You are on page 1of 113

‫ویکلیوار‬

‫ویکلی‬‫ہفتہ‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫‪Issue‬‬ ‫‪140 – Vol. 5 Editor‬‬
‫‪Managing‬‬
‫تحقیقات ‪30 Aug.21 – 05‬‬ ‫ویکلی طِ ّبی‬
‫‪Sep. 2021‬‬
‫‪Mujahid Ali‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال ہفتہ‬
‫وارجریدہ‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫‪Managing Editor‬‬

‫‪Mujahid Ali‬‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬

‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫جلد ‪،۵‬شمار ‪۱۴۰‬‬


‫اگست ‪ ۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر ‪۳۰ ۲۰۲۱‬‬
‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ت‬
‫حق ق‬
‫طِب ّی ی ات‬

‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬


‫سرپرست‪:‬محمدعثمان‬
‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬
‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری‬
‫اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں‬
‫تقریبا پورے پاکستان میں اسکی سرکولیشن کی جاتی‬
‫ہے اورآپکے کاروبار‪ ،‬پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ‬
‫ادارتی ممبران‬
‫کابہترین ذریعہ ہے‬

‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬


‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تفصیل‬
‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیمن گراس کے استعمال سے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے؟‬

‫ستمبر‪04 2021 ، J‬‬

‫طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کی جانے والی صحت کے لیے مفید جڑی بوٹی ’لیمن گراس‘‬
‫کو دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے مجموعی صحت پر بے شمار‬
‫طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جن سے متعلق جاننا اور لیمن گراس کو اپنی روزمرہ کی روٹین میں‬
‫شامل کرنا بے حد ضروری ہے۔‬
‫لیمن گراس کی افزائش کا مقام برصغیر پاک و ہند ہے‪ ،‬اس جنگلی جڑی بوٹی سے لیموں جیسی‬
‫خوشبو ٓاتی ہے‪ ،‬لیمن گراس کو عام طور پر کشمیری چائے‪ ،‬قہوے‪ ،‬مرغی‪ ،‬مچھلی اور سبزیوں‬
‫سے بنے سوپ اور شوربے والے پکوان میں استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬لیمن گراس بے شمار‬
‫بیماریوں سے نجات کا سبب بنتی ہے اسی لیے اسے دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق کھانسی اور ناک کی بندش کے عالج میں لیمن گراس کا قہوہ‬
‫فوری اور دائمی ٓارام کا سبب بنتا ہے‪ ،‬لیمن گراس میں‪  ‬کینسر کے خلیات کو ختم کرنے کی‬
‫صالحیت موجود ہے اسی لیے اسے مختلف کینسر کے عالج میں بھی مفید پایا گیا ہے۔‬
‫لیمن گراس کا استعمال کیسے کیا جائے؟‬
‫لیمن گراس کا قہوہ اکثر گھروں میں‪  ‬عام ہے جبکہ کچھ افراد لیمن گراس کی افادیت اور اس کی‬
‫موجودگی دونوں سے ہی العلم نظر ٓا تے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق سلم اور اسمارٹ نظر ٓانے‪ ،‬صاف شفاف ِجلد کے حصول کے لیے لیمن گراس‬
‫کا قہوہ بے حد مفید ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چربی پگھالنے کے لیے اس کی تاثیر جادوئی ہے‪ ،‬لیمن گراس سے بنے قہوے کا باقاعدگی سے‬
‫استعمال کرنے کے نتیجے میں یہ پیٹ‪ ،‬کولہوں اور بازؤوں پر جمی چربی پگھالنے میں مدد دیتا‬
‫ہے مگر اس کے قہوے کا زیادہ استعمال گردوں کے لیے مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔‬
‫لیمن گراس سے بنا قہوہ نظام ہاضمہ کی کارکردگی اور میٹا بالزم کے نظام کو بہتر بناتا ہے‪،‬‬
‫عالوہ ازیں یہ قبض ُکشا اور گیس سے بھی نجات کا سبب بنتا ہے۔‬
‫لیمن گراس کے قہوے کا استعمال موسمی بیماریوں‪ ‬میں بھی مفید ثابت ہوتا ہے جیسے کہ بخار‪،‬‬
‫کھانسی اور سردی لگنے کی صورت میں لیمن گراس کا قہوہ شہد مال کر استعمال کیا جا سکتا‬
‫ہے۔‬
‫لیمن گراس سے بنے قہوے کے باقاعدگی سے استعمال کے نتیجے میں ذہنی تنأو‪ ،‬بلڈ پریشر‪ ،‬‬
‫شوگر لیول اور کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/979878‬‬

‫مونگ پھلی کے کرشماتی فوائد‬


‫ستمبر‪05 2021 ، J‬‬

‫مونگ پھلی کو بیشتر لوگ سرد موسم میں رات کے وقت کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں‪ ،‬اس کے‬
‫‪ ‬کھانے سے آپ کو صحت کے حیرت انگیز فوائد بھی ملتےہیں۔‬
‫مونگ پھلی کئی غذائی اجزاء سے لدی ہوتی ہے‪ ،‬مٹھی بھر مونگ پھلی کا استعمال آپ کو ایک‬
‫ساتھ کئی غذائی اجزاء دیتا‪  ‬ہے لہٰ ذا ماہرین کہتے ہیں کہ اچھے ذائقے سے لطف اندوز ہونے اور‬
‫حیرت انگیز فوائد حاصل کرنے کے لیے مونگ پھلی کو الزمی اپنی خوراک میں شامل کریں۔‬
‫‪:‬مونگ پھلی کے فوائد‬

‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪:‬پروٹین‪ J‬کا بہترین ذریعہ‬


‫گرام مونگ پھلی میں تقریبا َ ‪ 25‬سے ‪ 25.8‬گرام پروٹین ہوتا ہے۔ پروٹین انسانی جسم کے ‪100‬‬
‫لیے ضروری ہے‪ ،‬مونگ پھلی کو محدود مقدار میں کھانے سے آپ کو پروٹین ملے گا‪ ،‬مونگ‬
‫پھلی کا مکھن بھی پروٹین کا ایک معروف ذریعہ ہے۔‬
‫‪:‬وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے‬
‫مونگ پھلی میں چربی کی مقدار کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں وزن کم کرنے میں مدد مل‬
‫سکتی ہے مگر اس کا اعتدال میں استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ پروٹین اور فائبر سے بھری ہوئی‬
‫ہوتی ہے جو وزن کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔‬
‫ب صحت کو فروغ دیتی ہے‬ ‫‪:‬قل ِ‬
‫مونگ پھلی آپ کو مختلف عوامل پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہے‪  ،‬یہ آپ کو دل کی بیماریوں‬
‫کے خطرے سمیت کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے‪ ،‬یہ ٓاپ کی دل کی‬
‫صحت کو بہتر بنانے میں بھی مدد کر تی ہے۔‬
‫‪:‬بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول کرتی ہے‬
‫مونگ پھلی ایک کم گلیسیمک خوراک ہے جو اسے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچھا بناتی‬
‫ہے۔ گلیسیمیک انڈیکس بلڈ شوگر لیول پر کھانے کے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ ذیابیطس کے‬
‫مریض اپنی ذیابیطس کی خوراک میں مونگ پھلی کو محدود مقدار میں شامل کر سکتے ہیں۔ غذا‬
‫میں سادہ تبدیلیاں آپ کو بلڈ شوگر لیول کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی‬
‫ہیں۔‬
‫‪:‬بہت سے معدنیات اور وٹامنز سے لدے ہوئے‬
‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مونگ پھلی کئی ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے۔ یہ آپ کو پروٹین‪ ،‬اومیگا ‪،3‬‬
‫اومیگا ‪ ،6‬فائبر‪ ،‬تانبا ‪ ،‬فولیٹ‪ ،‬وٹامن ای‪ ،‬تھامین‪ ،‬فاسفورس اور میگنیشیم پیش کر سکتی ہے۔ یہ‬
‫آپ کو ایک ساتھ کئی غذائی اجزاء مہیا کر سکتی ہے۔‬

‫‪https://jang.com.pk/news/980304‬‬

‫ٹماٹر کے استعمال کے صحت پر مثبت اثرات‬

‫ستمبر‪01 2021 ، J‬‬

‫ٹماٹر کھانے میں ناصرف ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ صحت کے لیے‬
‫بھی مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس میں وٹامن اور منرلز کی بھرپور مقدار پائی جاتی ہے جس‬
‫میں وٹامن اے‪ ،‬سی‪ٓ ،‬ائرن اور نمکیات کی بھرپور مقدار سرفہرست ہے‪ ،‬اسی لیے اس کے‬
‫استعمال سے صحت پر بے شمار طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫ٹماٹر ایسی غذا ہے جسے سالد کے طور پر کچا اور ہر سالن‪  ‬میں استعمال کیا جاتا ہے ‪،‬‬
‫اس سے بننے والی چٹنیاں نہایت شوق سے کھائی جاتی ہیں‪ ،‬اس کی تاثیر ٹھنڈی اور اس‬
‫کے استعمال سے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے‪ ،‬خون پتال ہوتا ہے اور خون میں‪ ‬موجود‬
‫الل خلیوں کی افزائش ہوتی ہے‪ ،‬خون کی کمی کی شکایت بھی دور ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ٹماٹر ایک ایسی غذا ہے جس کا استعمال غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے‪،‬‬
‫کہا جاتا ہے کہ خالص ٹماٹروں سے بننے واال کیچ اپ بچوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا‬
‫ہے اسی لیے بچوں کو اس کا باقاعدگی سے استعمال کروایا جا سکتا ہے۔‬
‫‪:‬ٹماٹر کے استعمال سے صحت پر ٓانے والے دیگر مثبت اثرات مندرجہ ذیل ہیں‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق ٹماٹر خواتین کی صحت کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں‪،‬‬
‫ٹماٹر تولیدی صحت کے لیے بہترین غذا ہے‪ ،‬لہٰ ذا خواتین کو تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ‬
‫ٹماٹر کا روزانہ کی بنیاد پر استعمال کریں‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق دودھ پالنے والی مأوں کے لیے ٹماٹر بے حد مفید غذا‬
‫ہے‪ ،‬ٹماٹر کھانے سے دودھ پالنے والی ماں کا خون صاف ہو جاتا ہے اور نتیجتا ً اس کا‬
‫مثبت اثر براہ راست بچے کی صحت پر پڑتا ہے۔‬
‫ٹماٹر‪  ‬کینسر کے خلیات کی افزائش کو روکتا ہے‪  ،‬اسی لیے ماہرین کی جانب سے ٹماٹر‬
‫کا سوپ پینے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے ۔‬
‫ٹماٹر ِجلدی امراض مثالً کیل‪ ،‬مہاسوں ‪ ،‬دانوں‪ ،‬ایکنی اور جھائیوں کے لیے نہایت مفید‬
‫ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے رنگت بھی تیزی سے صاف ہوتی ہے۔‬
‫جلد شفاف بنانے اور رنگ ِدنوں میں نکھارنے کے لیے ٹماٹر کے استعمال کا ایک طریقہ‬
‫یہ ہے کہ ٹماٹروں کا چھلکا اتاریں اور چھلکے کو اپنے چہرے‪ ،‬گردن اور بازؤوں پر‬
‫بطور ماسک لگا لیں‪ ،‬دس منٹ تک یہ چھلکا اپنے چہرے پر لگا رہنے دیں‪ ،‬بعد ازاں چہرہ‬
‫دھولیں ۔‬
‫اس کے عالوہ ٹماٹر کا گودا بنا کر بھی چہرے پر لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫ٹماٹر شوگر کی سطح کو بھی متوازن کرتا ہے‪ ،‬انسولین کے خالف مزاحمت کم کرتا ہے‬
‫اور شوگر کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی افادیت بڑھاتا ہے۔‬
‫جوڑوں اور پٹھوں کے درد میں ٓارام کے لیے ٓارتھرائٹس کا شکار افراد کے لیے ٹماٹر کا‬
‫استعمال تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق ٹماٹر کھانے سے بھوک میں اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬کھانے سے کچھ دیر‬
‫قبل ٹماٹر کے سالد کا استعمال حیرت انگیز نتائج دیتا ہے‪ ،‬ٹماٹر میں موجود ہاضمے کے‬
‫لیے وٹامن اور نمکیات معدے کی رطوبتیں خارج کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‪ ،‬اس‬
‫کے نتیجے میں بھوک زیادہ لگتی ہے اور کھانا بھی با ٓاسانی ہضم ہو جاتا ہے۔‬
‫ٹماٹر میں وٹامن اے کی موجودگی کے باعث یہ انسان کے جسمانی خلیوں کو پہنچنے‬
‫والے نقصان کی روک تھام کرتا ہے اور ٓانکھوں کی روشنی بھی تیز کرتا ہے۔‬
‫حاملہ خواتین کے لیے طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ صبح ایک ٹماٹر‬
‫کا جوس الزمی پئیں‪ ،‬یہ صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔‬
‫ٹماٹر کا جوس پینے سے معدہ اور نظام ہاضمہ درست کام کرتا رہتا ہے اور قے‪ ،‬متلی‬
‫وغیرہ کی شکایت بھی دور ہو جاتی ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/978413‬‬

‫کورونا کی ایک نئی قسم’’مو‘‘نےخطرے کی گھنٹی بجادی‬

‫‪01/09/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫جنیوا(نیوز ڈیسک ) ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ کورونا کی ایک نئی قسم ’’مو‘‘پر‪ š‬ویکسین‬
‫بھی موثر نہیں‪ ،‬سمجھنے کیلئے مزید تحقیق کرنا ہوگی۔عالمی ‪ ‬میڈیا کی رپورٹ‬

‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کےمطابق ‪’’ ‬مو‘‘نامی نئے کورونا ویرئنٹ کا سائنسی نام ’بی‪ ‘1.621.‬ہے جس کے‬
‫حوالے سے عالمی ادارہ صحت‬

‫نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہےکہ ’’مو‘‘ ویریئنٹ میں ہونے‬
‫والی جنیاتی تبدیلیوں کے خالف ویکسین کے مٔوثر نہ ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ تاہم‬
‫عالمی ادارہ صحت نے زور دیا ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کو سمجھنے کے لیے مزید‬
‫تحقیق کی ضرورت ہے۔ مو وائرس کی عالمی سطح پر موجودگی کی شرح ‪ 0.1‬فیصد سے‬
‫کم ہے جبکہ کولمبیا میں ‪ 39‬فیصد ہے۔ مو وائرس کی کولمبیا میں شناخت کے بعد یورپ‬
‫اور دیگر جنوبی امریکی ممالک میں بھی اس کے کیسز سامنے ٓائے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے‬
‫مطابق مو وائرس میں مدافعتی عمل کو نظر انداز کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یاد‬
‫رہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ نے ان افراد کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جنہوں نے ویکسین نہیں‬
‫لگوائی ہوئی تھی یا جن عالقوں میں وائرس سے بچأو کے حفاظتی اقدامات پر سختی سے‬
‫عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔عالمی ادارہ صحت کووڈ ‪ 19‬کی چار اقسام کی شناخت کر چکا ہے‬
‫جن میں سے ایلفا ‪ 193‬ممالک میں جبکہ ڈیلٹا وائرس ‪ 17‬ممالک میں موجود ہے۔ جبکہ‬
‫’’مو‘‘‪ š‬سمیت دیگر پانچ اقسام کو فی الحال مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-121426.html‬‬

‫بالوں کو رنگتے ہوئے ان غلطیوں سے بچیں‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪1 2021‬‬
‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اکثر لوگ بالوں کا رنگ تبدیل کرتے ہوئے بہت سی غلطیاں کرجاتے ہیں جس سے‬
‫ناصرف بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے بلکہ آپ نئے ہیئر‪ J‬کلر سے مطمئن بھی نہیں ہوتے۔‬
‫اسی ضمن میں چند ایسی غلطیاں ہیں جن کی نشان دہی کی گئی اور ساتھ مفید مشورے بھی‬
‫دیے گئے ہیں جو بالوں کو رنگتے ہوئے آپ کے کام آئیں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہیئر‬
‫کلر کے لیے تجربے اور معلومات درکار ہوتی ہیں‪ ،‬اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ‬
‫کونسا کلر آپ پر جچے گا اور کس سے آپ برے لگیں گے۔‬

‫ہیئر سلون‬
‫کئی لوگ خود سے ہی بالوں کو رنگتے ہیں‪ ،‬ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن اس کے لیے آپ‬
‫مفید معلومات حاصل کریں جس کے بعد تجربے کے میدان میں اتریں کیوں کہ اکثر افراد‬
‫ہیئر سلون نہ جاکر اپنی تئیں آزمائش کی کوشش کرتے ہیں جس سے بعض اوقات غلطیاں‬
‫سرزد ہوتی ہیں‪ ،‬سلون میں موجود ماہرین تجربہ کار ہوتے ہیں۔‬
‫ماہرین پر اندھا اعتماد‬
‫لوگوں کو بالوں کے ماہرین پر اندھا اعتماد بھی نہیں کرنا چاہیے‪ ،‬آپ اس رنگ کا انتخاب‬
‫کریں جو مناسب لگتا ہو‪ ،‬ہاں البتہ ماہرین کی کلر سے متعلق رائے جاننے میں کوئی ہرج‬
‫نہیں ہے۔‬
‫گہرے رنگ کا انتخاب‬
‫ماہرین کا ماننا ہے کہ زیادہ گہرے رنگ چہرے کی رنگت کو ماند کردیتے ہیں‪ ،‬لہذا ایسے‬
‫کلر کو چنے جو آپ کے چہرے کے رنگ سے ہلکا ہو‪ ،‬اور آئی برو کا بھی خیال رکھیں‪،‬‬
‫ایسا کلر نہ لگائیں یا لگوائیں جو آئی برو سے زیادہ گہرے ہوں۔‬
‫مستقل رنگ اپنانا‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بالوں پر مستقل کے لیے ایک ہی رنگ لگوانے سے قبل عارضی کلروں کا مشاہدہ کرلیں‪،‬‬
‫بعض اوقات مستقل بنیاد پر ہونے والے رنگ وہ نتائج نہیں دیتے جن کی توقع کی جارہی‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫گھر پر بالوں کو رنگنا‬


‫ماہرین کا کہنا ہے کہ بالوں کا رنگ ہلکا کرنا ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے اس کے لیے‬
‫کی مہارت کی ضرورت ہے‪ ،‬گھر پر رنگ لگانے سے بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے‪ ،‬خاص‬
‫طور پر اگر بالوں کا رنگ دو ڈگری سے زیادہ ہلکا ہو جائے تو نقصان کا باعث بن سکتا‬
‫ہے‪ ،‬لہذا کوشش کریں کہ آپ اچھا تجربہ رکھتے ہوں یا پھر سلون جائیں۔‬
‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جلد اور آنکھوں کا رنگ‬


‫بالوں کا قدرتی رنگ عام طور پر جلد اور آنکھوں کے رنگ جیسا ہوتا ہے‪ ،‬بالوں کے‬
‫رنگ کا ناقص انتخاب جلد کو پھیکا یا بے جان بنا سکتا ہے جبکہ آنکھوں کو تھکا ہوا اور‬
‫چمک سے خالی بنا سکتا ہے۔‬

‫بہتر نتائج کا نہ ملنا‬


‫متوقع رنگ حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے‬
‫اوپر کوئی اور رنگ نہ لگائیں‪ ،‬بلکہ بالوں کے لیے ہلکا پھلکا شیمپو اپنائیں جس سے‬
‫مختصر عرصے میں نتائج بہتر ہوں گے۔‬

‫عارضی رنگ کی تبدیلی‬


‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بالوں کا کلر ایک وقت کے بعد مدھم ہونا شروع ہوجاتا ہے‪ ،‬عارضی بالوں کا رنگ منتخب‬
‫کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہے گا اور یہ بالوں کے بار بار دھونے سے‬
‫غائب ہو جاتا ہے۔‬

‫مہندی کا سہارا‬
‫بالوں کے ماہرین کے مطابق مہندی کو قدرتی اجزا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو بالوں‬
‫کا رنگ بدلنے میں مدد کرتا ہے لیکن اس فیلڈ میں تجربے کی کمی کی صورت میں اس کا‬
‫اطالق پیچیدہ ہے اور اس کی درخواست میں آسانی کی وجہ سے اسے نیم مستقل رنگنے‬
‫کے ساتھ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔‬
‫بالوں کی حالت کا خیال‬
‫ہیئر کو کلر کرنے سے قبل اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ کے بال مضبوط اور‬
‫مستحکم ہونے چاہئیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/avoid-these-mistakes-when-dyeing-your-hair/‬‬

‫!میٹھا سوڈا کینسر کا مفید عالج ثابت ہوسکتا ہے‬

‫‪ ‬ریحان عابدی‬
‫ستمبر ‪ 1 2021‬‬

‫کینسر جیسے موذی مرض سے بچاؤ کیلئے ماہرین نے بیکنگ سوڈا سے نیا طریقہ عالج‬
‫دریافت کرلیا ججو سرطان کو قابو کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫طبی ماہرین جانتے ہیں کہ کینسر کی رسولیوں کا بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جہاں ٓاکسیجن‬
‫نہیں پہنچتی اور اسی وجہ سے ان مقامات کا عالج کرنا مشکل ہوتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خلیے کو جب مناسب ٓاکسیجن نہیں ملتی تو وہ ایک خاص حالت میں چال جاتا ہے جسے‬
‫کوشنٹ اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔‬
‫اس موقع پر ایم ٹی او ٓار سی ون نامی ایک مالیکیولر سوئچ خلیے کی صورتحال کا جائزہ‬
‫لے کر بتاتا ہے کہ خلیے کو تقسیم ہونا ہے یا نہیں۔ اگر ایم ٹی او ٓار سی‪ 1‬موجود نہ ہو تو‬
‫خلیہ کا اندرونی کام ٹھپ ہوجاتا ہے اور سرطانی رسولی کے اندر اس مالیکیول کی‬
‫سرگرمی ختم ہوجاتی ہے اور بیکنگ سوڈا سرگرمی کو دوبارہ سے شروع کرتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف پنسلوانیا کی تحقیق میں ماہرین نے میٹھے سوڈے سے کینسر کا عالج‬
‫دریافت کیا ہے جس کی مدد سے کینسر کا عالج ممکن ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ بیکنگ سوڈے میں ٓاٹو امیون امراض سے مقابلے کی صالحیت‬
‫موجود ہوتی ہے‪ ،‬بیکنگ سوڈا کو اگر پانی میں مال کر کینسر کے مریض کو پالیا جائے تو‬
‫عالج کی نئی راہیں کھلیں گیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sweet-soda-can-be-a-useful-treatment-for-‬‬
‫‪cancer/‬‬

‫اخروٹ کھائیں کولیسٹرول بھگائیں اور دل توانا رکھیں‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬منگل‪ 31  ‬اگست‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسپین میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اخروٹ کا باقاعدہ استعمال خون میں‬
‫ایل ڈی ایل کولیسٹرول کے باریک ترین ذرات کی تعداد کو بھی کم کرتا ہے۔‬
‫نظام خون‬‫ِ‬ ‫اسپین‪ :‬اگرچہ سائنسی تحقیقات بتاتی ہیں کہ اخروٹ کھانے سے دل‪ ،‬دماغ اور‬
‫کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور اب اس ضمن میں مزید تحقیق سامنے ٓائی ہے جس کا خالصہ‬
‫ض قلب اور کولیسٹرول‪ J‬کے خطرات‬ ‫یہ ہے کہ روزانہ نصف کپ اخروٹ کھانے سے امرا ِ‬
‫تقریبا ً ‪ 8.5‬فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔‬
‫اسی لیے عمررسیدہ افراد اخروٹ کو اپنی غذا میں شامل رکھیں۔ اس ضمن میں اسپین کے‬
‫ہاسپٹل کلینک بارسلونا نے ‪ 628‬افراد بھرتی کئے اور ان کی نصف تعداد کو روزانہ‬
‫اخروٹ کھانے کو کہا اور یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ دو سال بعد نتیجہ برٓامد ہوا کہ‬
‫لوڈینسٹی الئپوپروٹین (ایل ڈی ایل) پروٹین کی مقدار میں خاصی کم‬‫اخروٹ کھانے سے ؑ‬
‫ہوئی جو کہ مضر کولیسٹرول کہالتا ہے۔ اگر ایل ڈی ایل کولیسٹرول اپنی حد سے بڑھ‬
‫امراض قلب‬
‫ِ‬ ‫جائے تو خون کے لوتھڑے بننے کا عمل شروع ہوسکتا ہے جس سے فالج اور‬
‫کی شرح بڑھ جاتی ہے۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد نے دو برس تک نصف کپ روزانہ اخروٹ کھانے کو‬
‫معمول بنایا ان کے خون میں نہ صرف ایل ڈی ایل ذرات کی کمی ہوئی بلکہ باریک ترین‬
‫ایل ڈی ایل ذرات بھی کم کم دیکھے گئے۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق اخروٹ‬
‫میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز پائے جاتے ہیں جو دل کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس طرح‬
‫امراض قلب کا خطرہ ساڑھے ٓاٹھ فیصد تک کم ہوسکتا ہے‬
‫ِ‬ ‫اخروٹ کھانے سے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2219102/9812/‬‬

‫چار دواؤں والے ایک کیپسول سے بلڈ پریشر کا بہتر عالج‬

‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫منگل‪ 31  ‬اگست‪2021  ‬‬
‫بیشتر ڈاکٹر ہائی بلڈ پریشر کا عالج ایک دوا سے شروع کرتے ہیں اور اسکی تاثیر کم‬
‫ہونے پر دوسری دوا بھی تجویز کردیتے ہیں۔‬
‫سڈنی‪ٓ :‬اسٹریلوی‪ J‬طبّی ماہرین نے تقریبا ً چار سال تک جاری رہنے والی ایک تحقیق سے‬
‫دریافت کیا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو زیادہ مقدار میں ایک دوا کے بجائے‬
‫چار دواؤں کی تھوڑی تھوڑی مقدار ایک ساتھ دی جائے تو انہیں زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ن‬
‫یو ساؤتھ ویلز کی یونیورسٹی ٓاف سڈنی میں یہ طبّی ٓازمائشیں ہائی بلڈ پریشر کے ‪591‬‬
‫مریضوں پر ساڑھے تین سال تک جاری رہیں جبکہ ان میں شریک رضاکاروں کی عمر‬
‫‪ 18‬سال سے زیادہ تھی۔‬
‫تحقیق کی غرض سے بلڈ پریشر کی چار مختلف دواؤں (اربیسارٹن‪ ،‬ایملوڈیپائن‪ ،‬انڈاپامائیڈ‬
‫اور بائیسوپرولول) کی بہت کم مقدار (الٹرا لو ڈوز) کیپسول میں ایک ساتھ بند کی گئی۔‬
‫تفصیلی اور محتاط مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ مذکورہ چار دوائیں (بہت کم مقدار میں)‬
‫ایک ساتھ لینے والے ‪ 80‬فیصد مریضوں میں ‪ 12‬ہفتے بعد ہائی بلڈ پریشر بخوبی کنٹرول‬
‫ہوگیا جبکہ وہ دوسرے مریض جو ایک وقت میں کوئی ایک یا دو دوائیں قدرے زیادہ مقدار‬
‫میں استعمال کررہے تھے‪ ،‬ان میں اسی وقفے کے دوران بلڈ پریشر کنٹرول ہونے کی شرح‬
‫‪ 60‬فیصد کے لگ بھگ رہی۔‬
‫طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ‪ 20‬فیصد کا فرق بھی بہت اہم ہے کیونکہ ٓاج تک بلڈ پریشر‬
‫ت عملی بھی ایسی نہیں‬ ‫کنٹرول کرنے میں دواؤں کے استعمال سے متعلق کوئی ایک حکم ِ‬
‫جسے ہر ایک کےلیے یکساں طور پر مؤثر قرار دیا جاسکے۔‬
‫مریض میں ہائی بلڈ پریشر کی عالمات سامنے ٓانے پر بیشتر ڈاکٹر صاحبان پہلے ایک دوا‬
‫سے شروع کرتے ہیں اور جب اس دوا کی تاثیر کم ہونے لگتی ہے تو اس کے ساتھ کوئی‬
‫دوسری دوا بھی تجویز کردیتے ہیں۔‬
‫تاہم اس دوران اکثر خاصا وقت گزر چکا ہوتا ہے لہذا دونوں دوائیں مل کر بھی اچھے نتائج‬
‫نہیں دے پاتیں۔‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ اور ان جیسے کئی مسائل کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر ٓاج تک ایک عالمی مسئلہ بنا ہوا‬
‫ہے جسے انسان کا ’’دشمن نمبر ایک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫اگر ہائی بلڈ پریشر کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے تو یہ دل کی مختلف بیماریوں‬
‫اور ہارٹ اٹیک کے عالوہ فالج کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔‬
‫’’کوارٹیٹ‘‘‪ š‬کے عنوان سے کیے گئے مذکورہ مطالعے کی تفصیالت طبّی جریدے ’’دی‬
‫لینسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ساتھ چار‬
‫دوائیں (معمولی مقدار میں) دینے کے مفید اثرات زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہے۔‬
‫ت عملی سے ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو پہلے سے صرف ‪20‬‬ ‫’’اگر اس نئی حکم ِ‬
‫فیصد زیادہ بھی افاقہ ہوتا ہے تو یوں سمجھیے کہ ہم ہر سال اس (ہائی بلڈ پریشر) سے‬
‫متاثرہ‪ ،‬الکھوں لوگوں کی جانیں بھی بچا سکیں گے‪ ‘‘،‬ڈاکٹر کالرا چاؤ نے کہا‪ ،‬جو اس‬
‫تحقیق کی نگراں اور یونیورسٹی ٓاف سڈنی میں شعبہ طب کی پروفیسر بھی ہیں۔‬
‫البتہ انہوں نے اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ کوئی بہتر اور‬
‫زیادہ مؤثر نتیجہ اخذ کیا جاسکے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2219489/9812/‬‬

