You are on page 1of 141

‫سردیوں میں بعض لوگوں کے پأوں ہمہ وقت ٹھنڈے کیوں رہتے ہیں؟‬

‫ماہرین نے ایسی وجہ بتادی کہ کوئی بھی خوفزدہ ہو جائے‬


‫‪06/12/2021‬‬

‫‪     ‬‬
‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سردیوں کے موسم میں بعض لوگوں کے پأوں ہمہ وقت ٹھنڈے‬

‫رہتے ہیں‪ ،‬خواہ وہ کسی گرم‬


‫جگہ پر ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ ماہرین نے اب اس کی پانچ وجوہات بتا دی ہیں جن میں‬
‫سے کچھ بہت خوفزدہ کر دینے والی بھی ہیں۔ دی سن کے مطابق پأوں ٹھنڈے رہنے کی‬
‫وجوہات میں ایک تھائیرائیڈ کا کم متحرک ہونا ہے۔ جب تھائیرائیڈ نامی غدود کم ہارمونز‬
‫پیدا کرتا ہے تو اس سے جسم کے کئی اعضاءمتاثر ہوتے ہیں اور خوراک سے توانائی کم‬
‫بنتی ہے۔ صرف پأوں یا پورا جسم ٹھنڈا رہنا اس عارضے کی عالمت ہو سکتی ہے۔پأوں‬
‫ٹھنڈے رہنے کی ایک وجہ ’رینأوڈز ڈیزیز‘ (‪)Raynaud's disease‬بھی ہے۔ اس بیماری‬
‫میں انسانی جسم سردی لگنے پر حد سے زیادہ ردعمل دیتا ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں ہاتھ‬
‫اور پأوں سردی سے منجمد محسوس ہوتے ہیں۔پأوں ٹھنڈے رہنے کی ایک وجہ شوگر کی‬
‫بیماری بھی ہے۔ اس کے عالوہ ذہنی پریشانی اور ہائی کولیسٹرول بھی پیروں کے ٹھنڈے‬
‫رہنے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ اگر ٓاپ کو ہائی کولیسٹرول کا عارضہ الحق ہے تو ٓاپ‬
‫کو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے کیونکہ یہ سٹروک اور ہارٹ اٹیک کا بھی سبب بن‬
‫سکتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202112-130153.html‬‬

‫مستقبل میں ٓانے والی وبا کورونا سے زیادہ مہلک ہوسکتی ہے‪،‬‬
‫ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین‬
‫دسمبر ‪06 2021 ،‬‬

‫ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین‪  ‬کا مستقبل سے متعلق پیش گوئی کرتے ہوئے کہنا ہے کہ مستقبل‬
‫میں ٓانے والی وبا کورونا وبا سے زیادہ مہلک ہوسکتی ہے۔‬
‫ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین کے مطابق انسانی زندگیوں کو متاثر کرنے والی کورونا وبا‬
‫ٓاخری وبا نہیں ہے‪ ،‬اگلی ٓانے والی وبا زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہوسکتی ہے‬
‫ٓاکسفورڈ ویکسین ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں مستقبل کے وبائی امراض سےنمٹنے کی‬
‫تیاری اور فنڈنگ کرنی ہوگی‪ ،‬وبائی امراض سے سیکھے گئے اسباق‪ ،‬معلومات ضائع‬
‫نہیں ہونا چاہئیں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1021102‬‬
‫سردیوں میں تلوں کا استعمال کیوں ضروری ہے؟‬

‫دسمبر ‪06 2021 ،‬‬


‫موسم سرما میں‪ ‬متعدد انفیکشنز‪ F‬اور موسمی وائرل سے بچأو کے لیے گرم تاثیر کی‬
‫حامل‪ ،‬صحت کے لیے مفید غذأوں کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جبکہ غذائیت سے بھر‬
‫پور تِل متعدد غذأوں سے بہتر‪ٓ F‬اپشن تصور‪ F‬کیے جاتے ہیں کیوں کہ اِن میں‪ ‬پائے جانے‬
‫واال قدرتی تیل انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق تِل غذائی اجزاء اور روغن سے بھرپور بیج ہے‪ ،‬چھوٹے‬
‫چھوٹے سفید اور کالے رنگ کے تِلوں میں گوشت کے برابر غذائیت موجود ہوتی ہے اور‬
‫اِنہیں دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔‬
‫دوسری جانب گھر میں موجود نانی دادی‪ ،‬بڑے بوڑھوں کی جانب سے بھی موسم سرما‬
‫کے ٓاغاز سے ہی گرم تاثیر رکھنے والی غذأوں پر زور دیا جاتا ہے جن میں السی‪ ،‬منقہ‪،‬‬
‫چھوارے‪ ،‬تل‪ ،‬خشک میوہ جات شامل ہے جبکہ اکثر اوقات گھروں میں تلوں کا میٹھی‬
‫غذأوں اور مخصوص پکوانوں میں استعمال بھی کیا جاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق ان چھوٹے چھوٹے بیجوں میں قدرت نے بھر پور صحت کا‬
‫خزانہ چھپا رکھا ہے‪ ،‬گرم تاثیر ہونے کے سبب ان کا استعمال خصوصا ً خواتین اور بچوں‬
‫کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے‪ ،‬تِلوں میں متعدد وٹامنز‪ ،‬منرلز‪ ،‬قدرتی روغن اور دیگر‬
‫اجزاء جیسے کہ کیلشیم‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬فاسفورس‪ ،‬میگنیز‪ ،‬کاپر‪ ،‬زنک‪ ،‬فائبر‪ ،‬تھیامن‪،‬‬
‫وٹامن بی‪ ،6‬فولیٹ اور پروٹین پایا جاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق تِلوں کا استعمال سردیوں میں نہایت مفید ہے‪ ،‬اس کے استعمال‬
‫کے نتیجے میں‪ ‬بچے بڑے بوڑھے جوان سب ہی خشک کھانسی‪ ،‬خشک ِجلد‪ ،‬ایڑیاں‪،‬‬
‫ہونٹ اور گالیں بھٹنے کی شکایت‪ ،‬وائرل فلو‪ ،‬نزلہ‪ ،‬زکام اور بخار سے بھی بچ جا تے‬
‫ہیں۔‬

‫غذائی ماہرین کے مطابق اس کے استعمال کے نتیجے میں انسان شوگر‪ ،‬بلڈپریشر‪ ،‬کینسر‪،‬‬
‫ہڈیوں کی کمزوری‪ ،‬جلِد کو پہنچنے والے نقصانات‪ ،‬دل کی بیماریوں‪ ،‬منہ کی بیماریوں‬
‫سے بچ جا تا ہے‪ ،‬اس میں موجود اینٹی ٓاکسیڈنٹ اجزاء انسانی جسم سے مضر صحت‬
‫مادوں کو بھی نکال دیتے ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے موسم سرما میں تلوں کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جس‬
‫‪:‬کے مزید فوائد مندرجہ ذیل ہیں‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق تلوں میں مثبت روغن (تیل) پائے جانے کے سبب اس کے‬
‫استعمال سے ایڑیاں‪ ،‬ہاتھ اور ہونٹ پھٹنے سے بچ جاتے ہیں۔‬
‫تلوں کی تاثیر گرم ہونے کے سبب اس کے استعمال سے سردی کم محسوس ہوتی ہے اور‬
‫انسان خشک موسم میں ناک اور حلق سے متعلق بیماریوں سے بھی بچ جاتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق موٹے ہونے کے خواہشمند افراد کو چاہیے کہ تِلوں کو بادام اور‬
‫خشخاش کے ساتھ مال کر کھائیں اور بعد میں دودھ پی لیں جبکہ وزن میں کمی النے والے‬
‫افراد کو چاہیے کہ وہ کالے تل کے بیجوں کو خوب چبا کر کھائیں‬
‫تلوں میں پولی اَن سیچوریٹڈ اور مونو سیچوریٹڈ فیٹس سے بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے‪،‬‬
‫اس میں سیچوریٹڈ فیٹس کم ہوتے ہیں جو کہ دل کی صحت اور کولیسٹرول کی سطح‬
‫کنٹرول میں رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‬
‫سردیوں میں بالوں کی صحت برقرار رکھنے اور خشکی کے خاتمے کے لیے تلوں کے‬
‫تیل کی معمولی سی مقدار سے سر پر مالش کریں اور ‪ 30‬منٹ تک کے لیے چھوڑ دیں‪،‬‬
‫اس کے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے بال دھو لیں‪ ،‬بال گھنے‪ ،‬کالے‪ ،‬لمبے اور مضبوط‬
‫ہوجائیں گے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1021055‬‬
‫درست ترین بلڈ پریشر ناپنے والی پہلی اسمارٹ واچ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 6  ‬دسمبر‪2021  ‬‬
‫ہانگ کانگ کی ایک کمپنی نے دنیا کی سب سے درست ترین بلڈ پریشر ناپنے والی‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے۔ فوٹو‪ :‬بشکریہ انڈی گوگو‬ ‫اسمارٹ واچ کا‬
‫ہانگ کانگ‪ :‬اگرچہ بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن نوٹ کرنے والی کئی اسمارٹ واچ تیارکی‬
‫دعوی ہے کہ ان کی اسمارٹ واچ دنیا کا پہال دستی ٓالہ‬ ‫ٰ‬ ‫جاچکی ہیں لیکن اب ایک کمپنی کا‬
‫ہے جو جس میں غلطی کا امکان صرف ‪ 5‬ریڈنگ کم یا زیادہ ہے۔‬
‫جب اسے کراؤڈ فنڈنگ پر پیش کیا گیا تو مطلوبہ سرمایہ کاری کا ہدف مقررہ وقت سے‬
‫پہلے ہی حاصل ہوگیا جس کے بعد تیزی سے اس کی پروڈکشن جاری ہے۔‬
‫اسے ڈاکٹروں کے مطابق طبی پیمانے کی ایجاد قرار دیا گیا ہے اور اس کا پورا نام بی پی‬
‫(بلڈ پریشر) ڈاکٹر میڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے درستگی کی غرض سے ایف ڈی اے نے‬
‫منظور کیا ہے۔ یہ ‪ 24‬گھنٹے دل کی دھڑکن‪ ،‬نبض اور بلڈ پریشر نوٹ کرسکتی ہے۔‪    ‬نیند‬
‫کا دورانیہ نوٹ کرتی ہے اور پورا ڈیٹا جمع رکھتی ہے۔ اس کا پورا ڈیٹا اہ ِل خانہ اور ڈاکٹر‬
‫کو بھیجا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ چارج کرنے پر اسمارٹ واچ ایک ہفتے تک چلتی رہتی‬
‫ہے۔‬
‫اگر بلڈ پریشر خطرے کی عالمت سے ٓاگے بڑھ جائے تو االرم یا وائبریشن سے فوری‬
‫خبردار بھی کرتی ہے۔ انڈی گوگو کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ نے اسے اپنے پلیٹ فارم پر‬
‫سب سے زیادہ تیزی سے فنڈ ہونے والی ایجاد قرار دیا ہے۔ مارکیٹ میں پیش کرنے سے‬
‫قبل ہی اسے ہزاروں مریضوں پر پہلے ہی ٓازمایا جاچکا ہے اور بہترین نتائج سامنے ٓائے‬
‫ہیں۔‬
‫دنیا بھر میں اس وقت کم سے ایک ارب دس کروڑ افراد ایسے ہیں جو بلڈ پریشر کے‬
‫مستقل مریض ہیں اور یہ گھڑی ان کی جان بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2255432/9812/‬‬

‫میں نے محنت بہت کرناشروع کردی‬


‫ایک ایک لفظ اورپیرے کوناپ تول کرلکھتے تھے راجندرسنگھ بیدی‬
‫کورونا وائرس ‪ :‬بوسٹر ڈوز کیلئے کون سی ویکسین مؤثر قرار‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 6 2021‬‬

‫یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری‪ F‬خوراک وائرس کی نئی قسم سے‬
‫بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیالؤ کو روکنے کے‬
‫لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔‬
‫ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے “مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی‬
‫ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین‬
‫استعمال کی جا سکتی ہے‪ ،‬یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک‬
‫خوراک لی گئی‪ ،‬بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔‬
‫برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی‪ ‬تحقیق کے مطابق‪ ‬طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ‬
‫وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‬
‫کوویڈ‪ 19‬ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے‬
‫خالف لڑنے کی صالحیت میں اضافہ ہوگا۔‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی‬
‫اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔‬
‫کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں ‪ 3‬ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے‬
‫جن کو‪ 7‬میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر‬
‫ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے‪ 2‬سے‪ 3‬ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد‬
‫بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے‬
‫والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ ‪ 25‬گنا‬
‫اضافہ ہوگیا۔‬
‫اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی‬
‫ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 8‬گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔‬
‫مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے‬
‫ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 32‬گنا جبکہ فائزر گروپ میں‬
‫‪ 11‬گنا اضافہ ہوا۔‬
‫اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم ٓار این اے ویکسینز بوسٹر‬
‫کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست‬
‫نہیں۔‬
‫مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی‬
‫باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں‪ ،‬جن کی ہسپتال میں داخلے‬
‫اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر‬
‫بیشتر افراد نے تھکاوٹ‪ ،‬سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی‬
‫قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔‬
‫اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال‬
‫کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی‬
‫روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔‬
‫بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر‪ ،‬موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ‬
‫ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی ‪ 2‬خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ٰڈلٹا اقسام کے خالف بھی اوریجنل وائرس‬
‫جتنا ہی ٹھوس تھا۔‬
‫محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے‬
‫متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد ‪3‬‬
‫سے ‪ 6‬ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔‬
‫تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح‬
‫میں ‪ 3‬سے ‪ 5‬گنا اضافہ دیکھنے میں ٓایا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے النسیٹ میں‬
‫شائع ہوئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-dose-immunity/‬‬
‫کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے ٓائی؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪  6 2021‬‬

‫کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات ہونا باقی‪10‬‬
‫ہیں تاہم حال ہی میں اس کے ارتقا کے بارے میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا ارتقا عام نزلہ‬
‫زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔‬
‫امریکی بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ مال ہے کہ‬
‫کرونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ‬
‫متعدی ہوسکتی ہے۔‬
‫تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث‬
‫بننے والے ایک اور انسانی کرونا وائرس ایچ کوو ‪ 229‬ای سے مماثلت رکھتا ہے۔‬
‫ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے‬
‫ساتھ ساتھ ایچ کوو ‪ 229‬ای سے بیک وقت متاثر تھا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کرونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں‬
‫ٓاتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔ اس جینیات کے‬
‫مواد کے باعث اومیکرون‪ ±‬خود کو زیادہ انسانی دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث‬
‫اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ ٓاور ہونا ٓاسان ہوا۔‬
‫تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ ٓاسانی سے‬
‫پھیلنے میں مدد ملی‪ ،‬مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ‬
‫متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔‬
‫ماہرین نے کہا کہ ان سواالت کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں‬
‫سارس کوو ‪ 2‬اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے‬
‫ہیں۔‬
‫ایک ہی میزبان خلیے میں ‪ 2‬مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول‬
‫بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز‬
‫سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو ‪ 2‬نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا‬
‫ہوگا۔‬
‫اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا‬
‫وائرس ایچ کوو ‪ 229‬ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی‬
‫ایسا ہوتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/research-on-omicron-covid-variant/‬‬

‫کا میا بی حا صل کر نے کا وا حد جا ئز اور ا خال قی طر یقہ یہی ہے کہ خلق خد ا کو یا د‬


‫ر کھیے۔ لو گو ں کے سا تھ صلہ ر حمی کیجیے۔ ان کے سا تھ محبت سے پیش ٓائیے ۔ ان‬
‫تعالی کا قر ب عطا کر یں گے۔‬
‫ٰ‬ ‫کی مد د کیجیے۔ ٓاپ کے یہ ا عما ل ٓاپ کو ا ہلل تبا ر ک و‬
‫اس کا نتیجہ ٓاپ کو ہللا اپنی رحمت سے نوا زے گا ۔ اور پھر کا میا بی کے دروازے ٓاپ‬
‫کے لیے کھلتے چلے جائیں گے ۔‬

‫کورونا وائرس ‪ :‬بوسٹر ڈوز کیلئے کون سی ویکسین مؤثر قرار‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 6 2021‬‬
‫یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری‪ F‬خوراک وائرس کی نئی قسم سے‬
‫بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیالؤ کو روکنے کے‬
‫لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔‬
‫ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے “مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی‬
‫ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین‬
‫استعمال کی جا سکتی ہے‪ ،‬یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک‬
‫خوراک لی گئی‪ ،‬بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔‬
‫برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی‪ ‬تحقیق کے مطابق‪ ‬طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ‬
‫وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‬
‫کوویڈ‪ 19‬ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے‬
‫خالف لڑنے کی صالحیت میں اضافہ ہوگا۔‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی‬
‫اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔‬
‫کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں ‪ 3‬ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے‬
‫جن کو‪ 7‬میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر‬
‫ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے‪ 2‬سے‪ 3‬ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد‬
‫بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے‬
‫والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ ‪ 25‬گنا‬
‫اضافہ ہوگیا۔‬
‫اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی‬
‫ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 8‬گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔‬
‫مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے‬
‫ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 32‬گنا جبکہ فائزر گروپ میں‬
‫‪ 11‬گنا اضافہ ہوا۔‬
‫اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم ٓار این اے ویکسینز بوسٹر‬
‫کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست‬
‫نہیں۔‬
‫مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی‬
‫باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں‪ ،‬جن کی ہسپتال میں داخلے‬
‫اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر‬
‫بیشتر افراد نے تھکاوٹ‪ ،‬سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی‬
‫قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔‬
‫اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال‬
‫کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی‬
‫روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔‬
‫بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر‪ ،‬موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ‬
‫ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی ‪ 2‬خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ٰڈلٹا اقسام کے خالف بھی اوریجنل وائرس‬
‫جتنا ہی ٹھوس تھا۔‬
‫محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے‬
‫متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد ‪3‬‬
‫سے ‪ 6‬ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔‬
‫تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح‬
‫میں ‪ 3‬سے ‪ 5‬گنا اضافہ دیکھنے میں ٓایا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے النسیٹ میں‬
‫شائع ہوئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-dose-immunity/‬‬

‫رونا کی اومکرون قسم ‪ 38‬ممالک میں پھیل گئی‪ ،‬نئے ویریئنٹ کے خالف ویکسین کی‬
‫افادیت پر تحقیق جاری‬
‫‪ٓ minutes ago‬اخری بار اپڈیٹ کیا گیا ‪57‬‬
‫دسمبر ‪۶ ۲۰۲۱‬‬

‫ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس کا یہ ویریئنٹ‪ ،‬پہلے ٓانے والی اقسام کے مقابلے‬
‫میں زیادہ‪ ‬تیزی سے پھیلتا ہے‪ ،‬عالمی ادارہ صحت نے اس نئی قسم کے ‪ 38‬ممالک میں‬
‫پھیلنے کی تصدیق کی ہے۔ (فائل فوٹو)‬
‫‪  ‬‬
‫‪  ‬‬
‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬
‫‪  ‬‬
‫‪‬‬
‫تبصرے دیکھیں‬
‫‪Print‬‬
‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫جنوبی افریقہ میں سامنے ٓانے والے کرونا وائرس کی اومکرون قسم کا پھیالؤ دنیا کے‬
‫دیگر ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ مزید ممالک کی طرف سے افریقی ممالک سے ٓانے‬
‫والی پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‬
‫ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس کا یہ ویریئنٹ‪ ،‬پہلے ٓانے والی اقسام کے مقابلے‬
‫میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے‪ ،‬عالمی ادارہ صحت نے اس نئی قسم کے ‪ 38‬ممالک میں‬
‫پھیلنے کی تصدیق کی ہے۔‬
‫کرونا ویکسین بنانے والی فارما کمپنیاں اس تحقیق میں لگی ہوئی ہیں کہ ان کی تیار کردہ‬
‫کرونا ویکسین اس ویریئنٹ کے خالف بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں یا نہیں۔‬
‫امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق جن ممالک میں اومکرون‬
‫ویریئنٹ کی تشخیص کی گئی ہے ان میں ٓاسٹریلیا‪ ،‬ہانگ کانگ‪ ،‬جاپان‪ ،‬جنوبی کوریا‪ ،‬سنگا‬
‫پور اور ملیشیا شامل ہیں جب کہ رواں ہفتے جمعرات کو بھارت سے بھی مذکورہ ویریئنٹ‬
‫کی تشخیص رپورٹ کی گئی ہے۔‬
‫ٓاسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شہر سڈنی میں ہفتے کو اومکرون ویریئنٹ سے‬
‫متاثرہ ‪ 13‬کیسز رپورٹ کیے گئے جب کہ ریاست کوئنز لینڈ سے بھی کیسز سامنے ٓانے کا‬
‫خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔‬
‫ٓاسٹریلیا میں اومکرون ویریئنٹ کی مقامی منتقلی کا پہال کیس رواں ہفتے سڈنی کے ایک‬
‫اسکول سے جمعے کو رپورٹ کیا گیا۔‬
‫حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ کیس کے ماخذ کا پتا لگانے کے لیے تفتیش جاری ہے جب کہ‬
‫مزید کیسز بھی متوقع ہیں۔‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/omicron-in-38-countries-no-deaths-‬‬
‫‪reported-04dec2021/6339302.html‬‬

‫کیا ’’ویاگرا‘‘ سے الزائیمر بیماری کا عالج ہوسکے گا؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 7  ‬دسمبر‪ 2021  ‬‬

‫ویاگرا استعمال کرنے والوں میں چھ سال بعد تک الزائیمر بیماری کا خطرہ ‪ 69‬فیصد کم‬
‫دیکھا گیا۔ (فوٹو‪ :‬انٹرنیٹ)‬
‫کلیولینڈ‪ :‬امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ’سلڈینافل‘ المعروف ’ویاگرا‘ سے‬
‫ممکنہ طور پر دماغ کی خطرناک بیماری ’الزائیمر‘ کا عالج بھی کیا جاسکے گا۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’نیچر ایجنگ‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے یہ تحقیق ابتدائی نوعیت‬
‫کی ہے جس میں الزائیمر بیماری کی ایک بہترین ممکنہ دوا کے طور پر ویاگرا کا نام بھی‬
‫سامنے ٓایا ہے۔‬
‫اس تحقیق کےلیے الکھوں افراد کی طبّی کیفیات اور جینیاتی ترکیب کا ایک وسیع ڈیٹابیس‬
‫کھنگال کر‪ ،‬پروٹینز کے باہمی عمل (پروٹین پروٹین انٹریکشنز)‪ ±‬پر مبنی ایسی نشانیاں‬
‫تالش کی گئیں جو ٓانے والے برسوں میں الزائیمر بیماری کی وجہ بنتی ہیں۔‬
‫طاقتور کمپیوٹروں اور خصوصی الگورتھمز‪ ±‬کی مدد سے سائنسدانوں نے ساڑھے تین الکھ‬
‫سے زائد پروٹین پروٹین انٹریکشنز کا تجزیہ کیا؛ اور ان میں سے الزائیمر‪ ±‬بیماری کی وجہ‬
‫بننے والے انٹریکشنز شناخت کرکے الگ کیے۔‬
‫اگلے مرحلے میں ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘‪ ±‬کی منظور کردہ ‪ 1600‬سے زیادہ دواؤں‬
‫میں سے وہ ادویہ تالش کی گئیں جو اُن پروٹین پروٹین انٹریکشنز میں زیادہ سے زیادہ‬
‫رکاوٹ ڈال سکیں جو الزائیمر بیماری کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫اس مرحلے پر جو دوائیں الزائیمر بیماری کی روک تھام میں بہتر دکھائی دیں‪ ،‬ان میں‬
‫سرفہرست تھی جو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ’’مخصوص مردانہ گولی‘‘‪ ±‬کے‬ ‫’ویاگرا‘ ِ‬
‫طور پر استعمال ہورہی ہے جبکہ کئی ملکوں نے اسی وجہ سے ویاگرا پر پابندی بھی‬
‫لگائی ہوئی ہے (ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے)۔‬
‫البتہ‪ ،‬ماہرین نے اپنی مزید تسلی کےلیے امریکا میں ‪ 70‬الکھ سے زائد عمر رسیدہ افراد‬
‫کی جانب سے دائر کیے گئے انشورنس کلیمز‪ ،‬ان لوگوں میں مختلف ادویہ کے استعمال‬
‫اور الزائیمر بیماری کے واقعات کا بہت باریکی سے تجزیہ کیا۔‬
‫اس تجزیئے سے بھی یہی معلوم ہوا کہ جن افراد میں ابتدائی معائنے کے بعد الزائیمر کا‬
‫خطرہ سامنے ٓایا تھا‪ ،‬ان میں سے ’’ویاگرا‘‘‪ ±‬استعمال کرنے والے لوگوں میں چھ سال بعد‬
‫تک الزائیمر کا خطرہ ‪ 69‬فیصد کم تھا۔‬
‫مطالعے کے مصنّفین نے خبردار کیا ہے کہ فی الحال اس تحقیق سے ہر گز یہ نہ سمجھ لیا‬
‫جائے کہ ویاگرا واقعتا ً الزائیمر بیماری کا عالج ہے۔ ابھی صرف ویاگرا کے استعمال سے‬
‫الزائیمر بیماری کے امکانات میں کمی ہی ہمارے سامنے ٓائی ہے۔‬
‫کیا ویاگرا واقعی میں الزائیمر بیماری کا عالج کرسکتی ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ‬
‫جاننے کےلیے ہمیں ایک اور تفصیلی لیکن محتاط تحقیق کی ضرورت ہوگی؛ اس سے‬
‫پہلے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‬
‫البتہ اچھی بات یہ ہے کہ ویاگرا پہلے ہی ’’ایف ڈی اے‘‘ سے منظور شدہ ہے‪ ،‬ل ٰہذا‬
‫الزائیمر کےلیے اس کے استعمال میں زیادہ مشکل پیش نہیں ٓائے گی۔‬
‫واضح رہے کہ دنیا بھر میں الزائیمر بیماری کے ‪ 65‬الکھ سے زیادہ مریض ہیں جن میں‬
‫سے بیشتر کی عمر ‪ 65‬سال یا اس سے زیادہ ہے۔‬
‫الزائیمر بیماری میں یادداشت تیزی سے کمزور ہوتی ہے؛ دماغ ہر وقت الجھن میں مبتال‬
‫رہتا ہے؛ نئی چیزیں سیکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے؛ پڑھنے‪ ،‬لکھنے اور حساب‬
‫کتاب کرنے میں دشواری ہونے لگتی ہے اور یہ کیفیت بھی بڑھتی جاتی ہے؛ سوچ منتشر‬
‫رہنے لگتی ہے اور ہر وقت عجیب و غریب خیاالت کا دماغ پر غلبہ رہنے لگتا ہے؛ زیادہ‬
‫دیر تک کسی چیز پر توجہ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے؛ جبکہ بدلتے ہوئے حاالت کا سامنا‬
‫کرنے میں بھی پریشانی ہونے لگتی ہے۔‬
‫ایک اندازے کے مطابق‪ ،‬دنیا بھر میں ‪ 65‬سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہر ‪ 9‬میں سے‬
‫ایک فرد (‪ 11.3‬فیصد) کو الزائیمر بیماری ہوجاتی ہے جبکہ ‪ 75‬سال یا اس سے زیادہ عمر‬
‫کے ‪ 72‬فیصد بزرگوں میں یہ بیماری دیکھی گئی ہے۔‬
‫الزائیمر بیماری اب تک العالج ہے لیکن اگر ویاگرا اسے روکنے میں واقعی مددگار ثابت‬
‫ہوئی تو دماغ کی بہت سی مہنگی دواؤں کے مقابلے میں یہ بہت کم خرچ بھی ثابت‬
‫ہوسکتی ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2255863/9812/‬‬

