You are on page 1of 160

‫ک‬

‫وی لی‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫‪Managing‬‬ ‫‪Issue 126‬‬ ‫‪Editor‬‬ ‫‪– Vol. 5‬‬
‫‪Mujahid‬واال‪24‬ہفتہویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪May - 30AliMay.- 2021‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے‬
‫‪+ 92 0333‬‬ ‫‪4576072‬‬
‫وارجریدہ‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫|‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ت‬
‫حق ق‬
‫طِب ّی ی ات‬

‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬


‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫شمارہ نمبر‪ ۱۲۶‬جلد نمبر ‪۵‬‬


‫مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪۲۴ ۲۰۲۱‬‬

‫سرپرست‪:‬محمدعثمان‬
‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫ساتھ مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫اس کے عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی‬ ‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫ادارہ جات‪،‬معالجین حکماء‬
‫‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری اورہرطرح کی‬
‫فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬ ‫ادارتی ممبران‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔‬
‫اوریوں تقریبا پورے پاکستان میں اسکی‬
‫سرکولیشن کی جاتی ہے اورآپکے کاروبار‪،‬‬ ‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد*‬
‫پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ کابہترین ذریعہ ہے‬ ‫رحمت ہللا ادارہ فروغ* تحقیق الہور*‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‬

‫ماہرانہ مشاورت‬
‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے‬ ‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹ رمحمدتحسین‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق*‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫|‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬

‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیل‬
‫کتے سونگھ کرکورونا وائرس کی تشخیص کرسکتے‪ B‬ہیں‪ ،‬تحقیق‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 24  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫تجربے کے پہلے مرحلے میں کتوں کو کورونا مریضوں کے زیر استعمال ماسک اور‬
‫کپڑوں کے نمونے دیے گئے۔(فوٹو‪:‬اے ایف پی)‬
‫لندن‪ :‬کورونا وائرس کی تشخیص‪  ‬کے سلسلے میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا‬
‫گیا ہے کہ کتوں میں کووڈ‪ 19-‬انفیکشنز کو سونگھنے کی صالحیت پائی جاتی ہے۔‬

‫|‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس بات کا انکشاف لندن اسکول ٓاف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن اور‪ ‬ڈر ہم یونیورسٹی کے‬
‫اشتراک سے ہونے والے مطالعے میں ہوا۔ سائنس دانوں نے اس تحقیق کا پہال مرحلہ مکمل‬
‫کرلیا ہے‪ ،‬جس سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کنٹرولڈ صورت حال میں کتے کووڈ‪19-‬‬
‫انفیکشن کو سونگھ کر شناخت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے جیمز لوگان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس تحقیق میں چار‪ ‬‬
‫سے چھے سال کے لیبراڈو‪ ،‬گولڈن ریٹرائیور\ اور کوکر اسپینیئل نسل کے ‪ 6‬کتوں کو شامل‬
‫کیا۔‪ ‬جنہیں‪ 6‬سے ‪ 8‬ہفتے کی تربیت دی گئی اور تربیت کے بعد یہ کتے کووڈ‪ 19-‬کی بو‬
‫سونگھنے کے قابل ہوگئے تھے۔‬
‫تجربے کے پہلے مرحلے میں کتوں کو کورونا مریضوں کے زیر استعمال ماسک اور‪ ‬‬
‫کپڑوں کے نمونے دیے گئے۔ ریسرچر نے اس بات کا تجزیہ کیا کہ ٓایا یہ کتے کووڈ‪19-‬‬
‫کے مثبت اور منفی نمونوں کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں یا نہیں۔‬
‫تجزیے سے ظاہر ہواکہ کتوں میں کورونا وائرس کی شناخت میں حساسیت کی شرح ‪82‬‬
‫سے ‪ 94‬فیصد ہے۔ اس انفیکشن کے کیمیائی تجریئے سے ظاہر ہوا کہ کورونا مثبت کے‬
‫مریضوں کی بو جدا ہے۔ تحقیق کے اگلے مرحلے میں اس مخصوص بو کے پس پردہ‬
‫موجود کمیکل کی شناخت کی جارہی ہے۔‬
‫لوگن کا کہنا ہے کہ مریض میں کورونا کی عالمات ظاہر نہیں ہوئی ہوں تب بھی کتے‪ ‬‬
‫تیزی اور درستگی کے ساتھ‪  ‬کووڈ کی شناخت کر سکتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگر‬
‫چہ پی سی ٓار ٹیسٹ کووڈ ‪ 19-‬کی شناخت کے لیے موثر ہے لیکن کتے زیادہ جلدی اور‬
‫ٓاسان طریقے سے گنجان ٓابادیوں میں کورونا مریضوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔ اس‬
‫تحقیق میں مزید پیش رفت جاری ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2181713/509/‬‬

‫کورونا وائرس کی ایک اور خطرناک قسم دریافت ‪،‬یہ کس ملک میں‬
‫سامنے آئی ؟ تشویشناک خبر آگئی‬

‫‪May 30, 2021 | 18:34:PM‬‬

‫ہانوئی(ڈیلی پاکستان آن الئن )کورونا وائرس میں جنیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جس کی وجہ‬
‫سے نئی نئی اقسام سامنے آرہی ہیں ۔اب ویتنام میں بھی کورونا وائرس کی نئی قسم کا‬
‫انکشاف ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ بہت خطرناک ہے ۔‪ ‬ویت نام کے‬

‫وزیر صحت نگیوین ٹہانا نے ‪ 29‬مئی کو ایک اجالس میں بتایا کہ سائنسدانوں نے کورونا‬
‫وائرس سے حال ہی میں متاثر ہونے والے مریضوں کے جینیاتی سیکونسنگ کے دوران‬

‫|‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس نئی قسم کو دریافت کیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی نظر آتی‬
‫ہے اور دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا ویت نام نے کووڈ ‪ 19‬کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں بھارت‬
‫اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کی میوٹیشنز کا امتزاج موجود ہے۔ویت نام کے‬
‫وزیر صحت نے بتایا 'بنیادی طور پر یہ بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ہے جس میں‬
‫ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں دیکھنے میں آئی‪،‬‬
‫اس وجہ سے یہ نئی قسم بہت خطرناک ہے۔لیبارٹری میں ہونے والی تحقیق میں معلوم ہوا‬
‫کہ یہ نئی قسم بہت تیزی سے اپنی نقول بنانے کی صالحیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ‬
‫اس سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ویت نام میں حال ہی میں اچانک کووڈ کے کیسز‬
‫میں تیزی سے اضافہ کیوں ہوا ہے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/30-May-2021/1295821‬‬

‫ض قلب سے چھٹکارا‬
‫ایک گالس دودھ روزانہ‪ ،‬امرا ِ‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 28  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫امراض قلب سے بچاتا ہے‬


‫ِ‬ ‫دودھ کا باقاعدہ استعمال‬

‫|‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ملبورن‪ٓ ،‬اسٹریلیا‪ :‬اگرچہ یہ کچھ عجیب خبر ہے لیکن الکھوں‪ B‬لوگوں پر کئے گئے‬
‫سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دودھ کا باقاعدہ استعمال مضر‪ B‬کولیسٹرول‪ B‬کو کم کرتا ہے‬
‫اور دل کے امراض کا خدشہ کم ہوجاتا ہے۔‬
‫اس نئی تحقیق میں ‪ 20‬الکھ افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ دودھ پینے والوں کے جسم‬
‫میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے لیکن مضر کولیسٹرول کی سطح کم رہتی ہے اور المحالہ‬
‫امراض قلب کا خطرہ کم کم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کی مکمل سائنسی وجہ سامنے نہیں‬ ‫ِ‬
‫ٓاسکی کیونکہ ہم دودھ کو قدرے مختلف انداز میں ہضم کرتے ہیں۔‬
‫مئی کو انٹرنیشنل جرنل ٓاف اوبیسٹی میں شائع ایک طویل تحقیق کے مطابق ‪24‬‬
‫یونیورسٹی ٓاف ریڈنگ‪ ،‬یونیورسٹی ٓاف ساؤتھ ٓاسٹریلیا اوریونیورسٹی ٓاف ٓاکلینڈ کے‬
‫سائنسدانوں نے برطانیہ میں لگ بھگ ‪ 20‬الکھ افراد کا ڈیٹا دیکھا ہے۔ اس میں جینیاتی\‬
‫سطح پردودھ پینے والے افراد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ ایک جینیاتی\‬
‫تبدیلی کی وجہ سے وہ لیکٹوز ہضم کرلیتے ہیں اور اسی بنا پر ان میں دودھ پینے کی‬
‫عادت پیدا ہوجاتی ہے۔‬
‫اگرچہ دودھ پینے کی عادت باڈی ماس انڈیکس (بی ایم ٓائی) میں اضافے کی وجہ بنتی‬
‫ہے لیکن اس سے اچھے اور برے دونوں قسم کے کولیسٹرول کم ہوتے ہیں۔ مجموعی‬
‫امراض قلب میں ‪ 14‬فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ‬ ‫ِ‬ ‫طورپردودھ پینے سے‬
‫ہے کہ دودھ سیرشدہ چکنائی والی غذا ہونے کے باوجود بھی یہ دل کی بیماریوں کی‬
‫وجہ نہیں بنتا۔ یعنی یہ سرخ گوشت جیسا خطرناک ہرگز نہیں ہے۔‬
‫ماہرین کہتے ہیں کہ شاید دودھ میں کوئی ان دیکھا کیمیائی مرکب ہے جو دل کو‬
‫تندرست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسری جانب یہ رگوں اور شریانوں کی تنگی کو بھی‬
‫دور کرتا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2183063/9812/‬‬

‫مچھلی کے کھپروں اور مینڈک کی کھال سے انسانی ہڈیوں کی مرمت‬


‫ممکن‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬ہفتہ‪ 29  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫سنگاپور کے ماہرین\ نے مچھلی کے چھلکوں اور مینڈک کی کھال سے ہڈی ساز مٹیریئل بنایا ہے۔‬
‫فوٹو‪ :‬نینیانگ یونیورسٹی‬

‫|‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سنگاپور‪  :‬ہڈیوں کے بعض زخم اور چوٹیں اتنی پیچیدہ ہوتی ہیں کہ انہیں مندمل کرنا‬
‫محال ہوجاتاہے۔ ‪ ‬اب اس کا حل فطرت سے تالش کیا گیا ہے جس میں مچھلی‪ B‬کے‬
‫چھلکوں اور مینڈک کی کھال کو ہڈیوں کے عالج میں کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا‬
‫ہے۔‬
‫عموما ً ران‪ ،‬کولہے اور ٹانگ کی ہڈیوں میں کسی بیماری‪ ،‬حادثے یا چوٹ کی وجہ سے‬
‫خال پیدا ہوجاتا ہے۔ اس الپتہ ہونے والے ہڈی کے ٹکڑے کو جسم میں ہی افزائش کردہ‬
‫ہڈی سے بھرا جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل وقت طلب اور پیچیدہ ہوتا ہے۔‬
‫اب سنگاپور کی نینیانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے اسنیک ہیڈ مچھلی اور امریکی بل‬
‫فراگ مینڈک سے اس مسئلے کا حل تالش کیا ہے۔ انہوں نے مچھلی کے چھلکوں اور‬
‫مینڈک کی کھال سے ایک مٹیریئل تیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں جانور اپنے‬
‫گوشت کے لیے فارم میں پالے جارہے ہیں۔‬
‫پہلے انہوں نے مینڈک کی کھال کو تمام ٓالودگیوں سے پاک کیا اور اسے پیس کا گاڑھا‬
‫محلول بنایا‪ ،‬پھر پانی مالکر اس میں کوالجن پروٹین کو الگ کیا۔ دوسری جانب مچھلی‬
‫کے چھلکوں سے کیلشیئم فاسفیٹ نکاال جو ہائیڈروکسی اے پیٹائڈ کہالتا ہے۔ پھر دونوں‬
‫کو خشک کرکے پیسا اور اس کا سفوف بنایا۔ ٓاخر میں اس میں کوالجن کو شامل کیا۔‬
‫اس کے بعد سفوف کو سانچے میں ڈھال کر سہ جہتی (تھری ڈی) نفوذ پذیر مچان نما‬
‫شکل دی گئی۔ اس مرحلے پر اس میں ہڈی بنانے والے اہم حیاتیاتی اجزا شامل کئے‬

‫|‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گئے۔ اب جیسے ہی مٹیریئل کو ہڈی پر ڈاال گیا تو ہڈی پیدا کرنے والے اجزا تیزی سے‬
‫پروان چڑھے۔ یہ اجزا برابری اور ہموار انداز میں پھیل گئے۔‬
‫جانوروں پر ٓازمائش میں جسم کے امنیاتی نظام نے اسے قبول کرلیا اور یوں ایک بالکل‬
‫انوکھا بایومیڈیکل مادہ ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2183580/9812/‬‬

‫کورونا وائرس کا نیا عالج‪ :‬سونگھنے والی نینوباڈی‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 30  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫ابتدائی تجربات میں اس دوا نے چوہوں جیسے جانوروں ’ہیمسٹرز‘ میں کورونا وائرس کا‬
‫خاتمہ کامیابی سے کیا ہے۔ (فوٹو‪ :‬نیٹ جیو‪ /‬وکی پیڈیا)‬
‫پٹسبرگ‪ :B‬امریکی سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی ایک ایسی دوا ایجاد کرلی ہے جو‬
‫نینوباڈی کہالنے والے حیاتی سالموں (بایو مالیکیولز) پر مشتمل‪ B‬ہے اور جسے ناک سے‬
‫سونگھ کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔‬
‫فی الحال یہ دوا ابتدائی تجرباتی مراحل میں ہے اور اسے ’’ہیمسٹرز‘‘ (چوہے جیسے‬
‫جانوروں) پر کامیابی سے ٓازمایا جاچکا ہے۔‬

‫|‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دراصل بہت چھوٹی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں )‪‘‘ (nanobodies‬بتاتے چلیں کہ ’’نینوباڈیز‬
‫جنہیں مختلف بیماریوں کے عالج میں اینٹی باڈیز سے زیادہ بہتر اور مؤثر بھی قرار دیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫کورونا وائرس کے خالف یہ نئی نینوباڈی پٹسبرگ یونیورسٹی کے ماہرین نے تیار کی ہے‬
‫کا نام دیا گیا )‪‘‘ (PiN 21‬جبکہ اس پر مبنی عالج کو ’’پٹسبرگ اِنہیل ایبل نینوباڈی ‪21‬‬
‫ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق‪ ،‬یہ‬
‫نینوباڈی نہ صرف کورونا وائرس کو ناکارہ بناتے ہوئے بیماری ختم کرتی ہے بلکہ اسے‬
‫دوبارہ حملہ ٓاور ہونے سے بھی روکتی ہے۔‬
‫تجربات کی غرض سے ہیمسٹر کے پھیپھڑوں کو مصنوعی\ طور پر کورونا وائرس سے‬
‫متاثر کیا گیا۔‬
‫اس کے بعد انہیں ’’پِن ‪ ‘‘21‬نینوباڈی کی بہت ہی معمولی مقدار (‪ 0.6‬ملی گرام فی کلوگرام‬
‫کی شرح سے) سنگھائی گئی۔‬
‫نینوباڈی نے ہیمسٹرز کے پھیپھڑوں میں پہنچتے ہی کام دکھانا شروع کردیا اور کورونا‬
‫وائرس کی شدت میں کمی ٓانے لگی‪ ،‬یہاں تک کہ دس دن بعد یہ وائرس مکمل طور پر ختم‬
‫ہوگیا۔‬
‫صحتیابی کے بعد ان ہیمسٹرز میں ناک کے راستے (سانس کے ذریعے) کورونا وائرس‬
‫ایک بار پھر داخل کیا گیا لیکن سائنسدانوں کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ‬
‫نے کورونا وائرس کا دوسرا حملہ بھی ناکام بنا دیا۔ )‪ (PiN 21‬نینوباڈی‬
‫یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اتنے دن گزرنے کے بعد بھی نینوباڈی مؤثر اور سرگرم تھی۔‬
‫انہی تجربات کے دوسرے مرحلے میں کورونا وائرس سے متاثرہ ہیمسٹرز کو نینوباڈی‬
‫کے بخارات والے ڈبوں میں رکھا گیا۔‬
‫اِن ڈبوں کی اندرونی ہوا میں نینوباڈی والے بخارات کی شرح اور بھی کم‪ ،‬یعنی صرف‬
‫‪ 0.2‬ملی گرام فی کلوگرام تھی۔‬
‫اس ماحول میں ہیمسٹرز کی ناک اور منہ کے عالوہ ان کا پورا جسم بھی نینوباڈی کے‬
‫سامنے تھا۔ان تجربات میں یہ نینوباڈی چھ گنا زیادہ مؤثر ثابت ہوئی اور اس نے بہت تیزی‬
‫سے ہیمسٹرز میں کورونا وائرس کا خاتمہ کردیا۔‬
‫ہیمسٹرز میں کامیاب تجربات کے بعد ماہرین کی یہ ٹیم انسانوں میں اس نینوباڈی کی ابتدائی‬
‫ٓازمائش کےلیے ایف ڈی اے کی جانب سے اجازت کا انتظار کررہی ہے۔‬
‫اگر یہ نینوباڈی انسانوں میں بھی اتنی ہی مؤثر ثابت ہوئی تو امید ہے کہ بہت جلد کورونا‬
‫بطور خاص اُن‬‫ِ‬ ‫ویکسین کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اور کم خرچ عالج سامنے ٓاجائے گا جو‬
‫لوگوں کےلیے مفید ہوگا جو اس بیماری سے اوسط درجے پر متاثر ہیں۔‬
‫یہی نہیں‪ ،‬بلکہ نینوباڈیز والے اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے دوسری بیماریوں کے‬
‫عالج کی ایک نئی راہ بھی ہمارے سامنے ہوگی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2183689/9812/‬‬
‫|‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کافی کے استعمال سے نیند کی کمی کیوں ہوتی ہے؟ وجہ سامنے ٓاگئی‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪29 2021‬‬

‫نئی تحقیق میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کافی نیند کی کمی کے باعث پڑنے والے منفی‬
‫اثرات کو کم کرتی ہے۔‬
‫امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی ے محققین نے کافی کی اس اثر پذیری کا اندازہ‬
‫لگاتے ہوئے کہا کہ کیقین نیند کی کمی کے حوالے سے مدد کرتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں‬
‫ہے کہ جیسا کوئی تصور کرے۔‬
‫مشی گن یونیورسٹی کی سلیپ اینڈ لرننگ لیب کی سائنسدان اور سائیکالوجی کی ایسوسی‬
‫ایٹ پروفیسر کمبرلی فین کے مطابق کیفین نیند کی کمی سے پڑنے والے اثرات کو زائل‬
‫کرتی ہے لیکن یہ نیند کا نعم البدل نہیں ہے۔‬
‫پروفیسر کمبرلی فین جو کہ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہی بھی کررہی ہیں انکا مزید کہنا ہے‬
‫کہ ایک رات کی نیند کی محرومی سے سیکھنے‪ ،‬یاداشت اور ذہنی صالحیتوں پر جو‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں کیفین اس سے نبرد ٓازما ہوتا ہے۔‬
‫پروفیسر کمبرلی فین نے مزید کہا کہ کیفین ٓاپکے جاگنے اور کام کرنے کی صالحیت کو‬
‫برقرار رکھتا ہے لیکن یہ طریقہ کار کی غلطیوں کی روک تھام میں معاون ثابت نہیں ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬جیسے کہ طبی معامالت اور ڈرائیونگ وغیرہ شامل ہے۔‬

‫| ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لوگ ٓاسان قسم کے ٹاسک کافی استعمال کرکے پورے کرسکتے ہیں‪ ،‬تاہم اس تحقیق کے‬
‫دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر شرکا مشکل قسم کے ٹاسک سرانجام نہ دے سکے۔‬
‫کیفین توانائی کو تو بڑھاتی ہے اور نیند کی کمی کے اثرات کوبھی کم کرکے موڈ بہتر‬
‫کرتی ہے لیکن یہ رات کی مکمل نیند کا قطعی نعم البدل نہیں ہے‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/551488-2/‬‬

‫کورونا وبا کیسے ختم ہوگی؟ عالمی ادارہ صحت نے بتادیا‬


‫ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪  29 2021‬‬

‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ جب تک دنیا کی ‪ 70‬فیصد ٓابادی کو‬
‫کورونا ویکسین نہیں لگ جاتی کورونا کی وبا ختم نہیں ہوگی۔‬
‫فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے یورپ کے ڈائریکٹر ہانس کلوج‬
‫نے یورپ میں ویکسین لگائے جانے کی رفتار کو سست قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔‬
‫ہانس کلوج کا کہنا تھا کہ یہ مت سوچیں کہ کورونا وائرس کی وبا ختم ہوگئی ہے۔ کورونا‬
‫ویکسین لگنے کی شرح میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وبا اس وقت ختم‬
‫ہوگی جب ‪ 70‬فیصد لوگوں کو ویکسین لگ جائے گی۔‬
‫اے ایف پی کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ‪ 26‬فیصد لوگوں کو کورونا ویکسین کی پہلی‬
‫خوراک لگ چکی ہے‪ ،‬جبکہ یورپ میں ‪ 36.6‬فیصد ٓابادی کو کورونا کی پہلی اور ‪16.9‬‬
‫فیصد کو دوسری خوراک لگ چکی ہے۔‬

‫| ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہانس کلوج نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو سب سے زیادہ تشویش کورونا کی نئی اقسام‬
‫کی وجہ سے ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر انڈین قسم بی‪ 1617‬ایک دوسری قسم بی‪(117‬برطانوی‬
‫قسم) سے زیادہ پھیلتی ہے۔ کورونا کی انڈین قسم ‪ 53‬ممالک میں پھیل چکی ہے۔ تاہم دنیا‬
‫بھر میں نئے کیسز اور اموات میں گذشتہ پانچ ہفتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔‬
‫ہانس کلوج نے کہا کہ اگرچہ کورونا ویکسینز نئی اقسام کے خالف کارگر ثابت ہوئی ہیں‬
‫لیکن لوگوں کو محتاط رہنا ہوگا۔ یہ قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ ممالک نوجوانوں کو‬
‫ویکسین لگانا شروع کر دیں اور خطے کے باقی ملکوں نے طبی عملے اور بزرگ افراد‬
‫کو بھی ویکسین نہ لگائی ہو۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-virus-who-indian-type/‬‬

‫کیا مردہ جسم سے بھی کورونا وائرس پھیل‪ B‬سکتا ہے؟‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪28 2021‬‬

‫عالمی وبا کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے بعد لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا‬
‫رہتا ہے کہ کیا اس وائرس سے ہالک ہونے والے افراد کے جسم سے انفیکشن پھیلنے کا‬
‫خطرہ رہتا ہے؟‬
‫اس سوال کا کوئی مصدقہ جواب ابھی تک سامنے نہیں ٓایا تاہم اب ایک ایسی تحقیقی‬
‫رپورٹ سامنے ٓائی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مردہ جسم میں کورونا وائرس ‪ 12‬سے ‪24‬‬
‫گھنٹے کے درمیان ختم ہو جاتا ہے۔اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ایک‬
‫سال کے دوران تحقیق کی گئی ہے جس کے بعد ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کورونا‬
‫وائرس مردہ جسم میں ‪ 12‬گھنٹے کے بعد زندہ نہیں رہتے۔‬

‫| ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بھارتی ادارے ایمس میں فارنسک ڈیپارٹمنٹ کے چیف ڈاکٹر سدھیر گپتا نے بتایا ہے کہ‬
‫کورونا متاثرہ شخص کے مرنے کے ‪ 12‬سے ‪ 24‬گھنٹے بعد اس کی ناک یا گلے سے‬
‫انفیکشن پھیلنے کا اندیشہ بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ تب تک مردہ جسم میں وائرس زندہ‬
‫نہیں رہ سکتا۔‬
‫بھارتی میڈیا کے مطابق ایمس میں گزشتہ ایک سال میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے‬
‫کے لیے مکمل اور مربوط تحقیق کی گئی ہے‪ ،‬اس کے بعد ڈاکٹرز اس نتیجہ پر پہنچے ہیں‬
‫کہ وائرس مردہ جسم میں ‪ 12‬گھنٹے کے بعد زندہ نہیں رہتے۔‬
‫اس حوالے سے ڈاکٹر سدھیر گپتا نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران کورونا متاثرہ‬
‫اشخاص کے مردہ جسم پر ایمس کے فورنسک ڈیپارٹمنٹ میں ریسرچ کی گئی۔‬
‫اس ریسرچ میں پوسٹ مارٹم کے بعد پایا گیا کہ وائرس ‪ 12‬گھنٹے کے بعد سرگرم نہیں‬
‫رہتے۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایمس کے فورنسک ڈیپارٹمنٹ میں کورونا سے‬
‫متاثر تقریبا ً ‪ 100‬مردہ جسموں پر تحقیق کی گئی ہے۔ ان مردہ جسموں میں ‪ 12‬سے ‪24‬‬
‫گھنٹے کے درمیان کورونا وائرس کی موجودگی کی جانچ پڑتال کی گئی جس کا منفی‬
‫نتیجہ سامنے آیا۔‬
‫ڈاکٹر گپتا نے مزید بتایا کہ جسم کے کسی بھی اورل یا نیزل (منھ یا ناک) کیویٹی میں ‪24‬‬
‫گھنٹے کے بعد کورونا وائرس زندہ نہیں رہتا۔ اس لیے مرنے کے ‪ 12‬گھنٹے بعد کسی‬
‫کورونا متاثرہ شخص کے جسم سے وائرس کا انفیکشن ہونا تقریبا ً ناممکن ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی طرح کی انہونی سے بچنے کے لیے ہم نے مردہ جسم میں‬
‫اورل اور نیزل کیویٹی کو پوری طرح سے بند کر دیا تاکہ اگر کوئی سیال مادہ ان ذرائع‬
‫سے ہو کر نکلے تو اس سے انفیکشن نہ ہو۔ اس کے عالوہ احتیاطا ً ہم مردہ جسم کی ٓاخری‬
‫رسومات ادا کرتے وقت طبی اہلکاروں کو پروٹیکٹو\ گیئر پہننے کا مشورہ دیتے ہیں جس‬
‫میں فیس ماسک اور فیس کور‪ ،‬پی پی ای ِکٹ ضروری ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-virus-dead-body-infection/‬‬

‫کرونا مریض چوبیس گھنٹے میں گھر منتقل‪ ،‬یو اے ای نے نئے طریقہ‬
‫عالج کی منظوری دے دی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 30 2021‬‬

‫دبئی‪ :‬متحدہ عرب امارات کے محکمہ صحت اور روک تھام نے کرونا کے نئے طریقٔہ‬
‫عالج کی منظوری دے دی۔‬
‫عرب میڈیا‪ ‬رپورٹ‪ ‬کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیربرائے صحت و روک تھام‬
‫نے ہنگامی بنیادوں پر کرونا کے نئے اور‪  ‬انتہائی مؤثر طریقٔہ عالج کی منظوری دی۔‬
‫| ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ا‬
‫س منظوری کے بعد متحدہ عرب امارات دنیا کا پہال ملک بن گیا ہے جہاں کرونا کے‬
‫مریضوں کا نئے طریقے سے عالج کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق اس طریقہ عالج کا‬
‫تصور بین االقوامی ہیلتھ کیئر کمپنی ’جی ایس کے‘ نے پیش کیا تھا‪ ،‬جس کی امریکی فوڈ‬
‫اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے منظوری بھی دی۔‬
‫اس عالج کو سوترویمیمب (‪ )VIR-7831‬کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬جس کے تحت کرونا سے‬
‫متاثرہ شخص کو جلد عالج کی سہولت فراہم کر کے چوبیس گھنٹے کے اندر اسپتال سے‬
‫گھر جانے کی اجازت ہوگی۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ اس نئے طریقٔہ عالج سے ‪85‬‬ ‫متحدہ عرب امارات کے محکمہ صحت نے‬
‫فیصد اموات میں کمی ہونا ممکن ہے۔‬
‫نیا طریقہ عالج کیا ہے؟‬
‫اس عالج کے تحت انسانی خون میں موجود سفید خلیوں کی مدد سے نئی اینٹی باڈیز تیار‬
‫ہوں گی جبکہ مدافعتی نظام مضبوط بھی ہوگا۔‬
‫ُ‬
‫رپورٹ کے مطابق یہ طریقہ عالج ‪ 12‬سال یا اس سے کم عمر بچوں کے لیے انتہائی‬
‫خطرناک ہوگا‪ ،‬اسی وجہ سے بچوں پر ابھی اسے ٓازمانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔‬
‫کلینیکل ٹرائلز میں یہ بات سامنے ٓائی کہ یہ عالج کرونا کی نئی اقسام کے خالف بھی مؤثر‬
‫ہے‪ ،‬جس میں مریض کی مونو تھراپی کی جاتی ہے۔‬
‫وزیر صحت عبدالرحمان بن محمد الویس نے بتایا کہ ’کرونا سے متاثرہ مریضوں کو‬
‫عالج کا پروٹوکول اور ادویات دی جائیں گی‘۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ نیا اور مؤثر عالج دراصل خاص ادویات کے ذریعے کیا جائے گا‪ ،‬جو‬
‫مریضوں میں موجود وائرس کو ختم کرنے کی صالحیت رکھتی ہیں‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/uae-approves-new-treatment-for-covid-19/‬‬

‫| ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چین نے کرونا کی ایک اور ویکسین تیار کرلی‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪30 2021‬‬

‫بیجنگ ‪ :‬چین نے کرونا وائرس کی روک تھام کےلیے ایک اور ویکسین تیار کرلی‪ ،‬تین‬
‫خوراکوں پر مشتمل ری کومبیننٹ‪ B‬پروٹین ویکسین کی پہلی کھیپ مارکیٹ میں پہنچ گئی‬
‫ہے۔‬
‫غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین میں تیار کردہ کرونا وائرس کی‬
‫تین خوراکوں پر مشتمل ایک اور ویکسین انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کے ماتحت ادارے انسٹی‬
‫ٹیوٹ آف مائکروبیالوجی اور آنہوئی زہیفئی النگ کام بائیوفارماسوٹیکل کمپنی لمیٹڈ نے‬
‫مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔‬
‫چین نے ری کومبیننٹ پروٹین ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے دی ہے‪ ،‬جس‬
‫کے بعد ویکسین بیجنگ کی مارکیٹوں میں پہنچا دی گئی ہے جب کہ چین کے دیگر‬
‫صوبوں کے عوام نے بھی یہ ویکسین لگوالی ہے۔‬
‫طبی آزمائش کے دوسرے مرحلے جس میں‪ 18‬سے‪ 59‬سال کی درمیانی عمر کے افراد‬
‫شامل تھے‪ ،‬ویکسین کی دو خوراکیں لینے کے بعد پتہ چال کہ‪83‬فیصد شرکا میں وائرس‬
‫کے خالف اینٹی باڈیز پیدا ہوئیں جبکہ تیسری خوراک کے بعد‪ 97‬فیصد شرکا میں اینٹی‬
‫باڈیز پیدا ہوئیں۔‬
‫اس سے قبل چین کی سینوویک بائیو ٹیک کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین وائرس کی روک‬
‫تھام کے لیے ‪ 80‬سے زائد فیصد تک مؤثر قرار دی گئی تھی‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/china-develops-another-coronavirus-vaccine/‬‬

‫| ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرونا وائرس‪ :‬ذائقے کی حس سے محرومی کے حوالے سے ایک اور‬
‫تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 30 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کی اہم عالمت سونگھنے‪ B‬اور ذائقے کی حس سے عارضی محرومی ہے اور اب‬
‫اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے ٓائی ہے۔‬
‫امریکا میں حال ہی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق اگر ٓاپ سے مختلف غذاؤں‬
‫کا ذائقہ برداشت نہیں ہوتا تو ٓاپ ممکنہ طور پر سپر ٹیسٹر ہیں اور اس سے کووڈ ‪ 19‬سے‬
‫کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس‬
‫ہوتے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے کا‬
‫خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ ‪ 1‬کی عالمات اوسطا ً محض ‪ 5‬دن‬
‫تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطا ً ‪ 23‬دن تک موجود رہ سکتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ ‪ 19‬کے‬
‫خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ‬
‫تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی ‪ٓ 2‬ار ‪ 38‬زبان کے ذائقہ کا احساس دالنے‬
‫والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک ٓاکسائیڈ‬
‫بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان‬
‫کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔‬
‫| ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کرونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دالنے والے‬
‫ریسیپٹرز سے کووڈ ‪ 19‬و باالئی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا‬
‫جائزہ لیا گیا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 2‬ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی‬
‫ٓازمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔ ان لوگوں کو ‪ 3‬گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا‪ ،‬ایک نان‬
‫ٹیسٹرز‪ ،‬دوسرا سپر ٹیسٹرز اور تیسرا ٹیسٹرز۔‬
‫نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کر پاتے‪،‬‬
‫سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی‬
‫اسے شناخت کرلیتے ہیں‪ ،‬جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔‬
‫تحقیق کے دوران ‪ 266‬افراد میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد‬
‫زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔‬
‫اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ ‪ 19‬کی عالمات کی شدت معمولی سے‬
‫معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/supertaster-against-covid-19/‬‬

‫کرونا وائرس‪ :‬تمباکو نوشی کرنے والے افراد خطرے میں‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪30 2021‬‬

‫| ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کرونا وائرس سے جڑے خطرات میں‬
‫اضافہ کردیتی ہے‪ ،‬سگریٹ نوش افراد کو کووڈ ‪ 19‬سے موت کا خطرہ ‪ 50‬فیصد زیادہ‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر\ جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس‬
‫ادہانم کا کہنا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کی وجہ سے بیماری کے سنگین ہونے اور اموات کے‬
‫خطرات سگریٹ نوشی کرنے والوں کو ‪ 50‬فیصد زیادہ الحق ہوتے ہیں‪ ،‬ضروری ہے کہ‬
‫سگریٹ نوشی ترک کر کے کرونا وائرس کے خطرات کو کم کیا جائے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی تمباکو نوشی کے خالف مہم نے ایک ارب سے زائد سگریٹ‬
‫نوشوں کو ٹول کٹ سے وسائل میسر کیے ہیں۔ اس مہم میں ‪ 29‬ممالک کو مرکزی توجہ‬
‫دی گئی ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر ہیلتھ پروموشن ڈاکٹر روڈیگر کرچ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے‬
‫کی اس مہم میں تمام ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیئے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ‪ 39‬فیصد مرد اور ‪ 9‬فیصد خواتین تمباکو‬
‫نوشی کرتی ہیں‪ ،‬سگریٹ نوشی کی سب سے زیادہ شرح والے ممالک یورپ میں ہیں جہاں‬
‫یہ شرح ‪ 26‬فیصد ہے اور اندازوں کے مطابق اگر ان کی حکومتوں نے فوری اقدام نہ کیے‬
‫تو سنہ ‪ 2025‬تک ان کی تعداد میں صرف ‪ 2‬فیصد کمی متوقع ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/smoking-and-coronavirus/‬‬

‫کرونا ویکسین لگوانے‪ B‬کے بعد کن تکالیف کا سامنا ہوسکتا ہے؟‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 30 2021‬‬

‫پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت کرونا وائرس ویکسی نیشن جاری ہے‪ ،‬نیشنل کمانڈ‬
‫اینڈ ٓاپریشن سینٹر کے مطابق ملک میں اب تک تقریبا ً ‪ 20‬الکھ افراد کو ویکسین کی کم از‬
‫کم ایک ڈوز لگ چکی ہے اور ‪ 9‬الکھ ‪ 64‬ہزار سے زائد افراد کو دونوں ڈوزز لگائی جا‬
‫چکی ہیں۔‬
‫اس حوالے ویکسی نیشن کے سائیڈ افیکٹس پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے‪ ،‬حقیقت‬
‫یہ ہے کہ ویکسین لگوانے سے کوئی سنگین خطرہ الحق نہیں۔‬
‫کچھ مسائل ایسے ضرور ہیں جو عموما ً ہر ویکسین لگوانے کے بعد پیش ٓاتے ہیں‪ ،‬کیونکہ‬
‫ویکسین لگوانے کے بعد ہمارے جسم میں مدافعت کا نظام کام کرنا شروع ہو جاتا ہے اور‬
‫اس میں اصل وائرس سے لڑنے کی صالحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔‬

‫| ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ‬
‫جاننا بہت ضروری ہے کہ ویکسین لگوانے کے نتیجے میں کون سے سائیڈ افیکٹس ہو‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫سوجن‬
‫سب سے عام اور بے ضرر سائیڈ افیکٹ ہے کہ جس بازو پر ٹیکا لگوایا جائے اس میں‬
‫سوجن آ جائے لیکن یہ پریشانی کی بات نہیں۔ سب سے پہلے ویکسین لگواتے ہوئے عملے‬
‫کو بتائیں کہ ٓاپ کس بازو میں ٹیکا لگوانا چاہتے ہیں۔‬
‫اگر ٓاپ اپنے کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں تو ٹیکا بائیں بازو میں لگوائیں تاکہ سوجن کی‬
‫صورت میں ٓاپ کے روزمرہ معموالت زیادہ متاثر نہ ہوں۔ اگر زیادہ تکلیف ہو تو سوجن‬
‫کی جگہ پر برف سے ٹکور کر لیں۔‬
‫بخار‬
‫ویکسین لگوانے کے بعد سب سے عام سائیڈ افیکٹ بخار ہونا ہے اور یہ دیگر ویکسینز‬
‫لگوانے پر بھی ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ٹیکا لگواتے ہی جسم میں مدافعت‬
‫کا نظام تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔‬
‫خاص طور پر دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد بخار ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے لیکن ماہرین‬
‫درد کش ادویات لینے سے منع کرتے ہیں کیونکہ اس سے ویکسین کے کام میں مداخلت ہو‬
‫سکتی ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ ٓارام کریں اور پانی زیادہ پئیں۔ اگر ٹیکا لگوانے کے‬
‫بعد ‪ 72‬گھنٹوں بعد بھی عالمات شدید ہوں تو معالج سے رابطہ کریں۔‬
‫تھکاوٹ‬

‫| ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویکسین لگوانے کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونا بھی عام ہے۔ پہلے ٹیکے کے بعد ‪ 8‬اور‬
‫دوسرے ٹیکے کے بعد ‪ 14‬فیصد افراد تھکاوٹ محسوس ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔‬
‫یہ اور دیگر عالمات مثالً سر اور پٹھوں میں درد عموما ً خواتین اور ‪ 55‬سال اور اس سے‬
‫کم عمر کے افراد میں دیکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر اس صورت میں زیادہ سے زیادہ آرام کا‬
‫مشورہ دیتے ہیں۔‬
‫سر درد‬
‫ایک تحقیق کے مطابق فائزر کی بنائی گئی ویکسین کا دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد ‪13‬‬
‫فیصد افراد نے سر درد کی شکایات کی تھی۔ اس کا حل بھی ٓاسان ہے‪ٓ ،‬ارام کریں اور سر‬
‫درد کی عام گولی کھا لیں۔‬
‫متلی‬
‫تقریبا ً ‪ 3.5‬فیصد افراد دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد متلی کی شکایت کرتے ہیں جبکہ کچھ‬
‫کو قے بھی ہو جاتی ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کرنے کا وقت ہے‪ ،‬یا پھر جس‬
‫چیز سے آپ کی متلی رک جاتی ہے‪ ،‬اسے استعمال کریں۔‬
‫پٹھوں میں درد‬
‫فائزر کی ویکسین لگوانے والے ‪ 5‬فیصد افراد نے جسم اور پٹھوں میں درد کی شکایت بھی‬
‫کی ہے۔ اگر تکلیف بہت زیادہ ہو تو سر درد کی طرح اس میں بھی کچھ درد ختم کرنے‬
‫والی ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں۔‬
‫کم ہونے والے سائیڈ افیکٹس‬
‫الرجی‬
‫ویکسینز کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں لگوانے والے کئی افراد نے الرجی کی شکایت‬
‫کی‪ ،‬لیکن یہ تمام لوگ ایسے تھے جنہیں پہلے ہی الرجی کے مسائل کا سامنا تھا۔ ویکسین‬
‫لگوانے کے چند ہی منٹوں بعد انہیں الرجی ہونے لگی۔‬
‫عام طور پر ادویات سے الرجی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ٓاپ کو الرجی کا سخت‬
‫مسئلہ ہو تو ٓاپ کو ٹیکا لگوانے کے بعد ‪ 15‬سے ‪ 20‬منٹ تک بٹھایا جاتا ہے تاکہ کسی‬
‫مسئلے کا اندازہ ہو سکے۔‬
‫ویکسین کا پہال ٹیکا لگوانے کے بعد شدید الرجی کا سامنا کرنے والے لوگوں کو دوسرے‬
‫ٹیکے سے پہلے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیئے۔‬
‫خون جمنا‬
‫امریکا نے ‪ 13‬فروری کو ملک میں جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کا عمل روک دیا تھا‬
‫کیونکہ ایک خاتون کی رگوں میں خون جمنے کا پتہ چال تھا‪ ،‬جو مہلک بھی ہو سکتا ہے۔‬
‫اس کے بعد یورپ میں ایسٹرازینیکا\ ویکسین کی وجہ سے ایسی ہی خبریں سامنے آئیں اور‬
‫متعدد لوگوں کی ہالکت کا بھی پتہ چال۔‬
‫یہ پابندیاں بعد میں ہٹا دی گئیں لیکن انتباہ ضرور دیا جا رہا ہے۔ امریکا میں جانسن اینڈ‬
‫جانسن کی ویکسین لگوانے والے ‪ 80‬الکھ افراد میں ایسی شکایات ‪ 17‬افراد نے کی ہیں۔ ان‬
‫میں سے زیادہ تر کی ‪ 50‬سال سے کم عمر کی خواتین تھیں۔‬
‫| ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دل کا مسئلہ‬
‫اسرائیل میں ویکسین لگوانے والے ‪ 62‬افراد میں دل کی سوزش کے مرض کا پتہ چال ہے۔‬
‫امریکی فوج میں بھی ‪ 14‬ایسے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک ویکسین لگوانے کے بعد‬
‫اس مرض کی شرح ایک الکھ میں ایک ہے‪ ،‬جو زیادہ تر ‪ 32‬سال سے کم عمر مردوں میں‬
‫دیکھا گیا ہے اور زیادہ تر کو دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد یہ شکایت ہوتی ہے‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/after-effects-of-vaccination/‬‬

‫کوروناوائرس سے جلد صحت یابی کا نسخہ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪30 2021‬‬

‫عالمی کورونا وبا سے صحت یابی کا دورانیہ مریض کی قوت مدافعت پر انحصار کرتا ہے‬
‫لیکن ماہرین نے ایسی چند اشیا کے مفید مشورے بتائے ہیں جو مہلک وائرس کو جلد‬
‫شکست دینے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔‬
‫ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ عمر‪ ،‬جنس اور صحت مسائل سے بھی کورونا وائرس سے صحت‬
‫ماہرین خوراک کے مطابق کورونا سے تیزی سے‬
‫ِ‬ ‫یابی کا دورانیہ کم یا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫صحت یابی کے لیے چار اشیا کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے جن میں زنک‪ ،‬وٹامن سی‪،‬‬
‫ہلدی ور وٹامن ڈی شامل ہیں۔‬

‫| ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دعوی ہے کہ زنک سے وائرس سے پیدا ہونے والی کمزوری دور ہوتی ہے‪ ،‬یہ‬ ‫ٰ‬ ‫ماہرین کا‬
‫مریض کے جسم میں ٓانے والی کمزوری کو قابو کرتا ہے‪ ،‬روزانہ کی بنیاد پر اگر ‪ 50‬ملی‬
‫گرام زنک استعمال کیا جائے تو جلد وبا پر قابو پانے میں معاونت ملے گی۔‬

‫اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ وٹامن سی کورونا وائرس ہونے کی صورت میں جسمانی‬
‫سوزش کو قابو کرے گا‪ ،‬اس سے مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار بڑھے گی‬
‫اور نئے لمفی خلیے تخلیق ہوں گے۔‬

‫خوراک کے ماہرین کے مطابق ہلدی ٹھنڈ سے نجات حاصل کرنے‪ ،‬کھانسی کو قابو‬
‫کرنے‪ ،‬سینے کی گھٹن کم کرنے‪ ،‬بیکٹریا اور وائرس کو توڑنے اور مدافعتی نظام کو‬
‫مضبوط بنانے معاون ہوتی ہے۔‬

‫وٹامن ڈی کی صالحیت ہے کہ وہ نظام تنفس میں وائرس جانے سے روکتا ہے۔ وبا لگنے‬
‫پر بھی مریض اسے استعمال کرتا رہے اور شفا پانے کے بعد بھی اس کا استعمال جاری‬
‫رکھے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/prescription-for-early-recovery-from-‬‬
‫‪coronavirus/‬‬
‫| ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شہد ‪،‬قدرت کا ایک انمول تحفہ‬
‫‪27/05/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫شہد انسان کیلئے قدرت کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے جس کانعم البدل کوئی نہیں۔ شہد‬
‫ایک قدرتی پیداوار ہے‪،‬اس کا رنگ ‪،‬ذائقہ اور خوشبو مختلف پھولوں جیسی ہوتی ہے‪ ،‬جن‬
‫کی مدد سے شہد بنتا ہے۔شہد عموما ً دو قسم کا ہوتا ہے۔ایک ہلکا زردی مائل اور شفاف‪،‬‬
‫اعلی درجے کا شہد مانا جاتا ہے‪،‬دوسرا بادامی رنگ‬‫ٰ‬ ‫پتال ‪ ،‬نہایت میٹھا‪ ،‬یہ چھوٹی مکھی کا‬
‫کا قدرے گاڑھاہوتا ہے اور اس کے ذائقے میں فرق ہوتا ہے۔شہد کی افادیت صرف ہمارے‬
‫جسم کے اندرونی نظام‬
‫کی مضبوطی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اسے لوگ چہرے کی خوبصورتی کی کیلئے‬
‫بھی استعمال کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں شہد کی مختلف اقسام دستیاب ہیں۔ کچھ شہد چکھنے‬
‫میں میٹھے معلوم ہوتا ہے اور کچھ شہد غذائیت سے بھر پور ہوتا ہے لیکن کچھ شہد کا‬
‫ذائقہ تھوڑا سا کڑوا بھی ہوتا ہے۔ ٓاپ اپنی پسند کے مطابق شہد حاصل کرسکتے ہیں۔ ٓاپ‬
‫واقعی اس کی افادیت کو چھوڑ نہیں سکتے جبکہ ماہرین ہمیشہ اسے کسی چیز میں مالئے‬
‫بغیر کھانے پر زور دیتے ہیں۔احادیث میں بھی شہد کے اندر کم سے کم ستر بیماریوں کی‬
‫شفا کا ذکر کیا گیا ہے۔موجودہ دورکی جدید سائنس ہزاروں سال کے بعد ان باتوں کو ثابت‬
‫کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایمسٹرڈم کے ایک میڈیکل سینٹر میں شہد کے انسانی جسم پر‬
‫مرتب ہونے والے مثبت اثرات پر کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے‬
‫کہ شہد میں ایسی صالحیت موجود ہوتی جو جسم میں موجود جراثیم کو ختم کرسکتی ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیاں ایک ایسا پروٹین پیدا کرتی ہیں جو انسانی صحت‬
‫کیلئے انتہائی شفا بخش اور مفید ہے‬
‫۔ڈیفنسن نامی یہ پروٹین قدرتی شہد میں پایا جاتا ہے جو جلد کے امراض اور انفیکشن‬
‫سمیت کئی بیماریوں سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے‬
‫۔جدید طب نے بھی شہد کو تمام امراض کے لیے اکسیر اور معجزاتی دوا کے طور پر‬
‫تسلیم کیا گیا ہے۔ شہد ہرمرض میں استعمال کیا جا سکتا ہے اس کے متعلق یہاں تک کہا‬
‫جاتا ہے کہ شہد میں موت کے عالوہ ہر بیماری کا عالج پوشیدہ ہے۔ شہد وٹامن‬
‫اورمعدنیات کا خزانہ ہے۔ اس میں داغ اور دھبے وغیرہ مٹانے کی صالحیت موجود ہے۔‬
‫یہ جلد کی مختلف کنڈیشن پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے جیسا کہ ایگزیما‪ ،‬جلد‬
‫کا روکھا پند اور جلد کی دیگر بیماری وغیرہ۔ اس کے جادوئی کماالت سے چہرے کی‬
‫صفائی‪ ،‬لوشن اور فیس ماسک بھی بنایا جاتا ہے۔ گرم پانی میں پتال شہد سر کی خشکی اور‬
‫گرتے ہوئے بال کو روکنے کیلئے عالج کے طور پر استعمال ہوتا ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106354.html‬‬

