ میں بانٹا۔ ان میں سے ایک کو معمول کی
غذا ،دوسرے گروہ کو محدود کیلوری والی غذا دی گئی اور تیسرے گروہ کو انٹرمٹنٹ
فاسٹنگ سے گزارا گیا یعنی ایک دن بھوکا رکھ کر انہیں دوسرے دن کھانا دیا جاتا رہا تھا۔
تین ماہ کے بعد فاقے سے گزرنے والے گروہ کی طویل مدتی یادداشت بہتردیکھی گئی۔
ماہرین نے دیکھا کہ ان می کلوتھو نامی جین کی سرگرمی بڑھ گئی جسے عمر سے وابستہ
جین کہا جاتا ہے۔ یہ عمر بڑھاتا ہے اور ساتھ ہی دماغ میں نئے اعصابی خلیات بھی پیدا
کرتا ہے۔ اس طرح یادداشت بڑھانے میں مدد کرسکتا ہے۔
کنگز کالج سے وابستہ سائنسداں ڈاکٹر سینڈرین ٹورے کے مطابق یہ امر حیرت انگیز ہے
کہ فاقے بالغ افراد میں بھی نئے اعصابی خلیات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں کلوتھو
جین یا پروٹین غیرمعمولی\ کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے بہت ہی
غیرمعمولی فوائد سامنے ٓائے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2182233/9812/
| 147 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
!یہ ’’ذہین بیت الخالء‘‘ پیٹ کی بیماریوں کا سراغ بھی لگائے گا
ویب ڈیسک
جمعرات 27 مئ 2021
ابتدائی تجربات میں ’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘ نے پیٹ اور ٓانتوں کے امراض کی 86فیصد تک
درست نشاندہی کی۔ (فوٹو :ڈیوک یونیورسٹی)
نارتھ کیروالئنا :امریکی انجینئروں اور طبّی ماہرین نے مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے
ایسا جدید و ذہین بیت الخالء تیار کرلیا ہے جو رفع حاجت کے دوران ہی اپنے استعمال
کرنے والے کے فضلے کا تجزیہ کرکے پیٹ اور ٓانتوں کی بیماریوں کا سراغ لگا سکتا
ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی ،نارتھ کیروالئنا میں ایجاد کیے گئے اس اچھوتے بیت الخالء کو
’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘ بھی کہا جارہا ہے کیونکہ یہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے
ایک ایسے خودکار نظام سے لیس ہے جو ٹھوس انسانی فضلے کی تصویر کھینچ کر فوری
طور پر بتا سکتا ہے کہ ٹوائلٹ استعمال کرنے والے شخص کو پیٹ یا ٓانتوں کی کوئی
بیماری ہے یا نہیں۔
بیماری کی صورت میں یہ اپنے صارف (استعمال کرنے والے) کو خبردار کردیتا ہے تاکہ
وہ ڈاکٹر سے رابطہ کرے اور اپنا عالج کروائے۔
| 148 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اسمارٹ ٹوائلٹ کے نظام کا انحصار مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے ایک الگورتھم\
پر ہے جسے ٹھوس انسانی فضلے کے ہزاروں نمونوں کی تصویریں دکھا کر اس قابل بنایا
گیا ہے کہ وہ فضلے کو صرف ’’ایک نظر دیکھ کر‘‘ پیٹ یا ٓانتوں کی بیماری کا سراغ
لگا سکے۔
ابتدائی تجربات میں اس الگورتھم\ نے پیٹ اور ٓانتوں کے امراض کی 86فیصد تک درست
نشاندہی کی جبکہ ٹھوس فضلے میں خون کی موجودگی کا پتا بھی 74فیصد درستگی کے
ساتھ لگایا۔
اگرچہ فی الحال یہ صرف ایک پروٹوٹائپ کی شکل میں ہے تاہم اسے ایجاد کرنے والے
ماہرین موجودہ ’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘\ کو اور بھی ذہین بنانا چاہتے ہیں۔