‫مرگی میں مبتال افراد کے دماغ جلد 'بوڑھے' ہوجاتے ہیں‪ ،‬ماہرین‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 6  ‬دسمبر‪ 2021  ‬‬
‫مرگی مرض کی طویل تاریخ رکھنے والے افراد کے دماغ تیزی سے بوڑھے ہوجاتے ہیں‪ ‬‬
‫جو ڈیمنشیا کی نشوونما کے لیے مشکالت کو بڑھا سکتا ہے۔‬
‫یہ نئی تحقیقی‪ ‬بتاتی ہے کہ مرگی کے شکار لوگوں کے دماغ ان لوگوں کے دماغوں سے‬
‫تقریبا ً ‪ 10‬سال زیادہ پرانے دکھائی دیتے ہیں جنہیں مرگی کی بیماری نہیں۔‬
‫مرگی‪ ‬کے مریضوں‪ ‬میں علمی صالحیت کا زوال بھی جلد ٓاتا ہے‪  ،‬بشمول یادداشت اور‬
‫استدالل کے مسائل بھی اور دماغی اسکینوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو الزائمر کی‬
‫بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔‬
‫مطالعہ سے پتہ چلتا ہے دماغی عمر کا بڑھنا اور سوچ اور یادداشت میں تبدیلیاں ان لوگوں‬
‫میں زیادہ واضح ہوتی ہیں جن کے مرض کا صحیح سے انتظام نہیں کیا جاتا۔‬
‫مطالعہ کے مصنف اور یونیورسٹی آف وسکونسن سکول آف میڈیسن میں نیورو‬
‫سائیکالوجی کے ایمریٹس پروفیسر ‪ ‬بروس ہرمن نے کہا‪“ ،‬ایسا لگتا ہے کہ بچپن سے‬
‫شروع ہونے والی مرگی عمر بڑھنے کے عمل کو تیز کر سکتی ہے‪ ،‬خاص طور پر ان‬
‫”‪،‬لوگوں میں جو بچپن سے ‪ 60‬کی دہائی تک مرگی کا شکار رہتے ہیں‬
‫‪https://www.express.pk/story/2255699/9812/‬‬

‫کورونا وائرس ‪ :‬بوسٹر ڈوز کیلئے کون سی ویکسین مؤثر قرار‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 6 2021‬‬
‫یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری‪ F‬خوراک وائرس کی نئی قسم سے‬
‫بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیالؤ کو روکنے کے‬
‫لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔‬
‫ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے “مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی‬
‫ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین‬
‫استعمال کی جا سکتی ہے‪ ،‬یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک‬
‫خوراک لی گئی‪ ،‬بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔‬
‫برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی‪ ‬تحقیق کے مطابق‪ ‬طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ‬
‫وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‬
‫کوویڈ‪ 19‬ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے‬
‫خالف لڑنے کی صالحیت میں اضافہ ہوگا۔‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی‬
‫اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔‬
‫کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں ‪ 3‬ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے‬
‫جن کو‪ 7‬میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر‬
‫ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے‪ 2‬سے‪ 3‬ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد‬
‫بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے‬
‫والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ ‪ 25‬گنا‬
‫اضافہ ہوگیا۔‬
‫اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی‬
‫ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 8‬گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔‬
‫مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے‬
‫ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 32‬گنا جبکہ فائزر گروپ میں‬
‫‪ 11‬گنا اضافہ ہوا۔‬
‫اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم ٓار این اے ویکسینز بوسٹر‬
‫کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست‬
‫نہیں۔‬
‫مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی‬
‫باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں‪ ،‬جن کی ہسپتال میں داخلے‬
‫اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر‬
‫بیشتر افراد نے تھکاوٹ‪ ،‬سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی‬
‫قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔‬
‫اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال‬
‫کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی‬
‫روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔‬
‫بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر‪ ،‬موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ‬
‫ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی ‪ 2‬خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ٰڈلٹا اقسام کے خالف بھی اوریجنل وائرس‬
‫جتنا ہی ٹھوس تھا۔‬
‫محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے‬
‫متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد ‪3‬‬
‫سے ‪ 6‬ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔‬
‫تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح‬
‫میں ‪ 3‬سے ‪ 5‬گنا اضافہ دیکھنے میں ٓایا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے النسیٹ میں‬
‫شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-booster-dose-immunity/‬‬

‫اومیکرون یا ڈیلٹا‪ ،‬کم خطرناک ویرینٹ کون سا؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 6 2021‬‬
‫واشنگٹن‪ :‬امریکی محکمہ صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون‪ ،‬ڈیلٹا ویرینٹ سے بھی کم‬
‫خطرناک ہو سکتا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق امریکی محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی نتائج سے‬
‫معلوم ہوا ہے کہ کرونا کی نئی قسم اومیکرون اس سے پہلے سامنے ٓانے والے ڈیلٹا‬
‫ویرینٹ سے کم خطرناک ہو سکتی ہے۔‬
‫صدر جو بائیڈن کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی‪ ‬نے کہا کہ ابھی تک یہ‬
‫نہیں لگتا کہ اومیکرون اتنا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے‪ ،‬لیکن ہمیں یہ کہنے میں بھی احتیاط‬
‫برتنی چاہیے کہ یہ ڈیلٹا سے کم متاثر کرتا ہے یا اس سے کوئی زیادہ بیمار نہیں ہو سکتا۔‬
‫تاہم عالمی ادارۂ صحت کی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر ماریہ وان کیرکوو نے خبردار کیا ہے‬
‫کہ اومیکرون اگر کم خطرناک بھی ہے تو یہ ایک مسئلہ ضرور ہے‪ ،‬اگرچہ زیادہ کیسز کم‬
‫شدت والے ہیں‪ ،‬لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کو اسپتال جانے کی ضرورت پڑے گی‪ ،‬ان میں‬
‫سے کچھ ٓائی سی یو میں جائیں گے اور کچھ مر جائیں گے۔‬
‫ادھر بائیڈن انتظامیہ افریقی ممالک سے ٓانے والے غیر ملکیوں کو امریکا میں داخلے کی‬
‫اجازت دینے پر غور کر رہی ہے‪ ،‬ڈاکٹر فاؤچی کا کہنا تھا کہ امید ہے تھوڑے عرصے‬
‫میں ہم یہ پابندی ہٹا دیں گے‪ ،‬جنوبہ افریقا اور دیگر افریقی ممالک پر پابندی لگانے کو ہم‬
‫اچھا نہیں سمجھتے۔‬
‫واضح رہے کہ سائنس دانوں کو اومیکرون کی شدت کے بارے میں حتمی نتائج اخذ کرنے‬
‫سے پہلے مزید معلومات درکار ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/omicron-can-be-less-dangerous-than-delta/‬‬
‫سردی میں نیم گرم پانی پینے کے بے شمار فوائد‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪6 2021‬‬

‫سردیوں میں گرم پانی پینے‪ F‬کے بے شمار فوائد ہیں‪ ،‬طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں‬
‫میں گرم پانی پینا صحت کے لیے دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم کا ‪ 60‬فیصد سے زائد حصہ پانی پر مشتمل ہے جس‬
‫میں دماغ اور دل کا ‪ 73‬فیصد حصہ پانی ہے‪ ،‬انسانی جسم کے لیے پانی کی مناسب مقدار‬
‫نہایت ضروری ہے‪ ،‬ماہرین کی جانب سے ہر بیماری میں زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال‬
‫بھی تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سردیوں میں پیاس نہ لگنے کے سبب پانی کا استعمال کم کر دیا‬
‫جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہاضمے اور جسمانی دیگر اعضاء سے متعلق شکایت بڑھ‬
‫جاتی ہے۔‬
‫سردیوں میں بھی پانی کی مقدار کم از کم ‪ 8‬گالس کے درمیان ہونی چاہیے اور اگر یہ‬
‫مقدار نیم گرم پانی پر مشتمل ہو تو جسم پر حیرت انگیز فوائد خود بہ خود واضح محسوس‬
‫کیے جا سکتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق ہر بالغ انسان کو دن میں کم از کم ‪ 8‬گالس پانی ضرور پینا چاہیے اور‬
‫اگر سادہ پانی کے بجائے نیم گرم پانی پی لیا جائے تو اس کے صحت پر سو فیصد مثبت‬
‫نتائج حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق سردیوں کے موسم میں وائرل انفیکشن‪ ،‬موسمی بیماریوں خصوصا ً‬
‫نزلہ زکام بخار سے بچنے کے لیے اگر نیم گرم سے تھوڑا سا زیادہ گرم (اتنا گرم کے‬
‫زبان نہ جلے اور پینے میں ٓاسانی ہو) کرکے استعمال کیا جائے تو اس کے صحت پر فوائد‬
‫سو گنا بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫جاپانی طبی ماہرین کے مطابق گرم پانی کے نتیجے میں شدید سر درد (مائیگرین)‪ ،‬ہائی بلڈ‬
‫پریشر‪ ،‬خون کی کمی‪ ،‬جوڑوں کا درد‪ ،‬دل کی دھڑکن کا ایک دم تیز یا ٓاہستہ ہوجانا‪ ،‬مرگی‬
‫کاعالج گرم پانی سے کیا جاسکتا ہے۔‬
‫عالوہ ازیں ضدی پیٹ کی چربی‪ ،‬کولیسٹرول‪ ،‬شدید کھانسی‪ ،‬بے چینی‪ ،‬دمہ‪ ،‬کالی کھانسی‪،‬‬
‫رگوں میں چربی جم جانے کے سبب خون کے بہأو میں رکاوٹ‪ ،‬معدے کی تیزابیت‪ ،‬بھوک‬
‫کم لگنا اور ہر بیماری جو ٓانکھ کان گلے سے متعلق ہو اُس کا عالج گرم پانی سے کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے دماغ کو سنگین ‪https://urdu.arynews.tv/596989-2/‬‬
‫نقصانات کا خدشہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 7 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری‪ F‬ہے تاہم یہ مرض دل‪ ،‬گردوں اور جگر کو‬
‫بھی نقصان پہنچاتا ہے‪ ،‬اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف‬
‫ہوا ہے۔‬
‫امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ ‪ 19‬کے نتیجے میں اسپتال میں‬
‫زیر عالج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں‬
‫کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں‬
‫بشمول فالج‪ ،‬جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم‬
‫ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں‬
‫اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔‬
‫اس تحقیق میں لگ بھگ ‪ 42‬ہزار ایسے مریضوں‪ ±‬کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعالج رہے تھے‪،‬‬
‫ان افراد کی اوسط عمر ‪ 66‬سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد‬
‫دگنی تھی۔‬
‫بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب‪ ،‬ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر‬
‫سے متاثر تھے۔‬
‫ان میں سے جن افراد کے ایم ٓار ٓائی یا سی ٹی اسکین ہوئے‪ ،‬ان میں سے ‪ 442‬مریضوں‬
‫میں کووڈ ‪ 19‬سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔‬
‫نتائج سے عندیہ مال کہ ‪ 1.2‬فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی‬
‫کا سامنا ہوا ان میں فالج (‪ 6.2‬فیصد)‪ ،‬برین ہیمرج (‪ 3.77‬فیصد) اور دماغی ورم (‪0.47‬‬
‫فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔‬
‫ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے‬
‫مستند تفصیالت سامنے الئی جائیں۔‬
‫مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی‬
‫شرح ‪ 3‬گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر‬
‫ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح‬
‫زیادہ تھی۔‬

‫کیسے ‪https://urdu.arynews.tv/covid-19-effects-on-brain/‬‬ ‫جیٹ لیگ سے‬


‫چھٹکارا پایا جائے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 7 2021‬‬
‫ٓاج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہوا بازی یعنی سول ایوی ایشن کا عالمی دن منایا جارہا‬
‫ہے‪ ،‬پاکستان میں ٓاج ہی کے روز ‪ 5‬سال قبل ایک المناک فضائی حادثہ پیش ٓایا تھا جب‬
‫چترال سے اسالم ٓاباد ٓانے واال پی ٓائی اے کا طیارہ حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار‬
‫ہوگیا تھا۔‬
‫اس حادثے میں حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت ‪ 47‬افراد شہید ہوگئے‬
‫تھے۔‬
‫ہوا بازی کا عالمی دن منانے کا مقصد ٓامد و رفت کے اس تیز ترین ذریعے کی اہمیت‬
‫اجاگر کرنا اور اس کے ذریعے ہونے والی معاشی و سماجی ترقی کا اعتراف کرنا ہے۔‬
‫دنیا بھر میں روزانہ ‪ 44‬ہزار فالئٹس ٓاپریٹ کی جاتی ہیں جن میں لگ بھگ پونے ‪ 3‬کروڑ‬
‫افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔‬
‫طویل فاصلے کا فضائی سفر کرنے والے اکثر افراد طبیعت خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں‬
‫جسے جیٹ لیگ کہا جاتا ہے۔ اس طبیعت خرابی میں شدید تھکاوٹ‪ ،‬جسم میں بوجھل پن‪،‬‬
‫اکڑاؤ اور درد شامل ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق جیٹ لیگ کا شکار ہونے کی کئی وجوہات ہیں تاہم کچھ تدابیر اپنا کر‬
‫اس سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔‬
‫یہ عموما ً ایک سے دو دن تک رہ سکتا ہے تاہم طویل سفر کے بعد اگر ٓاپ ٓارام کیے بغیر‬
‫ہی اپنے تھکا دینے معموالت زندگی میں مصروف ہوجائیں تو یہ زیادہ دن بھی چل سکتا‬
‫ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ جیٹ لیگ سے بچنے کے لیے دوران پرواز متحرک رہا جائے تو‬
‫جیٹ لیگ سے جلدی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔‬
‫اس کے لیے اپنے پاؤں گول گول کھمائیں‪ ،‬سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی ایڑیوں کو زمین پر‬
‫لگائیں اور پاﺅں کو اوپر اٹھائیں۔‬
‫سیٹ پر بیٹھے ہوئے اپنی ٹانگوں کو اوپر اٹھا کر گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگائیں۔‬
‫اپنی گردان کو دائیں بائیں اور ٓاگے پیچھے حرکت دیں کہ اس طرح ٓاپ کی گردن پرسکون‬
‫رہے گی۔‬
‫اسی طرح سیٹ پر بیٹھے ہوئے ٓاگے کو جھکیں اور اپنے سینے کو گھٹنوں کے ساتھ‬
‫لگائیں۔‬
‫جہاز میں چہل قدمی کریں تاکہ ٓاپ کے خون کا دورانیہ ٹھیک رہے اور ٓاپ کے جسم میں‬
‫حرکت رہے۔‬
‫طویل فضائی سفر میں ٹھوس اشیا کے بجائے مائع اشیا کا زیادہ استعمال مفید ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/international-civil-aviation-day-2021/‬‬
‫کورونا کی نئی قسم ‘اومیکرون’ سے متعلق نیا انکشاف‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 7 2021‬‬

‫طبی ماہرین کورونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے نمودار ہونے کی ممکنہ وجہ تک‬
‫پہنچ گئے ہیں۔‬
‫امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کورونا کی اس نئی قسم کا ارتقا عام نزلہ‬
‫زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا ہے۔‬
‫بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون‬
‫میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کورونا وائرس ایچ کوو‬
‫‪ 229‬ای سے مماثلت رکھتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی اس بارے میں بہت کچھ جاننا ہے لیکن ابتدائی مطالعے سے پتا‬
‫چال ہے کہ یہ سب سے زیادہ خطرناک کورونا قسم ہے‪ ،‬ممکنہ طور پر اومیکرون کا ارتقا‬
‫کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو ‪ 229‬ای سے بیک وقت متاثر‬
‫تھا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نئے ویرینٹ کا جینیاتی سیکونس کورونا وائرس کی سابقہ اقسام میں‬
‫نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔‬
‫‘انسانی جینوم ہونے کے سبب یہ دیگر اقسام سے کافی مختلف ہے اور اس کا انسانی‬
‫مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا بھی آسان ہوگیا‪ ،‬البتہ یہ انسانی جان کے لیے کس حد تک‬
‫خطرناک ہوسکتا ہے اس بارے میں ابھی جاننا باقی ہے’۔‬
‫خیال رہے کہ اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ‬
‫کے خلیات میں سارس کوو ‪ 2‬اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز بیک‬
‫وقت رہ سکتے ہیں۔‬
‫رپورٹس میں یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ ایک ہی میزبان خلیے میں ‪ 2‬مختلف وائرسز میں‬
‫اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا‬
‫کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔‬
‫ایسا دو وائرسز سے ایک ساتھ متاثر ہونے پر ہوتا ہے‪ ،‬ایک وائرس دوسرے وائرس کے‬
‫جینیاتی سیکونس کو اٹھالیتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-revelation-about-coronas-new-type-‬‬
‫‪omicron/‬‬

‫نیویارک‪ :‬کام پر جانا ہے تو ویکسین لگوانی ہوگی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪7 2021‬‬
‫نیویارک‪ :‬امریکی شہر میں نجی شعبوں کے مالزمین کے لیے ویکسین الزمی قرار دے‬
‫دی گئی۔‬
‫تفصیالت کے مطابق نیویارک شہر کے میئر نے اعالن کیا ہے کہ اگر نیویارک کے‬
‫باشندے کام پر جانا چاہتے ہیں تو انھیں ویکسین لگوانے کی ضرورت ہوگی۔‬
‫نیویارک کے میئر بل ڈی بالسیو نے کہا کہ نیویارک میں نجی شعبوں کے مالزمین کے‬
‫لیے کرونا ویکسینیشن الزمی کر رہے ہیں‪ ،‬شہر میں فیصلے کا اطالق ‪ 27‬دسمبر سے‬
‫ہوگا۔‬
‫بل ڈی بالسیو نے میڈیا کو بتایا کہ پبلک سیکٹر کے مالزمین کے لیے پہلے ہی ویکسینیشن‬
‫الزمی کی گئی تھی‪ ،‬لیکن اس مینڈیٹ کو اب نجی شعبے کے تمام مالزمین تک بڑھا دیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫انھوں نے کرونا ویکسینیشن کی ضرورت کے حوالے سے چند وجوہ کا بھی ذکر کیا‪ ،‬میئر‬
‫نے کہا ہمیں اب ایک نئے ویرینٹ کے طور پر اومیکرون کا سامنا ہے‪ ،‬ہمارے پاس ٹھنڈا‬
‫موسم بھی ہے جو واقعی ڈیلٹا ویرینٹ کے ساتھ نئے چیلنجز پیدا کرنے واال ہے‪ ،‬اور‬
‫ہمارے پاس چھٹیوں کے اجتماعات بھی ہیں۔‬
‫میئر کا کہنا تھا کہ نیویارک پہال امریکی شہر ہوگا جس نے نجی شعبے کے کارکنوں کے‬
‫لیے ویکسین کا حکم دیا ہے جس سے تقریبا ً ایک الکھ ‪ 84‬ہزار کاروبار متاثر ہوں گے۔‬
‫واضح رہے کہ پبلک سیکٹر کے کارکنوں کے لیے ویکسین مینڈیٹ کو‪ ،‬جو اس موسم‬
‫خزاں کے شروع میں نافذ ہوا تھا‪ ،‬مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا‪ ،‬اور کچھ مالزمین نے‬
‫اپنی مالزمتیں بھی چھوڑیں‪ ،‬تاہم پالیسی کے جواب میں ویکسینیشن کی شرح بڑھ گئی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/nyc-to-impose-vaccine-mandate/‬‬
‫دنیا کے امیر ترین شخص کیسے بے گھر ہوگئے؟‪ F‬۔۔۔دنیا کی حیران کن‬
‫کہانی جان کر ٓاپ بھی ششدر رہ جائیںگے‬
‫‪06/12/2021‬‬
‫‪     ‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )دنیا کے امیر ترین ٓادمی بے گھر ہو گئے ہیں‪ ،‬گاڑیاں‬
‫بنانے والی امریکی کمپنی ٹیسال کے بانی ایلون مسک سرکاری طور پر اب کسی گھر کے‬
‫مالک نہیں رہے۔عالمی میڈیا کے مطابق ایلون مسک نے اپنا ٓاخری گھر بھی بیچ دیا ہے‪،‬‬
‫سیلیکون ویلی میں واقع ‪ 16‬ہزار اسکوائر فٹ پر واقع گھر ‪ 5‬ارب روپے سے زائد میں‬
‫فروخت ہوا‪ ،‬کہا جا رہا ہے کہ یہ اصل قیمت سے کم پر فروخت ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق‬
‫ٹیسال کے سی ای او نے جمعرات کو اپنی شاہانہ سلیکن ویلی اسٹیٹ کو ‪ 30‬ملین ڈالر میں‬
‫بیچا‪ ،‬جو اس کی مانگی گئی قیمت سے ‪ 7.5‬ملین ڈالرز کم ہے‪ ،‬کیوں کہ وہ پچھلے سال اپنا‬
‫کوئی گھر نہ رکھنے کا وعدہ پورا کرنا چاہتے تھے‪،‬‬
‫اور اس کے لیے انھیں کرائے کا حجم گھٹا کر ‪ 50‬ہزار ڈالر کرنا پڑا۔یہ گھر ‪ 7‬بیڈ رومز‪،‬‬
‫میوزک روم اور ایک گرینڈ بال روم پر مشتمل تھا‪ ،‬ایلون مسک نے گزشتہ سال اعالن کیا‬
‫تھا کہ وہ اپنی تمام جائیدادیں فروخت کر دیں گے‪ ،‬جب کہ ‪ 50‬سالہ ایلون مسک پہلے ہی‬
‫اعالن کر چکے ہیں کہ دیگر جائیدادیں فروخت کرنے کے بعد کیلیفورنیا میں ‪ 47‬ایکڑ کی‬
‫جائیداد ان کا ‘ٓاخری گھر’ ہے۔ایک ماہ قبل بھی ایلون مسک نے صارفین کی بات مان کر‬
‫ٹیسال کمپنی کے ‪ 5‬بلین ڈالر سے زائد کے شیئرز فروخت کر دیے تھے‪ ،‬انھوں نے ٹوئٹر‬
‫پر کرائے گئے ایک سروے کے نتیجے میں یہ شیئرز فروخت کیے۔ انھوں نے اپنے‬
‫فالوورز سے سوال پوچھا تھا کہ کیا ان کو ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ٹیسال کے ‪ 10‬فیصد‬
‫شیئرز فروخت کرنے چاہیئں یا نہی‬
‫‪https://dailyausaf.com/international/news-202112-130143.html‬‬

