You are on page 1of 109

‫ہفتہ وار‬

‫ویکلی‪– Vol. 5‬‬

‫تحقیقات‬
‫طط ّب ّبیی تحقیقات‬
‫‪Managing‬‬

‫ِِ‬
‫‪Issue 138‬‬ ‫‪Editor‬‬
‫تحقیقات‬ ‫‪21 - 22 August 2021‬ویکلی طِ ّبی‬
‫‪16 August‬‬
‫کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال‬
‫پبلی‪Mujahid‬‬ ‫عثمان‪Ali‬‬
‫ہے!قدرکیجئےوارجریدہ‬
‫ہفتہ‬ ‫ٰ‬
‫عظمی‬ ‫صحت نعمت‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬
‫جلد ‪،۵‬شمار ‪۱۳۷‬‬
‫اگست ‪ ۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪۱۶ ۲۰۲۱‬‬

‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ت‬
‫حق ق‬
‫طِب ّی ی ات‬

‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سرپرست‪:‬محمدعثمان‬
‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬
‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری‬
‫اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں‬
‫تقریبا پورے پاکستان میں اسکی سرکولیشن کی جاتی‬
‫ہے اورآپکے کاروبار‪ ،‬پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ‬
‫ادارتی ممبران‬
‫کابہترین ذریعہ ہے‬

‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬


‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬
‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیل‬
‫بھارت کی ملکی ساختہ ایک اور ویکسین‪ ،‬ہنگامی استعمال کے لیے‬
‫منظور‬

‫بھارت کے ادویات کے نگران ادارے نے ایک اور ویکسین کی ہنگامی بنیادوں پر استعمال‬
‫کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ یہ ویکسین بھی ایک بھارتی دوا ساز ادارے نے تیار‬
‫کی ہے۔‬
‫‪    ‬‬

‫نے تیار کیا )‪ (Zydus Cadila‬اس نئی ویکسین کو ایک فارماسوٹیکل کمپنی زیڈس کاڈیال‬
‫ہے۔ اس کی منظوری بھارت کے محکمہ بائیوٹیکنالوجی نے دی ہے۔ اس کمپنی نے یہ‬
‫دعوی بھی کیا ہے کہ یہ ویکسین دنیا کی پہلی ڈی این اے (ڈی ٓاکسی رائبونیوکلیئک ایسڈ)‬ ‫ٰ‬
‫پر تیار کی گئی ہے۔‪  ‬قبل ازیں فائزر بائیو این ٹیک اور موڈیرنا نامی ویکسینوں کی تیاری‬
‫میں ٓار این اے (رائبو نئوکلیئک ایسڈ) کا استعمال کیا گیا تھا۔‬
‫ایک منفرد ویکسین‬
‫ڈی این اے (ڈی ٓاکسی رائبونیوکلیئک‪ Q‬ایسڈ) پر تیار کی گئی یہ منفرد ویکسین بارہ برس‪ ‬‬
‫‪ (ZyCoV-‬سے بڑی عمر کے بچوں کو بھی لگائی جا سکتی ہے۔ اس کا نام زیکو وی ڈی‬
‫رکھا گیا ہے۔ یہ ویکسین انجیکشن کے بغیر بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ )‪D‬‬

‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بھارتی دوا سازاداروں نے اب تک چھ ویکسینیں تیار کی ہیں‬


‫اس مناسبت سے دواساز کمپنی گزشتہ چند ہفتوں سے اس ویکسین کے انسانوں پر ٓازمائشی‬
‫ٹیسٹ جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس ٓازمائشی عمل کی تکمیل پر ہی بھارت کے‬
‫بائیوٹیکنالوجی کے مرکزی محکمے نے اس کی ہنگامی ضرورت کے تحت استعمال کی‬
‫اجازت دی ہے۔‬
‫تین خوراکوں والی ویکسین‬
‫زیکو وی ڈی کی کم سے کم تین خوراکیں دینا ضروری ہے۔ جب یہ دی جاتی ہے تو یہ‬
‫انسانی جسم میں 'سارس کوو ٹو‘ وائرس کے انسداد کے حامل پروٹین میں اضافہ کر دیتی‬
‫ہے اور یہ اضافہ انسان کے مدافعتی نظام کو تقویت دیتا ہے۔‬
‫یہ امر اہم ہے کہ بھارتی محکمہ بائیوٹیکنالوجی اس ویکسین کی تیاری میں دوا ساز ادارے‬
‫زیڈس کاڈیال کا پارٹنر بھی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ ویکسین کسی بھی وائرس کے متغیر‬
‫یا ویریئنٹ کے خالف بھی اثر پذیر ہو گی۔ بھارت میں حالیہ مہینوں میں ڈیلٹا ویرئینٹ نے‬
‫انسانی بستیوں میں تباہی پھیال دی تھی۔‬

‫چھ میں سے زیادہ ویکسینیں بھارتی دوا ساز کمپنی 'بھارت بائیوٹیک‘ تیار کر رہا ہے‬
‫چھٹی ویکسین‬
‫بھارت میں تیار کی جانے والی زیکو وی ڈی چھٹی ویکسین ہے۔ قبل ازیں بھارتی حکومت‬
‫موڈیرنا‪ٓ ،‬اکسفورڈ ایسٹرا زینیکا (کوی شیلڈ)‪ ،‬کوویکسین کی ہنگامی ضرورت‪ Q‬کے تحت‬
‫استعمال کی باضابطہ اجازت دے چکی ہے۔ یہ تمام ویکسینیں بھارتی دوا ساز کمپنی‬
‫'بھارت بائیوٹیک‘‪  ‬غیر ملکی فارماسوٹیکل کمپنیوں سے اجازت یا الئسینس حاصل کرنے‬
‫کے بعد تیار کر رہا ہے۔ ان کے عالوہ روس کی ویکسین اسپٹنک فائیو اور جانسن اینڈ‬
‫جانسن کی بھی منظوری دی جا چکی ہے‬
‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫بھارت میں ویکسینیشن‬


‫بھارت اب تک پانچ سو سینتالیس ملین ویکسین کی خوراکیں ملکی ٓابادی کو فراہم کر چکا‬
‫وسط جنوری میں‬
‫ِ‬ ‫ہے۔ اس ملک میں وسیع پیمانے پر ویکسین لگانے کا سلسلہ رواں برس‬
‫شروع کیا گیا تھا۔‬

‫بھارت اب تک پانچ سو سینتالیس ملین ویکسین کی خوراکیں ملکی ٓابادی کو فراہم کر چکا‬
‫ہے‬
‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اربوں خوراکیں دینے کے بعد اب بھارت میں کووڈ انیس بیماری کی صورت حال قدرے‬
‫بہتر ہوئی ہے۔ کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس سے بھارت میں ہونے‬
‫والی ہالکتیں چار الکھ تینتیس ہزار سے متجاوز ہو چکی ہیں۔‬
‫ع ح‪ /‬ع ٓا (اے ایف پی)‪ ‬‬
‫‪‬‬ ‫تاریخ‪21.08.2021 ‬‬
‫‪https://www.dw.com/ur/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%D8‬‬

‫’سالماتی فارمنگ‘ سے پودوں میں کم خرچ اور بہتر ویکسین تیار کی‬
‫جاسکے گی‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬پير‪ 16  ‬اگست‪2021  ‬‬

‫کینیڈا کے دو ماہرین نے تمباکو کےپودوں میں کووڈ ‪ 19‬ویکسین سازی پر تجربات شروع‬
‫کرنےکا عالن کیا ہے جسے سالماتی فارمنگ کا نام دیا گیا ہے‬

‫کوبیک‪ :‬سائنسدانوں نے پودوں کے اندر ویکسین کے لیے ضروری[ پروٹین اور خام مال‬
‫تیارکرنے میں اہم پیشرفت کا اعالن کیا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پھلوں‪ ،‬سبزیوں اورپودوں میں حفاظتی ویکسین پر ایک عرصے سے کام جاری ہے۔‬
‫ٹرانسجینک عمل کی بدولت ایک دن یہ بھی ٓاسکتا ہے کہ بچوں کو چھ حفاظتی ٹیکوں کی‬
‫بجائے چھ کیلے کھالنے سے بھی ویکسینیشن کا عمل پورا ہوجائے۔ ایسی ہی ایک خبر‬
‫کینیڈا سے بھی موصول ہوئی ہے۔‬
‫کوبیک میں واقع یونیورسٹی ٓاف الول کے پروفیسر گیری کوبنجر اور ہیوز فاؤسٹر بووینڈو‬
‫نے اپنی برسوں کی تحقیق جرنل سائنس میں پیش کی ہے‪  ‬جس میں ’سالماتی فارمنگ‘‬
‫(مالیکیولر فارمنگ) کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ اس کی بدولت پودوں میں بعض جینیاتی‬
‫تبدیلیاں کرکے انہیں ویکسین کے لیے اہم اجزا اور پروٹین تیار کرنے کے قابل بنایا جاتا‬
‫ہے اور اسے کم خرچ اور مؤثر تدبیر کے طور پر پیش کیا ہے۔‬
‫عموما ً ہم بیکٹیریا اور یوکیریوٹک‪ Q‬طریقہ کار سے بہت ہی مؤثر ویکسین تیار کررہے ہیں۔‬
‫لیکن ان کی تیاری پر بہت خرچ اٹھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پودوں اور سبزے سے‬
‫ویکسین سازی ایک بہت کم خرچ نسخہ بھی ثابت ہوگا اور ان کے لیے بہت زیادہ وسائل‬
‫کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔‬
‫ایک اور تحقیق بتاتی ہے کہ پودوں سے بنی ویکسین عام ویکسین کے مقابلے میں بہت‬
‫زیادہ امنیاتی طاقت رکھتی ہے۔ بلکہ پودوں میں ان کی بہت زائد مقدار تیار کی جاتی ہے۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پودوں کی سبزیوں اور پھلوں کو کھاکر اسے ویکسینیشن کا عمل‬
‫کہا جاسکتا ہے۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی ایف ڈی اے نے پودوں سےبنی ایک ویکسین کی منظوری‬
‫دی ہے جو گوشر مرض کے خالف کامیابی سے استعمال ہورہی ہے۔ اسی طرح کورونا وبا‬
‫سے پہلے بھی پودوں سے تیارکردہ انفلوئنزا ویکسین فیز تھری کلینکل ٹرئلز کا حصہ بنی‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫اب تازہ خبر یہ ہے کہ ان سائنسدانوں نے کینیڈا کی ادویہ ساز کمپنی میڈیکیگو کے تعاون‬
‫سے تمباکو کےپودے میں کووڈ ویکسین تیار کرنے کا کام شروع کیا ہے جس سے دو‬
‫خوراکوں والی ویکسین پودے میں تالیف کی جائے گی۔ پودا کورونا وائرس جیسے ذرات‬
‫کی تشکیل کرے گا۔ انہیں وائرس الئک پارٹیکلز یا وی ایل پی کا نام دیا گیا ہے تاہم یہ‬
‫مرض نہیں پھیالئیں گے کیونکہ ان میں جینیاتی مواد نہیں ہوگا۔ اس طرح پودوں کے خام‬
‫مال سے ویکسین سازی میں پیشرفت ممکن ہوگی۔ تاہم اس کام میں ایک عرصہ لگ سکتا‬
‫ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2213671/9812/‬‬

‫درمیانی عمر میں موٹاپے کی وجوہات نے سائنس دانوں کو حیران‬


‫کردیا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگست ‪16 2021‬‬

‫جسم کا اضافی وزن اور توند ویسے تو کئی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے مگر حال ہی‬
‫میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موٹاپا عارضہ قلب میں مبتال ہونے کی سب سے بڑی‬
‫وجہ ہے‪ ،‬اب سائنس دانوں نے درمیانی عمر میں توند نکلنے کی وجہ طرز زندگی‬
‫(ورزش اور غذا کا خیال نہ رکھنا) ہے۔‬
‫ڈیوک یونیورسٹی میں ہونے والی حالیہ تحقیق میں سانئس دانوں نے انسانوں کی پوری‬
‫زندگی میں میٹابولزم ریٹ کا تجزیہ کیا ہے۔‬
‫میٹابولزم کی یہ حیرت انگیز رفتار اس وقت تک رہتی ہے جب تک بچہ ‪ 2‬سال کا نہیں‬
‫ہوجاتا‪ ،‬مگر پھر ہر سال اس کی رفتار میں ‪ 3‬فیصد کمی آتی ہے اور یہ بتدریج کمی کا‬
‫سلسلہ بلوغت تک جاری رہتا ہے اور ‪ 20‬سال کے قریب مستحکم ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ‪ 20‬سے ‪ 60‬سال کی عمر تک میٹابولزم افعال ایک شرح میں‬
‫مستحکم رہتے ہیں اور جب انسان کی عمر ‪ 60‬برس ہوجاتی ہے تو غذائی کیلوریز بھی‬
‫جلنا شروع ہوجاتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 29‬ممالک کے ‪ 6‬ہزار ‪ 600‬سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی‬
‫عمریں ایک ہفتے سے ‪ 95‬سال کے درمیان تھیں۔‬
‫محققین نے میٹابولزم کے بارے میں تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پوری زندگی‬
‫خلیات کے افعال میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/causes-of-obesity-in-middle-age-have-puzzled-‬‬
‫‪scientists/‬‬

‫سائنسدانوں کا بڑا کارنامہ! لعاب دہن سے ایک گھنٹے میں کرونا کی‬
‫تشخیص ممکن‬
‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 16 2021‬‬

‫واشنگٹن ‪ :‬امریکی سائنس دانوں نے لعاب دہن سے کرونا ٹیسٹ کی تشخیص کرنے والی‬
‫منفرد ڈیوائس تیار کرلی جو محض ایک گھنٹے میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص کرسکتی ہے۔‬
‫یہ ڈیوائس میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور ہارورڈ یونیورسٹی کے‬
‫انجنیئرز نے تیار کی ہے‪ ،‬جس کی تشخیص پی سی ٓار ٹیسٹ جتنی ہی درست کی جاسکتی‬
‫ہے۔‬
‫محققین کے مطابق اس ڈیوائس کو کورونا وائرس میں ہونے والی مخصوص وائرل‬
‫میوٹیشنز کی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی یہ ڈیوائس ڈیلٹا ویرینٹ‬
‫اور دیگر کئی اقسام کی شناخت بھی کرسکتی ہے۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ ہم نے تحقیق میں برطانیہ‪ ،‬جنوبی افریقہ اور برازیل میں سامنے آنے‬
‫والی کورونا کی اقسام کو ہدف بنایا تھا مگر ہم نے ڈیلٹا قسم کے لیے بھی تیزی سے‬
‫مطابقت پیدا کی۔‬
‫شرلوک نامی کریسپر پر مبنی ٹول کی مدد سے تیار کی گی اس ڈیوائس پر تحقیقی ٹیم کی‬
‫جانب سے ‪ 2017‬سے کام کیا جارہا تھا۔‬
‫گزشتہ سال تحقیقی ٹیم نے کورونا وائرس کی شناخت کے لیے اس ٹیکنالوجی کو ڈھالنا‬
‫شروع کیا تاکہ تشخیص کے لیے ڈیوائس تیار کی جاسکے۔‬
‫اس مقصد کے لیے انہوں نے لعاب دہن کے نمونوں سے مدد لی تاکہ اس کو اتنا آسان بنایا‬
‫جاسکے کہ کوئی بھی اس ڈیوائس کو استعمال کرسکے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/great-achievement-of-scientists-corona-can-be-‬‬
‫‪diagnosed-in-one-hour-by-burning-saliva/‬‬

‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نیند نہ ٓانے کی وجوہات کیا ہیں؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 16 2021‬‬

‫اچھی نیند اچھی جسمانی صحت اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے بے حد ضروری ہے‪،‬‬
‫نیند کی کمی بے شمار ذہنی و جسمانی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق ہر انسان کی نیند کا دورانیہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے‪ ،‬عام‬
‫طور پر ایک شخص کی صحت کے لیے روزانہ ‪ 7‬سے ‪ 8‬گھنٹے نیند کرنا کافی ہے۔ طبی‬
‫ماہرین اس حوالے سے اہم تجاویز دیتے ہیں۔‬
‫اچانک بے خوابی کی وجوہات‬
‫بہت سے افراد میں اچانک‪ ،‬شدید یا قلیل المدتی بے خوابی ہوتی ہے جو کئی دن یا ہفتوں‬
‫تک رہتی ہے۔ ایسا عام طور پر تناؤ یا تکلیف دہ واقعات کے نتیجے میں ہوتا ہے۔‬
‫کچھ لوگوں کو دائمی یا طویل المیعاد بے خوابی بھی ہوتی ہے جو ایک مہینہ یا اس سے‬
‫زیادہ وقت تک رہتی ہے‪ ،‬بے خوابی کا تعلق ادویات یا دیگر طبی حالتوں سے بھی ہو سکتا‬
‫ہے۔‬
‫بے خوابی کی بنیادی وجوہات کا عالج کرنے سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے‪ ،‬لیکن‬
‫بعض اوقات یہ مسئلہ برسوں تک رہ سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بے خوابی کی عام وجوہات میں متعدد ایسے پہلو شامل ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگیوں‬
‫کا حصہ ہوتے ہیں‪ ،‬اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان سے مکمل پیچھا نہیں چھڑا‬
‫سکتے۔‬
‫یہ وجوہات مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں۔‬
‫تناؤ‬
‫کام‪ ،‬اسکول‪ ،‬صحت‪ ،‬معاش یا اہلخانہ کے بارے میں فکرمند رہنا دماغ کو رات کے وقت‬
‫مصروف رکھتا ہے اور یوں نیند ٓانا مشکل ہو جاتی ہے۔ تکلیف دہ زندگی کے واقعات‪،‬‬
‫جیسے کسی پیارے کی موت یا بییماری‪ ،‬طالق یا بیروزگاری بھی بے خوابی کا سبب بن‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫سفر یا کام کا شیڈول‬
‫ہمارا خود کار جسمانی سسٹم اندرونی گھڑی کا کام کرتا ہے جو نیند کو بیدار ہونے اور‬
‫جسمانی درجہ حرارت جیسی چیزوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ خودکار جسمانی سسٹم میں خلل‬
‫پڑنے سے بے خوابی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‬
‫نیند کی خراب عادات‬
‫نیند کی خراب عادات میں نیند کا غیر منظم شیڈول‪ ،‬سونے سے پہلے کی سرگرمیاں‪ ،‬نیند‬
‫کے لیے غیر ٓارام دہ ماحول‪ ،‬اور بستر کو کام کرنے‪ ،‬کھانے اور ٹی وی دیکھنے کے لیے‬
‫استعمال کرنا شامل ہے۔‬
‫بستر پر جانے سے پہلے کمپیوٹر‪ ،‬ٹیلی ویژن‪ ،‬ویڈیو گیمز‪ ،‬اسمارٹ فونز یا دیگر اسکرینز‬
‫کا استعمال ٓاپ کی نیند کے دورانیے میں مداخلت کر سکتا ہے۔‬
‫رات گئے بہت زیادہ کھانا کھانا‬
‫رات کے وقت بہت زیادہ مقدار میں کھانا بھی جسمانی طور پر بے چین کرسکتا ہے۔‬
‫بے خوابی کی دیگر وجوہات‬
‫دماغی صحت کی خرابی‪ :‬جیسے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس ٓارڈر نیند میں خلل ڈال سکتا‬
‫ہے۔ جلدی اٹھنا افسردگی کی عالمت ہو سکتی ہے۔‬
‫دوائیں لینا‪ :‬بہت سی دوائیں نیند میں مداخلت کرسکتی ہیں‪ ،‬جیسے کچھ اینٹی ڈپریشن‪ ،‬دمہ‬
‫یا بلڈ پریشر کی دوائیں وغیرہ۔‬
‫طبی حالتیں‪ :‬دائمی درد‪ ،‬کینسر‪ ،‬ذیابیطس‪ ،‬دل کی بیماری‪ ،‬دمہ‪ ،‬گیسٹرو‪ ،‬پارکنسنز اور‬
‫الزائمر کی بیماری بھی نیند کو متاثر کر سکتی ہیں۔‬
‫نیند سے متعلق عارضے‪ :‬نیند کی کمی کا مسئلہ بے خوابی کا سبب بنتا ہے۔ ٹانگوں کے‬
‫سنڈروم کی وجہ سے ٹانگوں میں تکلیف ہوتی ہے اور ان کو ہالتے رہنے کی غیر متوقع‬
‫خواہش ہوتی ہے‪ ،‬جو ٓارام بھری نیند کو روک سکتی ہے۔‬
‫کیفین اور نکوٹین‪ :‬کافی‪ ،‬چائے‪ ،‬کوال اور دیگر کیفین والے مشروبات کو دوپہر کے بعد پینا‬
‫ٓاپ کو رات کے وقت سونے سے روک سکتا ہے۔ تمباکو کی مصنوعات میں شامل نکوٹین‬
‫کا استعمال بھی نیند کو متاثر کر سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بےخوابی اور عمر‪ :‬نیند کے طریقوں میں تبدیلی ٓانے کے ساتھ ہی بے خوابی کا مسئلہ‬
‫عمر کے ساتھ زیادہ عام ہوجاتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/what-causes-insomnia/‬‬
‫النگ کوویڈ کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ نئی تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 16 2021‬‬

‫کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف عالمات کا‬
‫سامنا کرنے والے افراد کے لیے النگ کوویڈ کی اصطالح استعمال کی جاتی ہے‪ ،‬اس‬
‫حوالے سے کئی ماہ سے مسلسل تحقیقی کام جاری ہے۔‬
‫دی النسیٹ چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بچوں‬
‫میں کورونا کی طویل المیعاد عالمات نظر ٓانے کے امکان کم ہوتے ہیں۔ وہیں دیگر مطالعہ‬
‫کے مطابق بالغوں میں کووڈ ‪ 19‬کے مضر اثرات طویل عرصے تک نظر ٓاتے ہیں۔‬
‫زیادہ تر ماہرین اور ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ بالغوں کے مقابلے میں بچے کورونا‬
‫وائرس کے انفیکشن کا کم شکار ہوتے ہیں اور اگر وہ اس بیماری کا شکار ہو بھی جاتے‬
‫ہیں تو عام طور پر ان میں ہلکے انفیکشن نظر ٓاتے ہیں اور وہ جلد صحت یاب بھی ہوجاتے‬
‫ہیں۔ چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی کنگز کالج لندن کی ایک حالیہ‬
‫تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔‬
‫بالغوں میں النگ کووڈ( کووڈ کی طویل المیعاد عالمات کا سامنا کرنا) کے حوالے سے‬
‫متعدد طبی مطالعے کیے گئے ہیں لیکن حالیہ طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں‬
‫النگ کووڈ انفیکشن ہونے کے امکانات بالغوں کے مقابلے کم ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ سے متاثر بیشتر بچوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں ‪ 6‬دن کے بعد کووڈ کی‬
‫عالمات ختم ہوجاتی ہیں۔ اس مطالعے کا ڈیٹا کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کے والدین‬
‫اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی دائی ماؤں کے ذریعہ ایپ پر شیئر کردہ اعداد وشمار کی‬
‫بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔‬

‫کنگز کالج لندن کے محققین کی جانب سے کی گئی اس تحقیق کے مطابق طویل عرصے‬
‫تک کورونا وائرس کی عالمات یا مضر اثرات کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد نسبتا ً‬
‫کم ہے۔‬
‫دوسری جانب اگر ہم اسی حوالے سے کیے گئے دوسرے مطالبات کے بارے میں بات‬
‫کرتے ہیں تو بالغوں میں کووڈ ‪ 19‬کے مضر اثرات طویل عرصے تک نظر ٓاتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 5‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے ڈھائی الکھ برطانوی بچوں کو شامل کیا گیا تھا‬
‫جن میں ستمبر ‪ 2020‬سے فروری ‪ 2021‬کے دوران کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص ہوئی تھی۔ اسی‬
‫عرصے میں متاثر ہونے والے ‪ 1‬ہزار‪ 734‬بچوں میں ٓاہستہ ٓاہستہ اس بیماری کی عالمات‬
‫نظر ٓانے لگی۔ ان بچوں کے صحت یاب ہونے تک ان کی صحت کی مسلسل نگرانی کی‬
‫جاتی رہی۔‬
‫تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ان متاثرہ بچوں میں کووڈ ‪ 19‬کی عالمات محض ‪6‬‬
‫دن میں کم ہونا شروع ہوگئیں اور وہ جلد ہی صحت یاب بھی ہوگئے۔‬
‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیادہ تر بچے ‪ 4‬ہفتوں یعنی ایک ماہ کے اندر مکمل‬
‫طور پر صحت یاب ہوگئے‪ ،‬لیکن کچھ بچوں میں اس کے بعد بھی انفیکشن کی عالمات‬
‫نظر ٓائیں۔ تاہم ان عالمات کے اثرات بالغوں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔‬
‫اس مطالعے میں ایک اور بات پتہ چلی کہ وہ بچے جو کم وقت میں کورونا وائرس سے‬
‫صحت یاب ہوئے ہیں‪ ،‬ان میں انفیکشن کے مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے ہیں لیکن جن‬
‫بچوں میں انفیکشن ایک ماہ سے زائد عرصے تک نظر ٓائے ہیں وہ تھکاوٹ اور جسمانی‬
‫کمزوری کا شکار ہوئے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/long-covid-symptoms-in-child-research/‬‬

‫موڈ میں اچانک تبدیلی کیوں ہوتی ہے؟‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 16 2021‬‬

‫کچھ لوگوں کے مزاج میں اچانک تبدیلی ٓاتی ہے‪ ،‬وہ نہایت خوش دکھائی دیتے ہیں اور‬
‫پھر اچانک نہایت اداسی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‬
‫یہ ممکن ہے کہ اسے زیادہ سنجیدہ نہ لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص انتہائی خوشی کی‬
‫حالت سے مستقل اور پے در پے شدید ڈپریشن کی طرف مڑ جاتا ہے تو اس کے لیے‬
‫ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫موڈ میں تیزی سے تبدیلی کی کچھ وجوہات ذہنی صحت‪ ،‬ہارمونز یا دیگر صحت کے‬
‫حاالت سے متعلق ہوسکتی ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫موڈ میں اچانک تبدیلی کی وجوہات‬


‫ذہنی صحت کے حاالت‬
‫ذہنی صحت کے مختلف حاالت مزاج کی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں‪ ،‬جنہیں اکثر موڈ ڈس‬
‫ٓارڈر کہا جاتا ہے۔ ان میں درج ذیل شامل ہیں۔‬
‫بائی پولر ڈس ٓارڈر‬
‫کسی شخص کے جذبات انتہائی خوشی سے لے کر انتہائی اداسی تک ہو سکتے ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫بائی پولر ڈس ٓارڈر سے وابستہ مزاج میں ہونے والی تبدیلیاں عام طور پر سال میں صرف‬
‫چند بار ہوتی ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ سائیکلک بائی پولر ڈس ٓارڈر میں بھی۔‬
‫سائیکلک موڈ ڈس ٓارڈر‬
‫ڈس ٓارڈر سے ملتا جلتا ہے ‪ ،‬جس میں کسی ‪ II‬ایک ہلکا سا موڈ ڈس ٓارڈر جو بائی پولر‬
‫شخص کے جذبات اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتے ہیں لیکن دو قطبی عارضے سے وابستہ‬
‫افراد سے کم شدید ہوتے ہیں۔‬
‫میجر ڈپریشن ڈس آرڈر (ایم ڈی ڈی)‬
‫اس ڈپریشن میں مریض طویل عرصے تک بہت اداس رہتا ہے‪ ،‬ایم ڈی ڈی کو بعض اوقات‬
‫کلینیکل ڈپریشن کہا جاتا ہے۔‬
‫دائمی ڈپریشن‬
‫کہا جاتا ہے ‪ ،‬یہ ڈپریشن کی ایک دائمی شکل ہے۔ )‪ (PDD‬اسے مسلسل ڈپریشن ڈس ٓارڈر‬
‫خلل ڈالنے واال موڈ ڈس ٓارڈر (ڈی ایم ڈی ڈی)‬
‫ڈی ایم ڈی ڈی کی تشخیص عام طور پر صرف بچوں میں ہوتی ہے‪ ،‬جس میں بچے میں‬
‫چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے اور موڈ سوئنگز ہوتے ہیں۔‬

‫ہارمونل تبدیلیاں‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہارمونز مزاج میں تبدیلی کا سبب بھی بن سکتے ہیں‪ ،‬اور ان کا تعلق ان ہارمونز سے ہوتا‬
‫ہے جو دماغ کی کیمسٹری کو متاثر کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں اور خواتین میں جو حاملہ‬
‫ہیں یا جو انقطاع حیض کے مرحلے تک پہنچ چکی ہیں‪ ،‬وہ جسمانی نشونما کے اس‬
‫مرحلے سے جڑی ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے موڈ میں تبدیلی محسوس کرتی ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/mood-disorders/‬‬

‫ننھے بچے کرونا وائرس کے پھیالؤ کا سبب‬

‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  17 2021‬‬

‫کرونا وائرس بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو کم متاثر کرسکتا ہے تاہم حال ہی میں ایک‬
‫تحقیق میں اس حوالے سے نیا انکشاف ہوا ہے۔‬
‫کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چھوٹے بچوں کا نوجوانوں کے مقابلے میں‬
‫کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے تاہم اگر وہ کووڈ کے شکار ہوجائیں تو‬
‫وہ اس وائرس کو اپنے گھر کے افراد میں پھیال سکتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں اس بحث کا واضح جواب تو نہیں دیا گیا کہ بچے بھی بالغ افراد کی طرح اس‬
‫وبائی مرض کو پھیال سکتے ہیں یا وبا میں ان کا کردار ہے یا نہیں‪ ،‬مگر نتائج سے ثابت‬
‫ہوتا ہے کہ وہ بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں یکم جون سے ‪ 31‬دسمبر ‪ 2020‬کے دوران کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں‬
‫ریکارڈ ہونے والے کووڈ کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نے پھر ان گھرانوں میں‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس پہلے فرد کی شناخت کی جس میں کووڈ ‪ 19‬کی عالمات نمودار ہوئی تھیں یا وائرس کا‬
‫ٹیسٹ مثبت رہا تھا۔‬
‫بعد ازاں ایسے ‪ 6‬ہزار ‪ 820‬گھرانوں پر توجہ مرکوز کی گئی جہاں اس وائرس سے پہلے‬
‫متاثر ہونے والے مریض کی عمر ‪ 18‬سال سے کم تھی‪ ،‬جس کے بعد اسی گھر کے دیگر‬
‫افراد میں کیسز کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫ماہرین نے دریافت کیا کہ بیشتر کیسز میں وائرس کا پھیالؤ متاثرہ بچے پر رک گیا مگر‬
‫‪ 27.3‬فیصد گھرانوں میں بچوں نے وائرس کو گھر کے کم از کم ایک رکن میں منتقل کیا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 14‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے بچوں کی جانب سے وائرس کو گھر‬
‫النے کا امکان زیادہ ہوتا ہے یا کم از کم اس تحقیق میں کسی گھرانے میں سب سے پہلے‬
‫متاثر ہونے والے ‪ 38‬فیصد افراد کی عمریں یہی تھیں۔‬
‫جن گھرانوں میں ‪ 3‬سال یا اس سے کم عمر بچے سب سے پہلے بیمار ہوئے ان کی شرح‬
‫محض ‪ 12‬فیصد تھی مگر ان کی جانب سے وائرس کو ٓاگے پھیالنے کا امکان زیادہ عمر‬
‫کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ‪ 3‬سال یا اس سے کم عمر بچوں سے گھر کے دیگر افراد میں وائرس‬
‫پھیلنے کاامکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں ‪ 40‬فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے‬
‫خیال میں اس کی وجہ ننھے اور زیادہ عمر کے بچوں کے رویوں میں فرق ہے۔‬
‫ننھے بچے گھر سے باہر بہت زیادہ گھومتے پھرتے نہیں اور جسمانی طور پر گھر والوں‬
‫کے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے وائرس پھیلنے کا امکان بڑھتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس عمر کے بچوں میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا‬
‫ہو یا وہ زیادہ مقدار میں وائرل ذرات کو جسم سے خارج کرتے ہوں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/kids-can-spread-coronavirus/‬‬

