Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 35) 30 August 2021-05 August 2021 - Issue 140 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 35) 30 August 2021-05 August 2021 - Issue 140 - Vol 5
ویکلیہفتہ
Managing Editor
Mujahid Ali
+ 92 0333 4576072
ٰ
عظمی ہے!قدرکیجئے صحت نعمت
تفصیل
تحقیقات | 2 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
www.alqalam786.blogspot.com
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لیمن گراس کے استعمال سے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے؟
طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کی جانے والی صحت کے لیے مفید جڑی بوٹی ’لیمن گراس‘
کو دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ،اس کے استعمال سے مجموعی صحت پر بے شمار
طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جن سے متعلق جاننا اور لیمن گراس کو اپنی روزمرہ کی روٹین میں
شامل کرنا بے حد ضروری ہے۔
لیمن گراس کی افزائش کا مقام برصغیر پاک و ہند ہے ،اس جنگلی جڑی بوٹی سے لیموں جیسی
خوشبو ٓاتی ہے ،لیمن گراس کو عام طور پر کشمیری چائے ،قہوے ،مرغی ،مچھلی اور سبزیوں
سے بنے سوپ اور شوربے والے پکوان میں استعمال کیا جاتا ہے ،لیمن گراس بے شمار
بیماریوں سے نجات کا سبب بنتی ہے اسی لیے اسے دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔
ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق کھانسی اور ناک کی بندش کے عالج میں لیمن گراس کا قہوہ
فوری اور دائمی ٓارام کا سبب بنتا ہے ،لیمن گراس میں کینسر کے خلیات کو ختم کرنے کی
صالحیت موجود ہے اسی لیے اسے مختلف کینسر کے عالج میں بھی مفید پایا گیا ہے۔
لیمن گراس کا استعمال کیسے کیا جائے؟
لیمن گراس کا قہوہ اکثر گھروں میں عام ہے جبکہ کچھ افراد لیمن گراس کی افادیت اور اس کی
موجودگی دونوں سے ہی العلم نظر ٓا تے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سلم اور اسمارٹ نظر ٓانے ،صاف شفاف ِجلد کے حصول کے لیے لیمن گراس
کا قہوہ بے حد مفید ہے۔
مونگ پھلی کو بیشتر لوگ سرد موسم میں رات کے وقت کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں ،اس کے
کھانے سے آپ کو صحت کے حیرت انگیز فوائد بھی ملتےہیں۔
مونگ پھلی کئی غذائی اجزاء سے لدی ہوتی ہے ،مٹھی بھر مونگ پھلی کا استعمال آپ کو ایک
ساتھ کئی غذائی اجزاء دیتا ہے لہٰ ذا ماہرین کہتے ہیں کہ اچھے ذائقے سے لطف اندوز ہونے اور
حیرت انگیز فوائد حاصل کرنے کے لیے مونگ پھلی کو الزمی اپنی خوراک میں شامل کریں۔
:مونگ پھلی کے فوائد
مونگ پھلی کئی ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے۔ یہ آپ کو پروٹین ،اومیگا ،3
اومیگا ،6فائبر ،تانبا ،فولیٹ ،وٹامن ای ،تھامین ،فاسفورس اور میگنیشیم پیش کر سکتی ہے۔ یہ
آپ کو ایک ساتھ کئی غذائی اجزاء مہیا کر سکتی ہے۔
https://jang.com.pk/news/980304
ٹماٹر کھانے میں ناصرف ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ صحت کے لیے
بھی مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس میں وٹامن اور منرلز کی بھرپور مقدار پائی جاتی ہے جس
میں وٹامن اے ،سیٓ ،ائرن اور نمکیات کی بھرپور مقدار سرفہرست ہے ،اسی لیے اس کے
استعمال سے صحت پر بے شمار طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
ٹماٹر ایسی غذا ہے جسے سالد کے طور پر کچا اور ہر سالن میں استعمال کیا جاتا ہے ،
اس سے بننے والی چٹنیاں نہایت شوق سے کھائی جاتی ہیں ،اس کی تاثیر ٹھنڈی اور اس
کے استعمال سے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے ،خون پتال ہوتا ہے اور خون میں موجود
الل خلیوں کی افزائش ہوتی ہے ،خون کی کمی کی شکایت بھی دور ہوتی ہے۔
ٹماٹر ایک ایسی غذا ہے جس کا استعمال غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے،
کہا جاتا ہے کہ خالص ٹماٹروں سے بننے واال کیچ اپ بچوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا
ہے اسی لیے بچوں کو اس کا باقاعدگی سے استعمال کروایا جا سکتا ہے۔
:ٹماٹر کے استعمال سے صحت پر ٓانے والے دیگر مثبت اثرات مندرجہ ذیل ہیں
غذائی ماہرین کے مطابق ٹماٹر خواتین کی صحت کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں،
ٹماٹر تولیدی صحت کے لیے بہترین غذا ہے ،لہٰ ذا خواتین کو تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ
ٹماٹر کا روزانہ کی بنیاد پر استعمال کریں
01/09/2021
جنیوا(نیوز ڈیسک ) ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ کورونا کی ایک نئی قسم ’’مو‘‘پر šویکسین
بھی موثر نہیں ،سمجھنے کیلئے مزید تحقیق کرنا ہوگی۔عالمی میڈیا کی رپورٹ
نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہےکہ ’’مو‘‘ ویریئنٹ میں ہونے
والی جنیاتی تبدیلیوں کے خالف ویکسین کے مٔوثر نہ ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ تاہم
عالمی ادارہ صحت نے زور دیا ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کو سمجھنے کے لیے مزید
تحقیق کی ضرورت ہے۔ مو وائرس کی عالمی سطح پر موجودگی کی شرح 0.1فیصد سے
کم ہے جبکہ کولمبیا میں 39فیصد ہے۔ مو وائرس کی کولمبیا میں شناخت کے بعد یورپ
اور دیگر جنوبی امریکی ممالک میں بھی اس کے کیسز سامنے ٓائے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے
مطابق مو وائرس میں مدافعتی عمل کو نظر انداز کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یاد
رہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ نے ان افراد کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جنہوں نے ویکسین نہیں
لگوائی ہوئی تھی یا جن عالقوں میں وائرس سے بچأو کے حفاظتی اقدامات پر سختی سے
عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔عالمی ادارہ صحت کووڈ 19کی چار اقسام کی شناخت کر چکا ہے
جن میں سے ایلفا 193ممالک میں جبکہ ڈیلٹا وائرس 17ممالک میں موجود ہے۔ جبکہ
’’مو‘‘ šسمیت دیگر پانچ اقسام کو فی الحال مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-121426.html
ویب ڈیسک
ستمبر 1 2021
تحقیقات | 9 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اکثر لوگ بالوں کا رنگ تبدیل کرتے ہوئے بہت سی غلطیاں کرجاتے ہیں جس سے
ناصرف بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے بلکہ آپ نئے ہیئر Jکلر سے مطمئن بھی نہیں ہوتے۔
اسی ضمن میں چند ایسی غلطیاں ہیں جن کی نشان دہی کی گئی اور ساتھ مفید مشورے بھی
دیے گئے ہیں جو بالوں کو رنگتے ہوئے آپ کے کام آئیں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہیئر
کلر کے لیے تجربے اور معلومات درکار ہوتی ہیں ،اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ
کونسا کلر آپ پر جچے گا اور کس سے آپ برے لگیں گے۔
ہیئر سلون
کئی لوگ خود سے ہی بالوں کو رنگتے ہیں ،ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن اس کے لیے آپ
مفید معلومات حاصل کریں جس کے بعد تجربے کے میدان میں اتریں کیوں کہ اکثر افراد
ہیئر سلون نہ جاکر اپنی تئیں آزمائش کی کوشش کرتے ہیں جس سے بعض اوقات غلطیاں
سرزد ہوتی ہیں ،سلون میں موجود ماہرین تجربہ کار ہوتے ہیں۔
ماہرین پر اندھا اعتماد
لوگوں کو بالوں کے ماہرین پر اندھا اعتماد بھی نہیں کرنا چاہیے ،آپ اس رنگ کا انتخاب
کریں جو مناسب لگتا ہو ،ہاں البتہ ماہرین کی کلر سے متعلق رائے جاننے میں کوئی ہرج
نہیں ہے۔
گہرے رنگ کا انتخاب
ماہرین کا ماننا ہے کہ زیادہ گہرے رنگ چہرے کی رنگت کو ماند کردیتے ہیں ،لہذا ایسے
کلر کو چنے جو آپ کے چہرے کے رنگ سے ہلکا ہو ،اور آئی برو کا بھی خیال رکھیں،
ایسا کلر نہ لگائیں یا لگوائیں جو آئی برو سے زیادہ گہرے ہوں۔
مستقل رنگ اپنانا
بالوں پر مستقل کے لیے ایک ہی رنگ لگوانے سے قبل عارضی کلروں کا مشاہدہ کرلیں،
بعض اوقات مستقل بنیاد پر ہونے والے رنگ وہ نتائج نہیں دیتے جن کی توقع کی جارہی
ہوتی ہے۔
مہندی کا سہارا
بالوں کے ماہرین کے مطابق مہندی کو قدرتی اجزا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو بالوں
کا رنگ بدلنے میں مدد کرتا ہے لیکن اس فیلڈ میں تجربے کی کمی کی صورت میں اس کا
اطالق پیچیدہ ہے اور اس کی درخواست میں آسانی کی وجہ سے اسے نیم مستقل رنگنے
کے ساتھ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
بالوں کی حالت کا خیال
ہیئر کو کلر کرنے سے قبل اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ کے بال مضبوط اور
مستحکم ہونے چاہئیں
https://urdu.arynews.tv/avoid-these-mistakes-when-dyeing-your-hair/
ریحان عابدی
ستمبر 1 2021
کینسر جیسے موذی مرض سے بچاؤ کیلئے ماہرین نے بیکنگ سوڈا سے نیا طریقہ عالج
دریافت کرلیا ججو سرطان کو قابو کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
طبی ماہرین جانتے ہیں کہ کینسر کی رسولیوں کا بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جہاں ٓاکسیجن
نہیں پہنچتی اور اسی وجہ سے ان مقامات کا عالج کرنا مشکل ہوتا ہے۔
تحقیقات | 13 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
خلیے کو جب مناسب ٓاکسیجن نہیں ملتی تو وہ ایک خاص حالت میں چال جاتا ہے جسے
کوشنٹ اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔
اس موقع پر ایم ٹی او ٓار سی ون نامی ایک مالیکیولر سوئچ خلیے کی صورتحال کا جائزہ
لے کر بتاتا ہے کہ خلیے کو تقسیم ہونا ہے یا نہیں۔ اگر ایم ٹی او ٓار سی 1موجود نہ ہو تو
خلیہ کا اندرونی کام ٹھپ ہوجاتا ہے اور سرطانی رسولی کے اندر اس مالیکیول کی
سرگرمی ختم ہوجاتی ہے اور بیکنگ سوڈا سرگرمی کو دوبارہ سے شروع کرتا ہے۔
یونیورسٹی ٓاف پنسلوانیا کی تحقیق میں ماہرین نے میٹھے سوڈے سے کینسر کا عالج
دریافت کیا ہے جس کی مدد سے کینسر کا عالج ممکن ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بیکنگ سوڈے میں ٓاٹو امیون امراض سے مقابلے کی صالحیت
موجود ہوتی ہے ،بیکنگ سوڈا کو اگر پانی میں مال کر کینسر کے مریض کو پالیا جائے تو
عالج کی نئی راہیں کھلیں گیں۔
https://urdu.arynews.tv/sweet-soda-can-be-a-useful-treatment-for-
cancer/
ویب ڈیسک
منگل 31 اگست2021
ویب ڈیسک
منگل 31 اگست2021
بیشتر ڈاکٹر ہائی بلڈ پریشر کا عالج ایک دوا سے شروع کرتے ہیں اور اسکی تاثیر کم
ہونے پر دوسری دوا بھی تجویز کردیتے ہیں۔
سڈنیٓ :اسٹریلوی Jطبّی ماہرین نے تقریبا ً چار سال تک جاری رہنے والی ایک تحقیق سے
دریافت کیا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو زیادہ مقدار میں ایک دوا کے بجائے
چار دواؤں کی تھوڑی تھوڑی مقدار ایک ساتھ دی جائے تو انہیں زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔
ن
یو ساؤتھ ویلز کی یونیورسٹی ٓاف سڈنی میں یہ طبّی ٓازمائشیں ہائی بلڈ پریشر کے 591
مریضوں پر ساڑھے تین سال تک جاری رہیں جبکہ ان میں شریک رضاکاروں کی عمر
18سال سے زیادہ تھی۔
تحقیق کی غرض سے بلڈ پریشر کی چار مختلف دواؤں (اربیسارٹن ،ایملوڈیپائن ،انڈاپامائیڈ
اور بائیسوپرولول) کی بہت کم مقدار (الٹرا لو ڈوز) کیپسول میں ایک ساتھ بند کی گئی۔
تفصیلی اور محتاط مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ مذکورہ چار دوائیں (بہت کم مقدار میں)
ایک ساتھ لینے والے 80فیصد مریضوں میں 12ہفتے بعد ہائی بلڈ پریشر بخوبی کنٹرول
ہوگیا جبکہ وہ دوسرے مریض جو ایک وقت میں کوئی ایک یا دو دوائیں قدرے زیادہ مقدار
میں استعمال کررہے تھے ،ان میں اسی وقفے کے دوران بلڈ پریشر کنٹرول ہونے کی شرح
60فیصد کے لگ بھگ رہی۔
طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 20فیصد کا فرق بھی بہت اہم ہے کیونکہ ٓاج تک بلڈ پریشر
ت عملی بھی ایسی نہیں کنٹرول کرنے میں دواؤں کے استعمال سے متعلق کوئی ایک حکم ِ
جسے ہر ایک کےلیے یکساں طور پر مؤثر قرار دیا جاسکے۔
مریض میں ہائی بلڈ پریشر کی عالمات سامنے ٓانے پر بیشتر ڈاکٹر صاحبان پہلے ایک دوا
سے شروع کرتے ہیں اور جب اس دوا کی تاثیر کم ہونے لگتی ہے تو اس کے ساتھ کوئی
دوسری دوا بھی تجویز کردیتے ہیں۔
تاہم اس دوران اکثر خاصا وقت گزر چکا ہوتا ہے لہذا دونوں دوائیں مل کر بھی اچھے نتائج
نہیں دے پاتیں۔
ویب ڈیسک
بدھ 1 ستمبر2021
درمیانے اور شدید درجے کی جسمانی ورزش کرنے سے مسلسل بیٹھے رہنے کے
نقصانات کم کئے جاسکتے ہیں۔
ض قلب اور دیگرٓاسٹریلیا :ہم جانتے ہیں کہ مسلسل بیٹھے رہنے سے بلڈ پریشر ،امرا ِ
اقسام کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگرٓاپ مسلسل دس منٹ تک بیٹھے رہتے
ہیں تو اس کےمنفی اثرات زائل کرنے کے لیے ضروری Jہے کہ روز 40منٹ کی سخت یا
درمیانے درجے کی ورزش کی جائے۔ ایسی ورزش جس میں پسینہ Jبہنے لگے یا بدن گرم
ضرور ہو۔
اگرٓاپ کسی دکان پر کھڑے رہ کر اشیا فروخت کرتے ہیں تو اس کا نقصان کم ہوتا ہے
لیکن ورزش پھربھی ضروری ہوگی۔ اس ضمن میں 9سے زائد مطالعات کئے گئے ہیں