اس کےلیے وہ اسمارٹ ٹوائلٹ کے اگلے پروٹوٹائپ کو ٹھوس انسانی فضلے میں شامل
حیاتی کیمیائی ما ّدے (بایوکیمیکلز) جانچ کر پیٹ کی بیماری کا پتا چالنے کے قابل بنانے
کی تیاری کررہے ہیں۔
یہ اضافہ نہ صرف اسمارٹ ٹوائلٹ کو مزید بہتر بنائے گا بلکہ اس کی کارکردگی میں بھی
اضافہ کرے گا۔
اس ایجاد کے بارے میں ’’ڈائجسٹیو ِڈزیز ِویک ‘‘2021کے عنوان سے منعقدہ ورچوئل
کانفرنس میں بتایا گیا۔ یہ کانفرنس 21سے 23مئی تک جاری رہی۔
https://www.express.pk/story/2182483/9812/
https://jang.com.pk/news/933234
| 149 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کافی میں موجود کیفین نیند کی کمی کے منفی اثرات کو کم کرتا ہے،
تحقیق
ایک نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے پتہ چالیا ہے کہ کافی نیند کی کمی کے باعث پڑنے
والے منفی اثرات کو کم کرتا ہے۔
امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے کافی کی اس اثر پذیری کا اندازہ
لگاتے ہوئے کہا ،گو کہ کیفین نیند کی کمی کے حوالے سے مدد کرتا ہے لیکن ایسے بھی
نہیں ہے کہ جیسا کوئی تصور کرے۔
مشی گن یونیورسٹی کی سلیپ اینڈ لرننگ لیب کی سائنسدان اور سائیکالوجی کی ایسوسی
ایٹ پروفیسر کمبرلی فین کے مطابق کیفین نیند کی کمی سے پڑنے والے اثرات کو زائل
کرتا ہے لیکن یہ نیند کا نعم البدل نہیں ہے۔
پروفیسر کمبرلی فین جو کہ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہی بھی کررہی ہیں انکا مزید کہنا ہے
کہ ایک رات کی نیند کی محرومی سے سیکھنے ،یاداشت اور ذہنی صالحیتوں پر جو
اثرات مرتب ہوتے ہیں کیفین اس سے نبرد ٓازما ہوتا ہے۔
لوگ ٓاسان قسم کے ٹاسک کافی استعمال کرکے پورے کرسکتے ہیں ،تاہم اس تحقیق کے
دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر شرکا مشکل قسم کے ٹاسک سرانجام نہ دے سکے۔
| 150 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
پروفیسر کمبرلی فین نے مزید کہا کہ کیفین ٓاپکے جاگنے اور کام کرنے کی صالحیت کو
برقرار رکھتا ہے لیکن یہ طریقہ کار کی غلطیوں کی روک تھام میں معاون ثابت نہیں ہوتا
ہے ،جیسے کہ طبی معامالت اور ڈرائیونگ وغیرہ شامل ہے۔
کیفین توانائی کو تو بڑھاتا ہے اور نیند کی کمی کے اثرات کوبھی کم کرکے موڈ بہتر کرتا
ہے لیکن یہ رات کی مکمل نیند کا قطعی نعم البدل نہیں ہے۔
https://jang.com.pk/news/932936
امریکی ریاست الی نوائے میں ایک نوجوان طالب علم ویکسین لگواتے وقت اس کی
حمایت میں ایک بینر اٹھائے ہوئے ہے۔ 13مئی 2021
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کمیٹی نے اس بارے میں مزید تحقیق کرنے متعلق
بیان میں مزید کچھ نہیں بتایا۔جانز ہاپکنز ہیلتھ سیکیورٹی کے سینٹر میں سینئر سکالر ڈاکٹر
| 151 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
امیش اڈالجا نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
ویکسینز کی وجہ سے دل میں سوزش کی بیماری
’’مائیو کارڈائٹس‘‘\ الحق ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق یہ جاننا ضروری ہے کہ ان نوجوانوں
میں اس بیماری کی وجہ کرونا ویکسین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ
ان ویکسینز کے فوائد اور نقصانات کی شرح کا جائزہ
لیا جا سکے۔ ان کے بقول ’’اگر مکمل طور پر تحقیق کی جائے تو بھی ویکسینز ہر لحاظ
سے اپنے نقصانات کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوں گی۔‘‘
سی ڈی سی کے مطابق امراض قلب کی یہ شکایت ایم ٓار این اے ویکسین لینے کے چار
روز بعد سامنے ٓائی۔ ادارے نے اس بات کی تفصیل نہیں دی کہ کس ویکسین کے بعد یہ
صورت حال پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں موڈرنا اور فائزر کی ویکسین ایم ٓار این اے
ویکسین ہیں جن کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔
اپریل میں اسرائیل کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ وہ فائزر کی ویکسین لینے والوں میں
ایک کم تعداد میں دل کی سوزش کی شکایت کی تحقیق کر رہے ہیں۔ وزارت کا کہنا تھا وہ
ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور یہ کہ جن لوگوں میں یہ شکایت سامنے ٓائی ہے
ان کی عمر 30برس سے کم ہے۔
فائزر کا کہنا تھا کہ انہیں ایسی شکایات کی بہت ہی کم اطالعات ملی ہیں اور ابھی تک اس
کا ویکسین سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔رائٹرز\ کے مطابق اس رپورٹ پر تبصرے کے لیے
فائزر اور موڈرنا سے رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
https://www.urduvoa.com/a/vaccine-heart-inflammation-
cdc/5903993.html
کرونا وائرس :بچے کیسے متاثر ہوتے ہیں اور صحت یابی کے بعد کیا
مسائل ہو سکتے ہیں؟
۲۸مئ ۲۰۲۱
الہور —
پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری Bلہر کے دوران جہاں 18سال سے زائد عمر والے
افراد میں وبا کی تشخیص ہو رہی ہے ،وہیں اس مہلک وبا سے بچے بھی متاثر ہو رہے
ہیں ،جن کی اکثریت میں ،ماہرین کے مطابق ،کرونا کی ظاہری عالمات نہیں ہوتیں۔ البتہ،
بچے اس وائرس کو دیگر افراد میں منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
| 152 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہرین کے مطابق ،اس کی وجہ وائرس کی بدلتی اقسام ہیں جس میں وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ تبدیلیاں ٓا رہی ہیں اور حال ہی میں برطانیہ سے سامنے ٓانے والے وائرس کی
تشخیص پاکستان میں کی گئی ہے۔
کرونا وبا سے کتنے بچے متاثر ہوئے؟
الہور میں قائم چلڈرن اسپتال کے چیئرمین ،انسٹیٹیوٹ ٓاف چائلڈ ہیلتھ کے سربراہ اور بچوں
کے امراض قلب کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس مارچ سے
اب تک چلڈرن اسپتال میں کرونا سے متاثرہ 487بچے عالج کے لیے الئے گئے جن میں
وہ بچے شامل نہیں ہیں جنہیں گھروں میں قرنطینہ کیا گیا یا وبا کی تشخیص کے بعد گھر
بھیج دیا گیا۔
ان کے مطابق کرونا کی پہلی لہر میں ،294دوسری لہر میں 42اور تیسری لہر میں اب
تک 151بچے چلڈرن اسپتال میں داخل کیے گئے۔
خیال رہے کہ الہور میں جن بچوں میں کرونا وبا کی تشخیص ہوتی ہے ،انھیں سرکاری یا
نجی اسپتالوں سے چلڈرن اسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔
کیا کرونا وائرس کی نئی اقسام بچوں کے لیے زیادہ مہلک ہیں؟