‫مسلسل بیٹھے رہنے کا ازالہ کرنا ہے تو ‪ 40‬منٹ کی ورزش‬


‫کیجئے‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 1  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫درمیانے اور شدید درجے کی جسمانی ورزش کرنے سے مسلسل بیٹھے رہنے کے‬
‫نقصانات کم کئے جاسکتے ہیں۔‬
‫ض قلب اور دیگر‬‫ٓاسٹریلیا‪ :‬ہم جانتے ہیں کہ ‪ ‬مسلسل بیٹھے رہنے سے بلڈ پریشر‪ ،‬امرا ِ‬
‫اقسام کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگرٓاپ مسلسل دس منٹ تک بیٹھے رہتے‬
‫ہیں تو اس کےمنفی اثرات زائل کرنے کے لیے ضروری‪ J‬ہے کہ روز ‪ 40‬منٹ کی سخت یا‬
‫درمیانے درجے کی ورزش کی جائے۔ ایسی ورزش جس میں پسینہ‪ J‬بہنے لگے یا بدن گرم‬
‫‪  ‬ضرور ہو۔‬
‫اگرٓاپ کسی دکان پر کھڑے رہ کر اشیا فروخت کرتے ہیں تو اس کا نقصان کم ہوتا ہے‬
‫لیکن ورزش پھربھی ضروری ہوگی۔ اس ضمن میں ‪ 9‬سے زائد مطالعات کئے گئے ہیں‬
‫جس میں چار مختلف ممالک کے ‪ 44‬ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کہا گیا ہے کہ مسلسل ‪ 10‬گھنٹے تک بیٹھے رہنے سے قبل ازوقت موت کا خطرہ بھی بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬

‫تحقیق میں کہا گیا ہے کہ درمیانی اور شدید درجے کی جسمانی مشقت ‪ ،‬جس کا ذکر ہم‬
‫ٓاگے کریں گے‪ ،‬سے فالتو بیٹھے رہنے کے منفی اثرات زائل ہوسکتے ہیں۔ اس میں ‪30‬‬
‫سے ‪ 40‬منٹ کی درمیانے درجے کی جسمانی سرگرمی مثالً تیز قدموں سے چلنا‪ ،‬سائیکل‬
‫چالنا اور باغبانی شامل ہیں۔‬
‫یہ تحقیق جامعہ سڈنی میں جسمانی مشقت اور ورزش کے ماہر ڈاکٹر عمانویل اسٹیماٹاکس‬
‫اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے ٓاپ کی نقل و حرکت‬
‫کم ہوتی ہے اور مسلسل بیٹھنا پڑتا ہے تو اب بھی اس کا ازالہ ممکن ہے۔ ’ہماری شائع شدہ‬
‫‘تحقیق سے ثابت ہے کہ جسمانی ورزش اور مشقت سے بہتر کوئی اور دوا نہیں ہے۔‬

‫اس ضمن میں ہزاروں رضاکاروں کو فٹنس ناپنے کے دستی ٓاالت اور گھڑیاں وغیرہ‬
‫پہنائی گئیں۔ کسی مطالعے میں ان سے گھر کے کام کروائے گئے‪ ،‬کسی سے لفٹ کی‬
‫بجائے سیڑھیاں چڑھنے کو کہا گیا اور کہیں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ دیا گیا۔ یہ‬
‫کام ایسے لوگوں کے لیے تھے جو باقاعدہ ورزش کے لئے وقت نہیں دے سکتے تھے۔ تاہم‬
‫دوسرے گروہ کے لوگوں نے سخت ورزش مثالً دوڑنے‪ ،‬تیراکی اور سائیکل چالنے کو‬
‫اہمیت دی۔‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کئی مطالعات میں ورزش شروع کرنے کے بعد شرکا کی جسمانی کیفیات کا جائزہ لیا گیا‬
‫تو معلوم ہوا کہ روزانہ ‪ 30‬سے ‪ 40‬منٹ کی درمیانی اور شدید درجے کی ورزش کےبہت‬
‫فوائد حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2219623/9812/‬‬

‫موڈرنا ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی تعداد فائزر سے زیادہ‬


‫دگنی‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪01 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫موڈرنا کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین سے کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی‬
‫اینٹی باڈیز کی تعداد فائزر‪/‬بائیو این ٹیک ویکسین کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہیں۔‬
‫یہ بات بیلجیئم میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ اس تحقیق میں موڈرنا اور‬
‫فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں بیلجیئم ہاسپٹل سسٹم کے لگ بھگ ‪ 2500‬کے قریب ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔‬
‫اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے افراد میں کووڈ ویکسین‬
‫کے استعمال سے اوسطا ً ‪ 2881‬یونٹس فی ملی لیٹر اینٹی باڈیز بن گئیں۔‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے مقابلے میں فائزر ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح‬
‫‪ 1108‬یونٹ فی ملی لیٹر رہی۔‬
‫تحقیق میں اینٹی باڈیز کے فرق کی وضاحت کی چند وجوہات بھی بیان کی گئی۔‬
‫اس میں بتایا گیا کہ موڈرنا ویکسین میں متحرک جز کی شرح ‪ 100‬مائیکرو گرامز جبکہ‬
‫فائزر میں ‪ 30‬مائیکرو گرامز تھی۔‬
‫اسی طرح موڈرنا ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں میں ‪ 4‬ہفتے جبکہ فائزر ویکسین کی خوراکوں‬
‫میں ‪ 3‬ہفتے کا فرق تھا۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع‬
‫ہوئے۔‬
‫اس سے قبل اگست ‪ 2021‬کے شروع میں امریکا میں ہونے والی ایک اور تحقیق میں کہا‬
‫گیا تھا کہ موڈرنا کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین استعمال کرنے والے افراد کو کورونا کی‬
‫قسم ڈیلٹا سے بریک تھرو انفیکشن (ویکسینیشن کے بعد بیمار ہونے پر استعمال ہونے والی‬
‫اصطالح) کا خطرہ فائزر ویکسین لگوانے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬
‫مایو کلینک کی اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ان‬
‫کو پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ دونوں ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت کے خالف ٹھوس تحفظ‬
‫ملتا ہے مگر عام بیماری سے تحفظ کی شرح میں فرق ہوتا ہے۔‬

‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جوالئی ‪ 2021‬میں امریکی ریاست فلوریڈا میں جہاں کووڈ‬
‫کیسز کی شرح ڈیلٹا کے باعث بہت زیادہ بڑھ گئی تھی‪ ،‬وہاں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ‬
‫فائزر ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین استعمال کرنے والوں‬
‫میں ‪ 60‬فیصد کم تھا۔‬
‫اسی طرح گزشتہ ماہ ایک اور امریکی ریاست مینیسوٹا میں دریافت کیا گیا تھا کہ موڈرنا‬
‫ویکسین کورونا کی قسم ڈیلٹا سے ہونے والی بیماری سے بچانے کے لیے ‪ 76‬فیصد تک‬
‫مؤثر ہے مگر فائزر ویکسین کی افادیت اس قسم کے خالف ‪ 42‬فیصد تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ مختلف امریکی ریاستوں میں موڈرنا اور فائزر کی مکمل ویکسینیشن‬
‫کرانے والے افراد میں کووڈ کیسز کی شرح کے موازنے معلوم ہوتا ہے کہ موڈرنا ویکسین‬
‫سے بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ فائزر ویکسین کے مقابلے میں دوتہائی حد تک کم ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167407/‬‬

‫پہلی مرتبہ ایک تجرباتی کووڈ ویکسین کا موازنہ ایسٹرازینیکا‬


‫ویکسین سے کرنے کا ٹرائل‬

‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪31 2021‬‬
‫—‬

‫برطانوی کمپنی گلیکسو اسمتھ کالئن (جی ایس کے) اور کورین کمپنی ایس کے بائیو‬
‫سائنسز کی جانب سے تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش ایسٹرازینیکا ویکسین سے کی‬
‫جائے گی۔اس تجرباتی کووڈ ویکسین کے آخری مرحلے کے ٹرائل میں اس کی افادیت کا‬
‫موازنہ ایسٹرازینیکا‪ š‬ویکسین سے کیا جائے گا۔‬
‫یہ دنیا میں کسی کووڈ شاٹ کا پہال تیسرے مرحلے کا ٹرائل ہوگا جس میں ‪ 2‬مختلف کووڈ‬
‫ویکسینز کا موازنہ کیا جائے گا۔‬
‫جے ایس کے اور ایس کے بائیو سائنسز کی تیار کردہ ویکسین کے ابتدائی ٹرائلز میں اسے‬
‫محفوظ اور بہت زیادہ مؤثر دریافت کیا گیا تھا۔اس تجرباتی ویکسین کو تیار کرنے کا مقصد‬
‫کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے کم قیمت ویکسین تیار کرنا ہے جسے کوویکس‪ š‬پروگرام کے‬
‫تحت تقسیم کیا جائے گا۔‬

‫کمپنیوں کو توقع ہے کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے مکمل ہونے پر اگلے سال کی پہلی‬
‫ششماہی کے دوران وہ ریگولیٹرز سے ویکسین کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب‬
‫ہوجائیں گی۔‬
‫کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹرائل کے آخری مرحلے میں اپنی ویکسین کی‬
‫افادیت کا موازنہ ایسٹرازینیکا ویکسین سے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٹیلیگراف کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ کسی اور ویکسین سے موازنے کی بنیادی وجہ یہ‬
‫ہے کہ اب ایسا ممکن ہے‪ ،‬کیونکہ اب کئی منظور شدہ ویکسینز موجود ہیں تو پلیسبو کی‬
‫جگہ کسی ویکسین کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔‬
‫ایسٹرازینیکا ویکسین کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایم آر این اے ویکسینز کے‬
‫مقابلے میں اسے اسٹور کرنا آسان ہے اور وہ فائزر یا موڈرنا کے مقابلے میں کم قیمت بھی‬
‫ہے۔‬
‫اگر جی ایس کے اور ایس کے بائیوسائنسز کی ویکسین ٹرائل میں ایسٹرازینیکا ویکسین‬
‫سے زیادہ مؤثر ہونے کے ساتھ کم مضر اثرات والی ثابت ہوئی تو یہ متعدد کم ترقی یافتہ‬
‫ممالک کے لیے ایک اچھا آپشن ہوگی۔‬
‫ٹرائل میں ایک اور ویکسین سے اپنی ویکسین کے موازنے کے لیے ایسٹرازینیکا سے‬
‫اجازت بھی حاصل کی جائے گی۔‬
‫گلیکسکو اسمتھ کالئن اور ایس کے بائیو سائنسز کی ویکسین کی تیاری کے لیے بل اینڈ‬
‫ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور کولیشن فار ایپیڈیمک پریپرڈنیس انیشیٹیو کی جانب سے بھی‬
‫تعاون کیا جارہا ہے۔‬
‫جی ایس کے چیف گلوبل ہیلتھ آفیسر تھامس بریور نے بتایا کہ اگرچہ متعدد ممالک نے‬
‫ویکسینیشن کے حوالے سے اچھی پیشرفت کی ہے مگر اب بھی کم قیمت اور قابل رسائی‬
‫ویکسینز کی ضرورت ہے تاکہ دنیا بھر کے لوگوں تک ویکسینز کی مساوی رسائی کو‬
‫یقینی بنایا جاسکے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167427/‬‬

‫کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں وائرل لوڈ‪ š‬کی زیادہ مقدار موت کا‬
‫خطرہ بڑھائے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪31 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫مریضوں کے پھیپھڑوں میں کورونا وائرس کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جانا ممکنہ طور پر‬
‫موت کی وجہ بنتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین اور نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ‬
‫کی اس تحقیق کے نتائج سابقہ خیاالت سے متضاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ نمونیا یا‬

‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جسمانی مدافعتی ردعمل کی شدت بہت زیادہ بڑھ جانا کووڈ سے ہالکت کا خطرہ بڑھانے‬
‫میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ ‪ 19‬کے باعث ہالک ہوجاتے ہیں ان کے زیریں‬
‫نظام تنفس میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ کی مقدار دیگر سے ‪ 10‬گنا زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے وائرس کی‬
‫تعداد پر جسم کی ناکامی اس وبا کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہے۔‬
‫اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے پر مدافعتی نظام جسم کے‬
‫صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جان لیوا ورم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق میں اس حوالے سے کوئی شواہد دریافت نہیں ہوسکے بلکہ محققین نے‬
‫دریافت کیا کہ مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں سیکنڈری انفیکشنز‪ ،‬وائرل لوڈ اور مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال‬
‫کی گئی تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے کورونا وائرس کے مریضوں کے زیریں نظام تنفس کے‬
‫ماحول کا اب تک کا سب سے تفصیلی سروے فراہم کیا گیا ہے۔‬
‫تحقیق میں نیویارک یونیورسٹی لینگون کے زیرتحت کام کرنے والے طبی مراکز میں‬
‫زیرعالج رہنے والے ‪ 589‬کووڈ کے مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔‬
‫ان سب مریضوں کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی جبکہ ‪142‬‬
‫مریضوں کے سانس کی گزرگاہ کلیئر کرنے کا برونکواسکوپی‪ š‬بھی ہوئی تھی۔محققین نے‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جائزہ لیا کہ ان افراد کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار کتنی تھی جبکہ مدافعتی‬
‫خلیات کی اقسام اور وہاں موجود مرکبات کا بھی سروے کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ سے ہالک ہونے والے مریضوں میں ایک قسم کے مدافعتی‬
‫کیمیکل کی پروڈکشن اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں اوسطا ً ‪50‬‬
‫فیصد کم ہوجاتی ہے۔‬
‫یہ کیمیکل جسم کے مطابقت پیدا کرنے والے مدافعتی نظام کا حصہ ہوتا ہے جو حملہ آور‬
‫جرثوموں کو یاد رکھتا ہے تاکہ جسم مستقبل میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نمٹ‬
‫سکے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام میں مسائل کے باعث وہ‬
‫کورونا وائرس سے مؤثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا‪ ،‬اگر ہم مسئلے کی جڑ کو پکڑ‬
‫سکیں‪ ،‬تو ہم مؤثر عالج بھی دریافت کرسکیں گے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ تحقیق کسی حد تک محدود ہے کیونکہ اس میں ایسے کووڈ مریضوں کو‬
‫شامل کیا گیا جو ہسپتال میں اولین ‪ 2‬ہفتوں میں بچنے میں کامیاب رہے‪ ،‬ایسا ممکن ہے کہ‬
‫بیکٹریل انفیکشنز یا مدافعتی نظام کا حملہ بھی کووڈ سے موت کا خطرہ بڑھانے میں اہم‬
‫کردار ادا کرتے ہوں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر مائیکروبائیولوجی میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167428/‬‬
‫ماہر ڈاکٹر نے ناک کے بال جڑ سے نوچنے کا انتہائی سنگین نقصان‬
‫بتادیا‬

‫‪Sep 01, 2021 | 18:55:PM‬‬

‫لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ناک کے بال زیادہ بڑھ جائیں اور ناک سے باہر نظر آنے لگیں تو‬
‫انتہائی بھدے دکھائی دیتے ہیں چنانچہ انہیں اس حد تک نہ بڑھنے دینا ہی بہتر ہوتا ہے تاہم‬
‫کچھ لوگ ناک کے بالوں کو یکسر نوچ کر ختم کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی ایک‬
‫برطانوی ڈاکٹر نے متنبہ کر دیا ہے کہ یہ عمل بھی ان کی صحت کے لیے سنگین نقصان‬
‫کا حامل ہو سکتا ہے۔ دی سن کے مطابق ڈاکٹر کرن راج نے اپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ پر‬
‫ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ ہماری ناک کے بال درحقیقت ایک فلٹر کا کام کرتے ہیں‬
‫چنانچہ انہیں یکسر ختم کر دینا بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر راج نے بتایا ہے کہ ”ہمارے ناک میں دو طرح کے بال پائے جاتے ہیں۔ ایک‬
‫مائیکروسکوپک سیلیا ہوتے ہیں۔ یہ لعاب دار مادے کو فلٹر کرتے اور سے گلے کی پچھلی‬
‫جانب بھیجتے ہیں جو باآلخر معدے میں پہنچ جاتا ہے۔ دوسری قسم کے بال وائبریسا‬
‫کہالتے ہیں۔ یہ بڑے بال ہوتے ہیں جو ہمیں باہر سے نظر آتے ہیں اور جنہیں ہم اکھاڑتے‬
‫ہیں۔ یہ بال بڑے اجزاءکو ناک کے اندرونی حصے میں جانے سے روکتے ہیں۔اگر آپ‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہیں اکھاڑ دیتے ہیں تو ایک طرف بڑے اجزاءناک کے اندر جا کر آپ کے لیے مسائل پیدا‬
‫کر سکتے ہیں اور دوسرے جس جگہ سے یہ بال اکھڑیں گے اس معمولی زخم سے جراثیم‬
‫آپ کے جسم میں داخل ہو کر انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں بالوں کو‬
‫اکھاڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بہرحال جو بال ناک سے باہر نظر آ رہے ہوں انہیں‬
‫مناسب حد تک قینچی سے کاٹ دینا محفوظ عمل ہے‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/01-Sep-2021/1335334‬‬

‫بچوں میں ہکالہٹ کا مرض‪ ،‬والدین کیلئے انتہائی اہم معلومات‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫ستمبر‪ 2 2021 J‬‬

‫ہکالنے پر قابو پانا ممکن ہے! بچوں میں ہکالپن ‪ 2‬سے ‪ 4‬سال کی عمر کے درمیان پایا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬ہکالہٹ کے شکار بچوں پر تنقید نہ کریں بلکہ ان کا عالج کروائیں۔‬
‫دنیا بھر میں اس وقت ‪ 7‬کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکالہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں‬
‫لکنت ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہکالہٹ کی پریشانی انسانوں کو کیوں ہوتی‬
‫ہے اور اس پریشانی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے؟‬
‫اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسپیچ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر‬
‫سید سیف ہللا کاظمی نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا اور اس کے عالج‬
‫سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر سید سیف ہللا کاظمی نے بتایا کہ زبان میں پیدا ہونے والی اس لرزش یا لڑکھڑاہٹ‪ š‬کو‬
‫ہکالہٹ (اسٹٹرینگ) کہتے ہیں۔ اس مرض میں گفتگو کے دوران حرف کی ادائیگی میں‬
‫پریشانی ہوتی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات ہمارے اطراف میں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جن‬
‫کے بولتے وقت ان کی زبان میں لڑکھڑاہٹ‪ š‬پیدا ہوجاتی ہے‪ ،‬جسے ہکالہٹ یا لکنت کہا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬اگر اس مرض کو بچپن میں درست نہیں کیا گیا تو زندگی کے اہم مراحل میں یہ‬
‫پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر سید سیف ہللا کاظمی کا کہنا تھا کہ ہکالہٹ کی بےشمار وجوہات ہیں جن میں سب‬
‫سے نمایاں وجہ خاندانی سمجھی جاتی ہے‪ ،‬بہت سارے معامالت میں دیکھا گیا ہے کہ یہ‬
‫مرض والدین میں پائے جاتے ہیں اور بعد میں یہ پریشانی والدین کے جین کے ذریعہ بچوں‬
‫میں منتقل ہوجاتی ہے۔‬
‫اسپیچ پیتھالوجسٹ کے مطابق تناؤنفسیاتی مسائل کے باعث بھی لوگوں کو گفتگو کرنے‪ ‬‬
‫میں ہکالہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے‪ ،‬بعض اوقات حادثات دماغی چوٹوں کا سبب بن سکتے‬
‫ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کا وہ مخصوص حصہ جو ہمیں بولنے اور بات چیت کرنے‬
‫کے قابل بناتا ہے کو نقصان پہنچتا ہے تو اس شخص میں بھی ہکالہٹ کے مسائل پیدا‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اس کے عالوہ کبھی کبھی احساس کمتری کی وجہ سے بھی بچوں کو اس‬
‫کا سامنا کرنا پڑتا ہے‪ ،‬اگر بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے یا بچوں کے ہم‬
‫جماعت اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ‪ ،‬طنز اور طعنوں کا نشانہ‬
‫بناتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ ٹوکتے ہیں تو اس سے بچوں کی خوداعتمادی ختم ہو‬
‫جاتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر سید سیف ہللا نے بتایا کہ مرض کے عالج کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ اسپیچ‬
‫تھراپی ہے‪ ،‬والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عمر میں بچوں پر درست‬
‫بولنے کے لیے زبردستی دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ہکالہت خود بخود ہی وقت کے‬
‫ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔‬
‫ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ مسئلہ ‪ 4‬سال کی عمر کے بعد بھی برقرار رہتا ہے تو والدین‬
‫کو کسی ماہر اور اسپیچ لینگویج پیتھالوجسٹ (ایس ایل پی) سے رابطہ کرنے میں تاخیر‬
‫نہیں کرنی چاہیے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/stuttering-childrens-bakhabar-sawera/‬‬

‫سانپ کے زہر اور کورونا کی روک تھام سے متعلق حیران ُکن تحقیق‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ستمبر‪2 2021 J‬‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ وائپر سانپ کے زہر سے کورونا‬ ‫برازیلیا‪ :‬برازیل‪ J‬کے سائنسدانوں نے‬
‫وائرس کی افزائش روکی جاسکتی ہے اس تحقیق کو کورونا سے بچاؤ کی دوا کی تیاری‬
‫میں اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔‬

‫خبررساں ادارے کی‪ ‬رپورٹ‪ ‬کے مطابق برازیل کے محققین نے پایا ہے کہ ایک قسم کے‪ ‬‬
‫سانپ کے زہر میں موجود مالیکیول نے بندروں کے خلیوں میں کورونا وائرس کی افزائش‬
‫کو روکا ہے‪ ،‬یہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ایک ممکنہ پہال قدم ہے۔‬
‫سائنسی جریدے مالیکیولز‪ š‬میں شائع تحقیق کے مطابق وائپر سانپ کے زہر میں پایا جانے‬
‫واال مالیکیول تجرباتی بنیاد پر بندروں کو لگایا گیا جس سے کورونا وائرس کے نقصان‬
‫پہنچانے کی صالحیت میں ‪ 75‬فیصد کمی ٓائی لیکن یہ مالیکیول انسانی جسم میں موجود‬
‫سیگر سیلز کو متاثر نہیں کرتے۔‬
‫وائپر سانپ کے زہر میں پائے جانے والے مالیکیولز پہلے ہی انسداد بیکٹریا خصوصیات‬
‫کی وجہ سے مشہور ہیں‪ ،‬یہ سانپ برازیل‪ ،‬ارجنٹینا‪ ،‬بولیویا اور پیراگوئے میں پایا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وائپر سانپ میں موجود پیپٹائڈ مالیکیول کورونا کے پی ایل پرو‬
‫انزائم سے مل کر اسے ناکارہ بنادیتے ہیں۔‬
‫اسٹیٹ یونیورسٹی ٓاف ساؤ پالو (یونیسپ) کے بیان کے مطابق محققین اس کی مختلف‬
‫خوراکوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے کہ کیا یہ وائرس کو خلیوں میں داخل ہونے سے‬
‫روکنے کے قابل ہے یا نہیں اور وہ انسانی خلیوں میں مادہ کی جانچ کی امید رکھتے ہیں‪،‬‬
‫لیکن انہوں نے کوئی ٹائم الئن نہیں دی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/brazilian-viper-venom-may-become-tool-in-‬‬
‫‪fight-against-covid-study-shows/‬‬

‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٹائیفائیڈ کیوں ہوتا ہے؟ یہ کس حد تک خطرناک ہوچکا ہے؟ جانیے‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪2 2021 J‬‬

‫شہر میں نکاسی ٓاب کا ناقص نظام لوگوں کی زندگی کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے‪ ،‬کراچی‬
‫میں ٹائیفائیڈ بڑھنے لگا‪ٓ ،‬انتوں میں زخم اور بخار کا ہونا اس کا مناسب اور صحیح‬
‫طریقے سے عالج بے حد ضروری ہے۔‬
‫ٹائیفائیڈ انتڑیوں کی بیماری ہے جو ایک خاص قسم کے بیکٹیریا کی وجہ سے الحق ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬ٹائیفائیڈ کی عالمت میں لمبے عرصے تک ہلکا بخار رہنا اور سر میں درد ہونا شامل‬
‫ہے۔‬
‫کوئی شخص ٹائیفائیڈ سے متاثر ہے یا نہیں یہ معلوم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس‬
‫شخص کے خون یا فضالت میں سالمونیال ٹائفی کی جانچ کی جائے‪ ،‬ٹائیفائیڈ بخار آنتوں‬
‫کے خون اور پرفوریشن کا سبب بن سکتا ہے۔‬
‫جس کے نتیجے میں یہ پیٹ میں شدید درد‪ ،‬متلی‪ ،‬قے اور عفونت (سیپسس) پیدا کر سکتا‬
‫ہے‪ ،‬آنتوں میں ہونے والے نقصان کی مرمت کے لئے سرجری کی ضرورت ہو سکتی‬
‫ہے۔‬
‫اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں عباسی شہید اسپتال کے‬
‫ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عادل رمضان نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی‬
‫آگاہ کیا اور اس کے عالج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔‬

‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر محمد عادل رمضان کا کہنا ہے کہ شہری حالیہ موسم میں ٹائیفائڈ سے بچاؤ کی تدابیر‬
‫پر سختی سے عمل کریں‪ ،‬ٹائیفائیڈ سے ‪ 40‬فیصد اموات ہو رہی ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ گندہ پانی‪ ،‬مضرصحت خوراک‪ ،‬ٹائیفائیڈ کی بڑی وجہ ہیں‪ ،‬بخار‪،‬‬
‫کھانسی‪ ،‬جسم درد‪ ،‬پیٹ کی خرابی ٹائیفائیڈ اور کورونا کی عالمات ہیں‪ ،‬کورونا میں بخار‬
‫ہلکا رہتا ہے‪ ،‬ٹائیفائیڈ میں بخار ‪ 103‬اور ‪ 104‬تک ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس مرض سے شفاء یاب ہونے کے بعد بھی کچھ لوگوں کے فضالت میں‬
‫اس مرض کا جراثیم مہینوں تک خارج ہوتا رہتا ہے‪ ،‬یہ بیماری برسات اور تیز گرم موسم‬
‫میں زیادہ پھیلتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر محمد عادل رمضان نے کہا کہ بچوں اور نوجوانوں کو یہ مرض زیادہ تنگ کرتا‬
‫ت مدافعت کمزور ہونے کی وجہ سے یہ‬ ‫ہے‪ ،‬بعض اشخاص میں اس مرض کے خالف قو ِ‬
‫مرض دوسروں کی نسبت جلدی ہوجاتا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ کورونا وائرس اور ٹائیفائیڈ کی ملتی جلتی عالمات کے باعث ڈاکٹر کئی‬
‫مریضوں کے ٹائیفائیڈ ٹیسٹ کروا رہے ہیں جو مثبت بھی آ رہے ہیں مگر انہیں ٹائیفائیڈ کی‬
‫بجائے کرونا کے ٹیسٹ کروانے چاہییں تاکہ مریضوں میں دونوں بیماریوں سے متعلق‬
‫تذبذب ختم ہو‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/typhoid-fever-sewerage-water-bakhbar-sawera/‬‬

‫کیا کورونا وائرس کا ’میو ویریئنٹ‘ انتہائی خطرناک ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬بدھ‪ 1  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫’میو ویریئنٹ‘ کے خالف موجودہ کورونا ویکسینز ناکارہ ہونے کا خدشہ ضرور ہے لیکن‬
‫اب تک ایسا نہیں ہوا ہے‬
‫جنیوا‪ :‬عالمی ادارہ صحت (‪ )WHO‬نے گزشتہ روز کورونا وائرس کی ’قاب ِل توجہ‘ اقسام‬
‫میں ایک نئے ’میو ویریئنٹ‘ (‪ )Mu variant‬کا اضافہ کردیا ہے جسے ‪ B.1.621‬کا‬
‫سائنسی نام دیا گیا ہے۔ البتہ مبہم خبروں کی وجہ سے اس بارے میں تشویش‪ J‬پھیل رہی‬
‫ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬وبا کا باعث بننے والے‪ ‬ناول کورونا وائرس (سارس کوو‪ )2‬کی اب‬ ‫حالیہ عالمی ِ‬
‫تک درجنوں اقسام (ویریئنٹس)‪ š‬سامنے ٓاچکی ہیں۔‬
‫تاہم ان میں سے چار ویریئنٹس (الفا‪ ،‬بی‪-‬ٹا‪ ،‬گیما‪ ،‬ڈیلٹا) کو زیادہ وبائی پھیالؤ کی بناء پر‬
‫’قابل تشویش اقسام‘ (‪ )variants of concern‬قراد دیا ہے۔ ان میں‬ ‫ِ‬ ‫عالمی ادارہ صحت نے‬
‫سے بھی اس وقت ’ڈیلٹا ویریئنٹ‘ دنیا بھر کے بیشتر ملکوں میں سب سے زیادہ لوگوں کو‬
‫متاثر کررہا ہے۔‬
‫ان کے عالوہ ’سارس کوو ‪ ‘2‬وائرس کی بعض اقسام ایسی بھی سامنے ٓائی ہیں جو فی‬
‫الحال قاب ِل تشویش تو نہیں مگر اِن کی ساخت اور وبائی پھیالؤ کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے‬
‫کہ ٓانے والے دنوں اور مہینوں میں وہ سنجیدہ صورت اختیار کرسکتی ہیں۔‬
‫اسی لیے اِن ویریئنٹس پر زیادہ توجہ رکھنا ضروری خیال کیا جارہا ہے‪ ،‬لہذا انہیں ’قاب ِل‬
‫توجہ اقسام‘ (‪ )variants of interest‬کا مجموعی عنوان دیا گیا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اب تک ’سارس کوو‪ ‘2‬وائرس کے پانچ ویریئنٹس (اِیٹا‪ٓ ،‬ائیوٹا‪ ،‬کاپا‪ ،‬لیمبڈا اور میو) کو‬
‫’قابل توجہ اقسام‘ میں شامل کیا جاچکا ہے۔‬
‫ِ‬
‫قاب ِل توجہ اقسام کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ ’میو ویریئنٹ‘ کا ہے جو عالمی ادارہ‬
‫صحت نے ‪ 30‬اگست ‪ 2021‬کے روز کیا تھا جبکہ اس کا باضابطہ اعالن گزشتہ روز یعنی‬
‫‪ 31‬اگست ‪ 2021‬کو اسی ادارے کی ویب سائٹ پر‪ ‬کو ِوڈ ‪ 19‬کے وبائی پھیالؤ سے متعلق‬
‫ہفتہ وار اپ ڈیٹ‪ ‬میں کیا گیا تھا۔‬