جس میں چار مختلف ممالک کے 44ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ درمیانی اور شدید درجے کی جسمانی مشقت ،جس کا ذکر ہم
ٓاگے کریں گے ،سے فالتو بیٹھے رہنے کے منفی اثرات زائل ہوسکتے ہیں۔ اس میں 30
سے 40منٹ کی درمیانے درجے کی جسمانی سرگرمی مثالً تیز قدموں سے چلنا ،سائیکل
چالنا اور باغبانی شامل ہیں۔
یہ تحقیق جامعہ سڈنی میں جسمانی مشقت اور ورزش کے ماہر ڈاکٹر عمانویل اسٹیماٹاکس
اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے ٓاپ کی نقل و حرکت
کم ہوتی ہے اور مسلسل بیٹھنا پڑتا ہے تو اب بھی اس کا ازالہ ممکن ہے۔ ’ہماری شائع شدہ
‘تحقیق سے ثابت ہے کہ جسمانی ورزش اور مشقت سے بہتر کوئی اور دوا نہیں ہے۔
اس ضمن میں ہزاروں رضاکاروں کو فٹنس ناپنے کے دستی ٓاالت اور گھڑیاں وغیرہ
پہنائی گئیں۔ کسی مطالعے میں ان سے گھر کے کام کروائے گئے ،کسی سے لفٹ کی
بجائے سیڑھیاں چڑھنے کو کہا گیا اور کہیں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ دیا گیا۔ یہ
کام ایسے لوگوں کے لیے تھے جو باقاعدہ ورزش کے لئے وقت نہیں دے سکتے تھے۔ تاہم
دوسرے گروہ کے لوگوں نے سخت ورزش مثالً دوڑنے ،تیراکی اور سائیکل چالنے کو
اہمیت دی۔
ویب ڈیسک
ستمبر 01 2021
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جوالئی 2021میں امریکی ریاست فلوریڈا میں جہاں کووڈ
کیسز کی شرح ڈیلٹا کے باعث بہت زیادہ بڑھ گئی تھی ،وہاں بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ
فائزر ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین استعمال کرنے والوں
میں 60فیصد کم تھا۔
اسی طرح گزشتہ ماہ ایک اور امریکی ریاست مینیسوٹا میں دریافت کیا گیا تھا کہ موڈرنا
ویکسین کورونا کی قسم ڈیلٹا سے ہونے والی بیماری سے بچانے کے لیے 76فیصد تک
مؤثر ہے مگر فائزر ویکسین کی افادیت اس قسم کے خالف 42فیصد تھی۔
محققین نے بتایا کہ مختلف امریکی ریاستوں میں موڈرنا اور فائزر کی مکمل ویکسینیشن
کرانے والے افراد میں کووڈ کیسز کی شرح کے موازنے معلوم ہوتا ہے کہ موڈرنا ویکسین
سے بریک تھرو انفیکشن کا خطرہ فائزر ویکسین کے مقابلے میں دوتہائی حد تک کم ہوتا
ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167407/
برطانوی کمپنی گلیکسو اسمتھ کالئن (جی ایس کے) اور کورین کمپنی ایس کے بائیو
سائنسز کی جانب سے تجرباتی کووڈ ویکسین کی آزمائش ایسٹرازینیکا ویکسین سے کی
جائے گی۔اس تجرباتی کووڈ ویکسین کے آخری مرحلے کے ٹرائل میں اس کی افادیت کا
موازنہ ایسٹرازینیکا šویکسین سے کیا جائے گا۔
یہ دنیا میں کسی کووڈ شاٹ کا پہال تیسرے مرحلے کا ٹرائل ہوگا جس میں 2مختلف کووڈ
ویکسینز کا موازنہ کیا جائے گا۔
جے ایس کے اور ایس کے بائیو سائنسز کی تیار کردہ ویکسین کے ابتدائی ٹرائلز میں اسے
محفوظ اور بہت زیادہ مؤثر دریافت کیا گیا تھا۔اس تجرباتی ویکسین کو تیار کرنے کا مقصد
کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے کم قیمت ویکسین تیار کرنا ہے جسے کوویکس šپروگرام کے
تحت تقسیم کیا جائے گا۔
کمپنیوں کو توقع ہے کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے مکمل ہونے پر اگلے سال کی پہلی
ششماہی کے دوران وہ ریگولیٹرز سے ویکسین کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب
ہوجائیں گی۔
کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ٹرائل کے آخری مرحلے میں اپنی ویکسین کی
افادیت کا موازنہ ایسٹرازینیکا ویکسین سے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔
کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں وائرل لوڈ šکی زیادہ مقدار موت کا
خطرہ بڑھائے
ویب ڈیسک
اگست 31 2021
جسمانی مدافعتی ردعمل کی شدت بہت زیادہ بڑھ جانا کووڈ سے ہالکت کا خطرہ بڑھانے
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19کے باعث ہالک ہوجاتے ہیں ان کے زیریں
نظام تنفس میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ کی مقدار دیگر سے 10گنا زیادہ ہوتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے وائرس کی
تعداد پر جسم کی ناکامی اس وبا کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہے۔
اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے پر مدافعتی نظام جسم کے
صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جان لیوا ورم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
مگر اس تحقیق میں اس حوالے سے کوئی شواہد دریافت نہیں ہوسکے بلکہ محققین نے
دریافت کیا کہ مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں سیکنڈری انفیکشنز ،وائرل لوڈ اور مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال
کی گئی تھی۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے کورونا وائرس کے مریضوں کے زیریں نظام تنفس کے
ماحول کا اب تک کا سب سے تفصیلی سروے فراہم کیا گیا ہے۔
تحقیق میں نیویارک یونیورسٹی لینگون کے زیرتحت کام کرنے والے طبی مراکز میں
زیرعالج رہنے والے 589کووڈ کے مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔
ان سب مریضوں کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی جبکہ 142
مریضوں کے سانس کی گزرگاہ کلیئر کرنے کا برونکواسکوپی šبھی ہوئی تھی۔محققین نے
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ناک کے بال زیادہ بڑھ جائیں اور ناک سے باہر نظر آنے لگیں تو
انتہائی بھدے دکھائی دیتے ہیں چنانچہ انہیں اس حد تک نہ بڑھنے دینا ہی بہتر ہوتا ہے تاہم
کچھ لوگ ناک کے بالوں کو یکسر نوچ کر ختم کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی ایک
برطانوی ڈاکٹر نے متنبہ کر دیا ہے کہ یہ عمل بھی ان کی صحت کے لیے سنگین نقصان
کا حامل ہو سکتا ہے۔ دی سن کے مطابق ڈاکٹر کرن راج نے اپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ پر
ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ ہماری ناک کے بال درحقیقت ایک فلٹر کا کام کرتے ہیں
چنانچہ انہیں یکسر ختم کر دینا بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر راج نے بتایا ہے کہ ”ہمارے ناک میں دو طرح کے بال پائے جاتے ہیں۔ ایک
مائیکروسکوپک سیلیا ہوتے ہیں۔ یہ لعاب دار مادے کو فلٹر کرتے اور سے گلے کی پچھلی
جانب بھیجتے ہیں جو باآلخر معدے میں پہنچ جاتا ہے۔ دوسری قسم کے بال وائبریسا
کہالتے ہیں۔ یہ بڑے بال ہوتے ہیں جو ہمیں باہر سے نظر آتے ہیں اور جنہیں ہم اکھاڑتے
ہیں۔ یہ بال بڑے اجزاءکو ناک کے اندرونی حصے میں جانے سے روکتے ہیں۔اگر آپ
ویب ڈیسک
ستمبر 2 2021 J
ہکالنے پر قابو پانا ممکن ہے! بچوں میں ہکالپن 2سے 4سال کی عمر کے درمیان پایا
جاتا ہے ،ہکالہٹ کے شکار بچوں پر تنقید نہ کریں بلکہ ان کا عالج کروائیں۔
دنیا بھر میں اس وقت 7کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکالہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں
لکنت ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہکالہٹ کی پریشانی انسانوں کو کیوں ہوتی
ہے اور اس پریشانی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے؟
اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسپیچ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر
سید سیف ہللا کاظمی نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا اور اس کے عالج
سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔
سانپ کے زہر اور کورونا کی روک تھام سے متعلق حیران ُکن تحقیق
ویب ڈیسک
خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برازیل کے محققین نے پایا ہے کہ ایک قسم کے
سانپ کے زہر میں موجود مالیکیول نے بندروں کے خلیوں میں کورونا وائرس کی افزائش
کو روکا ہے ،یہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ایک ممکنہ پہال قدم ہے۔
سائنسی جریدے مالیکیولز šمیں شائع تحقیق کے مطابق وائپر سانپ کے زہر میں پایا جانے
واال مالیکیول تجرباتی بنیاد پر بندروں کو لگایا گیا جس سے کورونا وائرس کے نقصان
پہنچانے کی صالحیت میں 75فیصد کمی ٓائی لیکن یہ مالیکیول انسانی جسم میں موجود
سیگر سیلز کو متاثر نہیں کرتے۔
وائپر سانپ کے زہر میں پائے جانے والے مالیکیولز پہلے ہی انسداد بیکٹریا خصوصیات
کی وجہ سے مشہور ہیں ،یہ سانپ برازیل ،ارجنٹینا ،بولیویا اور پیراگوئے میں پایا جاتا
ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وائپر سانپ میں موجود پیپٹائڈ مالیکیول کورونا کے پی ایل پرو
انزائم سے مل کر اسے ناکارہ بنادیتے ہیں۔
اسٹیٹ یونیورسٹی ٓاف ساؤ پالو (یونیسپ) کے بیان کے مطابق محققین اس کی مختلف
خوراکوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے کہ کیا یہ وائرس کو خلیوں میں داخل ہونے سے
روکنے کے قابل ہے یا نہیں اور وہ انسانی خلیوں میں مادہ کی جانچ کی امید رکھتے ہیں،
لیکن انہوں نے کوئی ٹائم الئن نہیں دی۔
https://urdu.arynews.tv/brazilian-viper-venom-may-become-tool-in-
fight-against-covid-study-shows/
ویب ڈیسک
شہر میں نکاسی ٓاب کا ناقص نظام لوگوں کی زندگی کیلئے خطرہ بنتا جارہا ہے ،کراچی
میں ٹائیفائیڈ بڑھنے لگآ ،انتوں میں زخم اور بخار کا ہونا اس کا مناسب اور صحیح
طریقے سے عالج بے حد ضروری ہے۔
ٹائیفائیڈ انتڑیوں کی بیماری ہے جو ایک خاص قسم کے بیکٹیریا کی وجہ سے الحق ہوتی
ہے ،ٹائیفائیڈ کی عالمت میں لمبے عرصے تک ہلکا بخار رہنا اور سر میں درد ہونا شامل
ہے۔
کوئی شخص ٹائیفائیڈ سے متاثر ہے یا نہیں یہ معلوم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس
شخص کے خون یا فضالت میں سالمونیال ٹائفی کی جانچ کی جائے ،ٹائیفائیڈ بخار آنتوں
کے خون اور پرفوریشن کا سبب بن سکتا ہے۔
جس کے نتیجے میں یہ پیٹ میں شدید درد ،متلی ،قے اور عفونت (سیپسس) پیدا کر سکتا
ہے ،آنتوں میں ہونے والے نقصان کی مرمت کے لئے سرجری کی ضرورت ہو سکتی
ہے۔
اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں عباسی شہید اسپتال کے
ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد عادل رمضان نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی
آگاہ کیا اور اس کے عالج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔
ویب ڈیسک
بدھ 1 ستمبر2021
’میو ویریئنٹ‘ کے خالف موجودہ کورونا ویکسینز ناکارہ ہونے کا خدشہ ضرور ہے لیکن
اب تک ایسا نہیں ہوا ہے
جنیوا :عالمی ادارہ صحت ( )WHOنے گزشتہ روز کورونا وائرس کی ’قاب ِل توجہ‘ اقسام
میں ایک نئے ’میو ویریئنٹ‘ ( )Mu variantکا اضافہ کردیا ہے جسے B.1.621کا
سائنسی نام دیا گیا ہے۔ البتہ مبہم خبروں کی وجہ سے اس بارے میں تشویش Jپھیل رہی
ہے۔
کووڈ 19وبا کا باعث بننے والے ناول کورونا وائرس (سارس کوو )2کی اب حالیہ عالمی ِ
تک درجنوں اقسام (ویریئنٹس) šسامنے ٓاچکی ہیں۔
تاہم ان میں سے چار ویریئنٹس (الفا ،بی-ٹا ،گیما ،ڈیلٹا) کو زیادہ وبائی پھیالؤ کی بناء پر
’قابل تشویش اقسام‘ ( )variants of concernقراد دیا ہے۔ ان میں ِ عالمی ادارہ صحت نے
سے بھی اس وقت ’ڈیلٹا ویریئنٹ‘ دنیا بھر کے بیشتر ملکوں میں سب سے زیادہ لوگوں کو
متاثر کررہا ہے۔
ان کے عالوہ ’سارس کوو ‘2وائرس کی بعض اقسام ایسی بھی سامنے ٓائی ہیں جو فی
الحال قاب ِل تشویش تو نہیں مگر اِن کی ساخت اور وبائی پھیالؤ کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے
کہ ٓانے والے دنوں اور مہینوں میں وہ سنجیدہ صورت اختیار کرسکتی ہیں۔
اسی لیے اِن ویریئنٹس پر زیادہ توجہ رکھنا ضروری خیال کیا جارہا ہے ،لہذا انہیں ’قاب ِل
توجہ اقسام‘ ( )variants of interestکا مجموعی عنوان دیا گیا ہے۔
’میو ویریئنٹ‘ پہلے پہل جنوری 2021میں جنوبی امریکی ملک کولمبیا سے سامنے ٓایا
تھا جو بعد ازاں دیگر جنوبی امریکی اور یورپی ممالک سے بھی رپورٹ ہوا۔
29اگست 2021تک ’میو ویریئنٹ‘ سے 39ملکوں میں مصدقہ متاثرین کی تعداد 4650
ہوچکی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ جنوری سے اگست تک اس سے متاثر ہونے والوں کی
شرح بتدریج کم ہوتی چلی گئی جو ٓاج 0.1فیصد ہوچکی ہے۔
تاہم ٓاج اس کا زیادہ پھیالؤ جنوبی امریکا کے صرف دو ملکوں یعنی کولمبیا ( 39فیصد)
اور ایکواڈور 13( šفیصد) تک محدود رہ گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی اپ ڈیٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’میو ویریئنٹ‘ میں کچھ ایسی تبدیلیاں
(میوٹیشنز) دیکھی گئی ہیں جو ممکنہ طور پر اسے موجودہ ویکسینز یا انسانی جسم کے
دفاعی ر ِدعمل سے بچانے میں مدد دے سکتی ہیں۔
ٓاسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’میو ویریئنٹ‘ کے خالف موجودہ کورونا ویکسینز
کے ناکارہ ہونے کا خدشہ ضرور ہے لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔
اس حوالے سے ابتدائی نوعیت کی کچھ رپورٹیں سامنے ٓائی ہیں مگر ابھی ان کی تصدیق
ہونا باقی ہے۔
یعنی یہ کہ ’میو ویریئنٹ‘ سے محتاط رہیے ،گھبرائیے نہیں!
