You are on page 1of 154

‫ویکلیوار‬

‫ویکلی‬‫ہفتہ‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫‪Issue 141 – Vol. 5‬‬
‫تحقیقات ‪06 Sep.21 – 12‬‬ ‫ویکلی طِ ّبی‬
‫‪Sep. 2021‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال ہفتہ‬
‫وارجریدہ‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫جلد ‪،۵‬شمار ‪۱۴۱‬‬


‫ستمبر ‪ ۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر ‪۶ ۲۰۲۱‬‬
‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے‬ ‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری‬
‫اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں‬
‫تقریبا پورے پاکستان میں اسکی سرکولیشن کی جاتی‬
‫ہے اورآپکے کاروبار‪ ،‬پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ‬
‫ادارتی ممبران‬
‫کابہترین ذریعہ ہے‬

‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬


‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تفصیل‬
‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کتے کے کاٹنے سے انسان پاگل کیوں ہوتا ہے ؟ جانیے‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪6 2021‬‬

‫کتے کے کاٹنے کے بعد اس کے لعاب میں موجود ریبیز وائرس انسان کے لئے جان لیوا‬
‫ہوسکتا ہے‪ ،‬اس لئے سگ گزیدگی یعنی کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش ٓانے کے بعد اینٹی‬
‫ریبیز\ ویکسین (اے ٓاروی) لگانا ضروری ہوتا ہے۔‬
‫ہمارے پورے جسم میں نروز کا جال پھیال ہوا ہے‪ ،‬جو کہ ہمارے جسم اور دماغ کے‬
‫درمیان رابطے کا ذریعہ ہے اور ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا‬
‫پڑتا ہے۔‬
‫کتے ایک وائرس “ریبیز” کی وجہ سے پاگل ہوتے ہیں۔ جب ریبیز کا وائرس کتے پر حملہ‬
‫کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں کتا پاگل ہو جاتا ہے اورکتے کے لعاب (تھوک) میں بھی‬
‫ریبیز وائرس موجودرہتا ہے‪ ،‬جب یہی پاگل کتا کسی انسان کو کاٹتا ہے تو وہ اپنے لعاب‬
‫کے ذریعے متاثرہ شخص کی خون میں اپنے جراثیم ان میں منتقل کردیتا ہے۔‬
‫یہ وائرس جب انسانی وجود میں عروج پر پہنچ جاتے ہے تو پھر اس کا عالج ناممکن‬
‫ہوجاتا ہے اور انسان موت کے منہ میں چال جاتا ہے۔ ریبیز وائرس نروس سسٹم کے‬
‫ذریعے انسانی دماغ پر حملہ اور ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫پاگل کتے کے کاٹنے کے بعد انسان میں جب یہ وائرس منتقل ہوتا ہے تو اس وائرس کے‬
‫نتیجے میں انسان میں کچھ عالمات پائے جاتی ہیں جیسا کہ پانی سے ڈرنا۔غصہ ہونا‬
‫‪،‬کنفیوز ہونا‪ ،‬دہشت ‪ ،‬رویے میں تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔‬

‫کتا اگر کسی حالل جانور کو کاٹ لے اور جانور پاگل ہو جائے تو اس کو ذبح کرنے کے‬
‫بعد اس کا گوشت کھانے سے انسان پاگل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کے بارے میں میڈیکل سائنس‬

‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کہتی ہے کہ اگر ہم ریبیز سے متاثرہ جانور کا گوشت کا استعمال کریں تو ریبیز کا وائرس‬
‫تقریبا ً ‪ 50‬ڈگری سینٹی گریڈ پر ختم ہوجاتا ہے۔‬
‫اس لیے کھانے کو اچھے سے پکایا (گرم کیا )جائے تو ریبیز وائرس ختم ہوجاتا ہے‪ ،‬پھر‬
‫اس کے بعد ریبیز کو معدے کا تیزاب بھی ختم کرتا ہے اور نظام انہضام کے اینزیمز بھی‬
‫اور پھر نرو میں داخل ہونے کا چانس بھی نہیں رہتا اور اس بات کا چانس نہ ہونے کے‬
‫برابر ہے کہ گوشت کھانے سے ریبیز ہوگا مگر پھر بھی احتیاط ضرور کرنی چاہیے۔‬
‫ریبیز\ کا وائرس کرتا کیا ہے ؟‬
‫ریبیز کا وائرس دماغ اور حرام مغز میں جاکر وہاں انفلیمیشن کرواتا ہے اور اپنی تعداد‬
‫بڑھتا ہے جس سے مختلف قسم کے مسائل سامنے آتے ہیں جیسے کہ فالج وغیرہ جو کہ‬
‫ریبیز کی عالمات بھی ہیں۔ ریبیز کو دماغ تک جانے کے لیے ان نروز کا راستہ لینا پڑتا‬
‫ہے یعنی کہ ریبیز کا وائرس ان نروز کے اندر سے‬
‫دماغ اور حرام مغز تک جاتا ہے یعنی کہ جب ایک جانور یا انسان کے جسم میں ریبیز‬

‫کا وائرس داخل ہوگیا اور وہ وہاں پر اپنی تعداد بھی بڑھانے لگ گیا مگر تب تک ریبیز کا‬
‫اثر یا عالمات نہیں ہونگی جب تکہ یہ ریبیز کسی نروز میں داخل ہوکر دماغ تک نہیں پہنچ‬
‫جاتا۔ اس کام کے لیے ریبیز کا وائرس کسی موٹر نروز (جو دماغ کا سگنل جسم تک لے‬
‫کے آتی ہے) میں داخل ہوتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dog-bites-rabies-anti-rabies-vaccine/‬‬

‫ٰ‬
‫دعوی کرنے والی خاتون‪ ،‬ڈاکٹرز نے ‪40‬‬ ‫سال تک مسلسل جاگنے کا‬
‫تحقیق کی تو ایسا انکشاف کہ یقین نہ آئے‬
‫‪Sep 07, 2021 | 18:47:PM‬‬

‫بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) ماہرین کے مطابق انسان بغیر سوئے چند دن ہی نکال پاتا ہے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کردیا‬ ‫لیکن چین میں ایک خاتون نے ‪40‬سال تک مسلسل جاگنے کا ایسا حیران کن‬
‫ہے کہ سن کر یقین کرنا مشکل ہو جائے۔ دی سن کے مطابق اس خاتون کا نام ’لی ژین‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ‬ ‫ینگ‘ ہے اور وہ چین کے مشرقی صوبے ہینان کی رہائشی ہے۔ اس نے‬
‫وہ ایک ایسی بیماری میں مبتال ہے کہ گزشتہ ‪40‬سال سے مسلسل جاگ رہی ہے اور اس‬
‫پر کوئی دوا بھی اثر نہیں کرتی۔‬
‫لی ژین ینگ کا کہنا تھا کہ اس کی بیماری نے ڈاکٹروں کو بھی حیران کر رکھا ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق لی ژین ینگ اپنے عالقے میں ایک سیلیبریٹی کی حیثیت رکھتی ہے‬
‫اور ہر شخص اسے جانتا ہے۔ ایک بار اس کے ہمسایوں نے اس کے کبھی نہ سونے کے‬
‫دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے اس کے ساتھ جاگنے کا فیصلہ کیا۔ وہ تمام رات لی کے‬
‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ساتھ تاش کھیلتے رہے‪ ،‬ایک ڈیڑھ دن میں ہی تمام ہمسائے فرش پر ہی بے سدھ ہو گئے‬
‫مگر لی جاگتی رہی۔ لی کے شوہر لیو شوچیان کا کہنا ہے کہ ابتداءمیں ڈاکٹر اسے بے‬
‫خوابی کی بیماری قرار دیتے رہے اور نیند کی گولیاں تجویز کرتے رہے۔ میں نے لی کو‬
‫نیند کی گولیاں ال کر دیں لیکن وہ بھی بے کار گئیں اور انہیں کھانے کے بعد بھی لی کو‬
‫نیند نہیں آئی۔ لی کا کہنا ہے کہ آخری بار وہ ‪5‬سال کی عمر میں سوئی تھی۔‬
‫لی کی اس صورتحال پر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کے مکمل معائنے کے بعد بتایا ہے‪ ‬‬
‫کہ ایسا نہیں ہے کہ لی کبھی سوتی ہی نہیں‪ ،‬مگر اس کا سونے کا طریقہ دوسروں سے‬
‫مختلف ہے۔ وہ اپنے شوہر سے باتیں کرتے ہوئے نیند پوری کر لیتی ہے۔ جب وہ اپنے‬
‫شوہر سے باتیں کرتی ہے تو اس کی آنکھیں جھپکنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہی وہ‬
‫وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی نیند لے رہی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے‬
‫ساتھ باتیں بھی کر رہی ہوتی ہے۔یہ بیماری ’نیند میں چلنے کی بیماری‘ جیسی ہی ہے۔ اس‬
‫بیماری میں سوتے ہوئے لی باتیں بھی کر سکتی ہے اور ایسے دکھائی دیتی ہے جیسے‬
‫جاگ رہی ہو اور اپنے مکمل حواس میں ہو۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ نیند‬
‫میں باتیں کرتے ہیں‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/07-Sep-2021/1337634‬‬

‫ڈبے کے دودھ کی بجائے ماں کا دودھ بچے کے دل کو توانا رکھتا ہے‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬بدھ‪ 8  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫ماں کا دودھ قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کے دل کے کئی نقائص دور کرکے انہیں‬
‫توانا بناتا ہے۔‬
‫ٓائرلینڈ‪ :‬اگرچہ ماں کے دودھ کے کئی فوائد سامنے ٓاتے رہے ہیں اور اب معلوم ہوا ہے‬
‫کہ شی ِرمادر نومولود بچے کے دل کو توانا رکھتا ہے۔ بالخصوص وہ بچے جو نو ماہ کی‬
‫بجائے ٓاٹھ ماہ یا اس سے کم مدت میں ٓانکھ کھولتے ہیں۔‬
‫ٓائرلینڈ میں واقع رائل کالج ٓاف سرجنز سے وابستہ ڈاکٹر عفیف ال خفاش کہتے ہیں کہ ماں‬
‫کا دودھ بچے کی زندگی کا درجہ رکھتا ہے۔ تاہم پہلی مرتبہ پری میچیور (قبل ازوقت) پیدا‬
‫ہونے والے بچوں کے قلب اور ماں کے دودھ کے درمیان تعلق سامنے ٓایا ہے۔ وہ کہتے‬
‫ہیں کہ بچے کے پہلے برس ماں کا دودھ اس کی صحت اور قلبی تندرستی میں اہم کردار‬
‫ادا کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ بات طے ہے کہ اپنے وقت پر پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں کم مدت میں جنم‪ ‬‬
‫لینے والے بچوں کا دل کمزور ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچے ٓاگے چل کر‬
‫دل کے مریض بھی بن سکتےہیں۔ ان میں بلڈ پریشر اور ہارٹ فیل کا خطرہ بھی پیدا ہسکتا‬
‫امراض قلب بھی ہوتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بچوں میں موت کی وجہ‬
‫اس ضمن میں ایسے ‪ 80‬بچوں کا جائزہ لیا گیا جنہوں نے معمول سے ہٹ کر اپنی مدت‬
‫سے پہلے دنیا میں ٓانکھ کھولی تھی۔ اس وقت وہ صرف ماں کا دودھ پی رہے تھے اور‬
‫صرف ایک سال میں ان کے دل کے افعال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔ یہاں تک کہ وہ وہ‬
‫مکمل صحتیاب اور بڑے ہوگئے تب بھی ان میں یہ مثبت کیفیت برقرار رہی ۔‬
‫ماہرین نے دیکھا کہ جن بچوں کو دنیا میں ٓاتے ہی ماں نے دودھ پالیا ایک سال کی عمر‬
‫تک ان بچوں کے دل کی ساخت اور افعال بہتر ہوئے۔ لیکن جن بچوں کو تجرباتی طور پر‬
‫فارمولہ (ڈبےکا) دودھ دیا گیا ان میں یہ بہتری نہیں ہوئی۔‬
‫اس اہم تحقیق کی تفصیالت ‪ 30‬اگست کو جرنل ٓاف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع‬
‫ہوئی ہیں۔‬
‫’وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کے دل میں کئی نقائص ہوسکتےہیں۔ لیکن ماں کا‬
‫دودھ اس کا بہترین عالج ثابت ہوسکتا ہے جو ایسے بچوں کے قلب کو درست کرتے ہوئے‬
‫عین اسی تندرست بچوں کے دل کی مانند بنادیتا ہے‪ ‘،‬ڈاکٹر عفیف نے کہا۔ انہوں نے مزید‬
‫بتایا کہ جن بچوں کو ماں کے عالوہ دیگر اقسام کے دودھ دیئے گئے ان کے دل میں یہ‬
‫خاصیت نہ پیدا ہوسکی۔‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس اہم تحقیق کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماں کے دودھ کے جہاں ہزاروں فوائد ہیں وہیں‬
‫اس میں بچے کے دل کے لئے شفا بھی موجود ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ماؤں‬
‫کی جانب سے بچے کو دودھ پالنے کی ہرممکنہ حوصلہ افزائی کی جائے‬

‫‪https://www.express.pk/story/2221798/9812/‬‬

‫کورونا مریضوں میں مختلف عالمات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪  7 2021‬‬

‫اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اس کے باوجود وہ‬
‫بیمار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں عالمات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں‬
‫معمولی عالمات نظر آتی ہیں۔‬

‫ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس صورتحال کی وجہ جاننے کیلئے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے‬
‫اور‪ ‬تحقیق‪ ‬کے بعد اس کا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ کورونا وائرس کی وبا کو اب‬
‫پونے دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر‪  ‬اس کے حوالے سے بہت کچھ ایسا ہے جس کا‬
‫علم اب تک نہیں ہوسکا۔‬
‫اس وبائی بیماری کا ایک معمہ یہ بھی ہے کہ کچھ افراد اس سے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں‬
‫اور کچھ میں عالمات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔‬

‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یعنی مریضوں میں مدافعتی ردعمل مختلف ہوتا ہے جس کا نتیجہ بھی مختلف شکلوں میں‬
‫نکلتا ہے جیسے کچھ میں عالمات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ متعدد ہالک ہوجاتے ہیں مگر اب‬
‫طبی ماہرین نے اس کا ممکنہ جواب دیا ہے۔‬
‫امریکا کے انسٹیٹوٹ فار سسٹمز بائیولوجی کی تحقیق میں بیماری کے ردعمل میں مدافعتی‬
‫خلیات کو ریگولیٹ کرنے والی میٹابولک تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ‬
‫ہمیں کووڈ ‪ 19‬کے حوالے سے متعدد اقسام کے مدافعتی ردعمل کا عم تھا مگر اس‬
‫حیاتیاتی عمل کو اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد میٹابولک راستے کے ان ہزاروں حیاتیاتی مارکرز کا تجزیہ‬
‫کیا جو مدافعتی نظام‪  ‬پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مدافعتی۔ میٹابولک تبدیلیوں کے کچھ سراغ‬
‫دریافت کیے جو ممکنہ طور پر بیماری کی سنگین شدت کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ مدافعتی افعال کے ان مشاہدات سے کووڈ ‪ 19‬کے خالف‬
‫جسم کے دیگر ردعمل کو جاننے میں ملے گی۔ محققین نے بتایا کہ اس بارے میں سمجھنے‬
‫سے ممکنہ طور پر بہتر عالج کی دریافت کا راستہ مل سکے گا جو مسائل کا باعث بننے‬
‫والی مدافعتی یا میٹابولک تبدیلیوں کو ہدف بناسکے گا۔‬
‫اس تحقیق میں خون کے ‪ 374‬نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جو مریضوں میں کووڈ کی تشخیص‬
‫کے پہلے کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے۔ پھر ان نمونوں میں پالزما اور سنگل مدافعتی‬
‫خلیات کا تجزیہ کیا گیا‪ ،‬اس تجزیے میں ‪ 1387‬جینز میٹابولک کے راستے اور ‪1050‬‬
‫پازما میٹابوالئٹس سے منسلک تھے۔‬
‫پالزما کے نمونوں میں ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت میں اضافہ میٹابولک‬
‫تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے سنگل خلیے کے سیکونسنگ کے ذریعے یہ بھی‬
‫دریافت کیا کہ مدافعتی خیات کی ہر اہم قسم کا اپنا مخصوص میٹابولک انداز ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ میٹابولک ری پروگرامنگ مدافعتی خلیات کی‬
‫اقسام سے مخصوص ہوتی ہے اور مدافعتی نظام کی پیچیدہ میٹابولک ری پروگرامنگ‬
‫پالزما میٹابولوم سے منسلک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہر مریض میں بیمای کی‬
‫شدت اور موت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیقی کام سے کووڈ کے خالف زیادہ مؤثر عالج تشکیل دینے میں‬
‫مدد مل سکے گی‪ ،‬مریضوں سے حاصل کیے گئے متعدد ڈیٹا سیٹس سے بیماری کے‬
‫متعدد مختلف پہلوؤں کا عندیہ ملتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچ بائیو‬
‫ٹیکنالوجی میں شائع ہوئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-patient-symptoms-research/‬‬

‫روزانہ رائی دانہ کھانے کے صحت پر حیران کن اثرات‬

‫‪ ‬ریحان عابدی‬
‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ستمبر ‪ 7 2021‬‬
‫آپ نے بھی کبھی مبالغہ آرائی‪ ،‬کسی بات کو طول دینے یا اسے بحث کے سبب بگاڑ کی‬
‫حد تک لے جانے پر بڑے بوڑھوں سے خاص طور پر سنا ہو گا کہ وہ تو رائی کا پہاڑ‬
‫بنانا جانتا ہے یا اس نے رائی کا پہاڑ بنا لیا۔‬

‫یہی رائی ہمارے کچن میں پکوان سے لے کر صحت و عالج کے لیے بھی استعمال ہوتی‬
‫ہے۔ اسے ہم مصالہ جات میں شمار کرتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے دانوں‌ کی شکل میں‌‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫رائی دانے ہماری صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں جن میں گلوکوسینولیٹ‪ ª‬پایا جاتا ہے‪ ،‬یہ‬
‫اسے منفرد ذائقہ دیتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کہتے ہیں کہ رائی دانے مختلف عالقوں میں کاشت ہونے کے سبب رنگ اور‬
‫جسامت میں‌ مختلف ہوسکتے ہیں۔رائی دانے فیٹی ایسڈز ’اومیگا تھری‪ ،‬سیلینیوم‪ ،‬مینگنیز‪،‬‬
‫میگنیشیم‪ ،‬کیلشیم‪ ،‬پروٹین‪ِ ،‬زنک سے بھرپور ہوتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق رائی میں چنبل کے سبب ہوجانے والے زخموں اور انفیکشنز کا مقابلہ‬
‫کرنے کی صالحیت ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے رائی دانے کو روزانہ کی بنیاد پر خوراک میں شامل کرنا اور اس‬
‫سے مستفید ہونا تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫رائی دانے کے روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے بے شمار طبی فوائد اور رونما‬
‫ہونے والی جسمانی تبدیلیاں مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫بلڈ پریشر کے مسائل میں معاون‬

‫رائی دانے میں موجود میگنیشیم بلند فشار خون کو کم کرتا ہے اور یہ ٓادھے سر کے درد‬
‫کی شدت میں بھی کمی التا ہے۔‬
‫بہتر نظام ہاضمہ‬

‫ہاضمے کی بہتر کارکردگی کے لیے رائی دانہ بہترین سمجھا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ یہ انسانی‬
‫جسم میں میٹابولزم کے عمل کو مضبوط بناتے ہیں اور ہاضمے کے مسائل کو کم کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬اس کے نتیجے میں انسان کا جسمانی وزن کم ہوتا ہےخصوصا ً باہر نکال پیٹ اندر‬
‫جانے لگتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جوڑوں کے درد کا عالج‬

‫کیلشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے سبب یہ عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو‬
‫ہڈیوں سے متعلق مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں‪ ،‬چہرے سے جھریوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔‬
‫کمر کے درد یا پٹھوں کی اکڑن کے مسئلے سے دوچار افراد رائی دانے چبا لیں‪ ،‬اس سے‬
‫درد میں کمی ٓائے گی اور پٹھوں کی سختی اور سوجن کم ہوگی۔‬
‫وائرل انفیکشن‪ ،‬الرجی میں افاقہ‬

‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫رائی دانوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ نزلے کی شدت کو کم کرتے ہیں اور سانس کی نالی‬
‫میں تنگی سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‬
‫اگر کسی کو مٹی سے الرجی کے سبب سانس لینے میں دشواری پیش ٓاتی ہے تو وہ رائی‬
‫کے بیج چبالے‪ ،‬افاقہ ہوگا۔‬
‫کینسر سے نجات‬

‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫رائی دانوں کے اندر ایسے انزائمز پائے جاتے ہیں جو بڑی ٓانت کے سرطان کا خاتمہ‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬یہ سرطانی خلیوں کو بڑھنے اور پیدا ہونے سے روکنے کی بھی صالحیت‬
‫رکھتے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/amazing-health-effects-of-eating-rye-grains-‬‬
‫‪daily/‬‬

‫گاڑیوں میں سفر کے دوران الٹیاں کیوں آتی ہیں؟‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪7 2021‬‬

‫کچھ لوگ اس بات سے بہت پریشان ہوتے ہیں کہ ان کو گاڑیوں‌ میں‌ س\\فر کے دوران متلی‬
‫ہوتی ہے اور الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں‪ ،‬اس وجہ سے ایسے لوگ سفر سے ک\\تراتے ہیں‪،‬‬
‫لیکن سوال یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ایسا کیوں ہوتا ہے؟‬
‫دراصل سفر کرتے وقت چکر آنے یا الٹیاں آنے کی وجہ یہ سمجھی ج‪ªª‬اتی ہے کہ س‪ªª‬فر کے‬
‫دوران دماغ کو جسم کے مختلف حصوں سے متضاد معلومات ملنا شروع ہو جاتی ہیں‪ ،‬اور‬
‫دماغ ایک طرح سے کنفیوز ہو جاتا ہے۔‬
‫جب ہم پیدل چلتے ہیں تو ہماری آنکھیں‪ ،‬ٹانگیں‪ ،‬پ‪ªª‬اؤں‪ ،‬ب‪ªª‬ازو‪ ،‬اور ک‪ªª‬انوں کے ان‪ªª‬در موج‪ªª‬ود‬
‫توازن کا نظام (بیلینسنگ سسٹم) سب دماغ کو یہ اطالع دیتے ہیں کہ ہم حرکت میں ہیں۔‬
‫اس کے برعکس‪ ª‬اگر آپ بس میں سفر کر رہے ہوں‪ ،‬تو آپ کے کانوں کے اندر موجود‬
‫بیلنسنگ کا نظام دماغ کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ آپ حرکت میں ہیں‪ ،‬لیکن آپ کا جسم دماغ‬
‫کو یہ بتاتا ہے کہ آپ ایک سیٹ پر بیٹھے ہیں‪ ،‬یعنی ساکن ہیں‪ ،‬جب کہ آپ کی آنکھیں بھی‬
‫بس کے اندر ہر چیز کو ساکن دیکھتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تو اس طرح کے متضاد سگنلز سے دماغ غالبا ً کنفیوز ہو جاتا ہے اور معدے کو الٹی‬
‫سیدھی ہدایات بھیجنے لگتا ہے۔‬
‫لیکن یاد رہے کہ ٓاپ کو چکر اور وومٹنگ صرف اس وقت ٓاتے ہیں جب ٓاپ تیزی سے‬
‫تبدیل ہوتے منظر پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬اگر ٓاپ گاڑی کے پردے‬
‫بند رکھیں اور باہر کے منظر پر توجہ نہ دیں تو چکر ٓائیں گے اور نہ ہی الٹیاں۔‬
‫دراصل آنکھوں کا پردۂ بصارت (ریٹینا) اور دماغ اتنی تیزی کے ساتھ امیجز کو پراسیس‬
‫نہیں کر پاتے‪ ،‬اور جب ٓاپ ذہن پر زور ڈالتے ہیں یعنی کہ اپنے دماغ کو زیادہ سے زیادہ‬
‫لیول سے آگے لے جانے کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬تو دماغ اپنی صالحیت سے ٓاگے کام‬
‫کرنے سے انکار کر دیتا ہے‪ ،‬اور اس صورت میں ٓاپ کا سر چکرانے لگتا ہے اور ٓاپ کو‬
‫الٹی ہو جاتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/vomiting-during-travel/‬‬

‫ملتانی مٹی کے کرشماتی فائدے‬


‫ویب ڈیسک‪ 7  ‬ستمبر ‪2021‬‬

‫ہر گھر میں دادی اور نانی جلد اور بالوں کی صحت اور خوبصورتی\ کو برقرار رکھنے کے‬
‫لیے ملتانی مٹی‪ ،‬جسے فلرز ارتھ بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬کا استعمال کرنے کی نصیحت دیتی‬
‫ہیں‪ ،‬فلرز ارتھ کو آسان زبان میں ملتانی مٹی کہا جاتا ہے۔‬
‫ملتانی مٹی جلد کے ساتھ ساتھ بالوں کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے‪ ،‬جلد کے تمام‬
‫مسائل کا عالج اس کے پاس ہے‪ ،‬یہ نہ صرف جلد کی رنگت کو نکھارتی ہے بلکہ جلد‬
‫کے بہت سے مسائل جیسے خارش‪ ،‬جلن سے بھی راحت پہنچاتی ہے۔ زراعت میں بھی‬
‫ملتانی‬
‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مٹی کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ دوا ہے جو خوبصورتی بڑھانے‬
‫والی خصوصیات سے ماال مال ہے۔‬
‫ملتانی مٹی کے جلد پر فوائد‬
‫موجودہ دور میں ٓالودگی‪ ،‬کاسمیٹک پروڈکٹ اور غیر صحت مند طرز زندگی کی باعث ہر‬
‫شخص دانے‪ ،‬مہاسے‪ ،‬خشک جلد‪ ،‬خشک بال‪ ،‬خشکی جیسے جلد اور بال سے متعلق‬
‫پریشانیوں کا سامنا کررہا ہے ‪ ،‬ہم اپنی جلد کو نکھارنے اور بے داغ بنانے کے لیے ہزار‬
‫روپے خرچ کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کے نتائج بھی زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے‬
‫ہیں۔ ایسی صورتحال میں ٓازمودہ گھریلو نسخے پر بھروسہ کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔‬
‫ملتانی مٹی کو جلد کو چمکدار اور نکھارنے کے لیے جانا جاتا ہے‪ ،‬یہ دانے‪ ،‬داغ‪ ،‬مہاسوں‬
‫اور سورج کی تپش کی وجہ سے کالی پڑنے والی جلد جیسے مسائل سے بھی نجات دالنے‬
‫میں مدد کرتی ہے۔ اس میں میگنیشیم‪ ،‬کوارٹز‪ ،‬سیلیکا‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬کیلشیم‪ ،‬کیلسائٹ جیسے‬
‫معدنیات پائے جاتے ہیں۔‬
‫ملتانی مٹی کے روزانہ کے استعمال سے جلد سورج کی مضر شعاعوں کے سبب جھلسنے‬
‫کے اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔‬
‫ملتانی مٹی کا لیپ لگانے سے جلد میں موجود گندگی دور ہوجاتی ہے‪ ،‬یہ جھریوں کا بھی‬
‫صفایا کرتی ہے‪ ،‬چونکہ یہ جراثیم کش خصوصیات کی حامل ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے یہ جلد کو‬
‫الرجی سے محفوظ رکھنے میں بھی کارٓامد ثابت ہوسکتی ہے‪ ،‬اس کے عالوہ اس کا‬
‫استعمال زخموں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ ملتانی مٹی کا پیسٹ میٹابولزم کو بہتر بناکر جسم میں خون کی گردش کو‬
‫بھی بہتر بناتا ہے‪ ،‬چونکہ اسے لگانے پر جلد کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے اگر‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اسے چہرے پر لگایا جائے تو یہ سوجن میں ٓارام دیتی ہے‪ ،‬ملتانی مٹی مردہ خلیوں کو‬
‫ہٹانے میں بھی کارٓامد ثابت ہوتی ہے۔‬
‫بالوں کے لیے ملتانی مٹی کے فوائد‬
‫قدیم زمانے میں شیمپو جیسی کوئی چیز موجود نہیں تھی‪ ،‬تب لوگ اپنے بال ملتانی مٹی‬
‫سے دھوتے تھے‪،‬ملتانی مٹی کا ہیئر پیک بالوں سے جوؤں کو دور کرتا ہے اور ساتھ میں‬
‫دو منہ بالوں کے لیے بھی موثر ثابت ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اور طریقے ہیں جن سے ملتانی‬
‫مٹی کی مدد سے بالوں کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‬
‫خشکی کی صورت میں ملتانی مٹھی کو میتھی کے بیجوں اور لیموں کے رس کے ساتھ مال‬
‫کر بالوں پر لگائیں اور آدھے گھنٹے کے بعد دھو لیں‪ ،‬اگر چاہیں تو اس کے بعد شیمپو‬
‫کرسکتے ہیں اور پھر کنڈیشنر لگا سکتے ہیں۔‬
‫اگر بالوں میں خشکی کا مسئلہ ہے تو ملتانی مٹی میں دہی مال کر بالوں پر لگائیں اور بیس‬
‫منٹ بعد دھو لیں۔‬
‫بے جان بالوں کے لیے ملتانی مٹھی میں تل کا تیل اور تھوڑا سا دہی مال کر اس پیک کو‬
‫بالوں پر لگائیں۔‬
‫بال ٹوٹنے کی صورت میں ملتانی مٹی ہیئر پیک کا استعمال بال کو ٹوٹنے سے روکتا ہے‬
‫اور بالوں میں نمی برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔‬
‫اگر آپ کی بالوں کی جڑیں بہت ٓائلی ہے تو ملتانی مٹی میں لیموں کا رس مال کر لگائیں‪ ،‬یہ‬
‫آپ کو چپچپا اور چکنے بالوں سے چھٹکارا دالنے میں مدد دے گا۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/perfect-benefits-of-multani-soil/‬‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گالبی نمک صحت کے لیے مفید یا مضر‪ ،‬اہم تحقیق سامنے آگئی‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 8 2021‬‬

‫دیکھنے میں تو گالبی نمک واقعی خوبصورت لگتا ہے‪ ،‬لیکن آسٹریلیا میں ایک تحقیق‬
‫میں پایا گیا ہے کہ صحت کے لیے مفید نمک سمجھے جانے کے باوجود گالبی نمک میں‬
‫اہم غذائی اجزا کی کمی ہوتی ہے بلکہ کئی مضر دھاتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔‬

‫نیوٹریشن ریسرچ آسٹریلیا نامی آزاد تحقیقاتی ادارے نے آسٹریلیا میں دستیاب گالبی نمک‬
‫کے اکتیس نمونوں پر تحقیق کی اور حیران کن حقائق بیان کئے کہ ان نمونوں میں غذائی‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اجزا کی سطح مختلف ہے‪ ،‬جس میں آئرن کی مقدار صفر سے سترہ ملی گرام فی سو گرام‬
‫اور کیلشیئم کی سطح ترپن سے پانچ سو چوہتر ملی گرام فی سو گرام کے درمیان تھی۔‬
‫تحقیق کے مطابق گالبی نمک میں سوڈیم کے عالوہ سب سے زیادہ پائی جانے والی چیزیں‬
‫میگنیشیئم‪ ،‬کیلشیئم اور پوٹاشیئم تھیں‪ ،‬لیکن ایک چائے کے چمچ گالبی نمک سے ان کی‬
‫صرف ایک سے پانچ فیصد روزانہ کی ضرورت پوری ہوگی‪ ،‬جبکہ سوڈیم کی زیادہ سے‬
‫زیادہ مقدار اسی میں پوری ہو جاتی ہے۔گالبی نمک کے وہ نمونے جن میں یہ غذائی اجزا‬
‫زیادہ تھے‪ ،‬ان میں دھاتوں کی مقدار بھی زیادہ پائی گئی‪ ،‬سب سے خطرناک بات یہ کہ ان‬
‫نمونوں میں المونیم ‪ 19‬ملی گرام فی ‪ 100‬گرام) اور سیسہ (‪ 0.26‬ملی گرام فی ‪ 100‬گرام)‬
‫تک شامل تھا۔ ان دونوں دھاتوں کو لمبے عرصے تک یا زیادہ مقدار میں استعمال کیا‬
‫جائے تو یہ صحت کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں۔‬
‫نیوٹریشن ریسرچ آسٹریلیا کی سی ای او ڈاکٹر فالویا فیٹ ُمور کا کہنا ہے کہ حاالنکہ گالبی‬
‫نمک میں معدنیات عام نمک سے زیادہ ہیں‪ ،‬لیکن اگر نمک کے استعمال کو عالمی ادارۂ‬
‫صحت کی سفارشات کے مطابق رکھا جائے تو ان کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی‬
‫ہے۔ یعنی ان غذائی اجزا کا کچھ فائدہ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو چھ چائے کے چمچ‬
‫گالبی نمک استعمال کرنا پڑے گا‪ ،‬اتنے زیادہ نمک کے استعمال کے مسائل سبھی جانتے‬
‫ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ گالبی نمک دیکھنے میں خوبصورت لگتا ہے لیکن صحت مند متبادل کے‬
‫طور پر ہم دیگر جڑی بوٹیاں اور مصالحے استعمال ک سکتے ہیں جیسا کہ مرچیں‪ ،‬ہلدی‪،‬‬
‫دار چینی‪ ،‬زعفران وغیرہ‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/pink-salt-is-good-or-bad-for-health/‬‬

‫کیا کرونا وائرس امریکا سے شروع ہوا؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪8 2021‬‬

‫واشنگٹن‪ :‬کرونا وائرس کی ابتدا سے متعلق چین اور امریکا میں تنازعہ جاری ہے اور‬
‫حال ہی میں اس حوالے سے نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔‬
‫امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں کرونا وائرس سے پہلی موت ‪ 9‬جنوری‬
‫‪ 2020‬کو ہوئی‪ ،‬جبکہ ٹھیک اسی دن چین میں بھی کرونا وائرس سے موت کا پہال کیس‬
‫رپورٹ ہوا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکی نیوز سائٹ نے امریکا میں سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی)‬
‫کے حوالے سے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے تک اس ادارے کے ڈیٹا بیس میں‬
‫کرونا وائرس سے امریکا میں ہونے والی پہلی موت کی تاریخ ‪ 6‬فروری ‪ 2020‬تھی۔‬
‫البتہ تازہ ترین اپ ڈیٹ میں ایک نئے کیس ریکارڈ کی شمولیت سے یہ تاریخ مزید پیچھے‬
‫کر کے ‪ 9‬جنوری ‪ 2020‬کردی گئی ہے‪ ،‬اور یہ عین وہی دن ہے جب چین میں کرونا‬
‫وائرس سے پہلی موت رپورٹ ہوئی تھی۔‬
‫ایک اور امریکی ویب سائٹ الئیو سائنس نے بھی مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق‬
‫کرتے ہوئے بتایا کہ ہالک ہونے والی ‪ 78‬سالہ خاتون کا نام لوول براؤن تھا اور وہ امریکی‬
‫ریاست کنساس کے شہر لیون ورتھ کی رہائشی تھیں۔‬
‫الئیو سائنس کے مطابق مذکورہ خاتون میں دسمبر ‪ 2019‬کی کرسمس سے پہلے ہی سانس‬
‫کی تکلیف اور منہ کا ذائقہ ختم ہونے سمیت ایسی تمام عالمات نمودار ہوچکی تھیں جنہیں‬
‫بعد ازاں کرونا وائرس سے منسوب کیا گیا۔‬
‫حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لوول براؤن اپنی زندگی کے آخری چند مہینوں میں امریکا تو‬
‫کیا‪ ،‬اپنے شہر تک سے باہر نہیں گئیں۔ البتہ مختلف دائمی امراض کی بنا پر وہ وقفے‬
‫وقفے سے اپنے ڈاکٹر کے پاس ضرور جایا کرتی تھیں۔‬
‫یہ بات بھی پراسرار ہے کہ آخر ڈیڑھ سال بعد ان خاتون کے مرنے کی وجہ کیوں اور کس‬
‫لیے تبدیل کی گئی ہے؟‬
‫یاد رہے کہ کووڈ ‪ 19‬عالمی وبا کی ابتدا سے متعلق امریکا اور چین میں شدید تنازعہ‬
‫جاری ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو چین میں کرونا وائرس کی ابتدا‬
‫اور اس وائرس کی تجربہ گاہ میں تیاری کے مفروضے کی چھان بین کرنے کی ذمہ داری‬
‫ہوئی ہے۔‬
‫اس کے جواب میں چین کا امریکا سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے ہاں سے کرونا وبا کی ابتدا‬
‫پر کام کرے کیونکہ یہ وائرس ممکنہ طور پر امریکی سیاحوں کے ساتھ چینی شہر ووہان‬
‫تک پہنچا تھا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-reports-on-coronavirus-beginning/‬‬

‫کرونا سے بچاؤ اور عالج اب ایک ہی ویکسین سے ممکن‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 8 2021‬‬

‫بیجنگ ‪ :‬چین کی دوا ساز کمپنی نے ایسی کرونا ویکسین تیار کی ہے جو بیماری\ سے‬
‫بچاؤ کے ساتھ ساتھ کرونا سے متاثرہ شخص کا عالج بھی کرتی ہے۔‬
‫غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا اور چین سمیت کئی ممالک انسداد کرونا ویکسین تیار‬
‫کرچکے ہیں اور تمام ممالک کی تیار کردہ ویکسین بیماری سے بچاؤ کےلیے استعمال کی‬
‫جاتی ہے لیکن اب چینی کمپنی یشینگ بائیو نے ایسی ویکسین تیار کی ہے جس سے‬
‫بیماری کا عالج بھی ممکن ہے۔‬
‫چین کی تیار کردہ اس ویکسین کے ٓازمائشی مراحل سے گزارا جائے گا اور اس سلسلے‬
‫میں چینی کمپنی نے اماراتی حکومت اور نیوزی لینڈ کی میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی سے‬
‫اجازت مانگی تھی جو گزشتہ دی جاچکی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اجازت ملتے ہی کمپنی متحدہ عرب امارات میں انسانوں پر ٹرائلز کرے اور بیماری کے‬
‫عالج کے حوالے سے ویکسین کی افادیت کی جانچ کی جائے گی۔‬
‫کمپنی کے سی ای او ڈیوڈ شاہو کا کہنا تھا کہ پری کلینکل تحقیقی رپورٹس میں ویکسین‬
‫بہت زیادہ تعداد میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنانے اور خلیاتی مدافعت برق‬
‫رفتاری سے پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔‬
‫کمپنی کے سی ای او کا کہنا تھا کہ بندروں پر ایک ابتدائی تحقیق میں انہیں کرونا وائرس‬
‫سے متاثر کرکے ویکسین کا استعمال کیا گیا جس کے نتائج حوصلہ افزاء تھے۔‬
‫کمپنی کا کہنا ہے کہ ری کومبیننٹ پروٹین ویکسین کی دونوں خوراکوں کا استعمال ‪ 7‬دن‬
‫کے اندر کیا جاسکتا ہے جو کرونا وائرس کے اسپاپئیک پروٹین کو ہدف بناتی ہے اور ایک‬
‫مرکب ایڈجوونٹ بناتی ہے جو ویکسینز کے مدافعتی ردعمل کو مضبوط بناتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ جانوروں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال سے ثابت ہوا کہ یہ‬
‫ویکسین کورونا وائرس کی اقسام ایلفا‪ ،‬بیٹا‪ ،‬گیما اور لمباڈا کے خالف دیرپا تحفظ فراہم‬
‫کرتی ہے یہاں تک کہ ویکسینیشن کے ‪ 448‬دن بعد بھی مدافعتی ردعمل بہت دیرپا اور‬
‫مضبوط تھا۔‬
‫ڈیوڈ شاہو کا کہنا تھا کہ ویکسین کے ابتدائی اور آخری ٓازمائشی مرحلے بیرون ملک ہوں‬
‫گے کیوں کہ چین میں کووڈ ‪ 19‬کے کیسز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/prevention-and-treatment-of-coronavirus-is-‬‬
‫‪now-possible-with-a-single-vaccine/‬‬

‫بہترین نتائج کیلئے ’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ کی سائنس سمجھنا الزمی ہے‬

‫ستمبر\ ‪08 2021 ،‬‬

‫لمبے وقفے کے بعد کھانا کھانے کو’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ کہا جاتا ہے جس کے صحت پر‬
‫بے شمار فوائد مرتب ہوتے ہیں‪ ،‬انٹر مٹنگ فاسٹنگ میں انسان کم وقفے لے کر کھانا پینا‬
‫چھوڑ دیتا ہے‪ ،‬زیادہ دیر غذا سے پرہیز کرتا ہے جبکہ اس دوران سادے پانی کا استعمال‬
‫کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق‪  ‬اس ’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ میں باقاعدگی بہت الزمی ہے‪ ،‬اس عمل کے‬
‫دوران ‪ 16‬گھنٹوں کے لیے کھانا چھوڑ کر باقی کے ‪ 8‬گھنٹوں میں کھانا کھایا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫ان ‪ 16‬گھنٹوں کا ٓاغاز رات ‪ 8‬سے شروع ہو کر دن‪ 12  ‬بجے تک چلتا ہے جبکہ دن ‪12‬‬
‫سے رات ‪ 8‬بجے تک کھانا کھایا جا سکتا ہے۔‬
‫‪:‬انٹرمٹنگ فاسٹنگ اور ماہرین کی رائے‬

‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہری ِن غذائیت کے مطابق انٹرمٹنگ فاسٹنگ انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے‪،‬‬
‫یہ ایک بہترین عمل ہے جس میں انسانی جسم سے فاضل مادے خارج ہو جاتے ہیں‪،‬‬
‫اعضاء کو سکون ملتا ہے‪ ،‬دماغ تیز کام کرتا ہے اور انسان خود کو ہلکا اور متحرک‬
‫محسوس کرتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق انٹر مٹنگ فاسٹنگ کو بے قاعدگی سے کرنے کے برے نتائج‪  ‬ہوسکتے‬
‫ہیں جس سے قوت مدافعت‪ ،‬جگر‪ ،‬گردے‪ ،‬بال ‪ ،‬جلد سمیت دیگر اعضاء پر منفی اثرات ٓا‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق ’انٹرمٹنگ فاسٹنگ‘ کے کئی طریقے ہیں۔‬
‫پہال طریقہ‬
‫غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کے خواہشمند افراد کے لیے تجویز کیا جاتا‬
‫ہے کہ صبح ناشتہ کریں‪ ،‬اس کے بعد بھوک لگنے تک کسی غذا کا استعمال نہ کریں‪ ،‬اس‬
‫دوران ‪ 6‬سے ‪ 8‬گھنٹے کا وقفہ لیا جا سکتا ہے۔‬
‫‪ ‬دوسرا طریقہ‬
‫دوسرے طریقے کے مطابق دن کا پہال کھانا دوپہر ‪ 12‬بجے کھائیں اور دوسرا کھانا شام ‪4‬‬
‫سے ‪ 8‬کے درمیان کھا لیں‪ ،‬یہ طریقہ ایک ہفتے تک جاری رکھیں۔‬
‫تیسرا طریقہ‬
‫تیسرے طریقے کے مطابق ‪ 7‬دنوں میں سے کسی ایک دن غذا کا استعمال چھوڑ دیں اور‬
‫دوسرے دن خواتین ‪ 500‬کیلوریز جبکہ مرد ‪ 600‬کیلوریز کا استعمال کر سکتے ہیں۔‬
‫اس طریقے کے مطابق اب تیسرے دن دوبارہ کھانا چھوڑیں اور چوتھے دن بتائی گئی‬
‫محدود کیلوریز کا استعمال کریں۔‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چوتھا طریقہ‬
‫چوتھے طریقے کے مطابق ہفتے میں کسی بھی دو دن ‪ 24‬گھنٹوں کے لیے غذا کا استعمال‬
‫چھوڑنا ہے باقی دن کیلوری ڈیفیسیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے کھانا کھانا ہے۔‬
‫پانچواں طریقہ‬
‫پانچویں طریقے کے مطابق ہفتے کے ‪ 7‬دنوں میں ایک دن نارمل غذا لیں اور دوسرے دن‬
‫مکمل ‪ 24‬گھنٹوں کے لیے روزہ رکھیں یا پھر کچھ کیلوری پر مشتمل غذا کا استعمال کریں۔‬
‫چھٹا طریقہ‬
‫چھٹے طریقے کے مطابق ‪ 7‬دنوں کے شام ‪ 4‬بجے سے ‪ 8‬بجے کے درمیان ایک کھانا اپنی‬
‫مرضی سے کھا سکتے ہیں جس میں کیلوریز کی کوئی پابندی نہیں جبکہ صبح ‪ 4‬سے ‪12‬‬
‫بجے تک کم مقدار میں سبزیاں اور پھل استعمال کر سکتے ہیں۔‬
‫ٓاٹھواں طریقہ‬
‫ٓاٹھویں طریقے کے مطابق تینوں وقت کا کھانا کھائیں مگر کیلوریز نہایت کم استعمال کریں‪،‬‬
‫‪ 7‬دنوں کے دوران ‪ 3‬دن میں کسی ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیں۔‬
‫‪:‬انٹر مٹنگ فاسٹنگ کے دوران ان غلطیوں سے احتیاط برتیں‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرمٹنگ فاسٹنگ کے دوران مثبت نتائج کے لیے مرغن غذأوں‪،‬‬
‫جنک فوڈ‪ ،‬چینی ‪ ،‬تیل‪ ،‬گھی اور گندم کا استعمال کم کر دیں اور صحت بخش غذأوں کا‬
‫استعمال کریں جیسے کہ سبزیاں‪ ،‬پھل‪ ،‬تازہ پھلوں کا جوس‪ ،‬سوپ‪ ،‬مچھلی‪ ،‬مرغی کے‬
‫سینے کا گوشت وغیرہ۔‬
‫انٹر مٹنگ فاسٹنگ کے دوران جب روزے کی حالت میں ہوں تو اس وقت صرف سادہ پانی‬
‫زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور ٓارٹیفشل شوگر‪ ،‬مشروبات اور کاربن ڈرنکس سے پرہیز‬
‫کریں۔بغیر چینی کی چائے‪ ،‬کافی‪ ،‬بلیک کافی‪ ،‬سبز چائے لے سکتے ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/981839‬‬

‫خوبصورتی میں اضافے کیلئے ادرک ضروری ہے‬


‫ستمبر\ ‪07 2021 ،‬‬

‫سُپر فوڈ میں شمار کی جانے والی جڑی بوٹی ادرک کے استعمال سے صحت سمیت‬
‫خوبصورتی پر بھی بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں‪ ،‬متعدد بیماریوں میں قدرتی عالج کے‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طور پر استعمال کی جانے والی ادرک کی افادیت سے بیشتر خواتین نا واقف نظر ٓاتی ہیں‪،‬‬
‫ایسی خواتین کے لیے یہ رپورٹ سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق ادرک میں بڑی تعداد میں فائبر‪ ،‬وٹامنز‪ ،‬اینٹی ٓاکسیڈنٹ اور قدرتی‬
‫اینٹی بائیوٹک خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کے استعمال سے جہاں‪  ‬موٹاپے کے خاتمے‪،‬‬
‫بلڈ پریشر‪ ،‬شوگر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے وہیں صاف جلد‪،‬‬
‫خوبصورت بال‪ ،‬کیل مہاسوں سے نجات‪ ،‬اور پیٹ اور چہرے کے گرد جمی اضافی چربی‬
‫کا خاتمہ بھی ممکن ہوتا ہے‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ادرک کے باقاعدگی سے استعمال کے نتیجے میں بال جھڑنے‪،‬‬
‫چہرے پر کیل مہاسوں جیسی شکایات کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔‬
‫ادرک کا استعمال اس کے تُرش اور بہترین ذائقے کے سبب پکوانوں سمیت بطور سالد‬
‫بھی کیا جاتا ہے‪ ،‬ادرک کے استعمال سے حاصل ہونے والے چند فوائد اور استعمال‬
‫مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق ادرک‪  ‬کو بطور سالد استعمال کرنے کے نتیجے میں‬
‫رنگت اور ِجلد صاف ہوتی ہے۔‬
‫ادرک کا استعمال بالوں کے جھڑنے کی بیماری میں بھی بے حد معاون ہے‪ ،‬بال لمبے‬
‫گھنے چمکدار بنانے کے لیے ہفتے میں‪ ‬دو بار ادرک کا رس نکال کر اس سے بالوں کی‬
‫جڑوں میں ‪ 30‬منٹ ہلکے پوروں سے مساج کرنا چاہیے‪ ،‬اس عمل کے نتیجے میں بال‬
‫دنوں میں‪ ‬صحت مند ہونا شروع ہو جاتے ہیں‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مسوڑھوں کے مختلف امراض بالخصوص ان کی سوجن میں ادرک بے حد مفید ہے‪،‬‬
‫دانتوں کو کیڑا لگنے سے بچانے اور سوجن دور کرنے کے لیے تازہ ادرک کا ٹکڑا‬
‫دانتوں کے نیچے ‪ 15‬سے ‪ 20‬منٹ تک دبا کر رکھیں‪ ،‬کیڑے اور سوجن سے افاقہ ہوگا۔‬
‫ادرک کے استعمال سے خون میں‪ ‬الل خلیوں کی افزائش میں‪ ‬اضافہ ہوتا ہے جس کے سبب‬
‫صاف اور بہتر خون کی افزائش ممکن ہوتی ہے‪ ،‬بہتر اور متوازن خون کی مقدار ہونے‬
‫کے سبب انسانی جسم بھرا بھرا اور چہرہ کھال نظر ٓا تا ہے‬
‫خواتین کے لیے ادرک کا استعمال نہایت مفید اور الزمی قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬بچے کی‬
‫پیدائش کے بعد ادرک کا بطور سالد‪ ،‬یا اس کا قہوہ بنا کر پینے کے نتیجے میں بڑھا ہوا‬
‫وزن دنوں‪ ‬میں‪ ‬کم ہو جاتا ہے اور خواتین متعدد طرح کی بیماریوں‪ ‬اور کمزوری سے بچ‬
‫جاتی ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق دودھ پالنے والی ماؤں کے لیے ادرک کا استعمال دوا کی طرح اثر‬
‫انداز ہوتا ہے اور دودھ کی افزائش بڑھاتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/981273‬‬

‫کونسا قہوہ کس مرض کا عالج ہے؟‬

‫ستمبر\ ‪06 2021 ،‬‬

‫طبی ماہرین کی جانب سے سبز چائے یعنی کہ قہوے کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جو کہ‬
‫مجموعی صحت کے لیے بے حد مفید ہے‪ ،‬مگر یہ جاننا بھی الزمی ہے کہ کس جُز سے‬
‫بنا قہوہ کس مرض کے لیے عالج ثابت ہوتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انٹرنیشنل جرنل ٓاف فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق‬
‫روزانہ صبح ایک کپ قہوہ پینے کے نتیجے میں انسانی جسم میں مثبت تبدیلیاں سامنے ٓاتی‬
‫ہیں جن میں منفی کولیسٹرول اور موٹاپے میں کمی واقع ہونا سر فہرست ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق قہوے کے استعمال سے متعدد قسم کے کینسر سے بھی نجات حاصل‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق قہوے میں کیفین کی مقدار پائی جاتی ہے‪ ،‬کیفین کے سبب بھوک‬
‫میں کمی واقع ہوتی ہے اور جسم سے مضر صحت مادوں کا صفایا‪  ‬ممکن ہوتا ہے لہٰ ذا‬
‫صحت پر مختلف قسم کے قہوے مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں جن سے متعلق چند‬
‫اقسام مندرجہ ذیل درج ہیں‬

‫دار چینی کا قہوہ‬


‫غذائی ماہرین کے مطابق دار چینی سے بنا قہوہ گلے کی خراشوں‪ ،‬نزلہ‪ ،‬زکام اور کھانسی‬
‫کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے‪ ،‬اس کی تاثیر بڑھانے کے لیے اگر اس میں شہد بھی شامل کر‬
‫لیا جائے تو ایک دن میں‪ ‬تین پیالیوں سے ہی عالج ممکن اور شفاء حاصل ہو جاتی ہے۔‬
‫لیموں اور شہد سے بنا قہوہ‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق سردی لگنے سے بچأو کے لیے سبز چائے میں اگر لیموں‬
‫اور شہد مال کر استعمال کیا جائے تو ’بیڈ کولڈ‘ یعنی موسمی نزلے زکام اور سردی سے‬
‫بچا جا سکتا ہے۔‬
‫سے بنا قہوہ ) ‪ ( chamomile flowers‬کیمومائل‬
‫کیمومائل کے پھولوں سے بنا قہوہ بے خوابی کا بہترین عالج ہے‪ ،‬کیمو مائل کے پھول اگر‬
‫میسر نہ ہوں تو مارکیٹ میں ٹی بیگ کی شکل میں ملنے والی کیمومائل پتی کا بھی‬
‫استعمال کیا جا سکتا ہے‬
‫ہلدی اور ادرک سے بنا قہوہ‬
‫ہلدی اور ادرک کا قہوہ پینے کے نتیجے میں موسمی الرجیز‪ ،‬سائنَس‪ ،‬سانس کی بندش‪،‬‬
‫مٹی سے ہونے والی الرجی سے نجات حاصل ہوتی ہے۔‬
‫پودینے سے بنا قہوہ‬
‫پودینے کی سبز پتیوں سے بنے قہوے کا استعمال اپھار کا بہترین عالج ہے‪ ،‬اس کے‬
‫استعمال سے پھوال ہوا پیٹ منٹوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے جبکہ گیس‪ ،‬بدضمی اور بھاری پن‬
‫کا عالج بھی ممکن ہوتا ہے۔‬
‫ادرک سے بنا قہوہ‬
‫صرف ایک جڑی بوٹی ادرک سے بنے قہوے کا استعمال سر درد کا منٹوں میں‪ ‬عالج‬
‫کرنے کی صالحیت رکھتا ہے‪  ‬ادرک سے بنے قہوے کے استعمال کے نتیجے میں پیٹ‬
‫کی چربی سے بھی چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے‬
‫سل ٹی( تُلسی کے پتوں‬
‫سے بنا‪  ‬قہوہ ) ‪، Basil Tea‬با ِ‬

‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عام گھروں اور پارکس میں لگے پودے تُلسی کے پتوں سے بنے قہوے کے استعمال کے‬
‫نتیجے میں‪ ‬ذہنی دبأو‪  ‬کم ہوتا ہے‪ ،‬تُلسی کے پتوں سے بنا قہوہ خوشی محسوس کروانے‬
‫والے ہامونز کو متحرک کرتا ہے اور فکر مندی‪ ،‬ذہنی دبأو‪ ،‬پٹھوں سے کھنچأو سے نجات‬
‫دالتا ہے ۔‬
‫سادہ سبز چائے‬
‫سادہ سبز چائے جہاں بے شمار فوائد کی حامل ہے وہیں اس کے باقاعدگی سے استعمال‬
‫کے نتیجے میں ایکنی‪ ،‬کیل مہاسوں سے بچأو اور اِن کی افزائش میں کمی ممکن ہوتی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/980928‬‬

‫گٹھیا کی کم خرچ دوا سے کورونا کا عالج بھی ہوسکتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 10  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫پروبینیسڈ نامی یہ کم خرچ دوا پچھلے پچاس سال سے گٹھیا کے عالج میں عام استعمال‬
‫ہورہی ہے۔‬
‫جارجیا‪ :‬امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ گٹھیا کے عالج میں پچھلے پچاس‬
‫سے )‪‘‘ (Probenecid‬سال سے استعمال ہونے والی عام اور کم خرچ دوا ’’پروبینیسڈ‬

‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا وائرس (سارس کوو ‪ )2‬کے عالوہ انفلوئنزا وائرس کا حملہ بھی ناکارہ بنایا‬
‫جاسکتا ہے۔‬
‫اب تک کے تجربات میں اسے انسانی ناک‪ ،‬حلق اور پھیپھڑوں سے لیے گئے خلیوں کے‬
‫عالوہ ہیمسٹر (چوہے جیسے ایک جانور) میں ان وائرسوں کے خالف کامیابی سے ٓازمایا‬
‫گیا ہے۔‬
‫ٓان الئن ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی یہ‬
‫تحقیق پروفیسر ڈاکٹر رالف ٹرپ کی نگرانی میں کی گئی جن کا تعلق یونیورسٹی ٓاف‬
‫جیورجیا‪ ،‬امریکا سے ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬وبا کے خالف جنگ میں یہ دوا ہماری ایک اہم مددگار‬ ‫ان کا کہنا ہے کہ عالمی ِ‬
‫ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں بہ ٓاسانی دستیاب ہے جبکہ اس کی قیمت بھی بہت‬
‫کم ہے‪ ،‬جو اسے کم وسائل والے ترقی پذیر ممالک کےلیے نہایت پرکشش بناتی ہے۔‬
‫تجربات کے پہلے مرحلے میں انسانی ناک‪ ،‬حلق اور پھیپھڑوں سے خلیات لے کر انہیں‬
‫پیٹری ڈش میں کلچر کیا گیا۔ یہ خلیے اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ کورونا وائرس ان ہی پر‬
‫حملہ ٓاور ہوتا ہے۔‬
‫دوسرے مرحلے کے دوران خلیوں کے کلچر میں ’’پروبینیسڈ‘‘ کی کچھ مقدار جذب‬
‫کروائی گئی‪ ،‬جس کے بعد انہیں کورونا وائرس‪ ،‬فلو وائرس اور ’’ٓار ایس وی‘‘ (سانس کی‬
‫بیماری پیدا کرنے والے ایک اور وائرس) سے متاثر کیا گیا۔‬
‫اس صورت میں ’’پروبینیسڈ‘‘ نے ان تمام اقسام کے وائرسوں کو خلیوں میں داخل ہونے‬
‫اور اپنی نقلیں تیار کرنے سے باز رکھا۔ یعنی یہ دوا ان تمام وائرسوں کا حملہ ناکام بنا رہی‬
‫تھی۔‬
‫بعد ازاں ان تینوں اقسام کے وائرسوں سے متاثر کیے گئے ہیمسٹرز میں ’’پروبینیسڈ‘‘‪ª‬‬
‫ٓازمائی گئی۔‬
‫جب ہیمسٹرز کو یہ دوا دی گئی تو ان میں کورونا وائرس سمیت‪ ،‬باقی دونوں اقسام کے‬
‫وائرسوں کی تعداد بڑھنا بھی بند ہوگئی۔ یعنی یہاں بھی اس دوا نے ان وائرسوں کو مزید‬
‫پھیلنے سے روک دیا۔‬

‫ڈاکٹر رالف کے مطابق ’’پروبینیسڈ‘‘‪ ª‬کئی اقسام کے ٓار این اے وائرسوں کے خالف مؤثر‬
‫ہے لہٰ ذا امید ہے کہ یہ کورونا وائرس کے تمام موجودہ اور ٓائندہ ویریئنٹس کی روک تھام‬
‫میں بھی یکساں طور پر مفید ثابت ہوگی۔‬
‫انہوں نے خبردار کیا ہے کہ جب تک ’’پروبینیسڈ‘‘‪ ª‬کی باضابطہ انسانی ٓازمائشیں نہ کرلی‬
‫جائیں‪ ،‬تب تک اسے کورونا وائرس کے خالف تجویز نہ کیا جائے۔‬
‫تاہم انہیں امید ہے کہ کورونا وائرس کے عالج میں ’’پروبینیسڈ‘‘‪ ª‬کی انسانی ٓازمائشوں کی‬
‫اجازت بھی جلد ہی مل جائے‪ ‬گی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2223256/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرونا ویکسین کی افادیت کیوں‌ کم ہو گئی؟ محققین نے معلوم کر لیا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 6 2021‬‬

‫کیلیفورنیا‪ \:‬نئے کرونا وائرس کی مہلک وبا کے خالف تیار کی جانے والی ویکسینز\ کی‬
‫افادیت میں‌ تیزی\ سے کمی آنے پر طبی ماہرین نے تحقیقات کیں‌ تو یہ انکشاف ہوا کہ‬
‫ویکسینز\ کی افادیت میں کمی ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیالؤ اور سرجیکل ماسک کے استعمال نہ‬
‫کرنے کا نتیجہ ہے۔‬
‫طبی جریدے‪ ‬دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے محققین کی‬
‫ٹیم کے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ فائزر‪/‬بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیار کردہ‬
‫ایم آر این اے ویکسینز کی افادیت وقت کے ساتھ کم ہوگئی ہے‪ ،‬جس کی جزوی وجہ فیس‬
‫ماسک کے استعمال پر پابندی ختم ہونا اور کرونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کا پھیالؤ ہے۔‬
‫کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو (یو سی ایس ڈی) کے ماہرین کی ٹیم کی جانب سے‬
‫یونیورسٹی کے طبی ورکرز میں ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔ محققین‬
‫نے بتایا کہ مارچ سے جون ‪ 2021‬کے دوران ویکسین کی افادیت عالمات والی بیماری‬
‫سے تحفظ کے لیے ‪ 90‬فی صد سے زیادہ تھی‪ ،‬مگر جوالئی میں یہ گھٹ کر ‪ 64‬فی صد‬
‫تک پہنچ گئی۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ ویکسینز کی افادیت میں کمی حیران کن نہیں‪ ،‬کلینکل ٹرائل سے‬
‫ملنے والے ڈیٹا ہی سے یہ اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ مکمل ویکسینیشن کے کئی ماہ بعد افادیت‬
‫میں کمی ہو سکتی ہے‪ ،‬اور اب ریسرچ اسٹڈی میں‪ ،‬ڈیلٹا کے پھیالؤ کے باعث معمولی‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمات والی بیماری کے خالف مکمل ویکسینیشن کے بعد ویکسینز کی افادیت ‪ 6‬سے ‪8‬‬
‫ماہ کے بعد نمایاں کمی دیکھی گئی۔‬
‫تاہم طبی ماہرین نے بتایا کہ ویکسینیشن کروانے والے جن افراد میں کرونا تشخیص ہوا‪ ،‬ان‬
‫میں کرونا کی شدت بہت کم تھی‪ ،‬جن لوگوں کو اسٹڈی میں شامل کیا گیا تھا ان میں سے‬
‫کسی کو بیماری کے باعث اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا۔‬
‫محققین کے مطابق ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد میں کووڈ کا خطرہ ‪ 7‬گنا زیادہ ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جنوری اور فروری میں ویکسینیشن مکمل کرانے‬
‫والے افراد میں کرونا کیسز کی تعداد مارچ میں ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں‪،‬‬
‫جوالئی کے مہینے میں سب سے زیادہ تھی۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ جون سے جوالئی کے دوران ویکسین کی افادیت میں ڈرامائی تبدیلی‬
‫ہوئی‪ ،‬اس کی وجوہ مختلف تھیں‪ ،‬ایک ڈیلٹا قسم کا ابھرنا‪ ،‬وقت کے ساتھ ویکسین کی‬
‫افادیت میں کمی اور فیس ماسک کا الزمی استعمال ختم ہونا‪ ،‬جس کی وجہ سے برادری‬
‫میں وائرس کے پھیالؤ کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/efficacy-of-the-vaccines-delta/‬‬

‫روزانہ کتنے قدم چلنے سے ‘موت کا خطرہ’ پچاس فی صد کم ہو جاتا ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪6 2021‬‬

‫میساچوسٹس‪ :‬امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ‬
‫اگر روزانہ زیادہ سے زیادہ قدم پیدل چال جائے تو درمیانی عمر کے افراد میں موت کی‬
‫شرح نمایاں حد تک کم ہو سکتی ہے۔‬
‫میساچوسٹس یونیورسٹی کے انسٹیٹوٹ فار اپالئیڈ سائنسز کے ماہرین نے جسمانی‬
‫سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لیے‪ ‬ریسرچ اسٹڈی‪ ‬کی‪ ،‬اس تحقیق کے نتائج‬
‫طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے ہیں‪ ،‬روزانہ قدموں کے شمار کے تجزیے کی‬
‫مدد سے حاصل شدہ نئے نتائج میں اہم انکشاف ہوا۔‬
‫تحقیق کے مطابق درمیانی عمر میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا دل کی شریانوں‬
‫سے جڑے امراض سے موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتا ہے‪ ،‬ایسا مانا جاتا ہے کہ‬

‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جسمانی سرگرمیاں متعدد بیماریوں جیسے دل کی شریانوں کے امراض‪ ،‬ذیابیطس اور‬


‫کینسر کی اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫محققین نے تحقیق میں قدموں کی تعداد کو مدنظر رکھا اور روزانہ قدموں کی تعداد اور‬
‫مختلف امراض سے موت کے خطرے میں کمی کے درمیان واضح تعلق کو دریافت کیا‪،‬‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کم از کم ‪ 7‬ہزار قدم چلنا مختلف امراض سے موت کا خطرہ‬
‫‪ 50‬سے ‪ 70‬فی صد تک کم کر سکتا ہے۔‬
‫یاد رہے کہ اس سے قبل اپریل ‪ 2021‬میں امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں‬
‫بتایا گیا تھا کہ جوانی میں جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنا کر درمیانی عمر‬
‫میں ہائی بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتال ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم‬
‫کیا جا سکتا ہے۔‬
‫مارچ ‪ 2020‬میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا‬
‫ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کر سکتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/higher-daily-step-reduces-mortality/‬‬

‫روزانہ زیادہ چلنے کی عادت جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪06 2021‬‬
‫درمیانی عمر میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا دل کی شریانوں سے جڑے امراض‬
‫سے موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایسا مانا جاتا ہے کہ جسمانی سرگرمیاں متعدد بیماریوں جیسے دل کی شریانوں کے‬
‫امراض‪ ،‬ذیابیطس اور کینسر کی اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫جسمانی سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لیے میساچوسٹس یونیورسٹی کے‬
‫انسٹیٹوٹ فار اپالئیڈ سائنسز کے ماہرین نے کام کیا۔‬
‫انہوں نے روزمرہ کی سرگرمیوں بشمول قدموں کی تعداد کو مدنظر رکھا اور روزانہ‬
‫قدموں کی تعداد اور مختلف امراض سے موت کے خطرے میں کمی کے درمیان واضح‬
‫تعلق کو دریافت کیا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کم از کم ‪ 0 7‬ہزار قدم چلنا مختلف امراض سے موت کا‬
‫خطرہ ‪ 50‬سے ‪ 70‬فیصد تک کم کرسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے۔‬
‫اس سے قبل اپریل ‪ 2021‬میں امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا‬
‫کہ جوانی میں جسمانی سرگرمیوں اور ورزش کو معمول بنا کر درمیانی عمر میں ہائی بلڈ‬
‫پریشر جیسے خاموش قاتل مرض میں مبتال ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا‬
‫ہے۔‬
‫اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ہائی بلڈ پریشر فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھاتا ہے‬
‫جبکہ دماغی تنزلی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫مارچ ‪ 2020‬میں ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنا‬
‫ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق کے دوران درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ اوسطا ً ‪ 9‬سال تک لینے کے بعد‬
‫دریافت کیا گیا جو لوگ زیادہ چہل قدمی کرتے ہیں ان میں ذیابیطس کا خطرہ ‪ 43‬فیصد اور‬
‫ہائی بلڈ پریشر کا امکان ‪ 31‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں ‪ 2‬ہزار کے قریب خواتین کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ وہ‬
‫روزانہ ہر ایک ہزار قدم کے سیٹ کو رپورٹ کریں اور اس مقصد کے لیے ایکسلرومیٹر‬
‫ڈیوائسز جسمانی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کے لیے دی گئی تھی۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ درمیانی عمر میں آپ جتنا زیادہ پیدل چلنا عادت بنائیں گے اتنا‬
‫ہی ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ کم ہوجائے گا‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167772/‬‬

‫قہوے کے طبی فوائد جان کر ٓاپ کی عقل دنگ رہ جائے گی‬

‫‪07/09/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) قہوے کے طبی فوائد اس قدر ہیں کہ جان کر ٓاپ کی عقل دنگ‬

‫رہ جائے گی۔تحقیق کے مطابق روزانہ صبح ایک کپ قہوہ پینے کے نتیجے میں انسانی‬
‫جسم میں مثبت تبدیلیاں سامنے ٓاتی ہیں جن میں منفی کولیسٹرول اور موٹاپے‬
‫میں کمی واقع ہونا سر فہرست ہے۔ تفصیالت کے مطابق سبز چائے یعنی کہ قہوہ مجموعی‬
‫صحت کے لیے بے حد مفید ہے‪ ،‬مگر یہ جاننا بھی الزمی ہے کہ کس جُز سے بنا قہوہ کس‬
‫مرض کے لیے عالج ثابت ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق قہوے کے استعمال سے متعدد قسم‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کے کینسر سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق قہوے میں کیفین کی‬
‫مقدار پائی جاتی ہے‪ ،‬کیفین کے سبب بھوک میں کمی واقع ہوتی ہے اور جسم سے مضر‬
‫صحت مادوں کا صفایا ممکن ہوتا ہے ۔‬
‫دار چینی سے بنا قہوہ گلے کی خراش‪ ،‬نزلہ‪ ،‬زکام اور کھانسی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق سردی لگنے سے بچأو کے لیے سبز چائے میں اگر لیموں‬
‫اور شہد مال کر استعمال کیا جائے تو ’بیڈ کولڈ‘ یعنی موسمی نزلے زکام اور سردی سے‬
‫بچا جا سکتا ہے۔ہلدی اور ادرک کا قہوہ پینے کے نتیجے میں موسمی الرجیز‪ ،‬سائنَس‪،‬‬
‫سانس کی بندش‪ ،‬مٹی سے ہونے والی الرجی سے نجات حاصل ہوتی ہے۔پودینے کی سبز‬
‫پتیوں سے بنے قہوے کا استعمال اپھار کا بہترین عالج ہے‪،‬‬
‫اس کے استعمال سے پھوال ہوا پیٹ منٹوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے جبکہ گیس‪ ،‬بدضمی اور‬
‫بھاری پن کا عالج بھی ممکن ہوتا ہے۔عام گھروں اور پارکس میں لگے پودے تُلسی کے‬
‫پتوں سے بنے قہوے کے استعمال کے نتیجے میں ذہنی دبأو کم ہوتا ہے‪ ،‬تُلسی کے پتوں‬
‫سے بنا قہوہ خوشی محسوس کروانے والے ہامونز کو متحرک کرتا ہے اور فکر مندی‪،‬‬
‫ذہنی دبأو‪ ،‬پٹھوں سے کھنچأو سے نجات دالتا ہے ۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-122222.html‬‬

‫بوسٹر ڈوز کے لیے کین سائنو بہتر یا سائنوویک؟ چینی تحقیق میں اہم‬
‫انکشاف‬
‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪  7 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بیجنگ‪ :‬کرونا وائرس کے خالف بوسٹر\ ڈوز کے لیے کین سائنو یا سائنوویک ویکسین‬
‫بہتر ہے؟ اس سلسلے میں چینی تحقیق میں اہم انکشاف ہوا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز کو مالنے کے حوالے سے کیے‬
‫گئے ایک چینی طبی مطالعے میں معلوم ہوا ہے کہ سائنوویک ویکسین کی ایک یا دو‬
‫ڈوزز کے بعد بوسٹر ڈوز کے لیے کین سائنو ویکسین کے استعمال سے کہیں زیادہ طاقت‬
‫ور اینٹی باڈی ر ِد عمل بنتا ہے‪ ،‬بہ نسبت سائنوویک کی بوسٹر ڈوز۔‬
‫یہ تحقیق‪ ‬اس چینی فیصلے کے بعد آئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چین میں بوسٹر ڈوز‬
‫مخصوص گروپس کے شہریوں کو لگائی جائے گی‪ ،‬کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ویکسین‬
‫کے فراہم کردہ تحفظ میں کمی آنے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔‬
‫پیر کو شائع شدہ ایک مقالے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ تحقیق کے دوران جن شرکا کو‬
‫سائنوویک کی دوسری ڈوز کے تین سے چھ ماہ کے بعد کین سائنو بائیو کی بوسٹر ڈوز‬
‫لگائی گئی‪ ،‬ان میں دو ہفتے بعد اینٹی باڈی سطحات کو بے اثر کرنے میں اوسطا ً ‪ 78‬گنا‬
‫اضافہ دیکھا گیا۔‬
‫اس کے برعکس‪ ª‬جن شرکا کو سائنوویک کی بوسٹر ڈوز لگائی گئی‪ ،‬ان میں صرف ‪15.2‬‬
‫گنا اضافہ دیکھا گیا۔ ایک یا دو ماہ کے وقفوں سے سائنوویک کی ایک ڈوز کے بعد‬
‫کینسائنو بائیو کی بوسٹر ڈوز سے اینٹی باڈی سطحات کو بے اثر کرنے میں ‪ 25.7‬گنا‬
‫اضافہ‪ ،‬جب کہ سائنوویک کی دو ڈوز سے یہ اضافہ ‪ 6.2‬گنا رہا۔‬
‫مقالے میں کہا گیا ہے کہ اس تحقیق کے دوران زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کے خالف بوسٹر‬
‫ڈوزز کے اثرات کا مطالعہ نہیں کیا گیا۔‬
‫ایک رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا بھر میں سائنوویک ویکسین کی ‪ 1.4‬ارب ڈوزز لگائی‬
‫جا چکی ہیں‪ ،‬جن میں سے تین چوتھائی صرف چین میں لگائی گئی ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/mixing-cansinobio-sinovac/‬‬

‫نئی’‬ ‫کچھ افراد میں کوروناکی ہر قسم کے خالف مدافعت پیدا ہو گئی ‘‬
‫تحقیق میں خوشگوار انکشاف‬
‫‪Sep 08, 2021 | 15:27:PM‬‬
‫‪  ‬‬
‫نیو یارک (ڈیلی پاکستان ٓان الئن )‪  ‬سائنسی تحقیق کے نتیجے میں انکشاف ہوا ہے کہ کچھ‬
‫لوگوں میں کورونا وائرس کی ہر قسم کے خالف قوت مدافعت پیدا ہو گئی ہے جو انہیں‬
‫محفوظ رکھتی ہے ۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے راکفیلر یونیورسٹی امریکہ کی تحقیق کا حوالہ‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دیتے ہوئے کہا کہ مضبوط مدافعت والے افراد کے جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار عام‬
‫لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جو کورونا کی خطرناک ترین شکل کا بھی مقابلہ کر سکتی ہیں‬
‫امریکی ادارے نیشنل پبلک ریڈیو ( این پی ٓار) کے مطابق وائرولوجسٹ پال بیانیاس نے‬
‫کہا کہ ہماری تحقیق کے مطابق ایسی مدافعت رکھنے والے کورونا وائرس کی کسی بھی‬
‫شکل کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔پچھلے ماہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی اس‬
‫مطالعاتی تحقیق میں بیانیاس اور ان کے ساتھیوں نے مضبوط مدافعت والے افرادکے اجسام‬
‫میں موجوداینٹی باڈی کا ٹیسٹ لیا تو وہ کرونا وائرس کی تمام موجود تغیرات کو بآسانی‬
‫قابو میں کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔‬

‫تحقیق کے مطابق امکان کیا جا رہا ہے کہ ایسے افراد سارس وائرس سے جڑی کسی بھی‬
‫بیماری سے محفوظ ہیں ‪ ،‬یہ اینٹی باڈیز یا سپر ہیومن مدافعتی نظام ان افراد میں پایا گیا ہے‬
‫جنہیں گزشتہ سال کرونا وائرس الحق ہوا تھا اور انہیں اس سال کرونا کی ویکسین لگائی‬
‫گئی ہے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/08-Sep-2021/1337992‬‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خواتین کیلئے بچوں کی پیدائش اور پرورش کے دوران سب سے بڑے‬
‫چیلنجز کیا ہوتے ہیں؟ سروے کے حیران کن نتائج سامنے آگئے‬

‫‪Sep 08, 2021 | 18:34:PM‬‬

‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) حالیہ دنوں ایک تحقیقاتی سروے کیا گیا جس میں خواتین سے‬
‫بچوں کی پیدائش اور پرورش کے حوالے سے انہیں درپیش آنے والے سب سے بڑے‬
‫چیلنج کے بارے میں پوچھا گیا اور خواتین نے اس کے کچھ ایسے جوابات دیئے کہ سن‬
‫کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ دی سن کے مطابق اس سروے کے نتائج کے مطابق بچے کی‬
‫پیدائش کا عمل خواتین کے نزدیک چیلنج کی حیثیت نہیں رکھتا۔ تاہم اس عمل کے بعد‬
‫ریکور کرنا زیادہ تر خواتین کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ ہر ‪10‬میں سے ‪7‬خواتین نے‬
‫کہا کہ ماں بننے کے عمل کے بعد جذباتی لحاظ سے ریکور کرنا ان کے لیے سب سے بڑا‬
‫چیلنج تھا۔‬
‫نتائج میں معلوم ہوا کہ ایک تہائی کے لگ بھگ خواتین بچے کی پیدائش کے بعد ڈپریشن‬
‫کا شکار ہوتی ہیں۔ تاہم یہ ڈپریشن عارضی ہوتا ہے اور کچھ عرصے بعد خواتین صحت‬
‫مند ہو جاتی ہیں۔ اوسط خواتین نے اعتراف کیا کہ انہیں بچے کی پیدائش کے بعد الحق‬
‫ہونے والی ڈپریشن سے نکلنے میں تین ماہ کا عرصہ لگا۔ ‪53‬فیصد خواتین نے اعتراف کیا‬
‫کہ بچے کی پیدائش کے بعد مزاج کا پل پل بدلناان کے لیے بڑا چیلنج تھا۔ ‪50‬فیصد نے خود‬
‫کو بے یارومددگار محسوس کرنے اور ‪42‬فیصد نے پچھتاوے کو بڑا چیلنج قرار دیا۔‬
‫‪52‬فیصد نے اپنے وزن میں تبدیلی اور ‪45‬فیصد نے بچے کو اپنا دودھ پالنا سب سے بڑا‬
‫چیلنج قرار دیا۔ ایسی خواتین صفر کے قریب تھیں جنہوں نے بچے کی پیدائش کے عمل کو‬
‫چیلنج قرار دی‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/08-Sep-2021/1338012‬‬

‫کیا کورونا ہمیشہ رہے گا ؟عالمی ادارہ صحت نے بڑی خبر دیدی‬
‫‪  ‬‬
‫‪08/09/2021‬‬
‫‪   ‬‬

‫جنیوا(نیوز ڈیسک )عالمی ادارہ صحت نے اہم اعالن کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس‬
‫فلو میں تبدیل ہو کر ہمیشہ رہے گا ‪،‬ایسے ممالک میں یہ تیزی سے پھیلے گا جہاں لوگ‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کورونا ویکسین لگانے کی پابندی نہیں کر رہے ۔ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے ایگزیکٹو‪ª‬‬
‫ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیک ریان‬
‫کا پریس بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ کورونا اب ہمیشہ رہنے واالہے کیوں کہ کورونا‬
‫ویکسین نہ لگانے والے ممالک میں وائرس پھیل رہا ہے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہی‬
‫وجہ ہے کہ وائرس کے ختم ہونے کی امید کم ہوتی جا رہی ہے ‪،‬عالمی ادارہ صحت کا کہنا‬
‫ہے کہ کورونا نہ ختم ہو ا تو اس سے دوسرا وائرس سامنے ٓا جائے گا جو انتہائی خطر‬
‫ناک ہو گا ۔ اگر دنیا کورونا کو روکنے کے لیے پہلے اقدامات کرتی تو ٓاج صورتحال بہت‬
‫بہتر ہوتی ۔ واضح رہے اس وقت پاکستان میں ایک دفعہ پھر کورونا مریضوں کی تعداد‬
‫میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں ٓارہا ہے جس کی وجہ سے ستمبر کے پہلے ہفتے میں‬
‫ہی پنجاب کے تمام سکولز کو ایک ہفتے کیلئے بند کر دیا گیا ۔دوسری طرف کورونا‬
‫وائرس کی چوتھی لہر کے پیش نظر حکومت پنجاب کے محکمہ محنت نے اہم ترین فیصلہ‬
‫کرلیا۔ جس کے تحت ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد پر نئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں‪،‬‬
‫صوبائی حکومت کے محکمہ محنت نے فیصلہ کیا ہے کہ ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد‬
‫صنعتی اداروں میں کام کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔اس سلسلے میں صوبائی وزیر‬
‫محنت عنصر مجید خان نے باقاعدہ مراسلہ بھی جاری کردیا ہے‪،‬پنجاب کے وزیر محنت‬
‫عنصرمجید خان کی جانب سے جاری کردہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ‪ 30‬ستمبر کے بعد‬
‫بنا ویکسینیشن کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی‪،‬صوبائی حکومت کی جاری کردہ ہدایت‬
‫کے تحت ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد فیکٹریوں‪ ،‬کارخانوں اور صنعتی اداروں میں‬
‫کام نہیں کرسکیں گے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202109-122325.html‬‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چھوٹا بچہ پلنگ سے زمین پر گر جائے تو!! والدین کیلیے اہم ہدایات‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪9 2021‬‬

‫کراچی ‪ :‬نومولود اور شیرخوار بچے خصوصی دیکھ بھال چاہتے ہیں اور بچے کا پلنگ یا‬
‫بلندی سے گرجانا والدین کے لیے ڈراؤنا خواب ہوتا ہے تاہم اکثر حاالت میں بچے کو‬
‫کوئی پریشان کن نقصان نہیں پہنچتا۔‬
‫تاہم کبھی کبھار‪  ‬بچے کو ایسی دماغی اور جسمانی چوٹ لگ سکتی ہے جس کے بعد‬
‫فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس مضمون میں والدین کے لیے‬
‫مفید معلومات پیش کی جارہی ہیں جو انہیں ایسے واقعات کو بہترطور پر سمجھنے میں مدد‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫اگر خدانخواستہ چھوٹا بچہ پلنگ یا جھولے سے زمین پر ٓاگرے تو اس ضمن میں والدین‬
‫کو صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے کسی منفی ر ِد عمل سے دور رہنا چاہیے۔‬
‫گرنے کے بعد بچہ بے ہوش ہوجائے‪ ،‬اس کا خون کا زیادہ بہہ جائے‪ ،‬بچہ بے قرار ہوکر‬
‫رو رہا ہو یا خاموش نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں والدین کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع‬
‫کرنا چاہیئے۔‬
‫اس کے عالوہ شیرخوار بچے کے گرنے کی ٓاواز سے نوٹ کریں کہ ٓایا اسے کوئی چوٹ‬
‫تو نہیں لگی ہے اور بچے کا سینہ‪ ،‬بازو‪ ،‬کمر‪ ،‬ٹانگوں اور خصوصا ً چہرے اور سر پر‬
‫خراش‪ ،‬گومڑ یا کسی قسم کے نشان کو نوٹ کرنے کی کوشش کیجئے۔‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اگر اوپر بیان کی گئی تمام کیفیات میں سے ایک بھی نہ ہوں تو بچے کو ٓارام دہ انداز میں‬
‫لٹا کر کم از کم ‪ 15‬منٹ تک اس کا بغور جائزہ لیجئے‪ ،‬اگر ٓاپ کوئی غیرمعمولی تبدیلی‬
‫نوٹ نہیں کرتے تو اطمینان رکھیں کہ معامالت ٹھیک ہیں۔ تاہم بچہ ایک یا دو گھنٹے بعد‬
‫بھی قے کرسکتا ہے اور اس صورت میں اسے اسپتال لے جانا ضروری ہے۔‬

‫شیرخوار بچے کے گرنے کی صورت میں اوپر بیان کردہ عالمات کے عالوہ یہ کیفیات‬
‫بھی پیدا ہوسکتی ہیں‪ ،‬یہ عالمات انتہائی پیچیدہ ہوسکتی ہیں جنہیں ہرگز نظر انداز نہ‬
‫کیجئے۔‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ان عالمات میں قے کرنا‪ ،‬دیر تک سونا‪ ،‬بہت دیر تک خاموش رہنا‪ ،‬کھانے سے انکار کرنا‬
‫اور حال ہی میں سیکھے کچھ امور کو بھول جانا‪ٓ ،‬انکھوں اور کانوں سے مائع کا اخراج‬
‫ہونا۔‬
‫اس کے عالوہ سر میں گڑھا پڑجانا اور معمول سے کم سانس لینا‪ ،‬ان عالمات میں سے‬
‫کسی بھی ایک کیفیت میں بچے کو فوری طور پراسپتال لے جائیں اور ڈاکٹر کو تمام احوال‬
‫سے ٓاگاہ کیجئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/little-baby-fall-to-ground-instructions-for-‬‬
‫‪parents/‬‬