کرونا ایڈوائزری گروپ پنجاب کے سربراہ اور پِیڈ سرجن پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود کا
کہنا ہے کہ اس چیز کا کوئی سائنسی ثبوت تو موجود نہیں ہے؛ البتہ ،الطینی امریکہ کے
کچھ ممالک ،پاکستان اور بھارت سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کرونا کی نئی اقسام سے
بچے قدرے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
کس عمر کے بچے زیادہ متاثر؟
ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق چلڈرن اسپتال میں کرونا سے متاثرہ بچوں میں سے 21فی
صد بچوں کی عمر ایک سال سے کم ،ایک سے پانچ سال کی عمر کے 27فی صد ،پانچ
سے 10سال کے درمیان 32فی صد اور 10سے 15سال کے درمیان عمر والے 20فی
صد بچے تھے۔
صحت یاب ہونے کے بعد کے مسائل
الہور کی رہائشی 14سالہ رادیہ ،جو وبا سے صحت یاب ہو چکی ہیں ،ان کی والدہ شہنیال
فرحان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی 26دنوں تک قرنطینہ میں رہی اور کرونا سے صحت
یاب ہونے کے بعد ابھی بھی اکثر اس کے ہاتھ اور پاؤں سو جاتے ہیں اور جسم میں شدید
درد ہوتا ہے ،جب کہ بخار بھی محسوس کرتی ہے۔
صحت یاب بچوں میں کاواساکی سنڈروم کی تشخیص
پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق کرونا وبا نے بچوں کو دو طرح سے متاثر کیا
ہے۔ ایک تو وہ بچے ہیں جن میں کرونا وبا کی عالمات پائی جاتی ہیں ،جب کہ دوسرے وہ
بچے ہوتے ہیں جو وبا سے صحت یاب ہونے کے بعد 'کاوا ساکی سنڈروم' سے متاثر ہوتے
ہیں۔
ماہر اطفال شامل ڈاکٹر مسعود
ِ پنجاب میں کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ میں بطور
صادق کا کہنا ہے کہ اس سنڈروم سے متاثر ہونے والے بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کے
| 153 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
باوجود جسم کے مدافعتی نظام کا ر ِد عمل کمزور ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کاواساکی
سنڈروم سے متاثر ہونے والے بچوں میں سے 30سے 50فی صد بچوں کا دل متاثر ہوتا
ہے۔ ان کی کورنری رگیں اِن الرج ہو جاتی ہیں۔
’کاواساکی سنڈروم کے کیسز دیگر ممالک میں بھی سامنے ٓا رہے ہیں‘
کاواساکی سنڈروم سے متعلق پروفیسر شوکت کا کہنا تھا کہ اس سے متاثرہ بچوں میں دماغ
اور دل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ہو سکتا ہے جس کا عالج کرونا سے ہٹ کر کیا
جاتا ہے۔
ان کے بقول ،کرونا سے صحت یاب ہونے والے بچوں میں کاواساکی سنڈروم سے متاثر
ہونے کے کیسز دیگر ممالک سے بھی سامنے ٓا رہے ہیں جس کی وجوہات ابھی تک
نامعلوم ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رواں م\\اہ 15م\\ئی کی ای\\ک رپ\\ورٹ کے مط\\ابق
امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) نے ڈاکٹرز کو مذکورہ
سنڈروم کی تشخیص سے متعلق ہدایات جاری کی تھیں۔
یہ ہدایات یورپی ممالک فرانس ،اٹلی ،اسپین اور برطانیہ کے عالوہ امریکہ کی ریاست نیو
یارک سے رپورٹ کیے جانے والے 100سے زائد کیسز کو م ِد نظر رکھتے ہوئے جاری
کی گئیں۔
کاواساکی سنڈ روم سے کس عمر کے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق کرونا وبا سے صحت یاب ہونے کے بعد کاواساکی سنڈروم