‫ایک دوسرے سے کافی دور مقیم ویکسین شدہ ‪ 2‬افراد میں اومیکرون‪F‬‬
‫پھیلنے کا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪06 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫ہانگ کانگ کے ایک قرنطینہ ہوٹل میں ویکسینیشن مکمل کرانے والے ‪ 2‬مسافروں میں‬
‫کافی فاصلے کے باوجود کورونا کی نئی قسم اومیکرون‪ ±‬پھیل گیا اور اس سے ظاہر ہوتا‬
‫ہے کہ دنیا بھر کے طبی ماہرین اس کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں۔‬
‫یہ بات ہانگ کانگ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫ہانگ کانگ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوا کہ‬
‫دونوں میں سے کوئی بھی فرد نہ تو اپنے کمرے سے باہر نکال اور نہ ہی ان کا کسی اور‬
‫رابطہ ہوا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہوا کے ذریعے اومیکرون‪ ±‬کا پھیالؤ اس‬
‫وقت ہوا جب کھانے لینے یا کووڈ ٹیسٹنگ کے دوران ان کے کمروں کے دروازے کھولے‬
‫گئے۔‬
‫خیال رہے کہ اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں‪ ،‬جس سے‬
‫یہ خدشات پیدا ہوئے کہ کورونا کی نئی قسم ویکسین سے ملنے والے تحفظ پر حملہ ٓاور‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں کہا تھا کہ دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اومیکرون کی‬
‫میوٹیشنز کے ویکسینز کی افادیت پر مرتب اثرات اور اس کے پھیالؤ کی رفتار کو‬
‫سمجھنے کے لیے فوری طور پر تحقیقی کام شروع کیا جن کے نتائج ٓائندہ چند ہفتوں میں‬
‫سامنے ٓاسکتے ہیں۔‬
‫ہانگ کانگ میں ہونے والی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ قرنطینہ ہوٹل میں ایک‬
‫دوسرے سے کافی دور مقیم ایسے افراد جن کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی‪ ،‬میں‬
‫اومیکرون کی تشخیص سے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔‬
‫جنوبی افریقہ میں کورونا کی اس نئی قسم کو سب سے پہلے شناخت کیا گیا تھا اور وہاں‬
‫نومبر کے ٓاخر سے کووڈ کیسز کی تعداد میں ڈرامائی اجافہ ہوا ہے۔‬
‫جنوبی افریقہ سے باہر بھی درجنوں ممالک میں اب تک اومیکرون‪ ±‬کے کیسز کی تصدیق‬
‫ہوچکی ہے۔‬
‫جنوبی افریقہ میں اومیکرون سے متاثر بیشتر افراد میں بیماری کی شدت معمولی دریافت‬
‫ہوئی مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی کوئی نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا اور تحقیقی‬
‫رپورٹس کے اجرا تک کورونا کی یہ نئی قسم ایک نامعلوم خطرہ ہی ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ دونوں مسافروں میں سے ایک ‪ 11‬نومبر کو جنوبی افریقہ سے ہانگ‬
‫کانگ پہنچا تھا جبکہ دوسرا اس سے ایک دن پہلے کینیڈا سے یہاں ٓایا تھا۔‬
‫دونوں افراد نے فائزر ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال ک یتھیں اور ہانگ کانگ ٓامد سے‬
‫قبل کووڈ ٹیسٹ نیگیٹو رہے تھے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہانگ کانگ ٓامد پر دونوں افراد کو ایک ہی قرنطینہ ہوٹل میں رکھا گیا‬
‫اور دونوں کے کمرے ایک ہی منزل پر کافی فاصلے پر تھے۔‬
‫تحقیق کے مطابق قرنطینہ کے دوران دونوں میں سے کوئی بھی کمرے سے باہر نہیں نکال‬
‫اور نہ ہی دونوں کے کمروں میں اشیا شیئر ہوئین جبکہ دیگر افراد بھی ان کے کمروں میں‬
‫داخل نہیں ہوئے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہوٹل کی راہداری میں ہوا کے ذریعے وائرل ذرات سے ایک سے‬
‫دوسرے فرد میں بیماری کی منتقلی ہی ممکنہ وجہ تھی اور اس طرح کے پھیالؤ سے‬
‫عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم زیادہ متعدی ہے۔‬
‫جنوبی افریقہ سے ٓانے والے مسافر میں کوونا وائرس کی تشخیص ‪ 13‬نومبر کو ہوئی تھی‬
‫جس میں عالمات ظاہر نہیں ہوئی تھیں‪ ،‬جس کے بعد اگلے دن یعنی ‪ 14‬نومبر کو ہسپتال‬
‫لے جاکر ٓائسولیٹ کردیا گیا۔‬
‫دوسرے مسافر میں ‪ 17‬نومبر کو معمولی شدت کی عالمات ظاہر ہوئیں اور اگلے دن کووڈ‬
‫کی تشخیص ہوئی اور پھر ہسپتال منتقل کیا گیا۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی ابتدائی ہیں اور وہ ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں جریدے‬
‫جرنل ایمرجنگ انفیکشیز ڈیزیز کے ٓان الئن ایڈیشن میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173644/‬‬

‫خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد کووڈ کو زیادہ پھیالتے ہیں‪،‬‬


‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪06 2021‬‬
‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬
‫خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کو‬
‫زیادہ پھیالتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ زیادہ ٓاسانی سے پھیال سکتے ہیں۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬

‫کولوراڈو اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کا اصل مقصد پرفارمنگ ٓارٹ کے ذریعے کووڈ‬
‫‪ 19‬کے پھیالؤ کو دیکھنا تھا۔‬

‫مگر محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد کورونا کے‬
‫وائرل ذرات کو زیادہ پھیالتے ہیں۔‬

‫تحقیق میں ‪ 75‬سے زیادہ افراد کو شامل کیا گی اتھا جن کو ایک زیادہ تر ایک چیمبر میں‬
‫رکھا گیا تاکہ ہوا میں ذرات کے پھیالؤ کی جانچ پڑتال کی جاسکے۔‬

‫رضاکاروں کی عمریں مختلف تھیں اور ان میں سے کچھ کو کئی بار گانے جیسے ہیپی‬
‫برتھ ڈے گانے کا کہا گیا‪ ،‬دیگر کو سازوں پر گانوں کو پرفارم کرنے کا کہا گیا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یقینا ً بات کرنے کے مقابلے میں گانے سے زیادہ وائرل ذرات پھیلتے‬
‫ہیں۔‬

‫جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ تحقیق میں پرفارمنگ ٓارٹ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی‬
‫مگر تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچوں کے مقابلے میں بالغ افراد زیادہ وائرل ذرات خارج‬
‫کرتے ہیں۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین یا بچوں کے مقابلے میں مرد زیادہ وائرل ذرات اس لیے‬
‫خارج کرتے ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑے زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔‬

‫محققین نے یہ بھی بتایا کہ وائرس ان افراد سے بھی زیادہ ٓاسانی سے پھیل سکتا ہے جو‬
‫زیادہ اونچی ٓاواز میں بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ ٓاپ کی ٓاواز کا والیوم عندیہ دیتا ہے کہ کتنی توانائی جسم خرچ کررہا ہے‬
‫اور یہ توانائی جسم سے زیادہ ذرات کی شکل میں باہر نکلتی ہے‪ ،‬ان ذرات میں کورونا‬
‫وائرس ہوتا ہے جو دیگر افراد کو متاثر کرسکتا ہے۔‬

‫محققین کے مطابق ایسے مقامات جہاں زیادہ شور ہوتا ہے‪ ،‬وہاں کووڈ ‪ 19‬پھیلنے کا خطرہ‬
‫بہت زیادہ ہوتا ہے‪ ،‬ایسے مقامات جیسے کھیلوں کے اسٹیڈیم اور کنسرٹ وینیو میں وائرل‬
‫ذرات بہت زیادہ مقدار میں پھیلنے کا امکان ہوتا ہے۔‬

‫اب تحقیقی ٹیم نے تحقیق کو ٓاگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ کونسے‬
‫ساز کووڈ ‪ 19‬کو زیادہ پھیال سکتے ہیں۔‬

‫محققین کے مطابق نتائج سے اس بات کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ چار دیواری والے‬
‫مقامات میں ہوا کی مناسب نکاسی ضروری ہے۔‬
‫اس تحقیق کو انوائرمنٹل سائنس ایند ٹیکنالوجی لیٹرز میں شائع کیا گیا اور محققین مزید‬
‫تحقیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173648/‬‬

‫سی اے سی‘ پینے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟‬


‫دسمبر ‪08 2021 ،‬‬
‫اکثر اوقات خواتین کیلشیم کی مقدار حاصل کرنے کے لیے سی اے سی (کیلشیم) کی گولی‬
‫یا ساشے پانی میں‪ ‬مال کر استعمال کرتی ہیں جس کے صحت پر بے شمار فوائد حاصل‬
‫ہوتے ہیں مگر اس کے غلط استعمال کے نتیجے میں‪  ‬صحت سے متعلق متعدد شکایات کا‬
‫سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔‬
‫پاکستانی نیوٹریشنسٹس کا بتانا ہے کہ سی اے سی کا استعمال روزانہ یا ہفتے میں‪ 2 ‬سے ‪3‬‬
‫بار کیا جا سکتا ہے جبکہ ‪ 3‬سال سے ‪ 7‬سال کے بچوں کو اس کی ٓادھی گولی کا استعمال‬
‫کروایا جا سکتا ہے اور ‪ 7‬سال سے بڑی عمر کے افراد روزانہ ایک گولی یا ساشے پانی‬
‫میں‪ ‬شامل کر کے پی سکتے ہیں ۔‬
‫کا ا ستعمال کیوں‪ ‬ضروری ہے ؟ ‪ (CAC) ‬سی اے سی‬
‫غذأوں میں بے تحاشہ ‪ ‬مالوٹ کے سبب بہتر صحت کے لیے ٓاج کل صرف غذا سے‬
‫بنیادی غذائی اجزا کا مکمل حصول ناممکن ‪ ‬ہو چکا ہے‪ ،‬ایسی صورت میں ہر انسان‬
‫خصوصا ً خواتین کو وٹامنز‪ ،‬منرلز‪ٓ ،‬ائرن اور کیلشم کی مطلوبہ مقدار حاصل کرنے کے‬
‫لیے سپلیمنٹس کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جبکہ سی اے سی میں‪  ‬وٹامن سی‪ ،‬وٹامن ڈی‬
‫اور بی ‪ 6‬کی بھرپور مقدار موجود ہوتی ہے۔‬
‫مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کیلشیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاہم خواتین سی اے‬
‫سی کا بآاسانی استعمال کر سکتی ہیں۔‬
‫‪ :‬سی اے سی استعمال کرنے کا صحیح طریقہ‬
‫ماہرین کے مطابق اگر روزانہ کی بنیاد پر سی اے سی کا استعمال کر رہے ہیں تو ساتھ‬
‫میں‪ ‬کم از کم ‪ 3‬لیٹر پانی کا استعمال ضرور کریں ورنہ اس کے نتیجے میں‪ ‬گردے‬
‫میں‪ ‬پتھری ہو سکتی ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ سی اے سی کا سوڈا واٹر‪ ،‬کولڈ ڈرنک جیسا ذائقہ ہوتا ہے اسی لیے‬
‫بہت سے افراد اس کا استعمال کولڈ ڈرنک کی جگہ کر لیتے ہیں اور اسے تحلیل اور ہضم‬
‫ہونے کے لیے پانی کی مطلوبہ مقدار کا استعمال نہیں کرتے ہیں‪ ‬جس کے نتیجے میں‪ ‬یہ‬
‫جسمانی اعضاء خصوصا ً گردوں میں‪ ‬تکلیف اور پتھری کا سبب بنتی ہے۔‬
‫نیوٹریشنسٹس کی جانب سے اس کا استعمال کھانے کے ساتھ یا کھانے کے فوراً‪  ‬کرنے‬
‫سے منع کیا جاتا ہے۔‬
‫کھانا کھانے کے ڈیڑھ سے ‪ 2‬گھنٹوں بعد سی اے سی کا استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ اس‬
‫کے استعمال کے بعد بھی دو گھنٹے تک نہ کچھ کھائیں نہ ہی کوئی چائے کافی وغیرہ کا‬
‫استعمال کریں۔‬
‫‪:‬سی اے سی کے فوائد‬
‫خواتین میں‪ ‬ہڈیوں کے کمزور اور بھربھرے ہونے کی شکایت زیادہ پائی جاتی ہے‪ ،‬اس‬
‫تکلیف سے بچأو کے لیے سی اے سی کا استعمال ہر خاتون کو کم عمری سے ہی شروع‬
‫کر دینا چاہیے۔‬
‫اس کا استعمال ہر روز یا ایک دن کے ناغے سے بھی کیا جا سکتا ہے ۔‬
‫سی اے سی کا استعمال کون سے افراد نہ کریں ؟‬
‫ماہرین کے مطابق جن افراد کو پہلے ہی سے گردے میں پتھری یا درد کی شکایت ہو‬
‫اُنہیں‪ ‬سی اے سی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ سی اے سی ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے ہی پینا شروع کریں اور‬
‫اگر معالج اس کے استعمال کا منع کرے تو الزمی ہے کہ سی اے سی کا استعمال ترک کر‬
‫دیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1021938‬‬

‫روزانہ ‪ 10‬منٹ کی ہلکی دوڑ سے موڈ خوشگوار اور دماغ مضبوط‬


‫ہوتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 7  ‬دسمبر‪ 2021  ‬‬
‫ماہرین کے مطابق ورزش ہمارے دل اور دماغ‪ ،‬دونوں کےلیے دواؤں جیسے اثرات‬
‫رکھتی ہے۔‬
‫ٹوکیو‪ :‬جاپانی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ روزانہ ہلکی رفتار سے صرف دس منٹ‬
‫تک دوڑا جائے تو دماغ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ موڈ بھی خوشگوار رہنے لگتا ہے۔‬
‫ورزش اور جسمانی مشقت کے صحت پر مثبت اثرات کے حوالے سے یہ کوئی پہلی‬
‫تحقیق ہر گز نہیں بلکہ اس بارے میں سائنسی تحقیقات کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔‬
‫ان تحقیقات میں ہر بار ایک منفرد انداز سے ذہنی و جسمانی صحت کےلیے ورزش اور‬
‫مشقت کے فائدے سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫البتہ‪ ،‬ہر تحقیق کے بعد جسمانی مشقت‪ /‬ورزش کی شدت اور مدت کے اثرات کا اظہار‬
‫الگ انداز سے ہوا۔‬
‫‪:‬یہ خبریں بھی پڑھیے‬
‫دماغ بچانا ہے تو سائیکل چالیئے اور تیز قدموں سے چلیے‬ ‫‪‬‬
‫بچپن میں مناسب غذا اور ورزش… جوانی میں بہترین دماغی صحت‬ ‫‪‬‬
‫صرف ‪ 10‬منٹ کی ورزش بھی یادداشت کے لیے مفید‬ ‫‪‬‬
‫ورزش دماغی صحت کےلیے بھی مفید ترین ہے‪ ،‬ماہرین‬ ‫‪‬‬
‫ورزش کے دماغی فوائد اگلی نسل میں بھی منتقل ہوتے ہیں‪ ،‬تحقیق‬ ‫‪‬‬
‫سر سبز مقامات پر ورزش دماغی صحت کے لیے بھی مفید‬ ‫‪‬‬
‫ورزش کی عادت جسم و دماغ میں فوالد کو باقاعدہ بناتی ہے‬ ‫‪‬‬
‫باقاعدہ ورزش دماغ کو توانا اور ذہنی امراض کو دور کرتی ہے‪ ،‬ماہرین‬ ‫‪‬‬
‫بوڑھے افراد کی باقاعدہ ورزش ان کے دماغ کو توانا رکھتی ہے‪ ،‬تحقیق‬ ‫‪‬‬
‫سوکوبا یونیورسٹی‪ ،‬جاپان میں ہونے والی یہ تحقیق بھی اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے‬
‫جس میں ‪ 26‬صحت مند رضاکار بھرتی کیے گئے۔‬
‫مختلف مرحلوں میں ان رضاکاروں کو دس منٹ تک ٹریڈ مل پر ہلکی رفتار سے دوڑانے‬
‫کے عالوہ ٓارام بھی دیا گیا جبکہ ہر مرحلے پر خصوصی اور حساس ٓاالت سے ان میں‬
‫خون کی روانی‪ ،‬بالخصوص دماغوں تک پہنچنے والے خون کا مشاہدہ کیا گیا۔‬
‫ہر مرحلے کے بعد رضاکاروں کی یادداشت‪ ،‬تجزیاتی صالحیت‪ ،‬مزاج (موڈ) اور دوسری‬
‫دماغی کیفیات جانچی گئیں۔‬
‫صرف دس منٹ تک ہلکی رفتار سے دوڑنے (جاگنگ کرنے) کے بعد رضاکاروں کی‬
‫یادداشت اور ذہانت نمایاں طور پر بہتر ہوئی جبکہ ان کا موڈ بھی خوشگوار رہا۔‬
‫البتہ‪ ،‬جب ان ہی رضاکاروں نے چند روز تک ٓارام کرنے کے بعد‪ ،‬اور کسی بھی قسم کی‬
‫ورزش کیے بغیر‪ ،‬یہ تمام ٓازمائشیں ایک بار پھر انجام دیں تو ان کی کارکردگی بھی بہت‬
‫کم دیکھی گئی۔‬
‫ورزش دوا ہے؛ اور جس طرح مختلف دواؤں کے اثرات ان کی اقسام کے لحاظ سے’’‬
‫مختلف ہوتے ہیں ٹھیک اسی طرح الگ الگ ورزشوں کا اثر بھی ان کی نوعیت‪ ،‬مدت اور‬
‫شدت کے اعتبار سے الگ ہوتا ہے‪ ‘‘،‬ڈاکٹر ہیڈیاکی سویا نے کہا‪ ،‬جو سُو ُکوبا یونیورسٹی‬
‫میں فیکلٹی ٓاف ہیلتھ اینڈ اسپورٹس سائنسز کے پروفیسر ہیں۔‬
‫تازہ تحقیق کی روشنی میں جاپانی ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ اگر ٓاپ کے پاس بہت زیادہ‬
‫وقت نہیں‪ ،‬تب بھی اگر ٓاپ کسی طرح روزانہ صرف ‪ 10‬منٹ کےلیے ہلکی رفتار سے‬
‫دوڑنے کی عادت بنا لیں تو یہ ٓاپ کی جسمانی صحت کے عالوہ ذہانت اور موڈ بہتر بنانے‬
‫میں بھی بہت مفید ثابت ہوگا۔‬
‫نوٹ‪ :‬اس تحقیق کی تفصیالت نیچر پبلشنگ گروپ کے ٓان الئن ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک‬
‫رپورٹس‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہوئی ہیں‬
‫‪https://www.express.pk/story/2255905/9812/‬‬

‫نیا کوروناوائرس 'اومیکرون' ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک نہیں‪ ،‬امریکی‬


‫ڈاکٹر فوسی‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 7  ‬دسمبر‪2021  ‬‬

‫امریکہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ ٓاف الرجی اینڈ انفیکشس ڈزیز کے ڈائریکٹر انتھونی فوسی‬
‫واشنگٹن‪ :‬امریکا کے ‪ 7‬صدور کے دو ِر حکومت میں بحیثیت میڈیکل ایڈوائزر خدمات‪ ‬‬
‫انجام دینے والے ڈاکٹر فوسی کا کہنا ہے کہ کورونا کی نئی قسم اومیکرون ‘تقریبا یقینی‬
‫طور پر’ ڈیلٹا سے کم خطرناک ہے۔‬
‫فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر انتھونی فوسی کا کہنا‬
‫تھا کہ اگرچہ نئے کورونا ویریئنٹ ‘اومیکرون’ کی صحیح شدت کا اندازہ لگانے میں ہفتے‬
‫لگیں گے تاہم ابتدائی معلومات بتاتی ہیں کہ یہ پہلے کے کوروناوائرس ڈیلٹا سے زیادہ‬
‫خطرناک نہیں ہے۔‬
‫انہوں نے کہا‪“ ،‬یہ تقریبا یقینی طور پر ڈیلٹا سے کم خطرناک ہے جبکہ کچھ مطالعوں سے‬
‫”اسکی شدت اور بھی کم دکھائی دیتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر فوسی نے کہا کہ میرے خیال میں کم از کم جنوبی افریقہ کے حاالت کو مدنظر‬
‫رکھتے ہوئے تحقیق میں مزید دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اور پھر جیسے جیسے پوری دنیا‬
‫میں انفیکشن پھیلےگا‪ ،‬حتمی تحقیق میں اور بھی وقت لگ سکتا ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2256121/9812/‬‬
‫رات کی شفٹ میں بے وقت کھانے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ‬

‫ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 8  ‬دسمبر‪  2021  ‬‬

‫رات کی شفٹ میں کام کرنے اور رات کو کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ‬
‫بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ہارورڈ‪ :‬جسم کی اندرونی گھڑی ہمارے سونے جاگنے اور دیگر معموالت کو طے کرتی‬
‫ہے‪ ،‬ان میں بگاڑ سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‪ ،‬اب معلوم ہوا کہ رات کو‬
‫جاگنے اور کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫امراض‬
‫ِ‬ ‫اس سے قبل رت جگوں میں کام سے جسم کے استحالے (میٹابولزم)‪ ±‬متاثر ہونے‪،‬‬
‫قلب اور بلڈپریشر کے درمیان تعلق سامنے ٓاچکا ہے۔ اسی طرح سونے اور جاگنے کے‪ ‬‬
‫قدرتی دورانیے یعنی ‪ ‬جسمانی گھڑی (سرکاڈیئن کالک) بگڑنے سے دل پر منفی اثرات‬
‫بھی سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫اس کے بعد ہارورڈ میڈیکل اسکول کے سائنسدانوں نے نوجوان اور صحت مند رضا‬
‫کاروں کو بھرتی کرکے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک کو دن میں کام‬
‫کرایا گیا اور ان ہی اوقات میں کھانا پینا فراہم کیا۔ دوسرے گروہ کو رات میں جاگنے کو‬
‫کہا اور انہی اوقات میں کھانا دیا گیا۔ یہ عمل کل ‪ 14‬روز تک دہرایا گیا۔‬
‫سب سے پہلے دونوں گروہوں کے خون میں گلوکوز کی مقدار نوٹ کی گئی۔ اب جن‬
‫لوگوں نے دو ہفتے شب بیداری میں گزارے اور رات کو کھانا کھایا تو پہلے کے مقابلے‬
‫گلوکوز کی شرح ساڑھے چھ فیصد بڑھی ہوئی دیکھی گئی۔‬
‫ہارورڈ کے پروفیسر فرینک اے جے ایل نے یہ تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری‬
‫تحقیق سے عیاں ہے کہ بے وقت کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھتی ہے لیکن‬
‫انہوں نے اس ضمن میں مزید تحقیق پر زور دیا۔‬
‫اب بھی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ رات کو کھانے کے بجائے رات جاگنے کا عمل زیادہ‬
‫مضر ہے کیونکہ یہ پورے بدن کے نظام کو تتربتر کردیتا ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2255704/9812/‬‬

‫ایم ٓار ٓائی سی ٹی اسکین سے بہتر کیوں؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 7  ‬دسمبر‪ 2021  ‬‬
‫]فائل‪-‬فوٹو[‬
‫کی )‪ (radiation‬ایم ٓار ٓائی میں مریض کیلئے جوسب سے بڑا فائدہ ہے وہ تابکاری‪ ‬‬
‫غیر موجودگی ہے۔‬
‫ایم ٓارٓائی کے طریقہ کار میں تابکاری شامل نہیں ہوتی جس کے باعث مریض میں‪ ‬الرجک‬
‫رد عمل‪ ‬کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ الرجک ر ِدعمل کا امکان سی ٹی اسکین اورایکسرے میں‬
‫بہت زیادہ ہوتا ہے‪ ‬کیونکہ اس میں آئیوڈین پر مبنی مادے استعمال کیے جاتے ہیں۔‬
‫دوسرا بڑا فائدہ جو سی ٹی اسکین اور ایکسرے میں نہیں ہوتا‪ ،‬وہ ہے وضاحت اور شفافیت۔‬
‫ایم ٓار ٓائی جسم کی نازک‪ ‬بافتوں کے ڈھانچے کی انتہائی واضح اور تفصیلی تصاویر پیش‬
‫کرتا ہے جو کہ دیگر امیجنگ ٹیکنالوجی سے حاصل نہیں ہوتا۔‬
‫مذکورہ باال تشخیصی طریقہ کار ایسی صورتوں‪ ±‬میں اور بھی ضروری ہوجاتا ہے جب‬
‫ڈاکٹروں کو متاثرہ نازک بافتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایم ٓار‬
‫ٓای سی ٹی اسکین وغیرہ سے بہتر ٓاپشن ہے۔‬
‫اسی حوالے سے سی ٹی اسکین کے بارے میں اگر مختصراً کہاجائے تو ایک ہی بات کافی‬
‫ہے کہ یہ اپنے طریقہ کار کے حساب سے کامل نہیں ہے۔‪ ‬کمپیوٹیڈ ٹوموگرافی (سی ٹی‬
‫اسکین) میں مریض کو تابکاری سے پہنچنے واال نقصان ایکسرے سے ‪ 1000‬گنا زیادہ‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫اسکین سے حاصل شدہ تصاویر تفصیلی اور واضح نہیں ہوتیں اور ڈاکٹر مرض سے ‪CT‬‬
‫متعلق اہم معلومات سے محروم ہو سکتا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2256081/9812/‬‬