‫موبائل انسان کیلئے کس خطرے کا سبب بن رہا ہے؟ تحقیق میں اہم‬
‫انکشاف‬
‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪  9 2021‬‬

‫طبی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موبائل فون کی وجہ سے ہر دو میں سے ایک‬
‫شخص مکمل نیند سے محروم ہے جبکہ سعودی عرب میں ہر ‪ 4‬میں سے تین افراد اس‬
‫پیچیدہ مسئلے کا شکار ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں‬
‫امریکا‪ ،‬برطانیہ‪ ،‬فرانس‪ ،‬بیلجیم‪ ،‬جنوبی کوریا‪ ،‬جاپان اور چین سمیت ‪ 9‬ملکوں کے ‪75‬‬
‫ماہرین نے حصہ لیا مشاہدے کے دوران مختلف تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا اور پھر‬
‫‪ 30‬ممالک میں اس تحقیق پر کام شروع ہوا۔‬
‫اس تحقیقی پروگرام کے ڈائریکٹرعبدہللا الرشید کا کہنا ہے کہ ہم نے اس موضوع پر تمام‬
‫دستیاب تحقیق اکٹھی کی اور پھر ‪ 30‬ممالک میں اس مطالعے کا آغاز کیا۔ تحقیق سے پتہ‬
‫چال کہ اکثریت دو سال پہلے کے مقابلے میں آج اپنے فون سے بہت زیادہ جڑی ہوئی ہے‪،‬‬
‫اور دنیا بھر میں ہر دو شخص اپنے موبائل کی وجہ سے نیند سے محروم ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے‪ ،‬مملکت میں ہر چار‬
‫میں سے تقریبا تین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فون کی وجہ سے نیند کھو چکے ہیں‪ ،‬یہ صرف‬
‫ایک ڈیٹا پوائنٹ ہے مزید حقائق آنا ابھی باقی ہیں۔‬
‫خیال رہے کہ اسی ضمن میں سعودی عرب کے کنگ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچر‬
‫(اثرا) کی جانب سے منعقد ہونے والی تقریب میں ڈیجیٹل اشیاء کا ضرورت‪ ª‬سے زیادہ‬
‫استعمال اور بڑھتے ہوئے مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔ اس دوران تیزی سے ڈیجیٹالئز ہوتی‬
‫دنیا پر نگاہ ڈالی گئی‪ ،‬ایک جانب اس کے فوائد تو دوسری جانب نقصانات کا بھی اعتراف‬
‫کیا گیا۔‬
‫اس تقریب میں ڈیجیٹل اور حقیقی دنیا کے درمیان ایک لکیر کھینچنے پر زور دیا گیا۔ کنگ‬
‫سعود یونیورسٹی میں نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ہایلہ السالم کا ماننا ہے کہ سوشل‬
‫میڈیا نے نجی زندگی کی دیواریں توڑ کر حقیقی شناخت ظاہر کرنے میں مدد کی تاہم ہمیں‬
‫اس حوالے سے اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/what-is-the-threat-to-mobile-human-health-‬‬
‫‪significant-findings-in-research/‬‬

‫انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی چلنا یا بولنا کیوں نہیں سیکھتا ؟‬


‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪ 9 2021‬‬

‫انسان کے بچے دیگر جانداروں کی نسبت بولنے اور سیکھنے کے عمل کو دیر سے‬
‫مکمل کرتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟‬
‫اس کا جواب یہ ہے کہ انسانوں کے بچے افزائش اور سیکھنے میں زیادہ وقت اس لئے‬
‫لیتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ کا سائز بڑا ہوتا ہے۔‬
‫اس بڑے سائز کے دماغ کی افزائش پہ ان کی ‪ 80‬سے‪ %85‬فیصد توانائی لگ جاتی ہے‬
‫جس کے نتیجے میں وہ اپنی تمام تر توجہ دماغی افزائش پر دیتے ہیں اور اسی لیے وہ‬
‫جلدی چل یا بول نہیں سکتے۔‬
‫ماہرین کے مطابق‪ ‬جسم کے تناسب سے انسان کا دماغ تقریبا ً باقی تمام جانوروں سے بڑا‬
‫ہوتا ہے کیونکہ انسان کی نوع کی کامیابی کا‪  ‬راز اس کی بہترین ذہانت ہے۔‬
‫جسم کے تناسب سے انسانی بچے کا دماغ بھی باقی تمام ممالیہ جانوروں کے بچوں کے‬
‫دماغ سے بڑا ہوتا ہے لیکن زیادہ بڑے دماغ کے لیے زیادہ بڑی کھوپڑی بھی درکار ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫بڑی کھوپڑی کا ماں کے جسم سے فطری اخراج زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے‪،‬‬
‫انسانی بچے کی پیدائش باقی ممالیہ جانوروں کی نسبت زیادہ تکلیف دہ اسی لیے ہوتی ہے‬
‫کہ انسانی بچے کی جسامت اور اس کی کھوپڑی ماں کی (برتھ کینال) کے تناسب میں باقی‬
‫جانوروں سے بڑی ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر ارتقاء کے مراحل میں یہ‬
‫ضروری ہوتا (یعنی جو بچے ایسا نہ‬
‫کر پاتے وہ زندہ نہیں رہ پاتے) کہ‬
‫انسانی بچہ پیدا ہوتے ہی چل پھر‬
‫سکے تو پیدائش سے پہلے بچے کا‬
‫دماغ چھوٹا رہتا جس سے بچہ جلد‬
‫چلنے پھرنے کے قابل تو ہو جاتا‬
‫لیکن ماں باپ اور ماحول سے جلد‬
‫سیکھنے کی صالحیت نہ رکھتا۔‬
‫چونکہ والدین اپنے بچوں کی بلوغت‬
‫تک ان کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ضروریات‬
‫زندگی فراہم کرتے ہیں اس لیے ارتقاء کے مراحل‬
‫میں انسانی بچے ذہانت کے لیے یہ بہتر ہوتا ہے‬
‫یعنی ان کا دماغ بڑا ہوتا ہے۔اس کا ضمنی نتیجہ یہ‬
‫نکال کہ بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے کے قابل‬
‫نہیں ہوتے بلکہ چلنا پھرنا بھی سیکھنا پڑتا ہے یعنی‬
‫تجربات کی بنا پر دماغ میں اندرونی کنکشنز اس‬
‫طرح سے بنتے ہیں کہ دماغ دو پاؤں پر جسم کو‬
‫بیلینس کرنے کی کیلکولیشنز غیر شعوری طور پر‬
‫کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔‬
‫گویا انسانی دماغ کی پالسٹیسیٹی یعنی تجربات یعنی سٹیمولیس کے نتیجے میں دماغ کی‬
‫وائرنگ کا تبدیل ہوجانا)‪ ،‬ذہانت (یعنی بڑے دماغ کی ضرورت) اور ماں کی برتھ کینال کی‬
‫جسامت ان سب عوامل نے مل کر وہ ارتقائی رکاوٹیں پیدا کیں جن میں انسانی بچے کی‬
‫جسامت اور پیدائش کے فوراً بعد بچے کی قابلیت کی حدود متعین ہوئیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/human-child-why-doesnt-walk-or-speak/‬‬

‫اعلی درجے کی مدافعت پیدا ہوگئی ہے‪،‬‬


‫ٰ‬ ‫کچھ لوگوں میں کورونا کیخالف‬
‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬بدھ‪ 8  ‬ستمبر‪ 2021mRNA ‬ویکسین لگوانے والے افراد کی اینٹی باڈیزسارس جیسے‬
‫وائرس کے تمام ویرئینٹس کو بے اثر کر سکتی ہیں‪ ،‬تحقیق‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪ ‬‬
‫نیویارک‪ :‬کووڈ ویکسین کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے اثرات پر مطالعوں سے‬
‫اعلی درجے کی مدافعت پیدا ہوگئی‬ ‫ٰ‬ ‫انکشاف ہوا ہے کہ کچھ افراد میں کورونا کے خالف‬
‫ہے۔‬
‫العربیہ نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کےمطابق بہت سے مطالعوں سے یہ بات سامنے‬
‫ٓائی ہے کہ ‪ mRNA‬ویکسین ( وبائی امراض کے خالف تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین‬
‫کی نئی قسم‪ ،‬جو ہمارے جسم کے خلیات کو پروٹین بنانا سکھاتی ہے) لگوانے والے کچھ‬
‫افراد میں کورونا کے خالف قوت مدافعت کسی سپر ہیومن کی طرح بہت زیادہ طاقت ور‬
‫ہوسکتی ہے۔ اور ان کا مدافعتی نظام ‪ SARS-CoV-2‬کے خالف کسی بلٹ پروف کی‬
‫طرح کام کرسکتا ہے۔‬
‫ماہر‬
‫اس نوعیت کے متعدد مطالعوں کی سربراہی کرنے والے راکر فیلر یونیورسٹی‪ ‬کے‪ِ  ‬‬
‫ماہر) پال بیانیئز کا کہنا ہے کہ ایسے افراد میں‬‫سمیات( وائرس سے پیدا ہونے بیماریوں کا ِ‬
‫ضد َجراثیم) پیدا کرتا ہے بلکہ ان میں‬‫ان کا جسم نہ صرف بہت بلند درجے کی اینٹی باڈیز ( ِ‬
‫بہت زیادہ لچک پذیری پائی جاتی ہے‪ ،‬جس کی بدولت ان کا جسم کورونا کی ہالکت خیز‬
‫اقسام کے خالف بھی بھرپور ردعمل دینے کا اہل ہوجاتا ہے۔‬
‫طبی جریدے ’ دی نیو انگلینڈ جرنل ٓاف میڈیسن‘‪  ‬میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں‬
‫سائنس دانوں نے ‪ 2002‬اور ‪ 2003‬میں اوریجنل سارس وائرس‪ SARS-CoV-1 ‬سے‬
‫متاثر ہونے والے افراد کی اینٹی باڈیز کا تجزیہ کیا۔ ان افراد نے اسی سال ‪mRNA‬‬
‫ویکسین لگوائی تھی۔‪ ‬تجزیے سے یہ بات سامنے ٓائی کہ ان افراد میں اینٹی باڈیز بہت بلند‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سطح پر پیدا ہورہی ہیں‪  ‬جو کہ سارس جیسے وائرس کے تمام ویرئینٹس کو بے اثر کر‬
‫سکتی ہیں۔ اور ان نتائج کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا معدافعتی نظام اس وائرس‬
‫کے خالف بہت طاقت ور ہوچکا ہے۔‬
‫اسی طرح کے ایک اور مطالعے میں بیانیئز اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ایسے افراد‬
‫میں پائی جانے والی اینٹی باڈیز نے کورونا کے ‪ 6‬ویرئینٹس بشمول ڈیلٹا اور بی ٹا کو بے‬
‫اثر کر دیا۔ جب کہ ‪ SARS-CoV-2‬سے متعلقہ متعدد وائرس بھی بے اثر ہوگئے جن میں‬
‫سے ایک وائرس چمگاڈر اور ‪ 2‬وائرس کورونا وبا کی وجہ بننے والے پینگولین کے بھی‬
‫تھے۔‪/https://www.express.pk/story/2222486/9812‬‬

‫اومیگا تھری؛ الزائیمر کے مریضوں کیلیے بھی مفید‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 9  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫الزائیمر کے مریضوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کا استعمال مفید ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سویڈن‪ :‬ایک چھوٹے سے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چکنی مچھلیوں اور دیگر‬
‫اجناس میں عام پایا جانے واال اومیگا تھری فیٹی ایسڈ الزائیمر کے مریضوں کے لیے‬
‫بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ فیٹی ایسڈ سے ان مریضوں\ کی یادداشت بہتر\ رہتی ہے۔‬
‫اس ضم میں اپساال یونیورسٹی کے سائنسداں ‪ ‬اور کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی ماہر یون‬
‫فروئنڈ لی وائی نے کہا ہے کہ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہال مطالعہ ہے جس میں الزائیمر‬
‫کے مریضوں پر اومیگا تھری کے اثرات معلوم کئے گئے ہیں۔ اس میں الزائیمر کےبایو‬
‫بطور خاص مطالعہ کیا گیا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫مارکرز کا‬
‫اگرچہ اس میں شریک افراد کی تعداد کم ہے لیکن اس کی شماریاتی اہمیت اپنی جگہ ہے۔‬
‫اس سروے میں ‪ 33‬مریضوں کو شامل کیا گیا جو الزائیمر کے شکار تھے۔ ان میں سے ‪18‬‬
‫افراد کو صبح و شام اومیگا تھری کی گولیاں کھالئی گئیں جبکہ ‪ 15‬افراد کو نہیں دی گئیں۔‬
‫یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہا اور تمام افراد کو شروع‪ ،‬میں درمیان میں اور سروے کے‬
‫اختتام میں حافظے کے ٹیسٹ سے گزارا گیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو اومیگا تھری کھالئی گئی ان کی یادداشت مستحکم رہی‬
‫اور اس میں کوئی تنزلی نہیں دیکھی گئی جبکہ اومیگا نہ کھانے والے مریضوں کی‬
‫یادداشت میں مزید زوال واقع ہوا۔ واضح رہے کہ الزائیمر کے مریضوں کا حافظہ بہت‬
‫تیزی سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔‬
‫ساتھ ہی تمام شرکا کے حرام مغز سے بھی مائع نکال کر اس کا تجزیہ کیا گیا لیکن اومیگا‬
‫تھری استعمال کرنے یا نہ کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا لیکن حافظے میں‬
‫واضح فرق تھا۔ اس پر تنقید کرنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اول تو اس تحقیق میں‬
‫بہت کم افراد شامل کئےگئے ہیں لیکن انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس پر مزید‬
‫تحقیق ہونا ضروری ہے۔‬
‫اسی ٹیم نے ‪ 15‬سال قبل ‪ 200‬مریضوں پر ایسی ہی تحقیق کی تھی۔ اس میں دیکھا گیا تھا‬
‫کہ اومیگا تھری کے اجزا کھانے سے وہ دماغ تک منتقل ہوتے ہیں اور دماغ پر مثبت‬
‫اثرات ڈالتے ہیں۔ تاہم یون کی ٹیم اگلے مرحلے میں اس سے بڑی تعداد کےمریضوں کو‬
‫شامل کرے گی اوران کے مزید ٹیسٹ کئےجائیں گے جن میں خون کے ٹیسٹ بھی ہوں‬
‫گے‬
‫‪/https://www.express.pk/story/2222254/9812‬‬

‫انٹرمٹنٹ فاسٹنگ‪ :‬یہ ڈائٹ پالن کیا ہے اور انڈیا کی معروف‬


‫کامیڈین بھارتی سنگھ نے اس سے اپنا وزن کیسے کم کیا‬

‫سوشیال سنگھ‬ ‫‪‬‬


‫بی بی سی‬ ‫‪‬‬

‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪Sep 2021 9‬‬

‫بارتی انڈیا کی مشہور کامیڈین ہیں‬


‫انڈین کامیڈین بھارتی سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نےاپنا ‪ 15‬کلو وزن کم کیا ہے۔‬
‫بھارتی سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں انٹرمٹنٹ فاسٹنگ یعنی وقفے والی فاسٹِنگ‬
‫کرتی ہوں اور میں حیران ہوں کہ ایسا کر کے میں نے کتنا وزن کم کیا ہے۔‘‬
‫بھارتی کا کہنا ہے 'میرا وزن ‪ 91‬کلو گرام سے ‪ 76‬کلو گرام ہو گیا ہے۔ اب میری سانس‬
‫نہیں پھولتی اور میں ہلکا محسوس کر رہی ہوں۔‬
‫’میرا دمہ اور ذیابیطس بھی قابو میں آگئے ہیں۔ میں اس وقت وقفے وقفے شام سات بجے‬
‫سے اگلے دن ‪ 12‬بجے تک کچھ نہیں کھاتی۔‬
‫انٹرمٹنٹ\ فاسٹنگ‪ :‬بھارتی سنگھ کس ڈائٹ کی بات کر رہی ہیں؟‬
‫صحت مند رہنے کے لیے وزن میں کمی اور صحت مند طرز زندگی ضروری ہے۔ لیکن‬
‫کئی بار لوگ وزن کم کرنے کے لیے ایسے طریقے اپناتے ہیں جس کی وجہ سے وزن کم‬
‫ہونے کے بجائے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ یا اس کے مضر اثرات ہونے لگتے ہیں۔‬
‫اگرچہ زیادہ تر لوگ روزے کے بارے میں جانتے ہیں لیکن وقفے سے روزے کا مطلب‬
‫ہے کہ کچھ طے شدہ گھنٹوں میں کھانا نہ کھایا جائے۔‬
‫جانز ہاپکنز میڈیسن کے مطابق کسی ڈائٹ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا کھانا ہے‬
‫اور کیا نہیں کھانا۔ لیکن وقفے سے روزہ یعنی انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں آپ کو یہ طے کرنا‬
‫ہے کہ آپ کو کب کھانا چاہیے۔‬
‫تصویر کا ذریعہ‪THE WASHINGTON POST‬‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫صحت مند خوراک بھی وزن کم کرنے میں مدد گار ہوتی ہے‬
‫جانز ہاپکنز میڈیسن صحت کے شعبے میں کام کرنے والی ایک تنظیم ہے۔‬
‫انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں آپ ایک دن میں صرف چند گھنٹوں میں کھا سکتے ہیں جو آپ کے‬
‫جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‬
‫ایسے روزے میں آپ ایک مقررہ وقت پر کھانا کھا سکتے ہیں جس میں ایک دن میں کئی‬
‫گھنٹے کھانا نہ کھانا شامل ہوتا ہے۔‬
‫جانز ہاپکنز کے ایک نیورو سائنسدان مارک میٹسن نے ‪ 25‬برسوں تک انٹرمٹنٹ فاسٹنگ‬
‫کا مطالعہ کیا ہے۔‬
‫ہاپ ِکنس میڈیا پر شائع ہونے والی معلومات کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا جسم اس‬
‫طرح بنا ہے کہ ہم بغیر خوراک کے کئی گھنٹوں یا کئی دنوں‪ ،‬یا اس سے بھی زیادہ‬
‫عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور وہ اس وقت کا حوالہ دیتے ہیں جب انسانوں نے‬
‫کھیتی کرنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ جب انسان شکار بنے تو انھوں نے طویل عرصے تک‬
‫کھانا کھائے بغیر زندگی گزارنا سیکھ لیا تھا۔‘‬
‫جانز ہاپکنز میں غذائی ماہر کرسٹی ولیمز کے مطابق انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کی کئی اقسام ہیں‬
‫اور اسے صرف ڈاکٹر کے مشورے پر شروع کیا جانا چاہیے۔‬
‫اس میں سے ایک ‪ 16/8‬ہے جس میں آپ دن کے ‪ 16‬گھنٹے کھانے سے دور رہتے ہیں‬
‫اور باقی آٹھ گھنٹے کھانا کھاتے ہیں۔‬
‫ان کے مطابق زیادہ تر لوگ اس طریقے کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے طویل عرصے‬
‫تک جاری رکھ پاتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انٹرمٹنٹ\ فاسٹنگ کی ایک قسم ‪5/2‬‬
‫یہ طریقہ اپناتے ہوئے آپ کو پانچ دن کے لیے عام خوراک لینا ہوگی۔ لیکن ہفتے کے کسی‬
‫بھی دو دن آپ کو صرف اتنا کھانا کھانا پڑے گا کہ جسم کو صرف ‪ 500‬سے ‪600‬‬
‫کیلوریز ملیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔‬
‫اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کھانے سے پرہیز کے دو دن کے درمیان ایک عام‬
‫کھانے کا دن ہونا چاہیے جس میں آپ عام دن کی طرح کھانا کھائیں۔‬
‫لیکن ماہرین صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‪ 48 ،36 ،24‬اور ‪ 72‬گھنٹوں کی طرح طویل‬
‫عرصے تک کھانا نہ کھانا آپ کے جسم کے لیے مہلِک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اتنی دیر‬
‫تک نہ کھانے کی وجہ سے سے آپ کے جسم میں چربی جمع ہونے لگتی ہے۔‬
‫اور ڈاکٹر ولیمز آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ پانی اور صفر کیلوری والے مشروبات جیسے‬
‫بلیک کافی اور چائے کا استعمال کریں۔ یعنی صحیح اور صحت مند کھانے پر توجہ دیں۔‬

‫تصویر کا ذریعہ‪REDA&CO‬‬
‫انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں بلیک ٹی یا کافی استعمال کی جاسکتی ہے‬
‫لیکن اس ڈائٹ میں کس قسم کا کھانا کھایا جائے؟‬
‫ڈاکٹر شکھا شرما کا کہنا ہے کہ اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ‬
‫انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں کھانے کے وقت آپ کیا کھا رہے ہیں۔‬
‫ب آفتاب کے‬
‫ان کے مطابق ’اگر ہم ویدک سائنس کو دیکھیں تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ غرو ِ‬
‫بعد نہ کھائیں کیونکہ اس کے بعد لیا گیا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔‘‬

‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫’اگر ہم گرمیوں میں غروب آفتاب کی بات کرتے ہیں تو یہ ساڑھے سات بجے تک اور‬
‫سردیوں میں ساڑھے پانچ بجے کے بعد ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ ضروری‬
‫ہے کہ اُن آٹھ گھنٹوں میں آپ کیا کھا رہے ہیں‪ ،‬اس کا خیال رکھیں۔‘‬
‫وہ کہتی ہیں 'اگر آپ برگر اور پیزا یا میٹھی چیزیں کھا رہے ہیں تو آپ کے جسم پر اثر‬
‫پڑے گا۔ لہذا اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آپ اس مدت کے دوران صحیح اور‬
‫متوازن غذا لیں۔‘‬
‫ڈاکٹر شکھا غذائیت سے بھرپور خوراک کی بات کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وقفے سے‬
‫روزے میں اس پر تو بات کی جاتی ہے کہ کب نہ کھایا جائے۔ لیکن کیا کھائیں اس پر زیادہ‬
‫بحث نہیں ہوتی۔‬
‫وہ مزید وضاحت کرتی ہیں 'یہ ایک عام مسئلہ ہے جو وقفے سے روزہ رکھنے والوں میں‬
‫دیکھا جاتا ہے کہ وہ صبح ناشتہ یا دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے لیکن اس دوران ان کی چائے‬
‫اور بسکٹ چلتے رہتے ہیں اور پھر شام کو بھوک لگتی ہے تو کینٹین سے کچھ لے کر کھا‬
‫لیا جاتا ہے۔ اور رات میں جب فرصت ہوتی ہے تو وہ ایک بہت بڑا ڈنر لیتے ہیں۔ یہ‬
‫صرف جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪DR SHIKHA SHARMA‬‬


‫ڈاکٹر شکھا غذائیت سے بھرپور خوراک کی بات کرتی ہیں‬
‫ڈاکٹر شکھا کا کہنا ہے کہ جب دن میں جسم کا میٹابولزم زیادہ ہوتا ہے تو آپ نے اسے‬
‫بھوکا رکھا اور جب یہ گر رہا ہوتا ہے تو آپ کھا رہے ہوتے ہیں۔ پھر تینوں چیزیں آپ کے‬
‫جسم پر موٹاپے اور غذائی اجزا کی کمی کا کام کرتی ہیں۔وہ تجویز کرتی ہے کہ اگر آپ‬

‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وقفے سے ‪ 16/8‬گھنٹے روزہ رکھیں تو ‪ 16‬گھنٹوں میں آپ سبز چائے‪ ،‬سبزیوں کا رس‬
‫لے سکتے ہیں۔ اور باقی آٹھ گھنٹوں میں آپ اناج کھا سکتے ہیں بشمول کینوا‪ ،‬براؤن چاول‬
‫سے بنا پوہا یا اڈلی‪ ،‬دلیہ اور میوسلی۔ مٹھائی میں چینی کا استعمال نہ کریں اور آپ ُگڑ کو‬
‫چینی کے متبادل کے طور پر لے سکتے ہیں۔‬
‫ان کے مطابق کوئی بھی ڈائٹ پالن وزن کم کرنے کا ایک شارٹ کٹ نسخہ ہے اور جب‬
‫آپ اسے چھوڑ دیں گے تو اس کے منفی اثرات آتے ہیں۔ ’آپ کا وزن اس وقت تک کنٹرول‬
‫میں رہے گا جب تک کہ آپ صحیح اور متوازن غذا کے ساتھ اس پر عمل کریں۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪E DE FORMIGNY FOR THE WASHINGTON POS‬‬


‫اس ڈائٹ میں بھی کیک اور میٹھے سے پرہیز ضروری ہے‬
‫نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں جانز ہاپکنز کے نیورو‬
‫سائنسدان مارک میٹسن نے بتایا کہ وقفے سے روزہ رکھنا جسم کے لیے مفید ہے اور‬
‫مختلف قسم کی دائمی بیماریوں جیسے ٹائپ ٹو ذیابیطس‪ ،‬دل کا عارضہ اور پیٹ کی جلن‬
‫جیسی بہت سی بیماریاں سے بچا جا سکتا ہے۔مگر ڈاکٹر شکھا شرما نے خبردار کیا ہے کہ‬
‫لوگ وزن کم کرنے کے لیے مختلف ڈائٹ پالن اپناتے ہیں لیکن جب وہ معمول کے عمل‬
‫میں واپس آتے ہیں تو ان کا وزن دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔‬
‫’کیونکہ زیادہ تر معامالت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کے کھانے کی عادت میں سدھار‬
‫صرف مختصر مدت کے لیے ہی آتا ہے۔جس کے جسم پر منفی اثرات ہوتے ہیں۔‘‬

‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-58490904‬‬
‫ویکسین کووڈ کے طویل اثرات کے خالف بھی مؤثر ہیں‪ ،‬سائنسدان‬
‫‪9 Sep 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫کرونا وائرس کی ویکسینز\ نہ صرف ک\\ووڈ ‪ 19‬س\\ے‬
‫مت\\اثر ہ\\ونے بلکہ اس کے بع\\د ش\\دید بیم\\اری\ س\\ے‬
‫حفاظت فراہم کرتی ہیں‪ ،‬سائنس\\دانوں ک\\ا کہن\\ا ہے کہ‬
‫یہ طوی\\ل المیع\\اد ک\\ووڈ کی بیم\\اری\ کے خالف بھی‬
‫موثر\ تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫طویل المیعاد کووڈ میں کرونا وائرس کی بیماری کی‬
‫عالمات کئی ہفتے یا کئی مہینوں تک جاری رہتی‬
‫ہیں۔‬
‫برطانیہ کے کنگز کالج لندن میں کی گئی ریسرچ کے نتائج کے بارے میں سائنسدانوں نے‬
‫کہا ہے کہ کرونا ویکسینز طویل المیعاد کووڈ سے‪ ،‬جسے 'النگ کووڈ' بھی کہا جاتا ہے‪،‬‬
‫بھی مؤثر تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫النگ کووڈ کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں‪ ،‬لیکن اس بارے میں‬
‫خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں الکھوں افراد النگ کووڈ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس‬
‫بیماری کی عالمات میں پٹھوں میں درد‪ ،‬کمزوری‪ ،‬سانس کا پھولنا اور ذہنی کمزوری شامل‬
‫ہیں جو چار ہفتوں سے زائد عرصے تک موجود رہتی ہیں۔‬
‫برطانیہ میں اس بارے میں ’النگ کووڈ ایس او ایس‘ نامی مہم چالنے والی ٓانڈائن‬

‫شیرووڈ کا کہنا ہے کہ النگ کووڈ کی بیماری کے بارے میں ابھی تک زیادہ معلومات‬
‫موجود نہیں ہیں۔‬
‫انہوں نے وائس ٓاف ام‪ª‬ریکہ س‪ª‬ے ب‪ªª‬ات ک‪ª‬رتے ہ‪ª‬وئے‬
‫بتای‪ªª‬ا کہ ط‪ªª‬بی م‪ªª‬اہرین میں اس سلس‪ªª‬لے میں متض‪ªª‬اد‬
‫خیاالت پ‪ªª‬ائے ج‪ªª‬اتے ہیں۔ ان کے مط‪ªª‬ابق کچھ لوگ‪ªª‬وں‬
‫کو ابھی تک بتایا جا رہا ہے کہ یہ بیماری ذہ‪ªª‬نی دب‪ªª‬اؤ‬
‫کی وجہ س‪ªªªª‬ے ہ‪ªªªª‬وتی ہے جب کہ کچھ ڈاک‪ªªªª‬ٹر اس‬
‫بیم‪ªª‬اری ک‪ªª‬و مکم‪ªª‬ل ط‪ªª‬ور پ‪ªª‬ر ابھی ت‪ªª‬ک س‪ªª‬مجھ نہیں‬
‫سکے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ابھی تک صرف عالمات کی روشنی میں مرض کا عالج کیا جاتا ہے۔ اس‬
‫سلسلے میں ریسرچ جاری ہے اور بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک‬
‫کسی طریقہ عالج پر باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کنگز کالج لندن کی ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسینز النگ کووڈ کے‬
‫خطرے کو ‪ 50‬فیصد تک کم کر سکتی ہیں۔‬
‫دوسری طرف متعدد تحقیقات سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب‬
‫ہونے والے افراد میں‪ ،‬ویکسین کی خوراکیں پوری کرنے کے بعد جو قوت مدافعت پیدا‬
‫ہوتی ہے وہ انتہائی طاقتور ہوتی ہے جسے سائنسدان ’سپرہیومن امیونٹی‘‪ ª‬کا نام دے رہے‬
‫ہیں۔‬
‫امریکی خبر رساں ادارے‪ ،‬این بی سی کے مطابق پچھلے ماہ بیالوجی کی ویب سائٹ بائیو‬
‫ٓارزکس میں چھپنے والی ایک تحقیق میں یہ کہا گیا کہ یہ ’سپر ہیومن امیونٹی‘ کرونا‬
‫وائرس کی ان چھ اقسام کے خالف کافی موثر پائی گئی جنہیں تشویشناک سمجھا جاتا ہے۔‬

‫‪https://www.urduvoa.com/a/vaccines-offer-protection-against-long-‬‬
‫‪covid-scientists-say/6217719.html+&c‬‬

‫کووڈ کے مریضوں کے دماغ کو نمایاں نقصان پہنچنے کا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪09 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کی جانب سے دماغ و ذہن سے جڑی عالمات کو اکثر‬
‫رپورٹ کیا جاتا ہے اور بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی ان کا تسلسل برقرار رہتا‬
‫ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا ہے کہ کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعالج رہنے‬ ‫اب ایک نئی تحقیق میں‬
‫والے مریضوں میں ایسے بائیو مارکر لیول بڑھ جاتے ہیں جو عمر بڑھنے سے دماغی‬
‫تنزلی کا عندیہ دیتے ہیں۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔‬

‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا‬
‫تھا کہ ہم نے ایسے بائیو مارکرز بشمول نیورونل‪ ،‬گیالل اور دیگر کی سطح میں اضافے‬
‫کو شناخت کیا۔‬
‫نیورونل‪ ،‬گیالل اور دیگر بائیومارکرز کی سطح میں کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعالج‬
‫مریضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور ان سے بیماری کی سنگین شدت کی پیشگوئی‬
‫بھی کی جاسکتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے‬
‫مرض ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی مگر اس کے باوجود عمر کے ساتھ آنے والے‬
‫تنزلی کی سطح کو الزائمر کے مریضوں سے زیادہ دیکھا گیا۔‬
‫تحقیق میں کووڈ کے باعث زیرعالج رہنے والے ‪ 251‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن‬
‫میں ڈیمینشیا یا دماغی افعال متاثر ہونے کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔‬
‫ان مریضوں کی اوسط عمر ‪ 71‬سال تھی اور ‪ 31‬فیصد کو وینٹی لیٹر سپورٹ کی‬
‫ضرورت پڑی تھی‪ 25 ،‬فیصد کا انتقال ہوگیا تھا اور ‪ 53‬فیصد بیماری کو شکست دینے‬
‫میں کامیاب رہے تھے۔‬
‫افراد میں ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا جو کووڈ ‪ 19‬سے محفوظ رہے تھے ‪161‬‬
‫اور ان کو کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔‬
‫ان میں سے ‪ 54‬افراد دماغی طور پر مکمل صحت مند تھے‪ ،‬جبکہ ‪ 54‬کے دماغی افعال‬
‫جزوی طور پر متاثر ہوچکے تھے اور ‪ 53‬الزائمر امراض کے شکار تھے۔‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے ‪ 48‬فیصد مریضوں کو ذہنی و اعصابی عالمات کا‬
‫سامنا ہوا‪ 46 ،‬فیصد کو دماغی انجری کا بھی سامنا ہوا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کو ذہنی تنزلی کے مسائل کا سامنا‬
‫ہوسکتا ہے جو معمر ہوں اور ان کو کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا ہوا ہو۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے ایسے مریض جن میں‬
‫آکسیجن کی سطح کم ہوگئی اور وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی‪ ،‬ان میں دماغی تنزلی کے‬
‫بائیو مارکرز کی سطح بڑھ گئی۔‬
‫اسی طرح جن مریضوں کا انتقال پسپتال میں ہوگیا تھا ان میں ان بائیو مارکرز کی سطح‬
‫بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں بہت زیادہ دریافت ہوئی۔‬
‫تحقیق کے نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ کووڈ سے دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے مگر‬
‫اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور‬
‫پر شائع ہوئے۔ ‪medRxiv‬‬
‫اس سے قبل جون ‪ 2021‬میں امریکا کی کلیولینڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی بتایا‬
‫گیا تھا کہ کووڈ کے نتیجے میں مریضوں میں الزائمر جیسے دماغی تنزلی کے عارضے‬
‫کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬اور الزائمر کے دوران آنے‬
‫والی دماغی تبدیلیوں کے درمیان تعلق موجود ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ کورونا وائرس دماغی خلیات‬
‫کو براہ راست متاثر کرتا ہے جبکہ دیگر میں ایسے شواہد دریافت نہیں ہوئے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ شناخت کرنا کہ کووڈ کس طرح دماغی مسائل کا باعث بننے واال‬
‫مرض ہے‪ ،‬مؤثر عالج کی دریافت کے لیے ضروری ہے‬
‫‪/https://www.dawnnews.tv/news/1167990‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے مریض کے منہ کی صحت کیسے متاثر ہوتی ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪08 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫چکھنے کی حس میں تبدیلی یا محرومی‪ ،‬منہ خشک رہنا اور چھالے کووڈ ‪ 19‬کے‬
‫مریضوں میں عام مسائل ہوتے ہیں اور ان عالمات کا دورانیہ دیگر سے زیادہ طویل‬
‫ہوسکتا ہے۔یہ بات برازیل میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کے لگ بھگ ہر ‪ 10‬میں سے ‪ 4‬مریضوں کے چکھنے کی‬
‫حس میں تبدیلیاں آتی ہیں یا وہ اس سے مکمل محروم ہوجاتے ہیں۔‬
‫اس کے مقابلے میں ‪ 43‬فیصد مریضوں کو مسلسل منہ خشک رہنے جیسی عالمت کا سامنا‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 180‬سے زیادہ تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں ‪ 65‬ہزار کے‬
‫قریب مریضوں میں منہ کی عالمات کو دیکھا گیا تھا‪ ،‬جن میں سے کچھ کا علم تو پہلے‬
‫سے تھا مگر کچھ نتائج حیران کن تھے۔‬
‫بیشتر افراد کو یہ تو علم ہے کہ سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ ‪19‬‬
‫کی اہم عالمات ہیں‪ ،‬مگر برازیلیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں منہ سے جڑی متعدد‬
‫عالمات کو شناخت کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں کی چکھنے کی حس محدود ہوجاتی ہے یا وہ‬
‫بدل جاتی ہے جس سے ہر چیز میٹھی‪ ،‬کڑوی تیکھی یا میٹالک محسوس ہونے لگتی ہے یا‬
‫وہ مکمل طور پر اس حس سے محروم ہوجاتے ہیں۔‬
‫تحقیق کے مطابق کچھ کووڈ کے مریضوں نے منہ کے مختلف حصوں میں زخم کو‬
‫رپورٹ کیا۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق یہ پیچیدگیاں کووڈ ‪ 19‬کے حوالے سے منفرد نہیں اور ان کا سامنا‬
‫ہر ایک کو نہیں ہوتا‪ ،‬مگر یہ واضح نہیں کہ کچھ افراد میں منہ کی عالمات کیوں ظاہر ہیں‬
‫اور دیگر میں نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ اہم پیغام سامنے آتا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کو‬
‫بیماری کے دوران منہ کی صحت کے حوالے سے اچھی عادات کو برقرار رکھنے کی‬
‫ضرورت ہے‪ ،‬منہ خشک رہنے (اس مسئلے میں غدود لعاب دہن بنا نہیں پاتے) سے دانتوں‬
‫کی محرومی کا خطرہ بڑھتا ہے‪ ،‬تو دانتوں کی صفائی کا خیال رکھا جائے‪ ،‬میٹھے‬
‫مشروبات اور غذاؤں سے گریز کرنا بہتر ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ کووڈ کے جن مریضوں کو منہ کی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا نہیں‬
‫ہوتا‪ ،‬انہیں بھی اس کی اچھی صحت کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ تو واضح نہیں کہ منہ کی یہ عالمات کتنے عرصے تک برقرار رہ‬
‫سکتی ہیں‪ ،‬مگر ایسا نظر آتا ہے کہ یہ بھی النگ کووڈ کی عالمات کے مجموعے کا حصہ‬
‫ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف ڈینٹل ریسرچ میں شائع ہوئے‬

‫‪/https://www.dawnnews.tv/news/1167984‬‬

‫کورونا ویکسین کا بوسٹر ضروری؟ طبی مطالعے کے نتائج زیر غور‬

‫‪7Sep 2021‬‬
‫یورپی یونین کے حکام نے کہا ہے کہ اس بارے میں ایک طبی مطالعے کے نتائج زیر‬
‫غور ہیں کہ آیا کووڈ انیس کے وبائی مرض سے بچاؤ کے لیے کورونا ویکسین کی‬
‫دوسری خوراک کے بعد اس کا بوسٹر بھی ضروری ہونا چاہیے۔‬
‫‪    ‬‬
‫اس میڈیکل اسٹڈی میں جرمن امریکی اداروں بائیو این ٹیک فائزر کی تیار کردہ کورونا‬
‫ویکسین کے ممکنہ بوسٹر کے استعمال کے ضروری ہونے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مقصد اس‬
‫امر کا تعین ہے کہ آیا بائیو این ٹیک فائزر کی ویکسین کے دونوں ٹیکے لگوا لینے والے‬
‫سولہ برس سے زائد عمر کے تمام افراد کو چھ ماہ بعد اسی ویکسین کا ایک بوسٹر‬
‫انجیکشن بھی الزمی لگایا جانا چاہیے۔‬
‫حتمی نتائج چند ہفتوں میں‬
‫یورپی یونین میں ادویات کی ریگولیٹری اتھارٹی یورپی میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) کے‬
‫ماہرین نے پیر چھ ستمبر کو برسلز میں بتایا کہ وہ اس کورونا ویکسین بوسٹر کے ممکنہ‬
‫طور پر ضروری استعمال کے لیے مکمل کیے گئے طبی مطالعے کے نتائج سے عملی‬
‫فیصلوں تک پہنچنے کے مرحلے میں ہیں۔‬
‫ای ایم اے کے مطابق اس سلسلے میں بائیو این ٹیک فائزر کی طرف سے یورپی‬
‫ریگولیٹرز کو ایک باقاعدہ درخواست بھی دے دی گئی ہے۔ اس درخوست کے جواب میں‬
‫اس دوا ساز اداروں کو بتا دیا گیا ہے کہ ڈیٹا کا تیز رفتار تجزیہ جاری ہے اور حتمی نتائج‬
‫'اگلے چند ہفتوں میں‘ متوقع ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یورپی میڈیسن ایجنسی کا صدر دفتر نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم میں ہے‬
‫کمزور جسمانی مدافعت والے افراد‬
‫یورپی میڈیسن ایجنسی کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جس اسٹڈی ڈیٹا کا جائزہ لیا‬
‫جا رہا ہے‪ ،‬وہ اس بارے میں بھی ہے کہ آیا خاص طور پر کمزور جسمانی مدافعتی نظام‬
‫ﹰ ایم آر این اے ویکسین کی ایک اضافی خوراک دی جانا چاہیے۔‬ ‫والے افراد کو ترجیحا‬
‫گزشتہ ہفتے وبائی امراض کی روک تھام کے یورپی مرکز کی طرف سے واضح طور پر‬
‫کہہ دیا گیا تھا اس ادارے کی رائے میں کورونا وائرس کے خالف پوری طرح ویکسینیشن‬
‫کروا لینے والے افراد کے لیے بوسٹر کے طور پر ویکسین کی کسی اضافی خوراک کی‬
‫کم از کم اب تک کوئی فوری ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔‬

‫امریکا میں ویکسین بوسٹرز لگانے‪  ‬کی تیاریاں‬


‫یورپی یونین کے برعکس امریکا میں صورت حال مختلف ہے اور وہاں بائیو این ٹیک‬
‫فائزر کی اسی ویکسین کے بوسٹرز لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اعلی ترین امریکی ماہر انتھونی فاؤچی نے‪  ‬اتوار پانچ‬
‫ٰ‬ ‫وبائی امراض کی روک تھام کے‬
‫ستمبر کے روز کہا تھا کہ امریکی حکام کو ملکی ریگولیٹرز کی طرف سے ممکنہ طور‬
‫پر جلد ہی اجازت دی دی جائے گی‪ ،‬جس کے بعد پوری طرح ویکسینیٹڈ شہریوں کو فائزر‬
‫ویکسین کے بوسٹرز لگائے جا سکیں گے۔‬
‫م م ‪ /‬ع ح (روئٹرز‪ ª،‬اے پی)‬
‫‪‬‬

‫تاریخ‪06.09.2021 ‬‬
‫‪https://www.dw.com/ur/%DA‬‬
‫‪%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%D9%88%DB‬‬
‫‪%8C%DA%A9%D8‬‬

