Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 49) 06 December - 12 December 2021 - Issue 154 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 49) 06 December - 12 December 2021 - Issue 154 - Vol 5
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سردیوں کے موسم میں بعض لوگوں کے پأوں ہمہ وقت ٹھنڈے
مستقبل میں ٓانے والی وبا کورونا سے زیادہ مہلک ہوسکتی ہے،
ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین
دسمبر 06 2021 ،
ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین کا مستقبل سے متعلق پیش گوئی کرتے ہوئے کہنا ہے کہ مستقبل
میں ٓانے والی وبا کورونا وبا سے زیادہ مہلک ہوسکتی ہے۔
ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین کے مطابق انسانی زندگیوں کو متاثر کرنے والی کورونا وبا
ٓاخری وبا نہیں ہے ،اگلی ٓانے والی وبا زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہوسکتی ہے
ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں مستقبل کے وبائی امراض سےنمٹنے کی
تیاری اور فنڈنگ کرنی ہوگی ،وبائی امراض سے سیکھے گئے اسباق ،معلومات ضائع
نہیں ہونا چاہئیں۔
https://jang.com.pk/news/1021102
سردیوں میں تلوں کا استعمال کیوں ضروری ہے؟
غذائی ماہرین کے مطابق اس کے استعمال کے نتیجے میں انسان شوگر ،بلڈپریشر ،کینسر،
ہڈیوں کی کمزوری ،جلِد کو پہنچنے والے نقصانات ،دل کی بیماریوں ،منہ کی بیماریوں
سے بچ جا تا ہے ،اس میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزاء انسانی جسم سے مضر صحت
مادوں کو بھی نکال دیتے ہیں۔
غذائی ماہرین کی جانب سے موسم سرما میں تلوں کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جس
:کے مزید فوائد مندرجہ ذیل ہیں
غذائی ماہرین کے مطابق تلوں میں مثبت روغن (تیل) پائے جانے کے سبب اس کے
استعمال سے ایڑیاں ،ہاتھ اور ہونٹ پھٹنے سے بچ جاتے ہیں۔
تلوں کی تاثیر گرم ہونے کے سبب اس کے استعمال سے سردی کم محسوس ہوتی ہے اور
انسان خشک موسم میں ناک اور حلق سے متعلق بیماریوں سے بھی بچ جاتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق موٹے ہونے کے خواہشمند افراد کو چاہیے کہ تِلوں کو بادام اور
خشخاش کے ساتھ مال کر کھائیں اور بعد میں دودھ پی لیں جبکہ وزن میں کمی النے والے
افراد کو چاہیے کہ وہ کالے تل کے بیجوں کو خوب چبا کر کھائیں
تلوں میں پولی اَن سیچوریٹڈ اور مونو سیچوریٹڈ فیٹس سے بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے،
اس میں سیچوریٹڈ فیٹس کم ہوتے ہیں جو کہ دل کی صحت اور کولیسٹرول کی سطح
کنٹرول میں رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
سردیوں میں بالوں کی صحت برقرار رکھنے اور خشکی کے خاتمے کے لیے تلوں کے
تیل کی معمولی سی مقدار سے سر پر مالش کریں اور 30منٹ تک کے لیے چھوڑ دیں،
اس کے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے بال دھو لیں ،بال گھنے ،کالے ،لمبے اور مضبوط
ہوجائیں گے۔
https://jang.com.pk/news/1021055
درست ترین بلڈ پریشر ناپنے والی پہلی اسمارٹ واچ
ویب ڈیسک
پير 6 دسمبر2021
ہانگ کانگ کی ایک کمپنی نے دنیا کی سب سے درست ترین بلڈ پریشر ناپنے والی
ٰ
دعوی کیا ہے۔ فوٹو :بشکریہ انڈی گوگو اسمارٹ واچ کا
ہانگ کانگ :اگرچہ بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن نوٹ کرنے والی کئی اسمارٹ واچ تیارکی
دعوی ہے کہ ان کی اسمارٹ واچ دنیا کا پہال دستی ٓالہ ٰ جاچکی ہیں لیکن اب ایک کمپنی کا
ہے جو جس میں غلطی کا امکان صرف 5ریڈنگ کم یا زیادہ ہے۔
جب اسے کراؤڈ فنڈنگ پر پیش کیا گیا تو مطلوبہ سرمایہ کاری کا ہدف مقررہ وقت سے
پہلے ہی حاصل ہوگیا جس کے بعد تیزی سے اس کی پروڈکشن جاری ہے۔
اسے ڈاکٹروں کے مطابق طبی پیمانے کی ایجاد قرار دیا گیا ہے اور اس کا پورا نام بی پی
(بلڈ پریشر) ڈاکٹر میڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے درستگی کی غرض سے ایف ڈی اے نے
منظور کیا ہے۔ یہ 24گھنٹے دل کی دھڑکن ،نبض اور بلڈ پریشر نوٹ کرسکتی ہے۔ نیند
کا دورانیہ نوٹ کرتی ہے اور پورا ڈیٹا جمع رکھتی ہے۔ اس کا پورا ڈیٹا اہ ِل خانہ اور ڈاکٹر
کو بھیجا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ چارج کرنے پر اسمارٹ واچ ایک ہفتے تک چلتی رہتی
ہے۔
اگر بلڈ پریشر خطرے کی عالمت سے ٓاگے بڑھ جائے تو االرم یا وائبریشن سے فوری
خبردار بھی کرتی ہے۔ انڈی گوگو کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ نے اسے اپنے پلیٹ فارم پر
سب سے زیادہ تیزی سے فنڈ ہونے والی ایجاد قرار دیا ہے۔ مارکیٹ میں پیش کرنے سے
قبل ہی اسے ہزاروں مریضوں پر پہلے ہی ٓازمایا جاچکا ہے اور بہترین نتائج سامنے ٓائے
ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت کم سے ایک ارب دس کروڑ افراد ایسے ہیں جو بلڈ پریشر کے
مستقل مریض ہیں اور یہ گھڑی ان کی جان بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے
https://www.express.pk/story/2255432/9812/
یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری Fخوراک وائرس کی نئی قسم سے
بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیالؤ کو روکنے کے
لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے “مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی
ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین
استعمال کی جا سکتی ہے ،یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک
خوراک لی گئی ،بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔
برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی تحقیق کے مطابق طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ
وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
کوویڈ 19ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے
خالف لڑنے کی صالحیت میں اضافہ ہوگا۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی
اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔
کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں 3ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے
جن کو 7میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر
ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 2سے 3ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی
گئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد
بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے
والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ 25گنا
اضافہ ہوگیا۔
اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی
ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں 8گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔
مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے
ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 32گنا جبکہ فائزر گروپ میں
11گنا اضافہ ہوا۔
اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم ٓار این اے ویکسینز بوسٹر
کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست
نہیں۔
مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی
باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔
محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں ،جن کی ہسپتال میں داخلے
اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر
بیشتر افراد نے تھکاوٹ ،سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی
قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال
کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی
روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔
بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر ،موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ
ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی 2خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ٰڈلٹا اقسام کے خالف بھی اوریجنل وائرس
جتنا ہی ٹھوس تھا۔
محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے
متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد 3
سے 6ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔
تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح
میں 3سے 5گنا اضافہ دیکھنے میں ٓایا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے النسیٹ میں
شائع ہوئے
https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-dose-immunity/
کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے ٓائی؟
ویب ڈیسک
دسمبر 6 2021
کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات ہونا باقی10
ہیں تاہم حال ہی میں اس کے ارتقا کے بارے میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا ارتقا عام نزلہ
زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔
امریکی بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ مال ہے کہ
کرونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ
متعدی ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث
بننے والے ایک اور انسانی کرونا وائرس ایچ کوو 229ای سے مماثلت رکھتا ہے۔
ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے
ساتھ ساتھ ایچ کوو 229ای سے بیک وقت متاثر تھا۔
انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کرونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں
ٓاتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔ اس جینیات کے
مواد کے باعث اومیکرون ±خود کو زیادہ انسانی دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث
اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ ٓاور ہونا ٓاسان ہوا۔
تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ ٓاسانی سے
پھیلنے میں مدد ملی ،مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ
متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔
ماہرین نے کہا کہ ان سواالت کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں
سارس کوو 2اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے
ہیں۔
ایک ہی میزبان خلیے میں 2مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول
بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز
سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو 2نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا
ہوگا۔
اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا
وائرس ایچ کوو 229ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی
ایسا ہوتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/research-on-omicron-covid-variant/
ویب ڈیسک
دسمبر 6 2021
یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری Fخوراک وائرس کی نئی قسم سے
بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیالؤ کو روکنے کے
لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے “مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی
ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین
استعمال کی جا سکتی ہے ،یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک
خوراک لی گئی ،بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔
برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی تحقیق کے مطابق طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ
وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
کوویڈ 19ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے
خالف لڑنے کی صالحیت میں اضافہ ہوگا۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی
اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔
کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں 3ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے
جن کو 7میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر
ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 2سے 3ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی
گئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد
بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے
والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ 25گنا
اضافہ ہوگیا۔
اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی
ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں 8گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔
مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے
ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 32گنا جبکہ فائزر گروپ میں
11گنا اضافہ ہوا۔
اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم ٓار این اے ویکسینز بوسٹر
کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست
نہیں۔
مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی
باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔
محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں ،جن کی ہسپتال میں داخلے
اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر
بیشتر افراد نے تھکاوٹ ،سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی
قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال
کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی
روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔
بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر ،موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ
ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی 2خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ٰڈلٹا اقسام کے خالف بھی اوریجنل وائرس
جتنا ہی ٹھوس تھا۔
محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے
متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد 3
سے 6ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔
تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح
میں 3سے 5گنا اضافہ دیکھنے میں ٓایا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے النسیٹ میں
شائع ہوئے
https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-dose-immunity/
رونا کی اومکرون قسم 38ممالک میں پھیل گئی ،نئے ویریئنٹ کے خالف ویکسین کی
افادیت پر تحقیق جاری
ٓ minutes agoاخری بار اپڈیٹ کیا گیا 57
دسمبر ۶ ۲۰۲۱
ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس کا یہ ویریئنٹ ،پہلے ٓانے والی اقسام کے مقابلے
میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے ،عالمی ادارہ صحت نے اس نئی قسم کے 38ممالک میں
پھیلنے کی تصدیق کی ہے۔ (فائل فوٹو)
تبصرے دیکھیں
Print
— ویب ڈیسک
جنوبی افریقہ میں سامنے ٓانے والے کرونا وائرس کی اومکرون قسم کا پھیالؤ دنیا کے
دیگر ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ مزید ممالک کی طرف سے افریقی ممالک سے ٓانے
والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس کا یہ ویریئنٹ ،پہلے ٓانے والی اقسام کے مقابلے
میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے ،عالمی ادارہ صحت نے اس نئی قسم کے 38ممالک میں
پھیلنے کی تصدیق کی ہے۔
کرونا ویکسین بنانے والی فارما کمپنیاں اس تحقیق میں لگی ہوئی ہیں کہ ان کی تیار کردہ
کرونا ویکسین اس ویریئنٹ کے خالف بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں یا نہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق جن ممالک میں اومکرون
ویریئنٹ کی تشخیص کی گئی ہے ان میں ٓاسٹریلیا ،ہانگ کانگ ،جاپان ،جنوبی کوریا ،سنگا
پور اور ملیشیا شامل ہیں جب کہ رواں ہفتے جمعرات کو بھارت سے بھی مذکورہ ویریئنٹ
کی تشخیص رپورٹ کی گئی ہے۔
ٓاسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شہر سڈنی میں ہفتے کو اومکرون ویریئنٹ سے
متاثرہ 13کیسز رپورٹ کیے گئے جب کہ ریاست کوئنز لینڈ سے بھی کیسز سامنے ٓانے کا
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ٓاسٹریلیا میں اومکرون ویریئنٹ کی مقامی منتقلی کا پہال کیس رواں ہفتے سڈنی کے ایک
اسکول سے جمعے کو رپورٹ کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ کیس کے ماخذ کا پتا لگانے کے لیے تفتیش جاری ہے جب کہ
مزید کیسز بھی متوقع ہیں۔
https://www.urduvoa.com/a/omicron-in-38-countries-no-deaths-
reported-04dec2021/6339302.html
ویب ڈیسک
منگل 7 دسمبر 2021
ویاگرا استعمال کرنے والوں میں چھ سال بعد تک الزائیمر بیماری کا خطرہ 69فیصد کم
دیکھا گیا۔ (فوٹو :انٹرنیٹ)
کلیولینڈ :امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ’سلڈینافل‘ المعروف ’ویاگرا‘ سے
ممکنہ طور پر دماغ کی خطرناک بیماری ’الزائیمر‘ کا عالج بھی کیا جاسکے گا۔
ریسرچ جرنل ’’نیچر ایجنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے یہ تحقیق ابتدائی نوعیت
کی ہے جس میں الزائیمر بیماری کی ایک بہترین ممکنہ دوا کے طور پر ویاگرا کا نام بھی
سامنے ٓایا ہے۔
اس تحقیق کےلیے الکھوں افراد کی طبّی کیفیات اور جینیاتی ترکیب کا ایک وسیع ڈیٹابیس
کھنگال کر ،پروٹینز کے باہمی عمل (پروٹین پروٹین انٹریکشنز) ±پر مبنی ایسی نشانیاں
تالش کی گئیں جو ٓانے والے برسوں میں الزائیمر بیماری کی وجہ بنتی ہیں۔
طاقتور کمپیوٹروں اور خصوصی الگورتھمز ±کی مدد سے سائنسدانوں نے ساڑھے تین الکھ
سے زائد پروٹین پروٹین انٹریکشنز کا تجزیہ کیا؛ اور ان میں سے الزائیمر ±بیماری کی وجہ
بننے والے انٹریکشنز شناخت کرکے الگ کیے۔
اگلے مرحلے میں ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ ±کی منظور کردہ 1600سے زیادہ دواؤں
میں سے وہ ادویہ تالش کی گئیں جو اُن پروٹین پروٹین انٹریکشنز میں زیادہ سے زیادہ
رکاوٹ ڈال سکیں جو الزائیمر بیماری کا باعث بنتے ہیں۔
اس مرحلے پر جو دوائیں الزائیمر بیماری کی روک تھام میں بہتر دکھائی دیں ،ان میں
سرفہرست تھی جو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ’’مخصوص مردانہ گولی‘‘ ±کے ’ویاگرا‘ ِ
طور پر استعمال ہورہی ہے جبکہ کئی ملکوں نے اسی وجہ سے ویاگرا پر پابندی بھی
لگائی ہوئی ہے (ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے)۔
البتہ ،ماہرین نے اپنی مزید تسلی کےلیے امریکا میں 70الکھ سے زائد عمر رسیدہ افراد
کی جانب سے دائر کیے گئے انشورنس کلیمز ،ان لوگوں میں مختلف ادویہ کے استعمال
اور الزائیمر بیماری کے واقعات کا بہت باریکی سے تجزیہ کیا۔
اس تجزیئے سے بھی یہی معلوم ہوا کہ جن افراد میں ابتدائی معائنے کے بعد الزائیمر کا
خطرہ سامنے ٓایا تھا ،ان میں سے ’’ویاگرا‘‘ ±استعمال کرنے والے لوگوں میں چھ سال بعد
تک الزائیمر کا خطرہ 69فیصد کم تھا۔
مطالعے کے مصنّفین نے خبردار کیا ہے کہ فی الحال اس تحقیق سے ہر گز یہ نہ سمجھ لیا
جائے کہ ویاگرا واقعتا ً الزائیمر بیماری کا عالج ہے۔ ابھی صرف ویاگرا کے استعمال سے
الزائیمر بیماری کے امکانات میں کمی ہی ہمارے سامنے ٓائی ہے۔
کیا ویاگرا واقعی میں الزائیمر بیماری کا عالج کرسکتی ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ
جاننے کےلیے ہمیں ایک اور تفصیلی لیکن محتاط تحقیق کی ضرورت ہوگی؛ اس سے
پہلے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
البتہ اچھی بات یہ ہے کہ ویاگرا پہلے ہی ’’ایف ڈی اے‘‘ سے منظور شدہ ہے ،ل ٰہذا
الزائیمر کےلیے اس کے استعمال میں زیادہ مشکل پیش نہیں ٓائے گی۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں الزائیمر بیماری کے 65الکھ سے زیادہ مریض ہیں جن میں
سے بیشتر کی عمر 65سال یا اس سے زیادہ ہے۔
الزائیمر بیماری میں یادداشت تیزی سے کمزور ہوتی ہے؛ دماغ ہر وقت الجھن میں مبتال
رہتا ہے؛ نئی چیزیں سیکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے؛ پڑھنے ،لکھنے اور حساب
کتاب کرنے میں دشواری ہونے لگتی ہے اور یہ کیفیت بھی بڑھتی جاتی ہے؛ سوچ منتشر
رہنے لگتی ہے اور ہر وقت عجیب و غریب خیاالت کا دماغ پر غلبہ رہنے لگتا ہے؛ زیادہ
دیر تک کسی چیز پر توجہ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے؛ جبکہ بدلتے ہوئے حاالت کا سامنا
کرنے میں بھی پریشانی ہونے لگتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ،دنیا بھر میں 65سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہر 9میں سے
ایک فرد ( 11.3فیصد) کو الزائیمر بیماری ہوجاتی ہے جبکہ 75سال یا اس سے زیادہ عمر
کے 72فیصد بزرگوں میں یہ بیماری دیکھی گئی ہے۔