‫اب کمپیوٹر آپ کی سوچ کے مطابق کام کرے گا‪ ،‬لیکن کیسے؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 8 2021‬‬

‫نئی دہلی ‪ :‬ٹیکنالوجی کی دنیا میں آئے دن جدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے دنیا سمٹ کر‬
‫انسان کے ہاتھ میں آچکی ہے‪ ،‬اب اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کچھ کہنے یا‬
‫لکھنے کے بجائے صرف سوچنے پر ہی کمپیوٹر ہمارا مطلوبہ کام شروع کردے گا۔‬
‫کمپیوٹر کی دنیا میں ایسا انقالب آنے جا رہا ہے جس کے بعد انسانی دماغ اور کمپیوٹر آپس‬
‫میں ربط ہوجائیں گے اور ہمارے سوچنے سے ہی کام ہوجایا کرے گا۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ ان‬ ‫ایک‪ ‬رپورٹ کے مطابق‪ ‬عالمی ارب پتی صنعت کار ایلن مسک نے‬
‫چپ نصب کر دے‬ ‫کی کمپنی ’نیورا لنک‘ ایک سال کے اندر انسانی دماغ میں ایک ایسی ِ‬
‫گی جس کے بعد دماغ اور چپ ایک دوسرے سے منسلک ہوکر بغیر کوئی کمانڈ لئے‬
‫صرف سوچنے سے ہی کام کرنا شروع کر دیں گے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق نیورا لنک نے ایک ایسا نیورل امپالنٹ تیار کیا ہے جو بغیر کسی‬
‫بیرونی ہارڈویئر کے دماغ کے اندر چل رہی سرگرمی کو ویئرلیس سے براڈ کاسٹ‬
‫کرسکتا ہے۔‬
‫ایک انٹرویو کے دوران ایلن مسک نے بتایا کہ بندروں کے دماغ میں چپ نصب کرنے کا‬
‫تجربہ کامیاب رہا ہے۔ بندروں پر تجربہ کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تکنیک محفوظ‬
‫اور قابل اعتماد ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ نیورا لنک ڈیوائس کو محفوظ طریقہ سے لگایا اور ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ‬
‫تکنیک ان لوگوں کے لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی پریشانی‬
‫میں مبتال ہیں اور طویل مدت سے بستر پر ہیں۔‬

‫ایلن مسک نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص کو طاقت دینے کا‬
‫موقع ہے جو چل نہیں سکتا یا پھر اپنے ہاتھ سے کام نہیں کرسکتا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ نیورا لنک نے اپریل ‪ 2021‬میں ایک بندر کے دماغ میں اپنی چپ نصب‬
‫کی تھی‪ ،‬جس کے بعد بندر اپنے دماغ کا استعمال کر کے ویڈیو گیم کھیلنے کے اہل ہوگیا۔‬
‫بندر کے دماغ میں نصب ڈیوائس نے کھیلتے وقت معلومات فراہم کی جس کے سبب وہ‬
‫جان پایا کہ کھیل کے دوران چال کس طرح چلنی ہے۔‬
‫مسک نے کہا کہ چپ نصب کئے جانے کے باوجود بندر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی‬
‫تھی اور وہ دور سے ہی ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ نیورا لنک چھوٹے لچک دار دھاگوں سے وابستہ ایک چپ ہوتی ہے‪ ،‬جسے‬
‫روبوٹ کے ذریعے دماغ میں سی دیا جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس دماغ سے پیدا ہونے والی لہروں‬
‫کی شناخت کرکے اس سے منسلک ہوجاتی ہے اور سوچ کے مطابق کام کرنے لگتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/brain-chip-alan-musk-modern-computer/‬‬
‫کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 7 2021‬‬

‫ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنٹسٹ‪ F‬ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے کہا‬
‫کہ رپورٹس‪ F‬بتاتی ہیں کہ جنوبی افریقا میں بچے زیادہ اومیکرون سے متاثر ہو رہے ہیں۔‬
‫میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامیناتھن نے خبردار کیا کہ فی الحال بچوں کے لیے‬
‫زیادہ ویکسینز دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع‬
‫کی ہے‪ ،‬جس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‬
‫انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں‪ ،‬جب کیسز بڑھتے ہیں تو‬
‫بچے اور ٹیکے نہ لگوانے والے انفیکشن کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں‪ ،‬ہم اب بھی اعداد و‬
‫شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ بچوں پر اومیکرون‪ ±‬کے مختلف اثرات کا نتیجہ نکاال جا‬
‫سکے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی سائنس دان نے کہا کہ تمام ممالک کو عمر اور عالقے کے لحاظ‬
‫سے ویکسین کے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے جو‬
‫چھوٹ گئے ہیں اور ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ‪ 18‬سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو‬
‫ویکسین لگائی جائے تاکہ وائرس کے پھیالؤ کو کم کیا جا سکے۔‬
‫ڈاکٹر سومیا نے کہا کہ ہم وبائی مرض میں مزید ڈیٹا شیئرنگ چاہتے ہیں اور ہمیں ان‬
‫ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف اقسام اور ڈیٹا کو ظاہر کر رہے ہیں‪،‬‬
‫اس کے لیے ہمیں ممالک کے درمیان ایک مربوط معاہدے کی ضرورت ہے۔‬
‫ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اومیکرون انفیکشن کی طبی خصوصیات کو سمجھنے کے یہ ابھی‬
‫ابتدائی دن ہیں‪ ،‬کیسز میں اضافے اور اسپتال میں داخل ہونے کے درمیان ایک وقفہ ہے‪،‬‬
‫اسپتال میں داخل ہونے کی شرحوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو سے تین ہفتوں تک انتظار‬
‫کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ بیماری کتنی شدید ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/who-omicron-in-children/‬‬

‫سماجی فاصلہ یا فیس ماسک‪ ،‬کرونا سے محفوظ رہنے کے لیے کیا‬


‫چیز زیادہ مؤثر ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪7 2021‬‬

‫نیویارک ‪ /‬برلن‪ :‬امریکا اور جرمنی کے طبی ماہرین نے حال ہی میں کی جانے والی‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے۔‬ ‫تحقیق میں کرونا سے بچاؤ کی مؤثر ترین شے تالش کرنے کا‬
‫امریکا اور جرمنی کی دو یونیورسٹیز گوتی گین اور کورنیل کے ماہرین نے حال ہی میں‬
‫کرونا سے بچاؤ کے حوالے سے ایک تحقیقی مطالعہ کیا‪ ،‬جسے جرنل پی این اے ایس‬
‫میں‪ ‬شائع‪ ‬کیا گیا ہے۔‬
‫تحقیق کے دوران ماہرین کو کچھ ایسے شواہد ملے جس کی بنیاد پر وہ یہ کہنے اور ماننے‬
‫پر مجبور ہوگئے کہ سماجی فاصلے سے زیادہ فیس ماسک کرونا سے محفوظ رکھ سکتا‬
‫ہے۔‬
‫طبی ماہرین نے بتایا کہ کسی بھی قسم کا فیس ماسک پہنے والے شخص کے کرونا سے‬
‫متاثر ہونے کے امکانات ‪ 225‬فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں جبکہ تین میٹر کے سماجی‬
‫فاصلے سے کرونا پھیلنے کا خطرہ اس سے کہی زیادہ ہے۔‬
‫اس رپورٹ میں ماہرین نے بتایا کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ فیس‬
‫ماسک ہی استعمال کرے بلکہ کسی کپڑے سے بھی اگر منہ کو ڈھانپ لے گا تو اس کے‬
‫کرونا سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ منہ ڈھانپنے کا عمل کرونا سے بہت زیادہ تحفظ فراہم کرنے‪  ‬ذریعہ بن‬
‫کر سامنے ٓایا ہے۔‬
‫تحقیق کے دوران جرمنی اورامریکا کے ماہرین نے کرونا سے متاثر ہونے والے چالیس‬
‫ہزار مریضوں سے بات چیت کی گئی‪ ،‬جس میں یہ بات سامنے ٓائی کہ ان میں سے نوے‬
‫فیصد فیس ماسک استعمال کرنے سے گریزاں جبکہ دس فیصد سماجی فاصلے کا خیال‬
‫نہیں رکھ رہے تھے۔‬
‫یاد رہے کہ کرونا وبا کے بعد سے دنیا کے تقریبا ً تمام ہی ممالک نے عوامی مقامات پر‬
‫فیس ماسک کے استعمال کی ہدایات کی ہوئیں ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/wearing-mask-better-social-distancing-scenario-‬‬
‫‪study-finds/‬‬

‫کیا اومیکرون ڈیلٹا ویرینٹ کی جگہ لے سکتا ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪7 2021‬‬
‫ہارورڈ میڈیکل اسکول میں مختلف ویرینٹس کو مانیٹر کرنے والے ڈاک‪FF‬ٹر جیکب لیمی‪FF‬وکس‬
‫کا کہنا ہے کہ کرونا کا اومیکرون ویرینٹ دنیا بھر میں پھیلے ڈیلٹا کی جگہ لے سکتا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون‪ ±‬کے جن‪±±‬وبی اف‪±±‬ریقی ممال‪±±‬ک میں‬
‫پھیلنے اور دنیا بھر کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد‪ ،‬سائنس دان بے چینی س‪±±‬ے‬
‫ایک ایسی جنگ کو دیکھ رہے ہیں جو وبائی مرض کے مستقبل کا تعین کر سکتی ہے۔‬
‫سائنس دان اب اس سوال کا ج‪±‬واب تالش ک‪±‬ر رہے ہیں کہ کی‪±‬ا اومیک‪±‬رون ڈیلٹ‪±‬ا کی جگہ لے‬
‫سکتا ہے‪ ،‬کچھ سائنس دان جنوبی افریقا اور برطانیہ کے اعداد و ش‪±±‬مار ک‪±±‬و دیکھ‪±±‬تے ہ‪±±‬وئے‬
‫کہتے ہیں کہ اومیکرون ایسا کر سکتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر جیکب لیمی‪±‬وکس ک‪±‬ا کہن‪±‬ا ہے کہ اگ‪±‬رچہ ابھی ابت‪±‬دائی دن ہیں لیکن اع‪±‬داد و ش‪±‬مار میں‬
‫تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے‪ ،‬جس سے پتا چلتا ہے کہ اگر س‪±±‬ب جگہ‪±±‬وں پ‪±±‬ر نہیں‬
‫تو اومیکرون بہت سے مقامات پر ڈیلٹا سے مقابلہ کر سکتا ہے۔‬
‫لیکن دوسرے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اومیکرون ڈیلٹ‪±±‬ا س‪±±‬ے‬
‫زیادہ مؤثر طریقے سے پھیلے گا‪ ،‬میو کلینک میں کلینیکل وائرولوجی کے ڈائریکٹر میتھیو‬
‫بنیکر کا کہنا ہے کہ امریکا میں ڈیلٹا میں نمای‪±±‬اں اض‪±±‬افہ ہ‪±±‬وا‪ ،‬کی‪±±‬ا اومی ک‪±±‬رون اس کی جگہ‬
‫لے لے گا‪ ،‬مجھے لگتا ہے کہ ہمیں تقریبا ً دو ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا۔‬
‫فی الوقت اومیکرون‪ ±‬کے بارے میں بہت سے اہم سواالت کے جواب‪±±‬ات نہیں دیے گ‪±±‬ئے ہیں‪،‬‬
‫کہ کیا وائرس ہلکی یا زیادہ شدید بیماری ک‪±±‬ا س‪±±‬بب بنت‪±±‬ا ہے‪ ،‬اور یہ ماض‪±±‬ی میں کرون‪±±‬ا س‪±±‬ے‬
‫بیمار ہونے والوں یا ویکسین لگوانے والے افراد کو متاثر کر سکتا ہے؟‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/can-omicron-replace-the-delta-variant/‬‬
‫کرونا ویکسین کی دو اور بوسٹر ڈوز لگوانے والے ‪ 70‬ڈاکٹرز اور‬
‫نرسز کو وائرس کی تشخیص‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪7 2021‬‬
‫میڈریڈ‪ :‬اسپین کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں طبی فرائض انجام دینے والے‪  ‬ڈاکٹرز اور‬
‫نرسوں سمیت ‪ 70‬مالزمین کو کرونا کی تشخیص ہوئی ہے۔‬
‫بین االقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اسپین کے عالقے ملگا میں قائم یونیورسٹی ریجنل‬
‫اسپتال کے مالزمین نے حال ہی میں منعقد ہونے والی کرسمس پارٹی میں شرکت کی تھی۔‬
‫اس پارٹی کا انعقاد یکم دسمبر کو ہوا‪ ،‬جس میں ‪ 173‬افراد نے شرکت کی‪ ،‬جن میں سے‬
‫‪ 68‬ڈاکٹرز اور نرسوں کو بھی کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔‬
‫محکمہ صحت کے مطابق مذکورہ ڈاکٹرز اور نرسز اسپتال کے ٓائی سی یو میں ذمہ داریاں‬
‫انجام دے رہا تھا۔‬
‫حکام نے بتایا کہ جن کو کرونا کی تشخیص ہوئی انہوں نے ویکسین کی دونوں خوراکوں‬
‫کے عالوہ تیسری بوسٹر ڈوز بھی حاصل کی تھی۔ بوسٹر ڈوز کے بعد کرونا کی تشخیص‬
‫کو ماہرین نے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے شہریوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی‬
‫ہدایت کی ہے۔‬
‫کرونا سے متاثر ہونے والے طبی عملے کو‪  ‬بالکل معملی سی عالمات تھیں۔‬
‫اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کرسمس کی‬
‫تقریبات میں شرکت سے گریز کریں اور اپنی مصروفیات کو محدود کرلیں۔‬
‫محکمہ صحت نے یہ بھی بتایا کہ اب تک کرونا کی نئی قسم اومی کرون کے پانچ کیسز‬
‫سامنے ٓاچکے ہیں‪ ،‬متاثرہ افراد میں سے کوئی مقامی نہیں بلکہ مسافر جنوبی افریقا اور‬
‫اسپین سے فرانس پہنچے تھے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/nearly-70-icu-medics-spanish-hospital-test-‬‬
‫‪positive-covid-after-christmas-party/‬‬
‫کورونا ویکسین کی خاص خوراکیں کس طرح مؤثر ہیں؟ تحقیق میں بڑا‬
‫انکشاف‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪8 2021‬‬

‫کورونا ویکسینز‪ F‬پر تحقیق کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کورونا ویکسین‬
‫کی پہلی خوراک کے بعد دو مخصوص خوراکوں سے وباء سے بچاؤ کافی حد تک ممکن‬
‫ہے۔‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ ایسٹرا زینیکا یا‬
‫فائزر کوویڈ ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد دوسرا ڈوز موڈرنا یا نووا ویکس ویکسینز‬
‫کا استعمال کرنا اس وبائی مرض کے خالف زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرتا ہے۔‬
‫ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت ہونے والی کوم کوو تحقیق میں مختلف کوویڈ ویکسینز‬
‫کے امتزاج سے مدافعتی نظام پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫تحقیق میں شامل رضاکاروں کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسینز‪  ‬پہلی خوراک کے طور پر‬
‫استعمال کرائی گئی اور نو ہفتے بعد نووا ویکس یا موڈرنا ویکسینز کی دوسری خوراک دی‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق میں شامل ‪ 1070‬افراد کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات سامنے نہیں ٓائے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اس طرح کی تحقیقی رپورٹس کی بدولت ہمارے سامنے مختلف کووڈ‬
‫ویکسینز کو ایک ساتھ استعمال کرنے کے حوالے سے مکمل تصویر ابھر کر سامنے ٓارہی‬
‫ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جب خلیاتی مدافعت کی بات ٓاتی ہے تو ایسٹرا زینیکا ویکسین کو بطور‬
‫پہلی خوراک کے بعد دیگر ویکسینز کا استعمال ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں مدد‬
‫فراہم کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح جس حد تک جلد ممکن ہوا کووڈ ‪ 19‬سے بچانے کے لیے‬
‫دنیا کی ویکسینیشن ممکن ہوسکے گی۔‬
‫تحقیق کے مطابق ایسٹرا زینیکا ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد اسی کی دوسری خوراک‬
‫کی بجائے موڈرنا یا نووا ویکس کا استعمال زیادہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز ردعمل کا باعث‬
‫بنتا ہے۔‬
‫فائرز کی ‪ 2‬خوراکوں کی بجائے فائزر اور موڈرنا کا امتزاج زیادہ ٹھوس اینٹی باڈی اور‬
‫ٹی سیلز ردعمل پیدا کرتا ہے۔فائزر اور نووا ویکس ویکسینز کا امتزاج ایسٹرا زینیکا‬
‫ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں سے زیادہ اینٹی باڈیز بناتا ہے مگر فائزر کی ‪ 2‬خوراکوں کے‬
‫مقابلے میں کم اینٹی باڈیز اور ٹی سیل ردعمل پیدا ہوتا ہے۔‬
‫ان رضاکاروں کے خون کے نمونوں پر وائرس کی اصل‪ ،‬بیٹا اور ڈیلٹا اقسام کے خالف‬
‫ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔ محققین نے وائرس کی اقسام کے خالف‬
‫ویکسینز کی افادیت میں کمی کو دیکھا اور یہ تسلسل مکس این میچ شیڈول میں برقرار رہا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ایک شیڈول میں مختلف ویکسینز کا استعمال ہم نے کیا یعنی ایم ٓار این‬
‫اے ویکسینز‪ ،‬وائرل ویکٹر ویکسینز یا پروٹین پر مبنی ویکسینز‪ ،‬جو ویکسینیشن کا ایک‬
‫نوول طریقہ کار ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النسیٹ میں شائع ہوئے‪ ،‬تحقیق کے نتائج سے ان‬
‫ویکسینز کے لچک دار استعمال کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو کہ ان ویکسینز کو برق‬
‫رفتاری سے لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-vaccination-medical-research/‬‬

‫وہ شے جو بلڈ پریشر کو قابو میں رکھے‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 8 2021‬‬
‫ہائی بلڈ پریشر ٓاج کل ایک عام مرض بن گیا ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ غذاؤں کی‬
‫مدد سے بلڈ پریشر‪ F‬کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے اور دہی بھی ان میں سے ایک ہے۔‬
‫ساؤتھ ٓاسٹریلیا یونیورسٹی کی تحقیق میں دہی کے استعمال‪ ،‬بلڈ پریشر اور دل کی شریانوں‬
‫سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ دہی کھانے کی عادت ہائی بلڈ پریشر کے شکار افراد میں خون کے‬
‫دباؤ کو کم رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔‬
‫ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد ہائی بلڈ پریشر کے شکار‬
‫ہیں جس کے نتیجے میں ان میں مختلف جان لیوا امراض جیسے ہارٹ اٹیک اور فالج کا‬
‫خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫دل کی شریانوں سے جڑے امراض دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‬
‫تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ تحقیق میں فراہم کیے گئے نئے شواہد سے عندیہ ملتا‬
‫ہے کہ دہی کھانا بلڈ پریشر کے مریضوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہائی بلڈ پریشر دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے‬
‫والے سب سے بڑا عنصر ہے تو یہ اہم ہے کہ ایسے ذرائع کو دریافت کیا جائے جو بلڈ‬
‫پریشر کی سطح کو کم رکھ سکے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ دودھ سے بنی مصنوعات جیسے دہی ممکنہ طور پر بلڈ پریشر کو کم‬
‫کرنے کی صالحیت رکھتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ دودھ سے بنی مصنوعات میں متعدد غذائی‬
‫اجزا جیسے کیلشیئم‪ ،‬میگنیشم اور پوٹاشیم ہوتے ہیں اور یہ سب بلڈ پریشر کو ریگولیٹ‬
‫کرنے کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ دہی اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ اس میں ایسے بیکٹریا ہوتے ہیں‬
‫جو مخصوص پروٹینز کے اخراج کا عمل تیز کرتے ہیں جو بلڈ پریشر میں کمی التے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/yogurt-for-blood-pressure/‬‬

‫ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی ممکن‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 8 2021‬‬

‫امریکا میں ایک تحقیق میں ذیابیطس کی دوا سے موٹاپے میں کمی دیکھی گئی‪ ،‬یہ تحقیق‬
‫‪ 1900‬سے زائد افراد پر کی گئی جو موٹاپے کا شکار تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی‬
‫ذیابیطس کا مریض نہیں تھا۔‬
‫تحقیق کے دوران تقریبا ً نصف رضاکاروں کو ہفتے میں صرف ایک بار سیما گلوٹائیڈ نامی‬
‫دوا کی صرف ‪ 2.4‬ملی گرام مقدار بذریعہ انجکشن دی گئی‪ ،‬ذیا بیطس کی یہ دوا اوزیمپک‬
‫کے نام سے فروخت کی جاتی ہے۔‬
‫باقی کے نصف رضاکاروں کو سیماگلوٹائیڈ اوزیمپک کے نام پر کسی دوسرے بے ضرر‬
‫محلول کا انجکشن (پالسیبو) دیا گیا۔‬
‫تقریبا ً دو سال جاری رہنے والی ان طبی ٓازمائشوں میں شریک تمام رضاکاروں نے دوا‬
‫ت زندگی بھی اپنائے رکھے۔‬
‫کے ساتھ ساتھ صحت بخش معموال ِ‬
‫مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن رضاکاروں نے ہفتے میں ایک بار ‪ 2.4‬ملی گرام‬
‫سیماگلوٹائیڈ بذریعہ انجکشن لی تھی‪ ،‬ان میں سے دو تہائی کا وزن ‪ 20‬فیصد تک کم ہوا تھا۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہوا کہ مطالعہ شروع ہونے سے پہلے اگر کسی رضاکار کا وزن ‪ 200‬پونڈ‬
‫تھا تو ‪ 68‬ہفتے تک یہ دوا لینے اور صحت بخش معموالت زندگی برقرار رکھنے کے بعد‪،‬‬
‫اس کا وزن ‪ 40‬پونڈ کم ہو کر ‪ 160‬پونڈ رہ گیا تھا۔‬
‫ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ جن مریضوں نے دوا روکنے کے بعد بھی صحت بخش‬
‫معموالت زندگی برقرار رکھے‪ ،‬ان کے وزن میں ٓائندہ ایک سال تک کوئی اضافہ نہیں ہوا۔‬
‫یہ کامیابی اتنی غیرمعمولی‪ ±‬ہے کہ سیماگلوٹائیڈ تیار کرنے والی یورپی فارماسیوٹیکل‬
‫کمپنی نووو نورڈسک نے وزن کم کرنے کےلیے اسے علیحدہ سے فروخت کرنے کی‬
‫اجازت طلب کرلی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/ozempic-for-diabetes-and-weight-loss/‬‬