‫| ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا ویکسین کے ذریعے “چپ” لگائی جارہی ہے یا نہیں؟ حقیقت‬
‫سامنے ٓاگئی‬
‫‪28/05/2021‬‬

‫کورونا ویکسین کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف قسم کی افواہیں زیر گردش ہیں‪ ،‬جس‬
‫میں سرفہرست عوام کے اندر مبینہ طور پر بلیو ٹوتھ چپ ڈالنےکی بات کی جارہی ہے‪،‬‬
‫دوسری جانب سوشل میڈیا پر پھیالئی جانے والی‬
‫ان افواہوں کی تردید بھی کی جارہی ہے۔اس بات کا اب تک کوئی مصدقہ ثبوت موجود نہیں‬
‫ہے کہ ایسٹرا زینیکا کوویڈ‪19‬ویکسین میں بلیو ٹوتھ چپ موجود ہے یا یہ ویکسین وصول‬
‫کنندہ کو بلوٹوتھ کی سہولت کو حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔اس سلسلے میں سوشل‬
‫میڈیا پر ایک ویڈیو کافی وائرل ہورہی ہے جس میں ویکسی نیشن کرانے واال ایک نامعلوم‬
‫شخص ویڈیو ریکارڈنگ کرنے والے شخص سے گفتگو کررہا ہے۔مذکورہ شخص ویکسین‬
‫لینے کے اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ میں‬
‫جہاں بھی جاتا ہوں ہر چیز مجھ سے منسلک ہونے کی کوشش کر رہی ہے‪ ،‬جیسے بلیو‬
‫ٹوتھ چپ کے ذریعے مجھ سے رابطہ قائم کیا جارہا ہو۔‬
‫اس کا کہنا ہے کہ جب میں کار میں سوار ہوتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری‬
‫کار مجھ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں گھر جاتا ہوں تو میرا کمپیوٹر‬
‫بھی رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی مجھ سے میرے فون‬

‫| ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یاد رہے کہ بلوٹوتھ موبائل فون میں موجود ٓاپشنز میں‬
‫سے ایک ٓاپشن ہوتا ہے جسے کسی بھی لفظ میں ترمیم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫مثال کے طور پر ٓاسٹرا زینکا چڈاکس ون ایس کو دکھانے کے لئے کسی بھی موبائل فون‬
‫کے نام میں ترمیم کی جاسکتی ہے اور موبائل فون اور ٹیلی ویژن پر ویڈیو میں نظر ٓانے‬
‫والے نوٹیفکیشن کا اشارہ کرتے ہوئے اسے استعمال کرنے کی درخواست کی جاسکتی‬
‫ہے۔دنیا کے متعدد ممالک نے اسٹرا زینیکا کوویڈ ‪ 19‬ویکسین کو اپنے شہریوں کے لئے‬
‫منتخب کیا ہے۔ویکسین کے اجزاء کی مکمل فہرست میں ریکومبیننٹ\ ‪ ،‬ایل ہسٹائڈائن ‪ ،‬ایل‬
‫ہسٹیڈائن ہائڈروکلورائڈ مونوہائیڈریٹ‪ ،‬میگنیشیم کلورائد ہیکسہائیڈریٹ ‪ ،‬پولسوربیٹ ‪، 80‬‬
‫ایتھنول ‪ ،‬سوکروز ‪ ،‬سوڈیم کلورائد ‪ ،‬ڈیزوڈیم ایڈیٹیٹ ڈہائیڈریٹ‪ ،‬انجیکشن کے لئے پانی‬
‫شامل ہے تاہم ویکسین میں بلیو ٹوتھ چپ موجود نہیں ہے۔بلیوٹوتھ ایک وائرلیس ٹیکنالوجی‬
‫ہے جو کم فاصلے میں ڈیٹا شیئر کرنے کے لئے قلیل رینج کی ریڈیو لہروں کا استعمال‬
‫کرتی ہے‪ ،‬بلوٹوتھ صالحیتوں کے ساتھ اینٹینا سے چلنے والی چپ ٓاسٹرا زینیکا کی جزو‬
‫کی فہرست میں ایسی کسی چیز کا امکان نہیں ہے۔واضح رہے کہ ٓاسٹرا زینیکا نے تبصرہ‬
‫کرنے کے لئے رائٹرز کی اس درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106460.html‬‬

‫بھارت میں تباہی مچانے واال کورونا وائرس پاکستان بھی پہنچ گیا۔۔۔‪B‬‬
‫وزارت صحت نے تصدیق کردی‬

‫‪28/05/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫بھارت میں تباہی مچانے واال کورونا وائرس پاکستان بھی پہنچ گیا۔۔۔ وزارت صحت نے‬
‫تصدیق کردی‬
‫اسالم ٓاباد(ویب ڈیسک )پاکستان میں بھارتی کورونا وائرس کا پہال کیس سامنے ٓاگیا‪،‬‬
‫وزارت صحت نے تصدیق کردی۔وزارت صحت کاکہناہے کہ جنوبی افریقی ویریئنٹ کے‬
‫‪ 7‬اور بھارتی ویریئنٹ کے ایک کیس کی تصدیق ہوئی ہے‪ ‬‬
‫‪،‬کورونا وائرس کی بھارتی قسم کا یہ ملک میں پہال کیس ہے ‪،‬وزارت صحت کا مزید‬
‫کہناہے کہ بھارتی اور جنوبی افریقی کیسز کی کنٹیکٹ ٹریسنگ بھی شروع کردی گئی‬
‫‪،‬وائرس کی عالمی اقسام کی موجودگی کے باعث گائیڈ الئنز پر عمل کی ضرورت ہے ۔‬
‫وزارت صحت نے کہاہے کہ ماسک کے استعمال اور کورونا ویکسی نیشن کی بھی‬
‫ضرورت ہے ‪،‬مئی کے پہلے ‪ 3‬ہفتوںمیں حاصل کردہ نمونوں سے وائرس کی تصدیق ہوئی‬
‫‪،‬نمونوں کی جانچ قومی ادارہ صحت میں کی گئی ۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106508.html‬‬

‫| ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عوام پہلے سے کاٹ کر رکھا ہوا مرغی کا گوشت بالکل نہ خریدیں‪ ،‬پی‬
‫ایم اے‬

‫‪28/05/2021‬‬
‫‪     ‬‬

‫کراچی(ویب ڈیسک )مرغیوں میں وائرل بیماری سامنے ٓانے پر پاکستان میڈیکل ایسوسی‬
‫ایشن نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صحت مند مرغی کو اپنے سامنے ذبح کروا کر‬
‫گوشت خریدیں اور کسی بھی صورت میں پہلے سے تیار شدہ گوشت مت خریدیں۔پاکستان‬
‫میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) سینٹر کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد‬
‫نے کہا ہے کہ حال ہی میں پریس اور میڈیا میں مرغیوں میں پھیلنے والی وائرل بیماریوں‬
‫سے متعلق رپورٹ سامنے ٓائی ہیں جب کہ ایسی خبریں بھی ٓائی‬
‫ہیں کہ کچھ اللچی لوگ اپنے مخصوص گاہکوں کو انتہائی کم قیمت پر مردہ مرغیوں کا‬
‫گوشت بھی فروخت کر رہے ہیں‪ ،‬مارکیٹ میں موجود ایسی کالی بھیٹریں معصوم لوگوں کی‬
‫صحت اور زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔پی ایم اے نے صوبائی حکومتوں سے گزارش کی‬
‫ہے کہ وہ اپنے اپنے خوراک کے محکموں کو متحرک کریں کیونکہ اگر عوام بیمارمرغیوں‬
‫کا گوشت کھا رہے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے اور ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہےپی‬
‫ایم اے کا کہنا تھا کہ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے کچھ دن پہلے ان رپورٹس کی‬
‫تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولٹری فارمرز کو ان وائرل بیماریوں کی وجہ سے مرغیوں‬
‫| ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی کثیر تعداد میں اموات کے باعث بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسوسی ایشن‬
‫کے مطابق مرغیوں کی شرح اموات اتنی زیادہ ہے کہ بہت سے فارمرز نے اپنا کاروبار بند‬
‫کر دیا ہے‪ ،‬ان رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ مرغیوں میں کس حد تک بیماریاں پھیل چکی‬
‫ہیں اور نتیجتا ً مارکیٹ میں غیر صحت مند گوشت فروخت ہو رہا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106559.html‬‬

‫کورونا ویکسین ٓاپ کو ماال مال کرسکتی ہے‪ ،‬لیکن کیسے؟جانیں‬


‫‪02:17 pm 29/05/2021‬‬
‫‪     ‬‬

‫کیلی فورنیا ( نیو زڈیسک) کیا ٓاپ کبھی یہ سوچ سکتے تھے کہ کورونا ویکسین ٓاپ کو ماال‬
‫مال بھی کرسکتی ہے‪ ،‬جی ہاں ایسا ممکن ہے لیکن وہ خوش نصیب شہری صرف امریکی‬
‫ہیں جن کو ویکسی نیشن کرانے پر الکھوں ڈالر انعام میں ملیں گے۔امریکہ میں عالمی وبا‬
‫قرار دیے جانے والے کورونا وائرس سے بچأو اور تحفظ کے لیے ویکسین لگوانے والے‬
‫شہریوں‬
‫کو الکھوں ڈالر انعام دینے کا اعالن کیا گیا ہے۔امریکی ذرائع ابالغ کے مطابق یہ اعالن‬
‫امریکی ریاست کیلی فورنیا کے حکام کی جانب سے کیا گیا ہے جس کی تفصیالت گورنر‬
‫نے بیان کی ہیں۔ انعام دینے کے لیے شہریوں کو حکام کی جانب سے ایک ڈیٹ الئن بھی‬
‫دی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کیلی فورنیا کے گورنر کا یہ اقدام ویکسی نیشن‬

‫| ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بڑھانے کے عمل کا حصہ ہے جس کے تحت ‪ 15‬جون سے قبل کورونا ویکسین لگوانے‬
‫والے ‪ 10‬افراد میں سے ہر ایک کو ‪ 1.5‬ملین ڈالرز بطور انعام دیے جائیں گے۔امریکی\‬
‫میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے عالوہ دیگر ‪ 30‬افراد میں سے ہر ایک کو ‪ 50‬ہزار‬
‫ڈالرز انعام میں دیے جائیں گے جب کہ پہلے ‪ 20‬الکھ افراد کو ‪ 50‬ڈالرزکےگفٹ کارڈ دیے‬
‫جائیں گے۔کیلیفورنیا میں حکام ‪ 15‬جون سے کورونا پابندیاں ختم کرنے کا ارادہ رکھتے‬
‫ہیں۔ ‪ 15‬جون سے قبل ویکسین لگوانے والوں کو‪ 116.5‬ملین ڈالرز کے نقد اور گفٹ کارڈز‬
‫دیے جائیں گے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106621.html‬‬

‫السی کے لڈو کے ایسے فوائد جو ٓاپ کو بھی معلوم نہیں ہوں گے‪ ،‬بس‬
‫بتائے گئے طریقے سے استعمال کریں اور بھرپور فائدہ اٹھائیں‪B‬‬
‫‪     ‬‬
‫‪09:11 pm 29/05/2021‬‬

‫قدرت نے پھل‪ ،‬سبزیوں ‪ ،‬میواجات اور دیگر چیزوں میں بے شمار فوائد پیدا کئے ہیں جن‬
‫کو کھانے سے انسان صحت بخش زندگی گزارتا ہے۔ ٓاج ہم ایک اور ضروری غذا کے‬
‫بارے میں بات کریں گے جس کے استعمال سے انسان تندرست اور چست زندگی گزار‬
‫سکتا ہے‪ ،‬اس کا نام السی ہے۔ جی ہاں غذائیت سے بھر پور ہونے کی وجہ سے السی کو‬
‫بہترین قرار دیا جاتا ہے۔السی کو ہزاروں سے استعمال کیا جارہا ہے ‪،‬کیونکہ اس کے بے‬
‫شمار فوائد ہیں۔ جنہیں نظر انداز کرنا بیوقوفی ہے‪ ،‬السی‬
‫| ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی تاثیر گرم ہونے کے سبب اس سے بنی موسم سرما کی سوغات السی کی پِنیوں (لڈو) کا‬
‫استعمال صحت پر حیران ُکن فوائد مرتب کرتا ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق السی کے بیج‬
‫غذائیت اور فوائد سے بھر پور ہوتے ہیں‪ ،‬السی میں متعدد نسوانی شکایات کا حل بھی‬
‫موجود ہے اسی لیے اسے خواتین کے لیے الزمی غذا قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬السی میں زیادہ‬
‫تعداد میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے جس کے استعمال سے ٓاپ کی ِجلد صاف‪ ،‬بال‬
‫مضبوط اور لمبے ہوتے ہیں۔السی کا استعمال کھانسی‪ ،‬نزلہ‪ ،‬زکام‪ ،‬بلغم‪ ،‬جوڑوں کے درد‪،‬‬
‫سرطان سے بچأو‪ ،‬موٹاپا‪ ،‬گردے میں پتھری‪ ،‬بواسیر‪،‬‬
‫خواتین کے رحم کی رسولیاں‪ ،‬دل کے امراض‪ ،‬تھکن ‪ ،‬سُستی وغیرہ کے لیے معاون ہے۔‬
‫جیسا کہ شروعات میں بھی بتایا کہ السی کے بیجوں کا استعمال صدیوں سے کیا جا رہا ہے‬
‫تو ٓاپ کو بتائیں کہ السی کے لڈو جنہیں پنیاں بھی کہا جاتا ہے جس کی ترکیب درج ذیل‬
‫ہے۔السی کی پنیاں بنانے کے لئے جن اجزاء کی ضرورت پیش ہے ان میں ٓادھا کلو کچی‬
‫گندم‪ٓ ،‬ادھا کلو السی‪ ،‬گھی تین پأو ( اصلی گھی ہو تو زیادہ اچھا ہے)‪ ،‬سو گرام گوند‪ ،‬چینی‬
‫تین پأو‪ ،‬چار مغز سو گرام‪ 100 ،‬گرام بادام‪ ،‬پستے ‪ 100‬گرام پستے‪ ،‬االئچی ‪ 10‬عدد اور‬
‫زردے کا رنگ۔٭ السی کے لڈو (پنیاں) بنانے کا طریقہ سب سے پہلے فوند کو فرائ کریں‬
‫تاکہ وہ پھول جائے‪ ،‬پھر کچی گندم اور السی کو الگ الگ ہلکا سا بھون لیں اور خیال کریں‬
‫کہ جل نہ پائے‪،‬‬
‫اب دونوں کو مکس کر کے گرائنڈر میں پیس لیں‪ ،‬اب اس سفوف کو کڑاہی میں ڈال کر‬
‫گھی میں مزید بھونیں‪ ،‬اب گوند کا چورا کر کے اس میں شامل کر لیں۔اس\ کے بعد چینی کا‬
‫شیرا بنا کر اس میں چار مغز‪ ،‬بادام‪ ،‬پستے‪ ،‬االئچی اور زردے کا رنگ (حسب ضرورت)‬
‫شامل کرلیں‪ ،‬اور اچھی طرح سے ہالئیں اور اب اس میں السی گندم اور گوند ڈال کر مکس‬
‫کریں۔اچھی طرح سے سب چیزیں مکس ہونے کے بعد یکجان نظر ٓانے پر چولہے سے‬
‫اُتار کر ٹھنڈا کریں اور اس کی لڈو کی شکل کی پنیاں بنا کر ایئر ٹائٹ جار میں محفوظ‬
‫کرلیں‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106707.html‬‬

‫کیپسول مختلف رنگوں میں کیوں ہوتے‪ B‬ہیں؟ جانیں ان رنگوں کے‬
‫پیچھے چھپے اہم راز‬

‫‪     pm 29/05/2021 09:10‬‬

‫دوائی گولیاں‪ ،‬کیپسولز کھانے کسی کو بھی پسند نہیں ہیں‪ ،‬ہاں اگر یہ بیوٹی کیپسولز ہوں‪،‬‬
‫خوبصورتی کو بڑھانے والے ہوں تو سب ہی شوق سے کھاتے ہیں۔ لیکن ان تمام کیپسولز‬

‫| ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میں دو چیزیں بالکل یکساں ہوتی ہیں‪ ،‬ایک تو یہ کہ مختلف رنگوں میں ہوتے ہیں کوئی‬
‫الل‪ ،‬تو کئی نیال‪ ،‬کوئی ہرا‪ ،‬تو کوئی گالبی رنگ میں نظر ٓاتا ہے اور دوسری بات جو ان‬
‫میں یکساں نظر ٓاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہی کیپسول دو رنگوں میں ہوتا ہے‪ ،‬ایک سرا‬
‫نیال تو دوسرا پیال یا سفید ہوتا ہے‪ ،‬اس طرح‬
‫کے کیپسولز استعمال کرنے کا اتفاق تو ٓاپ کا بھی ہوا ہوگا۔لیکن کبھی سوچا ہے کہ یہ‬
‫رنگ برنگے کیپسولز کیوں ہوتے ہیں؟ دراصل اس کی دو وجوہات ہیں جو یہ ہیں‪:‬کیپسول‬
‫مختلف رنگوں میں ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کون سی بیماری میں کون سے رنگ کا‬
‫استعمال جسم کو طاقت دے سکتا ہے‪ ،‬اس مرض کے لئے وہی رنگ کا استعمال کرتے‬
‫ہوئے کیپسول تیار کیئے جاتے ہیں۔ایک ہی کیپسول کے دو مختلف رنگ ہونے کی وجہ یہ‬
‫ہے کہ ایک طرف کے حصے میں مرض کے کنٹرول کی دوائی رکھی جاتی ہے اور‬
‫دوسری طرف کے حصے میں اس کو بند کرنے کے لئے ایک کوور لگایا جاتا ہے جس‬
‫کے اندر ایسے سائیکلک ذرات ہوتے ہیں جو دوائی کو کیپسول کے اندر محفوظ بناتے ہیں‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106703.html‬‬

‫ایسا پھل جسکو کھانے سے پیدا ہونے واال ہر بچہ خوبصورت ہوتا ہے‬
‫جان کر حیران ہو جائیں گے‬
‫‪     ‬‬
‫‪30/05/2021‬‬

‫| ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہر انسان کی خواہش ہے کہ وہ خوبصورت ہو اور اس کے ٓانے‬

‫والے بچے بھی خوبصورت شکل و صورت کے مالک ہو ‪ .‬خوبصورتی اگرچہ ایک اچھی‬
‫صفت ہے لکن اس سے زیادہ خوبصورت اچھے اخالق ہے ‪.‬لیکن ہمارے ہاں خوبصورتی‬
‫سے مراد گورا رنگ مراد لیا جاتا ہے ہر عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ‬
‫خوبصورت پیدا ہو‪ ،‬ہمارے ہاں چونکہ خوبصورتی سے مراد گورا رنگ لیا جاتا ہے‪>--.‬‬
‫لہذا ایسا بچہ جس کا رنگ گورا ہو وہی خوبصورت سمجھا جاتاہے‪ .‬مأوں کی شدیدچاہت‬
‫ہوتی ہے کہ ان کے بچے کا رنگ صاف اور گورا ہو‘ تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ‬
‫ایک پھل ایسا ہے جسے کھانے سے مائیں خوبصورت اور گورے چٹے بچوں کو جنم دے‬
‫سکتے ہیں‪.‬تحقیق کے مطابق ٓام وہ پھل ہے جسے حمل میں کے دوران کھانے سے پیدا‬
‫ہونے والے بچوں کارنگ گورا ہوتاہے‪ .‬تاہم کسی بیماری میں مبتال خواتین کو ٓام ڈاکٹرز‬
‫کے مشورے سے استعمال کرنا چاہئیں‪ .‬جبکہ بعض محققین کے مطابق خربوزہ یا عرف‬
‫عام میں ہندوانہ ایسا پھل ہے جس کے کھانے سے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی‬
‫رنگت صاف ہوتی ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106925.html‬‬

‫ایک انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر کتنی ہوسکتی ہے؟سائنس دانوں‬


‫نے تحقیق میں حیران کن انکشاف کرڈاال‬

‫‪09:49 pm 30/05/2021‬‬
‫| ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪     ‬‬
‫موجودہ عہد میں ایک انسان کی زیادہ سے زیادہ عمر کیا ہوسکتی ہے؟ اس کا حتمی جواب‬

‫تو کوئی نہیں دے سکتا مگر سائنسدانوں کے مطابق ایک فرد ‪ 150‬سال تک زندہ رہ سکتا‬
‫ہے۔جریدے نیچر کیمونیکشن میں شائع تحقیق کے مطابق انسان کے لیے ہمیشہ زندہ رہنے‬
‫کے مقصد کا حصول ممکن ہی نہیں اور وہ ایک خاص عمر تک ہی زندہ رہ سکتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ‪ 150‬سال ٓاخری حد ہے یعنی اتنے عرصے تک ہی کوئی صحت مند‬
‫انسانی جسم خود کو مستحکم رکھ سکتا ہے۔ اس تحقیق‬
‫میں ہزاروں افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا اور ان کے خون کے نمونوں اور روزانہ اٹھانے‬
‫جانے والے قدموں کی جانچ پڑتال کی گئی۔ محققین نے تجزیہ کیا کہ جسم کتنے عرصے‬
‫تک مختلف مسائل سے نمٹنے کا اہل ہوتا ہے اور اسی لیے خون کے خلیات کی مقدار اور‬
‫روزانہ اٹھانے والے قدم کو دیکھا گیا اور دریافت کیا کہ عمر کے ساتھ ریکوری کا وقت‬
‫بڑھنے لگتا ہے۔ سنگاپور کی ایک کمپنی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تمام تر‬
‫پیمانوں کی جانچ پڑتال ایک ہی مستقبل کی عکاسی کرتے ہیں‪ ،‬یعنی ایک فرد ‪ 150‬سال‬
‫سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ جیسے جیسے عمر بڑھنے لگتی ہے‬
‫ہمارا ڈین این اے اور دیگر مالیکیولز تباہ ہونے لگتے ہیں اور جسمانی مشینری ختم ہونے‬
‫لگتی ہے جس کا اختتام موت پر ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ‪ 120‬سے ‪ 150‬سال کی‬
‫عمر میں جسم مختلف طبی مسائل کے خالف مزاحمت کھونے لگتا ہے اور اس سے عندیہ‬
‫ملتا ہے کہ یہی انسانی عمر کی حد ہے۔ موجودہ عہد میں سب سے زیادہ عمر پانے والی‬
‫شخصیت ایک خاتون جینی کالمیٹ تھیں جو ‪ 1997‬میں ‪ 122‬سال کی عمر میں چل بسی‬
‫تھیں۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں عمر کی اس 'حد' میں اضافہ‬

‫| ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ کسی چیز کے پیمانے کا تعین اس کو بڑھانے کے لیے پہال قدم‬
‫ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106940.html‬‬

‫حجامہ ’کپنگ تھیراپی‘ کروانے کے فوائد‬

‫مئی ‪28 2021 ،‬‬

‫صحت اور بیماریوں کا انسان سے پرانا رشتہ ہے‪ ،‬بیماریاں پہلےقدیم زمانے میں بھی ہوا‬
‫کرتی تھیں مگر اُس وقت اُن کی سمجھ بوجھ اور عالج کا شعور نہیں تھا‪ٓ ،‬ا ج کل جہاں‬
‫سائنس نے بے حد ترقی کر لی ہے وہیں صدیوں سے استعمال کیے جانے واال طریقہ‬
‫حجامہ ’ کپنگ تھیراپی‘ ٓاج بھی اپنی اہمیت اور افادیت رکھتا ہے بلکہ اب حجامہ بھی نئی‬
‫جدت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‬
‫حجامہ صدیوں سے استعمال کیے جانے واال سستا اور اسالمی تعلیمات سے تصدیق شدہ‬
‫عالج ہے‪ ،‬حجامہ ایک ایسا اسالمی طریقہ عالج ہے جس کے ذریعے جسم سے گندا‪،‬‬
‫مضر صحت خون نکال دیا جاتا ہے اور انسان بہت سی خطرناک بیماریوں سے بچ جاتا‬
‫ہے‪ ،‬یہ عالج اس قدر مفید ہے کہ اب جدید سائنس بھی اس کی افادیت‪  ‬کی ناصرف قائل ہو‬

‫| ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گئی ہے بلکہ اب تو مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد اور معروف شخصیات‬
‫بھی جسم کو ڈیٹاکس کرنے کے لیے حجامہ کرواتے ہیں۔‬
‫حجامہ کیسے کیا جاتا ہے‪  ‬؟‬
‫حجامہ کرنے کے لیے مریض کے جسم کے مختلف حصوں پر گول شکل کے کپ لگا‬
‫دیئے جاتے ہیں‪ ،‬اسی لیے اس طریقہ عالج کو ’کپنگ تھیراپی‘ بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬حجامہ‬
‫سے قبل مطلوبہ جسم کے حصے پر زیتون یا کلونجی کا تیل لگا دیا جاتا ہے جس سے جلد‬
‫پرسکون رہتی ہے‪ ،‬بعد ازاں جراثیم سے پاک َکپس میں ویکیوم پیدا کر کے انہیں‪  ‬جلد پر‬
‫لگا دیا جاتا ہے۔‬
‫ان کپس کو لگانے سے ِجلد ٓاکسیجن نہ ملنے کی صورت میں سوج کر پھول جاتی ہے‪ ،‬اب‬
‫اس سوجی ہوئی جگہ پر بلیڈ کے ذریعے چھوٹے چھوٹے َکٹ لگا دیئے جاتے ہیں‪ ،‬ان َکٹس‬
‫سے جسم پر کوئی تکیلف نہیں ہوتی‪َ ،‬کپس دوبارہ‪  ‬جلد پر لگا دیئے جاتے ہیں۔‬
‫اس مرحلے میں اب گندا خون جسم سے باہر نکلنے لگتا ہے جسے ‪ 10‬سے ‪  20‬منٹ بعد‬
‫کپس ہٹا کر صاف کر دیا جاتا ہے‪ ،‬ایسے میں جسم گندے خون سے پاک ہو جاتا ہے اور‬
‫انسان موجودہ شکایت سمیت متعدد بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔‬
‫حجامہ اسالمی تعلیمات میں تصدیق شدہ‬
‫مختلف روایتوں میں ٓاتا ہے کہ حجامہ ایک قدیم ترین اور نبی کریم حضرت‬
‫محمدﷺ اور مالئکہ کا تجویز کردہ عمل ہے‪ ،‬حضرت‬
‫محمدﷺ نے حجامہ لگانے کو افضل عمل قرار دیا ہے‪ ،‬اس قدیم طریقہ‬
‫عالج میں جسم کے ‪ 143‬مقامات سے مضر صحت خون نکاال جا سکتا ہے۔‬
‫حجامہ اور جدید سائنس‬
‫حجامہ کروانے کے نتیجے میں جسم کے اعضاء میں موجود‪  ‬درد میں‪ٓ ‬ارام سے لے کر‬
‫صاف ِجلد تک کا عالج ممکن ہے‪ ،‬جدید سائنس میں حجامہ پر کی جانے والی تحقیق کے‬
‫مطابق حجامہ کروانے سے جسم میں خون کی روانی بہتر ہوتی ہے‪ ،‬جمنے واال فاسد خون‬
‫خارج ہو جاتا ہے‪  ،‬جسم سے زہریال مواد نکل جاتا ہے‪ ،‬حجامہ کی تعلیمات چین کی قدیم‬
‫کتابوں میں‪ ‬بھی ملتی ہیں۔‬
‫حجامہ سے کن بیماریوں کا عالج ممکن ہے ؟‬
‫حجامہ کروانے سے بلڈ پریشر‪ ،‬ذہنی دبأو ‪ ،‬جوڑوں‪ ،‬پٹھوں ‪ ،‬کمر ‪ ،‬ہڈیوں ‪ ،‬سر (درد‬
‫شقیقہ) مائیگرین‪ ،‬یرقان‪ ،‬دمہ‪ ،‬ایکنی‪ ،‬کیل مہاسوں‪ ،‬قبض‪ ،‬بواسیر‪ ،‬فالج‪ ،‬موٹاپا‪،‬‬
‫کولیسٹرول‪ ،‬مرگی‪ ،‬گنجاپن اور موسمی الرجی سمیت متعدد بیماریوں‪ ‬کا عالج ممکن ہے۔‬
‫حجامہ ’کپنگ تھیراپی‘ کرنے والے ماہرین کے مطابق حجامہ کروانے کے نتیجے میں‬
‫انسان کا روحانی عالج بھی ممکن ہوتا ہے۔‬

‫‪https://jang.com.pk/news/933274‬‬

‫| ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓادھے سر کے درد سے خواتین زیادہ متاثر کیوں ہیں؟‬
‫مئی ‪30 2021 ،‬‬

‫)‪ٓ‘ (Migraine‬ادھے سر کا درد یعنی ’در ِد شقیقہ‘ کو انگریزی میں ’مائیگرین‬

‫کہا جاتا ہے‪ ،‬انسان عام سر درد کو تو برداشت کر لیتا ہے مگر در ِد شقیقہ بہت شدید اور‬
‫خطرناک ثابت ہوتا ہے جو کہ متاثرہ فرد کو شدید کمزوری کا شکار بھی بنا سکتا ہے‪ ،‬در ِد‬
‫شقیقہ کی تا حال نہ کوئی واضح وجہ سامنے ٓا سکی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مٔوثر عالج‬
‫ہے۔‬
‫مائیگرین یعنی در ِد شقیقہ قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے‪ ،‬طبی ماہرین کے مطابق‬
‫در ِد شقیقہ کا نشانہ زیادہ تر خواتین بنتی ہیں۔‬

‫دنیا کے ‪ 195‬ممالک میں در ِد شقیقہ کے حوالے سے کیئے گئے ایک مفصل سروے کے‬
‫مطابق یہ بیماری خواتین میں زیادہ عام پائی جاتی ہے‪ ،‬در ِد شقیقہ کا ہر ‪ 15‬مردوں میں‬
‫سے ‪ 1‬اور ہر ‪ 5‬عورتوں میں سے ‪ 1‬عورت شکار ہے۔‬
‫مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس بیماری کے زیادہ ہونے کی وجوہات واضح نہیں‬
‫ہیں‪2018 ،‬ء میں ایریزونا یونیورسٹی میں مادہ اور نر چوہوں پر کی گئی تحقیق میں بتایا‬
‫| ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪NHE1‬گیا کہ اس شکایت کی وجہ ایسٹروجن کی سطح اور سوڈیم پروٹون ایکس چینجر‬
‫کی نچلی سطح کے مابین تعلق ہو سکتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق خواتین در ِد شقیقہ کا زیادہ شکار اس لیے بھی ہوتی ہیں کیوں کہ اِن‬
‫میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ ‪ NHE1 ‬میں‪ ‬جنسی ہارمونز کا بڑے پیمانے پر اتار چڑھأو‬
‫ویں صدی کے ماہرین کا در ِد شقیقہ سے متعلق کہنا تھا کہ اس کا تعلق غریب طبقے ‪19‬‬
‫کی مأوں سے ہوتا ہے جن کے ذہن روز مرّہ کے کام‪ ،‬کم نیند‪ ،‬بار بار دودھ پالنے اور‬
‫غذائی قلت کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔‬
‫ویں صدی میں اس حوالے سے ایک نیا نظریہ سامنے ٓایا جس کے مطابق در ِد شقیقہ کو ‪20‬‬
‫جدید لگژری کا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے‪ ،‬یعنی ایسی چیز جو اونچے طبقے کے مرد و‬
‫خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے۔‬
‫ویں صدی کے دوران اونچے طبقے کے ماحول میں پلنے والوں کے بارے میں تصور ‪20‬‬
‫کیا جاتا ہے کہ وہ نازک اعصاب کے مالک ہوتے ہیں‪ ،‬خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے‬
‫کہ وہ دانشمندانہ کام کرنے کی صالحیت کم رکھتی ہیں‪ ،‬جس کے نتیجے میں ان کا نازک‬
‫اعصابی نظام فوراً شدید دبأو کا شکار ہو جاتا ہے۔‬
‫در ِد شقیقہ اور دور جدید‬
‫در ِد شقیقہ پر کی جانے والی حالیہ تحقیق کے مطابق سر درد کی تکلیف اور ذہنی امراض‬
‫کے درمیان ایک تعلق ہے‪ ،‬ایک نئی تحقیق کے مطابق در ِد شقیقہ درحقیقت مختلف نفسیاتی‬
‫‪ ‬عوارض کے باعث ہوتا ہے۔‬
‫ء میں کی جانے والی ایک تحقیق میں در ِد شقیقہ اور ’بائی پولر ِڈس ٓارڈر‘ کے‪2016‬‬
‫درمیان مثبت تعلق پایا گیا تھا جبکہ در ِد شقیقہ سے متاثرہ لوگوں کے’جنرل انزائٹی ڈس‬
‫ٓارڈر‘ سے متاثر ہونے کا خطرہ ‪ 2.5‬گنا زیادہ تھا جبکہ ڈپریشن کے شکار افراد میں در ِد‬
‫شقیقہ کا امکان ‪ 3‬گنا زائد تھا۔‬
‫ایک اور تحقیق کے مطابق در ِد شقیقہ سے متاثرہ ہر ‪ 6‬میں سے ایک فرد نے زندگی کے‬
‫کسی نہ کسی موقع پر خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا‬
‫یونیورسٹی ٓاف ٹورنٹو کے انسٹیٹیوٹ فار الئف کورس اینڈ ایجنگ کے ڈائریکٹر ایسمے فُلر‬
‫تھامسن جو خود بھی در ِد شقیقہ کے خودکشی سے تعلق پر تحقیق کر چکے ہیں‪ ،‬اُن کا کہنا‬
‫ہے کہ ’جب کسی شخص کو معلوم نہ ہو کہ در ِد شقیقہ کا حملہ کب ہو جائے گا اور یہ‬
‫مالزمت اور خاندانی ذمے داریوں کو کیسے متاثر کرے گا‪ ،‬تو یہ بات حیران کن نہیں کہ‬
‫اس کے باعث زیادہ ذہنی دبأو ہو سکتا ہے‘۔‬
‫در ِد شقیقہ کا عالج کیا ہے؟‬
‫در ِد شقیقہ ایک عام مرض ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹروں کو اس سے متعلق‬
‫عالج یا مریض کو اس سے نجات دالنے کی ٹپس معلوم ہوں مگر ایسا نہیں ہے‪ ،‬سائنسی‬
‫شعبے میں در ِد شقیقہ کا تاحال کوئی مٔوثر عالج سامنے نہیں آ سکا ہے‬
‫امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے مئی ‪2018‬ء میں ایک ایسی دوا کی منظوری دی‬
‫تھی جو سی جی ٓار پی ریسیپٹر پر اثر انداز ہونے کی صالحیت کی حامل تھی۔‬
‫| ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دماغ کے ریسیپٹر یعنی حس سے متعلق خلیے در ِد شقیقہ کے اٹیک کی وجہ بنتے ہیں اور‬
‫یہ مجوزہ دوائی ان خلیوں کو بالک کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔‬
‫فی الحال لوگ در ِد شقیقہ کے لیے درد سے بچأو کے لیے ادویات (پین کلر)‪ ،‬انجائنا اور‬
‫ہائی بلڈ پریشر کی ادویات استعمال کر رہے ہیں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/934337‬‬

‫تمباکو نوشی چھوڑیں‪ ،‬زندگی سے پیار کریں‬


‫‪30 May,2021 06:21 pm‬‬

‫الہور‪( :‬دنیا نیوز) سگریٹ نوشی منشیات میں سب سے سستا‪ٓ ،‬اسانی سے دستیاب ہونیواال‬
‫نشہ ہے۔ سب سے بڑی بات اسے قابل سزا نشہ نہیں سمجھا جاتا جیسے شراب‪ ،‬افیون‪،‬‬
‫ہیروئن‪ ،‬چرس‪ ،‬وغیرہ کی قانونی طور پر ممانت ہے۔‬
‫سگریٹ پینا قانونا ً جرم نہیں ہے۔ وزارت صحت کی صرف اتنی سی ذمہ داری ہے کہ وہ‬
‫ہر سگریٹ کی ڈبی پر یہ تحریر کروا دیتی ہے ’’ تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘‘ اس کا‬
‫انجام منہ کا کینسر ہے اس کے بعد وزارت صحت کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔‬
‫دنیا بھر میں ہر سال ‪ 31‬مئی کو انسدا ِد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ‬
‫کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے زیر اہتمام اس دن کو منانے کیلئے تمباکو نوشی‬
‫کی تمام اقسام سے ‪ 24‬گھنٹے کیلئے عالمتی طور پر اجتناب کیا جاتاہے ۔اس دن کے منانے‬
‫کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو یہ پیغام دینا کہ سگریٹ نوشی انسانی صحت کیلئے‬
‫نقصان دہ ہے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔‬
‫| ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو کا استعمال کرنے والے افراد کی‬
‫مجموعی تعداد‪ 1‬ارب سے زائد ہے ۔یعنی ہر پانچواں فرد سگریٹ نوش ہے ۔ایک اندازے‬
‫کے مطابق ساالنہ تقریبا ً ‪60‬الکھ افراد اس شوق کی نذر ہو جاتے ہیں۔‪ 2‬کروڑ افراد ساالنہ‬
‫‪20‬ارب روپے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔پاکستان میں ہر تیسرا شخص سگریٹ نوشی کی‬
‫لت میں مبتال ہے‪ ،‬ہمارے ملک میں ایسے بھی ہیں‪ ،‬جن کے پاس تین وقت کا کھانا کھانے‬
‫کی اسطاعت نہیں ہوتی‪،‬لیکن وہ سگریٹ ضرور پیتے ہیں‪ ،‬ایک رپورٹ کے مطابق‬
‫پاکستان کی ‪16‬فیصد خواتین تمباکو نوشی کی لت میں مبتال ہو چکی ہیں۔سگر یٹ نوشی‬
‫انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے ہر ‪8‬سکینڈ میں ایک شخص کی موت کا سبب بن‬
‫رہی ہے۔‬
‫تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ‪ 9‬فیصد سرطان کی وجہ تمباکو نوشی ہے۔ سگریٹ نوشی‬
‫کے بے شمار نقصانات ہیں ‪،‬جن سے سگریٹ پینے والے بھی ٓاگاہ ہیں ۔مثالَبھوک کا گھٹنا‪،‬‬
‫تھکاوٹ کا بڑھنا‪،‬دماغی صالحیتوں کا منشر ہونا‪،‬سانس ٓالودہ ہونا‪،‬چہرہ پھیکا ‪،‬دانت و‬
‫ہونٹ کاسیاہ ہوجانا ۔ڈپریشن‪،‬السر‪،‬جگر ‪،‬پھیپھٹرے ‪،‬گلے اور جبڑے کا کینسر‪،‬دل کے‬
‫دورے ‪،‬بلڈپریشر جیسی بیماریوں اورتنگ دستی ‪،‬بے روزگاری اور افالس و محتاجی‬
‫‪،‬سماجی و معاشرتی انتشار و بد نظمی ‪،‬وغیرہ سگریٹ نوشی قوت ارادی کو ختم کر دیتی‬
‫ہے۔‬
‫ہم سگریٹ کے عادی کیوں ہو جاتے ہیں۔ بڑی وجہ تجسس ہے ‪،‬پھر فلمی ستاروں اور‬
‫اشتہارات کے دلفریب نظارے‪،‬بہت سی غلط فہمیاں مثالً غم کو بھالنے کیلئے وہ غم جاناں‬
‫ہو یا غم جہاں سگریٹ پینا شروع کی جاتی ہے ۔بیشتر سگریٹ نوش اسے تنأو میں کمی‬
‫کیلئے استعمال کرتے ہیں۔‬
‫سگریٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا بتایا جاتا ہے۔ دراصل ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔‬
‫اگر ہم فیصلہ کر لیں تو ترک سگریٹ نوشی مشکل نہیں ہے۔زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں‬
‫جو سگریٹ نہیں پیتے۔‬
‫جب سگریٹ کی طلب ہو تو خود سے عہد کریں میں قوت ارادی کا مضبوط ہوں ‪،‬میرا‬
‫فیصلہ ہے میں سگریٹ نہیں پیوں گا ۔اس کے ساتھ خود ترغیبی کے ذریعے خود کو ہی‬
‫سگریٹ کے خالف لیکچر دیں۔مراقبہ ‪ ،‬یوگا اور پابندی سے ورزش کرنے سے سگریٹ‬
‫نوشی سے نجات مل جاتی ہے کیونکہ نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی ٓاجاتی ہے جب‬
‫ورزش کی جا رہی ہوتی ہے ۔لیکن سب سے اہم ٓاپ کی قوت ارادی ہی ہے ‪ٓ،‬اٹو سجیشن ہی‬
‫ہے ‪،‬خود کو سمجھانا ترغیب دینا‪ ،‬اپنی صحت کے لیے ہے ۔خاندان کے لیے۔بچوں کے‬
‫لیے ۔ٓاپ نے خود فیصلہ کرنا ہے اور اس پر ڈٹ جانا ہے ۔‬
‫رمضان المبارک میں افطاری کے فوری بعد سگریٹ نوشی کرنے سے امراض قلب کے‬
‫خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔افطار ی کے فوری بعد جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں انہیں‬
‫جسمانی جھٹکوں اور ہاتھ اور پاؤں میں کپکپاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے عالوہ‬
‫چکر بھی ٓاتے ہیں۔ اس لیے کہ طویل وقفے کے بعد سگریٹ پینے سے جسم کا تمام‬
‫مدافعتی نظام درہم برہم ہوتا ہے ‪،‬جب کہ تھوڑے وقفے سے سگریٹ پینے پر ایسا نہیں‬
‫| ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوتا‪ ،‬رمضان کے مہینے سے فائدہ اٹھا کر سگریٹ نوشی ترک کرنے کا ٓاغاز کیا جانا‬
‫چاہیے اور روزے کے طویل اوقات کے دوران جسم کے تمباکو کے عدم استعمال کی‬
‫عادت سے مستفید ہونا چاہیے۔‬
‫ایک تحقیق کے مطابق مراقبے کی مشق سے تمباکو نوشی کے عادی افراد کیلئے اس لت‬
‫سے چھٹکارا پانا ٓاسان ہوجاتا ہے۔ چاہے ٓاپ اسے چھوڑنے کی کوشش نہ بھی کر رہے ہو۔‬
‫جو افراد ٓاغاز پر سگریٹ نوشی سے گریز کرنے کی کوشش شروع کرتے ہیں ان کی‬
‫کامیابی کا کافی زیادہ امکان ہوتا ہے۔نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی ٓاجاتی ہے جب‬
‫ورزش کی جا رہی ہوتی ہے کیونکہ جسمانی مشقت کے دوران دماغ سیروٹینین اور‬
‫ڈوپامائن جیسے کیمیکل خارج کرتا ہے جو خوشی اور راحت کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔‬
‫سگریٹ کی کشش اس وقت دم توڑ جاتی ہے جب ہمارا دماغ اس کا تعلق بدبو سے جوڑ دیتا‬
‫ہے‪ ،‬ایک اور حالیہ تحقیق کے مطابق دماغ کے روئیے میں یہ تبدیلی اس وقت ٓاتی ہے جب‬
‫ہم سو رہے ہوتے ہیں۔‬
‫پھلوں اور سبزیوں کا استعمال تمباکو نوش افراد کو سگریٹ سے پاک طرز زندگی بسر‬
‫کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ جو لوگ ‪12‬ہفتے تک ویٹ لفٹنگ کے پروگرام کا حصہ‬
‫بنتے ہیں ان کے تمباکو نوشی چھوڑنے کے امکانات دوگنا زیادہ ہوتے ہیں خاص طور پر‬
‫ان افراد کے مقابلے میں جو ڈمبلز سے دور بھاگتے ہیں۔کئی بار جب ٓاپ سگریٹ خریدنے‬
‫باہر نکلیں تو اپنے کسی پالتو جانور کو بھی ساتھ لے لیں‪ ،‬ایک محقق کے مطابق تمباکو‬
‫نوشی سے ٓاپ اپنے ان بے زبان ساتھیوں کی زندگیوں کو بھی خطرے کا شکار بنا دیتے‬
‫ہیں اور ان سے محبت کرنے والے ان کا خیال رکھتے ہوئے تمباکو نوشی ترک کرنے کے‬
‫عزم پر عملدرٓامد کرنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔پُرجوش سرگرمیوں کا حصہ بننا بھی‬
‫دماغ کے سکون کا باعث بنتا ہے جیسے نکوٹین‪ ،‬کسی نئے مشغلے کو اپنانے سے‬
‫سگریٹ کی خواہش میں کمی ٓاتی ہے اس لت سے چھڑانے کی سوچ جلد دم توڑ جاتی ہے‬
‫لہٰ ذا اس کیلئے مختلف اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔‬
‫تحریر‪ :‬اختر سردار چودھری‬
‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/603897‬‬

‫بچوں میں موٹاپے کی شرح دگنی ہونے کا خدشہ‪ ،‬ماہرین کا انتباہ‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪29 2021‬‬

‫| ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دنیا کو کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ موٹاپے کی وبا کا بھی سامنا ہے جس کے‬
‫اثرات اتنے ڈرامائی تو نہیں لیکن یہ وبا بھی روزانہ ہزاروں افراد کی ہالکت اور معذوری‬
‫کا سبب بن رہی ہے۔‬
‫کورونا وائرس اور موٹاپے کی وباؤں کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ متعدی مرض‬
‫چند دنوں یا ہفتوں میں انسان کی جان لے لیتا ہے جبکہ موٹاپا کسی بھی انسان کو آہستہ‬
‫آہستہ ناقابل عالج بیماریوں میں مبتال کرکے معذور اور موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔‬
‫موٹاپے کی وبا پر قابو پانے کے لیے مصنوعی میٹھے مشروبات اور فاسٹ فوڈ کو عوام‬
‫کی رسائی سے دور رکھنے کے اقدامات کرنے پڑیں گے‪ ،‬کورونا وائرس کی وبا کے‬
‫باعث بچوں میں موٹاپے کی شرح دگنی ہونے کا خدشہ ہے۔‬
‫ان خیاالت کا اظہار پاکستانی اور بین االقوامی ماہرین امراض پیٹ وجگر نے ورلڈ‬
‫ڈائیجسٹو ہیلتھ ڈے ‪ 2021‬کے موقع پر آن الئن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔‬
‫پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کے زیرتحت ہونے والے آن الئن سیمینار سے‬
‫بھارتی پروفیسر اجے ڈوسیجا‪ ،‬سعودی عرب سے ڈاکٹر ماجدہ بخاری‪ ،‬بنگلہ دیش سے‬
‫لبنی کامانی‪،‬‬
‫پروفیسر مامون المحتاب‪ ،‬پی جی ایل ڈی ایس کی صدر پروفیسر ڈاکٹر ٰ‬
‫سوسائٹی کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد‪ ،‬جناح اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر نازش بٹ‪،‬‬
‫آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر اسما احمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔‬
‫بھارتی ماہر امراض پیٹ وجگر پروفیسر اجے ڈوسیجا کا کہنا تھا کہ اگرچہ کورونا وائرس‬
‫کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے بچاؤ ممکن ہے لیکن اس کے باوجود یہ ناقابل یقین‬
‫رفتار سے پھیل رہا ہے۔‬

