Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 36) 06 Sep 2021 2021-12 September 2021 - Issue 141 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 36) 06 Sep 2021 2021-12 September 2021 - Issue 141 - Vol 5
ویکلیہفتہ
ٰ
عظمی ہے!قدرکیجئے صحت نعمت
تفصیل
تحقیقات | 2 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
www.alqalam786.blogspot.com
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کتے کے کاٹنے سے انسان پاگل کیوں ہوتا ہے ؟ جانیے
ویب ڈیسک
ستمبر 6 2021
کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب میں موجود ریبیز وائرس انسان کے لئے جان لیوا
ہوسکتا ہے ،اس لئے سگ گزیدگی یعنی کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش ٓانے کے بعد اینٹی
ریبیز\ ویکسین (اے ٓاروی) لگانا ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے پورے جسم میں نروز کا جال پھیال ہوا ہے ،جو کہ ہمارے جسم اور دماغ کے
درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اور ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا
پڑتا ہے۔
کتے ایک وائرس “ریبیز” کی وجہ سے پاگل ہوتے ہیں۔ جب ریبیز کا وائرس کتے پر حملہ
کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں کتا پاگل ہو جاتا ہے اورکتے کے لعاب (تھوک) میں بھی
ریبیز وائرس موجودرہتا ہے ،جب یہی پاگل کتا کسی انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنے لعاب
کے ذریعے متاثرہ شخص کی خون میں اپنے جراثیم ان میں منتقل کردیتا ہے۔
یہ وائرس جب انسانی وجود میں عروج پر پہنچ جاتے ہے تو پھر اس کا عالج ناممکن
ہوجاتا ہے اور انسان موت کے منہ میں چال جاتا ہے۔ ریبیز وائرس نروس سسٹم کے
ذریعے انسانی دماغ پر حملہ اور ہوتا ہے۔
پاگل کتے کے کاٹنے کے بعد انسان میں جب یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تو اس وائرس کے
نتیجے میں انسان میں کچھ عالمات پائے جاتی ہیں جیسا کہ پانی سے ڈرنا۔غصہ ہونا
،کنفیوز ہونا ،دہشت ،رویے میں تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔
کتا اگر کسی حالل جانور کو کاٹ لے اور جانور پاگل ہو جائے تو اس کو ذبح کرنے کے
بعد اس کا گوشت کھانے سے انسان پاگل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کے بارے میں میڈیکل سائنس
کا وائرس داخل ہوگیا اور وہ وہاں پر اپنی تعداد بھی بڑھانے لگ گیا مگر تب تک ریبیز کا
اثر یا عالمات نہیں ہونگی جب تکہ یہ ریبیز کسی نروز میں داخل ہوکر دماغ تک نہیں پہنچ
جاتا۔ اس کام کے لیے ریبیز کا وائرس کسی موٹر نروز (جو دماغ کا سگنل جسم تک لے
کے آتی ہے) میں داخل ہوتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/dog-bites-rabies-anti-rabies-vaccine/
ٰ
دعوی کرنے والی خاتون ،ڈاکٹرز نے 40 سال تک مسلسل جاگنے کا
تحقیق کی تو ایسا انکشاف کہ یقین نہ آئے
Sep 07, 2021 | 18:47:PM
بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) ماہرین کے مطابق انسان بغیر سوئے چند دن ہی نکال پاتا ہے
ٰ
دعوی کردیا لیکن چین میں ایک خاتون نے 40سال تک مسلسل جاگنے کا ایسا حیران کن
ہے کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔ دی سن کے مطابق اس خاتون کا نام ’لی ژین
ٰ
دعوی کیا ہے کہ ینگ‘ ہے اور وہ چین کے مشرقی صوبے ہینان کی رہائشی ہے۔ اس نے
وہ ایک ایسی بیماری میں مبتال ہے کہ گزشتہ 40سال سے مسلسل جاگ رہی ہے اور اس
پر کوئی دوا بھی اثر نہیں کرتی۔
لی ژین ینگ کا کہنا تھا کہ اس کی بیماری نے ڈاکٹروں کو بھی حیران کر رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق لی ژین ینگ اپنے عالقے میں ایک سیلیبریٹی کی حیثیت رکھتی ہے
اور ہر شخص اسے جانتا ہے۔ ایک بار اس کے ہمسایوں نے اس کے کبھی نہ سونے کے
دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے اس کے ساتھ جاگنے کا فیصلہ کیا۔ وہ تمام رات لی کے
تحقیقات | 5 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ساتھ تاش کھیلتے رہے ،ایک ڈیڑھ دن میں ہی تمام ہمسائے فرش پر ہی بے سدھ ہو گئے
مگر لی جاگتی رہی۔ لی کے شوہر لیو شوچیان کا کہنا ہے کہ ابتداءمیں ڈاکٹر اسے بے
خوابی کی بیماری قرار دیتے رہے اور نیند کی گولیاں تجویز کرتے رہے۔ میں نے لی کو
نیند کی گولیاں ال کر دیں لیکن وہ بھی بے کار گئیں اور انہیں کھانے کے بعد بھی لی کو
نیند نہیں آئی۔ لی کا کہنا ہے کہ آخری بار وہ 5سال کی عمر میں سوئی تھی۔
لی کی اس صورتحال پر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کے مکمل معائنے کے بعد بتایا ہے
کہ ایسا نہیں ہے کہ لی کبھی سوتی ہی نہیں ،مگر اس کا سونے کا طریقہ دوسروں سے
مختلف ہے۔ وہ اپنے شوہر سے باتیں کرتے ہوئے نیند پوری کر لیتی ہے۔ جب وہ اپنے
شوہر سے باتیں کرتی ہے تو اس کی آنکھیں جھپکنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہی وہ
وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی نیند لے رہی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے
ساتھ باتیں بھی کر رہی ہوتی ہے۔یہ بیماری ’نیند میں چلنے کی بیماری‘ جیسی ہی ہے۔ اس
بیماری میں سوتے ہوئے لی باتیں بھی کر سکتی ہے اور ایسے دکھائی دیتی ہے جیسے
جاگ رہی ہو اور اپنے مکمل حواس میں ہو۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ نیند
میں باتیں کرتے ہیں
https://dailypakistan.com.pk/07-Sep-2021/1337634
ویب ڈیسک
بدھ 8 ستمبر2021
ماں کا دودھ قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کے دل کے کئی نقائص دور کرکے انہیں
توانا بناتا ہے۔
ٓائرلینڈ :اگرچہ ماں کے دودھ کے کئی فوائد سامنے ٓاتے رہے ہیں اور اب معلوم ہوا ہے
کہ شی ِرمادر نومولود بچے کے دل کو توانا رکھتا ہے۔ بالخصوص وہ بچے جو نو ماہ کی
بجائے ٓاٹھ ماہ یا اس سے کم مدت میں ٓانکھ کھولتے ہیں۔
ٓائرلینڈ میں واقع رائل کالج ٓاف سرجنز سے وابستہ ڈاکٹر عفیف ال خفاش کہتے ہیں کہ ماں
کا دودھ بچے کی زندگی کا درجہ رکھتا ہے۔ تاہم پہلی مرتبہ پری میچیور (قبل ازوقت) پیدا
ہونے والے بچوں کے قلب اور ماں کے دودھ کے درمیان تعلق سامنے ٓایا ہے۔ وہ کہتے
ہیں کہ بچے کے پہلے برس ماں کا دودھ اس کی صحت اور قلبی تندرستی میں اہم کردار
ادا کرتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اپنے وقت پر پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں کم مدت میں جنم
لینے والے بچوں کا دل کمزور ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچے ٓاگے چل کر
دل کے مریض بھی بن سکتےہیں۔ ان میں بلڈ پریشر اور ہارٹ فیل کا خطرہ بھی پیدا ہسکتا
امراض قلب بھی ہوتے ہیں۔
ِ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بچوں میں موت کی وجہ
اس ضمن میں ایسے 80بچوں کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے معمول سے ہٹ کر اپنی مدت
سے پہلے دنیا میں ٓانکھ کھولی تھی۔ اس وقت وہ صرف ماں کا دودھ پی رہے تھے اور
صرف ایک سال میں ان کے دل کے افعال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔ یہاں تک کہ وہ وہ
مکمل صحتیاب اور بڑے ہوگئے تب بھی ان میں یہ مثبت کیفیت برقرار رہی ۔
ماہرین نے دیکھا کہ جن بچوں کو دنیا میں ٓاتے ہی ماں نے دودھ پالیا ایک سال کی عمر
تک ان بچوں کے دل کی ساخت اور افعال بہتر ہوئے۔ لیکن جن بچوں کو تجرباتی طور پر
فارمولہ (ڈبےکا) دودھ دیا گیا ان میں یہ بہتری نہیں ہوئی۔
اس اہم تحقیق کی تفصیالت 30اگست کو جرنل ٓاف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع
ہوئی ہیں۔
’وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے دل میں کئی نقائص ہوسکتےہیں۔ لیکن ماں کا
دودھ اس کا بہترین عالج ثابت ہوسکتا ہے جو ایسے بچوں کے قلب کو درست کرتے ہوئے
عین اسی تندرست بچوں کے دل کی مانند بنادیتا ہے ‘،ڈاکٹر عفیف نے کہا۔ انہوں نے مزید
بتایا کہ جن بچوں کو ماں کے عالوہ دیگر اقسام کے دودھ دیئے گئے ان کے دل میں یہ
خاصیت نہ پیدا ہوسکی۔
https://www.express.pk/story/2221798/9812/
ویب ڈیسک
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اس کے باوجود وہ
بیمار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں عالمات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں
معمولی عالمات نظر آتی ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس صورتحال کی وجہ جاننے کیلئے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے
اور تحقیق کے بعد اس کا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ کورونا وائرس کی وبا کو اب
پونے دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر اس کے حوالے سے بہت کچھ ایسا ہے جس کا
علم اب تک نہیں ہوسکا۔
اس وبائی بیماری کا ایک معمہ یہ بھی ہے کہ کچھ افراد اس سے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں
اور کچھ میں عالمات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔
ریحان عابدی
تحقیقات | 9 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ستمبر 7 2021
آپ نے بھی کبھی مبالغہ آرائی ،کسی بات کو طول دینے یا اسے بحث کے سبب بگاڑ کی
حد تک لے جانے پر بڑے بوڑھوں سے خاص طور پر سنا ہو گا کہ وہ تو رائی کا پہاڑ
بنانا جانتا ہے یا اس نے رائی کا پہاڑ بنا لیا۔
یہی رائی ہمارے کچن میں پکوان سے لے کر صحت و عالج کے لیے بھی استعمال ہوتی
ہے۔ اسے ہم مصالہ جات میں شمار کرتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل میں
ہوتی ہے۔
رائی دانے ہماری صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں جن میں گلوکوسینولیٹ ªپایا جاتا ہے ،یہ
اسے منفرد ذائقہ دیتا ہے۔
رائی دانے میں موجود میگنیشیم بلند فشار خون کو کم کرتا ہے اور یہ ٓادھے سر کے درد
کی شدت میں بھی کمی التا ہے۔
بہتر نظام ہاضمہ
ہاضمے کی بہتر کارکردگی کے لیے رائی دانہ بہترین سمجھا جاتا ہے ،کیونکہ یہ انسانی
جسم میں میٹابولزم کے عمل کو مضبوط بناتے ہیں اور ہاضمے کے مسائل کو کم کرتے
ہیں ،اس کے نتیجے میں انسان کا جسمانی وزن کم ہوتا ہےخصوصا ً باہر نکال پیٹ اندر
جانے لگتا ہے۔
تحقیقات | 11 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
جوڑوں کے درد کا عالج
کیلشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے سبب یہ عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو
ہڈیوں سے متعلق مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں ،چہرے سے جھریوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔
کمر کے درد یا پٹھوں کی اکڑن کے مسئلے سے دوچار افراد رائی دانے چبا لیں ،اس سے
درد میں کمی ٓائے گی اور پٹھوں کی سختی اور سوجن کم ہوگی۔
وائرل انفیکشن ،الرجی میں افاقہ
رائی دانوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ نزلے کی شدت کو کم کرتے ہیں اور سانس کی نالی
میں تنگی سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اگر کسی کو مٹی سے الرجی کے سبب سانس لینے میں دشواری پیش ٓاتی ہے تو وہ رائی
کے بیج چبالے ،افاقہ ہوگا۔
کینسر سے نجات
ستمبر 7 2021
کچھ لوگ اس بات سے بہت پریشان ہوتے ہیں کہ ان کو گاڑیوں میں س\\فر کے دوران متلی
ہوتی ہے اور الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں ،اس وجہ سے ایسے لوگ سفر سے ک\\تراتے ہیں،
لیکن سوال یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ایسا کیوں ہوتا ہے؟
دراصل سفر کرتے وقت چکر آنے یا الٹیاں آنے کی وجہ یہ سمجھی جªªاتی ہے کہ سªªفر کے
دوران دماغ کو جسم کے مختلف حصوں سے متضاد معلومات ملنا شروع ہو جاتی ہیں ،اور
دماغ ایک طرح سے کنفیوز ہو جاتا ہے۔
جب ہم پیدل چلتے ہیں تو ہماری آنکھیں ،ٹانگیں ،پªªاؤں ،بªªازو ،اور کªªانوں کے انªªدر موجªªود
توازن کا نظام (بیلینسنگ سسٹم) سب دماغ کو یہ اطالع دیتے ہیں کہ ہم حرکت میں ہیں۔
اس کے برعکس ªاگر آپ بس میں سفر کر رہے ہوں ،تو آپ کے کانوں کے اندر موجود
بیلنسنگ کا نظام دماغ کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ آپ حرکت میں ہیں ،لیکن آپ کا جسم دماغ
کو یہ بتاتا ہے کہ آپ ایک سیٹ پر بیٹھے ہیں ،یعنی ساکن ہیں ،جب کہ آپ کی آنکھیں بھی
بس کے اندر ہر چیز کو ساکن دیکھتی ہیں۔
ہر گھر میں دادی اور نانی جلد اور بالوں کی صحت اور خوبصورتی\ کو برقرار رکھنے کے
لیے ملتانی مٹی ،جسے فلرز ارتھ بھی کہا جاتا ہے ،کا استعمال کرنے کی نصیحت دیتی
ہیں ،فلرز ارتھ کو آسان زبان میں ملتانی مٹی کہا جاتا ہے۔
ملتانی مٹی جلد کے ساتھ ساتھ بالوں کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے ،جلد کے تمام
مسائل کا عالج اس کے پاس ہے ،یہ نہ صرف جلد کی رنگت کو نکھارتی ہے بلکہ جلد
کے بہت سے مسائل جیسے خارش ،جلن سے بھی راحت پہنچاتی ہے۔ زراعت میں بھی
ملتانی
تحقیقات | 15 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
مٹی کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ دوا ہے جو خوبصورتی بڑھانے
والی خصوصیات سے ماال مال ہے۔
ملتانی مٹی کے جلد پر فوائد
موجودہ دور میں ٓالودگی ،کاسمیٹک پروڈکٹ اور غیر صحت مند طرز زندگی کی باعث ہر
شخص دانے ،مہاسے ،خشک جلد ،خشک بال ،خشکی جیسے جلد اور بال سے متعلق
پریشانیوں کا سامنا کررہا ہے ،ہم اپنی جلد کو نکھارنے اور بے داغ بنانے کے لیے ہزار
روپے خرچ کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کے نتائج بھی زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے
ہیں۔ ایسی صورتحال میں ٓازمودہ گھریلو نسخے پر بھروسہ کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔
ملتانی مٹی کو جلد کو چمکدار اور نکھارنے کے لیے جانا جاتا ہے ،یہ دانے ،داغ ،مہاسوں
اور سورج کی تپش کی وجہ سے کالی پڑنے والی جلد جیسے مسائل سے بھی نجات دالنے
میں مدد کرتی ہے۔ اس میں میگنیشیم ،کوارٹز ،سیلیکآ ،ائرن ،کیلشیم ،کیلسائٹ جیسے
معدنیات پائے جاتے ہیں۔
ملتانی مٹی کے روزانہ کے استعمال سے جلد سورج کی مضر شعاعوں کے سبب جھلسنے
کے اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔
ملتانی مٹی کا لیپ لگانے سے جلد میں موجود گندگی دور ہوجاتی ہے ،یہ جھریوں کا بھی
صفایا کرتی ہے ،چونکہ یہ جراثیم کش خصوصیات کی حامل ہوتی ہے ،اس لیے یہ جلد کو
الرجی سے محفوظ رکھنے میں بھی کارٓامد ثابت ہوسکتی ہے ،اس کے عالوہ اس کا
استعمال زخموں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
اس کے عالوہ ملتانی مٹی کا پیسٹ میٹابولزم کو بہتر بناکر جسم میں خون کی گردش کو
بھی بہتر بناتا ہے ،چونکہ اسے لگانے پر جلد کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ،اس لیے اگر
اسے چہرے پر لگایا جائے تو یہ سوجن میں ٓارام دیتی ہے ،ملتانی مٹی مردہ خلیوں کو
ہٹانے میں بھی کارٓامد ثابت ہوتی ہے۔
بالوں کے لیے ملتانی مٹی کے فوائد
قدیم زمانے میں شیمپو جیسی کوئی چیز موجود نہیں تھی ،تب لوگ اپنے بال ملتانی مٹی
سے دھوتے تھے،ملتانی مٹی کا ہیئر پیک بالوں سے جوؤں کو دور کرتا ہے اور ساتھ میں
دو منہ بالوں کے لیے بھی موثر ثابت ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اور طریقے ہیں جن سے ملتانی
مٹی کی مدد سے بالوں کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
خشکی کی صورت میں ملتانی مٹھی کو میتھی کے بیجوں اور لیموں کے رس کے ساتھ مال
کر بالوں پر لگائیں اور آدھے گھنٹے کے بعد دھو لیں ،اگر چاہیں تو اس کے بعد شیمپو
کرسکتے ہیں اور پھر کنڈیشنر لگا سکتے ہیں۔
اگر بالوں میں خشکی کا مسئلہ ہے تو ملتانی مٹی میں دہی مال کر بالوں پر لگائیں اور بیس
منٹ بعد دھو لیں۔
بے جان بالوں کے لیے ملتانی مٹھی میں تل کا تیل اور تھوڑا سا دہی مال کر اس پیک کو
بالوں پر لگائیں۔
بال ٹوٹنے کی صورت میں ملتانی مٹی ہیئر پیک کا استعمال بال کو ٹوٹنے سے روکتا ہے
اور بالوں میں نمی برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
اگر آپ کی بالوں کی جڑیں بہت ٓائلی ہے تو ملتانی مٹی میں لیموں کا رس مال کر لگائیں ،یہ
آپ کو چپچپا اور چکنے بالوں سے چھٹکارا دالنے میں مدد دے گا۔
https://urdu.arynews.tv/perfect-benefits-of-multani-soil/
دیکھنے میں تو گالبی نمک واقعی خوبصورت لگتا ہے ،لیکن آسٹریلیا میں ایک تحقیق
میں پایا گیا ہے کہ صحت کے لیے مفید نمک سمجھے جانے کے باوجود گالبی نمک میں
اہم غذائی اجزا کی کمی ہوتی ہے بلکہ کئی مضر دھاتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
نیوٹریشن ریسرچ آسٹریلیا نامی آزاد تحقیقاتی ادارے نے آسٹریلیا میں دستیاب گالبی نمک
کے اکتیس نمونوں پر تحقیق کی اور حیران کن حقائق بیان کئے کہ ان نمونوں میں غذائی
ویب ڈیسک
ستمبر 8 2021
واشنگٹن :کرونا وائرس کی ابتدا سے متعلق چین اور امریکا میں تنازعہ جاری ہے اور
حال ہی میں اس حوالے سے نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔
امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں کرونا وائرس سے پہلی موت 9جنوری
2020کو ہوئی ،جبکہ ٹھیک اسی دن چین میں بھی کرونا وائرس سے موت کا پہال کیس
رپورٹ ہوا تھا۔
امریکی نیوز سائٹ نے امریکا میں سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی)
کے حوالے سے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے تک اس ادارے کے ڈیٹا بیس میں
کرونا وائرس سے امریکا میں ہونے والی پہلی موت کی تاریخ 6فروری 2020تھی۔