‫’ویاگرا الزائمر کے عالج میں کار آمد ثابت ہو سکتی ہے‘‬


‫‪Dece 2021 8‬‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫امریکی محققین کا کہنا ہے کہ ویاگرا کے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات سے ایسا لگتا‬
‫ہے کہ یہ دوا الزائمر کے عالج میں کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔‬
‫دماغی خلیوں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دوا بعض ایسے پروٹینز کو‬
‫نشانہ بناتی ہے جو ڈیمینشیا کے نتیجے میں جمع ہونے لگتے ہیں۔‬
‫محققین کی اس ٹیم کو ‪ 70‬الکھ افراد کے بارے میں دستیاب معلومات کے تجزیے سے پتا‬
‫چال ہے کہ جو مرد اس دوا کا استعمال کرتے تھے ان میں الزائمر ہونے کا خطرہ کم پایا‬
‫گیا۔‬
‫نیچر ای ِجنگ نامی جریدہ میں شائع کیے گئے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ اس بارے‬
‫میں مزید تحقیق ہونی چاہیے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کام بہت حوصلہ افزا ہے کیونکہ پہلے سے موجود ایک‬
‫دوا کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال میں النے کا عمل نئی دوا کی تیاری کے مقابلے‬
‫میں تیز‪ ،‬سادہ اور سستا ہو سکتا ہے۔‬
‫نیلی گولی‬
‫ویاگرا‪ ،‬جو ِسلڈینافِل کے نام سے بھی جانی جاتی ہے‪ ،‬امراض قلب کے عالج کے لیے‬
‫بنائی گئی تھی کیونکہ اس کا اہم کام شریانوں کو نرم اور بڑا کر کے اعضا تک خون کی‬
‫فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔‬
‫عضو تناسل کی شریانوں پر بھی رکھتی‬ ‫ِ‬ ‫بعد میں ڈاکٹروں کو پتا چال کہ یہ دوا یہ ہی اثرات‬
‫ہے اور پھر اس دوا کو ایرکٹائل ِڈسفنکشن کے کامیاب عالج کے لیے تیار کیا گیا۔‬
‫اب ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس دوا کے اور استعمال بھی ہو سکتے ہیں۔ ِسلڈینافِل مردوں‬
‫اور عورتوں میں پھیپھڑوں کی ایک حالت میں‪ ،‬جسے پلمونری ہائپرٹینشن کہتے ہیں‪ ،‬پہلے‬
‫زیر استعمال ہے۔‬
‫ہی ِ‬
‫سائنسدان حال ہی میں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ویاگرا ویسکولر ڈیمینشیا یا‬
‫دماغ کی نالیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی دماغی کمزوری میں بھی مفید ہو سکتی ہے۔‬
‫الزائمرز ڈیمینشیا کے بعد سب سے زیادہ مریض ویسکولر ڈیمینشیا میں مبتال ہیں جو اس‬
‫وقت الحق ہوتا ہے جب دماغ کے خلیوں کو خون کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے نقصان‬
‫پہنچتا ہے۔‬
‫اب محققین کا خیال ہے کہ یہ دوا الزائمر کے لیے بھی مفید ہو سکتی ہے۔‬
‫ڈیمینشیا کی اس قسم کی وجوہات کو ابھی تک پوری طرح سے نہیں سمجھا جا سکا مگر‬
‫ڈاکٹروں کے علم میں ہے کہ اس مرض میں مبتال افراد کے دماغ کے اندر غیر معمولی‬
‫طور پر پروٹین جمع ہو جاتی ہے۔‬
‫محققین کی اس ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬لیبارٹری کے اندر انسانی خلیوں پر تجربات کے دوران دوا کی بڑی خوراکوں سے‬
‫دماغی خلیوں کی نشوونما میں اضافہ ہوا اور پروٹین کے جمع ہونے کے عمل میں‬
‫کمی واقع ہوئی۔‬
‫‪ ‬جو افراد ِسلڈینافِل کھا رہے تھے ان میں الزائمر کا خطرہ کم تھا بہ نسبت ان کے جو‬
‫اس دوا کا استعمال نہیں کر رہے تھے۔ یہ نتیجہ ‪ 7.23‬ملین سے زیادہ افراد سے‬
‫متعلق چھ برس کی معلومات کے تجزیے کے بعد نکاال گیا۔‬
‫محققین کی ٹیم کے سربراہ فائکسیئن چینگ کا کہنا ہے کہ یہ دریافت حوصلہ افزا ہے مگر‬
‫اس میدان میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے ’کیونکہ ہماری تحقیق نے صرف ِسلڈینافِل کے‬
‫استعمال اور الزائمرز‪ ±‬الحق ہو جانے میں کمی کے درمیان تعلق کا پتا لگایا ہے۔ اب ہم اس‬
‫سلسلے میں مزید آزمائش کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ الزائمر کے مریضوں‪ ±‬میں‬
‫ِسلڈینافِل کے عملی فوائد کی تصدیق کی جا سکے۔‘‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب تک نتائج حوصلہ افزا ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ‬
‫دوا مزید تحقیق کیے بغیر الزائمر کے مریضوں کے لیے تجویز کی جائے۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-59550849‬‬

‫میں ‪2‬‬ ‫کووڈ ویکسینز کا امتزاج طاقتور مدافعتی ردعمل کے حصول‬


‫مددگار قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪07 2021‬‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬
‫ایسٹرا زینیکا یا فائزر کووڈ ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد دوسرا ڈوز موڈرنا یا نووا‬
‫ویکس ویکسینز کا استعمال کرنا اس وبائی مرض کے خالف زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل‬
‫پیدا کرتا ہے۔‬
‫یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت ہونے والی کوم کوو تحقیق میں مختلف کووڈ ویکسینز‬
‫کے امتزاج سے مدافعتی نظام پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫تحقیق میں شامل رضا کاروں کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسینز پہلی خوراک کے طور پر‬
‫استعمال کرائی گئی اور ‪ 9‬ہفتے بعد نووا ویکس یا موڈرنا ویکسینز کی دوسری خوراک دی‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق میں شامل ‪ 1070‬افراد کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات سامنے نہیں ٓائے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اس طرح کی تحقیقی رپورٹس کی بدولت ہمارے سامنے مختلف کووڈ‬
‫ویکسینز کو ایک ساتھ استعمال کرنے کے حوالے سے مکمل تصویر ابھر کر سامنے ٓارہی‬
‫ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جب خلیاتی مدافعت کی بات ٓاتی ہے تو ایسٹرا زینیکا ویکسین کو بطور‬
‫پہلی خوراک کے بعد دیگر ویکسینز کا استعمال ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں مدد‬
‫فراہم کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح جس حد تک جلد ممکن ہوا کووڈ ‪ 19‬سے بچانے کے لیے‬
‫دنیا کی ویکسینیشن ممکن ہوسکے گی۔‬
‫تحقیق کے مطابق ایسٹرا زینیکا ویکسین کی پہلی خوراک کے بعد اسی کی دوسری خوراک‬
‫کی بجائے موڈرنا یا نووا ویکس کا استعمال زیادہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز ردعمل کا باعث‬
‫بنتا ہے۔‬
‫فائرز کی ‪ 2‬خوراکوں کی بجائے فائزر اور موڈرنا کا امتزاج زیادہ ٹھوس اینٹی باڈی اور‬
‫ٹی سیلز ردعمل پیدا کرتا ہے۔‬
‫فائزر اور نووا ویکس ویکسینز کا امتزاج ایسٹرا زینیکا ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں سے زیادہ‬
‫اینٹی باڈیز بناتا ہے مگر فائزر کی ‪ 2‬خوراکوں کے مقابلے میں کم اینٹی باڈیز اور ٹی سیل‬
‫ردعمل پیدا ہوتا ہے۔‬
‫ان رضاکاروں کے خون کے نمونوں پر وائرس کی اصل‪ ،‬بیٹا اور ڈیلٹا اقسام کے خالف‬
‫ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫محققین نے وائرس کی اقسام کے خالف ویکسینز کی افادیت میں کمی کو دیکھا اور یہ‬
‫تسلسل مکس این میچ شیڈول میں برقرار رہا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ایک شیڈول میں مختلف ویکسینز کا استعمال ہم نے کیا یعنی ایم ٓار این‬
‫اے ویکسینز‪ ،‬وائرل ویکٹر ویکسینز یا پروٹین پر مبنی ویکسینز‪ ،‬جو ویکسینیشن کا ایک‬
‫نوول طریقہ کار ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النسیٹ میں شائع ہوئے۔‬
‫تحقیق کے نتائج سے ان ویکسینز کے لچکدار استعمال کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو کہ‬
‫ان ویکسینز کو برق رفتاری سے لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173708/‬‬

‫دن بھر میں ‪ 10‬منٹ کا یہ کام دماغی صحت کے لیے فائدہ مند‬
‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪07 2021‬‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬
‫عمر بڑھنے کے ساتھ اپنے دماغ کو جوان رکھنا چاہتے ہیں؟ روزانہ چند منٹ دوڑنے کے‬
‫لیے نکال لیں۔‬
‫یہ بات جاپان میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫سکوبا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ صرف ‪ 10‬منٹ معتدل شدت‬
‫کے ساتھ دوڑنا دماغ کے اس حصے کے لیے خون کی روانی میں اضافہ کرتا ہے جو‬
‫مزاج اور اہم افعال کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫ایسے واضح شواہد پہلے ہی دریافت ہوچکے ہیں کہ جسمانی سرگرمیوں کے متعدد فوائد‬
‫ہوتے ہیں جیسے مزاج خوشگوار ہوتا ہے مگر اکثر تحقیقی رپورٹس‪ ±‬میں دوڑ کے اثرات‬
‫پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔‬
‫تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے محققین نے جاگنگ یا کسی بھی شکل‬
‫میں دوڑنے سے دماغی افعال کو کنٹرول کرنے والے حصوں پر مرتب اثرات پر زیادہ کام‬
‫نہیں کیا تھا۔‬
‫حرکت‪ ،‬توازن اور ٓاگے بڑھنے کے لیے دماغی افعال کے کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے‬
‫اور اس کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا منطقی ہے کہ اس سے دماغی سرگرمیوں میں اضافہ‬
‫ہوتا ہے اور فائدہ مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫اس خیال کی جانچ پڑتال کے لیے محققین نے رضاکاروں کو مختلف ٹاسک دیئے اور ان‬
‫کے دوران دماغی سرگرمیوں میں تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ ‪ 10‬منٹ تک معتدل شدت سے دوڑنے سے دماغی افعال میں نمایاں‬
‫بہتری دیکھنے میں ٓائی۔‬
‫اسی طرح رضاکاروں کے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوئے جس سے عندیہ مال‬
‫کہ یہ عادت ڈپریشن کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔‬
‫محققین کو توقع ہے کہ نتائج سے ذہنی صحت کے لیے مؤثر طریقہ عالج کو تشکیل دینے‬
‫میں مدد مل سکے گی‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173705/‬‬

‫یا ہللا رحم ۔۔ کرونا وائرس کی خطرناک ترین قسم پاکستان پہنچ گئی ‪،‬‬
‫پہال کیس کس شہر میں‪ ‬رپورٹ ہوا‬

‫‪09/12/2021‬‬
‫‪     ‬کراچی (نیوز ڈیسک) کورونا وائرس کی قسم اوپی کرون پاکستان پہنچ گیا‪ ،‬اس کا پہال‬
‫کیس کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں بتایا گیا ہے۔ کورونا وائرس کا پہال کیس بھی‬
‫کراچی بھی کراچی میں ہی سامنے ٓایا تھا۔کراچی کے‪ ‬‬
‫اس نجی ہسپتال نے خاتون مریضہ میں اومی کرون کی تصدیق کی ہے۔اس حوالے سے‬
‫بیرون ملک سے ٓائی ہیں اور‬
‫ِ‬ ‫محکمٔہ صحت سندھ کے حکام کے مطابق متاثرہ خاتون‬
‫کورونا پازیٹو ہیں۔ صوبائی محکمٔہ صحت کے حکام نے بتایا کہ نجی اسپتال سے متاثرہ‬
‫خاتون کی ٹریول ہسٹری معلوم کر رہے ہیں۔حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون کی‬
‫ٹریول ہسٹری معلوم کی جا رہی ہے‪ ،‬متاثرہ خاتون کی رشتے داروں اور ملنے والوں کا‬
‫کورونا ٹیسٹ ہو گا۔۔صوبائی پارلیمانی سیکریٹری صحت سندھ قاسم سومرو کا میڈیا سے‬
‫گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کورونا کے اومی کرون ویرینٹ کا ہمارا پاس پہال ٹیسٹ‬
‫مثبت ٓایا ہے۔اس حوالے سےقاسم سومرو نے کہا کہ انٹرنیشنل فالئٹس کھلی ہونے کے‬
‫باعث اومی کرون ویرینٹ کا ہونا ظاہر تھا۔۔۔۔۔۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202112-130343.html‬‬

‫فائزر کی بوسٹر خوراک اومی کرون کے خالف موثر دفاع ہے‪ ،‬فائزر‬

‫دسمبر ‪09 2021 ،‬‬


‫فائزر کی کورونا ویکسین کی بوسٹر خوراک دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتے جنوبی افریقی‬
‫ویرینٹ کے خالف مؤثر دفاع کرتی ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ ان کی کورونا ویکسین کی‬ ‫امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے حال ہی میں‬
‫ایک بوسٹرخوراک نئے ویرینٹ اومی کرون کے خالف ایک مؤثر دفاع ہے۔‬
‫غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کمپنی نے حال ہی میں کی گئی تحقیق کے نتائج کے‬
‫بعد کہا ہے کہ ویکیسن کی تین خوراکیں اومی کرون کے خالف اتنی ہی اینٹی باڈیز بنانے‬
‫میں کامیاب ہو ئی ہیں جو دو خوراکیں دیگر کورونا اقسام کے خالف بناتی ہیں۔‬
‫عالمی ادارٔہ صحت کی جانب سے بھی یہ بیان سامنے ٓاچکا ہے کہ‪  ‬موجودہ ویکسینز‬
‫اومی کرون کے خالف مؤثر ثابت ہوں گی۔‬

‫فائزر کے چیف ایگزیکٹیو‪ Q‬البرٹ بورال نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ‪  ‬وہ اومی کرون‬
‫کے خالف ایک مخصوص ویکسین تیار کر رہے ہیں جو ‪ 100‬دنوں کے اندر ڈیلیوری‬
‫کے لیے تیار ہو جائے گی۔‬
‫خیال رہے کہ پاکستان میں اومی کرون ویرینٹ کا پہال کیس رپورٹ ہو گیا‪ ،‬یہ کیس کراچی‬
‫کے نجی اسپتال میں رپورٹ ہوا ہے۔‬
‫نجی اسپتال نے خاتون مریضہ میں اومی کرون کی تصدیق کی ہے۔‬
‫محکمٔہ صحت سندھ کے حکام کے مطابق متاثرہ خاتون بیرو ِن ملک سے ٓائی ہیں اور‬
‫کورونا پازیٹو ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1022387‬‬
‫اومیکرون ویرینٹ ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک نہیں‪،‬عالمی ادارہ صحت‬

‫اسٹاف رپورٹر‬
‫دسمبر ‪09 2021 ،‬‬

‫نیویارک (جنگ نیوز )کورونا وائرس کا اومی کرون ویرینٹ‪ ،‬ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ‬
‫خطرناک نہیں ہے‪ ،‬عالمی ادارٔہ صحت کا کہنا ہے کہ اومی کرون کے خالف موجودہ‬
‫ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان نہیں۔‬
‫‪https://e.jang.com.pk/detail/11014‬‬

‫ہائی بلڈ پریشر سے بچنے کےلیے روزانہ دہی کھائیے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 9  ‬دسمبر‪ 2021  ‬‬

‫روزانہ دہی استعمال کرنے سے ہاضمہ درست اور ہڈیاں مضبوط رہتی ہیں جبکہ صحت‬
‫)بھی اچھی رہتی ہے۔‬
‫ایڈیلیڈ‪ :‬امریکی اور ٓاسٹریلوی سائنسدانوں نے ایک مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ‬
‫ہائی بلڈ پریشر کے مریض اگر روزانہ تھوڑی سی مقدار میں دہی کھا لیا کریں تو ان کا بلڈ‬
‫پریشر معمول پر رہے گا۔‬
‫یہ تحقیق ‪ 915‬بالغ افراد پر کی گئی جس میں ان کے روزمرہ معموالت‪ ،‬صحت اور کھانے‬
‫پینے کی عادات سے متعلق تفصیلی سواالت کیے گئے۔‬
‫ان میں سے جن افراد نے کہا کہ وہ روزانہ تھوڑی بہت مقدار میں دہی ضرور کھاتے ہیں‪،‬‬
‫ان کی بھاری اکثریت کا بلڈ پریشر بھی معمول کے مطابق نوٹ کیا گیا۔‬
‫اس کے برعکس‪ ±‬جو لوگ دہی نہیں کھاتے‪ ،‬ان کی نمایاں تعداد میں ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ‬
‫دیکھا گیا۔‬
‫واضح رہے کہ عمومی صحت کے حوالے سے دہی کی خوبیاں ہزاروں سال سے معلوم‬
‫ہیں جبکہ جدید تحقیقات سے بھی ان میں سے بیشتر کی تصدیق ہورہی ہے۔‬
‫ہائی بلڈ پریشر کو دنیا بھر میں ’’خاموش قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ متاثرہ شخص‬
‫کےلیے بعد میں دل‪ ،‬شریانوں اور دماغ کی مختلف بیماریوں کی وجہ بن کر انہیں موت‬
‫کے منہ میں بھی پہنچا سکتا ہے۔‬
‫البتہ ’’انٹرنیشنل ڈیری جرنل‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے‬
‫مصنفین کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر کے معاملے میں دہی سے حاصل ہونے والے فوائد کو‬
‫سمجھنے کےلیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کم چکنائی والی دہی کی صرف ‪ 100‬گرام مقدار‬
‫استعمال کرنے سے ہاضمہ درست رہتا ہے‪ ،‬ہڈیاں اور دانت مضبوط ہوتے ہیں جبکہ عام‬
‫طور پر صحت بھی اچھی رہتی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2256431/9812/‬‬

‫انگور کے بیجوں میں بڑھاپا روکنے واال اہم جزو دریافت‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫‪9 December 2021‬‬


‫شیئر‬
‫انگور کے بیج سے نکالے گئے ایک نئے کیمیکل سے چوہوں میں فالتو خلیات ختم ہوئے‬
‫اور اوسط عمر میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے‬
‫شنگھائی‪ :‬انگور کے بیجوں میں ایک خاص کیمیکل دریافت ہوا ہے جو ایک جانب تو‬
‫جسم میں موجود بے کار اور متروک خلیات کو ختم کرتا ہے تو دوسری جانب یہ‬
‫عمررسیدگی کو بھی روکتا ہے۔‬
‫اگرچہ چوہوں پر اس کے بہترین اثرات مرتب ہوئے ہیں جن کا ذکر بعد میں ٓائے گا لیکن‬
‫پہلے جان لیجئے کہ ہمارے بدن کو بعض ڈھیٹ خلیات ہوتے ہیں جنہیں سینے سن خلیات‬
‫کہا جتا ہے۔ اگران خلیات کو ختم کیا جائے تو جسمانی نظام درست ہوجاتا ہے اور بدن کے‬
‫بڑھاپے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عمل خلوی سطح پر ٓاگے بڑھتا ہے۔‬
‫انگور کے بیجوں سے پروسائنائڈن سی ون نکال کر جب اسے چوہوں میں منتقل کیا گیا تو‬
‫ان کی زندگی میں ‪ 9‬فیصد اضافہ ہوا۔ ‪ ‬اس طرح سینے سین خلیات کو بالکل نئی قسم کی‬
‫دواؤں میں استعمال کیا جاسکتا ہے جنہیں ’سینوالئٹک‘ ادویہ کہا جاتا ہے۔ یہ دوائین سینے‬
‫سین خلیات کو صاف کرکے ڈیمنشیا اور ذیابیطس کو روکا جاسکتا ہے اور عمرکو طویل‬
‫کیا جاسکتا ہے۔‬
‫چین میں واقع شنگھائی انسٹی ٹیوٹ ٓاف نیوٹریشن اینڈ ہیلتھ کے سائنسدانوں نے پہلے‬
‫پروسائنائڈن سی ون (مختصراً پی سی سی ون) نے دیکھا کہ وہ سینے سین خلیات کو‬
‫مارڈالتی ہے ۔ اس سے پروگرام شدہ خلوی موت واقع ہوتی ہے جسے ایپوپٹو ِسس کہا جاتا‬
‫ہے اور اس عمل میں صحتمند خلیات کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔‬
‫سب سے پہلے بوڑھے چوہوں کے خلیات اور بافتوں (ٹشوز) پر اسے ٓازمایا گیا ہے۔ سینے‬
‫سین خلیات تیزی سے تباہ ہونے لگے ۔ اس طرح ان کے اندرونی اعضا کا انحطاط رک گیا۔‬
‫کینسر والے چوہوں میں اس مرکب نے کیموتھراپی کو بڑھاوا دے کر عالج میں بھی مدد‬
‫کی۔‬
‫سائنسدانوں نے انگور کے بیج سے حاصل شدہ مرکب کے استعال سے چوہوں کی عمر‬
‫بڑھائی جو ‪ 24‬سے ‪ 27‬ماہ تک بڑھی جو انسانوں میں ‪ 75‬سے ‪ 90‬برس کے برابر ہے۔‬
‫یعنی بوڑھے چوہوں کی اوسط عمر ‪ 60‬فیصد برھی اور مجموعی عمر میں ‪ 9‬فیصد اضافہ‬
‫دیکھا گیا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2256591/9812/‬‬

‫کرونا وبا‪ :‬ذہنی پریشانیوں‌ میں‌ اضافہ دیکھا گیا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪8 2021‬‬

‫دنیا کو ِوڈ ‪ 19‬کی بد ترین وبا کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے‪ ،‬جو نئے ویرینٹ‪ F‬اومیکرون کی‬
‫صورت میں اب عالمی سطح پر لوگوں کو خوف زدہ کر رہی ہے۔‬
‫ماہرین ایک طرف ‪ 50‬تبدیلیوں والی نئی کرونا قِسم کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کر‬
‫رہے ہیں کہ کیا یہ ‪ 2‬تبدیلیوں والے ویرینٹ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ شدید اور متعدی‬
‫ثابت ہوگا‪ ،‬یا آخر کار کرونا وائرس تبدیلیوں سے گزرتا ہوا منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے‪،‬‬
‫یعنی کم زور ہو گیا ہے۔‬
‫دوسری طرف‪ ،‬جب کہ اومیکرون ویرینٹ آسٹریلیا بھی پہنچ گیا ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ‬
‫نئی لہر کا خوف لوگوں کے خیاالت میں طوفان کا باعث بن سکتا ہے‪ ،‬کیوں کہ لوگ پُرامید‬
‫ہو گئے تھے کہ اب وہ جلد ہی اپنے خوف سے پیچھا چھڑا لیں گے۔‬
‫ایسے میں یونیورسٹی ٓاف ویسٹرن ٓاسٹریلیا کے اسکول ٓاف سائیکلوجیکل سائنس میں‬
‫ریسرچ فیلو جیولی جی بتاتی ہیں کہ ٓاسٹریلیا کے کرائسز سپورٹ سروس الئف کے ہیلپ‬
‫الئن پر صرف ما ِہ اگست ماہ میں روزانہ اوسطا ً ‪ 3‬ہزار ‪ 505‬کالز کی گئیں‪ ،‬یہ کالیں‬
‫مختلف پریشانیوں میں مبتال شہریوں نے کیں۔‬
‫انھوں نے کہا کہ یہ ملک کی ‪ 57‬سال کی تاریخ میں روزانہ کی جانے والی کالوں کی تعداد‬
‫میں سب سے زیادہ ہے‪ ،‬جب کہ اس سال کے ٓاغاز سے ‪ 6‬الکھ ‪ 94‬ہزار ‪ 4‬سو پریشان‬
‫ٓاسٹریلوی شہریوں نے مدد کے لیے اس الئف الئن پر کال کیا۔‬
‫جیولی کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کالز معاشی مشکالت‪ ،‬خراب رشتہ‪ ،‬اکیال پن اور‬
‫خود کشی کی کوشش جیسے مسائل سے متعلق تھیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/pandemic-increase-anxiety/‬‬