الزائیمر بیماری اب تک العالج ہے لیکن اگر ویاگرا اسے روکنے میں واقعی مددگار ثابت
ہوئی تو دماغ کی بہت سی مہنگی دواؤں کے مقابلے میں یہ بہت کم خرچ بھی ثابت
ہوسکتی ہے
https://www.express.pk/story/2255863/9812/
مرگی میں مبتال افراد کے دماغ جلد 'بوڑھے' ہوجاتے ہیں ،ماہرین
ویب ڈیسک
پير 6 دسمبر 2021
مرگی مرض کی طویل تاریخ رکھنے والے افراد کے دماغ تیزی سے بوڑھے ہوجاتے ہیں
جو ڈیمنشیا کی نشوونما کے لیے مشکالت کو بڑھا سکتا ہے۔
یہ نئی تحقیقی بتاتی ہے کہ مرگی کے شکار لوگوں کے دماغ ان لوگوں کے دماغوں سے
تقریبا ً 10سال زیادہ پرانے دکھائی دیتے ہیں جنہیں مرگی کی بیماری نہیں۔
مرگی کے مریضوں میں علمی صالحیت کا زوال بھی جلد ٓاتا ہے ،بشمول یادداشت اور
استدالل کے مسائل بھی اور دماغی اسکینوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو الزائمر کی
بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے دماغی عمر کا بڑھنا اور سوچ اور یادداشت میں تبدیلیاں ان لوگوں
میں زیادہ واضح ہوتی ہیں جن کے مرض کا صحیح سے انتظام نہیں کیا جاتا۔
مطالعہ کے مصنف اور یونیورسٹی آف وسکونسن سکول آف میڈیسن میں نیورو
سائیکالوجی کے ایمریٹس پروفیسر بروس ہرمن نے کہا“ ،ایسا لگتا ہے کہ بچپن سے
شروع ہونے والی مرگی عمر بڑھنے کے عمل کو تیز کر سکتی ہے ،خاص طور پر ان
”،لوگوں میں جو بچپن سے 60کی دہائی تک مرگی کا شکار رہتے ہیں
https://www.express.pk/story/2255699/9812/
ویب ڈیسک
دسمبر 6 2021
یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری Fخوراک وائرس کی نئی قسم سے
بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیالؤ کو روکنے کے
لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے “مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی
ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین
استعمال کی جا سکتی ہے ،یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک
خوراک لی گئی ،بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔
برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی تحقیق کے مطابق طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ
وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
کوویڈ 19ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے
خالف لڑنے کی صالحیت میں اضافہ ہوگا۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی
اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔
کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں 3ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے
جن کو 7میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر
ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے 2سے 3ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی
گئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد
بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے
والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ 25گنا
اضافہ ہوگیا۔
اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی
ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں 8گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔
مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے
ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 32گنا جبکہ فائزر گروپ میں
11گنا اضافہ ہوا۔
اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم ٓار این اے ویکسینز بوسٹر
کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست
نہیں۔
مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی
باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔
محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں ،جن کی ہسپتال میں داخلے
اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر
بیشتر افراد نے تھکاوٹ ،سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی
قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال
کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی
روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔
بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر ،موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ
ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی 2خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ٰڈلٹا اقسام کے خالف بھی اوریجنل وائرس
جتنا ہی ٹھوس تھا۔
محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے
متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد 3
سے 6ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔
تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح
میں 3سے 5گنا اضافہ دیکھنے میں ٓایا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے النسیٹ میں
شائع ہوئے۔
https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-dose-immunity/
ویب ڈیسک
دسمبر 6 2021
واشنگٹن :امریکی محکمہ صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون ،ڈیلٹا ویرینٹ سے بھی کم
خطرناک ہو سکتا ہے۔
تفصیالت کے مطابق امریکی محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی نتائج سے
معلوم ہوا ہے کہ کرونا کی نئی قسم اومیکرون اس سے پہلے سامنے ٓانے والے ڈیلٹا
ویرینٹ سے کم خطرناک ہو سکتی ہے۔
صدر جو بائیڈن کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا کہ ابھی تک یہ
نہیں لگتا کہ اومیکرون اتنا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے ،لیکن ہمیں یہ کہنے میں بھی احتیاط
برتنی چاہیے کہ یہ ڈیلٹا سے کم متاثر کرتا ہے یا اس سے کوئی زیادہ بیمار نہیں ہو سکتا۔
تاہم عالمی ادارۂ صحت کی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر ماریہ وان کیرکوو نے خبردار کیا ہے
کہ اومیکرون اگر کم خطرناک بھی ہے تو یہ ایک مسئلہ ضرور ہے ،اگرچہ زیادہ کیسز کم
شدت والے ہیں ،لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کو اسپتال جانے کی ضرورت پڑے گی ،ان میں
سے کچھ ٓائی سی یو میں جائیں گے اور کچھ مر جائیں گے۔
ادھر بائیڈن انتظامیہ افریقی ممالک سے ٓانے والے غیر ملکیوں کو امریکا میں داخلے کی
اجازت دینے پر غور کر رہی ہے ،ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ امید ہے تھوڑے عرصے
میں ہم یہ پابندی ہٹا دیں گے ،جنوبہ افریقا اور دیگر افریقی ممالک پر پابندی لگانے کو ہم
اچھا نہیں سمجھتے۔
واضح رہے کہ سائنس دانوں کو اومیکرون کی شدت کے بارے میں حتمی نتائج اخذ کرنے
سے پہلے مزید معلومات درکار ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/omicron-can-be-less-dangerous-than-delta/
سردی میں نیم گرم پانی پینے کے بے شمار فوائد
ویب ڈیسک
دسمبر 6 2021
سردیوں میں گرم پانی پینے Fکے بے شمار فوائد ہیں ،طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں
میں گرم پانی پینا صحت کے لیے دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم کا 60فیصد سے زائد حصہ پانی پر مشتمل ہے جس
میں دماغ اور دل کا 73فیصد حصہ پانی ہے ،انسانی جسم کے لیے پانی کی مناسب مقدار
نہایت ضروری ہے ،ماہرین کی جانب سے ہر بیماری میں زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال
بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سردیوں میں پیاس نہ لگنے کے سبب پانی کا استعمال کم کر دیا
جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہاضمے اور جسمانی دیگر اعضاء سے متعلق شکایت بڑھ
جاتی ہے۔
سردیوں میں بھی پانی کی مقدار کم از کم 8گالس کے درمیان ہونی چاہیے اور اگر یہ
مقدار نیم گرم پانی پر مشتمل ہو تو جسم پر حیرت انگیز فوائد خود بہ خود واضح محسوس
کیے جا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ہر بالغ انسان کو دن میں کم از کم 8گالس پانی ضرور پینا چاہیے اور
اگر سادہ پانی کے بجائے نیم گرم پانی پی لیا جائے تو اس کے صحت پر سو فیصد مثبت
نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق سردیوں کے موسم میں وائرل انفیکشن ،موسمی بیماریوں خصوصا ً
نزلہ زکام بخار سے بچنے کے لیے اگر نیم گرم سے تھوڑا سا زیادہ گرم (اتنا گرم کے
زبان نہ جلے اور پینے میں ٓاسانی ہو) کرکے استعمال کیا جائے تو اس کے صحت پر فوائد
سو گنا بڑھ جاتے ہیں۔
جاپانی طبی ماہرین کے مطابق گرم پانی کے نتیجے میں شدید سر درد (مائیگرین) ،ہائی بلڈ
پریشر ،خون کی کمی ،جوڑوں کا درد ،دل کی دھڑکن کا ایک دم تیز یا ٓاہستہ ہوجانا ،مرگی
کاعالج گرم پانی سے کیا جاسکتا ہے۔
عالوہ ازیں ضدی پیٹ کی چربی ،کولیسٹرول ،شدید کھانسی ،بے چینی ،دمہ ،کالی کھانسی،
رگوں میں چربی جم جانے کے سبب خون کے بہأو میں رکاوٹ ،معدے کی تیزابیت ،بھوک
کم لگنا اور ہر بیماری جو ٓانکھ کان گلے سے متعلق ہو اُس کا عالج گرم پانی سے کیا جا
سکتا ہے۔
کووڈ 19سے دماغ کو سنگین https://urdu.arynews.tv/596989-2/
نقصانات کا خدشہ
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
کووڈ 19پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری Fہے تاہم یہ مرض دل ،گردوں اور جگر کو
بھی نقصان پہنچاتا ہے ،اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف
ہوا ہے۔
امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19کے نتیجے میں اسپتال میں
زیر عالج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں
کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں
بشمول فالج ،جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم
ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں
اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس تحقیق میں لگ بھگ 42ہزار ایسے مریضوں ±کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو
کووڈ 19کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعالج رہے تھے،
ان افراد کی اوسط عمر 66سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد
دگنی تھی۔
بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب ،ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر
سے متاثر تھے۔
ان میں سے جن افراد کے ایم ٓار ٓائی یا سی ٹی اسکین ہوئے ،ان میں سے 442مریضوں
میں کووڈ 19سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔
نتائج سے عندیہ مال کہ 1.2فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی
کا سامنا ہوا ان میں فالج ( 6.2فیصد) ،برین ہیمرج ( 3.77فیصد) اور دماغی ورم (0.47
فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔
ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے
مستند تفصیالت سامنے الئی جائیں۔
مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی
شرح 3گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر
ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح
زیادہ تھی۔
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
ٓاج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوا بازی یعنی سول ایوی ایشن کا عالمی دن منایا جارہا
ہے ،پاکستان میں ٓاج ہی کے روز 5سال قبل ایک المناک فضائی حادثہ پیش ٓایا تھا جب
چترال سے اسالم ٓاباد ٓانے واال پی ٓائی اے کا طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار
ہوگیا تھا۔
اس حادثے میں حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 47افراد شہید ہوگئے
تھے۔
ہوا بازی کا عالمی دن منانے کا مقصد ٓامد و رفت کے اس تیز ترین ذریعے کی اہمیت
اجاگر کرنا اور اس کے ذریعے ہونے والی معاشی و سماجی ترقی کا اعتراف کرنا ہے۔
دنیا بھر میں روزانہ 44ہزار فالئٹس ٓاپریٹ کی جاتی ہیں جن میں لگ بھگ پونے 3کروڑ
افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔
طویل فاصلے کا فضائی سفر کرنے والے اکثر افراد طبیعت خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں
جسے جیٹ لیگ کہا جاتا ہے۔ اس طبیعت خرابی میں شدید تھکاوٹ ،جسم میں بوجھل پن،
اکڑاؤ اور درد شامل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جیٹ لیگ کا شکار ہونے کی کئی وجوہات ہیں تاہم کچھ تدابیر اپنا کر
اس سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
یہ عموما ً ایک سے دو دن تک رہ سکتا ہے تاہم طویل سفر کے بعد اگر ٓاپ ٓارام کیے بغیر
ہی اپنے تھکا دینے معموالت زندگی میں مصروف ہوجائیں تو یہ زیادہ دن بھی چل سکتا
ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جیٹ لیگ سے بچنے کے لیے دوران پرواز متحرک رہا جائے تو
جیٹ لیگ سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے اپنے پاؤں گول گول کھمائیں ،سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی ایڑیوں کو زمین پر
لگائیں اور پاﺅں کو اوپر اٹھائیں۔
سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگائیں۔
اپنی گردان کو دائیں بائیں اور ٓاگے پیچھے حرکت دیں کہ اس طرح ٓاپ کی گردن پرسکون
رہے گی۔
اسی طرح سیٹ پر بیٹھے ہوئے ٓاگے کو جھکیں اور اپنے سینے کو گھٹنوں کے ساتھ
لگائیں۔
جہاز میں چہل قدمی کریں تاکہ ٓاپ کے خون کا دورانیہ ٹھیک رہے اور ٓاپ کے جسم میں
حرکت رہے۔
طویل فضائی سفر میں ٹھوس اشیا کے بجائے مائع اشیا کا زیادہ استعمال مفید ہے۔
https://urdu.arynews.tv/international-civil-aviation-day-2021/
کورونا کی نئی قسم ‘اومیکرون’ سے متعلق نیا انکشاف
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
طبی ماہرین کورونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے نمودار ہونے کی ممکنہ وجہ تک
پہنچ گئے ہیں۔
امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کورونا کی اس نئی قسم کا ارتقا عام نزلہ
زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا ہے۔
بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون
میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کورونا وائرس ایچ کوو
229ای سے مماثلت رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی اس بارے میں بہت کچھ جاننا ہے لیکن ابتدائی مطالعے سے پتا
چال ہے کہ یہ سب سے زیادہ خطرناک کورونا قسم ہے ،ممکنہ طور پر اومیکرون کا ارتقا
کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو 229ای سے بیک وقت متاثر
تھا۔
محققین نے بتایا کہ نئے ویرینٹ کا جینیاتی سیکونس کورونا وائرس کی سابقہ اقسام میں
نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔
‘انسانی جینوم ہونے کے سبب یہ دیگر اقسام سے کافی مختلف ہے اور اس کا انسانی
مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا بھی آسان ہوگیا ،البتہ یہ انسانی جان کے لیے کس حد تک
خطرناک ہوسکتا ہے اس بارے میں ابھی جاننا باقی ہے’۔
خیال رہے کہ اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ
کے خلیات میں سارس کوو 2اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز بیک
وقت رہ سکتے ہیں۔
رپورٹس میں یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ ایک ہی میزبان خلیے میں 2مختلف وائرسز میں
اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا
کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔
ایسا دو وائرسز سے ایک ساتھ متاثر ہونے پر ہوتا ہے ،ایک وائرس دوسرے وائرس کے
جینیاتی سیکونس کو اٹھالیتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/new-revelation-about-coronas-new-type-
omicron/
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
نیویارک :امریکی شہر میں نجی شعبوں کے مالزمین کے لیے ویکسین الزمی قرار دے
دی گئی۔
تفصیالت کے مطابق نیویارک شہر کے میئر نے اعالن کیا ہے کہ اگر نیویارک کے
باشندے کام پر جانا چاہتے ہیں تو انھیں ویکسین لگوانے کی ضرورت ہوگی۔
نیویارک کے میئر بل ڈی بالسیو نے کہا کہ نیویارک میں نجی شعبوں کے مالزمین کے
لیے کرونا ویکسینیشن الزمی کر رہے ہیں ،شہر میں فیصلے کا اطالق 27دسمبر سے
ہوگا۔
بل ڈی بالسیو نے میڈیا کو بتایا کہ پبلک سیکٹر کے مالزمین کے لیے پہلے ہی ویکسینیشن
الزمی کی گئی تھی ،لیکن اس مینڈیٹ کو اب نجی شعبے کے تمام مالزمین تک بڑھا دیا گیا
ہے۔
انھوں نے کرونا ویکسینیشن کی ضرورت کے حوالے سے چند وجوہ کا بھی ذکر کیا ،میئر
نے کہا ہمیں اب ایک نئے ویرینٹ کے طور پر اومیکرون کا سامنا ہے ،ہمارے پاس ٹھنڈا
موسم بھی ہے جو واقعی ڈیلٹا ویرینٹ کے ساتھ نئے چیلنجز پیدا کرنے واال ہے ،اور
ہمارے پاس چھٹیوں کے اجتماعات بھی ہیں۔
میئر کا کہنا تھا کہ نیویارک پہال امریکی شہر ہوگا جس نے نجی شعبے کے کارکنوں کے
لیے ویکسین کا حکم دیا ہے جس سے تقریبا ً ایک الکھ 84ہزار کاروبار متاثر ہوں گے۔
واضح رہے کہ پبلک سیکٹر کے کارکنوں کے لیے ویکسین مینڈیٹ کو ،جو اس موسم
خزاں کے شروع میں نافذ ہوا تھا ،مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ،اور کچھ مالزمین نے
اپنی مالزمتیں بھی چھوڑیں ،تاہم پالیسی کے جواب میں ویکسینیشن کی شرح بڑھ گئی ہے
https://urdu.arynews.tv/nyc-to-impose-vaccine-mandate/
دنیا کے امیر ترین شخص کیسے بے گھر ہوگئے؟ F۔۔۔دنیا کی حیران کن
کہانی جان کر ٓاپ بھی ششدر رہ جائیںگے
06/12/2021
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )دنیا کے امیر ترین ٓادمی بے گھر ہو گئے ہیں ،گاڑیاں
بنانے والی امریکی کمپنی ٹیسال کے بانی ایلون مسک سرکاری طور پر اب کسی گھر کے
مالک نہیں رہے۔عالمی میڈیا کے مطابق ایلون مسک نے اپنا ٓاخری گھر بھی بیچ دیا ہے،
سیلیکون ویلی میں واقع 16ہزار اسکوائر فٹ پر واقع گھر 5ارب روپے سے زائد میں
فروخت ہوا ،کہا جا رہا ہے کہ یہ اصل قیمت سے کم پر فروخت ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق
ٹیسال کے سی ای او نے جمعرات کو اپنی شاہانہ سلیکن ویلی اسٹیٹ کو 30ملین ڈالر میں
بیچا ،جو اس کی مانگی گئی قیمت سے 7.5ملین ڈالرز کم ہے ،کیوں کہ وہ پچھلے سال اپنا
کوئی گھر نہ رکھنے کا وعدہ پورا کرنا چاہتے تھے،
اور اس کے لیے انھیں کرائے کا حجم گھٹا کر 50ہزار ڈالر کرنا پڑا۔یہ گھر 7بیڈ رومز،
میوزک روم اور ایک گرینڈ بال روم پر مشتمل تھا ،ایلون مسک نے گزشتہ سال اعالن کیا
تھا کہ وہ اپنی تمام جائیدادیں فروخت کر دیں گے ،جب کہ 50سالہ ایلون مسک پہلے ہی
اعالن کر چکے ہیں کہ دیگر جائیدادیں فروخت کرنے کے بعد کیلیفورنیا میں 47ایکڑ کی
جائیداد ان کا ‘ٓاخری گھر’ ہے۔ایک ماہ قبل بھی ایلون مسک نے صارفین کی بات مان کر
ٹیسال کمپنی کے 5بلین ڈالر سے زائد کے شیئرز فروخت کر دیے تھے ،انھوں نے ٹوئٹر
پر کرائے گئے ایک سروے کے نتیجے میں یہ شیئرز فروخت کیے۔ انھوں نے اپنے
فالوورز سے سوال پوچھا تھا کہ کیا ان کو ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ٹیسال کے 10فیصد
شیئرز فروخت کرنے چاہیئں یا نہی
https://dailyausaf.com/international/news-202112-130143.html
ایک دوسرے سے کافی دور مقیم ویکسین شدہ 2افراد میں اومیکرونF
پھیلنے کا انکشاف
ویب ڈیسک
دسمبر 06 2021
ویب ڈیسک
دسمبر 06 2021
— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی
خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کو
زیادہ پھیالتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ زیادہ ٓاسانی سے پھیال سکتے ہیں۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کا اصل مقصد پرفارمنگ ٓارٹ کے ذریعے کووڈ
19کے پھیالؤ کو دیکھنا تھا۔
مگر محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد کورونا کے
وائرل ذرات کو زیادہ پھیالتے ہیں۔
تحقیق میں 75سے زیادہ افراد کو شامل کیا گی اتھا جن کو ایک زیادہ تر ایک چیمبر میں
رکھا گیا تاکہ ہوا میں ذرات کے پھیالؤ کی جانچ پڑتال کی جاسکے۔
رضاکاروں کی عمریں مختلف تھیں اور ان میں سے کچھ کو کئی بار گانے جیسے ہیپی
برتھ ڈے گانے کا کہا گیا ،دیگر کو سازوں پر گانوں کو پرفارم کرنے کا کہا گیا۔
محققین نے بتایا کہ یقینا ً بات کرنے کے مقابلے میں گانے سے زیادہ وائرل ذرات پھیلتے
ہیں۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ تحقیق میں پرفارمنگ ٓارٹ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی
مگر تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچوں کے مقابلے میں بالغ افراد زیادہ وائرل ذرات خارج
کرتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد زیادہ وائرل ذرات اس لیے
خارج کرتے ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑے زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔
محققین نے یہ بھی بتایا کہ وائرس ان افراد سے بھی زیادہ ٓاسانی سے پھیل سکتا ہے جو