‫کیاغذا کے ذریعے بے چینی یا اضطراب کی کیفیت پر قابو پایا جا سکتا‬


‫ہے؟‬
‫ستمبر ‪2021 ,06‬‬

‫متوازن غذا‪ ،‬تروتازہ رہنے کے لیے پانی کی معقول مقدار‪ ،‬الکوحل اور کیفین جیسی‬
‫چیزوں سے اجتناب یا اسے محدود کرنا اضطراب سے چھٹکارا پانے میں مددگار ثابت ہو‬
‫سکتا ہے۔‬
‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دنیا بھر میں بے شمار افراد کو اپنی زندگی کے‬
‫کسی نہ کسی حصے میں بے چینی‪ ،‬اضطراب یا‬
‫ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑتا‬
‫ہے۔بین االقوامی تنظیم 'ورلڈ اکناک فورم' کی‬
‫رپورٹ میں بتایا گیا ہے‪ ‬کہ ایک اندازے کے مطابق‬
‫دنیا بھر میں ‪ 27‬کروڑ ‪ 50‬الکھ افراد 'اضطرابی‬
‫بیماری' کا شکار ہیں جو عالمی آبادی کا چار فی صد حصہ بنتا ہے۔‬
‫ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ' کی رپورٹ‪ ‬میں امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کا'‬
‫حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چار کروڑ امریکیوں‪ ª‬کو ذہنی اضطراب کی کیفیت کا سامنا‬
‫ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ‪ ‬کے مطابق انسان کو اس کی زندگی میں کبھی نہ‬
‫کبھی 'انزائٹی' یا اضطراب جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ بعض اوقات آپ کام کے‬
‫دوران‪ ،‬آرام کرنے سے قبل اور کوئی اہم فیصلہ لینے سے پہلے بے چینی کی کیفیت کا‬
‫شکار ہو جاتے ہیں۔‬
‫لیکن اگر 'انزائٹی ڈس آرڈر' یا 'اضطرابی بیماری' کی بات کی جائے تو یہ وقتی پریشانی یا‬
‫خوف سے بڑھ کر ہے۔ اور اس عارضے میں مبتال شخص کی پریشانی وقت گزرنے کے‬
‫ساتھ مزید بڑھ سکتی ہے۔‬
‫اضطرابی کیفیت کی عالمات متاثرہ شخص کی روز مرہ سرگرمیوں مثالً مالزمت کی‬
‫کارکردگی‪ ،‬اسکول کا کام اور تعلقات میں خلل ڈال سکتی ہیں۔‬
‫اس کیفیت میں مبتال شخص کو بے آرامی‪ ،‬تھکاوٹ‪ ،‬چڑچڑاپن‪ ،‬جذبات پر قابو پانے میں‬
‫مشکل اور نیند کی کمی جیسی عالمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‬
‫اضطرابی کیفیت کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن میں جنرالئزڈ انزائٹی ڈس آرڈر‪ ،‬پینک‬
‫ڈس آرڈر اور خوف سے متعلق ڈس آرڈرز شامل ہیں۔‬
‫تاہم اس کیفیت پر قابو پانے کے لیے مخصوص‬
‫تھراپی اور ادویات کی مدد لی جاتی ہے۔‬
‫ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ' کی رپورٹ کے مطابق'‬
‫اضطراب اور بے چینی جیسی کیفیت پر قابو پانے‬
‫کے لیے آپ کی خوراک بہت اہم کردار ادا کرتی‬
‫ہے۔متوازن غذا‪ ،‬ترو تازہ رہنے کے لیے پانی کی‬
‫معقول مقدار‪ ،‬الکوحل اور کیفین جیسی چیزوں سے‬
‫اجتناب یا اسے محدود کرنا اضطراب سے چھٹکارا‬
‫پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‬
‫اضطرابی کیفیت پر قابو پانے کے لیے کس غذا کا استعمال کیا جائے؟‬

‫اضطراب اور بے چینی جیسی کیفیت پر قابو پانے کے لیے آپ کی خوراک بہت اہم کردار‬
‫ادا کرتی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ کے مطابق میگنیشیئم سے بھرپور غذا کے استعمال سے انسان کو‬
‫پُرسکون رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ان غذاؤں میں سبز اور پتے والی سبزیاں‪ ،‬دالیں‪ ،‬پھلیاں‪،‬‬
‫ِگری دار میوے‪ ،‬بیج اور سالم اناج شامل ہیں۔‬
‫ایسی غذا جس میں 'زنک' پایا جاتا ہے‪ ،‬اضطراب کی کیفیت کو کم کرنے میں مددگار ثابت‬
‫ہوتی ہے۔ ان غذاؤں میں کاجو‪ ،‬گائے کا گوشت‪ ،‬جگر اور انڈے کی زردی شامل ہے۔‬
‫امریکہ کے سائیکو نیورو امیونولوجی ریسرچ سوسائٹی کے آفیشل جرنل 'برین‪ ،‬بیہیویر‬
‫اینڈ امیونیٹی' میں ‪ 2011‬میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 'اومیگا تھری ایس'‬
‫بے چینی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ جو وائلڈ االسکن سالمن مچھلی میں پایا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫عالوہ ازیں وٹامن بی سے بھرپور غذا مثالً ایواکاڈو اور بادام‪ ،‬کا استعمال کرنے سے بھی‬
‫بے چینی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ غذائیں نیورو ٹرانسمیٹر جیسے سیروٹونن اور ڈوپامن‬
‫کے اخراج کو تیز کرتی ہیں جو بے چینی اور پریشانی پر قابو پانے کا محفوظ اور آسان‬
‫قدم ہے۔‬
‫ہارورڈ ہیلتھ پبلشنگ کے مطابق اگر آپ کو دو ہفتوں سے زیادہ عرصے سے انزائٹی سے‬
‫متعلق عالمات ظاہر ہو رہی ہوں تو آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہو گا۔‬
‫بے چینی اور دباؤ سے نمٹنے کے لیے صحت مند طریقے‬

‫بے چینی محسوس کرتے وقت گہری سانس لے کر‬


‫اسے آہستہ آہستہ خارج کرنے سے بھی آپ پُر‬
‫سکون ہو سکتے ہیں۔انزائٹی اینڈ ڈپریشن ایسوسی‬
‫ایشن آف امریکہ کے مطابق‪ ‬یوگا اور مراقبہ‬
‫پُرسکون رکھنے اور ذہن میں موجود مسائل سے‬
‫چھٹکارا پانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔‬
‫دباؤ اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے نیند کا‬
‫کردار بہت اہم ہے‪ ،‬جب آپ اضطراب‪ ª‬میں مبتال ہوں تو اس وقت جسم کو زیادہ آرام اور‬
‫نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫انزائٹی اینڈ ڈپریشن ایسوسی ایشن آف امریکہ کے مطابق روزانہ ورزش کرنا آپ کو بہتر‬
‫محسوس کرانے کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی صحت کے لیے بھی بہترین ثابت ہوتا ہے۔‬
‫عالوہ ازیں پریشانی اور بے چینی محسوس کرتے وقت گہری سانس لے کر اسے آہستہ‬
‫آہستہ خارج کرنے سے بھی آپ پُر سکون ہو سکتے ہیں۔‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/nutritional-strategies-to-cope-anxiety-‬‬
‫‪07sep2021/6213822.‬‬

‫ڈیلٹا وائرس تیزی سے کیوں پھیلتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف‬

‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 7 2021‬‬

‫نئی دہلی ‪ :‬پہلی بار بھارت میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم اور تباہ کن‬
‫قسم ڈیلٹا کے تیزی سے پھیالؤ پر ماہرین بھی فکر میں مبتال ہیں۔‬
‫طبی ماہرین بھی پریشان ہیں کہ کورونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا بیشتر ممالک میں‬
‫بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے؟‬
‫برطانیہ اور بھارت کے طبی ماہرین کی مشترکہ نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ‬
‫نیا وائرس اپنی نقول بنانے اور اس کے تیزی سے پھیالؤ کی بہتر صالحیت رکھتا ہے۔‬
‫طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع‪ ‬تحقیق‪ ‬میں بتایا گیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا کا پھیالؤ‬
‫ممکنہ طور پر وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر حملے کی صالحیت اور زیادہ‬
‫متعدی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں لیبارٹری میں تجربات اور ویکسین کے بعد لوگوں کے بیمار ہونے یا بریک‬
‫تھرو انفیکشنز کا تجزیہ کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ ڈیلٹا اپنی نقول‬
‫بنانے اور وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیالؤ کی بہتر صالحیت رکھتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بھی شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی‬
‫بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی افادیت‬
‫ڈیلٹا قسم کے خالف گھٹ جاتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر ممکنہ طور پر ‪ 2021‬کی پہلی سہ ماہی کے دوران بھارت میں‬
‫کورونا کی تباہ کن لہر کا باعث بنے۔ یہ جاننے کے لیے ڈیلٹا قسم کس حد تک مدافعتی‬

‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ردعمل پر حملہ آور ہوسکتی ہے‪ ،‬تحقیقی ٹیم نے خون کے نمونوں سے نکالے گئے سیرم‬
‫کے نمونے حاصل کیے۔‬
‫یہ نمونے ان افراد کے تھے جو پہلے کوویڈ کا شکار ہوچکے تھے یا ان کی ایسٹرازینیکا یا‬
‫فائزر ویکسینز سے ویکسی نیشن ہوچکی تھی۔‬
‫سیرم قدرتی بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز پر مشتمل تھے اور تحقیقی‬
‫ٹیم نے دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں قدرتی بیماری سے پیدا ہونے وای اینٹی‬
‫باڈیز کی حساسیت یا افادیت ‪ 5.7‬گنا کم ہوگئی۔‬
‫ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا کے خالف ایلفا کے مقابلے میں ‪8‬‬
‫گنا کمی دریافت ہوئی۔‬
‫اسی حوالے سے دہلی کے ‪ 3‬ہسپتالوں میں کام کرنے والے ‪ 100‬طبی ورکرز کے ڈیٹا کا‬
‫تجزیہ کیا گیا جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور ان میں ڈیلٹا کی تصدیق ہوئی تھی۔‬
‫ماہرین نے دریافت کیا کہ متاثرہ افراد میں ڈیلٹا کی منتقلی کا امکان ایلفا قسم کے مقابلے‬
‫میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیقی ٹیم نے لیبارٹری تجربات کے لیے ڈیلٹا والی میوٹیشنز پر‬
‫مبنی وائرس تیار کرکے اسے لیب میڈ تھری ڈی اعضا کو متاثر کرنے کے لیے استعمال‬
‫کیا۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا خلیات میں داخل ہونے کے لیے دیگر اقسام‬
‫کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتی ہے کیونکہ اس کی سطح پر اسپائیک‬
‫پروٹین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔‬
‫ایک بار خلیات میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی نقول بنانے کے حوالے سے بھی دیگر‬
‫اقسام سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ یہ دونوں عناصر وائرس کی اس قسم کو دیگر اقسام کے‬
‫مقابلے میں سبقت حاصل ہوئی ہے اور یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں یہ دنیا کے مختلف‬
‫ممالک میں باالدست قسم بن چکی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کی قسم تیزی سے پھیالؤ اور لوگوں کو بیمار کرنے کی بہتر‬
‫صالحیت کی وجہ سے دنیا بھر میں باالدست قسم بن گئی‪ ،‬یہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن‬
‫سے پیدا ہونے وای مدافعت کے خالف مزاحمت کی بھی بہتر صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی مدافعت کے نتیجے میں ڈیلٹا سے‬
‫بیمار ہونے پر عموما ً بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے مگر اس سے ان افراد کو زیادہ‬
‫خطرہ ہوسکتا ہے جو پہلے سے مختلف امراض کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر وائرس کی اقسام کے خالف ویکسین کے ردعمل‬
‫کو بہتر بنانے کے ذرائع پر غور کرنے کی ضرورت ہے‪ ،‬جبکہ یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ‬
‫بیماری کی روک تھام کے اقدامات کی ضرورت ویکسین کے بعد بھی ہوگی۔‬
‫اس تحقیق میں برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل اور نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ ریسرچ‬
‫جبکہ بھارت کی وزارت صحت‪ ،‬کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور ڈیپارٹمنٹ‬
‫آف بائیوٹیکنالوجی کے ماہرین نے مل کر کام کیا تھا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/delta-virus-research-spread/‬‬
‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ناک کی ہڈی سے گھٹنوں میں گٹھیا کا عالج‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 7  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫اگرچہ یہ تجربہ صرف ایک مریض پر کیا گیا ہے لیکن اس سے حاصل شدہ کامیابی بہت‬
‫بڑی ہے۔ (تصاویر‪ ª:‬بیسل یونیورسٹی‪ ،‬سوئٹزرلینڈ)‬
‫برن‪ :‬سوئٹزرلینڈ‪ \،‬اٹلی اور امریکا کے سائنسدانوں نے ناک کی کرکری ہڈی سے لیے‬
‫گئے خلیوں کی مدد سے ایک مریض میں گھنٹوں کی گٹھیا کا عالج کیا ہے۔‬
‫اس کامیاب تجربے کی تفصیالت ’’سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ٓان‬
‫الئن شائع ہوئی ہیں‪ ،‬جن کے مطابق‪ ،‬یہ تحقیق پچھلے دس سال سے جاری ہے جس میں‬
‫ابتدائی طور پر معلوم ہوا تھا کہ ناک کی کرکری ہڈی (کارٹلیج) کے خلیے استعمال کرتے‬
‫ہوئے‪ ،‬گھٹنے کے جوڑ والی کرکری ہڈی کی مرمت کی جاسکتی ہے۔‬
‫تحقیق کا سلسلہ ٓاگے بڑھاتے ہوئے پہلے یہ تکنیک جانوروں پر ٓازمائی گئی‪ ،‬جس کے بعد‬
‫گزشتہ سال سوئٹزرلینڈ میں انسانی ٓازمائشوں کےلیے بھی اجازت لی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالج کی غرض ایک ایسا رضاکار بھرتی کیا گیا جس کے گھٹنوں میں گٹھیا (ٓارتھرائٹس)‪ª‬‬
‫کی وجہ سے شدید تکلیف رہتی تھی۔ طبّی تحقیقی اخالقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس‬
‫مریض کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔‬
‫پہلے مرحلے میں رضاکار کی ناک کی کرکری ہڈی سے خلیے حاصل کرکے ان کی ایک‬
‫پیٹری ڈش میں افزائش کرکے انہیں ایک جھلی کی شکل میں الیا گیا۔‬
‫اگلے مرحلے میں محتاط ٓاپریشن سے مریض کے ایک گھٹنے میں متاثرہ کرکری ہڈی پر‬
‫اس جھلی کی پرت چڑھا دی گئی اور اسے اپنی جگہ پر پختہ ہونے کےلیے مناسب وقت‬
‫دیا گیا۔‬
‫تین ماہ بعد اس مریض کے گھٹنے میں گٹھیا کی وجہ سے ہونے والی تکلیف تقریبا ً ختم‬
‫ہوگئی جبکہ گھٹنے پر معمول کی حرکت بھی بحال ہوگئی۔‬
‫اگرچہ یہ تجربہ صرف ایک مریض پر کیا گیا ہے لیکن اس میں ہونے والی کامیابی بہت‬
‫بڑی ہے۔ اب یہ تکنیک دیگر مریضوں پر ٓازمائشوں کےلیے بھی تیار ہے تاہم اس سے‬
‫پہلے ماہرین کو مجاز اداروں سے اجازت لینا ہوگی۔‬
‫البتہ‪ ،‬امید ہے کہ پہلی کامیابی کو دیکھتے ہوئے یہ اجازت بھی جلد ہی مل جائے گی۔‬
‫فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ناک کی کرکری ہڈی سے گھٹنے میں گٹھیا کا عالج‬
‫کب تک عوام کےلیے دستیاب ہوگا اور اس پر کتنے اخراجات ٓائیں گے۔‬
‫اس کےلیے ممکنہ طور پر ہمیں مزید چھ سے سات سال تک انتظار کرنا ہوگا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2221565/9812/‬‬

‫چینی کمپنی نے کووڈ کا عالج کرنے والی ویکسین تیار کرلی‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪07 2021‬‬

‫جانوروں پر آزمائش کے دوران ویکسین کے نتائج حوصلہ افزا رہے — فوٹو بشکریہ‬
‫ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‬

‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫چین کی ایک کمپنی نے ایسی کووڈ ‪ 19‬ویکسین تیار کی ہے جو بیماری کے شکار ہونے‬
‫سے بچانے کے ساتھ ساتھ عالج کے لیے بھی استعمال کی جاسکے گی۔‬
‫چینی کمپنی یشینگ بائیو نے اس ویکسین کو تیار کیا ہے اور یو اے ای میں کووڈ کے‬
‫عالج کی آزمائش کے لیے انسانوں پر اس کے ٹرائلز کی اجازت گزشتہ دنوں دی گئی۔‬
‫ٹرائلز میں پہلے معمولی سے معتدل حد تک بیمار کووڈ کے مریضوں کے عالج کے‬
‫حوالے سے اس کی افادیت جانچ پڑتال کی جائے گی۔‬
‫اس سے قبل یو اے ای کی وزارت صحت نے اگست میں بیماری سے بچانے کے لیے‬
‫ویکسین کے انسانی ٹرائل کے پہلے مرحلے کی منظوری بھی دی تھی جبکہ نیوزی لینڈ‬
‫کی میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی ایسے ٹرائلز کی منظوری دی۔‬
‫انسانی ٹرائلز میں چینی کمپنی کے ساتھ یو اے ای فارماسیوٹیکل ڈویلپمنٹ کمپنی اور‬
‫نیوزی لینڈ کلینکل ریسرچ نے شراکت داری کی ہے۔‬
‫کمپنی کے سی ای او ڈیوڈ شاہو نے بتایا کہ نیوزی لینڈ میں ٹرائلز کے لیے رضاکاروں کی‬
‫خدمات حاصل کرنے کا عمل جلد شروع ہونے کا امکان ہے جبکہ دیگر ممالک میں بھی‬
‫کلینکل ٹرائلز کی درخواستوں پر کام ہورہا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ پری کلینکل تحقیقی رپورٹس میں ویکسین بہت زیادہ تعداد میں وائرس‬
‫ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنانے اور خلیاتی مدافعت برق رفتاری سے پیدا کرنے میں‬
‫کامیاب رہی۔بندروں پر ایک ابتدائی تحقیق میں انہیں کورونا وائرس سے متاثر کرکے‬
‫ویکسین کا استعمال کیا گیا اور ڈیوڈ شاہو کے مطابق نتائج حوصلہ افزا رہے۔‬

‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ ویکسین سے خلیاتی مدافعت پیدا ہوسکتی ہے‪ ،‬ہم نے جانوروں پر‬
‫تحقیق میں بہترین نتائج دریافت کیے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ہمیں یو اے ای کی وزارت صحت‬
‫کی جانب سے انسانوں پر آزمائش کی اجازت ملی۔‬
‫اس ری کومبیننٹ پروٹین ویکسین کی دونوں خوراکوں کا استعمال ‪ 7‬دن کے اندر کیا‬
‫جاسکتا ہے جو کورونا وائرس کے اسپاپئیک پروٹین کو ہدف بناتی ہے اور ایک مرکب‬
‫ایڈجوونٹ بناتی ہے جو ویکسینز کے مدافعتی ردعمل کو مضبوط بناتا ہے۔‬
‫ری کومبیننٹ ٹیکنالوجی کورونا وائرس کے ایک اینٹی جن کے ڈی این اے کوڈنگ پر‬
‫مبنی ہے جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتی ہے۔‬
‫ڈیوڈ شاہو نے بتایا کہ اسی ٹیکنالوجی سے ویکسین کی خوراکیں ‪ 7‬دن کے اندر استعمال‬
‫کرنے کی سہولت ملتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ جانوروں پر تحقیق میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح‬
‫بہت زیادہ تھی اور ہم نتائج پر بہت پرجوش ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ جانوروں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال سے ثابت ہوا کہ یہ‬
‫ویکسین کورونا وائرس کی اقسام ایلفا‪ ،‬بیٹا‪ ،‬گیما اور لمباڈا کے خالف دیرپا تحفظ فراہم‬
‫کرتی ہے یہاں تک کہ ویکسینیشن کے ‪ 448‬دن بعد بھی مدافعتی ردعمل بہت دیرپا اور‬
‫مضبوط تھا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ویکسین کے ابتدائی اور آخری مرحلے کے ٹرائلز بیرون ملک ہوں گے‬
‫کیونکہ چین میں کووڈ ‪ 19‬کے کیسز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167910/‬‬

‫چین میں ‪ 2‬کووڈ ویکسینز کے امتزاج کے پہلے ٹرائل کے نتائج جاری‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪07 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫چین میں ‪ 2‬کووڈ ویکسینز کے امتزاج کے پہلے ٹرائل کے نتائج سامنے آگئے ہیں جس کے‬
‫مطابق اس سے زیادہ طاقتور مدافعتی ردعمل پیدا پوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں کین سائنو ویکسین کی ایک خوراک کو سائنو ویک ویکسین کی ایک یا ‪2‬‬
‫خوراک کے بعد بطور بوسٹر ڈوز استعمال کیا گیا تھا۔یہ بات چین میں ‪ 2‬مختلف ویکسینز‬
‫کے امتزاج کی پہلی تحقیق ہے جس کے نتائج اس وقت سامنے آئے جب حکام کی جانب‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سے مخصوص گروپس میں ویکسین کی اضافی خوراک کے استعمال پر غور کیا جارہا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیق میں رضاکاروں کو سائنو ویک کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 3‬سے ‪ 6‬ماہ‬
‫بعد کین سائنو ویکسین کی ایک خوراک استعمال کرائی گئی۔‬
‫کین سائنو بائیو اور دیگر چینی اداروں کی اس تحقیق میں شامل محققین نے دریافت کیا کہ‬
‫اس اضافی خوراک کے استعمال کے ‪ 2‬ہفتے بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی‬
‫تعداد میں اوسطا ً ‪ 78‬فیصد اضافہ ہوا۔‬
‫اس کے مقابلے میں جن افراد کو سائنو ویک کی ویکسین ہی تیسری خوراک کے طور پر‬
‫استعمال کرائی گئی ان میں اینٹی باڈیز میں اضافے کی شرح ‪ 15.2‬گنا تھی۔‬
‫اسی طرح سائنو ویک ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد کین سائنو ویکسین کو ایک یا ‪2‬‬
‫ماہ کے وقفے سے استعمال کرانے سے اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪25.7‬گنا اضافہ ہوا جبکہ‬
‫سائنو ویک کی ‪ 2‬خوراکوں سے ‪ 6.2‬گنا اضافہ ہوا۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 300‬صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں ‪ 18‬سے ‪ 59‬سال‬
‫کے درمیان تھی۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اس ٹرائل میں ویکسین کی اضافی خوراک سے کووڈ ‪ 19‬سے ملنے‬
‫والے تحفظ کا تجزیہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کورونا کی ڈیلٹا قسم پر اینٹی باڈیز کی آزمائش‬
‫کی۔اس سے قبل ‪ 6‬ستمبر کو سائنو ویک کی بوسٹر ڈوز کے حوالے سے ایک تحقیق کے‬
‫نتائج بھی سامنے آئے تھے۔‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ سائنو ویک کی ویکسین کورونا ویک کی تیسری خوراک کورونا کی‬
‫زیادہ متعدی قسم کے خالف طویل المعیاد مدافعتی ردعمل کے حصول میں مددگار ثابت‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ سائنو ویک کی کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک وائرس ناکارہ‬
‫بنانے والی اینٹی باڈیز کی تعداد میں نمایاں حد تک اضافہ کردیتی ہے۔‬
‫چائنیز اکیڈمی آف سائنسز‪ ،‬فیورن یونیورسٹی‪ ،‬سائنو ویک اور دیگر چینی اداروں کی اس‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ سائنو ویک کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے نمونوں‬
‫میں ڈیلٹا کے خالف وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈی سرگرمیوں کو ‪ 6‬ماہ بعد‬
‫دریافت نہیں کیا جاسکا۔‬
‫تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جن افراد کو ویکسین کی تیسری خوراک استعمال کرائی گئی ان‬
‫میں ‪ 4‬ہفتوں بعد دوسری خوراک استعمال کرنے کے ‪ 4‬ہفتوں کے بعد کے مقابلے میں ڈیلٹا‬
‫کے خالف وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز میں ڈھائی گنا اضافہ ہوا۔‬
‫تحقیق میں یہ وضاحت نہیں کی گئی اینٹی باڈی سرگرمیاں بڑھنے سے ڈیلٹا سے بیمار‬
‫ہونے سے لوگوں کو کس حد تک تحفظ ملتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167893/‬‬

‫دوران حمل ماں کا ورزش کرنا بچوں کے پھیپھڑوں کی صحت کیلئے‬


‫مفید‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪06 2021‬‬

‫دوران حمل ورزش کرنا نہ صرف ماں بلکہ اس کے ہونے والے بچے کے لیے فائدہ مند‬
‫ہوتا ہے۔یہ بات ناروے میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫اوسلو یونیورسٹی کی تحقیق میں ‪ 814‬بچوں کو شامل کیا گیا اور جسمانی طور پر متحرک‬
‫ماؤں کا موازنہ سست طرز زندگی کی عادی خواتین سے کیا گیا۔تحقیق میں حمل کے‬

‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دوران ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں اور بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں تعلق کو‬
‫دریافت کیا گیا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ سابقہ تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا تھا کہ بچپن میں پھیپھڑوں کے‬
‫افعال میں کمی سے بلوغت میں دمہ اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کا خطرہ زیادہ ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال سے جڑے عناصر کے‬
‫بارے میں جاننا اہمیت رکھتا ہے‪ ،‬اگر حمل کے دوران ماں کی جسمانی سرگرمیاں بچوں‬
‫کے پھیپھڑوں کے افعال میں خرابی کا خطرہ کم کرسکتی ہیں تو یہ ایک کم قیمت ذریعہ‬
‫ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر غیر متحرک ماوں کے ہاں‬
‫پیدا ہونے والے بچوں میں پھیپھڑوں کے افعال کی شرح کم ہونے کا امکان جسمانی طور‬
‫پر سرگرم ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ جوان خواتین اورحاملہ خواتین میں جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت‬
‫کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے مگر بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال‬
‫اور ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مزید تحقیق کی‬
‫ضرورت ہے۔تحقیق میں شامل خواتین سے حمل کے ‪ 18‬اور ‪ 34‬ویں ہفتے میں سوالنامے‬
‫بھروا کر صحت‪ ،‬طرز زندگی‪ ،‬سماجی و معاشی عناصر اور غذائیت کے بارے میں‬
‫تفصیالت حاصل کی گئیں۔‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان سے یہ بھی معلوم کیا گیا کہ وہ کتنی ورزش کرنے کی عادی تھیں جبکہ بچوں کے‬
‫پھیپھڑوں کی جانچ پڑتال اس وقت کی گئی جب وہ ‪ 3‬ماہ کے ہوگئے تھے۔‬
‫اس مصد کے لیے سانس لینے کو معیار بنایا گیا تھا اور فیس ماسک کی مدد لی گئی۔‬
‫محققین نے ماں کی عمر‪ ،‬تعللیم حمل سے قبل جسمانی وزن‪ ،‬پہلے سے بچے کی پیدائش‪،‬‬
‫الرجی سے متعلق بیماریوں کو بھی مدنظر رکھا گیا۔‬
‫اب محققین نے ان بچوں کے بڑے ہونے تک ان کی مانیٹرنگ کی منصوبہ بندی کی ہے‬
‫تاکہ دیکھا جاسکے کہ پھیپھڑوں کے افعال کس حد بہتر یا بدتر ہوتے ہیں اور کس طرح‬
‫نظام تنفس کے امراض کو اس سے منسلک کیا جاسکتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہمیں توقع ہے کہ ماؤں کی جسمانی سرگرمی اور دمہ‪ ،‬الرجیز اور دیگر‬
‫غیرمتعدی امراض کے درمیان تعلق کے بارے میں جاننا ممکن ہوسکے گا‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167838/‬‬

‫برہنہ حالت میں سونے کے صحت کیلئے کیا نقصانات ہیں؟ معروف‬
‫ڈاکٹر نے خبردار کردیا‬

‫‪Sep 06, 2021 | 19:06:PM‬‬

‫لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) برہنہ حالت میں سونے کے متعلق ڈاکٹرز کی رائے بھی منقسم پائی‬
‫جاتی ہے۔ کچھ ڈاکٹرز اس کے حق میں دالئل دیتے ہیں جبکہ کچھ اسے صحت کے لیے‬
‫نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہر کچھ عرصے بعد سر اٹھاتی ہے اور‬
‫بے نتیجہ ختم ہو جاتی ہے۔ اب کی بار ایک ڈاکٹر نے اس بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم‬
‫کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس عادت کو صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دے دیا‬
‫ہے۔ دی سن کے مطابق یہ ڈاکٹر انتھونی یوآن ایم ڈی ہیں جنہوں نے اپنے ٹک ٹاک اکاﺅنٹ‬
‫پر ایک ویڈیو میں برہنہ سونے کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے۔‬
‫‪ ‬‬
‫پر بتاتے ہیں کہ مکمل برہنہ حالت‪ @tonyyounmd‬ڈاکٹر انتھونی اپنے ٹک ٹاک ہینڈل‬
‫میں سونا آپ کے لیے اورآپ کے شریک حیات کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے چنانچہ سوتے‬
‫ہوئے کم از کم انڈرویئر پہننا الزمی ہے۔ اس کی حیران کن توجیح پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر‬
‫انتھونی نے کہا کہ لوگ اوسطا ً دن میں ‪15‬سے ‪25‬بار جسم سے بدبودار ہوا خارج کرتے‬
‫ہیں اور جب جسم سے ہوا خارج ہوتی ہے تو جسم سے ہوا کے ساتھ پاخانے کے کچھ‬
‫ذرات بھی جسم سے باہر آتے ہیں۔ یہ نظر نہ آنے والے ذرات بستر کو گندہ کرنے کے‬

‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ساتھ ساتھ جراثیم اور بیکٹیریا سے آلودہ بھی کرسکتے ہیں‪ ،‬اور نتیجتا ً آپ اور آپ کا‬
‫شریک حیات مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتال ہو سکتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر انتھونی نے یہ اس ویڈیو کے ذریعے اس بحث کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن‬
‫انہوں نے جس قسم کی وجہ بیان کی اس پر انٹرنیٹ صارفین میں ایک بار پھر شدید بحث‬
‫چھڑ گئی ہے اور کچھ لوگ ڈاکٹر انتھونی کی حمایت کر رہے ہیں اور کچھ ان کا تمسخر‬
‫اڑا رہے ہیں۔ایک آدمی نے لکھا ہے کہ ”میں ‪39‬سال سے اپنے بستر میں ’پاد‘ رہا ہوں اور‬
‫تم میری یہ عادت تبدیل نہیں کر سکتے۔“ ایک خاتون نے لکھا ہے کہ ”میرا خیال ہے کہ‬
‫میں اور میرا شوہر بدستور ایک دوسرے کو اپنے جسم سے خارج ہونے والی ہوا کے‬
‫“ذریعے تنگ کرتے رہیں گے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/06-Sep-2021/1337240‬‬

‫کرونا مریضوں کی دماغی صحت سے متعلق ماہرین کا اہم انکشاف‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫ستمبر\ ‪9 2021‬‬

‫واشنگٹن ‪ :‬امریکی سائنس دانوں نے نئی تحقیق میں عندیہ دیا ہے کہ کرونا وائرس سے‬
‫متاثرہ افراد دماغی تنزلی کا شکار ہوسکتے ہیں۔‬
‫امریکا کی نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول ٓاف میڈیسین میں ہونے والی تحقیق میں‬
‫ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اسپتال میں زیر عالج کرونا مریضوں میں ایسے بائیو‬
‫مارکرز بشمول نیورونل‪ ،‬گیالل اور دیگر کی سطح میں اضافے کو شناخت کیا جو دماغی‬
‫تنزلی کا باعث بن سکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے‬
‫مرض ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی مگر اس کے باوجود عمر کے ساتھ آنے والے‬
‫تنزلی کی سطح کو الزائمر کے مریضوں سے زیادہ دیکھا گیا۔‬
‫جن مریضوں تحقیق میں شامل کیا گیا تھا ان کی اوسط عمر ‪ 71‬سال تھی اور ‪ 31‬فیصد کو‬
‫وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی‪ 25 ،‬فیصد کا انتقال ہوگیا تھا اور ‪ 53‬فیصد‬
‫بیماری کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے جب کہ کچھ ایسے افراد بھی تھے جو‬
‫وائرس محفوظ رہے۔‬
‫سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ جن افراد میں کرونا کی شدت پائی جائے یا وہ کرونا‬
‫مریض جو عمر رسیدہ ہوں ان کے دماغی تنزلی کا شکار ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے‬
‫ہیں اور کرونا سے متاثرہ وہ افراد جو اسپتال میں انتقال کرگئے ان کے دماغ میں بائیو‬
‫مارکرز کی تعداد بہت زیادہ تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ کورونا وائرس دماغی خلیات‬
‫کو براہ راست متاثر کرتا ہے جبکہ دیگر میں ایسے شواہد دریافت نہیں ہوئے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ شناخت کرنا کہ کووڈ کس طرح دماغی مسائل کا باعث بننے واال‬
‫مرض ہے‪ ،‬مؤثر عالج کی دریافت کے لیے ضروری ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/important-revelation-from-the-mental-health-‬‬
‫‪experts-of-corona-patients/‬‬

‫کرونا مریض منہ کی خطرناک بیماری میں مبتال ہونے لگے‪ ،‬نئی تحقیق‬
‫میں انکشاف‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪9 2021‬‬

‫برازیلین سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ جو افراد کرونا سے متاثرہ ہوجائیں‪ ،‬وہ‬
‫چکھنے کی حس سے محروم ہوجاتے ہیں یا حس میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے۔‬
‫غیرملکی میڈیا کے مطابق کرونا سے متاثرہ افراد میں سونکھنے یا چکھنے کی حس سے‬
‫محرومی کی کرونا کی اہم عالمات میں سے ایک ہیں لیکن برازیلین کے ماہرین کی تحقیق‬
‫میں منہ سے جڑی کئی نئی عالمات منظر عام پر ٓائی ہیں۔‬
‫طبی جریدے جرنل آف ڈینٹل ریسرچ شائع ہونے والی برازیلین سائنس دانوں کی تحقیق میں‬
‫انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا سے متاثرہ افراد کے منہ میں چھالے نکلنا‪ ،‬منہ خشک رہنا یا‬
‫حس مزہ سے محروم ہونا عام مسائل ہیں اور ان مسائل کا دورانیہ بھی عام لوگوں سے‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫محققین کا کہنا ہے کہ کرونا سے متاثرہ افراد لگ بھگ ہر ‪ 10‬میں سے ‪ 4‬افراد کے‬


‫چکھنے کی حس میں تبدیل ہوجاتی ہے یا وہ اس سے مکمل طور پر محروم ہوجاتے ہیں‬
‫جب کہ ‪ 43‬فیصد مریضوں کو مسلسل منہ خشک رہنے کی شکایت ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے مریضوں کی چکھنے کی حس محدود ہوجاتی ہے یا وہ‬
‫بدل جاتی ہے جس سے ہر چیز میٹھی‪ ،‬کڑوی تیکھی یا میٹالک محسوس ہونے لگتی ہے یا‬
‫وہ مکمل طور پر اس حس سے محروم ہوجاتے ہیں۔‬
‫ماہرین نے انکشاف کیا کہ کچھ مریضوں‪ ª‬کے منہ میں زخم ہوجاتا ہے‪ ،‬کچھ کا منہ خشک‬
‫رہنے لگتا ہے جو دانتوں سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ تاحال یہ واضح نہیں کہ کچھ افراد میں منہ کی عالمات کیوں ظاہر‬
‫ہیں اور دیگر میں نہیں۔‬
‫تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ منہ کے ان مسائل سے بچنے کےلیے ہمیں منہ کی صحت کا‬
‫خیال رکھنا چاہیے اور اچھی عادات اپنانی چاہیے جیسے دانتوں کی صفائی کا خیال رکھا‬
‫جائے اور میٹھے مشروبات اور غذاؤں سے گریز کیا جائے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-patients-begin-to-suffer-from-dangerous-‬‬
‫‪mouth-disease-new-research-reveals/‬‬

‫!کورونا وائرس سے متعلق مختلف تحقیق میں نیا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪  9 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی کورونا وبا کے حوالے سے ہونے والی مختلف تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی کہ‬
‫اعلی درجے کی مدافعت پیدا ہوگئی ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫کچھ لوگوں میں کووڈ ‪ 19‬کے خالف‬
‫مطالعوں کے دوران کوروناوائرس کے خالف تیار کی گئی ویکسینز کے انسانی جسم پر‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫اثرات کا جائزہ لیا گیا جس سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ افراد میں کورونا کے خالف‬
‫درجے کی مدافعت پیدا ہوئی ہے۔‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق ‪ mRNA‬ویکسین لگوانے والے کچھ افراد میں کورونا کے‬
‫خالف قوت مدافعت کسی سپر ہیومن کی طرح بہت زیادہ طاقت ور ہوسکتی ہے۔ ‪mRNA‬‬
‫ویکسین وبائی امراض کے خالف تحفظ فراہم کرنے والی ویکسین کی نئی قسم‪ ،‬جو ہمارے‬
‫جسم کے خلیات کو پروٹین بنانا سکھاتی ہے۔‬
‫مذکورہ ویکسین سے مدافعتی نظام ‪ SARS-CoV-2‬کے خالف کسی بلٹ پروف کی طرح‬
‫کام کرسکتا ہے۔‬
‫اسی طرح کے کئی مطالعوں کی سربراہی کرنے والے طبی ماہر پال بیانیئز کا کہنا ہے کہ‬
‫‘ایم آر این اے’ ویکسین لگوانے والے افراد میں ان کا جسم نہ صرف بہت بلند درجے کی‬
‫اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے بلکہ ان میں بہت زیادہ لچک پذیری پائی جاتی ہے جس کی بدولت‬
‫وبا سے ہالکت کے خطرے پر قابو پالیا جاتا ہے۔‬
‫طبی جریدے ’ دی نیو انگلینڈ جرنل ٓاف میڈیسن‘ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ماہرین‬
‫نے ‪ 2002‬اور ‪ 2003‬میں اوریجنل سارس وائرس ‪ SARS-CoV-1‬سے متاثر ہونے والے‬
‫افراد کی اینٹی باڈیز کا تجزیہ کیا‪ ،‬یہ وہ افراد تھے جنہوں نے مذکورہ ویکسین لگوا رکھی‬
‫تھی جس سے پتا چال کہ ان میں اینٹی باڈیز بہت بلند سطح پر پیدا ہورہی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ عمل کورونا کے مختلف قسموں کو بے اثر کرسکتا ہے۔ اسی‬
‫سے ملتے جلتے ایک اور مشاہدے میں دریافت ہوا کہ ایسے افراد میں پائی جانے والی‬
‫اینٹی باڈیز نے کورونا کے ‪ 6‬ویرئینٹس بشمول ڈیلٹا اور بی ٹا کو بے اثر کر دیا جب کہ‬
‫‪ SARS-CoV-2‬سے متعلقہ متعدد وائرس بھی بے اثر ہوگئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-revelations-in-various-research-related-to-‬‬
‫‪corona-virus/‬‬

‫نیند کے مسائل یا کم خوابی سے چھٹکارا کیسے ممکن ؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪ 9 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہمارے معاشرے میں عام طور پر کم خوابی کوئی بڑا مسئلہ نہیں کیوں کہ فک ِرمعاش کے‬
‫باعث ہونے والی جسمانی و ذہنی مشقت انسان کو اتنا تھکا دیتی ہے کہ بستر پر لیٹتے ہی‬
‫نیند ٓاجاتی ہے۔‬
‫تاہم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور پریشانیاں بعض افراد کی نیندیں اڑا دیتی ہیں‪،‬‬
‫نیند کی کمی یا خرابی صرف ایک بیماری نہیں بلکہ یہ امراض کا مجموعہ بھی ہے اسے‬
‫آسان نہیں لینا چاہیے۔‬
‫نیند کے مسائل یا بے خوابی ایک عام بیماری ہے جس کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں‪،‬‬
‫بےخوابی سے اگلے دن کے معموالت متاثر ہوتے اور کام کرنے کی صالحیت ختم ہو‬
‫جاتی ہے‪ ،‬اس کے عالوہ تھکاوٹ اور توانائی کا زیاں ہوتا ہے‪ ،‬روزمرہ کے کام کرنا‬
‫مشکل ہو جاتا ہے۔‬
‫سیدتی میگزین کی ایک رپورٹ میں اس مسئلے قابو پانے کے حوالے سے بات کی گئی‬
‫ہے‪ ،‬ماہرین کا خیال ہے کہ ہر انسان کی نیند کا دورانیہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے‪ ،‬عام‬
‫طور پر ایک شخص کی صحت کے لیے روزانہ‪ 8-7‬گھنٹے نیند کرنا کافی ہے۔‬
‫بہت سے افراد میں اچانک‪ ،‬شدید یا قلیل المدتی بےخوابی ہوتی ہے جو کئی دن یا ہفتوں تک‬
‫رہتی ہے۔ ایسا عام طور پر تناؤ یا تکلیف دہ واقعات کے نتیجے میں ہوتا ہے لیکن کچھ‬
‫لوگوں کو دائمی یا طویل المیعاد بے خوابی بھی ہوتی ہے جو ایک مہینہ یا اس سے زیادہ‬
‫وقت تک رہتی ہے۔ بے خوابی کا تعلق ادویات یا دیگر طبی حالتوں سے بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫بے خوابی کی بنیادی وجوہات کا عالج کرنے سے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے لیکن‬
‫بعض اوقات یہ مسئلہ برسوں تک رہ سکتا ہے۔‬