‫نائٹ شفٹ کرنے والوں کے لیے وارننگ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪17 2021‬‬

‫دنیا بھر میں مختلف دفاتر میں نائٹ شفٹس کا رجحان بڑھتا جارہا ہے تاہم اب ماہرین نے‬
‫اس حوالے سے وارننگ دے دی ہے۔‬
‫حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد‬
‫میں امراض قلب کا خطرہ دیگر افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ نائٹ شفٹ‬
‫میں کام کرتے ہیں ان میں دل کی دھڑکن کی رفتار غیر معمولی حد تک بڑھنے کا خطرہ‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیق میں ‪ 2‬الکھ ‪ 8‬ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو استعمال کرکے ایٹریل فبریلیشن یا‬
‫اے ایف اور نائٹ شفٹ کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ اپنی زندگی کا زیادہ وقت نائٹ شفٹ میں کام کرتے‬
‫ہوئے گزارتے ہیں ان میں دل کی دھڑکن کی اس بیماری کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ایسے افراد میں امراض قلب کا خطرہ بھی دیگر سے زیادہ ہوتا ہے تاہم‬
‫فالج یا ہارٹ فیلیئر کا نہیں۔‬
‫چین کے جیاؤ نٹونگ یونیورسٹی اسکول ٓاف میڈیسن اور امریکا کے ٹوالن یونیورسٹی‬
‫اسکول ٓاف میڈیسن کی اس مشترکہ تحقیق میں اے ایف کا خطرہ بڑھانے والے تمام تر‬
‫جینیاتی عناصر کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں نائٹ شفٹ اور ایٹریل فبریلیشن کا واضح تعلق ثابت‬
‫نہیں ہوسکا مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کے نتیجے میں امراض قلب کا خطرہ‬
‫بڑھتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نائٹ شفٹ کا دورانیہ کم کرکے اس خطرے‬
‫کو کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/warning-for-night-shift-employees/‬‬

‫پفی ٓانکھوں سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪17 2021‬‬

‫بعض جسمانی خرابیوں یا نیند کے بے ترتیب[ شیڈول سے ٓانکھیں بسا اوقات سوج جاتی‬
‫ہیں‪ ،‬ایسی پفی ٓانکھوں کا گھر میں ہی نہایت ٓاسانی سے عالج کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اے ٓار وائی ڈیجیٹل‪ ‬کے مارننگ شو‪ ‬گڈ مارننگ پاکستان‪ ‬میں ڈاکٹر کاشف نے شرکت کی‬
‫اور اس کا ٓاسان حل بتایا۔‬
‫ڈاکٹر کاشف کا کہنا تھا نیند کی کمی‪ ،‬بے ترتیب شیڈول یا خون کی کمی ٓانکھوں کی تھکن‬
‫اور اس کے نیچے حلقوں کا سبب بنتی ہیں۔ پہلے ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت‬
‫ہے۔‬
‫انہوں نے اس کے لیے ایک ٹوٹکا بھی بتایا۔ چنے کی دال کا پیسٹ‪ ،‬ماش کی دال کا پیسٹ‬
‫اور کھیرے کا پیسٹ مال لیں اور اس کو روز رات کو سونے سے قبل ٓانکھوں کے نیچے‬
‫لگائیں۔‬
‫ڈاکٹر کاشف کے مطابق اسے ایک گھنٹے تک لگا کر رکھیں‪ ،‬کوشش کریں کہ یہ ٓامیزہ‬
‫ٓانکھوں میں نہ جائے۔ ایک گھنٹے بعد سادے پانی سے دھو لیں۔‬
‫روزانہ اس عمل کو انجام دینے سے ٓاہستہ ٓاہستہ ٓانکھوں کے نیچے حلقے اور سوجن ختم‬
‫ہوجائے گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/how-to-get-rid-of-puffy-eyes-by-dr-kashif/‬‬

‫چہرے کے داغ دھبے دور کرنے کا ٓاسان طریقہ‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  17 2021‬‬

‫چہرے پر داغ دھبے اور جھائیاں ہوجانا چہرے کی دلکشی اور رونق کو ختم کردیتا ہے‪،‬‬
‫اس مسئلے کے حل کے لیے گھر میں کچھ اشیا سے نہایت کارٓامد اسکرب بنایا جاسکتا‬
‫ہے۔‬
‫اے ٓار وائی ڈیجیٹل‪ ‬کے مارننگ شو‪ ‬گڈ مارننگ پاکستان‪ ‬میں ڈاکٹر ام راحیل نے پگمنٹیشن‬
‫اور جھائیوں کو دور کرنے کے لیے نہایت کارٓامد اسکرب بتایا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ چاول کا ٓاٹا‪ ،‬مونگ کی دال‪ ،‬ذرا سا سرکہ اور چٹکی بھر نمک مالئیں‪،‬‬
‫اس میں دہی کا پانی شامل کریں اور اچھی طرح مال لیں۔‬
‫یہ اسکرب بن جائے گا‪ ،‬اس سے اچھی طرح مساج کریں اور خشک ہونے کے لیے چھوڑ‬
‫دیں‪ ،‬خشک ہونے کے بعد دوبارہ مساج کریں اور ٹھنڈے پانی سے چہرہ دھو لیں۔‬
‫اگر یہ اسکرب دن میں لگایا ہے تو منہ دھونے کے بعد سن اسکرین لگا لیں‪ ،‬رات میں لگایا‬
‫ہے تو وٹامن سی یا ای چہرے پر لگا لیں۔ اس اسکرب کو ہفتے میں ‪ 3‬دن استعمال کرنا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/home-remedy-for-pigmentation/‬‬

‫ایکنی سے چھٹکارے کا بہترین نسخہ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪17 2021‬‬


‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اکثر افراد کو چہرے کی ایکنی کا مسئلہ سارا سال رہتا ہے لیکن اس مسئلے سے نہایت‬
‫ٓاسانی سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔‬

‫اے ٓار وائی ڈیجیٹل‪ ‬کے پروگرام‪ ‬گڈ مارننگ پاکستان‪ ‬میں فرح محمود نے ایکنی کے لیے‬
‫نہایت سان اور کارٓامد نسخہ بتایا‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ایک چمچ گندم‪ٓ ،‬ادھا چمچ ہلدی اور ‪ 1‬چمچ شہد شامل کریں‪ ،‬اسے گرین‬
‫ٹی شامل کر کے اچھی طرح مکس کریں۔‬
‫اس ٓامیزے کو چہرے پر ماسک کی طرح لگائیں‪ ،‬خشک ہوجانے پر سادے پانی سے دھو‬
‫لیں۔اس عمل کو باقاعدگی سے انجام دینے پر ٓاہستہ ٓاہستہ چہرے سے ایکنی اور ان کے‬
‫دھبوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/how-to-get-rid-of-acne/‬‬

‫ذیابیطس کی دوا دماغ کی حفاظت بھی کرسکتی ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬منگل‪ 17  ‬اگست‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ذیابیطس کی دوا ’گلپٹین‘ کچھ ایسے دماغی ما ّدوں میں بھی کمی التی ہے جو الزائیمر کی‬
‫وجہ بنتے ہیں۔‬
‫سیول‪ :‬جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی دوا‬
‫’’گلپٹین‘‘[ (‪ )Gliptin‬استعمال کرنے والوں میں دماغی امراض سے خصوصی تعلق‬
‫رکھنے والے مادّے بھی کم ہوجاتے ہیں۔‬
‫یعنی یہ دوا ذیابیطس کا عالج کرنے کے ساتھ ساتھ دماغ کی حفاظت بھی کرسکتی ہے۔‬
‫یہ تحقیق ابھی ابتدائی نوعیت کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذیابیطس کی عام دوا ’’ڈی‬
‫پی پی ‪ٓ 4‬ائی‘‘ (المعروف ’’گلپٹین‘‘) اضافی طور پر کچھ ایسے خاص ما ّدوں‬
‫(بایومارکرز) میں بھی کمی التی ہے جو دماغی بیماری الزائیمر کی اہم ترین عالمت کا‬
‫درجہ رکھتے ہیں۔‬
‫یہ تحقیق چھ سال تک ‪ 282‬رضاکاروں پر کی گئی جن میں سے ‪ 141‬کو ذیابیطس نہیں‬
‫تھی جبکہ باقی ‪ 141‬کو ذیابیطس تھی۔‬
‫‪ 141‬رضاکاروں کے اس دوسرے گروپ میں بھی ‪ 70‬افراد وہ تھے جو ذیابیطس کے‬
‫دوران گلپٹین لے رہے تھے جبکہ ‪ 71‬افراد اپنی ذیابیطس پر کنٹرول کےلیے کوئی دوسری‬
‫دوائیں استعمال کررہے تھے۔‬
‫ان تمام افراد کی اوسط عمر ‪ 76‬سال تھی جبکہ ان سب میں الزائیمر بیماری کی ابتدائی‬
‫عالمات بھی موجود تھیں۔‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ریسرچ جرنل ’’نیورولوجی‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق‪،‬‬
‫چھ سالہ مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ گلپٹین استعمال کرنے والے رضاکاروں میں‬
‫الزائیمر کی پیش رفت‪ ،‬یہ دوا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں واضح طور پر کم‬
‫تھی۔‬
‫ماہرین کو ان رضاکاروں کی نفسیاتی ٓازمائشوں اور محتاط طبّی جانچ پڑتال کے بعد معلوم‬
‫ہوا کہ گلپٹین استعمال کرنے والے رضاکاروں کی نہ صرف اکتسابی صالحیت بہتر تھی‬
‫بلکہ ان میں وہ بایومارکرز بھی خاصے کم تھے جن کی دماغ میں بڑھتی ہوئی مقدار‪،‬‬
‫الزائیمر کی بیماری بڑھنے کا پتا دیتی ہے۔‬
‫البتہ‪ ،‬تحقیق کار اب تک نہیں جانتے کہ ٓاخر گلپٹین کس طرح دماغ کو فائدہ پہنچاتی ہے‬
‫اور الزائیمر کی پیش رفت میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔‬
‫دماغ کی حفاظت میں گلپٹین کے اثرات بہتر طور پر جانچنے کےلیے اب وہ ایک وسیع تر‬
‫تحقیقی منصوبہ بنا رہے ہیں جس میں ایسے افراد کو بھی گلپٹین استعمال کروائی جائے گی‬
‫جو ذیابیطس میں مبتال نہیں لیکن الزائیمر کی ابتدائی عالمات ضرور رکھتے ہیں۔‬
‫البتہ‪ ،‬اس تحقیق کا ٓاغاز جنوبی کوریائی حکومت سے اجازت ملنے کے بعد ہی کیا جاسکے‬
‫گا‬
‫‪https://www.express.pk/story/2213873/9812/‬‬

‫اگر اکثر ناخنوں کے اس عام مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو اس کی وجہ‬


‫جان لیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪16 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ بہت تکلیف دہ مسئلہ ہوتا ہے‬


‫منہ جلنے یا کاغذ سے جسم کے کسی حصے میں خراش کی طرح ہینگ نیل بھی ایسی‬
‫انجری ہے جو بہت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔‬
‫ہینگ نیل یا آسان الفاظ میں کسی ناخن کے دائیں ‪ ،‬بائیں یا نچلے حصے سے جزوی طور‬
‫پر کھال کا الگ ہونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے‪ ،‬مگر ایسا ہوتا کیوں ہے؟‬
‫یہ مسئلہ کیوں ہوتا ہے؟‬
‫ہینگ نیل سے تو لگتا ہے کہ جیسے ناخں کا کوئی حصہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا ہو مگر اس‬
‫میں ناخن تو بنیاد سے جڑا ہوتا ہے‪ ،‬بس انگلی یا ناخں کی دونوں اطراف میں سے کسی‬
‫حصے کی کھال کا کچھ حصہ الگ ہوجاتا ہے۔‬
‫اکثر تو ایسا لگتا ہے کہ ایسا اچانک ہوا ہے مگر ایسا بتدریج اس وقت ہوتا ہے جب ناخن‬
‫کے ارگرد کی کھال کمزور اور اتنی بھربھری ہوجائے کہ اس میں دراڑیں پڑجائیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس مسئلے کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ناخن چبانا‪ ،‬خراب‬
‫مینی کیور‪ ،‬جلد خشک ہونا‪ ،‬سخت صابن یا برتن دھونے والے ڈیٹرجنٹ کا استععمال‪ ،‬سرد‬
‫درجہ حرارت اور بہت زیادہ پانی میں ہاتھوں کے بھیگنے سے بننے والی لکیریں۔‬
‫پانی میں بہت زیادہ وقت گزارنا یا کیمیکل سلوشنز کا بہت زیادہ استعمال اس کی زیادہ عام‬
‫وجوہات ہیں اور اکثر موسم سرما میں اس کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اس مسئلے سے تکلیف بھی بہت زیادہ ہوتی ہے حاالنکہ زخم بہت چھوٹا سا ہوتا ہے مگر‬
‫اعصابی سلسلے کے اختتام اور انگلیوں میں خون کی شریانوں کی موجودگی کی وجہ سے‬
‫تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ناخن کا متاثرہ حصہ جتنا ورم کا شکار ہوگا تکلیف کی شدت اتنی زیادہ ہوگی۔‬
‫اس سے بچنا کیسے ممکن ہے؟‬
‫آپ یقینا ً موسم سرما کو روک نہیں سکتے یا اپنے ہاتھوں کو دھونا چھوڑ نہیں سکتے‪ ،‬مگر‬
‫انگیوں کی نمی برقرار رکھنے کے لیے کسی اچھے لوشن کا استعمال ضرور کرسکتے‬
‫ہیں۔اگر آپ کیمیکلز سے صفائی کرتے ہیں یا بہت زیادہ برتن دھوتے ہیں تو ربڑ کے‬
‫دستانے پہننا اس مسئلے سے بچا سکتا ہے۔‬
‫ناخن کاٹتے ہوئے کونوں کو کاٹنے سے گریز کریں کیونکہ اس سے ناخنوں کی بنیاد‬
‫بیکٹریا کے خالف کمزور ہوتی ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166432/‬‬

‫ننھے بچے گھر میں زیادہ آسانی سے کورونا وائرس پھیال سکتے ہیں‪،‬‬
‫تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪16 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫چھوٹے بچوں کا نوجوانوں کے مقابلے میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا امکان کم‬
‫ہوتا ہے تاہم اگر وہ کووڈ کے شکار ہوجائیں تو وہ اس وائرس کو اپنے گھر کے افراد میں‬
‫پھیال سکتے ہیں۔یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫تحقیق میں اس بحث کا واضح جواب تو نہیں دیا گیا کہ بچے بھی بالغ افراد کی طرح اس‬
‫وبائی مرض کو پھیال سکتے ہیں یا وبا میں ان کا کردار ہے یا نہیں‪ ،‬مگر نتائج سے ثابت‬
‫ہوتا ہے کہ وہ بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں یکم جون سے ‪ 31‬دسمبر ‪ 2020‬کے دوران کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں‬
‫ریکارڈ ہونے والے کووڈ کیسز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔محققین نے پھر ان گھرانوں میں‬
‫اس پہلے فرد کی شناخت کی جس میں کووڈ ‪ 19‬کی عالمات نمودار ہوئی تھیں یا وائرس کا‬
‫ٹیسٹ مثبت رہا تھا۔بعد ازاں ایسے ‪ 6820‬گھرانوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہاں اس وائرس‬
‫سے پہلے متاثر ہونے والے مریض کی عمر ‪ 18‬سال سے کم تھی‪ ،‬جس کے بعد اسی گھر‬
‫کے دیگر افراد میں کیسز کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫محققین نے دریافت کیا کہ بیشتر کیسز میں وائرس کا پھیالؤ متاثرہ بچے پر رک گیا مگر‬
‫‪ 27.3‬فیصد گھرانوں میں بچوں نے وائرس کو گھر کے کم از کم ایک رکن میں منتقل کیا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 14‬سے ‪ 17‬سال کی عمر کے بچوں کی جانب سے وائرس کو گھر‬
‫النے کا امکان زیادہ ہوتا ہے یا کم از کم اس تحقیق میں کسی گھرانے میں سب سے پہلے‬
‫متاثر ہونے والے ‪ 38‬فیصد افراد کی عمریں یہی تھیں۔‬
‫جن گھرانوں میں ‪ 3‬سال یا اس سے کم عمر بچوںسب سے پہلے بیمار ہوئے ان کی شرح‬
‫محض ‪ 12‬یصد تھی مگر ان کی جانب سے وائرس کو آگے پھیالنے کا امکان زیادہ عمر‬
‫کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ‪ 3‬سال یا اس سے کم عمر بچوں سے گھر کے دیگر افراد میں وائرس‬
‫پھیلنے کاامکان زیادہ عمر کے بچوں کے مقابلے میں ‪ 40‬فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫محققین کے خیال میں اس کی وجہ ننھے اور زیادہ عمر کے بچوں کے رویوں میں فرق‬
‫ہے۔ننھے بچے گھر سے باہر بہت زیادہ گھومتے پھرتے نہیں اور جسمانی طور پر‬
‫گھروالوں کے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے وائرس پھیلنے کا امکان بڑھتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس عمر کے بچوں میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا‬
‫ہو یا زیادہ مقدار میں وائرل ذرات کو جسم سے خارج کرتے ہوں۔‬
‫کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ اگرچہ بچوں میں کووڈ سے بہت زیادہ‬
‫بیمار ہونے کا امکان کم ہوتا ہے مگر ان میں وائرل لوڈ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی ریددے جرنل جاما پیڈیاٹرکس میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166441/‬‬

‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ویکسین سے حاملہ خواتین میں اسقاط حمل کا خطرہ نہیں بڑھتا‪،‬‬
‫برطانوی رپورٹ‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪17 2021‬‬

‫‪ .‬ایک برطانوی رپورٹ میں اس بارے میں بتایا گیا‬


‫ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جن سے معللوم ہوتا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬ویکسینز کا استعمال‬
‫حاملہ خواتین میں اسقاط حمل کا خطرہ بڑھاتا ہو یا بچے پیدا کرنے کی صالحیت پر منفی‬
‫اثرات کرتا ہو۔‬
‫یہ بات برطانیہ کے طبی ریگولیٹرز میڈیسینز اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری‪ Q‬ایجنسی‬
‫(ایم ایچ آر اے) کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتائی گئی۔‬
‫بیان میں بتایا گیا کہ اب تک جمع کیے گئے ڈیٹا سے کووڈ ویکسینز اور خواتین کے‬
‫مخصوص ایام میں کسی تبدیلی کا تعلق بھی ثابت نہیں ہوسکا۔‬
‫بیان کے مطابق اب تک ایسا کوئی رجحان دیکھنے میں نہیں آیا جس سے ثابت ہوتا ہو کہ‬
‫حاملہ خواتین میں کووڈ ویکسینیشن سے اسقاط حمل یا ماں کے پیٹ میں بچے کی موت کا‬
‫خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫اسی طرح ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جن سے عندیہ ملتا ہو کہ ویکسینز سے پیدائش‬
‫کے دوران پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہو۔‬
‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بیان کے مطابق حاملہ خواتین میں ویکسینیشن کے بعد وہی ردعمل دیکھنے میں آیا جو‬
‫ایسی خواتین میں نظر آیا جو حاملہ نہیں تھیں۔‬
‫رائل کالج آف اوبیسٹیریشنز اینڈ گائنالوجیسٹس کی نائب صدر ڈاکٹر جو مونٹ فیلڈ نے کہا‬
‫کہ یہ رپورٹ دیگر عالمی ڈیٹا کو سپورٹ کرتی ہے جس کے مطابق ویکسینیشن سے‬
‫اسقاط حمل کا خطرہ نہیں بڑھتا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ لگ بھگ ‪ 2‬الکھ حاملہ خواتین نے کووڈ ویکسین کا استعمال کیا اور ان پر‬
‫کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوئے‪ ،‬ہمیں توقع ہے کہ ایم ایچ آر اے کی جانب جاری شواہد‬
‫سے خواتین میں ویکسنیشن کرانے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔‬
‫دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ تمام طبی ماہرین نے مل کر مرتب کی اور حاملہ‬
‫خواتین کی ویکسینیشن بہت ضروری ہے‪ ،‬ابھی زیادہ تر خواتین ویکسنیشن سے گریز‬
‫کررہی ہیں۔‬

‫برطانیہ میں اپریل ‪ 2021‬میں تمام حاملہ خواتین کے لیے ویکسنیشن کی اجازت دی گئی‬
‫تھی۔‬
‫دوران حمل کووڈ سے متاثر ہونے خواتین کے لیے زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے اور ان‬
‫میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫جن حاملہ خواتین میں کووڈ کی عالمات ظاہر ہوتی ہیں ان کے ہاں بچے کی قبل از وقت‬
‫پیدائش کا خطرہ بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166444/‬‬

‫کیا بالوں کی قبل از وقت سفیدی کو ریورس کرنا ممکن ہے؟‬


‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪17 2021‬‬

‫عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں کا سفید ہونا ایک قدرتی عمل ہے جس سے بچنا کسی کے لیے‬
‫بھی ممکن نہیں ہے ۔مگر ایسے افراد کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جن کے بال جوانی یا قبل‬
‫از وقت ہی سفید ہونے لگتے ہیں۔‬
‫درحیقت بالوں میں قبل از وقت سفیدی کے بارے میں بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے‬
‫میں ہم اب تک جان نہیں سکے ہیں۔‬

‫مگر کیا بالوں کی قبل از وقت سفیدی کو ریورس کرنا ممکن ہے؟ اس حوالے سے نئی‬
‫تحقیق کے نتائج جاننا ضروری ہے۔کچھ افراد کے بال جلد سفید کیوں ہوتے ہیں؟‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہماری جلد کی رنگت کی طرح ایک کیمیکل میالنین بالوں کی رنگت کا بھی تعین کرتا ہے‪،‬‬
‫وقت کے ساتھ بالوں کی رنگت برقرار رکھنے والے خلیات ختم ہونے لگتے ہیں‪ ،‬جس سے‬
‫بال سفید ہوجاتے ہیں۔‬
‫ایک تحقیق کے مطابق سفید فام افراد میں یہ عمل عموما ً عمر کی چوتھی دہائی کے وسط‬
‫میں شروع ہوتا ہے‪ ،‬ایشیائی اقوام میں ایسا چوتھی دہائی کے آخر میں ہوتا ہے جبکہ افریقی‬
‫افراد میں بالوں کی سفیدی عمر کی ‪ 5‬ویں دہائی کے وسط میں بڑھنا شروع ہوتی ہے۔‬
‫مگر یہ عمل جلد یا دیر سے بھی شروع ہوسکتا ہے جس کا انحصار جینز بالخصوص آئی‬
‫آر ایف ‪ 4‬پر ہوتا ہے جو میالنین کی پروڈکشن اور اسٹوریج کو ریگولیٹ کرتا ہے۔‬
‫نئی تحقیق کے نتائج‬
‫ایک حالیہ تحقیق میں دہائیوں پرانے اس خیال کو درست ثابت کیا گیا کہ تناؤ بالوں کو قبل‬
‫از وقت سفید کرسکتا ہے۔‬
‫سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران رضاکاروں کے بالوں میں پروٹین لیولز کی جانچ پڑتال‬
‫کرکے دریافت کیا کہ ذہنی تناؤ خلیات کو توانائی فراہم کرنے والے مائی ٹو کانڈریا پر‬
‫اثرانداز ہوتا ہے جس کے باعث بال سفید ہونے لگتے ہیں۔‬
‫محققین نے تناؤ اور بالوں کی سفیدی کے درمیان نمایاں تعلق کو دریافت کیا۔‬

‫کچھ دیگر عناصر جیسے صرف سبزیاں کھانا‪ ،‬وٹامن بی ‪ 12‬کی کمی اور مخصوص طبی‬
‫عوارض سے متاثر ہونا وغیرہ سے بھی اس سے ملتے جلتے اثرات کو دریافت کیا گیا۔‬
‫کیا بالوں کی سفیدی ریورس ہوسکتی ہے؟‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اچھی خبر یہ ہے کہ اگر بالوں کی قبل از وقت سفیدی کی وجہ ذہنی تناؤ ہے تو نئی تحقیق‬
‫کے مطابق اسے ریورس کیا جاسکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں کچھ کیسز میں تناؤ سے نجات پر بالوں کی قدرتی رنگت پر واپسی کو بھی‬
‫دیکھا گیا۔‬
‫محقین نے کہا کہ ہمارے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ بالوں کی سفیدی کو لوگوں میں ریورس‬
‫کیا جاسکتا ہے تاہم اس کا میکنزم مختلف ہوگا۔‬
‫مگر انہوں نے کہا کہ تناؤ کی شدت میں کمی سے ضروری نہیں کہ ہر فرد کے بالوں کی‬
‫قدرتی رنگت واپس لوٹ آئے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماڈل سے عندیہ ملتا ہے کہ بالوں کو سفید ہونے کے لیے ایک‬
‫مخصوص حد تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬درمیانی عمر میں یہ حد مختلف عناصر‬
‫کے باعث قریب آجاتی ہے جبکہ تناؤ اس جانب سفر تیز کردیتا ہے۔‬
‫آسان الفاظ میں بال جوانی میں تناؤ کے نتیجے میں سفید ہوئے ہوں اور بہت جلد ذہنی حالت‬
‫کو بہتر بنالیا جائے تو ممکن ہے کہ بالوں کی رنگت کو ریورس کیا جاسکے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہمارا نہیں خیال کہ تناؤ میں کمی الکر ‪ 70‬سالہ کسی فرد کے بالوں کو‬
‫سیاہ کیا جاسکتا ہے جن کے بال برسوں قبل سفید ہوچکے ہیں‪ ،‬تاہم جوانی میں کسی حد‬
‫تک ایسا ممکن ہے‪ ،‬مگر اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166501/‬‬

‫کیا ٓاپ کی بھی ایڑھی میں درد رہتا ہے؟ وجوہات اور عالج‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪18 2021‬‬

‫بڑے عمر کے افراد کے عالوہ ٓاج کل نوجوانوں میں بھی ایڑھیوں کے درد کی شکایات‬
‫سامنے ٓارہی ہیں۔‬

‫ماہرین نے مسلسل ایڑھی میں درد رہنے کو اہم اور پیچیدہ مسئلہ قرار دیا ہے‪ ،‬ٹشوز کی‬
‫سوجن کی وجہ سے ایڑھیوں میں درد کی شکایت سامنے ٓاتی ہے۔ طب کی دنیا میں ایڑھی‬
‫کا درد پالنٹر فاسسیائٹس(‪ )plantar fasciitis‬کہالتا ہے۔‬
‫کھانے پینے میں کم نمک کا استعمال اور دھنیے کا پانی سوجن میں کمی کے لیے معاون‬
‫ہوسکتا ہے۔ ٹشوز کی سوجن چلنے پھرنے سے محروم کرسکتی ہے۔ زنک اور میگنیشیم‬
‫کا بھی استعمال ایڑھی کے درد سے نجات میں مدد کرسکتا ہے۔ یوریک ایسڈ کا بڑھنا بھی‬
‫ایڑھی میں درد کا سبب بنتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اے ٓار وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر‬
‫کنسلٹنٹ ٓارتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر اسامہ بن ضیا کا کہنا تھا کہ صبح اٹھنے کے بعد پہال قدم‬
‫زمین پر رکھنے سے اگر ایڑھی میں درد اٹھتا ہے تو ممکنہ ہے ٓاپ کو فاسسیائٹس کا مسئلہ‬
‫الحق ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ دیر تک کسی جگہ بیٹھے کے بعد اٹھنے سے بھی اگر ایڑھی دکھتا ہے‬
‫تو ٓاپ کو بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے‪ ،‬کھانے پر توجہ نہ دینا سے بھی مسائل پیش ٓاتے‬
‫ہیں۔‬
‫پروفیسر کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ سے نجات کے لیے اچھے جوتوں کا استعمال کریں‪،‬‬
‫ورزش کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ ایڑھیوں کو ایک خاص طریقے سے مسلسل‬
‫حرکت دینے سے بھی درد سے چھٹکارے میں معاونت ملے گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/do-you-also-have-back-pain-causes-and-treatment/‬‬

‫بلڈ شوگر بہتر رکھنے کا جادوئی نسخہ‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪18 2021‬‬

‫ٓاپ کے روزمرہ[ زندگی میں اگر زیادہ وقت بیٹھ[ یا سو کر گزرتا ہے تو ممکنہ طور پر ٓاپ‬
‫مختلف پیچیدہ مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں‪ ،‬انسانی جسم کا حرکت میں رہنا صحت کے‬
‫لیے مفید ہوتا ہے۔‬
‫یورپی ملک سوئیڈن میں ہونے والی طبی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر ٓاپ دفتر میں کام‬
‫کرتے ہیں تو اپنی کرسی سے ہر آدھے گھنٹے بعد اٹھنے سے بلڈ شوگر لیول اور مجموعی‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫صحت بہتر رہتی ہے‪ ،‬بڑھتی عمر کے ساتھ بلڈ شوگر کو معمول پر اور اچھی صحت کے‬
‫خواہشمند افراد اس عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔‬
‫کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی تحقیق کے مطابق بیٹھ کر یا لیٹ کر گزارے جانے واال ہر گھنٹہ‬
‫میٹابولک سینڈروم اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے‪ ،‬اسی لیے ہر‬
‫ٓادھے گھنٹے بعد اٹھنے کی عادت بنائیں۔‬
‫طبی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر تھوڑی دیر بعد اٹھ کر کچھ وقت چلنا انسولین کی حساسیت‬
‫کو بہتر بنانے اور میٹابولک سینڈروم کا خطرہ کم کرتا ہے‪ ،‬میٹابولک سینڈروم مختلف‬
‫عوارض کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔‬
‫انسانوں میں میٹابولک سینڈروم امراض قلب‪ ،‬ذیابیطس‪ ،‬فالج اور دیگر طبی مسائل کا خطرہ‬
‫بڑھاتا ہے۔ ہر ‪ 30‬منٹ بعد ‪ 3‬منٹ کی چہل قدمی سے بلڈ شوگر کی سطح میں معمولی‬
‫بہتری آتی ہے۔‬
‫مشاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ جلتا زیادہ وقفے وقفے سے چلیں گے اتنا صحت کے لیے‬
‫بہتر ہوگا‪ ،‬سست طرز زندگی سے بچنا میٹابولک فوائد کا باعث بنتا ہے۔ اس تجرے کے‬
‫لیے ماہرین نے ‪ 16‬موٹاپے کے شکار افراد کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا‪ ،‬یہ وہ لوگ تھے‬
‫جو اپنی زندگی کا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے تھے۔‬
‫تحقیق کے دوران ان افراد کو ‪ 3‬ہفتے تک ہر دن ‪ 10‬گھنٹے ہر ‪ 30‬منٹ بعد اٹھ کر ‪ 3‬منٹ‬
‫تک چلنے یا سیڑھیاں چڑھنے کی ہدایت کی گئی اور پھر ان افراد کی سرگرمیوں کے‬
‫فوائد کا موازنہ ان افراد سے کیا جو اس طرح کے وقفے نہیں لے رہے تھے۔ جس کے بعد‬
‫مذکورہ باال نتائج سامنے ٓائے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/the-magic-prescription-for-improving-blood-sugar/‬‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫رات کوسونے سے پہلے یہ نسخہ استعمال کریں ‪ٓ،‬اپکے[ جسم سے تمام‬
‫زہریلے مادے ایسے ختم ہو جائینگے[ کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں‬
‫‪     ‬‬
‫‪18/08/2021‬‬