‫| ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ موٹاپے کے متعلق سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ موٹاپے سے بچا جاسکتا‬
‫ہے‪ ،‬موٹاپے سے بچاؤ نہ صرف صحت مند طرز زندگی اختیار کرکے ممکن ہے بلکہ اب‬
‫ادویات اور سرجری کے ذریعے بھی اس بیماری پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‬
‫ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ موٹاپا ذیابطیس اور بلڈ پریشر کے مرض کا سبب بنتا ہے‬
‫لیکن اب ایسے ثبوت موجود ہیں کہ موٹاپا ختم کرکے ان دونوں بیماریوں سمیت کئی‬
‫خطرناک بیماریوں سے نجات بھی ممکن ہے۔‬
‫پی جی آئی ڈی ایس کی صدر اور لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر‬
‫لبنی کمانی نے کہا کہ ورلڈ گیسٹرواینٹرولوجی\ آورگنائزیشن اور عالمی ادارہ صحت‬ ‫ڈاکٹر ٰ‬
‫کے مطابق دنیا کو اس وقت دو عالمی وباؤں کا سامنا ہے‪ ،‬جس میں کورونا کی وبا پر تو‬
‫شاید جلد ہی قابو پالیا جائے لیکن موٹاپے کی وبا کے متعلق نہ لوگوں میں اتنا شعور ہے‬
‫اور نہ ہی اس کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان ہے۔‬
‫لبنی کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر تیسرا فرد کا جسمانی وزن زیادہ ہے‬
‫پروفیسر ٰ‬
‫جبکہ ‪ 25‬فیصد افراد موٹاپے کی بیماری کا باقاعدہ شکار بن چکے ہیں‪ ،‬پاکستان میں‬
‫اسکول جانے والے ‪ 20‬فیصد بچے موٹاپے کا شکار ہیں اور کورونا کی وبا کے باعث اس‬
‫شرح کے دگنے ہونے کا خدشہ ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ موٹاپا نہ صرف ذیابطیس‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر‪ ،‬دل کے دوروں‪ ،‬فالج‬
‫بلکہ جگر کے ناکارہ ہونے کا سبب بھی بن رہا ہے بلکہ موٹاپے کے شکار افراد کی قوت‬
‫مدافعت کم ہونے کے باعث وہ کورونا اور دیگر متعدی امراض میں بھی مبتال ہو رہے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کے متعلق آگاہی پھیالئی جائے‬
‫اور عوام کو مصنوعی میٹھے مشروبات سمیت دیگر نقصان پہنچانے والی غذائی اشیاء‬
‫سے دور رکھنے کے اقدامات کئے جائیں۔‬
‫پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے‬
‫شہروں میں کھیلوں اور ورزش کی سہولیات ناپید ہو چکی ہیں جبکہ جنک فوڈ اور‬
‫کولڈڈرنکس کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے موٹاپے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو‬
‫چکا ہے‪ ،‬الک ڈاون جیسے اقدامات کی طرز پر موٹاپے پر قابو پانے کے لیے بھی الک‬
‫ڈاؤن لگانا ضروری ہو چکا ہے۔ویبینار کی موڈریٹر اور جناح اسپتال کراچی سے وابستہ‬
‫ماہر صحت ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ ورلڈ گیسٹرو انٹرالوجی اورگنائزیشن ہر سال ‪29‬‬
‫مئی کو ورلڈ ڈائجسٹو ہیلتھ ڈے بناتی ہے جس کا مقصد عوام میں پیٹ کی بیماریوں کا سبب‬
‫بننے والے عوامل کو اجاگر کرنا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس سال اس عالمی دن کی تھیم موٹاپے کی عالمی وبا کے حوالے سے‬
‫ہے‪ ،‬میڈیا سے گزارش ہے کہ موٹاپے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے‬
‫متعلق شعور پیدا کیا جائے‪ ،‬اسالم بھی موٹاپے کو کم کرنے کی ہدایت کرتا ہے‪ ،‬ورزش‬
‫کرنا اور خود کو جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھنا عین اسالمی اور عبادت کے مترادف‬
‫ہے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160919/‬‬
‫| ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کووڈ کے ‪ 70‬فیصد مریضوں میں طویل المعیاد عالمات کا خطرہ ہوتا‬


‫ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪29 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کے نتیجے میں ہسپتال میں داخل ہونے والے ہر ‪ 10‬میں سے ‪ 7‬افراد کو‬
‫صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے‬
‫والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬

‫اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے ہسپتال میں داخل‬
‫ہونے والے ‪ 70‬فیصد سے زیادہ مریضوں کو طویل المعیاد بنیادوں پر بیماری کے اثرات کا‬
‫سامنا ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ وبا کے آغاز میں کورونا وائرس سے بیمار ہونے پر طویل المعیاد‬
‫نتائج کو مکمل نظرانداز کیا گیا‪ ،‬مگر اب معلوم ہورہا ہے کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔‬

‫| ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے تعین کے لیے محققین نے جنوری ‪ 2020‬سے مارچ ‪ 2021‬تک شائع ہونے والی‬
‫‪ 45‬تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫ان تحقیقی رپورٹس میں ‪ 10‬ہزار کے قریب کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا‪ ،‬جن‬
‫میں سے ‪ 83‬فیصد ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 72.5‬فیصد مریضوں کو ‪ 84‬میں سے کم از کم کسی ایک‬
‫عالمت کا سامنا ہے۔‬
‫ان میں سب سے عام تھکاوٹ تھی جس کا سامنا ‪ 40‬فیصد مریضوں کو تھا‪ 36 ،‬فیصد کو‬
‫سانس لینے میں مشکالت‪ 29 ،‬فیصد کو نیند کے مسائل‪ 25 ،‬فیصد کو توجہ مرکوز کرنے‪،‬‬
‫‪ 20‬فیصد کو ڈپریشن اور ذہنی بے چینی اور ‪ 20‬فیصد کو ہی عام تکلیف اور عدم اطمینان‬
‫جیسی عالمات کا سامنا ہوا۔‬
‫مریضوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے دیگر مسائل میں سونگھنے اور چکھنے کی‬
‫حسوں سے محرومی‪ ،‬یادداشت سے محرومی‪ ،‬سینے میں تکلیف اور بخار قابل ذکر تھے۔‬
‫تحقیق میں صحتیابی کے کم از کم ‪ 60‬دن بعد بھی عالمات برقرار رہنے کو طویل المعیاد‬
‫عالمات کا تسلسل قرار دیا گیا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر مریضوں کو طبی نگہداشت کی ضرورت پڑی اور‬
‫یہ صحت کے نظام کے لیے ایک بڑا وجھ ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اگر ‪ 70‬فیصد معتدل سے سنگین حد تک کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد‬
‫کو عالمات کے تسلسل کا سامنا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑا نمبر ہے‪ ،‬درحقیقت یہ چونکا دینے‬
‫واال ہے کہ کتنی زیادہ عالمات کا سامنا مریضوں کو ہوتا ہے جس کے لیے النگ کووڈ کی‬
‫اصطالح استعمال کی جاتی ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے یہ تحیق اس لیے کی کیونکہ متعدد خبروں اور سائنسی‬
‫مضامین میں کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کے بارے میں بات کی گئی‪ ،‬مگر بہت کم میں‬
‫اس کے بارے میں گہرائی میں جاکر سانسی شواہد اکٹھے کیے گئے کہ یہ عالمات کتنے‬
‫عرصے تک برقرار رہتی ہیں اور کون اس سے متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ اعدادوشمار شاک کردینے والے ہیں بالخصوص تھکاوٹ اور سانس کے‬
‫مسائل کا سامنا کرنے والے افرد کی تعداد‪ ،‬یہ بہت تکلیف دہ عالمات ہوتی ہیں جبکہ کچھ‬
‫افراد نے سیڑھیاں چڑھنے میں مشکالت کو بھی رپورٹ کیا۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔‬
‫اس سے قبل اپریل ‪ 2021‬میں النگ کووڈ کے حوالے سے واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف‬
‫میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے بشمول ایسے‬
‫مریض جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی‪ ،‬میں وائرس کی تشخیص کے ‪ 6‬ماہ بعد‬
‫موت کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں کووڈ ‪ 19‬کے ‪ 87‬ہزار سے زائد مریضوں اور لگ بھگ ‪ 50‬الکھ دیگر‬
‫مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬

‫| ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی جریدے جرنل نیچر میں ‪ 22‬اپریل کو شائع ہونے والی تحقیق میں شامل محققین کا کہنا‬
‫تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ کی تشخیص کے ‪ 6‬ماہ بعد موت کا خطرہ موجود‬
‫ہے‪ ،‬چاہے مریض میں بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ تحقیق النگ کووڈ پر ہونے والی دیگر تحقیقی رپورٹس سے مختلف‬
‫ہے کیونکہ اس میں اعصابی یا دیگر پیچیدگیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے کووڈ ‪19‬‬
‫سے متعلق تمام بیماریوں کی جامع فہرست مرتب کرنے پر کام کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں ثابت ہوا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد (بیماری کے اولین ‪ 30‬دن کے‬
‫بعد) مریضوں میں اگلے ‪ 6‬ماہ میں موت کا خطرہ عام آبادی کے مقابلے میں لگ بھگ ‪60‬‬
‫فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ صحتیابی کے ‪ 6‬ماہ بعد کووڈ کو شکست دینے والے ہر ایک ہزار‬
‫مریضوں میں سے اوسطا ً ‪ 8‬افراد ہالک ہوجاتے ہیں۔‬
‫تحقیق کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کے ایسے مریض جن کو ہسپتال میں زیرعالج رہنا پڑا‪ ،‬ان میں‬
‫ہر ایک ہزار میں سے ‪ 29‬اضافی اموات کا امکان ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ بیماری کی طویل المعیاد پیچیدگیوں سے ہونے والی اموات ضروری‬
‫نہیں کہ کووڈ ‪ 19‬سے ہونے والی ہالکتوں میں ریکارڈ کی جائیں‪ ،‬کیونکہ اس وقت بیماری‬
‫کے کچھ دنوں بعد ہونے والی ہالکتوں کو ہی اموات کا حصہ بنایا جارہا ہے۔‬
‫محققین نے امریکا کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جس میں ‪ 73‬ہزار‬
‫سے زیادہ افراد میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص ہوئی تھی مگر انہیں ہسپتال میں زیرعالج نہیں‬
‫رہنا پڑا تھا جبکہ اس کا موازنہ لگ بھگ ‪ 50‬الکھ افراد سے کیا گیا جن میں کووڈ کی‬
‫تشخیص نہیں ہوئی تھی۔‬
‫بعد ازاں کووڈ ‪ 19‬سے بہت زیادہ بیمار رہنے والے افراد پر طویل المعیاد اثرات کو جاننے‬
‫کے لیے مزید ‪ 13‬ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کا موازنہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد کے‬
‫فلو سے بیمار ہوکر ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد سے کیا گیا۔‬
‫یہ سب مریض ہسپتال میں داخلے کے کم از کم ‪ 30‬دن بعد بیماری کو شکست دینے میں‬
‫کامیاب ہوئے تھے اور پھر ان کے ‪ 6‬ماہ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫محققین نے تصدیق کی کہ النگ کووڈ کے نتیجے میں جسمانی اعضا کا لگ بھگ ہر نظام‬
‫متاثر ہوتا ہے جن میں نظام تنفس کے مسائل بشمول مسلسل کھانسی‪ ،‬سانس لینے میں‬
‫مشکالت اور خون میں آکسیجن‪ ،‬نروس سسٹم کے مسائل بشمول فالج‪ ،‬سردرد‪ ،‬یادداشت کے‬
‫مسائل اور چکھنے یا سونگھنے کے مسائل‪ ،‬دماغی صحت کے مسائل بشمول ذہنی بے‬
‫چینی‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬نیند کے مسائل ‪ ،‬میٹابولزم کے مسائل بشمول ذیابیطس کی تشخیص‪ ،‬موٹاپا‬
‫اور ہائی کولیسٹرول‪ ،‬دل کے مسائل بشمول ہارٹ فیلیئر‪ ،‬دھڑکن میں بے ترتیبی اور دیگر‪،‬‬
‫نظام ہاضمہ کے مسائل بشمول قبض‪ ،‬ہیضہ اور سینے میں جلن‪ ،‬گردوں کے مسائل‪،‬‬
‫ٹانگوں اور پھیپھڑوں میں بلڈ کالٹس‪ ،‬جلد پر خارش‪ ،‬بالوں سے محرومی‪ ،‬جوڑوں میں درد‬
‫مسلز کی کمزوری‪ ،‬خسرہ‪ ،‬تھکاوٹ اور خون کی کمی قابل ذکر ہیں۔‬

‫| ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویسے تو کسی مریض کو بھی ان تمام مسائل کا ایک ساتھ سامنا نہیں ہوا مگر بیشتر میں‬
‫متعدد مسائل ضرور دریافت ہوئے جس سے صحت اور زندگی کا معیار منفی انداز سے‬
‫متاثر ہوا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد میں پیچیدگیوں کا‬
‫خطرہ فلو کے مریضوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ موت کا امکان ‪ 50‬فیصد‬
‫تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت جتنی زیادہ ہوگی ان کو الحق طبی‬
‫خطرات کی شدت بھی اتنی زیادہ ہی ہوگی‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160923/‬‬

‫چین میں کووڈ ویکسینز کے مضر اثرات کی شرح محض ‪ 0.01‬فیصد‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪29 2021‬‬
‫چین میں ہر ‪ 10‬الکھ کووڈ ویکسینز کی خوراکوں پر مضر اثرات کے محض ‪—119‬‬
‫کیسز سامنے آئے ہیں۔‬
‫درحقیقت یہ شرح مغربی ویکسینز کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو ‪ 0.01‬فیصد ہے۔‬

‫چین کے سینٹر فار ڈیزیز پریونٹیشن اینڈ کنٹرول کی جانب سے جاری بیان کے مطابق‬
‫دسمبر کے وسط سے ساڑھے ‪ 4‬ماہ کے دوران کووڈ ویکسینز کی ‪ 26‬کروڑ ‪ 50‬الکھ‬
‫خوراکیں استعمال کی گئی ہیں۔‬
‫بیان میں بتایا گیا کہ ‪ 31‬ہزار سے زیادہ مضر اثرات کے کیسز میں صرف ‪ 17‬فیصد اثرات‬
‫سنگین تھے جبکہ معتدل اثرات میں بخار اور انجیکشن کے مقام پر سوجن قابل ذکر ہیں۔‬
‫اس ڈیٹا میں پہلی بار چینی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسینزز کے مضر اثرات کے بارے‬
‫میں بتایا گیا ہے تاہم زیادہ تفصیالت ظاہر نہیں کی گئیں۔‬
‫ڈیٹا میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان مضر اثرات کو کیسے ٹریک‪ ،‬رپورٹ اور ان کی جانچ‬
‫پڑتال کی گئی‪ ،‬کیا لوگوں نے ان کو خود رپورٹ کیا یا یہ ڈیٹا طبی عملے سے اکٹھا کیا‬
‫گیا۔‬
‫اس کے مقابلے میں برطانیہ نے ویکسینیشن کے عمل سے گزرنے والے ہر ‪ 10‬میں سے‬
‫ایک سے زیادہ فرد میں مضر اثرات جیسے تھکاوٹ‪ ،‬سردرد‪ ،‬متلی اور بخار کو رپورٹ‬
‫کیا۔‬
‫برطانیہ یں فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک‪ ،‬موڈرنا اور ایسٹرازینیکا ویکسینز کا استعمال ہورہا ہے۔‬

‫| ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ویکسینیشن کے سنگین اثرات میں اعضا کو نقصان پہنچنا اور سنگین الرجی ری ایکشن‬
‫قابل ذکر ہیں۔‬
‫چین کے طبی ادارے کی جانب سے ایک الگ بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین سے مضر‬
‫اثرات کا سامنا کرنے والے افراد میں سے صرف ‪ 188‬میں سنگین اثر دیکھنے میں آیا۔‬

‫بیان کے مطابق کووڈ ‪ 19‬ویکسینز کے استعمال سے ہونے والے عام اور غیر معمولی‬
‫مضر اثرات کی شرح چین میں ‪ 2019‬میں کی جانے والی دیگر ویکسینیشن کے مقابلے‬
‫میں کم تھی۔‬
‫چین میں اس وقت ‪ 5‬ویکسینز کا استعمال ہورہا ہے جن میں سے ‪ 2‬سائنوفارم اور ایک‬
‫سینوویک کی تیار کردہ ہے۔‬
‫یہ ڈیٹا دسمبر ‪ 2020‬کے وسط سے اپریل ‪ 2021‬کے آخر تک تھا‪ ،‬تاہم اس میں یہ واضح‬
‫نہیں کیا گیا کہ کس ویکسین سے کن مضر اثرات کا سامنا ہو۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160928/‬‬

‫گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھانے والے\ اہم عنصر کی شناخت‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪29 2021‬‬

‫| ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫—‬

‫جن افراد کو اکثر ڈپریشن کی عالمات کا سامنا ہوتا ہے ان میں بعد کی زندگی میں گردوں‬
‫کے مسائل کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫یہ بات چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫ڈپریشن ایک عام مسئلہ ہے جس کا سامنا متعدد افراد کو ہوتا ہے اور یہ متعدد ذہنی و‬
‫جسمانی امراض کا باعث بن سکتا ہے۔‬
‫ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں ڈپریشن کی عالمات اور گردوں کے امراض کے شکار‬
‫افراد میں گردوں کے افعال میں تیزی سے کمی کو دریافت کیا تھا۔‬
‫تاہم اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ ڈپریشن کسی فرد کے گردوں کے صحت مند افعال پر کس‬
‫حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔‬
‫چین کی سدرن میڈیکل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ‪ 4‬ہزار ‪ 700‬سے زیادہ ایسے افراد‬
‫کو شامل کیا گیا تھا جن کے گردے صحت مند تھے‬
‫تحقیق کے آغاز میں ان رضاکاروں میں سے ‪ 39‬فیصد میں ڈپریشن کی شدید عالمات‬
‫موجود تھیں اور ان کا جائزہ ‪ 4‬سال تک لیا گیا۔اس عرصے میں ‪ 6‬فیصد کے گردوں کے‬
‫افعال میں بہت تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔‬
‫محققین کے مطابق تحقیق کے آغاز میں ڈپریشن کی عالمات اور آنے والے برسوں میں‬
‫گردوں کے افعال میں تیزی سے آنے والی کمی کے درمیان نمایاں تعلق موجود ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اکثر ڈپریشن کی عالمات کا سامنا کرنے والے افراد میں گردوں کے‬
‫افعال میں کمی کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 1.4‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫| ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گردوں کے دائمی امراض دل کی شریانوں سے جڑی بیماریوں‪ ،‬گردے فیل ہونے اور‬
‫اموات کا خطرہ بڑھانے واال اہم عنصر ثابت ہوتے ہیں‪ ،‬تو ان امراض کا خطرہ بڑھانے‬
‫والے عوامل کی شناخت سے متعدد پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ اگر نتائج کی مزید تصدیق ہوئی تو ہمارے ڈیٹا سے کچھ شواہد مل‬
‫سککیں گے کہ کس طرح ڈپریشن کی عالمات کی اسکریننگ سے گردوں کے امراض کی‬
‫روک تھام ہوسکتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج جلد جریدے سی جے اے ایس این میں شائع ہوں گے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160934/‬‬

‫کچھ غذاؤں\ کا ذائقہ تلخ محسوس ہونا کووڈ سے کچھ تحفظ فراہم کرتا‬
‫ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪30 2021‬‬

‫اگر آپ سے مختلف غذاؤں کا ذائقہ برداشت نہیں ہوتا تو آپ ممکنہ طور پر 'سپر ٹیسٹر' —‬
‫ٰ‬
‫دعوی امریکا میں ہونے‬ ‫ہیں اور اس سے کووڈ ‪ 19‬سے کسی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔یہ‬
‫والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔‬
‫سپر ٹیسٹر ایسسے فرد کو کہا جاتا ہے جو غذا میں تلخی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫| ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں کہا گیا کہ ایسے افراد میں نہ صرف کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا‬
‫ہے بلکہ بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ سپر ٹیسٹرز افراد میں کووڈ ‪ 1‬کی عالمات اوسطا ً‬
‫محض ‪ 5‬دن تک ہی برقرار رہتی ہیں جبکہ دیگر میں اوسطا ً ‪ 23‬دن تک موجود رہ سکتی‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیق میں یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ کیسے اور کیوں منہ کا ذائقہ کووڈ ‪ 19‬کے‬
‫خطرے پر اثرانداز ہوتا ہے مگر محققین نے ایک خیال ضرور ظاہر کیا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ تلخ ذائقہ محسوس کرانے والے ریسیپٹرز ٹی ‪ 2‬آر ‪ 38‬زبان کے ذائقہ کا‬
‫احساس دالنے والی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ جب یہ ریسیپٹر متحرک ہوتے ہیں تو اس کے ردعمل میں نائٹرک آکسائیڈ‬
‫بنتا ہے جو نظام تنفس میں موجود ایک جھلی میں وائرس کو مارنے میں مدد کرتا ہے یا ان‬
‫کو مزید نقول بنانے سے روکتا ہے۔‬
‫یہ جھلی ہی جسم میں وائرسز بشمول کورونا وائرس کے داخلے کا ایک مقام ہوتی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں تلخ ذائقے کے احساس دالنے والے‬
‫ریسیپٹرز سے کووڈ ‪ 19‬و باالئی نظام تنفس کے دیگر امراض کے خطرے پر اثرات کا‬
‫جائزہ لیا گیا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 2‬ہزار کے قریب افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے حس ذائقہ کی‬
‫آزمائش کاغذی پٹیوں سے کی گئی۔‬
‫ان لوگوں کو ‪ 3‬گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا‪ ،‬ایک نان ٹیسٹرز‪ ،‬دوسرا سپر ٹیسٹرز اور‬
‫تیسرا ٹیسٹرز۔‬
‫نان ٹیسٹرز ایسے افراد کا گروپ تھا جو مخصوص تلخ ذائقے کو شناخت ہی نہیں کرپاتے‪،‬‬
‫سپر ٹیسٹرز تلخ ذائقے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور بہت کم مقدار میں بھی‬
‫اسے شناخت کرلیتے ہیں‪ ،‬جبکہ ٹیسٹرز ان دونوں کے درمیان موجود گروپ تھا۔‬
‫تحقیق کے دوران ‪ 266‬افراد میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص ہوئی جن میں نان ٹیسٹرز کی تعداد‬
‫زیادہ تھی اور ان میں بیماری کی شدت کا خطرہ بھی زیادہ دریافت کیا گیا۔‬
‫اس کے مقابلے میں ٹیسٹرز کے گروپ میں کووڈ ‪ 19‬کی عالمات کی شدت معمولی سے‬
‫معتدل ہوسکتی ہے اور انہیں اکثر ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‬

‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔‬
‫دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ نئے نتائج قابل فہم ہیں‪ ،‬اگر آپ غذا میں تلخی کو محسوس‬
‫نہیں کرسکتے‪ ،‬تو آپ کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور خود کو کووڈ سے بچانے کے‬
‫لیے فیس ماسکس پہننے چاہیے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ آسان الفاظ میں اگر کچھ غذاؤں جیسے سالد پتہ یا سبز پتوں والی سبزیوں‬
‫کا ذائقہ تلخ لگتا ہے تو آپ سپر ٹیسٹر ہیں اور اگر نہیں تو زیادہ احتیاط کریں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160937/‬‬
‫| ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کورونا کی 'بہت خطرناک' نئی قسم ویتنام میں دریافت‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪30 2021‬‬

‫کورونا وائرس کی ایک 'بہت زیادہ خطرناک' قسم کو ویتنام میں دریافت کیا گیا ہے جو—‬
‫بھارت اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کا امتزاج ہے۔‬
‫یہ بات ویتنام کے وزیر صحت نگیوین ٹہانا نے ‪ 29‬مئی کو ایک اجالس میں بتائی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ سائنسدانوں نے کورونا وائرس سے حال ہی میں متاثر ہونے والے‬
‫مریضوں کے جینیاتی سیکونسنگ کے دوران اس نئی قسم کو دریافت کیا۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ یہ نئی قسم بہت زیادہ متعدی نظر آتی ہے اور دیگر اقسام کے‬
‫مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا 'ویتنام نے کووڈ ‪ 19‬کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں بھارت اور‬
‫برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام کی میوٹیشنز کا امتزاج موجود ہے'۔‬
‫ویتنام کے وزیر صحت نے بتایا 'بنیادی طور پر یہ بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ہے‬
‫جس میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم میں دیکھنے‬
‫میں آئی‪ ،‬اس وجہ سے یہ نئی قسم بہت خطرناک ہے'۔‬

‫| ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیبارٹری میں ہونے والی تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ نئی قسم بہت تیزی سے اپنی نقول‬
‫بنانے کی صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ویت نام میں حال ہی میں اچانک‬
‫کووڈ کے کیسز میں تیزی سے اضافہ کیوں ہوا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ کورونا وائرس میں معمولی جینیاتی تبدیلیاں عام ہیں جس کے نتیجے میں نئی‬
‫اقسام سامنے آتی ہیں۔‬
‫تاہم اب تک عاللمی ادارہ صحت نے بی ‪( 117‬سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی‬
‫تھی)‪ ،‬بی ‪( 1617‬بھارت میں دریافت ہوئی) سمیت جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت‬
‫ہونے والی اقسام کو عالمی سطح پر تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔‬
‫سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ برطانیہ اور بھارت میں دریافت ہونے والی دیگر کے‬
‫مقابلے میں ‪ 50‬فیصد زیادہ متعدی ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی کووڈ ‪ 19‬ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ وان کرکوف ہم نے ابھی تک‬
‫ویت نام میں دریافت ہونے والی نئی قسم کا تجزیہ نہیں کیا۔‬
‫تاہم ان کا کہنا تھا 'ہمیں مزید اقسام سامنے آنے کی توقع ہے کیونکہ وائرس کے پھیالؤ سے‬
‫وہ ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سیکونسنگ کی‬
‫گنجائش کو بڑھایا جارہا ہے'۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ وائرس کی ہر نئی قسم کے بارے میں سب سے پہلے عالمی ادارے‬
‫کو تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ویت نام میں ہمارا عملہ وزارت صحت کے ساتھ کام کررہا ہے اور ہمیں‬
‫جلد مزید تفصیالت ملنے کی توقع ہے‪ ،‬جس کے بعد ہی ہم اس کے بارے میں کچھ کہہ‬
‫سکیں گے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ نئی قسم بی ‪ 16172‬میں ہوسکتا ہے کہ ایک اضافی میوٹیشن ہو‪ ،‬تاہم‬
‫اس بارے میں معلومات سامنے آنے پر ہم جاری کریں گے۔‬
‫ویت نام میں کورونا کی وبا کے آغاز سے اب تک ‪ 6398‬کیسز اور ‪ 47‬اموات ریکارڈ‬
‫ہوئی ہیں‪ ،‬تاہم حالیہ چند ہفتوں میں ساڑھے ‪ 3‬ہزار سے زیادہ کیسز اور ‪ 35‬اموات رپورٹ‬
‫ہوئی ہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160983/‬‬

‫کورونا وائرس مردوں کی تولیدی صحت کے لیے بھی نقصان دہ؟‬


‫فیصل ظفر | عاطف راجہ‬
‫مئ ‪30 2021‬‬

‫| ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایسا نظر آتا ہے کہ نئے کورونا وائرس سے جسم کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کا باعث بننے واال یہ وائرس پھیپھڑوں کے افعال کو جان لیوا حد تک متاثر‬
‫کرسکتا ہے‪ ،‬دل کے نظام پر اثرات مرتب کرتا ہے‪ ،‬دماغ‪ ،‬معدے اور گردے سمیت ہر‬
‫جگہ تباہی مچاسکتا ہے۔‬
‫مگر اب ایسے شواہد میں اضافہ ہورہا ہے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس مردوں‬
‫کے تولیدی نظام کو بھی نقصان پہنچاسکتا ہے۔‬
‫جسم پر کووڈ سے مرتب ہونے والے طویل العمیاد اثرات کو جاننے کے لیے طبی ماہرین‬
‫کی جانب سے مسلسل کام کیا جارہا ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ اب یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ اس وائرس اور ایریکٹائل ڈسفنکشن (ای‬
‫ڈی) یا ایستادگی کی صالحیت سے محرومی کے درمیان تعلق موجود ہے یا نہیں۔‬
‫اسی طرح یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ یہ وائرس مردوں کے اسپرمز کے نظام کو کس حد‬
‫تک متاثر کرسکتا ہے‬
‫کووڈ اور اسپرمز کا تعلق‬

‫اس حوالے سے نومبر ‪ 2020‬میں یونیورسٹی آف میامی ملر اسکول آف میڈیسین کی ایک‬
‫پر ممکنہ )‪ (male fertility‬تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬سے مردوں کی قوت باہ‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬

‫| ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق کے دوران کورونا وائرس سے ہالک ہوجانے والے ‪ 6‬مردوں کے پوسٹمارٹم کے‬
‫دوران دریافت کیا گیا کہ ان میں سے کچھ کے اسپرم کے افعال متاثر ہوئے تھے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک مرد میں بھی وائرس کے آثار دریافت کیے جو بانجھ پن‬
‫کے عالج کے عمل سے گزرا تھا اور کھ عرصے پہلے کووڈ ‪ 19‬کا شکار تھا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس مریض میں کووڈ ‪ 19‬کی عالمات ظاہر نہیں ہوئی تھیں بلکہ ٹیسٹ‬
‫بھی نیگیٹو رہا تھا مگر ٹیسٹیرون میں وائرس کو دریافت کیا گیا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ قابل فہم ہے کہ کووڈ ‪ 19‬مردوں کے اسپرم کے افعال کو ہدف بناتا‬
‫ہے کیونکہ جس ریسیپٹر کی مدد سے وہ خلیات کو متاثر کرتا ہے‪ ،‬وہ جسم کے متعدد‬
‫اعضا جیسے گردوں‪ ،‬پھیپھڑوں‪ ،‬دل اور اسپرم وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔‬
‫بعدازاں جنوری ‪ 2021‬میں اٹلی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مردوں کے اسپرم کا معیار متاثر ہوسکتا ہے‪ ،‬جس سے‬
‫بانجھ پن کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔‬
‫فلورنس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں کہا گیا کہ پہلی بار ایسے براہ راست شواہد ملے ہیں‬
‫جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬سے اسپرم کا معیار اور مردوں کا تولیدی نظام متاثر‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 30‬سے ‪ 65‬سال کی عمر کے ‪ 43‬مردوں کے نمونے کووڈ ‪ 19‬سے‬
‫صحتیابی کے ایک ماہ حاصل کیے گئے اور ان کا تجزیہ کیا گیا۔محققین نے دریافت کیا کہ‬
‫مردوں کا اسپرم کاؤنٹ ‪ 25‬فیصد تک گھٹ گیا اور ‪ 20‬کے قریب مردوں میں اسپرمز ہی‬
‫موجود نہیں تھے‪ ،‬جو کہ دنیا کی عام آبادی کی شرح سے زیادہ ہے۔‬

‫| ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دنیا بھر میں ایک فیصد مردوں کو اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫جرنل ہیومین ری پروڈکشن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کے‬
‫باعث ہسپتال یا آئی سی یو میں داخل ہونے والے مریضوں میں اسپرم نہ ہونے کے برابر‬
‫رہنے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫مگر محققین نے زور دیا کہ فی الحال یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کورونا وائرس براہ راست اسپرم‬
‫کو متاثر کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس بیماری سے پہلے ان مردوں کے اسپرم کاؤنٹ کا‬
‫ریکارڈ نہیں تھا۔‬
‫تاہم جن افراد میں اسپرمز کی مقدار لگ بھگ ختم ہوگئی تھی ان کی اوالد تھی‪ ،‬جس سے‬
‫یہ عندیہ ملتا ہے کہ ان میں اسپرم کاؤنٹ کسی حد تک زیادہ تھا۔‬
‫اسی طرح کووڈ کے عالج کے لیے دی جانے والی ادویات سے بھی اسپرم کاؤنٹ متاثر‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫کی ‪ Justus Liebig University Giessen‬جنوری ‪ 2021‬کے آخر میں جرمنی کی‬
‫تحقیق میں محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬کے شکار مردوں کے اسپرم سیلز میں ورم‬
‫اور تکسیدی تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا اور دیگر افعال پر بھی کورونا وائرس سے منفی‬
‫اثرات مرتب ہوئے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ منفی اثرات وقت کے ساتھ بہتر ہوتے نظر آتے ہیں‪ ،‬مگر بیماری‬
‫کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬اتنی ہی تبدیلیاں اندرونی افعال میں آتی ہیں۔‬
‫محققین نے کووڈ ‪ 19‬کے شکار مردوں میں ایس ٹو انزائمٹک ایکٹیویٹی\ کی بہت زیادہ شرح‬
‫کو بھی دریافت کیا۔‬
‫خیال رہے کہ ایس ٹو وہ ریسیپٹر ہے جو کورونا وائرس کو خلیات کے اندر گھسنے میں‬
‫سہولت فراہم کرتا ہے۔‬
‫یعنی ابھی یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ کووڈ سے براہ راست ایسا ہوتا ہے یا ادویات یا‬
‫کسی اور وجہ سے اسپرمز کے افعال متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے طبی ماہرین کی جانب سے مزید تحقیقی کام کیا جارہا ہے‬
‫تاکہ ان سواالت کے جواب تالش کیے جاسکیں۔‬
‫کووڈ اور ایریکٹائل ڈسفنکشن‬
‫مکمل یقین سے تو ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ہاں کافی حد تک یہ ثابت ہوچکا ہے کہ‬
‫کورونا وائرس مردوں کی جنسی اور تولیدی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔‬
‫اس حوالے سے کئی تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کو مردوں‬
‫میں اچانک ایریکٹائل ڈسفنکشن (ای ڈی) کے مسئلے سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اپریل ‪ 2021‬میں اٹلی کی روم یونیورسٹی کی تحقیق میں دونوں کے درمیان تعلق کی‬
‫نشاندہی کی گئی تھی۔‬
‫درحقیقت تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کی تاریخ رکھنے والے مردوں میں ای ڈی کا‬
‫خطرہ ‪ 5.66‬گنا زیادہ ہوتا ہے اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد بھی اتنا خطرہ‬
‫برقرار رہتا ہے۔‬
‫| ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ای ڈی کووڈ ‪ 19‬کی مختصر اور طویل المعیاد پیچیدگی ہوسکتی ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ درحقیقت مردوں کو بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر‬
‫خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس طرح وہ اپنی جنسی صالحیت کو نقصان ہونے‬
‫سے بچاسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ زیادہ عمر‪ ،‬ذیابیطس‪ ،‬زیادہ جسمانی وزن اور تمباکو نوشی کووڈ ‪ 19‬کا‬
‫شکار بنانے والے اہم عناصر ہیں اور یہی ای ڈی کا خطرہ بڑھانے والے اہم عناصر بھی‬
‫ہیں۔‬
‫اسی طرح مئی ‪ 2021‬میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وائرس کے نتیجے میں مرد‬
‫ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صالحیت سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس مردوں کے مخصوص عضو کے خلیات تک پہنچ‬
‫سکتے ہیں اور جنسی صالحیت ختم کرسکتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں کووڈ ‪ 19‬کے ‪ 2‬مریضوں میں اس مسئلے کو دریافت کیا گیا اور دریافت کیا گیا‬
‫کہ یہ وائرس خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا کر اس تباہ کن اثر کا باعث بنتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی آف میامی ملر اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا‬
‫کہ م نے دریافت کیا کہ وائرس سے مخصوص عضو کو خون پہنچانے والی شریانیں متاثر‬
‫ہوتی ہیں جس کا نتیجہ ایستادگی کی صالحیت سے محرومی کی شکل میں نکلتا ہے۔‬
‫تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ ایک یا ‪2‬‬
‫مریضوں سے کچھ ثابت نہیں ہوتا‪ ،‬مگر اس سے تحقیق کو آگے بڑھانے کی بنیاد ضرور‬
‫ملتی ہے۔‬

‫| ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫انہوں نے کہا کہ کووڈ کو شکست دینے والے مردوں کو ای ڈی کا سامنا ہو تو انہیں طبی‬
‫امداد کے لیے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے خیال میں یہ دیرپا اثر ہوسکتا ہے جو خود‬
‫ختم نہیں ہوگا۔‬

‫درحقیقت ان کا تو مشورہ تھا کہ مردوں کو کووڈ سے بچنا چاہیے اور ویکسین سے خود کو‬
‫تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔‬
‫درحقیقت ایریکٹائل ڈسفنکشن اور کووڈ کے درمیان تعلق کے حوالے سے ماہرین نے چند‬
‫وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ہے‬
‫شریانوں اور رگوں پر اثرات‬

‫| ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایریکٹائل ڈسفنکشن عموما ً امراض قلب کی پیشگوئی کرنے واال عارضہ ہوتا ہے‪ ،‬تو یہ‬
‫واضح ہے کہ تولیدی نظام اور شریانوں کا نظام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔‬
‫یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کے نتیجے میں پورے جسم میں ورم کا عمل بہت‬
‫بڑھ جاتا ہے بالخصوص دل اور اس کے ارگرد کے پٹھوں میں‪ ،‬جس کے نتیجے میں‬
‫تولیدی حصوںن تک خون کی فراہمی بالک ہوسکتی ہے یا وائرس کے باعث شریانیں سکڑ‬
‫سکتی ہیں۔‬
‫نفسیاتی اثرات‬
‫جسمانی تعلقات اور ذہنی صحت میں قریبی تععلق ہے‪ ،‬وائرس سے متاثر ہونے کے باعث‬
‫پیدا ہونے واال تناؤ‪ ،‬ذہنی بے چینی اور ڈپریشن بھی جنسی صالحیت کو متاثر کرسکتے‬
‫ہیں۔‬
‫مجموعی صحت متاثر ہونا‬
‫ای ڈی عموما ً جسم کے اندر چھپے کسی مسئلے کی عالمت ہوتا ہے‪ ،‬ناقص صحت کے‬
‫شکار مردوں میں ای ڈی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور جن افراد کو کووڈ کی سنگین‬
‫شدت کا سامنا ہوتا ہے جس سے بھی صحت خراب ہوتی ہے۔‬
‫صحت خراب ہونے سے ای ڈی اور دیگر پیچیدگیوں کے خدشات بڑھتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق ای ڈی مجموعی صحت کا اشارہ ہوتا ہے‪ ،‬بالخصوص ایسے نوجوان‬
‫اور صحت مند افراد میں جن کو کووڈ ‪ 19‬کے بعد اس مسئلے کا سامنا ہو‪ ،‬جس سے عندیہ‬
‫ملتا ہے کہ انہیں زیادہ سنگین پیچیدگی کا سامنا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ نقصان مستقل ہے یا عارضی یا اس‬
‫سے بانجھ پن کا خطرہ بڑھتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160985/‬‬

‫| ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کورونا کے تمام مریض لگ بھگ یکساں شرح سے بیماری دوسروں\‬


‫تک منتقل کرتے ہیں‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪30 2021‬‬

‫کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کی شدت معمولی ہو یا زیادہ‪ ،‬تمام مریض‬
‫اسے آگے لگ بھگ ایک جتنی شرح سے بڑھا سکتے ہیں۔یہ بات جرمنی میں ہونے والی‬
‫ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔چیریٹی یونیورسٹی میڈیسین برلن کی اس تحقیق میں ‪25‬‬
‫ہزار سے زیادہ کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کو شامل کرکے ان کے وائرل لوڈ کی سطح کو‬
‫دیکھا گیا۔‬
‫تحقیق میں شامل ‪ 25‬ہزار میں سے صرف ‪ 8‬فیصد مریضوں میں وائرل لوڈ کی سطح بہت‬
‫زیادہ دریافت کی گئی‪ ،‬جن میں سے ایک تہائی ایسے افراد تھے جن میں عالمات ظاہر‬
‫نہیں ہوئی تھیں‪ ،‬عالمات نہیں تھیں یا معمولی حد تک بیمار تھے۔تحقیق میں ‪ 25‬ہزار ‪381‬‬
‫کووڈ مریضوں کے وائرل لوڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھیں۔ان میں سے ‪ 24‬فیصد میں‬
‫مرض کی تشخیص ٹیسٹنگ مراکز میں ہوئی تھی‪ 38 ،‬فیصد ہسپتال میں زیرعالج تھے اور‬
‫‪ 6‬فیصد میں سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی ‪ 117‬کی تشخیص‬
‫| ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوئی۔وائرل لوڈ سے مراد وائرس کی نقول کی وہ تعداد ہے جو مریض کے نمونوں میں‬
‫موجود ہوتی ہے۔یہ نمونے ‪ 24‬فروری سے ‪ 2‬اپریل ‪ 2020‬کے دوران اکٹھے کیے گئے‬
‫تھے اور اس کا مققصد یہ جاننا تھا کہ عالمات سے قبل‪ ،‬معمولی بیمار یا بغیر عالمات‬
‫والے افراد کتنے لوگوں کو آگے وائرس کو منتقل کرسکتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 70‬سال کی عمر کے عالمات ظاہر ہونے سے پہلے والے‬
‫مریض‪ ،‬بغیر عالمات یا معمولی عالمات کا سامنا کرنے والے افراد میں وائرل لوڈ ہسپتال‬
‫میں زیرعالج افراد سے زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬درحقیقت عمر کے ساتھ وائرل لوڈ بڑھتا ہے۔‬
‫بی ‪ 117‬سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ دیگر اقسام سے بیمار افراد کے مقابلے میں ‪1.05‬‬
‫گنا زیاد ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق بچوں میں اوسطا ً وائرل لوڈ کم ہوتا ہے جبکہ مریض میں یہ وائرس کسی‬
‫بھی عالمت ظاہر ہونے سے پہلے ہی زیادہ متعدی ہوتا ہے۔‬
‫اگرچہ ہسپتال میں زیرعالج مریضوں کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ ان میں وائرل لوڈ کی‬
‫سطح زیادہ ہوتی ہے مگر محققین نے دریافت کیا کہ ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد‬
‫میں بھی وائرل لوڈ کی سطح مختلف ہوسکتی ہے۔‬
‫بغیر عالمات والے یا معمولی حد تک عالمات کا سامنا کرنے والے مریضوں میں اوسطا ً‬
‫‪ 5.1‬دنوں میں وائرل لوڈ عروج پر ہوتا ہے جبکہ سب سے زیادہ وائرل لوڈ والے افراد کی‬
‫اوسط عمر ‪ 8‬سال ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ درحقیقت بظاہر معمولی حد تک بیمار افراد بھی ہسپتال میں زیرعالج‬
‫مریضوں کی طرح ہی وائرس کو آگے پھیال سکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ایسے مریضوں سے وائرس جھڑے کی سطح ہی بہت زیادہ اہم ہوتی ہے‬
‫کیونکہ یہ لوگ برادری میں گھوم رہے ہوتے ہیں اور اس طرح مزید لوگوں میں وبائی لہر‬
‫پیدا کرسکتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ چند افراد زیادہ تر کیسز کی وجہ بنتے ہیں‪ ،‬درحقیقت‬
‫بغیر عالمات والے متعدد افراد کیسز کو بڑھانے کی اہم وجہ ہیں اور وبا کے کنٹرول کے‬
‫لیے سماجی دوری اور فیس ماسک پہننے جیسے اقدامات بہت اہم ہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160994/‬‬

‫تیزرفتار پی سی ٓار ٹیسٹ اور وہ بھی ایک چپ پر‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 28  ‬مئ‪ 2021  ‬‬
‫تصویر میں دکھائی دینے والی چھوٹی سی چپ روایتی پی سی ٓار ٓاالت کے مقابلے میں‬
‫صرف ‪ 8‬منٹ میں درست نتائج فراہم کرکے کووڈ ‪ 19‬کے عالج میں مدد دیتی ہے۔ فوٹو‪:‬‬
‫اے سی ایس نینو جرنل‬

‫| ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪ ‬‬
‫کووڈ وبا کے تناظر میں ہم نے پی سی ٓار ٹیسٹ کے نام سنا جو جینیاتی طور پر نہ صرف‬
‫کورونا بلکہ بہت سے بیماریوں کا ٹیسٹ اور ڈی این اے شناخت میں اہم کردار ادا کرتا‬
‫‪  ‬ہے۔ اس ضمن اب پورا پی سی ٓار ایک چپ پر منتقل کردیا گیا ہے۔‬
‫ریورس ٹرانسکرپشن‪  ‬پولمریز چین ری ایکشن (ٓارٹی پی سی ٓار) کی مدد سے کووڈ ‪19‬‬
‫کی شناخت میں بہت مدد ملی ہے۔ لیکن اس کے لیے بہت مہنگے اور بھاری بھرکم ٓاالت‬
‫کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹیسٹ میں کم ازکم ایک گھنٹہ ضرور لگتا ہے۔ اب امریکن‬
‫کیمیکل سوسائٹی کے جرنل میں اس تیزرفتارپی سی ٓار چپ کی روداد شائع ہوئی ہے۔ اس‬
‫میں موجود پالزمومائع کی بدولت صرف ‪ 8‬منٹ میں نتیجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح‬
‫موجودہ اور مستقبل کی وباؤں کی شناخت میں یہ چپ انقالبی تبدیلیاں السکتی ہے۔‬
‫سائنسدانوں نے ڈاک ٹکٹ جتنی ایک چپ بنائی ہے جسے ’پولی ڈائی میتھائل سائلوکسین‬
‫چپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں پی سی ٓار ری ایکشن کے چھوٹے چھوٹے چیمبر(خانے)‬
‫موجود ہیں۔ جیسے ہی چپ پر تجزیاتی نمونے کا ایک قطرہ ڈاال جاتا ہے ایک ویکیوم انہیں‬
‫اندر کھینچ لیتا ہے۔ اس کے اندر شیشے کے باریک ستون ہیں اور ان میں سونے کے‬
‫نینوابھار ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی بلبلہ نہ بننے پائے جو نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔‬
‫جب چپ کے نیچے سفید ایل ڈی جالئی جاتی ہے تو اس کی روشنی حرارت میں بدل جاتی‬
‫ہے اور الئٹ بند ہوتے ہی وہ تیزی سے ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ ماہرین نے سارس کوو ٹو‬
‫وائرس کے کے حامل جین کا ڈی این اے اس ٓالے پر رکھا تو ایل ای ڈی ‪ 40‬مرتبہ بند ٓان‬
‫اور ٓاف ہوئی۔ اس طرح بہت گرم اور ٹھنڈک کے کئی چکر چالئے گئے تو صرف پانچ‬

‫| ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫منٹ میں کووڈ ‪ 19‬کو شناخت کرلیا گیا۔ سیمپل کو اندر رکھنے میں تین منٹ لگے۔اس طرح‬
‫چپ نے صرف ‪ 8‬منٹ میں نتیجہ ظاہر کردیا جو ‪ 91‬فیصد تک درست تھا۔ روایتی پی سی‬
‫ٓار ‪ 98‬فیصد تک درست ہوتے ہیں لیکن ان کے نتائک میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔‬
‫اس انقالبی چپ سے نہ صرف مختلف امراض کی شناخت میں مدد ملے گی بلکہ اسے‬
‫غریب اور دورافتادہ عالقوں میں بھی امراض کی تشخیص میں استعمال کرنا ممکن ہوگا‬
‫‪https://www.express.pk/story/2182630/9812/‬‬

‫آنکھوں میں سوجن یا ورم‪ ،‬احتیاط کیسے کی جائے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫مئی ‪ 27 2021‬‬