https://www.express.pk/story/2219841/9812/
ویب ڈیسک
جمعرات 2 ستمبر2021
خردبینی موتی جیسے دانے بھرے ہائیڈروجل سے ٓاکسیجن خارج کرکے زخموں اور
ناسور کو مندمل کرنے میں غیرمعمولی کامیابی ملی ہے۔
سینٹ لوئی :بعض زخم ایسے ہوتے ہیں جو روگ بن جاتے ہیں اور ٹھیک نہیں ہوتے
جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کے اکثر زخم بہت دیر میں مندمل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے
اب ایک انقالبی ہائیڈروجل بنایا گیا ہے جو زخم پرٓاکسیجن شامل کرکے انہیں تیزی Jسے
ٹھیک کرسکتا ہے۔اگرچہ ٓاکسیجن تھراپی سے زخموں کا عالج پہلے سے ہی ہورہا ہے
لیکن اب پانی سے بھرے پھائے میں خردبینی موتی شامل کئے گئے ہیں جو زخم پربرا ِہ
راست ٓاکسیجن ڈالتے ہیں۔ ٓاکسیجن سے زخم تیزی سے مندمل ہوتا ہے اور ناسور بھی
درست ہوجاتے ہیں۔
سینٹ لوئی میں واقع میسوری واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بنیادی طور پر ایک
مائع تشکیل دیا اور اس میں خول والے خردبینی دانے شامل کئے جن میں اینزائم کیٹیلیز
مال ہوا تھا۔ جسے ہی اس مائع کو ایک پٹی پر رکھ کر زخم پر ڈاال جاتا ہے تو وہ جلد کی
گرمی سے لچکدار جیلی کی طرح بن جاتا ہے۔ اس کے بعد دانوں کے خول میں موجود
کیٹیلیز ہائیڈروجن پرٓاکسائیڈ سے مالپ کرتا ہے اور سالماتی ٓاکسیجن بنتی ہے۔ یہ عمل
دوہفتوں تک جاری رہتا ہے اور ٓاکسیجن سے سوجن کم ہوتی ہے اور جلد کے نئے خلیات
بنتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح اس ٹیکنالوجی پربھی چوہے تختہ مشق بنے۔ دانوں والے ہائیڈروجل
استعمال کرنے سے زخم 90فیصد تک سکڑ گیا یعنی اصل سے 10فیصد رہ گیا۔ اس کے
مقابلے میں دانوں کے بغیر جل سے زخم 70فیصد تک چھوٹا ہوا۔ جبکہ العالج زخموں
کو ایسے ہی چھوڑدیا گیا تو ان کی جسامت نصف رہ گئی۔
عالج میں ایک فائدہ اور بھی سامنے ٓایا کہ دانوں والے ہائیڈروجل نے زخموں پر جو کھال
چڑھائی وہ بہت موٹی تھی اور یہ سب کچھ صرف ٓاٹھ روز میں ہی ہوا ہے۔ توقع ہے کہ
اس سے پیچیدہ زخموں اور ذیابیطس کے اچھے نہ ہونے والے زخموں کو مندمل کرنے
میں غیرمعمولی مدد ملے گی
https://www.express.pk/story/2219969/9812/
بوڑھا ہونے سے کیسے بچا جائے؟ سائنسدانوں نے کھوج لگا لی
August 31, 2021
ویب ڈیسک
دعوی کیا ہے کہ انہوں نے جسم کے مدافعتی نظام کو عمرٰ اسرائیلی سائنسدانوں نے
رسیدہ کرنے والے عمل کو روکنے اور ریورس کرنے کا طریقہ کار ڈھونڈ نکاال ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آن الئن طبی جریدے بلڈ میں شائع
ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے یہ جاننے کے لیے کہ کیوں
بوڑھے افراد نوجوانوں کے نسبت کوویڈ 19کا شکار جلدی ہو جاتے ہیں۔
ٹیکنیون اسرائیل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے بتایا کہ اس کی کھوج
لگاتے ہوئے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے جسم میں بی سیلز جنہیں بی لیمپوسائٹس بھی کہا
جاتا ہے جو کسی بھی وائرس کے خالف مدافعت کا کام کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ سیل انسان کی ہڈیوں کے گودے میں موجود ہوتا ہے جو خون
کی نالیوں سے ہوتا ہوا لمپ نوڈز اور سپلین میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ کسی وائرس کے
جسم میں داخل ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے ٓاتے ہیں حملہ کر دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جوانی کی عمر میں انسان کے سیل بھی جوان ہوتے ہیں اور ان میں
یہ صالحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے وائرس کو جلد تشخیص کر لیتے ہیں۔
مذکورہ سیلز یا خلیوں کی عمر طویل نہیں ہوتی مگر یہ بڑی مقدار میں بنتے رہتے ہیں۔ بی
سیل غائب نہیں ہوتے بلکہ میمری سیل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک بیماری جو انسان
کو پہلے الحق ہوتی ہے تو دوسری مرتبہ اس بیماری میں مبتال شخص ان سیلز کی وجہ
سے جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بوڑھے شخص میں بی سیل کی کمی کی وجہ سے بیماری الحق ہونے
کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
ستمبر 01 2021
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کی ایک اور قسم کو 'ویرینٹس آف
انٹرسٹ' میں شامل کرلیا ہے۔
یا بی 1.621کو 30اگست کو ) (Muعالمی ادارہ صحت نے کورونا کی اس نئی قسم میو
مانیٹرنگ لسٹ کا حصہ اس وقت بنایا جب یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ نئی قسم ویکسنیشن
یا بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خالف جزوی مزاحمت کرسکتی ہے۔
جنوبی امریکا سے باہر اس قسم کے کیسز برطانیہ ،یورپ ،امریکا اور ہانگ کانگ میں
رپورٹ ہوئے ہیں۔
اگرچہ عالمی سطح پر کووڈ کے مجموعی کیسز میں میو قسم کی شرح 0.1فیصد سے بھی
کم ہے مگر کولمبیا اور ایکواڈور šمیں یہ تیزی سے پھیل رہی ہے جہاں بالترتیب 39اور
13فیصد کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ متعدی
یا زیادہ خطرناک بیماری کا باعث تو نہیں بنتی۔
عالمی ادارے کے بیان میں بتایا گیا کہ جنوبی امریکا میں میو کے پھیالؤ بالخصوص ڈیلٹا
قسم کے ساتھ پھیلنے پر نظر رکھی جارہی ہے۔
ابھی تک اس نئی قسم کو ایلفا اور ڈیلٹا کی طرح سمجھا نہیں جارہا جو زیادہ تیزی سے
پھیلنے کے ساتھ کسی حد تک مدافعتی نظام پر حملہ آور بھی ہوسکتی ہیں۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے اس نئی قسم کے حوالے سے تجزیاتی رپورٹ اگست 2021میں
جاری کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ میو بھی بیٹا قسم کی طرح ویکسنیشن سے پیدا ہونے
والی مدافعت کے خالف مزاحمت کرسکتی ہے۔
مگر یہ تحقیقی کام لیبارٹری میں ہوا تو حقیقی دنیا میں اس نئی قسم کے اثرات کی جانچ
پڑتال کے لیے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وقت ایسے شواہد نہیں کہ یہ نئی قسم
ڈیلٹا کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے اور بظاہر یہ زیادہ متعدی بھی نہیں ،مگر مدافعتی ردعمل
سے بچنے کی اس کی صالحیت مستقبل میں خطرہ ہوسکتی ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167486/
ویب ڈیسک
ستمبر 01 2021
جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فیس ماسک سے عالمات والی کووڈ کی بیماری کے پھیالؤ کو
محدود کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نتائج سے اب سائنسی بحث کا خاتمہ ہوجانا چاہیے کہ فیس ماسک پہننا
آبادی کی سطح پر کووڈ کی روک تھام کے لیے مؤثر ہے یا نہیں۔
محققین نے تخمینہ الیا کہ فیس ماسک پہننے سے عالمات والی بیماری کی شرح میں 9.3
فیصد تک کمی آئی ،مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماسک محض 9.3فیصد مؤثر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درحقیقت یہ شرح کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے اگر ہر ایک فیس ماسک کو
پہننا شروع کردے۔
اعلی ترین معیار کو مدنظر رکھا گیا اور
ٰ ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے لیے طبی شعبے کے
دریافت ہوا کہ مجموعی طور پر فیس ماسک کے استعمال سے بیماری پھیلنے کا خطرہ 11
فیصد تک گھٹ گیا جبکہ 60سال سے زائد عمر کے افراد میں یہ شرح لگ بھگ 5فیصد
کے قریب تھی۔
انہوں نے بتایا کہ نتائج سے اس لیے بھی قابل ذکر ہیں کیونکہ جن دیہات کو تحقیق میں
شامل کیا گیا تھا وہاں 50فیصد سے بھی کم افراد فیس ماسک پہننے تھے ،مگر پھر بھی
اس احتیاط سے برادریوں میں بیماری کے پھیالؤ کا خطرہ گھٹ گیا۔
یہ تحقیق ان ماہرین کے پراجیکٹ کا حصہ ہے جس میں نہ صرف ماسک کی افادیت کو
دیکھا جارہا ہے بلکہ برادریوں میں فیس ماسک کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے
طریقوں پر بھی کام کیا جارہا ہے۔اس تحقیق پر کام نومبر میں شروع ہوا تھا اور اس کا
اختتام اپریل 2021میں ہوا تھا جس میں ایک الکھ 78ہزار دیہات کے افراد کو فیس ماسک
محققین کا کہنا تھا کہ ہمارے یے یہ کسی برادری میں فیس ماسک کا کم از کم اثر ہے،
ہمیں توقع ہے کہ یہ اثر بہت زیادہ ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کپڑے کے ماسک بھی علالمات کا خطرہ کم کرتے ہیں
مگر ان سے بیماری کی روک تھام کا اثر معمولی ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر
جاری کیے گئے
https://www.dawnnews.tv/news/1167502/
غذا میں ایک عام چیز کا کم استعمال فالج اور ہارٹ اٹیک سے بچائے
ویب ڈیسک
ستمبر 02 2021
بالغ افراد کو دن بھر میں ایک چائے کے چمچ نمک کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے اور
نمک کی زیادہ مقدار کا استعمال بلڈ پریشر بڑھنے ،گردوں کو نقصان پہنچنے ،فالج اور
ہارٹ اٹیک سے منسلک بڑھایا جاتا ہے۔
تحقیق میں اپریل 2014سے جنوری 2015کے دوران چین کے 600دیہات کے 21ہزار
بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کو ماضی میں فالج یا بلڈ پریشر کے مسائل کا سامنا ہوا
تھا۔
محققین نے ہر گاؤں سے زیادہ سے زیادہ 35افراد کی خدمات حاصل کی تھیں اور انہیں 2
گروپس میں تقسیم کرکے عام نمک یا متبادل نمک کا استعمال کرایا گیا۔
ایک گروپ کو مفت متبادل نمک ( 75فیصد سوڈیم کلورائیڈ اور 25فیصد پوٹاشیم کلورائیڈ
پر مبنی) فراہم کیا گیا۔
رضاکاروں کی اوسط عمر 65تک تھی اور ان میں 49.5فیصد خواتین تھیں 72.6 ،فیصد
میں فالج اور 88.4فیصد میں بلڈ پریشر کی تاریخ تھی۔
ان افراد کا ائزہ لگ بھگ پونے 5سال تک لیا گیا اور 3ہزار سے زیادہ کو فالج کا سامنا
ہوا 4 ،ہزار سے زیادہ ہالک اور 5ہزار سے زیادہ افراد کو دل کی شریانوں سے جڑے
کسی مرض کے ایونٹ کا سامنا ہوا۔
مگر محققین نے دریافت کیا کہ عام نمک کے متبادل نمک کو استعمال کرنے والے افراد
میں فالج کا خطرہ 14فیصد تک کم ہوگیا۔
امراض قلب (فالج اور ہارٹ اٹیک) کا خطرہ 13فیصد اور قبل از وقت موت کا خطرہ 12
فیصد تک کم ہوگیا۔
ہر طرح کے رنگ انسانی موڈ پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ،غذائی ماہرین کا بتانا ہے
کہ اسی طرح سبزیوں ،پھلوں ،میووں اور جڑی بوٹیوں کے رنگوں میں بھی قدرت نے راز
چھپا رکھا ہے جو کسی نہ کسی طرح انسانی جسم اور نفسیاتی صحت اور پوری شخصیت
کو متاثر کرتے ہیں۔
طبی و غذائی ماہرین کے مطاق رنگ برنگی سبزیوں کے استعمال کا بھی صحت پر مثبت
اور منفی اثر پڑتا ہے ،کورونا وائرس سے قبل ان رنگوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی
تھی۔
غذائی ماہرین کا سبزیوں اور پھلوں کے رنگوں سے متعلق کیا کہنا ہے؟
جامنی رنگ کے پھل اور سبزیاں
مختلف رنگوں کے پھل اور سبزیاں کھانے سے متعلق غذائی ماہرین کا بتانا ہے کہ نیلے،
جامنی رنگ کے پھل اور سبزیاں صحت کے لیے مفید ہیں ،ان میں بلیو بیریٓ ،الوچا اور
تحقیقات | 43 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بینگن شامل ہیں ،ان پھلوں اور سبزیوں میں یہ رنگ ’اینتھو سیاننس‘ نامی مادے کی وجہ
سے ہوتا ہے۔
ان پھلوں اور سبزیوں میں ایسے اجزا بھی پائے جاتے ہیں جو متوازن مجموعی صحت اور
یادداشت کو بہتر بناتے ہیں ،خاص طور پر جامنی رنگ کے پھلوں اور سبزیوں کے گودے
میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں ،یہ ناصرف خون کی گردش کو رواں رکھتے ہیں بلکہ
خون کے جمنے کے عمل کو بھی روکتے ہیں۔
ہرے رنگ کے پھل اور سبزیاں
ہری سبزیوں میں بروکولی ،بند گوبھی اور پالک شامل ہیں ،ان میں ’لیوٹین‘ šاور ’انڈول‘
نامی اجزا ہوتے ہیں جو ’قرنیے‘ ٓانکھ کے سفید حصے کو خراب ہونے سے بچاتے اور
موتیا سے محفوظ رکھتے ہیں۔
ہری سبزیوں میں بیٹا کیروٹین اور فولیٹ بھی پائے جاتے ہیں ،یہ ہڈیوں اور پٹھوں کو
مضبوط کرتے ہیں ،اس کے عالوہ ان میں ٓائرن اور فائبر بھی ہوتا ہےٓ ،ائرن سرخ خلیات
کی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے اور فائبر ہاضمے کے بہتر نظام میں مدد دیتا ہے۔
الل رنگ کے پھل اور سبزیاں
گالبی اور سرخ پھلوں اور سبزیوں میں چقندر ،چکوترا ،انار اور ٹماٹر شامل ہیں ،ان میں
’الئکو پین‘ اور ’اینتھو سیانن‘ نامی اجزا موجود ہوتے ہیں جو کینسر کی روک تھام کے
لیے بہت مفید سمجھے جاتے ہیں۔
سرخ رنگ کی بیریوں میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ ،پوٹاشیم اور فائبر پایا جاتا ہے ،یہ سبزیاں اور
پھل بلڈ پریشر کو معمول پرالتے ہیں ،خلیات کی تعمیر کرتے ہیں اور خراب کولیسٹرول
کی سطح کو بھی کم کردیتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق سرخ رنگ کی تمام غذائیں جسم کے لیے حفاظتی شیلڈ مہیا
کرتی ہیں جب بھی کوئی فکر ،ذہنی تنأو ،تھکان ،سستی یا بیماری محسوس ہو تو سرخ