‫دائمی بےخوابی کی عام وجوہات‬

‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بے خوابی کی عام وجوہات میں متعدد ایسے پہلو شامل ہیں جو ہماری روزمرہ کی زندگیوں‬
‫کا حصہ ہوتے ہیں‪ ،‬اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان سے مکمل پیچھا نہیں چھڑا‬
‫سکتے۔‬
‫تناؤ‪ :‬کام‪ ،‬اسکول‪ ،‬صحت‪ ،‬معاش یا اہل خانہ کے بارے میں فکرمند رہنا آپ کے دماغ کو‬
‫رات کے وقت مصروف رکھتا ہے اور یوں نیند آنا مشکل ہو جاتی ہے۔ تکلیف دہ زندگی‬
‫کے واقعات‪ ،‬جیسے کسی پیارے کی موت یا بیماری‪ ،‬طالق یا بے روزگاری بھی بے‬
‫خوابی کا سبب بن سکتے ہیں۔‬
‫ہمارا خودکار جسمانی سسٹم اندرونی گھڑی کا کام کرتا ہے‪ ،‬جو آپ کی نیند بیدار ہونے اور‬
‫جسمانی درجہ حرارت جیسی چیزوں کی راہنمائی کرتا ہے‪ ،‬خودکار جسمانی سسٹم میں‬
‫خلل پڑنے سے بے خوابی کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔‬
‫نیند کی خراب عادات میں نیند کا غیر منظم شیڈول‪ ،‬سونے سے پہلے کی سرگرمیاں‪ ،‬نیند‬
‫کے لیے غیر آرام دہ ماحول‪ ،‬اور بستر کو کام کرنے‪ ،‬کھانے اور ٹی وی دیکھنے کے لیے‬
‫استعمال کرنا شامل ہے۔‬
‫بستر پر جانے سے پہلے کمپیوٹر ‪ ،‬ٹیلی ویژن‪ ،‬ویڈیو گیمز‪ ،‬اسمارٹ فونز یا دیگر سکرینز‬
‫کا استعمال آپ کی نیند کے دورانیے میں مداخلت کرسکتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/less-sleep-anxiety-and-worries/‬‬

‫ٓاپ کا شوق ٓاپ کو کبھی بوڑھا ہونے نہیں دے گا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪9 2021‬‬

‫شوق‪ /‬مشغلہ انسان میں علمی اور شعوری کو تو برقرار رکھتا ہی ہے‪ ،‬ساتھ میں یہ ٓاپ‬
‫کو تندرست اور صحتمند رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫امریکن جرنل ٓاف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے واال جائزہ ‘ دی کنیکشن بیٹوین ٓارٹ‪ ،‬ہیلنگ‬
‫اینڈ پبلک ہیلتھ (آرٹ‪ ،‬ہیلنگ اور پبلک ہیلتھ کے درمیان رابطہ) اے ریویو ٓاف کرنٹ‬
‫لیٹریچر’ میں محققین نے تخلیقی کام کرنے سے ہونے والے صحت کے فوائد کا جائزہ لیا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ ٓارٹ کا ذہنی اور جسمانی صحت کے درمیان مضبوط رابطہ‬
‫ہے‪ ،‬خاص طور پر محققین نے پایا کہ تخلیقی صالحیتیں دماغ اور جسم کو اس طرح متاثر‬
‫کرتی ہیں کہ یہ ٓاپ کے مزاج کو پرسکون بناتا ہے اور اضطراب سے نجات دالتا ہے‪،‬‬
‫ساتھ ساتھ یہ ٓاپ کے علمی صالحیتوں کو بڑھاتا ہے‪ ،‬دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم‬
‫کرتا ہے اور مدافعتی نظام کو بہتر بناتا ہے۔‬

‫شوق‪ ،‬افسردگی یا صدمے میں مبتال لوگوں کے لیے جادوئی دوا کی طرح کام کرتا ہے۔‬
‫مثال کے طور پر موسیقی دماغ کو پرسکون کرتی ہے اور جذباتی توازن پیدا کرتی ہے۔ یہ‬
‫لوگوں کو صدمے سے ابھرنے میں مدد کرتی ہے۔‬

‫تحقیق سے معلوم ہوا کہ تخلیقی شوق رکھنے والے لوگوں میں الزائمر اور پارکنسن جیسی‬
‫بیماریوں کے ہونے کے امکان کم ہوتے ہیں‪ ،‬درمیانی عمر کے لوگ یا معمر شخص‪ ،‬جن‬
‫کو دستکاری‪ ،‬سالئی‪ ،‬مصوری کا شوق ہوتا ہے ان میں علمی صالحیتوں کے کھونے کے‬
‫خدشات کم ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیق سے یہ بھی پتہ چال ہے کہ جو بالغ تخلیق کار ہوتے ہیں‪ ،‬ان میں علمی صالحیت اور‬
‫حافظہ مضبوط ہوتا ہے‪ ،‬جو مستقبل میں اعصابی نظام سے متعلق بیماریوں سے بچنے میں‬
‫موثر ثابت ہوتا ہے‪ ،‬اس کے عالوہ جن لوگوں میں موسیقی کا شوق ہوتا ہے ان کی قوت‬
‫مدافعت اچھی ہوتی ہے۔‬
‫مزید حقائق‬

‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کسی بھی قسم کا شوق ہونا انسان کو مثبت سمت کی طرف کام کرنے میں مدد گار ہوتا ہے‬
‫اور غیر ضروری چیزوں پر وقت ضائع کرنے سے روکتا ہے۔‬
‫اس سے ٓاپ خود کو زندہ دل اور تشفی بخش محسوس کرتے ہیں اور اس وجہ سے ٓاپ‬
‫دوسرے کاموں کو بہتر طریقے سے کرپاتے ہیں۔‬
‫اگر ٓاپ اپنے شوق کو ہی کمائی کا ذریعہ بنالیں تو ٓاپ کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ‬
‫جاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک شخص اپنے کیرئیر میں زیادہ مطمئن ہوتا ہے‪ ،‬ڈپریشن سے‬
‫کافی حد تک بچاجاسکتا ہے اور کام کے بوجھ کو بہتر طریقے سے نمنٹے میں مدد کرتا‬
‫ہے۔‬
‫یہ ذانی اور ذہنی نشوونما دونوں میں مدد کرتا ہے۔‬
‫یہ صحیح راہ دکھاتا ہے اور ٓاپ کو بھٹکنے سے بچاتا ہے۔‬
‫بعض اوقات ایک شوق اضافی ٓامدنی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔‬
‫پڑھنے یا لکھنے کا شوق انسان کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔‬
‫باغبانی جیسے شوق ہمارے ارد گرد کے ماحول کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتا‬
‫ہے۔ورزش‪ ،‬سائیکلنگ اور تیراکی جیسے شوق ہماری صحت کو بہتر بنانے میں مدد‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/your-passion-will-never-let-you-grow-old/‬‬

‫آسٹرازینیکا ویکسین سے فالج کا خطرہ‪ ،‬لیکن امکان نہایت کم‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫ستمبر\ ‪ 9 2021‬‬
‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایمسٹرڈیم‪ :‬یورپی میڈیسن ایجنسی نے اعصابی بیماری گیلن بررے سنڈروم کو کرونا‬
‫وائرس ویکسین آسٹرازینیکا کے ممکنہ مضر اثرات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق‪ ‬یورپ نے ایک اعصابی بیماری کو بہ طور ممکنہ سائیڈ ایفکٹ اس‬
‫فہرست میں شامل کر لیا ہے جو کرونا وائرس کی ویکسین آسٹرازینیکا سے متعلق ہے‪ ،‬یہ‬
‫بیماری (‪ )Guillain-Barré syndrome‬عارضی فالج کا باعث بن سکتی ہے‪ ،‬تاہم اس کے‬
‫امکانات کو بہت ہی کم قرار دیا گیا ہے۔‬
‫یورپی میڈیسن ایجنسی نے بدھ کو کہا کہ گیلن بررے سنڈروم کو اس ویکسین کے مضر‬
‫اثرات سے متعلق معلومات میں شامل کیا گیا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ گیلن بررے سنڈروم کرونا وائرس ویکسین آسٹرازینیکا کے ’انتہائی کم‘‬
‫مضر اثرات میں سے تھا‪ ،‬یہ دس ہزار میں سے ایک فرد میں سامنے ٓایا۔‬
‫یہ خرابی ایک اعصابی سوزش ہے جس سے عارضی فالج ہو سکتا ہے اور سانس میں‬
‫دشواری کا سبب بن سکتی ہے‪ ،‬ہر سال امریکا میں اس سنڈروم سے ایک اندازے کے‬
‫مطابق تین سے ‪ 6‬ہزار افراد متاثر ہوتے ہیں اور زیادہ تر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/astrazeneca-vaccine-side-effects/‬‬

‫دوا کے بغیر ‘ہائی بلڈپریشر’ کو کنٹرول کرنے کے طریقے‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪9 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫آج کل کی تیز\ رفتار زندگی میں اکثر لوگ وقت کی کمی کے باعث کھانے پینے میں بے‬
‫احتیاطی‪ ،‬ورزش کی کمی‪ ،‬اور ذہنی تنأو کے باعث بلڈ پریشر\ (بلند فشا ِرخون) کا شکار‬
‫ہوجاتے ہیں اور پھر اس کو کنٹرول میں کرنے کے لیے مسلسل ادویات کا استعمال کرتے‬
‫ہیں جس سے دیگر خطرناک امراض کا شکار ہوجانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین بلڈ پریشر کو قابو کرنے کے لیے گھریلو نسخے تجویز کرتے ہیں جو بلڈ پریشر‬
‫کنٹرول میں معاون ثابت ہوتے ہیں‪ ،‬ان گھریلو نسخوں سے بلڈ پریشر کے مرض سے‬
‫چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔‬
‫شہد کا استعمال‬
‫شہد ایسی غذا ہے جو قدرتی طور پر میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ کئی بیماریوں کےعالج‬
‫کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬شہد میں موجود کاربوہائیڈریٹ دل کی اطرا ف سے‬
‫خون کے پریشر کوکم کرتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں تک رات کو سونے سے پہلے ایک گالس نیم گرم دودھ میں‬
‫دو چمچ شہد مال کر پینے سے بلڈ پریشر جیسے بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔‬
‫لہسن‬
‫وہ خطرناک عوامل جو شریانوں کو سخت کرنے کا باعث بنتے ہیں ان کے عالج کے لئے‬
‫لہسن بہت مفید ہے‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر میں کچے لہسن کی ایک پھانک روزانہ کھانے سے‬
‫بہت جلد بلڈ پریشر میں کمی الئی جاسکتی ہے۔‬
‫لہسن ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈپریشر کا عالج کرتا ہے اور شریانوں میں پلیٹلیٹس کو‬
‫جمع ہونے سے روکنے کے ساتھ دل پر زیادہ خون کے پریشر سے بڑھنے والے اثرات‬
‫سے بھی روکتا ہے۔‬
‫کیال کھائیں‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر\ کو دور بھگائیں‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ہئی بلڈ پریشر کے مریض اگر روزنہ ایک یا دو کیلے کھائیں تو اس‬
‫سے یہ مرض قابو میں رہتا ہے کیوںکہ کیال غذائی اجزاء اور پوٹیشیم سے بھرپور ہوتا ہے‬
‫جو ہمارے جسم میں دس فیصد سے زائد سوڈیم کے اثر کو کم کرسکتا ہے اور گردوں کی‬
‫حفاظت میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫کالی مرچ‬
‫کالی مرچ میں اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی سیپٹک خصوصیات ہوتی ہیں جس کا روز مرہ‬
‫زندگی میں استعمال خون کی شریانیں کھلتی ہیں‪ ،‬جس سے خون کی روانی کو پورے جسم‬
‫تک رسائی حاصل ہوتی ہے‪ ،‬سب سے بڑھ کر یہ کہ بلڈپریشر کی شرح کو قدرتی طور پر‬
‫کم سطح پر النے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔‬
‫پیاز کا روزانہ استعمال‬
‫روزانہ پیاز کا استعمال کرنے والے مریضوں کا بلڈ پریشر ادویات کا استعمال کرنے والوں‬
‫کے مقابلے بہتر ہوتا ہے کیوںکہ پیاز اینٹی آکسیڈنٹ مادوں سے بھرپور ہوتی ہے جو ذیا‬
‫بطیس اور کینسر جیسی بیماریوں سے لڑنے میں بھی انسانی جسم کو مدد فراہم کرتی ہے۔‬
‫میتھی دانے‬
‫ٓائرن‪ ،‬فاسفورس اور ‪ (Vitamin A,B,C)،‬میتھی سردیوں کی وہ سبزی ہے جس میں‬
‫کیلشیم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے‪ ،‬پاک وہند میں اس کو کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫اس کے نہ صرف پتے بلکہ بیج بھی عالج کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں کیونکہ میتھی‬
‫کے دانوں میں بڑی مقدار میں موجود پوٹیشیم بلڈ پریشر کو بڑھنے سے روکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/ways-to-control-high-blood-pressure/‬‬

‫آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں‪ ،‬وہ‬
‫ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتال ہے‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫ستمبر\ ‪ 9 2021‬‬

‫آپ کا بچہ اگر اچانک پنجوں پر چلنے لگا ہے تو خبردار ہو جائیں‪ ،‬وہ پٹھوں کی ایک‬
‫تکلیف دہ بیماری میں مبتال ہے۔‬
‫مسکولر ڈسٹرافی (‪ )Muscular Dystrophy‬کو ایک خاموش قاتل سمجھا جاتا ہے‪ ،‬آپ‬
‫کی عمر ‪ 2‬سال سے ‪ 60‬سال تک ہے‪ ،‬اور آپ بڑی اچھی زندگی جی رہے ہیں‪ ،‬لیکن یہ‬
‫قاتل آپ کے اور میرے جسم میں بھی چھپا یا سویا ہوا ہو سکتا ہے‪ ،‬جو کسی بھی وقت‬
‫جاگ سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مسکولر ڈسٹرافی کو عام زبان میں پٹھوں کی بیماری کہا جاتا ہے‪ ،‬اسے ہمارے جینز میں‬
‫چھپا ہوا قاتل سمجھا جاتا ہے‪ ،‬جو عمر کے کسی بھی حصے میں جاگ کر جسم کے چند‬
‫حصوں یا پورے جسم میں تباہی مچا دیتا ہے۔‬
‫اس بیماری کی ‪ 8‬اقسام ہیں‪ ،‬مگر سب سے عام قسم ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی (‪Duchene‬‬
‫‪ )Muscular Dystrophy‬ہے‪ ،‬یہ ایک جنیٹک یعنی موروثی بیماری ہے‪ ،‬جو سب سے‬
‫چھوٹی عمر میں ہوتی ہے‪ ،‬یہ ہمیشہ لڑکوں کو ہوتی ہے‪ ،‬جو انھیں ماؤں سے منتقل ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫جیسے ہی لڑکے کی عمر ‪ 5‬سال ہوتی ہے‪ ،‬ٹھیک ٹھاک بچہ اچانک پاؤں کی ایڑھی زمین‬
‫سے اٹھا کر پنجوں پر چلنے لگتا ہے‪ ،‬چند ہی ماہ بعد بچہ چھاتی بھی باہر نکال کر چلنا‬
‫شروع ہوتا ہے‪ ،‬جیسے پہلوان سینہ تان کر چلتے ہیں‪ ،‬والدین بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ یہ تم‬
‫کیسے چل رہے ہو؟ ایڑھی نیچے لگاؤ سینہ پیچھے کرو‪ ،‬مگر بچہ ایسا کرنے کے قابل‬
‫نہیں ہوتا۔‬
‫چند ماہ بعد بچہ بیٹھے بیٹھے جب اٹھنے لگتا ہے تو اس سے اٹھا ہی نہیں جاتا‪ ،‬اور پیچھے‬
‫گر جاتا ہے‪ ،‬ٹانگیں کم زور ہوتی جاتی ہیں‪ ،‬بظاہر تو ٹانگیں ٹھیک ہوں گی مگر اندر‬
‫موجود مسلز کمزور ہو کر بڑی تیزی سے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں‪ ،‬گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر‬
‫اٹھنے سے بیماری کی شناخت شروع ہوتی ہے‪ ،‬اسے گاور سائن کہتے ہیں‪ ،‬لیکن تب تک‬
‫بچے کی عمر ‪ 7‬سے ‪ 8‬سال ہو چکی ہوتی ہے یعنی ‪ 2‬سے ‪ 3‬سال مسلسل قاتل اپنا کام کرتا‬
‫رہا تھا‪ ،‬اور جب تک بیماری کی مکمل تشخیص ہوتی ہے بچہ موت کے منہ میں پہنچ چکا‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫رفتہ رفتہ کندھوں کے جوڑ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں‪ 10 ،‬سال کی عمر تک بازو‬
‫کو کندھے سے حرکت دینا بہت مشکل اور کئی کیسز میں بلکل ناممکن ہو جاتا ہے‪ ،‬ٹانگیں‬
‫اور بازو مکمل یا ‪ 90‬فی صد مفلوج ہو جاتے ہیں‪ ،‬بچہ پانی بھی خود سے نہیں پی سکتا‪،‬‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کچھ بچوں میں دل کے پٹھے بھی کمزور ہونا شروع ہوتے ہیں‪ ،‬جس سے موت واقع ہو‬
‫سکتی ہے۔‬
‫ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی کا شکار بچے ‪ 10‬سال تک کسی طرح چل لیتے ہیں‪ ،‬لیکن پھر‬
‫وھیل چیئر یا چار پائی پر آجاتے ہیں اور دوبارہ کبھی بھی کھڑے نہیں ہو سکتے یا چل‬
‫نہیں سکتے۔ بچے کو اگر اس دوران بخار ہو جائے‪ ،‬تو ساکت پڑے ہوئے بچے پر قاتل اپنا‬
‫حملہ بہت تیز کر دیتا ہے‪ ،‬اور مسلز بڑی تیزی سے ضائع ہونے لگتے ہیں‪ ،‬اس لیے ان‬
‫بچوں کو بخار میں ہر وقت لیٹنے نہ دیں‪ ،‬پیراسیٹامول دے کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا‬
‫چالئیں‪ ،‬کیوں کہ ایک دفعہ مسلز ضائع ہونے پر ٹوٹنے شروع ہوگئے تو ان کو پھر روکا‬
‫نہیں جا سکتا۔‬
‫دراصل اس بیماری میں ٹانگوں‪ ،‬کولہوں اور کمر کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫سے جسم اپنے خود کار دفاعی نظام کے تحت ان پٹھوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے‬
‫بچے کو ایڑھیاں اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔‬
‫بچاؤ کیسے؟‬
‫اس بیماری کا پوری دنیا میں کوئی عالج نہیں‪ ،‬ہاں اسٹیم سیل تھراپی شاید چند سالوں بعد‬
‫اس کے عالج میں مددگار ہو۔ اگر شروع ہی میں اس بیماری کا پتا چل جائے اور کوالٹی‬
‫آف الئف بہتر کر دی جائے‪ ،‬تو بچوں کی زندگی ‪ 30‬سے ‪ 40‬اور بہت کم کیسز میں ‪50‬‬
‫سال تک بھی جا سکتی ہے۔‬
‫احتیاط‬
‫مالش بالکل نہیں کرنی‪ ،‬کوئی بریس کوئی اسپیشل جوتا نہ پہنائیں‪ ،‬سرجری نہ کروائیں‪،‬‬
‫بیکری کی تمام اشیا سے پرہیز ضروری ہے‪ ،‬چاول‪ ،‬کولڈ ڈرنکس‪ ،‬مصنوعی جوسز نہ‬
‫دیں‪ ،‬بچوں کو موٹا بھی نہ ہونے دیں‪ ،‬کیوں کہ موٹاپے کا مطلب موت ہے اس بیماری میں۔‬
‫اسکول آسانی سے جا سکیں تو بھیجیں‪ ،‬پڑھائی اور امتحانوں کے دباؤ اور ڈپریشن سے‬
‫دور رکھیں‪ ،‬بچے کو اچھی طرح سمجھائیں کہ آپ کی زندگی اب وھیل چیئر کے ساتھ‬
‫گزرنی ہے‪ ،‬پاور وھیل چیئر مل جائے تو آسانی ہو جائے گی۔‬
‫ایسے بچے کیا کریں؟‬
‫ان بچوں کو بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا‪ ،‬وہ یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں‪ ،‬وائس اوور‬
‫آرٹسٹ بن سکتے ہیں‪ ،‬نیوز کاسٹر بن سکتے ہیں‪ ،‬وی الگنگ کر سکتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/muscular-dystrophy/‬‬

‫فلو اور کورونا کے لیے ایک ہی خوراک پر مشتمل ویکسین‪ ،‬کمپنی کا‬
‫بڑا اعالن‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ستمبر ‪ 9 2021‬‬

‫امریکی دواساز کمپنی موڈرنا نے فلو اور کورونا کے خالف ایک خوراک پر مشتمل‬
‫ویکسین تیار کرنے کا اعالن کردیا۔‬
‫غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی موڈرنا نے ایسی‬
‫ویکسین تیار کرنے کا اعالن کیا ہے جس کی ایک خوراک کورونا وائرس اور فلو کے‬
‫خالف کارٓامد ہوگی۔‬
‫موڈرنا کے سربراہ اسٹیفن ہانسل کا کہنا ہے کہ ویکسین کی ایک ہی خوراک لگوانی پڑے‬
‫گی جو بوسٹر خوراک کے طور پر بھی موثر ہوگی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ کمپنی کی اولین ترجیح ہے کہ سانس کی بیماریوں کے لیے ساالنہ بنیادوں‬
‫پر بوسٹر ویکسین مارکیٹ میں الئی جائے جو حاالت کے مطابق اپ گریڈ کی جائے۔‬
‫واضح رہے کہ اس سے قبل موڈرنا کمپنی نے چھ ماہ سے ‪ 12‬سال سے کم عمر کے بچوں‬
‫میں ویکسین کے ٹیسٹ ٹرائل کے درمیانی مراحل کے نتائج بھی شیئر کیے تھے‪ ،‬جن کا‬
‫امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن جائزہ لے رہی ہے‬

‫بچوں میں ٹرائل کے حوالے سے کمپنی نے کہا تھا کہ ٹیسٹ ٹرائل کے دوران پچاس‬
‫مائیکرو گرام پر مشتمل ویکسین کی ایک خوراک بچوں کو لگائی جائے گی۔‬
‫ٹیسٹ ٹرائلز چار ہزار بچوں پر مشتمل گروپ پر کیے جا رہے ہیں جس میں چھ سال سے‬
‫لے کر بارہ سال سے کم عمر کے بچے شامل ہیں۔‬
‫کمپنی نے مزید کہا تھا کہ مختلف عمروں کے گروپس کے لیے ویکسین کی مناسب مقدار‬
‫کی خوارک سے متعلق تحقیق ابھی جاری ہے۔ دو سے چھ سال جبکہ چھ ماہ سے دو سال‬
‫کے بچوں کے لیے ویکسین کی مناسب مقدار سے متعلق ٹرائلز کیے جا رہے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں امریکہ نے ‪ 18‬سال اور زیادہ عمر کے افراد کے لیے‬
‫موڈرنا ویکسین کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی تھیکورونا ویکسین کا دوسرا بڑا‬

‫‪https://headtopics.com/pk/16011604160832191945-21716516‬‬

‫فائدہ‪ ،‬سائنسدانوں نے خوشخبری سنادی‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪ 10 2021‬‬

‫کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکیسین انسان کو صرف کوویڈ سے ہی نہیں بچاتی بلکہ‬
‫اس کا ایک اور بڑا فائدہ سامنے آیا ہے جسے محققین نے خوش آئند قرار دیا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ کورونا‬ ‫امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں محققین نے یہ‬
‫ویکسینیشن سے نہ صرف کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ ‪ 19‬سے تحفظ ملتا‬
‫ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔‬
‫سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی‪ ‬تحقیق‪ ‬میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ‬
‫ملتا ہے کہ کوویڈ ‪ 19‬سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم‬
‫سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔‬
‫یہ تحقیق بنیادی طور پر سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایل طویل المعیاد پراجیکٹ کا‬
‫حصہ ہے جس کا مقصدکورونا کی وبا سے امریکی عوام کی ذہنی صحت پر مرتب اثرات‬
‫کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس پراجیکٹ کے لیے امریکا بھر میں ‪ 8‬ہزار سے زیادہ افراد کو سروے فارم بھیجے‬
‫گئے تھے تاکہ وبا سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔‬
‫سرویز کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی اکثریت کو وبا کے باعث کسی حد تک ذہنی‬
‫بے چینی اور ڈپریشن کا سامنا ہوا۔‬
‫ابتدائی نتائج کے بعد محققین کی جانب سے ہر ‪ 2‬ہفتے بعد ان افراد کو سروے فارم بھیج کر‬
‫ذہنی صحت میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھا گیا۔ تازہ ترین سروے میں ان افراد سے کوویڈ‬
‫‪ 19‬ویکسینز کے استعمال کے بعد ذہنی صحت پر مرتب اثرات کے بارے میں پوچھا گیا‬
‫تھا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پہلے بہت زیادہ ڈپریس تھے ویکسینیشن کے بعد اس‬
‫کی شرح میں ‪ 15‬فیصد جبکہ معمولی ڈپریشن کی شرح میں ‪ 4‬فیصد تک کمی آئی۔‬
‫محققین نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا کہ ممکنہ طور پر ویکسینیشن کے بعد‬
‫‪ 10‬الکھ افراد کی ذہنی پریشانی میں کمی آئی۔‬
‫محققین کے مطابق ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن‬
‫کرانا محض لوگوں کو بیماری سے ہی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنا بیماری کے‬
‫شکار ہونے کے ذہنی ڈر اور بے چینی کو بھی نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق اس پراجیکٹ پر کام ابھی جاری ہے اور مزید عوامی آراء کے ذریعے‬
‫تعین کیا جائے گا کہ کورونا کی نئی اقسام اور بوسٹر ڈوز کے حوالے سے ان کی رائے‬
‫کیا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ تحقیق میں فی الحال یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ ویکسینیشن سے لوگوں کی‬
‫ذہنی صحت میں کس حد تک بہتری آتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پلوس ون‬
‫میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccine-second-advantage-research/‬‬

‫!استعمال شدہ ماسک بڑے خطرے کا سبب‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫‪ 10 Sep 2021‬‬

‫طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ استعمال شدہ فیس ماسک انفیکشن کا ذریعہ بن سکتا‬
‫ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہرین کا ماننا ہے کہ ماسک کو استعمال کے بعد مناسب طریقے سے ٹھکانا لگانا چاہیے‬
‫بصورت دیگر وہ انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں‪ ،‬لوگوں کو اس ضمن میں آگاہی بھی دینی‬
‫چاہیے۔‬

‫سعودی نائب وزیر برائے صحت عامہ ہانی جوخدار کا کہنا ہے کہ شہری کھلی اور بند‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جگہوں پر ماسک کا استعمال یقینی بنائیں‪ ،‬ماسک کو محفوظ طریقے سے اور براہ راست‬
‫استعمال کرنے کے بعد ضایع کرنا بھی ضروری ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ لوگ ماسک استعمال کرنے کے بعد اسے کوڑے کے طور پر سڑک پر‬
‫پھینک دیتے ہیں بلکہ اسے ضایع کرنا چاہیے‪ ،‬یہ سماجی ذمہ داری ہے کہ ہم میں سے ہر‬
‫ایک کو صاف اور محفوظ معاشرہ برقرار رکھنے کے لیے تعاون کرنا ہوگا‪ ،‬دن میں کم از‬
‫کم ایک بار ماسک ضرور تبدیل کریں۔‬
‫ہانی خوخدار کا کہنا تھا کہ ایک ہی ماسک کا کثرت سے استعمال صحت کے لیے مضر‬
‫ہے۔ادھر وزارت صنعت و معدنی وسائل کے ترجمان جراح بن محمد الجراح نے بتایا‬
‫مملکت میں فیس ماسک تیار کرنے والی ‪ 9‬فیکٹریاں کام کررہی ہیں جو یومیہ ڈھائی الکھ‬
‫ماسک تیار کرتی ہیں۔‬

‫دریں اثنا مکہ مکرمہ کی ایک ماسک فیکٹری میں سیلز منیجر میسرہ الشریف کا کہنا ہے‬
‫کہ چہرے کے ماسک کو کبھی ری سائیکل نہیں کیا جاسکتا کیوں یہ وائرس کے لیے‬
‫انکیوبیٹر کا کام کرسکتے ہیں‪ ،‬فیس ماسک کے استعمال میں الپرواہی دوسروں کے لیے‬
‫خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ چہرے کا ماسک دیگر طبی اشیا کی طرح نہیں جسے ری سائیکل کیا‬
‫جاسکے کیوں کہ اس کے ذریعے انفیکشن کا پھیالؤ ممکن ہے‪ ،‬ماسک کو استعمال کے بعد‬
‫تھیلی میں ڈال کر کوڑے دان میں پھینکا کریں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/used-face-mask-health-experts-opinion/s-food-‬‬
‫‪eating-covid-19/‬‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کون سی غذا کورونا وائرس کے حملے محفوظ رکھ سکتی ہے‪ ،‬نئی‬
‫تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 10 2021‬‬

‫لندن ‪ :‬ویسے تو کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے مختلف ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں‬
‫جن میں سے اکثر نسخے دیسی ہوتے ہیں اور بہت سارے لوگ اس کو استعمال بھی‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کوویڈ‪ 19‬سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرنے میں بہترین‬
‫مددگار ہماری غذا ہے جو بیماری بچاؤ کیلئے بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫برطانیہ اور امریکا کے طبی ماہرین کی‪ ‬مشترکہ تحقیق‪ ‬میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ‬
‫صحت کے لیے فائدہ مند غذاؤں کا استعمال کرنے والے افراد میں کوویڈ‪ 19‬سے متاثر‬
‫ہونے کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬
‫کنگز کالج لندن اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں زوئی کوویڈ اسٹڈی ایپ کے‬
‫لگ بھگ ‪ 6‬الکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬
‫ان افراد کو فروری ‪ 2020‬کے دوران غذائی عادات کے حوالے سے ایک سروے حصہ‬
‫بنایا گیا تھا جب ان ممالک میں کورونا کی وبا پھیلنا شروع نہیں ہوئی تھی بعد ازاں ان میں‬
‫سے ‪ 19‬فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد صحت کے لیے فائدہ غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں‬
‫ان میں غیر معیاری خوراک کھانے والے لوگوں کے مقابلے میں کووڈ سے متاثر ہونے کا‬

‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خطرہ ‪ 10‬فیصد اور کووڈ ہونے کی صورت میں سنگین بیماری کا خطرہ ‪ 40‬فیصد تک کم‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫یہ پہلی طویل المعیاد تحقیق ہے جس میں غذا اور کووڈ ‪ 19‬کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا‬
‫گیا تھا اور ثابت ہوا کہ صحت بخش غذا سے بیماری سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوجاتا‬
‫ہے۔ مخصوص غذائیں یا اجزا کی بجائے اس سروے میں وسیع غذائی رجحانات کو جاننے‬
‫کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق کے مطابق پھلوں‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬اناج‪ ،‬چربی والی مچھلی پر مشتمل غذا صحت کے لیے‬
‫بہت زیادہ مفید جبکہ پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال نقصان ہودہ ہوتا ہے۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صحت کے لیے بہترین غذا کا استعمال عادت بناتے ہیں ان‬
‫میں کووڈ کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 10‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫تمام تر عناصر جیسے جسمانی وزن‪ ،‬عمر ‪ ،‬تمباکو نوشی‪ ،‬جسمانی سرگرمیوں اور پہلے‬
‫سے مختلف بیماریوں کو مدنظر رکھنے پر بھی غذا کے معیار اور کووڈ کے خطرے کے‬
‫درمیان تعلق برقرار رہا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب عالقوں کے رہائشی اور غیر معیاری غذا کا‬
‫استعمال کرتے ہیں ان میں کووڈ کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 25‬فیصد‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ان نتائج کی بنیاد پر محققین نے تخمینہ لگایا کہ کووڈ کے لگ بھگ ایک چوتھائی کیسز کی‬
‫روک تھام ممکن ہے اگر غذا کے معیار اور سماجی حیثیت کو بہتر بنا دیا جائے۔ اس تحقیق‬
‫کے نتائج طبی جریدے جرنل گٹ میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-virus-food-eating-covid-19/‬‬

‫خوب صورتی کے لیے انتہائی ضروری وٹامن کون سا ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪10 2021‬‬

‫ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وٹامن ای قوت مدافعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ جلد اور بالوں‬
‫کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری\ ہے‪ ،‬یہ ایک ایسا وٹامن ہے جسے نہ صرف‬
‫کھایا جا سکتا ہے بلکہ اسے خوب صورتی کے لیے بالوں اور جلد پر بھی لگایا جا سکتا‬
‫ہے۔‬
‫وٹامن ای جلد‪ ،‬ناخن اور بالوں کے لیے فائدہ مند‬
‫وٹامن ای کا استعمال ہماری جلد‪ ،‬ناخن اور بالوں کے لیے بہت کارٓامد ہے‪ ،‬اسے خوراک‬
‫کی شکل میں لینا فائدہ مند تو ہے ہی لیکن اسے بالوں اور جلد پر بھی لگایا جا سکتا ہے‪ ،‬یہ‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫چہرے سے بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرنے کے عالوہ ہائپر پگمینٹیشن کو بھی کم‬
‫کرتا ہے۔‬
‫اگر ٓاپ اس کا استعمال روزانہ کرتے ہیں تو ٓاپ کے طویل وقت تک جوان نظر ٓانے کا‬
‫امکان ہے‪ ،‬وٹامن ای کا تیل خشک جلد والوں کے لیے موئسچرائزر کی طرح کام کرتا ہے۔‬
‫استعمال کرنے کا طریقہ‬
‫وٹامن ای ٓائیل کلینزر کے طور پر بہت مؤثر ہے‪ ،‬وٹامن ای کے تیل کے چند قطرے کو‬
‫چہرے پر لگا کر ہلکے ہاتھوں سے مالش کرنے سے جلد صاف اور مالئم ہو جاتی ہے‪،‬‬
‫ساتھ میں یہ جلد کے کھلے سوراخوں میں موجود تمام گندگیوں کو دور کرتی ہے۔‬
‫یہ‪ٓ ‬انکھوں کے گرد سیاہ حلقوں‪ ‬کے لیے بھی اچھا ہے‪ ،‬اس کے لیے رات کو سونے سے‬
‫پہلے ٓانکھوں کے نیچے وٹامن ای کے تیل سے ہلکے ہاتھوں سے مالش کریں۔‬
‫کمزور اور خشک ناخن‪ ‬سے چھٹکارا پانے کے لیے وٹامن ای کے تیل کا بھی استعمال کیا‬
‫جا سکتا ہے۔‬
‫رات کو سونے سے پہلے جلد پر وٹامن ای کے تیل سے ہلکا مالش کرنا بہت فائدہ مند ہے‪،‬‬
‫اسے سیدھے جلد پر لگایا جا سکتا ہے یا ٓاپ اسے ایلو ویرا جیل کے ساتھ مال کر پورے‬
‫چہرے پر مالش کرنے کے بعد اسے دھو سکتے ہیں‪ ،‬امید ہے کہ ٓاپ کو بہتر نتائج دیکھنے‬
‫کو ملیں گے۔‬
‫جلد پر داغوں‪ ‬کو ہلکا کرنے کے لیے وٹامن ای کے کیپسول کو سیدھا لگا سکتے ہیں‪ ،‬یہ‬
‫کولیجن کی پیداوار کو بڑھاتا ہے اور داغ دھبوں کو ہلکا کرتا ہے۔‬
‫گھر میں دن بھر کام کرنے سے اگر ٓاپ کے ہاتھ خشک رہتے ہیں تو وٹامن ای کے تیل‬
‫سے ہاتھوں میں ہلکی مالش کرنے سے ٓاپ نمی کو واپس ال سکتے ہیں۔وٹامن ای کیپسول‬
‫سے تیل نکالیں اور اس میں تھوڑا سا شہد مال دیں۔ جلد پر اس سے مالش کریں‪ ،‬لیکن ٓاپ‬
‫روزانہ سونے سے پہلے یہ کرنا نہ بھولیں تب ہی ٓاپ کو بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وٹامن ای سے بھرپور\ غذائیں‬
‫سویا بین کا تیل‪ ،‬بادام‪ ،‬مونگ پھلی‪ ،‬ایواکاڈو‪ ،‬اخروٹ‪ ،‬سورج مکھی کے بیچ اور دیگر‬
‫میوے‪ ،‬انڈے‪ ،‬شکرقند‪ ،‬پالک‪ ،‬سرسوں‪ ،‬شلجم‪ ،‬بروکولی‪ ،‬پپیتا‪ ،‬کدو اور پاپ کارن وغیرہ کا‬
‫استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/beauty-and-vitamin-a/‬‬

‫روزانہ اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول میں کمی ہوتی ہے یا زیادتی؟‬


‫تحقیق‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪10 2021‬‬

‫کیلیفورنیا‪ \:‬امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ روزانہ اخروٹ‬
‫کھانے سے کولیسٹرول\ میں کمی ہوتی ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن جرنل ‘سرکولیشن’ میں شائع ہونے والی‬
‫ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جو لوگ روزانہ ٓادھا کپ اخروٹ‬
‫کھاتے ہیں ان میں لو ڈینسیٹی لِپو پروٹین (ایل ڈی ایل) کولیسٹرول کی سطح کم ہو جاتی‬
‫ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی خوراک میں باقاعدگی سے اخروٹ کو شامل کرتے‬
‫ہیں تو اس سے کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل (جسے بیڈ کولیسٹرول بھی کہتے ہیں) میں کمی‬
‫واقع ہو سکتی ہے۔‬
‫ایک تحقیقی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اخروٹ کھانے سے قلبی امراض( کارڈیو‬
‫ویسکولر) کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے‪ ،‬یہ تحقیق کیلیفورنیا والنٹ کمیشن کی جانب‬
‫سے کروائی گئی‪ ،‬اس میں ‪ 60‬سال سے زیادہ عمر کے لوگوں شامل کیا گیا۔‬
‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیقی مطالعے کے سینئیر مصنف ڈاکٹر ایمیلیو روز نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی‬
‫برسوں سے اخروٹ سے صحت کو ہونے والے فوائد کے بارے میں جانچ رہے ہیں‪،‬‬
‫اخروٹ غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے‪ ،‬اس میں بائیو ایکٹیو‪ ،‬الف لینولینک ایسڈ‪ ،‬سبزیوں‬
‫میں ملنے واال اومیگا ‪ 3‬فیٹی ایسڈ‪ ،‬فائٹومیالٹونن شامل ہیں۔‬
‫یہ تحقیق ‪ 63‬سے ‪ 79‬سال کی عمر کے کل ‪ 636‬لوگوں پر کی گئی تھی‪ ،‬جن میں سے ‪67‬‬
‫فی صد خواتین شامل تھی۔تحقیق کے لیے حصہ لینے والے لوگوں کو دو گروپوں میں تقسیم‬
‫کیا گیا‪ ،‬ایک گروپ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اخروٹ نہ کھائیں‪ ،‬دوسرے گروپ کو‬
‫اپنی روزانہ کی خوراک میں ٓادھے کپ اخروٹ کھانے کو کہا گیا تھا۔‬
‫محققین نے ان کی خوراک کی بنیاد پر ان کے کولیسٹرول کی سطح پر نگرانی رکھی اور‬
‫اس کے بعد انھوں نے نیوکلیر میگنیٹک ریسونینس اسپیکٹرواسکوپی‪ ª‬کی مدد سے‬
‫لیپوپروٹین کی سائز کا تجزیہ کیا۔ انھوں نے ان لوگوں کے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی بھی‬
‫جانچ کی‪ ،‬جس میں انھوں نے پایا کہ اخروٹ کے روزانہ استعمال سے ایل ڈی ایل ذرات‬
‫اور چھوٹے ایل ڈے ایل (جس میں سے چربی شریانوں میں جمع ہوتی ہے) دونوں کی‬
‫تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے روزانہ اخروٹ کھایا‪ ،‬ان میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول‬
‫کی سطح اوسطا ً ‪ 4.3‬ملی گرام فی ڈیسی لیٹر (ملی گرام‪/‬ڈی ایل) اور ان کے کل کولیسٹرول‬
‫کی اوسط ‪ 8.5‬ملی گرام‪/‬ڈی ایل سے کم ہو گیا۔ اخروٹ کھانے والے گروپ میں کل ایل ڈی‬
‫ایل ذرات کی تعداد میں ‪ 4.3‬فی صد اور چھوٹے ایل ڈی ایل ذرات کی تعداد ‪ 6.1‬فی صد کم‬
‫ہوئی۔ مردوں میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول ‪ 7.9‬فی صد کم ہوا‪ ،‬جب کہ خواتین میں یہ ‪2.6‬‬
‫فی صد کم ہوا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/cholesterol-walnuts-research/‬‬

‫ادویات کا استعمال عالج کو مزید مشکل بنانے لگا !! لیکن کیسے ؟؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪11 2021‬‬


‫کیمبرج ‪ :‬انسانی جسم اربوں کھربوں مائیکرو اجسام کا گھر ہے اور ایک تخمینے کے‬
‫مطابق ہمارے اپنے خلیے ان کے مقابلے میں اتنے کم ہیں کہ ہمارا انسانی جسم ان کا‬
‫صرف دس فی صد ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق کے مطابق بعض دوائیں ٓانتوں کے بیکٹیریا میں جمع ہوکر عالج کو مشکل بنارہی‬
‫ہیں‪ ،‬ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تحقیق کا ایک نیا باب ہے۔‬

‫تحقیق میں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ دمہ‪ ،‬ڈپریشن اورذیابیطس کی عام ادویات اگرچہ اپنا‬
‫اثر تو کرتی ہیں لیکن طویل مدتی اثر میں یہ ٓانتوں کے بیکٹریا (جرثوموں) میں جمع ہوتی‬
‫رہتی ہیں اور ٓاگے چل کر کئی ادویات کے اثر کو کم کرسکتی ہیں یا کررہی ہیں کیونکہ‬
‫ادویات جمع ہونے سے بیکٹیریا غیرمعمولی طور پر تبدیل ہورہے ہیں۔‬
‫اس معلومات سے ہم مختلف افراد پر دوا کے مختلف اثرات سمجھ سکتے ہیں اور ان کے‬
‫منفی اثرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہفت روزہ سائنسی جریدے “نیچر” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بعض‬
‫بیکٹیریا کیمیائی طور پر بعض ادویہ کو بدل سکتے ہیں جسے بایو ٹرانسفارمیشن کا عمل‬
‫کہتے ہیں۔‬