‫آنکھوں کے نیچے پڑنے والے سیاہ حلقے اور سوجن خواتین کی خوبصورتی کو ماند‬
‫کردیتے ہیں‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ خواتین آنکھوں کی دلکشی اور خوبصورتی بڑھانے پر‬
‫زیادہ توجہ دیتی ہیں۔‬
‫آج کے دور میں روز مرہ کی مصروفیات‪ ،‬ذہنی و جسمانی صحت‪ ،‬غذائی عادات اور رہن‬
‫سہن میں پہلے کی نسبت کافی حد تک نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے‪ ،‬مصروفیت کے اس‬
‫دور میں اب انسان اپنی ظاہری خوبصورتی\ اور دلکشی سے بھی غافل ہو گیا ہے۔‬
‫کیا آپ آنکھوں کی سوجن سے دوچار ہیں؟ آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ یہ کوئی غیر‬
‫معمولی مسئلہ نہیں ہے۔‬
‫سیدتی میگزین‪ ‬میں شائع رپورٹ کے مطابق جینیاتی عوامل‪ ،‬آنکھوں میں تناؤ یا پھر جلد‬
‫کے مسائل یا روزمرہ کی غیر صحت بخش عادات ٓانکھوں میں سوزش کی وجوہات ہو‬
‫| ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سکتی ہیں۔ آنکھوں کے نیچے کھیرے رکھنے یا کچھ کریم استعمال کرنے کے بجائے اس‬
‫کی وجہ تک پہنچنا زیادہ مفید ہوسکتا ہے۔‬
‫آنکھوں میں سوجن اور ورم کا کیا سبب ہوتا ہے؟‬
‫جسم میں کسی بھی وقت ضرورت سے زیادہ سوجن ہوسکتی ہے‪ ،‬اسے ورم ہونا کہتے‬
‫ہیں۔ چونکہ آنکھوں کے آس پاس کی جلد فطرت کے مطابق پتلی ہوتی ہے ‪ ،‬اس وجہ سے‬
‫یہ سوجن کے عالوہ سیاہ ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫کچھ لوگوں کو حیرت ہوسکتی ہے کہ اس حصے میں مائع کیوں جمع ہوتے ہیں اور اس‬
‫میں سوجن کیوں آتی ہے؟ اس کی بڑی وجہ آپ کی کچھ عادتیں ہیں۔‬
‫آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آپ خود اپنی آنکھوں کی سوجن میں کردار ادا کرتے‬
‫ہیں۔ یہاں کچھ چیزیں ہیں جو آپ کرتے ہیں اس سے آپ کی پریشانی میں اضافہ ہوسکتا‬
‫ہے۔‬
‫بہت زیادہ نمک کھانا‬
‫سب سے پہلے کھانے میں اپنے نمک کی مقدار کو چیک کریں۔ نمک خود بخود جسم کے‬
‫مائع کو اکٹھا کرلیتا ہے جو آپ کی آنکھوں اور دل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دل کا دورہ پڑنا‬
‫اور فالج ہونے کی یہی وجہ بنتا ہے‪ ،‬تجویز کیا جاتا ہے کہ آپ روزانہ ‪ 2300‬ملی گرام‬
‫سے زیادہ نمک نہ لیں۔‬
‫کم مقدار میں پانی پینا‬
‫جب جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے تو آنکھیں پھول جاتی ہیں۔ دراصل‪ ،‬آنکھوں کے‬
‫آس پاس کے حصے رگوں اور اعصاب سے بھرے ہوئے ہیں‪ ،‬پانی کی مقدار میں اضافہ‬
‫کریں اور یقینی بنائیں کہ آپ کافی پانی پی رہے ہیں۔‬
‫کم سونا‬
‫جب آپ کو مناسب آرام نہیں ملتا تو آپ اگلی صبح صرف اپنی آنکھوں میں دیکھ کر ہی یہ‬
‫اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب مناسب نیند نہیں لیں گے ت ٓانکھوں کے گرد سوجن ہوگی۔‬
‫رات کو کم از کم ‪ 8-6‬گھنٹے اچھی نیند لینا اور مناسب آرام حاصل کرنا ٓانکھوں کی صحت‬
‫کے لیے ضروری ہے۔‬
‫رات کو میک اپ نہ دھونا‬
‫خواتین آنکھوں کے نیچے کے حصے میں بھی میک اپ کا ستعمال کرتی ہیں جاسکتا ہے‬
‫اس لیے اس حصے کو تروتازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کو اپنے چہرے کو‬
‫دھوئیں۔‬
‫تمباکو کی مصنوعات کا استعمال‬
‫سگریٹ میں موجود زہریال مواد جلد کی لچک کو ختم کردیتا ہے‪ ،‬جنیکوٹین ‪ ،‬سگریٹ میں‬
‫پایا جانے واال مادہ آپ کو متحرک رکھتا ہے اور نیند کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔‬
‫سورج کی تیز روشنی کا سامنا کرنا‬

‫| ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سورج کی گرمی سے جلد کے ان خلیوں کو نقصان ہوتا ہے جو آپ کی جلد کو لچکدار‬
‫بناتے ہیں۔ سورج کے سامنے آنے کے دوران سورج کو براہ راست دیکھنے سے اجتناب‬
‫کریں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/swelling-in-eyes-health-tips-dark-circles/‬‬

‫اونٹنی کا دودھ ذیابیطس اور کینسر میں مفید قرار‪ ،‬مزید فوائد بھی‬
‫سامنے آگئے‬

‫‪ ‬اعجاز االمین‬

‫مئی ‪ 27 2021‬‬

‫مشرق کی طرح مغرب میں بھی اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا رحجان جاری ہے لیکن‬
‫ناقدین کا اصرار ہے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں۔‬
‫اونٹنی کا دودھ ‪ ،‬دہی اور مکھن وغیرہ اپنی زبردست غذائیت کی وجہ سے عالمی شہرت‬
‫رکھتے ہیں کیونکہ ان میں وٹامن سی‪ ،‬فوالد‪ ،‬کیلشیئم‪ ،‬انسولین اور پروٹین کی بڑی مقدار‬
‫پائی جاتی ہے۔‬
‫اونٹنی کے دودھ پر عرصہ دراز سے تحقیق کی جارہی ہے اور اب تک اس کے کئی فوائد‬
‫سامنے آچکے ہیں تاہم تازہ ترین تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ‬
‫اپنے اندر بیش بہا خصوصیات رکھتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انتہائی مفید‬
‫ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫| ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫متحدہ عرب امارات یونیورسٹی نے خاص طور پر اونٹنی کے دودھ کے اینٹی ڈئباٹک‬
‫خصوصیات کی تحقیقات کرنے کے منصوبے کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے۔‬

‫اس منصوبے پر خصوصی توجہ دینے کا مقصد اس دودھ سے مزید فوائد حاصل کرنا ہے‬
‫خاص طور پر وہ فوائد جن سے ذیابیطس کے مریض مستفید ہوسکیں۔‬
‫اونٹنی کا دودھ متحدہ عرب امارات اور دنیا کے بہت سارے حصوں میں ایک مقبول شے‬
‫ہے۔ یہ ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کے خالف اپنے عالج معالجے کی وجہ سے‬
‫جانا جاتا ہے۔ یہ بھی وسیع پیمانے پر نوٹ کیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ گلیسیمک کنٹرول‬
‫کو راغب کرنے کے لئے درکار انسولین کی خوراک کو کم کرتا ہے اور خون میں گلوکوز‬
‫کو بہتر بناتا ہے۔‬
‫اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک خصوصیات کی تحقیقات دنیا بھر میں بہت سارے محققین‬
‫نے کی ہیں چنانچہ متحدہ عرب امارات کے کالج آف سائنس کے شعبہ حیاتیات سے ڈاکٹر‬
‫محمد ایوب‪ ،‬ڈاکٹر ساجد مقصود کی لیب ‪ ،‬متحدہ عرب امارات کے زید سینٹر برائے ہیلتھ‬
‫سائنسز یو اے ای یو کے تعاون سے ‪ ،‬متحدہ عرب امارات کے محکمہ فوڈ سائنس ‪ ،‬کالج‬
‫آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر\ کی لیب نے مشترکہ طور پر اونٹنی کے دودھ کی غذائیت اور‬
‫خصوصیات کا مطالعہ کیا۔‬
‫اس مطالعے کا مقصد اونٹنی کے دودھ میں پروٹین حصوں سے جراثیم کش اینٹی ڈئباٹک‬
‫ایجنٹ کی نشاندہی کرنا اور سالماتی سطح پر اس کے عمل کے انداز کو سمجھنا ہے۔ ڈاکٹر‬
‫ایوب اور ڈاکٹر مقصود نے حال ہی میں ایک مطالعہ شائع کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا‬
‫| ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے کہ اونٹ کے دودھ سے نکاال جانے واال جیوپیوٹک پیپٹائڈس انسانی انسولین ریسیپٹر‬
‫اور خلیوں میں گلوکوز کی نقل و حمل پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔‬

‫اس کے عالوہ ایک اور تحقیق میں اونٹنی کے دودھ میں پروٹین کے عالوہ ذیابیطس سے‬
‫بچنے والی خصوصیات کے حق میں بھی ثبوت فراہم کیے گئے جس میں ذیابیطس چوہوں‬
‫میں اینٹی ہائپرگلیسیمیک اثر کا تجربہ کیا گیا۔ یہ نتائج انتہائی امید افزا ہیں اور اونٹ کے‬
‫دودھ کی بنی مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ذیابیطس کے خالف جنگ میں ایک‬
‫پیشرفت کا باعث بن سکتے ہیں۔‬
‫اس طرح اونٹنی کے دودھ کی اینٹی ڈئباٹک ڈیزاسٹ خصوصیات کی تحقیقات سے‬
‫ذیابیطس کی پیچیدگیوں کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور متحدہ عرب امارات اور‬
‫دنیا میں اس دائمی بیماری کے خالف جنگ میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔‬
‫اس کے عالوہ اس طرح کی دریافتیں متحدہ عرب امارات کی معاشی نمو میں خاص طور‬
‫پر اونٹنی کے دودھ پر مبنی ذیابیطس کے عالج سے متعلق ادوایات کی دریافت میں اہم‬
‫کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کو ایک اہم معاشی وسیلہ‬
‫سمجھا جاتا ہے۔‬

‫| ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اونٹنی کے دودھ کو ذیابیطس کے مریضوں\ کے لیے مفید قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اونٹ کے‬
‫دودھ کے بے تحاشہ فوائد اور بھی ہیں جو اس کے باقاعدہ استعمال سے حاصل ہوسکتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/camels-milk-diabetes-health-tips/‬‬

‫بدبو دار پیشاب کس بیماری کی عالمت ہے ؟ ماہر ڈاکٹر نے خبردار کر‬


‫دیا‬
‫‪ ‬‬
‫‪May 25, 2021 | 19:09:PM‬‬

‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) پیشاب سے بدبو آنے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ ایک ماہر‬
‫امریکی ڈاکٹر نے اس حوالے سے تفصیل بیان کر دی ہے۔ڈیلی سٹار کے مطابق ڈاکٹر‬
‫پر بتایا ہے کہ پیشاب سے‪ @dromonimohi‬اومون ایموئی نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ‬
‫بدبو آنے کی کچھ معمولی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں‪ ،‬جن میں جسم میں پانی کی کمی ہو‬
‫جانا اور کوئی تیز بو والی چیز کھالینا وغیرہ شامل ہیں۔ تیز بو والی اشیاءکے عالوہ بھی‬
‫کچھ کھانے ایسے ہیں جو پیشاب کی بدبو کا سبب بنتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر اومون کا کہنا تھا کہ ان معمولی وجوہات کے عالوہ پیشاب سے بدبو آنا کچھ سنگین‬
‫بیماریوں کی عالمت بھی ہوتا ہے۔ اگرآپ کو ذیابیطس ہے یا الحق ہونے والی ہے تو ایسی‬
‫صورت میں بھی آپ کے پیشاب سے بدبو آنے کا امکان ہوتا ہے۔ پیشاب کی نالی میں‬
‫انفیکشن‪ ،‬ہونا‪ ،‬جنسی عمل کے دوران الحق ہونے والی انفیکشنزہونا‪ ،‬گردے میں پتھری‬
‫ہوناوغیرہ بھی پیشاب میں بدبو کی وجہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے عالوہ خواتین میں ہارمونز‬
‫میں معمول کی تبدیلیاں بھی ان کے پیشاپ میں بدبو پیدا کر سکتی ہیں۔ بالخصوص حاملہ‬
‫خواتین میں یہ مسئلہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر اومون کا کہنا تھا کہ ”اگر آپ کے پیشاب‬
‫سے حد سے زیادہ بدبو آ رہی ہے اور کئی دن گزرنے پر بھی اس کی شدت کم نہیں ہوئی‬
‫“تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293557‬‬

‫سائنسدان روزانہ ایک گالس دودھ پینے کا حیران کن فائدہ سامنے لے‬
‫آئے ‪ ،‬جان کر آپ آج سے ہی عادت بنا لیں گے‬
‫‪ ‬‬
‫‪May 25, 2021 | 19:15:PM‬‬
‫‪ ‬‬

‫| ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) دودھ ایک بہترین غذا ہے جو بے شمار طبی فوائد کی حامل ہے۔‬
‫اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں روزانہ ایک گالس دودھ پینے کا ایسا حیران کن فائدہ بتا‬
‫دیا ہے کہ جان کر آپ دودھ پینا اپنی عادت بنا لیں گے۔ میل آن الئن کے مطابق برطانیہ کی‬
‫یونیورسٹی آف ریڈنگ کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ روزانہ ایک گالس دودھ پینے سے‬
‫ہارٹ اٹیک‪ ،‬دل کی دیگر بیماریوں اور سٹروک کا خطرہ ‪14‬فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔‬
‫‪ ‬روزانہ دودھ پینے سے لوگوں میں کولیسٹرول کا لیول بھی کم رہتا ہے۔‬

‫تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر ویمل کیرانی نے بتایا ہے کہ ”ہم نے اس تحقیق میں‬
‫‪20‬الکھ سے زائد امریکی اور برطانوی شہریوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔ ان میں سے جن‬
‫لوگوں میں ایک جینیاتی میوٹیشن پائی گئی جس کی وجہ سے لوگ زیادہ دودھ پینے کے‬
‫قابل ہوتے ہیں‪ ،‬ان کودل کی بیماریاں اور سٹروک الحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت‬
‫‪14‬فیصد تک کم پایا گیا۔ ان لوگوں میں دوران خون کی صحت دوسروں کے مقابلے میں‬
‫“کئی گنا بہتر پائی گئی۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/25-May-2021/1293563‬‬

‫ہماری کورونا ویکسین ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے بچوں میں انتہائی مٔوثر‬


‫ہے‪ ،‬موڈرنا‬

‫مئی ‪25 2021 ،‬‬

‫امریکی دوا ساز کمپنی موڈرنا نے‬


‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے۔ امریکی میڈیا‬ ‫نیا‬
‫کے مطابق‪  ‬موڈرنا کمپنی کا کہنا‬
‫ہے کہ ہماری کورونا ویکسین ‪12‬‬
‫سے ‪ 17‬سال کے بچوں میں‬
‫انتہائی مٔوثر ہے۔ اس عمر کے‬
‫بچوں کے لیے کوویڈ ویکسین کی‬
‫ایف ڈی اے سے منظوری لینےکا‬
‫ارادہ ہے۔موڈرنا کے مطابق‬
‫موڈرنا ویکسین اس وقت صرف بالغوں کے لیے منظور شدہ ہے۔ ہماری ویکسین کی ایک‬
‫ڈوز کورونا کے خالف ‪ 93‬فیصد مٔوثر ہے۔ایف ڈی اے نے فائزر ویکسین ‪ 12‬سے ‪ 15‬سال‬
‫کے بچوں کے لیے اسی ماہ منظور کی ہے۔‬

‫| ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://jang.com.pk/news/931925‬‬

‫مسلسل جسمانی سرگرمیاں بچوں کے دماغ کو منظم کرتی ہیں‪ ،‬تحقیق‬


‫مئی ‪25 2021 ،‬‬

‫ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچوں میں پابندی کے ساتھ کسی بھی قسم کی جسمانی‬
‫‪ ‬سرگرمیاں ان کے دماغی افعال کو منظم کرتی ہیں۔‬
‫محقیقین کا کہنا ہے کہ جتنا زیادہ جسمانی سرگرمیاں ہونگی بچوں کا دماغی نیٹ ورک اتنا‬
‫ہی منظم اور‪  ‬صحت مند ہوگا۔‬
‫یہ تحقیق امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی کے چلڈرن اسپتال کے سائنسدانوں نے اپنے ایک‬
‫تجربے کے دوران کی اور اس مقصد کے لیے انھوں نے بلوغت کی جانب رواں دواں عمر‬
‫کے تقریبا ً چھ ہزار بچوں کے نیورو امیجنگ ڈیٹا کو استعمال کرکے کیا۔‬
‫اور اس تحقیق کے نتیجے میں انکے سامنے یہ بات ٓائی کہ مسلسل جسمانی سرگرمی‪ ‬‬
‫بچوں میں مثبت اثرات پیدا کرتا ہے اور ان کے دماغ کے سرکٹس نمو پاتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج جرنل سیربرال کورٹیکس میں شائع ہوئے ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/931950‬‬

‫کونسا پھل کس وقت کھانا مفید ہے؟‬


‫مئی ‪26 2021 ،‬‬
‫| ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ عام‪  ‬غذأوں کے ساتھ‪  ‬پھلوں اور ُخشک‬
‫میوہ جات کا استعمال بھی الزمی کرنا چاہیے جن کے استعمال سے انسان خود کو توانا‪،‬‬
‫تروتازہ اور فرحت بخش محسوس کرتا ہے۔‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق ہر غذا کے کھانے کا ایک‪  ‬وقت ہوتا ہے جس میں اُس غذا‬
‫کے کھانے سے مکمل مستفید ہوا جا سکتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق صبح کا وقت ایسا ہے جب انسان بہتر غذا کے ذریعے اپنی صحت کو‬
‫مزید بہتر اور زندگی طویل بنا سکتا ہے اور اسی دوران تازہ پھلوں اورخشک میوہ جات کا‬
‫استعمال بھی تجویز کیا جاتا ہے مگر ہر پھل صبح نہار منہ کھانا صحت کے لیے مفید ثابت‬
‫نہیں ہوتا۔‬
‫صبح ‪ ،‬نہار منہ کن تازہ پھلوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے ؟‬
‫تحقیق کے مطابق پھل ہماری صحت کے لیے اہم اور بے حد مفید قدرتی غذا ہے‪ ،‬پھلوں‬
‫میں وٹامنز‪ ،‬منرلز‪ ،‬غذائی اجزاء‪ ،‬فائبر اور پانی کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے‬

‫ماہرین کا کہنا ہے کہ مناسب طریقے سے اپنی خوراک میں پھلوں کو شامل کرنے سے‬
‫میٹابالزم بہتر اور جسمانی اعضاء اور پٹھوں کی کارکردگی بہتر اور افزائش ہوتی ہے ۔‬
‫نہار منہ تازہ پھل کھانے سے جسم کو بہت زیادہ توانائی بھی ملتی ہے‪ ،‬وزن میں نمایاں‬
‫کمی ہوتی ہے اور متعدد بیماریوں سے نجات ممکن ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے صبح کے ناشتے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے‪ ،‬اس دوران کونسے‬
‫تازہ پھل صحت کے لیے مثبت قرار دیئے جاتے ہیں اُن کی فہر ست مندرجہ ذیل ہے‬
‫سیب بہترین انتخاب‬

‫| ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سیب کو کرشماتی پھل کہا جاتا ہے کیوں کہ سیب میں فائبر وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے‬
‫جو جسم میں پانی کو اپنی جانب کھینچ کر ایک جیل تشکیل دیتا ہے جو غذا کے ہضم ہونے‬
‫کا عمل سست کرتا ہے۔‬
‫روزانہ ایک سیب سے زیادہ دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے اور بلڈ‪ ،‬شوگر‬
‫لیول متوازن جبکہ انسولین کی افزائش مثبت مقدار میں ہوتی ہے ۔‬
‫اس کے عالوہ صبح کے اوقات میں روزانہ ایک سیب کھانے سے فالج سے بچأو میں مدد‬
‫ملتی ہے‪ ،‬ایک ڈچ تحقیق کے دوران ‪ 10‬برسوں تک ‪ 20‬ہزار سے زائد رضاکاروں میں‬
‫پھلوں اور سبزیوں کے استعمال کا جائزہ لیا گیا‪ ،‬نتائج سے معلوم ہوا کہ سرخ سیب کھانے‬
‫کی عادت رکھنے والے رضاکاروں میں فالج کا خطرہ ‪ 9‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے‬
‫نارنگی‬
‫نارنگی کو دن میں کسی بھی وقت کھایا جاسکتا ہے لیکن اسے صبح ناشتہ میں خصوصا ً‬
‫خالی پیٹ کھانے سے گریز کریں‪ ،‬صبح نہار منہ نارنگی کھانے سے جسم میں الرجی پیدا‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫کیال‬
‫کیال ایک ریشہ دار غذا ہے‪ ،‬ناشتہ میں یا دن کے کسی بھی حصہ میں کیال کھانا ٓاپ کے‬
‫ہاضمہ کے عمل کو تیز کرسکتا ہے‪  ‬البتہ شام یا رات میں کیال کھانا نقصان کا سبب بن‬
‫سکتا ہے لہٰ ذا اسے بھی صبح ناشتے میں کھانا مفید ہے۔‬
‫تربوز‬
‫صبح نہار منہ تربوز کھانا مثبت قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬صبح نہار منہ تربوز کھانا انسانی جسم‬
‫کے لیے بہت مفید ہے کیونکہ تربوز میں الئکوپین کی زیادہ مقدار موجود ہے جو ٓانکھوں‬
‫اور دل کے لیے موثر ہے‪ ،‬موسم گرما کے اس پھل کے صبح نہار منہ استعمال سے‬
‫صحت بہتر اور پانی کی کمی پوری ہوتی ہے‬
‫خشک میوہ جات‬
‫دن بھر میں خشک میوہ جات کا استعمال ٓاپ کو بے وقت بھوک سے بچائے گا اور بے‬
‫وقت نہ کھانے سے‪  ‬وزن میں کمی بھی واقع ہوگی۔‬
‫خیال رہے کہ خشک میوہ جات جیسے بادام‪ ،‬پستہ‪ ،‬اخروٹ وغیرہ بھرپور غذائیت کے‬
‫حامل ہوتے ہیں لہٰ ذا انہیں رات میں کھانے سے پرہیز کرنا چا ہیے۔‬
‫‪ ‬بادام بہترین انتخاب‬
‫بادام میں مینگنیز‪ ،‬وٹامن ای‪ ،‬پروٹین‪ ،‬فائبر‪ ،‬اومیگا ‪ 3‬اور اومیگا ‪ 6‬فیٹی ایسڈ بھرپو مقدار‬
‫میں پایا جاتا ہے‪ ،‬بادام کھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انہیں طاق شمار کر لیا جائے اور‪ ‬‬
‫رات میں ہمیشہ بھگو کر‪  ‬پھر صبح نہار منہ چھلکے کے بغیر کھایا جائے۔‬

‫‪https://jang.com.pk/news/932265‬‬

‫| ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓاپریشن نہیں صرف قطرے‪ ،‬کیسے مسلمان سائنسدان نے قرٓان پاک‬
‫سے موتیے کا عالج دریافت کر کے انقالب برپا کردیا؟‬

‫‪25/05/2021‬‬

‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سویٹزر لینڈ کی ایک دوا بنانے والی فیکٹری نے ایک نئی دوا‬
‫تیار کی ہے جسے قرٓان کی دوا کا نام دیا گیا ہے‪ -‬یہ دوا بنیادی طور پر ٓانکھوں کے موتیا‬
‫کیلئے ہے اس سے موتیا سرجری کے بغیر ٹھیک ہو جاے گا‪-‬درحقیقت اس دوا یا قطروں‬
‫کا نسخہ ایک مصری ڈاکٹر عبدالباسط محمد نے اپنی بہترین تحقیق سے تیار کیا ہے‪ ،‬یہ دوا‬
‫انسان کے پسینے والے غدود سے بنائی گئی ہے اور اس سے شفاء یابی کے امکانات ‪99‬‬
‫فیصد ہیں جو یورپ میں اور‬
‫امریکہ میں رجسٹرڈ ہو چکی ہے‪ ،‬اور یہ رپورٹ بھیشائع ہو چکی ہے کہ ٓانکھ میں ڈالنے‬
‫والے قطرے بنائے جا چکے ہیں‪-‬یہ سب کیسے ممکن ہوا ہے اس کیلیے ایک بہت ہی‬
‫خوبصورت واقعہ ہے جس سے ڈاکٹر عبدالباسط کے اندر ایک طوفان برپا کر دیا اور اتنا‬
‫بڑا جذبہ پیدا ہوا‪-‬ڈاکٹر عبدالباسط کہتے ہیں کہ ایک صبح میں سورۃ یوسف پڑھ رہا تھا اور‬
‫میری توجہ ٓایت نمبر ‪ 84‬اور اس کے بعد کی ٓایات کی طرف مبذول ہو گئی‪ -‬کہ “ سیدنا‬
‫یعقوب علیہ السالم اپنے بیٹے یوسف علیہ السالم کے غم میں رو رو کر ٓانکھیں ضائع کر‬
‫لیں اور ٓانکھیں بالکل سفید ہو گئی ان میں موتیا اتر ٓایا‪ ،‬اور نظر ختم ہو گئی‪ -‬اور جب سیدنا‬
‫یوسف علیہ السالم کا کرتا ان کی ٓانکھوں کو لگایا گیا تو ان کی ٓانکھیں ٹھیک ہو گئیں ان کا‬
‫| ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫موتیا ٹھیک ہو گیا اور نظر واپس ٓا گئی! یہاں ٓا کر میرا دماغ روشن ہوا۔۔ تو میں نے سوچنا‬
‫شروع کر دیا‪ ،‬کہ سیدنا یوسف علیہ السالم کے کرتے میں کیا ایسی چیز ہو سکتی ہے جس‬
‫نے ان کی ٓانکھوں کو ٹھیک کیا کیونکہ قرٓان میں ہللا فرماتا ہے کہ غور کرنے والوں‬
‫کیلئے بہت ساری نشانیاں ہیں‪ ،‬موتیا کیسے ٹھیک ہو گیا! کون سی چیز ہو سکتی ہے جس‬
‫سے ہللا کے حکم سے فائدہ ہوا؟اور ٓاخر کار میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پسینہ کے عالوہ‬
‫اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی؟اس کے بعد میں نے اس پر سوچنا شروع کیا اور پسینہ اور‬
‫اس کے اندر کون سے کیمیکل اجزا ہوتے ہیں اس پر تحقیق شروع کر دی‪ ،‬اور پھر میں‬
‫نے ‪ 350‬مریضوں پر اس کا تجربہ شروع کر دیا‪ ،‬اور یہ دوا تین مرتبہ روزانہ دو ہفتوں‬
‫کیلٸے استعمال کروائی‪ٓ-‬اخر کار مجھے ‪ 99‬فیصد نتائج ملے‪ ،‬اور یہ میرے لیئے بہت بڑی‬
‫کامیابی تھی‪ ،‬اور یہ قرٓان کا بہت بڑا معجزہ تھا۔ اور اب یہ دوا یورپ اور امریکہ کی‬
‫کمپنیاں پیٹینٹ نمبر لے کر اس معجزہ کو دوا کی صورت میں ایک بے مثال ایجاد کے‬
‫طور پر رکھنے والی ہیں‪-‬اپنے بہترین نتایج اور تحقیق کے بعد ایک سوئس کمپنی کے ساتھ‬
‫انہوں نے معاہدہ کیا ہے جو اس دوا کو مارکیٹ کرے گی اور اس کا نام ہوگا قرٓان کی دوا‪،‬‬
‫تعالی فرماتا ہے‪ :‬ہم نے قرٓان کو زمین پر بھیجا جو کہ شفاء ہے اور رحمت ہے مگر‬‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫جو اس پر یقین رکھتے ہیں!!‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-105947.html‬‬
‫خطرناک برڈ فلو وائرس اگلی عالمی وبا بن سکتا ہے‪ ،‬چینی ماہرین‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 26  ‬مئ‪2021  ‬‬
‫چھیالیس ممالک میں الکھوں مرغیوں کو ہالک کرنے واال یہ برڈ فلو عالمی انسانی وبا میں‬
‫)بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔‬
‫بیجنگ‪ :‬چینی سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اب تک ‪ 46‬ممالک میں الکھوں مرغیوں‬
‫ٓانے والے برسوں میں عالمی )‪ (H5N8‬کو متاثر اور ہالک کرنے واال خطرناک برڈ فلو‬
‫انسانی وبا کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔‬
‫تحقیقی مجلے ’’سائنس‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع شدہ مقالے میں وائیفینگ شی اور‬
‫جارج ایف گاؤ نے برڈ فلو (ایویئن انفلوئنزا)\ وائرس کی مختلف اقسام اور ان میں جینیاتی‬
‫طور پر ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا ہے۔‬
‫برڈ فلو وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس سے متاثر ‪ H5N8‬ان کا کہنا ہے کہ‬
‫ہونے والے ممالک کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔‬
‫)‪ (H5N8‬شی اور گاؤ نے اپنی تحقیق میں روس کے ایک پولٹری فارم پر ایچ فائیو این ایٹ‬
‫بطور خاص تذکرہ کیا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫برڈ فلو وائرس سے ‪ 7‬مالزمین کے متاثر ہونے کا‬
‫یہ واقعہ دسمبر ‪ 2020‬میں پیش ٓایا تھا جس کی تصدیق کے بعد عالمی ادارہ صحت کو اس‬
‫کی اطالع فروری ‪ 2021‬میں دی گئی تھی۔‬

‫| ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ H5N8‬یہ خبر اس لیے بھی تشویشناک ہے کیونکہ‬

‫برڈ فلو وائرس سے انسانوں کے متاثر ہونے کا یہ پہال واقعہ ہے۔‬


‫اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر اس وائرس کی بعض اقسام خود کو تبدیل کرکے‬
‫پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہونے اور انہیں بیمار کرنے کے قابل ہوچکی ہیں تو ٓانے‬
‫والے مہینوں اور برسوں میں وہ مزید تبدیل ہو کر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے‬
‫تیسرے انسان کو متاثر کرنے کے قابل ہوسکتی ہیں۔واضح\ رہے کہ برڈ فلو (ایویئن‬
‫انفلوئنزا) وائرس پالتو مرغیوں اور بطخوں کے عالوہ جنگلی اور ہجرتی پرندوں میں بھی‬
‫عام پایا جاتا ہے۔‬
‫ویسے تو اس کی درجنوں اقسام ہیں تاہم ان میں سے پانچ ذیلی اقسام ہی انسانوں کو متاثر‬
‫برڈ فلو وائرس کی وہ چھٹی اور ‪ H5N8‬اور ہالک کرتی دیکھی گئی ہیں۔اس حوالے سے‬
‫تازہ ترین ذیلی قسم ہے جس نے پرندوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی متاثر کرنے کی‬
‫وائرس کا تیز رفتار ‪ H5N8‬صالحیت حاصل کرلی ہے۔شی اور گاؤ نے خبردار کیا ہے کہ‬
‫پھیالؤ اور اس کی بدلتی ہوئی ماہیئت‪ ،‬دونوں ہی انسانوں کےلیے شدید خطرے کی عالمت‬
‫ہیں جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔‬
‫وائرس اگلی انسانی ‪ H5N8‬ان تمام معلومات کے باوجود‪ ،‬ہم پہلے سے نہیں بتا سکتے کہ‬
‫وبا کا باعث بنے گا یا نہیں؟ اور اگر بنے گا تو کب؟ اس کےلیے ہم صرف اور صرف‬
‫حاالت پر نظر رکھنے پر ہی مجبور ہیں‬
‫‪https://www.express.pk/story/2182032/9812/‬‬

‫| ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے صحت یابی کے بعد بھی ایک اور خطرہ‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 26 2021‬‬

‫ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کے مرض سے صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک‬
‫پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ‪ B‬سکتا ہے‪ ،‬پھیپھڑوں کو ہونے واال نقصان عام سی ٹی اسکینز‬
‫اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں ٓاتا۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں‬
‫کہا گیا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو‬
‫اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کم از کم ‪ 3‬ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔‬
‫شیفیلڈ یونیورسٹی اور ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت‬
‫یابی کے بعد بھی کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے واال نقصان عام سی ٹی‬
‫اسکینز اور کلینکل ٹیسٹوں میں نظر نہیں ٓاتا۔‬
‫ان مریضوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پھیپھڑے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔‬
‫مزید ابتدائی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن کو اسپتال‬
‫میں داخل ہونا نہیں پڑا مگر سانس لینے میں مشکالت کا سامنا ہوتا ہے‪ ،‬ان کے پھیپھڑوں‬
‫کو بھی ایسا نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے‪ ،‬اگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی‬
‫ضرورت ہے۔‬

‫| ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی جریدے ریڈیولوجی میں شائع تحقیق میں ماہرین نے ہائپر پولرائزڈ شینون ایم آر آئی‬
‫اسکین سے کووڈ کے کچھ مریضوں میں ‪ 3‬ماہ سے زائد عرصے بعد بھی پھیپھڑوں میں‬
‫منفی تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا‪ ،‬کچھ کیسز میں اسپتال سے نکلنے کے ‪ 8‬ماہ بعد بھی‬
‫مریضوں کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچ رہا تھا۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ شی ایم ٓار ٓائی سے پھیپھڑوں کے ان حصوں کی نشاندہی ہوئی جہاں‬
‫ٓاکسیجن کے استعمال کی صالحیت کووڈ کے اثرات سے متاثر ہوچکی تھی‪ ،‬حاالنکہ سی‬
‫ٹی اسکین میں سب کچھ ٹھیک نظر آتا رہا تھا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہماری تیار کردہ امیجنگ ٹیکنالوجی دیگر کلینکل مراکز میں بھی‬
‫متعارف کروائی جائے گی۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے کئی ماہ‬
‫بعد بھی سانس لینے میں مشکالت کا سامنا ہوتا ہے حاالنکہ سی ٹی اسکین میں پھیپھڑے‬
‫معمول کے مطابق کام کرتے نظر ٓاتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ پھیپھڑوں کو ہونے واال یہ نقصان عام ٹیسٹوں سے دریافت نہیں ہوسکتا‬
‫جبکہ اس سے دوران خون میں ٓاکسیجن کے پہنچنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق اگرچہ یہ ابتدائی نتائج ہیں مگر النگ کووڈ کے شکار ‪ 70‬فیصد‬
‫مریضوں کے پھیپھڑوں کو بھی ممکنہ طور پر اسی طرح کا نقصان پہنچا ہوگا‪ ،‬مگر اس‬
‫کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت\ ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتنا عام مسئلہ‬
‫ہے اور حالت کب تک بہتر ہوسکتی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/effects-after-covid-19-recovery/‬‬

‫حمل ٹھہرنے سے قبل ٓاپ کی وہ عادت جوبیٹے کی جگہ بیٹی کی‬


‫پیدائش کا باعث بنتی ہے‬

‫‪04:41 pm 26/05/2021‬‬

‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)حاملہ ہونے سے قبل اور حمل ٹھہرنے کے دوران ذہنی تنأو کا سامنا‬
‫کرنے والی خواتین کے ہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان دوگنا زیادہ‬
‫ٰ‬
‫دعوی اسپین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓایا۔گرناڈا‬ ‫بڑھ جاتا ہے۔یہ‬
‫یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ‪ 108‬خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔ان خواتین کی مانیٹرنگ‬
‫حمل کے ٓاغاز سے بچوں کی پیدائش تک کی گئی اور حمل ٹھہرنے سے قبل‪ ،‬دوران اور‬
‫بعد میں تنأو کی سطح کا جائزہ‬

‫| ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بالوں اور متعدد نفسیاتی ٹیسٹوں کے ذریعے کیا گیا۔حمل سے قبل تنأو کی سطح کا جائزہ‬
‫لینے کا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ اس کا بچے کی جنس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔ان‬
‫حاملہ خواتین میں تنأو سے منسلک ہارمون کی شرح کا جائزہ حمل کے ‪ 8‬سے ‪ 10‬ویں‬
‫ہفتے کے دوان بالوں کے نمونے کے لیے لیا گیا۔ان نمونوں میں بالوں میں گزشتہ ‪ 3‬ماہ‬
‫کے دوران کورٹیسول کی شرح کا تعین (ایک ماہ میں بالوں کی سینٹی میٹر نشوونما کے‬
‫ذریعے) کیا گیا‪ ،‬جس سے حمل ٹھہرنے سے قبل‪ ،‬دوران اور بعد کے عرصے میں تنأو کی‬
‫شدت کا عندیہ مال۔محققین نے بتایا کہ نتائج حیران کن تھے کیونکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ‬
‫جن خواتین کے ہاں بچیوں کی پیدائش ہوئی‪ ،‬ان کے بالوں میں کورٹیسول کی شرح حمل‬
‫ٹھہرنے‪ ،‬دوران اور بعد میں زیادہ تھی‬
‫۔درحقیقت نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جن مأوں کو حمل ٹھہرنے سے قبل زیادہ تنأو کا‬
‫سامنا ہوتا ہے ان میں لڑکیوں کی پیدائش کا امکان لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا‬
‫ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل ٓاف ڈویلپمنٹل اوریجن ٓاف ہیلتھ اینڈ ڈیزیز میں‬
‫شائع ہوئے۔اس سے قبل ‪ 2019‬میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا‬
‫گیا تھا کہ دوران حمل اگر خواتین کو جسمانی یا ذہنی طور پر شدید تنأو کا سامنا ہو تو ان‬
‫کے ہاں بیٹے کی جگہ بیٹی کی پیدائش کا امکان بڑھ جاتا ہے‬
‫جبکہ قبل از وقت پیدائش کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ماں کا رحم بچے کا‬
‫پہال گھر ہوتا ہے اور ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ لڑکے وہاں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔ویسے‬
‫قدرتی طور پر اوسطا ً ہر سو بچیوں کے ساتھ ‪ 105‬لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے مگر اس‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسی حاملہ خواتین جو ہائی بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی تنأو‬
‫کی عالمات کی شکار ہوتی ہیں‪ ،‬ان میں یہ شرح ہر ‪ 9‬لڑکیوں پر ‪ 4‬لڑکے ہوتی ہے۔اسی‬

‫| ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طرح ذہنی تنأو کا سامنا کرنے والی خواتین میں یہ شرح ہر ‪ 3‬لڑکیوں پر ‪ 2‬لڑکوں کی ہے۔‬
‫خیال رہے کہ اس نئی تحقیق کے نتائج لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کی شرح میں تعلق تو بیان‬
‫کرتے ہیں مگر یہ پتھر پر لکیر نہیں۔‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202105-106059.html‬‬

‫زچہ و بچہ کی صحت میں چین نے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں‪،‬‬


‫عالمی ماہرین‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 27  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کی صحت کے شعبے میں چین کی ترقی نے دنیا کو‬
‫حیران کردیا ہے۔ (فوٹو‪ :‬یوریکا الرٹ)‬
‫بیجنگ‪ :‬طبّی ماہرین کے ایک عالمی پینل‪ B‬کا کہنا ہے کہ چین نے گزشتہ ‪ 70‬سال کے‬
‫دوران زندگی کے تمام شعبوں میں زبردست ترقی کے ساتھ ساتھ زچہ و بچہ کی صحت‬
‫کے حوالے سے بھی غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔‬

‫| ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ اعتراف دنیا کے مشہور و معتبر طبّی تحقیقی مجلے ’’دی لینسٹ‘‘ کے تازہ شمارے‬
‫میں ’’لینسٹ کمیشن‘‘ کے تحت شائع ہونے والی‪ ‬ایک تفصیلی رپورٹ‪ ‬میں کیا گیا ہے جو‬
‫مرڈوک چلڈرنز ہاسپٹل‪ٓ ،‬اسٹریلیا کے پروفیسر جارج پیٹن کی سربراہی میں مرتب کی گئی‬
‫ہے۔‬
‫رپورٹ میں حاملہ خواتین‪ ،‬زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی صحت و زندگی سے متعلق ‪70‬‬
‫سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا ہے جو ‪ 1949‬سے ‪ 2019‬کا احاطہ کرتے ہیں۔‬
‫اس رپورٹ کا خالصہ یہ ہے کہ چین میں زچگی کے وقت مرنے والی خواتین کا تناسب‬
‫‪ 1949‬میں ایک الکھ میں سے ‪ 1500‬جتنا تھا جو ‪ 2019‬تک کم ہو کر ایک الکھ میں‬
‫صرف ‪ 17.8‬رہ گیا۔‬
‫شرح اموات ‪ 1949‬میں ہر‬‫ِ‬ ‫دوسری جانب چین میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی‬
‫‪ 1000‬میں سے ‪ 200‬پر تھی جو ‪ 2019‬تک کم ہوتے ہوتے محض ‪ 5.6‬فی ‪ 1000‬رہ گئی۔‬
‫عالوہ ازیں خواتین کی تولیدی‪ ،‬حمل کے دوران‪ ،‬زچگی کے وقت اور زچگی کے بعد‬
‫عمومی صحت کے عالوہ بچوں میں بھی پیدائش سے لے کر بلوغت میں قدم رکھنے تک‬
‫صحت سے متعلق ‪ 70‬سالہ اعداد و شمار بھی اس تجزیئے میں شامل کیے گئے۔‬
‫ان تمام حوالوں سے بھی چین نے غیرمعمولی ترقی کرتے ہوئے خود کو ماضی کے‬
‫مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر بنایا ہے۔‬
‫رپورٹ میں سرکاری سطح پر اس عزم کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو اس متعلق پالیسیاں‬
‫بنانے اور ان پالیسیوں پر عملدرٓامد میں بھی نمایاں نظر ٓاتا ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ ٓاج چین میں صحت سے متعلق سہولیات کا موازنہ کسی بھی ترقی یافتہ‬
‫ملک سے کیا جاسکتا ہے جبکہ وہاں بلند معیار کی حامل طبّی سہولیات کی مانگ میں بھی‬
‫مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو وہاں صحت کے شعبے میں زبردست ترقی کی غماز ہے۔‬
‫رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور بچوں کی صحت کے بنیادی مسائل تقریبا ً مکمل حل‬
‫کرنے کے بعد‪ ،‬جدید چین کو ٓاج نئے چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا تعلق چھوٹے بڑے بچوں‬
‫میں نفسیاتی مسائل‪ ،‬وقتا ً فوقتا ً سر اُٹھانے والی وباؤں اور خواتین کی عمومی صحت وغیرہ‬
‫سے ہے۔‬
‫زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق دیگر اہداف ‪ 2030‬تک حاصل کرنے پر زور دینے کے‬
‫ساتھ ساتھ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم ٓامدنی والے دوسرے ممالک کو بھی‬
‫ت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‬ ‫چین کی طرز پر حکم ِ‬
‫‪https://www.express.pk/story/2182406/9812/‬‬

‫ٓالو بخارا بے شمار جسمانی فائدے پہنچانے کا سبب‬

‫‪24 May,2021 05:00 pm‬‬

‫| ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫الہور(نیٹ نیوز) طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ ٓالو بخارا کا استعمال ہارٹ اٹیک‪ ،‬فالج اور‬
‫غشی کا خطرہ کم کرتا ہے ۔طبی ماہرین کے مطابق یہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے لہٰ ذا‬
‫بالوں کی نشوونما اور جلد کی خوبصورتی کیلئے بہترین ہے جبکہ یہ اینٹی ڈپریسنٹ بھی‬
‫ہے اور جسم میں خون کی کمی بھی دور کرتا ہے۔ ٓالو بخارا معدے اور نظام ہاضمہ کو‬
‫درست رکھتا ہے جبکہ یہ یرقان‪ ،‬ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس کے پتے ناریل کے تیل میں ایک گھنٹہ دھوپ میں رکھیں‪ ،‬اس کے‬
‫بعد اس تیل کو بالوں میں لگائیں بالوں کے متعدد مسائل جیسے خشکی‪ ،‬بال جھڑنا‪ ،‬بے‬
‫رونقی وغیرہ کا خاتمہ ہوگا اور بال لمبے اور گھنے ہوں گے۔‬

‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/602963‬‬

‫اینگزائٹی‪ B‬میں کمی کرنے والی غذائیں‪B‬‬

‫‪25 May,2021 09:22 pm‬‬

‫الہور‪( :‬سپیشل فیچر) ہماری غذائی تبدیلیوں کے باعث ملک میں اینگزائٹی کا مرض بہت‬
‫ہی عام ہو گیا ہے۔ کوئی کم اور کوئی فرد زیادہ‪ ،‬اس میں مبتال ہے۔ اس کی کئی وجوہات‬
‫| ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہیں جن میں خوف اور ذہنی تناؤ بھی شامل ہیں۔ روزمرہ کے کام کا دباؤ‪ ،‬چڑچڑا پن‪،‬‬

‫ارتکاز توجہ کی کمی‪ ،‬کام کا تناؤ اور مسائل‪ ،‬دل کی دھڑکن‪ ،‬پٹھوں کے امراض اور‬
‫سینے کی جکڑن بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫اکثر مریضوں کو عالج کی مکمل سہولت بھی دستیاب نہیں لیکن ہم اپنی غذامیں تبدیلی کے‬
‫ذریعے اس مرض پر کسی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔ کچھ پھلوں‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬اجناس‪ ،‬دالیں‬
‫کو خوراک میں شامل کر کے اینگزائٹی سے بچا جا ) ‪ (protein Lean‬اور ہلکی لحمیات‬
‫سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی خوراک میں چند تبدیلیاں لے ٓائیں تو پریشانی ہی نہ اٹھانا پڑے۔‬
‫سیلینیم والی غذائیں‬
‫یہ کیمیکل موڈ کو بہتر بناتا ہے لہٰ ذا جن غذائوں میں سیلینیم پایا جاتا ہے وہ غذائیں‬
‫اینگزائٹی میں کمی کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ موڈ کو بہتربنا کر سوزش میں بھی کمی التا‬
‫ہے۔سیلینیم انٹی ٓاکسیڈنٹ بھی ہے جو خلیوں کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ‬
‫کیمیکل سرطان کو بڑھنے سے بھی روکتا ہے لیکن خیال رہے کہ اس کیمیکل کی مقدار‬
‫بالغ‬
‫ہرگز بڑھنے نہ پائے‪،‬کیونکہ مقدار میں اضافہ کئی خرابیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ہر ٖ‬
‫مرد کیلئے ‪400‬مائیکرو گرام سے زیادہ سیلینیم کی تجویز نہیں کیا جاتا۔ ل ٰہذا اس کے‬
‫سپلیمنٹ ڈاکٹروں کے مشورے سے ہی استعمال کیجئے۔‬
‫میوہ جات‬
‫میوہ جات حیاتین ای کا اچھا سورس ہیں۔حیاتین ای ٓاکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے اینگزائٹی‬
‫کے عالج میں بھی مفید ہے۔تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ حیاتین ای کی کمی کچھ افراد میں‬
‫اینگزائٹی کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫فیٹی فش (ٹونا مچھلی یا اومیگا مچھلی)‬
‫| ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اور ‪  ‬ہیرنگ مچھلی بھی اومیگا تھری اور فور کی )‪ (Mackerel‬ٹرائوٹ‪ ،‬سامن ‪،‬اسقمری‬
‫ماخذ ہیں۔ان کا بھی ذہنی صحت سے تعلق ہے۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بہت زیادہ‬
‫اومیگا سکس استعمال کرنے والے بھی اگر اومیگا تھری نہ کھائیں تو اینگزائٹی کا شکار ہو‬
‫سکتے ہیں۔اومیگا تھری غذائوں میں پایاجانے واال خاص قسم کا تیزاب الفا لینو لینک تیزاب‬
‫کہا جاتا‘‘‪   DHA‬اور ‘‘‪   EPA‬دو مزید اہم تیزابی مادے پیدا کرتا ہے‪،‬جنہیں ))‪ALA‬‬
‫ہے‪،‬یہ دونوں تیزابی مادے نیورو ٹرانسمیٹرز کے افعال کو درست بنا تے ہیں اور سوزش‬
‫میں کمی التے ہیں‪،‬ان دونوں تیزابی مادوں کو دماغی صحت کیلئے الزمی جزسمجھا جاتا‬
‫ہے۔اگرچہ مقدار مزید تحقیق کی جا رہی ہے لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہفتے میں‬
‫تین بار فیٹی فش کافی رہے گی۔‬
‫حیاتین ڈی والی غذائیں‬
‫سالمن اور سارڈین مچھلیاں حیاتین ڈی کا بھی خزانہ ہیں ۔محققین نے حیاتین ڈی کا تعلق‬
‫بھی موڈ‪ ،‬ڈپریشن اور اینگزائٹی\ سے جوڑا ہے۔حیاتین ڈی سردیوں میں پیدا ہونے والے‬
‫پر قابو پانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ )‪ ‘‘ (SAD‬سیزنل ڈس ٓارڈر‬
‫انڈے‬
‫انڈے حیاتین ڈی اورپروٹین کاخزانہ ہے۔ اس میں مکمل پروٹین پائی جاتی ہے یعنی امائنو‬
‫ایسڈز۔ جو جسمانی نشو و نما کیلئے ناگزیرہیں۔انڈوں\ میں پائی جانے والی ٹرپٹو فین‪،‬‬
‫سیروٹونین کی تیاری میں بھی مدد دیتی ہیں۔ سیروٹونین بھی موڈ‪ ،‬یاد داشت‪ ،‬نیند اور طرز‬
‫عمل کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتا ہے۔اس سے ذہنی سکون ملتا ہے۔‬
‫کدو اور کیلے کے بیج‬
‫کیلے اور کدو کے بیج پوٹاشیم کا خزا نہ ہیں‪ ،‬جو سٹریس اور اینگزائٹی کی عالمات میں‬
‫کمی ال سکتے ہیں۔یہ خون کے دبائو اور الیکٹروالئٹس میں بھی توازن قائم رکھتے ہیں۔کدو‬
‫کے بیجوں میں زنک کی موجودگی بھی موڈ کیلئے اچھی ہے۔کیونکہ زنک بھی دماغ اور‬
‫اعصابی نظام کی کی نشو و نما کیلئے ضروری ہے۔زنک دماغ میں جذبات سے متعلق‬
‫حصے میں بھی پائی جاتی ہے۔‬
‫ہلدی‬
‫ا سکا ایک )‪‘‘(Curcumin‬اس مصالحے کاہمارے ہاں عام استعمال کیاجاتا ہے۔‪  ‬کرکومین‬
‫اہم جزو ہے۔یہ بھی سوزش میں کمی کے ذریعے اینگزائٹی\ پر قابو پانے میں معاون بنتا‬
‫ہے۔یہ بالغ اور موٹے افراد میں بھی اینگزائٹی کو کم کرسکتاہے۔یہ خاص قسم کے تیزاب‬
‫کی پیداوار میں بھی اضافے کا سبب بن کر اینگزائٹی کو کم کرتا ہے۔ہرفرد کو ‪DHA500‬‬
‫سے ‪1000‬ملی گرام یومیہ کرکومین کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ چائے کے ایک چمچے‬
‫میں دو سو ملی گرام کرکومین ہوتی ہے۔‬