البتہ تازہ ترین اپ ڈیٹ میں ایک نئے کیس ریکارڈ کی شمولیت سے یہ تاریخ مزید پیچھے
کر کے 9جنوری 2020کردی گئی ہے ،اور یہ عین وہی دن ہے جب چین میں کرونا
وائرس سے پہلی موت رپورٹ ہوئی تھی۔
ایک اور امریکی ویب سائٹ الئیو سائنس نے بھی مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق
کرتے ہوئے بتایا کہ ہالک ہونے والی 78سالہ خاتون کا نام لوول براؤن تھا اور وہ امریکی
ریاست کنساس کے شہر لیون ورتھ کی رہائشی تھیں۔
الئیو سائنس کے مطابق مذکورہ خاتون میں دسمبر 2019کی کرسمس سے پہلے ہی سانس
کی تکلیف اور منہ کا ذائقہ ختم ہونے سمیت ایسی تمام عالمات نمودار ہوچکی تھیں جنہیں
بعد ازاں کرونا وائرس سے منسوب کیا گیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لوول براؤن اپنی زندگی کے آخری چند مہینوں میں امریکا تو
کیا ،اپنے شہر تک سے باہر نہیں گئیں۔ البتہ مختلف دائمی امراض کی بنا پر وہ وقفے
وقفے سے اپنے ڈاکٹر کے پاس ضرور جایا کرتی تھیں۔
یہ بات بھی پراسرار ہے کہ آخر ڈیڑھ سال بعد ان خاتون کے مرنے کی وجہ کیوں اور کس
لیے تبدیل کی گئی ہے؟
یاد رہے کہ کووڈ 19عالمی وبا کی ابتدا سے متعلق امریکا اور چین میں شدید تنازعہ
جاری ہے۔
بیجنگ :چین کی دوا ساز کمپنی نے ایسی کرونا ویکسین تیار کی ہے جو بیماری\ سے
بچاؤ کے ساتھ ساتھ کرونا سے متاثرہ شخص کا عالج بھی کرتی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا اور چین سمیت کئی ممالک انسداد کرونا ویکسین تیار
کرچکے ہیں اور تمام ممالک کی تیار کردہ ویکسین بیماری سے بچاؤ کےلیے استعمال کی
جاتی ہے لیکن اب چینی کمپنی یشینگ بائیو نے ایسی ویکسین تیار کی ہے جس سے
بیماری کا عالج بھی ممکن ہے۔
چین کی تیار کردہ اس ویکسین کے ٓازمائشی مراحل سے گزارا جائے گا اور اس سلسلے
میں چینی کمپنی نے اماراتی حکومت اور نیوزی لینڈ کی میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی سے
اجازت مانگی تھی جو گزشتہ دی جاچکی ہے۔
لمبے وقفے کے بعد کھانا کھانے کو’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ کہا جاتا ہے جس کے صحت پر
بے شمار فوائد مرتب ہوتے ہیں ،انٹر مٹنگ فاسٹنگ میں انسان کم وقفے لے کر کھانا پینا
چھوڑ دیتا ہے ،زیادہ دیر غذا سے پرہیز کرتا ہے جبکہ اس دوران سادے پانی کا استعمال
کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس ’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ میں باقاعدگی بہت الزمی ہے ،اس عمل کے
دوران 16گھنٹوں کے لیے کھانا چھوڑ کر باقی کے 8گھنٹوں میں کھانا کھایا جا سکتا ہے،
ان 16گھنٹوں کا ٓاغاز رات 8سے شروع ہو کر دن 12 بجے تک چلتا ہے جبکہ دن 12
سے رات 8بجے تک کھانا کھایا جا سکتا ہے۔
:انٹرمٹنگ فاسٹنگ اور ماہرین کی رائے
ماہری ِن غذائیت کے مطابق انٹرمٹنگ فاسٹنگ انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے،
یہ ایک بہترین عمل ہے جس میں انسانی جسم سے فاضل مادے خارج ہو جاتے ہیں،
اعضاء کو سکون ملتا ہے ،دماغ تیز کام کرتا ہے اور انسان خود کو ہلکا اور متحرک
محسوس کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق انٹر مٹنگ فاسٹنگ کو بے قاعدگی سے کرنے کے برے نتائج ہوسکتے
ہیں جس سے قوت مدافعت ،جگر ،گردے ،بال ،جلد سمیت دیگر اعضاء پر منفی اثرات ٓا
سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ کے کئی طریقے ہیں۔
پہال طریقہ
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کے خواہشمند افراد کے لیے تجویز کیا جاتا
ہے کہ صبح ناشتہ کریں ،اس کے بعد بھوک لگنے تک کسی غذا کا استعمال نہ کریں ،اس
دوران 6سے 8گھنٹے کا وقفہ لیا جا سکتا ہے۔
دوسرا طریقہ
دوسرے طریقے کے مطابق دن کا پہال کھانا دوپہر 12بجے کھائیں اور دوسرا کھانا شام 4
سے 8کے درمیان کھا لیں ،یہ طریقہ ایک ہفتے تک جاری رکھیں۔
تیسرا طریقہ
تیسرے طریقے کے مطابق 7دنوں میں سے کسی ایک دن غذا کا استعمال چھوڑ دیں اور
دوسرے دن خواتین 500کیلوریز جبکہ مرد 600کیلوریز کا استعمال کر سکتے ہیں۔
اس طریقے کے مطابق اب تیسرے دن دوبارہ کھانا چھوڑیں اور چوتھے دن بتائی گئی
محدود کیلوریز کا استعمال کریں۔
سُپر فوڈ میں شمار کی جانے والی جڑی بوٹی ادرک کے استعمال سے صحت سمیت
خوبصورتی پر بھی بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ،متعدد بیماریوں میں قدرتی عالج کے
طور پر استعمال کی جانے والی ادرک کی افادیت سے بیشتر خواتین نا واقف نظر ٓاتی ہیں،
ایسی خواتین کے لیے یہ رپورٹ سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق ادرک میں بڑی تعداد میں فائبر ،وٹامنز ،اینٹی ٓاکسیڈنٹ اور قدرتی
اینٹی بائیوٹک خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کے استعمال سے جہاں موٹاپے کے خاتمے،
بلڈ پریشر ،شوگر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے وہیں صاف جلد،
خوبصورت بال ،کیل مہاسوں سے نجات ،اور پیٹ اور چہرے کے گرد جمی اضافی چربی
کا خاتمہ بھی ممکن ہوتا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ادرک کے باقاعدگی سے استعمال کے نتیجے میں بال جھڑنے،
چہرے پر کیل مہاسوں جیسی شکایات کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔
ادرک کا استعمال اس کے تُرش اور بہترین ذائقے کے سبب پکوانوں سمیت بطور سالد
بھی کیا جاتا ہے ،ادرک کے استعمال سے حاصل ہونے والے چند فوائد اور استعمال
مندرجہ ذیل ہیں۔
ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق ادرک کو بطور سالد استعمال کرنے کے نتیجے میں
رنگت اور ِجلد صاف ہوتی ہے۔
ادرک کا استعمال بالوں کے جھڑنے کی بیماری میں بھی بے حد معاون ہے ،بال لمبے
گھنے چمکدار بنانے کے لیے ہفتے میں دو بار ادرک کا رس نکال کر اس سے بالوں کی
جڑوں میں 30منٹ ہلکے پوروں سے مساج کرنا چاہیے ،اس عمل کے نتیجے میں بال
دنوں میں صحت مند ہونا شروع ہو جاتے ہیں
طبی ماہرین کی جانب سے سبز چائے یعنی کہ قہوے کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جو کہ
مجموعی صحت کے لیے بے حد مفید ہے ،مگر یہ جاننا بھی الزمی ہے کہ کس جُز سے
بنا قہوہ کس مرض کے لیے عالج ثابت ہوتا ہے۔
تحقیقات | 26 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انٹرنیشنل جرنل ٓاف فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق
روزانہ صبح ایک کپ قہوہ پینے کے نتیجے میں انسانی جسم میں مثبت تبدیلیاں سامنے ٓاتی
ہیں جن میں منفی کولیسٹرول اور موٹاپے میں کمی واقع ہونا سر فہرست ہے۔
ماہرین کے مطابق قہوے کے استعمال سے متعدد قسم کے کینسر سے بھی نجات حاصل
ہوتی ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق قہوے میں کیفین کی مقدار پائی جاتی ہے ،کیفین کے سبب بھوک
میں کمی واقع ہوتی ہے اور جسم سے مضر صحت مادوں کا صفایا ممکن ہوتا ہے لہٰ ذا
صحت پر مختلف قسم کے قہوے مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں جن سے متعلق چند
اقسام مندرجہ ذیل درج ہیں
ویب ڈیسک
جمعـء 10 ستمبر 2021
پروبینیسڈ نامی یہ کم خرچ دوا پچھلے پچاس سال سے گٹھیا کے عالج میں عام استعمال
ہورہی ہے۔
جارجیا :امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ گٹھیا کے عالج میں پچھلے پچاس
سے )‘‘ (Probenecidسال سے استعمال ہونے والی عام اور کم خرچ دوا ’’پروبینیسڈ
ڈاکٹر رالف کے مطابق ’’پروبینیسڈ‘‘ ªکئی اقسام کے ٓار این اے وائرسوں کے خالف مؤثر
ہے لہٰ ذا امید ہے کہ یہ کورونا وائرس کے تمام موجودہ اور ٓائندہ ویریئنٹس کی روک تھام
میں بھی یکساں طور پر مفید ثابت ہوگی۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ’’پروبینیسڈ‘‘ ªکی باضابطہ انسانی ٓازمائشیں نہ کرلی
جائیں ،تب تک اسے کورونا وائرس کے خالف تجویز نہ کیا جائے۔
تاہم انہیں امید ہے کہ کورونا وائرس کے عالج میں ’’پروبینیسڈ‘‘ ªکی انسانی ٓازمائشوں کی
اجازت بھی جلد ہی مل جائے گی
https://www.express.pk/story/2223256/9812/
ویب ڈیسک
کیلیفورنیا \:نئے کرونا وائرس کی مہلک وبا کے خالف تیار کی جانے والی ویکسینز\ کی
افادیت میں تیزی\ سے کمی آنے پر طبی ماہرین نے تحقیقات کیں تو یہ انکشاف ہوا کہ
ویکسینز\ کی افادیت میں کمی ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیالؤ اور سرجیکل ماسک کے استعمال نہ
کرنے کا نتیجہ ہے۔
طبی جریدے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین کی
ٹیم کے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ فائزر/بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیار کردہ
ایم آر این اے ویکسینز کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہوگئی ہے ،جس کی جزوی وجہ فیس
ماسک کے استعمال پر پابندی ختم ہونا اور کرونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کا پھیالؤ ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو (یو سی ایس ڈی) کے ماہرین کی ٹیم کی جانب سے
یونیورسٹی کے طبی ورکرز میں ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ محققین
نے بتایا کہ مارچ سے جون 2021کے دوران ویکسین کی افادیت عالمات والی بیماری
سے تحفظ کے لیے 90فی صد سے زیادہ تھی ،مگر جوالئی میں یہ گھٹ کر 64فی صد
تک پہنچ گئی۔
محققین کا کہنا ہے کہ ویکسینز کی افادیت میں کمی حیران کن نہیں ،کلینکل ٹرائل سے
ملنے والے ڈیٹا ہی سے یہ اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ مکمل ویکسینیشن کے کئی ماہ بعد افادیت
میں کمی ہو سکتی ہے ،اور اب ریسرچ اسٹڈی میں ،ڈیلٹا کے پھیالؤ کے باعث معمولی
ویب ڈیسک
ستمبر 6 2021
میساچوسٹس :امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ
اگر روزانہ زیادہ سے زیادہ قدم پیدل چال جائے تو درمیانی عمر کے افراد میں موت کی
شرح نمایاں حد تک کم ہو سکتی ہے۔
میساچوسٹس یونیورسٹی کے انسٹیٹوٹ فار اپالئیڈ سائنسز کے ماہرین نے جسمانی
سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لیے ریسرچ اسٹڈی کی ،اس تحقیق کے نتائج
طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے ہیں ،روزانہ قدموں کے شمار کے تجزیے کی
مدد سے حاصل شدہ نئے نتائج میں اہم انکشاف ہوا۔
تحقیق کے مطابق درمیانی عمر میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا دل کی شریانوں
سے جڑے امراض سے موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتا ہے ،ایسا مانا جاتا ہے کہ
ویب ڈیسک
ستمبر 06 2021
درمیانی عمر میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا دل کی شریانوں سے جڑے امراض
سے موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ جسمانی سرگرمیاں متعدد بیماریوں جیسے دل کی شریانوں کے
امراض ،ذیابیطس اور کینسر کی اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
جسمانی سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لیے میساچوسٹس یونیورسٹی کے
انسٹیٹوٹ فار اپالئیڈ سائنسز کے ماہرین نے کام کیا۔
انہوں نے روزمرہ کی سرگرمیوں بشمول قدموں کی تعداد کو مدنظر رکھا اور روزانہ
قدموں کی تعداد اور مختلف امراض سے موت کے خطرے میں کمی کے درمیان واضح
تعلق کو دریافت کیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کم از کم 0 7ہزار قدم چلنا مختلف امراض سے موت کا
خطرہ 50سے 70فیصد تک کم کرسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل اپریل 2021میں امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا
کہ جوانی میں جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنا کر درمیانی عمر میں ہائی بلڈ
پریشر جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتال ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا
ہے۔
اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ہائی بلڈ پریشر فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھاتا ہے
جبکہ دماغی تنزلی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
مارچ 2020میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا
ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔
07/09/2021
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) قہوے کے طبی فوائد اس قدر ہیں کہ جان کر ٓاپ کی عقل دنگ
رہ جائے گی۔تحقیق کے مطابق روزانہ صبح ایک کپ قہوہ پینے کے نتیجے میں انسانی
جسم میں مثبت تبدیلیاں سامنے ٓاتی ہیں جن میں منفی کولیسٹرول اور موٹاپے
میں کمی واقع ہونا سر فہرست ہے۔ تفصیالت کے مطابق سبز چائے یعنی کہ قہوہ مجموعی
صحت کے لیے بے حد مفید ہے ،مگر یہ جاننا بھی الزمی ہے کہ کس جُز سے بنا قہوہ کس
مرض کے لیے عالج ثابت ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق قہوے کے استعمال سے متعدد قسم
بوسٹر ڈوز کے لیے کین سائنو بہتر یا سائنوویک؟ چینی تحقیق میں اہم
انکشاف
ویب ڈیسک
نئی’ کچھ افراد میں کوروناکی ہر قسم کے خالف مدافعت پیدا ہو گئی ‘
تحقیق میں خوشگوار انکشاف
Sep 08, 2021 | 15:27:PM
نیو یارک (ڈیلی پاکستان ٓان الئن ) سائنسی تحقیق کے نتیجے میں انکشاف ہوا ہے کہ کچھ
لوگوں میں کورونا وائرس کی ہر قسم کے خالف قوت مدافعت پیدا ہو گئی ہے جو انہیں
محفوظ رکھتی ہے ۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے راکفیلر یونیورسٹی امریکہ کی تحقیق کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا کہ مضبوط مدافعت والے افراد کے جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار عام
لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جو کورونا کی خطرناک ترین شکل کا بھی مقابلہ کر سکتی ہیں
امریکی ادارے نیشنل پبلک ریڈیو ( این پی ٓار) کے مطابق وائرولوجسٹ پال بیانیاس نے
کہا کہ ہماری تحقیق کے مطابق ایسی مدافعت رکھنے والے کورونا وائرس کی کسی بھی
شکل کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔پچھلے ماہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی اس
مطالعاتی تحقیق میں بیانیاس اور ان کے ساتھیوں نے مضبوط مدافعت والے افرادکے اجسام
میں موجوداینٹی باڈی کا ٹیسٹ لیا تو وہ کرونا وائرس کی تمام موجود تغیرات کو بآسانی
قابو میں کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
تحقیق کے مطابق امکان کیا جا رہا ہے کہ ایسے افراد سارس وائرس سے جڑی کسی بھی
بیماری سے محفوظ ہیں ،یہ اینٹی باڈیز یا سپر ہیومن مدافعتی نظام ان افراد میں پایا گیا ہے
جنہیں گزشتہ سال کرونا وائرس الحق ہوا تھا اور انہیں اس سال کرونا کی ویکسین لگائی
گئی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/08-Sep-2021/1337992
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) حالیہ دنوں ایک تحقیقاتی سروے کیا گیا جس میں خواتین سے
بچوں کی پیدائش اور پرورش کے حوالے سے انہیں درپیش آنے والے سب سے بڑے
چیلنج کے بارے میں پوچھا گیا اور خواتین نے اس کے کچھ ایسے جوابات دیئے کہ سن
کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ دی سن کے مطابق اس سروے کے نتائج کے مطابق بچے کی
پیدائش کا عمل خواتین کے نزدیک چیلنج کی حیثیت نہیں رکھتا۔ تاہم اس عمل کے بعد
ریکور کرنا زیادہ تر خواتین کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ ہر 10میں سے 7خواتین نے
کہا کہ ماں بننے کے عمل کے بعد جذباتی لحاظ سے ریکور کرنا ان کے لیے سب سے بڑا
چیلنج تھا۔
نتائج میں معلوم ہوا کہ ایک تہائی کے لگ بھگ خواتین بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن
کا شکار ہوتی ہیں۔ تاہم یہ ڈپریشن عارضی ہوتا ہے اور کچھ عرصے بعد خواتین صحت
مند ہو جاتی ہیں۔ اوسط خواتین نے اعتراف کیا کہ انہیں بچے کی پیدائش کے بعد الحق
ہونے والی ڈپریشن سے نکلنے میں تین ماہ کا عرصہ لگا۔ 53فیصد خواتین نے اعتراف کیا
کہ بچے کی پیدائش کے بعد مزاج کا پل پل بدلناان کے لیے بڑا چیلنج تھا۔ 50فیصد نے خود
کو بے یارومددگار محسوس کرنے اور 42فیصد نے پچھتاوے کو بڑا چیلنج قرار دیا۔
52فیصد نے اپنے وزن میں تبدیلی اور 45فیصد نے بچے کو اپنا دودھ پالنا سب سے بڑا
چیلنج قرار دیا۔ ایسی خواتین صفر کے قریب تھیں جنہوں نے بچے کی پیدائش کے عمل کو
چیلنج قرار دی
https://dailypakistan.com.pk/08-Sep-2021/1338012
کیا کورونا ہمیشہ رہے گا ؟عالمی ادارہ صحت نے بڑی خبر دیدی
08/09/2021
جنیوا(نیوز ڈیسک )عالمی ادارہ صحت نے اہم اعالن کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس
فلو میں تبدیل ہو کر ہمیشہ رہے گا ،ایسے ممالک میں یہ تیزی سے پھیلے گا جہاں لوگ
کورونا ویکسین لگانے کی پابندی نہیں کر رہے ۔ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے ایگزیکٹوª
ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان
کا پریس بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ کورونا اب ہمیشہ رہنے واالہے کیوں کہ کورونا
ویکسین نہ لگانے والے ممالک میں وائرس پھیل رہا ہے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہی
وجہ ہے کہ وائرس کے ختم ہونے کی امید کم ہوتی جا رہی ہے ،عالمی ادارہ صحت کا کہنا
ہے کہ کورونا نہ ختم ہو ا تو اس سے دوسرا وائرس سامنے ٓا جائے گا جو انتہائی خطر
ناک ہو گا ۔ اگر دنیا کورونا کو روکنے کے لیے پہلے اقدامات کرتی تو ٓاج صورتحال بہت
بہتر ہوتی ۔ واضح رہے اس وقت پاکستان میں ایک دفعہ پھر کورونا مریضوں کی تعداد
میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں ٓارہا ہے جس کی وجہ سے ستمبر کے پہلے ہفتے میں
ہی پنجاب کے تمام سکولز کو ایک ہفتے کیلئے بند کر دیا گیا ۔دوسری طرف کورونا
وائرس کی چوتھی لہر کے پیش نظر حکومت پنجاب کے محکمہ محنت نے اہم ترین فیصلہ
کرلیا۔ جس کے تحت ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد پر نئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں،
صوبائی حکومت کے محکمہ محنت نے فیصلہ کیا ہے کہ ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد
صنعتی اداروں میں کام کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔اس سلسلے میں صوبائی وزیر
محنت عنصر مجید خان نے باقاعدہ مراسلہ بھی جاری کردیا ہے،پنجاب کے وزیر محنت
عنصرمجید خان کی جانب سے جاری کردہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ 30ستمبر کے بعد
بنا ویکسینیشن کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی،صوبائی حکومت کی جاری کردہ ہدایت
کے تحت ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد فیکٹریوں ،کارخانوں اور صنعتی اداروں میں
کام نہیں کرسکیں گے
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-122325.html
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
کراچی :نومولود اور شیرخوار بچے خصوصی دیکھ بھال چاہتے ہیں اور بچے کا پلنگ یا
بلندی سے گرجانا والدین کے لیے ڈراؤنا خواب ہوتا ہے تاہم اکثر حاالت میں بچے کو
کوئی پریشان کن نقصان نہیں پہنچتا۔
تاہم کبھی کبھار بچے کو ایسی دماغی اور جسمانی چوٹ لگ سکتی ہے جس کے بعد
فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس مضمون میں والدین کے لیے
مفید معلومات پیش کی جارہی ہیں جو انہیں ایسے واقعات کو بہترطور پر سمجھنے میں مدد
دیتے ہیں۔
اگر خدانخواستہ چھوٹا بچہ پلنگ یا جھولے سے زمین پر ٓاگرے تو اس ضمن میں والدین
کو صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے کسی منفی ر ِد عمل سے دور رہنا چاہیے۔
گرنے کے بعد بچہ بے ہوش ہوجائے ،اس کا خون کا زیادہ بہہ جائے ،بچہ بے قرار ہوکر
رو رہا ہو یا خاموش نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں والدین کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع
کرنا چاہیئے۔
اس کے عالوہ شیرخوار بچے کے گرنے کی ٓاواز سے نوٹ کریں کہ ٓایا اسے کوئی چوٹ
تو نہیں لگی ہے اور بچے کا سینہ ،بازو ،کمر ،ٹانگوں اور خصوصا ً چہرے اور سر پر
خراش ،گومڑ یا کسی قسم کے نشان کو نوٹ کرنے کی کوشش کیجئے۔
اگر اوپر بیان کی گئی تمام کیفیات میں سے ایک بھی نہ ہوں تو بچے کو ٓارام دہ انداز میں
لٹا کر کم از کم 15منٹ تک اس کا بغور جائزہ لیجئے ،اگر ٓاپ کوئی غیرمعمولی تبدیلی
نوٹ نہیں کرتے تو اطمینان رکھیں کہ معامالت ٹھیک ہیں۔ تاہم بچہ ایک یا دو گھنٹے بعد
بھی قے کرسکتا ہے اور اس صورت میں اسے اسپتال لے جانا ضروری ہے۔
شیرخوار بچے کے گرنے کی صورت میں اوپر بیان کردہ عالمات کے عالوہ یہ کیفیات
بھی پیدا ہوسکتی ہیں ،یہ عالمات انتہائی پیچیدہ ہوسکتی ہیں جنہیں ہرگز نظر انداز نہ
کیجئے۔
ان عالمات میں قے کرنا ،دیر تک سونا ،بہت دیر تک خاموش رہنا ،کھانے سے انکار کرنا
اور حال ہی میں سیکھے کچھ امور کو بھول جانآ ،انکھوں اور کانوں سے مائع کا اخراج
ہونا۔
اس کے عالوہ سر میں گڑھا پڑجانا اور معمول سے کم سانس لینا ،ان عالمات میں سے
کسی بھی ایک کیفیت میں بچے کو فوری طور پراسپتال لے جائیں اور ڈاکٹر کو تمام احوال
سے ٓاگاہ کیجئے۔
https://urdu.arynews.tv/little-baby-fall-to-ground-instructions-for-
parents/
موبائل انسان کیلئے کس خطرے کا سبب بن رہا ہے؟ تحقیق میں اہم
انکشاف
ویب ڈیسک
طبی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موبائل فون کی وجہ سے ہر دو میں سے ایک
شخص مکمل نیند سے محروم ہے جبکہ سعودی عرب میں ہر 4میں سے تین افراد اس
پیچیدہ مسئلے کا شکار ہیں۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں
امریکا ،برطانیہ ،فرانس ،بیلجیم ،جنوبی کوریا ،جاپان اور چین سمیت 9ملکوں کے 75
ماہرین نے حصہ لیا مشاہدے کے دوران مختلف تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا اور پھر
30ممالک میں اس تحقیق پر کام شروع ہوا۔
اس تحقیقی پروگرام کے ڈائریکٹرعبدہللا الرشید کا کہنا ہے کہ ہم نے اس موضوع پر تمام
دستیاب تحقیق اکٹھی کی اور پھر 30ممالک میں اس مطالعے کا آغاز کیا۔ تحقیق سے پتہ
چال کہ اکثریت دو سال پہلے کے مقابلے میں آج اپنے فون سے بہت زیادہ جڑی ہوئی ہے،
اور دنیا بھر میں ہر دو شخص اپنے موبائل کی وجہ سے نیند سے محروم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ،مملکت میں ہر چار
میں سے تقریبا تین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فون کی وجہ سے نیند کھو چکے ہیں ،یہ صرف
ایک ڈیٹا پوائنٹ ہے مزید حقائق آنا ابھی باقی ہیں۔
خیال رہے کہ اسی ضمن میں سعودی عرب کے کنگ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچر
(اثرا) کی جانب سے منعقد ہونے والی تقریب میں ڈیجیٹل اشیاء کا ضرورت ªسے زیادہ
استعمال اور بڑھتے ہوئے مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔ اس دوران تیزی سے ڈیجیٹالئز ہوتی
دنیا پر نگاہ ڈالی گئی ،ایک جانب اس کے فوائد تو دوسری جانب نقصانات کا بھی اعتراف
کیا گیا۔
اس تقریب میں ڈیجیٹل اور حقیقی دنیا کے درمیان ایک لکیر کھینچنے پر زور دیا گیا۔ کنگ
سعود یونیورسٹی میں نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ہایلہ السالم کا ماننا ہے کہ سوشل
میڈیا نے نجی زندگی کی دیواریں توڑ کر حقیقی شناخت ظاہر کرنے میں مدد کی تاہم ہمیں
اس حوالے سے اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
https://urdu.arynews.tv/what-is-the-threat-to-mobile-human-health-
significant-findings-in-research/
انسان کے بچے دیگر جانداروں کی نسبت بولنے اور سیکھنے کے عمل کو دیر سے
مکمل کرتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ انسانوں کے بچے افزائش اور سیکھنے میں زیادہ وقت اس لئے
لیتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ کا سائز بڑا ہوتا ہے۔
اس بڑے سائز کے دماغ کی افزائش پہ ان کی 80سے %85فیصد توانائی لگ جاتی ہے
جس کے نتیجے میں وہ اپنی تمام تر توجہ دماغی افزائش پر دیتے ہیں اور اسی لیے وہ
جلدی چل یا بول نہیں سکتے۔
ماہرین کے مطابق جسم کے تناسب سے انسان کا دماغ تقریبا ً باقی تمام جانوروں سے بڑا
ہوتا ہے کیونکہ انسان کی نوع کی کامیابی کا راز اس کی بہترین ذہانت ہے۔
جسم کے تناسب سے انسانی بچے کا دماغ بھی باقی تمام ممالیہ جانوروں کے بچوں کے
دماغ سے بڑا ہوتا ہے لیکن زیادہ بڑے دماغ کے لیے زیادہ بڑی کھوپڑی بھی درکار ہوتی
ہے۔
بڑی کھوپڑی کا ماں کے جسم سے فطری اخراج زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے،
انسانی بچے کی پیدائش باقی ممالیہ جانوروں کی نسبت زیادہ تکلیف دہ اسی لیے ہوتی ہے
کہ انسانی بچے کی جسامت اور اس کی کھوپڑی ماں کی (برتھ کینال) کے تناسب میں باقی
جانوروں سے بڑی ہوتی ہے۔
ویب ڈیسک
بدھ 8 ستمبر 2021mRNA ویکسین لگوانے والے افراد کی اینٹی باڈیزسارس جیسے
وائرس کے تمام ویرئینٹس کو بے اثر کر سکتی ہیں ،تحقیق
نیویارک :کووڈ ویکسین کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے اثرات پر مطالعوں سے
اعلی درجے کی مدافعت پیدا ہوگئی ٰ انکشاف ہوا ہے کہ کچھ افراد میں کورونا کے خالف
ہے۔
العربیہ نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کےمطابق بہت سے مطالعوں سے یہ بات سامنے
ٓائی ہے کہ mRNAویکسین ( وبائی امراض کے خالف تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین
کی نئی قسم ،جو ہمارے جسم کے خلیات کو پروٹین بنانا سکھاتی ہے) لگوانے والے کچھ
افراد میں کورونا کے خالف قوت مدافعت کسی سپر ہیومن کی طرح بہت زیادہ طاقت ور
ہوسکتی ہے۔ اور ان کا مدافعتی نظام SARS-CoV-2کے خالف کسی بلٹ پروف کی
طرح کام کرسکتا ہے۔
ماہر
اس نوعیت کے متعدد مطالعوں کی سربراہی کرنے والے راکر فیلر یونیورسٹی کےِ
ماہر) پال بیانیئز کا کہنا ہے کہ ایسے افراد میںسمیات( وائرس سے پیدا ہونے بیماریوں کا ِ
ضد َجراثیم) پیدا کرتا ہے بلکہ ان میںان کا جسم نہ صرف بہت بلند درجے کی اینٹی باڈیز ( ِ
بہت زیادہ لچک پذیری پائی جاتی ہے ،جس کی بدولت ان کا جسم کورونا کی ہالکت خیز
اقسام کے خالف بھی بھرپور ردعمل دینے کا اہل ہوجاتا ہے۔
طبی جریدے ’ دی نیو انگلینڈ جرنل ٓاف میڈیسن‘ میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں
سائنس دانوں نے 2002اور 2003میں اوریجنل سارس وائرس SARS-CoV-1 سے
متاثر ہونے والے افراد کی اینٹی باڈیز کا تجزیہ کیا۔ ان افراد نے اسی سال mRNA
ویکسین لگوائی تھی۔ تجزیے سے یہ بات سامنے ٓائی کہ ان افراد میں اینٹی باڈیز بہت بلند
الزائیمر کے مریضوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کا استعمال مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
صحت مند خوراک بھی وزن کم کرنے میں مدد گار ہوتی ہے
جانز ہاپکنز میڈیسن صحت کے شعبے میں کام کرنے والی ایک تنظیم ہے۔
انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں آپ ایک دن میں صرف چند گھنٹوں میں کھا سکتے ہیں جو آپ کے
جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ایسے روزے میں آپ ایک مقررہ وقت پر کھانا کھا سکتے ہیں جس میں ایک دن میں کئی
گھنٹے کھانا نہ کھانا شامل ہوتا ہے۔
جانز ہاپکنز کے ایک نیورو سائنسدان مارک میٹسن نے 25برسوں تک انٹرمٹنٹ فاسٹنگ
کا مطالعہ کیا ہے۔
ہاپ ِکنس میڈیا پر شائع ہونے والی معلومات کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا جسم اس
طرح بنا ہے کہ ہم بغیر خوراک کے کئی گھنٹوں یا کئی دنوں ،یا اس سے بھی زیادہ
عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور وہ اس وقت کا حوالہ دیتے ہیں جب انسانوں نے
کھیتی کرنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ جب انسان شکار بنے تو انھوں نے طویل عرصے تک
کھانا کھائے بغیر زندگی گزارنا سیکھ لیا تھا۔‘
جانز ہاپکنز میں غذائی ماہر کرسٹی ولیمز کے مطابق انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کی کئی اقسام ہیں
اور اسے صرف ڈاکٹر کے مشورے پر شروع کیا جانا چاہیے۔
اس میں سے ایک 16/8ہے جس میں آپ دن کے 16گھنٹے کھانے سے دور رہتے ہیں
اور باقی آٹھ گھنٹے کھانا کھاتے ہیں۔
ان کے مطابق زیادہ تر لوگ اس طریقے کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے طویل عرصے
تک جاری رکھ پاتے ہیں۔
تصویر کا ذریعہREDA&CO
انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں بلیک ٹی یا کافی استعمال کی جاسکتی ہے
لیکن اس ڈائٹ میں کس قسم کا کھانا کھایا جائے؟
ڈاکٹر شکھا شرما کا کہنا ہے کہ اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ
انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں کھانے کے وقت آپ کیا کھا رہے ہیں۔
ب آفتاب کے
ان کے مطابق ’اگر ہم ویدک سائنس کو دیکھیں تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ غرو ِ
بعد نہ کھائیں کیونکہ اس کے بعد لیا گیا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘
https://www.bbc.com/urdu/science-58490904
ویکسین کووڈ کے طویل اثرات کے خالف بھی مؤثر ہیں ،سائنسدان
9 Sep 2021
شیرووڈ کا کہنا ہے کہ النگ کووڈ کی بیماری کے بارے میں ابھی تک زیادہ معلومات
موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے وائس ٓاف امªریکہ سªے بªªات کªرتے ہªوئے
بتایªªا کہ طªªبی مªªاہرین میں اس سلسªªلے میں متضªªاد
خیاالت پªªائے جªªاتے ہیں۔ ان کے مطªªابق کچھ لوگªªوں
کو ابھی تک بتایا جا رہا ہے کہ یہ بیماری ذہªªنی دبªªاؤ
کی وجہ سªªªªے ہªªªªوتی ہے جب کہ کچھ ڈاکªªªªٹر اس
بیمªªاری کªªو مکمªªل طªªور پªªر ابھی تªªک سªªمجھ نہیں
سکے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک صرف عالمات کی روشنی میں مرض کا عالج کیا جاتا ہے۔ اس
سلسلے میں ریسرچ جاری ہے اور بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک
کسی طریقہ عالج پر باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا۔
https://www.urduvoa.com/a/vaccines-offer-protection-against-long-
covid-scientists-say/6217719.html+&c
ویب ڈیسک
نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا
تھا کہ ہم نے ایسے بائیو مارکرز بشمول نیورونل ،گیالل اور دیگر کی سطح میں اضافے
کو شناخت کیا۔
نیورونل ،گیالل اور دیگر بائیومارکرز کی سطح میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعالج
مریضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور ان سے بیماری کی سنگین شدت کی پیشگوئی
بھی کی جاسکتی ہے۔
اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے
مرض ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی مگر اس کے باوجود عمر کے ساتھ آنے والے
تنزلی کی سطح کو الزائمر کے مریضوں سے زیادہ دیکھا گیا۔
تحقیق میں کووڈ کے باعث زیرعالج رہنے والے 251مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن
میں ڈیمینشیا یا دماغی افعال متاثر ہونے کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔
ان مریضوں کی اوسط عمر 71سال تھی اور 31فیصد کو وینٹی لیٹر سپورٹ کی
ضرورت پڑی تھی 25 ،فیصد کا انتقال ہوگیا تھا اور 53فیصد بیماری کو شکست دینے
میں کامیاب رہے تھے۔
افراد میں ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا جو کووڈ 19سے محفوظ رہے تھے 161
اور ان کو کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
ان میں سے 54افراد دماغی طور پر مکمل صحت مند تھے ،جبکہ 54کے دماغی افعال
جزوی طور پر متاثر ہوچکے تھے اور 53الزائمر امراض کے شکار تھے۔
ویب ڈیسک
ستمبر 08 2021
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19کے لگ بھگ ہر 10میں سے 4مریضوں کے چکھنے کی
حس میں تبدیلیاں آتی ہیں یا وہ اس سے مکمل محروم ہوجاتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں 43فیصد مریضوں کو مسلسل منہ خشک رہنے جیسی عالمت کا سامنا
ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں 180سے زیادہ تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں 65ہزار کے
قریب مریضوں میں منہ کی عالمات کو دیکھا گیا تھا ،جن میں سے کچھ کا علم تو پہلے
سے تھا مگر کچھ نتائج حیران کن تھے۔
بیشتر افراد کو یہ تو علم ہے کہ سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ 19
کی اہم عالمات ہیں ،مگر برازیلیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں منہ سے جڑی متعدد
عالمات کو شناخت کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں کی چکھنے کی حس محدود ہوجاتی ہے یا وہ
بدل جاتی ہے جس سے ہر چیز میٹھی ،کڑوی تیکھی یا میٹالک محسوس ہونے لگتی ہے یا
وہ مکمل طور پر اس حس سے محروم ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق کچھ کووڈ کے مریضوں نے منہ کے مختلف حصوں میں زخم کو
رپورٹ کیا۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ پیچیدگیاں کووڈ 19کے حوالے سے منفرد نہیں اور ان کا سامنا
ہر ایک کو نہیں ہوتا ،مگر یہ واضح نہیں کہ کچھ افراد میں منہ کی عالمات کیوں ظاہر ہیں
اور دیگر میں نہیں۔
/https://www.dawnnews.tv/news/1167984
7Sep 2021
یورپی یونین کے حکام نے کہا ہے کہ اس بارے میں ایک طبی مطالعے کے نتائج زیر
غور ہیں کہ آیا کووڈ انیس کے وبائی مرض سے بچاؤ کے لیے کورونا ویکسین کی
دوسری خوراک کے بعد اس کا بوسٹر بھی ضروری ہونا چاہیے۔
اس میڈیکل اسٹڈی میں جرمن امریکی اداروں بائیو این ٹیک فائزر کی تیار کردہ کورونا
ویکسین کے ممکنہ بوسٹر کے استعمال کے ضروری ہونے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقصد اس
امر کا تعین ہے کہ آیا بائیو این ٹیک فائزر کی ویکسین کے دونوں ٹیکے لگوا لینے والے
سولہ برس سے زائد عمر کے تمام افراد کو چھ ماہ بعد اسی ویکسین کا ایک بوسٹر
انجیکشن بھی الزمی لگایا جانا چاہیے۔
حتمی نتائج چند ہفتوں میں
یورپی یونین میں ادویات کی ریگولیٹری اتھارٹی یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) کے
ماہرین نے پیر چھ ستمبر کو برسلز میں بتایا کہ وہ اس کورونا ویکسین بوسٹر کے ممکنہ
طور پر ضروری استعمال کے لیے مکمل کیے گئے طبی مطالعے کے نتائج سے عملی
فیصلوں تک پہنچنے کے مرحلے میں ہیں۔
ای ایم اے کے مطابق اس سلسلے میں بائیو این ٹیک فائزر کی طرف سے یورپی
ریگولیٹرز کو ایک باقاعدہ درخواست بھی دے دی گئی ہے۔ اس درخوست کے جواب میں
اس دوا ساز اداروں کو بتا دیا گیا ہے کہ ڈیٹا کا تیز رفتار تجزیہ جاری ہے اور حتمی نتائج
'اگلے چند ہفتوں میں‘ متوقع ہیں۔
یورپی میڈیسن ایجنسی کا صدر دفتر نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم میں ہے
کمزور جسمانی مدافعت والے افراد
یورپی میڈیسن ایجنسی کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جس اسٹڈی ڈیٹا کا جائزہ لیا
جا رہا ہے ،وہ اس بارے میں بھی ہے کہ آیا خاص طور پر کمزور جسمانی مدافعتی نظام
ﹰ ایم آر این اے ویکسین کی ایک اضافی خوراک دی جانا چاہیے۔ والے افراد کو ترجیحا
گزشتہ ہفتے وبائی امراض کی روک تھام کے یورپی مرکز کی طرف سے واضح طور پر