‫’میو ویریئنٹ‘ پہلے پہل جنوری ‪ 2021‬میں جنوبی امریکی ملک کولمبیا سے سامنے ٓایا‬
‫تھا جو بعد ازاں دیگر جنوبی امریکی اور یورپی ممالک سے بھی رپورٹ ہوا۔‬
‫‪ 29‬اگست ‪ 2021‬تک ’میو ویریئنٹ‘ سے ‪ 39‬ملکوں میں مصدقہ متاثرین کی تعداد ‪4650‬‬
‫ہوچکی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ جنوری سے اگست تک اس سے متاثر ہونے والوں کی‬
‫شرح بتدریج کم ہوتی چلی گئی جو ٓاج ‪ 0.1‬فیصد ہوچکی ہے۔‬

‫تاہم ٓاج اس کا زیادہ پھیالؤ جنوبی امریکا کے صرف دو ملکوں یعنی کولمبیا (‪ 39‬فیصد)‬
‫اور ایکواڈور‪ 13( š‬فیصد) تک محدود رہ گیا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی اپ ڈیٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’میو ویریئنٹ‘ میں کچھ ایسی تبدیلیاں‬
‫(میوٹیشنز) دیکھی گئی ہیں جو ممکنہ طور پر اسے موجودہ ویکسینز یا انسانی جسم کے‬
‫دفاعی ر ِدعمل سے بچانے میں مدد دے سکتی ہیں۔‬
‫ٓاسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’میو ویریئنٹ‘ کے خالف موجودہ کورونا ویکسینز‬
‫کے ناکارہ ہونے کا خدشہ ضرور ہے لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔‬
‫اس حوالے سے ابتدائی نوعیت کی کچھ رپورٹیں سامنے ٓائی ہیں مگر ابھی ان کی تصدیق‬
‫ہونا باقی ہے۔‬
‫یعنی یہ کہ ’میو ویریئنٹ‘ سے محتاط رہیے‪ ،‬گھبرائیے نہیں!‬
‫‪https://www.express.pk/story/2219841/9812/‬‬

‫پرانے ناسور کو ٓاکسیجن سے مندمل کرنے والی پٹی‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬جمعرات‪ 2  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫خردبینی موتی جیسے دانے بھرے ہائیڈروجل سے ٓاکسیجن خارج کرکے زخموں اور‬
‫ناسور کو مندمل کرنے میں غیرمعمولی کامیابی ملی ہے۔‬
‫سینٹ لوئی‪ :‬بعض زخم ایسے ہوتے ہیں جو روگ بن جاتے ہیں اور ٹھیک نہیں ہوتے‬
‫جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کے اکثر زخم بہت دیر میں مندمل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے‬
‫اب ایک انقالبی ہائیڈروجل بنایا گیا ہے جو زخم پرٓاکسیجن شامل کرکے انہیں تیزی‪ J‬سے‬
‫ٹھیک کرسکتا ہے۔اگرچہ ٓاکسیجن تھراپی سے زخموں کا عالج پہلے سے ہی ہورہا ہے‬
‫لیکن اب پانی سے بھرے پھائے میں خردبینی موتی شامل کئے گئے ہیں جو زخم پربرا ِہ‬
‫راست ٓاکسیجن ڈالتے ہیں۔ ٓاکسیجن سے زخم تیزی سے مندمل ہوتا ہے اور ناسور بھی‬
‫درست ہوجاتے ہیں۔‬
‫سینٹ لوئی میں واقع میسوری واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بنیادی طور پر ایک‬
‫مائع تشکیل دیا اور اس میں خول والے خردبینی دانے شامل کئے جن میں اینزائم کیٹیلیز‬
‫مال ہوا تھا۔‪  ‬جسے ہی اس مائع کو ایک پٹی پر رکھ کر زخم پر ڈاال جاتا ہے تو وہ جلد کی‬
‫گرمی سے لچکدار جیلی کی طرح بن جاتا ہے۔ اس کے بعد دانوں کے خول میں موجود‬
‫کیٹیلیز ہائیڈروجن پرٓاکسائیڈ سے مالپ کرتا ہے اور سالماتی ٓاکسیجن بنتی ہے۔ یہ عمل‬
‫دوہفتوں تک جاری رہتا ہے اور ٓاکسیجن سے سوجن کم ہوتی ہے اور جلد کے نئے خلیات‬
‫بنتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ پٹی ری ایکٹیو ٓاکسیجن اسپیشیز( ٓاراوایس)‪ š‬نامی‬
‫خطرناک کیمیکل کو تلف کرتی ہے ۔ ٓار او ایس کی سطح اس وقت بڑھتی ہے جب زخم پر‬
‫ٓاکسیجن ڈاال جاتا ہے۔ اس طرح ہائیڈروجل زخم پر ٓاکسیجن کو قابو میں بھی رکھتا ہے۔‬

‫ہمیشہ کی طرح اس ٹیکنالوجی پربھی چوہے تختہ مشق بنے۔ دانوں والے ہائیڈروجل‬
‫استعمال کرنے سے زخم ‪ 90‬فیصد تک سکڑ گیا یعنی اصل سے ‪ 10‬فیصد رہ گیا۔ اس کے‬
‫مقابلے میں دانوں کے بغیر جل سے زخم ‪ 70‬فیصد تک چھوٹا ہوا۔ جبکہ العالج زخموں‬
‫کو ایسے ہی چھوڑدیا گیا تو ان کی جسامت نصف رہ گئی۔‬
‫عالج میں ایک فائدہ اور بھی سامنے ٓایا کہ دانوں والے ہائیڈروجل نے زخموں پر جو کھال‬
‫چڑھائی وہ بہت موٹی تھی اور یہ سب کچھ صرف ٓاٹھ روز میں ہی ہوا ہے۔ توقع ہے کہ‬
‫اس سے پیچیدہ زخموں اور ذیابیطس کے اچھے نہ ہونے والے زخموں کو مندمل کرنے‬
‫میں غیرمعمولی مدد ملے گی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2219969/9812/‬‬
‫بوڑھا ہونے سے کیسے بچا جائے؟ سائنسدانوں نے کھوج لگا لی‬
‫‪ August 31, 2021‬‬
‫ویب ڈیسک‪ ‬‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دعوی کیا ہے کہ انہوں نے جسم کے مدافعتی نظام کو عمر‬‫ٰ‬ ‫اسرائیلی سائنسدانوں نے‬
‫رسیدہ کرنے والے عمل کو روکنے اور ریورس کرنے کا طریقہ کار ڈھونڈ نکاال ہے۔‬
‫غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق‪ ‬آن الئن طبی جریدے بلڈ میں شائع‬
‫ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے یہ جاننے کے لیے کہ کیوں‬
‫بوڑھے افراد نوجوانوں کے نسبت کوویڈ ‪ 19‬کا شکار جلدی ہو جاتے ہیں۔‬
‫ٹیکنیون اسرائیل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے بتایا کہ اس کی کھوج‬
‫لگاتے ہوئے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے جسم میں بی سیلز جنہیں بی لیمپوسائٹس بھی کہا‬
‫جاتا ہے جو کسی بھی وائرس کے خالف مدافعت کا کام کرتے ہیں۔‬
‫رپورٹ کے مطابق مذکورہ سیل انسان کی ہڈیوں کے گودے میں موجود ہوتا ہے جو خون‬
‫کی نالیوں سے ہوتا ہوا لمپ نوڈز اور سپلین میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ کسی وائرس کے‬
‫جسم میں داخل ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے ٓاتے ہیں حملہ کر دیتے ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ جوانی کی عمر میں انسان کے سیل بھی جوان ہوتے ہیں اور ان میں‬
‫یہ صالحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے وائرس کو جلد تشخیص کر لیتے ہیں۔‬
‫مذکورہ سیلز یا خلیوں کی عمر طویل نہیں ہوتی مگر یہ بڑی مقدار میں بنتے رہتے ہیں۔ بی‬
‫سیل غائب نہیں ہوتے بلکہ میمری سیل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک بیماری جو انسان‬
‫کو پہلے الحق ہوتی ہے تو دوسری مرتبہ اس بیماری میں مبتال شخص ان سیلز کی وجہ‬
‫سے جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق بوڑھے شخص میں بی سیل کی کمی کی وجہ سے بیماری الحق ہونے‬
‫کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سائسندانوں کا کہنا ہے کہ ہم نے وہ وجہ معلوم کر لی ہے جو ہڈیوں کے گودے کو نئے بی‬
‫خلیات پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا ہے کہ بہت جلد ایسی دوائیں بنا لی جائیں گی جن کی مدد سے بی سیل کی‬
‫پیداوار کو روکنے والی وجوہات ختم ہو جائیں گی۔‬
‫رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے چند بوڑھے افراد میں بی سیلز کی دوبارہ پیداوار کے‬
‫لیے کامیاب تجربے کئے ہیں۔‬
‫سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں تحقیق سے معلوم ہے کہ جسم میں موجود سیلز کس طرح‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور انہیں کیا چیز کنٹرول کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ مذکورہ معلومات کی مدد سے ہم بوڑھے افراد میں مختلف بیماریوں کا‬
‫جلد اور ٹھیک عالج کر سکیں گے‬
‫ہم نیوز پر شائع یا نشر ہونے واال مواد ادارتی ٹیم کی کاوش ہے۔ اس مواد کو بغیر پیشگی‬
‫اجازت کسی بھی صورت میں استعمال یا نقل کرنا درست نہیں۔‬
‫رابطہ کریں‬
‫‪https://www.humnews.pk/latest/344652/‬‬
‫عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی نئی قسم کی مانیٹرنگ شروع‬
‫کردی‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪01 2021‬‬
‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کی ایک اور قسم کو 'ویرینٹس آف‬
‫انٹرسٹ' میں شامل کرلیا ہے۔‬
‫یا بی ‪ 1.621‬کو ‪ 30‬اگست کو )‪ (Mu‬عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی اس نئی قسم میو‬
‫مانیٹرنگ لسٹ کا حصہ اس وقت بنایا جب یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ نئی قسم ویکسنیشن‬
‫یا بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خالف جزوی مزاحمت کرسکتی ہے۔‬

‫اب تک یہ نئی قسم دنیا کے ‪ 39‬ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔‬


‫ڈبلیو ایچ او کے وبا کے حوالے سے ہفتہ وار بلیٹن کے مطابق میو قسم میں ایسی میوٹیشنز‬
‫کا مجموعہ ہے جو مدافعتی ردعمل سے بچنے کی خصوصیات کا عندیہ دیتا ہے۔‬
‫ابتدائی ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کے دفاع کے خالف ممکنہ طور پر اسی‬
‫طرح حملہ آور ہوسکتی ہے جیسے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا کی قسم‬
‫بیٹا کرتی ہے‪ ،‬مگر تصدیق کے لیے مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔‬
‫کورونا کی یہ نئی قسم سب سے پہلے جنوری ‪ 2021‬میں جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا‬
‫میں دریافت ہوئی تھی اور اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کیسز کو‬
‫دریافت کیا جاچکا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جنوبی امریکا سے باہر اس قسم کے کیسز برطانیہ‪ ،‬یورپ‪ ،‬امریکا اور ہانگ کانگ میں‬
‫رپورٹ ہوئے ہیں۔‬
‫اگرچہ عالمی سطح پر کووڈ کے مجموعی کیسز میں میو قسم کی شرح ‪ 0.1‬فیصد سے بھی‬
‫کم ہے مگر کولمبیا اور ایکواڈور‪ š‬میں یہ تیزی سے پھیل رہی ہے جہاں بالترتیب ‪ 39‬اور‬
‫‪ 13‬فیصد کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔‬
‫سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ متعدی‬
‫یا زیادہ خطرناک بیماری کا باعث تو نہیں بنتی۔‬
‫عالمی ادارے کے بیان میں بتایا گیا کہ جنوبی امریکا میں میو کے پھیالؤ بالخصوص ڈیلٹا‬
‫قسم کے ساتھ پھیلنے پر نظر رکھی جارہی ہے۔‬
‫ابھی تک اس نئی قسم کو ایلفا اور ڈیلٹا کی طرح سمجھا نہیں جارہا جو زیادہ تیزی سے‬
‫پھیلنے کے ساتھ کسی حد تک مدافعتی نظام پر حملہ آور بھی ہوسکتی ہیں۔‬
‫پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے اس نئی قسم کے حوالے سے تجزیاتی رپورٹ اگست ‪ 2021‬میں‬
‫جاری کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ میو بھی بیٹا قسم کی طرح ویکسنیشن سے پیدا ہونے‬
‫والی مدافعت کے خالف مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫مگر یہ تحقیقی کام لیبارٹری میں ہوا تو حقیقی دنیا میں اس نئی قسم کے اثرات کی جانچ‬
‫پڑتال کے لیے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔‬
‫پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وقت ایسے شواہد نہیں کہ یہ نئی قسم‬
‫ڈیلٹا کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے اور بظاہر یہ زیادہ متعدی بھی نہیں‪ ،‬مگر مدافعتی ردعمل‬
‫سے بچنے کی اس کی صالحیت مستقبل میں خطرہ ہوسکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میو کے حوالے سے خدشات کی ایک وجہ اس میں موجود میوٹیشنز ہیں‪ ،‬ایک جینیاتی‬
‫تبدیلی پی ‪ 681‬ایچ میوٹیشن کو پہلے ایلفا قسم میں بھی دریافت کیا گیا تھا جس کو تیزی‬
‫سے پھیالؤ سے جوڑا جاتا ہے۔‬
‫دیگر میوٹیشنز بشمول ای ‪ 484‬کے اور کے ‪ 417‬این اسے ممکنہ طور پر مدافعتی دفاع‬
‫کے خالف حملہ آور ہونے میں مدد فراہم کرتی ہیں‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167486/‬‬

‫کووڈ کے مریضوں میں صحتیابی کے بعد گردوں کے امراض کا خطرہ‬


‫بڑھنے کا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪01 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے سنبھلنے کے بعد کئی ہفتوں یا‬
‫مہینوں تک مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا کرنے والے افراد کے‬
‫لیے النگ کووڈ کی اصطالح استعمال کی جاتی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس بارے میں جاننے کے لیے طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل کام کیا جارہا ہے اور اب‬
‫انکشاف ہوا کہ النگ کووڈ کے مریضوں میں گردوں کے افعال نمایاں حد تک متاثر ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫درحقیقت ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں کووڈ کی شدت معمولی ہوتی ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں امریکی ہیلتھ ڈیٹا کا گہرائی‬
‫سے جائزہ لیا گیا تھا اور دریافت ہوا کہ کورونا وائرس سے گردوں کو نقصان پہنچنے‪،‬‬
‫دائمی اور آخری مرحلے کے گردوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔‬
‫گردوں کے افعال متاثر ہونے اور امراض کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے کہ کیونکہ اکثر‬
‫تکلیف اور عالمات ظاہر نہیں ہوتیں۔‬
‫کڈنی فائؤنڈیشن کے تخمینے کے مطابق گردوں کے مسائل کے شکار ‪ 90‬فیصد افراد کو‬
‫اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔‬
‫اس تحقیق یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ویٹرنز افیئرز کے یکم مارچ ‪ 2020‬سے یکم مارچ ‪2021‬‬
‫تک کے ‪ 17‬الکھ صحت مند اور کووڈ سے متاثر افراد کے میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کیا‬
‫گیا تھا۔‬
‫ان افراد میں سے ‪ 89‬ہزار ‪ 216‬میں کووڈ کی تصدیق ہوئی تھی جن میں سے زیادہ تر مرد‬
‫تھے اور ان کی عمر ‪ 60‬سے ‪ 70‬سال کے درمیان تھیں مگر محققین نے الگ سے ایک‬
‫الکھ ‪ 51‬ہزار سے زیادہ خواتین کے ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا جن میں سے ‪ 8817‬میں کووڈ‬
‫کی تصدیق ہوئی۔‬
‫ہزار ‪ 13.9( 376‬فیصد) مریضوں کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جن میں سے ‪ 4146‬کو ‪12‬‬
‫آئی سی یو نگہداشت کی ضرورت بھی پڑی۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ گردوں کے افعال میں نمایاں کمی کا خطرہ سب سے زیادہ آئی سی یو‬
‫میں داخل ہونے والے مریضوں کو ہوتا ہے مگر یہ بھی اہم ہے کہ اس خطرے کا سامنا‬
‫تمام مریضوں کو ہوسکتا ہے‪ ،‬چاہے بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق کے نتائج کووڈ کے مریضوں میں گردوں کے افعال اور‬
‫امراض پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‪ ،‬الکھوں افراد کو اندازہ ہی نہیں کہ‬
‫وائرس سے ان کے گردوں کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ امریکا میں کووڈ کے مجموعی مریضوں میں سے ‪5‬‬
‫الکھ ‪ 10‬ہزار افراد کے گردوں کو نقصان پہنچ چکا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ‬
‫ابتدائی مرحلے میں گردوں کے مسائل کو دریافت کرلیا جائے‪ ،‬ورنہ اس کا عالج مشکل‬
‫ہوجاتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق گردوں کے مسائل کا عموما ً علم ہی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی فرد‬
‫کسی وجہ سے اپنا طبی معائنہ کراتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے افراد کے مقابلے میں اس کی معمولی‬
‫شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں گردوں کے امراض کا خطرہ ‪ 15‬فیصد جبکہ گردوں‬
‫کی اننجری کا خطرہ ‪ 30‬فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫اسی طرح کووڈ سے ہسپتال اور آئی سی یو میں زیرعلالج رہنے والے افراد میں یہ خطرہ‬
‫‪ 8‬سے ‪3 13‬گنا تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ آنے‬
‫والے برسوں میں النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کو کن طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ کووڈ کی بتدائی بیماری کے ‪ 30‬دن بعد ‪ 4757‬مریضوں کے‬
‫گردوں کے افعال میں ‪ 30‬فیصد یا اس سے زیادہ کمی آئی۔‬
‫محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد کو کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا ہوتا ہے ان‬
‫میں گردوں کے افعال میں کمی کا خطرہ ‪ 1.09‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں ‪ 2‬گنا جبکہ آئی سی یو میں رہنے والے‬
‫مریضوں میں ‪ 3‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن سوسائٹی آف نیفرولوجی میں شائع‬
‫ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167499/‬‬

‫سرجیکل ماسک کووڈ سے بچاؤ کے لیے کس حد تک مؤثر؟‬


‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪01 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫بازاروں میں دستیاب بہت عام اور سستی چیز یعنی سرجیکل ماسک کا استعمال کورونا‬
‫وائرس کے پھیالؤ روکنے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔یہ بات اب تک کی سب‬
‫سے بڑی کنٹرول تحقیق میں دریافت کی گئی۔‬
‫امریکا کی یالے یونیورسٹی اور اسٹینفورڈ میڈیسین نے بنگلہ دیش میں اس تحقیق پر کام‬
‫کیا جس کے نتائج سے ٹھوس شواہد ملے کہ بڑے پیمانے پر سرجیکل ماسک کا استعمال‬
‫برادریوں میں کورونا وائرس کے پھیالؤ کا محدود کرسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں بنگلہ دیش کے ‪ 600‬دیہات کے ‪ 3‬الکھ ‪ 40‬ہزار سے زیادہ بالغ افراد کو‬
‫ٹریک کرکے فیس ماسک کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫محققین نے کہا کہ لیبارٹری اور دیگر تحقیقی کام سے جو اب تک معلوم ہوا ہماری تحقیق‬
‫کے نتائج سے ان کے بارے میں حتمی‪ ،‬ٹھوس اور حقیقی دنیا کے شواہد سامنے آئے ہیں‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس ماسک سے عالمات والی کووڈ کی بیماری کے پھیالؤ کو‬
‫محدود کیا جا سکتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ نتائج سے اب سائنسی بحث کا خاتمہ ہوجانا چاہیے کہ فیس ماسک پہننا‬
‫آبادی کی سطح پر کووڈ کی روک تھام کے لیے مؤثر ہے یا نہیں۔‬
‫محققین نے تخمینہ الیا کہ فیس ماسک پہننے سے عالمات والی بیماری کی شرح میں ‪9.3‬‬
‫فیصد تک کمی آئی‪ ،‬مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماسک محض ‪ 9.3‬فیصد مؤثر ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ درحقیقت یہ شرح کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے اگر ہر ایک فیس ماسک کو‬
‫پہننا شروع کردے۔‬
‫اعلی ترین معیار کو مدنظر رکھا گیا اور‬
‫ٰ‬ ‫ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے لیے طبی شعبے کے‬
‫دریافت ہوا کہ مجموعی طور پر فیس ماسک کے استعمال سے بیماری پھیلنے کا خطرہ ‪11‬‬
‫فیصد تک گھٹ گیا جبکہ ‪ 60‬سال سے زائد عمر کے افراد میں یہ شرح لگ بھگ ‪ 5‬فیصد‬
‫کے قریب تھی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ نتائج سے اس لیے بھی قابل ذکر ہیں کیونکہ جن دیہات کو تحقیق میں‬
‫شامل کیا گیا تھا وہاں ‪ 50‬فیصد سے بھی کم افراد فیس ماسک پہننے تھے ‪ ،‬مگر پھر بھی‬
‫اس احتیاط سے برادریوں میں بیماری کے پھیالؤ کا خطرہ گھٹ گیا۔‬
‫یہ تحقیق ان ماہرین کے پراجیکٹ کا حصہ ہے جس میں نہ صرف ماسک کی افادیت کو‬
‫دیکھا جارہا ہے بلکہ برادریوں میں فیس ماسک کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے‬
‫طریقوں پر بھی کام کیا جارہا ہے۔اس تحقیق پر کام نومبر میں شروع ہوا تھا اور اس کا‬
‫اختتام اپریل ‪ 2021‬میں ہوا تھا جس میں ایک الکھ ‪ 78‬ہزار دیہات کے افراد کو فیس ماسک‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی جبکہ دیگر ایک الکھ ‪ 63‬ہزار دیہات کو کنٹرول‬
‫گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا‪ ،‬یعنی وہاں کسی قسم کی کوشش نہیں کی گئی۔‬
‫بنگلہ دیش میں مارچ ‪ 2020‬سے فیس ماسک کا استعمال الزمی ہے تاہم لوگوں کی جانب‬
‫سے اسے اپنانے کی شرح آغاز میں زیادہ نہیں تھی‪ ،‬مگر محققین کی حوصلہ افزائی پر‬
‫دیہات میں یہ شرح ‪ 13‬فیصد سے بڑھ کر ‪ 42‬فیصد تک پہنچ گئی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ فیس ماسک کے استعمال میں بڑھانے کے لیے چند طریقے مددگار ثابت‬
‫ہوئے‪ ،‬یعنی گھر گھر مفت ماسک کی فراہمی‪ ،‬ماسک کے فوائد کے بارے ےمیں تفصیالت‬
‫بتانا‪ ،‬قابل اعتبار مقامی رہنماؤں کی جانب سے فیس ماسک پہننے کی حوصلہ افزائی کرانا۔‬

‫محققین کا کہنا تھا کہ ہمارے یے یہ کسی برادری میں فیس ماسک کا کم از کم اثر ہے‪،‬‬
‫ہمیں توقع ہے کہ یہ اثر بہت زیادہ ہوگا۔‬
‫انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کپڑے کے ماسک بھی علالمات کا خطرہ کم کرتے ہیں‬
‫مگر ان سے بیماری کی روک تھام کا اثر معمولی ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر‬
‫جاری کیے گئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167502/‬‬

‫غذا میں ایک عام چیز کا کم استعمال فالج اور ہارٹ اٹیک سے بچائے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪02 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫اگر آپ اپنے کھانے میں نمک کی زیادہ مقدار کو پسند کرتے ہیں تو بہتر ہے کہ اب اس‬
‫عادت پر نظرثانی کرلیں۔‬
‫درحقیقت کھانے میں عام نمک کی بجائے کم سوڈیم والے نمک کا استعمال کیا جائے تو‬
‫فالج‪ ،‬ہارٹ اٹیک اور موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫جارج انسٹیٹوٹ آف گلوبل ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ سوڈیم والے نمک کی جگہ‬
‫کم سوڈیم والے نمک کو دینا فالج‪ ،‬ہارٹ اٹیک اور موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا‬
‫جاسکتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق دنیا کے ہر فرد کے لیے اہمیت رکھتی ہے‪ ،‬کیونکہ دنیا بھر‬
‫میں لگ بھگ ہر فرد غذا میں نمک کا استعمال کرتا ہے اور لگ بھگ ہر ایک ہی توقع‬
‫سے زیادہ مقدار میں نمک کو جزوبدن بناتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بالغ افراد کو دن بھر میں ایک چائے کے چمچ نمک کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے اور‬
‫نمک کی زیادہ مقدار کا استعمال بلڈ پریشر بڑھنے‪ ،‬گردوں کو نقصان پہنچنے‪ ،‬فالج اور‬
‫ہارٹ اٹیک سے منسلک بڑھایا جاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں اپریل ‪ 2014‬سے جنوری ‪ 2015‬کے دوران چین کے ‪ 600‬دیہات کے ‪ 21‬ہزار‬
‫بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کو ماضی میں فالج یا بلڈ پریشر کے مسائل کا سامنا ہوا‬
‫تھا۔‬
‫محققین نے ہر گاؤں سے زیادہ سے زیادہ ‪ 35‬افراد کی خدمات حاصل کی تھیں اور انہیں ‪2‬‬
‫گروپس میں تقسیم کرکے عام نمک یا متبادل نمک کا استعمال کرایا گیا۔‬
‫ایک گروپ کو مفت متبادل نمک (‪ 75‬فیصد سوڈیم کلورائیڈ اور ‪ 25‬فیصد پوٹاشیم کلورائیڈ‬
‫پر مبنی) فراہم کیا گیا۔‬
‫رضاکاروں کی اوسط عمر ‪ 65‬تک تھی اور ان میں ‪ 49.5‬فیصد خواتین تھیں‪ 72.6 ،‬فیصد‬
‫میں فالج اور ‪ 88.4‬فیصد میں بلڈ پریشر کی تاریخ تھی۔‬
‫ان افراد کا ائزہ لگ بھگ پونے ‪ 5‬سال تک لیا گیا اور ‪ 3‬ہزار سے زیادہ کو فالج کا سامنا‬
‫ہوا‪ 4 ،‬ہزار سے زیادہ ہالک اور ‪ 5‬ہزار سے زیادہ افراد کو دل کی شریانوں سے جڑے‬
‫کسی مرض کے ایونٹ کا سامنا ہوا۔‬
‫مگر محققین نے دریافت کیا کہ عام نمک کے متبادل نمک کو استعمال کرنے والے افراد‬
‫میں فالج کا خطرہ ‪ 14‬فیصد تک کم ہوگیا۔‬
‫امراض قلب (فالج اور ہارٹ اٹیک) کا خطرہ ‪ 13‬فیصد اور قبل از وقت موت کا خطرہ ‪12‬‬
‫فیصد تک کم ہوگیا۔‬

‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی طرح ان افراد کا بلڈ پریشر لیول بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں کم ہوا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں کیونکہ متبادل نمک عام نمک کو غذا سے‬
‫دور رکھنے کےلیے چند عملی ذرائع میں سے ایک ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167561/‬‬