رنگ کی غذائیں طاقت فراہم کرتی ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق سرخ رنگ کی غذا میں ٹماٹر ایک ایسا پھل ہے جسے پکا کر اس
کی تاثیر اور غذائیت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
پیلے اور نارنجی رنگ کے پھل اور سبزیاں
نارنجی ،پیلے پھل اور سبزیوں میں لیموں ،نارنجی ،پپیتا اور ٓام شامل ہیں ،ان میں ایسے
ت مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں، اجزا زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں جو مختلف امراض میں قو ِ
ان سے سانس کی نالی کے سرطان جیسے مہلک مرض سے بچأو بھی ممکن ہے،
سیگریٹ پینے والے افراد کو ان پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
اس کے عالوہ نارنجی ،پیلے پھل اور سبزیوں میں پائے جانے والے اجزاء دماغی قوت
میں اضافہ کرتے ہیں اور گھٹیا کے درد اور سوجن میں بھی کمی کرتے ہیں۔
تُرش پھلوں میں ایک بہت مفید جز زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جسے ’ہیس پیری ڈن‘
کہتے ہیں ،یہ جز قلب کے لیے بہت فائدہ مند ہے ،ان پھلوں میں اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزا پائے
جاتے ہیں جو کہ الرجی اور نزلے زکام سے بچاتے ہیں۔
تحقیقات | 44 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سفید رنگ کے پھل اور سبزیاں
سفید رنگ کی غذأوں میں چکنائی کم اور فاسفورس زیادہ ہوتا ہے ،اسی لیے سفید غذائیں
کھانے والے افراد اسمارٹ ،توانا اور چاق و چوبند رہتے ہیں۔
سفید سبزیاں جیسے مولی مختلف بیماریوں اور ان کے جراثیم سے بچاؤ ممکن بناتی ہیں،
تمام سفید غذأوں میں پروبأوٹکس پائے جاتے ہیں جو قوت مدافعت اور نظام ہاضمہ کو قوت
بخشتے ہیں
https://jang.com.pk/news/978911
روزانہ رائی دانہ کھانے سے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے؟
ستمبر03 2021 ، J
سرسوں سے حاصل ہونے والے بیج رائی کہالتے ہیں ،ان بیجوں سے جہاں سرسوں کا تیل
حاصل کیا جاتا ہے وہیں اِن کے براہ راست استعمال سے صحت پر بے شمار فوائد بھی
حاصل کیے جا سکتے ہیں ،رائی کے دانے صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔
پایا جاتا )‘ (glucosinolateغذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں جُز ’ گلوکوسینولیٹ
ہے جو کہ رائی کو منفرد ذائقہ دیتا ہے ،رائی دانے میں موجود مرکبات انسانی جسم
بالخصوص بڑی ٓانت میں سرطانی خلیوں سے بچاؤ ممکن بناتے ہیں ،رائی کے بیجوں میں
فائبر کم اور کاربوہائیڈریٹس زیادہ پائے جاتے ہیں۔
ویب ڈیسک
سہانجنہ کے خشک پتوں کا قہوہ پریشانیوں اور دباؤ میں سکون بخشتا ہے اور بھرپورJ
نیند التا ہے ،قبض کے مریضوں کےلئے ٓاب حیات ہے ،خون کی کمی کی وجہ سے چہرے
کی چھائیوں میں تیر بہ ہدف ہے ہر طرح کی کمزوری کا واحد عالج ہے ،حاملہ عورتوں
سے لے کر بچوں تک سب استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ درخت اردو میں سہانجنہ اور انگریزی میں ہارس ریڈش یامورنگا کہالتا ہے ۔ اس کے
اور بھی مختلف نام ہیں مثال ً مورنگا ‘ مورنگا اولیفیرا ‘ ڈرم اسٹک اور بین ٓائل وغیرہ۔
اس درخت کے متعلق ایک مضمون عبقری رسالے میں غالم قادر ہراج صاحب نے لکھا
تھا جس میں انہوں نے اس درخت کے فوائد پر بہت معلومات فراہم کی ہیں اور مختلف
بیماریوں کے لئے اس کا استعمال بتایا ہے۔
درحقیقت مورنگا جو کہ ہمارے ہاں سہانجنہ کے نام سے جانا جاتا ہے ایک ایسا درخت ہے
جو کہ پاکستان میں پشاور سے کراچی تک بکثرت پایا جاتا ہے ،یہ خود رو بھی ہے اور
گھروں کھیتوں میں کاشت بھی کیا جاتا ہے۔
سہانجنہ گرم ماحول اور ریتلی زمین میں ٓاسانی سے کاشت ہوتا ہے ،بہاول پور کے عالقے
میں خود رو درختوں کے جنگل ہیں۔ اس درخت کی اونچائی 25تا 40فٹ تک ہوتی ہے۔
پھل اور پھول بکثرت سال میں 2۔ 3دفعہ لگتے ہیں لکڑی نرم و نازک اور پھلیاں تقریبا ً
ایک فٹ لمبی اور انگلی کے برابر موٹی ہوتی ہیں۔
جاپان :ویکسین کی فراہم کردہ قوت مدافعت سے بچنے والی کرونا قسم
کی تصدیق
ویب ڈیسک
ٹوکیو :جاپان میں ویکسین کی فراہم کردہ قوت مدافعت سے بچنے والی کرونا وائرس کی
متغیر قسم ُمو کی تصدیق ہوئی ہے۔
تفصیالت کے مطابق جاپان کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی متغیر
قِسم ُمو کے پہلے انفیکشنز کی تصدیق ہو گئی ہے ،اس نئی متغیر قسم کو اُس درجے میں
رکھا گیا ہے جس میں ڈبلیو ایچ او دل چسپی رکھتا ہے۔وزارت صحت کے مطابق دو ایئر
ٰ
دعوی کووڈ 19کے ماخذ کا سراغ کیسے لگائیں ؟ ماہر صحت نے بڑا
کردیا
ویب ڈیسک
ماپوتو :دنیا بھر کے سائنسدان عالمی وبا کرونا وائرس کا ماخذ جاننے کے لئے سرگرم
عمل ہے ،ایسے میں افریقی ملک کے ماہر صحت نے بڑا مطالبہ کردیا ہے۔
موزمبیق کے قومی صحت انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈورڈو سامو گوڈو کا کہنا ہے
کہ نوول کرونا وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں کی
لیبارٹریوں میں گزشتہ تین یا چار برسوں سے ذخیرہ شدہ نمونوں پر تحقیقات ہونی چاہئے
اوراس میں جانورو ں سے حاصل کئے گئے نمونے بھی شامل ہونے چاہیئے۔
تحقیقات | 49 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہر صحت نے خبردار کیا کہ اگر اس عمل کو سیاست بازی کے خطرے سے دوچار کیا
جائے تو سچ تک کبھی بھی رسائی حاصل نہیں ہوسکتی ،اس معاملے پر سیاست بازی نہ
کی جائے ،ماخذ کے بارے میں تحقیقات ایک سائنسی عمل ہے یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں
ہے۔
گوڈو کہتے ہیں کہ جب سائنس کو سیاست بازی کی نذر کیا جاتا ہے تو ہم تمام سائنسی مواد
اور بصیرت کھو دیتے ہیں اور سائنسی دالئل بھال دیئے جاتے ہیں۔
گوڈو نے واضح کیا کہ بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک ملک میں پہال کیس پایا گیا تھا
لیکن یہ زونوٹک عمل (جب وائرس جانوروں کی انواع سے انسان میں منتقل ہوتا ہے)
دوسرے ملک میں ہوا جو کہ فطری بات ہے۔
یاد رہے کہ کرونا وبا کے آغاز سے ہی چین اور امریکا کے درمیان سرد مہری جاری
ہے ،امریکا کئی مواقع پر برمال اظہار کرچکا ہے کہ چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری
سے ممکنہ طور پر یہ وائرس پھیال ہے۔
دوسری جانب سینئر چینی سفارت کار کا کہنا ہے کہ کووڈ نائنٹین کے ماخذ کی کھوج کی
شفاف تحقیقات کے لئے امریکا میں فورٹ ڈیٹریک اور یونیورسٹی آف نارتھ کیروالئنا کی
لیبارٹریوں تک مکمل رسائی ہونی چاہئے
https://urdu.arynews.tv/covid-19-origins-tracing-should-be-
implemented-on-samples-worldwide/
ویب ڈیسک
دبئی :کرونا وبا کے خالف جنگ جیتنے کے لئے متحدہ عرب امارات نے اہم ترین فیصلہ
کیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فائزر کووڈ نائٹین
کی تیسری خوراک کمزوروں میں قوت مدافعت بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔
فقیہ یونیورسٹی اسپتال میں فیملی میڈیسن کے ماہر ڈاکٹر عادل سنجوانی نے کہا کہ یہ
واضح ہے کہ فائزر کووڈ نائٹین ویکسین کا کرونا وائرس سے لڑنے میں اچھا رسپانس ہے
اور تیسری خوراک طبی ہسٹری رکھنے والے لوگوں کے لئے تجویز کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عادل سنجوانی نے مزید کہا کہ کینسر اور امیونو تھراپی کے زیر عالج مریضوں
اور کم قوت مدافعت والے افراد کی کرونا وائرس کے خالف قوت مدافعت کم ہوگی ،اور
اس طرح کووڈ نائنٹین کے خالف قوت مدافعت بڑھانے کے لئے بوسٹر شارٹ کی
ضرورت پڑسکتی ہے۔
دوسری جانب دبئی ہیلتھ اتھارٹی نےاعالن کیا ہے کہ وہ کمپرومائز مدافعتی نظام والے
رہائشیوں کو فائزر بائیو ٹیک کووڈ نائنٹین ویکسین کی تیسری خوراک کی فراہمی کا انتظام
شروع کرے گا
ڈاکٹر ویشالی روہنکر جنرل پریکٹیشنر اور میڈیکل ڈائریکٹر ایسٹر کلینک شیخ زید روڈ نے
کہا کہ ویکسین کی تیسری خوراک ایچ آئی وی کے مریضوں ،کینسر کے لئے کیمو
تھراپی سے گزرنے والے اور اعضا یا اسٹیم سیل ٹرانسپالنٹ کے وصول کنندگان کے لئے
درکار ہے۔
روہنکر نے مزید کہا کہ ایسے مریضوں میں قوت مدافعت کم ہوسکتی ہےاور عام لوگوں
کے مقابلے میں کرونا وائرس کے خالف کم تحفظ پایا جاسکتا ہے ،ان میں اینٹی باڈی
ویب ڈیسک
ریاض :سعودی طبی ماہر عبدہللا عسیری نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس ساالنہ فلو
کی طرح باقی رہے گا۔
تحقیقات | 52 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سعودی وزارت صحت میں حفاظتی تدابیر اور امراض سے بچاؤ کے سیکریٹری ڈاکٹر
عبدہللا عسیری کا کہنا ہے کہ ساالنہ فلو وائرس کی طرح کووڈ 19کی بھی موجودگی رہے
گی۔
انہوں نے کہا ہے کہ کورونا ویکسین مہم کا مقصد وائرس کا خاتمہ نہیں بلکہ وبائی کیفیت
سے نکلنا ہے۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین کے باعث اس کا خطرہ کم ہوجائے گا ،ویکسین کی
مدد سے وائرس کو محدود کرنے میں بھی مدد ملے گی لیکن وبا کے ختم ہونے کے
امکانات نہیں ہیں۔
عبدہللا عسیری نے مزید کہا کہ کورونا وائرس ساالنہ فلو کی طرح باقی رہے گا تاہم یہ
خطرناک نہیں ہوگا ،سعودی عرب کورونا ویکسین کے نتائج واضح طور پر نظر ٓارہے
ہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی کئی ماہرین کووڈ 19کے ہمیشہ رہنے کے امکانات
ظاہر کرچکے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/coronavirus-will-always-be-present-in-the-
world-like-flu/
پہلے زمانے میں مرغی کا گوشت کھانا امیروں کی شان سمجھی جاتی تھی لیکن وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جگہ فارمی مرغی نے لے لی جس کے بعد عام آدمی کی
پہنچ بھی مرغی کے گوشت تک ہوگئی۔
فارمی مرغیوں کی افزائش کیلئے انہیں ایسی خوراک دی جاتی ہے کہ جس سے چوزہ 40
روز میں مکمل تیار ہوکر مارکیٹ میں آجاتا ہے۔
اس فارمی مرغی کو طبی لحاظ سے ہائی پروٹین یا وائٹ میٹ کے نام سے جانا جاتا ہے،
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برائلر چکن کھانا ہمارے لیے نقصان دہ ہے؟
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ برائلر کھانے کے کوئی نقصانات نہیں ہیں بلکہ
برائلر پروٹینز کا سستا اور اچھا ذریعہ ہیں جن کی وجہ سے آپ کی اچھی گروتھ ممکن
ہے۔ برائلر چکن ہارمونز سے پاک اور محفوظ پروٹینز کا ایک ذریعہ ہے اگر آپ اس کو
اچھی طرح سے پکا کر کھاتے ہیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔
برائلر چکن کیخالف زیادہ تر پروپیگنڈہ šبے بنیاد باتوں پہ مبنی ہے ،برائلر کی موجودہ تیز
گروتھ سیلیکٹو بریڈنگ کا نتیجہ ہے جس میں ہم نے اصیل مرغیوں کی 100اقسام میں
سے دس ایسی اقسام کی سیلیکٹو بریڈنگ کرائی جو کہ جلد از جلد گروتھ کر سکے اور
بڑی ہو سکے۔
یہ پچھلے 90سالوں کی محنت کے بعد ممکن ہو سکا ہے اور ان مرغیوں یہ گروتھ بغیر
ہارمونز کے قدرتی طور پہ ہوتی ہے،مرغیوں کی فیڈ میں بس ضروری غذائی اجزاء ہوتے
ہیں۔
کیا پولٹری ہارمونز Jسے پاک ہوتی ہے؟
ویب ڈیسک
برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل
کے مخصوص خلیات میں تبدیلی ال کر ان کے افعال میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔
تحقیقات | 55 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارد گرد
موجود شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین
سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔
دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو
جب کرونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو اعضا
میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی شریانوں کے خلیات کو حاصل کر کے انہیں
اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔
اس پروٹین کو کرونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور
ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد
خارج کرتا ہے۔
اس طرح وہ خلیاتی مشینری پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے اور اپنی نقول بنانا شروع کردیتا
ہے ،پھر وہ باہر نکل کر دیگر خلیات تک پھیل جاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر اسپائیک
پروٹین تنہا خلیات کے رویوں کو متاثر کرنے کی صالحیت رکھتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔
تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اگر خلیات وائرس سے متاثر نہیں بھی ہوتے تو بھی اسپائیک
پروٹین کے زیر اثر آنے پر ان کا عالج زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ان خیات میں سی ڈی 147نامی ریسیپٹر کو بالک کر
کے بھی اسپائیک پروٹین کے ورم بڑھانے کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ورم کا باعث