کا شکار ہونے والے زیادہ بچوں کی عمریں پانچ سے 17سال کے درمیان ہیں۔
ڈاکٹر مسعود کے مطابق اب تک چلڈرن اسپتال میں کاواساکی سنڈروم سے متاثرہ دو بچوں
کی اموات ہوئی ہیں ،جب کہ دیگر وفات پانے والے 17بچے وہ تھے جو کرونا پازیٹو تو
تھے ،مگر وہ بنیادی طور پر دیگر بیماریوں میں بھی مبتال تھے۔
کون سے بچے وبا کا شکار ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر مسعود صادق کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جو عارضہ قلب یا جگر میں مبتال ہیں یا
ت مدافعت کینسر کا عالج کرا رہے ہیں اور ان کو اسٹیرائیڈز دی جا رہی ہیں یا ان کی قو ِ
کم ہے وہ وبا سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول ،والدین کو ایسے بچوں کو ضرور محفوظ رکھنا چاہیے کیوں کہ ایسے بچوں
کو اگر کرونا ہو جائے تو ان کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔
بچوں میں وبا کی عالمات
الہور کی یونیورسٹی ٓاف ہیلتھ سائنسز میں شعبہ مائیکرو بائیولوجی کی سربراہ پروفیسر
سدرہ سلیم کا کہنا ہے کہ پہلے بچے کرونا وائرس سے متاثر ہوتے تھے ،تاہم ان میں
عالمات نہیں پائی جاتی تھیں۔ ان کے بقول ،اب بچے معمولی عالمات کے ساتھ اسپتالوں
میں ٓا رہے ہیں۔ البتہ بچوں میں صحت یابی کی شرح قدرے بہتر ہے۔
| 154 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ڈاکٹر مسعود صادق کا کہنا ہے کہ بچوں میں وائرس انفیکشن ہونا معمول کی بات ہے۔
ایسے میں ڈاکٹروں کے لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کا کرونا ٹیسٹ تجویز
کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بچے کو بخار ہو یا اس کا گلہ خراب ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ
کیا وہ حال ہی میں کسی ایسے فرد سے مال ہے جس میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہو اور
دوسرا موجودہ حاالت میں فوری طور پر بچے کا ایکسرے اور بلڈ ٹیسٹ کرا لینا چاہیے تا
کہ وبا کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر کیے جانے کے بعد احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جا
سکے۔
https://www.urduvoa.com/a/covid19-in-children-and-teens-and-
kawasaki-disease-26may2021/590488
پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیگر بیماریوں سمیت اضافی وزن اور موٹاپے میں دن بہ دن
اضافہ دیکھنے میں ٓارہا ہے ،اس کی بڑی وجہ ماہرین کی جانب سے انسانی زندگیوں میں
دیسی ،صاف ،سادہ غذأوں کا استعمال کم اور مارکیٹ سے تیار مرغن ،تلی ہوئی غذأوں
اور فاسٹ فوڈ کا استعمال کا بڑھ جانا اور غیر متحرک زندگی کو قرار دیا جاتا ہے۔
| 155 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طبی ماہرین کی جانب سے موٹاپے کو سو بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے ،موٹاپے کے
نتیجے میں پیش ٓانے والی طبی شکایات میں ہائی بلڈ پریشر ،ذیابطیس ٹائپ 1اور ٹائپ ٹو،
غیر متوازن خون کی روانی ،جسمانی اعضاء کی غیر مناسب کارکردگی اور دل کے
عارضے میں مبتال ہونا سر فہر ست ہے۔
ماہرین کے مطابق سب سے زیادہ خطرناک انسانی پیٹ کے گرد جمی چربی ہے جس سے