‫تحریر ‪ :‬ڈاکٹر سید فیصل عثمان‬


‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/603185‬‬

‫| ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ کھٹا میٹھا خوبصورت پھل صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مفید‬
‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪25 2021‬‬

‫کھٹے میٹھے آڑو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو سب سے پہلے ‪ 8‬ہزار سال‬
‫سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں کاشت کیا گیا تھا۔‬
‫آڑو آلوبخارے‪ ،‬خوبانی‪ ،‬چیری اور بادام سے منسلک کیا جاتا ہے جن کے پھل میں ٹھوس‬
‫بیج ہوتے ہیں۔‬
‫آڑو کو پھل کی شکل میں بھی کھایا جاسکتا ہے اور مختلف اقسام کی سالد اور پکوانوں‬
‫کے ذریعے بھی جزوبدن بنایا جاسکتا ہے۔‬
‫آڑو متعدد غذائی اجزا سے بھرپور پھل ہے جس سے متعدد طبی فوائد بشمول نظام ہاضمہ‬
‫میں بہتری‪ ،‬ہموار جلد اور دیگر حاصل ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس پھل کے چند حیرت انگیز فوائد درج ذیل ہیں۔‬
‫متعدد غذائی اجزا اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور‬
‫آڑو میں متعدد وٹامنز‪ ،‬منرلز اور مفید نباتاتی مرکبات موجود ہوتے ہیں۔‬
‫ایک درمیانے سائز کے آڑو میں سے جسم کو ‪ 58‬کیلوریز‪ ،‬ایک گروم پروٹین‪ ،‬ایک گرام‬
‫سے کم چکنائی‪ 14 ،‬گرام کاربوہائیڈریٹس‪ 2 ،‬گرام فائبر‪ ،‬وٹامن سی کا روزانہ درکار مقدار‬
‫کا ‪ 17‬فیصد حصہ‪ ،‬وٹامن اے کا روزانہ درکار مقدار کا ‪ 10‬فیصد حصہ‪ ،‬پوٹاشیم کا‬

‫| ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫روزانہ درکار مقدار کا ‪ 8‬فیصد حصہ‪ ،‬وٹامن ای کا روزانہ درکار مقدار کا ‪ 5‬فیصد حصہ‪،‬‬
‫وٹامن کے کا روزانہ درکار مقدار کا ‪ 5‬فیصد حصہ‪ ،‬کاپر کا روزانہ درکار مقدار کا ‪5‬‬
‫فیصد حصہ اور مینگنیز کا روزانہ درکار مقدار کا ‪ 5‬فیصد حاصل ہوتا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ آڑو میں میگنیشم‪ ،‬فاسفورس‪ ،‬آئرن اور کچھ بی وٹامنز کی معمولی مقدار‬
‫بھی موجود ہوتی ہے۔‬
‫اسی طرح اس پھل میں نباتاتی مرکبات کی شکل میں اہم اینٹی آکسائیڈنٹس ہوتے ہیں جو‬
‫تکسیدی نقصان کا مقابلہ کرتے ہیں اور جسم کو عمر میں اضافے اور امراض سے تحفظ‬
‫فراہم کرتے ہیں۔‬
‫نظام ہاضمہ کے لیے مفید‬
‫آڑو نظام ہاضمہ کو صحت مند بنانے میں بھی مددگار پھل تصور کیا جاتا ہے۔‬
‫ایک درمیانے سائز کے آڑو سے ‪ 2‬گرام فائبر ملتا ہے جن میں سے ‪ 50‬فیصد حل ہوجانے‬
‫واال اور باقی حل نہ ہونے واال فائبر ہوتا ہے۔‬
‫حل نہ ہونے واال فائبر قبض سے بچاتا ہے جبکہ حل ہوجانے واال فائبر آنتوں میں موجود‬
‫صحت کے لیے مفید بیکٹریا کی غذا ثابت ہوتا ہے‪ ،‬جس سے مفید فیٹی ایسڈز بنتے ہیں‪ ،‬جو‬
‫ورم اور ہاضمے کے امراض سے بچاتے ہیں۔‬
‫دل کی صحت بھی بہتر کرے‬
‫پھلوں بشمول آڑو کو کھانے سے دل کی صحت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔‬
‫آڑو کھانے کی عادت ممکنہ طور پر امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر جیسے‬
‫ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرول سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق آڑو میں موجود مرکبات بائل ایسڈز کو جکڑ کر بلڈ کولیسٹرول‬
‫کی سطح میں کمی النے میں مدد کرتے ہیں۔‬
‫جانوروں پر ہونے والی تحقیق میں آڑو کے استعمال سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح‬
‫میں کمی کو دریاففت کیا گیا تاہم انسانوں پر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫جلد کے لیے مفید‬
‫آڑو جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے بھی بہترین پھل ہے۔‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق اس پھل میں موجود مرکبات جلد کی نمی برقرار رکھنے کی‬
‫صالحیت کو بہتر بناتے ہیں جس سے جلد کی ساخت بہتر ہوتی ہے۔‬
‫مخصوص اقسام کے کینسر سے ممکنہ تحفظ‬
‫بیشتر پھلوں کی طرح آڑو میں ایسے مفید نباتاتی مرکبات ہوتے ہیں جو مخلف اقسام کے‬
‫کینسر سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتےہ یں۔‬
‫خصوصا ً آڑو کی جلد اور گودا کیروٹین اور کیفیک ایسڈ جیسے ‪ 2‬اینٹی آکسائیڈنٹس کی‬
‫مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو کینسر کش خصوصیات کے حامل ہیں۔‬
‫اس پھل میں پولی فینولز کی شکل میں ایسے اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہیں جو کینسر زدہ‬
‫خلیات کی نشوونما اور پھیالؤ کو ممکنہ طور پر محدود کرسکتےہ یں۔‬

‫| ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ابتدائی تحقیقی رپورٹس کے مطابق آڑو میں موجود پولی فینولز کینسر زدہ خلیات کو‬
‫مارنے کی صالحیت بھی رکھتے ہیں جبکہ صحت مند خلیات کو نقصان نہیں ہوتا۔‬
‫اس مقصد کے لیے روزانہ ‪ 2‬سے ‪ 3‬آڑو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مطلوبہ مقدار‬
‫میں پولی فینولز جسم میں جاسکیں‪ ،‬تاہہم اس حوالے سے انسانوں پر مزید تحقیق کی‬
‫ضرورت ہے۔‬
‫الرجی عالمات میں کمی‬
‫آڑو سے الرجی عالمات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫جب جسم کسی الرجی سے متاثر ہوتا ہے تو ایک ایسا کیمیکل جسم میں خارج ہوتا ہے جس‬
‫کا مقصد الرجی سے چھٹکارا ہوتا ہے۔‬
‫یہ کیمیکل جسم کے دفاعی نظام کا حصہ ہے اور اس سے الرجی کی عالمات جیسے‬
‫چھینکیں‪ ،‬خارش یا کھانسی متحرک ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آڑو سے ممکنہ طور پر الرجی کی عالمات کی شدت کو کم‬
‫کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ خون میں اس مخصوص کیمیکل کے اخراج کی روک تھام کرتی‬
‫ہے۔‬
‫تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫مدافعتی نظام مضبوط کرے‬
‫آڑو میں مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے والے اجزا اور اینٹی آکسائیڈنٹس موجود ہوتے ہیں‬
‫جو کہ مخصوص اقسام کے بیکٹریا سے لڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‬
‫زہریلے اثرات سے تحفظ‬
‫ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ آڑو کے ایکسٹریکٹ\ سے تمباکو نوشی کے عادی افراد‬
‫میں پیشاب کے ذریعے نکوٹین کے اخراج کو بڑھانے میں مدد ملی۔‬
‫بلڈ شوگر کم کرے‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق آڑو میں موجود مرکبات بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھنے سے‬
‫روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ انسولین کی مزاحمت کی روک تھام بھی‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫مگر اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس زیادہ بڑی نہیں تھیں اور مزید تحقیق کی ضرورت‬
‫ہے۔‬

‫آسانی سے دستیاب‬
‫آڑو اس موسم میں ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں اور غذا میں ان کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔‬
‫پھل کی شکل میں کھا سکتے ہیں سالد‪ ،‬جوس یا دیگر اشکال میں بھی ان کو کھایا جاسکتا‬
‫ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160680/‬‬

‫| ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫موڈرنا کی کووڈ ویکسین ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے گروپ کیلئے مؤثر قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪25 2021‬‬

‫موڈرنا نے کہا ہے کہ اس کی کووڈ ‪ 19‬ویکسین ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے بچوں اور نوجوانوں‬


‫میں بیماری کی روک تھام کے لیے بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہے۔‬
‫امریکی کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں یہ بات بتائی گئی۔‬
‫ٹرائل میں کامیابی کے بعد اس ویکسین کو ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے بچوں اور نوجوانوں کے‬
‫لیے استعمال کرنے کی منظوری کا راستہ کھل گیا ہے۔‬
‫اگر اس ویکسین کو منظوری مل جاتی ہے تو یہ امریکا میں اس عمر کے گروپ کے لیے‬
‫دستیاب دوسری کووڈ ویکسین ہوگی۔‬
‫اس سے ققبل فائزر‪/‬بائیو این ٹیک ویکسین کو اس عمر کے گروپ کے لیے استعمال کرنے‬
‫کی منظوری دی جاچکی ہے۔‬
‫دونوں کمپنیوں کی جانب سے اس عمر کے گروپ میں ویکسین کے اثرات پر تحقیق کی‬
‫جارہی تھی۔موڈرنا کی جانب سے ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے ‪ 37‬سو سے زیادہ افراد کو کلینکل‬
‫ٹرائل کا حصہ بنایا گیا تھا۔‬

‫| ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان رضاکاروں میں سے دوتہائی کو موڈرنا ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں دی گئی جبکہ باقی سب‬
‫کو پلیسبو انجیکشن لگائے گئے۔‬
‫اس ٹرائل کا مقصد ویکسین کے استعمال سے رضاکاروں کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ‬
‫بالغ افراد کے ردعمل سے کرنا تھا۔‬
‫کمپنی نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کے استعمال سے ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال‬
‫کے گروپ میں بننے واال مدافعتی ردعمل بالغ افراد سے ملتا جلتا تھا۔‬
‫کمپنی کی جانب سے اب جون کے شروع میں اس ڈیٹا کو ریگولیٹرز\ کو جمع کرانے کی‬
‫منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔‬
‫فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے بھی اسی طرح کی تحقیق کے بعد یو ایس فوڈ اینڈ‬
‫ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے بچوں کے لیے ویکسین کے استمال کی منظوری حاصل کی گئی‬
‫تھی۔‬
‫موڈرنا کی تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد کووڈ‬
‫کے عالمات والے کیسز بچوں میں نظر آتے ہیں۔‬
‫ٹرائل میں شامل میں ‪ 4‬رضاکاروں میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص ہوئی اور یہ سب پلسبو‬
‫گروپ کا حصہ تھے۔‬

‫اس ٹرائل کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔‬
‫موڈرنا کے مطابق ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے گروپ میں ویکسن کے قابل برداشت اور‬
‫محفوظ ہونے کا تسلسل بالغ افراد کے ٹرائل جیسا ہی ہے۔‬
‫اس عمر کے گروپ میں ویکسین کے استعمال سے سب سے عام مضراثرات میں سردرد‪،‬‬
‫تھکاوٹ‪ ،‬مسلز میں تکلیف اور ٹھنڈ لگنا قابل ذکر تھے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160688/‬‬

‫لوبیا کے صحت پر حیرت انگیز فوائد‬

‫مئی ‪27 2021 ،‬‬


‫الل لوبیا جسے راجما یا انگریزی میں کڈنی بینز کہا جاتا ہے‪ ،‬اس کےاستعمال سے‬

‫صحت پر بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں جنہیں جاننا اور اِن کا استعمال کرنا صحت‬
‫کے لیے نہایت ضروری ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے لوبیا کو غذائیت سے بھر پور مفید غذا قرار دیا جاتا ہے جبکہ‬
‫طبی ماہرین اس کا استعمال بطور غذا ایک کپ روزانہ کی بنیاد پر تجویز کرتے ہیں ۔‬

‫| ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بینائی کی کمزوری یا خون کی کمی کی شکایت لے کر جب بھی کوئی مریض‪  ‬ڈاکٹر کے‬
‫پاس جاتے ہیں تو ایسے میں انہیں معالج راجما کے استعمال کا مشورہ‪  ‬الزمی دیتے ہیں‪،‬‬
‫ڈاکٹروں کی جانب سے مریضوں\ کو تجویز دی جانے والی مثبت غذاؤں کی فہرست میں‬
‫بھی لوبیا ضرور نظر ٓاتا ہے۔‬
‫لوبیا میں پروٹین‪ ،‬فائبر‪ ،‬فولیٹ‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬پوٹاشیم اور دیگر اہم غذائی اجزا بھرپور مقدار‬
‫میں پائے جاتے ہیں‪ ،‬راجما کی افادیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے ’الل لوبیا‘ کو‬
‫غریبوں کا گوشت بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫الل لوبیا کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں جن میں سے چند‬
‫‪:‬مندرجہ ذیل درج ہیں‬
‫لوبیا میں فولیٹ (وٹامن بی‪ )9‬اور فائبر بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے جس کے سبب اس کا‬
‫استعمال دل کی بیماریوں سے بچاتا ہے اور شریانوں کو کشادہ کرتا ہے۔‬
‫لوبیا میں موجود ڈائیٹری فائبر نظام ہاضمہ کے راستوں میں جیل کا کام کرتا ہے جو‬
‫کولیسٹرول کو جسم سے خارج کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‪ ،‬اس‪  ‬کے استعمال سے جسم‬
‫سے اضافی اور منفی کولیسٹرل کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔‬
‫لوبیا اینٹی ٓاکسیڈنٹ خصوصیات کے باعث اینٹی ایجنگ صالحیت کا حامل ہے‪ ،‬اسے‬
‫کھانے سے مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔‬
‫لوبیا بلڈشوگر کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے اور ٓائرن کی کمی دور کرتا‬
‫ہے۔‬

‫| ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لوبیا کا استعمال وزن میں کمی کا ذریعہ بنتا ہے‪ ،‬اس کا روزانہ استعمال وزن میں تیزی‬
‫سے کمی التا ہے۔‬
‫لوبیا جسم کے لیے انتہائی ضروری جز پروٹین پر مشتمل اور مضر صحت کولیسٹرول‬
‫سے پاک غذا ہے جو مجموعی صحت کی بہتری کے لیے بےحد ضروری ہے۔‬
‫الل لوبیا کو استعمال میں کیسے الیا جائے ؟‬
‫الل لوبیا کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے‪ ،‬اسے اچھی طرح دھو کر رات بھر‬
‫بھگودیں پھر اسے اُبال کر اس سے مختلف پکوان بنالیں۔‬
‫بچوں کو کھالنے کے لیے اسے مختلف طرح کے کٹلس میں شامل کرسکتے ہیں۔‬
‫وزن میں کمی کے خواہشمند افراد اسے روزانہ سالد میں شامل کر کے بھی کھا سکتے‬
‫ہیں۔‬
‫چھوٹے بچے پراٹھا شوق سے کھاتے ہیں‪ ،‬اسے ٓالو کے ساتھ میش کرکے اس کا پراٹھا بنا‬
‫کر بچوں کو کھال سکتے ہیں۔‬
‫سوپ کے ذائقے اور غذائیت میں اضافے کے لیے اس میں الل لوبیا شامل کریں۔‬
‫جب بھی کوئی سبزی‪ ،‬ترکاری بنائیں اس میں الل لوبیا شامل کر لیں۔‬
‫چناچاٹ کی طرح ٓاپ اس کی بھی مزیدار چاٹ بناسکتے ہیں یا مکس چنا چاٹ میں بھی اس‬
‫کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫گھر میں بنائے گئے اسپرنگ رولز اور سموسوں میں بھی اس کا استعمال با ٓاسانی کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫چائنیز رائس یا پالٔو میں الل لوبیا شامل کر کے ذائقہ اور صحت دونوں کو بڑھایا جا سکتا‬
‫ہے ۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/932798‬‬

‫کیا آپ کو پتہ ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ‪ 32‬ہزار انسانی جانیں‬


‫بچی ہیں؟ حیران کن ’فائدہ‘ بھی سامنے آگیا‬

‫‪May 22, 2021 | 19:14:PM‬‬


‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس دنیا میں الکھوں زندگیاں نگل گیا ہے مگر‬
‫سائنسدانوں نے اب انکشاف کر دیا ہے کہ اس موذی وائرس کی وجہ سے ہزاروں زندگیاں‬
‫محفوظ بھی ہو گئی ہیں۔ میل آن الئن کے مطابق میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے‬
‫ماہرین نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بیشتر ممالک میں‬
‫طویل الک ڈاﺅن رہا۔ اس دوران سڑکوں پر گاڑیاں نہ ہونے کے برابر رہیں جس کا‬
‫ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔‬

‫| ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ الک ڈاﺅن کے اس فائدے کی وجہ سے ممکنہ طور پررواں اور‬
‫آئندہ سال کے دوران ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں ‪32‬ہزار کی‬
‫کمی واقع ہو گی۔ گویا کورونا وائرس کی وجہ سے یہ ‪32‬ہزار جانیں بچ گئیں۔تحقیقاتی ٹیم‬
‫کے سربراہ گوئیالﺅمے کوئسری کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں ہم نے سیٹالئٹ سے بھی‬
‫فضاءکا مشاہدہ کیا ہے اور ‪36‬ممالک میں لگے میٹرز سے بھی ماحول میں کاربن ڈائی‬
‫آکسائیڈ کی پیمائش کی ہے۔ اس دوران معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں الک ڈاﺅن کی وجہ‬
‫سے ماحول میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں واضح کمی آئی ہے۔اس کمی سے‬
‫صرف چین میں ‪21‬ہزار اموات کم ہوں گی۔‬

‫‪https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292253‬‬

‫جیسی’‬ ‫شہد کی نرمکھیوں کی جنسی سرگرمیاں بھی عیاش مردوں‬


‫ہوتی ہیں‘ نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف‬
‫‪May 22, 2021 | 19:23:PM‬‬

‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا شہد کی مکھیوں میں بھی انسانوں کی طرح کی جنسی‬
‫عادات پائی جاتی ہیںاور کیا ان کے چھتوں میں بھی ’نائٹ کلب‘ ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے‬
‫سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں حیران کن انکشاف کر دیا ہے ۔ میل آن الئن کے مطابق‬
‫سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں پر کی جانے والی طویل تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ‬
‫شہد کی نر مکھیوں کی جنسی زندگی مردوں کے مشابہہ ہوتی ہے۔‬

‫نر مکھیاں بعض مخصوص عالقوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں‪ ،‬جس طرح مرد نائٹ کلبوں‬
‫میں زیادہ جاتے ہیں۔ ان عالقوں میں خواتین کی طرح دیگر عالقوں کی مادہ مکھیاں بہت‬
‫‪ ‬کم جاتی ہیں۔‬
‫لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین نے اس تحقیق میں نر اور مادہ مکھیوں کی‬
‫نقل و حرکت اور جنسی تعامل کا سراغ لگانے کے لیے ریڈار ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔‬
‫جس میں معلوم ہوا کہ نر مکھیاں بڑے بڑے گروپوں کی شکل میں بعض مخصوص‬
‫‪،‬جگہوں پر اکٹھی ہوتی ہیں۔ جن جگہوں پر یہ نر مکھیاں اکٹھی ہوتی ہیں‬

‫ریڈار کے ذریعے ’کنواری‘ مادہ مکھیوں کے ان جگہوں کی طرف جانے کا بھی سراغ‬
‫مال ہے۔ تحقیق میں ان جگہوں کی طرف دیگر مادہ مکھیوں کو بہت کم جاتے دیکھا گیا ۔‬

‫| ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ووڈگیٹ کا کہنا تھا کہ یہ جگہیں ہوا میں موجود ہوتی ہیں‬
‫جہاں یہ نر اور ملکہ مکھیاں مالپ کرتی ہیں۔ ان جگہوں پر عام طور پر ‪10‬ہزار تک نر‬
‫مکھیاں اکٹھی ہوتی ہیں۔ تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مکھیاں نسل‬
‫درنسل انہی مخصوص جگہوں پر ہی مالپ کے لیے اکٹھی ہوتی ہیں‪ ،‬یا آئندہ نسلیں اپنے‬
‫لیے مختلف جگہوں کا تعین کرتی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہو گی۔‬

‫‪https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292257‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 23 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے‬
‫والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم‬
‫ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے ‪ 97‬فیصد افراد میں‬
‫ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔‬
‫یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں ‪ 250‬ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو‬
‫فروری سے اپریل ‪ 2020‬کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ‬
‫اوسطا ً ان افراد میں ‪ 6‬ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح ‪ 98‬فیصد اور‬
‫ایک سال بعد ‪ 97‬فیصد تھی۔‬

‫| ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئیں ان‬
‫میں ‪ 6‬ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح ‪ 97‬فیصد جبکہ ایک سال بعد ‪ 96‬فیصد تھی‪ ،‬جبکہ‬
‫سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح ‪ 100‬فیصد تھی۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد‬
‫میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔‬
‫ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین عالمات کا سامنا‬
‫کرنے والے افراد میں ‪ 6‬ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح ‪ 90‬فیصد تک تھی۔ تاہم‬
‫جن افراد میں عالمات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی‪ ،‬ان میں اینٹی باڈیز کی شرح ‪6‬‬
‫بعد گھٹ کر ‪ 85‬فیصد اور ایک سال بعد ‪ 79‬فیصد ہوگئی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں‬
‫وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے‪ ،‬اس لیے‬
‫ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔‬
‫اس سے قبل مئی ‪ 2021‬میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خالف مزاحمت کرنے والی‬
‫اینٹی باڈیز کم از کم ‪ 8‬ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو‬
‫بھی ہو‪ ،‬یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم ‪ 8‬ماہ تک موجود رہتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے دوران ‪ 162‬کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی‬
‫پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا‪ ،‬ان میں سے ‪ 29‬مریض ہالک‬
‫ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل ‪ 2020‬میں اکٹھے کیے گئے‬
‫اور ایک بار پھر نومبر ‪ 2020‬کے آخر میں ایسا کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز‬
‫موجود تھیں‪ ،‬اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی ٓائی‪ ،‬مگر بیماری کی تشخیص‬
‫کے ‪ 8‬ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔‬
‫تحقیق میں صرف ‪ 3‬مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/antibodies-in-covid-patients/‬‬

‫کرونا وائرس‪ :‬ماضی میں ڈینگی کا شکار افراد کے لیے خطرہ‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 23 2021‬‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد میں کرونا‬
‫وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ دوگنا ہوتا ہے۔‬

‫| ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق برازیل میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ماضی‬
‫میں ڈینگی کا سامنا کرنے والے افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے پر کووڈ کی‬
‫عالمات ابھرنے کا امکان دگنا ہوتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف ساؤ پاؤلو بائیو میڈیکل سائنس انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں برازیل کے‬
‫ایمیزون خطے کے ایک قصبے کے ‪ 12‬سو ‪ 85‬افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا‬
‫گیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ڈینگی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں ان میں کووڈ‬
‫‪ 19‬سے سنگین حد تک بیمار ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ایک طرف کووڈ ‪ 19‬کے نتیجے میں ڈینگی کی روک تھام کے اقدامات‬
‫متاثر ہوئے ہیں‪ ،‬وہی دوسری جانب ڈینگی سے کووڈ کا شکار ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا‬
‫ہے۔‬
‫یہ تحقیقی ٹیم عرصے سے اس خطے میں ملیریا کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے‬
‫اور ‪ 2018‬میں انہوں نے ہر ماہ بعد قصبے کی آبادی کے سروے کا پراجیکٹ شروع کیا‬
‫تھا‪ ،‬تاہم کرونا وائرس کی وبا کے بعد اس کا رخ کووڈ کی جانب موڑ دیا گیا۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ستمبر ‪ 2020‬میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایسے عالقے جہاں‬
‫ڈینگی کے کیسز بہت زیادہ رپورٹ ہوچکے ہیں وہاں کووڈ ‪ 19‬سے زیادہ اثرات مرتب‬
‫نہیں ہوئے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ چونکہ ہم اس خطے کے رہائشیوں کے خون کے نمونے کورونا وائرس‬
‫کی وبا کی پہلی لہر سے پہلے اور بعد میں اکٹھے کرچکے تھے‪ ،‬تو ہم نے ان کو اس خیال‬
‫کی جانچ پڑتال کے لیے آزمانے کا فیصلہ کیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس کا سامنا کرنے‬
‫والے افراد کو کسی حد تک کووڈ سے تحفظ حاصل ہوتا ہے‪ ،‬مگر نتائج اس سے بالکل‬
‫متضاد رہے۔‬

‫| ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں جن خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا وہ نومبر ‪ 2019‬اور نومبر ‪ 2020‬میں‬
‫اکٹھے کیے گئے تھے اور ان میں موجود اینٹی باڈیز کو ڈینگی تمام اقسام اور کرونا‬
‫وائرس کے خالف آزمایا گیا۔‬
‫نتائج سے ثابت ہوا کہ ‪ 37‬فیصد افراد نومبر ‪ 2019‬سے قبل ڈینگی جبکہ ‪ 35‬فیصد افراد‬
‫نومبر ‪ 2020‬سے قبل کرونا سے متاثر ہوچکے تھے۔‬
‫ماہرین کے مطابق شماریاتی تجزیے سے نتیجہ نکاال گیا کہ ماضی میں ڈینگی وائرس سے‬
‫متاثر ہونے سے کووڈ سے بیمار ہونے کا خطرہ کم نہیں ہوتا۔ ان کہنا تھا کہ درحقیقت‬
‫تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ڈینگی کا سامنا ہوچکا ہے‪ ،‬ان میں کرونا سے‬
‫متاثر ہونے پر عالمات ابھرنے کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dengue-and-coronavirus/‬‬

‫کوروناوائرس‪ :‬انسانوں میں نمودار ہونے والے پیچیدہ مسائل اور سنگین‬
‫اثرات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫مئی ‪ 23 2021‬‬

‫| ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی کورونا وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کووڈ‪ 19‬سے جہاں الکھوں‬
‫اموات ہوئیں وہیں ایسے پیچیدہ اور نفسیاتی مسائل بھی سامنے ٓائیں جنہوں نے ماہرین‬
‫کو پریشان کردیا ہے۔‬
‫ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہلک وائرس کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوئیں جن‬
‫میں ذہنی تناؤ‪ ،‬اضطراب‪ ،‬افسردگی‪ ،‬عدم یقین جیسی کیفیات عام ہیں‪ ،‬وبا نے لوگوں کو‬
‫جسمانی اور ذہنی اذیت میں مبتال کر رکھا ہے‪ ،‬جو افراد پہلے سے اعصابی مسائل کا‬
‫شکار تھے انہیں کورونا وائرس نے مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ صحت عامہ اور فالح‬
‫و بہبود کے لیے اچھی ذہنی صحت ضروری ہے‪ ،‬وائرس نے دنیا بھر میں ذہنی صحت کی‬
‫خدمات کو متاثر کیا۔‬
‫انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہ\\ا کہ دم\\اغی مس\\ائل کے ش\\عبے میں ک\\ام‬
‫کی ضرورت ہے۔‬
‫دوسری جانب ماہر ذہنی ام\راض ڈاک\ٹر ت\امر الم\ری کورون\ا وائ\رس کے ذہ\نی ص\حت پ\ر‬
‫اثرات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ذہنی صحت پر کورونا وائرس کے متعدد اث\\رات ہیں جن‬
‫میں بے چینی کی کیفیت‪ ،‬ذہنی تناؤ اور زی\ادہ غص\ہ محس\وس کرن\ا‪ ،‬نین\د میں مش\کل ہون\ا‪،‬‬
‫روزمرہ کے معمول میں عدم توازن وغیرہ عام ہیں۔‬
‫ادھر آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت ہوا ہے کہ کورونا سے صحت ی\\اب ہ\\ونے‬
‫والے ‪ 18‬فیصد مریض ‪ 3‬م\\اہ کے ان\\در ہی ذہ\\نی بیم\\اریوں ک\\ا ش\\کار ہوج\\اتے ہیں‪ ،‬ان میں‬
‫مختلف نفسیاتی پریشانیوں کو بھی دیکھا گیا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-complex-problems-and-serious-‬‬
‫‪side-effects-in-humans/‬‬

‫بھارتی کورونا وائرس کے خالف سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل‬


‫کرلی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪24 2021‬‬

‫نئی دہلی ‪ :‬بھارت میں پائی جانے والی کورونا وائرس کی انتہائی مہلک قسم نے تباہی‬
‫پھیالئی ہوئی ہے جس کے سدباب کیلئے سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی ہے۔‬
‫ایک‪ ‬رپورٹ‪ ‬کے مطابق فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک اور ایسٹرازینیکا ‪ /‬آکسفورڈ یونیورسٹی کی‬
‫تیار کردہ کوویڈ ویکسینز بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے‬
‫خالف بہت زیادہ مؤثر قرار پائی ہیں۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں‬
‫دریافت کی گئی۔‬
‫| ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان دونوں ویکسینز کی دو خوراکوں سے‬
‫کورونا کی بھارتی قسم سے ہونے والی عالمات والی بیماری سے لگ بھگ برطانوی قسم‬
‫جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔‬
‫تاہم دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے تین ہفتوں بعد بھارت میں دریافت قسم کے خالف‬
‫محض ‪ 33‬فیصد تحفظ ہی ملتا ہے‪ ،‬جبکہ برطانیہ میں دریافت قسم کے خالف دونوں‬
‫ویکسینز کی ایک خوراک سے ‪ 50‬فیصد تحفظ ملتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ویکسینز ممکنہ طور پر اسپتال میں داخلے اور اموات کی روک‬
‫تھام کے لیے اس سے بھی زیادہ مؤثر ہوں گی۔‬
‫برطانیہ میں موڈرنا ویکسین کا استعمال بھی اپریل سے ہورہا ہے مگر تحقیق کے مطابق‬
‫بہت کم افراد کو یہ ویکسین دی گئی تو اسے تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کورونا کی دوسری خوراک استعمال کرنے‬
‫کے ‪ 2‬ہفتے بعد کورونا کی بھارتی قسم سے ‪ 88‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ برطانوی‬
‫قسم کے خالف ‪ 93‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اس کے مقابلے میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی کورونا کی بھارتی قسم کے خالف افادیت ‪60‬‬
‫فیصد ہے جبکہ برطانوی قسم سے بچاؤ میں ‪ 66‬فیصد تک مؤثر ہے۔‬
‫پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ‬
‫ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے‬
‫بعد دی جاتی ہے۔‬

‫| ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت کو عروج تک پہنچنے کے‬
‫لیے زیادہ وقت لگتا ہے۔ تحقیق کے لیے ‪ 12‬ہزار سے زیادہ کیسز کے جینوم سیکونس کے‬
‫ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جو ‪ 5‬اپریل سے ‪ 16‬مئی کے درمیان کیے گئے۔‬
‫تحقیق میں ‪ 5‬اپریل سے ہر عمر کے گروپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا‪ ،‬یعنی اس تاریخ‬
‫سے جب یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی۔ ان میں سے ‪ 154‬میں کورونا کی بھارتی‬
‫قسم یعنی بی ‪ 1617‬کو دریافت کیا گیا۔‬
‫یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی ک‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/indian-corona-virus-vaccines-are-effective-‬‬
‫‪research/‬‬

‫کرونا وائرس کی نئی اقسام کے بارے میں ایک اور انکشاف‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫مئی ‪ 24 2021‬‬

‫واشنگٹن‪ :‬حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی نئی‬
‫قسموں میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو خود کو ویکسین سے پیدا ہونے والے‬
‫مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔‬

‫| ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا‬
‫وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو اس وائرس کو‬
‫بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد‬
‫کرتی ہیں۔‬
‫امریکا کے اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں جرمنی اور نیدر لینڈز کے‬
‫ماہرین نے بھی کام کیا تھا اور اس میں میوٹیشنز کے بارے میں اہم تفصیالت کا انکشاف‬
‫کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں اسٹرکچرل بائیولوجی تیکنیکوں کا استمال کر کے جانچ پڑتال کی گئی کہ‬
‫وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کس طرح وائرس کی اوریجنل قسم اور نئی اقسام کے‬
‫خالف کام کرتی ہیں اور ان کے افعال برطانیہ‪ ،‬جنوبی افریقہ‪ ،‬بھارت اور برازیل میں‬
‫دریافت اقسام کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫کرونا کی تشویش کا باعث بننے والی اقسام میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی‬
‫‪ ،117‬جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بی ‪ ،1351‬برازیل میں دریافت قسم پی ‪ 1‬اور بھارت‬
‫میں دریافت قسم بی ‪ 1617‬شامل ہیں۔‬
‫یہ اقسام ووہان میں پھیلنے والی وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں زیادہ متعدی قرار‬
‫دی جاتی ہیں اور حالیہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خالف اوریجنل‬
‫وائرس سے بیمار ہونے کے بعد یا ویکسی نیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کم مؤثر ہوتی‬
‫ہیں۔‬
‫ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی اقسام کچھ کیسز میں ویکسی نیشن کے باوجود لوگوں کو‬
‫بیمار کرسکتی ہیں اور اسی لیے ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ یہ اقسام کس طرح‬
‫مدافعتی ردعمل سے بچنے کے قابل ہوتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں آنے والی ‪3‬‬
‫میوٹیشنز کے ‪ 417‬این‪ ،‬ای ‪ 484‬کے اور این ‪ 501‬وائے پر توجہ مرکوز کی۔‬
‫اکٹھے یا الگ الگ یہ میوٹیشنز کرونا کی بیشتر نئی اقسام میں دریافت ہوئی ہیں اور یہ سب‬
‫وائرس کے ریسیپٹر کو جکڑنے والے مقام پر ہیں۔‬
‫محققین نے اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ان میں سے بیشتر اینٹی باڈیز‬
‫کی وائرس کو جکڑنے اور اسے ناکارہ بنانے کی صالحیت کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔‬
‫اسٹرکچرل امیجنگ ٹیکنیکس کو استعمال کر کے ماہرین نے وائرس کے مختلف حصوں کا‬
‫نقشہ بناکر جانچ پڑتال کی کہ کس طرح میوٹیشنز ان مقامات پر اثر انداز ہوتی ہیں جن کو‬
‫اینٹی باڈیز جکڑ کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔‬
‫نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی اوریجنل قسم کے خالف اینٹی باڈیز کا ردعمل بہت‬
‫مؤثر ہوتا ہے مگر مخصوص اقسام اس سے بچنے کی اہلیت رکھتی ہیں‪ ،‬چنانچہ بتدریج‬
‫ویکسینز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/research-on-coronavirus-mutations/‬‬

‫| ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سخت گرمی میں کون سی غذائیں کھانی چاہیئں؟ ماہر صحت کا مفید‬
‫مشورہ‬
‫ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪  24 2021‬‬

‫گرمیوں کا موسم آتے ہی ہم بہت سے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیز دھوپ‪ ،‬گرمی اور‬
‫لو کی وجہ سے جسم كے درجہ حرارت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس‬
‫کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی اور دیگر امراض کا سامنا رہتا ہے۔‬
‫گرمیوں میں سب سے اہم چیز جس کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے وہ ہے غذا کیونکہ کھانے‬
‫پینے میں چیزوں کا صحیح استعمال ہمیں بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔‬
‫گرمیوں میں بیکٹیریا اور دیگر وائرسز زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں‪ ،‬ہیٹ اسٹروک اور لوُ‬
‫کے سبب پیٹ کی بیماریاں جنم لیتی ہیں جبکہ صاف‪ ،‬تازہ‪ ،‬سادہ اور قدرتی غذأوں کے‬
‫سبب انسان متعدد بیماریوں اور موسمی شکایات سے محفوظ رہتا ہے جبکہ مضر صحت‬
‫غذا کے استعمال سے صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔‬
‫ان بیماریوں اور وائرسز سے بچا کیسے جائے؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے‬
‫پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹر عبدہللا بن خالد نے اپنے مفید مشوروں سے‬
‫آگاہ کیا۔‬

‫| ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے بتایا کہ غذا میں اعتدال پسندی بہت ضروری ہے‪ ،‬پھلوں سبزیوں اور گوشت کے‬
‫اپنے اپنے فوائد ہیں جن کا استعمال بہت ضروری ہے۔ لیکن ان کو کھانے کا ٹائم ٹیبل ہونا‬
‫چاہیے‪ ،‬سبزی اور پھل روزانہ استعمال کیے جائیں جبکہ گوشت ہفتے میں ایک بار الزمی‬
‫ہے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ کھانے کی اشیاء وہ استعمال کریں جس میں تیل اور گھی کی مقدار کم ہو‪،‬‬
‫تلی ہوئی چیزوں سے اجتناب کریں‪ ،‬اس کے عالوہ سافٹ ڈرنک سے جتنبا بچیں اتنا اچھا‬
‫ہے۔واضح رہے کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ دھوپ کی شدت بڑھتی جارہی ہے‪ ،‬سخت گرم‬
‫موسم دوسرے مسائل کے عالوہ اپنے ساتھ کئی امراض بھی لے کر ٓاتا ہے۔ بیماریوں کے‬
‫عالوہ شدید گرم موسم میں ہیٹ اسٹروک یعنی لُو لگ جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/extreme-heat-wave-health-specialist/‬‬

‫| ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا‬
‫انکشاف‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫مئی ‪ 24 2021‬‬

‫بڑھاپے میں ذہن و یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمینشیا کے بڑھاپے سمیت کئی‬
‫عوامل ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے ٓائی ہے۔‬
‫حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ذہنی صحت اور یاداشت کو متاثر کرنے‬
‫والی بیماری ڈیمنشیا کے الحق ہونے کے خطرات مرد و خواتین میں یکساں ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں علم ہوا کہ مردوں میں یہ بیماری ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر یعنی دونوں‬
‫صورتوں میں الحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن خواتین میں یہ مرض صرف ہائی‬
‫بلڈ پریشر کے باعث ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین نے وسط زندگی میں ہونے والے امراض قلب کے خطرات پر مبنی فیکٹرز اور‬
‫ڈیمنشیا کا دونوں جنس پر تجزیہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے ٓایا کہ مرد و خواتین میں بیماری‬
‫الحق ہونے کے امراض قلب پر مبنی خطرات یکساں تھے۔‬
‫یہ تحقیق جارج انسٹی ٹوٹ کے ماہرین نے ‪ 5‬الکھ سے زائد افراد پر کی۔ تحقیقی ٹیم کی‬
‫سربراہ جسیکا گونگ کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج‬
‫کی تصدیق ہوسکے تاکہ اس کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ کر‬
‫مستقبل میں اس مرض سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/research-on-dementia/‬‬

‫فائزر اور ایسٹرازینیکا ویکسینز کورونا کی بھارتی قسم کے خالف بہت‬


‫زیادہ مؤثر قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪24 2021‬‬

‫| ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫شٹر اسٹاک فوٹو‬


‫فائزر‪/‬بائیو این ٹیک اور ایسٹرازینیکا‪/‬آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کووڈ ویکسینز‬
‫بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے خالف بہت زیادہ مؤثر ہیں۔‬
‫یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔‬
‫پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان دونوں ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں سے‬
‫کورونا کی بھارتی قسم سے ہونے والی عالمات والی بیماری سے لگ بھگ برطانوی قسم‬
‫جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔‬
‫تاہم دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے ‪ 3‬ہفتوں بعد بھارت میں دریافت قسم کے خالف‬
‫محض ‪ 33‬فیصد تحفظ ہی ملتا ہے‪ ،‬جبکہ برطانیہ میں دریافت قسم کے خالف دونوں‬
‫ویکسینز کی ایک خوراک سے ‪ 50‬فیصد تحفظ ملتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ویکسینز ممکنہ طور پر ہسپتال میں داخلے اور اموات کی روک‬
‫تھام کے لیے اس سے بھی زیادہ مؤثر ہوں گی۔‬
‫برطانیہ میں موڈرنا ویکسین کا استعمال بھی اپریل سے ہورہا ہے مگر تحقیق کے مطابق‬
‫بہت کم افراد کو یہ ویکسین دی گئی تو اسے تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کورونا کی دوسری خوراک استعمال کرنے‬
‫کے ‪ 2‬ہفتے بعد کورونا کی بھارتی قسم سے ‪ 88‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ برطانوی‬
‫قسم کے خالف ‪ 93‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اس کے مقابلے میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی کورونا کی بھارتی قسم کے خالف افادیت ‪60‬‬
‫فیصد ہے جبکہ برطانوی قسم سے بچاؤ میں ‪ 66‬فیصد تک مؤثر ہے۔‬

‫| ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ‬
‫ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے‬
‫بعد دی جاتی ہے۔‬
‫ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت کو عروج تک پہنچنے کے‬
‫لیے زیادہ وقت لگتا ہے۔‬
‫تحقیق کے لیے ‪ 12‬ہزار سے زیادہ کیسز کے جینوم سیکونس کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جو‬
‫‪ 5‬اپریل سے ‪ 16‬مئی کے درمیان کیے گئے۔‬

‫تحقیق میں ‪ 5‬اپریل سے ہر عمر کے گروپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا‪ ،‬یعنی اس تاریخ‬
‫سے جب یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی۔‬
‫ان میں سے ‪ 154‬میں کورونا کی بھارتی قسم یعنی بی ‪ 1617‬کو دریافت کیا گیا۔‬
‫یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی چیف ایگزیکٹیو\ ڈاکٹر جینی ہیرس نے کہا کہ یہ حقیقی‬
‫دنیا میں اس نئی قسم کے خالف ویکسین کی افادیت کا پہال ثبوت ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160553/‬‬

‫ہم کورونا کی وبا کے خالف حالت جنگ میں ہیں‪ ،‬انٹونیو گوٹیرش‬
‫اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ دنیا اس وقت کورونا‬
‫وائرس کی عالمی وبا کے خالف حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کو جیتنے کے لیے‬
‫عالمی برادری کو اپنی جدوجہد میں جنگ کی منطق اپنانا ہو گی۔‬

‫‪ ‬‬
‫‪   ‬‬
‫اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش‬
‫عالمی ادارے کے سربراہ نے جنیوا میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساالنہ‬
‫اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیر چوبیس مئی کے روز کہا‪'' ،‬ساری دنیا‪ ،‬ہم سب‪ ،‬کووڈ‬

‫| ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انیس کی عالمگیر وبا کے خالف جنگ کی حالت میں ہیں۔ ہم کورونا وائرس کے خالف‬
‫جنگ کر رہے ہیں اور اس جنگ میں کامیابی کے لیے ہم سب کو اس وائرس کے خالف‬
‫‘‘جنگی منطق سے کام لینا ہو گا۔‬
‫ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے رکن ممالک کے سوئٹزرلینڈ میں شروع ہونے والے ساالنہ‬
‫اجتماع سے اپنے افتتاحی خطاب میں انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ کورونا کی عالمی وبا کے‬
‫خالف کامیابی کے لیے عالمی برادری کو اپنے جملہ 'ہتھیاروں‘ کو اسی طرح استعمال میں‬
‫النا ہو گا‪ ،‬جیسے حالت جنگ میں کیا جاتا ہے۔‬
‫جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر کے بیانات‬
‫ڈبلیو ایچ او کے اسی ساالنہ اجالس کے موقع پر جرمن چانسلر انگیال میرکل اور فرانسیسی‬
‫صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی شرکاء سے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ بیانات کی صورت‬
‫میں خطاب کیا۔ ان دونوں یورپی رہنماؤں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو زیادہ مالی‬
‫وسائل مہیا کیے جانا چاہییں تاکہ وہ ہر طرح کی عالمی وباؤں کو پھیلنے سے روکنے کے‬
‫لیے متاثرہ خطوں اور ممالک کی مدد کرتے ہوئے ابتدا سے ہی مؤثر اقدامات کر سکے۔‬
‫انگیال میرکل اور ایمانوئل ماکروں نے اپنے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ڈبلیو ایچ اور‬
‫کو کسی بھی عالمی وبا کے پھوٹنے کو روکنے کے لیے ہر قسم کے قومی طبی ڈیٹا تک‬
‫رسائی بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے عالوہ میرکل اور ماکروں نے اس تجویز کی بھی‬
‫حمایت کی کہ عالمی ادارہ صحت کی وساطت سے مستقبل میں کسی بھی قسم کی عالمی‬
‫وباؤں کی بروقت روک تھام کے لیے ایک نیا بین االقوامی معاہدہ بھی طے کیا جانا چاہیے۔‬
‫چوہترویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی‬
‫ڈبلیو ایچ او کی رکن ریاستوں کا جو اجالس پیر کے روز شروع ہوا‪ ،‬وہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی‬
‫یا ڈبلیو ایچ اے کہالتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ‪ 74‬واں اجالس ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی‬
‫وبا کے تناظر میں اس سال یہ اجالس خصوصی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ اس میں عالمی‬
‫اعلی ترین رہنما آن الئن شرکت کر رہے ہیں۔‬
‫ٰ‬ ‫ادارہ صحت کے رکن ممالک کے‬
‫ڈبلیو ایچ او کے رکن ممالک کی تعداد ‪ 194‬ہے اور اتنی ہی تعداد میں ممالک امسالہ ڈبلیو‬
‫ایچ اے میں شریک ہیں۔ صحت سے متعلق یہ عالمی اسمبلی یکم جون تک جاری رہے گی۔‬
‫م م ‪ /‬ع ح (روئٹرز‪ \،‬اے ایف پی‬
‫‪‬‬ ‫تاریخ‪24.05.2021 ‬‬