بننے واال کیمیکل پورے جسم بشمول دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں موجود ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس میکنزم کو روکا جا سکے تو مریضوں میں کووڈ سے ہونے
والی پیچیدگیوں کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے اور مزید تحقیق سے اسپائیک پروٹین کی روک
تھام کے ذرائع تالش کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ میکنزم خلیاتی اور اعضا کی پیچیدگیوں کو متاثرہ حصوں سے آگے
تک پھیال دیتا ہے اور ممکنہ طور پر پہلے سے کسی بیماری جیسے بلڈ پریشر ،ذیابیطس
اور موٹاپے کے شکار افراد میں مرض کی شدت کو سنگین بنا دیتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/coronavirus-and-heart-functions/
ویب ڈیسک
کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یو کے زوئی کووڈ سمپٹم اسٹڈی ایپ
کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جو 8دسمبر 2020سے 4جوالئی 2021تک جمع کیا گیا۔
یہ الکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے 12الکھ 40ہزار 9افراد نے ویکسین کی ایک
خوراک استعمال کی تھی جبکہ 9الکھ 71ہزار 504نے 2خوراکیں استعمال کی تھیں۔
ماہرین نے مختلف عناصر بشمول عمر ،جسمانی یا ذہنی تنزلی اور دیگر کا موازنہ
ویکسینیشن کے بعد ہونے والی بیماری سے کیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی 2خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے
کووڈ کا شکار ہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد عالمات کا خطرہ ویکسی نیشن نہ
کروانے والے مریضوں کے مقابلے میں 49فیصد کم ہوتا ہے۔
اسی طرح ویکسی نیشن کے بعد بیماری پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ 73فیصد تک کم
ہوتا ہے اور بیماری کی شدید عالمات کا خطرہ 31فیصد تک کم ہوتا ہے۔
ان افراد میں عام عالمات ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد سے ملتی جلتی ہے جن
میں سونگھنے کی حس سے محرومی ،کھانسی ،بخار ،سر درد اور تھکاوٹ قابل ذکر ہیں۔
ان تمام عالمات کی شدت معمولی ہوتی ہے اور ویکسی نیشن والے افراد کی جانب سے ان
کو رپورٹ کرنے کی شرح بھی کم ہوتی ہے اور بیماری کے پہلے ہفتے میں متعدد
عالمات کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں
اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں النگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی
ہیں۔
فالج کےبعد ہاتھوں کی قوت بڑھانے والی ویڈیو گیم جوائے اسٹک
ویب ڈیسک
جمعـء 3 ستمبر2021
گرپیبل کنٹرولر کی بدولت فالج کے مریض گیم کھیلتے ہوئے فزیوتھراپی جیسی ورزش
کرسکتے ہیں،تصویر šمیں ایک لڑکا تیراندازی کے گیم سے ورزش کررہا ہے۔ فوٹو:
بشکریہ گرپیبل ویب سائٹ
گھمانا
پڑتا ہے۔ مثالً ایک گیم میں ٓالے کو جتنی قوت سے دبایا جائے گا اسکرین پر تیر اتنی ہی
دور تک جائے گا۔ اس طرح ورزش کے مراحل گیم کی صورت میں ٓاگے بڑھتے رہتے
ہیں اور مریض کی کیفیت بہتر ہوتی جاتی ہے۔
گرپیبل جوائے اسٹک کو دبا کر چھوڑنا پڑتا ہے اور اسی سے گیم کھیال جاتا ہے۔ بسا
اوقات ٓالے کو دائیں یا پھر بائیں گھمایا جاتا ہے۔ اس طرح کھیل کھیل میں فزیو تھراپی نما
ورزش ہوجاتی ہے ۔ جوائے اسٹک ارتعاش سے بھی ہاتھوں کی درست حرکات میں مدد
دیتی ہے۔
اگرچہ اس طرح کی ورزشیں کلینک یا ہسپتال میں کرائی جاتی ہیں جس میں ایک ماہر
تھراپی کی نگرانی شامل ہوتیہ ے۔ لیکن گریپیبل کی بدولت مریض کسی بھی وقت
گھربیٹھے ورزش اور فزیوتھراپی کی تربیت لے سکتا ہے۔ اس طرح لوگ اپنی مرضی
کے اوقات میں ورزش کرکے تیزی سے بحالی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب
گیم شامل کرکے اسے مزید دلچسپ بنایا گیا ہے۔
2019میں اسے فالج کے 30مریضوں پرٓازمایا گیا جن کے بازو کمزور ہوچکے تھے۔
گرپیبل کی بدولت مریض اوسط دن میں اسے 104مرتبہ استعمال کررہے تھے جبکہ
ہسپتال میں روایتی تھراپی میں وہ اسے صرف 15مرتبہ ہی انجام دے پاتے تھے۔
اس طرح لوگوں نے اس ٓالے کو استعمال کرتے ہوئے بہت افاقہ محسوس کیا ہے۔ اس کی
تفصیل ایک تحقیقی مقالے میں شائع کی جاچکی ہے جو جرنل برائے نیوروری ہیبلی ٹیشن
اور نیورل ریپیئر میں چھپی ہے
https://www.express.pk/story/2220305/9812/
فالج کےبعد ہاتھوں کی قوت بڑھانے والی ویڈیو گیم جوائے اسٹک
گرپیبل کنٹرولر کی بدولت فالج کے مریض گیم کھیلتے ہوئے فزیوتھراپی جیسی ورزش
کرسکتے ہیں،تصویر šمیں ایک لڑکا تیراندازی کے گیم سے ورزش کررہا ہے۔ فوٹو:
بشکریہ گرپیبل ویب سائٹ
لندن :فالج کے حملے کے بعد اکثر ہاتھوں کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے جسے بحال
کرنے کے لیے ادویہ اور فزیوتھراپی کرائی جاتی ہے۔ اب ایک ویڈیو گیم اور اس کے لیے
ڈیزائن کردہ خاص قسم کا ہینڈل بنایا گیا ہے جو کھیل کھیل میں ہاتھوں کی گرفت بحال
کرتا ہے۔
امپیریئل کالج لندن کے ماہرین نے اسے بنایا ہے جسے انہوں ںے ’گرپ ایبل‘ کا نام دیا
ہے۔ یہ ہاتھ اور بازو کی حرکات کو بڑھانے واال ایک تربیتی ٓالہ ہے۔ سامنے ایک گیم کی
صورت میں ایپ چلتی رہتی ہے جس کے لحاظ سے ہاتھومیں گرپیبل تھامنا اور اسے
گھمانا پڑتا ہے۔ مثالً ایک گیم میں ٓالے کو جتنی قوت سے دبایا جائے گا اسکرین پر تیر
ات
نی ہی دور تک جائے گا۔ اس طرح ورزش کے مراحل گیم کی صورت میں ٓاگے بڑھتے
رہتے ہیں اور مریض کی کیفیت بہتر ہوتی جاتی ہے۔
گرپیبل جوائے اسٹک کو دبا کر چھوڑنا پڑتا ہے اور اسی سے گیم کھیال جاتا ہے۔ بسا
اوقات ٓالے کو دائیں یا پھر بائیں گھمایا جاتا ہے۔ اس طرح کھیل کھیل میں فزیو تھراپی نما
ورزش ہوجاتی ہے ۔ جوائے اسٹک ارتعاش سے بھی ہاتھوں کی درست حرکات میں مدد
دیتی ہے۔
اگرچہ اس طرح کی ورزشیں کلینک یا ہسپتال میں کرائی جاتی ہیں جس میں ایک ماہر
تھراپی کی نگرانی شامل ہوتیہ ے۔ لیکن گریپیبل کی بدولت مریض کسی بھی وقت
گھربیٹھے ورزش اور فزیوتھراپی کی تربیت لے سکتا ہے۔ اس طرح لوگ اپنی مرضی
کے اوقات میں ورزش کرکے تیزی سے بحالی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری جانب
گیم شامل کرکے اسے مزید دلچسپ بنایا گیا ہے۔
میں اسے فالج کے 30مریضوں پرٓازمایا گیا جن کے بازو کمزور ہوچکے تھے۔ 2019
گرپیبل کی بدولت مریض اوسط دن میں اسے 104مرتبہ استعمال کررہے تھے جبکہ
ہسپتال میں روایتی تھراپی میں وہ اسے صرف 15مرتبہ ہی انجام دے پاتے تھے۔
اس طرح لوگوں نے اس ٓالے کو استعمال کرتے ہوئے بہت افاقہ محسوس کیا ہے۔ اس کی
تفصیل ایک تحقیقی مقالے میں شائع کی جاچکی ہے جو جرنل برائے نیوروری ہیبلی ٹیشن
اور نیورل ریپیئر میں چھپی ہے۔
https://www.express.pk/story/2220305/9812/
ویب ڈیسک
اس بچے کا این آئی سی وی ڈی کراچی میں الیکٹروفزیالوجی اسٹڈی اینڈ ابلیشن پروسیجر
بالکل مفت کیا گیا۔ یہ پہال موقع ہے کہ پاکستان میں یہ پروسیجر کسی چھوٹے بچے پر کیا
گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے جو ڈاکٹر محمد محسن کی نگرانی میں حاصل کی گئی۔
02/09/2021
ویب ڈیسک
ستمبر 02 2021
— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7میں سے ایک بچے کو صحتیابی کے کئی ماہ
بعد بھی مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی
تحقیق میں سامنے آئی۔
لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی
سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد عالمات کا سامنا
کرسکتے ہیں۔یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں النگ کووڈ کی
شرح کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11سے 17سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی
ہے ان میں 15ہفتے بعد 3یا اس سے زیادہ عالمات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے
محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11سے 17سال کی عمر کے 3065کووڈ
مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا
ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14فیصد نے 15ہفتوں بعد 3یا اس سے زیادہ
عالمات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا ،کنٹرول گروپ میں یہ شرح
7فیصد تھی۔
محققین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے
15ہفتوں بعد متعدد عالمات موجود ہوسکتی ہیں ،مگر اس عمر کے گروپ میں النگ کووڈ
کی شرح توقعات سے کم ہے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر
جاری کیے گئے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167563/
نیند سے اٹھنے کے بعد تھکاوٹ کیوں محسوس ہوتی ہے؟ ماہرین نے
اصل وجہ بتادی
Sep 03, 2021 | 18:49:PM
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) بہتر نیند مجموعی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے ناگزیر ہوتی
ہے۔ اب ماہرین نے نیند کے معیار اور مقدار کے حوالے سے مفید باتیں لوگوں کو بتا دی
ہیں۔ دی سن کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی مقدار یہ ہے کہ آپ کتنے گھنٹے
سوتے ہیں اور نیند کا معیار یہ ہے کہ پوری رات میں آپ نیند کی ہر سٹیج میں کتنا وقت
گزارتے ہیں۔بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ تمام رات سونے کے بعد صبح بیدار ہوتے ہیں تو
آپ تھکے ماندے اور غنودگی کے عالم میں ہوتے ہیں۔اس کا سبب آپ کی نیند کا معیار بہتر
نہ ہونا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی نیند کے آخری چکر کے درمیان میں
بیدار ہو گئے ہیں۔ چکر کے درمیان میں گہری نیند کا وقت ہوتا ہے ،چنانچہ اس وقت بیدار
ہونے سے آپ دن بھر تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتے ہیں۔
رات بھر میں نیند کے کئی چکر ہوتے ہیں۔ چکر کی ابتداءہلکی نیند سے ہوتی ہے اور پھر
گہری نیند سے ہوتے ہوئے واپس آدمی ہلکی نیند کی طرف آتا ہے۔ اگر آپ اس ہلکی نیند
کے مرحلے پر بیدار ہوں تو آپ تروتازہ اٹھیں گے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو
6سے 9گھنٹے کے درمیان نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/03-Sep-2021/1336132
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) آپ کا بچہ کب تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے؟ ایک نرس نے یہ بات
معلوم کرنے کا ایک آسان طریقہ بتا دیا ہے۔ دی سن کے مطابق کورٹنی گارلینڈ نامی اس
نرس نے اپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ پر ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ بچے کو تھکاوٹ ہونا اس
تحقیقات | 68 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کی نیند پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اور نیند اس کی مجموعی صحت پر اثرات مرتب
کرتی ہے ،چنانچہ والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ کب تھکاوٹ کا شکار ہوتا
ہے۔
پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں کورٹنی گارلینڈ بتاتی ہے mamalincاپنے انسٹاگرام اکاﺅنٹ
کہ جب بچہ تین ماہ کا ہوتا ہے تو اسے سونے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔ جس کا سبب
تھکاوٹ ہو سکتی ہے۔ بچہ جب تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے تو اس میں اضطراب کی کیفیت
نمایاں ہونے لگتی ہے۔ وہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ادھر ادھر دیکھنے
لگتا ہے۔ ایک دن سے تین ماہ تک کے بچے میں تھکاوٹ کی یہ عالمات ہوتی ہیں۔تین ماہ
سے زائد عمر کا بچہ جب تھک جاتا ہے تو وہ سر کو آگے پیچھے حرکت دینے لگتا ہے
اور مسلسل شور کرنے لگتا ہے۔ اس کے عالوہ تین ماہ سے زائد عمر کے بچوں میں
آنکھنے ملنا ،اپنے کانوں کو کھینچنا ،ٹانگوں یا بازوﺅں کو جھٹکے دینا ،حد سے زیادہ
رونے یا ہنسنے لگنا ایسی عالمات ہیں جو بتاتی ہے کہ بچہ اب تھک چکا ہے اور اسے
نیند کی ضرورت ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/04-Sep-2021/1336537
...بینک خدمات کے لئے ویکسی نیشن سرٹیفیکٹ کو الزمی قرار دیا جائے ، سندھ
الک ڈاؤن کے دوران بلیاں ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئیں ،جانوروں کے
ماہرین نے حیران کن وجہ بھی بتادی
Sep 04, 2021 | 19:42:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کے باعث لگنے والے طویل الک ڈاﺅن کے دوران
میاں بیوی کے مسلسل ایک ساتھ رہنے پر طالق کی شرح میں تو اضافہ دیکھنے میں آیا ہی
تھا ،انسانوں کے مسلسل جانوروں کے ساتھ رہنے پر ان جانوروں کی ذہنی صحت کا کیا
حال ہوا؟ اب اس حوالے سے جانوروں کے ماہرین نے حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ ڈیلی