‫سبزیوں اور پھلوں کے رنگ صحت سے متعلق کیا بتاتے ہیں؟‬


‫ستمبر‪02 2021 ، J‬‬

‫ہر طرح کے رنگ انسانی موڈ پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں‪ ،‬غذائی ماہرین کا بتانا ہے‬
‫کہ اسی طرح سبزیوں‪ ،‬پھلوں‪ ،‬میووں اور جڑی بوٹیوں کے رنگوں میں بھی قدرت نے راز‬
‫چھپا رکھا ہے جو کسی نہ کسی طرح انسانی جسم اور نفسیاتی صحت اور پوری شخصیت‬
‫کو متاثر کرتے ہیں۔‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطاق رنگ برنگی سبزیوں کے استعمال کا بھی صحت پر مثبت‬
‫اور منفی اثر پڑتا ہے‪ ،‬کورونا وائرس سے قبل ان رنگوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی‬
‫تھی۔‬
‫غذائی ماہرین کا سبزیوں اور پھلوں ‪ ‬کے رنگوں سے متعلق کیا کہنا ہے؟‬
‫جامنی رنگ کے پھل اور سبزیاں‬
‫مختلف رنگوں کے پھل اور سبزیاں کھانے سے متعلق غذائی ماہرین کا بتانا ہے کہ نیلے‪،‬‬
‫جامنی رنگ کے پھل اور سبزیاں صحت کے لیے مفید ہیں‪ ،‬ان میں بلیو بیری‪ٓ ،‬الوچا اور‬
‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بینگن شامل ہیں‪ ،‬ان پھلوں اور سبزیوں میں‪  ‬یہ رنگ ’اینتھو سیاننس‘ نامی مادے کی وجہ‬
‫سے ہوتا ہے۔‬
‫ان پھلوں اور سبزیوں میں ایسے اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو متوازن مجموعی صحت اور‬
‫یادداشت کو بہتر بناتے ہیں‪ ،‬خاص طور پر جامنی رنگ کے پھلوں اور سبزیوں کے گودے‬
‫میں یہ خصوصیات‪  ‬پائی جاتی ہیں‪ ،‬یہ ناصرف خون کی گردش کو رواں رکھتے ہیں بلکہ‬
‫خون کے جمنے کے عمل کو بھی روکتے ہیں۔‬
‫ہرے رنگ کے پھل اور سبزیاں‬
‫ہری سبزیوں میں بروکولی‪ ،‬بند گوبھی اور پالک شامل ہیں‪ ،‬ان میں ’لیوٹین‘‪ š‬اور ’انڈول‘‬
‫نامی اجزا ہوتے ہیں جو ’قرنیے‘ ٓانکھ کے سفید حصے کو خراب ہونے سے بچاتے اور‬
‫موتیا سے محفوظ رکھتے ہیں۔‬
‫ہری سبزیوں میں بیٹا کیروٹین اور فولیٹ بھی پائے جاتے ہیں‪ ،‬یہ ہڈیوں اور پٹھوں کو‬
‫مضبوط کرتے ہیں‪ ،‬اس کے عالوہ ان میں ٓائرن‪  ‬اور فائبر بھی ہوتا ہے‪ٓ ،‬ائرن سرخ خلیات‬
‫کی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے اور‪ ‬فائبر ہاضمے کے بہتر نظام میں مدد دیتا ہے۔‬
‫الل رنگ کے پھل اور سبزیاں‬
‫گالبی اور سرخ پھلوں اور سبزیوں میں چقندر‪ ،‬چکوترا‪ ،‬انار اور ٹماٹر شامل ہیں‪ ،‬ان میں‬
‫’الئکو پین‘ اور ’اینتھو سیانن‘ نامی اجزا موجود ہوتے ہیں جو کینسر کی روک تھام کے‬
‫لیے بہت مفید سمجھے جاتے ہیں۔‬
‫سرخ رنگ کی بیریوں میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ‪ ،‬پوٹاشیم اور فائبر پایا جاتا ہے‪ ،‬یہ سبزیاں اور‬
‫پھل بلڈ پریشر کو معمول پرالتے ہیں‪ ،‬خلیات کی تعمیر کرتے ہیں اور خراب کولیسٹرول‬
‫کی سطح کو بھی کم کردیتے ہیں۔‬
‫ماہرین نفسیات کے مطابق سرخ رنگ کی تمام غذائیں جسم کے لیے حفاظتی شیلڈ مہیا‬
‫کرتی ہیں جب بھی کوئی فکر‪ ،‬ذہنی تنأو‪ ،‬تھکان‪ ،‬سستی یا بیماری محسوس ہو تو سرخ‬
‫رنگ کی غذائیں طاقت فراہم کرتی ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق سرخ رنگ کی غذا میں ٹماٹر ایک ایسا پھل ہے جسے پکا کر اس‬
‫کی تاثیر اور غذائیت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔‬
‫پیلے اور نارنجی رنگ کے پھل اور سبزیاں‬
‫نارنجی‪ ،‬پیلے پھل اور سبزیوں میں لیموں‪ ،‬نارنجی‪ ،‬پپیتا اور ٓام شامل ہیں‪ ،‬ان میں ایسے‬
‫ت مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں‪،‬‬ ‫اجزا زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں جو مختلف امراض میں قو ِ‬
‫ان سے سانس کی نالی کے سرطان جیسے مہلک مرض سے بچأو بھی ممکن ہے‪،‬‬
‫سیگریٹ پینے والے افراد کو ان پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔‬
‫اس کے عالوہ نارنجی‪ ،‬پیلے پھل اور سبزیوں میں پائے جانے والے اجزاء دماغی قوت‬
‫‪ ‬میں اضافہ کرتے ہیں اور گھٹیا کے درد اور سوجن میں بھی کمی کرتے ہیں۔‬
‫تُرش پھلوں میں ایک بہت مفید جز زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جسے ’ہیس پیری ڈن‘‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬یہ جز قلب کے لیے بہت فائدہ مند ہے‪ ،‬ان پھلوں میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزا پائے‬
‫جاتے ہیں جو کہ الرجی اور نزلے زکام سے بچاتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سفید رنگ کے پھل اور سبزیاں‬
‫سفید رنگ کی غذأوں میں چکنائی کم اور فاسفورس زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬اسی لیے سفید غذائیں‬
‫کھانے والے افراد اسمارٹ‪ ،‬توانا اور چاق و چوبند رہتے ہیں۔‬
‫سفید سبزیاں جیسے مولی مختلف بیماریوں اور ان کے جراثیم سے‪  ‬بچاؤ ممکن بناتی ہیں‪،‬‬
‫تمام سفید غذأوں میں پروبأوٹکس پائے جاتے ہیں جو قوت مدافعت اور نظام ہاضمہ کو قوت‬
‫بخشتے ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/978911‬‬

‫روزانہ رائی دانہ کھانے سے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے؟‬
‫ستمبر‪03 2021 ، J‬‬

‫سرسوں سے حاصل ہونے والے بیج رائی کہالتے ہیں‪ ،‬ان بیجوں سے جہاں سرسوں کا تیل‬
‫حاصل کیا جاتا ہے وہیں اِن کے براہ راست استعمال سے صحت پر بے شمار فوائد بھی‬
‫حاصل کیے جا سکتے ہیں‪ ،‬رائی کے دانے صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔‬

‫پایا جاتا )‪‘ (glucosinolate‬غذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں جُز ’ گلوکوسینولیٹ‬
‫ہے جو کہ رائی کو منفرد ذائقہ دیتا ہے‪ ،‬رائی دانے میں موجود مرکبات انسانی جسم‬
‫بالخصوص بڑی ٓانت میں سرطانی خلیوں سے بچاؤ ممکن بناتے ہیں‪ ،‬رائی کے بیجوں میں‬
‫فائبر کم اور کاربوہائیڈریٹس زیادہ پائے جاتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں صحت کے لیے بنیادی جز سمجھے جانے والے‬
‫‪ B1،‬فیٹی ایسڈز بھی پائے جاتے ہیں‪ ،‬اس میں اومیگا‪ ،3‬سیلینیم‪ ،‬مینگنیز‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬وٹامن‬
‫کیلشیم‪ ،‬پروٹین اور ِزنک بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے رائی دانے کو روزانہ کی بنیاد پر خوراک میں شامل کرنا اور اس‬
‫سے مستفید ہونا تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫رائی دانے کے روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے بے شمار طبی فوائد اور رونما‬
‫ہونے والی جسمانی تبدیلیاں مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫بہتر نظام ہاضمہ‬
‫ہاضمے کی بہتر کارکردگی کے لیے رائی دانہ بہترین سمجھا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ یہ انسانی‬
‫جسم میں میٹابولزم کے عمل کو مضبوط بناتے ہیں اور ہاضمے کے مسائل کو کم کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬اس کے نتیجے میں انسان کا جسمانی وزن‪  ‬کم ہوتا ہےخصوصا ً باہر نکال پیٹ اندر‬
‫جانے لگتا ہے۔‬
‫جوڑوں کے درد کا عالج‬
‫کیلشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے سبب یہ عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو‬
‫ہڈیوں سے متعلق مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں‪ ،‬چہرے سے جھریوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔‬
‫کمر کے درد یا پٹھوں کی اکڑن کے مسئلے سے دوچار فراد رائی کے دانے چبا لیں‪ ،‬اس‬
‫سے درد میں کمی ٓائے گی اور پٹھوں کی سختی اور سوجن کم ہوگی۔‬
‫کینسر سے نجات‬
‫پائے جاتے ہیں جو بڑی ٓانت کے سرطان کا ‪ enzymes‬رائی دانوں کے اندر ایسے انزائمز‬
‫خاتمہ کرتے ہیں‪ ،‬یہ سرطانی خلیوں کو بڑھنے اور پیدا ہونے سے روکنے کی بھی‬
‫صالحیت رکھتے ہیں۔‬
‫سوزش اور انفیکشن کا عالج رائی دانوں میں سیلینیم ہوتا ہے‪ ،‬جو دمے کے حملوں اور‬
‫جوڑوں کے گٹھیا کے درد کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔‬
‫رائی دانے سوزشوں بالخصوص چنبل کے نتیجے میں ہونے والے زخموں اور انفیکشنز کا‬
‫مقابلہ کرنے کی بھرپورصالحیت‪ š‬رکھتے ہیں۔‬
‫بلڈ پریشر کے مسائل میں معاون‬
‫رائی دانے میں موجود میگنیشیم فشار خون کو کم کرتا ہے اور یہ ٓادھے سر کے درد کی‬
‫شدت میں بھی کمی التا ہے۔‬
‫‪ ‬وائرل انفیکشن‪ ،‬الرجی میں افاقہ‬
‫رائی دانوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ نزلے کی شدت کو کم کرتے ہیں اور سانس کی نالی‬
‫میں تنگی سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‬
‫اگر کسی کو مٹی سے الرجی کے سبب سانس لینے میں دشواری پیش ٓاتی ہے تو وہ رائی‬
‫کے بیج چبالے‪ ،‬افاقہ ہوگا۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/979339‬‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سہانجنہ ‪ :‬وہ درخت جس کے طبی فوائد سے آپ العلم تھے‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  2 2021 J‬‬

‫سہانجنہ کے خشک پتوں کا قہوہ پریشانیوں اور دباؤ میں سکون بخشتا ہے اور بھرپور‪J‬‬
‫نیند التا ہے‪ ،‬قبض کے مریضوں کےلئے ٓاب حیات ہے‪ ،‬خون کی کمی کی وجہ سے چہرے‬
‫کی چھائیوں میں تیر بہ ہدف ہے ہر طرح کی کمزوری کا واحد عالج ہے‪ ،‬حاملہ عورتوں‬
‫سے لے کر بچوں تک سب استعمال کر سکتے ہیں۔‬
‫یہ درخت اردو میں سہانجنہ اور انگریزی میں ہارس ریڈش یامورنگا کہالتا ہے ۔ اس کے‬
‫اور بھی مختلف نام ہیں مثال ً مورنگا ‘ مورنگا اولیفیرا ‘ ڈرم اسٹک اور بین ٓائل وغیرہ۔‬
‫اس درخت کے متعلق ایک مضمون عبقری رسالے میں غالم قادر ہراج صاحب نے لکھا‬
‫تھا جس میں انہوں نے اس درخت کے فوائد پر بہت معلومات فراہم کی ہیں اور مختلف‬
‫بیماریوں کے لئے اس کا استعمال بتایا ہے۔‬
‫درحقیقت مورنگا جو کہ ہمارے ہاں سہانجنہ کے نام سے جانا جاتا ہے ایک ایسا درخت ہے‬
‫جو کہ پاکستان میں پشاور سے کراچی تک بکثرت پایا جاتا ہے‪ ،‬یہ خود رو بھی ہے اور‬
‫گھروں کھیتوں میں کاشت بھی کیا جاتا ہے۔‬
‫سہانجنہ گرم ماحول اور ریتلی زمین میں ٓاسانی سے کاشت ہوتا ہے‪ ،‬بہاول پور کے عالقے‬
‫میں خود رو درختوں کے جنگل ہیں۔ اس درخت کی اونچائی ‪ 25‬تا ‪40‬فٹ تک ہوتی ہے۔‬
‫پھل اور پھول بکثرت سال میں ‪ 2‬۔ ‪ 3‬دفعہ لگتے ہیں لکڑی نرم و نازک اور پھلیاں تقریبا ً‬
‫ایک فٹ لمبی اور انگلی کے برابر موٹی ہوتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تیل ‪ :‬سہانجنہ کے بیجوں کا تیل بےبو ‘ بے ذائقہ اور مدت تک پڑا رہنے سے خراب نہیں‬
‫ہوتا۔ گھڑی کے پرزوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے عالوہ فوڈ سپلمینٹ ‘‬
‫مختلف کاسمیٹک ‘ بالوں اور جلدی امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫سہانجنہ کا دیسی استعمال ‪ :‬اس کا مزاج گرم و خشک بدرجہ سوم ہے‪ ،‬حدر بول اور ہاضم‬
‫ہونے کی وجہ سے اس کی جڑ کا پانی دودھ میں مال کر پالیا جاتا ہے‪ ،‬اندرونی اورام ‘‬
‫ورم تلی ‘ ضعف اشتہا ‘ دمہ اور نقرس میں فائدہ کرتا ہے‪ ،‬گردہ اور مثانہ کی پتھری توڑتا‬
‫ہے۔ جڑ کے جوشاندے سے گلے کی سوزش دور ہوتی ہے۔ خام پھلیوں کا اچار سرکہ میں‬
‫جوڑوں کے درد ‘ کمر درد اور فالج لقوہ کےلئے مفید ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sahanjna-medical-benefits-health-tips/‬‬

‫جاپان‪ :‬ویکسین کی فراہم کردہ قوت مدافعت سے بچنے والی کرونا قسم‬
‫کی تصدیق‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  2 2021 J‬‬

‫ٹوکیو‪ :‬جاپان میں ویکسین کی فراہم کردہ قوت مدافعت سے بچنے والی کرونا وائرس کی‬
‫متغیر قسم ُمو کی تصدیق ہوئی ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق جاپان کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی متغیر‬
‫قِسم ُمو کے پہلے انفیکشنز کی تصدیق ہو گئی ہے‪ ،‬اس نئی متغیر قسم کو اُس درجے میں‬
‫رکھا گیا ہے جس میں ڈبلیو ایچ او دل چسپی رکھتا ہے۔وزارت صحت کے مطابق دو ایئر‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پورٹس پر قرنطینہ مراکز میں نئے کرونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت ٓانے والے دو مسافر‬
‫متغیر قِسم ُمو سے متاثرہ پائے گئے ہیں۔‬
‫یہ متغیر قِسم جنوبی امریکا اور یورپ میں پائی جا چکی ہے‪ ،‬عالمی ادارٔہ صحت نے کہا‬
‫ہے کہ متغیر قِسم ُمو میں ایسی تبدیلیاں ہوئی ہیں جو ویکسین کی فراہم کردہ قوت مدافعت‬
‫سے بچنے کی صالحیت رکھتی ہیں۔‬
‫عالمی ادارٔہ صحت نے پیر کے روز متغیر قِسم ُمو کو دل چسپی کی حامل متغیر اقسام کی‬
‫اپنی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔‬
‫ت صحت کے حکام نے جمع کیے گئے نمونوں میں جینیاتی ساخت کا جائزہ لیا‬ ‫جاپانی وزار ِ‬
‫تھا‪ ،‬اُنھوں نے پتا لگایا کہ جون کے اواخر میں متحدہ عرب امارات سے ناریتا ہوائی اڈے‬
‫پہنچنے والی ‪ 40‬سالہ ایک خاتون اور جوالئی کے اوائل میں برطانیہ سے ہانیدا ایئر پورٹ‬
‫پہنچنے والی ‪ 50‬سالہ ایک خاتون متغیر ِقسم ُمو سے متاثرہ تھیں۔‬
‫قومی انسٹیٹیوٹ برائے وبائی امراض کے ڈائریکٹر جنرل وا ِکیتا تاکاجی نے ڈیٹا جمع‬
‫کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے‪ ،‬اُنھوں نے کہا کہ کئی طرح کی متغیر اقسام کی‬
‫تصدیق ہو رہی ہے لیکن اُن اقسام پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے جو دیگر کے مقابلے‬
‫میں زیادہ متعدی ہیں۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے مطابق‪ ،‬اس نئی متغیر ِقسم کی سب سے پہلے جنوری میں کولمبیا میں‬
‫شناخت ہوئی تھی‪ ،‬لیکن اس کے بعد سے کم از کم ‪ 39‬ممالک میں اس کی تصدیق ہو چکی‬
‫ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/japan-confirms-first-cases-of-mu/‬‬

‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫کووڈ ‪ 19‬کے ماخذ کا سراغ کیسے لگائیں ؟ ماہر صحت نے بڑا‬
‫کردیا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪2 2021 J‬‬

‫ماپوتو‪ :‬دنیا بھر کے سائنسدان عالمی وبا کرونا وائرس کا ماخذ جاننے کے لئے سرگرم‬
‫عمل ہے‪ ،‬ایسے میں افریقی ملک کے ماہر صحت نے بڑا مطالبہ کردیا ہے۔‬
‫موزمبیق کے قومی صحت انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈورڈو سامو گوڈو کا کہنا ہے‬
‫کہ نوول کرونا وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں کی‬
‫لیبارٹریوں میں گزشتہ تین یا چار برسوں سے ذخیرہ شدہ نمونوں پر تحقیقات ہونی چاہئے‬
‫اوراس میں جانورو ں سے حاصل کئے گئے نمونے بھی شامل ہونے چاہیئے۔‬
‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہر صحت نے خبردار کیا کہ اگر اس عمل کو سیاست بازی کے خطرے سے دوچار کیا‬
‫جائے تو سچ تک کبھی بھی رسائی حاصل نہیں ہوسکتی‪ ،‬اس معاملے پر سیاست بازی نہ‬
‫کی جائے‪ ،‬ماخذ کے بارے میں تحقیقات ایک سائنسی عمل ہے یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں‬
‫ہے۔‬
‫گوڈو کہتے ہیں کہ جب سائنس کو سیاست بازی کی نذر کیا جاتا ہے تو ہم تمام سائنسی مواد‬
‫اور بصیرت کھو دیتے ہیں اور سائنسی دالئل بھال دیئے جاتے ہیں۔‬
‫گوڈو نے واضح کیا کہ بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک ملک میں پہال کیس پایا گیا تھا‬
‫لیکن یہ زونوٹک عمل (جب وائرس جانوروں کی انواع سے انسان میں منتقل ہوتا ہے)‬
‫دوسرے ملک میں ہوا جو کہ فطری بات ہے۔‬
‫یاد رہے کہ کرونا وبا کے آغاز سے ہی چین اور امریکا کے درمیان سرد مہری جاری‬
‫ہے‪ ،‬امریکا کئی مواقع پر برمال اظہار کرچکا ہے کہ چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری‬
‫سے ممکنہ طور پر یہ وائرس پھیال ہے۔‬
‫دوسری جانب سینئر چینی سفارت کار کا کہنا ہے کہ کووڈ نائنٹین کے ماخذ کی کھوج کی‬
‫شفاف تحقیقات کے لئے امریکا میں فورٹ ڈیٹریک اور یونیورسٹی آف نارتھ کیروالئنا کی‬
‫لیبارٹریوں تک مکمل رسائی ہونی چاہئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/covid-19-origins-tracing-should-be-‬‬
‫‪implemented-on-samples-worldwide/‬‬

‫بوسٹر ڈوز کیوں ضروری ہے؟ اماراتی حکام نے واضح کردیا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ستمبر‪ 2 2021 J‬‬

‫دبئی‪ :‬کرونا وبا کے خالف جنگ جیتنے کے لئے متحدہ عرب امارات نے اہم ترین فیصلہ‬
‫کیا ہے۔‬
‫میڈیا رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فائزر کووڈ نائٹین‬
‫کی تیسری خوراک کمزوروں میں قوت مدافعت بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔‬
‫فقیہ یونیورسٹی اسپتال میں فیملی میڈیسن کے ماہر ڈاکٹر عادل سنجوانی نے کہا کہ یہ‬
‫واضح ہے کہ فائزر کووڈ نائٹین ویکسین کا کرونا وائرس سے لڑنے میں اچھا رسپانس ہے‬
‫اور تیسری خوراک طبی ہسٹری رکھنے والے لوگوں کے لئے تجویز کی جاتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر عادل سنجوانی نے مزید کہا کہ کینسر اور امیونو تھراپی کے زیر عالج مریضوں‬
‫اور کم قوت مدافعت والے افراد کی کرونا وائرس کے خالف قوت مدافعت کم ہوگی‪ ،‬اور‬
‫اس طرح کووڈ نائنٹین کے خالف قوت مدافعت بڑھانے کے لئے بوسٹر شارٹ کی‬
‫ضرورت پڑسکتی ہے۔‬
‫دوسری جانب دبئی ہیلتھ اتھارٹی نےاعالن کیا ہے کہ وہ کمپرومائز مدافعتی نظام والے‬
‫رہائشیوں کو فائزر بائیو ٹیک کووڈ نائنٹین ویکسین کی تیسری خوراک کی فراہمی کا انتظام‬
‫شروع کرے گا‬
‫ڈاکٹر ویشالی روہنکر جنرل پریکٹیشنر اور میڈیکل ڈائریکٹر ایسٹر کلینک شیخ زید روڈ نے‬
‫کہا کہ ویکسین کی تیسری خوراک ایچ آئی وی کے مریضوں ‪ ،‬کینسر کے لئے کیمو‬
‫تھراپی سے گزرنے والے اور اعضا یا اسٹیم سیل ٹرانسپالنٹ کے وصول کنندگان کے لئے‬
‫درکار ہے۔‬
‫روہنکر نے مزید کہا کہ ایسے مریضوں میں قوت مدافعت کم ہوسکتی ہےاور عام لوگوں‬
‫کے مقابلے میں کرونا وائرس کے خالف کم تحفظ پایا جاسکتا ہے‪ ،‬ان میں اینٹی باڈی‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫رسپانس کی پائیداری ختم ہوجاتی ہے اور وائرس کی نئی شکلوں کے سامنے آنے کا چیلنج‬
‫درپیش ہوتا ہے۔‬
‫میڈیکوس کا کہنا ہے کہ اینٹی باڈی ٹائٹر عام آدمی اور صحت مند مدافعتی نظام رکھنے‬
‫والوں میں طویل عرصے تک برقرار رہے گا۔‬
‫بوسٹر خوراک سے متعلق گائیڈ الئن‬
‫حکام کے مطابق تیسری خوراک کے لئے اہل افراد کو تصدیق کے لئے ڈی ایچ اے فیملی‬
‫میڈیسن ڈاکٹر سے مشاورت کی مالقات کرنی ہوگی‪ ،‬یا ‪342800‬پر کال کرکے ٹیلی میڈیسن‬
‫مشاورت کی درخواست کرنی ہوگی۔‬
‫تیسری خوراک کی ویکسین کی منظوری سے پہلے ڈی ایچ اے کے ڈاکٹر کی تفصیلی طبی‬
‫تشخیص کی ضرورت ہے اور اینٹی باڈی ٹائٹربھی چیک کیا جائے گا۔‬
‫ڈی ایچ اے نے پہلے ہی کہا تھا کہ جن افراد کو مکمل طور پر ویکسین دی گئی ہےاور‬
‫جنہیں مدافعتی بیماری نہیں ہےانہیں بھی ویکسین کی اضافی خوراک لینے کی ضرورت‪š‬‬
‫نہیں ہوگی ‪ ،‬کچھ کیسز میں یہاں تک کہ مدافعتی امراض سے متاثرہ مریضوں کو ویکسین‬
‫کی تیسری خوراک کی ضرورت نہیں ہوگی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/united-arab-emirates-corona-booster-dose/‬‬
‫کورونا وائرس فلو کی طرح دنیا میں ہمیشہ موجود رہے گا؟‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  3 2021 J‬‬

‫ریاض‪ :‬سعودی طبی ماہر عبدہللا عسیری نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس ساالنہ فلو‬
‫کی طرح باقی رہے گا۔‬
‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سعودی وزارت صحت میں حفاظتی تدابیر اور امراض سے بچاؤ کے سیکریٹری ڈاکٹر‬
‫عبدہللا عسیری کا کہنا ہے کہ ساالنہ فلو وائرس کی طرح کووڈ‪ 19‬کی بھی موجودگی رہے‬
‫گی۔‬
‫انہوں نے کہا ہے کہ کورونا ویکسین مہم کا مقصد وائرس کا خاتمہ نہیں بلکہ وبائی کیفیت‬
‫سے نکلنا ہے۔‬

‫ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین کے باعث اس کا خطرہ کم ہوجائے گا‪ ،‬ویکسین کی‬
‫مدد سے وائرس کو محدود کرنے میں بھی مدد ملے گی لیکن وبا کے ختم ہونے کے‬
‫امکانات نہیں ہیں۔‬
‫عبدہللا عسیری نے مزید کہا کہ کورونا وائرس ساالنہ فلو کی طرح باقی رہے گا تاہم یہ‬
‫خطرناک نہیں ہوگا‪ ،‬سعودی عرب کورونا ویکسین کے نتائج واضح طور پر نظر ٓارہے‬
‫ہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی کئی ماہرین کووڈ ‪ 19‬کے ہمیشہ رہنے کے امکانات‬
‫ظاہر کرچکے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-will-always-be-present-in-the-‬‬
‫‪world-like-flu/‬‬

‫فارمی مرغی (چکن) ہمارے لیے کتنی فائدہ مند ہے؟‬


‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪3 2021 J‬‬

‫پہلے زمانے میں مرغی کا گوشت کھانا امیروں کی شان سمجھی جاتی تھی لیکن وقت‬
‫گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جگہ فارمی مرغی نے لے لی جس کے بعد عام آدمی کی‬
‫پہنچ بھی مرغی کے گوشت تک ہوگئی۔‬
‫فارمی مرغیوں کی افزائش کیلئے انہیں ایسی خوراک دی جاتی ہے کہ جس سے چوزہ ‪40‬‬
‫روز میں مکمل تیار ہوکر مارکیٹ میں آجاتا ہے۔‬
‫اس فارمی مرغی کو طبی لحاظ سے ہائی پروٹین یا وائٹ میٹ کے نام سے جانا جاتا ہے‪،‬‬
‫اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برائلر چکن کھانا ہمارے لیے نقصان دہ ہے؟‬
‫اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ برائلر کھانے کے کوئی نقصانات نہیں ہیں بلکہ‬
‫برائلر پروٹینز کا سستا اور اچھا ذریعہ ہیں جن کی وجہ سے آپ کی اچھی گروتھ ممکن‬
‫ہے۔ برائلر چکن ہارمونز سے پاک اور محفوظ پروٹینز کا ایک ذریعہ ہے اگر آپ اس کو‬
‫اچھی طرح سے پکا کر کھاتے ہیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔‬
‫برائلر چکن کیخالف زیادہ تر پروپیگنڈہ‪ š‬بے بنیاد باتوں پہ مبنی ہے‪ ،‬برائلر کی موجودہ تیز‬
‫گروتھ سیلیکٹو بریڈنگ کا نتیجہ ہے جس میں ہم نے اصیل مرغیوں کی ‪ 100‬اقسام میں‬
‫سے دس ایسی اقسام کی سیلیکٹو بریڈنگ کرائی جو کہ جلد از جلد گروتھ کر سکے اور‬
‫بڑی ہو سکے۔‬
‫یہ پچھلے ‪ 90‬سالوں کی محنت کے بعد ممکن ہو سکا ہے اور ان مرغیوں یہ گروتھ بغیر‬
‫ہارمونز کے قدرتی طور پہ ہوتی ہے‪،‬مرغیوں کی فیڈ میں بس ضروری غذائی اجزاء ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫کیا پولٹری ہارمونز‪ J‬سے پاک ہوتی ہے؟‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک مرغی کا گروتھ ہارمون ہر نوے منٹ بعد اپنی انتہا کو پہنچتا ہے سو اگر آپ چاہتے‬
‫ہیں کہ آپ ایک مرغی کو ہارمونز لگا کر تیزی سے بڑا کریں تو آپ کو دن میں کئی بار‬
‫اس کو گروتھ ہارمونز کا ٹیکہ لگانا پڑے گا جو کہ ایک بڑے فارم میں ممکن نہیں۔‬
‫اور اس وقت ایسا کوئی کمرشل پراڈکٹ نہیں ہے جو کہ مرغیوں کے ہارمونز کو بڑھانے‬
‫کی وجہ بن سکتا ہے اور اگر یہ دستیاب بھی ہوتا تو اتنا مہنگا پڑتا کہ مرغیوں کی قیمت‬
‫آسمان پہ پہنچ جاتی۔‬
‫اس کے عالوہ بہت زیادہ ہارمون کسی بھی جانور کے گردے فیل کرکے اس کو ایک یا دو‬
‫دن بعد مار دیتے ہیں سو ہارمون لگانا بھی ممکن نہیں۔‬
‫اس لئے چکن کو محفوظ پروٹینز کا ذریعہ سمجھ کر بے فکر ہو کر کھائیں اس کی وجہ‬
‫سے نا ہی آپ کے گردے فیل ہونے والے ہیں اور نا ہی آپ کو کینسر ہونے کا خدشہ ہے‬
‫کیونکہ کینسر کا تعلق آپ کے ڈی این اے کی میوٹیشنز سے ہے ڈائیٹ سے نہیں کیونکہ‬
‫ڈائیٹ کینسر نہیں پیدا کرتی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/farm-chicken-medical-benefits-health-tips/‬‬

‫کرونا وائرس دل کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪3 2021 J‬‬

‫برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل‬
‫کے مخصوص خلیات میں تبدیلی ال کر ان کے افعال میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارد گرد‬
‫موجود شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین‬
‫سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔‬
‫دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو‬
‫جب کرونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو اعضا‬
‫میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی شریانوں کے خلیات کو حاصل کر کے انہیں‬
‫اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔‬
‫اس پروٹین کو کرونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور‬
‫ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد‬
‫خارج کرتا ہے۔‬
‫اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا‬
‫ہے‪ ،‬پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک‬
‫پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی صالحیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔‬
‫تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک‬
‫پروٹین کے زیر اثر آنے پر ان کا عالج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی ‪ 147‬نامی ریسیپٹر کو بالک کر‬
‫کے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ورم کا باعث‬
‫بننے واال کیمیکل پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں موجود ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جا سکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے‬
‫والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک‬
‫تھام کے ذرائع تالش کیے جاسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہ میکنزم خلیاتی اور اعضا کی پیچیدگیوں کو متاثرہ حصوں سے آگے‬
‫تک پھیال دیتا ہے اور ممکنہ طور پر پہلے سے کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر‪ ،‬ذیابیطس‬
‫اور موٹاپے کے شکار افراد میں مرض کی شدت کو سنگین بنا دیتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-and-heart-functions/‬‬