‫جامعہ کیمرج اور یورپی مالیکیولر بائیلوجی تجربہ گاہ ( ای ایم بی ایل)‪ ،‬جرمنی کی کھوج‬
‫بتاتی ہے کہ کئی عام ادویہ دھیرے دھیرے سے بیکٹیریا میں جاتی رہتی ہیں اور نہ صرف‬
‫انہیں اندر سے بدلتی ہیں بلکہ ان کے افعال بھی بدل دیتی ہیں۔‬
‫اب خیال ہے کہ بیکٹیریا کے بدلنے سے برا ِہ راست نئی دواؤں پر اثر پڑسکتا ہےاور‬
‫بالراست بھی بیکٹیریا کے افعال بدل سکتے ہیں جس سے دوا کے مضر اثرات بڑھ سکتے‬
‫ہیں۔‬
‫نظام ہاضمہ میں سینکڑوں‪ ،‬ہزاروں اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے‬ ‫ِ‬ ‫ہمارے معدے‪ٓ ،‬انت اور‬
‫ہیں جو نہ صرف صحت بلکہ امراض میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے‬
‫مجموعے کو گٹ مائیکروبایوم کہا جاتا ہے۔‬
‫لوگوں میں اس کی ترتیب مختلف ہوتی ہے اور اب یہ حال ہے کہ ہم تندرست بیکٹریا کے‬
‫گچھوں کی شناخت بھی کرچکے ہیں۔ ان کے بگڑنے سے موٹاپا‪ ،‬امنیاتی نظام اور دماغی‬
‫امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔‬
‫سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں ‪ 25‬عام بیکٹیریا شناخت کئے اور انہیں کھائی جانے والی‬
‫‪ 15‬عام ادویات کا سامناکرایا گیا۔ اس طرح کل ‪ 375‬ادویہ اور بیکٹیریا کے ٹیسٹ کئے‬
‫گئے۔ تحقیق میں ‪ 70‬مالپ ایسے تھے جن میں ‪ 29‬کو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔‬
‫اس طرح بیکٹیریا اور ادویہ کے نئے ‪ 29‬تعامالت میں سے ‪ 17‬میں دوا بدلےکسی تبدیلی‬
‫کے بغیر جمع ہونے لگیں۔ پھر ڈپریشن کی ایک دوا ڈیولوکزیٹائن نے تو بیکٹیریا کی‬
‫کالونی ہی بدل دی اور ان کا توازن شدید بگڑ گیا‪ ،‬پھر ایک کیڑے پر ان کی ٓازمائش کی‬
‫گئی اور اس کے بعد کیڑوں کا برتاؤ بھی بدل گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/intestines-medicine-difficulties-in-treatment/‬‬

‫کرونا مریضوں میں خون جمنے کی وجوہات دریافت‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر\ ‪11 2021‬‬

‫امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا مریضوں کے جسم مین پلیٹلیٹس اور خون‬
‫کی شریانوں میں موجود خلیات میں ٓانے والی تبدیلی اعضا کو جان لیوا نقصان پہنچانے‬
‫کی بڑی وجہ ہے۔‬
‫یہ بات یویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین نئی تحقیق میں سامنے ٓائی جس‬
‫کے نتائج طبی جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع کیے گئے‪ ،‬اس میں تحقیق کاروں نے کہا‬
‫کہ کرونا کے باعث متاثرہ شخص کے جسم میں بلڈ کالٹس بننے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬

‫ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ پلیٹلیٹس کی وجہ سے خون کی شریانوں میں ٓانے والی تبدیلی‬
‫موجود خلیات میں زیادہ تر ایک پروٹین پی سلیکٹین کا نتیجہ ہوتی ہیں جس کے باعث خون‬
‫جمنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیق میں ‪ 2‬جینز ایس ‪ 1000‬اے ‪ 8‬اور ایس ‪ 1000‬اے ‪ 9‬کو شناخت کیا گیا جو کووڈ ‪19‬‬
‫کے مریضوں میں پلیٹلیٹس کو بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایم آر پی ‪ 8‬اور ‪14‬‬
‫نامی پروٹینز زیادہ بننے لگتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ دونوں خلیات اکٹھے کام کرتے ہیں اور زیادہ تر مدافعتی خلیات میں پائے جاتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫پروٹینز کی تعداد میں اضافے کو تحقیق میں شریانوں میں بلڈ کالٹس اور ورم‪ ،‬بیماری کی‬
‫سنگین شدت اور اسپتال میں طویل قیام سے منسلک کیا گیا۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ پلیٹلیٹس کو متحرک ہونے سے بالک کرنے والی ادویات شریانوں‬
‫میں کووڈ سے جڑے ورم کی شرح کو کم کرسکتی ہیں۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ جسم میں جب غیر معمولی ورم ٓاجاتا ہے تو خون کے اجزاء کے‬
‫ردعمل سے متحرک ہوتا ہے اور لیس دار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کالٹس بننے لگتے‬
‫ہیں۔‬
‫امریکی ماہرین نے کرونا وائرس سے جینز ایکسپریشن میں ان تبدیلیوں کو دیکھا جو خون‬
‫جمنے اور ورم کی وجوہات میں سے تھیں۔‬
‫اس سے قبل جوالئی میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس سے زیادہ‬
‫متاثرہ افراد میں ورم اور بلڈ کالٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس‬
‫بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے‪ ،‬مگر وہ پھیپھڑوں میں غیر ضروری پلیٹلیٹس‬
‫سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/discover-the-causes-of-blood-clots-in-corona-‬‬
‫‪patients/‬‬

‫النگ کووڈ کی ممکنہ وجوہات دریافت‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪11 2021‬‬

‫امریکی ماہرین نے النگ کووڈ کی وجوہات دریافت کرلی‪ ،‬محققین کا کہنا ہے کہ ایک‬
‫اینٹی باڈی صحتیابی کے کئی ہفتوں سے نمودار ہوکر مدافعتی نظام کے بنیادی ریگولیٹر‬
‫کو متاثر کرتی ہے۔‬
‫امریکا کی آرکنساس یونیورسٹی ار میڈیکل سائنسز کی تحقیق میں دریافت وجوہات سے‬
‫متعلق کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں‪ ª‬میں طویل المیعاد‬
‫بنیادوں پر مختلف عالمات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جس کےلیے ماہرین النگ کووڈ کی‬
‫اصطالح استعمال کرتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫محققین کا کہنا ہے کہ ایک اینٹی باڈی کے تسلسل کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جو اینٹی باڈی‬
‫ایس ‪ 2‬انزائمے پر حملہ ٓاور ہوتی ہے۔‬
‫ایس ‪ 2‬انزائمے وائرس کے خالف جسم کے ردعمل کو ریگولیٹ‪ ª‬کرنے میں مدد فراہم کرتا‬
‫ہے‪ ،‬مگر حملہ آور اینٹی باڈی ایس ٹو کے افعال میں مداخلت کرتی ہے‪ ،‬جس کے باعث‬
‫محققین نے اسے طویل المعیاد عالمات کا بنیادی عنصر تصور کیا۔‬
‫تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ایس ٹو اینٹی باڈی کے افعال میں مداخلت‬
‫کرنے والی اینٹی باڈی النگ کووڈ کا باعث بنتی ہے تو عالج کے متعدد راستے کھل جائیں‬
‫گے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/discover-the-possible-causes-of-long-covid/‬‬

‫ویکسین نہ لگوانے والوں کی موت کا خطرہ گیارہ فیصد زیادہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 11 2021‬‬

‫واشنگٹن‪ :‬مکمل ویکسی نیشن افراد میں کرونا سے موت کا خطرہ کیوں کم ہوتا ہے؟‬
‫امریکی حکام نے بتادیا۔‬
‫میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ویکسین کی مکمل‬
‫خوراکیں لینے والے افراد میں ان لوگوں کی نسبت جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی‪ ،‬کرونا‬

‫تحقیقات | ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫وائرس سے ہالک ہونے کا خطرہ گیارہ گنا کم اور اسپتال داخل ہونے کے امکانات دس گنا‬
‫کم ہو جاتے ہیں۔‬
‫میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکا میں کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ بہت عام ہو‬
‫چکا ہے‪ ،‬بیماری سے بچاؤ اور روک تھام کے مرکز کی جانب سے شائع ہونے والے تین‬
‫نئے صفحات کے ڈیٹا میں ویکسین کی افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے‪ ،‬ڈیٹا کے مطابق موڈرنا‬
‫ویکسین ڈیلٹا کی قسم سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم اس کی وجوہات ابھی پوری‬
‫طرح سامنے نہیں ٓاسکیں۔‬
‫یہ تحقیق صدر جو بائیڈن کی اعالن کردہ اس حکمت عملی کے بعد سامنے ٓائی ہے جس‬
‫میں سو یا اس سے زائد مالزمین رکھنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنے‬
‫عملے کی ویکسینیشن کرائیں یا ہر ہفتے ان کا ٹیسٹ کرائیں۔‬
‫میڈیا رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکا میں کرونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ بہت عام ہو‬
‫چکا ہے‪ ،‬بیماری سے بچاؤ اور روک تھام کے مرکز کی جانب سے شائع ہونے والے تین‬
‫نئے صفحات کے ڈیٹا میں ویکسین کی افادیت کو اجاگر کیا گیا ہے‪ ،‬ڈیٹا کے مطابق موڈرنا‬
‫ویکسین ڈیلٹا کی قسم سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم اس کی وجوہات ابھی پوری‬
‫طرح سامنے نہیں ٓاسکیں۔‬
‫یہ تحقیق صدر جو بائیڈن کی اعالن کردہ اس حکمت عملی کے بعد سامنے ٓائی ہے جس‬
‫میں سو یا اس سے زائد مالزمین رکھنے والی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ یا تو وہ اپنے‬
‫عملے کی ویکسینیشن کرائیں یا ہر ہفتے ان کا ٹیسٹ کرائیں۔‬
‫سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ڈائریکٹر روچیل والینکسی نے اپنی پریس‬
‫بریفنگ میں بتایا کہ ایک کے بعد ایک تحقیق میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ویکسینیشن (کرونا‬
‫کے خالف) کام کر رہی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪103‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پہلی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی تھی کہ چار اپریل سے انیس جون کے درمیان تیرہ‬
‫عالقوں میں الکھوں کیسز رپورٹ ہوئے‪ ،‬یہ کیسز ڈیلٹا ویریئنٹ سے قبل سامنے ٓائے تھے‬
‫جن کا بیس جون سے سترہ جوالئی تک موازنہ کیا گیا۔‬
‫اس عرصے کے دوران ویکسین لگوانے والے ایک شخص میں کرونا سے متاثر ہونے کا‬
‫امکان بڑھا یعنی اس وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ جو ویکسین نہ لگوانے والے افراد‬
‫سے گیارہ گنا کم تھا جو بعد میں پانچ گنا کم ہوا۔‬
‫جون سے اگست تک کے جائزے پر مبنی ایک اور تحقیق میں اس وبا کا شکار ہو کر‬
‫اسپتال میں داخل ہونے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس میں یہ بات سامنے ٓائی کہ ویکسین‬
‫لگوانے والوں کے اسپتال میں داخل ہونے کے امکانات بہت کم تھے‪ ،‬موڈرنا کی افادیت ‪95‬‬
‫فیصد جبکہ فائزر کی ‪ 80‬اور جانسن اینڈ جانسن کی ‪ 60‬فیصد تھی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/full-vaccinated-people-have-an-11-lower-risk-‬‬
‫‪of-dead-from-corona/‬‬

‫کیا کرونا ویکسین دیگر خطرناک بیماریوں کے خالف بھی موثر ہے؟‬
‫حقائق منظرعام پر‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫ستمبر ‪ 12 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪104‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واشنگٹن‪ :‬کرونا ویکسین پر ہونے والی حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا‬
‫ویکسین دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫الجزیرہ کے مطابق امریکا کے بیماریوں سے تحفظ و کنٹرول پانے کے مراکز (سی ڈی‬
‫سی) میں پیش کیے گئے اعداد و شمار سے میں بتایا گیا ہے کہ ویکسی نیشن نہ کرانے‬
‫والے افراد میں خطرناک بیماریوں میں مبتال ہونے والوں کی تعداد ساڑھے چار گنا زائد‬
‫ہے جب کہ مکمل طور پر ویکسی نیٹڈ افراد کے مقابلے میں ویکسین نہ کرانے والے افراد‬
‫میں مرنے والوں کی تعداد گیارہ گنا زائد ہے۔‬
‫اس بابت سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول ( سی ڈی سی) کی ڈائریکٹر روشیل ویلینسکی کا کہنا تھا‬
‫کہ تحقیق سے سامنے ٓانے والے اعداد و شمارسے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسی نیشن ہمیں‬
‫کووڈ نائٹین کی پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اس مطالعے میں رواں سال اپریل تا جوالئی کے وسط تک تیرہ‬
‫ریاستوں کے بڑے شہروں میں اسپتالوں میں داخل ہونے والے کووڈ نائنٹین کے چھ الکھ‬
‫کیسز کو شامل کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں ٓاخری دو ماہ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جس وقت ملک میں کرونا کا‬
‫ڈیلٹا ویرئینٹ تباہی مچا رہا تھا اس وقت ویکسین نہ کروانے والے افراد کے کورونا میں‬
‫مبتال ہونے کی تعداد ساڑھے ‪ 4‬گنا‪ ،‬اسپتالوں میں داخل ہونے والوں کی تعداد ‪ 10‬گنا سے‬
‫زائد اور شرح اموات ‪ 11‬گنا زائد تھی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جب کہ مکمل ویکسی نیشن کروانے افراد کے نہ صرف اسپتالوں میں‬
‫داخلے اور شرح اموات کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا ویریئنٹ کے پھیالؤو کی شرح بہت کم اور‬
‫خصو صا ً ‪ 75‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں زیادہ تھی۔‬
‫اس سے قبل امریکا میں صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ ویکسین کی مکمل خوراکیں لینے‬
‫والے افراد میں ان لوگوں کی نسبت جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی‪ ،‬کرونا وائرس سے ہالک‬
‫ہونے کا خطرہ گیارہ گنا کم اور اسپتال داخل ہونے کے امکانات دس گنا کم ہو جاتے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccine-also-protects-against-other-‬‬
‫‪dangerous-diseases/‬‬

‫حاملہ خواتین کی مشقت‪ ،‬نوزائیدہ بچوں کے پھیپھڑے بھی مضبوط‬


‫بناتی ہے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 9  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬
‫حاملہ خواتین سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر وقت بستر پر ٓارام نہ کیا کریں بلکہ تھوڑی بہت‬
‫)جسمانی مشقت بھی کرتی رہا کریں۔‬

‫تحقیقات | ‪105‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دوران حمل‬
‫ِ‬ ‫اوسلو‪  :‬ناروے اور سویڈن میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ‬
‫خواتین کی جسمانی مشقت مثالً ورزش سے ان کے نوزائیدہ بچوں کے پھیپھڑے بھی‬
‫مضبوط ہوتے ہیں۔‬
‫یورپین ریسپائریٹری\ سوسائٹی کی حالیہ انٹرنیشنل\ کانگریس‪ ‬میں پیش کی گئی اس تحقیق‬
‫سے حاملہ خواتین میں جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت کا ایک اور پہلو سامنے ٓایا ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف اوسلو‪ ،‬ناروے کی ڈاکٹر ہریفنا کارٹن نے یہ تحقیق ‪ 814‬نوزائیدہ بچوں اور‬
‫ان کی ماؤں پر کی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں حمل کے دوران خواتین کی جسمانی سرگرمیوں بشمول گھریلو کام کاج اور‬
‫ورزش وغیرہ سے متعلق معموالت پر نظر رکھی گئی جبکہ بچوں کی پیدائش کے تین ماہ‬
‫بعد ان بچوں کی صحت‪ ،‬بالخصوص پھیپھڑوں کی کیفیت کا جائزہ لیا گیا۔‬
‫تجزیئے سے معلوم ہوا کہ دورا ِن حمل زیادہ ٓارام کرنے والی خواتین کے یہاں پیدا ہونے‬
‫والے ‪ 290‬بچوں میں سے ‪ 8.6‬فیصد کے پھیپھڑے خاصے کمزور تھے۔‬
‫ان کی نسبت‪ ،‬حمل کے دوران چاق و چوبند اور سرگرم رہنے والی خواتین کے نوزائیدہ‬
‫بچوں میں کمزور پھیپھڑوں کی شرح ‪ 4.2‬فیصد دیکھی گئی۔‬
‫واضح رہے کہ پیدائش کے وقت کمزور پھیپھڑوں کا نتیجہ ٓائندہ زندگی میں سانس کی کئی‬
‫بطور خاص قاب ِل ذکر ہے۔‬
‫ِ‬ ‫بیماریوں کو جنم دے سکتا ہے جن میں دمہ‬
‫ڈاکٹر ہریفنا کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں نوزائیدہ بچوں میں پھیپھڑوں پر اثر انداز ہونے‬
‫والے صرف ایک پہلو کا جائزہ لیا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪106‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس بارے میں حتمی طور پر جاننے کےلیے ایک وسیع مطالعے کی ضرورت ہے تاکہ‬
‫مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حوالے سے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جاسکے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2222810/9812/‬‬

‫پاکستانی کمپنی نے معذور افراد کے لیے مشینی بازو تیار کرلیا‬

‫‪  ‬رجا فاطمہ‬
‫جمعرات‪ 9  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫تصویر میں بازو سے محروم نوجوان معاذ روبوٹک ٓارم کے ساتھ موجود ہیں۔ فوٹو‪:‬‬
‫بشکریہ بایونکس کمپنی‬
‫کراچی‪ :‬پاکستان میں پہلی بار پیدائشی معذور یا کسی حادثے سے متاثرہ افراد کے لیے‪ ‬‬
‫جدید ٹیکنالوجی پر مبنی روبوٹک آرم (مشینی بازو) تیار کرلیا گیا۔‬
‫ایکسپریس کے مطابق سینسر کے ذریعے دماغ کی مدد سے چلنے واال یہ مصنوعی ہاتھ‬
‫حرکت بھی کرسکتا ہے اور وزن بھی اٹھا سکتا ہے‪ ،‬روبوٹک ٓارم کے ذریعے معذور افراد‬
‫عام افراد کی طرح اپنے روزمرہ کے کام باآسانی کرسکتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے‪ ‬جامعہ کراچی میں منعقدہ دو روزہ ’’صحت کی دیکھ بھال میں ٹیکنالوجی‬
‫کی فعالیت‘‘ کے موضوع پر مبنی کامسٹیک آئی سی سی بی ایس میں بین االقوامی نمائش‬

‫تحقیقات | ‪107‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوئی جس میں‪ ‬پاکستان کی ایک نجی کمپنی ’بایونکس‘ نے تیار کیے جانے والے اس بازو‬
‫کو متعارف کرایا۔‬

‫اس بازو میں کئی سینسر کے عالوہ بیٹری نصب ہے جو مکمل چارجنگ پر بازو کو‬
‫مسلسل ‪ 8‬گھنٹے متحرک رکھتی ہے۔ بازو ساڑھے تین کلو وزن اٹھاسکتا ہے جس کی‬
‫کالئی گھوم سکتی ہیں اور انگلیاں متحرک ہوتی ہیں۔‬
‫بایونکس نے مصنوعی ہاتھ کے تین ماڈل بنائے ہیں ان میں بلیک ایکس کا رنگ سیاہ ہے‪،‬‬
‫انسانی جلد کی رنگت میں زندگی ‪ 2.0‬ماڈل بنایا گیاہے اور سپر ہیرو ورژن میں بچے بازو‬
‫کو اپنی مرضی سے بنواسکتے ہیں تاہم اس کی قیمت ساڑھے تین الکھ روپے تک ہے۔‪ ‬ایسا‬
‫ہی ایک بازو شہری معاذ زاہد کو بھی لگایا گیا ہے۔‬
‫معاذ نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو‬
‫کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں ڈیڑھ سال قبل‬
‫ایک حادثے سے متاثر ہوگیا تھا جس‬
‫میں میرا سیدھا ہاتھ ضائع ہوگیا تھا‪،‬‬
‫ایک ہاتھ سے معذور ہونے کے بعد‬
‫اپنے روز مرہ کے کام نہیں کر پارہا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪108‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دل بہت اداس تھا‪ ،‬میں زندگی میں کچھ کرنا چاہتا تھا جب اس ٹیکنالوجی کا پتا چال تو‬
‫فوری طور پر کمپنی سے رجوع کیا اور روبوٹک ٓارم لگوایا۔انہوں‪ ª‬نے بتایا کہ اس‬
‫ٹیکنالوجی کی بدولت میں اب اپنے روز مرہ کے کام ٓاسانی سے کرلیتا ہوں‪ ،‬گاڑی چال لیتا‬
‫ہوں‪ ،‬گٹار بجا لیاتا ہوں‪ ،‬دانت برش کرسکتا ہوں‪ ،‬چائے پی سکتا ہوں اور بہت کچھ کرسکتا‬
‫‘ہوں۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ روبوٹک ٓارم کا استعمال انتہائی ٓاسان ہے‪ ،‬اس ٹیکنالوجی کے بعد ان کے‬
‫دل سے احساس محرومی کا جذبہ بھی ختم ہوا ہے اور اب زندگی حسین لگنے لگی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ‪ ‬ایسے افراد جو ہاتھ سے محروم ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس ٹیکنالوجی‬
‫سے فائدہ اٹھائیں‪ ،‬خوشی ہے کہ اب پاکستان بھی دوسرے‪ ‬ممالک کی طرح ٹیکنالوجی میں‬
‫ٓاگے بڑھ رہا ہے۔‬
‫کمپنی حکام کے مطابق پاکستان میں اس وقت ‪ 100‬سے زائد افراد بایونکس کے ‪ ‬روبوٹک‬
‫ٓارم سے مستفید ہورہے ہیں اور اپنے روزمرہ کے کام باآسانی کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی‬
‫خاص طور پر معذور افراد کے دل سے احساس محرومی کو ختم کرنے کرنے کے لیے‬
‫تیار کی گئی ہے۔‬
‫اس موقع پر بایونکس سے وابستہ ماہر نے بتایا کہ ان کی کمپنی دنیا میں سب سے کم عمر‬
‫بچے میں روبوٹ بازو نصب کرچکی ہے جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔‬
‫اور‪ www.bioniks.org -3562103‬مزید تفصیالت کے لیے بایونکس کی ویب سائٹ‬
‫‪ 0300‬پر رابطہ کیا جاسکتا ہے‬

‫تحقیقات | ‪109‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://www.express.pk/story/2222898/9812/‬‬

‫عام ادویہ ٓانتوں کے بیکٹیریا میں جمع ہوکرعالج کو مشکل بنارہی ہیں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 10  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫برطانوی اور امریکی ماہرین نے کہا ہے ٓانتوں کے بیکٹیریا ادویہ جمع کرکے صحت کو‬
‫کئی طرح سے متاثرکرسکتےہیں۔‬
‫کیمبرج‪ :‬ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ دمے‪ ،‬ڈپریشن اورزیابیطس کی عام ادویہ اگرچہ اپنا‬
‫اثر تو کرتی ہیں لیکن طویل مدتی اثر میں یہ ٓانتوں کے بیکٹریا (جرثوموں) میں جمع ہوتی‬
‫رہتی ہیں اور ٓاگے چل کر کئی ادویہ کے اثر کو کم کرسکتی ہیں یا کررہی ہیں۔ کیونکہ‬
‫ادویہ جمع ہونے سے بیکٹیریا غیرمعمولی طور پر تبدیل ہورہے ہیں۔‬
‫اس معلومات سے ہم مختلف افراد پر دوا کے مختلف اثرات سمجھ سکتے ہیں اور ان کے‬
‫منفی اثرات (سائیڈ افیکٹس) بھی سمجھ سکتےہیں۔ ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں‬
‫شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بعض بیکٹیریا کیمیائی طور پر بعض ادویہ کو‬
‫بدل سکتےہیں جسے بایوٹرانسفارمیشن کا عمل کہتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪110‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جامعہ کیمرج اور یورپی مالیکیولر بائیلوجی تجربہ گاہ ( ای ایم بی ایل)‪ ،‬جرمنی کی کھوج‬
‫بتاتی ہے کہ کئی عام ادویہ دھیرے دھیرے سے بیکٹیریا میں جاتی رہتی ہیں اور نہ صرف‬
‫انہیں اندر سے بدلتی ہیں بلکہ ان کے افعال بھی بدل دیتی ہیں۔ اب خیال ہے کہ بیکٹیریا کے‬
‫بدلنے سے برا ِہ راست نئی دواؤں پر اثر پڑسکتا ہےاور بالراست بھی بیکٹیریا کے افعال‬
‫بدل سکتے ہیں جس سے دوا کے مضر اثرات بڑھ سکتے ہیں۔‬
‫نظام ہاضمہ میں سینکڑوں‪ ،‬ہزاروں اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے‬ ‫ِ‬ ‫ہمارے معدے‪ٓ ،‬انت اور‬
‫ہیں جو نہ صرف صحت بلکہ امراض میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے‬
‫مجموعے کو گٹ مائیکروبایوم کہا جاتا ہے۔ لوگوں میں اس کی ترتیب مختلف ہوتی ہے اور‬
‫اب یہ حال ہے کہ ہم تندرست بیکٹریا کے گچھوں کی شناخت بھی کرچکے ہیں۔ ان کے‬
‫بگڑنے سے موٹاپا‪ ،‬امنیاتی نظام اور دماغی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔‬
‫سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں ‪ 25‬عام بیکٹیریا شناخت کئے اور انہیں کھائی جانے والی‬
‫‪ 15‬عام ادویات کا سامنا کرایا گیا۔ اس طرح کل ‪ 375‬ادویہ اور بیکٹیریا کے ٹیسٹ کئے‬
‫گئے۔ تحقیق میں ‪ 70‬مالپ ایسے تھے جن میں ‪ 29‬کو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔‬
‫اس طرح بیکٹیریا اور ادویہ کے نئے ‪ 29‬تعامالت میں سے ‪ 17‬میں دوا بدلےکسی تبدیلی‬
‫کے بغیر جمع ہونے لگیں۔ پھر ڈپریشن کی ایک دوا ڈیولوکزیٹائن نے تو بیکٹیریا کی‬
‫کالونی ہی بدل دی اور ان کا توازن شدید بگڑ گیا۔ پھر ایک کیڑے پر ان کی ٓازمائش کی‬
‫گئی اور اس کے بعد کیڑوں کا برتاؤ بھی بدل گیا۔‬
‫ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تحقیق کا ایک نیا باب ہے جس پر مزید چھان بین کی ضرورت‬
‫ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2223013/9812/‬‬

‫دفاترکی ٓالودہ ہوا مالزمین کی دماغی صالحیت متاثر کررہی ہے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫ہفتہ‪ 11  ‬ستمبر‪ 2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪111‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کی رو سے دفاتر کی ٓالودہ اور متاثرہ ہوا کارکنوں کی دماغی‬
‫صالحیت کو متاثرکرسکتی ہے‬
‫ہارورڈ‪ :‬دفاتر کی ٓالودہ اور غیرمعیاری فضا سے وہاں کام کرنے والے افراد کی دماغی‬
‫صالحیت پر برے اثرات مرتب ہورہےہیں اور ان کی دماغی اور ذہنی صالحیت متاثر‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫ان میں کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ اور پی ایم ‪ 2.5‬کی غیرمعمولی بڑھی ہوئی مقدار ذہانت اور‬
‫دماغی ٹیسٹ میں ان کی درستگی کو متاثرکرتی ہے اور اس کا اثر دفاتر کی کارکردگی پر‬
‫بھی ہوتا ہے۔ تحقیق کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ دفاتر کی اندرونی ہوا کا معیار بہتر بنانا‬
‫بہت ضروری ہے تاکہ تازہ ہوا کی ٓامدورفت جاری رہے۔‬
‫ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول برائے عوامی صحت نے پہلی مرتبہ دفاتر اور اداروں کی‬
‫فضائی کیفیات کے درمیانی تعلقات دریافت کیا ہے۔ اس بڑے مطالعے میں کئی ممالک نے‬
‫حصہ لیا ہے۔ دفاترمیں ہوا کی ٓامدورفت اور معلق ذرات کے درمیان تعلق سے انکشاف ہوا‬
‫ہے کہ وہ کارکنوں کی دماغی صالحیت کو متاثر کررہے ہیں جس کی تصدیق کئی مروجہ‬
‫ٹیسٹ سے بھی ہوئی ہے۔‬
‫اس سے قبل جو بھی تحقیق ہوئی ہے اس میں باہر کی فضائی ٓالودگی اور دماغی صالحیت‬
‫پر ان کے اثرات پر غور ہوا ہے لیکن بند کمروں میں ہوا پر کسی نے غور نہیں کیا تھا۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 300‬افراد کو شامل کرکے ایک سال تک تحقیق کی گئی اور دنیا کے چھ‬
‫ممالک میں ‪ 40‬عمارات سے ڈیٹا لیا گیا۔‬
‫تحقیقات | ‪112‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہردفتر میں کئی اقسام کے سینسر لگائے جو اسی وقت پی ایم ‪ ،2.5‬کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ‪،‬‬
‫درجہ حرارت اور نمی وغیرہ نوٹ کرتے رہے تھے۔ جیسے ہی دفاتر میں پی ایم ‪ 2.5‬نامی‬
‫ذرات اور کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ کی سطح ایک خاص پیمانے سے اوپر پہنچی تو اسمارٹ فون‬
‫پر ایک پیغام پہنچا جس میں دماغی صالحیت والے ایک چھوٹے سے گیم یا ٹیسٹ پورا‬
‫کرنے کو کہا گیا۔‬
‫عام طور پر جب جب دفاتر میں کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ اور پی ایم ‪ 2.5‬کی مقدار بڑھی اکثر‬
‫شرکا نے ٹیسٹ میں اپنا ر ِد عمل دیر میں درج کروایا۔ ان میں الفاظ کو پہچاننے کا ایک‬
‫ٹیسٹ تھا جس میں رنگوں کے وجہ سے الفاظ کو پہچاننے کے لیے غور کرنا پڑتا تھا۔ یہ‬
‫ٹیسٹ اس وقت خراب واقع ہوا جب دفتر کے ماحول میں یہ دو ٓالودگیوں کا عروج تھا۔‬
‫تحقیقی کے سربراہ ہوزے گیولرمو سیڈانو نے کہا کہ پی ایم ‪ 2.5‬اور کاربن ڈائی ٓاکسائیڈ‬
‫کی سطح بڑھنے کے فوراً بعد ہی اکتسابی (کوگنیشن)‪ ª‬صالحیت میں یکدم تیزی سے کمی‬
‫ٓاجاتی ہے۔ اس لئے دفاتر میں ہوا کا مسلسل بہاؤ بہت ضروری ہے جوعمومی صحت اور‬
‫دماغ دونوں کے لیے ہی مضر ہوتی ہے۔‬
‫سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کووڈ وبا کے تناظر میں بھی گھروں اور دفاتر میں تازہ ہوا کی‬
‫ٓامدورفت کی بہت ضروری ہے۔ اگر ادارے اپنے مالزموں کی صالحیت بڑھانا چاہتے ہیں‬
‫تو انہیں چھت کے نیچے ہوا کا معیار بڑھانا ہوگا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2223361/9812/‬‬

‫خشک خوبانی کے صحت پر حیرت انگیز اثرات‬

‫ستمبر\ ‪09 2021 ،‬‬

‫خوبانی لذیذ میٹھے ذائقے اور غذائیت سے بھر پور پھل ہے‪ ،‬خوبانی کو تازہ اور اسے‬
‫سکھا کر دونوں طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے‪ ،‬خوبانی پوٹاشیم‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬فائبر اور بیٹا‬
‫کروٹین سے ماالمال پھل ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق تازہ اور خشک دونوں صورتوں میں خوبانی کا استعمال صحت‬
‫کے لیے بے حد مفید ہے جبکہ اسے سکھا کر محفوظ کرنے کے نتیجے میں اس کی‬
‫غذائیت میں‪ ‬اضافہ ہو جاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق خوبانی میں‪ ‬وٹامن اے بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اسی لیے اس‬
‫کا استعمال کمزور نظر کو تیز کرتا ہے‪َ ،‬جلد بڑھاپے اور اعصابی کمزوری سے تحفظ‬

‫تحقیقات | ‪113‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫فراہم کرتا ہے‪ ،‬گھٹنوں‪ ،‬جوڑوں اور پٹھوں کے درد سے محفوظ رکھتا ہے اور دل و دماغ‬
‫کو طاقت بخشتا ہے۔‬
‫خشک خوبانی میں کیلشیم پائے جانے کے باعث یہ ہڈیوں کی بہترین صحت کے لیے بھی‬
‫ضروری ہے‪ ،‬کیلشیم کے عالوہ خشک خوبانی میں پوٹاشیم بھی کافی مقدار میں پایا جاتا‬
‫ہے۔‬
‫خوبانی سکھا کر خشک میوہ جات کی شکل اختیار کر لیتا ہے جبکہ خشک میوہ ہونے کے‬
‫باعث بھی اس میں فائبر کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے‪ ،‬اس کے عال وہ خشک خو بانی‬
‫میں کیلوریز بھی بہت کم پائی جا تی ہیں‪ ،‬اس میں موجود فائبر نظام ہاضمہ کی کارکردگی‬
‫کو مزید فعال بنا دیتا ہے جو وزن کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫فائبر کی بھاری مقدار کولیسٹرول کی سطح کو بھی کنٹرول کرتی ہے جس کے باعث دل‬
‫کے امراض الحق ہونے کے خطرات میں کمی واقع ہوتی ہے‪ٓ ،‬ادھا کپ خشک خوبانی کا‬
‫استعمال دل کی متعدد شکایات دور کرتا ہے اور خون کی گردش رواں دواں بناتا ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ کمزور معدے کے افراد اسے کھانا کھانے‬
‫سے قبل استعمال کر لیں تو بد ہضمی اور پیٹ سے متعلق جملہ امراض سے شفا ملتی ہے‪،‬‬
‫خشک خوبانی قبض دور کریتی ہے۔‬
‫خشک خوبانی میں موجود ٓائرن خون کی کمی کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے‬
‫اور ’اینیمیا‘ (خون کی کمی کی بیماری)‪  ‬کے خالف قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق خوبانی میں پائے جانے والے اینٹی ٓاکسیڈنٹس کینسر کے خطرات‬
‫کو بھی کم کرتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪114‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی افزائش اور اس کا استعمال پاکستان کے جنوبی عالقوں‬
‫میں‪ ‬زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں پر رہنے والے اور شہری زندگی سے زیادہ‬
‫کام اور مشقت کرنے والے افراد طویل عرصے تک متعدد بیماریوں سے دور‪ ،‬چاق و‬
‫چوبند‪ ،‬سلم اسمارٹ اور توانا رہتے ہیں۔‬
‫خشک خوبانی ِجلد سے جھریوں کا خاتمہ کرتی ہے اور اسے صاف شفاف بناتی ہے‪ ،‬ساتھ‬
‫ہی سورج کی تپش کے سبب ہونے والی جلن‪ ،‬خارش اور ایگز یما سے بھی بچاؤ ممکن‬
‫بناتی ہے ۔‬
‫اس کے عالوہ خشک خوبانی کے استعمال کے نتیجے میں کیل مہاسوں اور جھائیوں کا‬
‫‪ ‬عالج بھی ممکن ہوتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/982304‬‬

‫کیا ٓالو صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں؟‬

‫ستمبر\ ‪11 2021 ،‬‬

‫غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٓالوؤں سے متعلق غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان میں‪ ‬غذائیت‬
‫نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں‪ ،‬جو افراد ڈائیٹنگ کا سوچتے ہیں وہ‬
‫ٓالوؤں کو بھی اپنی غذا سے نکا ل دیتے ہیں‪ ،‬حاالنکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق ٓالوؤں کی ‪ 173‬گرام‪  ‬مقدار میں کیلوریز ‪ 161‬جبکہ وٹامن بی ‪،6‬‬
‫پوٹاشیم‪ ،‬کاپر‪ ،‬وٹامن سی‪ ،‬مینگنیز‪ ،‬فاسفورس‪ ،‬فائبر اور وٹامن بی ‪ 3‬کی بھی وافر مقدار‬
‫پائی جاتی ہے۔‬
‫ٓالو کھانا چھوڑ دینے سے یہ کہیں ثابت نہیں‪ ‬ہوتا ہے کہ اب انسان پتال دبال اور اسمارٹ ہو‪ ‬‬
‫جائے گا‪ ،‬ماہرین فٹنس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سخت ورزشیں کرنے والے افراد‬
‫کو ابلے ہوئے ٓالو کھانے کا کہا جاتا ہے‪ ،‬اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٓالو ایک صحت بخش‬
‫غذا ہے ناکہ مضر صحت۔‬
‫غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر غذا اعتدال میں صحت بخش اور ضرورت سے زیادہ‬
‫کھانے پر مضر صحت ثابت ہوتی ہے‪ ،‬اسی طرح ٓالو بھی صحت میں اضافے اور کئی‬
‫شکایات کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‬

‫غذائی ماہرین کی جانب سے بتائے گئے ٓالو کے استعمال سے جسم پر ٓانے والے متعدد‬
‫مثبت اثرات مندرجہ ذیل ہیں‪  ‬جنہیں‪  ‬جان کر ٓاپ بھی ٓالو کی چاٹ‪ٓ ،‬الو سے بنی سالد‪ٓ ،‬الو‬
‫کی ٹکیہ‪ ،‬بیک کیے ہوئے اور ابلے ہوئے ٓالوؤں سے بھاگنا بند کر دیں گے بلکہ یہ غذائیں‬
‫روٹین میں‪ ‬شامل کر کے زندگی کو مزید پُر لطف بنائیں گے ۔‬

‫تحقیقات | ‪115‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫غذائی ماہرین کے مطابق ٓالو میں ایک منفرد ایسڈ پایا جاتا ہے جو کہ دماغی صحت کو بہتر‬
‫بناتا ہے‪ ،‬غذائی ماہرین کے مطابق الزائمر کے مرض میں مبتال افراد کو ٓالو کا استعمال‬
‫زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔‬
‫ٓالؤوں میں موجود پوٹاشیم پٹھوں کو ٓارام پہنچاتا ہے اور ورزش سے یا تھکن سے متاثر‬
‫ہونے والے پٹھوں کی مرمت کرتا ہے‪ٓ ،‬الؤوں میں کیلشیم پائے جانے کے سبب یہ ہڈیوں کو‬
‫مضبوط بناتا ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق جہاں ٓالو میں کاربوہائیڈریٹس‪ ª‬پائے جاتے ہیں وہیں اس میں فائبر‬
‫بھی موجود ہوتا ہے جو کہ نظام ہاضمہ کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔‬
‫ٓالو کا استعمال بلڈ پریشر کو متوازن بناتا ہے‪ ،‬بطور سالد‪ٓ ،‬الؤوں کو بیک کر کے یا ابال کر‬
‫بھی کھایا جا سکتا ہے۔‬

‫ٓالو بطور بیوٹی ایجنٹ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬


‫اس میں موجود وٹامن سی جلد کو صاف شفاف اور بے داغ بناتا ہے اور قدرتی طور پر‬
‫چہرے کے بالوں‪ ‬کو بلیچ کرتا ہے۔‬
‫ٓالو کے قتلے کاٹ کر اس سے چہرے پر مساج کیا جا سکتا ہے‪ ،‬یہ ایکنی کو دنوں‪ ‬‬
‫میں‪ ‬ختم کرتا ہے اور ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کا بھی خاتمہ اس عمل سے ممکن ہوتا‬
‫ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/983163‬‬

‫تحقیقات | ‪116‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تِلوں کا استعمال صحت کیلئے کیسا ہے؟‬
‫ستمبر\ ‪10 2021 ،‬‬

‫اکثر اوقات گھروں میں سفید اور کالے تل صرف میٹھی غذأوں اور مخصوص پکوانوں‪ ª‬میں‬
‫ہی استعمال کیے جاتے ہیں‪ ،‬یہ اِن کی افادیت سے ال علمی ہی ہے کہ جو ان کا استعمال‬
‫شاذو نادر ہی کیا جاتا ہے۔‬
‫تِل غذائیت اور روغن سے بھرپور غذا ہے‪ ،‬چھوٹے چھوٹے سفید اور کالے رنگ کے‬
‫بیجوں پر مشتمل تِل زمانہ قدیم سے استعمال کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کی تاثیر گرم اور‬
‫غذائیت گوشت کے برابر قرار دی جاتی ہے‪ ،‬انہیں دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق ان چھوٹے چھوٹے بیجوں‪ ‬میں قدرت نے بھر پور صحت کا‬
‫خزانہ چھپا رکھا ہے‪ ،‬ان کا استعمال خصوصا ً خواتین کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے‪ ،‬تِلوں‬
‫میں متعدد وٹامنز‪ ،‬منرلز‪ ،‬قدرتی روغن اور دیگر اجزاء جیسے کہ کیلشیم‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬میگنیشیم‪،‬‬
‫فاسفورس‪ ،‬میگنیز‪ ،‬کاپر‪ ،‬زنک‪ ،‬فائبر‪ ،‬تھیامن‪ ،‬وٹامن بی‪ ،6‬فولیٹ اور پروٹین پایا جاتا ہے ۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق تِلوں‪ ‬کے استعمال کے نتیجے میں انسان شوگر‪ ،‬بلڈپریشر‪،‬‬
‫کینسر‪ ،‬ہڈیوں کی کمزوری‪ ،‬جلِد کو پہنچنے والے نقصانات‪ ،‬دل کی بیماریوں‪ ،‬منہ کی‬
‫بیماریوں سے بچ جا تا ہے‪ ،‬اس میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزاء انسانی جسم سے مضر‬
‫صحت مادوں‪ ‬کو بھی نکال دیتے ہیں۔‬

‫غذائی ماہرین کی جانب سے تلوں‪ ‬کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے‪ ،‬تلوں‪ ‬کے استعمال کے‬
‫‪:‬نتیجے میں حاصل ہونے والے مزید فوائد مندرجہ ذیل ہیں‬
‫تحقیقات | ‪117‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق کیلشیم کی کمی کے شکار افراد کے لیے تلوں‪ ‬کا استعمال نہایت‬
‫مفید ثابت ہوتا ہے‪ ،‬تلوں‪ ‬میں کیلشیم اور ٓائرن کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ خون‬
‫کی کمی کو بھی پورا کرتی ہے۔‬
‫کالے تل نیم گرم پانی میں بھگو کر گرائنڈ کر کے چھان لیں‪ ،‬اب اس میں دودھ مال کر پئیں‪،‬‬
‫چند دنوں میں خون کی کمی دور ہو جائے گی۔‬
‫تلوں‪ ‬میں مثبت روغن (تیل) پائے جانے کے سبب اس کے استعمال سے ایڑیاں‪ ،‬ہاتھ اور‬
‫ہونٹ پھٹنے سے بچ جاتے ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق موٹے ہونے کے خواہشمند افراد کو چاہیے کہ تِلوں کو بادام اور‬
‫خشخاش کے ساتھ مال کر کھائیں اور بعد میں دودھ پی لیں۔‬