‫‪https://www.dw.com/ur/%DB%81%D9%85-%DA‬‬
‫‪%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%DA%A9%DB‬‬
‫‪%8C-%D9%88%D8%A8%D8%A7-%DA%A9%DB%92-%D8%AE‬‬
‫‪%D9%84%D8%A7%D9%81-%D8%AD%D8%A7%D9%84%D8%AA-‬‬
‫‪%D8%AC%D9%86%DA%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-‬‬

‫| ‪103‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ :19‬کیا پاکستان میں کورونا مریضوں‪ B‬کی جان بچانے والی‬
‫ایمرجنسی ادویات ملنے میں مشکل پیش آ رہی ہے؟‬

‫سارہ عتیق‬ ‫‪‬‬

‫بی بی سی اردو ڈاٹ کام‪ ،‬اسالم آباد‬ ‫‪‬‬

‫‪ ۲۴‬مئی ‪۲۰۲۱‬‬

‫کورونا میں مبتال نمرہ کے والد کو ڈاکٹرز نے خون پتال کرنے والے انجیکشن ’کلیزن‘‬
‫تجویز کیے لیکن چونکہ تجویز کردہ انجیکشن ہسپتال میں دستیاب نہیں تھا اس لیے‬
‫انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں گذشتہ نو دن سے زی ِر عالج اپنے والد کے‬
‫لیے نمرہ کو ان انجیکشنز‪ B‬کا بندوبست بازار سے خود کرنا تھا۔‬
‫’ہم تین بہنیں ہیں۔ میری دو بہنیں ملک سے باہر ہوتی ہیں‪ ،‬اس لیے اپنے ابو کو آئی سی یو‬
‫میں چھوڑ کر ان انجیکشنز کی تالش میں نکلنا میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔‘‬
‫نمرہ بتاتی ہیں اس دن انھیں زندگی میں پہلی دفعہ یہ خیال آیا کہ ’کاش ان کا بھی کوئی‬
‫بھائی ہوتا جو ان انجیکشنز کی تالش میں اُن کی مدد کر دیتا۔‘‬
‫نمرہ نے اسالم آباد اور راولپنڈی کی تمام فارمیسیز چھان ماریں لیکن انھیں یہ انجیکشن‬
‫کہیں سے نہیں مال۔ بآلخر انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور درخواست کی کہ اگر‬

‫| ‪104‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کسی کے پاس یہ انجیکشن ہے یا اس بارے میں کوئی معلومات ہے تو اُن کے ساتھ رابطہ‬
‫کرے۔‬
‫’سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے بعد میرے کچھ دوست یہ انجیکشن حاصل کرنے میں‬
‫کامیاب ہو گئے۔ لیکن جب تک یہ انجیکشن مجھے ملے بہت دیر ہو چکی تھی۔‘‬
‫’ادویات یا تو مل نہیں رہی اور اگر مل رہی ہیں تو بہت مہنگی‘‬
‫نمرہ کے والد نہیں رہے مگر وہ پاکستان کی واحد شہری نہیں ہیں جنھیں ملک میں کورونا‬
‫کی تیسری لہر کے دوران ادویات کے قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‬
‫اس وبا سے متاثر ہونے ہونے والے افراد کے رشتہ دار اور دوست اپنے پیاروں کے لیے‬
‫کورونا کی ادویات ہر طرف ڈھونڈتے نظر آئے۔ کوئی احباب سے درخواست کرتا رہا تو‬
‫کسی نے سوشل میڈیا پر درخواست کی۔‬
‫بالول علی خان کورونا میں مبتال اپنے ایک عزیر کے لیے ’اکٹمرا‘ انجیکشن اسالم آباد‬
‫اور راولپنڈی میں تالش کرتے رہے لیکن انھیں یہ انجیکشن عام کیمسٹ کی دوکان پر میسر‬
‫نہیں ہوئے اور ان کے مطابق جن کے پاس یہ دستیاب تھے وہ اس کی منھ مانگی قیمت‬
‫مانگ رہے تھے۔‬
‫’ایکٹمرا انجیکشن دو سو ایم جی کی قیمت تقریبا ً ‪ 30‬ہزار روپے ہے جبکہ ہمیں یہ ‪ 70‬ہزار‬
‫روپے میں دیا جا رہا تھا۔‘‬
‫بالول کا کہنا ہے کہ کورونا کے ہاتھوں مجبور لوگ ان ادویات کو منھ مانگی قیمت پر‬
‫خریدنے پر مجبور ہیں۔‬
‫پاکستان میں ادویات اور آکسیجن کی قلت کب ہوئی؟‬
‫پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کا آغاز جب رواں برس مارچ کے وسط میں ہوا تو‬
‫کورونا کیسز کی یومیہ تعداد اتنی تیزی سے بڑھی کہ چند دنوں ہی میں ہسپتالوں کے آئی‬
‫سی یو بستر اور وینٹیلیٹرز گنجائش کی حد تک بھر گئے۔‬
‫بڑھتے کیسز کے پیش نظر حکومت نے کورونا سے متعلق پابندیاں بڑھاتے ہوئے حفاظتی‬
‫اقدامات اٹھانے شروع کر دیے لیکن کورونا کے کیسز بڑھتے چلے گئے۔ ‪ 18‬اپریل ‪2021‬‬
‫کو وبا کے آغاز کے بعد سے دوسری مرتبہ ملک میں چھ ہزار سے زائد یومیہ کیسز‬
‫ریکارڈ کیے گئے۔‬
‫دارالحکومت اسالم آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز نے ‪ 23‬اپریل کو اعالن کیا‬
‫کہ ہسپتال میں کورونا مریضوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہوگئی ہے لہذا حکومت آئی‬
‫سی یو بستروں میں فوراً اضافہ کرے۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ کووڈ سے ہونے والی اموات میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور ‪ 28‬اپریل کو‬
‫پاکستان میں وبا کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ ‪ 201‬یومیہ ہالکتیں ریکارڈ کی گئیں۔‬
‫وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے بیان کے مطابق پاکستان اپریل کے آخری ہفتے‬
‫میں ملک میں تیار کردہ آکسیجن کا ‪ 90‬فیصد ہسپتالوں میں استعمال کر رہا تھا۔‬

‫| ‪105‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سماجی کارکن سلمان صوفی نے ملک میں آکسیجن کی کمی کے بائث آکسیجن بینک قائم‬
‫کرنے کا اعالن کیا۔ اس بینک کا مقصد گھر میں زیر عالج کورونا کے مریضوں کو‬
‫حکومت کے طے شدہ قیمت پر آکسیجن سلینڈر فراہم کرنا ہے۔‬
‫سلمان صوفی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں آکسیجن کی قلت ہے‬
‫لیکن یہ قلت اس پیمانے کی نہیں ہے جیسا کہ ہم نے انڈیا میں دیکھی۔ لیکن کورونا کے‬
‫بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر نہ صرف لوگوں نے ضرورت کے بغیر آکسیجن سلینڈر‬
‫خریدنا شروع کر دیے بلکہ اس کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے اس کی قیمت بھی کئی گنا‬
‫اضافہ ہو گیا۔‬
‫’ہم نے کورونا کی دوسری لہر کی دوران بھی لوگوں کو آکسیجن سلینڈرز فراہم کیے لیکن‬
‫تیسری لہر کے دوران ان کی مانگ پچھلی دو لہروں سے کہیں زیادہ تھی۔‘‬
‫وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ تیسری‬
‫لہر کے دوران پاکستان میں چند ادویات جیسا کہ ’اکٹمرا‘ انجیکشن کی مانگ میں اضافہ‬
‫ہونے کی وجہ سے قلت ہوئی لیکن حکومت نے بروقت ہی اس کو درآمد کر کے اس قلت‬
‫پر قابو پا لیا‪ ،‬اس کے عالوہ ملک میں آکسیجن کی کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ‬
‫پاکستان میں آکسیجن پیداوار کا ‪ 90‬فیصد حصہ ہسپتالوں میں استعمال ہو رہا ہے لیکن ملک‬
‫میں اس کی قلت نہیں۔‬
‫’ہم نے دوسری لہر کے دوران نہ صرف ایک ہزار آکسیجن بستروں کا اضافہ کیا بلکہ اپنی‬
‫یومیہ پیداوار بھی بڑھائی۔ اگر ہم اس وقت وہ اقدام نہ کرتے تو اس وقت پاکستان میں بھی‬
‫انڈیا جیسے حاالت ہوتے۔‘‬
‫ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان نے تیسری لہر کے دوران چھ ہزار ٹن آکسیجن اور‬
‫‪ 5000‬سلینڈرز درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ آکسیجن کی پیداوار کے لیے متعبادل زرائع‬
‫بھی تالش کیے جا رہے ہیں جیساکہ کئی سالوں سے بند سٹیل مل کا آکسیجن پالنٹ کو‬
‫دوبارہ فعال کیا گیا۔‬
‫ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران ادویات‪ ،‬صحت کی سہولیات اور آکسیجن‬
‫کی فراہمی حکومت کا فرض ضرور ہے لیکن شہریوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے‬
‫کہ وہ مانگ میں اضافہ کو منافع خوری کا موقع سمجھتے ہوئے ذخیرہ اندوزی نہ کریں‬
‫اور حکومت کے طے شدہ قمتوں پر اس کی فراہمی یقینی بنائیں۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/pakistan-57220576‬‬

‫امریکی شہری میں کورونا وائرس کی ایسی عالمت سامنے آگئی کہ‬
‫کسی کو بھی خوف آجائے‬

‫‪May 22, 2021 | 19:12:PM‬‬

‫| ‪106‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں میں اس‬
‫موذی مرض کے کئی طرح کے طویل مدتی نقصانات بھی دیکھے جا رہے ہیں تاہم گزشتہ‬
‫دنوں امریکہ کے ایک شہری میں اس کا ایک ایسا نقصان دیکھنے میں آیا ہے کہ سن کر‬
‫ہی آدمی وحشت زدہ رہ جائے۔ میل آن الئن کے مطابق اس آدمی کا تعلق ہوسٹن سے ہے‬
‫جس کی کورونا وائرس کے سبب زبان سوج کر بہت بڑی ہو گئی اور منہ سے باہر نکل‬
‫آئی‪ ،‬جس کی وجہ سے اس کے لیے بولنا اور کچھ کھانا پینا ناممکن ہو گیا۔‬
‫رپورٹ کے مطابق اس سیاہ فام شہری کو حالت سنگین ہونے پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا‬
‫جہاں اس کی یہ حالت ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس بیماری کو میکروگلوسیا‬
‫کہا جاتا ہے جس میں انسان کی زبان کا سائز بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ)‪(Macroglossia‬‬
‫عارضہ عام طور پر سٹروک آنے پر الحق ہوتا ہے یا پھر طویل عرصے تک اوندھے منہ‬
‫پڑا رہنے سے بھی الحق ہو سکتا ہے۔اس کنڈیشن پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جیمز‬
‫میلویلے کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے یہ عارضہ زیادہ تر سیاہ فام شہریوں‬
‫میں سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ میں اب تک اس طرح کے ‪9‬کیس سامنے آ چکے ہیں جن میں‬
‫سے ‪8‬سیاہ فام مریض تھے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/22-May-2021/1292252‬‬

‫شیزو فرینیا کیا ہے؟ عالمات‪ ،‬وجوہات اور عالج‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪25 2021‬‬

‫شیزو فرینیا ذہنی امراض کی ایک قسم ہے جس میں مبتال افراد کو الیعنی آوازیں سنائی‬
‫دیتی ہیں اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا سے‬
‫الگ تھلگ ایک تصوراتی دنیا میں محسو س کرتا ہے۔‬
‫شیزو فرینیا غیر معمولی بیماری نہیں ہے‪ ،‬وراثت میں اس بیماری کے پائے جانے سے اس‬
‫مرض میں مبتال ہونے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت یا نوجوانی میں عموما‬
‫‪ 18‬سے‪53‬سال کی عمر کے درمیان شروع ہوتی ہے۔ عورتوں اور مردوں میں اس کا‬
‫تناسب برابر ہے۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں یوگا کے ماہر یوگی نعیم‬
‫نے اس بیماری سے چھٹکارے کیلئے کچھ کار آمد ٹپس بتائیں جن پر عمل کرنے سے‬
‫شیزو فرینیا کے مریضوں کو کافی حد تک افاقہ ہوسکتا ہے۔یوگی نعیم نے بتایا کہ اس‬
‫بیماری سے متاثرہ افراد اپنے آس پاس کے لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں اور تنہائی‬

‫| ‪107‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫پسند ہوتے ہیں‪ ،‬شیزو فرینیا کا لفظی مطلب منقسم دماغ ہے۔ اس بیماری کی وجہ احساس‬
‫کمتری بھی ہے۔انہوں نے بتایا کہ انسان کے دماغ سے جو رگیں جسم تک آتی ہیں ان بیلنس‬
‫کرنے کیلئے ایک بہت اہم مشق ہے جو ضرور کرنی چاہیے‪ ،‬وہ یہ کہ انگلیوں کو ایک‬
‫مخصوص طریقے موڑیں اور پھر ناک پر ایک انگلی رکھ سانس اندر لیں اور پھر ناک کی‬
‫دوسری جانب انگلی رکھ کر سانس باہر نکالیں۔‬
‫یوگی نعیم نے بتایا کہ کوشش کریں کہ ناک سے سانس لے کر پھیپڑوں کی ہوا ناک سے‬
‫ہی نکالی جائے بصورت دیگر اس کے نقصانات یہ ہیں کہ منہ میں چھالے ہوسکتے ہیں‬
‫اور وقت سے پہلے آپ کے دانت گر سکتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/schizophrenia-symptoms-reasons-treatment/‬‬

‫کورونا سے صحتیاب افراد سے متعلق ماہرین کا اہم انکشاف‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪25 2021‬‬

‫کورونا وائرس کی نئی قسم کوویڈ ‪19‬سے متاثر ہوکر صحت یاب ہونے والے افراد کئی‬
‫ماہ تک اس بیماری کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور وائرس کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان‬
‫بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔‬

‫| ‪108‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ ‪ 19‬کی‬
‫معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی‬
‫ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز تیار کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ‬
‫سکتا ہے‪ ،‬جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔‬
‫تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کوویڈ ‪ 19‬سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو‬
‫بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار افراد‬
‫میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے‪ ،‬جس کے بعد یہ کہا‬
‫جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا‪ ،‬بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول‬
‫میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی عالمت کے ‪ 11‬ماہ بعد‬
‫بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا‪ ،‬یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی‬
‫باڈیز بناتے ہیں‪ ،‬جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافعتی خلیات بہت‬
‫تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور‬
‫اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں‪ ،‬بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر‬
‫خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔‬

‫| ‪109‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر‬
‫معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے‬
‫ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔‬
‫اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا‬
‫نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے ‪ 77‬افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوچکے‬
‫تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔‬
‫پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر ‪ ،3‬تین ماہ کے وقفے‬
‫سے ایسا کیا گیا۔ تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت زیادہ نہیں تھی اور‬
‫صرف ‪ 6‬کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔‬
‫محققین نے ‪ 18‬ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے‬
‫یا ابتدائی بیماری کو ‪ 9‬ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ موازنے کے لیے محققین نے ایسے ‪11‬‬
‫افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو کبھی کووڈ ‪ 19‬کا سامنا نہیں ہوا تھا۔‬
‫توقع کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی‬
‫کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی‪ ،‬تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے ‪ 11‬ماہ بعد‬
‫بھی موجود تھیں۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے شکار ‪ 15‬افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود‬
‫تھے‪ ،‬یہ خلیات ‪ 4‬ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں‬
‫موجود تھے۔‬
‫تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت‬
‫نہیں کیا جاسکا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس‬
‫بیماری کے ‪ 2‬سے ‪ 3‬ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے‪ ،‬تو ان میں بیماری کے ‪ 7‬یا ‪ 11‬ماہ بعد‬
‫متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا۔‬
‫یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے‬
‫ہیں‪ ،‬یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت‬
‫تک ایسا کرتے رہتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں عالمات ظاہر نہیں ہوتیں‬
‫ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے‪ ،‬تاہم اس حوالے سے وہ مزید‬
‫تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم‬
‫کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے‬
‫مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں‬
‫وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط مدافعتی‬
‫ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫| ‪110‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین‬
‫شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس‬
‫حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/recovery-from-corona-patients-antibodies/‬‬

‫کورونا کو شکست دینے والے مریضوں کو کن مسائل کا سامنا رہتا ہے؟‬


‫تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 25 2021‬‬

‫امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ‪ 19‬کو‬
‫شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی” دماغی دھند” کے تسلسل کا سامنا ہوسکتا‬
‫ہے۔‬
‫شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں کوویڈ‪19‬کی ان طویل المعیاد عالمات کا جائزہ لیا گیا جن‬
‫کا سامنا کورونا مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ہوتا ہے۔‬
‫ایسے مریضوں کے لیے النگ کوویڈ کی اصطالح بھی استعمال کی جاتی ہے اس حوالے‬
‫سے محققین نے بتایا ہے کہ یہ طویل المعیاد عالمات وائرس سے متاثر ہونے کے ‪ 3‬ماہ بعد‬
‫بھی برقرار رہ سکتی ہیں۔‬

‫| ‪111‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں النگ کوویڈ کے شکار ‪ 278‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے عالمات‬
‫کے بارے میں صحت یابی کے ‪ 2‬ماہ اور پھر ‪ 6‬ماہ بعد پوچھا گیا۔‬
‫ان افراد نے ‪ 6‬ماہ کے بعد دماغی عالمات بدتر ہونے کو رپورٹ کیا‪ ،‬ان کے لیے جملے‬
‫بنانا‪ ،‬توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا اور غائب دماغی کا سامنا ہوا تاہم یہ عالمات شدید‬
‫تھکاوٹ جیسی کوویڈ کی طویل المعیاد عالمات کے مقابلے کم سنگین قرار دی گئیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو نیند کے مسائل‪ ،‬مدافعتی نظام سے‬
‫متعلق مسائل‪ ،‬تکلیف اور ہاضمے کے امراض جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے جو وقت‬
‫کے ساتھ بہتر ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ خاندان‬
‫کے افراد اور ڈاکٹر بدلتی عالمات کو سمجھ نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ‬
‫ایسے کتنے مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے تاہم ان کا تخمینہ ہے کہ کووڈ ‪ 1‬کے ‪10‬‬
‫فیصد مریضوں کو طویل المعیاد عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫مئی ‪ 2021‬کے آغاز میں پری پرنٹ سرور میڈ آرکسیو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ‬
‫النگ کوویڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ‪ ،‬سانس لینے میں مشکالت‪،‬‬
‫سینے میں درد‪ ،‬کھانسی‪ ،‬ذہنی تشویش‪ ،‬ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح یاد داشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا‬
‫ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ‬
‫النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں بلکہ ‪ 65‬سال سے کم عمر‬
‫مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق ‪ 57‬ہزار سے زیادہ کوویڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر‬
‫ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫محققین کے خیال میں کوویڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر‬
‫النگ کوویڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں‬
‫کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔‬
‫واضح رہے کہ یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کوویڈ‪ 19‬کے نتیجے میں زیادہ‬
‫بیمار تو نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-patients-after-recovery-symptoms/‬‬

‫ہرے پتوں والی سبزیاں دل کے لیے انتہائی مفید‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 24  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫| ‪112‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امراض قلب سے محفوظ رکھتی ہیں۔‬


‫ِ‬ ‫سبز پتے والی غذا‬
‫ٓاسٹریلیا‪ :‬ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہری پتیوں والی سبزیوں کا ایک کپ‬
‫روزانہ کھانے سے دل کے امراض کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫ایڈتھ کووان یونیورسٹی میں تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ پالک‪ ،‬سالد اور دیگر پتوں والی‬
‫سبزیاں نائٹریٹ سے بھرپور ہوتی ہیں۔ روزانہ ان سبزیوں کا ایک کپ ضرور کھانا چاہیے‬
‫کیونکہ اس سے دل کو تقویت ملتی ہے‪ ،‬بلڈ پریشر قابو میں رہتا ہے اور خون میں شکر کی‬
‫مقدار بھی اپنی حد میں رہ سکتی ہے۔‬
‫اس سے قبل ہم نائٹریٹ سے بھرپور چقندر کے خواص بیان کرچکے ہیں۔ نائٹریٹ کی بنا‬
‫پر چقندر کا رس بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتا ہے اور دل کے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے۔‬
‫اسی بنا پر ہری سبزیاں بھی کسی سے کم نہیں ۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ سبزپتوں والی‬
‫غذاؤں کی سالد دن میں ایک مرتبہ ضرور کھانی چاہیے۔‬
‫اس ضمن میں ڈنمارک سے ‪ 50‬ہزار افراد کا‪  ‬غذائی ڈیٹا جمع کیا گیا اور اسے ‪ 23‬سال‬
‫تک نوٹ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جو افراد بہت شوق سے سبزیاں کھا رہے تھے ان میں ڈھائی‬
‫امراض قلب کا خطرہ ‪ 12‬سے ‪ 25‬فیصد تک کم دیکھا‬ ‫ِ‬ ‫یونٹ ؑبلڈ پریشر کم دیکھا گیا یعنی‬
‫گیا تھا۔‬
‫سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ روزانہ ایک کپ کچی یا نصف کپ پکی ہوئی سبزیاں کھانے‬
‫امراض قلب کے خطرات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دل کی‬ ‫ِ‬ ‫سے‬

‫| ‪113‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شریانوں کے مرض میں ‪ 26‬فیصد کمی ہوسکتی ہے۔ سبزیاں کھانے سے ہارٹ فیل اور‬
‫فالج سے بچاؤ میں بھی مدد ملتی ہے۔‬
‫اچھی بات یہ ہے کہ ان سبزیوں کی اسموتھی یا جوس بھی یکساں طور پر فائدہ مند ہوسکتا‬
‫ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2181446/9812/‬‬

‫بھارت میں کالی کے بعد’’سفید اورزرد پھپھوندی‘‘کی وبا سراٹھانے‬


‫لگی‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 24  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫فنگس (سیاہ یا سفید) سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ کھانے میں شکر کا استعمال کم‬
‫)‪.‬سے کم کرنا ہے‬
‫ممبئی‪ :‬بھارت میں کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کوکالی کے بعد ’سفید‪ ‬‬
‫‪ ‬اور زرد پھپھوندی‘ نے اپنا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔‬
‫کورونا نے پوری دنیا میں تباہی کی نئی داستانیں رقم کی لیکن کورونا سے ہونے والی جس‬
‫تباہی کا سامنا بھارت کر رہا ہے‪ ،‬اس کی نظیر نہیں ملتی‪ ،‬بھارت میں اس وائرس نےاپنی‬
‫ہیئت تبدیلی کی جسے کووڈ‪’ 19-‬انڈین ویریئنٹ‘ کا نام دیا گیا‪ ،‬پھر شاد و نادر پائی جانے‬
‫| ‪114‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫والی بیماری ’ کالی پھپھوندی‘ بھارتیوں خصوصا کوروناسے صحت یاب ہونے والے‬
‫مریضوں کو ٓانکھوں سے محروم کر رہی ہے‪ ،‬لیکن تباہی کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں‬
‫لے رہا ہے۔‬
‫بھارتی ریاست ناگ پورمیں فنگس( پھپھوندی) کی نئی اقسام’ سفید اور زرد‪ ‬پھپھوندی‘ نے‬
‫کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کو اپنے شکنجے میں کسنا شروع کردیا ہے۔‬
‫سیفد پھپھوندی کالی پھپھوندی کی نسبت زیادہ ہالکت خیز ہے کیوں کہ یہ جسم کے دوسرے‬
‫حصوں کی نسبت پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔‪  ‬یہ پھپھوندی پھیپھڑوں کے عالوہ‬
‫اعضائے رئیسہ‪ ،‬دماغ‪ ،‬گردوں‪ٓ ،‬انتوں‪ ،‬معدے اور ٓانتوں کو بھی ناقابل تالفی نقصان‪  ‬پہنچا‬
‫سکتی ہے۔‬
‫سفید پھپھوندی کی عالمات‪  ‬کورونا کی عالمات سے ملتی جلتی ہیں‪ ،‬مریض پھپھڑے‬
‫متاثرہونے کی وجہ سے‪  ‬سینے میں درد‪ ،‬کھانسی اور سانس لینے میں مشکالت کا سامناکر‬
‫سکتا ہے جب کہ کچھ مریضوں میں سفید پھپھوندی سر درد‪ ،‬انفیکشن اور سوجن کا سبب‬
‫بھی بنتی ہے۔‬
‫جب کہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع غازی ٓاباد میں ’ زرد پھپھوندی ‘ کے کیسز‬
‫بھی سامنے ٓانے شروع ہوگئے ہیں ‪ ،‬جو کہ کالی اور سفید پھپھوندی سے زیادہ خطرناک‬
‫تصور کی جاتی ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ’زرد پھپھوندی‘ انسانی جسم کے اندرونی اعضا کو اپنا نشانہ بناتی‬
‫ہے‪ ،‬اس کی عالمات میں زخموں کا دیر سے بھرنا‪ ،‬پیپ کا بہنا‪  ‬اور نسیجوں کا گل جانا‬
‫شامل ہے۔‬
‫بھارتی میڈیا کے مطابق اگرچہ ابھی تک‪’  ‬زرد اور سفید پھپھوندی ‘ کے کیسز بہت کم‬
‫ہیں‪ ،‬تاہم حقیقی اعداد و شماراس سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اگر اس بیماری کا فوری تدارک‬
‫نہیں کیا گیا تو ٓاگے چل کر یہ بھی ایک وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔‬
‫اس بارے میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ فنگس (کالی‪ ،‬زرد‪ ‬یا سفید) سے بچنے کا سب‬
‫سے بہتر طریقہ کھانے میں شکر کا استعمال کم سے کم کرنا ہے ۔ کیوں کہ پھپھوندی کی‬
‫یہ دونوں اقسام کم زور قوت مدافعت رکھنے والے افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور‬
‫ذیابیطیس کے مریض قوت مدافعت کم زور ہونے کی وجہ سے اس کا ٓاسان شکار ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫یاد رہے کہ اسی نوع کی پھپھوندی‪ ‬میوکور مائیسیٹس‪ ( ‬کالی پھپھوندی) نے وسطی بھارت‬
‫میں تباہی مچائی ہوئی ہے‪ ،‬اور اب کورونا سے جنگ جیتنے والے مریضوں میں سفید‬
‫پھپھوندی نے ماہرین صحت کو تشویش میں مبتال کردیا ہے۔‬
‫اس بارے میں ممتاز بھارتی اینڈو کرائنولوجسٹ ہیمانشو پاٹل‪  ‬کی کہنا ہے کہ‪ ‬اس تعدیہ‬
‫(انفیکشن) میں ’’میوکور\ مائیسیٹس‘‘\ قسم سے تعلق رکھنے والی پھپھوندیاں انسانی دماغ‪،‬‬
‫پھیپھڑوں یا پھر ناک‪ /‬حلق میں جڑیں بنا لیتی ہیں اور بڑھنا شروع کردیتی ہی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2181679/9812/‬‬

‫| ‪115‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫روشنی اور جینیاتی تبدیلی سے نابینا شخص کی بصارت جزوی بحال‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 25  ‬مئ‪2021  ‬‬

‫دنیا میں مکمل طور پر نابینا شخص کو ٓاپٹوجینیٹکس کے ذریعے جزوی طور پر دیکھنے‬
‫بائیلوجکس‬
‫ِ‬ ‫کے قابل بنایا گیا ہے۔ فوٹو‪ :‬جین سائٹ‬
‫پیرس‪ :‬طویل عرصے سے نابینا شخص کو جینیاتی تبدیلی اور بصریات (ٓاپٹکس) کی مدد‬
‫سے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ جزوی طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اس پورے عمل کو‬
‫ٓاپٹوجینیٹکس کا نام دیا گیا ہے جس میں بصارت کے ذمے دار خلیات کو جینیاتی طور پر‬
‫تبدیل کیا جاتا ہے۔‬
‫فرانسیسی کمپنی ’جین سائٹ بائیلو ِجکس‘ نے اپنے ابتدائی نتائج سائنسی جریدے نیچر میں‬
‫شائع کرائے ہیں۔ اس میں دنیا کے پہلے شخص کی تفصیل بتائی گئی ہے جوٓاپٹوجینیٹکس\‬
‫کے عالج سے گزرا ہے اور مکمل طور پر نابینا شخص تجربہ گاہ میں کئی ٓاالت دیکھ‬
‫کران کی شناخت کرسکتا ہے۔ ’ہم انسانی ٓاپٹوجینیٹکس\ پر اپنی پہلی تحقیق پیش کرنے پر‬
‫بہت خوش ہیں‪ ‘،‬منصوبے میں شریک ایڈ بوئڈن نے بتایا جو میساچیوسیٹس ٰ‬
‫انسٹی ٹیوٹ ٓاف‬
‫ٹیکنالوجی سے وابستہ ہیں۔‬

‫| ‪116‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگرچہ ٓاپٹوجینیٹکس تجربہ گاہ میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے کیونکہ اس کی بدولت دماغی‬
‫خلیات کو کچھ اس طرح بدال جاتا ہے کہ وہ روشنی کے ر ِد عمل میں سگنل خارج کرتے‬
‫ہیں۔ جانوروں پر کی گئی تحقیق سے اس کے کئی فوائد اور دریافتیں سامنے ٓائی ہیں۔ لیکن‬
‫انسانون پر اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دماغ کے‬
‫اعلی فائبر ٓاپٹکس\ ٹیکنالوجی اور پیچیدہ جراحی‬
‫ٰ‬ ‫اندر مخصوص روشنی پہنچانے کے لیے‬
‫کی ضرورت پیش ٓاتی ہے۔‬
‫ٓانکھ کے کئی عارضوں کا عالج ٓاپٹوجینیٹکس سے کیا جاسکتا ہے اور ایسی ہی ایک‬
‫بیماری ’ریٹی نائٹس پگمینٹوسا‘ ہے۔ یہ ایک موروثی کیفیت ہے جس میں ریٹینا متاثر ہوتا‬
‫ہے اور روشنی محسوس کرنے والے خلیات ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب جین سائٹ کے‬
‫طریقہ عالج میں ٓانکھ میں روشنی محسوس کرنے والی پرت کے نیچے اعصابی خلیات‬
‫میں الجی میں پایا جانے واال ایک جین بھی داخل کیا گیا۔ اس کی خاصیت ہے کہ جب اس‬
‫پر نارنجی رنگ کی روشنی ڈالی جاتی ہے تو بصری خلیات سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس کے‬
‫لیے مریض کو ایک خاص قسم کی عینک پہنائی گئی جس میں کیمرے اور پروسیسر لگے‬
‫تھے اور وہ عام روشنی کو نارنجی بنارہے تھے۔‬
‫دنیا میں سے سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو ‪ 58‬سالہ فرانسیسی پر ٓازمایا گیا ہے ۔ اب وہ‬
‫زیبرا کراسنگ دیکھ سکتا ہے۔ فون اور فرنیچر وغیرہ میں تمیز کرسکتا ہے اور تجربہ گاہ‬
‫میں کئی اشیا کو‪  ‬شمار کرسکتا ہے۔ لیکن توقع ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی بصارت‬
‫مزید بہتر ہوتی جائے گی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2181854/9812/‬‬

‫کتے ایک سیکنڈ میں کووڈ ‪ 19‬کے مریض کی شناخت کرسکتے ہیں‪،‬‬
‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪24 2021‬‬
‫پی سی آر سے زیادہ تیز اور ریپڈ ٹیسٹوں سے زیادہ مستند‪ ،‬کورونا وائرس کے خالف نیا‬
‫ہتھیار کتوں کی شکل میں سامنے آگیا۔‬
‫یقین کرنا مشکل ہوگا مگر کورونا وائرس سے متاثر افراد میں ایک مخصوص بو پیدا‬
‫اعلی تربیت یافتہ کتے درست حد تک شناخت کرسکتے ہیں۔‬‫ٰ‬ ‫ہوجاتی ہے جو‬
‫ٰ‬
‫دعوی برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا جس کے مطابق تربیت‬ ‫یہ‬
‫یافتہ کتے کووڈ ‪ 19‬کے ‪ 90‬فیصد کیسز کی شناخت کرسکتے ہیں چاہے مریض میں‬
‫عالمات نہ بھی ہوں۔‬

‫| ‪117‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیک میڈیسین کے ماہرین کی یہ تحقیق پری پرنٹ سرور‬
‫پر جاری کی گئی۔‬
‫نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے جن کے مطابق کتے وائرس کو سونگھ سکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق مین ماہرین نے کووڈ ‪ 19‬کے ‪ 200‬مریضوں کی جرابوں کو کتوں کو سونگھنے‬
‫کا ٹاسک دیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ کونسے کتے کووڈ ‪ 19‬کی شناخت کرسکتے ہیں اور‬
‫کون سے نہیں۔‬
‫کتوں کی حس شامہ میں ‪ 22‬کروڑ ریسیپٹرز ہوتے ہیں (انسانوں میں محض ‪ 50‬الکھ‬
‫ریسیپٹرز ہوتے ہیں) اور وہ کسی بو کو انسانوں کے مقابلے میں ایک الکھ گنا زیادہ درست‬
‫شناخت کرسکتے ہیں۔‬
‫کتوں کی ناک ‪ 3‬اولمپک سائز سوئمنگ پولز میں موجود کسی مواد کے ایک قطرے کی بو‬
‫بھی سونگھ سکتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل کتے کامیابی سے متعدد اقسام کے کینسر‪ ،‬ملیریا اور دیگر امراض کو سونگھ‬
‫کے ہیں۔‬
‫محققین کا ماننا ہے کہ کتے مختلف حاالت میں کووڈ کیس کی شناخت میں اہم کردار ادا‬
‫کرسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ کتے دیگر ٹیسٹوں کے مقابلے میں یہ کام برق رفتاری‬
‫سے کرسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کہنا ہے کہ کتوں کو ابتدائی اسکریننگ کا ذریعہ بنانا چاہیے‬
‫اور پھر مشتبہ مریضوں کے پی سی آر ٹیسٹ ہونے چاہیے۔‬

‫| ‪118‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں ‪ 6‬کتوں کو شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے متاثرہ مریضوں کی جرابوں سے‬
‫‪ 94.3‬فیصد حد تک درست شناخت کی‪ ،‬یعنی ہر ‪ 100‬میں سے ‪ 94‬مریض کی شناخت‬
‫کرسکتے ہیں۔‬
‫اس کے مققابلے میں ریپڈ ٹیسٹوں کی شرح ‪ 58‬سے ‪ 77‬فیصد جبکہ پی سی آر ٹیسٹوں کی‬
‫‪ 97.2‬فیصد ہے۔‬
‫تاہم کتے رفتار میں پی سی آر ٹیسٹوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ بیماری کی‬
‫تشخیص ایک سیکنڈ میں کرلیتے ہیں۔‬
‫محققین کے مطابق کتے ان افراد میں بھی بیماری کو پکڑ لیتے ہیں جن میں عالمات ظاہر‬
‫نہیں ہووتیں یا وائرل لوڈ بہت کم ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص کے لیے کتوں کو ‪ 8‬سے ‪ 10‬ہفتوں کی تربیت کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160608/‬‬

‫کیا گرمیوں میں انڈے کھانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟‬


‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪24 2021‬‬

‫انڈے پروٹین کے حصول کا سب سے آسان‪ ،‬سستا اور پرتنوع ذریعہ ہے‪ ،‬مگر اس سے ہٹ‬
‫کر بھی یہ بہت کچھ ایسا جسم کو فراہم کرتے ہیں جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔‬
‫درحقیقت یہ ان چند غذاؤں میں سے ایک ہیں جن کو سپرفوڈ قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫یہ امینو ایسڈز‪ ،‬اینٹی آکسائیڈنٹس اور آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس کی زردی جسم‬
‫میں چربی کے خالف مزاحمت کرنے والے جز کولین کو بڑھاتی ہے جس سے موٹاپے کا‬
‫خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫مگر کچھ لوگوں کے خیال میں گرم موسم میں انڈے کھانا فائدے کی بجائے نقصان کا باعث‬
‫بن سکتا ہے۔‬
‫ایسا مانا جاتا ہے کہ انڈوں کی تاثیر گرم ہوتی ہے اور اس سے کیل مہاسے‪ ،‬معدے کے‬
‫امراض یا دیگر مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خیال کے پیچھے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں بلکہ‬
‫یہ ایک وہم ہے کہ گرم موسم میں انڈوں سے دور رہنا چاہیے۔‬

‫| ‪119‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کچھ غذاؤں کی تاثیر ٹھنڈی اور کچھ کی گرم ہوتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں‬
‫مخصوص غذاؤں کو مخصوص موسم میں ہی کھائیں۔‬
‫بس غذا کو اعتدال میں رہ کر کھانا ہی اہمیت رکھتا ہے۔‬
‫انڈوں کی تاثیر گرم ہوسکتی ہے مگر گرمیوں میں ان سے دوری سے جسم کو ضروری‬
‫اجزا سے محرومی کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫بس یہ کوشش کرنی چاہیے کہ گرم موسم میں ‪ 2‬انڈوں سے زیادہ مت کھائیں۔‬
‫انڈوں سے جسم کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔‬
‫بہت زیادہ پرغذایئت‬
‫انڈے ہماری زمین پر سب سے زیادہ غذائی اجزا والی غذاؤں میں سے ایک ہیں۔‬
‫ایک انڈے سے جسم کو وٹامن اے کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 6‬فیصد حصہ‪ ،‬فولیٹ کی‬
‫روزانہ درکار مقدار کا ‪ 5‬فیصد حصہ‪ ،‬وٹامن بی ‪ 5‬کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 7‬فیصد‬
‫حصہ‪ ،‬وٹامن بی ‪ 12‬کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 12‬فیصد حصہ‪ ،‬وٹامن بی ‪ 2‬کی روزانہ‬
‫درکار مقدار کا ‪ 15‬فیصد حصہ‪ ،‬فاسفورس کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 9‬فیصد حصہ اور‬
‫سلینیم کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 22‬فیصد حصہ ملتا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ انڈوں میں مناسب مقدار میں وٹامن ڈی‪ ،‬وٹامن ای‪ ،‬وٹامن کے‪ ،‬وٹامن بی ‪،6‬‬
‫کیلشیئم اور زنک بھی موجود ہوتے ہیں۔‬
‫ایک انڈے میں ‪ 77‬کیلوریز‪ 6 ،‬گرام پروٹین اور ‪ 5‬گرام صحت بخش چکنائی ہوتی ہے‬
‫جبکہ دیگر متعدد غذائی اجزا کی بھی کچھ مقدار اس میں موجود ہوتی ہے۔‬

‫| ‪120‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫درحقیقت انڈوں کو لگ بھگ مثالی غذا قرار دیا جاسکتا ہے جس میں لگ بھگ ہر وہ‬
‫غذائی جز موجود ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫کولیسٹرول سے بھرپور مگر بلڈ کولیسٹرول کے لیے نقصان دہ نہیں‬
‫یہ درست ہے کہ انڈوں میں غذائی کولیسٹرول کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬یعنی ایک‬
‫انڈے میں ‪ 212‬ملی گرام‪ ،‬جبکہ روزانہ غذا کے ذریعے ‪ 300‬ملی گرام کولیسٹرول کو‬
‫جزوبدن بنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔‬
‫مگر اہم بات یہ ہے کہ غذا میں موجود کولیسٹرول ضروری نہیں کہ خون میں کولیسٹرول‬
‫کی سطح میں اضافہ کرے۔‬
‫جسم کے اندر جگر روزانہ بڑی مقدار میں کولیسٹرول تیار کرتا ہے اور جب غذائی‬
‫کولیسٹرول کا استعمال زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬تو جگر کولیسٹرول بنانے کی شرح کم کردیتا ہے۔‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق ‪ 70‬فیصد افراد میں انڈوں کے استعمال سے کولیسٹرول کی‬
‫سطح میں بالکل بھی اضافہ نہیں ہوتا‪ ،‬جبکہ دیگر ‪ 30‬فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں‬
‫اس کی شرح میں معمولی اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫تاہم جینیاتی امراض کے شکار افراد کو انڈوں کا استعمال معالج کے مشورے سے کرنا‬
‫چاہیے۔‬
‫فائدہ مند کولیسٹرول کی سطح بڑھائے‬
‫ایچ ڈی ایل نامی کولیسٹرول کو صحت کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔‬
‫جن لوگوں میں ایچ ڈی ایل کی سطح زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ان میں عموما ً امراض قلب‪ ،‬فالج اور‬
‫دیگر طبی مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫انڈے ایچ ڈی ایل کی سطح میں اضافے کے لیے بہترین ہیں‪ ،‬ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا‬
‫کہ ‪ 6‬ہفتوں تک روزانہ ‪ 2‬انڈے کھانے سے ایچ ڈی ایل کی سطح میں ‪ 10‬فیصد اضافہ‬
‫ہوجاتا ہے۔‬
‫جسم کے لیے انتہائی اہم کولین سے بھرپور‬
‫کولیس ایسا غذائی جز ہے جس کا بیشتر افراد کو علم بھی نہیں‪ ،‬حاالنکہ وہ انتہائی اہم‬
‫مرکب ہوتا ہے اور اکثر بی وٹامنز سے جڑا ہوتا ہے۔‬
‫کولیس خلیات کی جھلیوں کو بنانے کا کام کرتا ہے اور دماغ میں سگنل دینے والے‬
‫مالیکیول بنانے کے ساتھ متعدد دیگر افعال میں کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫انڈے اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں اور ایک انڈے میں سو ملی گرام سے زیادہ‬
‫مقدار میں یہ غذائی جز موجود ہوتا ہے۔‬
‫امراض قلب کا خطرہ کم کرے‬
‫نقصان دہ یا ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جسم میں ایل ڈی ایل کی سطح میں اضافے اور امراض قلب کے‬
‫خطرے میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے۔ایل ڈی ایل چھوٹے اور بڑے ذرات میں‬
‫تقسیم ہوتا ہے اور تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد میں اس کولیسٹرول کے‬
‫چھوٹے ذرات کی سطح ہوتا ہے‪ ،‬انن میں امراض قلب کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫| ‪121‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انڈوں کے استعمال سے کچھ افراد میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوسکتا‬
‫ہے مگر تحقیقی رپورٹس کے مطابق یہ عموما ً بڑے ذرات کی شکل میں ہوتا ہے‪ ،‬جو کہ‬
‫بہتر ہی سمجھا جاسکتا ہے۔‬
‫آنکھوں کی صحت کے لیے مفید‬
‫عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی کمزور ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫متعدد ایسے غذائی اجزا موجود ہیں جو عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی میں آنے والی‬
‫کمزوری کے خالف جدوجہد کرتے ہیں۔‬
‫ہیں جو بہت طاقتور اینٹی آکسائیڈنٹس ہوتے ہیں‪ zeaxanthin ،‬ان میں سے ‪ 2‬لیوٹین اور‬
‫جو آنکھوں کے قرینے میں جمع ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان غذائی اجزا کی مناسب مقدار کو جزوبدن بنانا موتیے اور‬
‫عمر کے ساتھ آنے والی تنزلی کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔‬
‫ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ساڑھے ‪ 4‬ہفتے تک روزانہ انڈے کی ایک زردی کھانے‬
‫کی سطح میں ‪ zeaxanthin‬سے خون میں لیوٹین کی شرح میں ‪ 28‬سے ‪ 50‬فیصد اور‬
‫‪ 114‬سے ‪ 142‬فیصد تک اضافہ ہوا۔‬
‫انڈوں میں وٹامن اے کی مقدار بھی کافی زیادہ ہوتی ہے جس کی کمی دنیا بھر میں بینائی‬
‫سے محرومی کی سب سے عام وجہ سمجھی جاتی ہے۔‬
‫معیاری پروٹین سے بھرپور‬
‫پروٹین انسانی جسم کے لیے انتہائی اہم جز ہے جو ہر طرح کے ٹشوز اور مالیکیولز بنانے‬
‫میں مدد دیتا ہے جو ساخت اور افعال کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔‬
‫غذا سے مناسب مقدار میں پروٹین کا حصول بہت اہم ہوتا ہے اور انڈے اس کے حصول کا‬
‫بہترین ذریعہ ہیں۔‬
‫ایک انڈے میں ‪ 6‬گرام پروٹین ہوتا ہے جبکہ اس غذا میں تمام ضروری امینوایسڈز بھی‬
‫درست مقدار میں ہوتے ہیں جو جسم کو پروٹین کے مکمل استعمال کے قابل بناتے ہیں۔‬
‫پروٹین کی مناسب مقدار کو جزوبدن بنانا جسمانی وزن میں کمی‪ ،‬مسلز کو بڑھانے‪ ،‬بلڈ‬
‫پریشر کو کم کرنے اور ہڈیوں کی صحت کو بہتر کرنے میں مدد دیتا ہے اور یہ تو محض‬
‫چند فوائد ہیں‪ ،‬اس سے ہٹ کر بھی جسم کو بہت کچھ ملتا ہے۔‬
‫فالج سے ممکنہ تحفظ‬
‫انڈوں میں کولیسٹرول کی زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے انہیں اکثر دل کے لیے نقصان دہ‬
‫سمجھا جاتا ہے۔‬
‫مگر حالیہ برسوں میں متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت کیا گیا ہے کہ انڈوں کو کھانے اور‬
‫امراض قلب یا فالج کے درمیان کوئی تعلق موجود نہیں۔‬
‫تاہم کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ذیابیطس کے مریض افرا میں انڈوں کے‬
‫استعمال سے امراض قلب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‬
‫انڈے خطرہ بڑھاتے ہیں یا نہیں‪ ،‬یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں مگر اب تک کسی‬
‫قسم کا نقصان واضح نہیں ہوسکا۔‬
‫| ‪122‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم کم کاربوہائیڈریٹس والی غذا جیسے انڈے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہترین‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬کیونکہ اس سے امراض قلب اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھانے والے‬
‫عناصر کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔‬
‫پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرے رکھنے میں مددگار‬
‫انڈے کھانے کی اشتہا پوری کرنے کے لیے بہترین ہیں‪ ،‬زیادہ پروٹین کی وجہ سے انہیں‬
‫کھانے کے بعد بے وقت کچھ کھانے کی اشتہا نہیں ہوتی۔‬
‫درحقیقت انڈوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیٹ بھرنے کے احساس کو دیر تک‬
‫برقرار رکھتے ہیں اور دن بھر میں کم کیلوریز کے استعمال میں مدد دیتے ہیں۔‬
‫موٹاپے کی شکار ‪ 30‬خواتین پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتے میں‬
‫انڈے کھانا پیٹ بھرے رکھنے کا احساس دیر تک برقرار رکھتا ہے جس کے نتیجے میں‬
‫اگلے ‪ 36‬گھنٹے میں خودکار طور پر کم کیلوریز جسم کا حصہ بنتی ہیں۔‬
‫ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتے میں انڈوں کے استعمال سے ‪ 8‬ہفتوں کے‬
‫دوران لوگوں میں جسمانی وزن میں نمایاں کمی آتی ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160615/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے معمولی بیمار افراد کو دیرپا تحفظ ملنے کا امکان‬


‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪24 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے جسم میں صحتیابی کے کئی ماہ‬
‫بعد بھی ایسے مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز‬
‫تیار کرتے ہیں۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬

‫واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مدافعتی خلیات کا‬
‫تسلسل ممکنہ طور پر زندگی بھر برقرار رہ سکتا ہے‪ ،‬جو اینٹی باڈی بناتے رہیں گے۔‬
‫تحقیق میں یہ خوش کن عندیہ دیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے معمولی بیمار رہنے والے افراد کو‬
‫بھی دیرپا تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور بیماری کا دوبارہ امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا‬
‫ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایسی رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ سے بیمار‬
‫افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوجاتی ہے‪ ،‬جس کے بعد یہ‬
‫کہا جانے لگا کہ لوگوں کو حاصل مدافعت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہتی۔‬