‫کیا ویکسی نیشن کے بعد بھی النگ کووڈ ہوسکتا ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪ 3 2021 J‬‬

‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی ویکسین لگوا لیے جانے کے بعد بھی اس مرض کا شکار ہوجانے کے‬
‫حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں تاہم اب ویکسی نیٹڈ افراد میں النگ کووڈ کے حوالے‬
‫سے نئے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کووڈ ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے‬
‫افراد کو اگر کووڈ ‪ 19‬کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں النگ کووڈ کا امکان ‪ 49‬فیصد تک کم‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یو کے زوئی کووڈ سمپٹم اسٹڈی ایپ‬
‫کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جو ‪ 8‬دسمبر ‪ 2020‬سے ‪ 4‬جوالئی ‪ 2021‬تک جمع کیا گیا۔‬
‫یہ الکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے ‪ 12‬الکھ ‪ 40‬ہزار ‪ 9‬افراد نے ویکسین کی ایک‬
‫خوراک استعمال کی تھی جبکہ ‪ 9‬الکھ ‪ 71‬ہزار ‪ 504‬نے ‪ 2‬خوراکیں استعمال کی تھیں۔‬
‫ماہرین نے مختلف عناصر بشمول عمر‪ ،‬جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ‬
‫ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے‬
‫کووڈ کا شکار ہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد عالمات کا خطرہ ویکسی نیشن نہ‬
‫کروانے والے مریضوں کے مقابلے میں ‪ 49‬فیصد کم ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح ویکسی نیشن کے بعد بیماری پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ ‪ 73‬فیصد تک کم‬
‫ہوتا ہے اور بیماری کی شدید عالمات کا خطرہ ‪ 31‬فیصد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫ان افراد میں عام عالمات ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد سے ملتی جلتی ہے جن‬
‫میں سونگھنے کی حس سے محرومی‪ ،‬کھانسی‪ ،‬بخار‪ ،‬سر درد اور تھکاوٹ قابل ذکر ہیں۔‬
‫ان تمام عالمات کی شدت معمولی ہوتی ہے اور ویکسی نیشن والے افراد کی جانب سے ان‬
‫کو رپورٹ کرنے کی شرح بھی کم ہوتی ہے اور بیماری کے پہلے ہفتے میں متعدد‬
‫عالمات کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بریک تھرو انفیکشن کا سامنا کرنے والے افراد میں چھینکیں واحد عالمت تھی جس کو‬
‫زیادہ تر مریضوں نے رپورٹ کیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب عالقوں کے رہنے والے ہوتے ہیں ان میں‬
‫ویکسین کی ایک خوراک کے بعد بیماری کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬جبکہ عمر بذات‬
‫خود خطرہ بڑھانے واال عنصر نہیں‪ ،‬مگر پہلے سے کسی بیماری کے شکار افراد میں‬
‫ویکسینیشن کے بعد کووڈ کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ النگ کووڈ کے بوجھ کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ ویکسی‬
‫نیشن مکمل کرانے پر کووڈ سے متاثر ہونے اور بدقسمتی سے بیمار ہونے پر طویل المعیاد‬
‫عالمات کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫مگر کمزور اور بزرگ افراد میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیں ترجیحی بنیادوں‬
‫پر ویکسین کی دوسری یا بوسٹر ڈوز دی جانے کی ضرورت ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-vaccination-long-covid/‬‬

‫یا بچوں کو بھی النگ کووڈ ہوسکتا ہے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪ 3 2021 J‬‬

‫بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں‬
‫اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں النگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ‬
‫کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر ‪ 7‬میں سے ایک بچے کو صحت یابی کے کئی ماہ‬
‫بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی‬
‫سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد عالمات کا سامنا‬
‫کر سکتے ہیں۔‬
‫یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں النگ کووڈ کی شرح کا جائزہ‬
‫لیا گیا۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 11‬سے ‪ 17‬سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق‬
‫ہوتی ہے ان میں ‪ 15‬ہفتے بعد ‪ 3‬یا اس سے زیادہ عالمات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے‬
‫محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران ‪ 11‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے ‪ 3065‬کووڈ‬
‫مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے ‪ 3739‬بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا‬
‫ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔‬
‫جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے ‪ 14‬فیصد نے ‪ 15‬ہفتوں بعد ‪ 3‬یا اس سے زیادہ‬
‫عالمات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا‪ ،‬کنٹرول گروپ میں یہ شرح‬
‫‪ 7‬فیصد تھی۔‬
‫ماہرین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے‬
‫‪ 15‬ہفتوں بعد متعدد عالمات موجود ہوسکتی ہیں‪ ،‬مگر اس عمر کے گروپ میں النگ کووڈ‬
‫کی شرح توقعات سے کم ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر‬
‫جاری کیے گئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-and-long-covid-in-kids/‬‬

‫فالج کےبعد ہاتھوں کی قوت بڑھانے والی ویڈیو گیم جوائے اسٹک‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬جمعـء‪ 3  ‬ستمبر‪2021  ‬‬
‫گرپیبل کنٹرولر کی بدولت فالج کے مریض گیم کھیلتے ہوئے فزیوتھراپی جیسی ورزش‬
‫کرسکتے ہیں‪،‬تصویر‪ š‬میں ایک لڑکا تیراندازی کے گیم سے ورزش کررہا ہے۔ فوٹو‪:‬‬
‫بشکریہ گرپیبل ویب سائٹ‬

‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬لندن‪ :‬فالج کے حملے کے بعد اکثر ہاتھوں کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے جسے بحال‬
‫کرنے کے لیے ادویہ اور فزیوتھراپی کرائی جاتی ہے۔ اب ایک ویڈیو گیم اور اس کے لیے‬
‫ڈیزائن کردہ خاص قسم کا ہینڈل بنایا گیا ہے جو کھیل کھیل میں ہاتھوں کی گرفت بحال‬
‫کرتا ہے۔‬
‫امپیریئل کالج لندن کے ماہرین نے اسے بنایا ہے جسے انہوں ںے ’گرپ ایبل‘ کا نام دیا‬
‫ہے۔ یہ ہاتھ اور بازو کی حرکات کو بڑھانے واال ایک تربیتی ٓالہ ہے۔ سامنے ایک گیم کی‬
‫صورت میں ایپ چلتی رہتی ہے جس کے لحاظ سے ہاتھومیں گرپیبل تھامنا اور اسے‬

‫گھمانا‬
‫پڑتا ہے۔ مثالً ایک گیم میں ٓالے کو جتنی قوت سے دبایا جائے گا اسکرین پر تیر اتنی ہی‬
‫دور تک جائے گا۔ اس طرح ورزش کے مراحل گیم کی صورت میں ٓاگے بڑھتے رہتے‬
‫ہیں اور مریض کی کیفیت بہتر ہوتی جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫گرپیبل جوائے اسٹک کو دبا کر چھوڑنا پڑتا ہے اور اسی سے گیم کھیال جاتا ہے۔ بسا‬
‫اوقات ٓالے کو دائیں یا پھر بائیں گھمایا جاتا ہے۔ اس طرح کھیل کھیل میں فزیو تھراپی نما‬
‫ورزش ہوجاتی ہے ۔ جوائے اسٹک ارتعاش سے بھی ہاتھوں کی درست حرکات میں مدد‬
‫دیتی ہے۔‬
‫اگرچہ اس طرح کی ورزشیں کلینک یا ہسپتال میں کرائی جاتی ہیں جس میں ایک ماہر‬
‫تھراپی کی نگرانی شامل ہوتیہ ے۔ لیکن گریپیبل کی بدولت مریض کسی بھی وقت‬
‫گھربیٹھے ورزش اور فزیوتھراپی کی تربیت لے سکتا ہے۔ اس طرح لوگ اپنی مرضی‬
‫کے اوقات میں ورزش کرکے تیزی سے بحالی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب‬
‫گیم شامل کرکے اسے مزید دلچسپ بنایا گیا ہے۔‬
‫‪ 2019‬میں اسے فالج کے ‪ 30‬مریضوں پرٓازمایا گیا جن کے بازو کمزور ہوچکے تھے۔‬
‫گرپیبل کی بدولت مریض اوسط دن میں اسے ‪ 104‬مرتبہ استعمال کررہے تھے جبکہ‬
‫ہسپتال میں روایتی تھراپی میں وہ اسے صرف ‪ 15‬مرتبہ ہی انجام دے پاتے تھے۔‬
‫اس طرح لوگوں نے اس ٓالے کو استعمال کرتے ہوئے بہت افاقہ محسوس کیا ہے۔ اس کی‬
‫تفصیل ایک تحقیقی مقالے میں شائع کی جاچکی ہے جو جرنل برائے نیوروری ہیبلی ٹیشن‬
‫اور نیورل ریپیئر میں چھپی ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2220305/9812/‬‬

‫فالج کےبعد ہاتھوں کی قوت بڑھانے والی ویڈیو گیم جوائے اسٹک‬

‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 3  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫گرپیبل کنٹرولر کی بدولت فالج کے مریض گیم کھیلتے ہوئے فزیوتھراپی جیسی ورزش‬
‫کرسکتے ہیں‪،‬تصویر‪ š‬میں ایک لڑکا تیراندازی کے گیم سے ورزش کررہا ہے۔ فوٹو‪:‬‬
‫بشکریہ گرپیبل ویب سائٹ‬
‫لندن‪ :‬فالج کے حملے کے بعد اکثر ہاتھوں کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے جسے بحال‪ ‬‬
‫کرنے کے لیے ادویہ اور فزیوتھراپی کرائی جاتی ہے۔ اب ایک ویڈیو گیم اور اس کے لیے‬
‫ڈیزائن کردہ خاص قسم کا ہینڈل بنایا گیا ہے جو کھیل کھیل میں ہاتھوں کی گرفت بحال‬
‫کرتا ہے۔‬
‫امپیریئل کالج لندن کے ماہرین نے اسے بنایا ہے جسے انہوں ںے ’گرپ ایبل‘ کا نام دیا‬
‫ہے۔ یہ ہاتھ اور بازو کی حرکات کو بڑھانے واال ایک تربیتی ٓالہ ہے۔ سامنے ایک گیم کی‬
‫صورت میں ایپ چلتی رہتی ہے جس کے لحاظ سے ہاتھومیں گرپیبل تھامنا اور اسے‬
‫گھمانا پڑتا ہے۔ مثالً ایک گیم میں ٓالے کو جتنی قوت سے دبایا جائے گا اسکرین پر تیر‬

‫ات‬
‫نی ہی دور تک جائے گا۔ اس طرح ورزش کے مراحل گیم کی صورت میں ٓاگے بڑھتے‬
‫رہتے ہیں اور مریض کی کیفیت بہتر ہوتی جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫گرپیبل جوائے اسٹک کو دبا کر چھوڑنا پڑتا ہے اور اسی سے گیم کھیال جاتا ہے۔ بسا‬
‫اوقات ٓالے کو دائیں یا پھر بائیں گھمایا جاتا ہے۔ اس طرح کھیل کھیل میں فزیو تھراپی نما‬
‫ورزش ہوجاتی ہے ۔ جوائے اسٹک ارتعاش سے بھی ہاتھوں کی درست حرکات میں مدد‬
‫دیتی ہے۔‬
‫اگرچہ اس طرح کی ورزشیں کلینک یا ہسپتال میں کرائی جاتی ہیں جس میں ایک ماہر‬
‫تھراپی کی نگرانی شامل ہوتیہ ے۔ لیکن گریپیبل کی بدولت مریض کسی بھی وقت‬
‫گھربیٹھے ورزش اور فزیوتھراپی کی تربیت لے سکتا ہے۔ اس طرح لوگ اپنی مرضی‬
‫کے اوقات میں ورزش کرکے تیزی سے بحالی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب‬
‫گیم شامل کرکے اسے مزید دلچسپ بنایا گیا ہے۔‬
‫میں اسے فالج کے ‪ 30‬مریضوں پرٓازمایا گیا جن کے بازو کمزور ہوچکے تھے۔ ‪2019‬‬
‫گرپیبل کی بدولت مریض اوسط دن میں اسے ‪ 104‬مرتبہ استعمال کررہے تھے جبکہ‬
‫ہسپتال میں روایتی تھراپی میں وہ اسے صرف ‪ 15‬مرتبہ ہی انجام دے پاتے تھے۔‬
‫اس طرح لوگوں نے اس ٓالے کو استعمال کرتے ہوئے بہت افاقہ محسوس کیا ہے۔ اس کی‬
‫تفصیل ایک تحقیقی مقالے میں شائع کی جاچکی ہے جو جرنل برائے نیوروری ہیبلی ٹیشن‬
‫اور نیورل ریپیئر میں چھپی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2220305/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پاکستان میں پہلی بار بچوں کی بے ترتیب دھڑکنوں کا عالج‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫‪3 Sep 2021‬‬

‫امراض قلب میں ‪ 8‬سالہ بچے کا ’الیکٹروفزیالوجی‪ š‬اسٹڈی اینڈ ابلیشن‬


‫ِ‬ ‫قومی ادارہ برائے‬
‫پروسیجر‘ بالکل مفت کیا گیا۔ (فوٹو‪ :‬این ٓائی سی وی ڈی)‬
‫ض قلب (این آئی سی وی ڈی) نے پیڈیاٹرک‪ J‬کارڈیک‬‫کراچی‪ :‬قومی ادارہ برائے امرا ِ‬
‫الیکٹرو فزیالوجی (بچوں میں دل کی دھڑکن کی بیماریوں) سے متعلق پاکستان کے پہلے‬
‫پروگرام کا آغاز کرکے ایک اور سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔‬
‫ترجمان این آئی وی ڈی کے مطابق‪ ،‬سکھر میں رہائش پذیر ‪ 8‬سالہ بچہ دل دھڑکن کی‬
‫بیماری میں مبتال تھا جس کا دل ‪ 200‬دھڑکن فی منٹ کی رفتار سے دھڑکنے لگتا تھا۔‬

‫اس بچے کا این آئی سی وی ڈی کراچی میں الیکٹروفزیالوجی اسٹڈی اینڈ ابلیشن پروسیجر‬
‫بالکل مفت کیا گیا۔ یہ پہال موقع ہے کہ پاکستان میں یہ پروسیجر کسی چھوٹے بچے پر کیا‬
‫گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو ڈاکٹر محمد محسن کی نگرانی میں حاصل کی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر محمد محسن نے کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی سے پیڈیاٹرک الیکٹروفزیالوجی میں ‪2‬‬
‫سالہ تربیت کے بعد این آئی سی وی ڈی میں شمولیت اختیار کی اور ٓاج وہ این ٓائی سی وی‬
‫ڈی میں اسسٹنٹ پروفیسر‪ ،‬پیڈیاٹرک کارڈیک الیکٹروفزیالوجی‪ š‬کے طور پر کام کررہے‬
‫ہیں۔‬
‫اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پروسیجر بغیر کسی پیچیدگی کے کامیابی سے انجام دیا‬
‫گیا۔ دل کے مسائل جن میں دل بہت تیز یا بہت سست ہو جاتا ہے‪ ،‬بچوں میں یہ غیرمعمولی‬
‫نہیں۔ ماہر ڈاکٹر ان بچوں کا عالج ایک مخصوص طریقہ کار کے ذریعے کرسکتے ہیں‬
‫جسے الیکٹروفزیالوجی‪ š‬اسٹڈی اینڈ ابلیشن کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں پیڈیاٹرک‬
‫الیکٹروفزیالوجسٹ نہیں تھے جس کے باعث اب تک ان بچوں کا مناسب عالج نہیں ہوسکا۔‬
‫ان کا مزید کہنا تھا کہ ان پیچیدہ پروسیجرز کےلیے کارڈیالوجسٹ‪ ،‬پیڈیاٹرک‬
‫کارڈیالوجسٹ‪ ،‬ٹیکنالوجسٹ‪ ،‬اینستھزیالوجسٹ اور الیکٹروفزیالوجی‪ š‬فزیشن کی ضرورت‬
‫پیش آئی ہے جو این آئی سی وی ڈی میں موجود ہیں۔‬
‫پروفیسر اعظم شفقت (ہیڈ آف الیکٹروفزیالوجی‪ ،‬این آئی سی وی ڈی) کا کہنا تھا کہ این آئی‬
‫صف اول کے اداروں‬ ‫ِ‬ ‫سی وی ڈی ملک میں دل کی دھڑکن کی بیماریوں کے عالج لیے‬
‫میں سے ایک ہے لیکن پہلے صرف بالغ افراد میں دل کی دھڑکن کی بیماریوں کا عالج کیا‬
‫جاتا تھا‪ ،‬مگر اب بچوں میں دل کی دھڑکن کی بیماریوں کے عالج کا بھی آغاز کر دیا گیا‬
‫ہے۔این آئی سی وی ڈی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے پروفیسر ندیم قمر (ایگزیکٹیو‪ š‬ڈائریکٹر‪،‬‬
‫این آئی سی وی ڈی) کا کہنا تھا کہ این آئی سی وی ڈی نے ملک میں پہال پیڈیاٹرک‬
‫کارڈیک الیکٹروفزیالوجی پروگرام شروع کرکے ایک اور سنگِ میل عبور کیا ہے‪ ،‬یہ‬
‫ادارے کی بڑی کامیابی ہے۔‬
‫امراض قلب کا عالج کرنے والے بہترین اسپتالوں‬
‫ِ‬ ‫اس طرح این آئی سی وی ڈی دنیا میں‬
‫میں شامل ہوچکا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2220567/9812/‬‬

‫چمگادڑ سے کورونا پھیال اور کس مشہور حیوان سے اس کا عالج‬


‫دریافت ہو گیا ؟‪ ‬حیران کن خبر ٓاگئی‬

‫‪02/09/2021‬‬

‫‪     ‬‬

‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سأوپالو(مانیٹرنگ‪ š‬ڈیسک )چمگادڑ سے کورونا پھیال اور کس مشہور حیوان سے اس کا‬


‫عالج دریافت ہو گیا ؟‪ ‬حیران کن خبر ٓاگئی ۔۔۔ برازیل کے محققین نے انکشاف کیا ہے کہ‬
‫ایک قسم کے سانپ کے زہر میں موجود مالیکیول بندروں کے خلیوں میں ابھرتے ہوئے‬
‫کورونا وائرس کے دوبارہ پیدا‬
‫ہونے کو روکتا ہے یہ مالیکول وائرس سے لڑنے والی دوا تک پہنچنے کا ممکنہ ابتدائی‬
‫مرحلہ ہے‪ .‬امریکی سائنسی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”گاراکوسو“سانپ کے‬
‫زہر میں موجود مالیکیول بندروں کے خلیوں میں وائرس کو ‪ 75‬فیصد تک ختم کرنے کی‬
‫صالحیت رکھتا ہے‪ .‬مالیکیول امینو ایسڈ کی ایک چین ہے جو ‪ PLPro‬نامی کورونا وائرس‬
‫سے ایک انزائم سے دوسرے خلیوں کو نقصان پہنچائے بغیر رابطہ کرسکتا ہے‬
‫یونیورسٹی ٓاف سأو پالو کے پروفیسررافیل گائڈو نے کہا کہ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ سانپ‬
‫کے زہر کا یہ جزو وائرس میں ایک بہت اہم پروٹین کو روک سکتا ہے‪.‬‬
‫انہوں نے وضاحت کی کہ مالیکیول اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کے لیے جانا جاتا ہے اور‬
‫اسے لیبارٹریوں میں ترکیب کیا جا سکتا ہے جس سے سانپ غیر ضروری بن جاتے ہیں‬
‫سأو پالو یونیورسٹی کے مطابق محققین اس کے بعد مالیکیول کی مختلف خوراکوں کی‬
‫کارکردگی کا جائزہ لیں گے اور یہ کہ دیکھیں گے کہ یہ وائرس کو خلیوں میں داخل ہونے‬
‫سے روکنے کے قابل ہے یا نہیں‪.‬‬
‫سأو پالو میں بوٹنن انسٹی ٹیوٹ کے حیاتیاتی گروپ کی راہنمائی کرنے والے ایک زرعی‬
‫ہرپٹولوجسٹ جوزپے پورٹو نے کہا کہ ہم لوگ برازیل میں گاراکوسو کے شکار کے لیے‬
‫باہر جانے کے بارے میں فکر مند ہیں انہوں نے کہا کہ اگر اس سانپ کی زہر میں کورونا‬
‫کا تریاق پایا جاتا ہے تو اس صورت میں اس سانپ کے قتل عام کا خدشہ بھی ہے‪ .‬یہ بات‬

‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫قابل ذکر ہے کہ ”گاراکوسو“برازیل کے سب سے بڑے سانپوں میں سے ایک ہے جس کی‬
‫لمبائی ‪ 6‬فٹ (‪ 2‬میٹر) تک ہے یہ بولیویا ‪ ،‬پیراگوئے اور ارجنٹائن میں بھی پایا جاتا ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-121650.html‬‬

‫ہر ‪ 7‬میں سے ایک بچے میں 'النگ کووڈ' کے اثرات دریافت‪،‬‬


‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪02 2021‬‬
‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬

‫کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر ‪ 7‬میں سے ایک بچے کو صحتیابی کے کئی ماہ‬
‫بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی‬
‫تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی‬
‫سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد عالمات کا سامنا‬
‫کرسکتے ہیں۔یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں النگ کووڈ کی‬
‫شرح کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 11‬سے ‪ 17‬سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی‬
‫ہے ان میں ‪ 15‬ہفتے بعد ‪ 3‬یا اس سے زیادہ عالمات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے‬
‫محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران ‪ 11‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے ‪ 3065‬کووڈ‬
‫مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے ‪ 3739‬بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا‬
‫ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔‬
‫جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے ‪ 14‬فیصد نے ‪ 15‬ہفتوں بعد ‪ 3‬یا اس سے زیادہ‬
‫عالمات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا‪ ،‬کنٹرول گروپ میں یہ شرح‬
‫‪ 7‬فیصد تھی۔‬
‫محققین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے‬
‫‪ 15‬ہفتوں بعد متعدد عالمات موجود ہوسکتی ہیں‪ ،‬مگر اس عمر کے گروپ میں النگ کووڈ‬
‫کی شرح توقعات سے کم ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر‬
‫جاری کیے گئے۔‬

‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی بنیاد پر ‪ 13‬سے ‪ 15‬سال کے بچوں کی ویکسینیشن کا‬
‫فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا کوئی ڈیٹا نہیں جس سے عندیہ ملتا ہو کہ ویکسینیشن‬
‫سے النگ کووڈ سے تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ ہم ‪ 12‬سے ‪ 15‬سال کے بچوں میں ویکسین کے محفوظ ہونے کے‬
‫شواہد کو جمع کررہے ہیں‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167563/‬‬

‫نیند سے اٹھنے کے بعد تھکاوٹ کیوں محسوس ہوتی ہے؟ ماہرین نے‬
‫اصل وجہ بتادی‬
‫‪Sep 03, 2021 | 18:49:PM‬‬
‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) بہتر نیند مجموعی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے ناگزیر ہوتی‬
‫ہے۔ اب ماہرین نے نیند کے معیار اور مقدار کے حوالے سے مفید باتیں لوگوں کو بتا دی‬
‫ہیں۔‪ ‬دی سن کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی مقدار یہ ہے کہ آپ کتنے گھنٹے‬
‫سوتے ہیں اور نیند کا معیار یہ ہے کہ پوری رات میں آپ نیند کی ہر سٹیج میں کتنا وقت‬
‫گزارتے ہیں۔بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ تمام رات سونے کے بعد صبح بیدار ہوتے ہیں تو‬
‫آپ تھکے ماندے اور غنودگی کے عالم میں ہوتے ہیں۔اس کا سبب آپ کی نیند کا معیار بہتر‬
‫نہ ہونا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی نیند کے آخری چکر کے درمیان میں‬
‫بیدار ہو گئے ہیں۔ چکر کے درمیان میں گہری نیند کا وقت ہوتا ہے‪ ،‬چنانچہ اس وقت بیدار‬
‫ہونے سے آپ دن بھر تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتے ہیں۔‬
‫رات بھر میں نیند کے کئی چکر ہوتے ہیں۔ چکر کی ابتداءہلکی نیند سے ہوتی ہے اور پھر‪ ‬‬
‫گہری نیند سے ہوتے ہوئے واپس آدمی ہلکی نیند کی طرف آتا ہے۔ اگر آپ اس ہلکی نیند‬
‫کے مرحلے پر بیدار ہوں تو آپ تروتازہ اٹھیں گے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو‬
‫‪6‬سے ‪9‬گھنٹے کے درمیان نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/03-Sep-2021/1336132‬‬

‫دیا‪ ‬‬ ‫بچہ کب تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے؟نرس نے آسان طریقہ بتا‬


‫‪Sep 04, 2021 | 19:47:PM‬‬

‫لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) آپ کا بچہ کب تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے؟ ایک نرس نے یہ بات‬
‫معلوم کرنے کا ایک آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ دی سن کے مطابق کورٹنی گارلینڈ نامی اس‬
‫نرس نے اپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ پر ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ بچے کو تھکاوٹ ہونا اس‬
‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی نیند پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اور نیند اس کی مجموعی صحت پر اثرات مرتب‬
‫کرتی ہے‪ ،‬چنانچہ والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ کب تھکاوٹ کا شکار ہوتا‬
‫‪ ‬ہے۔‬
‫پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں کورٹنی گارلینڈ بتاتی ہے‪ mamalinc‬اپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ‬
‫کہ جب بچہ تین ماہ کا ہوتا ہے تو اسے سونے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔ جس کا سبب‬
‫تھکاوٹ ہو سکتی ہے۔ بچہ جب تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے تو اس میں اضطراب کی کیفیت‬
‫نمایاں ہونے لگتی ہے۔ وہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ادھر ادھر دیکھنے‬
‫لگتا ہے۔ ایک دن سے تین ماہ تک کے بچے میں تھکاوٹ کی یہ عالمات ہوتی ہیں۔تین ماہ‬
‫سے زائد عمر کا بچہ جب تھک جاتا ہے تو وہ سر کو آگے پیچھے حرکت دینے لگتا ہے‬
‫اور مسلسل شور کرنے لگتا ہے۔ اس کے عالوہ تین ماہ سے زائد عمر کے بچوں میں‬
‫آنکھنے ملنا‪ ،‬اپنے کانوں کو کھینچنا‪ ،‬ٹانگوں یا بازوﺅں کو جھٹکے دینا‪ ،‬حد سے زیادہ‬
‫رونے یا ہنسنے لگنا ایسی عالمات ہیں جو بتاتی ہے کہ بچہ اب تھک چکا ہے اور اسے‬
‫نیند کی ضرورت ہے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/04-Sep-2021/1336537‬‬
‫‪ ...‬بینک خدمات کے لئے ویکسی نیشن سرٹیفیکٹ کو الزمی قرار دیا جائے‪ ،  ‬سندھ‬
‫الک ڈاؤن کے دوران بلیاں ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئیں‪ ،‬جانوروں کے‬
‫ماہرین نے حیران کن وجہ بھی بتادی‬
‫‪Sep 04, 2021 | 19:42:PM‬‬
‫لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کے باعث لگنے والے طویل الک ڈاﺅن کے دوران‬
‫میاں بیوی کے مسلسل ایک ساتھ رہنے پر طالق کی شرح میں تو اضافہ دیکھنے میں آیا ہی‬
‫تھا‪ ،‬انسانوں کے مسلسل جانوروں کے ساتھ رہنے پر ان جانوروں کی ذہنی صحت کا کیا‬
‫حال ہوا؟ اب اس حوالے سے جانوروں کے ماہرین نے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ ڈیلی‬
‫سٹار کے مطابق برطانیہ میں جانوروں کے ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ الک ڈاﺅن کے‬
‫دوران مالکان کے مسلسل اپنی پالتو بلیوں کے پاس رہنے کی وجہ سے بلیاں ذہنی تناﺅ کا‬
‫شکار ہو چکی ہیں‬
‫ماہر ڈاکٹر ڈیبی جیمز کا کہنا تھا کہ ”الک ڈاﺅن شروع ہونے کے بعد سے بلیوں کے ذہنی‬
‫تناﺅ کا شکار ہونے کی شرح میں حیران کن حد تک تیزی دیکھنے میں آئی ہے‪ ،‬جس کی‬
‫بظاہر وجہ ان کے مالکان کا مہینوں تک مسلسل ان کے ساتھ رہنا ہے۔ الک ڈاﺅن کے‬
‫دوران اور الک ڈاﺅن ختم ہونے کے بعد نر بلیوں میں مثانے کے بالک ہونے اور نر اور‬
‫نامی بیماری کی شرح ہو چکی ہے جس کی عام وجہ)‪ (cystitis‬مادہ بلیوں میں سسٹائٹس‬
‫ذہنی تناﺅ ہوتی ہے۔مثانے کا بالک ہونا جان لیوا بھی ہو سکتا ہے چنانچہ مالکان کوالک‬
‫ڈاﺅن کے بعد کی صورتحال میں اپنی بلیوں کا اس حوالے سے خاص دھیان رکھنا چاہیے‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/04-Sep-2021/1336533‬‬

‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل کے خلیات میں تبدیلی السکتے‬