‫تلوں‪ ‬کے استعمال سے بال اور ناخنوں کی صحت بہتر ہوتی ہے‪ ،‬تلوں کا تیل فائدہ مند ہے‬
‫جس میں وٹامن بی اور ای‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬کیلشیم اور فاسفورس پایا جاتا ہے جو بالوں اور سر‬
‫کی جلد کے لیے ضروری اجزاء ہیں۔‬
‫تلوں کے تیل کی معمولی سی مقدار سے سر پر مالش کریں اور ‪ 30‬منٹ تک کے لیے‬
‫چھوڑ دیں‪ ،‬اس کے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے بال دھو لیں‪ ،‬بال گھنے‪ ،‬کالے‪ ،‬لمبے‬
‫اور مضبوط ہوجائیں گے۔‬

‫تلوں کا تیل پولی اَن سیچوریٹڈ اور مونو سیچوریٹڈ فیٹس سے بھرپور ہوتا ہے‪ ،‬اس میں‬
‫سیچوریٹڈ فیٹس کم ہوتے ہیں جو کہ دل کی صحت اور کولیسٹرول کی سطح کنٹرول میں‬
‫رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/982750‬‬

‫مچھروں کو دور رکھنے اور ڈینگی سے بچنے کے موثر طریقے‬

‫ستمبر\ ‪12 2021 ،‬‬

‫مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں سے ڈینگی‪ ،‬ملیریا اور چکن گونیا عام‬
‫ہیں۔ مون سون یقینا َ خوشگوار ہوتا ہے جو موسم کو خوبصورت بنا دیتا ہے لیکن اس کے‬
‫ساتھ مچھروں کی افزائش بھی ہوتی ہے اور مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے ان بیماریوں‬
‫‪ ‬کے زیادہ کیسز سامنے ٓاتے ہیں۔‬
‫مون سون کے اس موسم میں ماہرین نے تین قدرتی طریقے بتائے ہیں جن سے ٓاپ ڈینگی‬
‫جیسی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪118‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی طریقے ‪ 100‬فیصد موثر نہیں ہوسکتے ہیں لیکن ان‬
‫کے استعمال سے ٓاپ کو ڈینگی اور ملیریا ہونے کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔‬
‫‪:‬مچھر کے کاٹنے سے خود کو محفوظ رکھنے کے چند موثر طریقے‬

‫‪:‬کھڑے پانی کی طرف جانے سے پرہیز کریں‬

‫تحقیقات | ‪119‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر ممکن ہو تو اپنے گھر اور یہاں تک کہ اپنے عالقے میں کھڑے پانی سے چھٹکارا‬
‫حاصل کریں۔ کھڑا پانی مچھروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور مچھر کے کاٹنے کا خطرہ‬
‫بڑھاتا ہے۔‬
‫‪:‬مچھر بھگانے والی کریمیں‬
‫مچھر بھگانے والی کریمیں مچھروں کے کاٹنے سے عارضی تحفظ بھی پیش کر سکتی‬
‫ہیں اور آپ کو انہیں سونے سے پہلے یا دن میں کئی بار لگانا چاہیے تاکہ مچھر ٓاپ کے‬
‫قریب نہ ٓائیں اور ٓاپ ڈینگی جیسی بیماریوں سے محفوظ رہیں۔‬
‫‪: ‬ضروری\ تیل‬
‫‪‬‬ ‫لیوینڈر کا تیل نیند التا ہے اور مچھروں کو بھگانے کے لیے بھی بہت اچھا ہے۔ اس‬
‫کا سکون بخش اثر اور تیز خوشبو ہے جو مچھروں کو تین سے چار گھنٹے تک ‪ 80‬سے‬
‫‪ 90‬فیصد تک پیچھے ہٹا دیتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫کالی مرچ کا تیل مچھروں کو بھگانے میں بھی مدد کرسکتا ہے۔ لیمن گراس آئل کا‬
‫بھی یہی حال ہے‪ ،‬یہ ضروری تیل آپ کے کمرے میں ڈفیوزر کے طور پر ڈینگی اور‬
‫ملیریا کی روک تھام کے لیے مؤثر مچھر بھگانے کے طور پر استعمال کیے جا سکتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪‬‬ ‫ٹی ٹری ٓائل مچھروں کو بھگاتا ہے اور مچھروں کے کاٹنے کو آرام دینے میں بھی‬
‫مدد کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کو مچھر کے کاٹنے کے فوراَ بعد ٹی ٹری ٓائل‬
‫لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ڈینگی یا ملیریا کو نہیں روک سکتا (اگر آپ کو اس سے‬
‫متاثرہ مچھر کاٹتا ہے) لیکن یہ مچھر کے کاٹنے کو کم کرنے اور جلد کے اثرات کو کم‬
‫کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫نیم کا تیل مچھروں کے خالف ایک اور زبردست دوا ہے۔ آپ اسے ِجلد پر لگاسکتے‬
‫ہیں اور یہ مچھروں کو بھگانے میں ‪ 100‬فیصد موثر ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/983649‬‬

‫وائرس برسوں کہیں نہیں جائے گا‪ ،‬ڈبلیو ایچ او‬

‫ادارہ صحت کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے جلد چھٹکارا‬
‫ٴ‬ ‫عالمی‬
‫سر نو‬
‫پانا ممکن نہیں۔ ان کے بقول اس تناظر میں ویکسینیشن کی حکمت عملی کو از ِ‬
‫مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‬
‫‪    ‬‬
‫اقوام متحدہ کے یورپی دفتر کے سربراہ ہانس کلوگے نے کورونا وائرس کی وبا پر قابو‬
‫پانے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے نتائج پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان‬
‫کا خیال ہے کہ بظاہر کووڈ انیس کی بیماری کے انسداد کی فوری کوئی صورت دکھائی‬

‫تحقیقات | ‪120‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نہیں دے رہی کیونکہ اس وائرس کے نئے متغیر یا ویریئنٹس‪ ª‬مسلسل انسانوں کو بیمار‬
‫کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‬
‫‘وائرس کہیں نہیں جا رہا'‬
‫ڈاکٹر ہانس کلوگے نے واضح کیا ہے کہ اب یقین ہوتا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس اگلے‬
‫کئی برسوں تک موجود رہے گا۔‬

‫تحقیقات | ‪121‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ انیس کی بیماری کے انسداد کی فوری صورت دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ وائرس‬
‫کے نئے ویریئنٹس مسلسل سامنے ٓا رہے ہیں‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ اقوام عالم کے ہیلتھ حکام کو مل بیٹھ کر ویکسینیشن کے موجودہ‬
‫طریقہ کار کا جائزہ لینا ہو گا اور مستقبل کی ترجیحات اقوام کی ضروریات‬
‫ٴ‬ ‫پروگرام اور‬
‫کے تناظر میں مرتب کرنی ہوں گی۔‬
‫ادارہ صحت کے سینیئر اہلکار ہانس کلوگے نے رواں برس مئی‬ ‫ٴ‬ ‫یہ امر اہم ہے کہ عالمی‬
‫میں کہا تھا کہ جب بیشتر اقوام میں ستر فیصد تک ویکسینیشن کا عمل مکمل ہو جائے گا تو‬
‫ان ممالک میں کورونا وائرس کی وبا دم توڑ جائے گی۔ بظاہر ایسا نہیں ہوا اور کووڈ انیس‬
‫کی موجودہ نئی لہر خطرہ بنی ہوئی ہے۔‬
‫صورت حال تبدیل ہو چکی ہے‬
‫ہانس کلوگے سے جب مئی کے ان کے بیان کے حوالے سے پوچھا گیا کہ وہ اس موقف پر‬
‫قائم ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ زمینی حقائق نے ماضی کی صورت حال کو اب پوری طرح‬
‫تبدیل کر دیا ہے۔‬
‫کلوگے کے مطابق ڈیلٹا اور دوسرے ویریئنٹس کی وجہ سے فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا‬
‫سکتا۔ ان کے مطابق ویکسین سے یہ ضرور فائدہ مال ہے کہ عام لوگ وائرس کی لپیٹ میں‬
‫ٓانے کے باوجود صحت یاب ہو رہے ہیں اور ان میں بیماری کی عالمات شدید نہیں ہیں۔‬

‫کووڈ انیس کی بیماری جلد ختم ہونے والی نہیں ہے اور یہ انفلوئنزا کی طرح موجود رہے‬
‫گی‬

‫تحقیقات | ‪122‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ادارہ صحت کے سینیئر اہلکار کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ انیس کی بیماری جلد ختم‬ ‫ٴ‬ ‫عالمی‬
‫ہونے والی نہیں ہے اور یہ انفلوئنزا کی طرح موجود رہے گی۔‬
‫ویکسین کی اسٹریٹجی تبدیل کرنا ضروری ہے‬
‫ڈاکٹر ہانس کلوگے کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ویکسینشن کے‬
‫حوالے سے حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس کی افادیت کو دوچند کیا جائے۔‬
‫اسی انداز میں متعدی و وبائی امراض کے ماہرین بھی سوچ رہے ہیں کہ گنجان بستیوں‬
‫میں وائرس سے بچاؤ کے لیے وہاں کے مکینوں کے مدافعتی نظام کو قوت دینے کے لیے‬
‫صرف ویکسین کی فراہمی کافی نہیں ہے۔‬
‫ورلڈ ہیلتھ ٓارگنائزیشن کے اہلکار نے ہائی ویکسینیشن کو اس لیے اہم خیال کیا کیونکہ اس‬
‫کی بدولت ہیلتھ کیئر نظام کو بیمار افراد کے بوجھ سے بچانا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے ہیلتھ‬
‫کیئر نظام صرف کووڈ انیس کے بیماروں کے لیے نہیں بلکہ کئی دوسری بیماریوں کے‬
‫شکار افراد کا خیال رکھنا اور انہیں عالج فراہم کرنا بھی اسی نظام کی ذمہ داری ہے۔‬
‫ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ویکسینشن کی حکمت عملی کو تبدیل کر کے اس کی افادیت‬
‫کو دوچند کیا جائے‬
‫یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں جنم لینے واال ڈیلٹا ویریئنٹ ساٹھ فیصد زیادہ تیزی کے ساتھ‬
‫ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔ اب کمبوڈیا میں جنم لینے والے ُمو ویریئنٹ کا‬
‫شور پیدا ہو گیا ہے۔ اس متغیر کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔‬
‫ع ح‪/‬ع ت (اے ایف پی)‬
‫‪‬‬ ‫تاریخ‪12.09.2021 ‬‬
‫‪https://www.dw.com/ur/‬‬
‫‪%D9%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%D8%B3-‬‬
‫‪%D8%A8%D8%B1%D8%B3%D9%88%DA%BA‬‬
‫تحقیقات | ‪123‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کا عمل تیز کرنے کے لیے عالمی‬
‫سربراہ اجالس بالنے کی تجویز‬
‫ستمبر ‪2021 ,09‬‬
‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫خبروں کے امریکی اداروں کی اطالع کے مطابق‪،‬‬
‫صدر جوبائیڈن جمعرات کے دن نشریاتی چینلز پر‬
‫خطاب کے دوران متوقع طور پر کووڈ ‪ 19‬ویکسین‬
‫کی عالمی رسد بڑھانے کے موضوع پر ایک سربراہ‬
‫اجالس بالنے پر زوردیں گے۔یہ سربراہی اجالس اس‬
‫ماہ کے اواخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے‬
‫اجالس کے دوران منعقد ہونے کی توقع ہے۔‬
‫اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اطالع دی ہے کہ جن موضوعات پر بات متوقع ہے ان میں‬
‫ت عامہ کے بحران اور‬ ‫عالمی سربراہان کے آپسے رابطے پر زور دیا جائے گا‪ ،‬تاکہ صح ِ‬
‫ویکسین کی مساوی بنیادوں پر تقسیم اور دستیابی کی عدم موجودگی جیسے معاملے کو‬
‫اٹھایا جا سکے‪ ،‬جس میں ترقی پذیر ملکوں میں ویکسین لگانے کی سست شرح کو زیر‬
‫غور الیا جائے۔‬
‫امریکہ اور دیگر امیر ملکوں پر دباؤ میں اضافہ‬
‫سامنے آ رہا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کووڈ ‪19‬‬
‫کی وافر ویکسینز غریب ملکوں کو عطیہ کریں‪ ،‬تاکہ‬
‫عالمی سطح پر وبا کے اثرات کو کم کیا جا سکے‪،‬‬
‫ایسے میں جب کہ اس متعدی بیماری کا وائرس مزید‬
‫مہلک روپ دھار رہا ہے جس کے باعث کووڈ ‪19‬‬
‫کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔‬
‫ہونڈوراس میں کووڈ ویکسین کی رسد کی فراہمی۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل‪ ،‬ٹنڈروس ادھانم گیبریسس نے بدھ کے روز امیر‬
‫ملکوں سے اپیل کی کہ وہ اس سال کے باقی مہینوں کے دوران کووڈ ‪ 19‬کی بوسٹر‬
‫ویسکین نہ لگائیں‪ ،‬تاکہ پہلے یہ یقینی بنایا جائے کہ غریب ملک اپنے عوام کو ویکسین کی‬
‫بنیادی خوراکیں لگا سکیں۔ ٹنڈروس نے اس سے قبل امیر ملکوں پر زور دیا تھا کہ وہ‬
‫ستمبر تک بوسٹر لگانے کا کام مؤخر کر دیں۔‬
‫کووکس' نامی عالمی 'ویکسین شیئرنگ اِنی شئیٹو' نے بھی بدھ کو اعالن کیا ہے کہ اس'‬
‫سال کے اواخر تک اسے ویکسین کے تقریبا ً ایک اعشاریہ چار ارب ڈوز ملنے کی توقع‬

‫تحقیقات | ‪124‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے‪ ،‬جس کے برعکس جون میں ادارے نے بتایا تھا کہ ویکسین کی یہ رسد ایک اعشاریہ‬
‫‪ 9‬ارب خوراکیں ہو گی۔‬
‫دریں اثنا‪' ،‬الس انجلیس بورڈ آف ایجوکیشن' جمعرات ہی کے روز اقدام کا اعالن کر رہا‬
‫ہے جس کے تحت ‪ 12‬برس اور اس سے زیادہ عمر کے طالب علموں کو کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫ویکسین لگانے کا کام الزمی قرار دیا جائے گا۔ اس اقدام کے تحت ‪ 21‬نومبر تک طالب‬
‫علموں کو ویکسین کا پہال ڈوز لگ چکا ہو گا جب کہ اگلے سیمسٹر تک‪ ،‬یعنی ‪ 19‬دسمبر‬
‫تک‪ ،‬طالب علموں کو ویکسین کا دوسرا ڈوز لگ جائے گا‬
‫اس اقدام کی رو سے وہ طالب علم جو غیر نصابی سرگرمیوں میں بالمشافہ حصہ لیں گے‪،‬‬
‫انھیں بھی اکتوبر کے اواخر تک کووڈ ویکسین لگ جائے گی۔‬
‫اگر اس اقدام کی تجویز منظور ہو جاتی ہے تو اس صورت میں الس انجلیس امریکہ کا سب‬
‫سے بڑا اسکول ڈسٹرکٹ ہو گا جہاں الزمی طور پر ویکسین لگانے کی پالیسی پر عمل‬
‫درآمد ہو گا۔ یہ ملک بھر کا دوسرا بڑا ایجوکیشن ڈسٹرکٹ ہے جہاں طالب عملوں کی تعداد‬
‫‪ 600،000‬سے بھی زیادہ ہے۔‬
‫ایک اور خبر کے مطابق‪ ،‬جاپان نے جمعرات کے روز اعالن کیا ہے کہ ٹوکیو اور ‪18‬‬
‫دیگر عالقوں میں ہنگامی صورت حال ‪ 30‬ستمبر تک بڑھا دی گئی ہے۔ جاپان میں دو‬
‫مقامات ایسے بھی ہیں جہاں مکمل ایمرجنسی سے درجہ بڑھا کر سختی کے ساتھ پابندیاں‬
‫عائد رہیں گی۔‬
‫]اس خبر میں شامل معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہے [‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/biden-to-call-for-summit-on-global-covid-‬‬
‫‪vaccine-supplies-reports-say/‬‬

‫ویکسینز کووڈ کے طویل اثرات کے خالف بھی مؤثر ہیں‪ ،‬سائنسدان‬


‫ستمبر ‪2021 ,08‬‬

‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫کرونا وائرس کی ویکس\\ینز\ نہ ص\\رف ک\\ووڈ ‪ 19‬س\\ے‬
‫مت\\اثر ہ\\ونے بلکہ اس کے بع\\د ش\\دید بیم\\اری\ س\\ے‬
‫حفاظت فراہم کرتی ہیں‪ ،‬سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ‬
‫طویل المیع\\اد ک\\ووڈ کی بیم\\اری کے خالف بھی م\\وثر‬
‫تحفظ فراہم ک\\رتی ہیں۔طوی‪ªª‬ل المیع‪ªª‬اد ک‪ªª‬ووڈ میں کرون‪ªª‬ا‬
‫وائ‪ªª‬رس کی بیم‪ªª‬اری کی عالم‪ªª‬ات ک‪ªª‬ئی ہف‪ªª‬تے ی‪ªª‬ا ک‪ªª‬ئی‬
‫مہینوں تک جاری رہتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪125‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برطانیہ کے کنگز کالج لندن میں کی گئی ریسرچ کے‬
‫نتائج کے بارے میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کرونا‬
‫ویکسینز طویل المیعاد کووڈ سے‪ ،‬جسے 'النگ کووڈ'‬
‫بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬بھی مؤثر تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫النگ کووڈ کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار‬
‫موجود نہیں ہیں‪ ،‬لیکن اس بارے میں خیال کیا جاتا‬
‫ہے کہ دنیا بھر میں الکھوں افراد النگ کووڈ سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس بیماری کی عالمات‬
‫میں پٹھوں میں درد‪ ،‬کمزوری‪ ،‬سانس کا پھولنا اور ذہنی کمزوری شامل ہیں جو چار ہفتوں‬
‫سے زائد عرصے تک موجود رہتی ہیں۔‬
‫برطانیہ میں اس بارے میں ’النگ کووڈ ایس او ایس‘ نامی مہم چالنے والی ٓانڈائن شیرووڈ‬
‫کا کہنا ہے کہ النگ کووڈ کی بیماری کے بارے میں ابھی تک زیادہ معلومات موجود نہیں‬
‫ہیں۔‬
‫انہوں نے وائس ٓاف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طبی ماہرین میں اس سلسلے میں‬
‫متضاد خیاالت پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق کچھ لوگوں کو ابھی تک بتایا جا رہا ہے کہ‬
‫یہ بیماری ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوتی ہے جب کہ کچھ ڈاکٹر اس بیماری کو مکمل طور‬
‫پر ابھی تک سمجھ نہیں سکے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ابھی تک صرف عالمات کی روشنی میں مرض کا عالج کیا جاتا ہے۔‬

‫اس سلسلے میں ریسرچ جاری ہے اور بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک‬
‫کسی طریقہ عالج پر باقاعدہ کام شروع نہیں کیا گیا۔کنگز کالج لندن کی ریسرچ میں بتایا گیا‬
‫ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسینز النگ کووڈ کے خطرے کو ‪ 50‬فیصد تک کم کر سکتی‬
‫ہیں۔‬

‫دوسری طرف متعدد تحقیقات سے یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب‬
‫ہونے والے افراد میں‪ ،‬ویکسین کی خوراکیں پوری ک‪ªª‬رنے کے بع‪ªª‬د ج‪ªª‬و ق‪ªª‬وت م‪ªª‬دافعت پی‪ªª‬دا‬
‫ہوتی ہے وہ انتہائی طاقتور ہوتی ہے جسے سائنسدان ’سپرہیومن امیونٹی‘‪ ª‬ک‪ªª‬ا ن‪ªª‬ام دے رہے‬
‫ہیں۔امریکی خبر رساں ادارے‪ ،‬این بی سی کے مط‪ªª‬ابق پچھلے م‪ª‬اہ بی‪ª‬الوجی کی ویب س‪ªª‬ائٹ‬
‫بائیو ٓارزکس میں چھپنے والی ایک تحقیق میں یہ کہا گیا کہ یہ ’سپر ہیومن امیون‪ªª‬ٹی‘ کرون‪ªª‬ا‬
‫وائرس کی ان چھ اقسام کے خالف کافی موثر پائی گئی جنہیں تشویشناک سمجھا جاتا ہے۔‬

‫‪https://www.urduvoa.com/a/vaccines-offer-protection-against-long-‬‬
‫‪covid-scientists-say/6217719.htm‬‬

‫تحقیقات | ‪126‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حاملہ خواتین میں کووڈ ویکسینز کے استعمال کے اثرات کا مزید ڈیٹا‬
‫سامنے آگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪09 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫حمل کے ابتدائی ایام میں کووڈ ‪ 19‬کی روک تھام کے لیے ویکسین کا استعمال اسقاط حمل‬
‫کا خطرہ نہیں بڑھاتا۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫طبی جریدے جاما میں جاری تحقیق میں اسقاط حمل کا سامنا کرنے والی خواتین کا موازنہ‬
‫دوران حمل کووڈ ‪ 19‬ویکسینز کے استعمال کرنے والی خواتین سے کیا۔‬
‫اس مقصد کے لیے دسمبر ‪ 2020‬سے جون ‪ 2021‬کے دوران ایک الکھ ‪ 5‬ہزار سے زیادہ‬
‫حاملہ خواتین کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں ہر ‪ 4‬ہفتے بعد ان خواتین کی صحت کی مانیٹرنگ کی گئی تھی اور مجموعی‬
‫طور پر ‪ 13‬ہزار ‪ 160‬خواتین کو اسقاط حمل کا سامنا ہوا۔‬
‫ان خواتین کا جائزہ حمل کے چھٹے ہفتے سے ‪ 19‬ویں ہفتے تک لیا گیا تھا اور دریافت کیا‬
‫کہ کووڈ ویکسین کے استعمال سے اگلے ‪ 28‬دنوں میں اسقاط حمل کے خطرے میں کوئی‬
‫اضافہ نہیں ہوا۔‬

‫تحقیقات | ‪127‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے بتایا کہ ہمارے ڈیٹا سے ان تحقیقی شواہد میں اضافہ ہوتا ہے کہ حاملہ خواتین‬
‫کو کووڈ ‪ 19‬سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانی چاہیے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ حاملہ خواتین وائرس سے خود کو بچائیں کیونکہ‬
‫ان کے لیے کووڈ ‪ 19‬کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫اس سے قبل اگست ‪ 2021‬میں امریکا میں ہونے والی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی روک تھام کرنے والی ویکسینز حاملہ اور بچوں کو دودھ پالنے والی خواتین‬
‫کے لیے محفوظ ہیں اور انہیں دیگر خواتین کے مقابلے میں زیادہ سنگین مضر اثرات کا‬
‫سامنا نہیں ہوتا۔‬
‫یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں ویکسینیشن کرانے والی ‪17‬‬
‫ہزار سے زیادہ خواتین کو شامل کیا گیا اور ان میں حاملہ اور بچوں کو دودھ پالنے والی‬
‫خواتین کی اکثریت تھی‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ حاملہ خواتین میں ویکسینیشن سے معمول کے ری ایکشن سے ہٹ‬
‫کر کوئی غیرمعمولی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔‬
‫تحقیق کے مطابق حاملہ خواتین کی صحت پر ویکسین سے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہمیں توقع ہے کہ نئے ڈیٹا سے حاملہ خواتین کو یقین دہانی کرانے میں‬
‫مدد ملے گی کہ کووڈ سے بچاؤ کے لیے انہیں ویکسینیشن کی ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نہ صرف ویکسین محفوظ ہیں بلکہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ حاملہ‬
‫خواتین کو کسی قسم کے غیرمعمولی مضر اثرات کا سامنا نہیں ہوتا‪ ،‬وہ وہ خدشہ ہے جس‬
‫کا لوگوں کی جانب سے عام اظہار کیا جاتا ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168070/‬‬

‫ماں اور کوالٹی ٹائم کی مسٹری‬


‫صوفیہ کاشف‬
‫ستمبر ‪13 2021‬‬
‫بچے پالنا‪ ،‬ان کی تربیت کرنا میری زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک تھا‬
‫کیونکہ میں اس حوالے سے مکمل طور پر العلم تھی۔ جب جو آپ کی سمجھ میں آئے‪ ،‬جو‬
‫آپ سے بے ساختہ ہو‪ ،‬عادت سے مجبور ہوکر ہو اور آپ کرتے چلے جائیں تو کچھ بھی‬
‫مشکل نہیں لگتا۔‬
‫مشکل تو تب ہوجاتی ہے جب عادت کسی اور چیز کی ہو‪ ،‬بے ساختگی اور فطرت کے‬
‫ہاتھوں مجبوری کچھ اور کروائے جبکہ عقل‪ ،‬شعور اور تعلیم کے تقاضے کچھ اور ہوں۔‬
‫جو آپ کو بتایا اور سمجھایا جارہا ہو کہ فالں صحیح راستہ ہے لیکن آپ فطری اور جبلتی‬

‫تحقیقات | ‪128‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طور پر اس کے مخالف چلنے پر مجبور ہوں حاالنکہ یہ جانتے ہوں کہ صحیح راستہ کوئی‬
‫اور ہے۔‬
‫تو میں جانتی تھی صحیح راستہ کوئی اور ہے مگر اس راستے تک پہنچ نہ پاتی تھی کہ‬
‫میرے پاس ادھورا علم تھا‪ ،‬ایسا علم جو میرے آس پاس کے معاشرے کے لوگوں اور‬
‫خاندانوں میں برتا ہی نہ گیا ہو‪ ،‬جسے میں نے زندگی میں کبھی سہہ کر یا چُھو کر دیکھا‬
‫ہی نہ ہو اور میں اس کی جزیات‪ ،‬اس کے مینول اور اس میں درپیش مشکالت سے نمٹنے‬
‫کے طریقے سے العلم تھی۔‬
‫میں کبھی وہ نہ کرسکی جس کا میرا علم تقاضا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ اسی اور بہتی رہی‬
‫جہاں میرا زندگی سے کشید کیا تجربہ اور عادتوں کی مجبوری مجھے دھکیل کر لے جاتی‬
‫رہی‪ ،‬سو میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جہاں سے میں اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں‪ ،‬میں شاید اس‬
‫مشکل امتحان میں بہت کم نمبروں سے پاس ہوتی ہوں۔‬
‫بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کس طرح سے حل کرنے ہیں‪ ،‬تھکی ہوئی‪ ،‬کام میں‬
‫پھنسی ہوئی حالت میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کس طرح سننا ہے‪ ،‬چھوٹی چھوٹی‬
‫غلطیوں کو کیسے درگزر کرنا ہے‪ ،‬میرے لیے یہ سب الجبرا سے بھی مشکل کام ثابت ہو‬
‫رہا تھا۔‬
‫کیسے کیا جائے؟ آخر کیسے؟ میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری‬
‫آج تک حل نہ ہوسکی۔ میں نے جب بھی خود کو بچوں میں جاکر بٹھایا تو خود کو گمشدہ‬
‫پایا۔ کبھی گھر کی صفائی میں‪ ،‬کبھی گندے برتنوں کی دھالئی میں اور کبھی اپنی نفسیاتی‬
‫اور جذباتی الجھنوں میں خود کو جکڑا پایا۔‬

‫تحقیقات | ‪129‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے باوجود کہ میں کم سے کم بھی ایک دہائی دن اور رات بچوں کے قریب رہی‪ ،‬اپنے‬
‫ہی ہاتھوں سے بچوں کو دھویا نہالیا‪ ،‬سنوارا اور کھالیا‪ ،‬مگر کیا میں نے ان کو کوالٹی‬
‫ٹائم دیا؟ نہ مجھے آج تک یہ سمجھ آئی کہ یہ کوالٹی ٹائم کس بال کا نام ہے‪ ،‬کیسے دیا جاتا‬
‫ہے اور اس کے لیے کیسے کوشش کی جاتی ہے؟ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر میں اکثر کھیل‬
‫نہیں سکی‪ ،‬ان سے میں آج تک دوستی نہ کرسکی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر آج تک کارٹون نہ‬
‫دیکھ سکی۔ کیوں؟‬
‫‪:‬میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری آج تک حل نہ ہوسکی—تصویر‬
‫‪Ivaccinate.org‬‬
‫اگر ہم اپنے ماحول میں اور اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کہیں کوئی مثال ایسی‬
‫نہیں ملتی جب ہمیں یا دوسرے بچوں کو کوالٹی ٹائم ملتا ہو۔ یہ حسرت نہیں‪ ،‬یہ اس علم‬
‫سے محرومی کا شکوہ ہے جو اگر آس پاس سے کہیں سے ماخوذ ہوسکے تو اس پر عمل‬
‫کرنے اور دہرانے میں آسانی ہوتی ہے۔‬
‫بچوں کی ضد اور ان کی جانب سے شور مچانے پر کس طرح سے ر ِدعمل ظاہر کرنا ہے؟‬
‫ہم نے عملی زندگی میں صرف ایک چیز دیکھی کہ بچہ تنگ کرے یا شور کرے تو اسے‬
‫ڈانٹ کر بھگا دو‪ ،‬اسے شٹ اپ کال دو اور بس۔‬
‫کتابی علم کہتا ہے کہ بچوں کی سنو‪ ،‬ان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرو‪ ،‬لیکن‬
‫کیسے اس سے متعلق کتابیں خاموش ہیں‪ ،‬خصوصا ً یہ کہ کیسے گھریلو مسائل میں پھنسی‬
‫عورت جو ایک ماں ہے‪ ،‬کاموں میں تھکی اور الجھی ہوئی بیوی ہے‪ ،‬پورے گھرانے کی‬
‫تابعدار بہو ہے‪ ،‬جسے کبھی وقت پر ڈھنگ سے کھانے کا وقت نہ ملتا ہو‪ ،‬جو کبھی وقت‬
‫پر نہانے دھونے کی مہلت نہ نکال پاتی ہو‪ ،‬جس کی ہر جسمانی‪ ،‬نفسیاتی اور اخالقی‬
‫ضرورت ہر وقت سو طرح کے سمجھوتوں سے گزر رہی ہو وہ کس طرح سے کتاب کی‬
‫پڑھی ایک الئن پر اتنا عمل کرسکتی ہے کہ ہر کارفرما عنصر کو نظر انداز کرکے روتے‬
‫ضد کرتے بچے کے الجھے مسائل پیار سے سلجھانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔‬
‫یہ ترکیب کم از کم میں تو ساری عمر نہ ڈھونڈ سکی کیونکہ تجربے کی دنیا میں اس کا‬
‫کہیں بھی کوئی ذکر نہیں تھا‪ ،‬ہاں یہ سوچا اور دیکھا تھا کہ روتے بچے کو ڈانٹ دو‪ ،‬ضد‬
‫کرنے والے کو ایک لگا دو‪ ،‬سزا دے دو‪ ،‬سو ڈانٹتے رہے اور سزائیں دیتے رہے‪ ،‬یہاں‬
‫تک کہ ہمارے بڑے بچے چھوٹوں کو ڈانٹنے اور سزا دینے لگے‪ ،‬پھر جانا کہ کیسا غلط‬
‫انجام ہوا۔‬
‫پچھلے ‪ 50‬سالوں میں پیدا ہونے والی نسلیں اتنی مظلوم تھیں کہ کبھی اپنے مہیا علم کے‬
‫ساتھ فرصت سے زندگی نہ گزار سکیں۔ ‪60‬ء‪ ،‬اور ‪70‬ء کی دہائی سے شروع ہونے والے‬
‫ٹی وی سے لے کر آج کے انٹرنیٹ کی معلومات سے بھرپور دنیا تک ہمیشہ ہمیں وہ کچھ‬
‫دکھایا جاتا رہا جو ہماری زندگیوں کا حصہ نہ تھا۔ شفیق ناز اٹھاتے ماں باپ‪ ،‬تمیز دار‬
‫بچے۔ جو ڈرامہ رائٹر کا خوبصورت تخیل جنم دیتا اور ڈائریکٹر کی مہارت اسے پردہ‬
‫اسکرین پر ڈھال کر ہمارے دماغوں میں انڈیلتی رہی۔‬

‫تحقیقات | ‪130‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہر نیا آنے واال وقت ہمارے حال پر انگلی اٹھاتا رہا‪ ،‬ہمیں خود کو بدلنے پر اکساتا رہا یہاں‬
‫تک کہ علم اور معلومات کا ذخیرہ ہوگیا اور اعمال کسی پولیو زدہ بچے کی طرح اسی قد‬
‫کاٹھ کے رہ گئے‪ ،‬جو نہ پھل پھول سکے اور نہ کسی علم و شعور سے کچھ اخذ کرسکے۔‬
‫علم و عمل کی غیر متوازن صورتحال نے صرف بے چینی کو جنم دیا۔‬
‫ہم‪ ،‬جنہوں نے دراصل زندگی میں ایسے شفیق و نفیس ماں باپ نہ دیکھے ہوں‪ ،‬جو صاف‬
‫استری زدہ کپڑوں سے ہر وقت صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوں‬
‫یا ڈائننگ ٹیبل پر پچکارتے شریف تابعدار بچوں کے ناز اٹھاتے ہوں۔ پاکستان میں کتنے‬
‫فیصد والدین زندگی‪ ،‬معاش اور خاندان کے مسائل سے اس قدر آزاد ہیں کہ بچوں کے ناز‬
‫اس انداز میں اٹھا سکیں؟‬
‫پڑھیے‪ :‬وہ مائیں جو باپ بھی ہیں‬
‫ہم سب نے تھوڑی یا زیادہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے جھڑکیاں کھائی ہیں‪ ،‬ان سے ماریں‬
‫کھائی ہیں‪ ،‬ہمیں گود سے نکال کر ایک مخصوص ڈسپلن میں رکھ کر پاال گیا ہے جہاں‬
‫اختالف کو نافذ کرنا تو ُدور کی بات ہماری اکثریت سے اپنے اختالف کا اظہار تک کرنا‬
‫مشکل تھا۔‬
‫تو ان خوبصورت ترغیبات کے سائے میں ہم نے اپنی زندگیوں کو ان ترغیبات میں ڈھالنا‬
‫شروع کیا۔ ہم نے جانے انجانے میں کہیں سوچا کہ ہم اپنی زندگیاں اس طرح سے بدلیں‬
‫گے۔ ادھورے اور تخیالتی راستوں پر چلتے ہم بھی وہیں پہنچے جہاں ادھورے خوابوں‬
‫اور نامکمل علم کے پیچھے چلنے والوں کا حشر ہوتا ہے۔ منزل تک تو نہ پہنچے بلکہ‬
‫تھکے ہارے کسی دوسری ہی انتہا پر جا نکلے۔‬
‫ہمارے امڈتے پیار نے بچوں کو ضدی اور خودسر بنا دیا‪ ،‬ہم نے بچوں کو پچکارتے‬
‫پچکارتے زندگی کے اخالق کبھی نہ سیکھنے دیے۔ ہم نے آپ جناب کرکے بچے کو‬
‫رہنمائی دینے کے بجائے اسے گھر کا ڈکٹیٹر بنا دیا۔ ہم سے کبھی وہ بچے نہ بن سکے جو‬
‫کھانے کی میز پر بیٹھے والدین کا احترام و عزت سے جی حضوری کرتے ہوں۔ ہم نے‬
‫ڈرامہ نگاروں کے تخیالتی پرواز کو ترغیبات کے طور پر لیا اور ان سے ادھورا علم اخذ‬
‫کیا۔ ہم نے کبوتر بننے کی کوشش کی اور کوے بھی نہ بن سکے۔‬
‫آج جب ہم پیچھے ُمڑ کر دیکھتے ہیں تو ہماری نسلوں میں نہ احترام رہا‪ ،‬نہ آداب رہے‪ ،‬نہ‬
‫تابعداری رہی نہ فرمانبرداری۔ گورے کا علم تو کہتا ہے بچوں کو اچھے خودمختار انسان‬
‫بناؤ مگر کیا اپنے سے بڑی تجربہ کار نسل کی بات نہ سننے‪ ،‬نہ سمجھنے سے والدین کی‬
‫تربیت اور رہنمائی سے صرف نظر کرنے سے انسان اچھا بن سکتا ہے؟ اس سے تو‬
‫زندگی کے انتہائی بنیادی نظریات و اخالقیات ہی بگڑ کر رہ جاتے ہیں وہاں ان سے اچھے‬
‫انسان کیسے جنم لیں گے؟‬

‫تحقیقات | ‪131‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کیا یہ گورے نے کہا تھا یا ہم ہی اپنے غلط مشاہدات و ادھورے علم کی بنا پر اسے‬
‫دوسری انتہا تک دھکیلتے چلے گئے؟ شاید اس لیے کہ جو گورے نے کہا تھا وہ ہم تک‬
‫بہت کم پہنچا۔ ہم نہ اس کی پوری بات سُن سکے اور نہ سمجھ سکے۔ ہم نے گوروں کے‬
‫دیس کو نہ جانا‪ ،‬ان کے خاندانی اور معاشی نظام‪ ،‬رویے اور کردار نہ جانے۔ ہم نے‬
‫محض اس کی چند باتیں سُنیں اور اسے اٹھا کر اپنے حاالت و واقعات‪ ،‬اپنے نظام اور‬
‫اخالق و کردار پر ٹھونسنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری لٹیا پار نہ اتر سکی‬

‫ہم نے آپ جناب کرکے بچوں کو رہنمائی دینے کے بجائے ان کو گھروں کا ڈکٹیٹر بنا دیا‬
‫ہماری پچھلی ‪ 50‬سالہ نسلوں پر اس قدر غیر ضروری علم کا بوجھ تھا کہ تجربات کی‬
‫بھٹی میں جتنی بُری طرح ہمیں پیسا گیا شاید ہی ٹیکنالوجی سے پہلے کے زمانے کا انساں‬
‫پستا ہوگا۔ جہاں ہر وقت ایک نئی تھیوری ہمارے سامنے پیش کردی جاتی ہے جس کا‬
‫ہمارے زمینی حقائق سے‪ ،‬ہمارے معاشرے سے اور ہمارے مسائل سے کسی بھی قسم کا‬
‫نباہ ممکن نہیں۔ جہاں ہمیں ہر روز صبح شام ایک ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے‬
‫ماضی‪ ،‬حال اور مستقبل سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا‬
‫مگر اس کے باوجود ہمیں محسوس کرکے اپنے پیچھے بند آنکھوں سے چال لینے پر قادر‬
‫ہے۔‬
‫ہم مایوسیوں اور مشکالت میں پھنس جانے کے لیے‬
‫بے بس ہوچکے ہیں۔ ہمارے آس پاس کے تربیت دینے‬
‫والے استاد ناپید ہوچکے ہیں۔ ہم مختلف عالقوں اور‬

‫تحقیقات | ‪132‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماحول میں رہ کر دوسرے معاشروں کو سمجھے اور جانے بغیر ان کے رویے کاپی‬
‫کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔نتیجتا ً ناکام رہتے ہیں۔ اب تک تو کچھ لوگ یہ‬
‫علم النے کے لیے خود دوسرے معاشرے میں چلے جاتے تھے لیکن آج کل ہر چیز گھر‬
‫بیٹھے آن الئن آنے لگی ہے۔ چنانچہ آنے والی نسلوں کے لیے شاید مایوسیوں اور بے‬
‫چینیوں کی شرح شاید ہم سے کئی گنا زیادہ ہو کہ اب تو سلیمانی شیشے میں ہر وہ چیز ہم‬
‫اپنے کمرے میں بیٹھے دیکھ لیتے ہیں جو دراصل وجود ہی نہیں رکھتی۔ ایسے میں وہاں‬
‫دستیاب علم کے سہارے پلنے والی نسلیں نہ جانے زندگی کے ہاتھوں کس قدر پریشان ہوں‬
‫گی۔‬
‫تو ثابت یہ ہوا کہ خالی کتابی علم بھی انسانوں کو بدلنے کے لیے اس وقت تک ناکافی ہے‬
‫جب تک وہ علم آپ کے حاالت و واقعات اور معاشرے کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔‬
‫گوروں سے سیکھے ہوئے نسخے شاید ہمارے دیسی معاشروں کے لیے ناقاب ِل عمل ہیں‬
‫صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید‬
‫پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے والگ ان کے ‪ SofiaLog‬مضامین ان کی ویب سائٹ‬
‫‪ SofiaLog. Vlog‬یوٹیوب چینل‬
‫پر دیکھ سکتے ہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1167559/‬‬

‫بچوں کا اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنا کیا اثرات مرتب کرتا‬
‫ہے؟‬
‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪10 2021‬‬

‫یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی‬


‫اسکول جانے کی عمر کے بچے اگر اپنا زیادہ وقت اسکرینز (اسمارٹ فون‪ ،‬لیپ ٹاپ‬
‫وغیرہ) کے سامنے گزارتے ہیں تو ان میں توجہ مرکوز کرنے کی صالحیت معمولی حد‬
‫تک متاثر ہوسکتی ہے مگر ڈپریشن یا ذہنی بے چینی کا خطرہ نہیں ہوتا۔‬
‫یہ بات بچوں پر اسکرین کے سامنے گزارے جانے والے وقت کے حوالے سے ہونے والی‬
‫ایک بڑی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫طبی جریدے پلوس ون میں شائع تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ڈیوائسز پر زیادہ وقت‬
‫گزارنے سے بچے اپنے دوستوں کے زیادہ قریب ہوجاتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪133‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اسکرین کے سامنے گزارے جانے واال‬
‫وقت بچوں کے لیے نقصان دہ نہیں۔‬
‫اس تحقیق کے لیے ‪ 9‬اور ‪ 10‬سال کی عمر کے ‪ 11‬ہزار ‪ 800‬بچوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا‬
‫گیا تھا جن سے اسکرین ٹائم‪ ،‬والدین کی جانب سے رویوں کے مسائل کی شکایات اور‬
‫ذہنی صحت کی جانچ پڑتال سوالناموں کی مدد سے کی گئی تھی۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے روزانہ اوسطا ً ‪ 45‬منٹ زیادہ وقت‬
‫گزارتے ہیں۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ جو بچے زیادہ وقت اسکرین کے سامنے وقت گزارتے ہیں ان‬
‫کی نیند بدتر ہوتی ہے‪ ،‬تعلیم متاثر اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل کا امکان ہوتا ہے۔‬
‫مگر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زندگی کے دیگر اسکرین کے سامنے گزارے جانے‬
‫والے وقت سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔‬
‫مثال کے طور پر بچے کی سماجی و معاشی حیثیت رویوں کے حوالے سے ڈھائی گنا‬
‫زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے‪ ،‬جبکہ اسکرین کے سامنے گزارے جانے واال وقت محض ‪2‬‬
‫فیصد اثرات مرتب کرتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں سامنے آنے والی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا‬
‫تھا کہ اسکرین ٹائم بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے‪ ،‬مگر کچھ رپورٹس میں یہ‬
‫بھی بتایا گیا کہ ان منفی اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق‬
‫کے ڈیٹا میں ہم نے دریافت کیا کہ اسکرین ٹائم اور منفی اثرات کے درمیان تعلق ہے مگر‬
‫وہ بہت زیادہ نہیں۔مگر انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ چونکہ تحقیق میں صرف ‪ 9‬سے ‪10‬‬