زیادہ اونچی ٓاواز میں بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٓاپ کی ٓاواز کا والیوم عندیہ دیتا ہے کہ کتنی توانائی جسم خرچ کررہا ہے
اور یہ توانائی جسم سے زیادہ ذرات کی شکل میں باہر نکلتی ہے ،ان ذرات میں کورونا
وائرس ہوتا ہے جو دیگر افراد کو متاثر کرسکتا ہے۔
محققین کے مطابق ایسے مقامات جہاں زیادہ شور ہوتا ہے ،وہاں کووڈ 19پھیلنے کا خطرہ
بہت زیادہ ہوتا ہے ،ایسے مقامات جیسے کھیلوں کے اسٹیڈیم اور کنسرٹ وینیو میں وائرل
ذرات بہت زیادہ مقدار میں پھیلنے کا امکان ہوتا ہے۔
اب تحقیقی ٹیم نے تحقیق کو ٓاگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ کونسے
ساز کووڈ 19کو زیادہ پھیال سکتے ہیں۔
محققین کے مطابق نتائج سے اس بات کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ چار دیواری والے
مقامات میں ہوا کی مناسب نکاسی ضروری ہے۔
اس تحقیق کو انوائرمنٹل سائنس ایند ٹیکنالوجی لیٹرز میں شائع کیا گیا اور محققین مزید
تحقیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
https://www.dawnnews.tv/news/1173648/
ویب ڈیسک
منگل 7 دسمبر 2021
ماہرین کے مطابق ورزش ہمارے دل اور دماغ ،دونوں کےلیے دواؤں جیسے اثرات
رکھتی ہے۔
ٹوکیو :جاپانی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ روزانہ ہلکی رفتار سے صرف دس منٹ
تک دوڑا جائے تو دماغ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ موڈ بھی خوشگوار رہنے لگتا ہے۔
ورزش اور جسمانی مشقت کے صحت پر مثبت اثرات کے حوالے سے یہ کوئی پہلی
تحقیق ہر گز نہیں بلکہ اس بارے میں سائنسی تحقیقات کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔
ان تحقیقات میں ہر بار ایک منفرد انداز سے ذہنی و جسمانی صحت کےلیے ورزش اور
مشقت کے فائدے سامنے ٓائے ہیں۔
البتہ ،ہر تحقیق کے بعد جسمانی مشقت /ورزش کی شدت اور مدت کے اثرات کا اظہار
الگ انداز سے ہوا۔
:یہ خبریں بھی پڑھیے
دماغ بچانا ہے تو سائیکل چالیئے اور تیز قدموں سے چلیے
بچپن میں مناسب غذا اور ورزش… جوانی میں بہترین دماغی صحت
صرف 10منٹ کی ورزش بھی یادداشت کے لیے مفید
ورزش دماغی صحت کےلیے بھی مفید ترین ہے ،ماہرین
ورزش کے دماغی فوائد اگلی نسل میں بھی منتقل ہوتے ہیں ،تحقیق
سر سبز مقامات پر ورزش دماغی صحت کے لیے بھی مفید
ورزش کی عادت جسم و دماغ میں فوالد کو باقاعدہ بناتی ہے
باقاعدہ ورزش دماغ کو توانا اور ذہنی امراض کو دور کرتی ہے ،ماہرین
بوڑھے افراد کی باقاعدہ ورزش ان کے دماغ کو توانا رکھتی ہے ،تحقیق
سوکوبا یونیورسٹی ،جاپان میں ہونے والی یہ تحقیق بھی اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے
جس میں 26صحت مند رضاکار بھرتی کیے گئے۔
مختلف مرحلوں میں ان رضاکاروں کو دس منٹ تک ٹریڈ مل پر ہلکی رفتار سے دوڑانے
کے عالوہ ٓارام بھی دیا گیا جبکہ ہر مرحلے پر خصوصی اور حساس ٓاالت سے ان میں
خون کی روانی ،بالخصوص دماغوں تک پہنچنے والے خون کا مشاہدہ کیا گیا۔
ہر مرحلے کے بعد رضاکاروں کی یادداشت ،تجزیاتی صالحیت ،مزاج (موڈ) اور دوسری
دماغی کیفیات جانچی گئیں۔
صرف دس منٹ تک ہلکی رفتار سے دوڑنے (جاگنگ کرنے) کے بعد رضاکاروں کی
یادداشت اور ذہانت نمایاں طور پر بہتر ہوئی جبکہ ان کا موڈ بھی خوشگوار رہا۔
البتہ ،جب ان ہی رضاکاروں نے چند روز تک ٓارام کرنے کے بعد ،اور کسی بھی قسم کی
ورزش کیے بغیر ،یہ تمام ٓازمائشیں ایک بار پھر انجام دیں تو ان کی کارکردگی بھی بہت
کم دیکھی گئی۔
ورزش دوا ہے؛ اور جس طرح مختلف دواؤں کے اثرات ان کی اقسام کے لحاظ سے’’
مختلف ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح الگ الگ ورزشوں کا اثر بھی ان کی نوعیت ،مدت اور
شدت کے اعتبار سے الگ ہوتا ہے ‘‘،ڈاکٹر ہیڈیاکی سویا نے کہا ،جو سُو ُکوبا یونیورسٹی
میں فیکلٹی ٓاف ہیلتھ اینڈ اسپورٹس سائنسز کے پروفیسر ہیں۔
تازہ تحقیق کی روشنی میں جاپانی ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ اگر ٓاپ کے پاس بہت زیادہ
وقت نہیں ،تب بھی اگر ٓاپ کسی طرح روزانہ صرف 10منٹ کےلیے ہلکی رفتار سے
دوڑنے کی عادت بنا لیں تو یہ ٓاپ کی جسمانی صحت کے عالوہ ذہانت اور موڈ بہتر بنانے
میں بھی بہت مفید ثابت ہوگا۔
نوٹ :اس تحقیق کی تفصیالت نیچر پبلشنگ گروپ کے ٓان الئن ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک
رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں
https://www.express.pk/story/2255905/9812/
امریکہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ ٓاف الرجی اینڈ انفیکشس ڈزیز کے ڈائریکٹر انتھونی فوسی
واشنگٹن :امریکا کے 7صدور کے دو ِر حکومت میں بحیثیت میڈیکل ایڈوائزر خدمات
انجام دینے والے ڈاکٹر فوسی کا کہنا ہے کہ کورونا کی نئی قسم اومیکرون ‘تقریبا یقینی
طور پر’ ڈیلٹا سے کم خطرناک ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر انتھونی فوسی کا کہنا
تھا کہ اگرچہ نئے کورونا ویریئنٹ ‘اومیکرون’ کی صحیح شدت کا اندازہ لگانے میں ہفتے
لگیں گے تاہم ابتدائی معلومات بتاتی ہیں کہ یہ پہلے کے کوروناوائرس ڈیلٹا سے زیادہ
خطرناک نہیں ہے۔
انہوں نے کہا“ ،یہ تقریبا یقینی طور پر ڈیلٹا سے کم خطرناک ہے جبکہ کچھ مطالعوں سے
”اسکی شدت اور بھی کم دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر فوسی نے کہا کہ میرے خیال میں کم از کم جنوبی افریقہ کے حاالت کو مدنظر
رکھتے ہوئے تحقیق میں مزید دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اور پھر جیسے جیسے پوری دنیا
میں انفیکشن پھیلےگا ،حتمی تحقیق میں اور بھی وقت لگ سکتا ہے
https://www.express.pk/story/2256121/9812/
رات کی شفٹ میں بے وقت کھانے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ
ویب ڈیسک
بدھ 8 دسمبر 2021
رات کی شفٹ میں کام کرنے اور رات کو کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ
بڑھ جاتا ہے۔
ہارورڈ :جسم کی اندرونی گھڑی ہمارے سونے جاگنے اور دیگر معموالت کو طے کرتی
ہے ،ان میں بگاڑ سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،اب معلوم ہوا کہ رات کو
جاگنے اور کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
امراض
ِ اس سے قبل رت جگوں میں کام سے جسم کے استحالے (میٹابولزم) ±متاثر ہونے،
قلب اور بلڈپریشر کے درمیان تعلق سامنے ٓاچکا ہے۔ اسی طرح سونے اور جاگنے کے
قدرتی دورانیے یعنی جسمانی گھڑی (سرکاڈیئن کالک) بگڑنے سے دل پر منفی اثرات
بھی سامنے ٓائے ہیں۔
اس کے بعد ہارورڈ میڈیکل اسکول کے سائنسدانوں نے نوجوان اور صحت مند رضا
کاروں کو بھرتی کرکے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک کو دن میں کام
کرایا گیا اور ان ہی اوقات میں کھانا پینا فراہم کیا۔ دوسرے گروہ کو رات میں جاگنے کو
کہا اور انہی اوقات میں کھانا دیا گیا۔ یہ عمل کل 14روز تک دہرایا گیا۔
سب سے پہلے دونوں گروہوں کے خون میں گلوکوز کی مقدار نوٹ کی گئی۔ اب جن
لوگوں نے دو ہفتے شب بیداری میں گزارے اور رات کو کھانا کھایا تو پہلے کے مقابلے
گلوکوز کی شرح ساڑھے چھ فیصد بڑھی ہوئی دیکھی گئی۔
ہارورڈ کے پروفیسر فرینک اے جے ایل نے یہ تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری
تحقیق سے عیاں ہے کہ بے وقت کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھتی ہے لیکن
انہوں نے اس ضمن میں مزید تحقیق پر زور دیا۔
اب بھی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ رات کو کھانے کے بجائے رات جاگنے کا عمل زیادہ
مضر ہے کیونکہ یہ پورے بدن کے نظام کو تتربتر کردیتا ہے
https://www.express.pk/story/2255704/9812/
ویب ڈیسک
منگل 7 دسمبر 2021
]فائل-فوٹو[
کی ) (radiationایم ٓار ٓائی میں مریض کیلئے جوسب سے بڑا فائدہ ہے وہ تابکاری
غیر موجودگی ہے۔
ایم ٓارٓائی کے طریقہ کار میں تابکاری شامل نہیں ہوتی جس کے باعث مریض میں الرجک
رد عمل کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ الرجک ر ِدعمل کا امکان سی ٹی اسکین اورایکسرے میں
بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں آئیوڈین پر مبنی مادے استعمال کیے جاتے ہیں۔
دوسرا بڑا فائدہ جو سی ٹی اسکین اور ایکسرے میں نہیں ہوتا ،وہ ہے وضاحت اور شفافیت۔
ایم ٓار ٓائی جسم کی نازک بافتوں کے ڈھانچے کی انتہائی واضح اور تفصیلی تصاویر پیش
کرتا ہے جو کہ دیگر امیجنگ ٹیکنالوجی سے حاصل نہیں ہوتا۔
مذکورہ باال تشخیصی طریقہ کار ایسی صورتوں ±میں اور بھی ضروری ہوجاتا ہے جب
ڈاکٹروں کو متاثرہ نازک بافتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایم ٓار
ٓای سی ٹی اسکین وغیرہ سے بہتر ٓاپشن ہے۔
اسی حوالے سے سی ٹی اسکین کے بارے میں اگر مختصراً کہاجائے تو ایک ہی بات کافی
ہے کہ یہ اپنے طریقہ کار کے حساب سے کامل نہیں ہے۔ کمپیوٹیڈ ٹوموگرافی (سی ٹی
اسکین) میں مریض کو تابکاری سے پہنچنے واال نقصان ایکسرے سے 1000گنا زیادہ
ہوتا ہے۔
اسکین سے حاصل شدہ تصاویر تفصیلی اور واضح نہیں ہوتیں اور ڈاکٹر مرض سے CT
متعلق اہم معلومات سے محروم ہو سکتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2256081/9812/
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
نئی دہلی :ٹیکنالوجی کی دنیا میں آئے دن جدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دنیا سمٹ کر
انسان کے ہاتھ میں آچکی ہے ،اب اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کچھ کہنے یا
لکھنے کے بجائے صرف سوچنے پر ہی کمپیوٹر ہمارا مطلوبہ کام شروع کردے گا۔
کمپیوٹر کی دنیا میں ایسا انقالب آنے جا رہا ہے جس کے بعد انسانی دماغ اور کمپیوٹر آپس
میں ربط ہوجائیں گے اور ہمارے سوچنے سے ہی کام ہوجایا کرے گا۔
ٰ
دعوی کیا ہے کہ ان ایک رپورٹ کے مطابق عالمی ارب پتی صنعت کار ایلن مسک نے
چپ نصب کر دے کی کمپنی ’نیورا لنک‘ ایک سال کے اندر انسانی دماغ میں ایک ایسی ِ
گی جس کے بعد دماغ اور چپ ایک دوسرے سے منسلک ہوکر بغیر کوئی کمانڈ لئے
صرف سوچنے سے ہی کام کرنا شروع کر دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق نیورا لنک نے ایک ایسا نیورل امپالنٹ تیار کیا ہے جو بغیر کسی
بیرونی ہارڈویئر کے دماغ کے اندر چل رہی سرگرمی کو ویئرلیس سے براڈ کاسٹ
کرسکتا ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران ایلن مسک نے بتایا کہ بندروں کے دماغ میں چپ نصب کرنے کا
تجربہ کامیاب رہا ہے۔ بندروں پر تجربہ کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تکنیک محفوظ
اور قابل اعتماد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نیورا لنک ڈیوائس کو محفوظ طریقہ سے لگایا اور ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ
تکنیک ان لوگوں کے لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی پریشانی
میں مبتال ہیں اور طویل مدت سے بستر پر ہیں۔
ایلن مسک نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص کو طاقت دینے کا
موقع ہے جو چل نہیں سکتا یا پھر اپنے ہاتھ سے کام نہیں کرسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ نیورا لنک نے اپریل 2021میں ایک بندر کے دماغ میں اپنی چپ نصب
کی تھی ،جس کے بعد بندر اپنے دماغ کا استعمال کر کے ویڈیو گیم کھیلنے کے اہل ہوگیا۔
بندر کے دماغ میں نصب ڈیوائس نے کھیلتے وقت معلومات فراہم کی جس کے سبب وہ
جان پایا کہ کھیل کے دوران چال کس طرح چلنی ہے۔
مسک نے کہا کہ چپ نصب کئے جانے کے باوجود بندر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی
تھی اور وہ دور سے ہی ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔
خیال رہے کہ نیورا لنک چھوٹے لچک دار دھاگوں سے وابستہ ایک چپ ہوتی ہے ،جسے
روبوٹ کے ذریعے دماغ میں سی دیا جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس دماغ سے پیدا ہونے والی لہروں
کی شناخت کرکے اس سے منسلک ہوجاتی ہے اور سوچ کے مطابق کام کرنے لگتی ہے۔
https://urdu.arynews.tv/brain-chip-alan-musk-modern-computer/
کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنٹسٹ Fڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے کہا
کہ رپورٹس Fبتاتی ہیں کہ جنوبی افریقا میں بچے زیادہ اومیکرون سے متاثر ہو رہے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامیناتھن نے خبردار کیا کہ فی الحال بچوں کے لیے
زیادہ ویکسینز دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع
کی ہے ،جس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں ،جب کیسز بڑھتے ہیں تو
بچے اور ٹیکے نہ لگوانے والے انفیکشن کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں ،ہم اب بھی اعداد و
شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ بچوں پر اومیکرون ±کے مختلف اثرات کا نتیجہ نکاال جا
سکے۔
عالمی ادارہ صحت کی سائنس دان نے کہا کہ تمام ممالک کو عمر اور عالقے کے لحاظ
سے ویکسین کے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے جو
چھوٹ گئے ہیں اور ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 18سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو
ویکسین لگائی جائے تاکہ وائرس کے پھیالؤ کو کم کیا جا سکے۔
ڈاکٹر سومیا نے کہا کہ ہم وبائی مرض میں مزید ڈیٹا شیئرنگ چاہتے ہیں اور ہمیں ان
ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف اقسام اور ڈیٹا کو ظاہر کر رہے ہیں،
اس کے لیے ہمیں ممالک کے درمیان ایک مربوط معاہدے کی ضرورت ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اومیکرون انفیکشن کی طبی خصوصیات کو سمجھنے کے یہ ابھی
ابتدائی دن ہیں ،کیسز میں اضافے اور اسپتال میں داخل ہونے کے درمیان ایک وقفہ ہے،
اسپتال میں داخل ہونے کی شرحوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو سے تین ہفتوں تک انتظار
کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ بیماری کتنی شدید ہے۔
https://urdu.arynews.tv/who-omicron-in-children/
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
نیویارک /برلن :امریکا اور جرمنی کے طبی ماہرین نے حال ہی میں کی جانے والی
ٰ
دعوی کیا ہے۔ تحقیق میں کرونا سے بچاؤ کی مؤثر ترین شے تالش کرنے کا
امریکا اور جرمنی کی دو یونیورسٹیز گوتی گین اور کورنیل کے ماہرین نے حال ہی میں
کرونا سے بچاؤ کے حوالے سے ایک تحقیقی مطالعہ کیا ،جسے جرنل پی این اے ایس
میں شائع کیا گیا ہے۔
تحقیق کے دوران ماہرین کو کچھ ایسے شواہد ملے جس کی بنیاد پر وہ یہ کہنے اور ماننے
پر مجبور ہوگئے کہ سماجی فاصلے سے زیادہ فیس ماسک کرونا سے محفوظ رکھ سکتا
ہے۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ کسی بھی قسم کا فیس ماسک پہنے والے شخص کے کرونا سے
متاثر ہونے کے امکانات 225فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں جبکہ تین میٹر کے سماجی
فاصلے سے کرونا پھیلنے کا خطرہ اس سے کہی زیادہ ہے۔
اس رپورٹ میں ماہرین نے بتایا کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ فیس
ماسک ہی استعمال کرے بلکہ کسی کپڑے سے بھی اگر منہ کو ڈھانپ لے گا تو اس کے
کرونا سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔
ماہرین نے بتایا کہ منہ ڈھانپنے کا عمل کرونا سے بہت زیادہ تحفظ فراہم کرنے ذریعہ بن
کر سامنے ٓایا ہے۔
تحقیق کے دوران جرمنی اورامریکا کے ماہرین نے کرونا سے متاثر ہونے والے چالیس
ہزار مریضوں سے بات چیت کی گئی ،جس میں یہ بات سامنے ٓائی کہ ان میں سے نوے
فیصد فیس ماسک استعمال کرنے سے گریزاں جبکہ دس فیصد سماجی فاصلے کا خیال
نہیں رکھ رہے تھے۔
یاد رہے کہ کرونا وبا کے بعد سے دنیا کے تقریبا ً تمام ہی ممالک نے عوامی مقامات پر
فیس ماسک کے استعمال کی ہدایات کی ہوئیں ہیں
https://urdu.arynews.tv/wearing-mask-better-social-distancing-scenario-
study-finds/
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
ہارورڈ میڈیکل اسکول میں مختلف ویرینٹس کو مانیٹر کرنے والے ڈاکFFٹر جیکب لیمیFFوکس
کا کہنا ہے کہ کرونا کا اومیکرون ویرینٹ دنیا بھر میں پھیلے ڈیلٹا کی جگہ لے سکتا ہے۔
تفصیالت کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ±کے جن±±وبی اف±±ریقی ممال±±ک میں
پھیلنے اور دنیا بھر کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد ،سائنس دان بے چینی س±±ے
ایک ایسی جنگ کو دیکھ رہے ہیں جو وبائی مرض کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔
سائنس دان اب اس سوال کا ج±واب تالش ک±ر رہے ہیں کہ کی±ا اومیک±رون ڈیلٹ±ا کی جگہ لے
سکتا ہے ،کچھ سائنس دان جنوبی افریقا اور برطانیہ کے اعداد و ش±±مار ک±±و دیکھ±±تے ہ±±وئے
کہتے ہیں کہ اومیکرون ایسا کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر جیکب لیمی±وکس ک±ا کہن±ا ہے کہ اگ±رچہ ابھی ابت±دائی دن ہیں لیکن اع±داد و ش±مار میں
تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے ،جس سے پتا چلتا ہے کہ اگر س±±ب جگہ±±وں پ±±ر نہیں
تو اومیکرون بہت سے مقامات پر ڈیلٹا سے مقابلہ کر سکتا ہے۔
لیکن دوسرے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اومیکرون ڈیلٹ±±ا س±±ے
زیادہ مؤثر طریقے سے پھیلے گا ،میو کلینک میں کلینیکل وائرولوجی کے ڈائریکٹر میتھیو
بنیکر کا کہنا ہے کہ امریکا میں ڈیلٹا میں نمای±±اں اض±±افہ ہ±±وا ،کی±±ا اومی ک±±رون اس کی جگہ
لے لے گا ،مجھے لگتا ہے کہ ہمیں تقریبا ً دو ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا۔
فی الوقت اومیکرون ±کے بارے میں بہت سے اہم سواالت کے جواب±±ات نہیں دیے گ±±ئے ہیں،
کہ کیا وائرس ہلکی یا زیادہ شدید بیماری ک±±ا س±±بب بنت±±ا ہے ،اور یہ ماض±±ی میں کرون±±ا س±±ے
بیمار ہونے والوں یا ویکسین لگوانے والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟
https://urdu.arynews.tv/can-omicron-replace-the-delta-variant/
کرونا ویکسین کی دو اور بوسٹر ڈوز لگوانے والے 70ڈاکٹرز اور
نرسز کو وائرس کی تشخیص
ویب ڈیسک
دسمبر 7 2021
میڈریڈ :اسپین کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں طبی فرائض انجام دینے والے ڈاکٹرز اور
نرسوں سمیت 70مالزمین کو کرونا کی تشخیص ہوئی ہے۔
بین االقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اسپین کے عالقے ملگا میں قائم یونیورسٹی ریجنل
اسپتال کے مالزمین نے حال ہی میں منعقد ہونے والی کرسمس پارٹی میں شرکت کی تھی۔
اس پارٹی کا انعقاد یکم دسمبر کو ہوا ،جس میں 173افراد نے شرکت کی ،جن میں سے
68ڈاکٹرز اور نرسوں کو بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔
محکمہ صحت کے مطابق مذکورہ ڈاکٹرز اور نرسز اسپتال کے ٓائی سی یو میں ذمہ داریاں
انجام دے رہا تھا۔
حکام نے بتایا کہ جن کو کرونا کی تشخیص ہوئی انہوں نے ویکسین کی دونوں خوراکوں
کے عالوہ تیسری بوسٹر ڈوز بھی حاصل کی تھی۔ بوسٹر ڈوز کے بعد کرونا کی تشخیص
کو ماہرین نے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے شہریوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی
ہدایت کی ہے۔
کرونا سے متاثر ہونے والے طبی عملے کو بالکل معملی سی عالمات تھیں۔
اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کرسمس کی
تقریبات میں شرکت سے گریز کریں اور اپنی مصروفیات کو محدود کرلیں۔
محکمہ صحت نے یہ بھی بتایا کہ اب تک کرونا کی نئی قسم اومی کرون کے پانچ کیسز
سامنے ٓاچکے ہیں ،متاثرہ افراد میں سے کوئی مقامی نہیں بلکہ مسافر جنوبی افریقا اور
اسپین سے فرانس پہنچے تھے۔
https://urdu.arynews.tv/nearly-70-icu-medics-spanish-hospital-test-
positive-covid-after-christmas-party/
کورونا ویکسین کی خاص خوراکیں کس طرح مؤثر ہیں؟ تحقیق میں بڑا
انکشاف
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
کورونا ویکسینز Fپر تحقیق کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کورونا ویکسین
کی پہلی خوراک کے بعد دو مخصوص خوراکوں سے وباء سے بچاؤ کافی حد تک ممکن
ہے۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ ایسٹرا زینیکا یا
فائزر کوویڈ ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد دوسرا ڈوز موڈرنا یا نووا ویکس ویکسینز
کا استعمال کرنا اس وبائی مرض کے خالف زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرتا ہے۔
ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت ہونے والی کوم کوو تحقیق میں مختلف کوویڈ ویکسینز
کے امتزاج سے مدافعتی نظام پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق میں شامل رضاکاروں کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسینز پہلی خوراک کے طور پر
استعمال کرائی گئی اور نو ہفتے بعد نووا ویکس یا موڈرنا ویکسینز کی دوسری خوراک دی
گئی۔