‫ہیں‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪03 2021‬‬
‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬
‫کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل کے مخصوص خلیات میں تبدیلی الکر ان کے افعال‬
‫ٰ‬
‫دعوی برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں‬ ‫میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ‬
‫سامنے آیا۔‬
‫برسٹل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارگرد موجود‬
‫شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال کو متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین‬
‫سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔‬
‫دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو‬
‫جب کورونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو‬
‫اعضا میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی‬
‫شریانوں کے خلیات کو حاصل کرکے انہیں اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔‬

‫اس پروٹین کو کورونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور‬
‫ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خارج کرتا ہے۔اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا‬
‫شروع کردیتا ہے‪ ،‬پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی‬
‫ٰ‬
‫صالحیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔‬
‫تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک‬
‫پروٹین کے زیراثر آنے پر ان کا عالج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی ‪ 147‬نامی ریسیپٹر کو بالک‬
‫کرکے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی ‪ pericytes‬ورم کا باعث بننے واال کیمیکل‬
‫نظام میں موجود ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جاسکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے‬
‫والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک‬
‫تھام کے ذرائع تالش کیے جاسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہ میکنزم خلیاتی اور اعضا کی پیچیدگیوں کو متاثرہ حصوں سے آگے‬
‫تک پھیال دیتا ہے اور ممکنہ طور پر پہلے سے کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر‪ ،‬ذیابیطس‬
‫اور موٹاپے کے شکار افراد میں مرض کی شدت کو سنگین بنادیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سی‬
‫ڈی ‪ 147‬ریسیپٹر کو بالک کرکے کووڈ کے تباہ کن اثرات کی روک تھام میں مدد مل‬
‫سکتی ہے۔خیال رہے کہ مختلف اعضا پر کورونا وائرس کے فوری اور طوی امعیاد اثرات‬
‫کو ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا ہے اور اس پر مسلسل کام کیا جارہا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167585/‬‬
‫شہد اصلی ہے یا نقلی؟ جاننا آسان‬

‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  3 2021 J‬‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫شہد اصلی ہے یا نقلی؟ یہ جاننا آسان بھی ہے اور اس کی دل چسپ نشانیاں بھی ہیں۔‬
‫انگلی پر چپکنا‬
‫شہد کو انگلیوں میں لے کر ہلکا سا رگڑیں اگر شہد انگلیوں پر چپک جاتا ہے تو اس کا‬
‫مطلب ہے کہ وہ نقلی ہے اور اگر نہیں چپکتا تو اس کا مطلب ہے اصلی شہد ہے۔‬
‫جار کو ہالئیں‬
‫شہد قدرتی طور پر گاڑھا ہوتا ہے‪ ،‬شہد کے جار کو ہالئیں اگر شہد جار کے ایک طرف‬
‫سے دوسری طرف جانے میں تھوڑا وقت لگائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ اصلی ہے‪ ،‬جب‬
‫کہ نقلی شہد بہت ہلکا ہوتا ہے اور بہ ٓاسانی ایک طرف سے دوسری طرف چال جاتا ہے۔‬
‫پھولوں کی خوش بو‬
‫شہد چوں کہ پھولوں سے بنتا ہے ل ٰہذا اس میں سے پھولوں کی خوش بو ٓاتی ہے‪ ،‬شہد کو‬
‫کئی بار گرم کر کے ٹھنڈا کریں‪ ،‬یہ عمل کرنے سے اصلی شہد کی خوش بو میں فرق ٓا‬
‫جائے گا‪ ،‬جب کہ نقلی شہد میں کوئی خوش بو نہیں ہوتی۔‬
‫پانی میں ڈالیں‬
‫اصلی شہد پانی میں ٓاسانی سے حل نہیں ہوتا‪ ،‬ایک گالس پانی میں ایک چمچا شہد ڈالیں‬
‫اور ہالئیں‪ ،‬یہ گالس کی تہہ میں بیٹھ جائے گا‪ ،‬جب کہ نقلی شہد بغیر ہالئے پانی میں حل‬
‫ہو جائے گا۔‬
‫ماچس کی تیلی‬
‫شہد کو ماچس کی تیلی کے سرے پر لگائیں اور پھر اسے کسی دوسری تیلی کی مدد سے‬
‫جالئیں‪ ،‬اگر شہد اصلی ہوگا تو تیلی جل جائے گی‪ ،‬لیکن اگر شہد نقلی ہوگا تو تیلی نہیں‬
‫جلے گی‪ ،‬کیوں کہ اصلی شہد کبھی بھی موئسچرائزر خارج نہیں کرتا‪ ،‬اور نقلی شہد کے‬
‫موئسچرائزر خارج کرنے کی وجہ سے تیلی گیلی ہو جائے گی اور نہیں جلے گی۔‬

‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/pure-honey-artificial-honey/‬‬

‫کریلے کے وہ فوائد جن سے ٓاپ العلم ہیں‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‪/‬‬
‫ستمبر‪4 2021 J‬‬
‫‪/‬‬
‫گرمیوں میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی سبزی کریال انسانی صحت کے لیے بے حد‬
‫مفید ہے۔‬
‫کریال غذائی اجزا کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کے بے شمار فوائز ہیں‪ ،‬کریلے کا روزانہ‬
‫ایک کپ (‪ 94‬گرام) جوس انسانی صحت کے لیے موثر غذا ہے جو بہت سے بیماریوں کا‬
‫عالج ہے۔‬
‫کریلے میں ‪ 93‬فیصد وٹامن سی پایا جاتا ہے جو بیماریوں کی روک تھام‪ ،‬ہڈیوں کی تشکیل‬
‫اور زخموں کی شفا یابی میں شامل ایک اہم مائکرو نیوٹرینٹ ہے۔‬
‫اس سبزی میں ویٹامن اے ‪ 44‬فیصد ہوتا ہے جو جلد کی صحت اور مناسب نقطہ نظر کو‬
‫فروغ دیتا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ ‪ 20‬فیصد کیلوری‪ 17 ،‬فیصد فولیٹ جو نشوونما کے لیے ضروری ہے‪8 ،‬‬
‫فیصد پوٹاشیم‪ 5 ،‬فیصد زنک‪ 4 ،‬فیصد آئرن ‪ 4 ،‬گرام کاربوہائیڈریٹ اور ‪ 2‬گرام فائبر شامل‬
‫ہے جو انسانی غذائی اجزاء کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔‬
‫کریلے کے جوس سے متعلق ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کینسر کے سیلز کے‬
‫خالف موثر مدافعت پیدا کرتا ہے اور انہیں ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق روزانہ کریلے کا ‪ 2‬ہزار (ملی گرام) جوس پینے سے بلڈ شوگر کم ہوتا‬
‫ہے۔کریلے کاعرق وزن کم کرنے کے لیے ایک موثر ڈرنک ہے کیونکہ اس میں کم‬
‫کیلوریز جبکہ زیادہ فائبر ہوتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/575386-2/‬‬

‫کیا آپ کا بچہ ماسک نہیں پہنتا؟ راضی کرنے کا طریقہ‬


‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  5 2021 J‬‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫عالمی کورونا وبا بڑے عمر کے ساتھ بچوں کو بھی نشانہ بناتا ہے تاہم اس کی شرح کم‬
‫ہے لیکن ماہرین تمام عمر کے افراد کو فیس ماسک پہننے کا مشورہ دیتے ہیں۔‬
‫اس ضمن میں والدین کے لیے کٹھن مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ضدی بچوں کو ماسک‬
‫پہننے پر کس طرح آمادہ کریں‪ ،‬پہلے تو بچوں کو ماسک پہنانے کا یہ سلسلہ کبھی کبھار‬
‫تک محدود تھا لیکن جیسے جیسے اسکولوں کی چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں‪ ،‬والدین پر اس ذمہ‬
‫داری کا بوجھ بڑھ رہا ہے کیوں کہ ان میں ماسک پہننے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔‬
‫متعدد ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے والدین کو چند مفید مشورے دیے ہیں جن کے تحت‬
‫وہ اپنے بچوں کو ماسک پہننے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ والدین کو‬
‫پہلے اپنے بچے کی عادات کے بارے میں جاننا چاہیے کیونکہ ہر بچہ دوسرے سے‬
‫مختلف ہوتا ہے‪ ،‬وہ وقت نکال کر سوچیں کہ وہ کیسے اس کام کے لیے راضی ہوگا۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو چہرے ڈھانپنے کی حکمت عملی‬
‫بتانے سے پہلے اپنے آپ سے چند سواالت پوچھیں کہ میرے بچے کے لیے کیا ضروری‬
‫ہے۔‬
‫یہ بھی غور کریں کہ میرا بچہ معلومات کو کیسے سمجھتا ہے؟ وہ بیرونی دنیا کے بارے‬
‫میں کتنا علم رکھتا ہے اور کتنا باخبر ہے؟ ماسک اسے کس حد تک پریشان کر سکتا ہے؟‬
‫اس طرح آپ کو ماسک پہننے کی عادت ڈالنے میں معاونت مل سکتی ہے‪ ،‬کم عمر افراد‬
‫چہرے کا ماسک پہننے کی اہمیت نہیں سمجھ سکتے۔‬
‫والدین کو چاہیے کہ وہ گھر پر بچوں کے سامنے ماسک پہننے اور اس کا بار بار ذکر‬
‫کریں‪ ،‬اس طرح ان میں ماسک کی اہمیت پیدا ہوگی‪ ،‬کورونا کی باتیں کریں اور اس سے‬
‫بچنے کی گفتگو کو بھی کھیل کود کا حصہ بنائیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/does-your-child-not-wear-a-mask-how-to-please/‬‬

‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیا ڈیلٹا ویرینٹ بچوں میں زیادہ سنگین بیماری کا باعث بنتا ہے؟ نئی‬
‫تحقیق‬
‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  5 2021 J‬‬

‫امریکی سائنس دانوں نے بچوں کو کرونا وائرس کی متعدی قسم ڈیلٹا سے سنگین بیماری‬
‫میں مبتال ہونے کے خطرے کی تردید کردی۔‬
‫امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی جانب سے جاری مختلف تحقیقی‬
‫رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ ویکسینیشن نہ کرانے والے نوجوانوں کا اسپتال میں‬
‫داخلے کا خطرہ ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں ‪ 10‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ بچوں اور نوجوانوں کے اسپتال میں داخلے کی شرح میں‬
‫اضافہ ہوا مگر ان میں بیماری کی سنگین شدت کی شرح اتنی ہی تھی جتنی سابقہ اقسام کے‬
‫شکار بچوں کی تھی‪ ،‬تحقیق سے پتہ چال ہے کہ بچوں میں کووڈ کیسز میں اضافہ ہورہا‬
‫ہے لیکن ڈیلٹا قسم بھی بچوں میں زیادہ سنگین بیماری کا باعث نہیں بنتی۔‬
‫ماہرین نے بچوں میں کرونا کیسز کا پھیالؤ برادری میں اس بیماری کے پھیالؤ کو قرار دیا‬
‫ہے۔‬
‫سی ڈی سی ڈائریکٹر نے کہا کہ ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ برادری کی سطح پر‬
‫ویکسینیشن سے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے‪ ،‬برادری میں کووڈ کے کیسز بڑھنے‬
‫سے بچے بھی زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق ‪ 12‬سے ‪ 17‬سال اور ‪0‬‬
‫سے ‪ 4‬سال کے گروپس میں کووڈ سے اسپتال میں داخلے کا خطرہ ‪ 5‬سے ‪ 11‬سال کے‬
‫بچوں کے مقابلے میں زیادہ دریافت ہوا۔‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں دریافت ہوا ہے کہ اموات کی شرح ڈیلٹا سے قبل ‪ 0.7‬فیصد اور ڈیلٹا کے بعد‬
‫‪ 1.8‬فیصد تھی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/does-delta-variant-cause-more-serious-illness-in-‬‬
‫‪children-new-research/‬‬

‫کرونا وائرس کے عالج کیلئے نئی دوا تیار‬


‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر‪  5 2021 J‬‬

‫بیجنگ ‪ :‬کرونا ویکسین کرنے والی چینی کمپنی سائنو فارم نے کرونا وائرس کے عالج‬
‫کےلیے دوا کا ٓازمائشی مرحلہ شروع کرنے کا اعالن کردیا۔‬
‫چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (سائنو فارم کی ذیلی کمپنی) کی جانب سے اعالن کیا گیا کہ‬
‫اسے کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے مریضوں کے پالزما پر مبنی دوا کے کلینکل ٹرائلز‬
‫کی ‪ 30‬اگست کو منظوری مل گئی ہے۔‬
‫ان میں ‪ 2‬اپ ڈیٹڈ ویکسینز بھی شامل تھیں جن کو وائرس میں آنے والی میوٹیشنز کے‬
‫خالف مؤثر قرار دیا جارہا ہے جبکہ ایک اور کووڈ ‪ 19‬بھی پیش کی گئی جو مونوکلونل‬
‫اینٹی باڈی پر مشتمل تھی۔‬
‫کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ دوا کرونا وائرس کا اثر ختم کرنے والی اینٹی باڈیز کی بہت زیادہ‬
‫مقدار پر منحصر ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کمپنی کی جانب سے اس دوا کو سابقہ مصنوعات سے زیادہ مؤثر قرار دیا گیا ہے تاہم فی‬
‫الحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس دوا کے کلینکل ٹرائلز کا دورانیہ کتنا ہوگا اور کیا چین‬
‫سے باہر اس کی ٓازمائش ہوگی یا نہیں؟‬
‫ماہرین کے مطابق یہ دوا ممکنہ طور پر کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے لیے ہوگی‬
‫اور اس کی قیمت بہت زیادہ ہوسکتی ہے‪ ،‬مگر پھر بھی یہ مونوکلونل اینٹی باڈی ادویات‬
‫سے سستی ہوگی۔‬
‫انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے دیگر ادویات جیسے ایچ بی وی اور ایچ آئی وی وغیرہ کا‬
‫خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫مگر اس حوالے سے سی این بی جی کا کہنا تھا کہ وہ عطیہ کردہ پالزما کی اسکریننگ‬
‫کے لیے سخت جانچ پڑتال کے میکنزم پر عمل کرتی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-drug-developed-to-treat-coronavirus/‬‬

‫ماں کی ٓاواز بچے کی تکلیف کم کرسکتی ہے‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫ہفتہ‪ 4  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نومولود بچے کے پاس کھڑی ماں کی ٓاواز اور گیت سے بچے کی تکلیف کم ہوتی ہے اور‬
‫یوں والدہ کی موجودگی فطری دردکش دوا کا درجہ رکھتی ہے‬
‫بولونا‪ ،‬اٹلی‪ :‬ماں قدرت کا انمول تحفہ ہے اوراب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماں‬
‫کی ٓاواز بھی بچے میں تکلیف کے احساس کو کم کرتی ہے۔‬
‫ت حمل سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کو ماں سے الگ کرکے کئی دنوں‬ ‫معمول کی مد ِ‬
‫بلکہ ہفتوں تک انکیوبیٹر اور دیگر نگہداشت میں رکھا جاتا ہے۔ اس طرح بچہ پیدائش کے‬
‫بعد ماں س الگ ہوجاتا ہے۔ اب یہاں ادویہ‪ ،‬ٹیکے اور نلکیاں لگانے سے بچہ درد سے‬
‫بےحال ہوجاتا ہے جس کے لیے طرح طرح کی درد کش ادویہ دی جاتی ہیں ۔ اب اگر اس‬
‫دوران والدہ کو بچے کے پاس الیا جائے اور وہ اس سے باتیں کریں تو نومولود کی تکلیف‬
‫کم ہوجاتی ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف جنیوا میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اٹلی کی یونیورسٹی ٓاف ویلے ڈی‬
‫اوسٹا اور پارینی ہسپتال کے اشتراک سے ایک مطالعہ کیا ہے۔ اس کا خالصہ یہ ہے کہ‬
‫ٓاکسیٹوسن کی شرح بڑھتی ہے جس سے‬ ‫ِ‬ ‫جب جب ماں بچے سے بات کرتی ہے تو اس میں‬
‫درد کم‪  ‬ہوجاتا ہے۔ ٓاکسیٹو ِسن ایک ہارمون ہے جو کسی سے لگاوٹ یا پھر تناؤ‪ ،‬دونوں‬
‫میں ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر اور ہسپتال انتظامیہ ماں کو بچے کے پاس‬
‫بالکر درد کا قدرتی عالج کرسکتی ہے۔‬
‫اس سے قبل ایک اور جائزہ بتاتا ہے کہ ماں اور باپ کی موجودگی بھی بچے کا درد‬
‫بٹاسکتی ہے۔ تجربے میں پارینی ہسپتال کے ‪ 20‬ایسے بچوں کو لیا گیا جنہوں نے اپنے‬
‫وقت سے قبل دنیا میں ٓانکھ کھولی تھی۔ تمام مائیں اپنے بچوں کے پاس اس وقت موجود‬
‫تھیں جب ٹیسٹ کے لیے ایڑھی سے خون کے چند قطرے لئے گئے۔ ماؤں سے یہ بھی کہا‬
‫گیا کہ بچے کے سامنے کچھ نہ کچھ بولتی رہیں۔‬
‫اس تجربے میں تین روز تک تین ٹیسٹ کئے گئے۔ پہلے بچوں کو ماں کے بغیر ٹیکہ لگایا‬
‫گیا‪ ،‬دوسرے روز بچے کو انجیکشن لگاتے ہوئے ماں نے بچے سے باتیں کیں اور تیسرے‬
‫روز ماں نے بچے کے سامنے واضح ٓاوازمیں گانے گائے۔ ماں سے کہا گیا کہ ٹیکہ لگانے‬
‫سے پہلے‪ ،‬اس دوران اور ٹیکے لگانے کے بعد پانچ پانچ منٹ تک گانا گائے۔ تینوں تمام‬
‫مراحل میں خون کے ٹیسٹ لیے گئے۔‬

‫اس کے عالوہ ہرے اور جسمانی انداز کو دیکھتے ہوئے بچوں میں درد کا ایک پیمانہ‬
‫استعمال کیا گیا جسے ’پری ٹرم پین پروفائل ( پی ٓائی پی پی) کہتے ہیںل۔ اس میں صفر‬
‫سے ‪ 21‬تک درجے ہوتے ہیں۔ خون نکالتے وقت ماہر کوبچے کے چہرے کی ویڈیو‬
‫دکھائی گئی۔ لیکن ٓاواز بند کردی گئی تاکہ ماہر ماں کی ٓاواز نہ سن سکے اور اس پر غلط‬
‫فیصلہ سامنے نہ ٓاسکے۔‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫معلوم ہوا کہ ماں غائب ہونے کی صورت میں پی ٓائی پی پی کی شرح ‪ 4.5‬نوٹ ہوئی اور‬
‫جیسے ہی ماں نے بچے سے بات کی تو پی ٓائی پی پی کی شرح تین درجے کم ہوگئی جو‬
‫غیرمعمولی بات ہے۔‬
‫اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی ٓاواز بچے کے لیے قدرتی پین کلر کا درجہ رکھتی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2220604/9812/‬‬

‫کولیسٹرول گھٹانے والی غالبا ً سب سے مؤثر اور مہنگی دوا کی‬


‫منظوری‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 5  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫انسلیسیرین نامی نئی دوا کو بطور انجیکشن دے کر خون میں کولیسٹرول کی سطح کو‬
‫جادوئی انداز میں کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫لندن‪ :‬ہم ایک عرصے سے کولیسٹرول گھٹانے والے ٹیکوں کے متعلق سنتے ٓارہے ہیں‪ ‬‬
‫جسے انسلیسیرین کا نام دیا گیا ہے۔ بہت جلد اس ’گیم چینجر‘ انجیکشن کو برطانیہ میں‬
‫ہزاروں افراد پر ٓازمایا جائے گا۔ برطانیہ نے باضابطہ طور پر اس کی منظوری دیدی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پہلے مرحلے میں اسے ‪ 30‬ہزار افراد کو لگایا جائے گا۔ سال میں دو مرتبہ انجیکشن کی‬
‫خوراک کی مجموعی قیمت ‪ 3600‬سے ‪ 6000‬ڈالر رکھی گئی ہے۔ اسے بنانے والی کمپنی‬
‫نووارٹس کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ دوا ایسے مریضوں‪ š‬پر ٓازمائی جائے گی جو ایل‬
‫ڈی ایل کولیسٹرول کی طویل تاریخ رکھتے ہیں یا پھر فالج کے چھوٹے بڑے حملوں سے‬
‫گزرچکے ہیں۔‬
‫بعض مریض ایسے ہوتے ہیں جو دل کے عارضے میں گرفتار ہونے یا فالج کا تلخ تجربہ‬
‫جھیلنے کے باوجود بھی کولیسٹرول کم نہیں کرپاتے کیونکہ ان پر کوئی دوا اثر نہیں کرتی‬
‫اور وہ مسلسل مضر کولیسٹرول کی بڑی مقدار اپنے خون میں لئے پھرتےہیں۔ یہ دوا‬
‫نووارٹس کمپنی نے بنائی ہے جس کی بدولت کئی ہزار افراد کی جانیں بچانا ممکن ہوگا۔‬
‫خود پاکستان میں بھی ہزاروں مریضوں کے لہو میں کولیسٹرول موجود ہے جو انہیں کئی‬
‫جان لیوا امراض کا نشانہ بناسکتا ہے۔ صرف برطانیہ میں ان کی تعداد کسی بھی طرح ‪70‬‬
‫الکھ سے کم نہیں۔ پھربعض مریضوں میں موروثی اور جینیاتی طور پر بھی کولیسٹرول‬
‫کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔ ایسے مریض دن میں تین سے چار مرتبہ اسٹاٹن دوا‬
‫کھاتے ہیں لیکن شفا نہیں ہوتی۔‬
‫انسلیسیرین کئی طبی مراحل سے گزرچکا ہے اور کئی مریضوں پر صرف تین ماہ میں اپنا‬
‫اثردکھایا ہے۔ بعض مریضوں کے خون میں کولیسٹرول کی سطح چند ماہ میں ‪ 50‬فیصد‬
‫تک کم دیکھی گئی ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2220771/508/‬‬

‫اعصابی سائنسداں کی جانب سے دماغی بہتری کے ‪ٓ 6‬اسان ٹوٹکے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬پير‪ 6  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہر اعصابیات اور نفسیات وینڈی سوزوکی نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ‪ 6‬قیمتی‬
‫ِ‬ ‫امریکی‬
‫مشورے دئیے ہیں جو ٓاپ کے دماغی صحت کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتےہیں‬
‫‪ ‬نیویارک‪ :‬امریکی ماہ ِر اعصابیات و نفسیات اور اس شعبے‪  ‬میں ڈاکٹریٹ کرنے والی‬
‫ماہرہ وینڈی سوزوکی نے اپنے تجربے کے بنیاد پر انتہائی قیمتی مشورے دیئے ہیں جن‬
‫پر عمل کرکے دماغی مضبوطی‪ ،‬نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کی‬
‫جاسکتی ہے۔ ان کے ‪ 6‬ٹوٹکے درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪ :1‬مثبت نتائج کا تصور کیجئے‬


‫دن کے ٓاغاز سے انجام تک‪ ،‬اپنے‪ ،‬اپنے گھر کے اور بچوں کے تمام چھوٹے بڑے‬
‫معامالت جب بھی یاد ٓائیں ان میں سے ہر ایک کا اختتام مثبت طور پر سوچیں اور اس کا‬
‫ایک نقشہ یا خیالی منظر ذہن میں جمائیں۔ یہ نہیں کہ صرف اچھا انجام سوچیں بلکہ سب‬
‫سے بہترین صورتحال کا تصور کیجئے۔‬
‫اس سے نہ صرف دماغ مثبت سوچنے لگے گا‪ ،‬جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ‬
‫مسائل کے حل کے نئے راستے بھی نکلیں گے۔‬
‫‪ :2‬بے چینی اور اضطراب کو ترقی میں بدلیں‬
‫مشکالت اور چیلنج میں ہماری دماغی لچک بڑھ جاتی ہے اور کوشش کی جائے تو اس‬
‫سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ پرسکون کیسے ہیں‪،‬‬
‫صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جائے‪ ،‬خیاالت کو مثبت انداز میں جمع کرکے درست فیصلے‬
‫کئے جائیں۔یعنی بے چینی اور منفی جذبات کو گھماکر دوسرے مثبت کاموں میں بھی‬
‫استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی التعداد مثالیں ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫غ‬
‫صہ ٓاپ کی توجہ کھاجاتا ہے اور عمل کو روکتا ہے لیکن اسی سے ٓاپ جذبہ لے کر اپنی‬
‫توجہ بڑھا سکتےہیں۔‬
‫خوف وہ جذبہ ہے جو ماضی کی ناکامیاں بھی یاددالتا ہے‪ ،‬یہ توجہ اور ارتکاز کو تباہ کرتا‬
‫ہے اور ٓاپ کی صالحیتوں کو گھن لگادیتا ہے ‪ ،‬یا پھر ٓاپ کو درست اور واضح فیصلے‬
‫میں مدد بھی دے سکتا ہے اور بدلتی ہوئی فضا میں ٓاپ کے لیے مواقع بھی بڑھاتا ہے۔‬
‫اداسی سے دل بجھ جاتا ہے اور انسان حوصلہ ہارنے لگتا ہے یا پھر اس کی بدولت ٓاپ‬
‫اپنی ترجیحات نئے سرے سے مرتب کرسکے‪ ،‬ماحول اور واقع کو اپنے حق میں ہموار‬
‫کرسکتے ہیں۔‬
‫پریشانی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اور انسان اپنے مقصد سے دور ہوتا جاتا ہے یا پھر‬
‫ٓاپ اپنے مسائل کے حل پر توجہ دے سکتےہ یں‪ ،‬اپنی توقعات کی درجہ بندی کرسکتے‬
‫ہیں اور حقیقت پر مبنی منصوبے بناسکتے ہیں۔‬
‫فرسٹریشن سے دل بیٹھنے لگتا ہے یا پھر ٓاپ اسے استعمال کرکے مزید بہتر کام کرسکتے‬
‫ہیں۔‬

‫‪ :3‬نئے کام ٓازمائیں‬


‫ٓاج کل ٓان الئن سیکھنے کے مواقع بہت زیادہ ہیں اور ان پر توجہ دیجئے‪ ،‬کوئی نیا اور‬
‫بالکل مختلف کورس کیجئے‪ ،‬کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیجئے یا کسی ورچول تقریب‬
‫میں شرکت فرمائیں۔ خالصہ یہ کہ بار بار اپنے دائرہ ٓارام (کمفرٹ زون) سے باہر نکلیں‬
‫اور کچھ نیا ضرور کیجئے۔‬

‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪ :4‬لوگوں سے رابطہ کیجئے‬


‫مایوسی‪ ،‬پریشانی اور اداسی میں دوستوں‪ ،‬اہ ِل خانہ اور گھروالوں سے رابطہ کیجئے۔ ان‬
‫کے تسلی بخش الفاظ سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف ایک نیا حوصل ملتا ہے بلکہ‬
‫پریشانی اور گھبراہٹ کم ہوتی ہے کیونکہ جیسے جیسے ٓاپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ٓاپ‬
‫اکیلے نہیں ویسے ویسے ٓاپ کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔‬

‫اگر‬
‫لوگ ٓاپ کی سن رہے ہیں تو دل کی بات کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ اس لیے شدید ذہنی‬
‫تناؤ کے دوران اپنے پیاروں سے مدد ضرور لیجئے۔‬

‫‪ :5‬اپنے ٓاپ کو مثبت‪ J‬ٹویٹس کیجئے‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لِن مینوئل مرنڈا نے ہر روز اپنے ٓاپ کو مثبت ٹویٹس کرتی ہے۔ انہوں نے ایک عرصے‬
‫سے صبح اور شام کا یہ معمول بنارکھا ہے اور اب اس پر ایک چھوٹی سی کتاب بھی لکھ‬
‫دی ہے۔ وہ مزاحیہ‪ ،‬شگفتہ اور مثبت جملے خود کو بھیجتی ہیں۔‬
‫یہی وجہ یہ ہے کہ وہ دماغی طور پر توانا اور پرامید ہیں ۔ اس کے بعد ان کی کارکردگی‬
‫اور مسائل جھلینے کی صالحیت بھی بڑھی ہے۔ ضروری نہیں کہ ٹویٹس لوگوں کو بھیجے‬
‫جائیں بلکہ خود اپنے ٓاپ کو کئے جائیں جس کو ایک مثبت یاددہانی کا ذریعہ بنتے ہیں۔‬
‫اگر ٓاپ خود یہ نہیں کرسکتے یا کسی الجھن میں ہیں تو کسی قریبی دوست یا جیون ساتھی‬
‫سے کہیں کہ وہ اس میں ٓاپ کی مدد کریں اور ٹویٹس بھیجیں۔‬

‫‪ :6‬فطرت سے قریب رہیں‬


‫کئی تحقیقات سے واضح ہے کہ سبزے‪ ،‬درخت اور پرسکون قدرتی مقامات پر جار کر‬
‫دماغی سکون ملتا ہے اور اس کے اثرات کئی ہفتوں تک برقرار رہتے ہیں۔ جذباتی صحت‬
‫کے لیے گھنے درختوں میں جائیں‪ ،‬پارک میں بیٹھیں‪ ،‬وہاں کا سکوت محسوس کریں‬
‫اوراسے روح میں اتارئیے۔‬
‫اسی جگہوں پر لمبےاور گہرے سانس لیجئے۔ اس سے پورے بدن میں ایک ایسی توانائی‬
‫بڑھے گی جو ٓاپ کو نامساعد حاالت سے لڑنے میں مدد دے گی۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2221401/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویکسین کی تمام خوراکین لینے والے افراد کو بوسٹر شاٹ کی ضرورت‬
‫نہیں‪-‬رپورٹ‬
‫‪2 sep 2021‬‬