‫ہم دن بھر طرح طرح کی مصالحے داراشیاء کھاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے جسم میں‬
‫حراروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اورزہریال مواد جمع ہونے کی وجہ سے چربی بڑھنا‬
‫شروع ہو جاتی ہے اورانسان موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے لیکن اب پریشان ہونے کی‬
‫ضرورت نہیں ہےکیونکہہم‪ٓ Q‬اپ کو ایسا‬
‫قدرتی جادوئی نسخہ پتائیں گے جس کے استعمال سے ٓاپ کے جسم کے تمام زہریلے‬
‫مادے کو یہ جادوئی مشروب ختم کردے گا۔یہ مشروب رات کو سونے سے پہلے پینے سے‬
‫ہمارا معدہ بہت اچھے طریقے سے کام کرتے ہوئے ٓاپ کے میٹا بولزم کو تیز کرتا ہے۔‬
‫اجزاء‪ٓ:‬اپ کو چاہئے کہ ایک کھانے کا چمچ‪ :‬شہد یا ادرک ‪،‬سرکہ دارچینی‪،‬پارسلے‪،‬لیموں‬
‫کو مال کر مکسچر بنا لیں اور ہفتے تک راتکے کھانے کی جگہ سونے سے پہلے استعمال‬
‫کریں ۔اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تا کہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا‬
‫سکیں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-119975.html‬‬

‫خون پیدا کرنے کی مشین‪ ،‬خون چہرے پر نظر ٓائے گا ‪ ،‬یقین نہ ٓائے تو‬
‫اس نسخے کو ٓازما کر دیکھ لیں‬
‫‪     ‬‬
‫‪18/08/2021‬‬

‫ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے مطابق‪ٓ ،‬ائرن کی کمی ایک ‘مہلک تناسب’ کی عالمی صحت کا‬
‫مسئلہ ہے‪ .‬نہ صرف یہ سیارے میں سب سے زیادہ عام کمی ہے‪ ،‬یہ انمیا کا سب سے زیادہ‬
‫مسلسل وجہ ہے – جس میں دل کی ناکامی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے‪.‬نوبی ٓاسٹریلیا یونیورسٹی‬
‫کی بنیاد پر ایک غذائیت پسند‪ ،‬نالی پیالٹا کہتے ہیں کہ غذائیت کی کمی سے کسی کی‬
‫صحت پر ایک سنگین اثر پڑتا ہے‪ .‬انمیا‬
‫اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے سرخ خون کے سیل شمار اور ‪ /‬یا ہیمگلوبین‪ Q‬کی سطح بہت‬
‫کم ہوتی ہے‪ ،‬نتیجے میں جسم میں کافی ٓاکسیجن ٹرانسپورٹ کرنے میں ناکام ہے‪ٓ.‬اکسیجن‬
‫کو منتقل کرنے کے لئے ہیموگلوبین کے لئے لوہے کی ضرورت ہوتی ہے‪ .‬اگرچہ غذا میں‬
‫ریڈ گوشت کی غیر موجودگی کی وجہ سے سبزیوں اور ویگنوں کو وسیع پیمانے پر لوہے‬
‫کی کمی سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے‪ ،‬اس کی مدد کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے‪.‬انفیکشن کے‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ساتھ اور بغیر انیمیا کے بغیر ٓائرن کی کمی دماغ کی تقریب اور رویے پر طویل مدتی منفی‬
‫اثرات ہوسکتا ہے‪ ،‬اور جب بھی سطح درست ہوجائے تو ان اثرات کو مکمل طور پر رد‬
‫نہیں کیا جا سکتا‪ .‬زچگی کے انمیا کے وقت سے قبل پیدائش کا نتیجہ ہوسکتا ہے‪ ،‬اور ہائی‬
‫بلڈ پریشر یا ذیابیطس کے ساتھ ساتھ فیکٹری لوہے کی سطح کو قبل از کم مدت یا‬
‫اصطالحی بچوں میں سمجھا سکتا ہے‪.‬خواتین کی ضرورت ہے‪ 50-14 .‬سال کی عمر کے‬
‫لئے‪ ،‬روزانہ کی انٹیک کی حد ‪ 15mg‬سے ‪ 18mg‬تک ہوتی ہے‪ .‬حمل کے دوران‬
‫ضروریات زیادہ ہیں‪ ،‬فی دن ‪ 27‬ملین گرام‪ .‬تاہم‪ ،‬نسبتا کے دوران وہ تھوڑا سا کم ہوتے‬
‫ہیں‪ ،‬ایک دن نو سے دس میگاواٹ تک‪.‬سبزیوں کے لئے ٓائرن کی ضروریات کا تخمینہ‬
‫غیر غیر سبزیوں سے ‪ 1.8‬گنا زیادہ ہے‪ ،‬تاہم یہ نتیجہ محدود تحقیق پر مبنی تھا‪ .‬ذریعہ‪،‬‬
‫ڈیلیمیل‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-119980.html‬‬

‫ٓاج کل ‪ 30‬سال کی عمر سے بھی کم لڑکے لڑکیوں کو دل کے دورے‬


‫کیوں پڑرہے ہیں‬
‫‪     ‬‬
‫‪07:48 pm 18/08/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) دل کی بیماریاں اتنی عام ہو چکی ہیں کہ ٓاج کل ‪30‬سال سے‬
‫کم عمر لڑکے لڑکیوں کو بھی ہارٹ اٹیک ٓا رہے ہیں۔ اب ماہرین نے اتنی کم عمر میں دل‬
‫کے دورے پڑے کی شرح بلند ہونے کی اصل وجہ بیان کر دی ہے۔ ٹائمز ٓاف انڈیا کے‬
‫مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمر لڑکے لڑکیوں کو دل کی بیماریاں الحق ہونے اور‬
‫ہارٹ اٹیک ٓانے کی وجہ ٓاج کے دور‪ ‬‬
‫کی تیزی اور کام کی زیادتی ہے۔ ایشیئن ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے ماہرامراض قلب ڈاکٹر‬
‫سنتوش کمار ڈورا نے بتایا کہ ’’ٓاج کے دور میں نوجوان پر جس پر کام کا دبأو ہے پہلے‬
‫کبھی نہ تھا۔ کام کے اوقات طویل ترین ہو گئے ہیں اور ان وجوہات کی بنا پر نوجوانوں‬
‫میں ذہنی پریشانی اور ہائپرٹینشن کی شرح بہت زیادہ ہو چکی ہے۔‘‘ڈاکٹر سنتوش کا مزید‬
‫کہنا تھا کہ ’’ٓاج کل کے لوگوں کی خوراک بھی متناسب نہیں رہی اور ورزش بھی ان کی‬
‫زندگیوں سے نکل گئی ہے۔‬
‫یہ تمام وہ عوامل ہیں جو ٓاج کی تیز تر زندگی کی پیداوار ہیں اور یہی دل کی بیماریوں کا‬
‫سبب بن رہے ہیں۔ٓاج کے دور میں کام کا جو رواج پنپ چکا ہے اس کے دبأو کے نتیجے‬
‫میں لوگ سگریٹ اور شراب نوشی کی طرف بھی زیادہ راغب ہوتے ہیں جو دل کی تباہی‬
‫کا ایک اور سبب ہے۔ٓاج کل لوگ گھر کے بنے کھانے کی بجائے بازار سے فاسٹ فوڈز‬
‫وغیرہ کو ترجیح دینے لگے ہیں کیونکہ ان کے پاس گھر پر کھانا پکانے کے لیے وقت ہی‬
‫نہیں اور پھر باہر سے کھانا ایک رواج بھی بن چکا ہے۔یہ وہ عوامل ہیں جو لوگوں میں‬

‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہائی کولیسٹرول‪ ،‬ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں اور نوجوان نسل کو‬
‫انتہائی کم عمری میں ہی ہارٹ اٹیک ٓا رہے ہیں۔‘‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-119942.html‬‬

‫چھوڑیں ٓاپریشن کو ۔۔ایسا جادوئی پھل جو گنجے پن کا شکار افراد کا‬


‫سر بالوں سے بھر دے‬

‫‪18/08/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک)گنج پن جہاں مردوں کیلئے ایک بھیانک خواب بن گی‪QQ‬ا ہے وہیں‬
‫خواتین بھی تیزی سے گرتے بالوں کی وجہ سے پریشان نظر ٓاتی ہیں۔ دنی‪QQ‬ا بھ‪QQ‬ر کے تقریب‪Q‬ا َ‬
‫نصف مرد گنج پن کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں مگر اب ماہرین نے ایک ایسے پھل کا‬
‫پتہ چاللیا ہے جس سے نہ‬
‫صرف مردوں بلکہ خواتین کے تیزی سے گرتے بالوں ک‪QQ‬ا مس‪QQ‬ئلہ ح‪QQ‬ل ہوت‪QQ‬ا نـظر ٓارہ‪QQ‬ا ہے۔‬
‫کوئی م‪QQ‬یری یونیورس‪QQ‬ٹی برط‪QQ‬انیہ کی تحقی‪QQ‬ق میں بتای‪QQ‬ا گی‪QQ‬ا ہے کہ میں گ‪QQ‬ردش ک‪QQ‬رتے ف‪QQ‬ری‬
‫ریڈیکلز اور تکسیدی تنأو (ٓاکسیڈیٹیو اسٹریس) بالوں کے گرنے کی رفتار کو بڑھا دیت‪QQ‬ا ہے۔‬
‫تحقی‪Q‬ق کے مط‪Q‬ابق این‪Q‬ٹی ٓاکس‪Q‬ائیڈنٹ س‪Q‬ے بھرپ‪Q‬ور بلی‪Q‬و ب‪Q‬یریز کھان‪Q‬ا ب‪Q‬الوں کے گ‪Q‬رنے کے‬
‫مسئلے میں کمی النے میں مدد دے سکتا ہے۔محققین ک‪QQ‬ا کہن‪QQ‬ا ہے کہ ب‪QQ‬الوں ک‪QQ‬ا گرن‪QQ‬ا خ‪QQ‬اص‬
‫طور پر مردوں میں عمر بڑھنے ک‪QQ‬ا ق‪QQ‬درتی ن‪QQ‬تیجہ ہوت‪QQ‬ا ہے اور یہ ص‪QQ‬حت کے ل‪QQ‬یے ک‪QQ‬وئی‬
‫خطرہ نہیں ہوتا۔ماہرین کے مط‪QQ‬ابق ب‪QQ‬الوں ک‪QQ‬ا گرن‪QQ‬ا جنی‪QQ‬اتی‪ ،‬ط‪QQ‬رز زن‪QQ‬دگی کے عناص‪QQ‬ر اور‬
‫جلدی امراض کی وجہ سے ہوتا ہے۔‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-119985.html‬‬

‫ہم سب اچھی نیند کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری کارکردگی کو‬
‫بہتر بنا سکے؟‬

‫‪ ‬اینڈی کیسڈی‬
‫‪ ‬بزنس رپورٹر‬
‫‪ 18‬اگست ‪2021‬‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نیکول بیکر ان بہت سے لوگوں میں سے ایک ہیں جو کورونا وائرس کی وبا کے آغاز‬
‫سے ’انسومنیا‘ یعنی نیند نہ آنے کے مرض میں مبتال ہیں۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے میری یہ عادت تھی کہ میں ہر روز رات نو بجے سو جاتی تھی مگر‬
‫اب میں رات تین بجے بھی جاگ رہی ہوتی ہوں۔ یہ تھکا دینے والی اور پریشان ُکن‬
‫صورتحال ہے کیونکہ اس کے باعث مجھے دن بھر کام کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘‬
‫نیکول بیکر ایک کمپنی میں کوارڈینیٹر‪ Q‬کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اُن‬
‫کے نیند کے مسائل کی بنیادی وجہ بڑھتی ہوئی بے چینی ہے۔‬
‫’میرے خیال میں کووڈ سے ہونے والی اموات‪ ،‬اپنی نوکری‪ ،‬خاندان‪ ،‬آمد ورفت پر پابندیوں‬
‫اور مستقبل کے بارے میں عدم اعتماد کی وجہ سے میرے ذہن پر بہت دباؤ پڑا ہے۔ میرا‬
‫ذہن ہر وقت دوڑ رہا ہوتا تھا اور زندگی کے بارے میں چوبیس گھنٹے سوچتا رہتا ہے جس‬
‫کی وجہ سے میں سو نہیں پا رہی تھی۔‘‬
‫نیکول بیکر‬
‫یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمٹن کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں انسومنیا کے مریضوں‬
‫کی تعداد بڑھی ہے۔ پہلے ہر چھ میں سے ایک شخص کو یہ بیماری الحق تھی مگر اب یہ‬
‫شرح ہر چار میں ہے ایک ہے۔‬
‫ادھر امریکہ میں سنہ ‪ 2020‬میں گوگل پر لفظ انسومنیا تاریخ میں سب سے زیادہ دفعہ‬
‫ڈھونڈا گیا ہے۔‬
‫کورونا وائرس کی وبا کے دوران نیند کے مسائل کی وجہ بے چینی کے عالوہ لوگوں کی‬
‫روزمرہ زندگی کے ربط میں زبردستی تبدیلیاں اور سماجی عناصر میں کمی کو کہا جا رہا‬
‫ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیونکہ تھکا ہوا سٹاف کم کارآمد ہوتا ہے اس لیے متعدد کمپنیاں اپنے مالزمین کو بہتر اور‬
‫زیادہ نیند دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ نیکول بیکر کی کمپنی ایم وی ایف بھی ایسی ہی ایک‬
‫کمپنی ہے۔ جب کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی تو ایم وی ایف نے مالزمین کی بہتری‬
‫کے لیے ذہنی صحت سے متعلق سیشن کیے اور میڈیٹیشن ایپ ’ہیڈ سپیس‘ کی مفت‬
‫سبسکرپشن دی۔‬
‫نیکول کہتی ہیں اس سب نے انھیں انسومنیا کا مقابلہ کرنے میں مدد کی ہے۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ ’ان وسائل سے مجھے یہ پہچاننے میں مدد ملی کہ وبا نے مجھے کیسے‬
‫متاثر کیا ہے اور مجھے ذہنی سکون مال۔‘‬
‫کیٹی فشر ایک سلیپ کوچ ہیں اور ’سرکیڈین سلیپ کوچنگ‘ کی بانی ہیں۔ وہ مختلف‬
‫کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ ان کے مالزمین کی مدد کی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے‬
‫کہ الک ڈاؤن میں گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کی نیند متاثر ہوئی ہے۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ گھروں میں رہنے کی وجہ سے صبح دیر تک سوتے ہیں۔‬
‫وہ ورزش کم کرتے ہیں اور انھیں تھکاوٹ دور کرنے کا موقع نہیں ملتا۔‘‬

‫کیٹی فشر‬
‫’دفتر نہ جانے سے وقت کا احساس‪ ،‬جو دن کا ربط چالتا ہے‪ ،‬متاثر ہوتا ہے۔‘‬
‫ایڈورٹائزنگ کی عالمی کمپنی گروپ ایم کے ساتھ بھی کیٹی کام کرتی ہیں۔ گروپ ایم پہلے‬
‫ہی نومولود بچوں کے والدین کے لیے نیند کے لیے کوچنگ کی ورک شاپس اپنے مالزمین‬
‫کو فراہم کرتا تھا۔ وبا کے دوران انھوں نے اپنی یہ سروس تمام مالزمین کو فراہم کی ہے۔‬
‫اپنے سیشنز میں کیٹی لوگوں کی صحت کا جائزہ لیتی ہیں‪ ،‬ان کے ذاتی حاالت اور نیند میں‬
‫کمی کی وجوہات پرکھتی ہیں اور ان مسائل کے حل تجویز کرتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫گروپ ایم کی جینیفر ہارلی کہتی ہیں کہ نیند سے متعلق سپورٹ ان کے کاروبار کے لیے‬
‫اہم ہے۔ ’جب ہم کافی نیند نہیں کرتے تو ہم اپنا کام بہترین انداز میں نہیں کرتے‪ ،‬اسی لیے‬
‫ہمیں نیند میں بہتری کے معاملے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کاروباروں کو‬
‫چاہیے کہ وہ اس بات کے اثرات جائزہ لیں کہ اُن کے مالزمین کتنے صحتمند خوش اور‬
‫نیند پوری کیے ہوئے ہیں۔‘‬
‫رینڈ گروپ کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی ناکافی نیند کی وجہ‬
‫سے کام صحیح سے نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی معیشت کو ‪ 40‬ارب پاؤنڈ کا نقصان‬
‫ہوتا تھا۔‬
‫اب جیسے جیسے بہت سے کاروبار لوگوں کو گھروں سے کام کرنے دے رہے ہیں کیٹی‬
‫فشر کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ وقتا ً فوقتا ً اپنے مالزمین کو چیک کرتے رہیں۔‬
‫ان کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ دفتری اور گھریلو زندگی میں توازن رکھیں اور‬
‫جو لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں ان کو ایک متواتر روٹین رکھنے کو کہیں۔‬
‫وہ لوگوں کو یہ تجویز بھی دیتی ہیں کہ وہ صبح اٹھنے کا ایک وقت رکھیں چاہے وہ گھر‬
‫سے کام کر رہے ہیں یا دفتر سے۔‬
‫میکس کرسٹن ایک ہپنو تھراپسٹ اور سلیپ کوچ ہیں۔ ان کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا‬
‫کے دوران لوگوں میں کچھ بری عادتیں پیدا ہو گئیں ہیں جیسے کہ فون پر بہت زیادہ وقت‬
‫ضائع کرنا جو کہ ان کی نیند کے ربط کو خراب کر رہا ہے۔‬
‫’لوگ اپنے کام کی سکرین سے اپنے تقریحی وقت میں دوسری سکرینوں پر جا رہے ہیں‬
‫اور پھر سونے کے وقت بھی ان کے پاس ایک سکرین ہوتی ہے۔ اس کے عالوہ بے وقتی‬
‫کافی یا شراب بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برطانیہ میں ایسوسی ایشن فار ڈی سنٹرالئزڈ ایینرجی (اے ڈی ای) نے میکس کرسٹن کو‬
‫اپنے مالزمین میں نیند کے مسائل کے حل کے لیے رکھا۔ اے ڈی ای میں آپریشنز کی‬
‫سربراہ لیلی فرنچمن کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی کو نیند کے مسائل ہو رہے ہیں تو میں اس‬
‫کی ضرور سنوں گی۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کچھ کام نہیں کر رہا ہے۔ چاہے وہ دفتری‬
‫ہے یا ذاتی مسئلہ ہے‪ ،‬اس شخص کو سپورٹ چاہیے۔‘‬
‫میکس کرسٹن کا کہنا ہے کہ ’نیند کو کبھی بھی مشکل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔‬
‫یہ وہ ستون ہے جو آپ کی کارکردگی بہتر کرتا ہے۔‬
‫‘‪https://www.bbc.com/urdu/science-582006‬‬

‫کورونا کی قسم ڈیلٹا سے بچاؤ کیلئے ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟ آپ‬
‫بھی جان لیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪18 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا بہت زیادہ متعدی ہے یعنی کسی کو بھی آسانی سے بیمار‬
‫کرسکتی ہے مگر وہ ویکسنز سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خالف مزاحمت نہیں‬
‫کرسکتی۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ واشنگٹن‬
‫یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ ویکسنیشن مکمل‬
‫کرانے والے افراد اگر ڈیلٹا سے متاثر ہو بھی جائیں تو بھی وہ زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے فائزر‪/‬بائیو این ٹیک کووڈ ویکسین سے جسم میں بننے‬
‫والی اینٹی باڈیز کے ردعمل کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم ایک کے‬
‫عالوہ دیگر اینٹی باڈیز پر حملہ آور نہیں ہوپاتی۔اس کے مقابلے میں کورونا کی قسم بیٹا‬
‫وائرس ناکارہ بنانے والی متعدد اینٹی باڈیز سے بچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔‬
‫اس سے قبل اسی ٹیم نے ایک اور تحقیق میں ثابت کیا تھا کہ قدرتی بیماری اور ویکسنیشن‬
‫سے جسم میں اینٹی باڈیز بننے کا دیرپا عمل تشکیل پاتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق اینٹی باڈی ردعمل تحفظ کا صرف ایک پہلو ہے اور اس کی وسعت بھی‬
‫بیماری سے بچاؤ کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کا دیگر اقسام کو‬
‫پیچھے چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دیگر اقسام کے مقابلے میں وائرس ناکارہ بنانے‬
‫والی اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت بھی کرسکتی ہے۔‬
‫تحقیق کے لیے ماہرین نے فائزر ویکسین استعمال کرنے والے ‪ 3‬افراد کے جسم سے اینٹی‬
‫باڈیز بنانے والے خلیات کو حاصل کیا۔انہوں نے لیبارٹری میں خلیات کی نشوونما کی اور‬
‫ان میں سے ‪ 13‬اینٹی باڈیز کو حاصل کیا جو کورونا کی اوریجنل قسم کو ہدف بناتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بعد ازاں ان اینٹی باڈیز کی آزمائش کورونا کی ‪ 4‬اقسام ایلفا‪ ،‬بیٹا‪ ،‬گیما اور ڈیلٹا پر کی گئی۔‬
‫میں سے ‪ 12‬اینٹی باڈیز نے ایلفا اور ڈیلٹا کو شناخت کرلیا‪ 8 ،‬نے چاروں اقسام کو ‪13‬‬
‫شناخت کیا اور صرف ایک چاروں میں سے کسی ایک کو بھی شناخت کرنے میں ناکام‬
‫رہی۔ان ‪ 13‬میں سے ‪ 5‬اینٹی باڈیز وائرس کی اوریجنل قسم کو ناکارہ بنانے کی صالحیت‬
‫رکھتی تھیں۔‬
‫جب ان وائرس ناکارہ بنانے والی ‪ 5‬اینٹی باڈیز کی آزمائش نئی اقسام پر کی گئی پانچوں‬
‫نے ڈیلٹا کو ناکارہ بنادیا‪ 3 ،‬نے ایلفا اور گیما جبکہ صرف ایک چاروں اقسام کو ناکارہ‬
‫بنانے میں کامیاب ہوسکی۔‬
‫کہا جاتا ہے اور ‪C08‬جس ایک اینٹی باڈی نے چاروں اقسام کو ناکارہ بنایا اسے ‪2‬‬
‫جانوروں میں تجربات میں بھی اس نے تمام اقسام سے تحفظ فراہم کیا تھا۔‬
‫تحیق میں بتایا گیا کہ ایک مثالی اینٹی باڈی ردعمل متعدد اقسام کی اینٹی باڈیز پر مشتمل‬
‫ہوتا ہے جو وائرس کی متعدد مختلف اقسام کو شناخت کرنے کی صالحیت رکھتی ہوں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ویکسنیشن کی صورت میں ڈیلٹا نسبتا ً کمزور قسم ثابت ہوتی ہے‪ ،‬اگر‬
‫بیٹا جیسی زیادہ مزاحمت مگر ڈیلٹا کی طرح آسانی سے پھیلنے قسم سامنے آجائے تو ہم‬
‫زیادہ مشکل میں ہوں گے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ایک قسم جو زیادہ بہتر طریقے سے اپنی نقول بناتی ہو وہ ممکنہ طور پر‬
‫زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ڈیلٹا قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے‬
‫مگر ایسے شواہد موجود نہیں کہ ویکسین کے خالف دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ‬
‫مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫جیسی طاقتور اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو ان کو ‪C08‬ان کا کہنا تھا کہ کچھ افراد میں ‪2‬‬
‫کورونا وائرس اور اس کی متعدد اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل امیونٹی میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166576/‬‬

‫کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں ‪ 55‬طویل المعیاد عالمات کی‬
‫شناخت‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪18 2021‬‬
‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬
‫کووڈ کو شکست دینے والے متعدد افراد کو طویل المعیاد بنیادوں پر ‪ 55‬مختلف عالمات کا‬
‫سامنا ہوسکتا ہے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ طبی جریدے جرنل‬
‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سائنٹیفک رپورٹس میں شائع تحقیق میں ‪ 18‬ہزار سے زیادہ تحقیقاتی مقالوں میں سے ‪15‬‬
‫تحقیقی رپورٹس کو منتخب کرکے ان کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫ہزاروں افراد کے ڈیٹا پر مشتمل ان تحقیقی رپورٹس میں ‪ 17‬سے ‪ 87‬سال کی عمر کے‬
‫مریضوں کا جائزہ صحتیابی کے بعد ‪ 14‬سے ‪ 110‬دن تک لیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مجموعی طور پر کووڈ کو شکست دینے کے کئی ہفتوں یا‬
‫مہینوں بعد متعدد افراد کم ‪ 55‬مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ایسے مریضوں کے لیے النگ کووڈ کی اصطالح استعمال ہوتی ہے اور ان میں تھکاوٹ‬
‫کا مسئلہ سب سے عام تھا جس کا سامنا ‪ 58‬فیصد افراد کو ہوا۔‬
‫اسی طرح سردرد‪ ،‬سونگھنے کی حس سے مکمل یا جزوی محرومی‪ ،‬توجہ مرکوز کرنے‬
‫میں مشکالت‪ ،‬بالوں سے محرومی اور جوڑوں کی تکلیف بھی عام ترین عالمات تھیں۔‬
‫کچھ افراد میں فالج اور ذیابیطس جیسے امراض کو بھی دریافت کیا گیا جبکہ دیگر طویل‬
‫المعیاد عالمات میں کھانسی‪ ،‬سینے میں عدم اطمینان‪ ،‬پھیپھڑوں کی گنجائش کم ہونا‪ ،‬نیند‬
‫کے دوران چند لمحات کے لیے سانس رکنا‪ ،‬دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی اور دل کے‬
‫پٹھوں کے ورم جیسی عالمات کو بھی مریضوں نے رپورٹ کیا۔‬
‫دماغی و ذہنی عالمات جیسے ڈیمینشیا‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬ذہنی بے چینی اور اضطراب بھی اس‬
‫فہرست کا حصہ تھیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 15‬فیصد مریضوں نے سننے کی حس کے مسائل کو بھی رپورٹ‬
‫کیا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے ‪ 80‬فیصد افراد نے صحتیابی کے دو‬
‫ہفتے بعد کم از کم ایک عالمت کو رپورٹ کیا۔‬

‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ متعدد اثرات کی شناخت ممکنہ طور پر ابھی تک نہیں ہوسکی اور‬
‫اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ مریضوں کو طویل‬
‫المعیاد عالمات کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166582/‬‬

‫دوران حمل ماں میں ذیابیطس کا مسئلہ بچے کی بینائی کیلئے خطرہ‬
‫ہوسکتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪18 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی‬


‫حمل سے قبل یا اس کے دوران ذیابیطس کی شکار خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں‬
‫میں بینائی کے مسائل کاخطرہ زیادہ ہوتا ہے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی‬
‫گئی۔چین کی نانجنگ میڈیکل یونیورسٹی اور نیدرلینڈز کی آراہوس یونیورسٹی کی اس‬
‫مشترکہ تحقیق میں حمل سے قبل یا اس سے دوران ماں میں ذیابیطس اور ہونے والے بچے‬
‫میں مستقبل میں بینائی کے مسائل ریفرایکٹیو‪ Q‬ایرر (آر ای) کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا‬
‫گیا۔آر ای بینائی کو متاثر کرنے والے عام امراض میں سے ایک ہے جس کے نتیجے میں‬
‫دور اور قریب دونوں طرح کی بینائی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر اس عارضے کی شدت معمولی ہو تو چشمے یا کانٹیکٹ لینس سے مدد لی جاسکتی ہے‬
‫مگر شدت زیادہ ہونے پر متاثرہ فرد کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت ہوا کہ جن افراد کو آر ای کی زیادہ شدت کا سامنا ہوتا ہے‪ ،‬ان میں‬
‫ممکنہ طورپر پیدائش سے قبل آنکھوں میں نقص پیدا ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق حمل کے دوران ماں کا بلڈ شوگر لیول زیادہ ہونا مستقبل میں بچوں میں‬
‫اس مسئلے کو سنگین بنانے کا باعث بنتا ہے۔‬
‫اس خیال کو مزید جانچنے کے لیے تحقیقی ٹیم نے ڈنمارک میں ‪ 1977‬سے ‪ 2016‬تک‬
‫بچوں کی پیدائش کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور یہ دیکھا کہ پیدائش کے بعد ‪ 25‬سال کی عمر‬
‫تک کن افراد کو آر ای کا سامنا ہوا۔‬
‫اس عرصے میں ‪ 24‬الکھ ‪ 70‬ہزار سے زیادہ بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں سے ‪ 56‬ہزار‬
‫سے زیادہ دوران حمل ماں کے ذیابیطس کے اثر سے متاثر ہوئے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ماؤں میں ذیابیطس کا عارضہ زیادہ ام ہوگیا‬
‫تھا‪ 1977 ،‬میں یہ شرح ‪ 0.4‬فیصد تھی جو ‪ 2016‬میں ‪ 6.5‬فیصد ہوگئی۔‬
‫تحققیق کے دوران ‪ 533‬بچوں میں مستقبل میں آر ای کی تشخیص ہوئی جبکہ جو اس سے‬
‫بچ گئے ان میں بھی اس عارضے کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 39‬فیصد زیادہ دریافت‬
‫میں شائع ہوئے۔ ‪ Diabetologia‬کیا گیا۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166580/‬‬

‫جوان مردوں میں کووڈ کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬تحقیق‬


‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪19 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫نوجوانوں میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ کا خطرہ توقعات سے زیادہ‬
‫ٰ‬
‫دعوی کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔ تحقیق میں بتایا گیا‬ ‫ہوتا ہے۔یہ‬
‫کہ نوجوانوں میں کورونا وائرس کی شرح پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور جوان مرد‬
‫معمر افراد میں اس بیماری کو منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫معمر افراد میں کووڈ میں مبتال ہونے اور سنگین نتائج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬یہی وجہ‬
‫ہے کہ ویکسینیشن کی مہمات میں ابتدا میں ان پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔‬
‫ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ معمر افراد میں بیماری کی زیادہ شرح رپورٹ‬
‫ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمر کے گروپ کے ٹیسٹ زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ ان‬
‫میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہونا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫محققین نے بتایا کہ جب لوگ وبا میں کیسز کے اعدادوشمار دیکھتے ہیں تو اکثر ہم یہ‬
‫فراموش کردیتے ہیں کہ جتنے کیسز ہم دیکھ رہے ہیں ان کا انحصار ٹیسٹنگ کی تعداد پر‬
‫ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر عمر کے گروپ میں ٹیسٹنگ کی شرح مختلف ہے۔‬
‫تحقیق میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں مارچ سے دسمبر ‪ 2020‬کے دوران تمام پی سی آر‬
‫ٹیسٹوں اور کیسز کی تعداد کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے اس مقصد کے لیے مختلف ماڈلز تیار کیے تاکہ ہر عمر کے گروپ میں‬
‫بیماری کی شرح کے فرق پر ٹیسٹنگ کی شرح کے اثرات کا علم ہوسکے۔‬
‫تمام تر عناصر کو مدنظر رکھنے پر دریافت کیا گیا کہ ‪ 10‬سے سال کم عمر بچوں اور ‪80‬‬
‫سال سے زائد عمر کے افراد میں بیماری کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے۔‬
‫اس کے مقابلے میں لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں‪ 20 ،‬سے ‪ 49‬سال کے‬
‫افراد میں بیماری کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے بالخصوص جوان مردوں میں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے جو دیکھا وہ تو بس آغاز ہے اور نوجوان افراد میں اس‬
‫بیماری کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا صرف کینیڈین صوبے کا تھا اور زیادہ بڑی آبادی پر مزید تحقیق‬
‫سے نتائج کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اینالز آف انٹرنل میڈیسین میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166584/‬‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سفید اور الل گوشت کے صحت پر اثرات‬

‫اگست ‪18 2021 ،‬‬

‫گوشت ہماری غذا کا ایک بڑا اور اہم حصہ ہے‪ ،‬کم از کم ہفتے میں دو سے تین بار گوشت‬
‫کا عام استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬ایسے میں جاننا ضروری ہے کہ کونسا اور کس قسم کا گوشت‬
‫انسانی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غذائی و طبی ماہرین کی جانب سے سبزی پھلوں سمیت گوشت کا استعمال بھی تجویز کیا‬
‫جاتا ہے کیوں کہ انسانی صحت کا براہ راست تعلق غذا سے ہوتا ہے‪ ،‬ہر غذا صحت کے‬
‫لیے کچھ نہ کچھ افادیت کی حامل ہے بشرطیکہ اُسے اعتدال میں رہ کر کھایا جائے۔‬