کہہ دیا گیا تھا اس ادارے کی رائے میں کورونا وائرس کے خالف پوری طرح ویکسینیشن
کروا لینے والے افراد کے لیے بوسٹر کے طور پر ویکسین کی کسی اضافی خوراک کی
کم از کم اب تک کوئی فوری ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
تاریخ06.09.2021
https://www.dw.com/ur/%DA
%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%D9%88%DB
%8C%DA%A9%D8
متوازن غذا ،تروتازہ رہنے کے لیے پانی کی معقول مقدار ،الکوحل اور کیفین جیسی
چیزوں سے اجتناب یا اسے محدود کرنا اضطراب سے چھٹکارا پانے میں مددگار ثابت ہو
سکتا ہے۔
— ویب ڈیسک
تحقیقات | 62 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دنیا بھر میں بے شمار افراد کو اپنی زندگی کے
کسی نہ کسی حصے میں بے چینی ،اضطراب یا
ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔بین االقوامی تنظیم 'ورلڈ اکناک فورم' کی
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق
دنیا بھر میں 27کروڑ 50الکھ افراد 'اضطرابی
بیماری' کا شکار ہیں جو عالمی آبادی کا چار فی صد حصہ بنتا ہے۔
ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ' کی رپورٹ میں امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا'
حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چار کروڑ امریکیوں ªکو ذہنی اضطراب کی کیفیت کا سامنا
ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق انسان کو اس کی زندگی میں کبھی نہ
کبھی 'انزائٹی' یا اضطراب جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ بعض اوقات آپ کام کے
دوران ،آرام کرنے سے قبل اور کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے بے چینی کی کیفیت کا
شکار ہو جاتے ہیں۔
لیکن اگر 'انزائٹی ڈس آرڈر' یا 'اضطرابی بیماری' کی بات کی جائے تو یہ وقتی پریشانی یا
خوف سے بڑھ کر ہے۔ اور اس عارضے میں مبتال شخص کی پریشانی وقت گزرنے کے
ساتھ مزید بڑھ سکتی ہے۔
اضطرابی کیفیت کی عالمات متاثرہ شخص کی روز مرہ سرگرمیوں مثالً مالزمت کی
کارکردگی ،اسکول کا کام اور تعلقات میں خلل ڈال سکتی ہیں۔
اس کیفیت میں مبتال شخص کو بے آرامی ،تھکاوٹ ،چڑچڑاپن ،جذبات پر قابو پانے میں
مشکل اور نیند کی کمی جیسی عالمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اضطرابی کیفیت کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن میں جنرالئزڈ انزائٹی ڈس آرڈر ،پینک
ڈس آرڈر اور خوف سے متعلق ڈس آرڈرز شامل ہیں۔
تاہم اس کیفیت پر قابو پانے کے لیے مخصوص
تھراپی اور ادویات کی مدد لی جاتی ہے۔
ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ' کی رپورٹ کے مطابق'
اضطراب اور بے چینی جیسی کیفیت پر قابو پانے
کے لیے آپ کی خوراک بہت اہم کردار ادا کرتی
ہے۔متوازن غذا ،ترو تازہ رہنے کے لیے پانی کی
معقول مقدار ،الکوحل اور کیفین جیسی چیزوں سے
اجتناب یا اسے محدود کرنا اضطراب سے چھٹکارا
پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اضطرابی کیفیت پر قابو پانے کے لیے کس غذا کا استعمال کیا جائے؟
اضطراب اور بے چینی جیسی کیفیت پر قابو پانے کے لیے آپ کی خوراک بہت اہم کردار
ادا کرتی ہے۔
تحقیقات | 63 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ کے مطابق میگنیشیئم سے بھرپور غذا کے استعمال سے انسان کو
پُرسکون رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ان غذاؤں میں سبز اور پتے والی سبزیاں ،دالیں ،پھلیاں،
ِگری دار میوے ،بیج اور سالم اناج شامل ہیں۔
ایسی غذا جس میں 'زنک' پایا جاتا ہے ،اضطراب کی کیفیت کو کم کرنے میں مددگار ثابت
ہوتی ہے۔ ان غذاؤں میں کاجو ،گائے کا گوشت ،جگر اور انڈے کی زردی شامل ہے۔
امریکہ کے سائیکو نیورو امیونولوجی ریسرچ سوسائٹی کے آفیشل جرنل 'برین ،بیہیویر
اینڈ امیونیٹی' میں 2011میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 'اومیگا تھری ایس'
بے چینی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ جو وائلڈ االسکن سالمن مچھلی میں پایا
جاتا ہے۔
عالوہ ازیں وٹامن بی سے بھرپور غذا مثالً ایواکاڈو اور بادام ،کا استعمال کرنے سے بھی
بے چینی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ غذائیں نیورو ٹرانسمیٹر جیسے سیروٹونن اور ڈوپامن
کے اخراج کو تیز کرتی ہیں جو بے چینی اور پریشانی پر قابو پانے کا محفوظ اور آسان
قدم ہے۔
ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ کے مطابق اگر آپ کو دو ہفتوں سے زیادہ عرصے سے انزائٹی سے
متعلق عالمات ظاہر ہو رہی ہوں تو آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہو گا۔
بے چینی اور دباؤ سے نمٹنے کے لیے صحت مند طریقے
ڈیلٹا وائرس تیزی سے کیوں پھیلتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف
نئی دہلی :پہلی بار بھارت میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم اور تباہ کن
قسم ڈیلٹا کے تیزی سے پھیالؤ پر ماہرین بھی فکر میں مبتال ہیں۔
طبی ماہرین بھی پریشان ہیں کہ کورونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا بیشتر ممالک میں
بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے؟
برطانیہ اور بھارت کے طبی ماہرین کی مشترکہ نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ
نیا وائرس اپنی نقول بنانے اور اس کے تیزی سے پھیالؤ کی بہتر صالحیت رکھتا ہے۔
طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا کا پھیالؤ
ممکنہ طور پر وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر حملے کی صالحیت اور زیادہ
متعدی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں لیبارٹری میں تجربات اور ویکسین کے بعد لوگوں کے بیمار ہونے یا بریک
تھرو انفیکشنز کا تجزیہ کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ ڈیلٹا اپنی نقول
بنانے اور وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیالؤ کی بہتر صالحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بھی شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی
بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی افادیت
ڈیلٹا قسم کے خالف گھٹ جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر ممکنہ طور پر 2021کی پہلی سہ ماہی کے دوران بھارت میں
کورونا کی تباہ کن لہر کا باعث بنے۔ یہ جاننے کے لیے ڈیلٹا قسم کس حد تک مدافعتی
ویب ڈیسک
منگل 7 ستمبر 2021
اگرچہ یہ تجربہ صرف ایک مریض پر کیا گیا ہے لیکن اس سے حاصل شدہ کامیابی بہت
بڑی ہے۔ (تصاویر ª:بیسل یونیورسٹی ،سوئٹزرلینڈ)
برن :سوئٹزرلینڈ \،اٹلی اور امریکا کے سائنسدانوں نے ناک کی کرکری ہڈی سے لیے
گئے خلیوں کی مدد سے ایک مریض میں گھنٹوں کی گٹھیا کا عالج کیا ہے۔
اس کامیاب تجربے کی تفصیالت ’’سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں ٓان
الئن شائع ہوئی ہیں ،جن کے مطابق ،یہ تحقیق پچھلے دس سال سے جاری ہے جس میں
ابتدائی طور پر معلوم ہوا تھا کہ ناک کی کرکری ہڈی (کارٹلیج) کے خلیے استعمال کرتے
ہوئے ،گھٹنے کے جوڑ والی کرکری ہڈی کی مرمت کی جاسکتی ہے۔
تحقیق کا سلسلہ ٓاگے بڑھاتے ہوئے پہلے یہ تکنیک جانوروں پر ٓازمائی گئی ،جس کے بعد
گزشتہ سال سوئٹزرلینڈ میں انسانی ٓازمائشوں کےلیے بھی اجازت لی گئی۔
ویب ڈیسک
ستمبر 07 2021
جانوروں پر آزمائش کے دوران ویکسین کے نتائج حوصلہ افزا رہے — فوٹو بشکریہ
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ
چین کی ایک کمپنی نے ایسی کووڈ 19ویکسین تیار کی ہے جو بیماری کے شکار ہونے
سے بچانے کے ساتھ ساتھ عالج کے لیے بھی استعمال کی جاسکے گی۔
چینی کمپنی یشینگ بائیو نے اس ویکسین کو تیار کیا ہے اور یو اے ای میں کووڈ کے
عالج کی آزمائش کے لیے انسانوں پر اس کے ٹرائلز کی اجازت گزشتہ دنوں دی گئی۔
ٹرائلز میں پہلے معمولی سے معتدل حد تک بیمار کووڈ کے مریضوں کے عالج کے
حوالے سے اس کی افادیت جانچ پڑتال کی جائے گی۔
اس سے قبل یو اے ای کی وزارت صحت نے اگست میں بیماری سے بچانے کے لیے
ویکسین کے انسانی ٹرائل کے پہلے مرحلے کی منظوری بھی دی تھی جبکہ نیوزی لینڈ
کی میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی ایسے ٹرائلز کی منظوری دی۔
انسانی ٹرائلز میں چینی کمپنی کے ساتھ یو اے ای فارماسیوٹیکل ڈویلپمنٹ کمپنی اور
نیوزی لینڈ کلینکل ریسرچ نے شراکت داری کی ہے۔
کمپنی کے سی ای او ڈیوڈ شاہو نے بتایا کہ نیوزی لینڈ میں ٹرائلز کے لیے رضاکاروں کی
خدمات حاصل کرنے کا عمل جلد شروع ہونے کا امکان ہے جبکہ دیگر ممالک میں بھی
کلینکل ٹرائلز کی درخواستوں پر کام ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پری کلینکل تحقیقی رپورٹس میں ویکسین بہت زیادہ تعداد میں وائرس
ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنانے اور خلیاتی مدافعت برق رفتاری سے پیدا کرنے میں
کامیاب رہی۔بندروں پر ایک ابتدائی تحقیق میں انہیں کورونا وائرس سے متاثر کرکے
ویکسین کا استعمال کیا گیا اور ڈیوڈ شاہو کے مطابق نتائج حوصلہ افزا رہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167910/
ویب ڈیسک
ستمبر 07 2021
سے مخصوص گروپس میں ویکسین کی اضافی خوراک کے استعمال پر غور کیا جارہا
ہے۔
تحقیق میں رضاکاروں کو سائنو ویک کی دوسری خوراک کے استعمال کے 3سے 6ماہ
بعد کین سائنو ویکسین کی ایک خوراک استعمال کرائی گئی۔
کین سائنو بائیو اور دیگر چینی اداروں کی اس تحقیق میں شامل محققین نے دریافت کیا کہ
اس اضافی خوراک کے استعمال کے 2ہفتے بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی
تعداد میں اوسطا ً 78فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے مقابلے میں جن افراد کو سائنو ویک کی ویکسین ہی تیسری خوراک کے طور پر
استعمال کرائی گئی ان میں اینٹی باڈیز میں اضافے کی شرح 15.2گنا تھی۔
اسی طرح سائنو ویک ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد کین سائنو ویکسین کو ایک یا 2
ماہ کے وقفے سے استعمال کرانے سے اینٹی باڈیز کی سطح میں 25.7گنا اضافہ ہوا جبکہ
سائنو ویک کی 2خوراکوں سے 6.2گنا اضافہ ہوا۔
اس تحقیق میں 300صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 18سے 59سال
کے درمیان تھی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس ٹرائل میں ویکسین کی اضافی خوراک سے کووڈ 19سے ملنے
والے تحفظ کا تجزیہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کورونا کی ڈیلٹا قسم پر اینٹی باڈیز کی آزمائش
کی۔اس سے قبل 6ستمبر کو سائنو ویک کی بوسٹر ڈوز کے حوالے سے ایک تحقیق کے
نتائج بھی سامنے آئے تھے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167893/
ویب ڈیسک
ستمبر 06 2021
دوران حمل ورزش کرنا نہ صرف ماں بلکہ اس کے ہونے والے بچے کے لیے فائدہ مند
ہوتا ہے۔یہ بات ناروے میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
اوسلو یونیورسٹی کی تحقیق میں 814بچوں کو شامل کیا گیا اور جسمانی طور پر متحرک
ماؤں کا موازنہ سست طرز زندگی کی عادی خواتین سے کیا گیا۔تحقیق میں حمل کے
دوران ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں اور بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں تعلق کو
دریافت کیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا تھا کہ بچپن میں پھیپھڑوں کے
افعال میں کمی سے بلوغت میں دمہ اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کا خطرہ زیادہ ہوتا
ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال سے جڑے عناصر کے
بارے میں جاننا اہمیت رکھتا ہے ،اگر حمل کے دوران ماں کی جسمانی سرگرمیاں بچوں
کے پھیپھڑوں کے افعال میں خرابی کا خطرہ کم کرسکتی ہیں تو یہ ایک کم قیمت ذریعہ
ثابت ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر غیر متحرک ماوں کے ہاں
پیدا ہونے والے بچوں میں پھیپھڑوں کے افعال کی شرح کم ہونے کا امکان جسمانی طور
پر سرگرم ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جوان خواتین اورحاملہ خواتین میں جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت
کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے مگر بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال
اور ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مزید تحقیق کی
ضرورت ہے۔تحقیق میں شامل خواتین سے حمل کے 18اور 34ویں ہفتے میں سوالنامے
بھروا کر صحت ،طرز زندگی ،سماجی و معاشی عناصر اور غذائیت کے بارے میں
تفصیالت حاصل کی گئیں۔
https://www.dawnnews.tv/news/1167838/
برہنہ حالت میں سونے کے صحت کیلئے کیا نقصانات ہیں؟ معروف
ڈاکٹر نے خبردار کردیا
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) برہنہ حالت میں سونے کے متعلق ڈاکٹرز کی رائے بھی منقسم پائی
جاتی ہے۔ کچھ ڈاکٹرز اس کے حق میں دالئل دیتے ہیں جبکہ کچھ اسے صحت کے لیے
نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہر کچھ عرصے بعد سر اٹھاتی ہے اور
بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ اب کی بار ایک ڈاکٹر نے اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم
کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس عادت کو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دے دیا
ہے۔ دی سن کے مطابق یہ ڈاکٹر انتھونی یوآن ایم ڈی ہیں جنہوں نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ
پر ایک ویڈیو میں برہنہ سونے کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے۔
پر بتاتے ہیں کہ مکمل برہنہ حالت @tonyyounmdڈاکٹر انتھونی اپنے ٹک ٹاک ہینڈل
میں سونا آپ کے لیے اورآپ کے شریک حیات کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے چنانچہ سوتے
ہوئے کم از کم انڈرویئر پہننا الزمی ہے۔ اس کی حیران کن توجیح پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر
انتھونی نے کہا کہ لوگ اوسطا ً دن میں 15سے 25بار جسم سے بدبودار ہوا خارج کرتے
ہیں اور جب جسم سے ہوا خارج ہوتی ہے تو جسم سے ہوا کے ساتھ پاخانے کے کچھ
ذرات بھی جسم سے باہر آتے ہیں۔ یہ نظر نہ آنے والے ذرات بستر کو گندہ کرنے کے
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
واشنگٹن :امریکی سائنس دانوں نے نئی تحقیق میں عندیہ دیا ہے کہ کرونا وائرس سے
متاثرہ افراد دماغی تنزلی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
امریکا کی نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول ٓاف میڈیسین میں ہونے والی تحقیق میں
ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اسپتال میں زیر عالج کرونا مریضوں میں ایسے بائیو
مارکرز بشمول نیورونل ،گیالل اور دیگر کی سطح میں اضافے کو شناخت کیا جو دماغی
تنزلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
کرونا مریض منہ کی خطرناک بیماری میں مبتال ہونے لگے ،نئی تحقیق
میں انکشاف
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
برازیلین سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ جو افراد کرونا سے متاثرہ ہوجائیں ،وہ
چکھنے کی حس سے محروم ہوجاتے ہیں یا حس میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق کرونا سے متاثرہ افراد میں سونکھنے یا چکھنے کی حس سے
محرومی کی کرونا کی اہم عالمات میں سے ایک ہیں لیکن برازیلین کے ماہرین کی تحقیق
میں منہ سے جڑی کئی نئی عالمات منظر عام پر ٓائی ہیں۔
طبی جریدے جرنل آف ڈینٹل ریسرچ شائع ہونے والی برازیلین سائنس دانوں کی تحقیق میں
انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا سے متاثرہ افراد کے منہ میں چھالے نکلنا ،منہ خشک رہنا یا
حس مزہ سے محروم ہونا عام مسائل ہیں اور ان مسائل کا دورانیہ بھی عام لوگوں سے
زیادہ ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
ہمارے معاشرے میں عام طور پر کم خوابی کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیوں کہ فک ِرمعاش کے
باعث ہونے والی جسمانی و ذہنی مشقت انسان کو اتنا تھکا دیتی ہے کہ بستر پر لیٹتے ہی
نیند ٓاجاتی ہے۔
تاہم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور پریشانیاں بعض افراد کی نیندیں اڑا دیتی ہیں،
نیند کی کمی یا خرابی صرف ایک بیماری نہیں بلکہ یہ امراض کا مجموعہ بھی ہے اسے
آسان نہیں لینا چاہیے۔
نیند کے مسائل یا بے خوابی ایک عام بیماری ہے جس کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں،
بےخوابی سے اگلے دن کے معموالت متاثر ہوتے اور کام کرنے کی صالحیت ختم ہو
جاتی ہے ،اس کے عالوہ تھکاوٹ اور توانائی کا زیاں ہوتا ہے ،روزمرہ کے کام کرنا
مشکل ہو جاتا ہے۔
سیدتی میگزین کی ایک رپورٹ میں اس مسئلے قابو پانے کے حوالے سے بات کی گئی
ہے ،ماہرین کا خیال ہے کہ ہر انسان کی نیند کا دورانیہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ،عام
طور پر ایک شخص کی صحت کے لیے روزانہ 8-7گھنٹے نیند کرنا کافی ہے۔
بہت سے افراد میں اچانک ،شدید یا قلیل المدتی بےخوابی ہوتی ہے جو کئی دن یا ہفتوں تک
رہتی ہے۔ ایسا عام طور پر تناؤ یا تکلیف دہ واقعات کے نتیجے میں ہوتا ہے لیکن کچھ
لوگوں کو دائمی یا طویل المیعاد بے خوابی بھی ہوتی ہے جو ایک مہینہ یا اس سے زیادہ
وقت تک رہتی ہے۔ بے خوابی کا تعلق ادویات یا دیگر طبی حالتوں سے بھی ہوسکتا ہے۔