‫| ‪123‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سے اخذ کیا گیا غلط تصور تھا‪ ،‬بیماری کے بعد اینٹی باڈیز لیول‬
‫میں کمی آنا عام ہوتا ہے مگر وہ سطح صفر تک نہیں پہنچتی۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پہلی عالمت کے ‪ 11‬ماہ بعد‬
‫بھی اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو دریافت کیا‪ ،‬یہ خلیات زندگی بھر موجود رہ کر اینٹی‬
‫باڈیز بناتے ہیں‪ ،‬جس سے طویل المعیاد مدافعت کا ٹھوس ثبوت ملتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی وائرل انفیکشن میں اینٹی باڈیز بنانے والے مدافتی خلیات بہت‬
‫تیزی سے اپنی تعداد بڑھا کر خون میں پھیل جاتے ہیں اور اینٹی باڈی کی سطح بہت زیادہ‬
‫بڑھا دیتے ہیں‪ ،‬بیماری ختم ہونے پر ان میں سے اکثر خلیات مرجاتے ہیں اور خون میں‬
‫اینٹی باڈی کی سطح گھٹ جاتی ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ان خلیات کی کچھ مقدار بون میرو میں منتقل ہوجاتی ہے اور وہاں رہ کر‬
‫معمولی مقدار میں اینٹی باڈیز کو دوران خون میں خارج کرتی رہتی ہے تاکہ وائرس کے‬
‫ایک اور حملے سے جسم کو تحفظ مل سکے۔‬
‫اس تحقیق میں یہی دیکھا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬سے طویل المعیاد اینٹی باڈی تحفظ ملتا ہے یا‬
‫نہیں اور معمولی حد تک بیمار افراد کو کتنے عرصے تک وائرس سے تحفظ ملتا ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے ‪ 77‬افراد کی خدمات حاصل کی گئیں جو کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوچکے‬
‫تھے جن کے خون کے نمونے کئی بار حاصل کیے گئے۔‬

‫پہلی بار یہ نمونے ابتدائی بیماری کے ایک ماہ بعد لیے گئے اور پھر ‪ ،3‬تین ماہ کے وقفے‬
‫سے ایسا کیا گیا۔‬

‫| ‪124‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں شامل بیشتر افراد میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت زیادہ نہیں تھی اور صرف ‪ 6‬کو‬
‫ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔‬
‫محققین نے ‪ 18‬ایسے افراد کے بون میرو کے نمونے لیے جو یا تو زیادہ بیمار ہوئے تھے‬
‫یا ابتدائی بیماری کو ‪ 9‬ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔‬
‫موازنے کے لیے محققین نے ایسے ‪ 11‬افراد کے بون میرو کو بھی حاصل کیا جن کو‬
‫کبھی کووڈ ‪ 19‬کا سامنا نہیں ہوا تھا۔‬
‫توقع کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کا سامنا کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح صحتیابی‬
‫کے چند ماہ بعد بہت تیزی سے گھٹ گئی تھی‪ ،‬تاہم کچھ اینٹی باڈیز بیماری کے ‪ 11‬ماہ بعد‬
‫بھی موجود تھیں۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے شکار ‪ 15‬افراد کے بون میرو میں اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات موجود‬
‫تھے‪ ،‬یہ خلیات ‪ 4‬ماہ بعد بھی دوبارہ بون میرو کا نمونہ دینے والے افراد کے جسم میں‬
‫موجود تھے۔‬
‫تاہم کووڈ سے محفوظ رہنے والے کسی بھی فرد کے بون میرو میں ان خلیات کو دریافت‬
‫نہیں کیا جاسکا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬سے معمولی بیمار ہونے والے افراد جسموں سے وائرس‬
‫بیماری کے ‪ 2‬سے ‪ 3‬ہفتے بعد کلیئر ہوجاتا ہے‪ ،‬تو ان میں بیماری کے ‪ 7‬یا ‪ 11‬ماہ بعد‬
‫متحرک مدافعتی ردعمل موجود نہیں ہوتا‪ ،‬یہ خلیات تقسیم نہیں ہوتے بلکہ بون میرو میں‬
‫موجود رہتے ہیں اور اینٹی باڈیز بناتے رہتے ہیں‪ ،‬یہ کام وہ صحتیابی کے بعد سے کررہے‬
‫ہوتے ہیں اور ممکنہ طور پر غیرمعینہ مدت تک ایسا کرتے رہتےہ یں۔‬

‫تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریض جن میں عالمات ظاہر نہیں ہوتیں‬
‫ان کو بھی ممکنہ طور پر طویل المعیاد تحفظ حاصل ہوتا ہے‪ ،‬تاہم اس حوالے سے وہ مزید‬
‫تحقیق کے بعد یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں گے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس بیماری کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں ورم اہم‬
‫کردار ادا کرتا ہے اور بہت زیادہ ورم مدافعتی ردعمل میں خامیوں کا باعث بن سکتا ہے‪،‬‬
‫مگر دوسری جانب اکثر افراد اس لیے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جسم میں‬
‫وائرس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬اور بہت زیادہ وائرس کی موجودگی مضبوط‬
‫مدافعتی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی سب کچھ واضح نہیں تو ہمیں معتدل سے سنگین‬
‫شدت کا سامنا کرنے والے افراد پر تحقیق کی ضرورت ہے‪ ،‬تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس‬
‫حد تک ری انفیکشن سے تحفظ ملتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160623/‬‬

‫| ‪125‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ کے ‪ 10‬فیصد مریضوں کو صحتیابی کے بعد طویل المعیاد عالمات‬
‫کا خطرہ‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪24 2021‬‬

‫کووڈ کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی 'دماغی دھند' کے تسلسل کا سامنا‬
‫ہوسکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں کووڈ کے طویل المعیاد عالمات کا جائزہ لیا گیا جن کا‬
‫سامنا مریضوں کو صحتیابی کے کئی ماہ بعد بھی ہوتا ہے۔‬
‫ایسے مریضوں کے لیے النگ کووڈ کی اصطالح بھی استعمال کی جاتی ہے اور محققین‬
‫نے بتایا کہ یہ طویل المعیاد عالمات وائرس سے متاثر ہونے کے ‪ 3‬ماہ بعد بھی برقرار‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں النگ کووڈ کے شکار ‪ 278‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے عالمات‬
‫کے بارے میں صحتیابی کے ‪ 2‬ماہ اور پھر ‪ 6‬ماہ بعد پوچھا گیا۔‬
‫ان افراد نے ‪ 6‬ماہ کے بعد دماغی عالمات بدتر ہونے کو رپورٹ کیا‪ ،‬ان کے لیے جملے‬
‫بنانا‪ ،‬توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگیا اور غائب دماغی کا سامنا ہوا۔‬
‫تاہم یہ عالمات شدید تھکاوٹ جیسی کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کے مقابلے کم سنگین‬
‫قرار دی گئیں۔‬

‫| ‪126‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے بیشتر مریضوں کو نیند کے مسائل‪ ،‬مدافعتی نظام سے متعلق‬
‫مسائل‪ ،‬تکلیف اور ہاضمے کے امراض جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ‬
‫بہتر ہوتے محسوس ہوتی ہیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ایسے مریضوں ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ خاندان‬
‫کے افراد اور ڈاکٹر بدلتی عالماات کو سمجھ نہیں پاتے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ ایسے کتنے مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔‬
‫تاہم ان کا تخمینہ ہے کہ کووڈ ‪ 1‬کے ‪ 10‬فیصد مریضوں کو طویل المعیاد عالمات کا سامنا‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ medRxiv‬مئی ‪ 2021‬کے آغاز میں پری پرنٹ سرور‬
‫النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ‪ ،‬سانس لینے میں مشکالت‪،‬‬
‫سینے میں درد‪ ،‬کھانسی‪ ،‬ذہنی تشویش‪ ،‬ڈپریشن اور تناؤ جیسی عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا بھی ہوتا‬
‫ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں‬
‫بلکہ ‪ 65‬سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔‬

‫اس تحقیق ‪ 57‬ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر‬
‫ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫محققین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے واال ورم ممکنہ طور پر‬
‫النگ کووڈ کی مختلف عالمات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں‬
‫کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔‬
‫یہ تحقیق ایسے افراد پر کی گئی تھی جو کووڈ کے نتیجے میں زیادہ بیمار نہیں ہوئے تھے‬
‫اور ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160625/‬‬

‫سائنسدان نابینا شخص کی بینائی جزوی بحال کرنے میں کامیاب‬

‫ویب ڈیسک‬
‫مئ ‪25 2021‬‬

‫سائنسدانوں نے ایک انقالبی طریقہ کار کی مدد سے دہائیوں سے نابینا شخص کی بینائی کو‬
‫جزوی بحال کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔‬

‫| ‪127‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طبی جریدے جرنل نیچر میڈیسین میں شائع مقالے میں بتایا گیا کہ ایک نئے جینیاتی طریقہ‬
‫کار کی مدد سے اس شخص کی بینائی کو جزوی طور پر بحال کیا گیا۔‬
‫اب وہ شخص چھوٹی اشیا کو ایک خاص قسم کے چشمے کو پہن کر دیکھنے کے قابل ہوگیا‬
‫ہے۔‬
‫اس نئے طریقہ کار کے لیے آپٹوجینیٹکس پر انحصار کیا گیا جس میں عصبی خلیات کو‬
‫روشنی کی مدد سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‬
‫ابھی اس نئے طریقہ کار کو صرف ایک مریض پر آزمایا گیا ہے جو کلینیکل ٹرائل کا حصہ‬
‫تھا۔‬
‫اس کلینیکل ٹرائل کا مقصد جین تھراپی کے انسانی جسم پر اثرات اور محفوظ ہونے کو‬
‫جانچنا ہے‪ ،‬ٹیسٹنگ کا سلسلہ جاری رہے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ تیکنیک نابینا‬
‫مریضوں کو روزمرہ کے کاموں میں مدد کے لیے کس حد تک مؤثر ہوسکتی ہے۔‬
‫اس طریقہ کار میں آنکھوں کے خلیات میں جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ وہ روشنی کے‬
‫حوالے سے زیادہ حساس ہوسکیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ پردہ چشم ہماری آنکھ میں موجود کسی حیاتیاتی کمپیوٹر کی طرح ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫پیاز کی طرح اس حیاتیاتی کمپیوٹر میں بھی متعدد تہیں ہوتی ہیں جو آنکھوں میں داخل ہونے‬
‫والی روشنی کو فلٹر کرتی ہیں اور ان کا تجزیہ خاص خلیات کا ذریعہ کرتی ہیں۔‬
‫اس سے ایک اور خاص خلیے تک سگنل جاتا ہے جس سے انسان کو علم ہوتا ہے کہ وہ کیا‬
‫دیکھ رہا ہے۔‬
‫| ‪128‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم آنکھوں کے مخصوص امراض میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں جس سے یہ افعال‬
‫کام نہیں کرتے یا ختم ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ بینائی سے محرومی کی شکل میں نکلتا ہے۔‬
‫کے ‪ retinitis pigmentosa‬اس ‪ 58‬سال مریض کو آنکھوں کی ایک مخصوص بیماری‬
‫باعث بینائی سے محرومی کا سامنا کئی دہائیوں قبل ہوا تھا اور پردہ چشم کسی سگنل کو‬
‫شناخت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔‬
‫اگرچہ اس مریض کے فوٹو ریسیپٹر خلیات فعال نہیں رہے مگر ریٹینل گینگالئن خلیات کام‬
‫کررہے تھے اور ان خلیات کو ہی اس نئے طریقہ کار کا ہدف بنایا گیا۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے ایک وائرل ویکٹر تیار کیا جس نے ایک جین کو ان خلیات تک پہنچایا اور‬
‫جب وہ جین آنکھوں میں پہنچ گیا تو اس نے ایک روشنی محسوس کرنے والے پروٹین کو‬
‫بنانا شروع کردیا۔‬
‫بینائی کی بحالی کے مریض کو ایک ایسا چشمہ پہننے کی ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں‬
‫میں آنے والی روشنی کو مونوکرومیٹک تصاویر میں بدل کر رئیل ٹائم میں پردہ چشم کے‬
‫تدوین شدہ خلیات تک پہنچاتا ہے۔‬
‫یعنی چشمے کے بغیر وہ شخص نابینا ہوتا ہے۔‬
‫جین کی منتقلی کے لیے انجیکشن لگانے کے بعد بینائی میں کوئی ماہ تک کوئی اثر مرتب‬
‫نہیں ہوا مگر پھر اس نے بتایا کہ وہ چشمہ پہننے کے بعد سفید لکیریں دیکھ رہا ہے۔‬
‫انجیکشن لگنے کے ‪ 20‬بعد بھی بینائی میں بہتری آرہی تھی اور محققین کے مطابق موجودہ‬
‫ڈیوائس سے مریض چہرہ دیکھ نہیں سکتا یا کچھ پڑھ نہیں سکتا کیونکہ ریزولوشن بہت‬
‫زیادہ نہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس طریقہ کار سے مریض کی بینائی عام سطح پر بحال نہیں ہوئی‬
‫مگر کسی سطح تک بہتری سے نابینا مریضوں کو روزمرہ کے کام کرنے مین مدد ملے گی‬
‫جس سے ان کا معیار زندگی نمایاں طور پر بہتر ہوگا۔‬
‫کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس ٹرائل پر کام روکا رہا مگر محققین کو توقع ہے کہ وہ‬
‫مزید مریضوں کو اس کا حصہ بناکر ‪ 2025‬تک اسے مکمل کرلیں گے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1160674/‬‬

‫امریکا میں ویکسین سے بعض نوجوانوں‪ B‬میں دل کا عارضہ‪،‬‬


‫انکوائری شروع‬

‫امریکا میں حکام نے کچھ نوجوانوں میں کورونا ویکسین لگوانے کے بعد دل کے مسائل‬
‫پیدا ہونے کا نوٹس لے لیا ہے۔ یہ ویکسین بائیو این ٹین فائزر اور موڈیرنا بتائی گئی ہیں۔‬
‫‪    ‬‬

‫| ‪129‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق بیماریوں کے کنٹرول اور تحفظ کے مرکز (سی‬
‫ڈی سی) کو بعض کم عمر نوجوانوں میں ویکسین لگوانے کے بعد دل کے عضالت (مسلز)‬
‫میں سوزش پیدا ہونے کی شکایات ملی ہیں۔ اس بیماری کا طبی نام مائیوکارڈائی ٹس‬
‫ہے۔ )‪(Myocarditis‬‬
‫بیماری کی رپورٹس ایک ویکسین سیفٹی گروپ کی جانب سے سامنے ٓائی ہیں۔ سی ڈی سی‬
‫کے مطابق یہ شکایات چند نوجوانوں میں پائی گئی ہیں اور ابھی یہ واضح نہیں کہ ان کا‬
‫براہ راست تعلق ویکسین سے ہے یا نہیں۔ حکام کے مطابق شکایات کی انکوائری شروع‬
‫کر دی گئی ہے اور تحقیقات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔‬
‫‪:‬کورونا سے متعلق بعض ممالک کی صورتحال‬
‫امریکا‬
‫امریکی شہر الس اینجلس کے حکام کے مطابق خطے میں اس وقت سب سے زیادہ تشویش‬
‫وائرس کی برطانیہ سے آنے والی قسم پر ہے۔ وہاں تین مختلف لیبارٹریز میں ترپن فیصد‬
‫نمونوں میں برطانوی ویریئنٹ پایا گیا ہے۔ اس سے قبل کیلیفورنیا ویرئنٹ کی موجودگی‬
‫زیادہ تھی۔ الس اینجلس میں ہیلتھ حکام کے مطابق بعض لیبارٹری ٹیسٹوں میں وائرس کی‬
‫برازیل اور جنوبی افریقی قسم بھی پائی گئی ہے۔‬
‫ویتنام‬
‫ویتنام میں کورونا وبا میں اضافے کے باوجود پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ سخت‬
‫حق رائے دہی استعمال کیا۔ اتوار کو ہونے والی‬ ‫حفاظتی انتظامات میں الکھوں افراد نے اپنا ِ‬
‫ووٹنگ میں پانچ سو رکنی قومی اسمبلی کا چناؤ کیا گیا۔‬

‫بائیو این ٹیک فائزر نامی کورونا ویکسین جرمنی میں تیار کی گئی ہے‬
‫| ‪130‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویتنام میں اب تک دس الکھ‬
‫ٹیکے لگائے جا چکے ہیں اور‬
‫وہاں روسی ویکسین تیار کرنے‬
‫پر بات چیت جاری ہے۔‬
‫بھارت‬
‫بھارت میں اتوار کو کورونا کے‬
‫ڈھائی الکھ نئے کیس سامنے‬
‫آئے جبکہ تین ہزار سات سو‬
‫سے زائد افراد وفات کر گئے۔‬
‫اس وقت بھارت میں کورونا کی‬
‫وجہ سے سب سے زیادہ لوگ‬
‫مر رہے ہیں۔‬
‫جرمنی‬
‫جرمن وزیر صحت ژینس‬
‫اشپاہن نے کہا ہے کہ بائیو این‬
‫ٹیک فائزر کی ویکسین کا ذخیرہ‬
‫کیا جا رہا ہے تا کہ موسم گرما‬
‫کی تعطیالت کے بعد طلبا کو بھی ویکسین لگائی جا سکے۔‬
‫جرمن حکام کو توقع ہے کہ موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد اسکولوں میں تعلیم کا سلسلہ‬
‫معمول کے مطابق شروع ہو جائے گا اور نو عمر افراد کی ویکسینیشن مکمل کر لی جائے‬
‫گی۔ جرمنی میں حالیہ دنوں میں مریضوں کی تعداد اور ہالکتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔‬
‫اتوار کو ملک میں بیاسی افراد ہالک ہوئے جس کے بعد کورونا سے کل اموات کی ستاسی‬
‫ہزار تین سو اسی ہو گئی ہے۔‬
‫ع ح‪ ،‬ش ج (ںیوز ایجنسیاں)‬
‫‪ ‬‬
‫‪‬‬ ‫تاریخ‪24.05.2021 ‬‬
‫‪‬‬ ‫‪https://www.dw.com/ur/%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C‬‬
‫‪%DA%A9%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%88%DB‬‬
‫‪%8C%DA%A9%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%B3%DB%92-‬‬
‫‪%D8%A8%D8%B9%D8%B6-%D9%86%D9%88%D8%AC‬‬
‫‪%D9%88%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB‬‬
‫‪%8C%DA%BA-%D8%AF%D9%84-%DA%A9%D8%A7-‬‬

‫| ‪131‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برابر مشکالت‪ ،‬کرونا وائرس نے بھارت میں امیر غریب کا فرق مٹا دیا‬

‫مئ ‪۲۵ ۲۰۲۱‬‬

‫بھارت کے شہر گوہاٹی میں حفاظتی سوٹ میں ملبوس طبی عملہ ایک مریض کو اسپتال‬
‫منتقل کر رہا ہے۔ ‪ 24‬مئی ‪2021‬‬

‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫کرونا وائرس کی نئی لہر نے بھارت میں‪ ،‬جہاں اب‬
‫بھی روزانہ مثبت کیسوں کی تعداد تین الکھ کے لگ‬
‫بھگ ہے‪ ،‬بڑے پیمانے پر مالی وسائل رکھنے والے‬
‫امیروں‪ ،‬دو وقت کی روٹی کے محتاج غریبوں اور‬
‫بااختیار بیوروکریٹس‪ B‬کو اپنے پیاروں کے عالج کے‬
‫لیے ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔‬
‫اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر دستیاب نہیں ہیں۔ آکسیجن کی شدید قلت ہے۔ لوگ‬
‫ڈاکٹروں اور لیبارٹری ٹیسٹوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کئی کئی دن کے انتظار‬
‫حتی کہ کئی مریض اس دوران موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔‬ ‫کے بعد باری آتی ہے‪ٰ ،‬‬
‫مرنے والے ہندوؤں کی میت کو مذہبی رسومات کے مطابق جالنے کے لیے لمبی قطاروں‬
‫میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں کہ لوگ اپنے‬
‫مردے دریائے گنگا میں بہانے لگے ہیں جس سے آلودگی اور بیماریوں کے پھوٹ پڑنے‬
‫سمیت کئی اور طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔‬
‫ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا کی نئی لہر نے ایک ایسے وقت میں‬
‫حملہ کیا جب نریندرمودی کی حکومت طویل الک ڈاؤن اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کر‬
‫کے کرونا وائرس کے پھیالؤ پر نمایاں کنٹرول حاصل کر چکی تھی۔ اس سال جنوری میں‬
‫وزیر اعظم مودی نے اعالن کیا تھا کہ کووڈ‪ 19-‬کو شکست دے دی گئی ہے۔ اور مارچ‬
‫میں وزارت صحت نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ کرونا کا کھیل ختم ہو گیا ہے۔‬
‫دوسری جانب صحت کے ماہرین نئی لہر کے خطرے سے مسلسل آگاہ کر رہے تھے‪،‬‬
‫لیکن‪ ،‬بقول ان کے‪ ،‬کوئی بھی ان کے انتباہ پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھا۔‬
‫اسی دوران گنگا میں نہانے کا ایک بڑا مذہبی تہوار ہوا جب میں ملک بھر سے الکھوں‬
‫زائرین نے شرکت کی۔ بھیڑ اس قدر تھی کہ کندھے سے کندھا مال ہوا تھا۔ پھر انہی دنوں‬
‫کئی ریاستوں میں انتخابات ہوئے جس کے لیے الکھوں ووٹر اپنے گھروں سے باہر نکلے۔‬
‫ماہرین کے بقول‪ ،‬وسیع پیمانے کی اس بے احتیاطی کے بعد کا منظر نامہ دنیا کے سامنے‬
‫ہے۔ کئی ہفتوں سے بھارت عالمی سطح پر کووڈ‪ 19-‬کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں ایک دن میں‬

‫| ‪132‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نئے کیسز اور ہالکتوں کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ گو روزانہ کی بنیادوں پر کووڈ‪19-‬‬
‫کے پازٹیو کیسز چار الکھ سے گھٹ کر تین الکھ کے لگ بھگ ہو چکے ہیں۔ لیکن‬
‫خطرات اب بھی موجود ہیں۔‬

‫گوہاٹی میں ایک طبی کارکن ایک مریض کا کرونا‬


‫ٹیسٹ لے رہا ہے۔ ‪ 14‬مئی ‪2021‬‬
‫ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹ میں ملک بھر‬
‫سے کرونا کا نشانہ بننے والے تین خاندانوں کو مثال‬
‫کے طور پر پیش کیا ہے جس سے وائرس کے‬
‫پھیالؤ کے بعد بھارت کی ایک حقیقی تصویر سامنے‬
‫آتی ہے۔‬
‫کرونا کی تازہ لہر اپریل میں پھیلنا شروع ہوئی اور اس کا سب سے بڑا نشانہ دارالحکومت‬
‫نئی دہلی بنا ہے۔ تقریبا ً دو ہفتوں کے بعد جنوبی شہر اور آئی ٹی کا مرکز بنگلور بھی اس‬
‫کا ہدف بن گیا۔ پھر اس وبا نے بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہاتوں کو بھی اپنی‬
‫لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔‬
‫ابھیمانیو چکروتی کی کہانی‬
‫نئی دہلی کے ابھیمانیو چکروتی ایک فیکٹری کے مالک ہیں اور وہ ایک پوش عالقے میں‬
‫رہتے ہیں۔ ان کا خاندان سات افراد پر مشتمل ہے جس میں ان کے بوڑھے والد بھی شامل‬
‫ہیں‪ ،‬جو ایک عرصے سے گھر پر زیر عالج ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اپریل کے تیسرے ہفتے میں ان‬
‫کی فیملی میں کھانسی وغیرہ کی شکایت ہوئی جو‬
‫خاندان کے دیگر افراد میں بھی پھیل گئی۔ احتیاطا ً‬
‫انہوں نے کووڈ‪ 19-‬کا ٹیسٹ کرانے کا سوچا اور‬
‫لیبارٹریز کو فون کرنے شروع کیے۔ کئی دنوں تک‬
‫اس میں ناکام رہنے کے بعد آخرکار ایک لیبارٹری کا عملہ سر سے پاؤں تک حفاظتی‬
‫سوٹ میں ملبوس ٹیسٹ لینے آیا۔‬

‫‪https://www.urduvoa.com/a/poor-and-rich-covid-19-india/5902396‬‬

‫| ‪133‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امراض قلب پر مبنی بے چینی کا شکار افراد دماغی بیماری میں مبتال‬
‫ہوسکتے ہیں‪ ،‬تحقیق‬

‫مئی ‪24 2021 ،‬‬

‫ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جنہیں امراض قلب سے تعلق رکھنے والی بے چینی‬
‫محسوس ہوتی ہے ان میں دماغی بیماری میں مبتال ہونے کا بہت زیادہ خطرہ یا امکان ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫امریکا کی ہیوسٹن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بات‬
‫سامنے ٓائی کہ وہ لوگ جنھیں امراض قلب سے متعلق بے چینی‪ ،‬ڈپریشن یا ذہنی دبأو‬
‫محسوس ہوتا ہے وہ دماغی بیماری مبتال ہونے کے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیقی ٹیم کے ارکان مائیکل زولینسکی‪ ،‬ہوگ روئے اور للی کرانز کولن جو کہ‬
‫یونیورسٹی ٓاف ہیوسٹن کے پروفیسر برائے سائیکالوجی ہیں‪ ،‬ان تینوں کے مطابق‪ ‬الطینی‬
‫نسل کے افراد پر کی گئی تحقیق اور اعداد و شمار‪ ،‬رویے اور تجزیے سے یہ بات سامنے‬
‫ٓائی کہ‪  ‬ہارٹ فوکس اینزائٹی (دل پر دبأو پر مبنی بے چینی) اس میں انفرادی فرق کا تعلق‬
‫بھی ہے۔‬
‫یہ کیفیت زیادہ شدید بے چینی اور ڈپریشن جیسی عالمات پیدا کرتی ہیں اور ان میں دماغی‪ ‬‬
‫بیماری میں مبتال ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/931435‬‬

‫| ‪134‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایلوویرا کے صحت اور خوبصورتی سے متعلق فوائد‬
‫مئی ‪25 2021 ،‬‬

‫صدیوں سے مختلف شکایات میں بطور عالج استعمال کی جانے والی ایلوویرا\ (گھیکوار)‬
‫ایک قدرتی جڑی بوٹی ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے بغیر کسی نقصان کے بے شمار فوائد‬
‫حاصل کیے جا سکتے ہیں‪ ،‬ایلوویرا صحت میں اضافے‪ِ ،‬جلد اور بالوں کی خوبصورتی‬
‫بڑھانے کے لیے نہایت مفید پودا ہے۔‬
‫ایلوویرا کو کنوار گند کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‪ ،‬ایلو ویرا کو کرشماتی پودا قرار دیا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اس میں وٹامن سی‪ ،‬اے‪ ،‬ای‪ ،‬بی ‪ 12‬اور متعدد منرلز بھی پائے جاتے ہیں‪،‬‬
‫ایلوویرا تازہ توڑ کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ مارکیٹس میں کاسمیٹک کی‬
‫صورت میں بھی ایلوویرا\ جیل دستیاب ہوتا ہے۔‬
‫ایلوویرا جیل کا استعمال وزن میں کمی النے‪ ،‬پیٹ کی چربی تیزی سے گھالنے‪ ،‬بالوں اور‬
‫جلد کی خوبصورتی بڑھانے میں کتنا معاون ہے یہ جان کر ٓاپ بھی اس کا پودا اپنے گھر‬
‫میں ٓاج ہی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے صحت اور خوبصورتی پر بے شمار فوائد حاصل کرنے کے ‪5‬‬
‫‪ :‬طریقے درج ذیل ہیں‬
‫‪ ‬نرم مالئم‪ ،‬پرسکون‪ ،‬بے داغ ِجلد‬
‫ایلوویرا جیل میں امینو ایسڈز پائے جاتے ہیں جس کے سبب اس کے استعمال سے جلد‬
‫قدرتی طور پر موسچرائز رہتی ہے اور جھریوں کے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے‪ ،‬اس‬
‫| ‪135‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کے پودے میں موجود امینو ایسڈ اور کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس مل کر ِجلد کے لیے ایک‬
‫مفید ہائیڈریٹنگ ایجنٹ بناتے ہیں جس کے سبب ایلوویرا\ کے ا ستعمال سے ِجلد ہائیڈریٹڈ‬
‫رہتی ہے۔‬
‫وٹامن سی‪ ،‬ای اور بیٹا کیروٹین کی موجودگی سے جلد کے خلیے صحت مند ہوتے ہیں اور‬
‫چہرے کی جلد سے جھریوں کا خاتمہ ہوتا ہے‪ ،‬ایلوویرا بغیر کسی چکناہٹ کے اسکن کو‬
‫موسچرائز بھی رکھتا ہے اور یہ بہترین اور قدرتی سن اسکرین ہے۔‬
‫ایلوویرا زخم کو جلد بھرنے میں مدد دیتا ہے‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے زخم جلدی بھر جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال جلد پر گہرے‬
‫نشانات بھی نہیں پڑنے دیتا‪ ،‬جلد کے جلنے کی صورت میں بھی بار بار ایلوویرا جیل‬
‫لگانے سے زخم جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔‬
‫ایلوویرا کا استعمال جلد میں ’کالجین ‘ کی مقدار بڑھاتا ہے جس کے سبب متاثر جلد کو‬
‫جلد نئے خلیے بنانے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫گرتے بالوں کو روکتا ہے ‪ ،‬بالوں کو َجلدی لمبا کرتا ہے‬
‫بالوں کا جھڑنا ٓاج کل ہر دوسرے فرد کا مسئلہ ہے‪ ،‬جھڑتے بالوں کو روکنے کے لیے‬
‫ایلوویرا کا استعمال نہایت مفید ہے‪ ،‬ایلوویرا\ میں موجود ’پروٹیو الئیٹک انزائمز‘ متاثرہ‬
‫بالوں کے خلیوں کی مرمت کرنے میں مدد دیتا ہے اور بال ٹوٹنے یا گرنے کے بجائے‬
‫صحت مند ہونا شروع ہو جاتے ہیں‪ ،‬ایلوویرا بالوں کے لیے قدرتی کنڈیشنر بھی ہے۔‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے سر کی جلد سے خارش‪ ،‬خشکی کا بھی خا تمہ ہوتا ہے‪ ،‬ڈائے‬
‫کیے ہوئے بالوں کے لیے ایلوویرا کا جیل ہفتے میں دو بار استعمال کرنے سے بالوں کی‬
‫قدری چمک اور مرجھائے ہوئے روکھے بالوں میں جان ٓا جاتی ہے۔‬
‫دانتوں کو ’ پالق اور کیویٹیز‪ ‘ B‬سے بچاتا ہے‬
‫ایلوایرا جیل میں دانتوں کے متعدد مسائل کا بھی حل ہے‪ ،‬ایلوویرا جیل کے استعمال سے‬
‫دانتوں سے خون ِرسنے‪ ،‬سوجن ‪ ،‬پالق اور کیویٹیز کا عالج بھی کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ایلوویرا جیل سے برش کرنے کے نتیجے میں دانتوں کو کیڑا لگنے سے بھی بچایا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫سن اسکرین‘ ہے‬ ‫ایلوویرا قدرتی ’ َ‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے سورج کی شعأوں سے بچا جا سکتا ہے‪ ،‬گھر سے باہر نکلنے‬
‫سے پہلے اگر ایلوویرا\ جیل لگا لیا جائے تو ’ َسن بالک‘ یا ’ َسن اسکرین ‘ کی ضرورت‬
‫سے بچاتا ہے۔ )‪ (UV rays‬نہیں پڑتی ہے‪ ،‬ایلوویرا\ جیل کا استعمال الٹرا وائلٹ ریز‬
‫ایلوویرا جیل میک اپ سیٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے‬
‫چہرے پر چکناہٹ بھی نہیں ٓاتی اور نہ ہی اس کی کوئی بو ہے‬
‫وزن میں کمی کے لیے بہترین مشروب‬
‫ایلو ویرا کا استعمال جہاں بے شمار فوائد کا حامل ہے وہیں اسے براہ راست کھانے یا اس‬
‫کا مشروب بنا کر پینے سے پیٹ کے گرد جمی ضدی چربی زائل ہوتی ہے اور مجموعی‬
‫وزن میں کمی بھی ٓا تی ہے۔‬
‫| ‪136‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جسمانی وزن میں کمی کے خواہشمند افراد اسے بطور مشروب روزانہ صبح نہار منہ‬
‫استعمال کر سکتے ہیں۔‬
‫جسمانی وزن کم کرنے کے لیے ایلویرا کے ‪ 3‬سے ‪ 4‬انچ کے ٹکڑے سے سفید لیس دار‬
‫مادہ نکال کر ایک عدد کھیرے کے ساتھ گرائینڈ کر کے پی لیں‪ ،‬ذائقہ بہتر بنانے کے لیے‬
‫اس میں لیموں کا رس یا پھر کوئی اور سبزی جیسے کے بند گوبھی اور گاجر بھی شامل‬
‫کی جا سکتی ہے۔‬
‫ایلوویرا جیل میں بغیر کوئی سبزی شامل کیے سادہ پانی میں گرائینڈ کر کے بھی استعمال‬
‫کیا جا سکتا ہے‬
‫تیزابیت اور سینے کی جلن سے نجات دالئے‬
‫ایلوویرا جیل ٓانتوں کی صفائی کے لیے بہترین ٓاپشن ہے‪ ،‬معدے کی جلن سے فوراً‬
‫چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ایلو ویرا جیل کو گرائینڈ کر کے (ٓادھا گالس) کھانے سے‬
‫پہلے پی لیں‪ ،‬پیٹ سے متعلق امراض کا خاتمہ ہو جائے گا۔‬
‫‪ ‬ایلوویرا کے صحت پر دیگر فوائد‬
‫ایلوویرا جیل کا براہ راست استعمال میٹابالزم تیز کرتا ہے‪ ،‬قبض سے بچاتا ہے‪ ،‬کولیسٹرول‬
‫لیول متوازن بناتا ہے‪ ،‬جوڑوں کے درد سے نجات دالتا ہے اور زہریلے مادوں کاجسم سے‬
‫اخراج ممکن بناتا ہے۔‬
‫ایلوویرا خون کی کمی دور کرنے میں بھی مٔوثر ہے‪ ،‬ماہرین کے مطابق ایلوویرا جگر کی‬
‫خراب کارکردگی بھی بہتر بناتا ہے‪ ،‬اس کا یرقان کے مریض کو بطور دوا استعمال کرایا‬
‫جا سکتا ہے۔‬
‫رات سونے سے قبل دو چمچ ایلوویرا کا گودا کھانے کے نتیجے میں قبض اور بواسیر‬
‫دونوں مسائل سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔‬
‫روزانہ ایک چمچ ایلوویرا کا گودا کھانے سے جوڑوں کا درد‪  ‬ختم کرنے میں مدد ملتی‬
‫ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/931819‬‬

‫مدافعتی نظام کا ایک حصہ کرونا کے مختلف ویرینٹ کے خالف تحفظ‬


‫فراہم کر سکتا ہے‪ :‬تحقیق‬

‫مئی ‪2021 ,27‬‬

‫تحقیق کے مطابق جب جسم میں کرونا وائرس کی مختلف قسم داخل ہونے کی وجہ سے‬
‫مدافعتی نظام کی فرسٹ الئن یعنی 'اینٹی باڈیز' کمزور پڑ جاتی ہیں تو نظام کا دوسرا حصہ‬
‫یعنی 'ٹ سیل' وائرس کے خالف متحرک ہو جاتا ہے۔‬
‫| ‪137‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک —‪ ‬‬
‫دنیا بھر میں کرونا کے پھیالؤ کو روکنے کے لیے ویکسی نیشن کے عمل کو تیز کیا جا‬
‫رہا ہے اور اس دوران کرونا کی مختلف اقسام بھی سامنے آ رہی ہیں۔‬
‫اسی حوالے سے حال ہی میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ‬
‫مدافعتی نظام کا ایک حصہ 'ٹی سیل' کرونا کی مختلف اقسام کے خالف تحفظ فراہم کر‬
‫سکتا ہے۔‬
‫امریکی جرنل 'سائنس امیونولوجی' میں کرونا وائرس کے نئے ویرینٹس اور مدافعتی نظام‬
‫کے ر ِد عمل سے متعلق ‪ 25‬مئی کو ایک تحقیق شائع کی گئی ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق جب جسم میں کرونا وائرس کی مختلف قسم داخل ہونے کی وجہ سے‬
‫مدافعتی نظام کی فرسٹ الئن یعنی 'اینٹی باڈیز' کمزور پڑ جاتی ہیں تو نظام کا دوسرا حصہ‬
‫یعنی 'ٹی سیل' وائرس کے خالف متحرک ہو جاتا ہے۔‬
‫جب جسم میں کوئی بھی وائرس داخل ہوتا ہے تو انفیکشن سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے‬
‫سب سے پہلے مدافعتی نظام کی فرسٹ الئن یعنی اینٹی باڈیز متحرک ہو جاتی ہیں اور یہ‬
‫وائرس کو خلیوں (سیل) میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔‬

‫ٹی سیل کیا ہیں؟‬


‫انسانی جسم میں وائرس کو داخل ہونے اور انفیکشن سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے‬
‫مدافعتی نظام موجود ہوتا ہے۔‬
‫یہ مدافعتی نظام مختلف حصوں سے مل کر بنتا ہے جس کے بنیادی حصوں میں وائٹ بلڈ‬
‫سیلز اور اینٹی باڈیز بھی شامل ہیں۔‬
‫ٹی سیل در اصل انسان کے مدافعتی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں اور یہ وائٹ بلڈ سیلز کی‬
‫ایک قسم ہے۔‬
‫ٹی سیل جسم میں موجود ایسے خلیوں (سیل) کو تباہ کرتے ہیں جو وائرس سے متاثر ہوتے‬
‫ہیں جب کہ اینٹی باڈیز وائرس کو ناکارہ بنانے کا کام کرتی ہیں۔‬
‫یورپی ملک نیدرلینڈز کی اوراسمس یونی ورسٹی میڈیکل سینٹر کے ماہر متعدی امراض‬
‫اور تحقیق کے شریک مصنف روری دی وریز کا کہنا ہے کہ "ٹی سیل انفیکشن سے تحفظ‬
‫فراہم نہیں کرتے بلکہ جسم سے وائرس ختم کرنے کے لیے ان کی ضرورت پیش آتی‬
‫ہے۔"‬
‫اس تحقیق میں شریک مصنف روری دی وریز اور ان کے ساتھیوں نے امریکی ویکسین‬
‫فائزر‪-‬بائیو ٹیک کی خوراک حاصل کرنے والے ‪ 121‬ہیلتھ کئیر ورکرز کے خون کے‬
‫نمونوں کا مطالعہ کیا۔‬
‫مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ کرونا کی اصل قسم کے مقابلے میں جنوبی افریقی قسم‬
‫کے خالف اینٹی باڈیز دو سے چار گنا کمزور پائی گئیں۔‬

‫| ‪138‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے شریک مصنف اور ماہر متعدی امراض روری دی وریز کا کہنا ہے کہ ٹی سیل‬
‫کو پرواہ نہیں ہوتی چاہے وہ اصل یا کسی مختلف قسم کے وائرس کا سامنا کر رہے ہوں‪،‬‬
‫یہ ہر قسم کے وائرس کے لیے ایک ہی طرح سے متحرک ہوتے ہیں۔‬
‫ان کے بقول‪ ،‬اگر وائرس کی قسم اینٹی باڈیز کو کمزور کر دیتی ہے تو اس کے نتیجے میں‬
‫ٹی سیل ر ِد عمل ظاہر کرتے ہیں اور وہ وائرس کو جسم میں پھیلنے سے روکتے ہیں اور‬
‫اس سلسلے میں وہ شخص انفیکشن میں تو مبتال ہو سکتا ہے لیکن وہ بیمار نہیں ہوتا۔‬
‫ماہر متعدی امراض روری دی وریز کا کہنا ہے کہ ہمیں اینٹی باڈیز کے ر ِد عمل پر آنکھ‬
‫بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی یہ سمجھنا چاہیے کہ کرونا کی مختلف قسم کے‬
‫خالف اینٹی باڈیز کا ر ِد عمل چار گنا کم ہے تو ویکسین درست کام نہیں کر رہی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اگر اینٹی باڈیز درست کام نہیں کر رہی تو جسم کے مدافعتی نظام میں‬
‫موجود مختلف جُز ہمیں بیماری سے بچانے کا کام کرتے ہیں۔دوسری جانب نیویارک یونی‬
‫ورسٹی گروس مین اسکول آف میڈیسن کے ماہر متعدی امراض نتھینئیل لینڈاؤ (جو اس‬
‫تحقیق کا حصہ نہیں ہیں) کا کہنا ہے کہ "سائنس دان اس بارے میں نہیں جانتے کہ مدافعتی‬
‫نظام کا یہ رخ کتنا اہم ہے۔"‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ اینٹی باڈیز بہت اہم ہیں‪ ،‬جو بات ہم ابھی نہیں‬
‫جانتے وہ یہ ہے کہ ٹی سیل کا ر ِد عمل کتنا اہم ہے۔‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/t-cells-may-protect-against-coronavirus-‬‬
‫نوبی ایشیا‪variants-27may2021/5906229.html‬‬

‫بعض نوجوانوں\ میں دل کی سوزش کی شکایات کی وجہ کرونا ویکسین‬


‫تو نہیں؟‬

‫مئی ‪2021 ,25‬‬

‫امریکہ میں ٹین ایجرز کو ویکسین لگانے کی اجازت حال ہی میں دی گئی ہے۔ ‪ 13‬مئی‬
‫‪2021‬‬
‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) کے ایڈوائزری گروپ نے‬
‫کہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے بعد بعض نوجوانوں میں دل کے امراض‬
‫کی شکایات سامنے ٓائی ہیں۔‬
‫امیونائزیشن پریکٹیسز کے ایڈوائزری\ کمیٹی نے ‪ 17‬مئی کے ایک بیان میں کہا ہے کہ‬
‫ویکسین لگنے کے بعد کچھ نوجوانوں کی رپورٹس سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ ان‬

‫| ‪139‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نوجوانوں میں دل میں سوزش کی شکایات دیکھی گئی ہیں۔ کمیٹی کے مطابق ان میں زیادہ‬
‫تر ’ٹین ایجر‘ یعنی ‪ 13‬سے ‪ 19‬سال کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔‬
‫سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ شکایت زیادہ پیچیدگی پیدا کیے بغیر خود بخود ختم ہو جاتی‬
‫ہے اور اس کی وجہ کئی طرح کے وائرس ہو سکتے ہیں۔‬
‫کمیٹی کا کہنا ہے کہ کیسز کی تعداد کسی بھی ٓابادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے لیکن‬
‫طبی عملے کو اس قسم کی پیچیدگی کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے۔‬

‫امریکی ریاست الی نوائے میں ایک نوجوان طالب علم ویکسین لگواتے وقت اس کی‬
‫حمایت میں ایک بینر اٹھائے ہوئے ہے۔ ‪ 13‬مئی ‪2021‬‬
‫خبر رساں ادارے رائ\\ٹرز کے مط\\ابق کمیٹی نے اس ب\\ارے میں مزی\\د تحقیق ک\\رنے س\\ے‬
‫متعلق بیان میں مزید کچھ نہیں بتایا۔‬
‫جانز ہاپکنز ہیلتھ سیکیورٹی سینٹر میں سینئر سکالر ڈاکٹر امیش اڈالجا نے رائٹرز سے ب\\ات‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ ویکسینز کی وجہ سے دل میں سوزش کی بیم\اری ’’م\\ائیو ک\\ارڈائٹس‘‘‬
‫الحق ہو سکتی ہے۔‬
‫| ‪140‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ان کے مطابق یہ جاننا ضروری ہے کہ ان نوجوانوں میں اس بیماری کی وجہ کرونا‬


‫ویکسین ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان ویکس\\ینز کے فوائ\\د اور نقص\\انات‬
‫کی شرح کا جائزہ لیا جا سکے۔ ان کے بقول ’’اگر مکمل طور پر تحقیق کی ج\\ائے ت\\و بھی‬
‫ویکسینز ہر لحاظ سے اپنے نقصانات کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوں گی۔‘‘‬
‫سی ڈی سی کے مطابق امراض قلب کی یہ شکایت ایم ٓار این اے ویکسین لینے کے چار‬
‫روز بعد سامنے ٓائی۔ ادارے نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ کس ویکسین کے بعد یہ‬
‫صورت حال پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں موڈرنا اور فائزر کی ویکسین ایم ٓار این اے‬
‫ویکسین ہیں جن کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔‬
‫اپریل میں اسرائیل کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ وہ فائزر کی ویکسین لینے والوں میں‬
‫ایک کم تعداد میں دل کی سوزش کی شکایت کی تحقیق کر رہے ہیں۔ وزارت کا کہنا تھا وہ‬
‫ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور یہ کہ جن لوگوں میں یہ شکایت سامنے ٓائی ہے‪،‬‬
‫ان کی عمر ‪ 30‬برس سے کم ہے۔‬
‫ویکسین بنانے والی کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ اس کو ایسی کم شکایات موصول ہوئی ہیں‬
‫اور اب تک اس کا ویکسین سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔‬
‫رائٹرز کے مطابق اس رپورٹ پر تبصرے کے لیے فائزر اور موڈرنا سے رابطہ کیا گیا‬
‫مگر ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/vaccine-heart-inflammation-‬‬
‫‪cdc/5903993.htmls‬‬

‫| ‪141‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیا لیموں کے بیج میں بھی غذائیت ہوتی ہے؟ جان کر آپ حیران رہ‬
‫جائیں گے‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪27 2021‬‬

‫ہم پھلوں کے بیج‪ B‬عموما ً پھینک دیا کرتے ہیں‪ ،‬کچھ بیج تو بہت کڑوے ہوتے ہیں جیسا کہ‬
‫لیموں کا بیج‪ ،‬لیکن اگر آپ لیموں کے بیج کے فوائد اور اس میں موجود غذائیت کے‬
‫بارے میں جان جائیں تو آپ کو حیرت ہوگی۔‬
‫غذائیت‬
‫لیموں کے بیجوں میں اچھی خاصی مقدار میں اینٹی آکسڈینٹ ہوتے ہیں‪ ،‬جو بنیادی طور پر‬
‫وٹامن سی ہیں‪ ،‬لیموں کے بیجوں میں سیالئیلیک ایسڈ ہوتا ہے‪ ،‬جو درد کو دور کرنے کی‬
‫صالحیت رکھتا ہے‪ ،‬لیموں کے بیجوں میں امینو ایسڈ ہوتا ہے‪ ،‬جیسے امرود کے بیجوں‬
‫میں ہوتا ہے‪ ،‬اور ان میں پروٹین اور چربی کی مقدار بھی ہوتی ہے جو صحت کے لیے‬
‫اچھی ہوتی ہے۔‬

‫فوائد‬
‫زہر کو نکالنا‪ :‬لیموں کے بیج کڑوے ہونے کے باوجود صحت کے لیے بہت مفید ہیں‪ ،‬یہ‬
‫ہمارے جسم سے زہریلے اور دیگر ناپسندیدہ مادوں سے پاک کرنے میں مدد فراہم کرتے‬
‫ہیں۔‬

‫| ‪142‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫درد دور کرنا‪ :‬لیموں کے بیج سر درد اور جسم کے دیگر دردوں کو دور کرنے میں بھی‬
‫مددگار ہیں‪ ،‬ان میں موجود ایسڈ دراصل اسپرین کا ایک اہم جز ہے۔‬
‫پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ‪ :‬لیموں کے بیج سے پیٹ کے کیڑوں کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے‪،‬‬
‫یہ اس کا ایک قدرتی عالج ہے‪ ،‬لیموں کے بیج کچل کر انھیں پانی یا دودھ کے ساتھ ابالیں‪،‬‬
‫پھر بچوں کو کھالئیں۔‬
‫جلد کی نشوونما‪ :‬جلد کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے کچھ مصنوعات میں بھی لیموں‬
‫کے بیج استعمال کیے جاتے ہیں‪ ،‬ان میں وٹامن سی ہوتا ہے‪ ،‬یہ اینٹی آکسیڈنٹ ہے۔‬
‫مہاسوں کا عالج‪ :‬لیموں کے بیج کا تیل مہاسوں کے عالج میں بہت مؤثر ہے‪ ،‬اس کے تیل‬
‫میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں۔‬
‫موڈ میں بہتری‪ :‬لیموں کے بیجوں کو موڈ کو بہتر بنانے کے لیے اروما تھراپی کے طور‬
‫پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی خوش بو سے کمرے سے مچھر بھی بھاگ جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫احتیاط‪ :‬پورے بیجوں کی بجائے پسے ہوئے بیج کھائیں کیوں کہ پیسے ہوئے بیج ہاضمے‬
‫کے لیے کم نقصان دہ ہوتے ہیں‪ ،‬چڑچڑے پن والے‪ ،‬آنتوں کے سنڈروم میں مبتال افراد اور‬
‫وہ لوگ جو قبض اور پیٹ کی خرابی‪ ،‬بدہضمی کی بیماریوں میں مبتال ہوتے ہیں‪ ،‬وہ اس کا‬
‫استعمال نہ کریں۔‬