‫فائل فوٹو میں اٹلی میں ایک خاتوں کو ویکسین کا شاٹ لگایا جارہا ہے (فوٹو رائٹرز)‬
‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫یورپ کے متعدی امراض کے بچاؤ اور قابو پانے‬
‫کے ادارے نے کہا ہے کہ کووڈ نائنٹین کی ویکسین‬
‫کا عمل مکمل کرنے والے لوگوں کو فوری طور پر‬
‫اضافی بوسٹر‪ J‬شاٹ کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫یورپین سنٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے‬
‫ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ‬
‫اب تک کے شواہد کے مطابق اس وقت ویکسین کی مکمل خوراکیں لینے والے افراد کو‬
‫بوسٹر شاٹ لگانا ضروری نہیں کیونکہ ویکسین کی پہلی خوراک یا خوراکیں موثر ثابت‬
‫ہوئی ہیں۔‬
‫رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حاالت میں صحت عامہ کے نظام کی توجہ تمام اہل‬
‫یورپی شہریوں کو ویکسین کا ابتدائی عمل مکمل کرنے پر ہونی چاہیے۔‬
‫ادارے نے کہا ہے کہ اضافی خوراکیں صرف ان لوگوں کو دی جائیں جن میں قوت مدافعت‬
‫کمزور ہونے کی وجہ سے پہلی خوراک یا دو خوراکیں موثر ثابت نہیں ہوئیں۔‬
‫دوسری طرف اب تک استعمال کی جانے والی ویکسین کی قسمیں کرونا وائرس کے خالف‬
‫انتہائی موثر ثابت ہوئی ہیں اور اب تک کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین نہ‬
‫صرف کووڈ نائنٹین کے مہلک مرض سے بچاتی ہیں بلکہ ویکسین لگوانے والےافراد میں‬
‫سے اگر کوئی متاثر ہوجائے تو اس کو اسپتال میں داخلے سے بچاتی ہیں۔‬
‫رپورٹ ترتیب دینے والے ماہرین کے مطابق ان حقائق کی روشنی میں یورپی یونین کو‬
‫سوچ و بچار کرنی چاہیے کہ ویکسین کے عمل کو پورا کرنے والے لوگوں کو اضافی‬
‫بوسٹر لگانے کی بجائے ویکسین کو یورپین یونین سے باہر ان ممالک کو فراہم کیا جائے‬
‫جہاں لوگوں کو ابھی بھی اس کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ فرانس یورپی یونین کا پہال ملک ہے جس نے ‪ 65‬سال سے بڑی عمر کے‬
‫لوگوں کو اضافی بوسٹر شاٹس لگانے شروع کیے ہیں۔‬
‫فرانس ان لوگوں کو بھی بوسٹر انجیکشن دے رہا ہے جنہیں خرابی صحت کا سامنا ہے‬
‫تاکہ ان لوگوں کو کرونا وائرس کی انتہائی متعدی ڈیلٹا قسم سے محفوظ رکھا جا سکے۔‬
‫فرانس کا ہمسایہ ملک اسپین بھی اسی قسم کے اقدام کرنے پر غور کر رہا ہے۔‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/eu-vaccine-booster/6200741‬‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سائنوفارم کا کووڈ کے عالج کیلئے دوا کے کلینکل ٹرائل شروع کرنے‬
‫کا اعالن‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪05 2021‬‬
‫سائنو فارم کے کووڈ ‪ 19‬کے عالج کے لیے دوا کے کلینکل ٹرائل شروع کرنے کا اعالن‬
‫کیا ہے‬

‫سائنو فارم کی ویکسین تیار کرنے والی ذیلی کمپنی چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (سی این‬
‫جی بی) کی جانب سے اعالن کیا گیا کہ اسے کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے مریضوں‬
‫کے پالزما پر مبی دوا کے کلینکل ٹرائلز کی منظوری مل گئی ہے۔اس دوا کو ‪ 2021‬چائنا‬
‫انٹرنیشنل فییئر فار ٹریڈ ان سروسز (سی آئی ایف ٹی آئی ایس) کے دوران پیش کیا گیا تھا۔‬
‫کمپنی نے بتایا کہ اسے کلینکل ٹرائل کی منظوری ‪ 30‬اگست کو مل گئی تھی۔‬
‫نئی دوا کے ساتھ سی این جی بی نے ‪ 6‬نئی مصنوعات کو بھی اس موقع پر پیش کیا گیا۔‬
‫ان میں ‪ 2‬اپ ڈیٹڈ ویکسینز بھی شامل تھیں جن کو وائرس میں آنے والی میوٹیشنز کے‬
‫خالف مؤثر قرار دیا جارہا ہے جبکہ ایک اور کووڈ ‪ 19‬بھی پیش کی گئی جو مونوکلونل‬
‫اینٹی باڈی پر مشتمل تھی۔‬
‫سی این بی جی کے مطابق یہ نئی دوا کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی‬
‫بہت زیادہ مقدار پر مبنی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سی این جی بی کی جانب سے ‪ 2020‬کے شروع میں کووڈ کے صحتیاب مریضوں کے‬
‫عطیہ کردہ خون سے پالزما پراڈکٹس تیار کی گئی تھیں اور اس کا ماننا تھا کہ یہ کووڈ ‪19‬‬
‫سے بہت زیادہ بیمار افراد کے لیے مؤثر ترین عالج ہے۔‬
‫اسی کو مدنظر رکھ کر یہ نئی دوا تیار کی گئی ہے جس کے لیے وائرس ناکارہ بنانے والی‬
‫اینٹی باڈیز کو استعمال کیا گیا اور اسے سابقہ مصنوعات سے زیادہ مؤثر قرار دیا ہے۔‬
‫ابھی یہ واضح نہیں کہ اس دوا کے کلینکل ٹرائلزکا دورانیہ کتنا ہوگا اور کیا چین سے باہر‬
‫بھی اس کی آزمائش ہوگی یا نہیں۔‬
‫کمپنی کی جانب سے بھی نہیں بتایا گیا کہ کب اور کہاں کلینکل ٹرائل کا آغاز ہوگا۔‬

‫ماہرین کے مطابق یہ دوا ممکنہ طور پر کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے لیے ہوگی اور‬
‫اس کی قیمت بہت زیادہ ہوسکتی ہے‪ ،‬مگر پھر بھی یہ مونوکلونل اینٹی باڈی ادویات سے‬
‫سستی ہوگی۔‬
‫انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے دیگر ادویات جیسے ایچ بی وی اور ایچ آئی وی وغیرہ کا‬
‫خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫مگر اس حوالے سے سی این بی جی کا کہنا تھا کہ وہ عطیہ کردہ پالزما کی اسکریننگ کے‬
‫لیے سخت جانچ پڑتال کے میکنزم پر عمل کرتی ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167715/‬‬

‫اس مزیدار چیز کا استعمال عادت بنانے کے فوائد دنگ کردیں گے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪05 2021‬‬

‫— یہ پھل قدرتی اجزا سے بھرپور ہوتا ہے‬


‫ہم سب جانتے ہیں کہ ناریل کے تیل کے متعدد فوائد ہیں اور طبی سائنس بھی اس کی‬
‫تصدیق کرتی ہے اور اسی لیے اسے 'جادوئی تیل' بھی کہا جاسکتا ہے۔‬
‫مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ناریل کا پانی صحت کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟‬
‫روزانہ کچھ مقدار میں ناریل کے پانی کو پینا صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ثابت ہوسکتا‬
‫ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ہر جگہ بہت آسانی سے دستیاب ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ پھل قدرتی اجزا سے بھرپور ہوتا ہے جس میں موجود پانی بھی صحت کے لیے بہت‬
‫مفید ہوتا ہے۔‬
‫اس پانی کے بیشتر طبی فوائد کی وجہ اس میں الیکٹرولیٹس کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ‬
‫سے ہوتے ہیں جس میں پوٹاشیم‪ ،‬کیلشیئم اور میگنیشم جیسے منرلز بھی موجود ہیں۔‬
‫اس کے فوائد درج ذیل ہیں۔‬
‫مسلز کے افعال مستحکم کرے‬
‫پوٹاشیم ایک ایسا ضروری منرل اور الیکٹرولیٹ‪ š‬ہے جس کی ضرورت انسانی جسم کو‬
‫مسلز کے افعال کے لیے ہوتی ہے۔ناریل کے پانی میں اس اہم غذائی جز کی موجودگی‬
‫مسلز کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔‬
‫ہڈیوں کی صحت کے لیے معاون‬
‫ایک کپ ناریل کے پانی میں ‪ 19.2‬ملی گرام کیلشیئم ہوتا ہے اور بیشتر افراد بہت کم مقدار‬
‫میں کیلشیئم کو جزوبدن بناتے ہیں جس کا نتیجہ ہڈیوں کے مسائل کی شکل میں نکلتا ہے۔‬
‫ان مسائل میں ہڈیوں کی کثافت گھٹ جانا اور ہڈیاں کمزور ہونا قابل ذکر ہے جو آسانی سے‬
‫ٹوٹ جاتی ہیں۔یہ ان افراد کے لیے بہترین مشروب ہے جن کو دودھ پینا زیادہ پسند نہیں‬
‫ہوتا۔‬
‫جسمانی افعال ریگولیٹ کرے‬
‫ملی لیٹر ناریل کے پانی میں ‪ 6‬ملی گرام میگنیشم موجود ہوتا ہے‪ ،‬میگنیشم جسم کے ‪100‬‬
‫متعدد افعال بشمول پروٹین بنانے‪ ،‬بلڈ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر لیول ریگولیٹ کرنے‪ ،‬مسلز‬
‫اور اعصاب کے افعال کا انتظام سنبھالنے کا کام کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مناسب مقدار میں میگنیشم کا استعمال نہ کرنا مختلف مسائل کا باعث بنتا ہے جبکہ اس کی‬
‫عالمات متلی‪ ،‬کمزوری اور تھکاوٹ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔‬
‫متعدد غذائی اجزا سے بھرپور‬
‫ناریل کا پانی ‪ 94‬فیصد پانی اور بہت کم چکنائی پر مبنی ہوتا ہے مجموعی طور پر ایک‬
‫کپ پانی میں ‪ 60‬کیلوریز ہوتی ہیں۔‬
‫اسی طرح ‪ 15‬گرام کاربوہائیڈریٹس‪ 8 ،‬گرام شکر‪ ،‬کیلشیئم کی روزانہ درکار مقدار کا ‪4‬‬
‫فیصد حصہ‪ ،‬میگنیشم کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 4‬فیصد حصہ‪ ،‬فاسفورس کی روزانہ‬
‫درکار مقدار کا ‪ 2‬فیصد حصہ اور پوٹاشیم کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 15‬فیصد حصہ جسم‬
‫کو ملتے ہیں۔‬
‫اینٹی آکسائیڈنٹس خصوصیات‬
‫فری ریڈیکلز ایسے غیرمستحکم مالیکیولز کو کہا جاتا ہے جو میٹابولزم کے دوران خلیات‬
‫بناتے ہیں‪ ،‬ان مالیکیولز کی پروڈکشن تناؤ یا انجری کے دوران بڑھ جاتی ہے۔‬
‫جب جسم میں ان مالیکیولز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو جسم میں تکسیدی تناؤ بنتا‬
‫ہے جو خلیات کو نقصان پہنچا کر مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔‬
‫جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کے پانی میں موجود‬
‫اینٹی آکسائیڈنٹس فری ریڈیکلز سے ہونے والے نقصان سے بچانے میں مددگار ثابت‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫بلڈ شوگر کی سطح میں ممکنہ کمی‬
‫جانوروں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کا پانی بلڈ شوگر لیول کو کم‬
‫کرسکتا ہے۔‬
‫ذیابیطس سے متاثر چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں ناریل کے پانی سے بلڈ شوگر‬
‫لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد ملی۔‬
‫مگر انسانوں پر ان اثرات کی تصدیق کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے تاہم اس پانی میں‬
‫موجود میگنیشم انسولین کی حساسیت کو بڑھانے اور بلڈ شوگر لیول کو کم کرنے کی‬
‫خصوصیات رکھتا ہے۔‬
‫ذیابیطس کے مریضوں کو اس پانی کا استعمال معالج کے مشورے سے کرنا چاہیے۔‬
‫گردوں میں پتھری کی ممکنہ روک تھام‬
‫مناسب مقدار میں پانی یا سیال پینا گردوں کی پتھری کی روک تھام کرتا ہے‪ ،‬اس حوالے‬
‫سے عام پانی ایک اچھا انتخاب ہے مگر کچھ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ناریل کا پانی‬
‫بھی بہترین ہے۔‬
‫گردوں میں پتھری اس وقت بنتی ہے جب کیلشیئم‪ ،‬آکسلیٹ اور دیگر مرکبات باہم مل کر‬
‫کرسٹل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور پھر ننھے پتھر بن جاتے ہیں۔‬
‫افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کے پانی کا استعمال بڑھانے ‪8‬‬
‫کی زیادہ مقدار کا اخراج ہوتا ہے‪ citrate ،‬سے پیشاب کے راستے پوٹاشیم‪ ،‬کلورائیڈ اور‬
‫یعنی گردوں میں پتھری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس حوالے سے اب تک زیادہ بڑی تحقیق نہیں ہوئی اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر‬
‫ناریل کے پانی کا استعمال آزمانے میں کوئی نقصان نہیں۔‬
‫دل کی صحت کے لیے بھی مفید‬
‫ناریل کا پانی پینا امراض قلب کا خطرہ بھی کم کرسکتا ہے۔‬
‫کی ایک تحقیق میں چوہوں کو زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول پر مبنی غذا کا استعمال ‪2008‬‬
‫کرایا گیا جبکہ ایک گروپ کو زیادہ مقدار میں ناریل کا پانی استعمال کرایا گیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ ناریل کا پانی پینے والے گروپ کا کولیسٹرول اور ٹرائی گلیسڈر‬
‫لیول نمایاں حد تک کم ہوگیا۔‬
‫کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ناریل کا پانی پینا بلڈ پریشر میں کمی النے میں بھی ‪2005‬‬
‫مددگار ثابت ہوسکتا ہے‪ ،‬مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫بلڈ پریشر میں کمی کے حوالے سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس میں پوٹاشیم کی مقدار‬
‫متاثر کن ہوتی ہے اور پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح میں کمی النے کے لیے بہت اہم جز‬
‫ہے۔‬
‫جسم کو پانی کی کمی سے بچائے‬
‫ناریل میں موجود پانی میں ایسے الیکٹرولیٹس‪ š‬ہوتے ہیں جو جسم میں پانی کی مقدار‬
‫مستحکم رکھنے میں مدد دیتے ہیں‪ ،‬گرم موسم میں جسمانی طور پر زیادہ سرگرم رہنے‬
‫والوں کو ناریل کے پانی کو اپنی غذا کا حصہ بنالینا چاہئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167759/‬‬

‫ویکسینز کی افادیت میں کمی ڈیلٹا کے پھیالؤ اور ماسک کے استعمال نہ‬
‫کرنے کا نتیجہ قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪05 2021‬‬

‫فائزر‪/‬بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیار کردہ ایم آر این اے ویکسینز کی افادیت وقت کے‬
‫ساتھ کم ہوگئی جس کی جزوی وجہ فیس ماسک کے استعمال پر پابندی ختم ہونا اور کورونا‬
‫کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کا پھیالؤ ہے۔‬
‫یہ بات طبی جریدے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین‬
‫کی ٹیم کے لکھے خط میں بتائی گئی۔‬
‫کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو (یو سی ایس ڈی) کے ماہرین کی ٹیم کی جانب سے‬
‫یونیورسٹی کے طبی ورکرز میں ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫محققین نے بتایا کہ مارچ سے جون ‪ 2021‬کے دوران ویکسین کی افادیت عالمات والی‬
‫بیماری سے تحفظ کے لیے ‪ 90‬فیصد سے زیادہ تھی مگر جوالئی میں یہ گھٹ کر ‪64‬‬
‫فیصد تک پہنچ گئی۔‬
‫فائزر اور موڈرنا ویکسینز کے ہنگامی استعمال کی منظوری امریکا میں دسمبر ‪ 2020‬میں‬
‫دی گئی تھی اور یو سی ایس ڈی کے ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن اسی مہینے سے شروع‬
‫ہوگئی تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ویکسینز کی افادیت میں کمی حیران کن نہیں‪ ،‬کلینکل ٹرائل کے ڈیٹا سے‬
‫مکمل ویکسینیشن کے کئی ماہ بعد افادیت میں کمی کا عندیہ دیا گیا تھا۔‬
‫ٰ‬
‫انہوں نے کہا کہ مگر ہمارے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کی قسم ڈلٹا کے پھیالؤ‬
‫کے باعث معمولی عالمات والی بیماری کے خالف ویکسینز کی افادیت مکمل ویکسینیشن‬
‫کے بعد ‪ 6‬سے ‪ 8‬ماہ کے بعد نمایاں کمی آئی۔‬
‫دسمبر میں امریکا میں کورونا وائرس کی وبا بہت تیزی سے پھیل رہی تھی اور کیلیفورنیا‬
‫یونیورسٹ کے ورکز کے لیے ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں کا استعمال شروع ہوا تھا جبکہ‬ ‫ٰ‬
‫مارچ میں ‪ 76‬ویکسین ورکرز کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی اور یہ شرح جوالئی تک‬
‫‪ 83‬فیصد تک پہنچ گئی۔‬
‫مارچ سے جون کے درمیان ویکسنیشین کی شرح میں کمی آئی تھی اور متعدد طبی ورکرز‬
‫کی جانب سے کووڈ کی کم از کم ایک عالمت اور مثبت ٹیسٹ کو رپورٹ کیا گیا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جوالئی میں ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد میں کیسز کی شرح میں اضافہ ہونا شروع‬
‫ہوا جس کی وجہ ریاست میں ڈیلٹا کا غلبہ تھا جبکہ فیس ماسک کا استعمال الزمی نہیں رہا‬
‫تھا۔‬
‫جوالئی کے آخر تک ‪ 125‬ورکرز میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور سابقہ مہینوں میں‬
‫ویکسینیشن کرانے والے کیسز کی شرح ‪ 20‬فیصد تھی جو جوالئی میں بڑھ کر ‪ 75‬فیصد‬
‫تک پہنچ گئی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ویکسینیشن والے افراد میں کیسز کے باوجود ان لوگوں کو کووڈ کی‬
‫سنگین شدت سے تحفظ مال۔‬
‫یو سی ایس ڈی کے ویکسینیشن والے کسی ورکر کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل‬
‫نہیں ہونا پڑا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں ڈیلٹا قسم زیادہ تر بالغ افراد میں‬
‫‪ 5‬سے ‪ 11‬سال کی عمر کے بچوں سے منتقل ہوئی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد میں کووڈ کا خطرہ ‪ 7‬گنا زیادہ ہوتا ہے‪،‬‬
‫سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو بیماری کی صورت میں بہت کم طبی امداد کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬مگر ویکسینیشن سے دور رہنے والے بالغ افراد میں ہسپتال میں داخلے‬
‫کا امکان ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں ‪ 32‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جنوری اور فروری میں ویکسینیشن مکمل کرانے والے‬
‫افراد کے کیسز کی تعداد مارچ میں ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں جوالئی کے‬
‫مہینے میں سب سے زیادہ تھی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ جون سے جوالئی کے دوران ویکسین کی افادیت میں ڈرامائی تبدیلی‬
‫مختلف عناصر کے امتزاج کا نتیجہ تھی‪ ،‬ایک ڈیلٹا قسم کا ابھرنا‪ ،‬وقت کے ساتھ ویکسین‬
‫کی افادیت میں کمی اور فیس ماسک کا الزمی استعمال ختم ہونے برادری میں وائرس کے‬
‫پھیالؤ کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مختلف اقدامات جیسے چار دیواری کے اندر‬
‫فیس ماسک کا استعمال اور دیگر پر عملدرآمد ضروری ہے جبکہ ویکسینیشن کی شرح میں‬
‫اضافے پر بھی کام ہونا چاہیے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167769/‬‬

‫دل کی دھڑکنوں پر نظر رکھنے والی ’اسمارٹ شرٹ‘ بنا لی گئی‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬ہفتہ‪ 4  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ قمیض نرم اور لچک دار کپڑے سے بنی ہے جو کئی گھنٹوں تک اپنے پہننے والے کی‬
‫دھڑکنیں ریکارڈ کرسکتی ہے۔ (فوٹو‪ :‬رائس یونیورسٹی)‬
‫ہیوسٹن‪ ،‬ٹیکساس‪ :‬امریکی سائنس دانوں نے لچک دار کاربن نینو فائبر استعمال کرتے‬
‫ہوئے ایک ایسی قمیص ایجاد کرلی ہے جو اپنے پہننے والے کے دل کی دھڑکنوں پر‬
‫مسلسل نظر رکھ سکتی ہے۔‬
‫یہ ’ذہین قمیص‘ رائس یونیورسٹی کے ماہرین کی قیادت میں کئی امریکی جامعات کے‬
‫اشتراک سے تقریبا ً دو سال میں تیار کی گئی ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’نینو لیٹرز‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق‪،‬‬
‫اس ذہین قمیص کی تیاری میں سب سے بڑا چیلنج نینومیٹر جتنے چوڑے‪ ،‬لچک دار کاربن‬
‫ریشوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لپیٹ کر ایک ایسا دھاگہ تیار کرنا تھا جس میں سے‬
‫بجلی گزر سکے اور اسے لباس کی سالئی میں استعمال بھی کیا جاسکے۔‬
‫اس مقصد کےلیے بال سے بھی زیادہ باریک‪ ،‬صرف ‪ 22‬مائیکرومیٹر جتنی چوڑائی والے‬
‫سات کاربن ریشوں کو ایک دوسرے کے گرد بل دے کر ان کے بنڈل بنائے گئے‪ ،‬اور پھر‬
‫ایسے تین بنڈلز کو ٓاپس میں لپیٹ کر کاربن نینو فائبر واال دھاگہ تیار کیا گیا۔‬
‫زگ زیگ پیٹرن کی طرز پر اس نینو فائبر دھاگے کو قمیص کے ساتھ سی دیا گیا۔ اس‬
‫طرح تیار ہونے والی ٹی شرٹ ایک ادھیڑ عمر رضاکار کو پہنا کر اس کی دل کی‬
‫دھڑکنوں پر کئی گھنٹوں تک مسلسل نظر رکھی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نینو فائبر والے ان دھاگوں میں سے نہ صرف بجلی گزرسکتی ہے بلکہ یہ ٓارام دہ اور‬
‫پائیدار بھی ہیں جو قمیص دھوئے جانے پر بھی خراب نہیں ہوتے۔‬
‫تجربے کے دوران یہ قمیص پہننے واال رضاکار بھی مطمئن رہا اور اسے کسی قسم کی‬
‫بے چینی یا الجھن کا سامنا نہیں ہوا۔‬
‫یہ قمیص چست لیکن نرم اور لچک دار کپڑے سے بنی ہے‪ ،‬جبکہ یہ لگاتار کئی گھنٹوں‬
‫تک اپنے پہننے والے کی دھڑکنوں کا ریکارڈ رکھ سکتی ہے۔‬
‫واضح رہے کہ ’’ذہین قمیص‘‘ فی الحال تجرباتی مرحلے پر ہے جس کا مقصد اس کی‬
‫تیاری کو کم خرچ اور تیز رفتار بنانا ہے تاکہ ٓانے والے برسوں میں یہ بڑے پیمانے پر‬
‫تیار کی جاسکے؛ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ واچ یا اس جیسے دوسرے ٓاالت کی جگہ‬
‫لے سکے جو ٓاج کل صحت پر نگاہ رکھنے کےلیے عام استعمال ہورہے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2220576/9812/‬‬

‫بینگن کھانے سے صحت پر کیا فرق پڑتا ہے؟‬


‫اگست ‪30 2021 ،‬‬

‫بینگن ایک ایسی سبزی ہے جسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں اور اس کی افادیت سے‬
‫متعلق بھی بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں اسی لیے اسے نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ بینگن‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میں‪  ‬کیلوریز کم اور قُدرتی غذائی اجزا جیسے کہ فائبر‪ ،‬وٹامنز اور معدنیات کی تعداد‬
‫کثرت سے پائی جاتی ہے۔‬
‫ایشائی ممالک سمیت دنیا بھر میں بینگن کی سبزی کھائی جاتی ہے‪ ،‬مغربی ممالک‬
‫میں‪ ‬اِسے زیادہ تر بھون کر کھایا جاتا ہے‪ ،‬بینگن کو خوبصورتی‪ š‬بڑھانے والی سبزی بھی‬
‫کہا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان میں‪ ‬بینگن کو ٓالو‪ ،‬اروی‪ ،‬گوشت یا اس کا بھرتہ اور رائتہ‬
‫وغیرہ بنا کر استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬یہ سبزی ‪ 12‬مہینے دستیاب ہوتی ہے‪ ،‬اس کی دو اقسام‬
‫ہیں جن میں‪  ‬سے ایک گول اور ایک لمبی قسم ہے۔‬
‫بینگن بے شمار غذائی اجزا اور اینٹی ٓاکسیڈنٹ خصوصیات سے ماالمال سبزی ہے‪ ،‬بینگن‬
‫میں بہت سی بیماریوں سے لڑنے کی خصوصیات موجود ہیں جبکہ یہ کینسر جیسے جان‬
‫لیوا مرض سے بچأو کے ساتھ دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق بینگن میں فاسفورس‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬وٹامن اے‪ ،‬بی اور سی‪ ،‬وٹامن بی‪،1‬‬
‫بی ‪ ،6‬پوٹاشیم‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬فولک ایسڈ اور ڈائٹری فائبر پایا جاتا ہے ‪ ،‬یہ سبزی بلند فشار‬
‫خون اور تنأو میں کمی اور ذیابطیس کے مرض کو قابو‪  ‬کرنے میں مددگار ثابت ہوتی‬
‫ہے ۔‬
‫بینگن کے استعمال کے نتیجے میں صحت پر ٓانے والے بے شمار مثبت‪ J‬فوائد جان کر ٓاپ‬
‫بھی اس سبزی کو اپنی غذا کا حصہ بنانے پر یقینا ً مجبور ہو جائیں گے۔‬
‫بینگن کولیسٹرول کے خاتمے کے لیے مفید ہے‬
‫بینگن میں فائبر وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جو کولیسٹرول کی سطح کو برقرار رکھنے‬
‫میں مدد کرتا ہے‪ ،‬تحقیق کے مطابق بینگن میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹ اور کلورجینک ایسڈ‬
‫کولیسٹرل کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور اِس کے عالوہ جگر کے مرض کے‬
‫خطرے کو بھی کم کرتا ہے‪ ،‬کولیسٹرول کے مریضوں کو طبی ماہرین کی جانب سے غذا‬
‫میں بینگن کا زیادہ سے زیادہ استعمال تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫امراض قلب کے مریضوں کے لیے مفید‬
‫امراض قلب سے بچنے کے لیے بھی بہت مفید ہوتا ہے‪ ،‬بینگن میں پائے جانے والے‬ ‫ِ‬ ‫بینگن‬
‫فائبر‪ ،‬وٹامن سی‪ ،‬وٹامن بی‪ ،‬پوٹاشیم اور دیگر اینٹی ٓاکسیڈنٹ ِدل کی بیماریوں کے خطرے‬
‫سے بچنے کی صالحیت رکھتے ہیں‪ ،‬تحقیق کے مطابق بینگن ِدل کے نظام کو بہتر بناتا‬
‫ہے اور اِس کے عالوہ کولیسٹرول کی بڑھتی ہوئی سطح کو بھی کم کرتا ہے‪ ،‬ل ٰہذا ِدل کی‬
‫بیماریوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو غذا میں بینگن کو الزمی شامل کریں۔‬
‫بلغم کا بہترین‪ J‬عالج‬
‫بلغم کی شکایت رکھنے والے افراد کے لیے بینگن کا سالن مفید غذا ہے‪ ،‬بینگن بلغم کا‬
‫دشمن قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫شوگر لیول متوازن بناتا ہے‬
‫بینگن میں فائبر اور پولیفینول بھرپور مقدار میں‪ ‬پائے جاتے ہیں‪ ،‬یہ دونوں بلڈ شوگر کی‬
‫سطح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں‪ ،‬بینگن کو شوگر کے مریضوں کے لیے‬

‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک صحت مند غذا سمجھا جاتا ہے لہٰ ذا شوگر کے مریضوں کو اپنی غذا میں بینگن کا‬
‫استعمال ضرور کرنا چاہیے۔‬
‫کینسر سے بچأو کے لیے مفید سبزی‬
‫بینگن میں کینسر سے بچأو کی خصوصیات بھی موجود ہوتی ہیں‪ ،‬بینگن جسم کو کینسر‬
‫جیسے جان لیوا مرض سے بچاتا ہے اور اگر کسی کو کینسر کا مرض الحق ہو جائے تو‬
‫ایسی صورت میں یہ سبزی مرض کی دوبارہ نشونما بھی روکتی ہے۔‬
‫قبض کشا‬
‫بینگن قبض کشا سبزی ہے‪ ،‬یہ معدہ میں گیس اور تیزابیت کو دور کرتی ہے‪ ،‬بینگن معدے‬
‫کی رطوبتوں کے اخراج میں مدد دیتا ہے لہٰ ذا بینگن کے استعمال سے بھوک میں‪ ‬اضافہ‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫بینگن سے متعلق احتیاطی تدابیر‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق بینگن پیشاب ٓاور سبزی ہے اور اس کا زیادہ استعمال خون میں‬
‫گرمی پیدا کرتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق جن لوگوں کو جسم میں خشکی ہو‪ ،‬نیند کم ٓاتی ہو اور بواسیر کی‬
‫شکایت ہو ایسے افراد کو بینگن کی سبزی ہرگز غذا میں شامل نہیں کرنی چاہیے۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے بینگن کا استعمال ہر قسم کے بخار میں بھی سختی سے منع‬
‫کیا جاتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/977424‬‬