‫اور اب اومیکرون کا خوف‪ ،‬ماہرین نے ذہنی صحت کے لیے کارآمد‬


‫طریقہ بتا دیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪  8 2021‬‬
‫ٓاسٹریلیا کے مینٹل ہیلتھ ت ِھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کو ِوڈ نے‬
‫پہلے سے ہی پریشان لوگوں کے لیے جذباتی‪ ،‬سماجی اور مالی مشکالت بڑھا دی ہیں۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کئی چیزیں ہیں جو ہمیں اپنے دماغی مدافعتی نظام کو بہتر‬
‫کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں‪ ،‬اس سلسلے میں انھوں نے کئی چیزیں مذکور کی ہیں‬
‫جو مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫فکرمندی اور خوف کی وجہ‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر دھیان دیں کہ ٓاج ٓاپ نے اپنے دماغ کو‬
‫کون سی معلومات کے لیے استعمال کیا ہے‪ ،‬کیا ٓاپ نے سوشل میڈیا پر بہت سی منفی‬
‫خبریں پڑھی ہیں یا ان چیزوں کے بارے میں بری خبریں پڑھی ہیں جس کے بارے میں ہم‬
‫کچھ نہیں کر سکتے؟‬
‫کیوں کہ غیر یقینی صورت حال ہمیں فکر مند اور خوف زدہ محسوس کرواتی ہے‪ ،‬جس‬
‫کی وجہ سے ہم اپنے اطراف میں منفی معلومات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں‪ ،‬ایسے میں ہم‬
‫غیر واضح چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے‪ ،‬اور ماضی میں ہوئی غلط چیزوں کو لے کر فکر‬
‫مند رہتے ہیں۔‬
‫دراصل ہمارے ذہن میں بننے والے تصورات ہی ہمارے اچھے یا برے مزاج کا باعث‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی محسوس بھی کرتے ہیں‪ ،‬اس لیے جب ہم برا‬
‫محسوس کرتے ہیں تو ذہن میں منفی چیزیں ٓاسانی سے ٓا جاتی ہیں اور ہم بار بار پھر ایسا‬
‫ہی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دماغ خبروں اور سوشل میڈیا کی منفی تصویروں اور‬
‫معلومات سے بھر جائے‪ ،‬ایسے میں جب بھی ہم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں‬
‫تو ہمارے ذہن میں ٓاسانی سے منفی تصویریں اور خیاالت ابھرنے لگ جاتے ہیں‪ ،‬جو بعد‬
‫میں اضطراب اور مایوسی کے منفی چکر کو ہوا دے سکتے ہیں‪ ،‬جس سے ہمیں ناامیدی‬
‫اور بے بسی محسوس ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کمپیوٹر کے کام کے دوران لوگوں کا دماغ کیسے کام‬
‫کرتا ہے‪ ،‬وہ اس وقت کیا تصور اور محسوس کرتے ہیں‪ ،‬اس تحقیق کے ذریعے انھوں نے‬
‫پایا کہ ایسے لوگوں میں مستقبل کے تئیں مثبت خیاالت کم ہوتے ہیں۔‬
‫خود کو دل چسپ سرگرمیوں میں مصروف کرنا‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ساری چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہیں‬
‫تب ہمیں اپنی پسندیدہ کام کرنے میں بھی دل چسپی محسوس نہیں ہوتی‪ ،‬لیکن پھر بھی ہمیں‬
‫ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں خود کو مشغول کرنے کی کوشش کرتے‬
‫رہنا چاہیے۔‬
‫جس سے خوشی محسوس ہو‬
‫چاہے کھانا پکانا ہو‪ ،‬گیراج میں کام کرنا ہو‪ ،‬سیر کے لیے جانا ہو یا موسیقی سننا ہو‪ ،‬وہ‬
‫کام جس سے ٓاپ کو خوشی محسوس ہو‪ ،‬اسے کرنے سے ٓاپ میں مثبت خیاالت پیدا ہوں‬
‫گے‪ ،‬یہ کام ٓاپ کے اندر ایک نئی امنگ بھر سکتا ہے اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا عالج‬
‫بھی کر سکتا ہے۔‬
‫دوسروں سے رابطہ اور مدد اپنی مدد ہے‬
‫انسان کو سماجی جانور بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬جسے دوسروں سے جڑے رہنا پسند ہے‪ ،‬گزشتہ‬
‫سال الک ڈاؤن کے دوران ایک آسٹریلوی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اکثر‬
‫دوسرے لوگوں سے میل جول رکھنا پسند کرتے ہیں‪ ،‬انھوں نے الک ڈاؤن میں اکیال پن‬
‫زیادہ محسوس کیا‪ ،‬خاص طور سے وہ لوگ جو پہلے ہی ڈپریشن کی عالمات کا سامنا کر‬
‫رہے تھے۔‬
‫دوسروں کی مدد کرنا ہماری اپنی ذہنی اور جسمانی تندرستی کو بہت فائدہ پہنچاتی ہے اور‬
‫منفی خیاالت کو دور رکھتی ہے‪ ،‬ہم دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں یا انھیں ہماری مدد‬
‫کرنے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اس سے وہ بھی بہتر محسوس کریں گے۔‬
‫غذائیت سے بھرپور‪ F‬خوراک‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رہنے اور معمول کے کام بہتر طور سے‬
‫حتی کہ اچھا محسوس کرنے کے لیے بھی صحت بخش غذا کی ضروری‬ ‫انجام دینے‪ ،‬اور ٰ‬
‫ہوتی ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک وہ ہوتی ہے جس میں مائیکرو اور میکرو‬
‫نیوٹرینٹس موجود ہوں‪ ،‬طبی ماہرین کے مطابق مائیکرونیوٹرینٹس ذہنی صحت کے لیے‬
‫نہایت ضروری ہوتے ہیں۔‬
‫مائیکرو نیوٹرینٹس‪ ±‬ان چھوٹے غذائی اجزا کے بڑے گروپس میں سے ایک ہیں جن کی‬
‫انسانی جسم کو ضرورت ہے‪ ،‬ان میں وٹامنز‪ ,‬اور معدنیات شامل ہیں۔ وٹامنز توانائی کی‬
‫پیداوار‪ ،‬مدافعتی افعال‪ ،‬خون جمنے اور دیگر افعال کے لیے ضروری ہیں‪ ،‬جب کہ‬
‫معدنیات نشوونما‪ ،‬ہڈی کی صحت‪ ،‬مائع جات کا توازن اور کئی دیگر چیزوں میں اہم کردار‬
‫ادا کرتے ہیں۔‬
‫جب کہ میکرونیوٹرینٹس‪ ±‬میں کاربوہائیڈریٹس‪ ،‬چکنائی اور پروٹین شامل ہیں‪ ،‬یہ وہ چیزیں‬
‫جو بہت استعمال ہوتی ہیں‪ ،‬یہ وہ اجزا ہیں جو جسم کے تمام افعال اور اسٹرکچر برقرار‬
‫رکھنے اور توانائی کے لیے ضروری ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/mental-health-during-covid-time/‬‬
‫اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کب تک دستیاب ہوگی؟‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 8 2021‬‬
‫امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے توقع ظاہر کی ہے کہ ٓائندہ برس مارچ تک کورونا کی‬
‫نئی قسم اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین دستیاب ہوگی۔‬
‫غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کا کہنا‬
‫ہے کہ فائزر ویکسین کی تین خوراکیں اومیکرون کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔‬
‫دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے ‪ 57‬ممالک میں کورونا کی نئی‬
‫قسم اومیکرون کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے‬
‫جن کو اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔‬
‫ڈبلیو ایچ او نے اپنی ہفتہ وار وبا کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اومی کرون سے پیدا ہونے‬
‫والی بیماری کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔‬
‫واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے ‪ 26‬نومبر کو اومی کرون ویرینٹ کا اعالن کیا تھا جس کا‬
‫پہال کیس جنوبی افریقہ میں سامنے ٓایا تھا۔‬
‫ا‬
‫ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‪ 5‬دسمبر تک جنوبی افریقہ میں کورونا کیسز‬
‫کی تعداد ‪ 62‬ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے اور اسی طرح کی صورت حال زمبابوے‪،‬‬
‫موزمبیق‪ ،‬نمیبیا‪ ،‬لیسوتھو اور ایسواتینی میں بھی ہے۔‬
‫انفیکشن کے خطرے پر بات کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’ابتدائی جائزے میں‬
‫معلوم ہوا ہے کہ اومی کرون کی شکلیں تبدیل ہونے سے قدرتی مدافعت میں کمی ہو سکتی‬
‫‘ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس ایدہانوم کا کہنا ہے کہ اگرچہ اومی کرون سے‬
‫دوبارہ انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے تاہم اس کے اثرات ڈیلٹا سے کم ہوسکتے ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/597530-2/‬‬
‫رات کی شفٹ اور بے وقت کھانے کا بڑا نقصان‪ ،‬نئی تحقیق‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 8 2021‬‬

‫میساچوسٹس‪ :‬طبی ماہرین نے ایک تازہ تحقیق کے بعد خبردار کیا ہے کہ رات کو دیر تک‬
‫جاگنے اور اس دوران کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کی اندرونی گھڑی ہمارے سونے جاگنے اور دیگر معموالت کو‬
‫طے کرتی ہے‪ ،‬اگر ان میں کوئی بگاڑ آ جائے تو جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫بوسٹن میں قائم ہارورڈ میڈیکل اسکول کے طبی ماہرین نے نوجوان اور صحت مند رضا‬
‫کاروں پر ایک ریسرچ اسٹڈی کی ہے‪ ،‬جنھیں دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا‪ ،‬ان میں سے‬
‫ایک کو دن میں کام کرایا گیا اور ان ہی اوقات میں کھانا پینا فراہم کیا گیا‪ ،‬جب کہ دوسرے‬
‫گروہ کو رات میں جاگنے کو کہا گیا اور انہی اوقات میں کھانا دیا گیا۔‬
‫رضاکاروں سے یہ معمول ‪ 14‬روز تک دہرایا گیا‪ ،‬اور پھر دونوں گروہوں کے خون میں‬
‫گلوکوز کی مقدار نوٹ کی گئی‪ ،‬جن لوگوں نے دو ہفتے راتوں کو جاگ کر گزارے تھے‪،‬‬
‫اور رات ہی کو کھانا کھایا‪ ،‬ان میں پہلے کے مقابلے میں گلوکوز کی شرح ساڑھے ‪ 6‬فی‬
‫صد بڑھی ہوئی دیکھی گئی۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو جاگنے اور کام کرنے سے جسم میں میٹابولزم متاثر ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬اور اس کا امراض قلب اور بلڈ پریشر سے تعلق دیکھا گیا ہے‪ ،‬اسی طرح سونے اور‬
‫جاگنے کے قدرتی دورانیے یعنی جسمانی گھڑی (سرکاڈیئن کالک) بگڑنے سے دل پر‬
‫منفی اثرات بھی سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫ہارورڈ اسکول کے پروفیسر فرینک اے جے ایل کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا‬
‫ہے کہ بے وقت کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھتی ہے‪ ،‬تاہم اس ضمن میں مزید‬
‫تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/waking-up-late-at-night/‬‬
‫امید کی کرن ‪ :‬سائنسدانوں نے اومیکرون کا توڑ نکال لیا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 9 2021‬‬

‫فارماسوٹیکل کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے‬
‫سد باب کیلئے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا ہے۔‬
‫دونوں ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق کوویڈ ‪ 19‬ویکسین کی کورونا وائرس کی نئی قسم‬
‫اومیکرون کے خالف افادیت کی ابتدائی تفصیالت جاری کردی گئی ہیں۔‬
‫فائزر اور بائیو این ٹیک کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ابتدائی لیبارٹری‪ ‬تحقیقی‬
‫رپورٹس‪ ‬سے ثابت ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون‪ ±‬قسم‬
‫کو ناکارہ بناسکتی ہے۔ کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر میں بوسٹر ڈوز‬
‫فراہم کرنے کی مہمات میں تیزی ٓائے گی۔‬
‫بیان میں بتایا گیا کہ موجودہ ویکسین کی تیسری خوراک سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی‬
‫اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 25‬گنا اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬اس سے لوگوں کو اومیکرون کے خالف‬
‫وائرس کی اصل اور دیگر اقسام جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔‬
‫کمپنیوں کے مطابق ٹی سیلز بھی اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین شدت‬
‫سے تحفظ فراہم کرتے ہیں مگر ان نتائج کے باوجود دونوں کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ‬
‫پراعتماد ہیں کہ اومیکرون کے خالف ویکسین کے مخصوص ورژن کو مارچ ‪ 2022‬تک‬
‫تیار کرلیا جائے گا۔‬
‫اس تحقیق میں فائزر ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے بلڈ پالزما کی‬
‫جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں‬
‫اومیکرون کے خالف وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے‬
‫مقابلے میں ‪ 25‬گنا کمی ٓائی۔ یہ نتائج اومیکرون‪ ±‬کے خالف ابتدائی ڈیٹا کی سیریز کا حصہ‬
‫ہیں۔‬
‫اس سے قبل‪ 7‬دسمبر کو افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا‬
‫وائرس کی نئی قسم اومیکرون‪ ±‬ویکسینیز اور قدرتی بیماری سے ملنے والے تحفظ پر‬
‫جزوی حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ کورونا کی یہ نئی قسم کا مدافعتی نظام سے مکمل طور‬
‫پر نہیں بچ پاتی‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز کے استعمال کے بعد وقت گزرنے سے‬
‫تحفظ میں ٓانے والی کمی کو اینٹی باڈیز بڑھا کر بحال کیا جاسکتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ اس حوالے سے کلینکل نتیجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے مگر نتائج سے‬
‫اس خیال کو ٹھوس تقویت ملتی ہے کہ بوسٹر ویکسینیشن اومیکرون‪ ±‬سے تحفظ کے لیے‬
‫مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫فائزر کے سی ای او البرٹ بورال نے بتایا کہ ابتدائی ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ویکسین‬
‫کی تیسری خوراک سے بیماری کے خالف تحفظ میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫بائیو این ٹیک کے سی ای او ایغور شاہین نے کہا کہ تیسری خوراک کے ابتدائی ڈیٹا سے‬
‫ثابت ہوتا ہے کہ اس سے بیماری کے خالف مناسب تحفظ مل سکتا ہے۔ خیال رہے کہ یہ‬
‫ڈیٹا ابتدائی ہے اور دونوں کمپنیوں کی جانب سے کورونا کی اس نئی قسم پر تحقیق کا‬
‫سلسلہ جاری رہے گا۔‬
‫کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے‬
‫افراد کو بھی اومیکرون قسم سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا‬
‫ہے‪ ،‬جس کی وجہ مدافعتی نظام کا وہ حصہ ہے جسے ٹی سیلز ہے جو وائرس کی اقسام‬
‫میں ہونے والی میوٹیشنز سے متاثر نہیں ہوتا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-variant-omicron-virus-covid-vaccine/‬‬

‫عالمی ادارہ صحت نے اچھی خبر سنا دی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪9 2021‬‬

‫جنیوا‪ :‬عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ‪ F‬کورونا وائرس‬
‫کی دوسری اقسام سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔‬
‫ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین نے بتایا کہ ابتدائی جائزے سے پتا چال اومیکرون ڈیلٹا‬
‫کے مقابلے میں شدید بیماری کا سبب نہیں لیکن یہ وائرس دوسری اقسام سے زیادہ تیزی‬
‫سے پھیل رہا ہے۔‬
‫ماہرین نے کہا کہ اومیکرون‪ ±‬کے خالف موجودہ ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان نہیں‪،‬‬
‫تاہم نئے ویرینٹ سے متعلق یہ انتہائی ابتدائی جائزہ ہے‪ ،‬محتاط ضروری ہے۔‬
‫دوسری جانب ادویہ ساز کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ‬
‫اومیکرون کے سد باب کےلیے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک‬
‫اومیکرون قسم کو ناکارہ بناسکتی ہے‪ ،‬کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر‬
‫میں بوسٹر ڈوز فراہم کرنے کی مہمات میں تیزی ٓائے گی۔‬
‫خیال رہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/who-on-omicron/‬‬

‫کوریا ہنٹنگٹن ‪ :‬العالج بیماری جو مریض کو چلتی پھرتی الش بنا دیتی‬
‫ہے‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 9 2021‬‬

‫کوریا ہنٹنگٹن ایک ایسی اعصابی بیماری ہے جس میں خاص طور پر جسم کے مختلف‬
‫حصوں میں ایسی حرکت ہوتی ہے جس پر بے قابو پانا مریض کے بس میں نہیں ہوتا‪ ،‬یہ‬
‫مرض اکثر‪ 30‬سے ‪ 40‬سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔‬
‫ہنٹنگنگ کا مرض جو پہلے “موروثی سینٹ وٹوس ڈانس” کے نام سے جانا جاتا تھا‪ ،‬اس‬
‫بیماری کی وجہ جینیاتی مواد کے تغیر میں ہوتا ہے۔ عالمات میں چہرے کے بے قابو‬
‫اظہار نگلنے اور بولنے میں دشواری اور اعضاء کی ضرورت سے زیادہ حرکت شامل‬
‫ہیں۔‬
‫ہنٹنگنگ کی بیماری پہلی بار انیسویں صدی کے آخری عشروں سامنے آئی تھی آج تک اس‬
‫کے متعدد عالج کے طریقے موجود ہیں جن کا مقصد صرف عالمات کو دور کرنا ہے تاہم‬
‫آج تک کوئی مکمل عالج ممکن نہیں ہے۔ ہنٹنگٹن ایک موروثی بیماری ہے جو خودکار‬
‫اور بااثر طریقے سے والدین کے ذریعے بچے تک پہنچ جاتی ہے۔‬
‫ہے‪ ،‬اس کا مطلب ہے کہ عیب دار جین ایک جنسی کروموسوم ایکس یا وائی پر واقع نہیں‬
‫ہے اور اس طرح پہلے سے ہی ظاہر ہوسکتا ہے اگر صرف والد یا والدہ میں سے کوئی‬
‫ایک اس مرض کا شکار ہو تو بچے میں اس مرض کے پیدا ہونے کا ‪ 50‬فیصد خطرہ ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫شکایات اور عالمات‬
‫غیر منطقی اور بے قابو حرکتیں اکثر ہنٹنگٹن کی بیماری کی پہلی عالمت ہوتی ہیں‪ ،‬ابتدائی‬
‫مراحل میں یہ بیماری بمشکل سمجھے جانے والے پٹھوں کے ٹکڑوں کے ذریعے نمایاں‬
‫ہوتی ہے۔ جیسے جیسے یہ مرض بڑھتا جاتا ہے مریض کیلئے چلنے پھرنے اور روزمرہ‬
‫کی سرگرمیاں انجام دینا نہایت مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔‬
‫مرض بڑھ جانے کی صورت میں مریضوں کا جسم پر کنٹرول بالکل ختم ہوجاتا ہے‪ ،‬زبان‬
‫اور پٹھوں کی حرکت بھی بند ہوجاتی ہے اور کھانا کھانا بھی انتہائی دشوار اور نگلنے میں‬
‫دم گھٹنے کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫ہنٹنگٹن کی بیماری سے انسان کی نفسیات اور رویہ بھی متاثر ہوتا ہے وہ چہرے کے‬
‫تاثرات کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/huntingtons-disease-walking-dead-mysterious/‬‬

‫اومیکرون کے خالف ویکسینیشن کتنی مٔوثر ہوگی؟ پہال ڈیٹا سامنے ٓاگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪09 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ویکسینیز اور قدرتی بیماری سے ملنے والے تحفظ‬
‫پر جزوی حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔‬
‫یہ بات اس حوالے اب تک جاری ہونے والی پہلی طبی تحقیق میں بتائی گئی۔‬
‫مگر تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ کورونا کی یہ نئی قسم مدافعتی نظام سے مکمل‬
‫طور پر نہیں بچ پاتی‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز کے استعمال کے بعد وقت گزرنے‬
‫سے تحفظ میں ٓانے والی کمی کو اینٹی باڈیز بڑھا کر بحال کیا جاسکتا ہے۔‬
‫محققین نے کہا کہ اس حوالے سے کلینکل نتیجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے مگر نتائج سے‬
‫اس خیال کو ٹھوس تقویت ملتی ہے کہ بوسٹر ویکسینیشن اومیکرون‪ ±‬سے تحفظ کے لیے‬
‫مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں شامل ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر ولیم‬
‫ہینکوم نے بتایا کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اومیکرون کے خالف ویکسین سے ملنے والے‬
‫تحفظ کی شرح گھٹ جائے گی‪ ،‬مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں‬
‫کہ موجودہ ویکسینز کورونا کی اس نئی قسم سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں اور‬
‫موت سے تحفظ فراہم کرسکتی ہیں۔‬

‫انہوں نے کہا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ ناگزیر ہے کہ ہر فرد کی کووڈ سے تحفظ کے‬
‫لیے ویکسینیشن ہو۔‬
‫یہ انسانی مدافعتی نظام کے اومیکرون سے نمٹنے کے حوالے سے پہلی تحقیق ہے اور اس‬
‫کے لیے محققین نے فائزر ویکسین استعمال کرنے والے ‪ 12‬افراد کے خون کے نمونوں‬
‫میں اومیکرون کی جانچ پڑتال کی۔‬

‫ان نمونوں میں مدافعتی ردعمل کا موازنہ وائرس کی ابتدائی قسم سے کیا گیا۔‬

‫تحقیق میں شامل ‪ 12‬میں سے ‪ 6‬افراد ایسے تھے جو جنوبی افریقہ میں کورونا کی پہلی‬
‫لہر کے دوران متاثر ہوئے تھے اور بعد میں ویکسینیشن ہوئی۔‬

‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے محفوظ رہنے والے مگر ویکسینیشن کرانے‬
‫والے افراد کے خون میں اومیکرون کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل‬
‫قسم کے مقابلے میں ‪ 41‬گنا کمی ٓائی مگر یہ نئی قسم مکمل طور پر مدافعتی نظام سے نہیں‬
‫بچ سکی۔‬

‫اس کے مقابلے میں جن افراد کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور وہ ماضی میں کووڈ سے‬
‫متاثر بھی ہوئے تھے‪ ،‬ان کے نمونوں میں اومیکرون کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی‬
‫سطح زیادہ تھی‪ ،‬جس سے عندیہ مال کہ ویکسین کا بوسٹر ڈوز بیماری سے تحفظ کے لیے‬
‫مؤثر ہوسکتا ہے۔‬

‫سائنسدانوں کو پہلے ہی اومیکرون کے خالف تحفظ کی شرح میں کمی کی توقع تھی مگر‬
‫ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اینٹی باڈیز سے ہٹ کر ٹی سیلز کورونا کی اس نئی قسم کے‬
‫خالف زیادہ بہتر کام کرسکیں گے اور بیماری کی سنگین شدت سے بچائیں گے۔‬

‫محققین نے کہا کہ اومیکرون پر تحقیق کے نتائج ہماری توقعات سے بہتر ہیں‪ ،‬جتنی زیادہ‬
‫اینٹی باڈیز ٓاپ حاصل کریں گے‪ ،‬اتنا زیادہ بیماری سے تحفظ ملنے کا امکان ہے۔‬

‫امپرئیل کالج کے امیونولوجی پروفیسر ڈینیئل ٓالٹمن جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے‪ ،‬نے‬
‫کہا کہ تحقیق سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ جن لوگوں کی ویکسینیشن نہیں ہوئی یا جن‬
‫افراد نے ویکسینز کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کی ہیں‪ ،‬وہ اومیکرون کے مقابلے میں کافی‬
‫کمزور ہیں‪ ،‬مگر جن افراد کو بوسٹر ڈوز دیا گیا یا ویکسینیشن کے ساتھ قدرتی بیماری کا‬
‫سامنا بھی کرچکے ہیں‪ ،‬ان کو بیماری سے زیادہ تحفظ حاصل ہے‪ ،‬چاہے اینٹی باڈیز کی‬
‫سطح میں ‪ 41‬گنا کمی ہی کیوں نہ ٓائے۔‬

‫برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر پال موس نے کہا کہ تشویشناک دریافت یہ ہے کہ وائرس‬


‫ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اومیکرون کے خالف ‪ 40‬گنا تک کمی ٓائی‪،‬‬
‫جس کا مطلب یہ ہے کہ محض ڈھائی فیصد اینٹی باڈیز سرگرمی ہی باقی رہی‪ ،‬مگر اس‬
‫طرح کے نتائج غیرمتوقع نہیں تھے‪ ،‬ایسے شواہد سامنے ٓارہے ہیں کہ بوسٹر ویکسینیشن‬
‫اینٹی باڈیز کی سطح میں اضافہ کرتی ہے جو بیماری کے خالف قیمتی تحفظ فراہم‬
‫کرسکتی ہے۔‬

‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر‬
‫جاری کیے گئے۔‬

‫دوسری جانب سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ‬
‫اومیکرون کے خالف وائرس کی اصل قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کی افادیت میں‬
‫اوسطا ً ‪ 7‬گنا کمی ٓائی۔‬

‫مگر تحقیق میں لوگوں میں ویکسینیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں فرق بھی‬
‫دیکھنے میں ٓایا جیسے کچھ افراد کے خون کے نمونوں میں مدافعت میں کوئی کمی ریکارڈ‬
‫نہیں ہوئی جبکہ کچھ ایسے تھے جن کی اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 25‬گنا سے زیادہ کمی‬
‫ٓائی۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173756/‬‬
‫کورونا کی نئی قسم کے خالف فائزر ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت‬
‫کا ابتدائی ڈیٹا جاری‬
‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪08 2021‬‬
‫—‬
‫فائزر اور بائیو این ٹیک نے اپنی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی کورونا وائرس کی نئی‬
‫قسم اومیکرون کے خالف افادیت کا ابتدائی ڈیٹا جاری کردیا ہے۔‬

‫دونوں کمپنیوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ابتدائی لیبارٹری تحقیقی رپورٹس سے ثابت‬
‫ہوا ہے کہ ان کی تیار کردہ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون قسم کو ناکارہ بناسکتی‬
‫ہے۔‬

‫کمپنیوں کو توقع ہے کہ ابتدائی نتائج سے دنیا بھر میں بوسٹر ڈوز فراہم کرنے کی مہمات‬
‫میں تیزی ٓائے گی۔‬

‫بیان میں بتایا گیا کہ موجودہ ویکسین کی تیسری خوراک سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی‬
‫اینٹی باڈیز کی سطح میں ‪ 25‬گنا اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫اس سے لوگوں کو اومیکرون‪ ±‬کے خالف وائرس کی اصل اور دیگر اقسام جتنا ہی تحفظ‬
‫ملتا ہے۔‬

‫کمپنیوں کے مطابق ٹی سیلز بھی اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین شدت‬
‫سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‬

‫مگر ان نتائج کے باوجود دونوں کمپنیوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ اومیکرون‬
‫کے خالف ویکسین کے مخصوص ورژن کو مارچ ‪ 2022‬تک تیار کرلیا جائے گا۔‬

‫اس تحقیق میں فائزر ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کے بلڈ پالزما کی‬
‫جانچ پڑتال کی گئی تھی۔‬

‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں‬
‫اومیکرون کے خالف وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں اصل وائرس کے‬
‫مقابلے میں ‪ 25‬گنا کمی ٓائی۔‬
‫یہ نتائج اومیکرون کے خالف ابتدائی ڈیٹا کی سیریز کا حصہ ہیں۔‬

‫اس سے قبل ‪ 7‬دسمبر کو افریقہ ہیلتھ ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ‬
‫کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون ویکسینیز اور قدرتی بیماری سے ملنے والے تحفظ‬
‫پر جزوی حد تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔‬

‫تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ کورونا کی یہ نئی قسم کا مدافعتی نظام سے مکمل طور‬
‫پر نہیں بچ پاتی‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسینز کے استعمال کے بعد وقت گزرنے سے‬
‫تحفظ میں ٓانے والی کمی کو اینٹی باڈیز بڑھا کر بحال کیا جاسکتا ہے۔‬

‫محققین نے کہا کہ اس حوالے سے کلینکل نتیجہ کی تصدیق ہونا باقی ہے مگر نتائج سے‬
‫اس خیال کو ٹھوس تقویت ملتی ہے کہ بوسٹر ویکسینیشن اومیکرون‪ ±‬سے تحفظ کے لیے‬
‫مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔‬

‫فائزر کے سی ای او البرٹ بورال نے بتایا کہ ابتدائی ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ ویکسین‬