‫گوشت پروٹین حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے‪ ،‬گائے‪ ،‬بھینس‪ ،‬بچھیا اور بکرے کا‬
‫گوشت الل ہوتا ہے اور ان کے گوشت میں کولیسٹرول کی مقدار بھی زیادہ ہوتا ہے جس‬
‫کے سبب ان کے زیادہ استعمال سے دل کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا‬
‫پڑ سکتا ہے۔‬
‫دوسری جانب مچھلی اور مرغی کے گوشت (وائٹ میٹ) سے انسانی جسم کو پروٹین‪،‬‬
‫منرلز اور وٹامنز حاصل ہوتے ہیں اور وائٹ میٹ میں کیلوریز اور چکنائی کی مقدار کم‬
‫پائی جاتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے ’ریڈ میٹ ‘ یعنی کہ چھوٹا گوشت (مٹن‪ ،‬بکرا) اور بڑا گوشت‬
‫(گائے‪ ،‬بیف ) کو عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھانا تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے‬
‫مسائل کا سبب بن جاتی ہے‪ ،‬مٹن میں چکنائی کی مقدار‪ ،‬چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے‬
‫جبکہ بیف (بڑے گوشت) میں چکنائی کی زیادہ مقدار مرغی‪ ،‬مچھلی اور بکرے کے‬
‫گوشت سے زیادہ پائی جاتی ہے اور دوسرے غذائی اجزا مثالً پروٹین‪ ،‬زنک‪ ،‬فاسفورس‪،‬‬
‫ٓائرن اور وٹامن بی کی مقدار بھی موجود ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫غذائی ماہرین کے مطابق گائے کے گوشت کی ‪ 100‬گرام مقدار میں ‪ 250‬کیلوریز ‪15 ،‬‬
‫گرام فیٹ ‪ 30 ،‬فیصد کولیسٹرول ‪ 3 ،‬فیصد سوڈیم ‪ 14 ،‬فیصد ٓائرن ‪ 20 ،‬فیصد وٹامن بی‬
‫‪ 5 ،6‬فیصد میگنیشیم ‪ 1 ،‬فیصد کیلشیم اور وٹامن ڈی اور ‪ 43‬فیصد کوباال من پایا جاتا ہے‬
‫جبکہ بکرے کے گوشت کے ‪ 11‬گرام مقدار میں ‪ 294‬کیلوریز‪ 32 ،‬فیصد فیٹ ‪ 45 ،‬فیصد‬
‫سیچوریٹڈ فیٹ‪ 32 ،‬فیصد کولیسٹرول ‪ 3 ،‬فیصدسوڈیم ‪ 8 ،‬فیصد پوٹاشیم ‪ 50 ،‬فیصد‬
‫پروٹین ‪ 10 ،‬فیصد ٓائرن ‪ 5 ،‬فیصد وٹامن بی ‪ 5 ،6‬فیصد میگنیشیم ‪ ،‬اور ‪ 43‬فیصد‬
‫کوباالمین پایا جاتا ہے ۔‬
‫اسی طرح مرغی کے گوشت کی ‪ 100‬گرام مقدار میں ‪ 239‬کیلوریز پائی جاتی ہیں‪14 ،‬‬
‫گرام گیٹ‪ 3.8 ،‬گرام سیچوریٹڈ فیٹ‪ 29 ،‬فیصد کولیسٹرول ‪ 3 ،‬فیصد سوڈیم ‪ 6 ،‬فیصد‬
‫پوٹاشیم‪ 27 ،‬گرام پروٹین ‪ 20 ،‬فیصد وٹامن بی ‪ 5 ،6‬فیصد میگنیشیم اور ‪ 7‬فیصد ٓائرن پایا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق مچھلی کے ‪ 100‬گرام گوشت میں ‪ 206‬کیلوریز‪ 18 ،‬فیصد فیٹ‪،‬‬
‫‪ 12‬فیصد سیچوریٹڈ فیٹ‪ 21 ،‬فیصد کولیسٹرول ‪ 2 ،‬فیصد سوڈیم ‪ 10 ،‬فیصد پوٹاشیم ‪44 ،‬‬
‫فیصد پروٹین ‪ 6 ،‬فیصد وٹامن سی ‪ 1 ،‬فیصد ٓائرن ‪ 30 ،‬فیصد وٹامن بی ‪ 7 ،6‬فیصد‬
‫میگنیشیم ‪ ،‬اور ‪ 46‬فیصد کوباال مین پایا جاتا ہے ۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق سفید اور الل گوشت کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں‪ ،‬اس‬
‫لیے انہیں اعتدال میں رہ کر استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ الل گوشت خصوصا ً گائے کے‬
‫گوشت سے احتیاط ہی تجویز کی جاتی ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق گوشت کو اپنی غذا کا حصہ بنانے سے پہلے اس کی مقدار کا تعین‬
‫ضرور کر لیں‪ ،‬اگر الل گوشت کھا رہے ہیں تو اعتدال کے ساتھ اس کا استعمال کریں اور‬
‫ساتھ میں سبزی وغیرہ سالد کی شکل میں ضرور کھائیں‪ ،‬اس بات کو یقینی بنائیں کے الل‬
‫گوشت کے استعمال کے دوران اس میں موجود چربی اچھی طرح سے صاف کی گئی ہو۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/971867‬‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سویابین کے استعمال کے صحت پر مثبت اثرات‬
‫اگست ‪19 2021 ،‬‬

‫سویابین پھلیوں کی قسموں میں سے ایک قسم ہے جسے سوئےبین بھی کہا جاتا ہے‪،‬‬
‫سویابین کا تعلق مٹر کے خاندان سے ہے‪ ،‬سویابین کی افادیت کے سبب‪  ‬اس کی دنیا بھر‬
‫میں وسیع پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے‪ ،‬سویا بین انسانی صحت کے لیے مفید غذأوں میں‬
‫سے ایک ہے۔‬
‫سویا بین کے فوائد سے متعلق تحقیق کا سلسلہ جاری ہے تاہم اب تک جمع شدہ حقائق کے‬
‫تحت ماہرین سویابین کو روزمرہ خوراک میں شامل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق سویابین پر مبنی خوراک کے استعمال کے نتیجے میں صحت‬
‫سے جڑے مسائل بالخصوص امراض قلب کا حل‪  ‬اور عالج ممکن ہوتا ہے۔‬
‫سویا بین کے استعمال کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غذائیت اور افادیت مندرجہ ذیل‬
‫‪:‬ہے‬
‫سویا بین میں شامل غذائی اجزا‬
‫اعلی اور معیاری پروٹین پر مشتمل پھلی ہے‪ ،‬ان میں ضروری غذائی جز و امینو‬ ‫ٰ‬ ‫سویا بین‬
‫ایسڈز پائے جاتے ہیں‪ ،‬چند سویابین پھلیاں ایسی بھی ہیں جن میں کیلشیم اور ٓائرن پایا جاتا‬
‫ہے مثالً چائینیز ٹوفو یا پھر کیلشیم فورٹیفائیڈ سویا ڈرنکس‪ ،‬سویابین کی پھلیوں میں فائبر‪،‬‬
‫پروٹین‪ ،‬وٹامن کے‪ ،‬وٹامن سی‪ ،‬فولیٹ‪ ،‬لو فیٹ‪ ،‬کولیسٹرول فری‪ ،‬لیکٹوز فری اور اومیگا‬
‫‪3‬فیٹی بھی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔‬
‫ہرا سویابین کے فوائد‬
‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پروٹین اور غذائیت سے بھرپور ہرے سوئے بین میں بھی وٹامن سی‪ ،‬کے‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬کیلشیم‬
‫کے ساتھ اومیگا ‪ 3‬فیٹی ایسڈ بھی پایا جاتا ہے‪ ،‬فائبر سے بھر پور یہ پھلی ڈائٹنگ کے لیے‬
‫ٓائیڈیل ہے۔‬
‫‪:‬سوکھے ہوئے سوئے بین کے فوائد‬
‫نظام ہاضمہ میں بہتری[ کا سبب‬
‫سویا بین کو پروٹین کا سب سے اہم اور خاص ذریعہ مانا جاتا ہے‪ ،‬جسم میں پروٹین کی‬
‫کافی مقدار میٹابولزم کی کارکردگی بہتر بنانے اور مجموعی طور پر جسمانی نظام کی‬
‫‪ ‬بہتری میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔‬
‫پروٹین انسانی جسم کے لیے ایک بہترین جزو ہے‪ ،‬جو جسمانی وزن میں کمی‪ ،‬مسلز اور‬
‫‪ ‬خون کے خلیات کو بنانے اور ان کی مرمت کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫ویجیٹیرین یا ویگن ڈائٹ پر عمل کرنے والے افراد کے لیے مناسب مقدار میں پروٹین کا‬
‫حصول مشکل ہوجاتا ہے‪ ،‬ایسے میں گوشت‪ ،‬چکن‪ ،‬انڈوں‪ ،‬ڈیری مصنوعات اور مچھلی‬
‫کے متبادل کے طور پر سویا بین پروٹین کی کافی مقدار فراہم کرتا ہے۔‬

‫کینسر کے خالف مزاحمت پیدا کرنے والی غذا‬


‫اعلی سطح کے‬ ‫ٰ‬ ‫امریکی یونیورسٹی کے ریسرچر ڈین پریٹ کا کہنا ہے کہ سویا بین میں‬
‫اینٹی ٓاکسیڈنٹ شامل ہوتے ہیں‪ ،‬امریکن انسٹیٹیوٹ ٓاف کینسر ریسرچ کے مطابق سویا بین‬
‫میں فائبر کی کثیر مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ انسانی جسم میں کولوریکٹل اور کولون‬
‫‪ ‬کینسر کے خطرات کم کردیتی ہے۔‬
‫( ‪ Isoflavones‬دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ سویا بین میں پائے جانے والے‬
‫اور پولی فینول مرکبات بھی کینسر سے محفوظ رکھتے ہیں۔ )فائیٹوزٹروجن کی ایک قسم‬
‫‪ ‬دل کی صحت کے لیے مفید‬
‫سویابین کوصحت بخش اور اَن سیچوریٹڈ فیٹس کا اہم ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے جو جسم سے‬
‫‪ ‬مجموعی کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔‬
‫اَن سیچوریٹڈ فیٹس ٓاپ کو ایتھیروسلی روسس( دل کی بیماری جس میں ایک غیر لچکدار‬
‫مادہ دل اور اس کی شریانوں پرجمع ہو جاتا ہے) سے محفوظ رکھتا ہے‪ ،‬یہ بیماری بآاسانی‬
‫ہارٹ اٹیک اور اسٹروکس جیسی جان لیوا بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے۔‬
‫روزانہ ‪ 25‬گرام سویابین کا استعمال دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتا ہے۔‬
‫ذیابطیس کو متوازن رکھتا ہے‬
‫‪ ‬سویابین کا استعمال ذیابطیس کے مریضوں‪ Q‬کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔‬
‫سویا بین کا مختلف طریقوں سے استعمال ذیابطیس کی روک تھام یا اس کو منظم کرنے‬
‫‪ ‬کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔‬
‫سویا بین میں کاربوہائیڈریٹ کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے‪ ،‬اس میں موجود‬
‫کاربوہائیڈریٹ شوگر کی مقدار کو بڑھائے بغیر توانائی فراہم کرتے ہیں۔‬
‫ہڈیوں کے لیے مفید پھلیاں‬
‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سویا بین میں وٹامنز اور منرلز (کیلشیم‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬سلینیم‪ ،‬کاپر اور زنک) کی خاصی‬
‫مقدار موجو د ہوتی ہے جو ہڈیوں کی نشوونما اور ان کی تعمیر و مرمت کے لیے الزمی‬
‫قرار دیئے جاتے ہیں۔‬
‫یہ تمام عناصر ٓاسٹیوٹروپک‪ Q‬ایکٹیویٹی کے لیے بے حد ضروری قرار دیئے جاتے ہیں۔‬
‫یہ غذائی اجزا نئی ہڈیوں کی تعمیر اور موجود ہ ہڈیوں کی کارکردگی کو فعال بنانے میں‬
‫اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫حاملہ خواتین بہترین غذا‬
‫دنیا دن بدن ترقی کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے باوجود بیماریوں کی بڑھتی شرح‬
‫‪ ‬تشویشناک ہے۔‬
‫ایسے میں سویابین کا استعمال حاملہ خواتین کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے‪ ،‬سویابین‬
‫میں موجود وٹامن بی اور فولک ایسڈ کی کثیر مقدار حاملہ خاتون اور بچے کی زندگی کے‬
‫‪ ‬لیے بہتر ثابت ہوتی ہے۔‬
‫فولک ایسڈ نومولود کو پیدائش کے بعد دماغی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/972401‬‬

‫طویل المعیاد عالمات کی بنیادی وجہ دریافت‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 18 2021‬‬

‫کورونا وائرس کو شکست دینے کے باوجود متعدد مریضوں کو کئی ہفتوں اور مہینوں‬
‫تک وبائی عالمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے النگ کووڈ کی اصطالح استعمال‬
‫کی جاتی ہے۔‬
‫ٓائرلینڈ میں ہونے والی تحقیق میں ماہرین نے النگ کووڈ کا باعث بن‪QQ‬نے والی ممکنہ بنی‪QQ‬ادی‬
‫وجہ کو دریافت کرلیا جس میں کہا گیا ہے کہ بلڈ کالٹس کا سامنا کرنے والے مریضوں ک‪QQ‬و‬
‫طویل المعیاد کورونا عالمات الحق ہوتی ہیں۔ اس سے جس‪QQ‬مانی فٹنس میں کمی اور مسلس‪QQ‬ل‬
‫تھکاوٹ کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔‬
‫آر سی ایس آئی یونیورسٹی آف میڈیسین اینڈ ہیلتھ س‪QQ‬ائنز کی تحقی‪QQ‬ق کے مط‪QQ‬ابق بیم‪QQ‬اری ک‪QQ‬و‬
‫شکست دینے والے مریضوں میں النگ کووڈ کی بنی‪QQ‬ادی وجہ ممکنہ ط‪QQ‬ور پ‪QQ‬ر غ‪QQ‬یرمعمولی‬
‫بلڈ کالٹس کا مسئلہ ہے۔‬
‫اس مشاہدے میں شامل ماہرین نے اس سے قبل بھی النگ کووڈ کی وجہ بلڈ کالٹس کو قرار‬
‫دیا تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ النگ کووڈ کے شکار افراد میں ابتدائی بیم‪QQ‬اری کے بع‪QQ‬د بھی‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف عالمات برقرار رہتی ہیں اور ایک تخمینے کے مطابق دنیا‬
‫بھر میں الکھوں افراد کو اس کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہرین نے النگ کووڈ کا سامنا کرنے والے پچاس مریضوں کا اپ‪Q‬نی تحقی‪Q‬ق ک‪Q‬ا حص‪Q‬ہ بنای‪Q‬ا‬
‫جس سے پتا چال کہ النگ کووڈ کے مریضوں کے خون میں صحت من‪QQ‬د اف‪QQ‬راد کے مق‪QQ‬ابلے‬
‫میں بلڈ کالٹنگ کا باعث بننے والے عناصر میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے‪ ،‬ک‪QQ‬ووڈ کے ب‪QQ‬اعث‬
‫اسپتال جانے والے مریضوں میں یہ مسئلہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جو لوگ گھر میں رہ کر بیماری کو شکس‪QQ‬ت دی‪QQ‬تے ہیں‬
‫ان میں بھی ان عناصر کی شرح ک‪QQ‬افی زی‪QQ‬ادہ ہ‪QQ‬وتی ہے۔ م‪QQ‬اہرین نے الن‪QQ‬گ ک‪QQ‬ووڈ کی دیگ‪QQ‬ر‬
‫عالمات جیسے جس‪QQ‬مانی فٹنس میں کمی اور تھک‪QQ‬اوٹ اور بل‪QQ‬ڈ کالٹس کے درمی‪QQ‬ان تعل‪QQ‬ق ک‪QQ‬ا‬
‫مشاہدہ بھی کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/discover-the-root-cause-of-long-term-symptoms/‬‬

‫کون سی غذا قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے؟‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 19 2021‬‬

‫انسانی جسم میں موجود قوت مدافعت کے نظام کو ایک پیچیدہ نظام سمجھا جاتا ہے جس‬
‫میں جسم کے بہت سے مختلف حصے ہم آہنگی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اسی لیے‬
‫اس نظام کی مضبوطی بے حد ضروری ہے۔‬
‫قوت مدافعت کی کمزوری بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہے اس لیے یہ بات انتہائی اہم‬
‫ہے کہ اس کی مضبوطی کیلئے ہمیں پہلے ہی اقدامات کرلینے چاہئیں۔‬
‫طرز زندگی اور خوراک آپ کے مدافعتی نظام پر بہت اثر انداز ہوتی ہے‪ ،‬یہ آپ کا‬ ‫ِ‬ ‫آپ کا‬
‫مدافعتی نظام ہی ہے جو آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اگر بیمار ہوجائیں تو‬
‫اس سے صحت یاب ہونے میں مدد دیتا ہے۔‬
‫نیند‪ ،‬ورزش اور ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب خوراک کا استعمال بھی آپ‬
‫کو امراض کے خالف لڑنے میں بھرپور مدد دے سکتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق پھلوں‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬اناج‪ ،‬لحمیات‪ ،‬خشک میوہ جات اور بیجوں کا مناسب‬
‫استعمال آپ کے مدافعتی نظام کو مضبوط رکھتا ہے۔‬
‫اسی طرح کھانے پینے کی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن میں غذائیت بہت کم ہوتی ہے اور‬
‫ان کا زیادہ استعمال آپ کو موٹاپے‪ ،‬ذیابیطس اور دوسرے دائمی امراض کا شکار کر سکتا‬
‫ہے۔‬
‫یہ آپ کے مدافعتی نظام پر بھی ضرب لگاتی ہیں اور آپ کو صحت مند رکھنے کی‬
‫صالحیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر آپ کی خواہش ہے کہ اپنے مدافعتی نظام کو‬
‫مضبوط بنانا ہے تو سب سے پہلے سوڈا یعنی کولڈ ڈرنک کا استعمال بند کردیں۔‬
‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مشروبات میں چینی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ موٹاپے کے عالوہ ‪ carbonated‬سافٹ ڈرنکس یا‬
‫یہ آپ کو کئی دائمی امراض میں مبتال کر سکتی ہیں کہ جن کا تعلق کمزور مدافعتی نظام‬
‫میں اضافہ کرتا ہے جس )‪ (inflammation‬سے ہے۔ چینی کا بہت زیادہ استعمال سوزش‬
‫سے امراض سے لڑنے کی صالحیت ختم ہو جاتی ہے۔‬
‫زہر قاتل ہیں۔ نشہ آور مشروبات‬
‫سافٹ کے عالوہ ہارڈ ڈرنکس بھی مدافعتی نظام کے لیے ِ‬
‫کے استعمال سے آپ کے جسم میں بیماریوں کا سامنا کرنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔‬
‫اس کے عالوہ آپ نمونیا اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کی زد پر آ جاتے ہیں‪ ،‬زخم دیر‬
‫سے بھرتے ہیں اور بیماریوں سے صحت یابی میں تاخیر ہوتی ہے۔‬
‫مشروبات ہی نہیں بلکہ فروزن فوڈز یعنی جمے جمائے کھانے بھی خطرے سے خالی‬
‫نہیں۔ بچے کو پانچ منٹ میں بنا بنایا کھانا گرم کرکے دینا ویسے تو اچھا اور آسان لگتا ہے‬
‫لیکن یہ مدافعتی نظام کے لیے مناسب نہیں۔‬
‫ایسے فروزن فوڈز میں سوڈیم‪ ،‬چینی‪ ،‬چکنائی اور خالص نشاستہ زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬جبکہ‬
‫غذائیت اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی خوراک سے دوری ہی بھلی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/immunity-system-cause-of-diseases-health-‬‬
‫‪tips/‬‬

‫معمر افراد میں کورونا کے پھیالؤ کا ذمہ دار کون ہے‪ ،‬تحقیق میں‬
‫انکشاف‬
‫ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪  19 2021‬‬

‫ٹورنٹو[ ‪ :‬ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ نوجوان افراد خود کو کورونا وائرس‬
‫سے محفوظ نہ سمجھیں‪ ،‬معمر افراد میں کورونا کے پھیالؤ کے ذمہ دار نوجوان ہی ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں کورونا‬ ‫کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ‬
‫وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ کا خطرہ توقعات سے زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫غیر ملکی خبر رساں ادارے کی‪ ‬رپورٹ کے مطابق‪ ‬تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں‬
‫میں کورونا وائرس کی شرح پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور جوان مرد معمر افراد میں‬
‫اس بیماری کو منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫معمر افراد میں کوویڈ میں مبتال ہونے اور سنگین نتائج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬یہی وجہ‬
‫ہے کہ ویکسینیشن کی مہمات میں ابتدا میں ان پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔‬
‫ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ معمر افراد میں بیماری کی زیادہ شرح رپورٹ‬
‫ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمر کے گروپ کے ٹیسٹ زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ ان‬
‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہونا ہے۔محققین نے بتایا کہ جب لوگ وبا میں‬
‫کیسز کے اعدادوشمار دیکھتے ہیں تو اکثر ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ جتنے کیسز ہم‬
‫دیکھ رہے ہیں ان کا انحصار ٹیسٹنگ کی تعداد پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر عمر کے‬
‫گروپ میں ٹیسٹنگ کی شرح مختلف ہے۔‬
‫تحقیق میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں مارچ سے دسمبر ‪ 2020‬کے دوران تمام پی سی آر‬
‫ٹیسٹوں اور کیسز کی تعداد کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے اس مقصد کے لیے مختلف ماڈلز تیار کیے تاکہ ہر عمر کے گروپ میں‬
‫بیماری کی شرح کے فرق پر ٹیسٹنگ کی شرح کے اثرات کا علم ہوسکے۔‬
‫تمام تر عناصر کو مدنظر رکھنے پر دریافت کیا گیا کہ ‪ 10‬سے سال کم عمر بچوں اور ‪80‬‬
‫سال سے زائد عمر کے افراد میں بیماری کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے۔‬
‫اس کے مقابلے میں لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں‪ 20 ،‬سے ‪ 49‬سال کے‬
‫افراد میں بیماری کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے بالخصوص جوان مردوں میں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے جو دیکھا وہ تو بس آغاز ہے اور نوجوان افراد میں اس بیماری‬
‫کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا صرف کینیڈین صوبے کا تھا اور زیادہ بڑی آبادی پر مزید تحقیق‬
‫سے نتائج کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اینالز آف انٹرنل‬
‫میڈیسین میں شائع ہوئے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/spread-of-corona-young-people-research/‬‬
‫ویکسین سے ملنے واال تحفظ کچھ ہفتوں بعد کم ہونے لگتا ہے! تحقیق‬
‫میں انکشاف‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪20 2021‬‬

‫امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن[ نے نئی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف‬
‫کیا ہے کہ ویکسین سے ملنے واال تحفظ کچھ ہفتوں بعد کم ہوجاتا ہے۔‬
‫امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی جانب سے جاری تین تحقیقاتی‬
‫رپورٹس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ویکسین سے ملنے واال تحفظ کچھ ہفتوں‬
‫کے بعد زائل ہونے لگتا ہے اس کے باوجود ویکسین لگوانے والے بیماری کی شدت‪،‬‬
‫اسپتال میں داخلے اور موت سے کافی حد بچ جاتے ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ ویکسین کی افادیت مجموعی طور پر ڈیلٹا‬ ‫سینٹرز فار ڈیزیز کے ماہرین نے‬
‫قسم کے خالف گھٹ گئی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تینوں تحقیقاتی رپورٹ سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ صرف ویکسینز لگوانے سے‬
‫وبا کا خاتمہ ممکن نہیں بلکہ فیس ماسک کا استعمال اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل‬
‫درٓامد بھی الزمی ہے۔تینوں تحقیقی رپورٹس میں ویکسین کی افادیت کی جانچ پڑتال کے‬
‫ساتھ ویکسینیشن کرانے والے افراد میں بیماری کی شرح یا ہسپتال میں داخلے کی شرح کا‬
‫موازنہ ویکسینز استعمال نہ کرنے والے افراد کے ساتھ کیا گیا تھا۔‬
‫نیویارک میں ہونے والی ایک تحقیق میں اس ریاست میں ڈیلٹا کے پھیالؤ کے ساتھ ویکسین‬
‫سے ملنے والے تحفظ کی شرح کو دیکھا گیا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ ویکسینز کی افادیت میں معتدل کمی آئی ہے‪ ،‬یعنی مئی میں اگر‬
‫یہ شرح ‪ 92‬فیصد تھی تو جوالئی کے آخر میں گھٹ کر ‪ 80‬فیصد تک پہنچ گئی اور اسی‬
‫طرح اگلے مہینوں میں مزید کم ہوکر ‪ 53‬فیصد تک ٓاگئی۔‬
‫تیسری تحقیق میں ‪ 18‬ریاستوں کے ‪ 21‬ہسپتالوں کے مریضوں کا تجزیہ کیا گیا تھا اور اس‬
‫میں ویکسینیشن کے بعد ہسپتال میں داخلے سے بچاؤ میں ٹھوس تحظ کو دریافت کیا گیا‪،‬‬
‫جس میں پتہ چال کہ ویکسین لگانے سے اسپتال میں داخلے سے بچاؤ کی شرح ‪ 86‬فیصد‬
‫رہی۔‬
‫محققین کے مطابق متعدد عناصر ویکسینز کی افادیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‬
‫مثال کے طور پر اگر ویکسینیشن کے بعد لوگ بیماری سے بچاؤ کی تدابیر جیسے فیس‬
‫ماسک سے گریز کرتے ہیں تو ان کا مدافعتی تحظ کم ہوسکتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/vaccine-protection-begins-to-decline-after-a-‬‬
‫‪few-weeks-disclosure-in-research/‬‬

‫برطانیہ‪ :‬کرونا کے عالج کے لیے اینٹی باڈی کاکٹیل منظور‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪20 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لندن‪ :‬برطانیہ نے کرونا انفیکشن کے عالج کے لیے اینٹی باڈی کاکٹیل استعمال کرنے کی‬
‫منظوری دے دی۔‬
‫تفصیالت کے مطابق برطانوی صحت حکام نے جمعے کو کرونا انفیکشن کو روکنے اور‬
‫اس کا عالج کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی کاکٹیل کی منظوری دی ہے‪ ،‬جسے ریجینرون‬
‫اور روش نے تیار کیا ہے‪ ،‬جلد ہی مریضوں پر اس کا استعمال شروع کر دیا جائے گا۔‬
‫ہیلتھ ریگولیٹری‪ Q‬ایجنسی (‪ )MHRA‬کا کہنا تھا کہ روناپریو (‪ )Ronapreve‬دوا کرونا‬
‫کووڈ ‪ 19‬عالمات کو ختم کر سکتی ہے‪،‬‬ ‫انفیکشن سے بچاؤ میں مدد کر سکتی ہے‪ ،‬شدید ِ‬
‫اور اسپتال داخل ہونے کے امکانات کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔‬
‫برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید نے ایک بیان میں کہا کہ یہ کاکٹیل عالج کرونا وبا سے‬
‫نمٹنے کے لیے ہمارے ‘ہتھیاروں’ میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔‬
‫حکام کے مطابق روناپریو دوا انجیکشن یا ڈرپ کے ذریعے دی جا سکتی ہے‪ ،‬یہ دوا‬
‫سانس کے نظام کے اندر کرونا وائرس سے بچاؤ کرتی ہے‪ ،‬اسے نظام تنفس کے خلیات‬
‫تک رسائی سے روکتی ہے۔‬
‫روناپریو کا تعل‪QQ‬ق ادویہ کی اس کالس س‪QQ‬ے ہے‪ ،‬جس‪QQ‬ے مونوکلون‪QQ‬ل (‪ )monoclonal‬این‪QQ‬ٹی‬
‫باڈیز کہا جاتا ہے‪ ،‬جو انفیکشن سے لڑنے والی قدرتی اینٹی باڈیز کی نقل ک‪QQ‬رتی ہیں‪ ،‬حک‪QQ‬ام‬
‫نے واضح کیا ہے کہ یہ دوا ویکسینیش‪QQ‬ن کے متب‪QQ‬ادل کے ط‪QQ‬ور پ‪QQ‬ر ہرگ‪QQ‬ز اس‪QQ‬تعمال نہیں کی‬
‫ج‪QQ‬ائے گی۔ی‪QQ‬اد رہے کہ گزش‪QQ‬تہ م‪QQ‬اہ جاپ‪QQ‬ان پہال مل‪QQ‬ک تھ‪QQ‬ا جس نے رون‪QQ‬اپریو دوا کی کرون‪QQ‬ا‬
‫انفیکشن کے عالج کے لیے منظور کیا تھا۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/uk-approves-antibody-cocktail/‬‬

‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حقیقی وقت میں کنٹرول ہونے واال نرم اور کم خرچ مصنوعی ہاتھ‬

‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫بدھ‪ 18  ‬اگست‪2021  ‬‬

‫میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ ٓاف ٹیکنالوجی (ایم ٓائی ٹی) کے سائنسدانوں نے حقیقی وقت میں‬
‫فیڈ بیک فراہم کرنے واال کم خرچ اور نرم مصنوعی ہاتھ تیار کیا ہے۔ اس کا وزن صرف‬
‫ایک پونڈ ہے اور یہ مہنگے متبادل ہاتھوں سے کئی گنا بہتر ہے۔ فوٹو‪ :‬بشکریہ زوان ہے‬
‫ژیاؤ شوٹنگ لِن‬
‫بوسٹن‪ :‬دنیا بھر میں ہاتھوں سے محروم افراد کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ اب ایک‬
‫نرم‪ ،‬کم خرچ اور وقت کے ساتھ ساتھ سکڑنے اور پھیلنے واال مصنوعی بازو بنایا گیا‬
‫ہے جو پہننے والے کو اس کی معلومات (ٹیکٹائل فیڈ بیک) بھی فراہم کرتا ہے۔‬