‫…‪Web‬‬

‫بچوں میں نکسیر پھوٹنے کی وجوہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪ 27 2021‬‬

‫اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کی ناک سے خون بہنے لگ جاتا ہے‪ ،‬نکسیر پھوٹنا ایک عام‬
‫مسئلہ ہے لیکن یہ اکثر والدین کے لیے پریشانی اور خوف کا سبب بنتی ہے۔‬
‫بچوں میں نکسیر کا مسئلہ عموما ً تھوڑے عرصے رہتا ہے‪ ،‬تاہم زیادہ خون بہنے کی‬
‫صورت میں بچے کو طبی امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے‪ ،‬نکسیر پھوٹنا ان بچوں میں‬
‫عام ہے جن کی عمر دو سے ‪ 10‬سال کے درمیان ہوتی ہے۔‬
‫زیادہ تر نکسیر ناک کے اگلے نرم حصے سے آتی ہے کیوں کہ ناک کا یہ حصہ خون کی‬
‫بہت سی چھوٹی چھوٹی نالیوں پر مشتمل ہوتا ہے‪ ،‬جن میں تھوڑا سا اتار چڑھاؤ یا سوجن‬
‫ہو جائے تو خون بہنے لگتا ہے‪ ،‬جب کہ ناک کے پچھلے حصے سے نکسیر بہت کم ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬تاہم ہو جائے تو اسے روکنا مشکل ہوتا ہے۔‬
‫وجوہ‬
‫| ‪143‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫خشک ہوا‪ :‬چاہے یہ گرم رہائش گاہوں کے اندر کی ہو‪ ،‬یا خشک آب و ہوا ہو‪ ،‬بچوں میں‬
‫نکسیر کی سب سے عام وجہ خشک ہوا ہے جو ناک کی جھلیوں کو خشک کر دیتی ہے۔‬
‫ناک کو سختی سے صاف کرنا یا رگڑنا‪ :‬نکسیر آنے کی وجوہ میں سے یہ دوسری سب‬
‫سے عام وجہ ہے کیوں کہ ناک کو کھرچنے یا رگڑنے سے ناک میں خارش ہوتی ہے جو‬
‫ناک میں خون کی نالیوں سے نکسیر کا سبب بنتی ہے۔‬
‫چوٹ‪ :‬چہرے یا ناک پر گیند لگنے یا گرنے سے چوٹ آئے تو ناک سے خون بہتا ہے‪،‬‬
‫عموما ً یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر دس منٹ تک خون جاری رہے‪ ،‬تو طبی امداد‬
‫حاصل کرنی چاہیے۔‬
‫جلن‪ :‬کوئی بھی بیماری جس میں ناک کی جلن کی عالمات شامل ہوں‪ ،‬نکسیر کی وجہ بن‬
‫سکتی ہے۔‬
‫بیکٹیریل انفیکشن‪ :‬ناک کے اندر اور ناک کے سامنے والے حصے میں انفیکشن خون‬
‫بہنے کا باعث بن سکتا ہے۔خیال رہے کہ کئی بچوں کو سالوں میں صرف ایک یا دو بار‬
‫نکسیر آتی ہے‪ ،‬لیکن کچھ بچوں کو یہ مسئلہ بار بار پیش آتا ہے‪ ،‬یہ اس وقت ہوتا ہے جب‬
‫بچے کی ناک اندر سے کمزور ہوجاتی ہے‪ ،‬اور معمولی وجوہ سے خون کی نالیوں سے‬
‫نکسیر بہنا شروع ہو جاتی ہے۔‬
‫بچاؤ‬
‫ناک میں پانی ڈالنا‪ ،‬نمکین پانی کا استعمال کر کے بچے کی ناک کو نم رکھنا‪ ،‬ناک کو‬
‫انفیکشن سے بچانے کے لیے الرجی کا عالج کرنا۔ہوا کی خشکی سے بچانے کے لیے‬
‫بچے کے کمرے میں ایئر کنڈیشن چالنا‪ ،‬کھیل کود کے دوران بچوں کو حفاظتی سامان‬
‫استعمال کرانا‪ ،‬یاد رہے کہ نکسیر کی صورت میں صرف ‪ 10‬فی صد کیسز ہی میں طبی‬
‫عالج کی ضرورت پڑتی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/epistaxis-in-children/‬‬

‫| ‪144‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چینی کورونا ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ محققین نے بتا دیا‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫مئی ‪28 2021‬‬

‫عالمی وبا کورونا وائرس کے خالف چینی دوا ساز کمپنی سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین‬
‫‪ 73‬فیصد مفید اور مؤثر قرار دے دی گئی ہے۔ سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین کے دو‬
‫ڈوز کی کورونا ویکسین کے خالف افادیت کی شرح ‪ 73‬فیصد ہے۔‬
‫مؤقر خلیجی اخبار خلیج ٹائمر نے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع‬
‫ہونے والے ایک مضمون کے حوالے سے بتایا ہے کہ سائنو فارم ویکسین سے متعلق ایک‬
‫بڑے مطالعے کے بعد یہ پہلی تفصیلی رپورٹ سامنے ٓائی ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق سائنوفارم کے ووہان شہر میں قائم ایک ذیلی ادارے کی تیار کردہ‬
‫ویکسین کا ایک ڈوز لگانے کے دو ہفتے بعد دوسری ویکسین لگوانے کی افادیت ‪72.8‬‬
‫فیصد سے زائد ظاہر ہوئی ہے۔‬
‫فروری میں چینی کمپنی نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے خالف اس کی تیار کردہ‬
‫ویکسین کی افادیت کی شرح ‪ 72.5‬فیصد ہے۔‬
‫جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق‬
‫بیجنگ میں قائم سائنوفارم سے منسلک ایک انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ تیار کردہ ایک اور‬
‫ویکسین‪ ،‬جسے رواں ماہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ہنگامی طور پر استعمال‬
‫کی منظوری دی تھی‪ 78.1 ،‬فیصد مؤثر قرار پائی ہے۔‬
‫رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج ووہان ا اور بیجنگ میں ‪ 40،000‬سے زائد افراد کو‬
‫ٹیکے لگانے کے بعد سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫| ‪145‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق‬
‫ویکسین لگوانے کے بعد ان شرکاء میں سے صرف دو میں کوویڈ ‪ 19‬کی شدید عالمات‬
‫ظاہر ہوئی تھیں۔ تاہم سنگین نوعیت کی روک تھام کے کے حوالے سے اس ویکسین کی‬
‫افادیت کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔‬

‫…‪Web‬‬

‫روزہ ہو یا طبی فاقہ‪ ،‬عمر اور یادداشت بڑھاتا ہے‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 26  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫ایک طرح کے طبی فاقے‪ ،‬یعنی انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے دماغی خلیات بڑھتے ہیں اور‬
‫یادداشت بہتر ہوسکتی ہے۔‬
‫لندن‪ :‬ماہرین ایک عرصے سے فاقے کے فوائد بتاتے رہے ہیں اور اس ضمن میں اب‪ ‬‬
‫انٹرمٹنٹ‪ B‬فاسٹنگ کا بہت ذکر ہورہا ہے۔ اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے‬
‫عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے طویل مدتی حافظہ بھی بہتر‪ B‬ہوتا ہے۔‬
‫کنگز کالج لندن کے سائنسدانوں نے چوہوں پر بعض تجربات کرکے بتایا کہ ہے کہ کس‬
‫طرح فاقہ ان میں طویل نوعیت کی یادداشت اور عمررسیدگی سے ہونے والے اعصابی‬
‫| ‪146‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نقصانات کا ازالہ کرتا ہے۔ جدید تحقیق سے فاقے‪ ،‬روزے اور ڈائٹنگ کے کئی فوائد‬
‫سامنے ٓائے ہیں جن کی فہرست بڑی طویل ہے۔‬
‫تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے معدے کے خردنامئے تندرست رہتے ہیں‪ ،‬سرطان‬
‫کے عالج میں مدد ملتی ہے اور جسم سے زہریلے پروٹین کی صفائی میں مدد ملتی ہے جو‬
‫الزائیمر کی وجہ بن سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی فاقہ کشی خلوی سطح پر مائٹوکونڈریائی‬
‫مرمت سے بڑھاپے کو بھی روکتی ہے۔‬
‫نئے تجربات میں ماہرین نے چوہیا کو تین گروہ میں بانٹا۔ ان میں سے ایک کو معمول کی‬
‫غذا‪ ،‬دوسرے گروہ کو محدود کیلوری والی غذا دی گئی اور تیسرے گروہ کو انٹرمٹنٹ‬
‫فاسٹنگ سے گزارا گیا یعنی ایک دن بھوکا رکھ کر انہیں دوسرے دن کھانا دیا جاتا رہا تھا۔‬
‫تین ماہ کے بعد فاقے سے گزرنے والے گروہ کی طویل مدتی یادداشت بہتردیکھی گئی۔‬
‫ماہرین نے دیکھا کہ ان می کلوتھو نامی جین کی سرگرمی بڑھ گئی جسے عمر سے وابستہ‬
‫جین کہا جاتا ہے۔ یہ عمر بڑھاتا ہے اور ساتھ ہی دماغ میں نئے اعصابی خلیات بھی پیدا‬
‫کرتا ہے۔ اس طرح یادداشت بڑھانے میں مدد کرسکتا ہے۔‬
‫کنگز کالج سے وابستہ سائنسداں ڈاکٹر سینڈرین ٹورے کے مطابق یہ امر حیرت انگیز ہے‬
‫کہ فاقے بالغ افراد میں بھی نئے اعصابی خلیات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں کلوتھو‬
‫جین یا پروٹین غیرمعمولی\ کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے بہت ہی‬
‫غیرمعمولی فوائد سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2182233/9812/‬‬

‫| ‪147‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫!یہ ’’ذہین بیت الخالء‘‘ پیٹ کی بیماریوں کا سراغ بھی لگائے گا‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 27  ‬مئ‪ 2021  ‬‬

‫ابتدائی تجربات میں ’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘ نے پیٹ اور ٓانتوں کے امراض کی ‪ 86‬فیصد تک‬
‫درست نشاندہی کی۔ (فوٹو‪ :‬ڈیوک یونیورسٹی)‬
‫نارتھ کیروالئنا‪ :‬امریکی انجینئروں اور طبّی ماہرین نے مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے‬
‫ایسا جدید و ذہین بیت الخالء تیار کرلیا ہے جو رفع حاجت کے دوران ہی اپنے استعمال‬
‫کرنے والے کے فضلے کا تجزیہ کرکے پیٹ اور ٓانتوں کی بیماریوں کا سراغ لگا سکتا‬
‫ہے۔‬
‫ڈیوک یونیورسٹی‪ ،‬نارتھ کیروالئنا میں ایجاد کیے گئے‪ ‬اس اچھوتے بیت الخالء‪ ‬کو‬
‫’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘ بھی کہا جارہا ہے کیونکہ یہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے‬
‫ایک ایسے خودکار نظام سے لیس ہے جو ٹھوس انسانی فضلے کی تصویر کھینچ کر فوری‬
‫طور پر بتا سکتا ہے کہ ٹوائلٹ استعمال کرنے والے شخص کو پیٹ یا ٓانتوں کی کوئی‬
‫بیماری ہے یا نہیں۔‬
‫بیماری کی صورت میں یہ اپنے صارف (استعمال کرنے والے) کو خبردار کردیتا ہے تاکہ‬
‫وہ ڈاکٹر سے رابطہ کرے اور اپنا عالج کروائے۔‬
‫| ‪148‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسمارٹ ٹوائلٹ کے نظام کا انحصار مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے ایک الگورتھم\‬
‫پر ہے جسے ٹھوس انسانی فضلے کے ہزاروں نمونوں کی تصویریں دکھا کر اس قابل بنایا‬
‫گیا ہے کہ وہ فضلے کو صرف ’’ایک نظر دیکھ کر‘‘ پیٹ یا ٓانتوں کی بیماری کا سراغ‬
‫لگا سکے۔‬
‫ابتدائی تجربات میں اس الگورتھم\ نے پیٹ اور ٓانتوں کے امراض کی ‪ 86‬فیصد تک درست‬
‫نشاندہی کی جبکہ ٹھوس فضلے میں خون کی موجودگی کا پتا بھی ‪ 74‬فیصد درستگی کے‬
‫ساتھ لگایا۔‬
‫اگرچہ فی الحال یہ صرف ایک پروٹوٹائپ کی شکل میں ہے تاہم اسے ایجاد کرنے والے‬
‫ماہرین موجودہ ’’اسمارٹ ٹوائلٹ‘‘\ کو اور بھی ذہین بنانا چاہتے ہیں۔‬
‫اس کےلیے وہ اسمارٹ ٹوائلٹ کے اگلے پروٹوٹائپ کو ٹھوس انسانی فضلے میں شامل‬
‫حیاتی کیمیائی ما ّدے (بایوکیمیکلز) جانچ کر پیٹ کی بیماری کا پتا چالنے کے قابل بنانے‬
‫کی تیاری کررہے ہیں۔‬
‫یہ اضافہ نہ صرف اسمارٹ ٹوائلٹ کو مزید بہتر بنائے گا بلکہ اس کی کارکردگی میں بھی‬
‫اضافہ کرے گا۔‬
‫اس ایجاد کے بارے میں ’’ڈائجسٹیو ِڈزیز ِویک ‪ ‘‘2021‬کے عنوان سے منعقدہ ورچوئل‬
‫کانفرنس میں بتایا گیا۔ یہ کانفرنس ‪ 21‬سے ‪ 23‬مئی تک جاری رہی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2182483/9812/‬‬

‫سگریٹ پینےوالوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ‬


‫مئی ‪28 2021 ،‬‬

‫کینسرکا پھیالٔو بھی سگریٹ نوشی کی لت‬


‫چھڑوانے میں ناکام رہا۔‬
‫غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا‬
‫بھر میں سگریٹ پینے والوں کی تعداد‬
‫میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا۔‬
‫اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ تمباکونوشی‬
‫کرنے والوں کی تعداد ریکارڈ ایک ارب‬
‫‪ 10‬کروڑ تک پہنچ گئی ہے اور صرف‬
‫‪ 2019‬میں تمباکو نوشی سے مرنے والوں کی تعداد تقریبا ً ‪ 80‬الکھ تھی۔‬

‫‪https://jang.com.pk/news/933234‬‬

‫| ‪149‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کافی میں موجود کیفین نیند کی کمی کے منفی اثرات کو کم کرتا ہے‪،‬‬
‫تحقیق‬

‫مئی ‪27 2021 ،‬‬

‫ایک نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے پتہ چالیا ہے کہ کافی نیند کی کمی کے باعث پڑنے‬
‫والے منفی اثرات کو کم کرتا ہے۔‬
‫امریکا کی مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے کافی کی اس اثر پذیری کا اندازہ‬
‫لگاتے ہوئے کہا‪ ،‬گو کہ کیفین نیند کی کمی کے حوالے سے مدد کرتا ہے لیکن ایسے بھی‬
‫نہیں ہے کہ جیسا کوئی تصور کرے۔‬
‫مشی گن یونیورسٹی کی سلیپ اینڈ لرننگ لیب کی سائنسدان اور سائیکالوجی کی ایسوسی‬
‫ایٹ پروفیسر کمبرلی فین کے مطابق کیفین نیند کی کمی سے پڑنے والے اثرات کو زائل‬
‫کرتا ہے لیکن یہ نیند کا نعم البدل نہیں ہے۔‬
‫پروفیسر کمبرلی فین جو کہ اس تحقیقی ٹیم کی سربراہی بھی کررہی ہیں انکا مزید کہنا ہے‬
‫کہ ایک رات کی نیند کی محرومی سے سیکھنے‪ ،‬یاداشت اور ذہنی صالحیتوں پر جو‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں کیفین اس سے نبرد ٓازما ہوتا ہے۔‬
‫لوگ ٓاسان قسم کے ٹاسک کافی استعمال کرکے پورے کرسکتے ہیں‪ ،‬تاہم اس تحقیق کے‬
‫دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر شرکا مشکل قسم کے ٹاسک سرانجام نہ دے سکے۔‬

‫| ‪150‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پروفیسر کمبرلی فین نے مزید کہا کہ کیفین ٓاپکے جاگنے اور کام کرنے کی صالحیت کو‬
‫برقرار رکھتا ہے لیکن یہ طریقہ کار کی غلطیوں کی روک تھام میں معاون ثابت نہیں ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬جیسے کہ طبی معامالت اور ڈرائیونگ وغیرہ شامل ہے۔‬
‫کیفین توانائی کو تو بڑھاتا ہے اور نیند کی کمی کے اثرات کوبھی کم کرکے موڈ بہتر کرتا‬
‫ہے لیکن یہ رات کی مکمل نیند کا قطعی نعم البدل نہیں ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/932936‬‬

‫امریکہ‪ :‬نوجوانوں میں ویکسین سے امراض قلب کی شکایات کی‬


‫تحقیق کا فیصلہ‬
‫‪ ۲۸‬مئ ‪۲۰۲۱‬‬
‫ویب ڈیسک‬
‫امریکہ میں ٹین ایجرز کو ویکسین لگانے کی اجازت حال ہی میں دی گئی ہے۔ ‪ 13‬مئی‬
‫‪2021‬‬
‫‪ ‬‬
‫امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن‬
‫(سی ڈی سی) کے ایڈوائزری گروپ نے کہا ہے کہ‬
‫کرونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے بعد بعض‬
‫نوجوانوں میں دل کے امراض کی شکایات سامنے‬
‫ٓائی ہیں۔امیونائزیشن پریکٹیسز کے ایڈوائزری کمیٹی‬
‫نے ‪ 17‬مئی کے ایک بیان میں کہا ہے کہ ویکسین‬
‫لگنے کے بعد کچھ نوجوانوں کی رپورٹس سے یہ‬
‫بات سامنے ٓائی ہے کہ ان نوجوانوں میں دل میں سوزش کی شکایات دیکھی گئی ہیں۔‬
‫کمیٹی کے مطابق ان میں زیادہ تر مرد ’ٹین ایجر‘ شامل ہیں۔‬
‫سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ شکایت زیادہ پیچیدگی پیدا کیے بغیر خود بخود ختم ہو جاتی‬
‫ہے اور اس کی وجہ کئی طرح کے وائرس ہو سکتے ہیں۔‬
‫کمیٹی کا کہنا ہے کہ کیسز کی تعداد کسی بھی ٓابادی کے لحاظ سے انتہائی کم ہے لیکن‬
‫طبی عملے کو اس قسم کی پیچیدگی کے بارے میں معلومات ہونی چاہئے۔‬

‫امریکی ریاست الی نوائے میں ایک نوجوان طالب علم ویکسین لگواتے وقت اس کی‬
‫حمایت میں ایک بینر اٹھائے ہوئے ہے۔ ‪ 13‬مئی ‪2021‬‬
‫خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کمیٹی نے اس بارے میں مزید تحقیق کرنے متعلق‬
‫بیان میں مزید کچھ نہیں بتایا۔جانز ہاپکنز ہیلتھ سیکیورٹی کے سینٹر میں سینئر سکالر ڈاکٹر‬

‫| ‪151‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امیش اڈالجا نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ‬
‫ویکسینز کی وجہ سے دل میں سوزش کی بیماری‬
‫’’مائیو کارڈائٹس‘‘\ الحق ہو سکتی ہے۔‬
‫ان کے مطابق یہ جاننا ضروری ہے کہ ان نوجوانوں‬
‫میں اس بیماری کی وجہ کرونا ویکسین ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ‬
‫ان ویکسینز کے فوائد اور نقصانات کی شرح کا جائزہ‬
‫لیا جا سکے۔ ان کے بقول ’’اگر مکمل طور پر تحقیق کی جائے تو بھی ویکسینز ہر لحاظ‬
‫سے اپنے نقصانات کے مقابلے میں زیادہ مفید ثابت ہوں گی۔‘‘‬
‫سی ڈی سی کے مطابق امراض قلب کی یہ شکایت ایم ٓار این اے ویکسین لینے کے چار‬
‫روز بعد سامنے ٓائی۔ ادارے نے اس بات کی تفصیل نہیں دی کہ کس ویکسین کے بعد یہ‬
‫صورت حال پیدا ہوئی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں موڈرنا اور فائزر کی ویکسین ایم ٓار این اے‬
‫ویکسین ہیں جن کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔‬
‫اپریل میں اسرائیل کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ وہ فائزر کی ویکسین لینے والوں میں‬
‫ایک کم تعداد میں دل کی سوزش کی شکایت کی تحقیق کر رہے ہیں۔ وزارت کا کہنا تھا وہ‬
‫ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور یہ کہ جن لوگوں میں یہ شکایت سامنے ٓائی ہے‬
‫ان کی عمر ‪ 30‬برس سے کم ہے۔‬
‫فائزر کا کہنا تھا کہ انہیں ایسی شکایات کی بہت ہی کم اطالعات ملی ہیں اور ابھی تک اس‬
‫کا ویکسین سے تعلق ثابت نہیں ہوا۔رائٹرز\ کے مطابق اس رپورٹ پر تبصرے کے لیے‬
‫فائزر اور موڈرنا سے رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔‬

‫‪https://www.urduvoa.com/a/vaccine-heart-inflammation-‬‬
‫‪cdc/5903993.html‬‬

‫کرونا وائرس‪ :‬بچے کیسے متاثر ہوتے ہیں اور صحت یابی کے بعد کیا‬
‫مسائل ہو سکتے ہیں؟‬

‫‪ ۲۸‬مئ ‪۲۰۲۱‬‬
‫الہور —‪ ‬‬
‫پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری‪ B‬لہر کے دوران جہاں ‪ 18‬سال سے زائد عمر والے‬
‫افراد میں وبا کی تشخیص ہو رہی ہے‪ ،‬وہیں اس مہلک وبا سے بچے بھی متاثر ہو رہے‬
‫ہیں‪ ،‬جن کی اکثریت میں‪ ،‬ماہرین کے مطابق‪ ،‬کرونا کی ظاہری عالمات نہیں ہوتیں۔ البتہ‪،‬‬
‫بچے اس وائرس کو دیگر افراد میں منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔‬

‫| ‪152‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کے مطابق‪ ،‬اس کی وجہ وائرس کی بدلتی اقسام ہیں جس میں وقت گزرنے کے‬
‫ساتھ ساتھ تبدیلیاں ٓا رہی ہیں اور حال ہی میں برطانیہ سے سامنے ٓانے والے وائرس کی‬
‫تشخیص پاکستان میں کی گئی ہے۔‬
‫کرونا وبا سے کتنے بچے متاثر ہوئے؟‬
‫الہور میں قائم چلڈرن اسپتال کے چیئرمین‪ ،‬انسٹیٹیوٹ ٓاف چائلڈ ہیلتھ کے سربراہ اور بچوں‬
‫کے امراض قلب کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس مارچ سے‬
‫اب تک چلڈرن اسپتال میں کرونا سے متاثرہ ‪ 487‬بچے عالج کے لیے الئے گئے جن میں‬
‫وہ بچے شامل نہیں ہیں جنہیں گھروں میں قرنطینہ کیا گیا یا وبا کی تشخیص کے بعد گھر‬
‫بھیج دیا گیا۔‬
‫ان کے مطابق کرونا کی پہلی لہر میں ‪ ،294‬دوسری لہر میں ‪ 42‬اور تیسری لہر میں اب‬
‫تک ‪ 151‬بچے چلڈرن اسپتال میں داخل کیے گئے۔‬
‫خیال رہے کہ الہور میں جن بچوں میں کرونا وبا کی تشخیص ہوتی ہے‪ ،‬انھیں سرکاری یا‬
‫نجی اسپتالوں سے چلڈرن اسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے۔‬
‫کیا کرونا وائرس کی نئی اقسام بچوں کے لیے زیادہ مہلک ہیں؟‬
‫کرونا ایڈوائزری گروپ پنجاب کے سربراہ اور پِیڈ سرجن پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود کا‬
‫کہنا ہے کہ اس چیز کا کوئی سائنسی ثبوت تو موجود نہیں ہے؛ البتہ‪ ،‬الطینی امریکہ کے‬
‫کچھ ممالک‪ ،‬پاکستان اور بھارت سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کرونا کی نئی اقسام سے‬
‫بچے قدرے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‬
‫کس عمر کے بچے زیادہ متاثر؟‬
‫ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق چلڈرن اسپتال میں کرونا سے متاثرہ بچوں میں سے ‪ 21‬فی‬
‫صد بچوں کی عمر ایک سال سے کم‪ ،‬ایک سے پانچ سال کی عمر کے ‪ 27‬فی صد‪ ،‬پانچ‬
‫سے ‪ 10‬سال کے درمیان ‪ 32‬فی صد اور ‪ 10‬سے ‪ 15‬سال کے درمیان عمر والے ‪ 20‬فی‬
‫صد بچے تھے۔‬
‫صحت یاب ہونے کے بعد کے مسائل‬
‫الہور کی رہائشی ‪ 14‬سالہ رادیہ‪ ،‬جو وبا سے صحت یاب ہو چکی ہیں‪ ،‬ان کی والدہ شہنیال‬
‫فرحان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی ‪ 26‬دنوں تک قرنطینہ میں رہی اور کرونا سے صحت‬
‫یاب ہونے کے بعد ابھی بھی اکثر اس کے ہاتھ اور پاؤں سو جاتے ہیں اور جسم میں شدید‬
‫درد ہوتا ہے‪ ،‬جب کہ بخار بھی محسوس کرتی ہے۔‬
‫صحت یاب بچوں میں کاواساکی سنڈروم کی تشخیص‬
‫پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق کرونا وبا نے بچوں کو دو طرح سے متاثر کیا‬
‫ہے۔ ایک تو وہ بچے ہیں جن میں کرونا وبا کی عالمات پائی جاتی ہیں‪ ،‬جب کہ دوسرے وہ‬
‫بچے ہوتے ہیں جو وبا سے صحت یاب ہونے کے بعد 'کاوا ساکی سنڈروم' سے متاثر ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫ماہر اطفال شامل ڈاکٹر مسعود‬
‫ِ‬ ‫پنجاب میں کرونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ میں بطور‬
‫صادق کا کہنا ہے کہ اس سنڈروم سے متاثر ہونے والے بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کے‬
‫| ‪153‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫باوجود جسم کے مدافعتی نظام کا ر ِد عمل کمزور ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کاواساکی‬
‫سنڈروم سے متاثر ہونے والے بچوں میں سے ‪ 30‬سے ‪ 50‬فی صد بچوں کا دل متاثر ہوتا‬
‫ہے۔ ان کی کورنری رگیں اِن الرج ہو جاتی ہیں۔‬
‫’کاواساکی سنڈروم کے کیسز دیگر ممالک میں بھی سامنے ٓا رہے ہیں‘‬
‫کاواساکی سنڈروم سے متعلق پروفیسر شوکت کا کہنا تھا کہ اس سے متاثرہ بچوں میں دماغ‬
‫اور دل کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ہو سکتا ہے جس کا عالج کرونا سے ہٹ کر کیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ان کے بقول‪ ،‬کرونا سے صحت یاب ہونے والے بچوں میں کاواساکی سنڈروم سے متاثر‬
‫ہونے کے کیسز دیگر ممالک سے بھی سامنے ٓا رہے ہیں جس کی وجوہات ابھی تک‬
‫نامعلوم ہیں۔‬
‫برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رواں م\\اہ ‪ 15‬م\\ئی کی ای\\ک رپ\\ورٹ کے مط\\ابق‬
‫امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی) نے ڈاکٹرز کو مذکورہ‬
‫سنڈروم کی تشخیص سے متعلق ہدایات جاری کی تھیں۔‬
‫یہ ہدایات یورپی ممالک فرانس‪ ،‬اٹلی‪ ،‬اسپین اور برطانیہ کے عالوہ امریکہ کی ریاست نیو‬
‫یارک سے رپورٹ کیے جانے والے ‪ 100‬سے زائد کیسز کو م ِد نظر رکھتے ہوئے جاری‬
‫کی گئیں۔‬
‫کاواساکی سنڈ روم سے کس عمر کے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں؟‬
‫ڈاکٹر مسعود صادق کے مطابق کرونا وبا سے صحت یاب ہونے کے بعد کاواساکی سنڈروم‬
‫کا شکار ہونے والے زیادہ بچوں کی عمریں پانچ سے ‪ 17‬سال کے درمیان ہیں۔‬
‫ڈاکٹر مسعود کے مطابق اب تک چلڈرن اسپتال میں کاواساکی سنڈروم سے متاثرہ دو بچوں‬
‫کی اموات ہوئی ہیں‪ ،‬جب کہ دیگر وفات پانے والے ‪ 17‬بچے وہ تھے جو کرونا پازیٹو تو‬
‫تھے‪ ،‬مگر وہ بنیادی طور پر دیگر بیماریوں میں بھی مبتال تھے۔‬
‫کون سے بچے وبا کا شکار ہو سکتے ہیں؟‬
‫ڈاکٹر مسعود صادق کا کہنا ہے کہ ایسے بچے جو عارضہ قلب یا جگر میں مبتال ہیں یا‬
‫ت مدافعت‬ ‫کینسر کا عالج کرا رہے ہیں اور ان کو اسٹیرائیڈز دی جا رہی ہیں یا ان کی قو ِ‬
‫کم ہے وہ وبا سے متاثر ہو سکتے ہیں۔‬
‫ان کے بقول‪ ،‬والدین کو ایسے بچوں کو ضرور محفوظ رکھنا چاہیے کیوں کہ ایسے بچوں‬
‫کو اگر کرونا ہو جائے تو ان کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔‬
‫بچوں میں وبا کی عالمات‬
‫الہور کی یونیورسٹی ٓاف ہیلتھ سائنسز میں شعبہ مائیکرو بائیولوجی کی سربراہ پروفیسر‬
‫سدرہ سلیم کا کہنا ہے کہ پہلے بچے کرونا وائرس سے متاثر ہوتے تھے‪ ،‬تاہم ان میں‬
‫عالمات نہیں پائی جاتی تھیں۔ ان کے بقول‪ ،‬اب بچے معمولی عالمات کے ساتھ اسپتالوں‬
‫میں ٓا رہے ہیں۔ البتہ بچوں میں صحت یابی کی شرح قدرے بہتر ہے۔‬

‫| ‪154‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر مسعود صادق کا کہنا ہے کہ بچوں میں وائرس انفیکشن ہونا معمول کی بات ہے۔‬
‫ایسے میں ڈاکٹروں کے لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ بچوں کا کرونا ٹیسٹ تجویز‬
‫کریں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بچے کو بخار ہو یا اس کا گلہ خراب ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ‬
‫کیا وہ حال ہی میں کسی ایسے فرد سے مال ہے جس میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہو اور‬
‫دوسرا موجودہ حاالت میں فوری طور پر بچے کا ایکسرے اور بلڈ ٹیسٹ کرا لینا چاہیے تا‬
‫کہ وبا کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر کیے جانے کے بعد احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جا‬
‫سکے۔‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/covid19-in-children-and-teens-and-‬‬
‫‪kawasaki-disease-26may2021/590488‬‬

‫پیٹ کی چربی شرطیہ ُگھالنے‪ B‬والی غذائیں کونسی ہیں؟‬


‫مئی ‪24 2021 ،‬‬

‫پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیگر بیماریوں سمیت اضافی وزن اور موٹاپے میں دن بہ دن‬
‫اضافہ دیکھنے میں ٓارہا ہے‪ ،‬اس کی بڑی وجہ ماہرین کی جانب سے انسانی زندگیوں میں ‪ ‬‬
‫دیسی‪ ،‬صاف‪ ،‬سادہ غذأوں کا استعمال کم اور مارکیٹ سے تیار مرغن‪ ،‬تلی ہوئی غذأوں‬
‫اور فاسٹ فوڈ کا استعمال کا بڑھ جانا اور غیر متحرک زندگی کو قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫| ‪155‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی ماہرین کی جانب سے موٹاپے کو سو بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬موٹاپے کے‬
‫نتیجے میں پیش ٓانے والی طبی شکایات میں ہائی بلڈ پریشر‪ ،‬ذیابطیس ٹائپ‪ 1‬اور ٹائپ ٹو‪،‬‬
‫غیر متوازن خون کی روانی‪ ،‬جسمانی اعضاء کی غیر مناسب کارکردگی اور دل کے‬
‫عارضے میں مبتال ہونا سر فہر ست ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق سب سے زیادہ خطرناک انسانی پیٹ کے گرد جمی چربی ہے جس سے‬
‫نجات حاصل کرنا الزم ہے۔‬
‫پیٹ کی گرد جمی چربی کو گھالنے کے لیے ڈائٹنگ اور ورزش جیسے متعدد طریقے‬
‫اپنائے جاتے ہیں جو کہ بے سود نظر ٓا تے ہیں‪ ،‬پیٹ کی چربی گھالنے کا‪  ‬سب سے موثر‬
‫عالج اور طریقہ طرز زندگی بدلنا‪ ،‬غیر متحرک زندگی سے جان چھڑانا اور مثبت خوراک‬
‫کا طویل عرصے تک استعمال کرنا ہے۔‬
‫پیٹ کی چربی ُگھالنے کے لیے کن غذأوں کا استعمال الزمی ہے‬
‫لیموں کا استعمال‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق دن میں ایک لیموں کا استعمال الزمی کریں‪ ،‬بہتر یہ ہے کہ اپنے‬
‫دن کا ٓاغاز نیم گرم لیموں پانی کے استعمال سے کریں‪ ،‬ایک گالس نیم گرم پانی میں لیموں‬
‫کا رس شامل کر کے چٹکی بھر نمک ڈالیں اور پی لیں‪ ،‬اس کا روزانہ استعمال نہ صرف‬
‫جسمانی اعضاء فعال ہوں گے‪  ‬بلکہ ٓاہستہ ٓاہستہ پیٹ بھی کم ہوگا۔‬
‫روٹین سے چینی‪ ،‬شکر ‪ ،‬مٹھاس نکال دیں‬
‫سفید چینی‪ ،‬شکر اور برأون شوگر اور اس سے بنی اشیاء سے پرہیز بہت ضروری ہے‪،‬‬
‫سافٹ ڈرنکس بھی انہی میں شامل ہیں جن سے حتی االمکان بچنا چاہیے‪ ،‬دوسری جانب‬
‫شکر والے مشروبات میں مٹھاس سمیت دیگر مضر صحت اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو‬
‫کہ پیٹ اور رانوں پر چربی بڑھاتے ہیں۔‬
‫پانی کا زیادہ استعمال‬
‫کمر کی چوڑائی کم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو زیادہ پانی پینا بھی اس کا ایک بہترین عالج‬
‫ہے‪ ،‬پانی خون میں شامل چکنائی اور اضافی شوگر کو زائل کرتا ہے ‪ ،‬زیادہ پانی پینے‬
‫سے جسم میں موجود زہریلے مادے بھی خارج ہوتے رہتے ہیں۔‬
‫لہسن کا استعمال‬
‫صبح دیسی لہسن کا ایک یا دو جوے کھانے بہت مفید ہیں‪ ،‬اگر لہسن کا جوا چھیل کر اسے‬
‫چمچے سے پیس کر کھایا جائے اور ساتھ ہی اس پر لیموں کا پانی پی لیا جائے تو ایک‬
‫جانب تو خون کی روانی بہتر ہوتی ہے اور دوسری جانب پیٹ کی چربی کم کرنے میں مدد‬
‫ملتی ہے۔‬
‫گریوں اور میووں کا استعمال‬
‫توند کی چربی گھٹانے کا ایک موثر ذریعہ ایسے فائبر کو اپنی غذا کا حصہ بنانا ہے جو کہ‬
‫ٓاسانی سے جذب ہوسکے‪ ،‬ایسا فائبر زیادہ تر ڈرائے فروٹ یعنی گریوں اور خشک میوہ‬
‫جات میں پایا جاتا ہے۔‬

‫| ‪156‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق باداموں کی کچھ مقدار روزانہ کھانا جسمانی میٹابالزم کو‬
‫بہتر بناکر موٹاپے اور توند سے نجات دالنے میں مدد فراہم کرتا ہے‪ ،‬ہر روز ‪ 15‬سے ‪17‬‬
‫بادام ضرور کھائیں‪ ،‬چھلکا اتار کر کھانا زیادہ مفید ہے۔‬
‫بادام دل کی صحت کو بہتر بنانے سمیت بے وقت کی بھوک کو کنٹرول کرتے‪  ‬ہیں‪ ،‬اس‬
‫میں موجود مونوسیچوریٹیڈ فیٹس توند گھٹانے میں مدد دیتے ہیں‪ ،‬ایک تحقیق کے مطابق‬
‫روزانہ چند بادام کھانا بہت تیزی سے جسمانی وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔‬
‫کیلوں کا استعمال‬
‫کیلے پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ بلڈ پریشر اور خون کی شریانوں کی صحت‬
‫بہتر بنانے واال جز ہے‪ ،‬کیلوں میں موجود وٹامنز بے وقت کھانے کی خواہش پر قابو پانے‬
‫‪ ‬میں مدد دیتے ہیں۔‬
‫کیلے کھانے سے میٹابا لزم ریٹ بھی بڑھتا ہے جو کہ توند کی چربی تیزی سے گھالنے‬
‫میں مدد دیتا ہے۔‬
‫دالیں‬
‫دالوں میں پروٹین اور فائبر کافی زیادہپایا جاتا ہے‪ ،‬اس کے عالوہ دالوں کے استعمال سے‬
‫جسم کو ٓائرن کی مطلوبہ مقدار بھی ملتی ہے‪ ،‬دال کا استعمال یعنی کے سپر فوڈ کا استعمال‬
‫ہے‪ ،‬دال ایک مکمل غذا ہے‬
‫سبز چائے‬
‫سبز چائے پینا کمر اور پیٹ کی چربی کو گھالتا ہے‪ ،‬اس میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹس‬
‫‪ ‬جسمانی توانائی بڑھانے‪ ،‬ہاضمہ بہتر کرنے اور چربی گھالنے کا عمل تیز کرتا ہے۔‬
‫سبز چائے پینے سے موٹاپے سے نجات کی رفتار تیز ہو جاتی ہے ۔‬
‫ایک تحقیق کے مطابق دن میں ‪ 2‬سے ‪ 3‬کپ سبز چائے کے استعمال سے چند دنوں میں‬
‫ڈیڑھ کلو تک وزن کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/931180‬‬

‫ایلوویرا کے صحت اور خوبصورتی سے متعلق فوائد‬


‫مئی ‪25 2021 ،‬‬

‫صدیوں سے مختلف شکایات میں بطور عالج استعمال کی جانے والی ایلوویرا\ (گھیکوار)‬
‫ایک قدرتی جڑی بوٹی ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے بغیر کسی نقصان کے بے شمار فوائد‬
‫حاصل کیے جا سکتے ہیں‪ ،‬ایلوویرا صحت میں اضافے‪ِ ،‬جلد اور بالوں کی خوبصورتی‬
‫بڑھانے کے لیے نہایت مفید پودا ہے۔‬
‫ایلوویرا کو کنوار گند کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‪ ،‬ایلو ویرا کو کرشماتی پودا قرار دیا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اس میں وٹامن سی‪ ،‬اے‪ ،‬ای‪ ،‬بی ‪ 12‬اور متعدد منرلز بھی پائے جاتے ہیں‪،‬‬

‫| ‪157‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایلوویرا تازہ توڑ کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ مارکیٹس میں کاسمیٹک کی‬
‫صورت میں بھی ایلوویرا\ جیل دستیاب ہوتا ہے‬

‫ایلوویرا جیل کا استعمال وزن میں کمی النے‪ ،‬پیٹ کی چربی تیزی سے گھالنے‪ ،‬بالوں اور‬
‫جلد کی خوبصورتی بڑھانے میں کتنا معاون ہے یہ جان کر ٓاپ بھی اس کا پودا اپنے گھر‬
‫میں ٓاج ہی لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے صحت اور خوبصورتی پر بے شمار فوائد حاصل کرنے کے ‪5‬‬
‫‪ :‬طریقے درج ذیل ہیں‬
‫‪ ‬نرم مالئم‪ ،‬پرسکون‪ ،‬بے داغ ِجلد‬
‫ایلوویرا جیل میں امینو ایسڈز پائے جاتے ہیں جس کے سبب اس کے استعمال سے جلد‬
‫قدرتی طور پر موسچرائز رہتی ہے اور جھریوں کے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے‪ ،‬اس‬
‫کے پودے میں موجود امینو ایسڈ اور کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس مل کر ِجلد کے لیے ایک‬
‫مفید ہائیڈریٹنگ ایجنٹ بناتے ہیں جس کے سبب ایلوویرا\ کے ا ستعمال سے ِجلد ہائیڈریٹڈ‬
‫رہتی ہے‬

‫وٹامن سی‪ ،‬ای اور بیٹا کیروٹین کی موجودگی سے جلد کے خلیے صحت مند ہوتے ہیں اور‬
‫چہرے کی جلد سے جھریوں کا خاتمہ ہوتا ہے‪ ،‬ایلوویرا بغیر کسی چکناہٹ کے اسکن کو‬
‫موسچرائز بھی رکھتا ہے اور یہ بہترین اور قدرتی سن اسکرین ہے۔‬
‫ایلوویرا زخم کو جلد بھرنے میں مدد دیتا ہے‬

‫| ‪158‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے زخم جلدی بھر جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال جلد پر گہرے‬
‫نشانات بھی نہیں پڑنے دیتا‪ ،‬جلد کے جلنے کی صورت میں بھی بار بار ایلوویرا جیل‬
‫لگانے سے زخم جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے۔‬
‫ایلوویرا کا استعمال جلد میں ’کالجین ‘ کی مقدار بڑھاتا ہے جس کے سبب متاثر جلد کو‬
‫جلد نئے خلیے بنانے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫گرتے بالوں کو روکتا ہے ‪ ،‬بالوں کو َجلدی لمبا کرتا ہے‬
‫بالوں کا جھڑنا ٓاج کل ہر دوسرے فرد کا مسئلہ ہے‪ ،‬جھڑتے بالوں کو روکنے کے لیے‬
‫ایلوویرا کا استعمال نہایت مفید ہے‪ ،‬ایلوویرا\ میں موجود ’پروٹیو الئیٹک انزائمز‘ متاثرہ‬
‫بالوں کے خلیوں کی مرمت کرنے میں مدد دیتا ہے اور بال ٹوٹنے یا گرنے کے بجائے‬
‫صحت مند ہونا شروع ہو جاتے ہیں‪ ،‬ایلوویرا بالوں کے لیے قدرتی کنڈیشنر بھی ہے‬

‫ایلوویرا کے استعمال سے سر کی جلد سے خارش‪ ،‬خشکی کا بھی خا تمہ ہوتا ہے‪ ،‬ڈائے‬
‫کیے ہوئے بالوں کے لیے ایلوویرا کا جیل ہفتے میں دو بار استعمال کرنے سے بالوں کی‬
‫قدری چمک اور مرجھائے ہوئے روکھے بالوں میں جان ٓا جاتی ہے۔‬
‫دانتوں کو ’ پالق اور کیویٹیز‪ ‘ B‬سے بچاتا ہے‬
‫ایلوایرا جیل میں دانتوں کے متعدد مسائل کا بھی حل ہے‪ ،‬ایلوویرا جیل کے استعمال سے‬
‫دانتوں سے خون ِرسنے‪ ،‬سوجن ‪ ،‬پالق اور کیویٹیز کا عالج بھی کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ایلوویرا جیل سے برش کرنے کے نتیجے میں دانتوں کو کیڑا لگنے سے بھی بچایا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫سن اسکرین‘ ہے‬ ‫ایلوویرا قدرتی ’ َ‬
‫ایلوویرا کے استعمال سے سورج کی شعأوں سے بچا جا سکتا ہے‪ ،‬گھر سے باہر نکلنے‬
‫سے پہلے اگر ایلوویرا\ جیل لگا لیا جائے تو ’ َسن بالک‘ یا ’ َسن اسکرین ‘ کی ضرورت‬
‫سے بچاتا ہے۔ )‪ (UV rays‬نہیں پڑتی ہے‪ ،‬ایلوویرا\ جیل کا استعمال الٹرا وائلٹ ریز‬
‫ایلوویرا جیل میک اپ سیٹنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے‬
‫چہرے پر چکناہٹ بھی نہیں ٓاتی اور نہ ہی اس کی کوئی بو ہے‬

‫وزن میں کمی کے لیے بہترین مشروب‬


‫ایلو ویرا کا استعمال جہاں بے شمار فوائد کا حامل ہے وہیں اسے براہ راست کھانے یا اس‬
‫کا مشروب بنا کر پینے سے پیٹ کے گرد جمی ضدی چربی زائل ہوتی ہے اور مجموعی‬
‫وزن میں کمی بھی ٓا تی ہے۔‬
‫جسمانی وزن میں کمی کے خواہشمند افراد اسے بطور مشروب روزانہ صبح نہار منہ‬
‫استعمال کر سکتے ہیں۔‬
‫جسمانی وزن کم کرنے کے لیے ایلویرا کے ‪ 3‬سے ‪ 4‬انچ کے ٹکڑے سے سفید لیس دار‬
‫مادہ نکال کر ایک عدد کھیرے کے ساتھ گرائینڈ کر کے پی لیں‪ ،‬ذائقہ بہتر بنانے کے لیے‬

‫| ‪159‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس میں لیموں کا رس یا پھر کوئی اور سبزی جیسے کے بند گوبھی اور گاجر بھی شامل‬
‫کی جا سکتی ہے۔‬
‫ایلوویرا جیل میں بغیر کوئی سبزی شامل کیے سادہ پانی میں گرائینڈ کر کے بھی استعمال‬
‫کیا جا سکتا ہے‬
‫ایلوویرا جیل ٓانتوں کی صفائی کے لیے بہترین ٓاپشن ہے‪ ،‬معدے کی جلن سے فوراً‬
‫چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ایلو ویرا جیل کو گرائینڈ کر کے (ٓادھا گالس) کھانے سے‬
‫پہلے پی لیں‪ ،‬پیٹ سے متعلق امراض کا خاتمہ ہو جائے گا۔‬
‫‪ ‬ایلوویرا کے صحت پر دیگر فوائد‬
‫ایلوویرا جیل کا براہ راست استعمال میٹابالزم تیز کرتا ہے‪ ،‬قبض سے بچاتا ہے‪ ،‬کولیسٹرول‬
‫لیول متوازن بناتا ہے‪ ،‬جوڑوں کے درد سے نجات دالتا ہے اور زہریلے مادوں کاجسم سے‬
‫اخراج ممکن بناتا ہے۔‬
‫ایلوویرا خون کی کمی دور کرنے میں بھی مٔوثر ہے‪ ،‬ماہرین کے مطابق ایلوویرا جگر کی‬
‫خراب کارکردگی بھی بہتر بناتا ہے‪ ،‬اس کا یرقان کے مریض کو بطور دوا استعمال کرایا‬
‫جا سکتا ہے۔رات سونے سے قبل دو چمچ ایلوویرا کا گودا کھانے کے نتیجے میں قبض‬
‫اور بواسیر دونوں مسائل سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔روزانہ ایک چمچ ایلوویرا‬
‫کا گودا کھانے سے جوڑوں کا درد‪  ‬ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬

‫‪https://jang.com.pk/news/931819‬‬

‫| ‪160‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۲۴| ۱۲۶‬مئ ۔ ‪ ۳۰‬مئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی تحقیقات‬
‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

You might also like