سٹار کے مطابق برطانیہ میں جانوروں کے ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ الک ڈاﺅن کے
دوران مالکان کے مسلسل اپنی پالتو بلیوں کے پاس رہنے کی وجہ سے بلیاں ذہنی تناﺅ کا
شکار ہو چکی ہیں
ماہر ڈاکٹر ڈیبی جیمز کا کہنا تھا کہ ”الک ڈاﺅن شروع ہونے کے بعد سے بلیوں کے ذہنی
تناﺅ کا شکار ہونے کی شرح میں حیران کن حد تک تیزی دیکھنے میں آئی ہے ،جس کی
بظاہر وجہ ان کے مالکان کا مہینوں تک مسلسل ان کے ساتھ رہنا ہے۔ الک ڈاﺅن کے
دوران اور الک ڈاﺅن ختم ہونے کے بعد نر بلیوں میں مثانے کے بالک ہونے اور نر اور
نامی بیماری کی شرح ہو چکی ہے جس کی عام وجہ) (cystitisمادہ بلیوں میں سسٹائٹس
ذہنی تناﺅ ہوتی ہے۔مثانے کا بالک ہونا جان لیوا بھی ہو سکتا ہے چنانچہ مالکان کوالک
ڈاﺅن کے بعد کی صورتحال میں اپنی بلیوں کا اس حوالے سے خاص دھیان رکھنا چاہیے
https://dailypakistan.com.pk/04-Sep-2021/1336533
ویب ڈیسک
ستمبر 03 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی
کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین دل کے مخصوص خلیات میں تبدیلی الکر ان کے افعال
ٰ
دعوی برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں میں مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ
سامنے آیا۔
برسٹل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپائیک پروٹین سے دل کے ارگرد موجود
شریانوں کے خلیات میں تبدیلیوں کے باعث معمول کے افعال کو متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس پری پرنٹ تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ یورپین
سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں پیش کیے گئے۔
دل کی چھوٹی شریانوں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے دیگر مقامات پر موجود خلیات کو
جب کورونا کے اسپائیک پروٹین جکڑتے ہیں تو ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو
اعضا میں ورم بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔اس تحقیق کے لیے ماہرین نے دل کی چھوٹی
شریانوں کے خلیات کو حاصل کرکے انہیں اسپائیک پروٹین سے متاثر کیا۔
اس پروٹین کو کورونا وائرس خود کو خلیات سے جوڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور
ایک بار وائرس ایسا کرلیتا ہے تو وہ خلیے کی جھلی میں مدغم ہوکر اپنا جینیاتی مواد
https://www.dawnnews.tv/news/1167585/
شہد اصلی ہے یا نقلی؟ جاننا آسان
شہد اصلی ہے یا نقلی؟ یہ جاننا آسان بھی ہے اور اس کی دل چسپ نشانیاں بھی ہیں۔
انگلی پر چپکنا
شہد کو انگلیوں میں لے کر ہلکا سا رگڑیں اگر شہد انگلیوں پر چپک جاتا ہے تو اس کا
مطلب ہے کہ وہ نقلی ہے اور اگر نہیں چپکتا تو اس کا مطلب ہے اصلی شہد ہے۔
جار کو ہالئیں
شہد قدرتی طور پر گاڑھا ہوتا ہے ،شہد کے جار کو ہالئیں اگر شہد جار کے ایک طرف
سے دوسری طرف جانے میں تھوڑا وقت لگائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ اصلی ہے ،جب
کہ نقلی شہد بہت ہلکا ہوتا ہے اور بہ ٓاسانی ایک طرف سے دوسری طرف چال جاتا ہے۔
پھولوں کی خوش بو
شہد چوں کہ پھولوں سے بنتا ہے ل ٰہذا اس میں سے پھولوں کی خوش بو ٓاتی ہے ،شہد کو
کئی بار گرم کر کے ٹھنڈا کریں ،یہ عمل کرنے سے اصلی شہد کی خوش بو میں فرق ٓا
جائے گا ،جب کہ نقلی شہد میں کوئی خوش بو نہیں ہوتی۔
پانی میں ڈالیں
اصلی شہد پانی میں ٓاسانی سے حل نہیں ہوتا ،ایک گالس پانی میں ایک چمچا شہد ڈالیں
اور ہالئیں ،یہ گالس کی تہہ میں بیٹھ جائے گا ،جب کہ نقلی شہد بغیر ہالئے پانی میں حل
ہو جائے گا۔
ماچس کی تیلی
شہد کو ماچس کی تیلی کے سرے پر لگائیں اور پھر اسے کسی دوسری تیلی کی مدد سے
جالئیں ،اگر شہد اصلی ہوگا تو تیلی جل جائے گی ،لیکن اگر شہد نقلی ہوگا تو تیلی نہیں
جلے گی ،کیوں کہ اصلی شہد کبھی بھی موئسچرائزر خارج نہیں کرتا ،اور نقلی شہد کے
موئسچرائزر خارج کرنے کی وجہ سے تیلی گیلی ہو جائے گی اور نہیں جلے گی۔
ویب ڈیسک/
ستمبر4 2021 J
/
گرمیوں میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی سبزی کریال انسانی صحت کے لیے بے حد
مفید ہے۔
کریال غذائی اجزا کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کے بے شمار فوائز ہیں ،کریلے کا روزانہ
ایک کپ ( 94گرام) جوس انسانی صحت کے لیے موثر غذا ہے جو بہت سے بیماریوں کا
عالج ہے۔
کریلے میں 93فیصد وٹامن سی پایا جاتا ہے جو بیماریوں کی روک تھام ،ہڈیوں کی تشکیل
اور زخموں کی شفا یابی میں شامل ایک اہم مائکرو نیوٹرینٹ ہے۔
اس سبزی میں ویٹامن اے 44فیصد ہوتا ہے جو جلد کی صحت اور مناسب نقطہ نظر کو
فروغ دیتا ہے۔
اس کے عالوہ 20فیصد کیلوری 17 ،فیصد فولیٹ جو نشوونما کے لیے ضروری ہے8 ،
فیصد پوٹاشیم 5 ،فیصد زنک 4 ،فیصد آئرن 4 ،گرام کاربوہائیڈریٹ اور 2گرام فائبر شامل
ہے جو انسانی غذائی اجزاء کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
کریلے کے جوس سے متعلق ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کینسر کے سیلز کے
خالف موثر مدافعت پیدا کرتا ہے اور انہیں ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق روزانہ کریلے کا 2ہزار (ملی گرام) جوس پینے سے بلڈ شوگر کم ہوتا
ہے۔کریلے کاعرق وزن کم کرنے کے لیے ایک موثر ڈرنک ہے کیونکہ اس میں کم
کیلوریز جبکہ زیادہ فائبر ہوتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/575386-2/
عالمی کورونا وبا بڑے عمر کے ساتھ بچوں کو بھی نشانہ بناتا ہے تاہم اس کی شرح کم
ہے لیکن ماہرین تمام عمر کے افراد کو فیس ماسک پہننے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اس ضمن میں والدین کے لیے کٹھن مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ضدی بچوں کو ماسک
پہننے پر کس طرح آمادہ کریں ،پہلے تو بچوں کو ماسک پہنانے کا یہ سلسلہ کبھی کبھار
تک محدود تھا لیکن جیسے جیسے اسکولوں کی چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں ،والدین پر اس ذمہ
داری کا بوجھ بڑھ رہا ہے کیوں کہ ان میں ماسک پہننے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔
متعدد ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے والدین کو چند مفید مشورے دیے ہیں جن کے تحت
وہ اپنے بچوں کو ماسک پہننے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ والدین کو
پہلے اپنے بچے کی عادات کے بارے میں جاننا چاہیے کیونکہ ہر بچہ دوسرے سے
مختلف ہوتا ہے ،وہ وقت نکال کر سوچیں کہ وہ کیسے اس کام کے لیے راضی ہوگا۔
طبی ماہرین کے مطابق والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو چہرے ڈھانپنے کی حکمت عملی
بتانے سے پہلے اپنے آپ سے چند سواالت پوچھیں کہ میرے بچے کے لیے کیا ضروری
ہے۔
یہ بھی غور کریں کہ میرا بچہ معلومات کو کیسے سمجھتا ہے؟ وہ بیرونی دنیا کے بارے
میں کتنا علم رکھتا ہے اور کتنا باخبر ہے؟ ماسک اسے کس حد تک پریشان کر سکتا ہے؟
اس طرح آپ کو ماسک پہننے کی عادت ڈالنے میں معاونت مل سکتی ہے ،کم عمر افراد
چہرے کا ماسک پہننے کی اہمیت نہیں سمجھ سکتے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ گھر پر بچوں کے سامنے ماسک پہننے اور اس کا بار بار ذکر
کریں ،اس طرح ان میں ماسک کی اہمیت پیدا ہوگی ،کورونا کی باتیں کریں اور اس سے
بچنے کی گفتگو کو بھی کھیل کود کا حصہ بنائیں
https://urdu.arynews.tv/does-your-child-not-wear-a-mask-how-to-please/
امریکی سائنس دانوں نے بچوں کو کرونا وائرس کی متعدی قسم ڈیلٹا سے سنگین بیماری
میں مبتال ہونے کے خطرے کی تردید کردی۔
امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی جانب سے جاری مختلف تحقیقی
رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ ویکسینیشن نہ کرانے والے نوجوانوں کا اسپتال میں
داخلے کا خطرہ ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں 10گنا زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ بچوں اور نوجوانوں کے اسپتال میں داخلے کی شرح میں
اضافہ ہوا مگر ان میں بیماری کی سنگین شدت کی شرح اتنی ہی تھی جتنی سابقہ اقسام کے
شکار بچوں کی تھی ،تحقیق سے پتہ چال ہے کہ بچوں میں کووڈ کیسز میں اضافہ ہورہا
ہے لیکن ڈیلٹا قسم بھی بچوں میں زیادہ سنگین بیماری کا باعث نہیں بنتی۔
ماہرین نے بچوں میں کرونا کیسز کا پھیالؤ برادری میں اس بیماری کے پھیالؤ کو قرار دیا
ہے۔
سی ڈی سی ڈائریکٹر نے کہا کہ ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ برادری کی سطح پر
ویکسینیشن سے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے ،برادری میں کووڈ کے کیسز بڑھنے
سے بچے بھی زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔تحقیقی رپورٹس کے مطابق 12سے 17سال اور 0
سے 4سال کے گروپس میں کووڈ سے اسپتال میں داخلے کا خطرہ 5سے 11سال کے
بچوں کے مقابلے میں زیادہ دریافت ہوا۔
بیجنگ :کرونا ویکسین کرنے والی چینی کمپنی سائنو فارم نے کرونا وائرس کے عالج
کےلیے دوا کا ٓازمائشی مرحلہ شروع کرنے کا اعالن کردیا۔
چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (سائنو فارم کی ذیلی کمپنی) کی جانب سے اعالن کیا گیا کہ
اسے کووڈ 19کو شکست دینے والے مریضوں کے پالزما پر مبنی دوا کے کلینکل ٹرائلز
کی 30اگست کو منظوری مل گئی ہے۔
ان میں 2اپ ڈیٹڈ ویکسینز بھی شامل تھیں جن کو وائرس میں آنے والی میوٹیشنز کے
خالف مؤثر قرار دیا جارہا ہے جبکہ ایک اور کووڈ 19بھی پیش کی گئی جو مونوکلونل
اینٹی باڈی پر مشتمل تھی۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ دوا کرونا وائرس کا اثر ختم کرنے والی اینٹی باڈیز کی بہت زیادہ
مقدار پر منحصر ہے۔
ویب ڈیسک
ہفتہ 4 ستمبر2021
اس کے عالوہ ہرے اور جسمانی انداز کو دیکھتے ہوئے بچوں میں درد کا ایک پیمانہ
استعمال کیا گیا جسے ’پری ٹرم پین پروفائل ( پی ٓائی پی پی) کہتے ہیںل۔ اس میں صفر
سے 21تک درجے ہوتے ہیں۔ خون نکالتے وقت ماہر کوبچے کے چہرے کی ویڈیو
دکھائی گئی۔ لیکن ٓاواز بند کردی گئی تاکہ ماہر ماں کی ٓاواز نہ سن سکے اور اس پر غلط
فیصلہ سامنے نہ ٓاسکے۔
ویب ڈیسک
اتوار 5 ستمبر2021
انسلیسیرین نامی نئی دوا کو بطور انجیکشن دے کر خون میں کولیسٹرول کی سطح کو
جادوئی انداز میں کم کیا جاسکتا ہے۔
لندن :ہم ایک عرصے سے کولیسٹرول گھٹانے والے ٹیکوں کے متعلق سنتے ٓارہے ہیں
جسے انسلیسیرین کا نام دیا گیا ہے۔ بہت جلد اس ’گیم چینجر‘ انجیکشن کو برطانیہ میں
ہزاروں افراد پر ٓازمایا جائے گا۔ برطانیہ نے باضابطہ طور پر اس کی منظوری دیدی ہے۔
ویب ڈیسک
پير 6 ستمبر2021
ماہر اعصابیات اور نفسیات وینڈی سوزوکی نے اپنے تجربے کی بنیاد پر 6قیمتی
ِ امریکی
مشورے دئیے ہیں جو ٓاپ کے دماغی صحت کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتےہیں
نیویارک :امریکی ماہ ِر اعصابیات و نفسیات اور اس شعبے میں ڈاکٹریٹ کرنے والی
ماہرہ وینڈی سوزوکی نے اپنے تجربے کے بنیاد پر انتہائی قیمتی مشورے دیئے ہیں جن
پر عمل کرکے دماغی مضبوطی ،نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کی
جاسکتی ہے۔ ان کے 6ٹوٹکے درج ذیل ہیں:
غ
صہ ٓاپ کی توجہ کھاجاتا ہے اور عمل کو روکتا ہے لیکن اسی سے ٓاپ جذبہ لے کر اپنی
توجہ بڑھا سکتےہیں۔
خوف وہ جذبہ ہے جو ماضی کی ناکامیاں بھی یاددالتا ہے ،یہ توجہ اور ارتکاز کو تباہ کرتا
ہے اور ٓاپ کی صالحیتوں کو گھن لگادیتا ہے ،یا پھر ٓاپ کو درست اور واضح فیصلے
میں مدد بھی دے سکتا ہے اور بدلتی ہوئی فضا میں ٓاپ کے لیے مواقع بھی بڑھاتا ہے۔
اداسی سے دل بجھ جاتا ہے اور انسان حوصلہ ہارنے لگتا ہے یا پھر اس کی بدولت ٓاپ
اپنی ترجیحات نئے سرے سے مرتب کرسکے ،ماحول اور واقع کو اپنے حق میں ہموار
کرسکتے ہیں۔
پریشانی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اور انسان اپنے مقصد سے دور ہوتا جاتا ہے یا پھر
ٓاپ اپنے مسائل کے حل پر توجہ دے سکتےہ یں ،اپنی توقعات کی درجہ بندی کرسکتے
ہیں اور حقیقت پر مبنی منصوبے بناسکتے ہیں۔
فرسٹریشن سے دل بیٹھنے لگتا ہے یا پھر ٓاپ اسے استعمال کرکے مزید بہتر کام کرسکتے
ہیں۔
اگر
لوگ ٓاپ کی سن رہے ہیں تو دل کی بات کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ اس لیے شدید ذہنی
تناؤ کے دوران اپنے پیاروں سے مدد ضرور لیجئے۔
لِن مینوئل مرنڈا نے ہر روز اپنے ٓاپ کو مثبت ٹویٹس کرتی ہے۔ انہوں نے ایک عرصے
سے صبح اور شام کا یہ معمول بنارکھا ہے اور اب اس پر ایک چھوٹی سی کتاب بھی لکھ
دی ہے۔ وہ مزاحیہ ،شگفتہ اور مثبت جملے خود کو بھیجتی ہیں۔
یہی وجہ یہ ہے کہ وہ دماغی طور پر توانا اور پرامید ہیں ۔ اس کے بعد ان کی کارکردگی