تحقیق میں شامل 1070افراد کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات سامنے نہیں ٓائے۔
محققین نے بتایا کہ اس طرح کی تحقیقی رپورٹس کی بدولت ہمارے سامنے مختلف کووڈ
ویکسینز کو ایک ساتھ استعمال کرنے کے حوالے سے مکمل تصویر ابھر کر سامنے ٓارہی
ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب خلیاتی مدافعت کی بات ٓاتی ہے تو ایسٹرا زینیکا ویکسین کو بطور
پہلی خوراک کے بعد دیگر ویکسینز کا استعمال ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں مدد
فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح جس حد تک جلد ممکن ہوا کووڈ 19سے بچانے کے لیے
دنیا کی ویکسینیشن ممکن ہوسکے گی۔
تحقیق کے مطابق ایسٹرا زینیکا ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد اسی کی دوسری خوراک
کی بجائے موڈرنا یا نووا ویکس کا استعمال زیادہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز ردعمل کا باعث
بنتا ہے۔
فائرز کی 2خوراکوں کی بجائے فائزر اور موڈرنا کا امتزاج زیادہ ٹھوس اینٹی باڈی اور
ٹی سیلز ردعمل پیدا کرتا ہے۔فائزر اور نووا ویکس ویکسینز کا امتزاج ایسٹرا زینیکا
ویکسین کی 2خوراکوں سے زیادہ اینٹی باڈیز بناتا ہے مگر فائزر کی 2خوراکوں کے
مقابلے میں کم اینٹی باڈیز اور ٹی سیل ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
ان رضاکاروں کے خون کے نمونوں پر وائرس کی اصل ،بیٹا اور ڈیلٹا اقسام کے خالف
ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔ محققین نے وائرس کی اقسام کے خالف
ویکسینز کی افادیت میں کمی کو دیکھا اور یہ تسلسل مکس این میچ شیڈول میں برقرار رہا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک شیڈول میں مختلف ویکسینز کا استعمال ہم نے کیا یعنی ایم ٓار این
اے ویکسینز ،وائرل ویکٹر ویکسینز یا پروٹین پر مبنی ویکسینز ،جو ویکسینیشن کا ایک
نوول طریقہ کار ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النسیٹ میں شائع ہوئے ،تحقیق کے نتائج سے ان
ویکسینز کے لچک دار استعمال کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو کہ ان ویکسینز کو برق
رفتاری سے لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-medical-research/
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
امریکا میں ایک تحقیق میں ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی دیکھی گئی ،یہ تحقیق
1900سے زائد افراد پر کی گئی جو موٹاپے کا شکار تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی
ذیابیطس کا مریض نہیں تھا۔
تحقیق کے دوران تقریبا ً نصف رضاکاروں کو ہفتے میں صرف ایک بار سیما گلوٹائیڈ نامی
دوا کی صرف 2.4ملی گرام مقدار بذریعہ انجکشن دی گئی ،ذیا بیطس کی یہ دوا اوزیمپک
کے نام سے فروخت کی جاتی ہے۔
باقی کے نصف رضاکاروں کو سیماگلوٹائیڈ اوزیمپک کے نام پر کسی دوسرے بے ضرر
محلول کا انجکشن (پالسیبو) دیا گیا۔
تقریبا ً دو سال جاری رہنے والی ان طبی ٓازمائشوں میں شریک تمام رضاکاروں نے دوا
ت زندگی بھی اپنائے رکھے۔
کے ساتھ ساتھ صحت بخش معموال ِ
مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں نے ہفتے میں ایک بار 2.4ملی گرام
سیماگلوٹائیڈ بذریعہ انجکشن لی تھی ،ان میں سے دو تہائی کا وزن 20فیصد تک کم ہوا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ شروع ہونے سے پہلے اگر کسی رضاکار کا وزن 200پونڈ
تھا تو 68ہفتے تک یہ دوا لینے اور صحت بخش معموالت زندگی برقرار رکھنے کے بعد،
اس کا وزن 40پونڈ کم ہو کر 160پونڈ رہ گیا تھا۔
ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے دوا روکنے کے بعد بھی صحت بخش
معموالت زندگی برقرار رکھے ،ان کے وزن میں ٓائندہ ایک سال تک کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
یہ کامیابی اتنی غیرمعمولی ±ہے کہ سیماگلوٹائیڈ تیار کرنے والی یورپی فارماسیوٹیکل
کمپنی نووو نورڈسک نے وزن کم کرنے کےلیے اسے علیحدہ سے فروخت کرنے کی
اجازت طلب کرلی ہے
https://urdu.arynews.tv/ozempic-for-diabetes-and-weight-loss/
ویب ڈیسک
دسمبر 07 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی
ایسٹرا زینیکا یا فائزر کووڈ ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد دوسرا ڈوز موڈرنا یا نووا
ویکس ویکسینز کا استعمال کرنا اس وبائی مرض کے خالف زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل
پیدا کرتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت ہونے والی کوم کوو تحقیق میں مختلف کووڈ ویکسینز
کے امتزاج سے مدافعتی نظام پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق میں شامل رضا کاروں کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسینز پہلی خوراک کے طور پر
استعمال کرائی گئی اور 9ہفتے بعد نووا ویکس یا موڈرنا ویکسینز کی دوسری خوراک دی
گئی۔
تحقیق میں شامل 1070افراد کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات سامنے نہیں ٓائے۔
محققین نے بتایا کہ اس طرح کی تحقیقی رپورٹس کی بدولت ہمارے سامنے مختلف کووڈ
ویکسینز کو ایک ساتھ استعمال کرنے کے حوالے سے مکمل تصویر ابھر کر سامنے ٓارہی
ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب خلیاتی مدافعت کی بات ٓاتی ہے تو ایسٹرا زینیکا ویکسین کو بطور
پہلی خوراک کے بعد دیگر ویکسینز کا استعمال ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں مدد
فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح جس حد تک جلد ممکن ہوا کووڈ 19سے بچانے کے لیے
دنیا کی ویکسینیشن ممکن ہوسکے گی۔
تحقیق کے مطابق ایسٹرا زینیکا ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد اسی کی دوسری خوراک
کی بجائے موڈرنا یا نووا ویکس کا استعمال زیادہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز ردعمل کا باعث
بنتا ہے۔
فائرز کی 2خوراکوں کی بجائے فائزر اور موڈرنا کا امتزاج زیادہ ٹھوس اینٹی باڈی اور
ٹی سیلز ردعمل پیدا کرتا ہے۔
فائزر اور نووا ویکس ویکسینز کا امتزاج ایسٹرا زینیکا ویکسین کی 2خوراکوں سے زیادہ
اینٹی باڈیز بناتا ہے مگر فائزر کی 2خوراکوں کے مقابلے میں کم اینٹی باڈیز اور ٹی سیل
ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
ان رضاکاروں کے خون کے نمونوں پر وائرس کی اصل ،بیٹا اور ڈیلٹا اقسام کے خالف
ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔
محققین نے وائرس کی اقسام کے خالف ویکسینز کی افادیت میں کمی کو دیکھا اور یہ
تسلسل مکس این میچ شیڈول میں برقرار رہا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک شیڈول میں مختلف ویکسینز کا استعمال ہم نے کیا یعنی ایم ٓار این
اے ویکسینز ،وائرل ویکٹر ویکسینز یا پروٹین پر مبنی ویکسینز ،جو ویکسینیشن کا ایک
نوول طریقہ کار ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النسیٹ میں شائع ہوئے۔
تحقیق کے نتائج سے ان ویکسینز کے لچکدار استعمال کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو کہ
ان ویکسینز کو برق رفتاری سے لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا
https://www.dawnnews.tv/news/1173708/
دن بھر میں 10منٹ کا یہ کام دماغی صحت کے لیے فائدہ مند
ویب ڈیسک
دسمبر 07 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی
عمر بڑھنے کے ساتھ اپنے دماغ کو جوان رکھنا چاہتے ہیں؟ روزانہ چند منٹ دوڑنے کے
لیے نکال لیں۔
یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
سکوبا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ صرف 10منٹ معتدل شدت
کے ساتھ دوڑنا دماغ کے اس حصے کے لیے خون کی روانی میں اضافہ کرتا ہے جو
مزاج اور اہم افعال کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ایسے واضح شواہد پہلے ہی دریافت ہوچکے ہیں کہ جسمانی سرگرمیوں کے متعدد فوائد
ہوتے ہیں جیسے مزاج خوشگوار ہوتا ہے مگر اکثر تحقیقی رپورٹس ±میں دوڑ کے اثرات
پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے محققین نے جاگنگ یا کسی بھی شکل
میں دوڑنے سے دماغی افعال کو کنٹرول کرنے والے حصوں پر مرتب اثرات پر زیادہ کام
نہیں کیا تھا۔
حرکت ،توازن اور ٓاگے بڑھنے کے لیے دماغی افعال کے کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے
اور اس کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا منطقی ہے کہ اس سے دماغی سرگرمیوں میں اضافہ
ہوتا ہے اور فائدہ مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس خیال کی جانچ پڑتال کے لیے محققین نے رضاکاروں کو مختلف ٹاسک دیئے اور ان
کے دوران دماغی سرگرمیوں میں تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ 10منٹ تک معتدل شدت سے دوڑنے سے دماغی افعال میں نمایاں
بہتری دیکھنے میں ٓائی۔
اسی طرح رضاکاروں کے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوئے جس سے عندیہ مال
کہ یہ عادت ڈپریشن کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
محققین کو توقع ہے کہ نتائج سے ذہنی صحت کے لیے مؤثر طریقہ عالج کو تشکیل دینے
میں مدد مل سکے گی
https://www.dawnnews.tv/news/1173705/
یا ہللا رحم ۔۔ کرونا وائرس کی خطرناک ترین قسم پاکستان پہنچ گئی ،
پہال کیس کس شہر میں رپورٹ ہوا
09/12/2021
کراچی (نیوز ڈیسک) کورونا وائرس کی قسم اوپی کرون پاکستان پہنچ گیا ،اس کا پہال
کیس کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں بتایا گیا ہے۔ کورونا وائرس کا پہال کیس بھی
کراچی بھی کراچی میں ہی سامنے ٓایا تھا۔کراچی کے
اس نجی ہسپتال نے خاتون مریضہ میں اومی کرون کی تصدیق کی ہے۔اس حوالے سے
بیرون ملک سے ٓائی ہیں اور
ِ محکمٔہ صحت سندھ کے حکام کے مطابق متاثرہ خاتون
کورونا پازیٹو ہیں۔ صوبائی محکمٔہ صحت کے حکام نے بتایا کہ نجی اسپتال سے متاثرہ
خاتون کی ٹریول ہسٹری معلوم کر رہے ہیں۔حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون کی
ٹریول ہسٹری معلوم کی جا رہی ہے ،متاثرہ خاتون کی رشتے داروں اور ملنے والوں کا
کورونا ٹیسٹ ہو گا۔۔صوبائی پارلیمانی سیکریٹری صحت سندھ قاسم سومرو کا میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کورونا کے اومی کرون ویرینٹ کا ہمارا پاس پہال ٹیسٹ
مثبت ٓایا ہے۔اس حوالے سےقاسم سومرو نے کہا کہ انٹرنیشنل فالئٹس کھلی ہونے کے
باعث اومی کرون ویرینٹ کا ہونا ظاہر تھا۔۔۔۔۔۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202112-130343.html
فائزر کی بوسٹر خوراک اومی کرون کے خالف موثر دفاع ہے ،فائزر
فائزر کے چیف ایگزیکٹیو Qالبرٹ بورال نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اومی کرون
کے خالف ایک مخصوص ویکسین تیار کر رہے ہیں جو 100دنوں کے اندر ڈیلیوری
کے لیے تیار ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں اومی کرون ویرینٹ کا پہال کیس رپورٹ ہو گیا ،یہ کیس کراچی
کے نجی اسپتال میں رپورٹ ہوا ہے۔
نجی اسپتال نے خاتون مریضہ میں اومی کرون کی تصدیق کی ہے۔
محکمٔہ صحت سندھ کے حکام کے مطابق متاثرہ خاتون بیرو ِن ملک سے ٓائی ہیں اور
کورونا پازیٹو ہیں
https://jang.com.pk/news/1022387
اومیکرون ویرینٹ ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک نہیں،عالمی ادارہ صحت
اسٹاف رپورٹر
دسمبر 09 2021 ،
نیویارک (جنگ نیوز )کورونا وائرس کا اومی کرون ویرینٹ ،ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ
خطرناک نہیں ہے ،عالمی ادارٔہ صحت کا کہنا ہے کہ اومی کرون کے خالف موجودہ
ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان نہیں۔
https://e.jang.com.pk/detail/11014
ویب ڈیسک
جمعرات 9 دسمبر 2021
روزانہ دہی استعمال کرنے سے ہاضمہ درست اور ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں جبکہ صحت
)بھی اچھی رہتی ہے۔
ایڈیلیڈ :امریکی اور ٓاسٹریلوی سائنسدانوں نے ایک مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ
ہائی بلڈ پریشر کے مریض اگر روزانہ تھوڑی سی مقدار میں دہی کھا لیا کریں تو ان کا بلڈ
پریشر معمول پر رہے گا۔
یہ تحقیق 915بالغ افراد پر کی گئی جس میں ان کے روزمرہ معموالت ،صحت اور کھانے
پینے کی عادات سے متعلق تفصیلی سواالت کیے گئے۔
ان میں سے جن افراد نے کہا کہ وہ روزانہ تھوڑی بہت مقدار میں دہی ضرور کھاتے ہیں،
ان کی بھاری اکثریت کا بلڈ پریشر بھی معمول کے مطابق نوٹ کیا گیا۔
اس کے برعکس ±جو لوگ دہی نہیں کھاتے ،ان کی نمایاں تعداد میں ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ
دیکھا گیا۔
واضح رہے کہ عمومی صحت کے حوالے سے دہی کی خوبیاں ہزاروں سال سے معلوم
ہیں جبکہ جدید تحقیقات سے بھی ان میں سے بیشتر کی تصدیق ہورہی ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کو دنیا بھر میں ’’خاموش قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ متاثرہ شخص
کےلیے بعد میں دل ،شریانوں اور دماغ کی مختلف بیماریوں کی وجہ بن کر انہیں موت
کے منہ میں بھی پہنچا سکتا ہے۔
البتہ ’’انٹرنیشنل ڈیری جرنل‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے
مصنفین کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر کے معاملے میں دہی سے حاصل ہونے والے فوائد کو
سمجھنے کےلیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کم چکنائی والی دہی کی صرف 100گرام مقدار
استعمال کرنے سے ہاضمہ درست رہتا ہے ،ہڈیاں اور دانت مضبوط ہوتے ہیں جبکہ عام
طور پر صحت بھی اچھی رہتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2256431/9812/
ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
دنیا کو ِوڈ 19کی بد ترین وبا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے ،جو نئے ویرینٹ Fاومیکرون کی
صورت میں اب عالمی سطح پر لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔
ماہرین ایک طرف 50تبدیلیوں والی نئی کرونا قِسم کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کر
رہے ہیں کہ کیا یہ 2تبدیلیوں والے ویرینٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ شدید اور متعدی
ثابت ہوگا ،یا آخر کار کرونا وائرس تبدیلیوں سے گزرتا ہوا منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے،
یعنی کم زور ہو گیا ہے۔
دوسری طرف ،جب کہ اومیکرون ویرینٹ آسٹریلیا بھی پہنچ گیا ہے ،ماہرین کا کہنا ہے کہ
نئی لہر کا خوف لوگوں کے خیاالت میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے ،کیوں کہ لوگ پُرامید
ہو گئے تھے کہ اب وہ جلد ہی اپنے خوف سے پیچھا چھڑا لیں گے۔
ایسے میں یونیورسٹی ٓاف ویسٹرن ٓاسٹریلیا کے اسکول ٓاف سائیکلوجیکل سائنس میں
ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ ٓاسٹریلیا کے کرائسز سپورٹ سروس الئف کے ہیلپ
الئن پر صرف ما ِہ اگست ماہ میں روزانہ اوسطا ً 3ہزار 505کالز کی گئیں ،یہ کالیں
مختلف پریشانیوں میں مبتال شہریوں نے کیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ ملک کی 57سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد
میں سب سے زیادہ ہے ،جب کہ اس سال کے ٓاغاز سے 6الکھ 94ہزار 4سو پریشان
ٓاسٹریلوی شہریوں نے مدد کے لیے اس الئف الئن پر کال کیا۔
جیولی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکالت ،خراب رشتہ ،اکیال پن اور
خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق تھیں۔
https://urdu.arynews.tv/pandemic-increase-anxiety/
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
ٓاسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ ت ِھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کو ِوڈ نے
پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی ،سماجی اور مالی مشکالت بڑھا دی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر
کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں ،اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں
جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فکرمندی اور خوف کی وجہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ ٓاج ٓاپ نے اپنے دماغ کو
کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے ،کیا ٓاپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی
خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم
کچھ نہیں کر سکتے؟
کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے ،جس
کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ،ایسے میں ہم
غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ،اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر
مند رہتے ہیں۔
دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث
ہوتے ہیں ،ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں ،اس لیے جب ہم برا
محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں ٓاسانی سے ٓا جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا
ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور
معلومات سے بھر جائے ،ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں
تو ہمارے ذہن میں ٓاسانی سے منفی تصویریں اور خیاالت ابھرنے لگ جاتے ہیں ،جو بعد
میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں ،جس سے ہمیں ناامیدی
اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔
ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام
کرتا ہے ،وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں ،اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے
پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیاالت کم ہوتے ہیں۔
خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں
تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی ،لیکن پھر بھی ہمیں
ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے
رہنا چاہیے۔
جس سے خوشی محسوس ہو
چاہے کھانا پکانا ہو ،گیراج میں کام کرنا ہو ،سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو ،وہ
کام جس سے ٓاپ کو خوشی محسوس ہو ،اسے کرنے سے ٓاپ میں مثبت خیاالت پیدا ہوں
گے ،یہ کام ٓاپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا عالج
بھی کر سکتا ہے۔
دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے
انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے ،جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے ،گزشتہ
سال الک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر
دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں ،انھوں نے الک ڈاؤن میں اکیال پن
زیادہ محسوس کیا ،خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی عالمات کا سامنا کر
رہے تھے۔
دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور
منفی خیاالت کو دور رکھتی ہے ،ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد
کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔
غذائیت سے بھرپور Fخوراک
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے
حتی کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری انجام دینے ،اور ٰ
ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو
نیوٹرینٹس موجود ہوں ،طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے
نہایت ضروری ہوتے ہیں۔
مائیکرو نیوٹرینٹس ±ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی
انسانی جسم کو ضرورت ہے ،ان میں وٹامنز ,اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی
پیداوار ،مدافعتی افعال ،خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں ،جب کہ
معدنیات نشوونما ،ہڈی کی صحت ،مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار
ادا کرتے ہیں۔
جب کہ میکرونیوٹرینٹس ±میں کاربوہائیڈریٹس ،چکنائی اور پروٹین شامل ہیں ،یہ وہ چیزیں
جو بہت استعمال ہوتی ہیں ،یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار
رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں
https://urdu.arynews.tv/mental-health-during-covid-time/
اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کب تک دستیاب ہوگی؟
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے توقع ظاہر کی ہے کہ ٓائندہ برس مارچ تک کورونا کی
نئی قسم اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین دستیاب ہوگی۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کا کہنا
ہے کہ فائزر ویکسین کی تین خوراکیں اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے 57ممالک میں کورونا کی نئی
قسم اومیکرون کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے
جن کو اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی ہفتہ وار وبا کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اومی کرون سے پیدا ہونے
والی بیماری کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے 26نومبر کو اومی کرون ویرینٹ کا اعالن کیا تھا جس کا
پہال کیس جنوبی افریقہ میں سامنے ٓایا تھا۔
ا
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5دسمبر تک جنوبی افریقہ میں کورونا کیسز
کی تعداد 62ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے اور اسی طرح کی صورت حال زمبابوے،
موزمبیق ،نمیبیا ،لیسوتھو اور ایسواتینی میں بھی ہے۔
انفیکشن کے خطرے پر بات کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’ابتدائی جائزے میں
معلوم ہوا ہے کہ اومی کرون کی شکلیں تبدیل ہونے سے قدرتی مدافعت میں کمی ہو سکتی
‘ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس ایدہانوم کا کہنا ہے کہ اگرچہ اومی کرون سے
دوبارہ انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے تاہم اس کے اثرات ڈیلٹا سے کم ہوسکتے ہیں۔
https://urdu.arynews.tv/597530-2/
رات کی شفٹ اور بے وقت کھانے کا بڑا نقصان ،نئی تحقیق
ویب ڈیسک
دسمبر 8 2021
میساچوسٹس :طبی ماہرین نے ایک تازہ تحقیق کے بعد خبردار کیا ہے کہ رات کو دیر تک
جاگنے اور اس دوران کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کی اندرونی گھڑی ہمارے سونے جاگنے اور دیگر معموالت کو
طے کرتی ہے ،اگر ان میں کوئی بگاڑ آ جائے تو جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بوسٹن میں قائم ہارورڈ میڈیکل اسکول کے طبی ماہرین نے نوجوان اور صحت مند رضا
کاروں پر ایک ریسرچ اسٹڈی کی ہے ،جنھیں دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا ،ان میں سے
ایک کو دن میں کام کرایا گیا اور ان ہی اوقات میں کھانا پینا فراہم کیا گیا ،جب کہ دوسرے
گروہ کو رات میں جاگنے کو کہا گیا اور انہی اوقات میں کھانا دیا گیا۔
رضاکاروں سے یہ معمول 14روز تک دہرایا گیا ،اور پھر دونوں گروہوں کے خون میں
گلوکوز کی مقدار نوٹ کی گئی ،جن لوگوں نے دو ہفتے راتوں کو جاگ کر گزارے تھے،
اور رات ہی کو کھانا کھایا ،ان میں پہلے کے مقابلے میں گلوکوز کی شرح ساڑھے 6فی
صد بڑھی ہوئی دیکھی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو جاگنے اور کام کرنے سے جسم میں میٹابولزم متاثر ہوتا
ہے ،اور اس کا امراض قلب اور بلڈ پریشر سے تعلق دیکھا گیا ہے ،اسی طرح سونے اور
جاگنے کے قدرتی دورانیے یعنی جسمانی گھڑی (سرکاڈیئن کالک) بگڑنے سے دل پر
منفی اثرات بھی سامنے ٓائے ہیں۔
ہارورڈ اسکول کے پروفیسر فرینک اے جے ایل کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا
ہے کہ بے وقت کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھتی ہے ،تاہم اس ضمن میں مزید
تحقیق کی ضرورت ہے۔
https://urdu.arynews.tv/waking-up-late-at-night/
امید کی کرن :سائنسدانوں نے اومیکرون کا توڑ نکال لیا
ویب ڈیسک
دسمبر 9 2021
فارماسوٹیکل کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے
سد باب کیلئے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا ہے۔
دونوں ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق کوویڈ 19ویکسین کی کورونا وائرس کی نئی قسم
اومیکرون کے خالف افادیت کی ابتدائی تفصیالت جاری کردی گئی ہیں۔
فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ابتدائی لیبارٹری تحقیقی
رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون ±قسم
کو ناکارہ بناسکتی ہے۔ کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر میں بوسٹر ڈوز
فراہم کرنے کی مہمات میں تیزی ٓائے گی۔
بیان میں بتایا گیا کہ موجودہ ویکسین کی تیسری خوراک سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی
اینٹی باڈیز کی سطح میں 25گنا اضافہ ہوتا ہے ،اس سے لوگوں کو اومیکرون کے خالف
وائرس کی اصل اور دیگر اقسام جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔
کمپنیوں کے مطابق ٹی سیلز بھی اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین شدت
سے تحفظ فراہم کرتے ہیں مگر ان نتائج کے باوجود دونوں کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ
پراعتماد ہیں کہ اومیکرون کے خالف ویکسین کے مخصوص ورژن کو مارچ 2022تک
تیار کرلیا جائے گا۔
اس تحقیق میں فائزر ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے بلڈ پالزما کی
جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں
اومیکرون کے خالف وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے
مقابلے میں 25گنا کمی ٓائی۔ یہ نتائج اومیکرون ±کے خالف ابتدائی ڈیٹا کی سیریز کا حصہ
ہیں۔
اس سے قبل 7دسمبر کو افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا
وائرس کی نئی قسم اومیکرون ±ویکسینیز اور قدرتی بیماری سے ملنے والے تحفظ پر
جزوی حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ کورونا کی یہ نئی قسم کا مدافعتی نظام سے مکمل طور
پر نہیں بچ پاتی ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز کے استعمال کے بعد وقت گزرنے سے
تحفظ میں ٓانے والی کمی کو اینٹی باڈیز بڑھا کر بحال کیا جاسکتا ہے۔
محققین نے کہا کہ اس حوالے سے کلینکل نتیجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے مگر نتائج سے
اس خیال کو ٹھوس تقویت ملتی ہے کہ بوسٹر ویکسینیشن اومیکرون ±سے تحفظ کے لیے
مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
فائزر کے سی ای او البرٹ بورال نے بتایا کہ ابتدائی ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ویکسین
کی تیسری خوراک سے بیماری کے خالف تحفظ میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
بائیو این ٹیک کے سی ای او ایغور شاہین نے کہا کہ تیسری خوراک کے ابتدائی ڈیٹا سے
ثابت ہوتا ہے کہ اس سے بیماری کے خالف مناسب تحفظ مل سکتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ
ڈیٹا ابتدائی ہے اور دونوں کمپنیوں کی جانب سے کورونا کی اس نئی قسم پر تحقیق کا
سلسلہ جاری رہے گا۔
کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین کی 2خوراکیں استعمال کرنے والے
افراد کو بھی اومیکرون قسم سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا
ہے ،جس کی وجہ مدافعتی نظام کا وہ حصہ ہے جسے ٹی سیلز ہے جو وائرس کی اقسام
میں ہونے والی میوٹیشنز سے متاثر نہیں ہوتا
https://urdu.arynews.tv/corona-variant-omicron-virus-covid-vaccine/
ویب ڈیسک
دسمبر 9 2021
جنیوا :عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ Fکورونا وائرس
کی دوسری اقسام سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین نے بتایا کہ ابتدائی جائزے سے پتا چال اومیکرون ڈیلٹا
کے مقابلے میں شدید بیماری کا سبب نہیں لیکن یہ وائرس دوسری اقسام سے زیادہ تیزی
سے پھیل رہا ہے۔
ماہرین نے کہا کہ اومیکرون ±کے خالف موجودہ ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان نہیں،
تاہم نئے ویرینٹ سے متعلق یہ انتہائی ابتدائی جائزہ ہے ،محتاط ضروری ہے۔
دوسری جانب ادویہ ساز کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ
اومیکرون کے سد باب کےلیے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا
ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک
اومیکرون قسم کو ناکارہ بناسکتی ہے ،کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر
میں بوسٹر ڈوز فراہم کرنے کی مہمات میں تیزی ٓائے گی۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے
https://urdu.arynews.tv/who-on-omicron/
کوریا ہنٹنگٹن :العالج بیماری جو مریض کو چلتی پھرتی الش بنا دیتی
ہے
ویب ڈیسک
دسمبر 9 2021
کوریا ہنٹنگٹن ایک ایسی اعصابی بیماری ہے جس میں خاص طور پر جسم کے مختلف
حصوں میں ایسی حرکت ہوتی ہے جس پر بے قابو پانا مریض کے بس میں نہیں ہوتا ،یہ
مرض اکثر 30سے 40سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
ہنٹنگنگ کا مرض جو پہلے “موروثی سینٹ وٹوس ڈانس” کے نام سے جانا جاتا تھا ،اس
بیماری کی وجہ جینیاتی مواد کے تغیر میں ہوتا ہے۔ عالمات میں چہرے کے بے قابو
اظہار نگلنے اور بولنے میں دشواری اور اعضاء کی ضرورت سے زیادہ حرکت شامل
ہیں۔
ہنٹنگنگ کی بیماری پہلی بار انیسویں صدی کے آخری عشروں سامنے آئی تھی آج تک اس
کے متعدد عالج کے طریقے موجود ہیں جن کا مقصد صرف عالمات کو دور کرنا ہے تاہم
آج تک کوئی مکمل عالج ممکن نہیں ہے۔ ہنٹنگٹن ایک موروثی بیماری ہے جو خودکار
اور بااثر طریقے سے والدین کے ذریعے بچے تک پہنچ جاتی ہے۔
ہے ،اس کا مطلب ہے کہ عیب دار جین ایک جنسی کروموسوم ایکس یا وائی پر واقع نہیں
ہے اور اس طرح پہلے سے ہی ظاہر ہوسکتا ہے اگر صرف والد یا والدہ میں سے کوئی
ایک اس مرض کا شکار ہو تو بچے میں اس مرض کے پیدا ہونے کا 50فیصد خطرہ ہوتا
ہے۔
شکایات اور عالمات
غیر منطقی اور بے قابو حرکتیں اکثر ہنٹنگٹن کی بیماری کی پہلی عالمت ہوتی ہیں ،ابتدائی
مراحل میں یہ بیماری بمشکل سمجھے جانے والے پٹھوں کے ٹکڑوں کے ذریعے نمایاں
ہوتی ہے۔ جیسے جیسے یہ مرض بڑھتا جاتا ہے مریض کیلئے چلنے پھرنے اور روزمرہ
کی سرگرمیاں انجام دینا نہایت مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔
مرض بڑھ جانے کی صورت میں مریضوں کا جسم پر کنٹرول بالکل ختم ہوجاتا ہے ،زبان
اور پٹھوں کی حرکت بھی بند ہوجاتی ہے اور کھانا کھانا بھی انتہائی دشوار اور نگلنے میں
دم گھٹنے کا سبب بن سکتی ہے۔
ہنٹنگٹن کی بیماری سے انسان کی نفسیات اور رویہ بھی متاثر ہوتا ہے وہ چہرے کے
تاثرات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے
https://urdu.arynews.tv/huntingtons-disease-walking-dead-mysterious/
اومیکرون کے خالف ویکسینیشن کتنی مٔوثر ہوگی؟ پہال ڈیٹا سامنے ٓاگیا
ویب ڈیسک
دسمبر 09 2021
انہوں نے کہا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ ناگزیر ہے کہ ہر فرد کی کووڈ سے تحفظ کے
لیے ویکسینیشن ہو۔
یہ انسانی مدافعتی نظام کے اومیکرون سے نمٹنے کے حوالے سے پہلی تحقیق ہے اور اس
کے لیے محققین نے فائزر ویکسین استعمال کرنے والے 12افراد کے خون کے نمونوں
میں اومیکرون کی جانچ پڑتال کی۔
ان نمونوں میں مدافعتی ردعمل کا موازنہ وائرس کی ابتدائی قسم سے کیا گیا۔
تحقیق میں شامل 12میں سے 6افراد ایسے تھے جو جنوبی افریقہ میں کورونا کی پہلی
لہر کے دوران متاثر ہوئے تھے اور بعد میں ویکسینیشن ہوئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے محفوظ رہنے والے مگر ویکسینیشن کرانے
والے افراد کے خون میں اومیکرون کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل
قسم کے مقابلے میں 41گنا کمی ٓائی مگر یہ نئی قسم مکمل طور پر مدافعتی نظام سے نہیں
بچ سکی۔
اس کے مقابلے میں جن افراد کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور وہ ماضی میں کووڈ سے
متاثر بھی ہوئے تھے ،ان کے نمونوں میں اومیکرون کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی
سطح زیادہ تھی ،جس سے عندیہ مال کہ ویکسین کا بوسٹر ڈوز بیماری سے تحفظ کے لیے
مؤثر ہوسکتا ہے۔
سائنسدانوں کو پہلے ہی اومیکرون کے خالف تحفظ کی شرح میں کمی کی توقع تھی مگر
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اینٹی باڈیز سے ہٹ کر ٹی سیلز کورونا کی اس نئی قسم کے
خالف زیادہ بہتر کام کرسکیں گے اور بیماری کی سنگین شدت سے بچائیں گے۔
محققین نے کہا کہ اومیکرون پر تحقیق کے نتائج ہماری توقعات سے بہتر ہیں ،جتنی زیادہ
اینٹی باڈیز ٓاپ حاصل کریں گے ،اتنا زیادہ بیماری سے تحفظ ملنے کا امکان ہے۔
امپرئیل کالج کے امیونولوجی پروفیسر ڈینیئل ٓالٹمن جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے ،نے
کہا کہ تحقیق سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ جن لوگوں کی ویکسینیشن نہیں ہوئی یا جن
افراد نے ویکسینز کی 2خوراکیں استعمال کی ہیں ،وہ اومیکرون کے مقابلے میں کافی
کمزور ہیں ،مگر جن افراد کو بوسٹر ڈوز دیا گیا یا ویکسینیشن کے ساتھ قدرتی بیماری کا
سامنا بھی کرچکے ہیں ،ان کو بیماری سے زیادہ تحفظ حاصل ہے ،چاہے اینٹی باڈیز کی
سطح میں 41گنا کمی ہی کیوں نہ ٓائے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر
جاری کیے گئے۔
دوسری جانب سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ
اومیکرون کے خالف وائرس کی اصل قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کی افادیت میں
اوسطا ً 7گنا کمی ٓائی۔
مگر تحقیق میں لوگوں میں ویکسینیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں فرق بھی
دیکھنے میں ٓایا جیسے کچھ افراد کے خون کے نمونوں میں مدافعت میں کوئی کمی ریکارڈ
نہیں ہوئی جبکہ کچھ ایسے تھے جن کی اینٹی باڈیز کی سطح میں 25گنا سے زیادہ کمی
ٓائی۔
https://www.dawnnews.tv/news/1173756/
کورونا کی نئی قسم کے خالف فائزر ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت
کا ابتدائی ڈیٹا جاری
ویب ڈیسک
دسمبر 08 2021
—
فائزر اور بائیو این ٹیک نے اپنی تیار کردہ کووڈ 19ویکسین کی کورونا وائرس کی نئی
قسم اومیکرون کے خالف افادیت کا ابتدائی ڈیٹا جاری کردیا ہے۔
دونوں کمپنیوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ابتدائی لیبارٹری تحقیقی رپورٹس سے ثابت
ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون قسم کو ناکارہ بناسکتی
ہے۔
کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر میں بوسٹر ڈوز فراہم کرنے کی مہمات
میں تیزی ٓائے گی۔
بیان میں بتایا گیا کہ موجودہ ویکسین کی تیسری خوراک سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی
اینٹی باڈیز کی سطح میں 25گنا اضافہ ہوتا ہے۔
اس سے لوگوں کو اومیکرون ±کے خالف وائرس کی اصل اور دیگر اقسام جتنا ہی تحفظ
ملتا ہے۔
کمپنیوں کے مطابق ٹی سیلز بھی اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین شدت
سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
مگر ان نتائج کے باوجود دونوں کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ اومیکرون
کے خالف ویکسین کے مخصوص ورژن کو مارچ 2022تک تیار کرلیا جائے گا۔
اس تحقیق میں فائزر ویکسین کی 2خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے بلڈ پالزما کی
جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی 2خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں
اومیکرون کے خالف وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے
مقابلے میں 25گنا کمی ٓائی۔
یہ نتائج اومیکرون کے خالف ابتدائی ڈیٹا کی سیریز کا حصہ ہیں۔
اس سے قبل 7دسمبر کو افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ
کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ویکسینیز اور قدرتی بیماری سے ملنے والے تحفظ
پر جزوی حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ کورونا کی یہ نئی قسم کا مدافعتی نظام سے مکمل طور
پر نہیں بچ پاتی ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز کے استعمال کے بعد وقت گزرنے سے
تحفظ میں ٓانے والی کمی کو اینٹی باڈیز بڑھا کر بحال کیا جاسکتا ہے۔
محققین نے کہا کہ اس حوالے سے کلینکل نتیجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے مگر نتائج سے
اس خیال کو ٹھوس تقویت ملتی ہے کہ بوسٹر ویکسینیشن اومیکرون ±سے تحفظ کے لیے
مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
بائیو این ٹیک کے سی ای او ایغور شاہین نے کہا کہ تیسری خوراک کے ابتدائی ڈیٹا سے
ثابت ہوتا ہے کہ اس سے بیماری کے خالف مناسب تحفظ مل سکتا ہے۔
خیال رہے کہ یہ ڈیٹا ابتدائی ہے اور دونوں کمپنیوں کی جانب سے کورونا کی اس نئی قسم
پر تحقیق کا سلسلہ جاری رہے گا۔
کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین کی 2خوراکیں استعمال کرنے والے
افراد کو بھی اومیکرون قسم سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا
ہے ،جس کی وجہ مدافعتی نظام کا وہ حصہ ہے جسے ٹی سیلز ہے جو وائرس کی اقسام
میں ہونے والی میوٹیشنز سے متاثر نہیں ہوتا۔
https://www.dawnnews.tv/news/1173760/
ویب ڈیسک
دسمبر 08 2021
یہ انتباہ ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓایا جس کے مطابق الٹرا پراسیس غذاؤں کھانے
کی عادت ہارٹ اٹیک یا فالج کا باعث بن سکتی ہے ،بالخصوص دل کی شریانوں سے
جڑے امراض کے شکار افراد میں یہ دورے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔
الٹرا پراسیس غذاؤں کی اصطالح متعدد مصنوعات کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے ڈبل
روٹی ،فاسٹ فوڈز ،مٹھائیاں ،ٹافیاں ،کیک ،نمکین اشیا اور بریک فاسٹ سیرلز ،چکن اور
فش نگٹس ،انسٹنٹ نوڈلز ،میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ الٹرا پراسیس غذائیں کھانے کے عادی افراد میں دوسرے ہارٹ اٹیک
یا فالج کے دورے کا خطرہ دو تہائی حد تک بڑھ جاتا ہے اور اس بار وہ جان لیوا ثابت
ہوسکتا ہے۔
اٹلی میں ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ غذائیں اکثر ایسے اجزا سے بھرپور ہوتی
ہیں جو پاتھلیٹس اور بائی فینولز سے بھرپور ہوتے ہیں ،یہ ایسے کیمیکلز ہیں جن کو
پالسٹک کو لچکدار اور دیرپا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق ان غذاؤں میں اکثر مختلف فوڈ ایڈیٹیوز اور نیو فارمڈ مرکبات بھی شامل
ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر انسانی صحت کے لیے نقسان دہ ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ان غذاؤں سے دل کی شریانوں پر مخصوص اثرات مرتب نہیں
ہوتے بلکہ یہ پہلے سے موجود مسائل کی رفتار کو بڑھا دیتی ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل اگست 2021میں یونان کی ہاروکوپیو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ
غذا میں الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال امراض قلب کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
اس تحقیق میں الٹرا پراسیس غذاؤں اور دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے درمیان
تعلق کی جانچ پڑتال 10سال تک کی گئی۔
تحقیق کے لیے ایک سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا جو 2001سے 2012تک ہوا تھا
اور اس میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا تھا جو امراض قلب سے محفوظ تھے۔
ان افراد سے گزشتہ 7دن کے دوران کھائی جانے والی غذاؤں اور مشروبات کی تفصیالت
حاصل کی گئیں جبکہ دل کی صحت کے لیے مفید غذائی رجحانات کو جاننے کے لیے
سواالت کے جوابات حاصل کیے گئے۔
ان افراد کا جائزہ 10سال تک لیا گیا اور دیکھا گیا کہ ان میں امراض قلب بشمول ہارٹ
اٹیک ،انجائنا ،فالج ،ہارٹ فیلیئر اور دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے کیسز کو دیکھا۔
تحقیق میں شامل 2020افراد اوسطا ہر ہفتے 15بار الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال کرتے
تھے اور ان میں دل کی شریانوں سے جڑے 317واقعات رپورٹ ہوئے۔
محققین نے بتایا کہ جتنی زیادہ مقدار میں الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال ہوگا جان لیوا
امراض کا خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔
اس کے مقابلے میں گریوں ،مچھلی ،زیتون کے تیل ،پھلوں ،سبزیوں اور اناج کا زیادہ
استعمال جبکہ سرخ گوشت کا کم استعمال اس خطرے کو کم کرتا ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1173773/
https://www.dawnnews.tv/news/1173773/
اومیکرون Fسے ری انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ،ڈبلیو ایچ او
ویب ڈیسک
دسمبر 09 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی — شٹر اسٹاک فوٹو
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا
کی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ٓاسانی سے ایسے افراد کو متاثر
کرسکتی ہے جو ماضی میں اس بیماری کو شکست دے چکے ہوتے ہیں یا ویکسنیشن کرا
چکے ہیں ،مگر اس سے ہونے والی بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا
کہ جنوبی افریقہ سے سامنے ٓانے والے ڈیٹا سے اومیکرون ±قسم سے ری انفیکشن کے
خطرے میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بھی کچھ شواہد موجود ہیں جن کے مطابق اومیکرون سے ہونے
والی بیماری کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں معمولی ہوتی ہے۔
مگر انہوں نے زور دیا کہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت
ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہر جگہ مانیٹرنگ کو بڑھانے سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ
اومیکرون کس حد تک دیگر اقسام سے مختلف یا خطرناک ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ اگر اومیکرون ±سے متاثر افراد کی شدت معمولی ثابت
ہو بھی جائے تو بھی وائرس کے حوالے سے غفلت برتنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس
کے باعث ہالکتیں ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس نے اپنے پھیالؤ کے لیے خود کو
زیادہ بہتر بنایا ہے اور اسی لیے ہمیں پھیالؤ کے چینز کو روکنے کے لیے کوششوں کو
دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہے یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں کم خطرناک ہی کیوں نہ
ثابت ہو ،اگر وہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے تو وہ زیادہ افراد کو بیمار کرے گی جس
سے طبی نظام پر بوجھ بڑھے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے ویکسیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چاہے
ویکسینز اومیکرون کے خالف کم مؤثر ہی کیوں نہ ثابت ہوں ،جیسا کچھ ڈیٹا سے عندیہ
ملتا ہے ،مگر توقع ہے کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے خالف نمایاں تحفظ ملے
گا۔
ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ابتدائی تحقیقی رپورٹس پر شدید
ردعمل پر انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحقیقی رپورٹس چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں
اور وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے نتائج مختلف تحقیقی
رپورٹس میں مختلف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں محض وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر توجہ مرکوز کی
گئی مگر ہم جانتے ہیں کہ مدافعتی نظام اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیال میں یہ نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا کہ اینٹی باڈی ردعمل میں
کمی ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی کا باعث ہے ،ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں
جانتے۔
https://www.dawnnews.tv/news/117377
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا
کہ جنوبی افریقہ سے سامنے ٓانے والے ڈیٹا سے اومیکرون ±قسم سے ری انفیکشن کے
خطرے میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بھی کچھ شواہد موجود ہیں جن کے مطابق اومیکرون سے ہونے
والی بیماری کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں معمولی ہوتی ہے۔
مگر انہوں نے زور دیا کہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت
ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہر جگہ مانیٹرنگ کو بڑھانے سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ
اومیکرون ±کس حد تک دیگر اقسام سے مختلف یا خطرناک ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ اگر اومیکرون ±سے متاثر افراد کی شدت معمولی ثابت
ہو بھی جائے تو بھی وائرس کے حوالے سے غفلت برتنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس
کے باعث ہالکتیں ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس نے اپنے پھیالؤ کے لیے خود کو
زیادہ بہتر بنایا ہے اور اسی لیے ہمیں پھیالؤ کے چینز کو روکنے کے لیے کوششوں کو
دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہے یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں کم خطرناک ہی کیوں نہ
ثابت ہو ،اگر وہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے تو وہ زیادہ افراد کو بیمار کرے گی جس
سے طبی نظام پر بوجھ بڑھے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے ویکسیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چاہے
ویکسینز اومیکرون کے خالف کم مؤثر ہی کیوں نہ ثابت ہوں ،جیسا کچھ ڈیٹا سے عندیہ
ملتا ہے ،مگر توقع ہے کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے خالف نمایاں تحفظ ملے گا
۔
ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ابتدائی تحقیقی رپورٹس پر شدید
ردعمل پر انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحقیقی رپورٹس چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں
اور وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے نتائج مختلف تحقیقی
رپورٹس میں مختلف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں محض وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر توجہ مرکوز کی
گئی مگر ہم جانتے ہیں کہ مدافعتی نظام اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیال میں یہ نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا کہ اینٹی باڈی ردعمل میں
کمی ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی کا باعث ہے ،ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں
جانتے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1173776/
ویب ڈیسک
دسمبر 08 2021
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے ٓائی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ پیدائش کے بعد اولین ہفتے بچوں کے سیکھنے کے عمل کے ٓاغاز
جیسے سوچنے ،تصور کرنے اور ارگرد کی اشیا کو جاننے کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
سیکھنے کے اس عمل کو شعور بننے کا عمل بھی کہا جاتا ہے اور یہ سب ہماری ٓانکھوں
کے سامنے ہوتا ہے اور باپ اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
امپرئیل کالج لندن ،کنگز کالج لندن اور ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں ایسے
مردوں کی ویڈیوز بنائیں جو اپنے 3ماہ کے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
بعد ازاں جب وہ بچے 2سال کے ہوئے تو باپ کی جانب سے کتاب پڑھ کر سنانے کی
ویڈیوز بنائی گئیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ جن بچوں کو 3ماہ کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ بہت زیادہ
رابطے میں رہنے کا موقع مال ،انہوں نے 2سال کی عمر میں مختلف ٹیسٹوں میں ان بچوں
سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کو والد کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع
نہیں مال۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا کہ باپ کی جانب سے مطالعے کی سرگرمی بچوں کی توجہ ،مسائل
حل کرنے اور زبان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی ذہنی نشوونما اچھی ہوتی ہے۔
محققین کے خیال میں بچے کے سماجی رویے پر والد سے تعلق کافی اثرانداز ہوتا ہے۔
اس سے قبل دسمبر 2020میں امریکا کی روٹگرز ±یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا
کہ اپنے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بن جانے والے باپ ان کی ذہنی صحت اور رویوں کو
بہتر بنانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا کہ کم آمدنی والے خاندانوں میں لڑکپن میں پہنچ جانے والے بچوں
کے ساتھ اگر والد کھانا کھالنے ،مطالعے ،کھیلنے اور دیگر سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں
اور ضروریات جیے ملبوسات اور خوراک فراہم کرتے ہیں ،تو بچوں میں جذباتی اور
رویوں کے مسائل کی شرح میں کمی آتی ہے۔
جریدے جرنل سوشل سروس ریویو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کم آمدنی والے
گھرانوں کے بچوں میں رویوں کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں اور والد ان کے ساتھ زیادہ وقت
نہیں گزارتے
۔
اس تحقیق کے دوران 1998اور 2000کے دوران پیدا ہونے والے 5ہزار بچوں کے
رویوں کا طویل المعیاد بنیادوں پر جائزہ لیا گیا۔
محققین نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ 5سے 15سال کی عمر کے دوران والد کے
ساتھ وقت کھانے پینے ،کھیل کود ،مطالعے اور اسکول کے کام کے دوران مدد جیسی
سرگرمیوں میں کتنا وقت گزارا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کم آمدنی والے گھروانوں میں والد کے پاس بچوں کے ساتھ وقت
گزارنے کا موقع کم ہووتا ہے ،جس کی وجہ حالیہ دہائیوں میں آنے والی سماجی اور
معاشی تبدیلیاں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر مرد اپنے بچوں کی سرگرمیوں کا زیادہ حصہ بننے لگے تو بچوں
کی شخصیت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1173765/
سیٹرس فیملی سے تعلق رکھنے والے پھل مالٹے ،فروٹر اور کینوؤں کو امیون بوسٹر
(قوت مدافعت مضبوط بنانے واال) وٹامن سی کا اہم ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ،مالٹوں کی دنیا
بھر میں سیکڑوں مختلف اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں کینو اور مالٹے سب سے زیادہ
مشہور ہیں۔
ڈائٹیشنز و نیوٹریشنسٹس کے مطابق کینوؤں میں وٹامن سی کی مقدار ہونے سمیت فائبر
اور فولک ایسڈ بھی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے ،ذائقے میں کچھ کھٹا کچھ میٹھا ہونے
کے سبب یہ پھل ہر کسی کا من پسند ہوتا ہے۔
کینوں ،مالٹے اور فروٹر موسم سرما میں بآاسانی دستیاب ہوتے ہیں ،ماہرین کا کہنا ہے کہ
وٹامنز اور منرلز حاصل کرنے کے لیے یہ بہترین ٓاپشن ہے جبکہ اس کی زیادتی صحت
کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ کینوؤں کو ہمیشہ مکمل کھایا جائے
اور اس کا رس پینے سے حتی االمکان گریز کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق شوگر کے مریض ایک وقت میں صرف ایک جبکہ عام افراد ایک وقت
میں کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ تین کینوؤں کا استعمال کر سکتے ہیں۔
کینو میں وٹامن سی کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے ،ایک بڑے سائز کے کینو میں روزانہ
کی بنیاد پر وٹامن سی کی مطلوبہ مقدار موجود ہوتی ہے جبکہ وٹامن سی کی زیادتی ’برین
اسموگ‘ یعنی ذہن کے کام چھوڑ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق کینو یا مالٹے کا جوس پینے کے بجائے اس پھل کو مکمل کھانا
چاہیے کیوں کہ مکمل پھل کھانے سے زیادہ فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں ،اس میں
فائبر اور گودے سے گردوں کی صفائی ہوتی ہے اور ہاضمہ بھی درست رہتا ہے جبکہ
ٓانتوں کی صفائی بھی ہوتی ہے ۔
غذائی ماہرین کے مطابق کینوؤں کا رس بھی صحت پر بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے
مگر جیسے ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اسی طرح کینوؤں کا رس بھی
زیادہ پینے سے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نیوٹریشنسٹس کے مطابق ایک وقت میں ایک فرد زیادہ سے زیادہ 3کینو کھا سکتا ہے جو
کہ صحت کے لیے مفید ہے جبکہ رس پینے کی صورت میں اس کی زیادتی کا خدشہ بڑھ
جاتا ہے۔
کینوؤں کے ایک گالس رس میں 5سے 6کینوؤں سے حاصل کردہ شوگر ،فرکٹوز
موجود ہوتا جو کہ موٹاپے اور شدید تیزابیت کا سبب اور گردوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق کینوؤں کے رس میں فائبر نہ ہونے اور سٹرس کی مقدار زیادہ
ہونے کے سبب یہ معدے اور دانتوں کی صحت بھی متاثر کر سکتا ہے
https://jang.com.pk/news/1022826
ویب ڈیسک
جمعرات 9 دسمبر 2021
اس وبا کی شروعات کیسے ہوئی ،کب اختتام پذیر ہوگی اور ہر ملک پر اس کے اثرات
ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ ،ان سوالوں کا جواب اتنا بھی سیدھا اور ٓاسان نہیں
ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی چیف ڈاکٹر مائیکل ریان کا کہنا ہے کہ بات محض کورونا کیسز
کی تعداد کی نہیں بلکہ اس کی شدت اور اس کے اثرات کی ہے۔
جنوری 2020میں ڈبلیو ایچ او نے کوروناوائرس کو عالمی صحت کا بحران قرار دیا تھا۔
کچھ مہینوں بعد اقوام متحدہ نے اسے عالمی وبا کے طور پر بیان کیا۔ اس وقت یہ وائرس
تقریبا ً دنیا کے ہر براعظم میں پہنچ چکا تھا۔
غالب امکان یہی ہے کہ کورونا کا خطرہ اسی وقت ٹلے گا جب ڈبلیو ایچ او فیصلہ کرے گا
کہ اب دنیا کو کوروناوائرس ±سے کوئی خطرہ نہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی میں متعدی بیماریوں کے ایکسپرٹ ڈاکٹر کرس ُوڈ نے کہا“ ،ایسا فیصلہ
اتنا ٓاسان بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن میں کہہ دیا جائے کہ کوروناوائرس ختم۔ اس حوالے
سے عالمی سطح پر متفقہ رائے ہونا مشکل ہے۔ کورونا کے خاتمے کا انحصار ممالک میں
کیسز کی شرح میں خاطر خواہ کمی پر ہے
https://www.express.pk/story/2256931/9812/
دواکے بعد شاویزکی حالت میں بہتری ٓائیٓ،اغاخان اسپتال نے بچے کے عالج کیلیے مالی
معاونت فراہم کی،پریس کانفرنس۔ فوٹو :سوشل میڈیا
کراچی :ملک میں پہلی بار جین تھراپی کے ذریعے 2سالہ بچے کا عالج کیا گیا۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان کرمانی نے کہاکہ کہ چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے
2سالہ بچے شاویز کو 6ماہ کی عمر میں اسپائنل مسکولراٹرفی کی تشخیص ہوئی تھی،اس
بیماری میں مریض کو پٹھوں کی کمزوری ،پٹھوں کے تناؤ میں کمی ،محدود نقل و حرکت،
سانس کے مسائل اور اعصابی صالحیتوں میں تاخیر جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
اس بیماری میں مریض ریڑھ کی ہڈی میں خم کا شکار بھی ہوسکتا ہے،اسپائنل مسکولر
اٹرفی موروثی بیماریوں کا مجموعہ ہے ،اس بیماری سے حرام مغز اور اس سے متصل
عصبی خلیات تباہ ہوجاتے ہیں ،کزن میرج اس بیماری کی سب سے عام وجہ ہے۔
پاکستان میں پہلی بار جین تھراپی کے ذریعہ شاویز کا عالج کیا گیا ،عالمی فارماسیوٹیکل
کمپنی نوارٹس نے اس بیماری کے عالج کی دوابنائی ،بیماری کے عالج میں دوا کی
صرف ایک خوراک درکار ہے تاہم دوا کی قیمت کئی ملین ڈالرز ہے ،نوارٹس نے سو
مریضوں کو دوا کی مفت فراہمی کا پروگرام ترتیب دیا۔
شاویز پاکستان میں دوا حاصل کرنے واال پہال مریض ہے ،ان خیاالت کااظہار انھوںنے ٓاغا
خان یونیورسٹی اسپتال میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا ،اس موقع پرسی ای او ٓاغا
خان یونیورسٹی اسپتال ڈاکٹر شاہد شفیع ،متاثرہ بچہ شاویز اور اسکے اہلخانہ سمیت دیگر
موجود تھے۔
ڈاکٹر سلمان کرمانی نے نے مزید کہاکہ نوارٹس سے دوا کی فراہمی کی درخواست کی،
6ماہ عملے کو تھراپی کی ٹریننگ دی اور مریض بچے شاویز کے تھراپی سے قبل
ضروری ٹیسٹ کیے ،شاویز کو دوسری سالگرہ سے ایک روز قبل دوا دی گئی ،دوا کے
بعد شاویز کی حالت میں نمایاں بہتری ظاہر ہورہی ہے۔
شاویز کی والدہ کا کہنا تھا کہ شاویز دن بدن صحت کی طرف بڑھ رہا ہے ،یہ سب ہللا کا
کرم اور ٓاغا خان اسپتال کے ڈاکٹروں اور عملے کی محنت کا نتیجہ ہےٓ ،اغا خان اسپتال
کے ویلفیئر پروگرام کے ذریعے شاویز کے عالج کے لیے مالی معاونت فراہم کی گئی۔
https://www.express.pk/story/2257037/9812/
ویب ڈیسک
08/12/2021
کھجور کے انسانی صحت پر خوشگوار اثرات اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا اور
جدید سائنس بھی اس بات کو قبول کرتی ہے کہ کھجور میں موجود فائبر اور دیگر اجزاء
ہمارے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہیں۔ اگر ٓاپ دن میں تین کھجوریں کھائیں تو ٓاپ کے جسم پر
خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اورٓاپ کا جسم بیماریوں سے محفوظ ہوجائے گا۔ اس کے
عالوہ دل ،جگر ،اور دماغ کو تقویت ملے گی اور خود کو ترو تازہ اور توانا محسوس
کریں گے۔طبی ماہرین کے مطابق کھجور کا استعمال سنت رسولﷺ بھی
ہے اور اسے 12روز تک استعمال کرنے سے صحت کے بہت سے مسائل سے چھٹکارا
مل جاتا ہے۔خون کی کمی دور کرنے میں مددگار،کھجور بے وقت کھانے کی لت پر قابو
پانے میں مدد دینے واال مٔوثر ذریعہ ہے جبکہ یہ ٓائرن کی سطح بھی بڑھاتی ہے،
جس سے خون کی کمی جلد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم کھجور کے استعمال کے
حوالے سے بھی ذیابیطس کے مریضوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔نظام انہضام پر
اثرات،اگر ٓاپ کو قبض،تیزابیت،معدے یا انتڑیوں کی تکلیف ہے تو ٓاپ کو کھجور ضرور
کھانی چاہیے۔اس میں موجود فائبر ہمارے معدے کے لئے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔
دردوں سے نجات کھجوروں میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس کی وجہ سوجن پر قابو پانے
میں مدد ملتی ہے اور جسمانی دردیں بھی کنٹرول میں رہتی ہیں۔مختلف تحقیق میں یہ بات
ثابت ہوچکی ہے کہ کھجور کھانے سے جسم میں سوجن کم ہونے کے ساتھ درد میں ٓارام
ٓاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے لئے ایک جدید تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین حمل کے
دوران کھجور کا استعمال کرتی رہیں انہیں درد زہ اور بچہ پیدا کرنے میں ٓاسانی ہوئی۔
ماہرین نے 69حاملہ خواتین کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو خواتین ڈلیوری
سے چار ہفتے قبل کھجوریں کھاتی ہیں انہیں بچہ پیدا کرنے میں کافی ٓاسانی رہتی ہے۔
ہائی بلڈ پریشر اور دل کا دورہ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اس میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس
کی وجہ سے یہ فشار خون کنٹرول میں رہتا ہے اور بلڈ پریشر کے مسائل نہیں پیدا ہوتے۔
اسی طرح کھجور میں پایا جانے والے پوٹاشیم کی بدولت دل مضبوط ہوتا ہے اور دل کے
دورے کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک امریکی ادارے نے اس پر
دقیق تحقیق بھی کی ہے جو کہ American Journal Clinic of Nutritionمیں شائع
بھی ہوچکی ہے۔ دماغی صحت کے لئے اسی طرح کھجورمیں پایاجانے والی وٹامنB6کی
بدولت ہماری اعصابی اور دماغی نظام بہترطریقے سے کام کرتا ہے اورانسان زیادہ بہتر
طریقے سے روزمرہ کے کام کرپاتا ہے۔
12دنوں تک کھجور کا استعمال اورپھرکمال دیکھیں ٓاپ کوکیاکیافوائد حاصل ہوں
گے،حیران کن نتائج 12دنوں تک کھجور کا استعمال اور حیران کن نتائج کھجور کے
انسانی صحت پر خوشگوار اثرات اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور جدید
سائنس بھی اس بات کو قبول کرتی ہے کہ کھجور میں موجود فائبر اور دیگر اجزاء ہمارے
لئے بہت ہی زیادہ مفید ہیں۔ اگر ٓاپ دن میں تین کھجوریں کھائیں تو ٓاپ کے جسم پر
خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اورٓاپ کا جسم بیماریوں سے محفوظ ہوجائے گا۔ اس کے
عالوہ دل ،جگر ،اور دماغ کو تقویت ملے گی اور خود کو ترو تازہ اور توانا محسوس
کریں گے۔طبی ماہرین کے مطابق کھجور کا استعمال سنت رسولﷺ بھی
ہے اور اسے 12روز تک استعمال کرنے سے صحت کے بہت سے مسائل سے چھٹکارا
مل جاتا ہے۔خون کی کمی دور کرنے میں مددگار،کھجور بے وقت کھانے کی لت پر قابو
پانے میں مدد دینے واال مٔوثر ذریعہ ہے جبکہ یہ ٓائرن کی سطح بھی بڑھاتی ہے ،جس سے
خون کی کمی جلد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم کھجور کے استعمال کے حوالے سے
بھی ذیابیطس کے مریضوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔نظام انہضام پر اثرات،اگرٓ ±اپ کو
قبض،تیزابیت،معدے یا انتڑیوں کی تکلیف ہے تو ٓاپ کو کھجور ضرور کھانی چاہیے۔اس
میں موجود فائبر ہمارے معدے کے لئے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔دردوں سے نجات
کھجوروں میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس کی وجہ سوجن پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے
اور جسمانی دردیں بھی کنٹرول میں رہتی ہیں۔مختلف تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے
کہ کھجور کھانے سے جسم میں سوجن کم ہونے کے ساتھ درد میں ٓارام ٓاتا ہے۔
حاملہ خواتین کے لئے ایک جدید تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین حمل کے دوران
کھجور کا استعمال کرتی رہیں انہیں درد زہ اور بچہ پیدا کرنے میں ٓاسانی ہوئی۔ماہرین نے
69حاملہ خواتین کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو خواتین ڈلیوری سے چار
ہفتے قبل کھجوریں کھاتی ہیں انہیں بچہ پیدا کرنے میں کافی ٓاسانی رہتی ہے۔ ہائی بلڈ
پریشر اور دل کا دورہ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اس میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس کی وجہ
سے یہ فشار خون کنٹرول میں رہتا ہے اور بلڈ پریشر کے مسائل نہیں پیدا ہوتے۔اسی طرح
کھجور میں پایا جانے والے پوٹاشیم کی بدولت دل مضبوط ہوتا ہے اور دل کے دورے کے
امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک امریکی ادارے نے اس پر دقیق تحقیق
بھی کی ہے جو کہ American Journal Clinic of Nutritionمیں شائع بھی ہوچکی
ہے۔ دماغی صحت کے لئے اسی طرح کھجورمیں پایاجانے والی وٹامنB6کی بدولت
ہماری اعصابی اور دماغی نظام بہترطریقے سے کام کرتا ہے اورانسان زیادہ بہتر طریقے
سے روزمرہ کے کام کرپاتا ہے۔
https://dailyausaf.com/ausaf-special/news-202112-130303.html