‫میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ ٓاف ٹیکنالوجی اور چین میں واقع جیاؤ تونگ یونیورسٹی کے‬
‫سائنسدانوں نے مل کر مصنوعی‪ Q‬ہاتھ بنایا ہے جس کی بدولت گالس اور دیگر ہلکی اشیا کو‬
‫گرفت کرنے اور اٹھانے میں مدد ملے گی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں‬
‫ضرورت کے لحاظ سے مسلسل پھیلتی اور سکڑتی رہتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس وقت دنیا بھر میں ‪ 50‬الکھ سے زائد افراد پورے یا نصف بازو سے محروم ہیں جنہیں‬
‫روزمرہ کاموں میں شدید مشکالت کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اگرچہ کئی طرح کے جدید برقی مصنوعی ہاتھ بازار میں دستیاب ہیں جنہیں پہننے واال‬
‫کچھ نہ کچھ محسوس بھی کرتا ہے لیکن وہ بہت ہی مہنگے اور بھاری بھرکم ہوتےہیں۔‬
‫لیکن اس بازو کا وزن صرف ‪ 225‬گرام اور قیمت ‪ 500‬ڈالر ہے۔ یوں دنیا کے بہت سے‬
‫لوگ اسے خرید کر اپنی معذوری کا کچھ حد تک ازالہ کرسکیں گے۔‬
‫اس کی خاص بات انگلیاں ہیں جو لچکدار ایالسٹومر سے بنی ہیں جو بازار میں ایکوفلیکس‪Q‬‬
‫کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کے اندر ہڈی نما ساختیں شامل کی گئی ہیں۔ اس میں تھری‬
‫ڈی پرنٹر سے ہتھیلی بنی ہے۔ اگلے مرحلے میں ہاتھ اور انگلیوں کے اندر موٹروں کی‬
‫بجائے چھوٹے والو اور پمپ لگائے گئے۔ ان کی بدولت ہوا اندر جاتی ہے اور لچکدار‬
‫مٹیریئل پھیلتا ہے اور ہوا کھینچنے سے سکڑ جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت محتاط انداز سے‬
‫ہوتا ہے اور ہوا کی مقدار کے لحاظ انگلیاں پھیلتی اور سکڑتی ہیں۔ نیومیٹک سسٹم میں‬
‫بہت حساس ای ایم جی سینسر لگے ہیں جو کالئی پر بندھے ہیں۔‬
‫اس عمل کو ممکن بنانے کے لیے کمپیوٹر ماڈلنگ سے مدد لی گئی ہے جس کے بعد ہاتھ‬
‫چٹکی بھرنے سے لے کر گالس اٹھانے کے قابل بھی ہوگیا۔ یہاں ایک الگورتھم‪ Q‬پٹھوں کے‬
‫سگنلوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے گرفت‪  ‬کا دباؤ کم یا زیادہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ مختلف‬
‫انگلیوں میں دباؤ کی مختلف مقداریں شامل کی جاسکتی ہیں۔‬
‫تیاری کے بعد دو رضاکاروں نے اسے استعمال کیا اور پانچ مختلف انداز سے اشیا تھامنے‬
‫کے تجربات کئے۔ ان میں قلم سے لکھنے‪ ،‬ڈھیر لگانے‪ ،‬نازک شے اٹھانے‪ ،‬کوئی بھاری‬
‫شے پکڑنے اور گرفت کے دیگر انداز شامل تھے۔ یعنی اس سے نرم کیک پکڑ کر کھایا‬
‫جاسکتا ہے اور ہتھوڑی بھی اٹھائی جاسکتی ہے۔ پھر اس کا موازنہ بازار میں دستیاب‬
‫مہنگے مصنوعی‪ Q‬ہاتھوں سے کیا گیا تو رضاکاروں نے ایم ٓائی ٹی کی ایجاد کو مؤثر‪ ،‬بلکہ‬
‫بہتر قرار دیا۔‬
‫اگلے مرحلے میں رضاکاروں کی ٓانکھیں بند کرکے سائنسدانوں نے ان کی ایک ایک انگلی‬
‫کو چھوا اور پوچھا کہ وہ اس کا احساس کرسکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد مختلف جسامت‬
‫کی بوتلیں ان کے ہاتھوں پر رکھی گئیں۔ رضاکاروں نے بھی اس کا درست جواب دیا۔‬
‫اگر یہ ایجاد کمرشل تجربات کے بعد مارکیٹ میں پیش کی گئی تو جلد اپنی جگہ بنالے گی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2214431/9812/‬‬

‫تیس منٹ بیٹھے رہنے کے بعد ‪ 3‬منٹ کی ہلکی پھلکی ورزش مفید‬
‫ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬جمعرات‪ 19  ‬اگست‪2021  ‬‬

‫دوران مالزمت اپنی جگہ سے اٹھنے اور چلنے پھرنے‬


‫ِ‬ ‫اکثر دفتروں میں ڈیسک ورکرز کو‬
‫کا بہت کم وقت ملتا ہے۔‬
‫اسٹاک ہوم‪ :‬سویڈن کے طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ دفتر میں پورا دن مسلسل‬
‫بیٹھے رہنے کے بجائے ہر تیس منٹ بعد صرف تین منٹ کی چہل قدمی یا کوئی اور ہلکی‬
‫پھلکی ورزش کرلی جائے تو یہ صحت کےلیے مفید ثابت ہوتی ہے۔‬
‫واضح رہے کہ دنیا کے بیشتر دفتروں میں ’’ڈیسک ورک‘‘ کرنے والے کارکنان کو صبح‬
‫سے شام تک اپنی جگہ سے اٹھنے اور چلنے پھرنے کےلیے بہت کم وقت مل پاتا ہے۔‬
‫طویل مدتی بنیاد پر اس معمول کا اِن کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور وہ موٹاپے سے لے‬
‫امراض قلب اور ذیابیطس تک‪ ،‬کئی طرح کی بیماریوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫کر‬

‫ا‬
‫سی تناظر میں تین ہفتے تک جاری رہنے والی یہ تحقیق ‪ 16‬رضاکاروں پر کی گئی جن‬
‫میں ‪ 10‬خواتین اور ‪ 6‬مرد شامل تھے۔‬
‫ان میں سے نصف رضاکاروں نے روزانہ‪ ،‬صبح سے شام‪ ،‬دس گھنٹے کا دفتری معمول‬
‫برقرار رکھا جس میں وہ اپنی جگہ سے بہت کم اٹھے۔ یہ طریقہ دنیا بھر کے دفتری ماحول‬
‫میں عام ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫باقی نصف رضاکاروں کو خصوصی گھڑیاں دی گئیں جو ہر ‪ 30‬منٹ بعد یاد دالتیں کہ‬
‫انہیں تین منٹ کےلیے ہلکی پھلکی ورزش (تیز قدموں سے چلنا یا سیڑھیاں چڑھنا اور‬
‫اترنا وغیرہ) کرنی ہے‪ ،‬جبکہ یہی گھڑیاں ان رضاکاروں میں جسمانی حرکت بھی ریکارڈ‬
‫کرتی رہتیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ’’اینڈوکرائنالوجی اینڈ میٹابولزم‘‘‪ Q‬کے ایک‪ ‬حالیہ شمارے‪ ‬میں شائع‬
‫ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ہر ‪ 30‬منٹ بعد صرف تین منٹ کی ہلکی پھلکی جسمانی‬
‫مشقت‪ /‬ورزش کرنے والوں کے خون میں نہ صرف شکر (گلوکوز) کی مقدار کنٹرول میں‬
‫رہی بلکہ ان میں ’’میٹابولک‪ Q‬سینڈروم‘‘ ظاہر ہونے کے خطرات بھی قدرے کم ہوگئے۔‬
‫واضح رہے کہ ’’میٹابولک سینڈروم‘‘ پانچ عالمات کا مجموعہ ہے جو بالترتیب خون میں‬
‫گلوکوز کی زائد مقدار‪ ،‬خون میں مفید کولیسٹرول کی کمی‪ ،‬ٹرائی گلیسرائیڈ کہالنے والی‬
‫چکنائیوں کی خون میں اضافی مقدار‪ ،‬پھیلی ہوئی کمر (موٹاپا) اور ہائی بلڈ پریشر ہیں۔‬
‫ان رضاکاروں میں انسولین کی کارکردگی بھی بہتر رہی جس کے باعث خون میں شکر پر‬
‫کنٹرول بہتر رہا؛ اور اس طرح ان رضاکاروں میں ٹائپ ‪ 2‬ذیابیطس کا خطرہ بھی کم ہوا۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ٓادھے گھنٹے بعد صرف تین منٹ کی ہلکی پھلکی ورزش سے‬
‫ہونے والے فوائد اگرچہ معمولی ہیں لیکن انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔‬
‫ان کا خیال ہے کہ اگر دن میں وقفے وقفے سے کی جانے والی اس ٓاسان ورزش یا جسمانی‬
‫مشقت کا دورانیہ تین منٹ سے کچھ بڑھا دیا جائے تو یہی نتائج اور بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس کےلیے وہ مزید تحقیق کی تیاری کررہے ہیں جو تین ہفتوں کے مقابلے میں زیادہ‬
‫عرصے تک جاری رہے گی جبکہ اس میں شریک رضاکاروں کی تعداد بھی زیادہ رکھی‬
‫جائے گی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2214616/9812/‬‬

‫کورونا کے بعد اب ایچ ٓائی وی ویکسین کی ٓازمائش کا فیصلہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 19  ‬اگست‪ 2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫موڈرنا کمپنی اس ہفتے ایچ ٓائی وی کے خالف ویکسین کی انسانی ٓازمائش شروع کررہی‬
‫ہے جو ایم ٓار این اے طرز کی ویکسین ہے‬
‫کیمبرج‪ :‬کووڈ ‪ 19‬کے خالف مؤثر ویکسین بنانے کے بعد موڈرنا کمپنی نے ایم ٓار این اے‬
‫کی بنیاد پر ایچ ٓائی وی کے خالف ویکسین تیار کی ہے جس کے انسانی تجربات اسی‬
‫ہفتے شروع کیے جائیں گے۔‬
‫امریکی کلینکل ٹرائلز(طبی ٓازمائش) کی رجسٹری سے ظاہر ہوتا ہے کہ موڈرنا اپنی ایچ‬
‫ٓائی وی ویکسین کا پہال مرحلہ (فیز ون ٹرائل) اسی ہفتے شروع کرے گی۔‬
‫اس میں اول تو ویکسین کے محفوظ ہونے پر تحقیق کی جائے گی اور دوم اس سے پیدا‬
‫ہونے والے امنیاتی نظام کو سمجھا جائے گا۔ موڈرنا پرامید ہے کہ کوووڈ ‪ 19‬کے خالف‬
‫ایم ٓاراین اے ویکسین کی کامیابی کے بعد عین یہی تدبیر ایچ ٓائی وی اور ایڈز کے خالف‬
‫ویکسین سازی میں ٓازمائی جارہی ہے۔‬
‫اس اہم تجربے میں ‪ 18‬سے ‪ 50‬برس کے ‪ 56‬صحت مند افراد کو شامل کیا جائے گا جنہیں‬
‫ایچ ٓائی وی الحق نہیں۔ اس طرح ان پر ویکسین کی افادیت اور حفاظتی پہلو پر غور کیا‬
‫جائے گا۔‬
‫موڈرنا نے ایچ ٓائی وی کے خالف دو ویکسین بنائی ہیں جن میں سے ایک کا نام ایم ٓاراین‬
‫اے ‪ 1644‬اور ایم ٓار این اے ‪ 1644‬وی ٹو (دوسرا ورژن) ہے جو ایچ ٓائی وی کے ہول‬
‫ناک مرض کی وجہ بننے والی ویکسین کے خالف دنیا کی پہلی ایم ٓار این اے ویکسین بھی‬
‫ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓازمائش کے لیے رضا کاروں کو چار درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دو گروہوں کو تو‬
‫دونوں اقسام کی ویکسین باہم مال کر دی جائیں گی جبکہ دونوں گروہوں کو علیحدہ علیحدہ‬
‫بھی ویکسین دی جائے گی لیکن ہر ایک کو ٓاگاہ کیا جائے گا کہ اسے کس طرح کی اور‬
‫کون سی ویکسین دی گئی ہے۔ پہلے مرحلہ ‪ 10‬ماہ تک جاری رہے گا جس کے دو مقاصد‬
‫اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔‬
‫پہلے مرحلے میں کامیابی کے بعد اس کا فیز ٹو اور فیز تھری ٹرائل شروع کیا جائے گا‬
‫جس سے ویکسین کی مزید افادیت سامنے ٓاسکے گی۔‬
‫روایتی ویکسین کے برخالف ایم ٓار این اے ویکسین میں کمزور اور غیر سرگرم وائرس‬
‫ہوتا ہے جو ہمارے خلیات تک پہنچتا ہے اور خلیات یہ جان لیتے ہیں کہ ہدف والے ٹارگٹ‬
‫کے خالف کس طرح پروٹین تیار کرنے ہیں۔ یہ عمل ‪ 24‬سے ‪ 48‬گھنٹے میں ہی شروع‬
‫ہوجاتا ہے۔ اس طرح خلیات بیماری کے کمزور ہی سہی لیکن وائرس کے خالف پروٹین‬
‫کی شکل میں ر ِد عمل دینے لگتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2214760/9812/‬‬

‫‘ہاضمے کی نالی میں زخم بھرنے والی جدید ’ٓانت پٹی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 20  ‬اگست‪ 2021  ‬‬
‫تصویر میں پروفیسر انجی ہرمان ہائیڈروجل سے ٓانتوں کی پٹی دکھارہی ہیں جو ٓانتوں کی‬
‫جراحی کے زخم بھرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ فوٹو‪ :‬ایمپ ٰ‬
‫انسٹی ٹیوٹ‬

‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گالسگو‪  :‬جب جب معدے اور ٓانتوں کی جراحی کی جاتی ہے تو وہاں کی نمی کی وجہ‬

‫سے زخموں کو بھرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اکثر صورتحال میں ٓانتوں کی رطوبت‪،‬‬
‫ہاضماتی اجزا اور فضلہ بھی خارج ہوکر بدن میں جاتا رہتا ہے۔ لیکن اب ایک ہائیڈروجل‬
‫سے ایک نئی پٹی یا پیوند بنایا گیا ہے جو برق رفتاری سے ٓانتوں کے اندرونی زخم‬
‫بھرسکتا ہے۔‬
‫اگرچہ اس سے قبل کئی طرح کے پھائے بنائے گئے ہیں جو ٓانتوں کے اندرونی ٹانکوں پر‬
‫لگائے جاتے ہیں لیکن ان میں ایک کمی یہ ہے کہ ٓانتوں سے خارج ہونے والے کئی طرح‬
‫کے کیمیکل جب کھانا ہضم کرسکتے ہیں تو وہ اس پٹی کو بھی گھالدیتےہیں۔ اس طرح کی‬
‫پٹیاں زخم بھرنے سے پہلے ہی اترجاتی ہیں بلکہ زخم مزید خراب بھی ہوجاتا ہے۔‬
‫کوئن ایلزبتھ یونیورسٹی ہاسپٹل کے سائنسدانوں نے ایک نیا ہائیڈروجل پیوند بنایا ہے جو‬
‫چار طرح کے کیمیائی اجزا کو سہہ سکتا ہے ان میں ایکریلک ایسڈ‪ ،‬میتھائل ایسائلیٹ‪،‬‬
‫ایکرل ایمائڈ اور بس ایکرل ایمائڈ شامل ہیں۔ اس پٹی کو بعض جانوروں پر بھی ٓازمایا گیا‬
‫ہے۔‬
‫یہ ایجاد ایک طرح کا ہائیڈروفوبک (پانی بھگانے واال) مادہ بھی ہے۔ جب اسے خنزیر کی‬
‫ٓانتوں پر لگایا گیا تو وہ اچھی طرح چپک کیا۔ اس کے بعد ٓانتوں سے خارج ہونے والی‬
‫مائعات سے وہ مزید سخت ہوگیا اور گرفت مضبوط ہوگئی۔ سائنسی لحاظ سے اس کی‬
‫ٓانتوں سے چپکنے کی صالحیت دیگر پٹیوں کے مقابلے میں دس گنا زائد ہے۔ دلچسپ بات‬
‫یہ ہے کہ ٓانتوں کے سکڑنے اور پھیلنے کے دباؤ کو پانچ گنا تک برداشت کرسکتا ہے۔‬
‫اس طرح وہ دن دور نہیں جب ٓانتوں کی اندرونی سرجری کے بعد اس پیوند کو زخم‬
‫بھرنے میں عام استعمال کیا جائے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2215014/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تجربہ گاہ میں تیار کردہ ’چھوٹے انسانی دماغ‘ میں ’ٓانکھیں‘ بھی نکل‬
‫ٓائیں‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 20  ‬اگست‪2021  ‬‬

‫تجربے کے ‪ 60‬ویں دن اس ننھے منے دماغ پر ٓانکھیں نمودار ہوکر خاصی نمایاں بھی‬
‫ہوچکی تھیں۔ (تصاویر‪ :‬سیل اسٹیم سیل)‬

‫ت ساق (اسٹیم سیلز) کی مدد سے تجربہ گاہ میں تیار‬


‫برلن‪ :‬یورپی ماہرین نے انسانی خلیا ِ‬
‫کیے گئے ’ننھے منے دماغ‘ پر ’چھوٹی چھوٹی ٓانکھیں‘ اُگانے میں کامیابی حاصل کرلی‬
‫ہے۔‬
‫رحم مادر میں بچے کی نشوونما‬‫سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس پیش رفت کی بدولت ہمیں ِ‬
‫کے ابتدائی مراحل سمجھنے میں مدد ملے گی اور ممکنہ طور پر ٓانکھوں کا بہتر عالج‬
‫بھی ممکن ہوسکے گا۔‬

‫کامیابی کا پس منظر‬
‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لے کر‪ ،‬کچھ مخصوص )‪ (somatic cells‬ان تجربات کےلیے انسان سے جسمانی خلیات‬
‫ت ساق حاصل کیے‬ ‫مراحل سے گزارنے کے بعد‪ ،‬ان سے ’’پلوری پوٹینٹ‘‘ قسم کے خلیا ِ‬
‫گئے جو کسی جسمانی بافت (ٹشو) کی تشکیل کرسکتے ہیں۔‬
‫یا )‪‘‘ (Human iPSCs‬اسی بناء پر انہیں ’’ہیومن‪ Q‬انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز‬
‫ت ساق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫’’انسان سے ماخوذ کثیر استعدادی خلیا ِ‬
‫سب سے پہلے انسانی جسمانی خلیوں سے پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز حاصل کیے گئے‬
‫جنہیں ایک پیٹری ڈش میں رکھا گیا۔‬
‫پیٹری ڈش میں ایسا ماحول رکھا گیا کہ وہ اپنی تعداد بڑھا کر بتدریج ایک خلوی گیند‬
‫(سیلولر بال) کی شکل اختیار کرسکیں۔‬
‫اس طرح تجربہ شروع ہونے کے دسویں دن ایک ایسی خلوی گیند وجود میں ٓاگئی جس‬
‫ت ساق‬ ‫‘‘موجود تھے۔ یہ گیند ’’نیورو اسفیئر )‪ (nerve stem cells‬میں اعصابی خلیا ِ‬
‫بھی کہالتی ہے۔ )‪(neurosphere‬‬
‫بتاتے چلیں کہ یہی وہ خلیے بھی ہیں جو نشوونما کے متعدد مرحلوں سے گزرنے کے بعد‬
‫نہ صرف دماغ بلکہ پورے جسم میں پھیلے ہوئے اعصابی نظام سے متعلق خلیوں کو جنم‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫ت ساق کی اس گیند نے اپنی نشوونما جاری رکھی جس دوران اس میں مزید‬ ‫اعصابی خلیا ِ‬
‫خلیے بنتے رہے؛ اور یہ ٓاہستہ ٓاہستہ کرکے بڑی بھی ہوتی گئی۔‬
‫کی شکل )‪‘‘ (Brain-like organoid‬تجربے کے ‪ 30‬ویں دن یہ گیند ’’دماغ نما عضو‬
‫اختیار کرچکی تھی جس کے ایک طرف ٓانکھوں جیسی ساختیں بھی بننے لگی تھیں۔‬
‫ویں دن تک خلوی گیند کے ساتھ ساتھ یہ ٓانکھیں بھی مزید بڑی اور نمایاں ہوچکی تھیں ‪60‬‬
‫جبکہ ان میں ایسے خلیے بھی بن چکے تھے جو روشنی کو محسوس کرنے کی صالحیت‬
‫رکھتے ہیں۔‬

‫ٓاسان الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ننھے منے ’’دماغ جیسے عضو‘‘‪ Q‬پر ایسی‬
‫’’ٓانکھیں‘‘‪ Q‬بن گئیں جو ’’دیکھنے‘‘‪ Q‬کی بنیادی صالحیت بھی رکھتی تھیں۔‬
‫تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا یہ ننھا منا دماغ اس کے بعد تلف کردیا گیا‪ ،‬کیونکہ طبّی تحقیق‬
‫کی اخالقیات اور اس حوالے سے موجود بین االقوامی قوانین کی رُو سے یہ تجربات اس‬
‫سے ٓاگے بڑھائے نہیں جاسکتے تھے۔‬
‫یہ تحقیق ’’سیل اسٹیم سیل‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہوئی ہے جس کے مرکزی‬
‫ماہر عصبیات‬
‫ِ‬ ‫مصنف‪ ،‬جے گوپاالکرشن ہیں جو ڈوسلڈورف اسپتال‪ ،‬جرمنی سے بطور‬
‫(نیورو سائنٹسٹ) وابستہ ہیں۔‬
‫ڈاکٹر گوپاالکرشن کا خیال ہے کہ چھوٹے چھوٹے دماغ بنا کر ہمیں حمل کے دوران دماغ‬
‫اور ٓانکھ میں دو طرفہ عمل (انٹریکشن) کو سمجھ کر ایسا عالج وضع کرنے میں ٓاسانی‬
‫ہوگی جو کسی مریض کی مخصوص اور انفرادی ضرورت کے عین مطابق ہو۔‬

‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امید کی جاسکتی ہے کہ یہ منزل بھی ٓاجائے گی لیکن شاید اس تک پہنچنے میں کئی سال‬
‫بلکہ کئی عشرے لگ جائیں کیونکہ ابھی تجربہ گاہ میں دماغ سمیت دیگر چھوٹے اعضاء‬
‫تیار کرنا بہت وقت طلب اور مشکل کام ہے۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2215122/508/‬‬

‫سماعت بحال کرنے واال کان کا تھری ڈی پردہ فروخت کے لیے تیار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬ہفتہ‪ 21  ‬اگست‪2021  ‬‬
‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طبل گوش ہزاروں الکھوں افراد کی سماعت لوٹا‬


‫تصویر میں دکھائی دینے واال مصنوعی ِ‬
‫سکتا ہے۔ فوٹو‪ :‬بشکریہ ہارورڈ یونیورسٹی‬
‫ہارورڈ‪ :‬دنیا بھر میں دسیوں الکھوں افراد ایسے ہیں جن کے کان کا پردہ کسی چوٹ‪،‬‬
‫انفیکشن یا بیماری سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے‬
‫تھری ڈی پرنٹر[ سے چھاپا گیا ایک مصنوعی کان کا پردہ (ایئرڈرم) بنایا ہے۔ اسے ہم اب‬
‫طب ِل گوش کہیں گے۔‬
‫ہم جانتے ہیں کہ کان کے اندرایک باریک جھلی ہوتی ہے جس سے ٓاواز کی لہریں ٹکراتی‬
‫ہیں تو پردے پر دباؤ پڑتا ہے ۔ اسے دماغ پروسیس کرکے ہمیں وہ ٓاواز سناتا ہے۔ اگر‬
‫طبل گوش کو بحال کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے‬ ‫اسے نقصان پہنچ جائے تو ِ‬
‫ہارورڈ کے ماہرین نے فونوگرافٹ نامی تھری ڈی پرنٹڈ پردہ بنایا ہے جس کی تجارتی‬
‫پیمانے پر تیاری شروع ہوگئی ہے۔‬
‫طبل گوش کو ٹمپینگ میمبرین (جھلی) بھی کہا جاتا ہے جو بہت باریک اور گول بافت کی‬‫ِ‬
‫طبل گوش متاثرہوکر انسان کو بہرہ بنا دیتا ہے۔‬
‫طرح ہوتا ہے۔ بہت زوردار ٓاواز سے بھی ِ‬
‫یہاں تک کہ بیکٹیریا یا کسی اور خارجی شے کا اثر اسے تباہ کردیتا ہے۔ اسی طرح مرض‬
‫کا انفیکشن بھی سماعت چھین سکتا ہے۔‬
‫اس کا روایتی عالج تو ٹمپینوپالسٹی ہے جس میں مریض کے اپنے جسم کی کھال سے کان‬
‫کے پردے کی مرمت کی جاتی ہے۔ لیکن ہر دفعہ اس سے فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ دوم اس‬

‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓاپریشن میں کان کے پیچھے سے باریک سوراخ بھی کیا جاتا ہے اور کئی دفعہ پورا‬
‫ٓاپریشن ہی ناکام ہوجاتا ہے۔‬
‫ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فونوگرافٹ بنایا گیا ہےجس میں سائیکل کے پہیوں کے‬
‫تاروں کی طرح ڈیزائن بنایا گیا ہے۔ اسے قدرتی ایئرڈرم کی شکل دینے کے لیے پولیمر‬
‫والی روشنائی میں ڈبوکرتیار کیا گیا ہے۔ پھر اس پر مریض کے اپنے خلیات لگائے جاتے‬
‫ہیں جو ازخود بڑھنے لگتے ہیں۔ اس طرح پیوند لگانے پر سماعت بحال ہوجاتی ہے۔‬
‫تجرباتی طور پر اسے خاص طرح کے چوہوں پر ٓازمایا گیا ہے جن کا کان انسان سے‬
‫مشابہہ ہوتا ہے۔ ان پر یہ تجربات بہت کامیاب رہے ہیں۔اس کی تجارتی پیمانے پر تیاری‬
‫کے لیے ایک ایک اسپن ٓاف کمپنی بھی بنائی گئی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2215445/9812/‬‬

‫روزانہ کشمش کھانے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے ‪ ،‬جان کر ٓاپ اسے‬
‫سونے کے بھائو خرید کر بھی کھایا کریں گے‬

‫‪18/08/2021‬‬

‫لندن (مانیٹرنگ ڈیسک)روزانہ کشمش کھانے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے ‪ ،‬جان کر ٓاپ‬
‫اسے سونے کے بھائو خرید کر بھی کھایا کریں گے ۔۔ صحت کے امور سے متعلق‬
‫معروف ویب سائٹ "بولڈ اسکائی" نے کشمش کے ‪ 5‬حیران کن فوائد بیان کیے ہیں جو‬
‫لندن کے طبی ماہرین کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق کشمش انسان کی جلد‬
‫کو بڑھاپے اور بڑھتی عمر کے ظاہری اثرات سے بچاتی ہیپابندی‬
‫دوران خون کا نظام بہتر ہوتا ہیصحت مند‬
‫ِ‬ ‫کے ساتھ کشمش کھانے سے انسانی جسم میں‬
‫دانتوں کے واسطے باقاعدگی سے کشمش کھانے کی ہدایت کی جاتی ہیکشمش میں ایک‬
‫ایسا کیمیائی نباتیاتی مواد پایا جاتا ہے‬

‫جو ہماری جلد کو انتہائی تیز دھوپ کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رکھتا ہیکالی کشمش‬
‫کو پابندی کے ساتھ کھانا قبل از وقت سفید بالوں کے نمودار ہونے کو روکتا ہے۔ یہ وٹامن‬
‫‪ C‬اور فوالد سے بھرپور ہونے کے سبب معدنیات کے جذب ہونے میں مدد گار ثابت ہوتا‬
‫ہے۔ لہذا خوب صورت اور چمک دار بالوں کے حصول کے واسطے پابندی کے ساتھ‬
‫کشمش کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-119984.html‬‬

‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خشک کیلوں کااستعمال الزمی کرتے ہیں کیونکہ۔۔افریقہ کے لوگ‬
‫کیسے اورکون سی بیماری دورکرنےکے[ لیے خشک کیلے کااستعمال‬
‫کرتے ہیں؟جانیں[‬

‫‪18/08/2021‬‬

‫‪     ‬کیلے کے منفرد اور میٹھے ذائقے کی وجہ سے بچے بڑے سب شوق سے کھاتے ہیں۔‬
‫لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خشک کیال بھی انتہائی فائدہ مند خوراک کے طور‬
‫پر استعمال ہوسکتا ہے۔ افریقہ میں لوگ خشک کیلے کو اپنی صحت کے بہت سے مسائل‬
‫حل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کیلے کو خشک کیسے کریں؟ کیلے کا چھلکا اتار‬
‫کر چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ اگر چاہیں تو ذائقہ بڑھانے کے لئے کسی پھل کے جوس‬
‫میں ڈبو کر اوپر سے ہلکی کا دار چینی کا پأوڈر چھڑک لیں ورنہ ایسے‬
‫ہی برتن میں رکھ کر کسی جالی دار ڈھکن سے ڈھک کر دھوپ میں سکھا لیں۔ سکھانے‬
‫کے بعد اس کو پیس کر ائیر ٹائٹ ڈبے میں محفوظ کرلیں۔ اب یہ خشک کیلے ٓاپ وقت‬
‫ضرورت لمبے عرصے تک استعمال کرسکتے ہیں‬
‫۔خشک اور تازہ کیلوں میں کیا فرق ہے؟ تازہ کیلے بھی ہماری صحت کے لئے بہت مفید‬
‫ہیں لیکن جہاں تک بات ہے خشک کیلوں کی تو ان سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کیلے کا تمام‬
‫پانی سکھا لیا جائے۔ خشک کیلے کا پأوڈر غذائیت میں بھرپور ہوتا ہے اور اس کے ہر‬
‫چمچ کے ساتھ فائبر‪ ،‬پوٹاشیم اور کاربوہائیڈریٹس عام کیلوں کی نسبت چار گنا زیادہ ملتے‬

‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہیں۔ یعنی جو غذائیت ٓاپ کو ایک کیال کھانے سے ملتی تھی اب وہی فائدے ایک چمچ‬
‫پأوڈر استعمال کرنے سے مل جائیں گے۔‬
‫خشک ہونے کی وجہ سے یہ کسی بھی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے‬
‫کسی خاص موسم کی ضرورت نہیں۔ کیلے کے سالئس کو خشک کرے چپس بنا کر‬
‫اسنیکس کی طرح بھی کھایا جاسکتا ہے افریقہ میں خشک کیال کیسے استعمال کرتے ہیں؟‬
‫افریقہ میں رہنے والے کیلے کو خشک کرکے پیس کر اس کا ٓاٹا بنا لیتے ہیں اس کے بعد‬
‫پیٹ کے مسائل جیسے مروڑ ہاضمے کی خرابی یا اسہال کی صورت میں ایک چائے کا‬
‫چمچ کیلے کا پأوڈر ایک گالس دودھ میں مال کر پیتے ہیں اس سے پیٹ کی تکلیف جاتی‬
‫رہتی ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-120002.html‬‬

‫میراچہرہ پہلے موٹاتھالیکن پھرمیں نے۔۔۔گھربیٹھے روزانہ ‪10‬سیکنڈ‬


‫کایہ طریقہ ٓازمائیں اورچہرے کی چربی سے نجات پائیں‬
‫‪20/08/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫کچھ لوگ دبلے پتلے ہونے کے باوجود بھی گول مٹول چہرے کے مالک ہوتے ہیں لیکن‬
‫انہیں اپناچہرہ پتالبنانے کی خواہش ہوتی ہے ۔ٓاج ہم ٓاپ کوتین ایسی ورزشوں کے بارے‬
‫میں بتائیں گے جوٓاپ دن میں کہیں بھی اورکسی بھی وقت کرسکتے ہیں‬

‫لیکن دھیان رکھیں کہ ان ورزشوں کے دوران وقفہ کم سے کم لیناہے ۔منہ اوپرکرکے‬


‫کھولیں اوربندکریں پہلے سیدھے بیٹھ جائیں اورپھرچہرہ اوپرکی طرف کرلیں اب منہ‬
‫کوپوراکھولیں اوربندکریں‪ Q‬۔یہ عمل دس سکینڈ تک تین بارمسلسل‬
‫کریں ۔زبان باہرنکالیں۔دوسری‪ Q‬ورزش یہ ہے کہ چہرے کوسیدھارکھتے ہوئے زبان‬
‫باہرنکالیں اوردس سکینڈ تک نکالے رکھیں اس عمل کوبھی تین مرتبہ دہراناہے۔چبائیں۔اب‬
‫سیدھے بیٹھ کرمنہ کھولیں اوراچھی طرح چبانے کی ورزش کریں ۔اس ورزش کوبھی دس‬
‫سکینڈ تک اورمسلسل کریں اوراس کے بھی تین سیٹ کریں ۔ایک ہفتے تک ان ورز ش‬
‫کوکرنے سے چہرے کی فالتوچربی کم ہوجائے گی۔‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-120101.html‬‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کئی سال تک وزن کم کرنے کی ناکام کوشش کے بعد خاتون نے کون‬
‫سے پانچ اصول اپناکرایک ہی سال میں ‪47‬کلووزن کم کرلیا‬
‫‪     ‬‬
‫‪20/08/2021‬‬