اور مسائل جھلینے کی صالحیت بھی بڑھی ہے۔ ضروری نہیں کہ ٹویٹس لوگوں کو بھیجے
جائیں بلکہ خود اپنے ٓاپ کو کئے جائیں جس کو ایک مثبت یاددہانی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اگر ٓاپ خود یہ نہیں کرسکتے یا کسی الجھن میں ہیں تو کسی قریبی دوست یا جیون ساتھی
سے کہیں کہ وہ اس میں ٓاپ کی مدد کریں اور ٹویٹس بھیجیں۔
https://www.express.pk/story/2221401/9812/
فائل فوٹو میں اٹلی میں ایک خاتوں کو ویکسین کا شاٹ لگایا جارہا ہے (فوٹو رائٹرز)
— ویب ڈیسک
یورپ کے متعدی امراض کے بچاؤ اور قابو پانے
کے ادارے نے کہا ہے کہ کووڈ نائنٹین کی ویکسین
کا عمل مکمل کرنے والے لوگوں کو فوری طور پر
اضافی بوسٹر Jشاٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
یورپین سنٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے
ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
اب تک کے شواہد کے مطابق اس وقت ویکسین کی مکمل خوراکیں لینے والے افراد کو
بوسٹر شاٹ لگانا ضروری نہیں کیونکہ ویکسین کی پہلی خوراک یا خوراکیں موثر ثابت
ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حاالت میں صحت عامہ کے نظام کی توجہ تمام اہل
یورپی شہریوں کو ویکسین کا ابتدائی عمل مکمل کرنے پر ہونی چاہیے۔
ادارے نے کہا ہے کہ اضافی خوراکیں صرف ان لوگوں کو دی جائیں جن میں قوت مدافعت
کمزور ہونے کی وجہ سے پہلی خوراک یا دو خوراکیں موثر ثابت نہیں ہوئیں۔
دوسری طرف اب تک استعمال کی جانے والی ویکسین کی قسمیں کرونا وائرس کے خالف
انتہائی موثر ثابت ہوئی ہیں اور اب تک کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین نہ
صرف کووڈ نائنٹین کے مہلک مرض سے بچاتی ہیں بلکہ ویکسین لگوانے والےافراد میں
سے اگر کوئی متاثر ہوجائے تو اس کو اسپتال میں داخلے سے بچاتی ہیں۔
رپورٹ ترتیب دینے والے ماہرین کے مطابق ان حقائق کی روشنی میں یورپی یونین کو
سوچ و بچار کرنی چاہیے کہ ویکسین کے عمل کو پورا کرنے والے لوگوں کو اضافی
بوسٹر لگانے کی بجائے ویکسین کو یورپین یونین سے باہر ان ممالک کو فراہم کیا جائے
جہاں لوگوں کو ابھی بھی اس کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ فرانس یورپی یونین کا پہال ملک ہے جس نے 65سال سے بڑی عمر کے
لوگوں کو اضافی بوسٹر شاٹس لگانے شروع کیے ہیں۔
فرانس ان لوگوں کو بھی بوسٹر انجیکشن دے رہا ہے جنہیں خرابی صحت کا سامنا ہے
تاکہ ان لوگوں کو کرونا وائرس کی انتہائی متعدی ڈیلٹا قسم سے محفوظ رکھا جا سکے۔
فرانس کا ہمسایہ ملک اسپین بھی اسی قسم کے اقدام کرنے پر غور کر رہا ہے۔
https://www.urduvoa.com/a/eu-vaccine-booster/6200741
ویب ڈیسک
ستمبر 05 2021
سائنو فارم کے کووڈ 19کے عالج کے لیے دوا کے کلینکل ٹرائل شروع کرنے کا اعالن
کیا ہے
سائنو فارم کی ویکسین تیار کرنے والی ذیلی کمپنی چائنا نیشنل بائیوٹیک گروپ (سی این
جی بی) کی جانب سے اعالن کیا گیا کہ اسے کووڈ 19کو شکست دینے والے مریضوں
کے پالزما پر مبی دوا کے کلینکل ٹرائلز کی منظوری مل گئی ہے۔اس دوا کو 2021چائنا
انٹرنیشنل فییئر فار ٹریڈ ان سروسز (سی آئی ایف ٹی آئی ایس) کے دوران پیش کیا گیا تھا۔
کمپنی نے بتایا کہ اسے کلینکل ٹرائل کی منظوری 30اگست کو مل گئی تھی۔
نئی دوا کے ساتھ سی این جی بی نے 6نئی مصنوعات کو بھی اس موقع پر پیش کیا گیا۔
ان میں 2اپ ڈیٹڈ ویکسینز بھی شامل تھیں جن کو وائرس میں آنے والی میوٹیشنز کے
خالف مؤثر قرار دیا جارہا ہے جبکہ ایک اور کووڈ 19بھی پیش کی گئی جو مونوکلونل
اینٹی باڈی پر مشتمل تھی۔
سی این بی جی کے مطابق یہ نئی دوا کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی
بہت زیادہ مقدار پر مبنی ہے۔
تحقیقات | 87 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سی این جی بی کی جانب سے 2020کے شروع میں کووڈ کے صحتیاب مریضوں کے
عطیہ کردہ خون سے پالزما پراڈکٹس تیار کی گئی تھیں اور اس کا ماننا تھا کہ یہ کووڈ 19
سے بہت زیادہ بیمار افراد کے لیے مؤثر ترین عالج ہے۔
اسی کو مدنظر رکھ کر یہ نئی دوا تیار کی گئی ہے جس کے لیے وائرس ناکارہ بنانے والی
اینٹی باڈیز کو استعمال کیا گیا اور اسے سابقہ مصنوعات سے زیادہ مؤثر قرار دیا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اس دوا کے کلینکل ٹرائلزکا دورانیہ کتنا ہوگا اور کیا چین سے باہر
بھی اس کی آزمائش ہوگی یا نہیں۔
کمپنی کی جانب سے بھی نہیں بتایا گیا کہ کب اور کہاں کلینکل ٹرائل کا آغاز ہوگا۔
ماہرین کے مطابق یہ دوا ممکنہ طور پر کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے لیے ہوگی اور
اس کی قیمت بہت زیادہ ہوسکتی ہے ،مگر پھر بھی یہ مونوکلونل اینٹی باڈی ادویات سے
سستی ہوگی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے دیگر ادویات جیسے ایچ بی وی اور ایچ آئی وی وغیرہ کا
خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔
مگر اس حوالے سے سی این بی جی کا کہنا تھا کہ وہ عطیہ کردہ پالزما کی اسکریننگ کے
لیے سخت جانچ پڑتال کے میکنزم پر عمل کرتی ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1167715/
اس مزیدار چیز کا استعمال عادت بنانے کے فوائد دنگ کردیں گے
ویب ڈیسک
ستمبر 05 2021
یہ پھل قدرتی اجزا سے بھرپور ہوتا ہے جس میں موجود پانی بھی صحت کے لیے بہت
مفید ہوتا ہے۔
اس پانی کے بیشتر طبی فوائد کی وجہ اس میں الیکٹرولیٹس کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ
سے ہوتے ہیں جس میں پوٹاشیم ،کیلشیئم اور میگنیشم جیسے منرلز بھی موجود ہیں۔
اس کے فوائد درج ذیل ہیں۔
مسلز کے افعال مستحکم کرے
پوٹاشیم ایک ایسا ضروری منرل اور الیکٹرولیٹ šہے جس کی ضرورت انسانی جسم کو
مسلز کے افعال کے لیے ہوتی ہے۔ناریل کے پانی میں اس اہم غذائی جز کی موجودگی
مسلز کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
ہڈیوں کی صحت کے لیے معاون
ایک کپ ناریل کے پانی میں 19.2ملی گرام کیلشیئم ہوتا ہے اور بیشتر افراد بہت کم مقدار
میں کیلشیئم کو جزوبدن بناتے ہیں جس کا نتیجہ ہڈیوں کے مسائل کی شکل میں نکلتا ہے۔
ان مسائل میں ہڈیوں کی کثافت گھٹ جانا اور ہڈیاں کمزور ہونا قابل ذکر ہے جو آسانی سے
ٹوٹ جاتی ہیں۔یہ ان افراد کے لیے بہترین مشروب ہے جن کو دودھ پینا زیادہ پسند نہیں
ہوتا۔
جسمانی افعال ریگولیٹ کرے
ملی لیٹر ناریل کے پانی میں 6ملی گرام میگنیشم موجود ہوتا ہے ،میگنیشم جسم کے 100
متعدد افعال بشمول پروٹین بنانے ،بلڈ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر لیول ریگولیٹ کرنے ،مسلز
اور اعصاب کے افعال کا انتظام سنبھالنے کا کام کرتا ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167759/
ویکسینز کی افادیت میں کمی ڈیلٹا کے پھیالؤ اور ماسک کے استعمال نہ
کرنے کا نتیجہ قرار
ویب ڈیسک
ستمبر 05 2021
فائزر/بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیار کردہ ایم آر این اے ویکسینز کی افادیت وقت کے
ساتھ کم ہوگئی جس کی جزوی وجہ فیس ماسک کے استعمال پر پابندی ختم ہونا اور کورونا
کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کا پھیالؤ ہے۔
یہ بات طبی جریدے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین
کی ٹیم کے لکھے خط میں بتائی گئی۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو (یو سی ایس ڈی) کے ماہرین کی ٹیم کی جانب سے
یونیورسٹی کے طبی ورکرز میں ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
محققین نے بتایا کہ مارچ سے جون 2021کے دوران ویکسین کی افادیت عالمات والی
بیماری سے تحفظ کے لیے 90فیصد سے زیادہ تھی مگر جوالئی میں یہ گھٹ کر 64
فیصد تک پہنچ گئی۔
فائزر اور موڈرنا ویکسینز کے ہنگامی استعمال کی منظوری امریکا میں دسمبر 2020میں
دی گئی تھی اور یو سی ایس ڈی کے ہیلتھ ورکرز کی ویکسینیشن اسی مہینے سے شروع
ہوگئی تھی۔
محققین نے بتایا کہ ویکسینز کی افادیت میں کمی حیران کن نہیں ،کلینکل ٹرائل کے ڈیٹا سے
مکمل ویکسینیشن کے کئی ماہ بعد افادیت میں کمی کا عندیہ دیا گیا تھا۔
ٰ
انہوں نے کہا کہ مگر ہمارے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کی قسم ڈلٹا کے پھیالؤ
کے باعث معمولی عالمات والی بیماری کے خالف ویکسینز کی افادیت مکمل ویکسینیشن
کے بعد 6سے 8ماہ کے بعد نمایاں کمی آئی۔
دسمبر میں امریکا میں کورونا وائرس کی وبا بہت تیزی سے پھیل رہی تھی اور کیلیفورنیا
یونیورسٹ کے ورکز کے لیے ویکسین کی 2خوراکوں کا استعمال شروع ہوا تھا جبکہ ٰ
مارچ میں 76ویکسین ورکرز کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی اور یہ شرح جوالئی تک
83فیصد تک پہنچ گئی۔
مارچ سے جون کے درمیان ویکسنیشین کی شرح میں کمی آئی تھی اور متعدد طبی ورکرز
کی جانب سے کووڈ کی کم از کم ایک عالمت اور مثبت ٹیسٹ کو رپورٹ کیا گیا تھا۔
ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جنوری اور فروری میں ویکسینیشن مکمل کرانے والے
افراد کے کیسز کی تعداد مارچ میں ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں جوالئی کے
مہینے میں سب سے زیادہ تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جون سے جوالئی کے دوران ویکسین کی افادیت میں ڈرامائی تبدیلی
مختلف عناصر کے امتزاج کا نتیجہ تھی ،ایک ڈیلٹا قسم کا ابھرنا ،وقت کے ساتھ ویکسین
کی افادیت میں کمی اور فیس ماسک کا الزمی استعمال ختم ہونے برادری میں وائرس کے
پھیالؤ کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مختلف اقدامات جیسے چار دیواری کے اندر
فیس ماسک کا استعمال اور دیگر پر عملدرآمد ضروری ہے جبکہ ویکسینیشن کی شرح میں
اضافے پر بھی کام ہونا چاہیے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167769/
ویب ڈیسک
ہفتہ 4 ستمبر2021
یہ قمیض نرم اور لچک دار کپڑے سے بنی ہے جو کئی گھنٹوں تک اپنے پہننے والے کی
دھڑکنیں ریکارڈ کرسکتی ہے۔ (فوٹو :رائس یونیورسٹی)
ہیوسٹن ،ٹیکساس :امریکی سائنس دانوں نے لچک دار کاربن نینو فائبر استعمال کرتے
ہوئے ایک ایسی قمیص ایجاد کرلی ہے جو اپنے پہننے والے کے دل کی دھڑکنوں پر
مسلسل نظر رکھ سکتی ہے۔
یہ ’ذہین قمیص‘ رائس یونیورسٹی کے ماہرین کی قیادت میں کئی امریکی جامعات کے
اشتراک سے تقریبا ً دو سال میں تیار کی گئی ہے۔
ریسرچ جرنل ’’نینو لیٹرز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق،
اس ذہین قمیص کی تیاری میں سب سے بڑا چیلنج نینومیٹر جتنے چوڑے ،لچک دار کاربن
ریشوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لپیٹ کر ایک ایسا دھاگہ تیار کرنا تھا جس میں سے
بجلی گزر سکے اور اسے لباس کی سالئی میں استعمال بھی کیا جاسکے۔
اس مقصد کےلیے بال سے بھی زیادہ باریک ،صرف 22مائیکرومیٹر جتنی چوڑائی والے
سات کاربن ریشوں کو ایک دوسرے کے گرد بل دے کر ان کے بنڈل بنائے گئے ،اور پھر
ایسے تین بنڈلز کو ٓاپس میں لپیٹ کر کاربن نینو فائبر واال دھاگہ تیار کیا گیا۔
زگ زیگ پیٹرن کی طرز پر اس نینو فائبر دھاگے کو قمیص کے ساتھ سی دیا گیا۔ اس
طرح تیار ہونے والی ٹی شرٹ ایک ادھیڑ عمر رضاکار کو پہنا کر اس کی دل کی
دھڑکنوں پر کئی گھنٹوں تک مسلسل نظر رکھی گئی۔
بینگن ایک ایسی سبزی ہے جسے بہت کم لوگ پسند کرتے ہیں اور اس کی افادیت سے
متعلق بھی بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں اسی لیے اسے نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ بینگن
ویب ڈیسک
پير 30 اگست 2021
یہ تین خوراکوں والی کووڈ 19ویکسین ہے جس کا کورس 60دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔
(فوٹو :چائنیز میڈیا)
بیجنگ :چین میں تیار کردہ نئی ویکسین ’’زیفی ویکس‘‘ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ
یہ کورونا وائرس کی تمام اقسام کے خالف 82فیصد ،جبکہ خطرناک ڈیلٹا ویریئنٹ کے
خالف بھی 77فیصد مؤثر ہے۔
یہ نتائج وسیع پیمانے کی اُن طبّی ٓازمائشوں سے حاصل ہوئے ہیں جو چین اور پاکستان
کے عالوہ ازبکستان ،انڈونیشیا اور ایکواڈور میں 28500افراد پر کی گئی ہیں۔
ان نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ناول کورونا وائرس ’’الفا ویریئنٹ‘‘ šکے خالف اس ویکسین
کی اثر پذیری 93فیصد جبکہ اب تک سامنے ٓانے والی ،کورونا وائرس کی تمام اقسام کے
خالف 82فیصد ہے۔
البتہ ،یہ کورونا وائرس کی سب سے خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والی قسم ’’ڈیلٹا
ویریئنٹ‘‘ کے خالف بھی 77فیصد مؤثر ثابت ہوئی ہے ،جو ایک اہم کامیابی ہے۔
زیفی ویکس تین خوراکوں والی کورونا ویکسین ہے :پہلی خوراک کے 30دن بعد دوسری