‫تحقیقات | ‪134‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سال کے بچے شامل تھے تو ضروری نہیں کہ ان نتائج کا اطالق زیادہ عمر کے بچوں پر‬
‫بھی ہو‪ ،‬اسی لیے اب وہ تحقیق میں شامل بچوں کو مزید کافی عرصے تک فالو کریں گے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168145/‬‬

‫کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرنے میں مددگار بہترین غذا‬


‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪09 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫صحت کے لیے فائدہ مند غذاؤں کا استعمال کرنے والے افراد میں کووڈ ‪ 19‬سے متاثر‬
‫ہونے کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬
‫یہ بات برطانیہ اور امریکا کے طبی ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫کنگز کالج لندن اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں زوئی کووڈ اسٹڈی ایپ کے‬
‫لگ بھگ ‪ 6‬الکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬
‫ان افراد کو فروری ‪ 2020‬کے دوران غذائی عادات کے حوالے سے ایک سروے حصہ‬
‫بنایا گیا تھا جب ان ممالک میں کورونا کی وبا پھیلنا شروع نہیں ہوئی تھی۔‬
‫بعد ازاں ان میں سے ‪ 19‬فیصد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔‬

‫تحقیقات | ‪135‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد صحت کے لیے فائدہ غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں‬
‫ان میں غیر معیاری خوراک کھانے والے لوگوں کے مقابلے میں کووڈ سے متاثر ہونے کا‬
‫خطرہ ‪ 10‬فیصد اور کووڈ ہونے کی صورت میں سنگین بیماری کا خطرہ ‪ 40‬فیصد تک کم‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫یہ پہلی طویل المعیاد تحقیق ہے جس میں غذا اور کووڈ ‪ 19‬کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا‬
‫گیا تھا اور ثابت ہوا کہ صحت بخش غذا سے بیماری سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوجاتا‬
‫ہے۔‬
‫مخصوص غذائیں یا اجزا کی بجائے اس سروے میں وسیع غذائی رجحانات کو جاننے کے‬
‫لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق کے مطابق پھلوں‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬اناج‪ ،‬چربی والی مچھلی پر مشتمل غذا صحت کے لیے‬
‫بہت زیادہ مفید جبکہ پراسیس غذاؤں کا زیادہ استعمال نقصان ہودہ ہوتا ہے۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ صحت کے لیے بہترین غذا کا استعمال عادت بناتے ہیں ان‬
‫میں کووڈ کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 10‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫تمام تر عناصر جیسے جسمانی وزن‪ ،‬عمر ‪ ،‬تمباکو نوشی‪ ،‬جسمانی سرگرمیوں اور پہلے‬
‫سے مختلف بیماریوں کو مدنظر رکھنے پر بھی غذا کے معیار اور کووڈ کے خطرے کے‬
‫درمیان تعلق برقرار رہا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ غریب عالقوں کے رہائشی اور غیر معیاری غذا کا‬
‫استعمال کرتے ہیں ان میں کووڈ کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں ‪ 25‬فیصد‬
‫زیادہ ہوتا ہے۔ان نتائج کی بنیاد پر محققین نے تخمینہ لگایا کہ کووڈ کے لگ بھگ ایک‬
‫چوتھائی کیسز کی روک تھام ممکن ہے اگر غذا کے معیار اور سماجی حیثیت کو بہتر بنا‬
‫دیا جائے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل گٹ میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168056/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کی ویکسینز کے استعمال کا ایک اور بہترین فائدہ سامنے آگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪09 2021‬‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬
‫ویکسینیشن سے نہ صرف کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬سے تحفظ ملتا‬
‫ٰ‬
‫دعوی امریکا میں ہونے والی ایک نئی‬ ‫ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔یہ‬
‫طبی تحقیق میں سامنے آیا۔سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد کو‬

‫تحقیقات | ‪136‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے‬
‫کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔‬
‫یہ تحقیق بنیادی طور پر سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایل طویل المعیاد پراجیکٹ کا‬
‫حصہ ہے جس کا مقصد کورونا کی وبا سے امریکی عوام کی ذہنی صحت پر مرتب اثرات‬
‫کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔‬
‫اس پراجیکٹ کے لیے امریکا بھر میں ‪ 8‬ہزار سے زیادہ افراد کو سروے فارم بھیجے‬
‫گئے تھے تاکہ وبا سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔‬
‫سرویز کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی اکثریت کو وبا کے باعث کسی حد تک ذہنی‬
‫بے چینی اور ڈپریشن کا سامنا ہوا۔‬
‫ابتدائی نتائج کے بعد محققین کی جانب سے ہر ‪ 2‬ہفتے بعد ان افراد کو سروے فارم بھیج کر‬
‫ذہنی صھت میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھا گیا۔‬
‫تازہ ترین سروے میں ان افراد سے کووڈ ‪ 19‬ویکسینز کے استعمال کے بعد ذہنی صحت پر‬
‫مرتب اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پہلے بہت زیادہ ڈپریس تھے ویکسینیشن کے بعد اس‬
‫کی شرح میں ‪ 15‬فیصد جبکہ معمولی ڈپریشن کی شرح میں ‪ 4‬فیصد تک کمی آئی۔‬
‫محققین نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا کہ ممکنہ طور پر ویکسینیشن کے بعد‬
‫‪ 10‬الکھ افراد کی ذہنی پریشانی میں کمی آئی۔‬

‫تحقیقات | ‪137‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کے مطابق ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ ‪ 19‬سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن‬
‫کرانا محض لوگوں کو بیماری سے ہی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنا بیماری کے‬
‫شکار ہونے کے ذہنی ڈر اور بے چینی کو بھی نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔‬
‫تحقیق میں فی الحال یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ پیاروں کی ویکسینیشن سے لوگوں کی ذہنی‬
‫صحت میں کس حد تک بہتری آتی ہے۔‬
‫محققین کے مطابق اس پراجیکٹ پر کام ابھی جاری ہے اور مزید سرویز کے ذریعے تعین‬
‫کیا جائے گا کہ کورونا کی نئی اقسام اور بوسٹر ڈوز کے حوالے سے ان کی رائے کیا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پلوس ون میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168073/‬‬

‫کووڈ کے مریضوں میں جان لیوا بلڈ کالٹس بننے کی اہم وجہ دریافت‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪10 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫پلیٹلیٹس اور خون کی شریانوں میں موجود خلیات کے درمیان تعلق میں آنے والی تبدیلیاں‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں میں اعضا کو جان لیوا نقصان پہنچانے کی ایک اہم وجہ ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪138‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔پلیٹلیٹس خون کے وہ‬
‫ننھے خلیات ہیں جو جریان خون کو روکنے یا اس کی روک تھام کے لیے کالٹس بنانے کا‬
‫کام کرتے ہیں‪ ،‬مگر جب ان خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں‪ ،‬تو سنگین طبی اثرات جیسے‬
‫فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے خون گاڑھا ہونے یا بلڈ کالٹس کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جو جان لیوا ثابت‬
‫ہوسکتا ہے اور یہ کسی معمے سے کم نہیں۔‬
‫نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ‬
‫پلیٹلیٹس سے خارج ہونے والے پروٹین سگنلز کووڈ کے مریضوں میں ورم‪ ،‬غیر معمولی‬
‫بلڈ کالٹنگ کا خون جمنے اور شریانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں ‪ 2‬جینز ایس ‪ 1000‬اے ‪ 8‬اور ایس ‪ 1000‬اے ‪ 9‬کو شناخت کیا گیا جو کووڈ ‪19‬‬
‫کے مریضوں میں پلیٹلیٹس کو بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایم آر پی ‪ 8‬اور ‪14‬‬
‫نامی پروٹینز زیادہ بننے لگتے ہیں۔‬
‫یہ دونوں خلیات اکٹھے کام کرتے ہیں اور زیادہ تر مدافعتی خلیات میں پائے جاتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫پروٹینز کی تعداد میں اضافے کو تحقیق میں شریانوں میں بلڈ کالٹس اور ورم‪ ،‬بیماری کی‬
‫سنگین شدت اور ہسپتال میں طویل قیام سے منسلک کیا گیا۔‬
‫پلیٹلیٹس سے کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کی خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کے خیال‬
‫کو سپورٹ کرنے کے ساتھ محققین نے یہ شواہد بھی پیش کیے کہ اس وقت پلیٹلیٹس کو‬
‫متحرک ہونے سے بالک کرنے والی ادویات شریانوں میں کووڈ سے جڑے ورم کی شرح‬
‫کو کم کرسکتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر پلیٹلیٹس سے خون کی شریانوں‬
‫میں موجود خلیات میں آنے والی تبدیلیاں زیادہ تر ایک پروٹین پی سلیکٹین کا نتیجہ ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬جس کے نتیجے میں پلیٹلیٹس زیادہ چپکنے لگتے ہیں اور کالٹس کا خطرہ بڑھ جاتا‬
‫ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے کووڈ ‪ 19‬سے خون کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان‬
‫کے حوالے سے پلیٹلیٹس کے کردار کا انکشاف ہوتا ہے اور ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ‬
‫کورونا وائرس فلو کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا کیوں ہے۔‬
‫اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ جسم میں غیرمعمولی ورم اور بلڈ کالٹس کو ایک دوسرے‬
‫سے جڑا ہوا قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ شریانوں کو پہنچنے والے نقصان سے خون کے‬
‫اجزا کے ردعمل سے ورم متحرک ہوتا ہے اور وہ لیس دار ہوجاتا ہے جس سے کالٹس‬
‫بننے لگتے ہیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ پلیٹلیٹس اس نقصان کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں کووڈ کے مریضوں اور صحت مند افراد کے ‪ 2‬گروپس میں خون کی چھوٹی‬
‫شریانوں میں خلیات کو پلیٹلیٹس کی جانب سے خارج ہونے والے سیال میں ڈبویا گیا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متحرک ہونے والے پلیٹلیٹس کی موجودگی پر‬
‫خون کے خلیات کی سرگرمیوں میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا۔‬
‫تحقیقات | ‪139‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کووڈ ‪ 19‬سے جینز ایکسپریشن میں ایسی تبدیلیوں کو دیکھا جو کالٹنگ اور ورم‬
‫کا باعث تھیں۔‬
‫محققین کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں میں ‪ 2‬پروٹینز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کا‬
‫نتیجہ غیر معمولی تعداد میں بلڈ کالٹس‪ ،‬ورم اور بہت زیادہ بیماری کی شکل میں نکلتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوئے۔‬
‫اس سے قبل جوالئی میں طبی جریدے جرنل بلڈ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ‬
‫کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کالٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی‬
‫ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے‪ ،‬مگر وہ پھیپھڑوں میں‬
‫غیرضروری پلیٹلیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں۔‬
‫تحقیق کے لیے کووڈ ‪ 19‬سے بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں کورونا وائرس کے‬
‫اسپائیک پروٹین سے لڑنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز کے نمونے حاصل کیے گئے‬
‫اور لیبارٹری میں ان کے کلون تیار کیے گئے۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کی سطح پر موجود مواد صحت مند افراد کی اینٹی‬
‫باڈیز سے مختلف ہیں۔‬
‫جب صحت مند افراد سے حاصل کی گئی اینٹی باڈیز کی لیبارٹری میں کووڈ کے مریضوں‬
‫کے خلیات جیسی نقول تیار کی گئیں تو ماہرین نے پلیٹلیٹس سرگرمیوں میں اضافے کا‬
‫مشاہدہ کیا۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ مختلف ادویات کے متحرک اجزا کی مدد سے ایسا‬
‫ممکن ہے کہ پلیٹلیٹس کو ردعمل سے روک کر یا اس کی سطح میں کمی الئی جاسکے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168134/‬‬

‫طبی ماہرین نے کووڈ کی طویل المعیاد عالمات کی ممکنہ وجہ دریافت‬


‫کرلی‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪10 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪140‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے سنبھلنے کے بعد کئی ہفتوں یا‬
‫مہینوں تک مختلف عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔ایسے مریضوں کے لیے النگ کووڈ کی‬
‫اصطالح استعمال کی جاتی ہے اور طبی ماہرین اب تک یہ سمجھ نہیں سکے کہ ایسا کیوں‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫مگر اب ایک نئی تحقیق میں بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی طویل المعیاد عالمات‬
‫کی ممکنہ وجہ کو شناخت کیا گیا ہے۔‬
‫امریکا کی آرکنساس یونیورسٹی ار میڈیکل سائنسز کی تحقیق میں یہ وجہ دریافت کی گئی۔‬
‫تحقیق میں ایک اینٹی باڈی کو دریافت کیا گیا جو ابتدائی بیماری کے ہفتوں بعد نمودار ہوکر‬
‫حملہ آور ہوتی ہے اور مدافعتی نظام کے بنیادی ریگولیٹر کو متاثر کرتی ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے لگ بھگ ‪ 30‬فیصد مریضوں کو ابتدائی بیماری کے بعد‬
‫طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف عالمات جیسے تھکاوٹ‪ ،‬دماغی دھند اور سانس لینے میں‬
‫دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔تحقیق میں النگ کووڈ ک مالیکیولر میکنزمز پر روشنی ڈالی‬
‫گئی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے جو دریافت کیا وہ ایک اینٹی باڈی کے تسلسل کا نتیجہ نظر آتا‬
‫ہے‪ ،‬یہ ایک اہم پیشرفت ہے اور اس پر تحقیق مزید آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔تحقیق میں‬
‫دریافت کیا گیا کہ مدافعتی نظام کے لیے مسائل کا باعث بننے والی اینٹی باڈی ایس ‪2‬‬
‫انزائمے پر حملہ آور ہوتی ہے۔ایس ‪ 2‬انزائمے وائرس کے خالف جسم کے ردعمل کو‬
‫ریگولیٹ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‪ ،‬مگر حملہ آور اینٹی باڈی ایس ٹو کے افعال میں‬

‫تحقیقات | ‪141‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مداخلت کرتی ہے‪ ،‬جس کے باعث محققین نے اسے طویل المعیاد عالمات کا بنیادی عنصر‬
‫تصور کیا۔‬
‫اسی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک ٹیسٹ کو تیار کرکے ‪ 2‬اینٹی باڈیز کو شناخت کرنے‬
‫کے لیے استعمال کیا۔‬
‫محققین نے کووڈ کے ‪ 67‬مریضوں کے پالزما یا سیرم میں ایس ‪ 2‬اینٹی باڈیز کا تجزیہ کیا‬
‫اور ان کے نتائج کا موازنہ ‪ 13‬ایسے افراد کے نمونوں سے کیا جن کو اس بیماری کا سامنا‬
‫نہیں ہوا تھا۔‬
‫کووڈ سے متاثر ‪ 81‬فیصد مریضوں کے خون کے نمونوں میں اس اینٹی باڈی کو دریافت‬
‫کیا گیا جو ایس ٹو پر حملہ آور ہوتی تھی جبکہ صحت مند افراد کے نمونوں میں ایسی‬
‫کوئی اینٹی باڈی موجود نہیں تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اگر ہم نے اس خیال کو درست ثابت کردیا کہ ایس ٹو کے افعال میں‬
‫مداخلت کرنے والی اینٹی باڈی النگ کووڈ کی وجہ بنتی ہے‪ ،‬تو اس سے متعدد ٹریٹمنٹس‬
‫کا راستہ کھل جائے گا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اگر ہماری مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ اینٹی باڈی ہی النگ کووڈ کی‬
‫عالمات کا باعث بنتی ہے تو ایسی ادویات موجود ہیں جو عالج میں مددگار ثابت ہوسکتی‬
‫ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے کے بعد ہمارا اگال قدم ان ادویات کی آزمائش کرنا ہوگا‬
‫اور توقع ہے کہ اس سے النگ کووڈ کے مریضوں کو ریلیف مل سکے گا۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168147/‬‬

‫ویکسین نہ لگوانے والے افراد میں کورونا سے موت کے امکانات ‪11‬‬


‫فیصد زیادہ‬
‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪11 2021‬‬
‫ویکسین نہ لگوانے والے افراد میں وبا میں مبتال ہونے کے بعد ہسپتال داخل ہونے کے‬
‫امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں‪ ،‬تحقیق‬
‫کورونا ویکسین کے فوائد سے متعلق اب تک ٓانے والی متعدد تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا‬
‫ہے کہ ویکسینیشن سے لوگ وبا سے متاثر ہونے سے قدرے محفوظ بن جاتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪142‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تاہم امریکا میں ہونے والی ایک حالیہ بڑی تحقیق سے ثابت ہوا کہ جو لوگ کورونا سے‬
‫تحفظ کی ویکسین نہیں لگواتے ان میں کورونا میں مبتال ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار‬
‫جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫امریکا کے طبی ادارے ’سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پروینٹ کنٹرول سینٹر‘ (سی ڈی سی) کی‬
‫تحقیق کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے افراد میں کورونا میں مبتال ہونے کے بعد‬
‫ہسپتال جانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫ماہرین نے امریکا کی ‪ 13‬مختلف ریاستوں میں ‪ 6‬الکھ سے زائد کورونا مریضوں کے ڈیٹا‬
‫کا جائزہ لیا‪ ،‬جس کے بعد نتائج سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر ویکسین کے کئی فوائد‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیق کے نتائج سےمعلوم ہوا کہ جو لوگ ویکسین نہیں لگواتے‪ ،‬کورونا میں مبتال ہونے‬
‫کے بعد ایسے افراد کے ہسپتال میں داخل ہونے کے امکانات ‪ 10‬فیصد بڑھ جاتے ہیں‬
‫نتائج کے مطابق ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے وبا کا شکار ہونے کے بعد مرنے کے‬
‫امکانات بھی ‪ 11‬فیصد بڑھ جاتے ہیں۔‬

‫سی ڈی سی کی جانب سے کی گئی ایک اور تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجموعی‬
‫طور پر تمام ویکسینز کورونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کا ‪ 60‬سے ‪90‬‬
‫فیصد فائدہ ہوتا ہے۔دوسری تحقیق کے مطابق کورونا کے تمام بشمول ڈیلٹا اقسام میں‬
‫موڈرینا کی ویکسین سب سے زیادہ ‪ 95‬فیصد تک فائدہ مند ہوتی ہے جب کہ فائزر اور‬
‫ٓاسٹررزینکا سمیت دیگر ویکسینز بھی ‪ 60‬سے ‪ 80‬فیصد تک فائدہ دیتی ہیں۔تحقیق کے‬

‫تحقیقات | ‪143‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ ‪ 75‬سال یا اس سے زائد کی عمر کے افراد کو عام طور پر کورونا‬
‫ویکسینز ڈیلٹا یا دیگر خطرناک کورونا کی اقسام سے کم تحفظ فراہم کرتی ہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168205/‬‬

‫بہت زیادہ وقت فارغ رہ کر گزارنا شخصیت کیلئے نقصان دہ‬


‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪12 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫روزمرہ کی مصروفیات لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر تھکاوٹ کا شکار کردیتی ہیں‬
‫اور فراغت کا وقت اس کی روک تھام کرتا ہے۔‬
‫مگر فراغت جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی شخصیت کے لیے بہتر ہوگا؟ درحقیقت ایسا نہیں بلکہ‬
‫نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫پنسلوانیا یونیورسٹی کے وارٹن اسکول کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ دن بھر میں ساڑھے‬
‫‪ 3‬گھنٹے سے زیادہ فراغت ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ‪ 7‬گھنٹے تک فارغ‬
‫رہنا لوگوں کو خود برا محسوس ہونے لگتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے فارغ وقت اور خوشی کے درمیان ایک اتار چڑھاؤ پر مبنی تعلق‬
‫کو دریافت کیا‪ ،‬اگر فراغت کا وقت بہت کم ہے تو بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ‬

‫تحقیقات | ‪144‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لوگوں کو بہت زیادہ تناؤ محسوس ہوتا ہے‪ ،‬مگر زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی فرد‬
‫بہت زیادہ فارغ رہ کر گزارتا ہے تو بھی اس کی شخصیت اور خوشی پر منفی اثرات‬
‫مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ بننیادی طور پر فراغت کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے‪ ،‬اگر اس کو تعمیری‬
‫مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 21‬ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو ‪ 2012‬اور‬
‫‪ 2013‬کے دوران ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا۔‬
‫ان افراد سے گزشتہ ‪ 24‬گھنٹوں کا تفصیلی احوال معلوم کیا گیا اور ان سے اپنی ذہنی حالت‬
‫کے بارے میں رپورٹ کرنے کا کہا گیا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ فارغ رہ کر ‪ 5‬گھنٹے گزارنے سے خوشی کا احساس گھٹنے‬
‫لگتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو بہت کم یا بہت زیادہ فراغت ہوتی ہے وہ ذہنی طور پر‬
‫بدترین اثرات محسوس کرتے ہیں جبکہ معتدل وقت گزارنے والوں کا ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی جیسے ضروری نہیں کہ بہت‬
‫زیادہ فارغ وقت ہر فرد پر یکساں اثرات مرتب کرتا ہو۔انہوں نے کہا کہ تحقیق کے نتائج‬
‫لوگوں کے تاثرات پر مبنی تھے تو ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اسی طرح کے تجربے کا‬
‫سامنا ہوتا ہو۔اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل آف پرسنلٹی اینڈ سوشل سائیکولوجی میں‬
‫شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168258/‬‬

‫ذہنی بے چینی سے بچنے کا آسان نسخہ جان لیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪12 2021‬‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬
‫ورزش کرنا جسمانی صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے مگر یہ عادت ذہنی امراض سے‬
‫بچاؤ کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔‬
‫یہ بات سوئیڈن میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫لیونڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنا ذہنی تشویش و بے چینی (طبی‬
‫زبان میں انزائٹی) سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪145‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ایک تخمینے کے مطابق انزائٹی ڈس آرڈرز کا سامنا دنیا کی ‪ 10‬فیصد آبادی کو ہوتا ہے‬
‫اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ عام ہوتے ہیں۔‬
‫یہ پہلے بھی خیال کیا جاتا تھا کہ ورزش کرنے کی عادت ذہنی بے چینی اور تشویش میں‬
‫کمی النے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔‬
‫اب اس تحقیق میں یہ خیال درست ثابت ہوگیا جس میں ‪ 1989‬سے ‪ 2010‬کے دوران کراس‬
‫کنٹری اسکائی ریس کا حصہ بننے والے لگ بھگ ‪ 4‬الکھ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی‬
‫گئی۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جسمانی طور پر سرگرم افراد میں انزائٹی کا امکان دیگر کے‬
‫مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق ہم نے دریافت کیا کہ جسمانی طور پر زیادہ متحرک طرز زندگی کو‬
‫اپنانے والے افراد میں انزائٹی ڈس آرڈرز کا خطرہ آنے والے ‪ 21‬برسوں کے دوران لگ‬
‫بھگ ‪ 60‬فیصد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ مردوں اور خواتین دونوں میں جسمانی طور پر متحرک طرز زندگی اور‬
‫انزائٹی کے درمیان خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ مردوں اور خواتین ایتھلیٹس میں ورزش کی کارکردگی کی‬
‫سطح اور انزائٹی کے خطرے میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔‬
‫یعنی جو خواتین جسمانی طور پر کم متحرک ہوتی ہیں ان میں انزائٹی کا خطرہ لگ بھگ‬
‫‪ 100‬فیصد بڑھ جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪146‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ انزائٹی کی عالمات اور ورزش سے متعلق‬
‫رویوں کے درمیان تعلق موجود ہے اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫اب ان کی جانب سے کنٹرول ٹرائلز کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے فرنٹیئرز ان سائیکاٹری میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168270/‬‬

‫کووڈ سے تحفظ کے لیے ویکسینیشن کس حد تک مؤثر؟ نیا ڈیٹا سامنے‬


‫آگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪12 2021‬‬

‫— یہ بات نئی تحقیقی رپورٹس میں سامنے ٓائی‬


‫کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد بیمار ہونے کا امکان تو‬
‫کسی حد تک ہوتا ہے مگر کووڈ کی سنگین شدت اور موت کے خطرے کے ٹھوس تحفظ‬
‫ملتا ہے۔یہ بات امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی‬
‫جانب سے جاری ‪ 3‬تحقیقی رپورٹس کے نتائج میں سامنے آئی۔‬

‫تحقیقات | ‪147‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا کہ کورونا کی زیادہ متعدد قسم ڈیلٹا کے پھیالؤ کے‬
‫باوجود ویکسینز کی افادیت برقرار رہتی ہے۔‬
‫پہلی تحقیق میں اپریل سے جوالئی ‪ 2021‬کے دوران ‪ 6‬الکھ سے زیادہ کووڈ کیسز اور‬
‫ویکسینیشن اسٹیٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسینیشن نہ کرانے والوں میں کووڈ سے متاثر ہونے کا امکان‬
‫ویکسینیشن کرانے والوں کے مقابلے میں ‪ 4.5‬گنا زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬ہسپتال میں داخلے کا‬
‫خطرہ ‪ 10‬جبکہ موت کا خطرہ ‪ 11‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ ڈیلٹا قسم کے پھییالؤ سے ویکسینز کی افادیت میں کچھ‬
‫کمی آئی ہے بالخصوص ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے‪ ،‬مگر بیماری کی‬
‫سنگین شدت اور موت سے تحفظ کے لیے ٹھوس تحفظ برقرار رہتا ہے۔‬
‫تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ڈیلٹا کے پھیالؤ کے بعد ویکسینز کی بیماری سے بچاؤ کی‬
‫افادیت ‪ 90‬فیصد سے گھٹ کر ‪ 80‬سے نیچے چلی گئی۔‬
‫سی ڈی سی کے مطابق ‪ 20‬جون سے ‪ 17‬جوالئی کے درمیان کووڈ سے بیمار ہوکر ہسپتال‬
‫میں داخل ہونے والوں میں صرف ‪ 14‬فیصد وہ تھے جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور‬
‫اموات میں یہ شرح ‪ 16‬فیصد تھی۔‬
‫رپورٹ کے مطابق یہ اس لیے حیران کن نہیں کیونکہ ویکسینیشن کی شرح میں ڈرامائی‬
‫اضافہ ہوا ہے اور اسی وجہ سے ویکسینیشن کے بعد ہسپتال میں داخل یا موت کا شکار‬
‫ہونے والے افراد کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔‬
‫سی ڈی سی نے بتایا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ سنگین بیماری اور موت کے خالف‬
‫ویکسینز کی افادیت میں معمولی کمی آئی اور ٹھوس تحفظ برقرار رہا۔‬
‫دوسری تحقیق میں ثابت ہوا کہ موڈرنا ویکسین ہسپتال میں داخلے کا خطرہ کم کرنے کے‬
‫حوالے سے فائزر‪/‬بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز کے مقابلے میں کچھ زیادہ‬
‫مؤثر ہے۔‬
‫یہ حقیقی دنیا تینوں ویکسینز کی افادیت کے حوالے سے امریکا میں ہونے والی سب سے‬
‫بڑی تحقیق تھی جس میں ہسپتالوں اور طبی اداروں میں موجود جون سے اگست کے‬
‫شروع تک آنے والے ‪ 32‬ہزار مریضوں کے ڈیٹا کو دیکھا گیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ تینوں ویکسینز ہسپتال میں داخلے سے تحفظ دینے کے حوالے سے‬
‫مجموعی طور پر ‪ 86‬فیصد تک مؤثر ہیں۔‬
‫مگر موڈرنا ویکسینز استعمال کرنے والوں کو ‪ 95‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ فائزر‬
‫ویکسین کی شرح ‪ 80‬فیصد اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی ‪ 60‬فیصد تھی۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج مایو کلینکل ہیلتھ سسٹم کی اگست ‪ 2021‬میں ہونے والی ایک چھوٹی‬
‫تحقیق کے نتائج سے ملتے جلتے ہیں جس میں بتایا گی تھا کہ موڈرنا ویکسین بیماری سے‬
‫بچاؤ کے لیے فائزر ویکسین سے زیادہ مؤثر ہے۔‬
‫سی ڈی سی رپورٹ میں مختلف کمپنیوں کی ویکسینز کی افادیت کا موازنہ بھی کیا گیا تھا‬
‫اور یہ دیکھا کہ ویکسینز کس حد تک بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪148‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ موڈرنا ویکسین سے کووڈ سے متاثر ہونے پر ہنگامی طبی‬
‫امداد کے لیے رجوع کرنے کا خطرہ ‪ 92‬فیصد تک گھٹ جاتا ہے‪ ،‬فائزر سے ‪ 77‬فیصد‬
‫اور جانسن اینڈ جانسن سے ‪ 65‬فیصد تک یہ خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ موڈرنا ویکسین سے زیادہ تحفظ کیوں ملتا ہے‪،‬‬
‫ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ موڈرنا ویکسین کی خوراک فائزر کے مقابلے میں ‪ 3‬گنا زیادہ‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫مگر محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ‪ 75‬سال اور اس سے زائد عمر کے افراد میں‬
‫ہسپتال کے داخلے کا خطرہ کم کرنے کے حوالے سے ویکسینیشن کی افادیت گھٹ جاتی‬
‫ہے‪ ،‬جو ممکنہ طور پر مدافعت کی سطح میں کمی اور ڈیلٹا جیسی زیادہ متعدی قسم کا اثر‬
‫ہے۔‬
‫مگر انہوں نے بتایا کہ ویکسینیشن کے ‪ 4‬سے ‪ 6‬ماہ بعد بھی ویکسینز کی افادیت ‪ 82‬فیصد‬
‫ہے جو زبردست ہے اور ہمیں توقع ہے کہ ڈیٹا سے عوام میں ویکسینیشن کی حوصلہ‬
‫افزائی ہوگی۔‬

‫تیسری تحقیق میں ‪ 5‬ہسپتالوں میں زیرعالج کووڈ کے مریضوں میں ‪ 2‬ایم آر این اے‬
‫ویکسینز (موڈرنا اور فائزر‪/‬بائیو این ٹیک) کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬
‫یکم فروری سے ‪ 6‬اگست کے ڈیٹا میں دریافت ہوا کہ ایم آر این اے ویکسینز ہسپتال میں‬
‫داخلے سے تحفظ کے لیے ‪ 87‬فیصد تک مؤثر ہیں اور ڈیلٹا کے پھیالؤ کے باوجود ٹھوس‬
‫تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫تحقیق کے مطابق اس عرصے میں ہسپتال میں داخلے سے بچاؤ کے لیے ویکسینز کی‬
‫افادیت ‪ 65‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں گھٹ کر ‪ 80‬فیصد تک پہنچ گئی مگر‬
‫‪ 18‬سے ‪ 64‬سال کی عمر میں یہ شرح ‪ 95‬فیصد تھی‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168266/‬‬

‫کورونا کی نئی قسم مو اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت کرنے والی‬
‫قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫ستمبر ‪12 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬

‫تحقیقات | ‪149‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اگست ‪ 2021‬کے آخر میں کورونا وائرس کی ایک‬
‫اور قسم کو 'ویرینٹس آف انٹرسٹ' میں شامل کرلیا تھا۔اب کورونا کی اس قسم کے حوالے‬
‫قسم وائرس )‪ (Mu‬سے ایک نئی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں جس کے مطابق مو‬
‫ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف بہت زیادہ مزاحمت کی صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے‬
‫خالف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ‬
‫دیگر اقسام سے کیا گیا۔‬
‫اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات‬
‫کا موازنہ ایسے ‪ 18‬افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا‪ ،‬جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی یا وہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کا شکار رہ چکے تھے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خالف دیگر تمام اقسام‬
‫بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔‬
‫بیٹا کورونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار‬
‫دیا جاتا ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں‬
‫گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔‬
‫دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف ‪ 18‬افراد کے نمونوں کا‬
‫تجزیہ کیا گیا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪150‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسینیشن کرانے والوں یا اس بیماری‬
‫کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے میں مدد‬
‫مل سکے گی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے‬
‫خالف دیگر اقسام کے مقابلے میں ‪ 12‬گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔‬
‫اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسینیشن (فائزر‪/‬بائیو این ٹیک ویکسین) سے پیدا ہونے‬
‫والی اینٹی باڈیز کے خالف ‪ 7.6‬گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫میں شائع ہوئے۔ ‪ bioRxiv‬اس تحقیق کے نتائج پری پرنٹ سرور‬
‫یا بی ‪ 1.621‬کو ‪ 30‬اگست کو )‪ (Mu‬عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی اس نئی قسم مو‬
‫مانیٹرنگ لسٹ کا حصہ اس وقت بنایا جب یہ خدشات سامنے آئے کہ یہ نئی قسم ویکسنیشن‬
‫یا بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مدافعت کے خالف جزوی مزاحمت کرسکتی ہے۔‬
‫اب تک یہ نئی قسم دنیا کے ‪ 44‬ممالک میں دریافت ہوچکی ہے۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے وبا کے حوالے سے ہفتہ وار بلیٹن کے مطابق مو قسم میں ایسی میوٹیشنز‬
‫کا مجموعہ ہے جو مدافعتی ردعمل سے بچنے کی خصوصیات کا عندیہ دیتا ہے۔‬
‫کورونا کی یہ نئی قسم سب سے پہلے جنوری ‪ 2021‬میں جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا‬
‫میں دریافت ہوئی تھی اور اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے کیسز کو‬
‫دریافت کیا جاچکا ہے۔‬
‫ابتدائی ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مدافعتی نظام کے دفاع کے خالف ممکنہ طور پر اسی‬
‫طرح حملہ آور ہوسکتی ہے جیسے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کورونا کی قسم‬
‫بیٹا کرتی ہے‪ ،‬مگر تصدیق کے لیے مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1168271/‬‬

‫کورونا ویکسین دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتی‬


‫ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 12  ‬ستمبر‪2021  ‬‬
‫جب ڈیلٹا ویرئینٹ تباہی مچا رہا تھا اس وقت ویکسینیٹڈ فراد کے کورونا میں مبتال ہونے‬
‫)اور ہالکتوں کی شرح بہت کم تھی‪ ،‬تحقیق‬

‫تحقیقات | ‪151‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واشنگٹن‪  :‬‬

‫ک‬
‫ورونا ویکسین پر ہونے والی حالیہ امریکی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا‬
‫ویکسین دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے ساتھ ہی شرح اموات میں‬
‫کمی النے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫الجزیرہ کے مطابق امریکا کے بیماریوں سے تحفظ اور ان پر کنٹرول پانے کے مراکز‬
‫(سی ڈی سی) میں پیش کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسی نیشن نہ‬
‫کرانے والے افراد میں خطرناک بیماریوں میں مبتال ہونے والوں کی تعداد ساڑھے ‪ 4‬گنا‬
‫زائد ہے جب کہ مکمل طور پر ویکسی نیٹڈ افراد کے مقابلے میں ویکسین نہ کرانے والے‬
‫افراد میں مرنے والوں کی تعداد ‪ 11‬گنا زائد ہے۔‬
‫اس بابت سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول ( سی ڈی سی) کی ڈائریکٹر روشیل ویلینسکی کا کہنا تھا‬
‫کہ تحقیق سے سامنے ٓانے والے اعداد و شمارسے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسی نیشن ہمیں‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اس مطالعے میں رواں سال اپریل تا جوالئی کے وسط تک ‪13‬‬
‫ریاستوں کے بڑے شہروں میں اسپتالوں میں داخل ہونے والے کووڈ‪ 19‬کے ‪ 6‬الکھ کیسز‬
‫کو شامل کیا گیا۔‬
‫ولینسکی کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں ٓاخری ‪ 2‬ماہ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ‬
‫جس وقت ملک میں کورونا کا ڈیلٹا ویرئینٹ تباہی مچا رہا تھا اس وقت ویکسین نہ کروانے‬

‫تحقیقات | ‪152‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫والے افراد کے کورونا میں مبتال ہونے کی تعداد ساڑھے ‪ 4‬گنا‪ ،‬اسپتالوں میں داخل ہونے‬
‫والوں کی تعداد ‪ 10‬گنا سے زائد اور شرح اموات ‪ 11‬گنا زائد تھی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جب کہ مکمل ویکسی نیشن کروانے افراد کے نہ صرف اسپتالوں میں‬
‫داخلے اور شرح اموات کے ساتھ ساتھ ڈیلٹا ویریئنٹ کے پھیالؤو کی شرح بہت کم اور‬
‫خصو صا ً ‪ 75‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں زیادہ تھی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2223645/9812/‬‬

‫ازخود بجلی بنانے واال مصنوعی دانت‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 13  ‬ستمبر‪2021  ‬‬

‫پنسلوانیہ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مصنوعی دانت کا خاکہ نمایاں ہے جو اپنی بجلی‬


‫بناکر مسوڑھوں کو تندرست رکھتا ہے اور دانتوں کی خرابی کو بھی روکتا ہے۔ فوٹو‪:‬‬
‫بشکریہ جامعہ پنسلوانیہ‬
‫پنسلوانیا‪ :‬دنیا بھر میں لوگ مصنوعی دانت (ڈینٹل امپالنٹ) لگواتے ہیں لیکن ان کی عمر‬
‫ایک حد تک ہی ہوتی اور دوسری جانب وہ مسوڑھوں کی مجموعی صحت کو بھی متاثر‬
‫کرتے ہیں۔ اب اس کا حال جامعہ پنسلوانیہ کے ماہرین نے ایک ایسے مصنوعی دانت کی‬

‫تحقیقات | ‪153‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫صورت میں پیش کیا ہے جو بجلی بناتا ہے جس سے میل نہیں جمتا اور مسوڑھے بھی‬
‫تندرست رہتے ہیں۔‬
‫صرف امریکہ میں ہی ‪ 30‬الکھ لوگ ایسے ہیں جو مصنوعی دانت کے ساتھ زندگی‬
‫گزاررہے ہیں۔ اب جامعہ پنسلوانیہ میں اسکول ٓاف ڈینٹل میڈیسن سے وابستہ پروفیسر‬
‫گیلسو ہوانگ اور ان کے ساتھیوں نے مصنوعی دانت بنایا ہے جو برش کرنے اور چبانے‬
‫کے دوران خود اپنی بجلی بناتا ہے۔ اس بجلی سے دو کام لیتا ہے یعنی دانت پرمیل کچیل‬
‫کی تہہ نہیں جمتی اور دوم اطراف کے مسوڑھے تندرست رہتے ہیں۔‬
‫اپنی بجلی کی بدولت مصنوعی دانت معمولی سی روشنی خارج کرتا رہتا ہے جو‬
‫مسوڑھوں کی افزائش کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کی مصنوعی‬
‫دانت کتنے بھی اچھے ہوں اکثر پانچ سے دس برس میں گرجاتےہیں۔ یا پھر وہ مسوڑھوں‬
‫میں جلن اور بیماریوں کی وجہ بھی بنتے ہیں۔‬
‫مصنوعی دانت کا بیرونی خول خاص نینو ذرات سے بنا ہے جہاں بیکٹیریا جمع نہیں‬
‫ہوسکتے دوم اس میں روشنی خارج کرنے واال نظام ہے جو فوٹوتھراپی کی طرز پر کام‬
‫کرتا ہے۔ اس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چبانے اور مسواک کرتے ہوئے دانت‬
‫بجلی بناتا رہتا ہے۔ اس کی تفصیالت اے سی ایس اپالئیڈ مٹیریئلز اینڈ انٹرفیسس جرنل میں‬
‫شائع ہوا ہے۔‬
‫پروفیسرگیلسو کے مطابق فوٹوتھراپی دانتوں کے کئی مسائل حل کرسکتی ہے۔ ضروری‬
‫تھا کہ ایک ایسا دانت بنایا جائے جو داب برق (پیزوالیکٹرک) کی بدولت بجلی پیدا کرے۔‬
‫اس کام کے لیے الیکٹرانکس میں پہلے سے ہی استعمال ہونے والے مٹیریئل ‪ ‬بیریئم ٹیٹانیٹ‬
‫کا انتخاب کیا گیا۔ دوسری جانب یہ دانت اور مسوڑھوں پر بیکٹیریا جمع نہیں ہونے دیتا۔‬
‫پہلے تجربے میں سائنسدانوں نے بیریئم ٹیٹانیٹ پر دانتوں کو کیڑے لگانے والے بدنام‬
‫بیکٹیریئم ’اسٹریپٹوکوکس‪ ª‬میوٹانس‘ کو ٓازمایا۔ یہ دانتوں پر جمع ہوکر گہری پیلی پرت کی‬
‫صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ‪ ‬مصنوعی دانت کے مٹیریئل پر اس ڈھیٹ بیکٹیریا کی ایک نہ‬
‫چلی اور وہ اپنی ٓابادی بڑھا کر جمع ہونے میں ناکام رہا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرئیم‬
‫ٰٹیٹانیٹ اس بیکٹیریا کو ہالک کرنے کی صالحیت رکھتا ہے جس کے مزید ثبوت دیکھنا‬
‫ہوں گے۔‬
‫دوسری جانب مصنوعی دانت کی فوٹوتھراپی سے مسوڑھوں کو ٓارام ملے گا اور دیگر‬
‫صحتمند مسوڑھوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ مصنوعی دانت جس مسوڑھے میں بٹھایا‬
‫جائے گا وہ فوٹوتھراپی سے اسی جگہ کو مضبوط بنائے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2224041/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪154‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۶ | ۱۴۱‬ستمبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۲‬ستمبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like