بے خوابی کی بنیادی وجوہات کا عالج کرنے سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے لیکن
بعض اوقات یہ مسئلہ برسوں تک رہ سکتا ہے۔
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
شوق /مشغلہ انسان میں علمی اور شعوری کو تو برقرار رکھتا ہی ہے ،ساتھ میں یہ ٓاپ
کو تندرست اور صحتمند رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
امریکن جرنل ٓاف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے واال جائزہ ‘ دی کنیکشن بیٹوین ٓارٹ ،ہیلنگ
اینڈ پبلک ہیلتھ (آرٹ ،ہیلنگ اور پبلک ہیلتھ کے درمیان رابطہ) اے ریویو ٓاف کرنٹ
لیٹریچر’ میں محققین نے تخلیقی کام کرنے سے ہونے والے صحت کے فوائد کا جائزہ لیا
ہے۔
تحقیقات | 80 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ٓارٹ کا ذہنی اور جسمانی صحت کے درمیان مضبوط رابطہ
ہے ،خاص طور پر محققین نے پایا کہ تخلیقی صالحیتیں دماغ اور جسم کو اس طرح متاثر
کرتی ہیں کہ یہ ٓاپ کے مزاج کو پرسکون بناتا ہے اور اضطراب سے نجات دالتا ہے،
ساتھ ساتھ یہ ٓاپ کے علمی صالحیتوں کو بڑھاتا ہے ،دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم
کرتا ہے اور مدافعتی نظام کو بہتر بناتا ہے۔
شوق ،افسردگی یا صدمے میں مبتال لوگوں کے لیے جادوئی دوا کی طرح کام کرتا ہے۔
مثال کے طور پر موسیقی دماغ کو پرسکون کرتی ہے اور جذباتی توازن پیدا کرتی ہے۔ یہ
لوگوں کو صدمے سے ابھرنے میں مدد کرتی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ تخلیقی شوق رکھنے والے لوگوں میں الزائمر اور پارکنسن جیسی
بیماریوں کے ہونے کے امکان کم ہوتے ہیں ،درمیانی عمر کے لوگ یا معمر شخص ،جن
کو دستکاری ،سالئی ،مصوری کا شوق ہوتا ہے ان میں علمی صالحیتوں کے کھونے کے
خدشات کم ہوتے ہیں۔
تحقیق سے یہ بھی پتہ چال ہے کہ جو بالغ تخلیق کار ہوتے ہیں ،ان میں علمی صالحیت اور
حافظہ مضبوط ہوتا ہے ،جو مستقبل میں اعصابی نظام سے متعلق بیماریوں سے بچنے میں
موثر ثابت ہوتا ہے ،اس کے عالوہ جن لوگوں میں موسیقی کا شوق ہوتا ہے ان کی قوت
مدافعت اچھی ہوتی ہے۔
مزید حقائق
کسی بھی قسم کا شوق ہونا انسان کو مثبت سمت کی طرف کام کرنے میں مدد گار ہوتا ہے
اور غیر ضروری چیزوں پر وقت ضائع کرنے سے روکتا ہے۔
اس سے ٓاپ خود کو زندہ دل اور تشفی بخش محسوس کرتے ہیں اور اس وجہ سے ٓاپ
دوسرے کاموں کو بہتر طریقے سے کرپاتے ہیں۔
اگر ٓاپ اپنے شوق کو ہی کمائی کا ذریعہ بنالیں تو ٓاپ کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ
جاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک شخص اپنے کیرئیر میں زیادہ مطمئن ہوتا ہے ،ڈپریشن سے
کافی حد تک بچاجاسکتا ہے اور کام کے بوجھ کو بہتر طریقے سے نمنٹے میں مدد کرتا
ہے۔
یہ ذانی اور ذہنی نشوونما دونوں میں مدد کرتا ہے۔
یہ صحیح راہ دکھاتا ہے اور ٓاپ کو بھٹکنے سے بچاتا ہے۔
بعض اوقات ایک شوق اضافی ٓامدنی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
پڑھنے یا لکھنے کا شوق انسان کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔
باغبانی جیسے شوق ہمارے ارد گرد کے ماحول کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتا
ہے۔ورزش ،سائیکلنگ اور تیراکی جیسے شوق ہماری صحت کو بہتر بنانے میں مدد
کرتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/your-passion-will-never-let-you-grow-old/
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
تحقیقات | 82 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ایمسٹرڈیم :یورپی میڈیسن ایجنسی نے اعصابی بیماری گیلن بررے سنڈروم کو کرونا
وائرس ویکسین آسٹرازینیکا کے ممکنہ مضر اثرات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
تفصیالت کے مطابق یورپ نے ایک اعصابی بیماری کو بہ طور ممکنہ سائیڈ ایفکٹ اس
فہرست میں شامل کر لیا ہے جو کرونا وائرس کی ویکسین آسٹرازینیکا سے متعلق ہے ،یہ
بیماری ( )Guillain-Barré syndromeعارضی فالج کا باعث بن سکتی ہے ،تاہم اس کے
امکانات کو بہت ہی کم قرار دیا گیا ہے۔
یورپی میڈیسن ایجنسی نے بدھ کو کہا کہ گیلن بررے سنڈروم کو اس ویکسین کے مضر
اثرات سے متعلق معلومات میں شامل کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گیلن بررے سنڈروم کرونا وائرس ویکسین آسٹرازینیکا کے ’انتہائی کم‘
مضر اثرات میں سے تھا ،یہ دس ہزار میں سے ایک فرد میں سامنے ٓایا۔
یہ خرابی ایک اعصابی سوزش ہے جس سے عارضی فالج ہو سکتا ہے اور سانس میں
دشواری کا سبب بن سکتی ہے ،ہر سال امریکا میں اس سنڈروم سے ایک اندازے کے
مطابق تین سے 6ہزار افراد متاثر ہوتے ہیں اور زیادہ تر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/astrazeneca-vaccine-side-effects/
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
آج کل کی تیز\ رفتار زندگی میں اکثر لوگ وقت کی کمی کے باعث کھانے پینے میں بے
احتیاطی ،ورزش کی کمی ،اور ذہنی تنأو کے باعث بلڈ پریشر\ (بلند فشا ِرخون) کا شکار
ہوجاتے ہیں اور پھر اس کو کنٹرول میں کرنے کے لیے مسلسل ادویات کا استعمال کرتے
ہیں جس سے دیگر خطرناک امراض کا شکار ہوجانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
ماہرین بلڈ پریشر کو قابو کرنے کے لیے گھریلو نسخے تجویز کرتے ہیں جو بلڈ پریشر
کنٹرول میں معاون ثابت ہوتے ہیں ،ان گھریلو نسخوں سے بلڈ پریشر کے مرض سے
چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
شہد کا استعمال
شہد ایسی غذا ہے جو قدرتی طور پر میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کےعالج
کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ،شہد میں موجود کاربوہائیڈریٹ دل کی اطرا ف سے
خون کے پریشر کوکم کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں تک رات کو سونے سے پہلے ایک گالس نیم گرم دودھ میں
دو چمچ شہد مال کر پینے سے بلڈ پریشر جیسے بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
لہسن
وہ خطرناک عوامل جو شریانوں کو سخت کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے عالج کے لئے
لہسن بہت مفید ہے ،ہائی بلڈ پریشر میں کچے لہسن کی ایک پھانک روزانہ کھانے سے
بہت جلد بلڈ پریشر میں کمی الئی جاسکتی ہے۔
لہسن ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈپریشر کا عالج کرتا ہے اور شریانوں میں پلیٹلیٹس کو
جمع ہونے سے روکنے کے ساتھ دل پر زیادہ خون کے پریشر سے بڑھنے والے اثرات
سے بھی روکتا ہے۔
کیال کھائیں ،ہائی بلڈ پریشر\ کو دور بھگائیں
آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں ،وہ
ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتال ہے
ویب ڈیسک
ستمبر\ 9 2021
آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں ،وہ پٹھوں کی ایک
تکلیف دہ بیماری میں مبتال ہے۔
مسکولر ڈسٹرافی ( )Muscular Dystrophyکو ایک خاموش قاتل سمجھا جاتا ہے ،آپ
کی عمر 2سال سے 60سال تک ہے ،اور آپ بڑی اچھی زندگی جی رہے ہیں ،لیکن یہ
قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہوا ہو سکتا ہے ،جو کسی بھی وقت
جاگ سکتا ہے۔
مسکولر ڈسٹرافی کو عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے ،اسے ہمارے جینز میں
چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے ،جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند
حصوں یا پورے جسم میں تباہی مچا دیتا ہے۔
اس بیماری کی 8اقسام ہیں ،مگر سب سے عام قسم ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی (Duchene
)Muscular Dystrophyہے ،یہ ایک جنیٹک یعنی موروثی بیماری ہے ،جو سب سے
چھوٹی عمر میں ہوتی ہے ،یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے ،جو انھیں ماؤں سے منتقل ہوتی
ہے۔
جیسے ہی لڑکے کی عمر 5سال ہوتی ہے ،ٹھیک ٹھاک بچہ اچانک پاؤں کی ایڑھی زمین
سے اٹھا کر پنجوں پر چلنے لگتا ہے ،چند ہی ماہ بعد بچہ چھاتی بھی باہر نکال کر چلنا
شروع ہوتا ہے ،جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں ،والدین بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ یہ تم
کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو ،مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل
نہیں ہوتا۔
چند ماہ بعد بچہ بیٹھے بیٹھے جب اٹھنے لگتا ہے تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا ،اور پیچھے
گر جاتا ہے ،ٹانگیں کم زور ہوتی جاتی ہیں ،بظاہر تو ٹانگیں ٹھیک ہوں گی مگر اندر
موجود مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں ،گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر
اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے ،اسے گاور سائن کہتے ہیں ،لیکن تب تک
بچے کی عمر 7سے 8سال ہو چکی ہوتی ہے یعنی 2سے 3سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا
رہا تھا ،اور جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی ہے بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا
ہوتا ہے۔
رفتہ رفتہ کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں 10 ،سال کی عمر تک بازو
کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہو جاتا ہے ،ٹانگیں
اور بازو مکمل یا 90فی صد مفلوج ہو جاتے ہیں ،بچہ پانی بھی خود سے نہیں پی سکتا،
فلو اور کورونا کے لیے ایک ہی خوراک پر مشتمل ویکسین ،کمپنی کا
بڑا اعالن
ویب ڈیسک
امریکی دواساز کمپنی موڈرنا نے فلو اور کورونا کے خالف ایک خوراک پر مشتمل
ویکسین تیار کرنے کا اعالن کردیا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی موڈرنا نے ایسی
ویکسین تیار کرنے کا اعالن کیا ہے جس کی ایک خوراک کورونا وائرس اور فلو کے
خالف کارٓامد ہوگی۔
موڈرنا کے سربراہ اسٹیفن ہانسل کا کہنا ہے کہ ویکسین کی ایک ہی خوراک لگوانی پڑے
گی جو بوسٹر خوراک کے طور پر بھی موثر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی کی اولین ترجیح ہے کہ سانس کی بیماریوں کے لیے ساالنہ بنیادوں
پر بوسٹر ویکسین مارکیٹ میں الئی جائے جو حاالت کے مطابق اپ گریڈ کی جائے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل موڈرنا کمپنی نے چھ ماہ سے 12سال سے کم عمر کے بچوں
میں ویکسین کے ٹیسٹ ٹرائل کے درمیانی مراحل کے نتائج بھی شیئر کیے تھے ،جن کا
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جائزہ لے رہی ہے
بچوں میں ٹرائل کے حوالے سے کمپنی نے کہا تھا کہ ٹیسٹ ٹرائل کے دوران پچاس
مائیکرو گرام پر مشتمل ویکسین کی ایک خوراک بچوں کو لگائی جائے گی۔
ٹیسٹ ٹرائلز چار ہزار بچوں پر مشتمل گروپ پر کیے جا رہے ہیں جس میں چھ سال سے
لے کر بارہ سال سے کم عمر کے بچے شامل ہیں۔
کمپنی نے مزید کہا تھا کہ مختلف عمروں کے گروپس کے لیے ویکسین کی مناسب مقدار
کی خوارک سے متعلق تحقیق ابھی جاری ہے۔ دو سے چھ سال جبکہ چھ ماہ سے دو سال
کے بچوں کے لیے ویکسین کی مناسب مقدار سے متعلق ٹرائلز کیے جا رہے ہیں۔
https://headtopics.com/pk/16011604160832191945-21716516
کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکیسین انسان کو صرف کوویڈ سے ہی نہیں بچاتی بلکہ
اس کا ایک اور بڑا فائدہ سامنے آیا ہے جسے محققین نے خوش آئند قرار دیا ہے۔
ٰ
دعوی کیا ہے کہ کورونا امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں محققین نے یہ
ویکسینیشن سے نہ صرف کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19سے تحفظ ملتا
ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔
سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ
ملتا ہے کہ کوویڈ 19سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم
سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔
یہ تحقیق بنیادی طور پر سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایل طویل المعیاد پراجیکٹ کا
حصہ ہے جس کا مقصدکورونا کی وبا سے امریکی عوام کی ذہنی صحت پر مرتب اثرات
کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔
ویب ڈیسک
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ استعمال شدہ فیس ماسک انفیکشن کا ذریعہ بن سکتا
ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ماسک کو استعمال کے بعد مناسب طریقے سے ٹھکانا لگانا چاہیے
بصورت دیگر وہ انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں ،لوگوں کو اس ضمن میں آگاہی بھی دینی
چاہیے۔
سعودی نائب وزیر برائے صحت عامہ ہانی جوخدار کا کہنا ہے کہ شہری کھلی اور بند
دریں اثنا مکہ مکرمہ کی ایک ماسک فیکٹری میں سیلز منیجر میسرہ الشریف کا کہنا ہے
کہ چہرے کے ماسک کو کبھی ری سائیکل نہیں کیا جاسکتا کیوں یہ وائرس کے لیے
انکیوبیٹر کا کام کرسکتے ہیں ،فیس ماسک کے استعمال میں الپرواہی دوسروں کے لیے
خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چہرے کا ماسک دیگر طبی اشیا کی طرح نہیں جسے ری سائیکل کیا
جاسکے کیوں کہ اس کے ذریعے انفیکشن کا پھیالؤ ممکن ہے ،ماسک کو استعمال کے بعد
تھیلی میں ڈال کر کوڑے دان میں پھینکا کریں۔
https://urdu.arynews.tv/used-face-mask-health-experts-opinion/s-food-
eating-covid-19/
ویب ڈیسک
لندن :ویسے تو کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے مختلف ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں
جن میں سے اکثر نسخے دیسی ہوتے ہیں اور بہت سارے لوگ اس کو استعمال بھی
کرتے ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرنے میں بہترین
مددگار ہماری غذا ہے جو بیماری بچاؤ کیلئے بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے طبی ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ
صحت کے لیے فائدہ مند غذاؤں کا استعمال کرنے والے افراد میں کوویڈ 19سے متاثر
ہونے کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
کنگز کالج لندن اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں زوئی کوویڈ اسٹڈی ایپ کے
لگ بھگ 6الکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
ان افراد کو فروری 2020کے دوران غذائی عادات کے حوالے سے ایک سروے حصہ
بنایا گیا تھا جب ان ممالک میں کورونا کی وبا پھیلنا شروع نہیں ہوئی تھی بعد ازاں ان میں
سے 19فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد صحت کے لیے فائدہ غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں
ان میں غیر معیاری خوراک کھانے والے لوگوں کے مقابلے میں کووڈ سے متاثر ہونے کا
ویب ڈیسک
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وٹامن ای قوت مدافعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ جلد اور بالوں
کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری\ ہے ،یہ ایک ایسا وٹامن ہے جسے نہ صرف
کھایا جا سکتا ہے بلکہ اسے خوب صورتی کے لیے بالوں اور جلد پر بھی لگایا جا سکتا
ہے۔
وٹامن ای جلد ،ناخن اور بالوں کے لیے فائدہ مند
وٹامن ای کا استعمال ہماری جلد ،ناخن اور بالوں کے لیے بہت کارٓامد ہے ،اسے خوراک
کی شکل میں لینا فائدہ مند تو ہے ہی لیکن اسے بالوں اور جلد پر بھی لگایا جا سکتا ہے ،یہ
چہرے سے بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرنے کے عالوہ ہائپر پگمینٹیشن کو بھی کم
کرتا ہے۔
اگر ٓاپ اس کا استعمال روزانہ کرتے ہیں تو ٓاپ کے طویل وقت تک جوان نظر ٓانے کا
امکان ہے ،وٹامن ای کا تیل خشک جلد والوں کے لیے موئسچرائزر کی طرح کام کرتا ہے۔
استعمال کرنے کا طریقہ
وٹامن ای ٓائیل کلینزر کے طور پر بہت مؤثر ہے ،وٹامن ای کے تیل کے چند قطرے کو
چہرے پر لگا کر ہلکے ہاتھوں سے مالش کرنے سے جلد صاف اور مالئم ہو جاتی ہے،
ساتھ میں یہ جلد کے کھلے سوراخوں میں موجود تمام گندگیوں کو دور کرتی ہے۔
یہٓ انکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کے لیے بھی اچھا ہے ،اس کے لیے رات کو سونے سے
پہلے ٓانکھوں کے نیچے وٹامن ای کے تیل سے ہلکے ہاتھوں سے مالش کریں۔
کمزور اور خشک ناخن سے چھٹکارا پانے کے لیے وٹامن ای کے تیل کا بھی استعمال کیا
جا سکتا ہے۔
رات کو سونے سے پہلے جلد پر وٹامن ای کے تیل سے ہلکا مالش کرنا بہت فائدہ مند ہے،
اسے سیدھے جلد پر لگایا جا سکتا ہے یا ٓاپ اسے ایلو ویرا جیل کے ساتھ مال کر پورے
چہرے پر مالش کرنے کے بعد اسے دھو سکتے ہیں ،امید ہے کہ ٓاپ کو بہتر نتائج دیکھنے
کو ملیں گے۔
جلد پر داغوں کو ہلکا کرنے کے لیے وٹامن ای کے کیپسول کو سیدھا لگا سکتے ہیں ،یہ
کولیجن کی پیداوار کو بڑھاتا ہے اور داغ دھبوں کو ہلکا کرتا ہے۔
گھر میں دن بھر کام کرنے سے اگر ٓاپ کے ہاتھ خشک رہتے ہیں تو وٹامن ای کے تیل
سے ہاتھوں میں ہلکی مالش کرنے سے ٓاپ نمی کو واپس ال سکتے ہیں۔وٹامن ای کیپسول
سے تیل نکالیں اور اس میں تھوڑا سا شہد مال دیں۔ جلد پر اس سے مالش کریں ،لیکن ٓاپ
روزانہ سونے سے پہلے یہ کرنا نہ بھولیں تب ہی ٓاپ کو بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
کیلیفورنیا \:امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ روزانہ اخروٹ
کھانے سے کولیسٹرول\ میں کمی ہوتی ہے۔
تفصیالت کے مطابق امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن جرنل ‘سرکولیشن’ میں شائع ہونے والی
ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ روزانہ ٓادھا کپ اخروٹ