‫چین کی نئی کورونا ویکسین‪ ،‬ڈیلٹا ویریئنٹ کے خالف بھی ‪ 77‬فیصد‬


‫مؤثر‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 30  ‬اگست‪ 2021  ‬‬

‫یہ تین خوراکوں والی کووڈ‪ 19‬ویکسین ہے جس کا کورس ‪ 60‬دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔‬
‫(فوٹو‪ :‬چائنیز میڈیا)‬
‫بیجنگ‪ :‬چین میں تیار کردہ نئی ویکسین ’’زیفی ویکس‘‘ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ‬
‫یہ کورونا وائرس کی تمام اقسام کے خالف ‪ 82‬فیصد‪ ،‬جبکہ خطرناک ڈیلٹا ویریئنٹ کے‬
‫خالف بھی ‪ 77‬فیصد مؤثر ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫زیفی ویکس کا اصل تکنیکی نام ’’زیڈ ایف‪ ‘‘2001‬ہے جسے چائنیز اکیڈمی ٓاف سائنسز‬
‫کے انسٹی ٹیوٹ ٓاف مائیکرو بائیالوجی اور چونگ کنگ زیفی پروڈکٹس کے ذیلی ادارے‬
‫’’ٓانہوئی زیفی لونگکوم‘‘ نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔‬

‫یہ نتائج وسیع پیمانے کی اُن طبّی ٓازمائشوں سے حاصل ہوئے ہیں جو چین اور پاکستان‬
‫کے عالوہ ازبکستان‪ ،‬انڈونیشیا اور ایکواڈور میں ‪ 28500‬افراد پر کی گئی ہیں۔‬
‫ان نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ناول کورونا وائرس ’’الفا ویریئنٹ‘‘‪ š‬کے خالف اس ویکسین‬
‫کی اثر پذیری ‪ 93‬فیصد جبکہ اب تک سامنے ٓانے والی‪ ،‬کورونا وائرس کی تمام اقسام کے‬
‫خالف ‪ 82‬فیصد ہے۔‬
‫البتہ‪ ،‬یہ کورونا وائرس کی سب سے خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والی قسم ’’ڈیلٹا‬
‫ویریئنٹ‘‘ کے خالف بھی ‪ 77‬فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے‪ ،‬جو ایک اہم کامیابی ہے۔‬
‫زیفی ویکس تین خوراکوں والی کورونا ویکسین ہے‪ :‬پہلی خوراک کے ‪ 30‬دن بعد دوسری‬
‫اور مزید ‪ 30‬دن بعد تیسری خوراک لگائی جاتی ہے۔‬
‫چین اور ازبکستان میں زیفی ویکس کی صنعتی پیمانے پر تیاری کے عالوہ اس کا استعمال‬
‫بھی شروع کردیا گیا ہے۔‬
‫ذرائع ابالغ کے مطابق‪ ،‬چین اور ازبکستان کی حکومتیں زیفی ویکس کو استعمال کےلیے‬
‫مارچ ‪ 2021‬میں منظور کرچکی ہیں اور اب تک دونوں ملکوں میں اس ویکسین کی ‪10‬‬
‫کروڑ سے زیادہ خوراکیں لگائی جاچکی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫زیفی ویکس بھی محفوظ ہے جس کے منفی ضمنی اثرات بھی خاصے کم ہیں۔ یہی نہیں‬
‫بلکہ طبّی ٓازمائشوں کے دوران یہ ویکسین لگوانے والے افراد میں سے کسی ایک کو بھی‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونا نہیں پڑا۔‬
‫ِ‬
‫واضح رہے کہ زیفی ویکس کی طبّی ٓازمائشیں اگرچہ دس ہزار پاکستانیوں پر بھی کی گئی‬
‫ہیں لیکن عوامی سطح پر استعمال کےلیے اب تک ڈریپ (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ٓاف‬
‫پاکستان) نے اسے منظور نہیں کیا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2218991/9812/‬‬

‫ض قلب کو دور بھگائیں‬


‫سبزے کے قریب رہیں‪ ،‬فالج اور امرا ِ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 30  ‬اگست‪ 2021  ‬‬
‫امراض قلب اور فالج سے دور رہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫سبزے کے قریب رہنے والے افراد دماغی تناؤ‪،‬‬
‫میامی‪ :‬اگر ٓاپ کے گھر کے دائیں اور بائیں سبزہ اور درختوں کی بڑی تعداد ہے تو اس‬
‫ض قلب سے دور رہیں گے اور ساتھ ہی ٓاپ کا‬ ‫امر کا قوی امکان ہے کہ ٓاپ فالج اور امرا ِ‬
‫موڈ بھی بہتر‪ J‬رہےگا۔‬
‫اس بات کا انکشاف ایک اہم تحقیق سے ہوا ہے جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گھر کے‬
‫امراض قلب اور فالج کا خطرہ کم ہوتا بلکہ دوسری‬
‫ِ‬ ‫اطراف درخت‪ ،‬پودے اور گھاس سے‬
‫تحقیق کے مطابق بڑھتے ہوئے نوعمر (ٹین ایج) بچوں کی ذہنی اور دماغی صحت بھی‬
‫بہتر رہتی ہے۔‬
‫جامعہ میامی کے پروفیسر نے اپنی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ ’ ٓاپ کے دائیں بائیں جتنا‬
‫زیادہ سبزہ ہوگا دل کی بیماریوں اور عمر بھر کے لیے معذور کردینے والے فالج کا خطرہ‬
‫اتنا ہی کم ہوجائے گا۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سبزے سے انسانوں پر مثبت‬
‫اثرات کا یہ تعلق صرف پانچ سال سے کم عرصے میں قائم ہوجاتا ہے جو ایک خوش ٓائند‬
‫‘‪،‬بات ہے‬
‫اس لیے بہت ضروری ہے کہ سڑکوں اور خالی جگہوں پر درخت اور سبزہ لگایا جائے۔‬
‫اس تحقیق کا ایک بنیادی مقصد تھا جس کے تحت سبزے اور دل کے امراض کے درمیان‬
‫تعلق کو معلوم کرنا تھا۔ اس کے لیے ماہرین نے کئ برس تک مختلف مقامات پر سروے‬
‫کیا۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 243,558‬ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمرین ‪ 65‬برس یا اس سے‬
‫زائد تھیں۔ یہ سارے لوگ میامی کے ایک مخصوص عالقے میں پانچ سال تک ایک ہی‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جگہ رہ رہے تھے یعنی ‪ 2011‬سے ‪ 2016‬تک انہوں نے گھر نہیں بدال تھا۔ اسی دوران ان‬
‫کا سروے جاری رہا۔ اس دوران ماہرین نے دل کے امراض‪ ،‬دھڑکن کی بے ترتیبی‪ ،‬فالج‪،‬‬
‫امراض قلب کے واقعات کو نوٹ کیا۔‬‫ِ‬ ‫بلڈ پریشر اور دیگر‬
‫سیٹالئٹ تصاویر سےتمام شرکا کے ٓاس پڑوس میں سبزہ نوٹ کیا گیا۔ اس کے عالوہ‬
‫زیریں سرخ کے قریب (نیئرانفراریڈ)‪ š‬روشنی میں بھی درختوں اور پودوں کا شمار کیا گیا۔‬
‫وجہ یہ ہے کہ درختوں اور پودوں میں موجود کلوروفِل کی وجہ سے مرئی روشنی جذب‬
‫ہوجاتی ہے اور ان سے نیئرانفراریڈ‪ š‬شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ اس سے سبزے کا حساب‬
‫لگانے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح سبزے کو تین درجوں یعنی کم‪ ،‬درمیانہ اور زیادہ میں‬
‫تقسیم کیا گیا۔‬
‫اسی بنا پر شرکا کو بھی تقسیم کیا گیا جس میں کم‪ ،‬زیادہ اور درمیانے درجے کے سبزے‬
‫محل وقوع کی بنیاد پر بانٹا گیا۔ لیکن اس دوران کئی‬
‫ِ‬ ‫میں رہنے والے افراد کو ان کے‬
‫عالقوں میں شجرکاری بھی جاری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر عالقےمیں رہنے والے افراد‬
‫امراض قلب کے نئے مریضوں کی تشخیص کی گئی ۔ تاہم ان میں دیگر عوامل کو بھی‬ ‫ِ‬ ‫میں‬
‫شامل کیا گیا جن میں عمر‪،‬جنس‪ ،‬دل کی کیفیت اور پڑوس میں سبزے کی کیفیت پر غور‬
‫کیا گیا۔‬
‫معلوم ہوا کہ جو افراد بھرپور یعنی بلند ترین سبزے والے عالقے میں رہتے تھے وہ دیگر‬
‫امراض قلب کے خطرے کے ‪ 16‬فیصد کم شکار بنے۔ اس‬ ‫ِ‬ ‫عالقوں میں رہائشی افراد سے‬
‫قابل اعتماد کیا گیا ہے کیونکہ تمباکونوشی اور غذائی عادات کے‬ ‫تحقیق کو بہت حد تک ِ‬
‫عوامل کو الگ سے دیکھا گیا ہے۔‬
‫اس کی وجوہ بتاتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ سبزہ دماغی تناؤ کو دور کرتا ہے۔ دوسری‬
‫جانب درخت فضائی اور شور کی ٓالودگی کو کم کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے پرندوں کے‬
‫مدھر گیت کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2218742/9812/‬‬

‫بالوں کو کلر کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال الزمی رکھیں‬


‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 30 2021‬‬

‫بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بالوں میں سفیدی کو کھلے دل سے قبول کرتے‬
‫ہیں اس کے برعکس ‪ 75‬سے ‪ 80‬فیصد لوگ بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے‬
‫مخصوص رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے عالوہ خواتین میں آج کل فیشن کے لیے بھی بالوں کو رنگوانا عام سی بات ہوگئی‬
‫ہے اور ایسا ایک یا دو بار نہیں بلکہ متعدد بار کیا جاتا ہے جو بالوں کی صحت کیلئے‬
‫اچھی مثال نہیں یعنی بال کلر کروانا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔‬
‫ہیئر کلرنگ ایک نازک مرحلہ ہے جس کے لیے اس کے بارے میں علم اور تجربے کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق بالوں کے رنگنے کے لیے پیشہ ور افراد‬
‫کے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔بالوں کے رنگ میں کوئی تبدیلی کرتے وقت نیچے‬
‫درج کی گئی ان ‪ 10‬غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔‬

‫ہیئر سیلون میں نہ جانا‬

‫تحقیقات | ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس میدان میں ماہرین کی مہارت کا استعمال بالوں کا صحیح رنگ منتخب کرنے اور‬
‫مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس فیلڈ کے ماہرین بالوں کے رنگ کا‬
‫تعین کرنے میں مدد کرتے ہیں جو جلد کے رنگ سے ملتے ہیں۔‬
‫وہ متوقع نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتے ہیں‪ ،‬اس کے ساتھ بالوں کی دیکھ بھال کا‬
‫طریقہ کار بھی بتاتے ہیں جس کے بعد بالوں کی رنگت میں استحکام رہتا ہے۔‬

‫بالوں کے ماہرین پر اندھا اعتماد‬


‫بالوں کا رنگ منتخب کرنے میں ذاتی رائے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا آپ کو اپنے‬
‫بالوں کا رنگ منتخب کرنے کے بارے میں اپنی رائے رکھنی چاہیے۔ جہاں تک ہیئر‬
‫ڈریسنگ کے شعبے میں ماہرین کے کردار کا تعلق ہے‪ ،‬اس کا انحصار بالوں کے مناسب‬

‫تحقیقات | ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫رنگ کا انتخاب کرنے اور اسے صحیح طریقے سے نافذ کرنے کے لیے مشورے فراہم‬
‫کرنے پر ہے۔‬
‫بالوں کا گہرا رنگ منتخب کرنا‬
‫بالوں کے بہت گہرے رنگ کو اپنانے سے چہرے کی چمک مدھم ہو جاتی ہیں جبکہ ہلکے‬
‫رنگ اسے روشن کرتے ہیں۔ جہاں تک اس قاعدے کی پیروی کی جانی چاہیے۔ ایسا بالوں‬
‫کا رنگ منتخب نہیں کرنا چاہیے جو ٓائی برو کے رنگ سے زیادہ گہرا ہے۔‬

‫گہرا رنگ منتخب کرنا‬


‫بالوں کے رنگ کو مستقل تبدیل کرنا ایک خطرہ ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتا‬
‫ہے۔ اس لیے مستقل رنگنے کے مرحلے پر جانے سے پہلے عارضی بالوں کا رنگ اپنایا‬
‫جائے۔‬
‫گھر میں بالوں کا رنگ ہلکا کرنا‬

‫بالوں کا رنگ ہلکا کرنا ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے اس کے لیے ماہرین کی مہارت کی‬
‫ضرورت ہے۔ گھر پر لگانے سے بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر بالوں کا‬
‫رنگ دو ڈگری سے زیادہ ہلکا ہو جائے تو نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔‬
‫جلد کے رنگ اور آنکھوں کے ساتھ بالوں کے رنگ کا میچ‪ J‬نہ ہونا‬
‫بالوں کا قدرتی رنگ عام طور پر جلد اور آنکھوں کے رنگ جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی‬
‫قسم کی تبدیلی مسئلے کا باعث بنتی ہے اور نتائج کی ضمانت نہیں دی جاتی۔‬
‫تحقیقات | ‪103‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بالوں کے رنگ کا ناقص انتخاب جلد کو پھیکا یا بے جان بنا سکتا ہےجبکہ آنکھوں کو تھکا‬
‫ہوا اور چمک سے خالی بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عام اصول یہ ہے کہ ہلکی جلد ہلکے‬
‫رنگ کے بالوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور سیاہ جلد سیاہ بالوں کے ساتھ مطابقت‬
‫رکھتی ہے۔‬

‫دوسرا رنگ چھپانے کے لیے بالوں کا نیا رنگ منتخب کریں‬


‫متوقع رنگ حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے‬
‫اوپر کوئی اور رنگ نہ لگائیں۔ بلکہ بالوں کے لیے ہلکا پھلکا شیمپو اپنائیں جس سے‬
‫مختصر عرصے میں نتائج بہتر ہوں گے۔ ہیئر ڈریسنگ کے شعبے کے ماہرین سے بھی‬
‫مشورہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ غلطی کو درست کریں جو کہ رنگنے کے دوران کی گئی‬
‫ہے۔‬
‫عارضی رنگ تبدیل کرنے کے لیے نئے رنگ کا انتخاب کرنا‬

‫عارضی بالوں کا رنگ منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہے گا اور یہ‬
‫بالوں کے بار بار دھونے سے غائب ہو جاتا ہے لہذا اسے مستقل رنگ میں چھپانے کی‬
‫ضرورت ہے۔‬
‫مہندی کا سہارا لینا‬
‫مہندی کو قدرتی اجزا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو بالوں کا رنگ بدلنے میں مدد کرتا‬
‫ہے لیکن اس فیلڈ میں تجربے کی کمی کی صورت میں اس کا اطالق پیچیدہ ہے اور اس‬
‫تحقیقات | ‪104‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی درخواست میں آسانی کی وجہ سے اسے نیم مستقل رنگنے کے ساتھ تبدیل کرنے کا‬
‫مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس میدان میں ماہرین کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہیئر‬
‫ڈریسنگ سیلون میں مہندی لگائی جا سکتی ہے۔‬
‫بالوں پر رنگ لگاتے وقت ان کی حالت کو نظر انداز کریں‬
‫خراب اور بے جان بالوں کو رنگنا ایک مشکل کام ہے۔ چاہے وہ عارضی ہو یا مستقل۔ اس‬
‫معاملے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بالوں کو رنگنے سے پہلے ان کی حالت کو‬
‫بہتر بنایا جائے اور یہ کام ہیئر ڈریسنگ سیلون کے ماہرین کو تفویض کیا جائے خاص‬
‫طور پر رنگے ہوئے بالوں کی صورت میں جو رنگ میں نئی تبدیلی التے ہیں۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/hair-color-precautions-health-tips/‬‬

‫کرسی پر بیٹھ کر یوگا کیسے کریں؟ ویڈیو دیکھیں‬

‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  30 2021‬‬

‫گزشتہ چند دہائیوں کے دوران یوگا کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے اس حوالے سے‬
‫کی گئی تحقیق نے نہ صرف یوگا کے بہت سے فوائد کو ثابت کیا ہے بلکہ شعبہ طب سے‬
‫وابستہ افراد اور دیگر اہم شخصیات بھی اس ناقابل یقین مشق کو اپنانے اور تجویز‬
‫کررہی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪105‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لفظ ’یوگا‘ کے اصل معنی یکجا ہونے کے ہیں‪ ،‬یہ ایک ایسی مشق ہے جو جسم دماغ اور‬
‫روح کو سانس کے ذریعے ساتھ جوڑتا ہے۔ بہت سارے لوگ اسے تربیت کا ایک قدیم‬
‫طریقہ کہتے ہیں اور دوسرے اسے مشکل پوزیشن کا ایک مجموعہ کہتے ہیں۔‬

‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف یوگی منور حسن‬
‫نے بتایا کہ یوگا کرنا انسان کو طویل عمر تک جوان‪ ،‬متحرک اور صحتمند رکھتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یوگا ٓاپ کی ذہنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتا ہے‪ ،‬یوگا کے فوائد میں‬
‫آنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یوگا واقعی کیا ہے؟‬
‫منور حسن نے بتایا کہ یوگا دماغ مین موجود اسٹریس ہارمونز کو کم کرتا ہے‪ ،‬اس کے‬
‫عالوہ سانس لینے کی ورزش بھی بہت اہمیت کی حامل ہے‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/chair-yoga-health-tips-bakhabar-savera/‬‬

‫ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں‬

‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  30 2021‬‬

‫ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا نہ صرف جسمانی صحت کے لیے بے حد‬
‫فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے‪ ،‬بلکہ ذہنی صحت کی بہتری‬
‫کے لیے بھی ضروری‪ J‬ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪106‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی‬
‫یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔‬
‫لندن میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔‬
‫ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت‪ ،‬ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔‬
‫ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی‬
‫میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔‬
‫تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش‪ ،‬جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ‬
‫لینا ڈپریشن اور تناؤ میں ‪ 43‬فیصد کمی کرتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے‬
‫میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے بھی تحفظ ملتا ہے۔‬
‫تحقیق میں کہا گیا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنا دماغ کو طویل مدت تک صحت مند رکھتا‬
‫ہے اور دماغ کو مختلف الجھنوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/exercise-for-depression/‬‬

‫انتباہ! موبائل فون کا استعمال انسانی ڈھانچے کیلئے انتہائی خطرناک‬


‫قرار‬

‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  30 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪107‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کنبیرا ‪ٓ :‬اسٹریلوی ماہرین نے موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال جسمانی صحت کے ساتھ‬
‫ساتھ انسانی ڈھانچے کےلیے بھی انتہائی خطرناک قرار دے دیا۔‬
‫ٓاسٹریلوی ماہرین کی جانب سے موبائل فون کے انسانی صحت اور ڈھانچے سے متعلق‬
‫تحقیق نے لوگوں کو دنگ کردیا ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل فون کے زیادہ استعمال‬
‫سے صحت تو متاثر ہوتی ہے لیکن کھوپڑی کا پچھال نچال حصّہ شدید متاثر ہوتا ہے کیوں‬
‫کہ مسلسل گردن جھکائے جھکائے مذکورہ حصے کی ہڈی پر باریک سینگ نما ابھار بن‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کھوپڑی کے پچھلے نچلے حصے کی ہڈی (اس ہڈی کو کسی پیٹل) میں سینگ نما‬
‫ابھار کو ’اینالرجڈ ایکسٹرنل اوکسی پیٹل پروٹبرینس‘ یا مختصر الفاظ میں ای ای او پی‬
‫کہتے ہیں۔‬
‫اس سلسلے میں ٓاسٹریلوی ماہرین نے ‪ 18‬سے ‪ 86‬سال کے ایسے ‪ 1200‬مرد و خواتین کا‬
‫جائزہ لیا جو موبائل کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں اور ان کی ‪ 33‬فیصد تعداد کی‬
‫کھوپڑی میں ہڈی کا غیرمعمولی ابھار بنتے ہوئے دیکھا ہے۔‬
‫اس سے قبل کینیڈا میں بھی اسی طرز کا ایک سروے کیا گیا تھا جس میں ‪ 68‬فیصد طلبہ‬
‫کی گردن اور سر میں شدید تکلیف کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔‬
‫ٓاسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ابھی موبائل فون کا استعمال نہیں روکا گیا یا کم نہیں‬
‫حتی کہ معذوری تک کا خطرہ ہے۔‬ ‫کیا گیا تو متاثرہ افراد میں مزید پیچیدگیاں بڑھنے اور ٰ‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/warning-the-use-of-mobile-phones-is-‬‬
‫‪considered-extremely-dangerous-to-the-human-body/‬‬

‫کورونا کی نئی اقسام کے حوالے سے خوفناک انکشاف‬


‫‪SHAPE \* MERGEFORMAT‬‬ ‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  30 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪108‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکی ماہرین نے حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کرونا کی نئی اقسام ویکسین یا‬
‫قدرتی طریقے سے جسم میں بننے‪ J‬والے مدافعتی ردعمل کو نمایاں طور پر کم کردیتی‬
‫ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے‪ ،‬ماہرین‬ ‫امریکی اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی طبی تحقیق میں یہ‬
‫نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ویکسنیشن کرانے والے یا کووڈ کو شکست دینے والے افراد‬
‫کے خون کے نمونوں پر کورونا وائرس کی ‪ 2‬بہت زیادہ متحرک اقسام کی آزمائش کی‬
‫گئی ہے۔‬
‫تحقیق سے پتہ چال ہے کہ کورونا کی قسم ایلفا اور بیٹا کے سامنے فائزر کی ویکسین‬
‫استعمال کرنے یا ماضی میں بیماری سے متاثر ہونے والے ‪ 100‬کے قریب افراد کے خون‬
‫کے نمونوں میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح گھٹ گئی اور بیٹا قسم کے‬
‫باعث اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے مقابلے میں ‪ 9‬گنا کمی دیکھنے میں ٓائی۔‬
‫نتائج سے پتہ چال ہے کہ نئی اقسام کے خالف وائرس سے ملنے والے تحفظ کی شرح میں‬
‫کمی آتی ہے خاص طور پر ‪ 50‬سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں اینٹی باڈیز کی‬
‫سطح گھٹ جاتی ہے جو تشویشناک بات ہے لہذا ضروری ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی‬
‫وائرس سے بچاؤ کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔‬
‫محققین نے کہا کہ امریکی کمپنی فائزر کی تیار کردہ ویکسین وائرس کی نئی اقسام کے‬
‫خالف تحفظ فراہم کرنے میں مؤثر ثابت ہورہی ہے لیکن مستقبل میں ویکسین کی بوسٹر‬
‫ڈوز لگوانے کی ضرورت پیش ٓائے گی اور احتیاطی تدابیر پر عمل درٓامد مستقل کرنا پڑے‬
‫گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/terrible-discovery-of-new-species-of-corona/‬‬

‫تحقیقات | ‪109‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جنوبی افریقہ میں تشویشناک میوٹیشنز والی کورونا کی نئی قسم دریافت‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪30 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس‬
‫میں متعدد تشیشناک میوٹیشنز موجود ہیں۔‬
‫سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق سی ‪ 1.2‬نامی اس نئی قسم کو‬
‫سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقہ کے ‪ 2‬صوبوں ماپوماالنگا اور خاؤٹنگ میں دریافت‬
‫کیا گیا تھا۔‬

‫کورونا کی یہ قسم اب تک افریقہ‪ ،‬اوشیانا‪ ،‬ایشیا اور یورپ کے ‪ 7‬دیگر ممالک میں بھی‬
‫دریافت کی جاچکی ہے۔‬
‫سائنسدانوں نے بتایا کہ کورونا کی اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز زیادہ تیزی سے‬
‫پھیلنے اور اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت جیسی صالحیتوں سے منسلک ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ یہ نئی قسم تشویشناک میوٹیشنز کے مجموعے پر مبنی‬
‫ہے۔‬
‫کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث اس کی قسم ڈیلٹا نمودار ہوئی جسے سب‬
‫سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا‪ ،‬جو اب دنیا بھر میں باالدست قسم بنتی جارہی‬
‫ہے۔‬
‫عام طور پر وائرس کی نئی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز کے مدنظر عالمی ادارہ صحت‬
‫کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪110‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر وہ زیادہ متعدی یا بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث ثابت ہو تو انہیں تشویشناک اقسام‬
‫میں شامل کردیا جاتا ہے۔‬
‫سی ‪ 1.2‬جنوبی افریقہ میں ‪ 2020‬کی وسط میں کورونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی‬
‫قسم سی ‪ 1‬میں تبدیلیوں سے ابھری ہے۔‬
‫کوازولو نیٹل ریسرچ انوویشن اینڈ سیکونسنگ پلیٹ فارم اور نیشنل انسٹیٹوٹ فار‬
‫کمیونیکیبل ڈیزیز کی مشترکہ تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں بتایا گیا۔‬
‫خیال رہے کہ اس سے قبل جنوبی افریقہ میں ‪ 2020‬کے آخر میں بیٹا ورژن کو بھی‬
‫دریافت کیا گیا تھا۔‬
‫کورونا کی اس قسم کے باعث جنوبی افریقہ میں وبا کی دوسری لہر کے دوران کووڈ کے‬
‫سنگین کیسز کی تعداد پہلی لہر کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی۔‬
‫قطر میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کورونا کی قسم بیٹا سے‬
‫متاثر ہوتے ہیں‪ ،‬ان میں ایلفا سے بیمار افراد کے مقابلے میں بیماری کی شدت زیادہ سنگین‬
‫ہونے امکان ‪ 25‬فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق بیٹا کے مریضوں کے لیے آئی سی یو نگہداشت کا امکان ‪ 50‬فیصد اور‬
‫موت کا خطرہ ‪ 57‬فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ بیٹا ویکسینز اور بیماری سے پیدا‬
‫ہونے والی مدافعت کے خالف دیگر اقسام بشمول ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت کرتی‬
‫ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167326/‬‬

‫ہری مرچ میں کھانے بنانے کے طبی فوائد‬


‫اگست ‪31 2021 ،‬‬
‫بر صغیر خصوصا ً پاکستان‪ ،‬بھارت اور بنگلہ دیش میں کھانوں میں مرچ مسالے اور جڑی‬
‫بوٹیوں کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬طبی طور پر یہ قدرتی مسالےصحت بخش بھی‬

‫تحقیقات | ‪111‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہیں‪ ،‬انہی مسالوں میں ہرے مسالے میں شمار کی جانے والی ہری مرچ کے استعمال سے‬
‫صحت پر بے شمار فوائد طبی حاصل ہوتے ہیں جن سے متعلق جاننا اور ہری مرچ کا‬
‫استعمال کرنا الزمی ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق ہری مرچ صحت کے لیے بہترین اور اینٹی ٓاکسیڈنٹ‬
‫خصوصیات کی حامل ہے‪ ،‬غذائیت سے بھر پور ہری مرچ میں مالٹے کے مقابلے میں ‪6‬‬
‫گنا زیادہ وٹامن سی پایا جاتا ہے‪ ،‬اس کے عالوہ وٹامن اے‪ ،‬بی ‪ ،2‬بی ‪ ،6‬نیاسن اور فولک‬
‫ایسڈ بھی بھرپور مقدار میں ہری مرچ میں موجود ہے جو کہ انسانی جسم کے لیے ناگزیر‬
‫بنیادی اجزا ہیں۔‬
‫ہری مرچ میں کیپسیسن کیمیکل کمپأونڈ کی بھر پور مقدار پائی جاتی ہے جس کے سبب‬
‫اس کا ذائقہ ترش محسوس ہوتا ہے‪ ،‬ماہر غذائیت کا کہنا ہے کہ صحت مند اور وزن میں‬
‫کمی النے کے لیے ہری مرچ کو اپنی روزانہ کی غذا کا حصہ بنالیں‪ ،‬اسے تل کر یا سالد‬
‫کے طور پر کئی طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ہری مرچ کے استعمال سے حیران کن طبی فوائد جنہیں جاننے کے بعد ٓاپ بھی ہری مرچ‬
‫‪ :‬کھانے پر مجبور ہو جائیں گے‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق ڈائٹری فائبر سے بھرپور ہری مرچ نظام ہاضمہ کو بہتر بناتی‬
‫ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن سی‪ ،‬ای او ر اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزاء کی موجودگی کے‬
‫باعث ہری مرچ کے استعمال سے جلد صاف شفاف چمکدار ہو جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪112‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہری مرچ میں پانی کی زائد مقدار اور زیرو کیلوری پائے جانے کے سبب وزن کم ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫ہری مرچ میں بیٹا کیروٹن پائے جانے کے سبب اس کے استعمال سے دل کی صحت اچھی‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬روزانہ کی بنیاد پر اس کے استعمال سے کولیسٹرول لیول اور انسولین کی مقدار‬
‫بھی قدرتی طور پر متوازن رہتی ہے ۔‬
‫ہری مرچوں کا استعمال قوت مدافعت اور برداشت کو بڑ ھاتا ہے ۔‬
‫ہری مرچ ٓائرن سے بھرپور ہے اسی لیے ٓائرن کی کمی کے شکار لوگوں کے لیے‪  ‬یہ‬
‫بہترین مسالہ ہے۔‬
‫کی موجودگی کے باعث ٓاسٹیوپروسیس میں ٓارام اور خون کو گاڑھا ‪ K‬اس میں وٹامن‬
‫ہونے میں مدد ملتی ہے جس کے باعث چوٹ لگنے کی صورت میں زیادہ خون بہہ جانے‬
‫سے بچت ممکن ہوتی ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/978052‬‬

‫تحقیقات | ‪113‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۳۰ | ۱۴۰‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۵‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like