نجات حاصل کرنا الزم ہے۔
پیٹ کی گرد جمی چربی کو گھالنے کے لیے ڈائٹنگ اور ورزش جیسے متعدد طریقے
اپنائے جاتے ہیں جو کہ بے سود نظر ٓا تے ہیں ،پیٹ کی چربی گھالنے کا سب سے موثر
عالج اور طریقہ طرز زندگی بدلنا ،غیر متحرک زندگی سے جان چھڑانا اور مثبت خوراک
کا طویل عرصے تک استعمال کرنا ہے۔
پیٹ کی چربی ُگھالنے کے لیے کن غذأوں کا استعمال الزمی ہے
لیموں کا استعمال
غذائی ماہرین کے مطابق دن میں ایک لیموں کا استعمال الزمی کریں ،بہتر یہ ہے کہ اپنے
دن کا ٓاغاز نیم گرم لیموں پانی کے استعمال سے کریں ،ایک گالس نیم گرم پانی میں لیموں
کا رس شامل کر کے چٹکی بھر نمک ڈالیں اور پی لیں ،اس کا روزانہ استعمال نہ صرف
جسمانی اعضاء فعال ہوں گے بلکہ ٓاہستہ ٓاہستہ پیٹ بھی کم ہوگا۔
روٹین سے چینی ،شکر ،مٹھاس نکال دیں
سفید چینی ،شکر اور برأون شوگر اور اس سے بنی اشیاء سے پرہیز بہت ضروری ہے،
سافٹ ڈرنکس بھی انہی میں شامل ہیں جن سے حتی االمکان بچنا چاہیے ،دوسری جانب
شکر والے مشروبات میں مٹھاس سمیت دیگر مضر صحت اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو
کہ پیٹ اور رانوں پر چربی بڑھاتے ہیں۔
پانی کا زیادہ استعمال
کمر کی چوڑائی کم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو زیادہ پانی پینا بھی اس کا ایک بہترین عالج
ہے ،پانی خون میں شامل چکنائی اور اضافی شوگر کو زائل کرتا ہے ،زیادہ پانی پینے
سے جسم میں موجود زہریلے مادے بھی خارج ہوتے رہتے ہیں۔
لہسن کا استعمال
صبح دیسی لہسن کا ایک یا دو جوے کھانے بہت مفید ہیں ،اگر لہسن کا جوا چھیل کر اسے
چمچے سے پیس کر کھایا جائے اور ساتھ ہی اس پر لیموں کا پانی پی لیا جائے تو ایک
جانب تو خون کی روانی بہتر ہوتی ہے اور دوسری جانب پیٹ کی چربی کم کرنے میں مدد
ملتی ہے۔
گریوں اور میووں کا استعمال
توند کی چربی گھٹانے کا ایک موثر ذریعہ ایسے فائبر کو اپنی غذا کا حصہ بنانا ہے جو کہ
ٓاسانی سے جذب ہوسکے ،ایسا فائبر زیادہ تر ڈرائے فروٹ یعنی گریوں اور خشک میوہ
جات میں پایا جاتا ہے۔
| 156 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طبی و غذائی ماہرین کے مطابق باداموں کی کچھ مقدار روزانہ کھانا جسمانی میٹابالزم کو
بہتر بناکر موٹاپے اور توند سے نجات دالنے میں مدد فراہم کرتا ہے ،ہر روز 15سے 17
بادام ضرور کھائیں ،چھلکا اتار کر کھانا زیادہ مفید ہے۔
بادام دل کی صحت کو بہتر بنانے سمیت بے وقت کی بھوک کو کنٹرول کرتے ہیں ،اس
میں موجود مونوسیچوریٹیڈ فیٹس توند گھٹانے میں مدد دیتے ہیں ،ایک تحقیق کے مطابق
روزانہ چند بادام کھانا بہت تیزی سے جسمانی وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
کیلوں کا استعمال
کیلے پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ بلڈ پریشر اور خون کی شریانوں کی صحت
بہتر بنانے واال جز ہے ،کیلوں میں موجود وٹامنز بے وقت کھانے کی خواہش پر قابو پانے
میں مدد دیتے ہیں۔
کیلے کھانے سے میٹابا لزم ریٹ بھی بڑھتا ہے جو کہ توند کی چربی تیزی سے گھالنے
میں مدد دیتا ہے۔
دالیں
دالوں میں پروٹین اور فائبر کافی زیادہپایا جاتا ہے ،اس کے عالوہ دالوں کے استعمال سے