کھاتے ہیں ان میں لو ڈینسیٹی لِپو پروٹین (ایل ڈی ایل) کولیسٹرول کی سطح کم ہو جاتی
ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی خوراک میں باقاعدگی سے اخروٹ کو شامل کرتے
ہیں تو اس سے کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل (جسے بیڈ کولیسٹرول بھی کہتے ہیں) میں کمی
واقع ہو سکتی ہے۔
ایک تحقیقی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اخروٹ کھانے سے قلبی امراض( کارڈیو
ویسکولر) کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے ،یہ تحقیق کیلیفورنیا والنٹ کمیشن کی جانب
سے کروائی گئی ،اس میں 60سال سے زیادہ عمر کے لوگوں شامل کیا گیا۔
تحقیقات | 96 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس تحقیقی مطالعے کے سینئیر مصنف ڈاکٹر ایمیلیو روز نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی
برسوں سے اخروٹ سے صحت کو ہونے والے فوائد کے بارے میں جانچ رہے ہیں،
اخروٹ غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے ،اس میں بائیو ایکٹیو ،الف لینولینک ایسڈ ،سبزیوں
میں ملنے واال اومیگا 3فیٹی ایسڈ ،فائٹومیالٹونن شامل ہیں۔
یہ تحقیق 63سے 79سال کی عمر کے کل 636لوگوں پر کی گئی تھی ،جن میں سے 67
فی صد خواتین شامل تھی۔تحقیق کے لیے حصہ لینے والے لوگوں کو دو گروپوں میں تقسیم
کیا گیا ،ایک گروپ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اخروٹ نہ کھائیں ،دوسرے گروپ کو
اپنی روزانہ کی خوراک میں ٓادھے کپ اخروٹ کھانے کو کہا گیا تھا۔
محققین نے ان کی خوراک کی بنیاد پر ان کے کولیسٹرول کی سطح پر نگرانی رکھی اور
اس کے بعد انھوں نے نیوکلیر میگنیٹک ریسونینس اسپیکٹرواسکوپی ªکی مدد سے
لیپوپروٹین کی سائز کا تجزیہ کیا۔ انھوں نے ان لوگوں کے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی بھی
جانچ کی ،جس میں انھوں نے پایا کہ اخروٹ کے روزانہ استعمال سے ایل ڈی ایل ذرات
اور چھوٹے ایل ڈے ایل (جس میں سے چربی شریانوں میں جمع ہوتی ہے) دونوں کی
تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے روزانہ اخروٹ کھایا ،ان میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول
کی سطح اوسطا ً 4.3ملی گرام فی ڈیسی لیٹر (ملی گرام/ڈی ایل) اور ان کے کل کولیسٹرول
کی اوسط 8.5ملی گرام/ڈی ایل سے کم ہو گیا۔ اخروٹ کھانے والے گروپ میں کل ایل ڈی
ایل ذرات کی تعداد میں 4.3فی صد اور چھوٹے ایل ڈی ایل ذرات کی تعداد 6.1فی صد کم
ہوئی۔ مردوں میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول 7.9فی صد کم ہوا ،جب کہ خواتین میں یہ 2.6
فی صد کم ہوا۔
https://urdu.arynews.tv/cholesterol-walnuts-research/
ادویات کا استعمال عالج کو مزید مشکل بنانے لگا !! لیکن کیسے ؟؟
ویب ڈیسک
تحقیق کے مطابق بعض دوائیں ٓانتوں کے بیکٹیریا میں جمع ہوکر عالج کو مشکل بنارہی
ہیں ،ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تحقیق کا ایک نیا باب ہے۔
تحقیق میں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ دمہ ،ڈپریشن اورذیابیطس کی عام ادویات اگرچہ اپنا
اثر تو کرتی ہیں لیکن طویل مدتی اثر میں یہ ٓانتوں کے بیکٹریا (جرثوموں) میں جمع ہوتی
رہتی ہیں اور ٓاگے چل کر کئی ادویات کے اثر کو کم کرسکتی ہیں یا کررہی ہیں کیونکہ
ادویات جمع ہونے سے بیکٹیریا غیرمعمولی طور پر تبدیل ہورہے ہیں۔
اس معلومات سے ہم مختلف افراد پر دوا کے مختلف اثرات سمجھ سکتے ہیں اور ان کے
منفی اثرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔
تحقیقات | 98 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہفت روزہ سائنسی جریدے “نیچر” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بعض
بیکٹیریا کیمیائی طور پر بعض ادویہ کو بدل سکتے ہیں جسے بایو ٹرانسفارمیشن کا عمل
کہتے ہیں۔
جامعہ کیمرج اور یورپی مالیکیولر بائیلوجی تجربہ گاہ ( ای ایم بی ایل) ،جرمنی کی کھوج
بتاتی ہے کہ کئی عام ادویہ دھیرے دھیرے سے بیکٹیریا میں جاتی رہتی ہیں اور نہ صرف
انہیں اندر سے بدلتی ہیں بلکہ ان کے افعال بھی بدل دیتی ہیں۔
اب خیال ہے کہ بیکٹیریا کے بدلنے سے برا ِہ راست نئی دواؤں پر اثر پڑسکتا ہےاور
بالراست بھی بیکٹیریا کے افعال بدل سکتے ہیں جس سے دوا کے مضر اثرات بڑھ سکتے
ہیں۔
نظام ہاضمہ میں سینکڑوں ،ہزاروں اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے ِ ہمارے معدےٓ ،انت اور
ہیں جو نہ صرف صحت بلکہ امراض میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے
مجموعے کو گٹ مائیکروبایوم کہا جاتا ہے۔
لوگوں میں اس کی ترتیب مختلف ہوتی ہے اور اب یہ حال ہے کہ ہم تندرست بیکٹریا کے
گچھوں کی شناخت بھی کرچکے ہیں۔ ان کے بگڑنے سے موٹاپا ،امنیاتی نظام اور دماغی
امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں 25عام بیکٹیریا شناخت کئے اور انہیں کھائی جانے والی
15عام ادویات کا سامناکرایا گیا۔ اس طرح کل 375ادویہ اور بیکٹیریا کے ٹیسٹ کئے
گئے۔ تحقیق میں 70مالپ ایسے تھے جن میں 29کو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔
اس طرح بیکٹیریا اور ادویہ کے نئے 29تعامالت میں سے 17میں دوا بدلےکسی تبدیلی
کے بغیر جمع ہونے لگیں۔ پھر ڈپریشن کی ایک دوا ڈیولوکزیٹائن نے تو بیکٹیریا کی
کالونی ہی بدل دی اور ان کا توازن شدید بگڑ گیا ،پھر ایک کیڑے پر ان کی ٓازمائش کی
گئی اور اس کے بعد کیڑوں کا برتاؤ بھی بدل گیا۔
ویب ڈیسک
امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا مریضوں کے جسم مین پلیٹلیٹس اور خون
کی شریانوں میں موجود خلیات میں ٓانے والی تبدیلی اعضا کو جان لیوا نقصان پہنچانے
کی بڑی وجہ ہے۔
یہ بات یویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین نئی تحقیق میں سامنے ٓائی جس
کے نتائج طبی جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع کیے گئے ،اس میں تحقیق کاروں نے کہا
کہ کرونا کے باعث متاثرہ شخص کے جسم میں بلڈ کالٹس بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ پلیٹلیٹس کی وجہ سے خون کی شریانوں میں ٓانے والی تبدیلی
موجود خلیات میں زیادہ تر ایک پروٹین پی سلیکٹین کا نتیجہ ہوتی ہیں جس کے باعث خون
جمنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں 2جینز ایس 1000اے 8اور ایس 1000اے 9کو شناخت کیا گیا جو کووڈ 19
کے مریضوں میں پلیٹلیٹس کو بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایم آر پی 8اور 14
نامی پروٹینز زیادہ بننے لگتے ہیں۔
ویب ڈیسک
امریکی ماہرین نے النگ کووڈ کی وجوہات دریافت کرلی ،محققین کا کہنا ہے کہ ایک
اینٹی باڈی صحتیابی کے کئی ہفتوں سے نمودار ہوکر مدافعتی نظام کے بنیادی ریگولیٹر
کو متاثر کرتی ہے۔
امریکا کی آرکنساس یونیورسٹی ار میڈیکل سائنسز کی تحقیق میں دریافت وجوہات سے
متعلق کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں ªمیں طویل المیعاد
بنیادوں پر مختلف عالمات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جس کےلیے ماہرین النگ کووڈ کی
اصطالح استعمال کرتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ایک اینٹی باڈی کے تسلسل کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جو اینٹی باڈی
ایس 2انزائمے پر حملہ ٓاور ہوتی ہے۔
ایس 2انزائمے وائرس کے خالف جسم کے ردعمل کو ریگولیٹ ªکرنے میں مدد فراہم کرتا
ہے ،مگر حملہ آور اینٹی باڈی ایس ٹو کے افعال میں مداخلت کرتی ہے ،جس کے باعث
محققین نے اسے طویل المعیاد عالمات کا بنیادی عنصر تصور کیا۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ایس ٹو اینٹی باڈی کے افعال میں مداخلت
کرنے والی اینٹی باڈی النگ کووڈ کا باعث بنتی ہے تو عالج کے متعدد راستے کھل جائیں
گے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع ہوئے۔
https://urdu.arynews.tv/discover-the-possible-causes-of-long-covid/
ویب ڈیسک
واشنگٹن :مکمل ویکسی نیشن افراد میں کرونا سے موت کا خطرہ کیوں کم ہوتا ہے؟
امریکی حکام نے بتادیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ویکسین کی مکمل
خوراکیں لینے والے افراد میں ان لوگوں کی نسبت جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی ،کرونا
وائرس سے ہالک ہونے کا خطرہ گیارہ گنا کم اور اسپتال داخل ہونے کے امکانات دس گنا
کم ہو جاتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکا میں کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ بہت عام ہو
چکا ہے ،بیماری سے بچاؤ اور روک تھام کے مرکز کی جانب سے شائع ہونے والے تین
نئے صفحات کے ڈیٹا میں ویکسین کی افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے ،ڈیٹا کے مطابق موڈرنا
ویکسین ڈیلٹا کی قسم سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم اس کی وجوہات ابھی پوری
طرح سامنے نہیں ٓاسکیں۔
یہ تحقیق صدر جو بائیڈن کی اعالن کردہ اس حکمت عملی کے بعد سامنے ٓائی ہے جس
میں سو یا اس سے زائد مالزمین رکھنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنے
عملے کی ویکسینیشن کرائیں یا ہر ہفتے ان کا ٹیسٹ کرائیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکا میں کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ بہت عام ہو
چکا ہے ،بیماری سے بچاؤ اور روک تھام کے مرکز کی جانب سے شائع ہونے والے تین
نئے صفحات کے ڈیٹا میں ویکسین کی افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے ،ڈیٹا کے مطابق موڈرنا
ویکسین ڈیلٹا کی قسم سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم اس کی وجوہات ابھی پوری
طرح سامنے نہیں ٓاسکیں۔
یہ تحقیق صدر جو بائیڈن کی اعالن کردہ اس حکمت عملی کے بعد سامنے ٓائی ہے جس
میں سو یا اس سے زائد مالزمین رکھنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنے
عملے کی ویکسینیشن کرائیں یا ہر ہفتے ان کا ٹیسٹ کرائیں۔
سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ڈائریکٹر روچیل والینکسی نے اپنی پریس
بریفنگ میں بتایا کہ ایک کے بعد ایک تحقیق میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ویکسینیشن (کرونا
کے خالف) کام کر رہی ہے۔
کیا کرونا ویکسین دیگر خطرناک بیماریوں کے خالف بھی موثر ہے؟
حقائق منظرعام پر
ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
جمعرات 9 ستمبر 2021
حاملہ خواتین سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت بستر پر ٓارام نہ کیا کریں بلکہ تھوڑی بہت
)جسمانی مشقت بھی کرتی رہا کریں۔
دوران حمل
ِ اوسلو :ناروے اور سویڈن میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ
خواتین کی جسمانی مشقت مثالً ورزش سے ان کے نوزائیدہ بچوں کے پھیپھڑے بھی
مضبوط ہوتے ہیں۔
یورپین ریسپائریٹری\ سوسائٹی کی حالیہ انٹرنیشنل\ کانگریس میں پیش کی گئی اس تحقیق
سے حاملہ خواتین میں جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت کا ایک اور پہلو سامنے ٓایا ہے۔
یونیورسٹی ٓاف اوسلو ،ناروے کی ڈاکٹر ہریفنا کارٹن نے یہ تحقیق 814نوزائیدہ بچوں اور
ان کی ماؤں پر کی ہے۔
اس تحقیق میں حمل کے دوران خواتین کی جسمانی سرگرمیوں بشمول گھریلو کام کاج اور
ورزش وغیرہ سے متعلق معموالت پر نظر رکھی گئی جبکہ بچوں کی پیدائش کے تین ماہ
بعد ان بچوں کی صحت ،بالخصوص پھیپھڑوں کی کیفیت کا جائزہ لیا گیا۔
تجزیئے سے معلوم ہوا کہ دورا ِن حمل زیادہ ٓارام کرنے والی خواتین کے یہاں پیدا ہونے
والے 290بچوں میں سے 8.6فیصد کے پھیپھڑے خاصے کمزور تھے۔
ان کی نسبت ،حمل کے دوران چاق و چوبند اور سرگرم رہنے والی خواتین کے نوزائیدہ
بچوں میں کمزور پھیپھڑوں کی شرح 4.2فیصد دیکھی گئی۔
واضح رہے کہ پیدائش کے وقت کمزور پھیپھڑوں کا نتیجہ ٓائندہ زندگی میں سانس کی کئی
بطور خاص قاب ِل ذکر ہے۔
ِ بیماریوں کو جنم دے سکتا ہے جن میں دمہ
ڈاکٹر ہریفنا کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں نوزائیدہ بچوں میں پھیپھڑوں پر اثر انداز ہونے
والے صرف ایک پہلو کا جائزہ لیا ہے۔
رجا فاطمہ
جمعرات 9 ستمبر2021
تصویر میں بازو سے محروم نوجوان معاذ روبوٹک ٓارم کے ساتھ موجود ہیں۔ فوٹو:
بشکریہ بایونکس کمپنی
کراچی :پاکستان میں پہلی بار پیدائشی معذور یا کسی حادثے سے متاثرہ افراد کے لیے
جدید ٹیکنالوجی پر مبنی روبوٹک آرم (مشینی بازو) تیار کرلیا گیا۔
ایکسپریس کے مطابق سینسر کے ذریعے دماغ کی مدد سے چلنے واال یہ مصنوعی ہاتھ
حرکت بھی کرسکتا ہے اور وزن بھی اٹھا سکتا ہے ،روبوٹک ٓارم کے ذریعے معذور افراد
عام افراد کی طرح اپنے روزمرہ کے کام باآسانی کرسکتے ہیں۔
اس حوالے سے جامعہ کراچی میں منعقدہ دو روزہ ’’صحت کی دیکھ بھال میں ٹیکنالوجی
کی فعالیت‘‘ کے موضوع پر مبنی کامسٹیک آئی سی سی بی ایس میں بین االقوامی نمائش
اس بازو میں کئی سینسر کے عالوہ بیٹری نصب ہے جو مکمل چارجنگ پر بازو کو
مسلسل 8گھنٹے متحرک رکھتی ہے۔ بازو ساڑھے تین کلو وزن اٹھاسکتا ہے جس کی
کالئی گھوم سکتی ہیں اور انگلیاں متحرک ہوتی ہیں۔
بایونکس نے مصنوعی ہاتھ کے تین ماڈل بنائے ہیں ان میں بلیک ایکس کا رنگ سیاہ ہے،
انسانی جلد کی رنگت میں زندگی 2.0ماڈل بنایا گیاہے اور سپر ہیرو ورژن میں بچے بازو
کو اپنی مرضی سے بنواسکتے ہیں تاہم اس کی قیمت ساڑھے تین الکھ روپے تک ہے۔ ایسا
ہی ایک بازو شہری معاذ زاہد کو بھی لگایا گیا ہے۔
معاذ نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو
کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں ڈیڑھ سال قبل
ایک حادثے سے متاثر ہوگیا تھا جس
میں میرا سیدھا ہاتھ ضائع ہوگیا تھا،
ایک ہاتھ سے معذور ہونے کے بعد
اپنے روز مرہ کے کام نہیں کر پارہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ روبوٹک ٓارم کا استعمال انتہائی ٓاسان ہے ،اس ٹیکنالوجی کے بعد ان کے
دل سے احساس محرومی کا جذبہ بھی ختم ہوا ہے اور اب زندگی حسین لگنے لگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے افراد جو ہاتھ سے محروم ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس ٹیکنالوجی
سے فائدہ اٹھائیں ،خوشی ہے کہ اب پاکستان بھی دوسرے ممالک کی طرح ٹیکنالوجی میں
ٓاگے بڑھ رہا ہے۔
کمپنی حکام کے مطابق پاکستان میں اس وقت 100سے زائد افراد بایونکس کے روبوٹک
ٓارم سے مستفید ہورہے ہیں اور اپنے روزمرہ کے کام باآسانی کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی
خاص طور پر معذور افراد کے دل سے احساس محرومی کو ختم کرنے کرنے کے لیے
تیار کی گئی ہے۔
اس موقع پر بایونکس سے وابستہ ماہر نے بتایا کہ ان کی کمپنی دنیا میں سب سے کم عمر
بچے میں روبوٹ بازو نصب کرچکی ہے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
اور www.bioniks.org -3562103مزید تفصیالت کے لیے بایونکس کی ویب سائٹ
0300پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
عام ادویہ ٓانتوں کے بیکٹیریا میں جمع ہوکرعالج کو مشکل بنارہی ہیں
ویب ڈیسک
جمعـء 10 ستمبر 2021
برطانوی اور امریکی ماہرین نے کہا ہے ٓانتوں کے بیکٹیریا ادویہ جمع کرکے صحت کو
کئی طرح سے متاثرکرسکتےہیں۔
کیمبرج :ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ دمے ،ڈپریشن اورزیابیطس کی عام ادویہ اگرچہ اپنا
اثر تو کرتی ہیں لیکن طویل مدتی اثر میں یہ ٓانتوں کے بیکٹریا (جرثوموں) میں جمع ہوتی
رہتی ہیں اور ٓاگے چل کر کئی ادویہ کے اثر کو کم کرسکتی ہیں یا کررہی ہیں۔ کیونکہ
ادویہ جمع ہونے سے بیکٹیریا غیرمعمولی طور پر تبدیل ہورہے ہیں۔
اس معلومات سے ہم مختلف افراد پر دوا کے مختلف اثرات سمجھ سکتے ہیں اور ان کے
منفی اثرات (سائیڈ افیکٹس) بھی سمجھ سکتےہیں۔ ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں
شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بعض بیکٹیریا کیمیائی طور پر بعض ادویہ کو
بدل سکتےہیں جسے بایوٹرانسفارمیشن کا عمل کہتے ہیں۔
ویب ڈیسک
ہفتہ 11 ستمبر 2021
ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کی رو سے دفاتر کی ٓالودہ اور متاثرہ ہوا کارکنوں کی دماغی
صالحیت کو متاثرکرسکتی ہے
ہارورڈ :دفاتر کی ٓالودہ اور غیرمعیاری فضا سے وہاں کام کرنے والے افراد کی دماغی
صالحیت پر برے اثرات مرتب ہورہےہیں اور ان کی دماغی اور ذہنی صالحیت متاثر
ہوسکتی ہے۔
ان میں کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ اور پی ایم 2.5کی غیرمعمولی بڑھی ہوئی مقدار ذہانت اور
دماغی ٹیسٹ میں ان کی درستگی کو متاثرکرتی ہے اور اس کا اثر دفاتر کی کارکردگی پر
بھی ہوتا ہے۔ تحقیق کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ دفاتر کی اندرونی ہوا کا معیار بہتر بنانا
بہت ضروری ہے تاکہ تازہ ہوا کی ٓامدورفت جاری رہے۔
ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول برائے عوامی صحت نے پہلی مرتبہ دفاتر اور اداروں کی
فضائی کیفیات کے درمیانی تعلقات دریافت کیا ہے۔ اس بڑے مطالعے میں کئی ممالک نے
حصہ لیا ہے۔ دفاترمیں ہوا کی ٓامدورفت اور معلق ذرات کے درمیان تعلق سے انکشاف ہوا
ہے کہ وہ کارکنوں کی دماغی صالحیت کو متاثر کررہے ہیں جس کی تصدیق کئی مروجہ
ٹیسٹ سے بھی ہوئی ہے۔
اس سے قبل جو بھی تحقیق ہوئی ہے اس میں باہر کی فضائی ٓالودگی اور دماغی صالحیت
پر ان کے اثرات پر غور ہوا ہے لیکن بند کمروں میں ہوا پر کسی نے غور نہیں کیا تھا۔