‫زندگی تو سب ہی گزارتے ہیں مگر اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ‬
‫دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک لڑکی کیاٹیوسلمین بھی ہیں جن کا تعلق‬
‫کیلی فورنیا سے ہے اور جس کے والدین کے موٹاپے کے باعث اس کو بھی موٹاپا ورثے‬
‫میں مال۔ بچپن کی گول مٹول سی کیا نے جب جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو وہ ایک‬
‫فربہہ لڑکی میں تبدیل ہو چکی تھیں اور کئی سالوں تک وزن کم کرنے کی کی جانے والی‬
‫تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہو‬
‫رہی تھیں۔زندگی تبدیل کرنے واال مرحلہ ایک دفعہ جب کیا جہاز میں سفر کر رہی تھیں‬
‫اور سیٹ بیلٹ کے باندھنے کے مرحلے میں کیا نے یہ محسوس کیا کہ ان کا وزن اب اتنا‬
‫زیادہ ہو چکا ہے کہ وہ سیٹ بیلٹ بھی نہیں باندھ سکتی ہیں۔ یہ وقت ان کی زندگی کا‬
‫ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب ٓائندہ زندگی کو کیسے گزارنا ہے‬
‫اس کے لیے انہیں خود ہی جدوجہد کرنی ہو گی‬
‫۔وزن میں زیادتی کے نقصانات کیا کا اس موقع پر یہ کہنا تھا کہ وہ اس بات سے واقف‬
‫تھیں کہ ان کو وزن کی اس زیادتی کے سبب ہائی بلڈ پریشر اور ذیابطیس کے مرض میں‬
‫مبتال ہونے کا شدید خطرہ بھی الحق ہے کیوں کہ یہ دونوں بیماریاں ان کی خاندان میں‬
‫موجود تھیں۔ اس کے عالوہ زندگی کے کئی محاذوں پر اپنے موٹاپے کے باعث وہ شدید‬
‫ذہنی اور جسمانی دبأو کا بھی شکار رہی ہیں۔کیا کا اس موقع پر یہ کہنا تھا کہ اپنے موٹاپے‬
‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کے باعث وہ اپنی پسند کا لباس نہیں پہن سکتی تھیں ان کے دوست بھی ان کے موٹاپے‬
‫کے باعث ان کو نظر انداز کر دیتے تھے اور زندگی کے بہت سارے معامالت میں وہ اس‬
‫موٹاپے کے باعث پیچھے رہتی جا رہی تھیں۔وزن کم کرنے کے سفر میں ہونے والی‬
‫ناکامیاں کیا کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ زندگی میں کئی مواقع ایسے بھی ٓائے جب‬
‫انہوں نے شدید محنت سے کچھ پأونڈ وزن کم بھی کر لیا۔‬
‫مگر اس کے بعد کچھ ہی دنوں میں ذرا سی بے احتیاطی کے سبب یہ وزن دوبارہ سے بڑھ‬
‫جاتا اور اس سے اتنی مایوسی ہوتی کہ وہ ہمت چھوڑ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ایک‪ Q‬سال میں ‪47‬‬
‫کلو وزن کم کرنے کا طریقہ مگر جہاز کے سفر کے بعد کیا نے یہ فیصلہ کیا کہ اب انہوں‬
‫نے خود کو تبدیل کرنا ہے اور ایسا بننا ہے کہ جو دوسروں کے لیے ایک مثال بن جائے۔‬
‫اس فیصلے کے بعد کیا نے اپنی زندگی کو پانچ اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کا فیصلہ‬
‫کیا یہ اصول کچھ اس طرح تھے۔‪ :1‬صبح ایک گھنٹہ پہلے جاگیں اس اصول کے مطابق کیا‬
‫نے یہ اصول بنایا کہ وہ روزانہ ایک گھنٹہ جاگتیں اور یہ وقت ان کے اپنے لیے ہوتا۔ اس‬
‫وقت میں وہ ورزش کرتیں اور ایمانداری سے اس پورے ایک گھنٹے میں وہ اس بات کی‬
‫کوشش کرتیں کہ اپنے وزن کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔‪ :2‬تیس منٹ تک‬
‫جسمانی ورزش الزمی کرتیں تیس منٹ تک لگاتار ایسی ورزش کرتیں جس سے نہ صرف‬
‫ان کے جسم کے ہر ہر حصے کو حرکت دی جاتی بلکہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا کہ جسم‬
‫کو اس طرح کی ورزش میں مصروف کریں جس سے جسم تھک جائے اور اس سے پسینہ‬
‫نکلے جو کہ جسم کے ان حصوں سے فاضل چربی کو پگھالنے میں معاون ثابت ہوتا‪:3‬‬
‫کھانا صرف زندہ رہنے کے لیے کھائیں جو لوگ کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں وہ صحت‬
‫کے سنگین مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں سے موٹاپا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔‬
‫اس لیے کیا نے کھانے کی وہ تمام اشیاء کو چھوڑ دیا جو کہ اس کے لیے غیر صحت مند‬
‫تھیں اور وزن میں اضافے کا باعث ہو سکتی تھیں۔‬
‫اس کے بجائے انہوں نے صرف اتنے کھانے پر اکتفا کیا جس سے زندہ رہا جا سکتا تھا۔‬
‫ان کے اس عمل نے ان کے وزن میں کمی میں اہم کردار ادا کیا۔‪ :4‬زیادہ پانی پئیں کیا کا‬
‫اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ انہوں نے یہ اصول بنایا کہ دن بھر میں بے تحاشا پانی پیا‬
‫جائے۔‬
‫زیادہ پانی کا استعمال بھی جسم میں سے زہریلے مادوں کے اخراج کے ساتھ ساتھ جمی‬
‫ہوئی چربی کو پگھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‪ :5‬ہر روز ان دس چیزوں کو تحریر‬
‫کریں جن کا شکر ادا کیا جاتا ہے‬
‫جسمانی صحت روحانی صحت کے بغیر ناممکن ہے اس لیے کیا نے اپنی زندگی میں‬
‫روحانی صحت کے لیے یہ اصول بنایا کہ ہر روز دس ایسی چیزوں کو ضرور قلم بند‬
‫کرتی تھیں جن کے لیے وہ قدرت کی شکر گزار تھیں۔‬
‫اس سے ان کو روحانی سکون حاصل ہوتا اور ان کی زندگی اور سوچ میں مثبت تبدیلی‬
‫واقع ہوتی اس عمل سے وزن کم کرنے کے مشکل سفر میں نہ صرف انہیں مدد ملتی بلکہ‬
‫مایوسی ختم ہونے میں بھی مدد ملتی۔لوگوں کے لیے پیغام پچیس سالہ کیا اس تبدیلی کے‬
‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بعد نہ صرف لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں بلکہ اب وہ لوگوں کو باقاعدہ وزن میں‬
‫کمی کے لیے لیکچرز بھی دیتی ہیں۔ ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہمیشہ چھوٹے‬
‫ٹارگٹ رکھیں اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-120105.html‬‬

‫ابھی کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگانے کی ضرورت نہیں ‪ ،‬عالمی‬


‫ادارہ صحت‬
‫‪09:18 pm 18/08/2021‬‬

‫اگست ‪20 2021 ،‬‬


‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ موجودہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی‬
‫نہیں کرتے کہ ابھی کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگانے کی ضرورت ہے۔بین االقوامی‬
‫اعلی ٓامدنی والے ممالک میں‬
‫ٰ‬ ‫میڈیا رپورٹ کے مطابق‪ ،‬عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ‬
‫لوگوں کو کورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگانےسے پہلے دنیا بھر کے تمام کمزور لوگوں‬
‫کو مکمل طور پر ویکسین لگائی جائے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نےجنیوا نیوز کانفرنس میں‬
‫عالمی وبا کوروناوائرس‪ Q‬کے خالف تحفظ بڑھانے کے لیےکورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز‬
‫کی ضرورت کے بارے میں بتایاکہ’ہم واضح طور پر یقین رکھتے ہیں کہ موجودہ اعداد و‬
‫‘شمار اس بات کی نشاندہی نہیں کرتے کہ بوسٹرڈوز کی ضرورت ہے۔‬
‫‘انہوں نے مزید کہاکہ’ اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت تھی۔‬
‫اعلی ٓامدنی والے ملکوں میں‬‫ٰ‬ ‫جبکہ عالمی ادارہ صحت کے سینئر مشیر بروس ٓائلورڈ نے‬
‫بوسٹر ڈوز لگائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایاکہ ’دنیا بھر میں کافی‬
‫‘ویکسین موجود ہے ‪ ،‬لیکن یہ صحیح ترتیب میں صحیح جگہوں پر نہیں پہنچ رہی ۔‬
‫انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں انتہائی کمزور افراد کو دو خوراکیں دی جانی چاہئیں اس‬
‫سے پہلے کہ مکمل طور پر ویکسین لگوانےوالوں‪ Q‬کو بوسٹرویکسین لگائی جائے۔‬
‫ڈبلیو ایچ اوکی جانب سے یہ بیان امریکا کے اپنے عوام کو کورونا ویکسین لگوانے کے ‪8‬‬
‫ماہ بعد ایک بوسٹر ویکسین لگوانے کےفیصلے کے بعد سامنے ٓایا ہے۔‬
‫ذرائع کے مطابق سب سے پہلے بوسٹر یا ویکسین کی تیسری خوراک شعبٔہ صحت کے‬
‫کارکنوں کو اور اس کے بعد بزرگ افراد کو لگائی جائے گی۔‬
‫تیسری خوراک فائزر‪ ،‬بایو این ٹیک یا موڈرنا کی دو خوراکیں لینے والوں کو لگائی جائے‬
‫گی‬
‫‪https://jang.com.pk/news/972734‬‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سونف اور اس کے قہوے کے صحت سے متعلق طبی فوائد‬
‫اگست ‪20 2021 ،‬‬

‫سونف ایک عام جڑی بوٹی ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں‪،‬‬
‫اس کے چھوٹے چھوٹے ہرے دانے انسانی مجموعی صحت اور خوبصورتی کے لیے بیش‬
‫بہا فوائد اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین جڑی بوٹی کے مطابق سونف معدے کی کارکردگی اور اس کی صفائی‪،‬‬
‫مضر صحت مادوں کے جسم سے اخراج‪ ،‬خون کی صفائی‪ٓ ،‬انتوں کی صحت اور جلد کے‬
‫لیے بے حد فائدہ مند ہے‪ ،‬یہ کیل مہاسوں کا سبب بننے والے ہارمونز کی افزائش کو‬
‫روکتی ہے‪ ،‬سونف خواتین میں ہارمونز کے بگاڑ کو متوازن بناتی ہے‪ ،‬یہ وٹامن سی‪ ،‬اے‬
‫اور غذائی ریشہ کا بہترین ذریعہ ہے‪ ،‬سونف خصوصا ً وزن کم کرنے کے لیے ایک‬
‫بہترین جڑی بوٹی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق جہاں سونف کے خوبصورتی پر بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں‬
‫وہیں یہ صحت کے لیے بھی نہایت مفید ہے‪ ،‬بے شمار وٹامنز اور منرلز سے بھرپور‬
‫سونف صرف بیماریوں کا ہی عالج نہیں کرتی بلکہ اس سے بنایا گیا قہوہ بھی التعداد فوائد‬
‫فراہم کرتا ہے ۔‬
‫ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ جو افراد اپنے وزن میں تیزی سے کمی چاہتے ہیں ان کے‬
‫لیے سونف کا قہوہ کسی جادوئی مائع سے کم نہیں ہے۔‬
‫سونف میں وٹامن اے اور سی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے جس کے سبب اس کا استعمال‬
‫بینائی کی حفاظت کرتا ہے‪ ،‬غذائی ماہرین کے مطابق سونف پیس کر اس کا قہوہ بنا کر‬
‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پینے سے کمر درد میں بہتری ٓاتی ہے‪ ،‬سونف گردے اور مثانے کا ورم دور کرنے میں‬
‫بھی مدد فراہم کر تی ہے‪ ،‬فرحت بخش احساس دالنے والی سونف کا استعمال دماغ کی‬
‫کمزوری اور یادداشت کے لیے بہترین دوا ہے‪ ،‬سونف چبانے سے بیٹھی ہوئی ٓاواز ٹھیک‬
‫ہو جاتی ہے۔‬
‫سونف اور اس سے بنا قہوہ دودھ پالنے والی مأوں کے لیے بھی بہت مفید قرار دیا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬اس کے استعمال سے دودھ کی مقدار بھی بڑھتی ہے۔‬
‫‪:‬سونف سے بنا قہوہ پینے کے صحت پر مثبت اثرات‬
‫سونف سے بنے قہوے میں ایسے منرلز پائے جاتے ہیں جو انسانی دماغ کو سکون‬
‫پہنچاتے ہیں اور پُر سکون نیند کا سبب بنتے ہیں۔‬
‫ایک تحقیق کے مطابق جو افراد اچھی اور پُرسکون نیند سوتے ہیں ان کا وزن نہیں بڑھتا‬
‫اور نہ ہی ذہنی دباؤ جیسی شکایات کا َجلد شکار ہوتے ہیں۔‬
‫سونف سے بنے قہوے کا ایک گالس پی لینے سے کافی دیر تک بھوک نہیں لگتی ‪ ،‬سونف‬
‫میں موجود ضروری معدنیات انسانی پیٹ کو بہت دیر تک بھرا رکھتے ہیں جس سے انسان‬
‫بے وجہ کا کھانا کھانے سے بچ جاتا ہے ور کم کیلوریز کھانے کے سبب وزن میں کمی‬
‫ٓاتی ہے۔‬
‫سونف کے قہوے کے مستقل استعمال کے نتیجے میں جسم کو زنک اور کیلشیم جیسے‬
‫قیمتی معدنیات ملتے ہیں‪ ،‬یہ معدنیات ہارمونز کو متوازن کرنے اور ٓاکسیجن کے توازن کو‬
‫‪ ‬برقرار رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔‬
‫سونف کا قہوہ پینے کے سبب بلڈ پریشر متوازن رہنے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫‪:‬سونف کا قہوہ بنانے کا طریقہ‬
‫جس طرح سبز پتی کو پانی میں جوش دال کر سبز چائے بنائی جاتی ہے بالکل اسی طرح‬
‫سونف کو بھی پانی میں پکا کر‪ ،‬چھان کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫سونف کے قہوے کو مزید فائدہ مند بنانے کے لیے اس میں کچن میں موجود اور بھی‬
‫غذائی اجزاء شامل کیے جا سکتے ہیں جیسے کہ دار چینی‪ ،‬سفید زیرہ‪  ،‬اجوائن‪ ،‬االئچی‬
‫وغیرہ۔‬
‫سونف سے بنے قہوے کا ذائقہ بہتر بنانے کے لیے اس میں حسب ذائقہ شہد اور لیموں کے‬
‫چند قطرے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/972650‬‬

‫ویکسی نیشن کیوں ضروری ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں؟‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 19 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس‬
‫کی قسم ڈیلٹا بہت زیادہ متعدی ہے یعنی کسی کو بھی آسانی سے بیمار کرسکتی ہے مگر‬
‫وہ ویکسنز سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خالف مزاحمت نہیں کرسکتی۔‬
‫واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ‬
‫ویکسی نیشن مکمل کرانے والے افراد اگر ڈیلٹا سے متاثر ہو بھی جائیں تو بھی وہ زیادہ‬
‫بیمار نہیں ہوتے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک کوویڈ ویکسین سے جسم میں‬
‫بننے والی اینٹی باڈیز کے ردعمل کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم ایک کے‬
‫عالوہ دیگر اینٹی باڈیز پر حملہ آور نہیں ہوپاتی۔‬
‫اس کے مقابلے میں کورونا کی قسم بیٹا وائرس ناکارہ بنانے والی متعدد اینٹی باڈیز سے‬
‫بچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس سے قبل اسی ٹیم نے ایک اور تحقیق میں ثابت کیا تھا‬
‫کہ قدرتی بیماری اور ویکسنیشن سے جسم میں اینٹی باڈیز بننے کا دیرپا عمل تشکیل پاتا‬
‫ہے۔‬
‫محققین کے مطابق‪ ‬اینٹی باڈی ردعمل تحفظ کا صرف ایک پہلو ہے اور اس کی وسعت‬
‫بھی بیماری سے بچاؤ کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کا دیگر اقسام‬
‫کو پیچھے چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دیگر اقسام کے مقابلے میں وائرس ناکارہ‬
‫بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت بھی کرسکتی ہے۔‬
‫تحقیق کے لیے ماہرین نے فائزر ویکسین استعمال کرنے والے ‪ 3‬افراد کے جسم سے اینٹی‬
‫باڈیز بنانے والے خلیات کو حاصل کیا۔ انہوں نے لیبارٹری میں خلیات کی نشوونما کی اور‬
‫ان میں سے ‪ 13‬اینٹی باڈیز کو حاصل کیا جو کورونا کی اوریجنل قسم کو ہدف بناتی ہیں۔‬
‫بعد ازاں ان اینٹی باڈیز کی آزمائش کورونا کی ‪ 4‬اقسام ایلفا‪ ،‬بیٹا‪ ،‬گیما اور ڈیلٹا پر کی گئی۔‬
‫‪ 13‬میں سے ‪ 12‬اینٹی باڈیز نے ایلفا اور ڈیلٹا کو شناخت کرلیا‪ 8 ،‬نے چاروں اقسام کو‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شناخت کیا اور صرف ایک چاروں میں سے کسی ایک کو بھی شناخت کرنے میں ناکام‬
‫رہی۔‬
‫ان ‪ 13‬میں سے ‪ 5‬اینٹی باڈیز وائرس کی اوریجنل قسم کو ناکارہ بنانے کی صالحیت‬
‫رکھتی تھیں۔ جب ان وائرس ناکارہ بنانے والی ‪ 5‬اینٹی باڈیز کی آزمائش نئی اقسام پر کی‬
‫گئی پانچوں نے ڈیلٹا کو ناکارہ بنادیا‪ 3 ،‬نے ایلفا اور گیما جبکہ صرف ایک چاروں اقسام‬
‫کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہوسکی۔‬
‫کہا جاتا ہے اور ‪C08‬جس ایک اینٹی باڈی نے چاروں اقسام کو ناکارہ بنایا اسے ‪2‬‬
‫جانوروں میں تجربات میں بھی اس نے تمام اقسام سے تحفظ فراہم کیا تھا۔ تحیق میں بتایا‬
‫گیا کہ ایک مثالی اینٹی باڈی ردعمل متعدد اقسام کی اینٹی باڈیز پر مشتمل ہوتا ہے جو‬
‫وائرس کی متعدد مختلف اقسام کو شناخت کرنے کی صالحیت رکھتی ہوں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ویکسنیشن کی صورت میں ڈیلٹا نسبتا ً کمزور قسم ثابت ہوتی ہے‪ ،‬اگر‬
‫بیٹا جیسی زیادہ مزاحمت مگر ڈیلٹا کی طرح آسانی سے پھیلنے قسم سامنے آجائے تو ہم‬
‫زیادہ مشکل میں ہوں گے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ایک قسم جو زیادہ بہتر طریقے سے اپنی نقول بناتی ہو وہ ممکنہ طور پر‬
‫زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ڈیلٹا قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے‬
‫مگر ایسے شواہد موجود نہیں کہ ویکسین کے خالف دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ‬
‫مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫جیسی طاقتور اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو ان کو ‪C08‬ان کا کہنا تھا کہ کچھ افراد میں ‪2‬‬
‫کورونا وائرس اور اس کی متعدد اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج‬
‫طبی جریدے جرنل امیونٹی میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-benefits-delta-variant/‬‬

‫کون سی عادات آپ کو فالج میں مبتال کرسکتی ہیں؟‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 20 2021‬‬

‫کیلگری ‪ :‬زیادہ دیر تک کمپیوٹر[ کا استعمال اور ٹی وی دیکھنے کی عادت آپ کو فالج‬


‫‪،‬جیسے مرض میں مبتال کرسکتی ہے‬
‫اس حوالے سے کینیڈا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ‬
‫اگر آپ دن بھر زیادہ وقت کمپیوٹر استعمال کرتے اور ٹی وی دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں‬
‫تو یہ عادت فالج جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔‬
‫کیلگری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 60‬سال سے کم عمر جو افراد دن میں ‪8‬‬
‫گھنٹے یا اس سے زائد وقت کمپیوٹر استعمال کرتے‪ ،‬ٹی وی دیکھتے یا ایسی ہی کسی‬
‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سرگرمی میں گزارتے ہیں جس میں جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں‪ ،‬ان‬
‫سے فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق‪ ‬بیداری کے دوران‬
‫جسمانی طور پر کم متحرک رہنا جوان افراد میں بھی فالج کا باعث بن سکتا ہے‪ ،‬جس سے‬
‫قبل از وقت موت یا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ایک الکھ ‪ 43‬ہزار بالغ افراد کے طبی اور طرز زندگی کے ڈیٹا کا تجزیہ‬
‫کیا گیا جن میں فالج‪ ،‬امراض قلب یا کینسر کی تاریخ نہیں تھی۔ یہ افراد ‪،2003 ،2000‬‬
‫‪ 2005‬اور‪2007‬۔‪ 2012‬میں کینیڈین کمیونٹی ہیلتھ سروے کا حصہ بن تھے۔‬
‫محققین نے ان افراد کا جائزہ اوسطا ً ‪ 9.4‬سال تک لیا اور ہسپتال کے ریکارڈز سے فالج‬
‫کے کیسز کی شناخت کی۔ اس کے بعد یہ دیکھا گیا کہ وہ روزانہ اپنا کتنا وقت کمپیوٹر کے‬
‫سامنے یا ٹی وی دیکھتے یا ایسی ہی کسی سرگرمی میں گزارتے اور پھر ان کو مختلف‬
‫گروپس میں تقسیم کردیا گیا۔‬
‫جسمانی طور پر کم سرگرمیوں کا حصہ بننے والے ان گروپس کو ‪ 4‬گھنٹے سے کم‪6 ،‬‬
‫گھنٹے سے کم اور ‪ 8‬گھنٹے یا اس سے زیادہ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا۔ اسی طرح جسمانی‬
‫سرگرمیوں کو بھی ‪ 4‬کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا‪ ،‬جس میں سب سے نچلی کیٹیگری روزانہ‬
‫‪ 10‬منٹ یا اس سے کم وقت کی چہل قدمی تھی۔‬
‫طبی ماہرین کی جانب سے ہفتہ بھر میں کم از کم ‪ 150‬منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمیوں‬
‫کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ‪ 9.4‬سال کے دوران لگ بھگ ‪ 3‬ہزار‬
‫کے قریب فالج سے متاثر ہوئے‪ ،‬جن میں سے ‪ 90‬فیصد کو شریانیں بند ہونے کی وجہ سے‬
‫اس کا سامنا ہوا۔تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 60‬سال یا اس سے کم عمر افراد جو دن بھر میں ‪8‬‬
‫گھنٹے زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ دن بھر میں ‪ 4‬گھنٹے سے کم‬
‫وقت بیٹھ کر گزارنے والوں کے مقابلے میں ‪ 4.2‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح جو لوگ ‪ 8‬گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں اور جسمانی طور‬
‫پر بالکل متحرک نہیں ہوتے ان میں فالج کا خطرہ ‪ 7‬گنا سے زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ درمیانی عمر کے افراد میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے‬
‫کہ جسمانی طور پر متحرک نہ ہونا صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جسمانی طور پر متحرک ہونا زیادہ وقت بیٹھنے سے مرتب منفی اثرات‬
‫میں کسی حد تک کمی السکتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل اسٹروک میں‬
‫شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/computer-watching-tv-paralysis/‬‬

‫بچوں کی ناک کرونا سے کیسے دفاع کرتی ہے؟ تحقیق میں حیران کن‬
‫انکشاف‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪20 2021‬‬

‫نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بالغ افراد کی نسبت بچے کرونا وائرس سے کم متاثر‬
‫ہوتے ہیں یا ان میں وائرس کی شدت کم ہوتی ہے۔‬
‫طبی جریدے نیچر بائیوٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ‬
‫کرونا وائرس کے انسانوں پر اثرات سے متعلق ایک نئی طبی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا‬
‫ہے کہ کرونا وائرس ناک ذریعے زیادہ جلدی انسانوں کو متاثر کرتا ہے لیکن بچوں کے‬
‫مقابلے میں بالغ افراد زیادہ اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی ناک انہیں کرونا وائرس سے متاثر ہونے سے بچانے‬
‫میں معاون ثابت ہوتی ہے اور کوویڈ ‪ 19‬کے خالف دفاع مؤثر ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں کی ناک میں کرونا وائرس کے خالف پہلے سے امیونٹی‬
‫متحرک ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں کووڈ کے ‪ 18‬بچوں سمیت ‪ 45‬مریضوں کے نیسل سواب ٹیسٹ کیے گئے‬
‫تھے اور ان کے نتائج کا موازنہ ‪ 18‬بچوں سمیت ‪ 42‬صحت مند افراد کے نمونوں سے کیا‬
‫گیا۔‬
‫بچوں کے نمونوں میں نتھنے کے خلیات اور مدافعتی خلیات میں ایسے جینیاتی مواد کی‬
‫سطح کو زیادہ دریافت کیا گیا جو وائرس کی موجودگی کو محسوس کرکے مدافعتی نظام‬
‫کو دفاع کے لیے متحرک کرتا ہے۔‬
‫اس جینیاتی مواد کی زیادہ مقدار کے باعث بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کا بیماری کے‬
‫خالف ابتدائی مدافعتی ردعمل زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے رپورٹ میں کہا کہ بچوں کی ناک میں موجود ٹی سیلز بیماریوں سے لڑنے‬
‫کےلیے طویل المعیاد مدافعت پیدا کرنے میں معاونت کرتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کے‬
‫خالف وائرس کی صالحیت کم ہوجاتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/how-do-childrens-noses-protect-against-corona-‬‬
‫‪surprising-discovery-in-research/‬‬

‫جاپان میں‌ نئے مریض کرونا کی کون سی قسم سے متاثر ہو رہے ہیں؟‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪20 2021‬‬


‫ٹوکیو‪ :‬کرونا کی بھارتی قسم نے جاپان میں صورت حال خراب کر دی‪ ،‬ایک سروے‬

‫رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاپان میں بیش تر نئے متاثرہ لوگ کرونا وائرس کی بھارتی‬
‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫قِسم ڈیلٹا سے متاثر ہوئے ہیں۔سروے رپورٹ کے مطابق اب جاپان میں انفیکشن کا شکار‬
‫ہونے والے لوگوں کی بڑی اکثریت کرونا وائرس کی انتہائی وبائی قِسم یعنی ڈیلٹا ویرینٹ‬
‫سے متاثر ہو رہی ہے‪ ،‬ٹوکیو کے عالقے میں ڈیلٹا کے متاثرین کی شرح ‪ 98‬فی صد تک‬
‫پہنچی ہے۔قومی انسٹیٹیوٹ برائے وبائی امراض نے کرونا وائرس ٹیسٹنگ کرنے والی‬
‫نجی شعبے کی ‪ 7‬کمپنیوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تھا‪ ،‬اس ڈیٹا میں یہ دیکھا گیا کہ مصدقہ‬
‫والی متغیر وائرسز کی شرح کتنی ہے۔ ‪ L452R‬کیسز میں‬
‫ت صحت کے ماہرین کے پینل کو بدھ کے روز‬ ‫مذکورہ انسٹیٹیوٹ نے اپنی رپورٹ وزار ِ‬
‫پیش کر دی ہے‪ ،‬جس میں بتایا گیا ہے کہ تبدیلی کے حامل وائرسز سے متاثرہ افراد کی‬
‫شرح جو ٹوکیو میں ‪ 98‬فی صد ہو چکی ہے‪ ،‬اس میں سب سے بڑا حصہ ڈیلٹا متغیر قسم کا‬
‫ہے۔‬
‫ٹوکیو اور ملحقہ عالقوں کاناگاوا‪ ،‬سائیتاما اور چیبا میں متاثرین کا مجموعی تناسب بھی ‪98‬‬
‫فی صد تھا۔مغربی جاپان کے عالقوں اوساکا‪ ،‬کیوتو اور ہیوگو میں ‪ L452R‬منتقلی کے‬
‫حامل وائرسز کی شرح تیزی سے بڑھ کر ‪ 92‬فی صد ہو گئی ہے‪ ،‬یہ جوالئی کے اوائل‬
‫تک کم سطح پر تھی۔‬
‫قومی انسٹیٹیوٹ نے یہ تخمینہ بھی لگایا ہے کہ ایسے وائرسز سے متاثرہ افراد کی‬
‫مجموعی شرح اوکیناوا میں ‪ 99‬فی صد‪ ،‬فُو ُکواوکا میں ‪ 97‬فی صد‪ٓ ،‬ائیچی میں ‪ 94‬فی صد‬
‫اور ہوکائیدو میں ‪ 85‬فی صد ہو چکی ہے۔‬
‫مبصرین نے نشان دہی کی ہے کہ متغیر قِسم ڈیلٹا کے پھیالٔو کے باعث انفیکشن اور اسپتال‬
‫میں داخل ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے‪ ،‬جس کے سبب ٹوکیو اور دیگر‬
‫عالقوں میں طبی نظام کی صورت حال تشویش ناک ہو رہی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/japan-new-cases-of-covid-19-delta-variant/‬‬

‫کرونا مریض ہیپی ہائپوکسیا نامی بیماری سے ہوشیار رہیں‪ ،‬ماہرین کی‬
‫تنبیہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 21 2021‬‬

‫ٹوکیو‪ :‬ماہرین نے کرونا وائرس کے مریضوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہیپی ہائپوکسیا‬


‫نامی بیماری سے ہوشیار رہیں۔‬
‫تفصیالت کے مطابق جاپان کے کرونا وائرس کے ماہرین نے ہیپی ہائپوکسیا (‪happy‬‬
‫‪ )hypoxia‬سے خبردار رہنے کی تلقین کی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر پر صحت یابی کے عمل سے گزرنے والے کرونا وائرس‬
‫کے مریضوں کو خون میں آکسیجن کی سطح کی باقاعدگی سے پیمائش کرنی چاہیے‪ ،‬کیوں‬
‫کہ ایسا ممکن ہے کہ انھیں پتا چلے بغیر ان کی حالت بگڑ جائے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ نمونیا میں مبتال ہونے والے درمیانے درجے کے بعض بیمار افراد میں‬
‫آکسیجن کی کم سطح کے باوجود طبیعت کی خرابی کی کوئی عالمات ظاہر نہیں ہوتیں‪ ،‬اس‬

‫قسم کی کیفیت کو ہیپی ہائپوکسیا کہا جاتا ہے جس میں مریض بظاہر ٹھیک ٹھاک اور خوش‬
‫دکھائی دیتا ہے۔‬

‫خیال رہے کہ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ جاپان میں‬
‫اسپتالوں پر غیر معمولی دباؤ کا سبب بن رہا ہے‪ ،‬یہ دباؤ خاص طور پر ٹوکیو و ملحقہ‬

‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالقوں‪ ،‬اور جنوبی عالقے اوکیناوا میں زیادہ ہے‪ ،‬اس صورت حال میں بہت سے متاثرہ‬
‫افراد کے پاس گھر پر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‬
‫ماہرین ایسے افراد کو خون میں آکسیجن کی سطح کی بار بار پیمائش کے لیے پلس آکسی‬
‫میٹر نامی آلے کے استعمال‪ ،‬اور کسی بھی خالف معمول صورت میں طبی امداد طلب‬
‫کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔‬
‫ت جاپان کے کرونا وائرس مشاورتی پینل کے رکن اور توہو یونیورسٹی کے‬ ‫حکوم ِ‬
‫پروفیسر تاتیدا کا ُزوہیرو کا کہنا ہے کہ ایسے مریض اچانک بے ہوش ہو سکتے ہیں یا ان‬
‫کی حالت سنگین ہو سکتی ہے‪ ،‬ایسے افراد کو اگر دھندال نظر آئے یا ان کے ہونٹوں اور‬
‫ناخنوں کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہو تو انھیں مقامی سرکاری طبی مرکز یا کسی اسپتال سے‬
‫رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/happy-hypoxia-and-covid-19-patients-japan/‬‬

‫وہ عالمات جو ڈیلٹا ویریئنٹ کا سبب بنتی ہیں‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 21 2021‬‬