جسم کو ٓائرن کی مطلوبہ مقدار بھی ملتی ہے ،دال کا استعمال یعنی کے سپر فوڈ کا استعمال
ہے ،دال ایک مکمل غذا ہے
سبز چائے
سبز چائے پینا کمر اور پیٹ کی چربی کو گھالتا ہے ،اس میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹس
جسمانی توانائی بڑھانے ،ہاضمہ بہتر کرنے اور چربی گھالنے کا عمل تیز کرتا ہے۔
سبز چائے پینے سے موٹاپے سے نجات کی رفتار تیز ہو جاتی ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق دن میں 2سے 3کپ سبز چائے کے استعمال سے چند دنوں میں
ڈیڑھ کلو تک وزن کم کیا جاسکتا ہے۔
https://jang.com.pk/news/931180
صدیوں سے مختلف شکایات میں بطور عالج استعمال کی جانے والی ایلوویرا\ (گھیکوار)
ایک قدرتی جڑی بوٹی ہے ،اس کے استعمال سے بغیر کسی نقصان کے بے شمار فوائد
حاصل کیے جا سکتے ہیں ،ایلوویرا صحت میں اضافےِ ،جلد اور بالوں کی خوبصورتی
بڑھانے کے لیے نہایت مفید پودا ہے۔
ایلوویرا کو کنوار گند کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،ایلو ویرا کو کرشماتی پودا قرار دیا
جاتا ہے ،اس میں وٹامن سی ،اے ،ای ،بی 12اور متعدد منرلز بھی پائے جاتے ہیں،
| 157 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ایلوویرا تازہ توڑ کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ مارکیٹس میں کاسمیٹک کی
صورت میں بھی ایلوویرا\ جیل دستیاب ہوتا ہے
ایلوویرا جیل کا استعمال وزن میں کمی النے ،پیٹ کی چربی تیزی سے گھالنے ،بالوں اور
جلد کی خوبصورتی بڑھانے میں کتنا معاون ہے یہ جان کر ٓاپ بھی اس کا پودا اپنے گھر
میں ٓاج ہی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ایلوویرا کے استعمال سے صحت اور خوبصورتی پر بے شمار فوائد حاصل کرنے کے 5
:طریقے درج ذیل ہیں
نرم مالئم ،پرسکون ،بے داغ ِجلد
ایلوویرا جیل میں امینو ایسڈز پائے جاتے ہیں جس کے سبب اس کے استعمال سے جلد
قدرتی طور پر موسچرائز رہتی ہے اور جھریوں کے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے ،اس
کے پودے میں موجود امینو ایسڈ اور کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس مل کر ِجلد کے لیے ایک
مفید ہائیڈریٹنگ ایجنٹ بناتے ہیں جس کے سبب ایلوویرا\ کے ا ستعمال سے ِجلد ہائیڈریٹڈ
رہتی ہے
وٹامن سی ،ای اور بیٹا کیروٹین کی موجودگی سے جلد کے خلیے صحت مند ہوتے ہیں اور
چہرے کی جلد سے جھریوں کا خاتمہ ہوتا ہے ،ایلوویرا بغیر کسی چکناہٹ کے اسکن کو
موسچرائز بھی رکھتا ہے اور یہ بہترین اور قدرتی سن اسکرین ہے۔
ایلوویرا زخم کو جلد بھرنے میں مدد دیتا ہے
| 158 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ایلوویرا کے استعمال سے زخم جلدی بھر جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال جلد پر گہرے
نشانات بھی نہیں پڑنے دیتا ،جلد کے جلنے کی صورت میں بھی بار بار ایلوویرا جیل
لگانے سے زخم جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔
ایلوویرا کا استعمال جلد میں ’کالجین ‘ کی مقدار بڑھاتا ہے جس کے سبب متاثر جلد کو
جلد نئے خلیے بنانے میں مدد ملتی ہے۔
گرتے بالوں کو روکتا ہے ،بالوں کو َجلدی لمبا کرتا ہے