اس تحقیق میں 300افراد کو شامل کرکے ایک سال تک تحقیق کی گئی اور دنیا کے چھ
ممالک میں 40عمارات سے ڈیٹا لیا گیا۔
تحقیقات | 112 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہردفتر میں کئی اقسام کے سینسر لگائے جو اسی وقت پی ایم ،2.5کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ،
درجہ حرارت اور نمی وغیرہ نوٹ کرتے رہے تھے۔ جیسے ہی دفاتر میں پی ایم 2.5نامی
ذرات اور کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ کی سطح ایک خاص پیمانے سے اوپر پہنچی تو اسمارٹ فون
پر ایک پیغام پہنچا جس میں دماغی صالحیت والے ایک چھوٹے سے گیم یا ٹیسٹ پورا
کرنے کو کہا گیا۔
عام طور پر جب جب دفاتر میں کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ اور پی ایم 2.5کی مقدار بڑھی اکثر
شرکا نے ٹیسٹ میں اپنا ر ِد عمل دیر میں درج کروایا۔ ان میں الفاظ کو پہچاننے کا ایک
ٹیسٹ تھا جس میں رنگوں کے وجہ سے الفاظ کو پہچاننے کے لیے غور کرنا پڑتا تھا۔ یہ
ٹیسٹ اس وقت خراب واقع ہوا جب دفتر کے ماحول میں یہ دو ٓالودگیوں کا عروج تھا۔
تحقیقی کے سربراہ ہوزے گیولرمو سیڈانو نے کہا کہ پی ایم 2.5اور کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ
کی سطح بڑھنے کے فوراً بعد ہی اکتسابی (کوگنیشن) ªصالحیت میں یکدم تیزی سے کمی
ٓاجاتی ہے۔ اس لئے دفاتر میں ہوا کا مسلسل بہاؤ بہت ضروری ہے جوعمومی صحت اور
دماغ دونوں کے لیے ہی مضر ہوتی ہے۔
سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کووڈ وبا کے تناظر میں بھی گھروں اور دفاتر میں تازہ ہوا کی
ٓامدورفت کی بہت ضروری ہے۔ اگر ادارے اپنے مالزموں کی صالحیت بڑھانا چاہتے ہیں
تو انہیں چھت کے نیچے ہوا کا معیار بڑھانا ہوگا۔
https://www.express.pk/story/2223361/9812/
خوبانی لذیذ میٹھے ذائقے اور غذائیت سے بھر پور پھل ہے ،خوبانی کو تازہ اور اسے
سکھا کر دونوں طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے ،خوبانی پوٹاشیمٓ ،ائرن ،فائبر اور بیٹا
کروٹین سے ماالمال پھل ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق تازہ اور خشک دونوں صورتوں میں خوبانی کا استعمال صحت
کے لیے بے حد مفید ہے جبکہ اسے سکھا کر محفوظ کرنے کے نتیجے میں اس کی
غذائیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق خوبانی میں وٹامن اے بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اسی لیے اس
کا استعمال کمزور نظر کو تیز کرتا ہےَ ،جلد بڑھاپے اور اعصابی کمزوری سے تحفظ
فراہم کرتا ہے ،گھٹنوں ،جوڑوں اور پٹھوں کے درد سے محفوظ رکھتا ہے اور دل و دماغ
کو طاقت بخشتا ہے۔
خشک خوبانی میں کیلشیم پائے جانے کے باعث یہ ہڈیوں کی بہترین صحت کے لیے بھی
ضروری ہے ،کیلشیم کے عالوہ خشک خوبانی میں پوٹاشیم بھی کافی مقدار میں پایا جاتا
ہے۔
خوبانی سکھا کر خشک میوہ جات کی شکل اختیار کر لیتا ہے جبکہ خشک میوہ ہونے کے
باعث بھی اس میں فائبر کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے ،اس کے عال وہ خشک خو بانی
میں کیلوریز بھی بہت کم پائی جا تی ہیں ،اس میں موجود فائبر نظام ہاضمہ کی کارکردگی
کو مزید فعال بنا دیتا ہے جو وزن کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
فائبر کی بھاری مقدار کولیسٹرول کی سطح کو بھی کنٹرول کرتی ہے جس کے باعث دل
کے امراض الحق ہونے کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہےٓ ،ادھا کپ خشک خوبانی کا
استعمال دل کی متعدد شکایات دور کرتا ہے اور خون کی گردش رواں دواں بناتا ہے۔
ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ کمزور معدے کے افراد اسے کھانا کھانے
سے قبل استعمال کر لیں تو بد ہضمی اور پیٹ سے متعلق جملہ امراض سے شفا ملتی ہے،
خشک خوبانی قبض دور کریتی ہے۔
خشک خوبانی میں موجود ٓائرن خون کی کمی کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے
اور ’اینیمیا‘ (خون کی کمی کی بیماری) کے خالف قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق خوبانی میں پائے جانے والے اینٹی ٓاکسیڈنٹس کینسر کے خطرات
کو بھی کم کرتے ہیں۔
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٓالوؤں سے متعلق غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان میں غذائیت
نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں ،جو افراد ڈائیٹنگ کا سوچتے ہیں وہ
ٓالوؤں کو بھی اپنی غذا سے نکا ل دیتے ہیں ،حاالنکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق ٓالوؤں کی 173گرام مقدار میں کیلوریز 161جبکہ وٹامن بی ،6
پوٹاشیم ،کاپر ،وٹامن سی ،مینگنیز ،فاسفورس ،فائبر اور وٹامن بی 3کی بھی وافر مقدار
پائی جاتی ہے۔
ٓالو کھانا چھوڑ دینے سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اب انسان پتال دبال اور اسمارٹ ہو
جائے گا ،ماہرین فٹنس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سخت ورزشیں کرنے والے افراد
کو ابلے ہوئے ٓالو کھانے کا کہا جاتا ہے ،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٓالو ایک صحت بخش
غذا ہے ناکہ مضر صحت۔
غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر غذا اعتدال میں صحت بخش اور ضرورت سے زیادہ
کھانے پر مضر صحت ثابت ہوتی ہے ،اسی طرح ٓالو بھی صحت میں اضافے اور کئی
شکایات کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
غذائی ماہرین کی جانب سے بتائے گئے ٓالو کے استعمال سے جسم پر ٓانے والے متعدد
مثبت اثرات مندرجہ ذیل ہیں جنہیں جان کر ٓاپ بھی ٓالو کی چاٹٓ ،الو سے بنی سالدٓ ،الو
کی ٹکیہ ،بیک کیے ہوئے اور ابلے ہوئے ٓالوؤں سے بھاگنا بند کر دیں گے بلکہ یہ غذائیں
روٹین میں شامل کر کے زندگی کو مزید پُر لطف بنائیں گے ۔
غذائی ماہرین کے مطابق ٓالو میں ایک منفرد ایسڈ پایا جاتا ہے جو کہ دماغی صحت کو بہتر
بناتا ہے ،غذائی ماہرین کے مطابق الزائمر کے مرض میں مبتال افراد کو ٓالو کا استعمال
زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔
ٓالؤوں میں موجود پوٹاشیم پٹھوں کو ٓارام پہنچاتا ہے اور ورزش سے یا تھکن سے متاثر
ہونے والے پٹھوں کی مرمت کرتا ہےٓ ،الؤوں میں کیلشیم پائے جانے کے سبب یہ ہڈیوں کو
مضبوط بناتا ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق جہاں ٓالو میں کاربوہائیڈریٹس ªپائے جاتے ہیں وہیں اس میں فائبر
بھی موجود ہوتا ہے جو کہ نظام ہاضمہ کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔
ٓالو کا استعمال بلڈ پریشر کو متوازن بناتا ہے ،بطور سالدٓ ،الؤوں کو بیک کر کے یا ابال کر
بھی کھایا جا سکتا ہے۔
اکثر اوقات گھروں میں سفید اور کالے تل صرف میٹھی غذأوں اور مخصوص پکوانوں ªمیں
ہی استعمال کیے جاتے ہیں ،یہ اِن کی افادیت سے ال علمی ہی ہے کہ جو ان کا استعمال
شاذو نادر ہی کیا جاتا ہے۔
تِل غذائیت اور روغن سے بھرپور غذا ہے ،چھوٹے چھوٹے سفید اور کالے رنگ کے
بیجوں پر مشتمل تِل زمانہ قدیم سے استعمال کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کی تاثیر گرم اور
غذائیت گوشت کے برابر قرار دی جاتی ہے ،انہیں دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق ان چھوٹے چھوٹے بیجوں میں قدرت نے بھر پور صحت کا
خزانہ چھپا رکھا ہے ،ان کا استعمال خصوصا ً خواتین کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے ،تِلوں
میں متعدد وٹامنز ،منرلز ،قدرتی روغن اور دیگر اجزاء جیسے کہ کیلشیمٓ ،ائرن ،میگنیشیم،
فاسفورس ،میگنیز ،کاپر ،زنک ،فائبر ،تھیامن ،وٹامن بی ،6فولیٹ اور پروٹین پایا جاتا ہے ۔
غذائی ماہرین کے مطابق تِلوں کے استعمال کے نتیجے میں انسان شوگر ،بلڈپریشر،
کینسر ،ہڈیوں کی کمزوری ،جلِد کو پہنچنے والے نقصانات ،دل کی بیماریوں ،منہ کی
بیماریوں سے بچ جا تا ہے ،اس میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزاء انسانی جسم سے مضر
صحت مادوں کو بھی نکال دیتے ہیں۔
غذائی ماہرین کی جانب سے تلوں کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے ،تلوں کے استعمال کے
:نتیجے میں حاصل ہونے والے مزید فوائد مندرجہ ذیل ہیں
تحقیقات | 117 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
غذائی ماہرین کے مطابق کیلشیم کی کمی کے شکار افراد کے لیے تلوں کا استعمال نہایت
مفید ثابت ہوتا ہے ،تلوں میں کیلشیم اور ٓائرن کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ خون
کی کمی کو بھی پورا کرتی ہے۔
کالے تل نیم گرم پانی میں بھگو کر گرائنڈ کر کے چھان لیں ،اب اس میں دودھ مال کر پئیں،
چند دنوں میں خون کی کمی دور ہو جائے گی۔
تلوں میں مثبت روغن (تیل) پائے جانے کے سبب اس کے استعمال سے ایڑیاں ،ہاتھ اور
ہونٹ پھٹنے سے بچ جاتے ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق موٹے ہونے کے خواہشمند افراد کو چاہیے کہ تِلوں کو بادام اور
خشخاش کے ساتھ مال کر کھائیں اور بعد میں دودھ پی لیں۔
تلوں کے استعمال سے بال اور ناخنوں کی صحت بہتر ہوتی ہے ،تلوں کا تیل فائدہ مند ہے
جس میں وٹامن بی اور ای ،میگنیشیم ،کیلشیم اور فاسفورس پایا جاتا ہے جو بالوں اور سر
کی جلد کے لیے ضروری اجزاء ہیں۔
تلوں کے تیل کی معمولی سی مقدار سے سر پر مالش کریں اور 30منٹ تک کے لیے
چھوڑ دیں ،اس کے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے بال دھو لیں ،بال گھنے ،کالے ،لمبے
اور مضبوط ہوجائیں گے۔
تلوں کا تیل پولی اَن سیچوریٹڈ اور مونو سیچوریٹڈ فیٹس سے بھرپور ہوتا ہے ،اس میں
سیچوریٹڈ فیٹس کم ہوتے ہیں جو کہ دل کی صحت اور کولیسٹرول کی سطح کنٹرول میں
رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
https://jang.com.pk/news/982750
مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں سے ڈینگی ،ملیریا اور چکن گونیا عام
ہیں۔ مون سون یقینا َ خوشگوار ہوتا ہے جو موسم کو خوبصورت بنا دیتا ہے لیکن اس کے
ساتھ مچھروں کی افزائش بھی ہوتی ہے اور مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے ان بیماریوں
کے زیادہ کیسز سامنے ٓاتے ہیں۔
مون سون کے اس موسم میں ماہرین نے تین قدرتی طریقے بتائے ہیں جن سے ٓاپ ڈینگی
جیسی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی طریقے 100فیصد موثر نہیں ہوسکتے ہیں لیکن ان
کے استعمال سے ٓاپ کو ڈینگی اور ملیریا ہونے کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔
:مچھر کے کاٹنے سے خود کو محفوظ رکھنے کے چند موثر طریقے
ادارہ صحت کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے جلد چھٹکارا
ٴ عالمی
سر نو
پانا ممکن نہیں۔ ان کے بقول اس تناظر میں ویکسینیشن کی حکمت عملی کو از ِ
مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے یورپی دفتر کے سربراہ ہانس کلوگے نے کورونا وائرس کی وبا پر قابو
پانے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے نتائج پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان
کا خیال ہے کہ بظاہر کووڈ انیس کی بیماری کے انسداد کی فوری کوئی صورت دکھائی
نہیں دے رہی کیونکہ اس وائرس کے نئے متغیر یا ویریئنٹس ªمسلسل انسانوں کو بیمار
کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
‘وائرس کہیں نہیں جا رہا'
ڈاکٹر ہانس کلوگے نے واضح کیا ہے کہ اب یقین ہوتا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس اگلے
کئی برسوں تک موجود رہے گا۔
کووڈ انیس کی بیماری جلد ختم ہونے والی نہیں ہے اور یہ انفلوئنزا کی طرح موجود رہے
گی
ادارہ صحت کے سینیئر اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ انیس کی بیماری جلد ختم ٴ عالمی
ہونے والی نہیں ہے اور یہ انفلوئنزا کی طرح موجود رہے گی۔
ویکسین کی اسٹریٹجی تبدیل کرنا ضروری ہے
ڈاکٹر ہانس کلوگے کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ویکسینشن کے
حوالے سے حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس کی افادیت کو دوچند کیا جائے۔
اسی انداز میں متعدی و وبائی امراض کے ماہرین بھی سوچ رہے ہیں کہ گنجان بستیوں
میں وائرس سے بچاؤ کے لیے وہاں کے مکینوں کے مدافعتی نظام کو قوت دینے کے لیے
صرف ویکسین کی فراہمی کافی نہیں ہے۔
ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے اہلکار نے ہائی ویکسینیشن کو اس لیے اہم خیال کیا کیونکہ اس
کی بدولت ہیلتھ کیئر نظام کو بیمار افراد کے بوجھ سے بچانا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے ہیلتھ
کیئر نظام صرف کووڈ انیس کے بیماروں کے لیے نہیں بلکہ کئی دوسری بیماریوں کے
شکار افراد کا خیال رکھنا اور انہیں عالج فراہم کرنا بھی اسی نظام کی ذمہ داری ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ویکسینشن کی حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس کی افادیت
کو دوچند کیا جائے
یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں جنم لینے واال ڈیلٹا ویریئنٹ ساٹھ فیصد زیادہ تیزی کے ساتھ
ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ اب کمبوڈیا میں جنم لینے والے ُمو ویریئنٹ کا
شور پیدا ہو گیا ہے۔ اس متغیر کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
ع ح/ع ت (اے ایف پی)
تاریخ12.09.2021
https://www.dw.com/ur/
%D9%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%D8%B3-
%D8%A8%D8%B1%D8%B3%D9%88%DA%BA
تحقیقات | 123 جلد ، ۵شمارہ ۶ | ۱۴۱ستمبر ۲۰۲۱۔ ۱۲ستمبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کا عمل تیز کرنے کے لیے عالمی
سربراہ اجالس بالنے کی تجویز
ستمبر 2021 ,09
— ویب ڈیسک
خبروں کے امریکی اداروں کی اطالع کے مطابق،
صدر جوبائیڈن جمعرات کے دن نشریاتی چینلز پر
خطاب کے دوران متوقع طور پر کووڈ 19ویکسین
کی عالمی رسد بڑھانے کے موضوع پر ایک سربراہ
اجالس بالنے پر زوردیں گے۔یہ سربراہی اجالس اس
ماہ کے اواخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے
اجالس کے دوران منعقد ہونے کی توقع ہے۔
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اطالع دی ہے کہ جن موضوعات پر بات متوقع ہے ان میں
ت عامہ کے بحران اور عالمی سربراہان کے آپسے رابطے پر زور دیا جائے گا ،تاکہ صح ِ
ویکسین کی مساوی بنیادوں پر تقسیم اور دستیابی کی عدم موجودگی جیسے معاملے کو
اٹھایا جا سکے ،جس میں ترقی پذیر ملکوں میں ویکسین لگانے کی سست شرح کو زیر
غور الیا جائے۔
امریکہ اور دیگر امیر ملکوں پر دباؤ میں اضافہ
سامنے آ رہا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کووڈ 19
کی وافر ویکسینز غریب ملکوں کو عطیہ کریں ،تاکہ
عالمی سطح پر وبا کے اثرات کو کم کیا جا سکے،
ایسے میں جب کہ اس متعدی بیماری کا وائرس مزید
مہلک روپ دھار رہا ہے جس کے باعث کووڈ 19
کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
ہونڈوراس میں کووڈ ویکسین کی رسد کی فراہمی۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ،ٹنڈروس ادھانم گیبریسس نے بدھ کے روز امیر
ملکوں سے اپیل کی کہ وہ اس سال کے باقی مہینوں کے دوران کووڈ 19کی بوسٹر
ویسکین نہ لگائیں ،تاکہ پہلے یہ یقینی بنایا جائے کہ غریب ملک اپنے عوام کو ویکسین کی
بنیادی خوراکیں لگا سکیں۔ ٹنڈروس نے اس سے قبل امیر ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ
ستمبر تک بوسٹر لگانے کا کام مؤخر کر دیں۔
کووکس' نامی عالمی 'ویکسین شیئرنگ اِنی شئیٹو' نے بھی بدھ کو اعالن کیا ہے کہ اس'
سال کے اواخر تک اسے ویکسین کے تقریبا ً ایک اعشاریہ چار ارب ڈوز ملنے کی توقع
— ویب ڈیسک
کرونا وائرس کی ویکس\\ینز\ نہ ص\\رف ک\\ووڈ 19س\\ے
مت\\اثر ہ\\ونے بلکہ اس کے بع\\د ش\\دید بیم\\اری\ س\\ے
حفاظت فراہم کرتی ہیں ،سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ
طویل المیع\\اد ک\\ووڈ کی بیم\\اری کے خالف بھی م\\وثر
تحفظ فراہم ک\\رتی ہیں۔طویªªل المیعªªاد کªªووڈ میں کرونªªا
وائªªرس کی بیمªªاری کی عالمªªات کªªئی ہفªªتے یªªا کªªئی
مہینوں تک جاری رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک صرف عالمات کی روشنی میں مرض کا عالج کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ریسرچ جاری ہے اور بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک
کسی طریقہ عالج پر باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا۔کنگز کالج لندن کی ریسرچ میں بتایا گیا
ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسینز النگ کووڈ کے خطرے کو 50فیصد تک کم کر سکتی
ہیں۔
دوسری طرف متعدد تحقیقات سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب
ہونے والے افراد میں ،ویکسین کی خوراکیں پوری کªªرنے کے بعªªد جªªو قªªوت مªªدافعت پیªªدا
ہوتی ہے وہ انتہائی طاقتور ہوتی ہے جسے سائنسدان ’سپرہیومن امیونٹی‘ ªکªªا نªªام دے رہے
ہیں۔امریکی خبر رساں ادارے ،این بی سی کے مطªªابق پچھلے مªاہ بیªالوجی کی ویب سªªائٹ
بائیو ٓارزکس میں چھپنے والی ایک تحقیق میں یہ کہا گیا کہ یہ ’سپر ہیومن امیونªªٹی‘ کرونªªا
وائرس کی ان چھ اقسام کے خالف کافی موثر پائی گئی جنہیں تشویشناک سمجھا جاتا ہے۔
https://www.urduvoa.com/a/vaccines-offer-protection-against-long-
covid-scientists-say/6217719.htm
ویب ڈیسک
ستمبر 09 2021
طور پر اس کے مخالف چلنے پر مجبور ہوں حاالنکہ یہ جانتے ہوں کہ صحیح راستہ کوئی