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن ندیم
آصف نے ناظرین کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مفید مشورے دیئے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹریس فریکچر جسے ہیئر الئن فریکچر بھی کہا جاتا ہے ،ایک ہڈی میں
ایک چھوٹا سا شگاف ہے جو بار بار ایک ہی حرکت کو دہرانے سے ہوتا ہے (جیسے کہ
جب کوئی کھیل کے لیے تربیت کرتا ہے)۔ اس قسم کے فریکچر ان لوگوں کی روزمرہ کی
سرگرمیوں سے بھی ہو سکتے ہیں جن کی ہڈیاں کمزور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا اکثر ٹانگ کے نچلے حصے اور پیر کے پنجوں پر ہوتا ہے جس
کے نتیجے میں بہت معمولی سا فریکچر ہوجاتا ہے جس کا اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔
آرتھو پیڈک سرجن ندیم آصف کا کہنا تھا کہ اگرچہ مرد اور عورت دونوں ہی اسٹریس
فریکچر کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین اس طرح کے واقعات
سے زیادہ متاثر ہیں۔
زیادہ تر تناؤ کے فریکچر ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر آپ مکمل صحت یاب ہونے سے
پہلے جسمانی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرلیتے ہیں تو اس سے اسٹریس فریکچر کو مزید
بگاڑ سکتے ہیں اور اسے شفا یابی کا عمل بھی سست ہوجائے گا۔
https://urdu.arynews.tv/stress-fracture-bone-strength-health-tips/
ویب ڈیسک
دسمبر 09 2021
نوزائیدہ بچوں سے گفتگو انہیں Fالفاظ بنانے Fمیں مدد دیتی ہے
ویب ڈیسک
ہفتہ 11 دسمبر2021
والدین جب نومولود سے بات کرتے ہیں تو بچے اپنی ٓاواز اور بنیادی الفاظ کی تشکیل
کرتے رہتے ہیں
فلوریڈا :ہم نومولود بچوں سے مختلف ٓاوازوں ،وقفوں ،بلند پچ یا جب دھیمی رفتار سے بات
کرتے ہیں تو درحقیقت بچے تک زبان سازی کی بنیادی معلومات پہنچاتے ہیں۔ ان کی مدد
سے بچہ الفاظ سازی سیکھنے لگتا ہے۔
یونیورسٹی ٓاف فلوریڈا میں سماعت اور گفتگو پرتحقیق کرنے والے انسٹی ٹیوٹ کے
پروفیسرمیتھیو میسپولوکہتے ہیں کہ اس طرح بچوں کے سامنے جب ماں یا باپ بولتے ہیں
تو بچے کی ’غوں غوں یا غا غا‘ محض اس کی نقل نہیں ہوتی بلکہ وہ اعصاب اور حرکت
کرنے والے نظام کو متحرک کرنے لگتے ہیں۔
تجرباتی طورپرجامعہ فلوریڈا کے سائنسدانوں نے چھ سے ٓاٹھ ماہ کے بچےکو بالغ افراد
اور خود ان کی عمر کے بچوں کی ٓاوازیں سنائیں۔ اس دوران بچوں نے بات کرنے یا ٓاواز
نکالنے کا وہی طریقہ اختیار کیا جو وہ عموما ً ادا کرتے ہیں۔ بچوں نے جو ٓاوازیں سنیں
انہیں اپنی قوت ،لمبائی ،شدت اور قوت کے ساتھ خارج کیا۔
پہلے چار سے چھ ماہ تک بچوں کا کوئی انتخاب نہیں ہوتا لیکن اس سے بڑے بچے اپنی
ٓاواز پر کنٹرول کرنا شروع کرتے ہیں اور اپنی صالحیت کی بنا پرقدرے بامعنی ٓاوازیں
نکالتے ہیں۔ پھر یہ عمل جاری رہتا ہے اور بچے کی ٓاواز کی ابتدائی تشکیل ہوتی رتی
ہے ،یہاں تک کہ وہ اپنی ٓاواز خود بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر اس سے وہ سادہ
لفظ بنانے لگتے ہیں۔
اس لئے یہاں والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نومولود بچے سے باتیں ضرور
کریں اس سے بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2257296/9812/
ویب ڈیسک
دسمبر 10 2021
ہماری روزمرہ کی زندگی میں کبھی بھی کسی کے ساتھ ہڈیوں میں کوئی چھوٹی موٹی
چوٹیں لگتی رہتی ہیں جسے ہم بہت آسان لیتے ہیں۔
ہم اکثر اپنے گھروں میں صوفے ،دروازے کی چوکھٹ یا میز وغیرہ سے بے دھیانی میں
ٹکرا جاتے ہیں اور پاؤں پوری شدت کے ساتھ جاکر اس چیز سے ٹکراتا ہے تو وقتی
طور پر اس تکلیف سے جان سی نکل جاتی ہے۔
اس وقت تو کچھ دیر درد ہوکر ختم ہوجاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ مکمل طور پر ختم
ہوجائے تاہم کچھ عرصے بعد جاکر اس تکلیف میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن ندیم
آصف نے ناظرین کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مفید مشورے دیئے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹریس فریکچر جسے ہیئر الئن فریکچر بھی کہا جاتا ہے ،ایک ہڈی میں
ایک چھوٹا سا شگاف ہے جو بار بار ایک ہی حرکت کو دہرانے سے ہوتا ہے (جیسے کہ
جب کوئی کھیل کے لیے تربیت کرتا ہے)۔ اس قسم کے فریکچر ان لوگوں کی روزمرہ کی
سرگرمیوں سے بھی ہو سکتے ہیں جن کی ہڈیاں کمزور ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا اکثر ٹانگ کے نچلے حصے اور پیر کے پنجوں پر ہوتا ہے جس
کے نتیجے میں بہت معمولی سا فریکچر ہوجاتا ہے جس کا اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔
آرتھو پیڈک سرجن ندیم آصف کا کہنا تھا کہ اگرچہ مرد اور عورت دونوں ہی اسٹریس
فریکچر کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین اس طرح کے واقعات
سے زیادہ متاثر ہیں۔
زیادہ تر تناؤ کے فریکچر ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر آپ مکمل صحت یاب ہونے سے
پہلے جسمانی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرلیتے ہیں تو اس سے اسٹریس فریکچر کو مزید
بگاڑ سکتے ہیں اور اسے شفا یابی کا عمل بھی سست ہوجائے گا۔
https://urdu.arynews.tv/stress-fracture-bone-strength-health-tips/
پیدائش سے قبل ہی جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے
متعلق سائنس دانوں کا بڑا انکشاف
ویب ڈیسک
دسمبر 10 2021
بیجنگ :پیدائش سے قبل ہی بچے میں جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے
متعلق سائنس دانوں نے اہم انکشاف کیا ہے ،چینی اور برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے
کہ انھوں نے انسانوں میں انٹرنیورانز ±کی نشوونما کا پتا چال لیا۔
تفصیالت کے مطابق چین اور برطانیہ کے سائنس دانوں نے اس بات کا پتا چالیا ہے کہ
انسانی انٹر نیوران (جو جدید انسانی سرگرمیوں کی اہلیت پیدا کرنے واال ایک اہم قسم کا
نیوران ہے ،اور جو بچپن میں نشوونما پاتا ہے) کس طرح سے ذہنی اور جسمانی نشوونما
کے مسائل کے حل میں رہنمائی کرتا ہے۔
جریدے سائنس میں جمعہ کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں جدید انسان کے انٹرنیوران
کی 2اقسام کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کی خصوصیات چوہوں کے ساتھ مشترکہ نہیں
ہیں۔
تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح سے انسانی دماغ نے متنوع انٹرنیورانز تیار
کیے جو انسان کو اس کی منفرد جدید علمی قابلیت فراہم کرتے ہیں۔
انسانی دماغ کے سیریبرل کارٹکس میں دماغی خلیوں کے 2اہم گروہ ہیں؛ ایک انسان کو
کسی کام پر اکساتا اور دوسرا اسے کسی کام سے روکتا ہے۔
کسی کام سے ممانعت کے انٹرنیورانز جی اے بی اے نامی نیورو ٹرانسمیٹر پیدا کرتے ہیں
جو دماغ کو ضرورت سے زیادہ پرجوش ہونے سے روکتے ہیں ،اگر اس نیورو ٹرانسمیٹر
(جی اے بی اے) میں کسی قسم کی بے ضابطگی آ جائے تو یہ ٓاٹزم ،ڈپریشن ،سکیزوفرینیا
یا مرگی کا باعث بن جاتا ہے۔
چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے ماتحت ادارے ،انسٹیٹیوٹ آف بائیو فزکس ،بیجنگ نارمل
یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے انسانی جنین کے پہلی سے دوسری سہ
ماہی کے ابتدائی دور میں انٹرنیورانز ±کی تفصیلی میسنجر آر این اے معلومات حاصل
کرنے کے لیے سنگل سیل سیکوینسنگ ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی۔
محققین نے معلوم کیا کہ انسانوں کی پیدائش متنوع انٹرنیورانز ±کے ساتھ ہوئی ہے ،جو
انسان کے بھرپور جذبات اور خود شناسی کی بنیاد رکھتے ہیں۔
مطالعے کے مطابق ،یہ صالحیتیں انسان کے دماغ میں راسخ ہیں ،جس کی وجہ دماغ کے
گینگلیونک ایمیننس حصے کا ایک متنوع مالیکیولر ریگولیشن میکانزم ہے جہاں
انٹرنیوران تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں۔
ژیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر دوٓان شومین ،جو اس تحقیق
سے وابستہ نہیں ہیں ،کا کہنا ہے کہ انسانی جنین کے دور میں انٹرنیوران کی نشوونما کے
مرحلہ وار مطالعے نے سکیزوفرینیا اور دیگر دماغی بیماریوں کی تحقیق ،تشخیص اور
عالج کا ایک نیا راستہ کھول دیا ہے
https://urdu.arynews.tv/development-of-interneurons-in-humans/
ویب ڈیسک
دسمبر 11 2021
کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ±کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو
زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی
اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو
زیادہ بیمار نہیں بناتی۔
جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ 2ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون
کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی
سے پھیل رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن
میں زیادہ سے زیادہ 22ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ
کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ 26ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے 9صوبوں تک پھیل چکا
ہے مگر دیکھنے میں ٓایا ہے کہ اس قسم میں مبتال ہونے واال شخص زیادہ بیمار نہیں ہو
رہا۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم
عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین عالمات بھی نہیں دکھائی دیتیں،
تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت
ہے ،اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔
اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے ٓاخر میں 25یا 26نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا
تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔
اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں 5درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے ،تاہم اب تک
کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح
کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9دسمبر کو اومیکرون ±کے پہلے کیس کی تصدیق کی
گئی تھی جبکہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز
سامنے ٓا چکے ہیں
https://urdu.arynews.tv/no-signal-of-increased-omicron-severity/
ویب ڈیسک
دسمبر 11 2021
ٓاج کل کی مصروف زندگی میں اکثر لوگ اپنا ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں تاہم یہ صحت کے لیے
نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔
ماہر غذائیات ڈاکٹر عائشہ عباس نے اے ٓار وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بے شمار ریسرچز ہوچکی ہیں جن میں ثابت ہوچکا ہے
کہ ناشتہ صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ناشتہ کرنے سے دماغ چاق و چوبند اور فعال رہتا ہے ،کام کرنے والوں
اور اسکول جانے والے بچوں کی کارکردگی میں بہتری ٓاتی ہے ،بھوک کم لگتی ہے جبکہ
وزن میں بھی کمی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ ناشتے میں پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹس کا امتزاج ہونا چاہیئے،
جیسے کہ انڈا ،گندم (روٹی یا پراٹھا) ،دلیہ اور دہی وغیرہ ہونے چاہئیں۔ جوسز کی جگہ
پھل کھانے چاہئیں یا پھر ملک شیکس لیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ناشتے میں پراٹھا کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں تیل کی
مقدار بہت زیادہ نہ ہو ،اور اس میں اضافی کیلوریز شامل نہ کی جائیں جیسے ٓالو یا قیمے
کا پراٹھا بنا کر اسے ہاضمے پر بوجھ بنا لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہفتے کے 6دن متوازن غذائیت سے بھرپور ناشتہ کیا جائے اور ساتویں
دن بدپرہیزی کی جاسکتی ہے جیسے کہ فیملی کے ساتھ نہاری ،یا حلوہ پوری کا ناشتہ۔
https://urdu.arynews.tv/what-to-eat-in-breakfast/
ویب ڈیسک
دسمبر 11 2021
برطانوی طبی ماہرین نے کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ ±پر کی گئی مختصر تحقیق کے
نتائج کو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی تین ویکسینز لگوانے والے افراد میں
’اومیکرون‘ ±کی شدت کم ہوتی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق برطانوی ماہرین نے ملک میں
’اومیکرون‘ ±کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد 600کے قریب افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لینے
سمیت ان پر تجربہ بھی کیا۔
ڈیٹا اور تجربے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسین کی تین خوراکیں لینے والے افراد
’اومیکرون‘ ±کی شدت سے محفوظ رہتے ہیں اور ایسے افراد میں 75فیصد عالمات ظاہر
ہی نہیں ہو پاتیں۔
ماہرین کے مطابق اس سے قبل ’ڈیلٹا‘ ورینٹ پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ دو
خوراکیں کورونا کی خطرناک اقسام پر اتنا اثر نہیں کرتیں اور اب نئے تجربے سے بھی
معلوم ہوا ہے کہ جن افراد نے بوسٹر ڈوز لگوا رکھے ہیں ،ان میں ’اومیکرون‘ ±کی شدت
کم ہوتی ہے۔
ماہرین نے لوگوں کو تجویز دی کہ ’اومیکرون‘ سمیت ’ڈیلٹا‘ جیسی اقسام کی شدت سے
بچنے کے لیے کم از کم تین خوراکیں لگوائی جائیں اور جن افراد نے دو خوراکیں لے
رکھیں ہیں وہ بوسٹر ڈوز لگوائیں۔
ماہرین نے بتایا کہ تین خوراکیں لینے والے افراد اگر ’اومیکرون‘ کا شکار بھی ہو رہے
ہیں تو ان میں اس کی شدت کم ہوجاتی ہے اور وہ جلد صحت یاب ہو رہے ہیں۔
برطانوی ماہرین نے مذکورہ تحقیق ایک ایسے وقت میں کی ہے جب کہ وہاں ’اومیکرون‘±
کے پھیالٔو میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور اب تک وہاں 1200سے زائد ’اومیکرون‘±
کیسز سامنے ٓا چکے ہیں۔
برطانیہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں اب کورونا کا شکار ہونے والے ہر تیسرے
شخص میں ’اومیکرون‘ کی قسم کی تشخیص ہو رہی ہے اور اگر یہی سلسلہ رہا تو دسمبر
کے ٓاخر تک کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔
برطانوی سائنسدانوں سے قبل جنوبی افریقی سائنسدانوں نے کہا تھا کہ اب تک کے تجزیے
کے مطابق ’اومیکرون‘ ±اتنی تیزی سے نہیں پھیل رہا ،جتنا اس کا اندازہ لگایا گیا تھا اور یہ
کہ مذکورہ نئی قسم میں مبتال ہونے والے افراد حد سے زیادہ بیمار بھی نہیں ہو رہے۔
اس سے قبل 25یا 26نومبر کو جب جنوبی افریقہ میں پہلی بار ’اومیکرون‘ کی تشخیص
ہوئی تھی تو وہاں کے سائنسدانوں نے اسے اب تک کی خطرناک قسم قرار دیا تھا۔
اومیکرن‘ گزشتہ دو ہفتوں میں 5درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے ،تاہم اب تک’
کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح
کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9دسمبر کو ’اومیکرون‘ کے پہلے کیس کی تصدیق کی
گئی تھی جب کہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز
سامنے ٓا چکے ہیں۔
اگرچہ زیادہ تر ممالک کے ماہرین نے ’اومیکرون‘ ±کو سب سے متعدی یعنی پھیلنے والی
قسم قرار دیا ہے ،تاہم تاحال اس سے کوئی موت ریکارڈ نہیں کی گئی
https://www.dawnnews.tv/news/1173908/
ویسے تو َسر کی خشکی یا ڈینڈرف ایک ایسی چیز ہے ،جس کا کسی خاص موسم سے
تعلق نہیں لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سردیوں کے موسم میں اس کی شدت میں اضافہ
ہوجاتا ہے۔
سر میں پیدا ہونے والی اس خشکی کے نتیجے میں سر کی سطح پر بھوسی جیسے سفید
چھلکے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ چھلکے سر کی سطح پر جمع ہوتے ہوتے ،ذرات کی شکل
میں شانوں پر گرنے لگتے ہیں۔
سرکی خشکی کو ایک طرح کا انفیکشن بھی قرار دیا جاسکتا ہے ،تاہم اسے صرف ایک
انفیکشن سمجھنا ُدرست نہ ہوگا۔ اس کے باعث انسان کو سماجی طور پر پریشانی کا بھی
سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سر کی خشکی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ساری دنیا کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق
بتاتی ہے کہ 18برس کی عمر سے زائد کے 20فی صد مرد اور خواتین اس مسئلہ کا
شکار رہتے ہیں ،ان میں سے 5فیصد لوگوں میں یہ مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور ان
کے سروں سے بے تحاشا بھوسی جھڑتی ہے۔
ان کے شانوں اور قمیض کے کالروں میں چھوٹے چھوٹے سفید چھلکوں کے ڈھیر نظر
ٓاتے ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے یہ ایک ایسا مسئلہ ہوتا ہے ،جس سے وہ برسہا برس سے
نبردٓازما ہوتے چلے ٓارہے ہیں ،جب کہ بعض لوگوں کے سروں میں یہ بیماری وقتا ً فوقتا ً
پید ا ہوتی رہتی ہے۔
سر کی خشکی کیوں ہوتی ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خشکی عموما ً جسمانی کمزوری یا خون کی کمی کا نتیجہ ہوتی
ت مدافعت کم ہوجاتی ہے تو ِجلد کی تہہ میں چکنائی پیدا کرنے والے ہے۔ جب جسم کی قو ِ
غدودوں کی کارکردگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور ان سے خارج ہونے والی رطوبت کی
مقدار بڑھ جاتی ہے۔
یہی رطوبت ِجلد پر باریک جھلی کی طرح جم جاتی ہے ،جو زیادہ گمبھیر ہوجائے تو
فنگس میں بدل جاتی ہے۔ سرکی قدرتی چکنائی وہ تیل ہے ،جسے ’ ِسیبم‘ کہا جاتا ہے۔ اس
کے غدود سرکی جلد کے عین نیچے واقع ہوتے ہیں۔ گندگی اور غیر معیاری شیمپو کے
استعمال سے سیبم کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سر میں خشکی پیدا ہونے کی سب
سے بڑی وجہ فنگس اور سیبم کا مالپ ہوتا ہے۔
دراصل ،فنگس ایک طرح کی پھپھوندی ہے ،جو سر کی نارمل ِجلد پر بھی پائی جاتی
ہےاور عام طور پر کسی نقصان کا باعث نہیں بنتی۔ تاہم سرکی ِجلد سے پیدا ہونے واال
اضافی تیل یعنی ِسیبم ،پھپھوندی کے لیے زبردست خوراک ثابت ہوتا ہے اور یوں سر کی
ِجلد پر فنگس کی افزائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ فنگس سر کی ِجلد سے جھڑنے والے مردہ
خلیات میں اضافہ کردیتا ہے۔ ذہنی دبأو اور ہارمونز کی تبدیلیاں بھی خشکی کی افزائش
میں حصہ دار بنتی ہیں۔
عالج کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ ،سرکی خشکی میں مبتال خواتین و حضرات کو سب سے پہلے اپنی
خوراک کا جائزہ لینا چاہیے۔ متوازن غذائیں کھائیں ،ساتھ ہی زنک ،اومیگا تھری فیٹی
ایسڈز ،وٹامن اے ،بی اور وٹامن ای کو اپنی خوراک میں شامل کریں۔
پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ شکر اور شکر سے تیار کردہ اشیا کا استعمال کم
کردیں۔ ماہرین کے مطابق ،سر کی خشکی میٹھی اور خمیری غذأوں کی بدولت پھلتی
پھولتی ہے۔ لہٰ ذا اگر ٓاپ مندرجہ باال تجاویز پر عمل کریں تو خشکی پر قابو پانے میں مدد
مل سکتی ہے۔
:شیمپو کی قسم
سرکی خشکی کو قابو میں رکھنے کے لیے اگر کسی اچھے اور معیاری اینٹی ڈینڈرف
شیمپو کا استعمال کیا جائے تو وہ خاصا مٔوثر ثابت ہوتا ہے۔ شیمپو کرتے وقت اچھی طرح
سر کا مساج کریں ،تاکہ سر کی ِجلد کےساتھ ٓاپ کے بال بھی صاف ہوجائیں۔ مارکیٹ میں
دستیاب عمومی اینٹی ڈینڈرف شیمپو اس وقت تک مٔوثر ثابت ہوتے ہیں ،جب تک ان کا
استعمال جاری رکھا جائے۔ اینٹی ڈینڈرف شیمپو کا استعمال ترک کرتے ہی خشکی
پھرنمودار ہونے لگتی ہے۔ اگر ٓاپ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے تو مزید رہنمائی کے لیے
ٓاپ کو ِجلد کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
:دیگر اقدامات
: سر کا خشک مساج
بالوں کو روزانہ برش کیا جائے۔ اس سے بھوسی اُترنے کے عالوہ سر کی ِجلد میں خون
کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔ لہٰ ذا سر کی ِجلد کا خشک مساج روزانہ کرنا چاہیے۔ یہ مساج
انگلیوں کی پوروں سے ایک ترتیب کے ساتھ پورے سر پر کیا جائے۔
: ناریل کا تیل
رات کو سوتے وقت زیتون یا ناریل کا تیل سر میں لگایا جائے۔ اس طرح بھوسی کی پپڑی
اچھی طرح پھول کر ِجلد سے الگ ہونے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ صبح اُٹھ کر ٓاملہ ،سکا
کائی اور میتھی کے بیجوں کا سفوف جسے رات بھر پانی میں بھگویا ہو ،بالوں کی جڑوں
میں اچھی طرح لگا کر نیم گرم پانی سے سر دھو لیا جائے۔ اس طرح خشکی دور ہو جائے
گی۔ یہ عمل ہفتے میں دو تین بار کیا جائے۔
ویب ڈیسک
دسمبر 11 2021
کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو
زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی
اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو
زیادہ بیمار نہیں بناتی۔
جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ 2ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون
کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی
سے پھیل رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن
میں زیادہ سے زیادہ 22ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ
کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ 26ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے 9صوبوں تک پھیل چکا
ہے مگر دیکھنے میں ٓایا ہے کہ اس قسم میں مبتال ہونے واال شخص زیادہ بیمار نہیں ہو