بالوں کا جھڑنا ٓاج کل ہر دوسرے فرد کا مسئلہ ہے ،جھڑتے بالوں کو روکنے کے لیے
ایلوویرا کا استعمال نہایت مفید ہے ،ایلوویرا\ میں موجود ’پروٹیو الئیٹک انزائمز‘ متاثرہ
بالوں کے خلیوں کی مرمت کرنے میں مدد دیتا ہے اور بال ٹوٹنے یا گرنے کے بجائے
صحت مند ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،ایلوویرا بالوں کے لیے قدرتی کنڈیشنر بھی ہے
ایلوویرا کے استعمال سے سر کی جلد سے خارش ،خشکی کا بھی خا تمہ ہوتا ہے ،ڈائے
کیے ہوئے بالوں کے لیے ایلوویرا کا جیل ہفتے میں دو بار استعمال کرنے سے بالوں کی
قدری چمک اور مرجھائے ہوئے روکھے بالوں میں جان ٓا جاتی ہے۔
دانتوں کو ’ پالق اور کیویٹیز ‘ Bسے بچاتا ہے
ایلوایرا جیل میں دانتوں کے متعدد مسائل کا بھی حل ہے ،ایلوویرا جیل کے استعمال سے
دانتوں سے خون ِرسنے ،سوجن ،پالق اور کیویٹیز کا عالج بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایلوویرا جیل سے برش کرنے کے نتیجے میں دانتوں کو کیڑا لگنے سے بھی بچایا جا
سکتا ہے۔
سن اسکرین‘ ہے ایلوویرا قدرتی ’ َ
ایلوویرا کے استعمال سے سورج کی شعأوں سے بچا جا سکتا ہے ،گھر سے باہر نکلنے
سے پہلے اگر ایلوویرا\ جیل لگا لیا جائے تو ’ َسن بالک‘ یا ’ َسن اسکرین ‘ کی ضرورت
سے بچاتا ہے۔ ) (UV raysنہیں پڑتی ہے ،ایلوویرا\ جیل کا استعمال الٹرا وائلٹ ریز
ایلوویرا جیل میک اپ سیٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ،اس کے استعمال سے
چہرے پر چکناہٹ بھی نہیں ٓاتی اور نہ ہی اس کی کوئی بو ہے
| 159 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس میں لیموں کا رس یا پھر کوئی اور سبزی جیسے کے بند گوبھی اور گاجر بھی شامل
کی جا سکتی ہے۔
ایلوویرا جیل میں بغیر کوئی سبزی شامل کیے سادہ پانی میں گرائینڈ کر کے بھی استعمال
کیا جا سکتا ہے
ایلوویرا جیل ٓانتوں کی صفائی کے لیے بہترین ٓاپشن ہے ،معدے کی جلن سے فوراً
چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ایلو ویرا جیل کو گرائینڈ کر کے (ٓادھا گالس) کھانے سے
پہلے پی لیں ،پیٹ سے متعلق امراض کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ایلوویرا کے صحت پر دیگر فوائد
ایلوویرا جیل کا براہ راست استعمال میٹابالزم تیز کرتا ہے ،قبض سے بچاتا ہے ،کولیسٹرول
لیول متوازن بناتا ہے ،جوڑوں کے درد سے نجات دالتا ہے اور زہریلے مادوں کاجسم سے
اخراج ممکن بناتا ہے۔
ایلوویرا خون کی کمی دور کرنے میں بھی مٔوثر ہے ،ماہرین کے مطابق ایلوویرا جگر کی
خراب کارکردگی بھی بہتر بناتا ہے ،اس کا یرقان کے مریض کو بطور دوا استعمال کرایا
جا سکتا ہے۔رات سونے سے قبل دو چمچ ایلوویرا کا گودا کھانے کے نتیجے میں قبض
اور بواسیر دونوں مسائل سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔روزانہ ایک چمچ ایلوویرا
کا گودا کھانے سے جوڑوں کا درد ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
https://jang.com.pk/news/931819
| 160 جلد ، ۵شمارہ ۲۴| ۱۲۶مئ ۔ ۳۰مئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی تحقیقات
طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ
www.alqalam786.blogspot.com