اور ہے۔
تو میں جانتی تھی صحیح راستہ کوئی اور ہے مگر اس راستے تک پہنچ نہ پاتی تھی کہ
میرے پاس ادھورا علم تھا ،ایسا علم جو میرے آس پاس کے معاشرے کے لوگوں اور
خاندانوں میں برتا ہی نہ گیا ہو ،جسے میں نے زندگی میں کبھی سہہ کر یا چُھو کر دیکھا
ہی نہ ہو اور میں اس کی جزیات ،اس کے مینول اور اس میں درپیش مشکالت سے نمٹنے
کے طریقے سے العلم تھی۔
میں کبھی وہ نہ کرسکی جس کا میرا علم تقاضا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ اسی اور بہتی رہی
جہاں میرا زندگی سے کشید کیا تجربہ اور عادتوں کی مجبوری مجھے دھکیل کر لے جاتی
رہی ،سو میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جہاں سے میں اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں ،میں شاید اس
مشکل امتحان میں بہت کم نمبروں سے پاس ہوتی ہوں۔
بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کس طرح سے حل کرنے ہیں ،تھکی ہوئی ،کام میں
پھنسی ہوئی حالت میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کس طرح سننا ہے ،چھوٹی چھوٹی
غلطیوں کو کیسے درگزر کرنا ہے ،میرے لیے یہ سب الجبرا سے بھی مشکل کام ثابت ہو
رہا تھا۔
کیسے کیا جائے؟ آخر کیسے؟ میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری
آج تک حل نہ ہوسکی۔ میں نے جب بھی خود کو بچوں میں جاکر بٹھایا تو خود کو گمشدہ
پایا۔ کبھی گھر کی صفائی میں ،کبھی گندے برتنوں کی دھالئی میں اور کبھی اپنی نفسیاتی
اور جذباتی الجھنوں میں خود کو جکڑا پایا۔
کیا یہ گورے نے کہا تھا یا ہم ہی اپنے غلط مشاہدات و ادھورے علم کی بنا پر اسے
دوسری انتہا تک دھکیلتے چلے گئے؟ شاید اس لیے کہ جو گورے نے کہا تھا وہ ہم تک
بہت کم پہنچا۔ ہم نہ اس کی پوری بات سُن سکے اور نہ سمجھ سکے۔ ہم نے گوروں کے
دیس کو نہ جانا ،ان کے خاندانی اور معاشی نظام ،رویے اور کردار نہ جانے۔ ہم نے
محض اس کی چند باتیں سُنیں اور اسے اٹھا کر اپنے حاالت و واقعات ،اپنے نظام اور
اخالق و کردار پر ٹھونسنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری لٹیا پار نہ اتر سکی
ہم نے آپ جناب کرکے بچوں کو رہنمائی دینے کے بجائے ان کو گھروں کا ڈکٹیٹر بنا دیا
ہماری پچھلی 50سالہ نسلوں پر اس قدر غیر ضروری علم کا بوجھ تھا کہ تجربات کی
بھٹی میں جتنی بُری طرح ہمیں پیسا گیا شاید ہی ٹیکنالوجی سے پہلے کے زمانے کا انساں
پستا ہوگا۔ جہاں ہر وقت ایک نئی تھیوری ہمارے سامنے پیش کردی جاتی ہے جس کا
ہمارے زمینی حقائق سے ،ہمارے معاشرے سے اور ہمارے مسائل سے کسی بھی قسم کا
نباہ ممکن نہیں۔ جہاں ہمیں ہر روز صبح شام ایک ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے
ماضی ،حال اور مستقبل سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا
مگر اس کے باوجود ہمیں محسوس کرکے اپنے پیچھے بند آنکھوں سے چال لینے پر قادر
ہے۔
ہم مایوسیوں اور مشکالت میں پھنس جانے کے لیے
بے بس ہوچکے ہیں۔ ہمارے آس پاس کے تربیت دینے
والے استاد ناپید ہوچکے ہیں۔ ہم مختلف عالقوں اور
بچوں کا اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنا کیا اثرات مرتب کرتا
ہے؟
ویب ڈیسک
ستمبر 10 2021
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اسکرین کے سامنے گزارے جانے واال
وقت بچوں کے لیے نقصان دہ نہیں۔
اس تحقیق کے لیے 9اور 10سال کی عمر کے 11ہزار 800بچوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا
گیا تھا جن سے اسکرین ٹائم ،والدین کی جانب سے رویوں کے مسائل کی شکایات اور
ذہنی صحت کی جانچ پڑتال سوالناموں کی مدد سے کی گئی تھی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے روزانہ اوسطا ً 45منٹ زیادہ وقت
گزارتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ جو بچے زیادہ وقت اسکرین کے سامنے وقت گزارتے ہیں ان
کی نیند بدتر ہوتی ہے ،تعلیم متاثر اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل کا امکان ہوتا ہے۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زندگی کے دیگر اسکرین کے سامنے گزارے جانے
والے وقت سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر بچے کی سماجی و معاشی حیثیت رویوں کے حوالے سے ڈھائی گنا
زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے ،جبکہ اسکرین کے سامنے گزارے جانے واال وقت محض 2
فیصد اثرات مرتب کرتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں سامنے آنے والی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا
تھا کہ اسکرین ٹائم بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ،مگر کچھ رپورٹس میں یہ
بھی بتایا گیا کہ ان منفی اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق
کے ڈیٹا میں ہم نے دریافت کیا کہ اسکرین ٹائم اور منفی اثرات کے درمیان تعلق ہے مگر
وہ بہت زیادہ نہیں۔مگر انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ چونکہ تحقیق میں صرف 9سے 10
کووڈ 19کی ویکسینز کے استعمال کا ایک اور بہترین فائدہ سامنے آگیا
ویب ڈیسک
ستمبر 09 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی
ویکسینیشن سے نہ صرف کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19سے تحفظ ملتا
ٰ
دعوی امریکا میں ہونے والی ایک نئی ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔یہ
طبی تحقیق میں سامنے آیا۔سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد کو
دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے
کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔
یہ تحقیق بنیادی طور پر سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایل طویل المعیاد پراجیکٹ کا
حصہ ہے جس کا مقصد کورونا کی وبا سے امریکی عوام کی ذہنی صحت پر مرتب اثرات
کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔
اس پراجیکٹ کے لیے امریکا بھر میں 8ہزار سے زیادہ افراد کو سروے فارم بھیجے
گئے تھے تاکہ وبا سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔
سرویز کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی اکثریت کو وبا کے باعث کسی حد تک ذہنی
بے چینی اور ڈپریشن کا سامنا ہوا۔
ابتدائی نتائج کے بعد محققین کی جانب سے ہر 2ہفتے بعد ان افراد کو سروے فارم بھیج کر
ذہنی صھت میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھا گیا۔
تازہ ترین سروے میں ان افراد سے کووڈ 19ویکسینز کے استعمال کے بعد ذہنی صحت پر
مرتب اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پہلے بہت زیادہ ڈپریس تھے ویکسینیشن کے بعد اس
کی شرح میں 15فیصد جبکہ معمولی ڈپریشن کی شرح میں 4فیصد تک کمی آئی۔
محققین نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا کہ ممکنہ طور پر ویکسینیشن کے بعد
10الکھ افراد کی ذہنی پریشانی میں کمی آئی۔
کووڈ کے مریضوں میں جان لیوا بلڈ کالٹس بننے کی اہم وجہ دریافت
ویب ڈیسک
ستمبر 10 2021
https://www.dawnnews.tv/news/1168134/
ویب ڈیسک
ستمبر 10 2021
کووڈ 19سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے سنبھلنے کے بعد کئی ہفتوں یا
مہینوں تک مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔ایسے مریضوں کے لیے النگ کووڈ کی
اصطالح استعمال کی جاتی ہے اور طبی ماہرین اب تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ ایسا کیوں
ہوتا ہے۔
مگر اب ایک نئی تحقیق میں بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی طویل المعیاد عالمات
کی ممکنہ وجہ کو شناخت کیا گیا ہے۔
امریکا کی آرکنساس یونیورسٹی ار میڈیکل سائنسز کی تحقیق میں یہ وجہ دریافت کی گئی۔
تحقیق میں ایک اینٹی باڈی کو دریافت کیا گیا جو ابتدائی بیماری کے ہفتوں بعد نمودار ہوکر
حملہ آور ہوتی ہے اور مدافعتی نظام کے بنیادی ریگولیٹر کو متاثر کرتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے لگ بھگ 30فیصد مریضوں کو ابتدائی بیماری کے بعد
طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف عالمات جیسے تھکاوٹ ،دماغی دھند اور سانس لینے میں
دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔تحقیق میں النگ کووڈ ک مالیکیولر میکنزمز پر روشنی ڈالی
گئی۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے جو دریافت کیا وہ ایک اینٹی باڈی کے تسلسل کا نتیجہ نظر آتا
ہے ،یہ ایک اہم پیشرفت ہے اور اس پر تحقیق مزید آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔تحقیق میں
دریافت کیا گیا کہ مدافعتی نظام کے لیے مسائل کا باعث بننے والی اینٹی باڈی ایس 2
انزائمے پر حملہ آور ہوتی ہے۔ایس 2انزائمے وائرس کے خالف جسم کے ردعمل کو
ریگولیٹ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے ،مگر حملہ آور اینٹی باڈی ایس ٹو کے افعال میں
تاہم امریکا میں ہونے والی ایک حالیہ بڑی تحقیق سے ثابت ہوا کہ جو لوگ کورونا سے
تحفظ کی ویکسین نہیں لگواتے ان میں کورونا میں مبتال ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار
جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
امریکا کے طبی ادارے ’سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پروینٹ کنٹرول سینٹر‘ (سی ڈی سی) کی
تحقیق کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے افراد میں کورونا میں مبتال ہونے کے بعد
ہسپتال جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین نے امریکا کی 13مختلف ریاستوں میں 6الکھ سے زائد کورونا مریضوں کے ڈیٹا
کا جائزہ لیا ،جس کے بعد نتائج سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر ویکسین کے کئی فوائد
ہیں۔
تحقیق کے نتائج سےمعلوم ہوا کہ جو لوگ ویکسین نہیں لگواتے ،کورونا میں مبتال ہونے
کے بعد ایسے افراد کے ہسپتال میں داخل ہونے کے امکانات 10فیصد بڑھ جاتے ہیں
نتائج کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے وبا کا شکار ہونے کے بعد مرنے کے
امکانات بھی 11فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
سی ڈی سی کی جانب سے کی گئی ایک اور تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجموعی
طور پر تمام ویکسینز کورونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کا 60سے 90
فیصد فائدہ ہوتا ہے۔دوسری تحقیق کے مطابق کورونا کے تمام بشمول ڈیلٹا اقسام میں
موڈرینا کی ویکسین سب سے زیادہ 95فیصد تک فائدہ مند ہوتی ہے جب کہ فائزر اور
ٓاسٹررزینکا سمیت دیگر ویکسینز بھی 60سے 80فیصد تک فائدہ دیتی ہیں۔تحقیق کے
ویب ڈیسک
ستمبر 12 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی
ورزش کرنا جسمانی صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے مگر یہ عادت ذہنی امراض سے
بچاؤ کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔
یہ بات سوئیڈن میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
لیونڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنا ذہنی تشویش و بے چینی (طبی
زبان میں انزائٹی) سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق انزائٹی ڈس آرڈرز کا سامنا دنیا کی 10فیصد آبادی کو ہوتا ہے
اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ عام ہوتے ہیں۔
یہ پہلے بھی خیال کیا جاتا تھا کہ ورزش کرنے کی عادت ذہنی بے چینی اور تشویش میں
کمی النے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اب اس تحقیق میں یہ خیال درست ثابت ہوگیا جس میں 1989سے 2010کے دوران کراس
کنٹری اسکائی ریس کا حصہ بننے والے لگ بھگ 4الکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی
گئی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جسمانی طور پر سرگرم افراد میں انزائٹی کا امکان دیگر کے
مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق ہم نے دریافت کیا کہ جسمانی طور پر زیادہ متحرک طرز زندگی کو
اپنانے والے افراد میں انزائٹی ڈس آرڈرز کا خطرہ آنے والے 21برسوں کے دوران لگ
بھگ 60فیصد تک کم ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مردوں اور خواتین دونوں میں جسمانی طور پر متحرک طرز زندگی اور
انزائٹی کے درمیان خطرہ کم ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ مردوں اور خواتین ایتھلیٹس میں ورزش کی کارکردگی کی
سطح اور انزائٹی کے خطرے میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
یعنی جو خواتین جسمانی طور پر کم متحرک ہوتی ہیں ان میں انزائٹی کا خطرہ لگ بھگ
100فیصد بڑھ جاتا ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1168270/
ویب ڈیسک
ستمبر 12 2021
تیسری تحقیق میں 5ہسپتالوں میں زیرعالج کووڈ کے مریضوں میں 2ایم آر این اے
ویکسینز (موڈرنا اور فائزر/بائیو این ٹیک) کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
یکم فروری سے 6اگست کے ڈیٹا میں دریافت ہوا کہ ایم آر این اے ویکسینز ہسپتال میں
داخلے سے تحفظ کے لیے 87فیصد تک مؤثر ہیں اور ڈیلٹا کے پھیالؤ کے باوجود ٹھوس
تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق اس عرصے میں ہسپتال میں داخلے سے بچاؤ کے لیے ویکسینز کی
افادیت 65سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں گھٹ کر 80فیصد تک پہنچ گئی مگر
18سے 64سال کی عمر میں یہ شرح 95فیصد تھی
https://www.dawnnews.tv/news/1168266/
کورونا کی نئی قسم مو اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت کرنے والی
قرار
ویب ڈیسک
ستمبر 12 2021
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اگست 2021کے آخر میں کورونا وائرس کی ایک
اور قسم کو 'ویرینٹس آف انٹرسٹ' میں شامل کرلیا تھا۔اب کورونا کی اس قسم کے حوالے
قسم وائرس ) (Muسے ایک نئی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق مو
ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف بہت زیادہ مزاحمت کی صالحیت رکھتی ہے۔
یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی۔
ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے
خالف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ
دیگر اقسام سے کیا گیا۔
اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات
کا موازنہ ایسے 18افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا ،جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی یا وہ
کووڈ 19کا شکار رہ چکے تھے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خالف دیگر تمام اقسام
بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔
بیٹا کورونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار
دیا جاتا ہے۔
مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں
گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔
دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف 18افراد کے نمونوں کا
تجزیہ کیا گیا تھا۔
ڈبلیو ایچ او کے وبا کے حوالے سے ہفتہ وار بلیٹن کے مطابق مو قسم میں ایسی میوٹیشنز
کا مجموعہ ہے جو مدافعتی ردعمل سے بچنے کی خصوصیات کا عندیہ دیتا ہے۔
کورونا کی یہ نئی قسم سب سے پہلے جنوری 2021میں جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا
میں دریافت ہوئی تھی اور اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کیسز کو
دریافت کیا جاچکا ہے۔
ابتدائی ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کے دفاع کے خالف ممکنہ طور پر اسی
طرح حملہ آور ہوسکتی ہے جیسے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا کی قسم
بیٹا کرتی ہے ،مگر تصدیق کے لیے مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1168271/
ویب ڈیسک
اتوار 12 ستمبر2021
جب ڈیلٹا ویرئینٹ تباہی مچا رہا تھا اس وقت ویکسینیٹڈ فراد کے کورونا میں مبتال ہونے
)اور ہالکتوں کی شرح بہت کم تھی ،تحقیق
ک
ورونا ویکسین پر ہونے والی حالیہ امریکی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا
ویکسین دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے ساتھ ہی شرح اموات میں
کمی النے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق امریکا کے بیماریوں سے تحفظ اور ان پر کنٹرول پانے کے مراکز
(سی ڈی سی) میں پیش کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسی نیشن نہ
کرانے والے افراد میں خطرناک بیماریوں میں مبتال ہونے والوں کی تعداد ساڑھے 4گنا
زائد ہے جب کہ مکمل طور پر ویکسی نیٹڈ افراد کے مقابلے میں ویکسین نہ کرانے والے
افراد میں مرنے والوں کی تعداد 11گنا زائد ہے۔
اس بابت سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول ( سی ڈی سی) کی ڈائریکٹر روشیل ویلینسکی کا کہنا تھا
کہ تحقیق سے سامنے ٓانے والے اعداد و شمارسے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسی نیشن ہمیں
کووڈ 19کی پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس مطالعے میں رواں سال اپریل تا جوالئی کے وسط تک 13
ریاستوں کے بڑے شہروں میں اسپتالوں میں داخل ہونے والے کووڈ 19کے 6الکھ کیسز
کو شامل کیا گیا۔
ولینسکی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں ٓاخری 2ماہ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ
جس وقت ملک میں کورونا کا ڈیلٹا ویرئینٹ تباہی مچا رہا تھا اس وقت ویکسین نہ کروانے
ویب ڈیسک
پير 13 ستمبر2021