اور مزید 30دن بعد تیسری خوراک لگائی جاتی ہے۔
چین اور ازبکستان میں زیفی ویکس کی صنعتی پیمانے پر تیاری کے عالوہ اس کا استعمال
بھی شروع کردیا گیا ہے۔
ذرائع ابالغ کے مطابق ،چین اور ازبکستان کی حکومتیں زیفی ویکس کو استعمال کےلیے
مارچ 2021میں منظور کرچکی ہیں اور اب تک دونوں ملکوں میں اس ویکسین کی 10
کروڑ سے زیادہ خوراکیں لگائی جاچکی ہیں۔
ویب ڈیسک
پير 30 اگست 2021
امراض قلب اور فالج سے دور رہتے ہیں۔
ِ سبزے کے قریب رہنے والے افراد دماغی تناؤ،
میامی :اگر ٓاپ کے گھر کے دائیں اور بائیں سبزہ اور درختوں کی بڑی تعداد ہے تو اس
ض قلب سے دور رہیں گے اور ساتھ ہی ٓاپ کا امر کا قوی امکان ہے کہ ٓاپ فالج اور امرا ِ
موڈ بھی بہتر Jرہےگا۔
اس بات کا انکشاف ایک اہم تحقیق سے ہوا ہے جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گھر کے
امراض قلب اور فالج کا خطرہ کم ہوتا بلکہ دوسری
ِ اطراف درخت ،پودے اور گھاس سے
تحقیق کے مطابق بڑھتے ہوئے نوعمر (ٹین ایج) بچوں کی ذہنی اور دماغی صحت بھی
بہتر رہتی ہے۔
جامعہ میامی کے پروفیسر نے اپنی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ ’ ٓاپ کے دائیں بائیں جتنا
زیادہ سبزہ ہوگا دل کی بیماریوں اور عمر بھر کے لیے معذور کردینے والے فالج کا خطرہ
اتنا ہی کم ہوجائے گا۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سبزے سے انسانوں پر مثبت
اثرات کا یہ تعلق صرف پانچ سال سے کم عرصے میں قائم ہوجاتا ہے جو ایک خوش ٓائند
‘،بات ہے
اس لیے بہت ضروری ہے کہ سڑکوں اور خالی جگہوں پر درخت اور سبزہ لگایا جائے۔
اس تحقیق کا ایک بنیادی مقصد تھا جس کے تحت سبزے اور دل کے امراض کے درمیان
تعلق کو معلوم کرنا تھا۔ اس کے لیے ماہرین نے کئ برس تک مختلف مقامات پر سروے
کیا۔
اس تحقیق میں 243,558ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کی عمرین 65برس یا اس سے
زائد تھیں۔ یہ سارے لوگ میامی کے ایک مخصوص عالقے میں پانچ سال تک ایک ہی
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بالوں میں سفیدی کو کھلے دل سے قبول کرتے
ہیں اس کے برعکس 75سے 80فیصد لوگ بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے
مخصوص رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔
اس میدان میں ماہرین کی مہارت کا استعمال بالوں کا صحیح رنگ منتخب کرنے اور
مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس فیلڈ کے ماہرین بالوں کے رنگ کا
تعین کرنے میں مدد کرتے ہیں جو جلد کے رنگ سے ملتے ہیں۔
وہ متوقع نتیجہ حاصل کرنے کی ضمانت دیتے ہیں ،اس کے ساتھ بالوں کی دیکھ بھال کا
طریقہ کار بھی بتاتے ہیں جس کے بعد بالوں کی رنگت میں استحکام رہتا ہے۔
بالوں کا رنگ ہلکا کرنا ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے اس کے لیے ماہرین کی مہارت کی
ضرورت ہے۔ گھر پر لگانے سے بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر بالوں کا
رنگ دو ڈگری سے زیادہ ہلکا ہو جائے تو نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
جلد کے رنگ اور آنکھوں کے ساتھ بالوں کے رنگ کا میچ Jنہ ہونا
بالوں کا قدرتی رنگ عام طور پر جلد اور آنکھوں کے رنگ جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی
قسم کی تبدیلی مسئلے کا باعث بنتی ہے اور نتائج کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
تحقیقات | 103 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بالوں کے رنگ کا ناقص انتخاب جلد کو پھیکا یا بے جان بنا سکتا ہےجبکہ آنکھوں کو تھکا
ہوا اور چمک سے خالی بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عام اصول یہ ہے کہ ہلکی جلد ہلکے
رنگ کے بالوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور سیاہ جلد سیاہ بالوں کے ساتھ مطابقت
رکھتی ہے۔
عارضی بالوں کا رنگ منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مستقل نہیں رہے گا اور یہ
بالوں کے بار بار دھونے سے غائب ہو جاتا ہے لہذا اسے مستقل رنگ میں چھپانے کی
ضرورت ہے۔
مہندی کا سہارا لینا
مہندی کو قدرتی اجزا میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو بالوں کا رنگ بدلنے میں مدد کرتا
ہے لیکن اس فیلڈ میں تجربے کی کمی کی صورت میں اس کا اطالق پیچیدہ ہے اور اس
تحقیقات | 104 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کی درخواست میں آسانی کی وجہ سے اسے نیم مستقل رنگنے کے ساتھ تبدیل کرنے کا
مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس میدان میں ماہرین کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہیئر
ڈریسنگ سیلون میں مہندی لگائی جا سکتی ہے۔
بالوں پر رنگ لگاتے وقت ان کی حالت کو نظر انداز کریں
خراب اور بے جان بالوں کو رنگنا ایک مشکل کام ہے۔ چاہے وہ عارضی ہو یا مستقل۔ اس
معاملے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بالوں کو رنگنے سے پہلے ان کی حالت کو
بہتر بنایا جائے اور یہ کام ہیئر ڈریسنگ سیلون کے ماہرین کو تفویض کیا جائے خاص
طور پر رنگے ہوئے بالوں کی صورت میں جو رنگ میں نئی تبدیلی التے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/hair-color-precautions-health-tips/
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران یوگا کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے اس حوالے سے
کی گئی تحقیق نے نہ صرف یوگا کے بہت سے فوائد کو ثابت کیا ہے بلکہ شعبہ طب سے
وابستہ افراد اور دیگر اہم شخصیات بھی اس ناقابل یقین مشق کو اپنانے اور تجویز
کررہی ہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف یوگی منور حسن
نے بتایا کہ یوگا کرنا انسان کو طویل عمر تک جوان ،متحرک اور صحتمند رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یوگا ٓاپ کی ذہنی صحت کا بھی بہت خیال رکھتا ہے ،یوگا کے فوائد میں
آنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یوگا واقعی کیا ہے؟
منور حسن نے بتایا کہ یوگا دماغ مین موجود اسٹریس ہارمونز کو کم کرتا ہے ،اس کے
عالوہ سانس لینے کی ورزش بھی بہت اہمیت کی حامل ہے
https://urdu.arynews.tv/chair-yoga-health-tips-bakhabar-savera/
ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا نہ صرف جسمانی صحت کے لیے بے حد
فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے ،بلکہ ذہنی صحت کی بہتری
کے لیے بھی ضروری Jہے۔
ویب ڈیسک
امریکی ماہرین نے حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کرونا کی نئی اقسام ویکسین یا
قدرتی طریقے سے جسم میں بننے Jوالے مدافعتی ردعمل کو نمایاں طور پر کم کردیتی
ہیں۔
ٰ
دعوی کیا ہے ،ماہرین امریکی اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی طبی تحقیق میں یہ
نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ویکسنیشن کرانے والے یا کووڈ کو شکست دینے والے افراد
کے خون کے نمونوں پر کورونا وائرس کی 2بہت زیادہ متحرک اقسام کی آزمائش کی
گئی ہے۔
تحقیق سے پتہ چال ہے کہ کورونا کی قسم ایلفا اور بیٹا کے سامنے فائزر کی ویکسین
استعمال کرنے یا ماضی میں بیماری سے متاثر ہونے والے 100کے قریب افراد کے خون
کے نمونوں میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح گھٹ گئی اور بیٹا قسم کے
باعث اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے مقابلے میں 9گنا کمی دیکھنے میں ٓائی۔
نتائج سے پتہ چال ہے کہ نئی اقسام کے خالف وائرس سے ملنے والے تحفظ کی شرح میں
کمی آتی ہے خاص طور پر 50سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں اینٹی باڈیز کی
سطح گھٹ جاتی ہے جو تشویشناک بات ہے لہذا ضروری ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی
وائرس سے بچاؤ کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔
محققین نے کہا کہ امریکی کمپنی فائزر کی تیار کردہ ویکسین وائرس کی نئی اقسام کے
خالف تحفظ فراہم کرنے میں مؤثر ثابت ہورہی ہے لیکن مستقبل میں ویکسین کی بوسٹر
ڈوز لگوانے کی ضرورت پیش ٓائے گی اور احتیاطی تدابیر پر عمل درٓامد مستقل کرنا پڑے
گا۔
https://urdu.arynews.tv/terrible-discovery-of-new-species-of-corona/
جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس
میں متعدد تشیشناک میوٹیشنز موجود ہیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق سی 1.2نامی اس نئی قسم کو
سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقہ کے 2صوبوں ماپوماالنگا اور خاؤٹنگ میں دریافت
کیا گیا تھا۔
کورونا کی یہ قسم اب تک افریقہ ،اوشیانا ،ایشیا اور یورپ کے 7دیگر ممالک میں بھی
دریافت کی جاچکی ہے۔
سائنسدانوں نے بتایا کہ کورونا کی اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز زیادہ تیزی سے
پھیلنے اور اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت جیسی صالحیتوں سے منسلک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ یہ نئی قسم تشویشناک میوٹیشنز کے مجموعے پر مبنی
ہے۔
کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث اس کی قسم ڈیلٹا نمودار ہوئی جسے سب
سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا ،جو اب دنیا بھر میں باالدست قسم بنتی جارہی
ہے۔
عام طور پر وائرس کی نئی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز کے مدنظر عالمی ادارہ صحت
کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
تحقیقات | 110 جلد ، ۵شمارہ ۳۰ | ۱۴۰اگست ۲۱۔ ۵ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اگر وہ زیادہ متعدی یا بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث ثابت ہو تو انہیں تشویشناک اقسام
میں شامل کردیا جاتا ہے۔
سی 1.2جنوبی افریقہ میں 2020کی وسط میں کورونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی
قسم سی 1میں تبدیلیوں سے ابھری ہے۔
کوازولو نیٹل ریسرچ انوویشن اینڈ سیکونسنگ پلیٹ فارم اور نیشنل انسٹیٹوٹ فار
کمیونیکیبل ڈیزیز کی مشترکہ تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں بتایا گیا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جنوبی افریقہ میں 2020کے آخر میں بیٹا ورژن کو بھی
دریافت کیا گیا تھا۔
کورونا کی اس قسم کے باعث جنوبی افریقہ میں وبا کی دوسری لہر کے دوران کووڈ کے
سنگین کیسز کی تعداد پہلی لہر کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی۔
قطر میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کورونا کی قسم بیٹا سے
متاثر ہوتے ہیں ،ان میں ایلفا سے بیمار افراد کے مقابلے میں بیماری کی شدت زیادہ سنگین
ہونے امکان 25فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق بیٹا کے مریضوں کے لیے آئی سی یو نگہداشت کا امکان 50فیصد اور
موت کا خطرہ 57فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ بیٹا ویکسینز اور بیماری سے پیدا
ہونے والی مدافعت کے خالف دیگر اقسام بشمول ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت کرتی
ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1167326/
ہیں ،انہی مسالوں میں ہرے مسالے میں شمار کی جانے والی ہری مرچ کے استعمال سے
صحت پر بے شمار فوائد طبی حاصل ہوتے ہیں جن سے متعلق جاننا اور ہری مرچ کا
استعمال کرنا الزمی ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق ہری مرچ صحت کے لیے بہترین اور اینٹی ٓاکسیڈنٹ
خصوصیات کی حامل ہے ،غذائیت سے بھر پور ہری مرچ میں مالٹے کے مقابلے میں 6
گنا زیادہ وٹامن سی پایا جاتا ہے ،اس کے عالوہ وٹامن اے ،بی ،2بی ،6نیاسن اور فولک
ایسڈ بھی بھرپور مقدار میں ہری مرچ میں موجود ہے جو کہ انسانی جسم کے لیے ناگزیر
بنیادی اجزا ہیں۔
ہری مرچ میں کیپسیسن کیمیکل کمپأونڈ کی بھر پور مقدار پائی جاتی ہے جس کے سبب
اس کا ذائقہ ترش محسوس ہوتا ہے ،ماہر غذائیت کا کہنا ہے کہ صحت مند اور وزن میں
کمی النے کے لیے ہری مرچ کو اپنی روزانہ کی غذا کا حصہ بنالیں ،اسے تل کر یا سالد
کے طور پر کئی طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ہری مرچ کے استعمال سے حیران کن طبی فوائد جنہیں جاننے کے بعد ٓاپ بھی ہری مرچ
:کھانے پر مجبور ہو جائیں گے
غذائی ماہرین کے مطابق ڈائٹری فائبر سے بھرپور ہری مرچ نظام ہاضمہ کو بہتر بناتی
ہے۔
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن سی ،ای او ر اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزاء کی موجودگی کے
باعث ہری مرچ کے استعمال سے جلد صاف شفاف چمکدار ہو جاتی ہے۔