‫کئی ممالک میں اب کرونا وائرس کے زیادہ تر انفیکشن ڈیلٹا ویریئنٹ کے ہیں‪ ،‬فرانس‬
‫میں اسی فیصد سے زیادہ کووڈ ٹیسٹ ڈیلٹا ویریئنٹ کے مثبت تھے‪ ،‬ڈیلٹا اکثر کووڈ نائٹین‬
‫کی جدید شکل کے مقابلے میں ہلکی عالمات کے ساتھ ہوتا ہے‪ ،‬یہ کی عالمات کیا ہیں؟۔‬
‫ڈیلٹا کی عام عالمات‬
‫برطانیہ میں ’زو کووڈ اسٹڈی‘ کے لیے ایک ایپ بنائی گئی جہاں مریض اپنی عالمات کی‬

‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اطالع دیتے تھے‪ ،‬اس تجربے سےمعلوم ہوا کہ زیادہ تر کیسز میں عالمات کافی ہلکی‬
‫دکھائی دیتی ہیں‪ ،‬سب سےعام عالمات یہ ہیں‬
‫گلے کی سوزش‬
‫بخار‬
‫سر درد‬
‫ناک کا بہنا‬
‫الفا ویریئنٹ اور اصل کووڈ نائنٹین کے برعکس ڈیلٹا ویرینئٹ کے ساتھ کھانسی کم دکھائی‬
‫دیتی ہے‪ ،‬یہی معاملہ ذائقہ اور بو کے ختم ہونے کا ہے جو برطانوی مریضوں نے پانچویں‬
‫نمبر پر رپورٹ کیا تھا۔‬
‫الفا ویریئنٹ کی عالمات‬
‫الفا میوٹیٹر کی سب سے عام عالمات جن پر آپ کو توجہ دینی چاہیے‪ ،‬وہ یہ ہیں‬
‫سردی کے ساتھ ‪ 37.5‬ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر بخار‬
‫خشک یا مرطوب کھانسی‬
‫ناک کا بہنا‬
‫سانس میں تنگی کی عالمات جیسے کھانسی‪ ،‬جکڑن یا سینے میں درد اور بعض اوقات‬
‫سانس لینے میں دشواری۔‬
‫درد (پٹھوں کا درد)‬
‫بو کے احساس کا ختم ہونا یا ذائقے کا فقدان۔‬
‫سر درد‬
‫نظام انہضام کی مشکالت(اسہال)‬
‫غیر معمولی تھکاوٹ (آستینیا)‬
‫ب چشم‪ ،‬خارش یا منہ کے زخم کی نشاندہی کی گئی‬ ‫دیگر غیر معمولی عالمات میں آشو ِ‬
‫ہے جو کرونا والے شخص میں ہوسکتے ہیں۔‬
‫اسی طرح اگر سانس میں تنگی شروع ہوجائے‪ ،‬تیز یا آہستہ سانس یا سوتے ہوئے سانس‬
‫لینے میں تکلیف وغیرہ تو وہ بھی کرونا کی عالمت میں شامل ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ کرونا وائرس کی بہت سی شکلیں بغیر عالمات کے ہوتی ہیں‪ ،‬مطلب یہ ہے‬
‫کہ وہ عالمات ظاہر نہیں کرتیں‪ ،‬ایسے غیرعالمتی کیسز کی تعداد خاص طور پر بچوں‬
‫میں زیادہ ہوسکتی ہے۔‬
‫کرونا وائرس عالمات ظاہر ہونے سے پہلے متعدی ہوتا ہے‪ ،‬مطلب یہ کہ ایک متاثرہ‬
‫شخص جو عالمات محسوس نہیں کرتا وہ دوسروں کو متاثر کر سکتا ہے تاہم ایک صحت‬
‫مند کیریئر(شخص) کم متعدی ہے کیونکہ وہ کھانسی نہیں کرتا (وائرس کھانسی اور‬
‫چھینکنے کے دوران پھیلنے والی بوندوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے)۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/what-symptoms-of-becoming-a-delta-variant-of-corona-‬‬
‫‪virus/‬‬

‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا آسٹرازینیکا کے مقابلے میں فائزر ویکسین کی تاثیر سے‬
‫متعلق انکشاف‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪21 2021‬‬

‫لندن‪ :‬محققین نے آسٹرازینیکا کے مقابلے میں فائزر ویکسین کی تاثیر سے متعلق‬


‫انکشاف کیا ہے کہ تین ماہ بعد اس میں تیزی[ سے کمی آ جاتی ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا ہے‬
‫کہ فائزر ویکسین کا اثر ڈیلٹا ویرینٹ کے خالف تیزی سے کم ہوتا ہے‪ ،‬محققین کا یہ بھی‬
‫کہنا ہے کہ فائزر ویکسین کی تاثیر آسٹرازینیکا کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوتی ہے۔‬
‫فائزر کی ویکسین‪ ‬شروع میں کرونا کے ڈیلٹا ویرینٹ کے خالف آسٹرازینیکا کے مقابلے‬
‫میں زیادہ مؤثر ثابت ہوئی تھی‪ ،‬لیکن نئی تحقیق میں یہ معاملہ الٹ ہو گیا ہے۔‬
‫ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ کرونا کے ڈیلٹا ویرینٹ کے‬
‫خالف استعمال ہونے والی کسی بھی ویکسین کی ‪ 2‬ڈوز کی مجموعی کارکردگی ایلفا‬
‫ویرینٹ کے خالف کم ہو چکی ہے‪ ،‬اور ویکسین لگوانے والے افراد سے بھی یہ وائرس‬
‫دوسروں تک منتقل ہونے کا امکان ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق آسٹرازینیکا کی دوسری ڈوز کے تین ماہ بعد ویکسین کی تاثیر میں بہت‬
‫کم تبدیلی دکھائی دی ہے‪ ،‬اس کے برعکس‪ Q‬اسی دورانیے میں فائزر کے ذریعے فراہم کردہ‬
‫تحفظ میں واضح کمی دکھائی دی ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے ٓائی کہ موڈرنا‬
‫ویکسین کی ایک ڈوز ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں دیگر ویکسینز کی واحد ڈوز کی طرح‬
‫یا اس سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم کسی بھی ویکسین کی ‪ 2‬ڈوز اب بھی قدرتی انفیکشن سے ایک ہی سطح کا تحفظ فراہم‬
‫کرتی ہیں اور ابھی تک کوئی واضح شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہ رائے قائم کی جا سکے کہ‬
‫ویکسینز ڈیلٹا سے متاثرہ افراد کو اسپتال سے باہر رکھنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/pfizer-vs-astrazeneca-vaccine/‬‬
‫شوگر جیسے خاموش قاتل سے بچاؤ کے چند ٓاسان طریقے‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 21 2021‬‬

‫ذیابیطس یا شوگر دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل کہا‬
‫جائے تو غلط نہ ہوگا‪ ،‬یہ بیماری[ کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور‬
‫پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار ‪ 25‬فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں‬
‫ہوتا۔‬
‫لیکن ٓاپ غذا میں تبدیلی الکر اس مرض سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں‪ ،‬غذا میں‬
‫شامل چینی اور کاربو ہائیڈریٹس کو ان پانچ غذاؤں سے بدل دیں۔‬
‫دلیہ‬
‫ذیابیطس کے مریضوں کے لیے دلیہ بہترین ناشتہ ہے‪ ،‬یہ معدے میں غذا میں موجود‬
‫گلوکوز کو جذب کرنے کی رفتار سست کرکے شوگر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے۔‬
‫سبز پتوں والی سبزیاں‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پالک‪ ،‬گوبھی اور سالد کے پتے جیسی سبزیوں میں کیلوریز اور کاربوہائیڈریٹ کافی کم‬
‫مقدار میں موجود ہوتے ہیں‪ ،‬ان سبزیوں کو روزانہ کھانے سے ذیابیطس ہونے کا خطرہ‬
‫‪ 14‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫شکر قندی‬
‫امریکی ذیابیطس ایسوسی ایشن کے مطابق شکرقندی انسولین کی مزاحمت کو کم کرتی ہے‬
‫اور بلڈ شوگر کی سطح کو مستحکم رکھتی ہے‪ ،‬اس میں زیادہ مقدار میں موجود فائبر دل‬
‫کی متعدد بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔‬
‫مچھلی‬
‫مچھلی میں جسم کے لیے اہم فیٹی ایسڈز موجود ہوتے ہیں جو کہ بلڈ شوگر کی سطح کو‬
‫معمول پر رکھنے کے ساتھ جسمانی سوجن کو کم کرنے اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم‬
‫کرنے کے لیے بھی اہم ہیں‪ ،‬ذیابیطس کے مریض کو ہفتے میں دو مرتبہ مچھلی کا استعمال‬
‫ضرور کرنا چاہیے کیونکہ یہ گردوں کی بیماری کے خالف بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫بادام‬
‫کھانے کے بعد بادام استعمال کرنے سے جسم میں گلوکوز اور انسولین کی سطح قابو میں‬
‫رہتی ہے‪ ،‬بادام جسمانی وزن کو معمول پر رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں کیوں‬
‫کہ یہ کھانے کے بعد ٓاپ پیٹ بھرا ہوا محسوس کریں گے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/572064-2/‬‬

‫تحقیق‪ :‬کورونا کے صحتیاب مریضوں سے متعلق اہم انکشاف‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪22 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ مریض جو کورونا سے‬
‫مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتے ہیں ان کے پھیپھڑوں کو مستقل نقصان نہیں پہنچتا ہے۔‬

‫طبی تحقیق کے مطابق عالمی کورونا وبا کے ایسے مریض جو بیماری سے مکمل‬
‫صحتیاب ہوجائیں تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ان کے پھیپھڑے طویل المعیاد نقصان‬
‫سے محفوظ رہیں گے‪ ،‬کووڈ ‪ 19‬عموما ً پھیپڑوں پر حملہ کرتا ہے‪ ،‬جبکہ اس کے اثرات‬
‫دماغ تک بھی پہنچ چکے ہیں تاہم ایسے کیسز کم سامنے ٓائے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس مشاہدے میں کورونا کے بغیر عالمات والے‪ ،‬معتدل یا زیادہ بیمار ہونے والے‬
‫مریضوں کو شامل کیا گیا اور تمام رضاکاروں میں وائرس سے صحت یابی کے بعد‬
‫پھیپھڑوں کا جائزہ لیا گیا جس سے مذکورہ باال نتائج ملے۔‬
‫محققین کا کہناہے کہ مریض کے پھیپھڑوں کو ایسا دیرپا نقصان نہیں پہنچا جو براہ راست‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے منسلک ہو‪ ،‬وبا کے آغاز سے ایک اہم سوال ابھر رہا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬سے‬
‫تمام مریضوں کے پھیپھڑوں کو طویل المعیاد یا ہمیشہ کے لیے نقصان تو نہیں پہنچتا‪ ،‬اس‬
‫تجربے سے تحفظات دور ہوگئے ہیں۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬کے باعث ہالک ہونے والے مریضوں کے پوسٹ مارٹم اور‬
‫کووڈ سے قریب المرگ ہونے والے افراد پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں پھیپھڑوں‬
‫کے سنگین مسائل کو دریافت کیا گیا تھا۔‬
‫سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ہمیں اس پر مزید کام کی ضرورت ہے‪ ،‬البتہ یہ ثابت ہوگیا کہ‬
‫اگر ٓاپ مکمل صحت یاب ہوجائیں تو پھیپھڑے طویل المعیاد متاثر ہونے سے بچ جاتے ہیں۔‬
‫یہ تحقیق طبی جریدے دی اینالز آف تھراسز سرجری میں شائع ہوئی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/research-significant-revelations-about-coronas-‬‬
‫‪recovery-patients/‬‬

‫یہ غذائیں ٓانکھوں کو صحت مند رکھ سکتی ہیں‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگست ‪22 2021‬‬

‫ٓانکھیں ہماری زندگی کو رنگ عطا کرتی ہیں‪ ،‬اگر ہماری ٓانکھیں تکلیف میں ہوں تو‬
‫ہماری پوری زندگی ڈسٹرب ہوجاتی ہے‪ ،‬ل ٰہذا ٓانکھوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔‬
‫ٓاج ٓاپ کو ایسی غذائیں بتائی جارہی ہیں جو ٓاپ کی ٓانکھوں کو صحت مند رکھنے کے لیے‬
‫ضروری ہیں۔‬
‫گاجریں‬
‫گاجروں میں بیٹا کیروٹین نامی ایک کمپاؤنڈ بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے‪ ،‬جو استعمال کے‬
‫بعد وٹامن اے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ وٹامن ٓانکھوں اور نظر کے لیے بہت مفید ہے۔‬
‫شکر قندی‬
‫شکر قندی میں بھی گاجروں کی طرح بھرپور بیٹا کیروٹین ہوتا ہے۔ یعنی یہ بھی وٹامن اے‬
‫حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ شکر قندی کا مستقل استعمال بھی نظر کو بہتر بنانے‬
‫اور ٓانکھوں کی صحت کے لیے مفید ہے۔‬
‫ترش پھل‬
‫کینو‪ ،‬موسمیاں‪ ،‬چکوترے اور ایسے ہی دیگر ترش پھل وٹامن سی سے ماال مال ہوتے ہیں‪،‬‬
‫جو قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے اہم ترین چیز ہے۔ ان میں فلیونائیڈز بھی ہوتے ہیں‬
‫جو ٓانکھوں کو موتیے جیسے خطرناک مرض سے بچاتے ہیں۔‬
‫ہری سبزیاں‬
‫سبز گوبھی‪ ،‬پالک اور سالد کے پتوں سمیت تمام ہرے رنگ کی سبزیوں میں ایسے اجزا‬
‫پائے جاتے ہیں جو ٓانکھ کے مختلف امراض سے بچانے کے لیے بہت اہم ہیں۔‬
‫دودھ کی مصنوعات‬

‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دودھ کی مصنوعات وٹامن اے اور دوسرے کمپاؤنڈز سے بھرپور ہوتی ہیں‪ ،‬جو مجموعی‬
‫صحت کے لیے اور بینائی کے لیے بھی بہترین ہوتی ہیں۔ دودھ اور دہی میں زنک بھی پایا‬
‫جاتا ہے جو ایک اہم منرل ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ ٓانکھ کے لیے بہت مفید ہے۔‬
‫زنک کی کمی سے رات کے وقت اندھے پن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‪ ،‬اس لیے دودھ اور‬
‫اس کی مصنوعات کا استعمال اپنا روزمرہ معمول بنائیں۔‬
‫انڈے‬
‫انڈے‪ ،‬خاص طور پر زردی بھی اور زنک سے بھرپور ہوتی ہے‪ ،‬جو ٓانکھ کو صحت مند‬
‫رکھتے ہیں اور انہیں خراب ہونے سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے انڈوں کو اپنی‬
‫روزمرہ خوراک کا حصہ بنائیں۔‬
‫مچھلی‬
‫مچھلی کا استعمال ٓانکھوں کے لیے کافی مفید سمجھا جاتا ہے۔ مچھلیوں میں اومیگا ‪ 3‬فیٹی‬
‫ایسڈز ہوتے ہیں‪ ،‬جو ٓانکھ کو خشک ہونے سے بچاتے ہیں اور ٓانکھ کے پردے کو خراب‬
‫ہونے سے بچا کر نظر کو بہتر بناتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/foods-for-better-eyesight/‬‬

‫کورونا وائرس کی ابتداء کا معما حل کرنے کیلیے عالمی ادارہ صحت‬


‫نے تحقیقی گروپ بنا دیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ہفتہ‪ 21  ‬اگست‪  2021  ‬‬

‫‪،‬قبل ازیں ایک اور گروپ ووہان لیبارٹری کا دورہ کرچکا ہے‬
‫جنیوا‪ :‬عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی جائے پیدائش سے متعلق تحقیق کے لیے نئے‬
‫سائنسی مشاورتی گروپ کی تشکیل کا اعالن کرتے ہوئے ماہرین سے گروپ میں شامل‬
‫ہونے کی اپیل کی ہے۔‬
‫عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا کی جائے پیدائش‬
‫سے متعلق تحقیق کے لیے ایک مشاورتی گرپ تشکیل دیا ہے۔ ‪ 25‬ماہر ارکان پر مشتمل‬
‫یہ‪ ‬نیا سائنسی گروپ کورونا کی اصلیت کی نشاندہی‪ ،‬ضروری اقدامات کے لیے تجاویز‬
‫اور آج تک کیے گئے کام کا آزاد تجزیہ فراہم کرے گا‬

‫اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے ماہرین سے اپیل کی ہے کہ ‪ 10‬ستمبر تک نئے‬


‫مشاورتی گروپ میں شامل ہونے کے لیے درخواست دیں۔ یہ گروپ کورونا کے ساتھ ساتھ‬
‫ایبوال جیسے‪  ‬دیگر وائرسوں سے جڑے مسائل پر بھی عالمی ادارہ صحت کو رہنمائی‬
‫فراہم کرے گا۔‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫قبل ازیں عالمی ادارہ صحت کی قیادت میں عالمی ماہرین نے چین میں ووہان کا دورہ کیا‬
‫تھا جہاں کورونا کے کیسز سب سے پہلے سامنے ٓائے تھے تاہم چین کی جانب سے بے جا‬
‫مداخلت اور تاخیری حربوں کے بعد منظر عام پر ٓانے والی رپورٹ کو انتہائی معمولی‬
‫قرار دیا گیا تھا۔‬
‫واضح رہے کہ کورونا وائرس کی ہالکتوں کو دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کہا جا رہا تھا کہ‬
‫یہ مہلک وائرس چین کی لیبارٹریز میں تیار ہوا ہے جس کے بعد عالمی اداروں نے‬
‫تحقیقات کا ٓاغاز کر دیا تھا‬
‫‪https://www.express.pk/story/2215592/9812/‬‬

‫نیند کی خرابی سے ناگہانی موت کا خطرہ دگنا ہوجاتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 22  ‬اگست‪ 2021  ‬‬
‫جن افراد کی نیند سب سے زیادہ متاثر تھی‪ ،‬ان میں ناگہانی موت کا خطرہ بھی سب سے‬
‫)زیادہ یعنی تقریبا ً دگنا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پینسلوینیا‪ :‬امریکی طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جن افراد کی نیند بار بار ٹوٹتی‬
‫رہتی ہے ان میں دل اور رگوں کے مسائل یا کسی بھی دوسری وجہ سے اچانک موت کا‬
‫خطرہ ان لوگوں کی نسبت تقریبا ً دگنا ہوتا ہے جو سکون کی نیند سوتے ہیں۔‬

‫یہ تحقیق دراصل ایک جامع تجزیہ (میٹا اینالیسس) ہے جو پینسلوینیا‪ ،‬امریکا کے ماہرین‬
‫نے کی ہے جبکہ اس کی تفصیالت ’’بی ایم جے اوپن ریسپائریٹری ریسرچ‘‘ کے‬
‫ایک‪ ‬حالیہ شمارے‪ ‬میں ٓان الئن شائع ہوئی ہیں۔‬
‫اس جامع تجزیئے میں انہوں نے گزشتہ برسوں میں کیے گئے ‪ 22‬تحقیقی مطالعات کا‬
‫جائزہ لیا جن میں اوسطا ً ‪ 62‬سال عمر کے ‪ 42‬ہزار سے زیادہ افراد شریک تھے۔‬
‫تجزیئے سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو شکایت تھی کہ وقفے وقفے سے ان کی نیند ٹوٹ‬
‫جاتی ہے جس کے باعث وہ گھنٹوں نیند لینے کے بعد بھی چاق و چوبند محسوس نہیں‬
‫کرتے‪ ،‬ان میں رگوں اور دل سے متعلق بیماریوں کے عالوہ دیگر اسباب سے اچانک‬
‫موت کی شرح‪ ،‬مسلسل کئی گھنٹوں تک سکون کی نیند سونے والوں سے نمایاں طور پر‬
‫زیادہ تھی۔‬
‫جن لوگوں میں نیند متاثر رہنے کی شرح جتنی زیادہ تھی‪ ،‬ان میں اچانک موت کی‬
‫مجموعی شرح بھی اسی حساب سے زیادہ دیکھی گئی۔ اس طرح نیند کے متاثر ہونے اور‬
‫اچانک موت میں مضبوط تعلق سامنے ٓایا۔‬
‫جن افراد کی نیند سب سے زیادہ متاثر تھی‪ ،‬ان میں کسی بھی وجہ سے ناگہانی موت کا‬
‫خطرہ بھی سب سے زیادہ یعنی تقریبا ً دگنا تھا۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس وقت ہم نیند کی خرابی اور مختلف بیماریوں میں تعلق کو‬
‫بڑی حد تک سمجھ چکے ہیں لیکن اب بھی ہم اس عمل کی بہت سی جزئیات کے بارے‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میں نہیں جانتے؛ لہذا اس تحقیق کو مزید ٓاگے بڑھانے کی ضرورت‪ Q‬ہے تاکہ یہ مسئلہ حل‬
‫بھی کیا جاسکے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2215607/9812/‬‬

‫جاپانی سب کچھ کھانے پینے[ کے باوجود اتنے[ دبلے کیوں ‪ ‬ہوتے ہیں‪ ‬؟‬
‫جانیں وہ راز جوبہت کم لوگ جانتے ہیں‬
‫‪     ‬‬
‫‪21/08/2021‬‬

‫کیآاپ نے کبھی سوچاہے کہ جاپانی اتناکچھ کھانے کے باوجود دبلے پتلے کیوں ہوتے ہیں‬
‫اوریہ لوگ اتنے فٹ کیسے رہتے ہیں ٓائیے ہم اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں‪ ‬تاکہ ٓا پ بھی‬
‫خود کوان کی طرح اسمارٹ بناسکیں ۔جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں موٹاپا دنیاکے باقی‬
‫ممالک کے مقابلے میں بہت کم پایاجاتاہے اوریہاں لوگ بہت ہی صحت مند اورفٹ ہوتے‬
‫ہیں ایساکیوں ہوتاہے اوریہ لوگ کیسی طرززندگی رکھتے ہیں ٓاج ہم ٓاپ کوبتائیں‪ ‬گے ۔‬
‫ڈائٹجاپان کے لوگوں کا کھانا پینا باقی‬
‫دنیا سے بہت مختلف ہے‪ ،‬یہ لوگ سبزیاں دالیں اور مچھلی بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں‬
‫جبکہ بہت کم مقدار میں کھانا کھانا ان کی روایت ہے یہی وجہ ہے کہ نہ ہی یہ لوگ زیادہ‬
‫تیل واال یا پھر فاسٹ فوڈ کھاتے ! اور نہ ہی موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان کی فٹنس کی‬
‫ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی گورنمنٹ کی جانب سے ڈائٹ کی گائیڈ الئن دی جاتی‬
‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے جس کو یہ الزمی فالو کرتے ہیں۔وقت پر کھانا جاپان کے لوگ مقررہ وقت پر کھانا‬
‫کھاتے ہیں جیسے صبح ‪ 8‬سے ‪ 9‬کے درمیان ناشتہ دوپہر ‪ 12‬سے ‪ 1‬کے درمیان کھانا اور‬
‫شام ‪ 6‬سے ‪ 7‬کے درمیان کھانا جبکہ جلدی سونا بھی ان کی اچھی عادتوں میں سے ایک‬
‫ہے جس کی وجہ سے یہ بہت دبلے اور فٹ رہتے ہیں۔پیدل چلنا۔جاپان میں پیدل سفر کرنا‬
‫ان لوگوں کی ایک عام عادت ہے‪ ،‬یہاں تک کہ ان کے بچے بھی اسکول یا تو پیدل یا پھر‬
‫سائیکل پر جاتے ہیں اور ٓافس جانے والے لوگ بھی گاڑیوں کے بجائے پیدل سفر کرتے‬
‫ہیں جبکہ وہاںٹرین وغیرہ کا۔‬
‫سفر بھی مہنگا ہے اس لئے بھی یہ لوگ پیدل چلنا پسند کرتے ہیں‪ ،‬اس کے عالوہ جاپان‬
‫میں کرائم بھی بہت کم ہے۔ اس لئے بچوں کو اکیلے پیدل یا سائیکل پر اسکول بھیجنا بھی‬
‫خطرناک نہیں سمجھا جاتا۔چائے کا استعمال۔جاپان کا روائتی مشروب دودھ اور چینی والی‬
‫چائے کے بجائےگرین ٹی استعمال کرتے ہیں یہ لوگ صبح کے ناشتے سے لے کر چائے‬
‫تک گرین ٹی ہی استعمال کرتے ہیں ان کے دبلے ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔‬
‫چاپ اسٹک کا استعمالکیونکہ جاپان میں کھانے کے لئے چاپ اسٹک استعمال کی جاتی ہے‬
‫اس وجہ سے یہ لوگ کھانا ٓارام سے ٹھہرٹھہرکر اور کم مقدار میں کھاتے ہیں کیونکہ چاپ‬
‫اسٹک میں کھانا زیادہ مقدار میں ٓاتا ہی نہیں ہے اور یوں یہ لوگ موٹاپےکا شکار ہونے‬
‫سے بچ جاتے ہیں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202108-120233.html‬‬

‫گرمیوں میں اپنے پیروں کی دیکھ بھال‪ ،‬جوتوں کا انتخاب کیسے کریں‬
‫‪ 22‬اگست ‪2021‬‬
‫موسم گرما کی آمد کے بعد ہر گھر میں خواتین جو پہال کام کرتی نظر آتی ہیں وہ ہے‬
‫سردیوں کے کپڑے صندوقوں میں رکھنا اور وہاں بند گرمیوں کے کپڑے اور جوتے باہر‬
‫نکالنا ہے۔‬
‫کپڑے تو شاید ہم پھر بھی موسم کی مناسبت سے منتخب کر لیتے ہیں لیکن کئی بار ہمارا‬
‫انتخاب ہمارے پیروں کے لیے بہترین نہیں ہوتا ہے۔ ہم کبھی ہوائی چپل پہن لیتے ہیں اور‬
‫کبھی ننگے پاؤں چلتے ہیں یا انتہائی خوبصورت لیکن کم آرام دہ سینڈل پہن لیتے ہیں‪ ،‬اور‬
‫ہمیں اس کے نتائج کی خبر نہیں ہوتی۔‬
‫کئی موقعوں پر تو ہم اپنی سرگرمیوں کے مطابق جوتوں کا انتخاب نہیں کر سکتے ہیں‪،‬‬
‫ہمیں زیادہ فکر یہ ہوتی ہے ہم کیسے لگ رہے ہیں۔‬
‫آخر میں‪ ،‬یہ پتا چلتا ہے کہ ہم اپنے پیروں کی حفاظت کے بجائے سال کے دوسرے اوقات‬
‫کے مقابلے میں انھیں زیادہ بے نقاب کرتے ہیں۔ خاص طور پر چونکہ پسینہ‪ ،‬نمی‪ ،‬ریت‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اور نمک‪ ،‬انفیکشنوں اور زخموں کی نشوونما کا باعث بن سکتا ہے جس سے بچنا اور‬
‫بچانا ضروری ہے۔‬
‫لیکن کیا ہم گرمیوں میں اپنے پیروں کی دیکھ بھال کرنے کا طریقہ جانتے ہیں؟‬
‫کھلے یا بند جوتے؟‬
‫آئیے گرمیوں میں موزوں ترین قسم کے جوتوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔‬

‫ایک طرف‪ ،‬وہ جوتے جو ہلکے ہوں لیکن پاؤں کو بے نقاب نہیں کرتے‪ ،‬جیسے ایس‬
‫پیڈریل‪ ،‬لوفرز‪ ،‬سنیکرز اور بالریناس۔‬
‫دوسری طرف کھلے جوتے جیسے سینڈل‪ ،‬ہوائی چپل‪ ،‬کلوز اور سینڈل۔ یہ جوتے ہوادار‬
‫ہیں اور پسینے کو روکتے ہیں۔ لیکن ان کا استعمال ہمارے پیروں کی خصوصیات پر‬
‫منحصر ہے‪ ،‬زیادہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کے استعمال کا مشورہ زیادہ نہیں دیا‬
‫جاتا‪ ،‬ایسی صورت میں ان کا استعمال محدود ہوتا ہے۔‬
‫انھیں عام طور پر زیادہ درجہ حرارت اور ان میں ہمارے پاؤں نمایاں ہونے کی وجہ سے‬
‫ایڑھیوں میں دراڑوں اور مسوں کا باعث بن سکتے ہیں۔‬
‫اگر اس کے عالوہ‪ ،‬پیروں میں کوئی تکلیف رہتی ہے تو جوتے کا انتخاب اس سے بھی‬
‫زیادہ اہم ہے۔ اس صورت میں جوتے کی چوڑائی پر غور کرنا ضروری ہے۔‬
‫موسم گرما میں بہترین جوتے کا انتخاب کرتے وقت ہمیں مستقبل میں ممکنہ طور پر لگنے‬
‫والی چوٹوں سے اس کے بچاؤ کی خصوصیات پر نگاہ رکھنا ضروری ہے۔‬
‫‪ ‬پالسٹک سے پرہیز کریں اور زیادہ قدرتی مواد کا انتخاب کریں تاکہ پسینہ نہ آئے‬
‫اور یہ ہوا دار ہو۔‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬جوتے کے تلوے‪ :‬پتلے چپٹے تلوؤں سے پاؤں کے نچلے حصے اور ٹانگ کے‬
‫پچھلے حصے کے پٹھوں پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ اس وجہ سے مشورہ دیا جاتا ہے‬
‫کہ سینڈل کی صورت میں اس کے تلوؤں کی موٹائی دو سے تین سینٹی میٹر ہونی‬
‫چاہیے۔ جبکہ اس کی اونچی سول سے گرنے اور چلنے میں پریشانی کا سامنا ہو‬
‫سکتا ہے۔‬
‫‪ ‬جوتے کے بٹریس اگلے حصے اور ٹخنوں کے پاس پاؤں کو یکجا رکھتے ہیں اور‬
‫چلتے ہوئے سہارا دیتے ہیں۔‬
‫‪ ‬جب بھی ممکن ہو‪ ،‬تسموں والے جوتے پہنیں‬
‫‪ ‬جہاں تک ہوائی چپل کے استعمال کی بات ہے پوڈیاٹریسٹس (پیروں کے امراض‬
‫کے ماہر) اور فزیوتھیراپسٹ ان کے مستقل استعمال سے منع کرتے ہیں۔ چونکہ‬
‫پاؤں کو میسر سہارے کی کمی کی وجہ سے وہ عدم استحکام پیدا کرتے ہیں جس‬
‫سے موچ اور تناو پیدا ہوتا ہے۔ حتی کہ اچھے اور معیاری ہوں تب بھی۔‬
‫یہ عدم استحکام ان چپلوں سے زیادہ پیدا ہوتا ہے جنھیں پہننے کے لیے پاؤں کے انگوٹھے‬
‫اور انگلی کے درمیان سے جکڑا جاتا ہے۔‬
‫دوسری طرف جب ہوائی چپل کے ساتھ چلتے ہیں (ہم چھوٹے قدم اٹھاتے ہیں) اور پاؤں‬
‫کے اگلے حصے اور انگلیوں پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے اور انگلیوں پر چھالے بن جاتے ہیں‬
‫اور مسئلہ زیادہ بڑھنے پر یہ پالٹر فاشیا کا سبب بنتا ہے۔‬
‫یہ ہڈی کو ساتھ جوڑنے والی بافتوں کی سوجن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس بیماری سے‬
‫متاثرہ افراد میں زیادہ دیر کھڑے رہنے پر درد کی شکایت سامنے آ سکتی ہے۔‬
‫سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا مستقل استعمال ٹانگوں کے پٹھوں جیسے پنڈلیوں‪ ،‬ران‬
‫اور ٹخنوں سے پیچھے کی طرف کا حصے کے کام کرنے کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔‬
‫تاہم‪ ،‬فنگس کو روکنے کے لیے تیراکی کے تاالبوں‪ ،‬جمز اور کپڑے بدلنے کے کمروں‬
‫میں ہوائی چپل پہننا ضروری ہے۔‬
‫آج کل پیروں میں درد ہونے کی صورت میں آرتھوپیڈک ماہرین کے ڈیزاین کردہ تلوے‬
‫استعمال کیے جاتے ہیں۔‬
‫پہاڑی راستے‪ :‬پیدل سفر کرنے اور دوڑ لگانے والے‬
‫لمبی چہل قدمی کے لیے یا دوڑنے کے ہوائی چپلوں کے استعمال کا مشورہ نہیں دیا جاتا‬
‫کیونکہ ان کے تلوے سیدھے ہوتے ہیں اور وہ نا پائیدار ہوتے ہیں۔‬
‫آج کل ہائیکنگ یا پیدل سفر کے لیے بھی ہوائی چپل موجود ہیں جس میں خصوصی پٹے‬
‫لگے ہوتے ہیں جو ہیل اور چپل کے اندرونی حصے کو تھام لیتے ہیں‪ ،‬چلنے کے دوران‬
‫استحکام دیتے ہیں اور وہ دوڑنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔‬
‫اگر آپ دور لگاتے ہیں ہیں تو آپ کو ساحل سمندر پر دوڑنے کے اپنے معمول کے جوتوں‬
‫کو پہننے کا اختیار مل جاتا ہے اگرچہ اس کو قدرے مضبوط عالقے یا پیدل چلنے کی گزر‬
‫گاہ پر استمعال کرنا زیادہ مناسب ہے۔‬
‫ایک اور آپشن یہ ہے کہ آپ ننگے پاؤں آہستہ آہستہ دوڑیں۔‬
‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہائکنرز اور رنرز میں عام طور پر آنے والے زخموں میں چھالے ہیں جو گرمی‪ ،‬نئے‬
‫جوتے یا جوتے کا استعمال‪ ،‬غلط سائز یا پاؤں کی قسم (فلیٹ یا کیواس) اور یہاں تک کہ‬
‫جراب کی بُنائی سے ہو جاتے ہیں۔‬
‫انھیں بننے سے روکنے کے لیے رات کے وقت جلد کو اچھی طرح ہائیڈریٹ کرنا‬
‫ضروری ہے‪ ،‬اس کے عالوہ جوتے میں یا جراب کے اندر ٹیلکم پاؤڈر استعمال کریں۔ یہاں‬
‫تک کہ آپ چھالوں کے زیادہ خطرہ والے حصوں پر پیٹرولیم جیلی یا 'مصنوعی جلد' لگا‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫ایک مناسب اندرونی ساخت والے جوتے اور تیکنیکی جرابیں جو پسینہ آنے کی صورت‬
‫میں مدد گار ہوں ان چوٹوں کے آنے کو روک سکتی ہیں۔‬
‫تین یونیورسٹیز کے پوڈیایٹرسٹس ک مشترکہ تحقیق میں ‪ 315‬زائرین کے پیروں کے‬
‫چھالوں کا مشاہدہ کیا گیا۔‬
‫ان کے نتائج کے مطابق‪ ،‬چھالوں سے بچنے کے لیے تین چیزوں پر عمل کرنا ضروری‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪ ‬زیادہ پیدل چلنے کی صورت میں کم از کم ایک بار جرابوں کی تبدیلی۔‬
‫‪ ‬زائرین کے بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے ‪ 14‬فیصد سے زیادہ نہیں ہونا‬
‫چاہیے۔‬
‫‪ ‬یہ سفارش کی جاتی ہے کہ ہر پاؤں کی قسم کے مطابق ڈھالنے والے جوتوں کے‬
‫اندرونی تلوے اور پاؤں کو سہارا دینے والے جوتے ہونے چاہیںزیادہ دیر تک چلنے‬
‫کے باعث ظاہر ہونے والے مسائل میں سے ایک ناخن میں خون کا جمنا شامل ہے۔‬
‫ایسا تب ہوتا ہے جب انگلیاں جوتوں کے سروں سے ٹکراتی ہیں کیونکہ جوتے کا‬
‫سائز غلط ہوتا ہے۔‬
‫اسی لیے جوتوں میں پیروں کی زیادہ حرکت کو روکنے کے لیے صحیح ناپ کی سفارش‬
‫کی جاتی ہے۔‬
‫جہاں تک فنگس کی بات ہے تو اگر آپ کو بہت زیادہ پسینہ آتا ہے تو پاؤں دھونے اور‬
‫جرابیں بدلنے کے بعد ان پر اینٹی مائی کاٹکس لگائیںوسم گرما میں پیروں کے مسائل کے‬
‫لیے رہنما اصول‬
‫آخر میں چند ہدایات جن پر غور کرنا ضروری ہے‪:‬‬
‫‪ ‬غسل کے بعد یا سوئمنگ پول چھوڑتے وقت پاؤں اچھی طرح دھونے کے بعد انھیں‬
‫مناسب طریقہ سے خشک کریں‬
‫‪ ‬جلنے سے بچنے کے لیے پیروں پر سن سکرین لگائیں۔‬
‫‪ ‬پیروں کی جلد کو روزانہ نمی پہنچائیں‪ ،‬رات کو موئسچرائز کریں‪ ،‬دراڑوں سے‬
‫بچنے کے ایڑھوں پر دھیان دیں‪ ،‬اس کے لیے یوریا پر مبنی موئسچرائزر بہترین‬
‫ہیں۔‬
‫‪ ‬چھوٹے ناخن‪ ،‬اچھی طرح سے کٹے ہوئے ہوں اور انیمال کو نقصان نہ پہنچائیں۔‬
‫ناخن کو ہوا لگنے دیں۔‬
‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ذیابیطس کے مریضوں کے معاملے میں‪ ،‬جب پیروں میں احساس کم ہو جاتا ہیں تو‬
‫ایسے زخموں سے بچنے کے لیے جو السر میں تبدیل ہو سکتے ہیں یہ بہت‬
‫ضروری ہے کہ ان مریضوں کے پیروں کا معائنہ کروایا جائے۔‬
‫‪ ‬باقاعدگی سے پوڈیاسٹرسٹ کے پاس جانا فآئدہ مند ہے یا کم از کم موسم گرما کے‬
‫جوتے پہننے سے پہلے۔‬
‫‪ ‬زیادہ سنگین زخموں موچ ‪ ،‬تناؤ کی صورت میں پوڈیاسٹرسٹ اور فزیو تھراپسٹ کو‬
‫دکھائیں۔‬
‫‪ ‬موسم گرما کے موسم میں متبادل جوتوں کی موجودگی میں جوتوں کو ہوا لگنے اور‬
‫اپنی پہلے حالت میں بحالی میں مدد ملتی ہے۔‬
‫‪ ‬جو لوگ ہائیکنگ کرتے ہیں ان کو پٹھوں کے کھچاؤ سے بچنے کے لیےکافی زیادہ‬
‫پانی پینا چاہیے۔‬
‫یاد رہے کہ چوٹ سے بچنے کے لیے جوتوں کا صحیح سائز پہنا ناگزیر ہے۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-57921638‬‬

‫کونسا تیل صحت و خوبصورتی کیلئے کتنا مفید ؟‬


‫اگست ‪22 2021 ،‬‬

‫قدرت کی جانب سے بنائی گئی ہر چیز میں انسان کے لیے کوئی نہ کوئی بھالئی موجود‬
‫ہے‪ ،‬روغنیات کو اکثر اوقات صحت کے لیے مضر قرار دیا جاتا ہے جبکہ کچھ پھلوں سے‬
‫حاصل کیے جانے والے تیل صحت اور خوبصورتی کے لیے مفید بھی ثابت ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دنیا بھر میں مختلف اشیاء سے تیار کردہ تیل کا استعمال بیماریوں سے محفوظ رہنے اور‬
‫صحت مند زندگی کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے‪ ،‬یہ روغنیات مختلف سبزیوں‪ ،‬میووں‬
‫اور پھلوں سے نکاال جاتا ہے جو مارکیٹ میں مہنگے اور سستے داموں با ٓاسانی مل جاتا‬
‫ہے‪ ،‬انسانی صحت کے لیے کونسے روغنیات کتنے مفید ہیں ان سے متعلق جاننا اور ان کا‬
‫استعمال کرنا الزمی ہے ۔‬
‫)‪ (Castor Oil‬ارنڈی کا تیل‬
‫ارنڈی کا تیل یا کیسٹر ٓائل کثیر المقاصد ویجیٹیبل ٓائل ہے جس کا استعمال دنیا کے تقریبا ً ہر‬
‫‪ ( Ricinus communis‬ملک میں سالہا سال سے کیا جارہا ہے‪ ،‬یہ تیل ارنڈی کے بیجوں‬
‫سے نکاال جاتا ہے۔ اس تیل کی خاصیت یہ ہے کہ اینٹی بیکٹیریل اور دافع سوزش)‪plant‬‬
‫خصوصیات کی بناء پر یہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔‬
‫مختلف صنعتی اور فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تیاری کے لیے ارنڈی کا تیل‬
‫استعمال کرتی ہیں خصوصا ً میک اپ انڈسٹری۔‬
‫ارنڈی کے تیل کا سب سے اہم فائدہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرنا ہے‪ ،‬اس کا استعمال غذا‬
‫سمیت براہ راست بالوں‪ ،‬چہرے اور ہاتھوں پاؤوں کی ماش کے لیے بھی کیا جاتا ہے‪ ،‬اس‬
‫تیل میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کے باعث یہ بالوں کی نشوونما اور ِجلدی‬
‫مسائل مثالً سورج کی تمازت سے جھلسی ہوئی ِجلد‪ ،‬ایکنی‪ ،‬خشک ِجلد اور مختلف نشانات‬
‫کے خاتمے کے لیے ایک بہترین تیل سمجھا جاتا ہے۔‬
‫کو متحرک کرتا ہے۔ ‪Lymphatic Function‬یہ تیل انسانی جسم میں‬
‫دوسری جانب ارنڈی کا تیل بہترین قبض کشا تاثیر کا حامل بھی ہے‪ٓ ،‬انکھوں کی تمام تر‬
‫تکالیف دور کرنے کے لیےبھی ماہرین اس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔‬
‫)‪ (Coconut Oil‬ناریل کا تیل‬
‫دنیا بھر میں ناریل کے تیل کی درجہ بندی ’’سپر فوڈ‘‘ کے طور پر کی جاتی ہے‪ ،‬ناریل‬
‫میں قدرتی طور پر اینٹی بیکٹیریا‪ ،‬اینٹی ٹاکسائیڈ اور اینٹی فنگل اجزا شامل ہوتے ہیں اور‬
‫‪ ‬یہ مختلف وٹامنز اور منرلز سے بھرپور ہوتا ہے۔‬
‫یوں کہہ لیں کہ ناریل کا تیل فیٹی ایسڈ کا ایک ایسا مجموعہ ہے‪ ،‬جو صحت پر مثبت اثرات‬
‫‪ ‬مرتب کرتا ہے۔‬
‫ان میں وزن میں کمی‪ ،‬دماغی صالحیت میں بہتری‪ ،‬گردوں کی اچھی صحت اور مدافعتی‬
‫نظام سمیت دیگر متاثر کن فوائد شامل ہیں جبکہ تیل میں شامل سیچوریٹڈ فیٹس فائدہ مند‬
‫کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ کرتے ہیں جو قلبی امراض سے بچأو میں مددگار ثابت‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫‪ ‬ناریل کا تیل خوبصورتی بڑھانے کا ذریعہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔‬
‫نرم ومالئم ِجلد کا حصول‪ ،‬بالوں کی نشوونما یا پھر جگمگاتے دانتوں کی خواہش پوری‬
‫کرنے کے لیے ناریل کا تیل بہترین انتخاب ثابت ہوتا ہے۔‬
‫)‪ (Almond Oil‬بادام کا تیل‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بادام کو فوائد سے بھرپور میوہ مانا جاتا ہے کیونکہ یہ وٹامن‪ ،‬پروٹین‪ ،‬پوٹاشیم‪ ،‬میگنیشیم‬
‫‪ ‬اور فاسفورس جیسے منرلز پر مشتمل ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق جسم کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لیے بادام یا بادام کے‬
‫تیل کا استعمال مفید ہے‪ ،‬اگرچہ یہ تیل خاصا مہنگا ہوتا ہے لیکن اپنے اندر ایسے پوشیدہ‬
‫خزانے محفوظ کیے ہوئے ہے جو نہ صرف خوبصورتی بڑھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ‬
‫‪ ‬بہت سی بیماریوں کا حل بھی ثابت ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بادام کا تیل مختلف بیماریوں مثالً کان کے درد‪ ،‬ایگزیما‪،‬‬
‫سورائیسس اور قبض کو ٹھیک کرتا جبکہ جسم کو تندرست وتوانا اور ٓانتوں کی صحت‬
‫‪ ‬بہتر بناتا ہے۔‬
‫‪ ‬روغن بادام‪ ،‬ناریل کے تیل کی طرح خوبصورتی بڑھانے کا ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے ۔‬
‫وٹامن ڈی کی کثرت کے سبب خواتین روغن بادام کو اینٹی ایجنگ بیوٹی پراڈکٹ کے طور‬
‫‪ ‬پر بھی استعمال کرسکتی ہیں۔‬
‫دوسری جانب چہرے کی خشکی دور کرنے‪ٓ ،‬انکھوں کے گرد سیاہ حلقوں اور چہرے کی‬
‫جھریوں سے نجات کے لیے بادام کا تیل بے حد مفید ہے۔‬
‫)‪ (Olive Oil‬زیتون کا تیل‬
‫‪ ‬صحت و تندرستی کے لیے زیتون کا تیل ایک ایسا انتخاب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔‬
‫‪ ‬زیتون کا تیل نہ صرف کھانوں میں بلکہ بطور بیوٹی پروڈکٹ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو زیتون کا تیل مفید مونو اَن سیچوریٹڈ فیٹس‪ ،‬کثیر‬
‫‪ ‬مقدار میں اینٹی ٓاکسیڈنٹس اور اینٹی انفلیمینٹری خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے۔‬
‫‪ ‬یہی وجہ ہے کہ کھانا پکانے کےدوران اس کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جانے لگا ہے۔‬
‫اس کا استعمال ہارٹ اٹیک‪ ،‬اسٹروک اور الزائمر سے تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ ِجلد کی‬
‫خوبصورتی کے لیے بہترین موئسچرائزر اور بالوں کی نشوونما کے لیے بہترین ٹانک ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/973631‬‬

‫ایسٹرازینیکا نے کووڈ سے بچانے میں مددگار دوا‪ Q‬تیار کرلی‬


‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪21 2021‬‬

‫— کمپنی نے دوا کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے ہیں‬


‫دوا ساز کمپنی ایسٹرازینیکا‪ Q‬نے کووڈ ‪ 19‬کی عالمات کے ایک طریقہ عالج کے ٹرائل کے‬
‫مثبت نتائج کا اعالن کیا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کمپنی کی تیار کردہ یہ دوا ‪ 2‬اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی ہے جو ابتدائی طور پر ان‬
‫افراد کے عالج کے لیے تیار کی گئی تھی جو پہلے ہی بیماری کے شکار ہوچکے ہیں۔‬
‫اس نئے ٹرائل میں ‪ 5197‬افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔‬
‫نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ اس دوا سے عالمات والی بیماری سے متاثر ہونے کا‬

‫خطرہ ‪ 77‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے جبکہ کسی بھی رضاکار میں سنگین بیماری کا کیس‬
‫ریکارڈ نہیں ہوا۔‬
‫اس دوا اے زی ڈی ‪ 7442‬کے جون میں ہونے والے ایک پرانے ٹرائل میں دریافت کیا گیا‬
‫تھا کہ اس کے استعمال سے عالمات والی بیماری میں مبتال ہونے کا امکان محض ‪33‬‬
‫فیصد کم ہوتا ہے۔‬
‫نئے ٹرائل میں شامل محقق مائرون لیوین نے بتایا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دوا کی‬
‫ایک خوراک برق رفتار سے کام کرتے ہوئے مؤثر طریقے سے عالمات والی بیماری کی‬
‫روک تھام کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ‬
‫اے زی ڈی ‪ 7442‬لوگوں کی معمول کی زندگی بحال کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ اس دوا کو ویکسینز کے ساتھ استعمال کیا جاسکے گا تاکہ‬
‫لوگوں کو ‪ 12‬مہینے تک زیادہ تحفظ مل سکے۔‬
‫ٹرائل میں ایسے بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ویکسینز کے حوالے سے برداشت‬
‫نہیں تھی یا مدافعتی ردعمل ناقص تھا‪ ،‬جس سے ان کے لیے بیماری کا خطرہ بڑھ گیا۔‬
‫امریکی حکومت نے اس دوا کی تیاری کے لیے سرمایہ فراہم کیا تھا اور ‪ 7‬الکھ خوراکوں‬
‫کو خریدنے کا معاہدہ بھی کیا۔اب کمپنی کی جانب سے ڈیٹا کو طبی حکام کو بھیج کر‬

‫تحقیقات | ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مشروط یا ایمرجنسی استعمال کی اجازت حاصل کی جائے گی۔ایسٹرازینیکا پہلے ہی کووڈ‬
‫کی روک تھام کے لیے آکسفورڈ کے تعاون سے ویکسین متعارف کراچکی ہے۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166739/‬‬

‫کووڈ سے مکمل صحتیابی پر پھیپھڑوں کو مستقل نقصان نہیں پہنچتا‪،‬‬


‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪21 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫اگر آپ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوچکے ہیں اور پھیپھڑوں پر اثرات مرتب ہوئے ہیں تو ایسے‬
‫مریضوں کے لیے سائنسدانوں نے ایک اچھی خبر سنائی ہے۔‬
‫سائنسدانوں کے مطابق ایسے مریض اگر بیماری سے مکمل صحتیاب ہوجائیں تو زیادہ‬
‫امکان اس بات کا ہے کہ ان کے پھیپھڑے طویل المعیاد نقصان سے محفوظ رہیں گے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔لویوال میڈیسین کی‬
‫تحقیق میں کووڈ کے بغیر عالمات والے‪ ،‬معتدل یا زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں کو‬

‫تحقیقات | ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شامل کیا گیا تھا اور بیماری سے صحتیابی کے بعد پھیپھڑوں پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا‬
‫گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی بھی مریض کے پھیپھڑوں کو ایسا دیرپا نقصان نہیں‬
‫پہنچا جو براہ راست کووڈ ‪ 19‬سے منسلک ہو۔‬
‫محققین نے کہا کہ وبا کے آغاز سے ایک اہم سوال ابھر رہا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬سے تمام‬
‫مریضوں کے پھیپھڑوں کو طویل المعیاد یا ہمیشہ کے لیے نقصان تو نہیں پہنچتا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے بغیر عالمات والے مریضوں کی جانچ پڑتال کا موقع مال اور‬
‫مشاہدے سے اس سوال کے جواب کو جاننے میں مدد ملی۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کے باعث ہالک ہونے والے مریضوں کے پوسٹ مارٹم اور‬
‫کووڈ سے قریب المرگ ہونے والے افراد پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں پھیپھڑوں‬
‫کے سنگین مسائل کو دریافت کیا گیا تھا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں کچھ‬
‫مریض مکمل صحتیاب ہوجاتے ہیں اور دیگر نہیں ہوتے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر آپ کووڈ ‪ 19‬کے شکار ہوں‬
‫اور مکمل صحتیاب ہوجائیں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ پھیپھڑے بھی مکمل طور پر ٹھیک‬
‫ہوجائیں گے اور کوئی مستقل نقصان نہیں ہوگا۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی اینالز آف تھراسز سرجری میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166742/‬‬

‫حاملہ خواتین میں کووڈ ‪ 19‬سے سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ‬
‫ہونے کا انکشاف‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪21 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪103‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی حاملہ خواتین کے ہاں بچے کی قبل از وقت پیدائش‪،‬‬
‫نظام تنفس کے لیے مشینی سپورٹ اور زچگی کے دوران موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں مارچ ‪ 2020‬سے فروری ‪ 2021‬کے دوران‬
‫یونیورسٹی سے منسلک ہاسپٹل سسٹم میں ‪ 8‬الکھ ‪ 69‬ہزار سے زیادہ خواتین کے ڈیٹا کا‬
‫جائزہ لیا گیا جن کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔‬
‫ان خواتین میں سے ‪ 18‬ہزار ‪ 715‬میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے متاثر حاملہ خواتین میں بچے کی قبل از وقت‬
‫پیدائش کا امکان ‪ 40‬فیصد زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح ان خواتین کی آئی سی یو میں داخلے کی شرح دیگر حاملہ خواتین کے مقابلے‬
‫میں ‪ 6‬گنا زیادہ تھی۔‬
‫بچے کی پیدائش کے دوران ‪ 5.2‬فیصد خواتین کو سانس لینے میں مدد کے لیے ٹیوب اور‬
‫وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی جبکہ کووڈ سے محفوظ حاملہ خواتین میں یہ شرح محض‬
‫‪ 0.9‬فیصد تھی۔‬
‫تحقیق کے مطابق کووڈ سے متاثر حاملہ خواتین کی موت کا خطرہ دیگر کے مقابلے ‪10‬‬
‫گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ حاملہ خواتین میں کووڈ ‪ 19‬کا خطرہ دیگر کے‬
‫مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے یا نہیں‪ ،‬مگر جن کو اس بیماری کا سامنا ہوتا ہے ان کے لیے‬
‫بیماری کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪104‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ حاملہ خواتین اہم غذائی اجزا اور آکسیجن آنول کے ذریعے‬
‫بچے کو منتقل کرتی ہیں‪ ،‬تو ان میں نظام تنفس کی کمزوری اور فیل ہونے کا خطرہ بڑھتا‬
‫ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کی پیچیدگیوں کے باعث ڈاکٹر کو بچے کی جلد ڈیلوری کا فیصلہ‬
‫کرنا پڑسکتا ہے تاکہ جسم کو مناسب مقدار میں آکسیجن مل سکے ورنہ نظام کی ناکامی پر‬
‫بچے کی زندگی کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق یہ ڈیٹا اس وقت اکٹھا کیا گیا تھا جب کووڈ ‪ 19‬ویکسینز وسیع پیمانے پر‬
‫دستیاب نہیں تھیں‪ ،‬اس وقت ماں یا بچے پر ویکسین کے ممکنہ اثرات کا جائزہ نہیں لیا‬
‫جاسکا تھا مگر اب حاالت مختلف ہیں اور حاملہ خواتین کو ویکسینیشن کرانی چاہیے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ حاملہ خواتین میں کووڈ ‪ 19‬سے پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھنے کے‬
‫باوجود امریکا میں صرف ‪ 23‬فیصد حاملہ خواتین کی ویکسینیشن ہوئی ہے یعنی ‪ 77‬فیصد‬
‫کو اب بھی سنگین خطرات الحق ہیں۔اس‪ Q‬تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک‬
‫اوپن میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166745/‬‬

‫محض ایک سافٹ ڈرنک زندگی کی مدت ‪ 12‬منٹ کم کردیتی ہے‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪22 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪105‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫میٹھے مشروبات کا استعمال موجودہ عہد میں بہت زیادہ ہوتا جارہا ہے مگر کیا آپ کو‬
‫معلوم ہے کہ ایک سافٹ ڈرنک پینے سے 'صحت مند' زندگی کے ‪ 12‬منٹ کم ہوجاتے‬
‫ہیں؟‬
‫دعوی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا جس میں غذا کے انسانی صحت اور ماحول‬ ‫ٰ‬ ‫یہ‬
‫پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔‬
‫جریدے جرنل نیچر فوڈ میں شائع تحقیق میں ‪ 5800‬سے زیادہ غذائی اشیا کی جانچ پڑتال‬
‫کرکے ان کے مفید یا نقصان دہ ہونے کی درجہ بندی کی گئی۔‬
‫امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ موجودہ عہد میں فاسٹ فوڈ کا‬
‫استعمال بڑھ گیا ہے مگر روزمرہ کی بنیاد پر یہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے کہ انفرادی‬
‫انتخاب کس حد تک ہماری اور ماحول کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزمرہ میں گائے کے گوشت اور پراسیس گوشت سے‬
‫حاصل مجموعی کیلوریز کے صرف ‪ 10‬فیصد حصے کو اناج‪ ،‬پھلوں‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬گریوں‪،‬‬
‫دالوں اور مخصوص سی فوڈ سے بدل دینا صحت مند زندگی میں ‪ 48‬منٹ کا اضافہ‬
‫کرسکتا ہے۔یہی غذا ماحول کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫محققین نے انسانی صحت پر غذا کے اثرات کا تخمینہ ایک بڑی تحقیق کے ڈیٹا کو استعمال‬
‫کرکے لگایا۔نتائج میں بتایا گیا کہ زمین پر اگنے والے پھل‪ ،‬سبزیووں‪ ،‬دالیں‪ ،‬گریاں اور‬
‫سی فوڈ سے پراسیس گوشت‪ ،‬گائے کے گوشت اور دیگر غذاؤں کے منفی اثرات کو نمایاں‬
‫حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪106‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ طرز زندگی میں معمولی تبدیلیاں صحت‬
‫اور ماحول کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں اور غذا میں ڈرامائی تبدیلیوں کی بھی ضرورت‬
‫نہیں ہوتی‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166783/‬‬

‫کورونا کے خالف جنگ میں ایسٹرازینیکا کی بڑی کامیابی‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اگست ‪ 22 2021‬‬

‫ادویہ ساز کمپ[[نی ایس[[ٹرازینیکا نے ع[[المی کورون[[ا وب[[ا س[[ے بچ[انے میں م[[ددگار دوا تی[[ار‬
‫کرلی۔‬
‫ایسٹرازینیکا نے کورونا کے خالف استعمال کے لیے ایک خاص دوا تیار کی اور کووڈ ‪19‬‬
‫کی عالمات کے اس طریقہ عالج کے ٹرائل سے مثبت نت‪QQ‬ائج ک‪Q‬ا اعالن بھی کی‪QQ‬ا‪ ،‬کمپ‪Q‬نی کی‬
‫تیار کردہ یہ دوا ‪ 2‬اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی ہے۔‬
‫مذکورہ دوا کے ٹرائل کے دوران ‪ 5197‬افراد کو شامل کی‪QQ‬ا گی‪QQ‬ا ج‪QQ‬و ک‪QQ‬ووڈ س‪QQ‬ے مت‪QQ‬اثر نہیں‬
‫ہوئے تھے‪ ،‬مشاہدے کے نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ اس دوا سے عالمات والی بیماری سے‬
‫متاثر ہونے کا خطرہ ‪ 77‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے‪ ،‬رضاکاروں پر تجربے کے دوران کس‪QQ‬ی‬
‫قسم کے منفی اثرات بھی سامنے نہیں ٓائے۔‬

‫تحقیقات | ‪107‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس سے قبل ‘اے زی ڈی ‪ ’7442‬نامی دوا کا جون میں ہونے والے ایک پ‪QQ‬رانے ٹرائ‪QQ‬ل میں‬
‫دریافت کیا گیا تھا کہ اس کے استعمال سے عالمات والی بیماری میں مبتال ہونے ک‪QQ‬ا امک‪QQ‬ان‬
‫محض ‪ 33‬فیصد کم ہوتا ہے۔‬
‫محقیقین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ اس دوا کی ایک خوراک برق رفتار س‪QQ‬ے ک‪QQ‬ام‬
‫کرتے ہوئے مؤثر طریقے سے عالمات والی بیماری کی روک تھام کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اے زی ڈی ‪ 7442‬لوگ‪QQ‬وں کی معم‪QQ‬ول کی زن‪QQ‬دگی بح‪QQ‬ال ک‪QQ‬رنے کے ل‪QQ‬یے‬
‫مددگار ثابت ہوگی‪ ،‬توقع ہے کہ اس دوا کو ویکسینز کے ساتھ استعمال کیا جاسکے گ‪Q‬ا ت‪QQ‬اکہ‬
‫لوگوں کو ‪ 12‬مہینے تک زیادہ تحفظ مل سکے۔‬
‫اس مشاہدے کا حصہ ان افراد کو بنایا گی‪Q‬ا جن میں ویکس‪QQ‬ین کی برادش‪Q‬ت نہیں تھی ی‪Q‬ا ان ک‪Q‬ا‬
‫مدافعتی ردعمل اس قابل نہیں تھا۔ مذکورہ دوا کے بعد ان میں کورن‪QQ‬ا عالم‪QQ‬ات والی بیم‪QQ‬اری‬
‫کے خطرات کم ہوگئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/astrazenecas-great-victory-in-the-war-against-‬‬
‫‪corona/‬‬

‫کیا ویکسینیشن کے بعد کووڈ سے متاثر ہونے والے افراد وائرس آگے‬
‫پھیال سکتے ہیں؟‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اگست ‪22 2021‬‬
‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬
‫ویکسین استعمال کرنے کے بعد اگر کوئی فرد کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوتا ہے (ایسے افراد‬
‫کے لیے بریک تھرو انفیکشن کی اصطالح استعمال ہوتی ہے) تو اس سے وائرس آگے‬
‫پھیلنے کا امکان کم ہوتا ہے۔یہ بات نیدرلینڈز میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں‬
‫سامنے آئی۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ بریک تھرو انفیکشن سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ تو‬
‫ویکسین استعمال نہ کرنے والے مریضوں جتنا ہوتا ہے مگر ان کے جسم سے وائرل ذرات‬
‫کا اخراج کم ہوتا ہے۔‬
‫آسان الفاظ میں ویکسنیشن مکمل کرانے والے افراد سے وائرس آگے پھیلنے کا امکان‬
‫ویکسین استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ان کو پری پرنٹ‬
‫سرور پر جاری کیا گیا۔اس تحقیق میں ‪ 24‬ہزار سے زیادہ طبی ورکرز کا ڈیٹا دیکھا گیا تھا‬
‫جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪108‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ان میں سے ‪ 161‬میں کووڈ کی تشخیص ہوئی اور زیادہ تر اس بیماری سے ڈیلٹا قسم کے‬
‫باعث متاثر ہوئے۔اگرچہ یہ اچھی خبر ہے مگر تحقیق میں ‪ 68‬فیصد مریضوں کے نمونوں‬
‫کو متعدی دریافت کیا گیا۔‬
‫یہی وجہ تھی کہ محققین نے کہا کہ نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت‬
‫ہے۔‬
‫اس سے قبل حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس‬
‫کے تحفظ کے لیے ویکسینیشن کی افادیت ڈیلٹا قسم کے خالف ‪ 3‬ماہ کے اندر کم ہوجاتی‬
‫ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں استعمال ہونے والی ‪2‬‬
‫عام ویکسینز کی افادیت کورونا کی قسم ڈیلٹا کے سامنے گھٹ گئی۔‬
‫الکھ سے زیادہ ناک اور حلق کے سواب ٹیسٹ کے نمونوں کے تجزیے پر مبنی اس ‪30‬‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کی اس نئی قسم کے خالف فائزر‪/‬بائیو این ٹیک کی ایم آر این‬
‫اے ویکسین اور ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت میں ویکسینیشن کے ابتدائی ‪ 90‬دن کے‬
‫بعد کمی آئی۔‬
‫تحقیق کے مطابق ویکسینیشن مکمل کرنے والے بالغ افراد میں بھی کورونا کی قسم ڈیلٹا‬
‫سے بیمار ہونے پر وائرس کی مقدار اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ویکسین استعمال نہ کرنے‬
‫والے مریضوں میں۔‬
‫مگر تحقیق میں واضح نہیں کیا گیا تھا کہ ویکسینیشن کے بعد بیمار ہونے والے ایسے افراد‬
‫کس حد تک وائرس کو آگے پھیال سکتے ہیں لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اسے آگے‬
‫پھیالتے ہیں۔‬
‫محققین نے اس حوالے سے بتایا کہ زیادہ وائرل لوڈ سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وائرس کے‬
‫خالف کسی آبادی میں اجتماعی مدافت کا حصول بہت بڑا چیلنج ہوگا‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1166799/‬‬

‫تحقیقات | ‪109‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۶ | ۱۳۸‬اگست ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۲‬اگست ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like