رہا۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم
عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین عالمات بھی نہیں دکھائی دیتیں،
تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت
ہے ،اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔
اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے ٓاخر میں 25یا 26نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا
تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔
اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں 5درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے ،تاہم اب تک
کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح
کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9دسمبر کو اومیکرون ±کے
https://urdu.arynews.tv/no-signal-of-increased-omicron-severity/
ویب ڈیسک
دسمبر 11 2021
لندن :برطانوی طبی ادارے کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسینز Fکے بوسٹر شاٹ سے کم شدت
کے اومیکرون کے خالف 70سے 75فی صد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
تفصیالت کے مطابق برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ مریضوں پر براہ
راست آزمائے جانے کے بعد ابتدائی طور پر جو اعداد و شمار سے حاصل ہوئے ہیں ان
سے پتا چلتا ہے کہ کرونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لوگوں کو اومیکرون ±ویرینٹ سے ہونے
والی ہلکی بیماری سے بچاتی ہے۔
لیب اسٹڈیز سے باہر کی جانے والی اس ریسرچ کے ابتدائی اعدا و شمار جمعہ کو جاری
کیے گئے ہیں۔
ابتدائی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ،جب کہ اومیکرون ویرینٹ ابتدائی 2ڈوزز کے
ویکسینیشن کورس سے ہلکی بیماری کے خالف تحفظ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے ،تاہم
بوسٹرز ڈوز نے اس تحفظ کو ایک حد تک پھر بحال کیا۔
برطانوی ادارے میں حفاظتی ٹیکوں کی سربراہ میری رامسے نے کہا کہ ان ابتدائی
تخمینوں کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے ،کیوں کہ یہ اس بات کی نشان دہی کرتے
ہیں کہ دوسری ڈوز کے چند ماہ بعد ،ڈیلٹا اسٹرین کے مقابلے میں اومیکرون ویرینٹ کے
الحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شدید بیماری کے خالف تحفظ
زیادہ رہنے کی امید کی گئی تھی۔
میری رامسے نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بوسٹر ویکسین کے بعد یہ خطرہ
نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے ،اس لیے میں ہر کسی سے گزارش کرتی ہوں کہ جب اہل
ہوں تو اپنا بوسٹر ضرور لگوائیں۔
اس ریسرچ اسٹڈی کے لیے اومیکرون ±کے تصدیق شدہ 581کیسز کا تجزیہ کیا گیا ،ان
افراد کو اومیکرون ±ویرینٹ کی عالمات بھی ظاہر ہو گئی تھیں ،انھیں آسٹرازینیکا اور
فائزر ویکسینز کی 2ڈوز لگائی گئیں ،دیکھا گیا کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں دو ڈوز
سے انفیکشن کے خالف تحفظ کی بہت کم سطح فراہم ہوئی۔
تاہم جب فائزر ویکسین کی بوسٹر ڈوز دی گئی تو ،ابتدائی طور پر آسٹرازینیکا دو ڈوز
لگوانے والے لوگوں کے لیے عالمات والے انفیکشن کے خالف تقریبا ً 70فی صد تحفظ
پایا گیا ،جب کہ فائزر کی دو ڈوز حاصل کرنے والوں کے لیے تحفظ کو تقریبا ً 75فیصد
پایا گیا۔ ڈیلٹا سے اس کا موازنہ کیا جائے تو بوسٹر ڈوز کے بعد ڈیلٹا میں تقریبا ً 90فیصد
تحفظ پایا گیا۔
ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ سائنس دان نہیں جانتے کہ اومیکرون سے ہونے والے شدید
انفیکشن میں یہ ویکسینز کس حد تک کارآمد ہوں گی ،تاہم یہ امید کی جا رہی ہے کہ ہلکے
انفیکشن کے مقابلے میں شدید انفیکشن کے خالف یہ زیادہ مؤثر ہوں گی۔
https://urdu.arynews.tv/booster-shot-for-omicron/
ویب ڈیسک
یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت( ڈبلیو ایچ او) کا کہنا تھا کہ اومیکرون ویرینٹ کورونا
وائرس کی دوسری اقسام سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین نے بتایا تھا کہ ابتدائی جائزے سے پتا چال اومیکرون
ڈیلٹا کے مقابلے میں شدید بیماری کا سبب نہیں لیکن یہ وائرس دوسری اقسام سے زیادہ
تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اومیکرون کے خالف موجودہ ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان نہیں،
تاہم نئے ویرینٹ سے متعلق یہ انتہائی ابتدائی جائزہ ہے ،محتاط ضروری ہے۔
دوسری جانب ادویہ ساز کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ
اومیکرون کے سد باب کےلیے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا
ہے۔
/https://urdu.arynews.tv/598251-2/
ٹوکیو :جاپان کے طبی اور تحقیقی ماہرین نے کرونا کی تشخیص کرنے واال فیس ماسک
ٰ
دعوی کردیا۔ تیار کرنے کا
بین االقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق جاپان کے مغربی عالقے میں قائم یونیورسٹی کویوٹو
پرفیکٹل اور طبی ماہر پروفیسر یاسوہیرو ٹوسوکاموٹو نے مشترکہ تحقیق کے بعد کرونا
کی تشخیص کا نیا طریقہ تالش کیا ،جو فیس ماسک کی مدد سے ممکن ہوگا۔
ماہرین نے فیس ماسک میں شتر مرغ کے اینٹی باڈیز کی تہہ اور ایک کیمیکل شدہ فلٹر
لگایا۔ جب اس میں وائرس کو داخل کیا گیا تو کیمیکل الٹراوائیڈ الئٹ روشن ہوئی۔
تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ یہ فیس ماسک الٹرا وائیڈ الئٹ کی مدد سے کرونا کی تشخیص
کرے گا ،متاثرہ شخص جب اسے منہ پر لگائے گا تو اُس میں الٹر وائیڈ الئٹ روشن
ہوجائے گی جبکہ ناک اور منہ کے اطراف پر غیرمعمولی ±چمک اجاگر ہوگی۔
یونیورسٹی کی جانب سے جاری اعالمیے میں کہا گیا ہے کہ اس فیس ماسک کی مدد سے
انتہائی کم قیمت اور تیز ترین کرونا کا ٹیسٹ ممکن ہوسکے گا ،جسے مستقبل میں پی سی
ٓار کے متبادل کے طور پر بھی مانا جاسکتا ہے۔
ویٹنری پروفیسر اور یونیورسٹی کے صدر نے ماسک کی تیاری کو اہم پیشرفت قرار دیتے
ہوئے بتایا کہ ’ماضی میں ہونے والے مطالعات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شتر مرغ
کا مدافعتی نظام برڈ فلو سمیت دیگر وائرسز سے مقابلہ کرنے کی صالحیت رکھتا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ اس ماسک کا 32افراد پر تجربہ کیا گیا ،جن کے بعد میں پی سی ٓار
ٹیسٹ بھی کیے گئے تو حیران کن طور پر دونوں کے نتائج میں مماثلث پائی گئی۔
ماہرین پُرامید ہیں کہ وہ ایسا ماسک تیار کرلیں گے ،جو خود بہ خود چمک اٹھے گا اور
اُسے روشنی دکھانے کی ضرورت ±بھی نہیں پڑے گی۔
https://urdu.arynews.tv/598258-2/
ویب ڈیسک
دسمبر 11 2021
لندن :برطانیہ میں کرونا وائرس کی مہلک اور خطرناک قسم اومی کرون نے پنجے گاڑنا
شروع کردیے ہیں۔
بین االقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید
633افراد کو کرونا کی نئی قسم ’اومی کرون‘ کی تشخیص ہوئی ہے۔
حالیہ کیسز کے بعد برطانیہ میں اومی کرون سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد 1
ہزار 898تک پہنچ گئی ہے۔
محکمہ صحت نے نئے ویریئنٹ کے اتنی بڑی تعداد میں کیسز سامنے ٓانے پر انتہائی
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں کو احتیاطی تدابی پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری پیغام میں شہریوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ
فیس ماسک کا استعمال الزمی کریں اور کرونا کی بوسٹر ڈوز لگوائیں اور سماجی فاصلے
پر عمل کریں۔
دوسری جانب ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری اعالمیے میں بتایا گیا ہے کہ اومی کرون
سے اب تک کسی بھی مریض کی موت واقع نہیں ہوئی البتہ یہ وائرس ماضی کے مقابلے
میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔
عالمی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا کی عام قسم کے مقابلے میں اومی کرون تیس
سے زائد جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ سامنے ٓائی جبکہ اس سے قبل سامنے ٓانے والی ڈیلٹا
قسم میں صرف پانچ تبدیلیاں ہوئیں تھیں۔
https://urdu.arynews.tv/omicron-covid-highest-cases-report/
ویب ڈیسک
دسمبر 12 2021
ماسکو :روسی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خالف
روسی ساختہ سپٹنک ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی۔
روسی میڈیا کے مطابق روس کے گمیلیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٓاف ایپڈمولوجی اینڈ مائیکرو
بائیولوجی کے ڈائریکٹر الیگزینڈرِ ±گنٹسبرگ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی شکل
اومیکرون کے خالف روسی اسپٹنک وی ویکسین کی تاثیر کا 10دن کے اندر تجربہ کیا
جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اومیکرون پر اسپٹنک وی کی تاثیر کو جانچنے کے لیے
10دن کافی ہوں گے۔
ایک ہفتہ قبل گنٹسبرگ نے کہا تھا کہ گیملیا ریسرچ سینٹر نے تصدیق کی ہے کہ
اومیکرون سے متاثرہ مریضوں کو ،جو جنوبی افریقہ سے روس پہنچے تھے ،انہیں
ویکسین لگائی گئی تھی۔
نومبر کے ٓاخر میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ ویکسین کو تبدیل کرنے کے بارے میں
اور اومیکرون ±کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
گنٹسبرگ کے مطابق اگر ضرورت ہو تو نئی ویکسین تیار کرنے میں 10دن سے زیادہ
نہیں لگیں گے اور ریگولیٹری عمل میں ڈیڑھ سے ڈھائی ماہ لگیں گے۔
https://urdu.arynews.tv/sputnik-vaccine-against-omicron/
کورونا وائرس سے حفاظت؛ کمزور افراد کےلیے نئی ’اینٹی باڈی دوا‘
منظور
ویب ڈیسک
اتوار 12 دسمبر2021
یہ دوا 2الگ الگ اینٹی باڈیز پر مشتمل ہے جو ایک ہی دن میں دو انجکشنوں سے لگائی
جاتی ہیں۔ (فوٹو :ایسٹرازنیکا)
میری لینڈ :ادویہ کی منظوری دینے والے مرکزی امریکی ادارے ’ایف ڈی اے‘ نے
کمزور افراد کو کورونا وائرس سے بچانے کےلیے اینٹی باڈیز پر مشتمل ایک نئی دوا
دے دی ہے۔ ) (EUAکے ہنگامی استعمال کی منظوری
‘انجکشن سے دی جانے والی یہ دوا ’ایسٹرازنیکا‘ ±کی تیار کردہ ہے جسے ’ایووشیلڈ
کا نام دیا گیا ہے۔ )(Evusheld
ایف ڈی اے کی واضح ہدایات ہیں کہ اسے 12سال یا زیادہ عمر کے وہی افراد استعمال
کرسکیں گے جن میں بیماریوں سے بچانے واال قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) کمزور
ہے۔
ان میں عطیہ کردہ اعضاء پیوند کروانے والے افراد ،کینسر کے مریض اور وہ لوگ شامل
ہیں جو کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے امیون سسٹم کمزور بنانے والی دوائیں کھا رہے
کووڈ 19ویکسینز ان پر اثر نہیں کرتیں۔
ہیں۔ ان تمام کیفیات کی وجہ سے ِ
بطور خاص فائدہ پہنچائے گی۔
ِ کورونا وائرس کی یہ ’اینٹی باڈی دوا‘ ایسے تمام افراد کو
ایووشیلڈ دو اینٹی باڈیز پر مشتمل ہے جو ایک ہی دن میں دو انجکشنوں سے لگائی جاتی
ہے ،جس کے بعد یہ متعلقہ فرد کو چھ ماہ تک کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ایف ڈی اے نے اپنی جاری کردہ ہدایات میں یہ بھی کہا ہے کہ اینٹی باڈی دوا صرف
کمزور امیون سسٹم والے چند فیصد افراد کےلیے ہے۔
لہذا ،جن لوگوں کا امیون سسٹم معمول کے مطابق مضبوط ہے انہیں اس اینٹی باڈی دوا کی
کووڈ 19ویکسین ہی لگوانی ہوگی۔ضرورت نہیں بلکہ انہیں ِ
کووڈ 19کا
ایسٹرازنیکا کی ٓازمائشوں سے معلوم ہوا ہے کہ ’ایووشیلڈ‘ ±کے استعمال سے ِ
خطرہ 77فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ،امریکا میں 66الکھ سے ایک کروڑ افراد کمزور امیون سسٹم
والے ہیں ،جو وہاں کی مجموعی ٓابادی کا 2سے 3فیصد بناتے ہیں۔
امریکی حکومت بھی فوری طور پر ’ایووشیلڈ‘ کی سات الکھ خوراکیں خریدنے کی
منظوری دے چکی ہے تاہم یہ صرف ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی کسی شخص کو لگائی
جاسکیں گی۔
https://www.express.pk/story/2257492/9812/
عالمی ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون ±کا پھیالؤ تیز ہوسکتا ہے اور موجودہ
ویکسین کی افادیت کم ہوسکتی ہے
جنیوا :عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں سنسنی
پھیالنے واال کووڈ 19وائرس کی نئی تبدیل شدہ شکل ’اومیکرون‘ کی عالمات کم شدت
کی ،پھیلنے کی رفتار تیزہے۔ جبکہ اس کے سامنے موجودہ تمام ویکسین کی تاثیر کم
دیکھی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ابتدائی ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد اپنے بیان میں بتایا ہے کہ نو دسمبر تک
اومیکرون 63 ±ممالک تک جاپہنچا تھا۔ واضح رہے کہ ڈیلٹا وائرس بھارت اور اومیکرون
جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا ہے۔ اومیکرون ±میں جینیاتی تبدیلیوں کی شرح غیرمعمولی
ہے۔ اس کے بعد افریقی ممالک نے نئی عوامی پابندیاں عائد کی ہیں۔
اپنی تکنیکی رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ڈیٹا کم ہونے کے باوجود ابتدائی طور
پر معلوم ہوا ہے کہ اومیکرون ویکسین کی تاثیر کو کم کرسکتا ہے اور اس کا پھیالؤ
تیزرفتار ہوسکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ تیزی سے پھیلنے کی دوڑ میں اومیکرون ±،ڈیلٹا کو
پیچھے چھوڑ دے گا۔
واضح رہے کہ 24نومبر کو تبدیل شدہ وائرس سامنے ٓایا تھا لیکن اس کی شدت کم درج
کی اور بسا اوقات اس کی عالمات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2257941/9812/
رات کی شفٹ میں کام کرنے اور رات کو کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ
بڑھ جاتا ہے۔
ہارورڈ :جسم کی اندرونی گھڑی ہمارے سونے جاگنے اور دیگر معموالت کو طے کرتی
ہے ،ان میں بگاڑ سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،اب معلوم ہوا کہ رات کو
جاگنے اور کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
امراض
ِ اس سے قبل رت جگوں میں کام سے جسم کے استحالے (میٹابولزم) ±متاثر ہونے،
قلب اور بلڈپریشر کے درمیان تعلق سامنے ٓاچکا ہے۔ اسی طرح سونے اور جاگنے کے
قدرتی دورانیے یعنی جسمانی گھڑی (سرکاڈیئن کالک) بگڑنے سے دل پر منفی اثرات
بھی سامنے ٓائے ہیں۔
اس کے بعد ہارورڈ میڈیکل اسکول کے سائنسدانوں نے نوجوان اور صحت مند رضا
کاروں کو بھرتی کرکے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک کو دن میں کام
کرایا گیا اور ان ہی اوقات میں کھانا پینا فراہم کیا۔ دوسرے گروہ کو رات میں جاگنے کو
کہا اور انہی اوقات میں کھانا دیا گیا۔ یہ عمل کل 14روز تک دہرایا گیا۔
سب سے پہلے دونوں گروہوں کے خون میں گلوکوز کی مقدار نوٹ کی گئی۔ اب جن
لوگوں نے دو ہفتے شب بیداری میں گزارے اور رات کو کھانا کھایا تو پہلے کے مقابلے
گلوکوز کی شرح ساڑھے چھ فیصد بڑھی ہوئی دیکھی گئی۔
ہارورڈ کے پروفیسر فرینک اے جے ایل نے یہ تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری
تحقیق سے عیاں ہے کہ بے وقت کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھتی ہے لیکن
انہوں نے اس ضمن میں مزید تحقیق پر زور دیا۔
اب بھی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ رات کو کھانے کے بجائے رات جاگنے کا عمل زیادہ
مضر ہے کیونکہ یہ پورے بدن کے نظام کو تتربتر کردیتا ہے۔
https://www.express.pk/story/2255704/9812/
ویب ڈیسک
امریکی سائنسدانوں نے دھندال پن کے شکار افراد کے لیے ٓانکھوں کے ڈراپس تیار کر
لیے ہیں جس میں دھندال پن دور کرنے کی صالحیت ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کتاب پڑھنے میں دشواری کا سامنا
کرنے والے اور کمپیوٹر کے استعمال کے دوران دھندالہٹ کا شکار ہونے والے افراد کے
لیے موثر ترین ٓائی ڈراپس تیار کئے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی نے کلینکلی ٓائی ڈراپس کے استعمال کی
اجازت دے دی ہے۔
فالج کے خطرے کو کیسے کم کیا جائے؟
نامی بیماری کا شکار افراد فائدہ ) (presbyopiaان ٓائی ڈراپس کی مدد سے پریسبائے اوپیا
اٹھا پائیں گے۔
یہ بیماری عمومی طور پر 40سال سے زائد افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ایسے افراد کسی
چیز ہر دھیان دیتے وقت دھندالپن کا شکار ہوتے ہیں۔
الرجن نامی کمپنی کے مطابق اس دوا کا اثر 15منٹ کے اندر شروع ہوتا ہے اور چھ
گھنٹے تک رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نظر کی کمی کا شکار افراد اس دوا سے فائدہ نہیں
اٹھا سکتے۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تمام ادویات بیچنے والی کمپنیوں کو اس کی ترسیل کی
اجازت ہے اور اس کی قیمت 79ڈالر رکھی گئی ہے۔
https://www.humnews.pk/latest/365851/
انسانی دماغ اور کمپیوٹر کا ٓاپس میں ربط ۔۔۔اب کمپیوٹر ٓاپ کی سوچ
کے مطابق کام کرے گا ،لیکن کیسے؟
08/12/2021
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ٹیکنالوجی کی دنیا میں ٓائے دن جدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے
دنیا
سمٹ کر انسان کے ہاتھ میں ٓاچکی ہے ،اب اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کچھ
کہنے یا لکھنے کے بجائے صرف سوچنے پر ہی کمپیوٹر ہمارا مطلوبہ کام شروع کردے
گا۔کمپیوٹر کی دنیا میں ایسا انقالب ٓانے جا رہا ہے جس کے بعد انسانی دماغ اور کمپیوٹر
ٓاپس میں ربط ہوجائیں گے اور ہمارے سوچنے سے ہی کام ہوجایا کرے گا۔ایک رپورٹ
ٰ
دعوی کیا ہے کہ ان کی کمپنی کے مطابق عالمی ارب پتی صنعت کار ایلن مسک نے
چپ نصب کر دے گی جس ’نیورا لنک‘ ایک سال کے اندر انسانی دماغ میں ایک ایسی ِ
کے بعد دماغ اور چپ ایک دوسرے سے منسلک ہوکر بغیر کوئی کمانڈ لئے صرف
سوچنے سے ہی کام کرنا شروع کر دیں گے۔رپورٹ کے مطابق نیورا لنک نے ایک ایسا
نیورل امپالنٹ تیار کیا ہے جو بغیر کسی بیرونی ہارڈویئر کے دماغ کے اندر چل رہی
سرگرمی کو ویئرلیس سے براڈ کاسٹ کرسکتا ہے۔ایک انٹرویو کے دوران ایلن مسک نے
بتایا کہ بندروں کے دماغ میں چپ نصب کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ بندروں پر تجربہ
کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تکنیک محفوظ اور قابل اعتماد ہے۔انہوں نے بتایا کہ نیورا
لنک ڈیوائس کو محفوظ طریقہ سے لگایا اور ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ تکنیک ان لوگوں کے
لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی پریشانی میں مبتال ہیں اور
طویل مدت سے بستر پر ہیں۔ایلن مسک نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کسی
ایسے شخص کو طاقت دینے کا موقع ہے جو چل نہیں سکتا یا پھر اپنے ہاتھ سے کام نہیں
کرسکتا۔انہوں ±نے بتایا کہ نیورا لنک نے اپریل 2021میں ایک بندر کے دماغ میں اپنی
چپ نصب کی تھی ،جس کے بعد بندر اپنے دماغ کا استعمال کر کے ویڈیو گیم کھیلنے کے
اہل ہوگیا۔ بندر کے دماغ میں نصب ڈیوائس نے کھیلتے وقت معلومات فراہم کی جس کے
سبب وہ جان پایا کہ کھیل کے دوران چال کس طرح چلنی ہے۔مسک نے کہا کہ چپ نصب
کئے جانے کے باوجود بندر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں ٓا رہی تھی اور وہ دور سے ہی
ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔خیال رہے کہ نیورا لنک چھوٹے لچک دار دھاگوں سے وابستہ
ایک چپ ہوتی ہے ،جسے روبوٹ کے ذریعے دماغ میں سی دیا جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس دماغ
سے پیدا ہونے والی لہروں کی شناخت کرکے اس سے منسلک ہوجاتی ہے اور سوچ کے
مطابق کام کرنے لگتی ہے
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202112-130310.html
اگر نوجوان کا پاخانہ بوڑھے آدمی کو ٹرانسپالنٹ کیا جائے تو وہ جوان
ہونا شروع ہوجاتا ہے‘ سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن
انکشاف
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے پاخانے کے ذریعے عمر رسیدگی کا عمل
سست کرنے کا ایک حیران کن طریقہ ڈھونڈ نکاال ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق سائنسدانوں
اس تحقیق میں پتا چالنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اگر عمر رسیدہ لوگوں میں نوجوان
لوگوں کا پاخانہ ٹرانسپالنٹ کیا جائے تو ان میں عمر رسیدگی کا عمل الٹ سمت میں چلنا
شروع کر دیتا ہے اور وہ ایک بار پھر جوانی کی طرف چلے جاتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اس تحقیق میں چوہوں پر تجربات کیے جو حیران کن حد تک کامیاب رہے۔
تحقیق میں سائنسدانوں نے عمررسیدہ چوہوں میں نوجوان چوہوں کا پاخانہ ٹرانسپالنٹ کیا
جس سے عمر رسیدہ چوہوں میں کچھ حیران کن تبدیلیاں آگئیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ
جان کریان کا کہنا تھا کہ ان عمر رسیدہ چوہوں میں سیکھنے اور سمجھنے کی صالحیت
کئی گنا بہتر ہو گئی۔ ان کی یادداشت میں حیران کن طور پر اضافہ ہو گیا اور ان میں ذہنی
پریشانی کا لیول بہت زیادہ کم ہو گیا۔ میں اور میری ٹیم اب مقعد کی صحت اور ذہن کے
درمیان تعلق کو معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/10-Dec-2021/1376283