‫کی تیسری خوراک سے بیماری کے خالف تحفظ میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫بائیو این ٹیک کے سی ای او ایغور شاہین نے کہا کہ تیسری خوراک کے ابتدائی ڈیٹا سے‬
‫ثابت ہوتا ہے کہ اس سے بیماری کے خالف مناسب تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ یہ ڈیٹا ابتدائی ہے اور دونوں کمپنیوں کی جانب سے کورونا کی اس نئی قسم‬
‫پر تحقیق کا سلسلہ جاری رہے گا۔‬

‫کمپنیوں کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے‬
‫افراد کو بھی اومیکرون قسم سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ مل سکتا‬
‫ہے‪ ،‬جس کی وجہ مدافعتی نظام کا وہ حصہ ہے جسے ٹی سیلز ہے جو وائرس کی اقسام‬
‫میں ہونے والی میوٹیشنز سے متاثر نہیں ہوتا۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173760/‬‬

‫وہ غذائیں‪ F‬جو ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ بڑھائیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪08 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫روزانہ کی بنیاد پر غذا میں ایک عام احتیاط کے ذریعے جان لیوا ہارٹ اٹیک کا خطرہ‬
‫نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‬

‫یہ انتباہ ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓایا جس کے مطابق الٹرا پراسیس غذاؤں کھانے‬
‫کی عادت ہارٹ اٹیک یا فالج کا باعث بن سکتی ہے‪ ،‬بالخصوص دل کی شریانوں سے‬
‫جڑے امراض کے شکار افراد میں یہ دورے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔‬

‫الٹرا پراسیس غذاؤں کی اصطالح متعدد مصنوعات کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے ڈبل‬
‫روٹی‪ ،‬فاسٹ فوڈز‪ ،‬مٹھائیاں‪ ،‬ٹافیاں‪ ،‬کیک‪ ،‬نمکین اشیا اور بریک فاسٹ سیرلز‪ ،‬چکن اور‬
‫فش نگٹس‪ ،‬انسٹنٹ نوڈلز‪ ،‬میٹھے مشروبات اور سوڈا وغیرہ۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ الٹرا پراسیس غذائیں کھانے کے عادی افراد میں دوسرے ہارٹ اٹیک‬
‫یا فالج کے دورے کا خطرہ دو تہائی حد تک بڑھ جاتا ہے اور اس بار وہ جان لیوا ثابت‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫اٹلی میں ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ غذائیں اکثر ایسے اجزا سے بھرپور ہوتی‬
‫ہیں جو پاتھلیٹس اور بائی فینولز سے بھرپور ہوتے ہیں‪ ،‬یہ ایسے کیمیکلز ہیں جن کو‬
‫پالسٹک کو لچکدار اور دیرپا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‬

‫محققین کے مطابق ان غذاؤں میں اکثر مختلف فوڈ ایڈیٹیوز اور نیو فارمڈ مرکبات بھی شامل‬
‫ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر انسانی صحت کے لیے نقسان دہ ہوتے ہیں۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ان غذاؤں سے دل کی شریانوں پر مخصوص اثرات مرتب نہیں‬
‫ہوتے بلکہ یہ پہلے سے موجود مسائل کی رفتار کو بڑھا دیتی ہیں۔‬

‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہوئے۔‬

‫اس سے قبل اگست ‪ 2021‬میں یونان کی ہاروکوپیو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ‬
‫غذا میں الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال امراض قلب کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔‬

‫اس تحقیق میں الٹرا پراسیس غذاؤں اور دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے درمیان‬
‫تعلق کی جانچ پڑتال ‪ 10‬سال تک کی گئی۔‬

‫تحقیق کے لیے ایک سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا جو ‪ 2001‬سے ‪ 2012‬تک ہوا تھا‬
‫اور اس میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا تھا جو امراض قلب سے محفوظ تھے۔‬

‫ان افراد سے گزشتہ ‪ 7‬دن کے دوران کھائی جانے والی غذاؤں اور مشروبات کی تفصیالت‬
‫حاصل کی گئیں جبکہ دل کی صحت کے لیے مفید غذائی رجحانات کو جاننے کے لیے‬
‫سواالت کے جوابات حاصل کیے گئے۔‬

‫ان افراد کا جائزہ ‪ 10‬سال تک لیا گیا اور دیکھا گیا کہ ان میں امراض قلب بشمول ہارٹ‬
‫اٹیک‪ ،‬انجائنا‪ ،‬فالج‪ ،‬ہارٹ فیلیئر اور دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے کیسز کو دیکھا۔‬

‫تحقیق میں شامل ‪ 2020‬افراد اوسطا ہر ہفتے ‪ 15‬بار الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال کرتے‬
‫تھے اور ان میں دل کی شریانوں سے جڑے ‪ 317‬واقعات رپورٹ ہوئے۔‬

‫محققین نے بتایا کہ جتنی زیادہ مقدار میں الٹرا پراسیس غذاؤں کا استعمال ہوگا جان لیوا‬
‫امراض کا خطرہ اتنا زیادہ بڑھ جائے گا۔‬
‫اس کے مقابلے میں گریوں‪ ،‬مچھلی‪ ،‬زیتون کے تیل‪ ،‬پھلوں‪ ،‬سبزیوں اور اناج کا زیادہ‬
‫استعمال جبکہ سرخ گوشت کا کم استعمال اس خطرے کو کم کرتا ہے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173773/‬‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173773/‬‬

‫اومیکرون‪ F‬سے ری انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‪ ،‬ڈبلیو ایچ او‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪09 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی — شٹر اسٹاک فوٹو‬
‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا‬
‫کی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ٓاسانی سے ایسے افراد کو متاثر‬
‫کرسکتی ہے جو ماضی میں اس بیماری کو شکست دے چکے ہوتے ہیں یا ویکسنیشن کرا‬
‫چکے ہیں‪ ،‬مگر اس سے ہونے والی بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا‬
‫کہ جنوبی افریقہ سے سامنے ٓانے والے ڈیٹا سے اومیکرون‪ ±‬قسم سے ری انفیکشن کے‬
‫خطرے میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ایسے بھی کچھ شواہد موجود ہیں جن کے مطابق اومیکرون سے ہونے‬
‫والی بیماری کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں معمولی ہوتی ہے۔‬

‫مگر انہوں نے زور دیا کہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت‬
‫ہوگی۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ہر جگہ مانیٹرنگ کو بڑھانے سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ‬
‫اومیکرون کس حد تک دیگر اقسام سے مختلف یا خطرناک ہے۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ اگر اومیکرون‪ ±‬سے متاثر افراد کی شدت معمولی ثابت‬
‫ہو بھی جائے تو بھی وائرس کے حوالے سے غفلت برتنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس‬
‫کے باعث ہالکتیں ہوسکتی ہیں۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسیز ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ‬


‫ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم زیادہ متعدی ہے بلکہ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ تیزی‬
‫سے پھیل سکتی ہے‪ ،‬مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وائرس کو روکنا ممکن نہیں۔‬

‫انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس نے اپنے پھیالؤ کے لیے خود کو‬
‫زیادہ بہتر بنایا ہے اور اسی لیے ہمیں پھیالؤ کے چینز کو روکنے کے لیے کوششوں کو‬
‫دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ چاہے یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں کم خطرناک ہی کیوں نہ‬
‫ثابت ہو‪ ،‬اگر وہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے تو وہ زیادہ افراد کو بیمار کرے گی جس‬
‫سے طبی نظام پر بوجھ بڑھے گا۔‬

‫عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے ویکسیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چاہے‬
‫ویکسینز اومیکرون کے خالف کم مؤثر ہی کیوں نہ ثابت ہوں‪ ،‬جیسا کچھ ڈیٹا سے عندیہ‬
‫ملتا ہے‪ ،‬مگر توقع ہے کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے خالف نمایاں تحفظ ملے‬
‫گا۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ابتدائی تحقیقی رپورٹس پر شدید‬
‫ردعمل پر انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحقیقی رپورٹس چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں‬
‫اور وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے نتائج مختلف تحقیقی‬
‫رپورٹس میں مختلف ہیں۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ان میں محض وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر توجہ مرکوز کی‬
‫گئی مگر ہم جانتے ہیں کہ مدافعتی نظام اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیال میں یہ نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا کہ اینٹی باڈی ردعمل میں‬
‫کمی ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی کا باعث ہے‪ ،‬ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں‬
‫جانتے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/117377‬‬

‫اومیکرون سے ری انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‪ ،‬ڈبلیو ایچ او‬


‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪09 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا‬
‫کی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ٓاسانی سے ایسے افراد کو متاثر‬
‫کرسکتی ہے جو ماضی میں اس بیماری کو شکست دے چکے ہوتے ہیں یا ویکسنیشن کرا‬
‫چکے ہیں‪ ،‬مگر اس سے ہونے والی بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا‬
‫کہ جنوبی افریقہ سے سامنے ٓانے والے ڈیٹا سے اومیکرون‪ ±‬قسم سے ری انفیکشن کے‬
‫خطرے میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ایسے بھی کچھ شواہد موجود ہیں جن کے مطابق اومیکرون سے ہونے‬
‫والی بیماری کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں معمولی ہوتی ہے۔‬

‫مگر انہوں نے زور دیا کہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت‬
‫ہوگی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہر جگہ مانیٹرنگ کو بڑھانے سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ‬
‫اومیکرون‪ ±‬کس حد تک دیگر اقسام سے مختلف یا خطرناک ہے۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ اگر اومیکرون‪ ±‬سے متاثر افراد کی شدت معمولی ثابت‬
‫ہو بھی جائے تو بھی وائرس کے حوالے سے غفلت برتنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس‬
‫کے باعث ہالکتیں ہوسکتی ہیں۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسیز ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ‬


‫ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم زیادہ متعدی ہے بلکہ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ تیزی‬
‫سے پھیل سکتی ہے‪ ،‬مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وائرس کو روکنا ممکن نہیں۔‬

‫انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس نے اپنے پھیالؤ کے لیے خود کو‬
‫زیادہ بہتر بنایا ہے اور اسی لیے ہمیں پھیالؤ کے چینز کو روکنے کے لیے کوششوں کو‬
‫دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ چاہے یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں کم خطرناک ہی کیوں نہ‬
‫ثابت ہو‪ ،‬اگر وہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے تو وہ زیادہ افراد کو بیمار کرے گی جس‬
‫سے طبی نظام پر بوجھ بڑھے گا۔‬

‫عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے ویکسیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چاہے‬
‫ویکسینز اومیکرون کے خالف کم مؤثر ہی کیوں نہ ثابت ہوں‪ ،‬جیسا کچھ ڈیٹا سے عندیہ‬
‫ملتا ہے‪ ،‬مگر توقع ہے کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے خالف نمایاں تحفظ ملے گا‬
‫۔‬

‫ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ابتدائی تحقیقی رپورٹس پر شدید‬
‫ردعمل پر انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحقیقی رپورٹس چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں‬
‫اور وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے نتائج مختلف تحقیقی‬
‫رپورٹس میں مختلف ہیں۔‬

‫انہوں نے کہا کہ ان میں محض وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر توجہ مرکوز کی‬
‫گئی مگر ہم جانتے ہیں کہ مدافعتی نظام اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیال میں یہ نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا کہ اینٹی باڈی ردعمل میں‬
‫کمی ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی کا باعث ہے‪ ،‬ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں‬
‫جانتے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173776/‬‬

‫نومولود بچوں اور باپ کے درمیان اچھا تعلق ضروری کیوں؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪08 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫باپ کے ساتھ کھیلنے والے نومولود بچوں میں چیزیں سیکھنے کی صالحیت دیگر کے‬
‫مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔‬

‫یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ پیدائش کے بعد اولین ہفتے بچوں کے سیکھنے کے عمل کے ٓاغاز‬
‫جیسے سوچنے‪ ،‬تصور کرنے اور ارگرد کی اشیا کو جاننے کے لیے اہم ہوتے ہیں۔‬

‫سیکھنے کے اس عمل کو شعور بننے کا عمل بھی کہا جاتا ہے اور یہ سب ہماری ٓانکھوں‬
‫کے سامنے ہوتا ہے اور باپ اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔‬

‫امپرئیل کالج لندن‪ ،‬کنگز کالج لندن اور ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں ایسے‬
‫مردوں کی ویڈیوز بنائیں جو اپنے ‪ 3‬ماہ کے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔‬

‫بعد ازاں جب وہ بچے ‪ 2‬سال کے ہوئے تو باپ کی جانب سے کتاب پڑھ کر سنانے کی‬
‫ویڈیوز بنائی گئیں۔‬

‫محققین نے دریافت کیا کہ جن بچوں کو ‪ 3‬ماہ کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ بہت زیادہ‬
‫رابطے میں رہنے کا موقع مال‪ ،‬انہوں نے ‪ 2‬سال کی عمر میں مختلف ٹیسٹوں میں ان بچوں‬
‫سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کو والد کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع‬
‫نہیں مال۔‬

‫تحقیق میں یہ بھی بتایا کہ باپ کی جانب سے مطالعے کی سرگرمی بچوں کی توجہ‪ ،‬مسائل‬
‫حل کرنے اور زبان کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی ذہنی نشوونما اچھی ہوتی ہے۔‬

‫محققین کے خیال میں بچے کے سماجی رویے پر والد سے تعلق کافی اثرانداز ہوتا ہے۔‬

‫اس سے قبل دسمبر ‪ 2020‬میں امریکا کی روٹگرز‪ ±‬یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا‬
‫کہ اپنے بچوں کی زندگیوں کا حصہ بن جانے والے باپ ان کی ذہنی صحت اور رویوں کو‬
‫بہتر بنانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا کہ کم آمدنی والے خاندانوں میں لڑکپن میں پہنچ جانے والے بچوں‬
‫کے ساتھ اگر والد کھانا کھالنے‪ ،‬مطالعے‪ ،‬کھیلنے اور دیگر سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں‬
‫اور ضروریات جیے ملبوسات اور خوراک فراہم کرتے ہیں‪ ،‬تو بچوں میں جذباتی اور‬
‫رویوں کے مسائل کی شرح میں کمی آتی ہے۔‬

‫جریدے جرنل سوشل سروس ریویو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کم آمدنی والے‬
‫گھرانوں کے بچوں میں رویوں کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں اور والد ان کے ساتھ زیادہ وقت‬
‫نہیں گزارتے‬

‫۔‬

‫اس تحقیق کے دوران ‪ 1998‬اور ‪ 2000‬کے دوران پیدا ہونے والے ‪ 5‬ہزار بچوں کے‬
‫رویوں کا طویل المعیاد بنیادوں پر جائزہ لیا گیا۔‬

‫محققین نے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ ‪ 5‬سے ‪ 15‬سال کی عمر کے دوران والد کے‬
‫ساتھ وقت کھانے پینے‪ ،‬کھیل کود‪ ،‬مطالعے اور اسکول کے کام کے دوران مدد جیسی‬
‫سرگرمیوں میں کتنا وقت گزارا۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ کم آمدنی والے گھروانوں میں والد کے پاس بچوں کے ساتھ وقت‬
‫گزارنے کا موقع کم ہووتا ہے‪ ،‬جس کی وجہ حالیہ دہائیوں میں آنے والی سماجی اور‬
‫معاشی تبدیلیاں ہیں۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ اگر مرد اپنے بچوں کی سرگرمیوں کا زیادہ حصہ بننے لگے تو بچوں‬
‫کی شخصیت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173765/‬‬

‫مالٹے کا جوس بیمار بھی کر سکتا ہے‬


‫دسمبر ‪10 202 ،‬‬

‫سیٹرس فیملی سے تعلق رکھنے والے پھل مالٹے‪ ،‬فروٹر اور‪ ‬کینوؤں کو امیون بوسٹر‬
‫(قوت مدافعت مضبوط بنانے واال) وٹامن سی کا اہم ذریعہ قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬مالٹوں کی دنیا‬
‫بھر میں سیکڑوں مختلف اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں کینو اور مالٹے سب سے زیادہ‬
‫مشہور ہیں۔‬
‫ڈائٹیشنز و نیوٹریشنسٹس کے مطابق کینوؤں میں وٹامن سی کی مقدار ہونے سمیت فائبر‬
‫اور فولک ایسڈ بھی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے‪ ،‬ذائقے میں کچھ کھٹا کچھ میٹھا ہونے‬
‫کے سبب یہ پھل ہر کسی کا من پسند ہوتا ہے۔‬
‫کینوں‪ ،‬مالٹے اور فروٹر موسم سرما میں بآاسانی دستیاب ہوتے ہیں‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ‬
‫وٹامنز اور منرلز حاصل کرنے کے لیے یہ بہترین ٓاپشن ہے جبکہ اس کی زیادتی صحت‬
‫کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے‪  ‬تجویز کیا جاتا ہے کہ کینوؤں کو ہمیشہ مکمل کھایا جائے‬
‫اور اس کا رس پینے سے حتی االمکان گریز کیا جائے۔‬
‫ماہرین کے مطابق شوگر کے مریض ایک وقت میں صرف ایک جبکہ عام افراد ایک وقت‬
‫میں کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ تین کینوؤں کا استعمال کر سکتے ہیں۔‬
‫کینو میں وٹامن سی کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے‪ ،‬ایک بڑے سائز کے کینو میں روزانہ‬
‫کی بنیاد پر وٹامن سی کی مطلوبہ مقدار موجود ہوتی ہے جبکہ وٹامن سی کی زیادتی ’برین‬
‫اسموگ‘ یعنی ذہن کے کام چھوڑ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق کینو یا مالٹے کا جوس پینے کے بجائے اس پھل کو مکمل کھانا‬
‫چاہیے کیوں کہ مکمل پھل کھانے سے زیادہ فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں‪ ،‬اس میں‬
‫فائبر اور گودے سے گردوں کی صفائی ہوتی ہے اور ہاضمہ بھی درست رہتا ہے جبکہ‬
‫ٓانتوں کی صفائی بھی ہوتی ہے ۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق کینوؤں کا رس بھی صحت پر بے شمار فوائد کا سبب بنتا ہے‬
‫مگر جیسے ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اسی طرح کینوؤں کا رس بھی‬
‫زیادہ پینے سے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‬
‫نیوٹریشنسٹس کے مطابق ایک وقت میں ایک فرد زیادہ سے زیادہ ‪ 3‬کینو کھا سکتا ہے جو‬
‫کہ صحت کے لیے مفید ہے جبکہ رس پینے کی صورت میں اس کی زیادتی کا خدشہ بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫کینوؤں کے ایک گالس رس میں ‪ 5‬سے ‪ 6‬کینوؤں سے حاصل کردہ شوگر‪ ،‬فرکٹوز‪ ‬‬
‫موجود ہوتا جو کہ موٹاپے اور شدید تیزابیت کا سبب اور گردوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق کینوؤں کے رس میں فائبر نہ ہونے اور سٹرس کی مقدار زیادہ‬
‫ہونے کے سبب یہ معدے اور دانتوں کی صحت بھی متاثر کر سکتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1022826‬‬

‫عالمی وبا کورونا کا خاتمہ کب ہوگا اور یہ فیصلہ کیسے ہوگا؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 9  ‬دسمبر‪  2021  ‬‬
‫اس وبا کی شروعات کیسے ہوئی‪ ،‬کب اختتام پذیر ہوگی اور ہر ملک پر اس کے اثرات‬
‫ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟‪ ،‬ان سوالوں کا جواب اتنا بھی سیدھا اور ٓاسان نہیں‬
‫‪ ‬ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی چیف ڈاکٹر مائیکل ریان کا کہنا ہے کہ بات محض کورونا کیسز‬
‫کی تعداد کی نہیں بلکہ اس کی شدت اور اس کے اثرات کی ہے۔‬
‫جنوری ‪ 2020‬میں ڈبلیو ایچ او نے‪ ‬کوروناوائرس کو‪ ‬عالمی صحت کا بحران قرار دیا تھا۔‬
‫کچھ مہینوں بعد اقوام متحدہ نے اسے عالمی وبا کے طور پر بیان کیا۔ اس وقت یہ وائرس‬
‫تقریبا ً دنیا کے ہر براعظم میں پہنچ چکا تھا۔‬
‫غالب امکان یہی ہے کہ کورونا کا خطرہ اسی وقت ٹلے گا جب ڈبلیو ایچ او فیصلہ کرے گا‬
‫کہ اب دنیا کو کوروناوائرس‪ ±‬سے کوئی خطرہ نہیں۔‬
‫ڈیوک یونیورسٹی میں متعدی بیماریوں کے ایکسپرٹ ڈاکٹر کرس ُوڈ نے کہا‪“ ،‬ایسا فیصلہ‬
‫اتنا ٓاسان بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن میں کہہ دیا جائے کہ کوروناوائرس ختم۔ اس حوالے‬
‫سے عالمی سطح پر متفقہ رائے ہونا مشکل ہے۔ کورونا کے خاتمے کا انحصار ممالک میں‬
‫کیسز کی شرح میں خاطر خواہ کمی پر ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2256931/9812/‬‬

‫پاکستان میں‪ ‬پہلی بار جین تھراپی کے ذریعے ‪2‬سالہ بچے کا عالج‬


‫اسٹاف رپورٹر‬
‫جمعـء‪ 10  ‬دسمبر‪  2021  ‬‬

‫دواکے بعد شاویزکی حالت میں بہتری ٓائی‪ٓ،‬اغاخان اسپتال نے بچے کے عالج کیلیے مالی‬
‫معاونت فراہم کی‪،‬پریس کانفرنس۔ فوٹو‪ :‬سوشل میڈیا‬
‫کراچی‪ :‬ملک میں پہلی بار جین تھراپی کے ذریعے ‪2‬سالہ بچے کا عالج کیا گیا۔‬
‫ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان کرمانی نے کہاکہ کہ چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے‬
‫‪2‬سالہ بچے شاویز کو ‪6‬ماہ کی عمر میں اسپائنل مسکولراٹرفی کی تشخیص ہوئی تھی‪،‬اس‬
‫بیماری میں مریض کو پٹھوں کی کمزوری‪ ،‬پٹھوں کے تناؤ میں کمی‪ ،‬محدود نقل و حرکت‪،‬‬
‫سانس کے مسائل اور اعصابی صالحیتوں میں تاخیر جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‪،‬‬
‫اس بیماری میں مریض ریڑھ کی ہڈی میں خم کا شکار بھی ہوسکتا ہے‪،‬اسپائنل مسکولر‬
‫اٹرفی موروثی بیماریوں کا مجموعہ ہے‪ ،‬اس بیماری سے حرام مغز اور اس سے متصل‬
‫عصبی خلیات تباہ ہوجاتے ہیں‪ ،‬کزن میرج اس بیماری کی سب سے عام وجہ ہے۔‬
‫پاکستان میں پہلی بار جین تھراپی کے ذریعہ شاویز کا عالج کیا گیا‪ ،‬عالمی فارماسیوٹیکل‬
‫کمپنی نوارٹس نے اس بیماری کے عالج کی دوابنائی‪ ،‬بیماری کے عالج میں دوا کی‬
‫صرف ایک خوراک درکار ہے تاہم دوا کی قیمت کئی ملین ڈالرز ہے‪ ،‬نوارٹس نے سو‬
‫مریضوں کو دوا کی مفت فراہمی کا پروگرام ترتیب دیا۔‬
‫شاویز پاکستان میں دوا حاصل کرنے واال پہال مریض ہے‪ ،‬ان خیاالت کااظہار انھوںنے ٓاغا‬
‫خان یونیورسٹی اسپتال میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا‪ ،‬اس موقع پرسی ای او ٓاغا‬
‫خان یونیورسٹی اسپتال ڈاکٹر شاہد شفیع‪ ،‬متاثرہ بچہ شاویز اور اسکے اہلخانہ سمیت دیگر‬
‫موجود تھے۔‬
‫ڈاکٹر سلمان کرمانی نے نے مزید کہاکہ نوارٹس سے دوا کی فراہمی کی درخواست کی‪،‬‬
‫‪6‬ماہ عملے کو تھراپی کی ٹریننگ دی اور مریض بچے شاویز کے تھراپی سے قبل‬
‫ضروری ٹیسٹ کیے‪ ،‬شاویز کو دوسری سالگرہ سے ایک روز قبل دوا دی گئی‪ ،‬دوا کے‬
‫بعد شاویز کی حالت میں نمایاں بہتری ظاہر ہورہی ہے۔‬
‫شاویز کی والدہ کا کہنا تھا کہ شاویز دن بدن صحت کی طرف بڑھ رہا ہے‪ ،‬یہ سب ہللا کا‬
‫کرم اور ٓاغا خان اسپتال کے ڈاکٹروں اور عملے کی محنت کا نتیجہ ہے‪ٓ  ،‬اغا خان اسپتال‬
‫کے ویلفیئر پروگرام کے ذریعے شاویز کے عالج کے لیے مالی معاونت فراہم کی گئی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2257037/9812/‬‬

‫شکرگزاری کا جذبہ بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے میں مددگار‬


‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬جمعـء‪ 10  ‬دسمبر‪2021  ‬‬
‫شکرکا جذبہ انسانوں میں بلڈ پریشر بہتر بنانے اور دل کی دھڑکن متوازن رکھنے میں اہم‬
‫کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫مشی گن‪ :‬ایک حالیہ مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ پر امید افراد شکرگزاری کا قدرے‬
‫زیادہ جذبہ رکھتے ہیں اور اس کے جسمانی اثر کے طور پر بلڈ پریشر‪ F‬قابو میں رہتا ہے‬
‫اور دل کی دھڑکن بھی بہتر حالت میں رہتی ہے۔‬
‫ایموشن نامی تحقیقی جرنل میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنسدانوں نے اس‬
‫کےلیے ’مائی بی پی لیب‘ نامی ایک ایپ استعمال کی۔ ‪ 4825‬افراد نے اس ایپ کو اپنے‬
‫فون پر ڈاؤن لوڈ کیا جو بلڈ پریشر نوٹ کرسکتی ہے اور دل کی دھڑکن کا شمار بھی‬
‫رکھتی ہے۔ مطالعے میں امریکا‪ٓ ،‬اسٹریلیا‪ ،‬بھارت اور ہانگ کانگ کے لوگ شامل تھے۔‬
‫تمام رضاکاروں کو ایک ٓاپٹیکل سینسر بھی پہنایا گیا تھا جو انسانی جلد کے اندر خون کے‬
‫بہاؤ اور حجم کو نوٹ کررہا تھا۔ پھر فون کے اندر ایک الگورتھم سے بلڈ پریشرناپا گیا۔‬
‫درست بلڈ پریشر کے لیے بازو پر بھی ایک پٹی لگائی گئی تھی۔‬
‫تمام شرکا نے ‪ 15‬مارچ ‪ 2019‬سے ‪ 8‬دسمبر ‪ 2020‬تک دن میں تین مرتبہ اپنی نیند‪،‬‬
‫ورزش‪ ،‬روز کی توقعات‪ ،‬اور خیاالت کے متعلق تفصیالت بتائیں۔ انہیں ‪ 12‬جملے پر‬
‫ریٹنگ کے لیے بھی کہا گیا۔ مثالً ’میں اپنی بھرپور زندگی سے خوش ہوں‪ ‘،‬یا ’ناموافق‬
‫حاالت میں‪ ،‬میں معمول سے بہترین کی توقع رکھتا ہوں۔‘‬
‫تحقیق سے معلوم ہوا کہ شکرگزاری اور امید رکھنے والے افراد نے دن بھر لوگوں پر‬
‫اچھے اثرات مرتب کئے اور ایسے لوگوں میں بلڈ پریشر کی صورت بہتر دیکھی گئی اور‬
‫دل کی دھڑکن بھی منظم رہی۔‬
‫نفسیات دانوں کے مطابق شکرگزاری‪ ±‬کا جذبہ دیگر لوگوں کےلیے اور امید کا جذبہ‬
‫اندرونی طور پر انسان کو مطمئین بناتا ہے۔ یہ تحقیق جامعہ مشی گن کے ماہرین نے کی‬
‫ہے۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ شکرادا کرنے اور امید جیسے عمدہ جذبات انسانی نیند کو بھی بہتر‬
‫بناتے ہی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2256987/9812/‬‬

‫پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ‬


‫ہے‪ ،‬رپورٹ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫‪10 November 2021‬‬


‫خدشہ ہے کہ ‪ 2045‬تک پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد مزید بڑھ کر ‪6‬‬
‫کروڑ ‪ 22‬الکھ ہوجائے گی‬
‫کراچی‪ :‬ذیابیطس کی عالمی تنظیم (ٓائی ڈی ایف) نے اپنی تازہ ترین جامع رپورٹ‪’’ ‬ڈائبٹیز‬
‫اٹلس‘‘‪ ‬میں بتایا ہے کہ پاکستان میں ٓابادی کے تناسب سے ذیابیطس کے مریضوں کی‬
‫شرح ‪ 30.8‬فیصد ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔‬
‫واضح رہے کہ اس شرح کا حساب پاکستان میں بالغ ٓابادی کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جو ‪11‬‬
‫کروڑ ‪ 34‬الکھ ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ ‪ 2045‬تک یہ شرح مزید بڑھ کر ‪ 33.6‬فیصد‬
‫تک جا پہنچے گی۔‬
‫پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں‪ ±‬کی حالیہ تعداد ‪ 33‬ملین (تین کروڑ تیس الکھ) کے لگ‬
‫بھگ ہے اور اس حوالے سے چین اور ہندوستان کے بعد پاکستان کا دنیا میں تیسرا نمبر‬
‫ہے۔‬
‫ڈائبٹیز اٹلس میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ‪ 2045‬تک پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی‬
‫تعداد تقریبا ً دگنی ہو کر ‪ 6‬کروڑ ‪ 22‬الکھ تک جا پہنچے گی۔‬
‫اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کی وجہ سے لگ‬
‫بھگ چار الکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔‬
‫یہ تعداد پاکستان میں ساالنہ اموات (تقریبا ً ‪ 14‬الکھ) کا ‪ 29‬فیصد ہے جبکہ اس پیمانے پر‬
‫بھی پاکستان کا دنیا بھر میں پہال نمبر ہے۔‬
‫ت حال کے باوجود‪ ،‬پاکستان میں ذیابیطس کے ہر مریض پر اوسطا ً‬ ‫اتنی سنگین صور ِ‬
‫صرف ‪ 80‬ڈالر (‪ 14‬ہزار پاکستانی روپے) ساالنہ خرچ کیے جاتے ہیں۔‬
‫بتاتے چلیں کہ ’’ڈائبٹیز اٹلس‘‘ ایک ساالنہ عالمی رپورٹ ہے جو ‪ 2011‬سے شائع کی‬
‫جارہی ہے۔ اس میں ذیابیطس سے متعلق ساالنہ اعداد و شمار‪ ،‬رجحانات اور مستقبل کے‬
‫امکانات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔‬
‫ڈائبٹیز اٹلس کے تازہ ترین ایڈیشن میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ذیابیطس کے‬
‫مریضوں کی موجودہ تعداد ‪ 53‬کروڑ ‪ 70‬الکھ کے لگ بھگ ہے یعنی دنیا میں ہر ‪ 10‬افراد‬
‫میں سے ایک فرد ذیابیطس کا شکار ہے۔‬
‫اس کے عالوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ذیابیطس کا شکار ہونے والے بالغ افراد کی اوسط‬
‫عمر بتدریج کم ہوتے ہوئے ‪ 20‬سال کے قریب پہنچ رہی ہے‪ ،‬جو ایک تشویشناک رجحان‬
‫ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2257214/9812/‬‬
‫‪ 12‬دنوں تک کھجور کا استعمال کریں اورپھرکمال دیکھیں ٓاپ‬
‫کوکیاکیافوائد حاصل ہوں گے‪،‬حیران کن نتائج‬

‫‪08/12/2021‬‬

‫کھجور کے انسانی صحت پر خوشگوار اثرات اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا‬

‫جاسکتا اور‬
‫جدید سائنس بھی اس بات کو قبول کرتی ہے کہ کھجور میں موجود فائبر اور دیگر اجزاء‬
‫ہمارے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہیں۔ اگر ٓاپ دن میں تین کھجوریں کھائیں تو ٓاپ کے جسم پر‬
‫خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اورٓاپ کا جسم بیماریوں سے محفوظ ہوجائے گا۔ اس کے‬
‫عالوہ دل‪ ،‬جگر‪ ،‬اور دماغ کو تقویت ملے گی اور خود کو ترو تازہ اور توانا محسوس‬
‫کریں گے۔طبی ماہرین کے مطابق کھجور کا استعمال سنت رسولﷺ بھی‬
‫ہے اور اسے ‪12‬روز تک استعمال کرنے سے صحت کے بہت سے مسائل سے چھٹکارا‬
‫مل جاتا ہے۔خون کی کمی دور کرنے میں مددگار‪،‬کھجور بے وقت کھانے کی لت پر قابو‬
‫پانے میں مدد دینے واال مٔوثر ذریعہ ہے جبکہ یہ ٓائرن کی سطح بھی بڑھاتی ہے‪،‬‬
‫جس سے خون کی کمی جلد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم کھجور کے استعمال کے‬
‫حوالے سے بھی ذیابیطس کے مریضوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔نظام انہضام پر‬
‫اثرات‪،‬اگر ٓاپ کو قبض‪،‬تیزابیت‪،‬معدے یا انتڑیوں کی تکلیف ہے تو ٓاپ کو کھجور ضرور‬
‫کھانی چاہیے۔اس میں موجود فائبر ہمارے معدے کے لئے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔‬
‫دردوں سے نجات کھجوروں میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس کی وجہ سوجن پر قابو پانے‬
‫میں مدد ملتی ہے اور جسمانی دردیں بھی کنٹرول میں رہتی ہیں۔مختلف تحقیق میں یہ بات‬
‫ثابت ہوچکی ہے کہ کھجور کھانے سے جسم میں سوجن کم ہونے کے ساتھ درد میں ٓارام‬
‫ٓاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے لئے ایک جدید تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین حمل کے‬
‫دوران کھجور کا استعمال کرتی رہیں انہیں درد زہ اور بچہ پیدا کرنے میں ٓاسانی ہوئی۔‬
‫ماہرین نے ‪69‬حاملہ خواتین کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو خواتین ڈلیوری‬
‫سے چار ہفتے قبل کھجوریں کھاتی ہیں انہیں بچہ پیدا کرنے میں کافی ٓاسانی رہتی ہے۔‬
‫ہائی بلڈ پریشر اور دل کا دورہ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اس میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس‬
‫کی وجہ سے یہ فشار خون کنٹرول میں رہتا ہے اور بلڈ پریشر کے مسائل نہیں پیدا ہوتے۔‬
‫اسی طرح کھجور میں پایا جانے والے پوٹاشیم کی بدولت دل مضبوط ہوتا ہے اور دل کے‬
‫دورے کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک امریکی ادارے نے اس پر‬
‫دقیق تحقیق بھی کی ہے جو کہ ‪ American Journal Clinic of Nutrition‬میں شائع‬
‫بھی ہوچکی ہے۔ دماغی صحت کے لئے اسی طرح کھجورمیں پایاجانے والی وٹامن‪B6‬کی‬
‫بدولت ہماری اعصابی اور دماغی نظام بہترطریقے سے کام کرتا ہے اورانسان زیادہ بہتر‬
‫طریقے سے روزمرہ کے کام کرپاتا ہے۔‬
‫‪ 12‬دنوں تک کھجور کا استعمال اورپھرکمال دیکھیں ٓاپ کوکیاکیافوائد حاصل ہوں‬
‫گے‪،‬حیران کن نتائج ‪ 12‬دنوں تک کھجور کا استعمال اور حیران کن نتائج کھجور کے‬
‫انسانی صحت پر خوشگوار اثرات اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور جدید‬
‫سائنس بھی اس بات کو قبول کرتی ہے کہ کھجور میں موجود فائبر اور دیگر اجزاء ہمارے‬
‫لئے بہت ہی زیادہ مفید ہیں۔ اگر ٓاپ دن میں تین کھجوریں کھائیں تو ٓاپ کے جسم پر‬
‫خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اورٓاپ کا جسم بیماریوں سے محفوظ ہوجائے گا۔ اس کے‬
‫عالوہ دل‪ ،‬جگر‪ ،‬اور دماغ کو تقویت ملے گی اور خود کو ترو تازہ اور توانا محسوس‬
‫کریں گے۔طبی ماہرین کے مطابق کھجور کا استعمال سنت رسولﷺ بھی‬
‫ہے اور اسے ‪12‬روز تک استعمال کرنے سے صحت کے بہت سے مسائل سے چھٹکارا‬
‫مل جاتا ہے۔خون کی کمی دور کرنے میں مددگار‪،‬کھجور بے وقت کھانے کی لت پر قابو‬
‫پانے میں مدد دینے واال مٔوثر ذریعہ ہے جبکہ یہ ٓائرن کی سطح بھی بڑھاتی ہے‪ ،‬جس سے‬
‫خون کی کمی جلد دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم کھجور کے استعمال کے حوالے سے‬
‫بھی ذیابیطس کے مریضوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔نظام انہضام پر اثرات‪،‬اگر‪ٓ ±‬اپ کو‬
‫قبض‪،‬تیزابیت‪،‬معدے یا انتڑیوں کی تکلیف ہے تو ٓاپ کو کھجور ضرور کھانی چاہیے۔اس‬
‫میں موجود فائبر ہمارے معدے کے لئے بہت ہی زیادہ فائدہ مند ہے۔دردوں سے نجات‬
‫کھجوروں میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس کی وجہ سوجن پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے‬
‫اور جسمانی دردیں بھی کنٹرول میں رہتی ہیں۔مختلف تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے‬
‫کہ کھجور کھانے سے جسم میں سوجن کم ہونے کے ساتھ درد میں ٓارام ٓاتا ہے۔‬
‫حاملہ خواتین کے لئے ایک جدید تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین حمل کے دوران‬
‫کھجور کا استعمال کرتی رہیں انہیں درد زہ اور بچہ پیدا کرنے میں ٓاسانی ہوئی۔ماہرین نے‬
‫‪69‬حاملہ خواتین کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو خواتین ڈلیوری سے چار‬
‫ہفتے قبل کھجوریں کھاتی ہیں انہیں بچہ پیدا کرنے میں کافی ٓاسانی رہتی ہے۔ ہائی بلڈ‬
‫پریشر اور دل کا دورہ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ اس میں میگنیشیم پایا جاتا ہے جس کی وجہ‬
‫سے یہ فشار خون کنٹرول میں رہتا ہے اور بلڈ پریشر کے مسائل نہیں پیدا ہوتے۔اسی طرح‬
‫کھجور میں پایا جانے والے پوٹاشیم کی بدولت دل مضبوط ہوتا ہے اور دل کے دورے کے‬
‫امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک امریکی ادارے نے اس پر دقیق تحقیق‬
‫بھی کی ہے جو کہ ‪ American Journal Clinic of Nutrition‬میں شائع بھی ہوچکی‬
‫ہے۔ دماغی صحت کے لئے اسی طرح کھجورمیں پایاجانے والی وٹامن‪B6‬کی بدولت‬
‫ہماری اعصابی اور دماغی نظام بہترطریقے سے کام کرتا ہے اورانسان زیادہ بہتر طریقے‬
‫سے روزمرہ کے کام کرپاتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/ausaf-special/news-202112-130303.html      ‬‬

‫ہڈیوں کو مضبوط بنائیں اور “اسٹریس فریکچر” سے بچیں‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪10 2021‬‬
‫ہماری روزمرہ کی زندگی میں کبھی بھی کسی کے ساتھ ہڈیوں میں کوئی چھوٹی موٹی‬
‫چوٹیں لگتی رہتی ہیں جسے ہم بہت آسان لیتے ہیں۔‬
‫ہم اکثر اپنے گھروں میں صوفے‪ ،‬دروازے کی چوکھٹ یا میز وغیرہ سے بے دھیانی میں‬
‫ٹکرا جاتے ہیں اور پاؤں‪  ‬پوری شدت کے ساتھ جاکر اس چیز سے ٹکراتا ہے تو وقتی‬
‫طور پر اس تکلیف سے جان سی نکل جاتی ہے۔‬
‫اس وقت تو کچھ دیر درد ہوکر ختم ہوجاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ مکمل طور پر ختم‬
‫ہوجائے تاہم کچھ عرصے بعد جاکر اس تکلیف میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‬

‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن ندیم‬
‫آصف نے ناظرین کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مفید مشورے دیئے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اسٹریس فریکچر جسے ہیئر الئن فریکچر بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬ایک ہڈی میں‬
‫ایک چھوٹا سا شگاف ہے جو بار بار ایک ہی حرکت کو دہرانے سے ہوتا ہے (جیسے کہ‬
‫جب کوئی کھیل کے لیے تربیت کرتا ہے)۔ اس قسم کے فریکچر ان لوگوں کی روزمرہ کی‬
‫سرگرمیوں سے بھی ہو سکتے ہیں جن کی ہڈیاں کمزور ہیں۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ ایسا اکثر ٹانگ کے نچلے حصے اور پیر کے پنجوں پر ہوتا ہے جس‬
‫کے نتیجے میں بہت معمولی سا فریکچر ہوجاتا ہے جس کا اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔‬
‫آرتھو پیڈک سرجن ندیم آصف کا کہنا تھا کہ اگرچہ مرد اور عورت دونوں ہی اسٹریس‬
‫فریکچر کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین اس طرح کے واقعات‬
‫سے زیادہ متاثر ہیں۔‬
‫زیادہ تر تناؤ کے فریکچر ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر آپ مکمل صحت یاب ہونے سے‬
‫پہلے جسمانی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرلیتے ہیں تو اس سے اسٹریس فریکچر کو مزید‬
‫بگاڑ سکتے ہیں اور اسے شفا یابی کا عمل بھی سست ہوجائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/stress-fracture-bone-strength-health-tips/‬‬

‫اومیکرون سے ری انفیکشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے‪ ،‬ڈبلیو ایچ او‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪09 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا‬
‫کی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ ٓاسانی سے ایسے افراد کو متاثر‬
‫کرسکتی ہے جو ماضی میں اس بیماری کو شکست دے چکے ہوتے ہیں یا ویکسنیشن کرا‬
‫چکے ہیں‪ ،‬مگر اس سے ہونے والی بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا‬
‫کہ جنوبی افریقہ سے سامنے ٓانے والے ڈیٹا سے اومیکرون‪ ±‬قسم سے ری انفیکشن کے‬
‫خطرے میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ایسے بھی کچھ شواہد موجود ہیں جن کے مطابق اومیکرون سے ہونے‬
‫والی بیماری کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں معمولی ہوتی ہے۔‬
‫مگر انہوں نے زور دیا کہ کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت‬
‫ہوگی۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہر جگہ مانیٹرنگ کو بڑھانے سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ‬
‫اومیکرون کس حد تک دیگر اقسام سے مختلف یا خطرناک ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ اگر اومیکرون‪ ±‬سے متاثر افراد کی شدت معمولی ثابت‬
‫ہو بھی جائے تو بھی وائرس کے حوالے سے غفلت برتنا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس‬
‫کے باعث ہالکتیں ہوسکتی ہیں۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسیز ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ‬
‫ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم زیادہ متعدی ہے بلکہ ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ تیزی‬
‫سے پھیل سکتی ہے‪ ،‬مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وائرس کو روکنا ممکن نہیں۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس نے اپنے پھیالؤ کے لیے خود کو‬
‫زیادہ بہتر بنایا ہے اور اسی لیے ہمیں پھیالؤ کے چینز کو روکنے کے لیے کوششوں کو‬
‫دگنا کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ چاہے یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں کم خطرناک ہی کیوں نہ‬
‫ثابت ہو‪ ،‬اگر وہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے تو وہ زیادہ افراد کو بیمار کرے گی جس‬
‫سے طبی نظام پر بوجھ بڑھے گا۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے ویکسیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چاہے‬
‫ویکسینز اومیکرون کے خالف کم مؤثر ہی کیوں نہ ثابت ہوں‪ ،‬جیسا کچھ ڈیٹا سے عندیہ‬
‫ملتا ہے‪ ،‬مگر توقع ہے کہ اس سے بیماری کی سنگین شدت کے خالف نمایاں تحفظ ملے‬
‫گا۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ابتدائی تحقیقی رپورٹس پر شدید‬
‫ردعمل پر انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحقیقی رپورٹس چھوٹے پیمانے پر ہوئی ہیں‬
‫اور وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے نتائج مختلف تحقیقی‬
‫رپورٹس میں مختلف ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ان میں محض وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر توجہ مرکوز کی‬
‫گئی مگر ہم جانتے ہیں کہ مدافعتی نظام اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیال میں یہ نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا کہ اینٹی باڈی ردعمل میں‬
‫کمی ویکسینز کی افادیت میں نمایاں کمی کا باعث ہے‪ ،‬ابھی ہم اس بارے میں کچھ نہیں‬
‫جانتے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173776/‬‬

‫نوزائیدہ بچوں سے گفتگو انہیں‪ F‬الفاظ بنانے‪ F‬میں مدد دیتی ہے‬
‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬ہفتہ‪ 11  ‬دسمبر‪2021  ‬‬

‫والدین جب نومولود سے بات کرتے ہیں تو بچے اپنی ٓاواز اور بنیادی الفاظ کی تشکیل‬
‫کرتے رہتے ہیں‬
‫فلوریڈا‪ :‬ہم نومولود بچوں سے مختلف ٓاوازوں‪ ،‬وقفوں‪ ،‬بلند پچ یا جب دھیمی رفتار سے بات‬
‫کرتے ہیں تو درحقیقت بچے تک زبان سازی کی بنیادی معلومات پہنچاتے ہیں۔ ان کی مدد‬
‫سے بچہ الفاظ سازی سیکھنے لگتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف فلوریڈا میں سماعت اور گفتگو پرتحقیق کرنے والے انسٹی ٹیوٹ کے‬
‫پروفیسرمیتھیو میسپولوکہتے ہیں کہ اس طرح بچوں کے سامنے جب ماں یا باپ بولتے ہیں‬
‫تو بچے کی ’غوں غوں یا غا غا‘ محض اس کی نقل نہیں ہوتی بلکہ وہ اعصاب اور حرکت‬
‫کرنے والے نظام کو متحرک کرنے لگتے ہیں۔‬
‫تجرباتی طورپرجامعہ فلوریڈا کے سائنسدانوں نے چھ سے ٓاٹھ ماہ کے بچےکو بالغ افراد‬
‫اور خود ان کی عمر کے بچوں کی ٓاوازیں سنائیں۔ اس دوران بچوں نے بات کرنے یا ٓاواز‬
‫نکالنے کا وہی طریقہ اختیار کیا جو وہ عموما ً ادا کرتے ہیں۔ بچوں نے جو ٓاوازیں سنیں‬
‫انہیں اپنی قوت‪ ،‬لمبائی ‪ ،‬شدت اور قوت کے ساتھ خارج کیا۔‬
‫پہلے چار سے چھ ماہ تک بچوں کا کوئی انتخاب نہیں ہوتا لیکن اس سے بڑے بچے اپنی‬
‫ٓاواز پر کنٹرول کرنا شروع کرتے ہیں اور اپنی صالحیت کی بنا پرقدرے بامعنی ٓاوازیں‬
‫نکالتے ہیں۔ پھر یہ عمل جاری رہتا ہے اور بچے کی ٓاواز کی ابتدائی تشکیل ہوتی رتی‬
‫ہے‪ ،‬یہاں تک کہ وہ اپنی ٓاواز خود بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر اس سے وہ سادہ‬
‫لفظ بنانے لگتے ہیں۔‬
‫اس لئے یہاں والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نومولود بچے سے باتیں ضرور‬
‫کریں اس سے بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2257296/9812/‬‬

‫ہڈیوں کو مضبوط بنائیں اور “اسٹریس فریکچر” سے بچیں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 10 2021‬‬
‫ہماری روزمرہ کی زندگی میں کبھی بھی کسی کے ساتھ ہڈیوں میں کوئی چھوٹی موٹی‬
‫چوٹیں لگتی رہتی ہیں جسے ہم بہت آسان لیتے ہیں۔‬
‫ہم اکثر اپنے گھروں میں صوفے‪ ،‬دروازے کی چوکھٹ یا میز وغیرہ سے بے دھیانی میں‬
‫ٹکرا جاتے ہیں اور پاؤں‪  ‬پوری شدت کے ساتھ جاکر اس چیز سے ٹکراتا ہے تو وقتی‬
‫طور پر اس تکلیف سے جان سی نکل جاتی ہے۔‬
‫اس وقت تو کچھ دیر درد ہوکر ختم ہوجاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ مکمل طور پر ختم‬
‫ہوجائے تاہم کچھ عرصے بعد جاکر اس تکلیف میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن ندیم‬
‫آصف نے ناظرین کو اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے مفید مشورے دیئے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اسٹریس فریکچر جسے ہیئر الئن فریکچر بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬ایک ہڈی میں‬
‫ایک چھوٹا سا شگاف ہے جو بار بار ایک ہی حرکت کو دہرانے سے ہوتا ہے (جیسے کہ‬
‫جب کوئی کھیل کے لیے تربیت کرتا ہے)۔ اس قسم کے فریکچر ان لوگوں کی روزمرہ کی‬
‫سرگرمیوں سے بھی ہو سکتے ہیں جن کی ہڈیاں کمزور ہیں۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ ایسا اکثر ٹانگ کے نچلے حصے اور پیر کے پنجوں پر ہوتا ہے جس‬
‫کے نتیجے میں بہت معمولی سا فریکچر ہوجاتا ہے جس کا اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔‬
‫آرتھو پیڈک سرجن ندیم آصف کا کہنا تھا کہ اگرچہ مرد اور عورت دونوں ہی اسٹریس‬
‫فریکچر کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں خواتین اس طرح کے واقعات‬
‫سے زیادہ متاثر ہیں۔‬
‫زیادہ تر تناؤ کے فریکچر ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اگر آپ مکمل صحت یاب ہونے سے‬
‫پہلے جسمانی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرلیتے ہیں تو اس سے اسٹریس فریکچر کو مزید‬
‫بگاڑ سکتے ہیں اور اسے شفا یابی کا عمل بھی سست ہوجائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/stress-fracture-bone-strength-health-tips/‬‬
‫پیدائش سے قبل ہی جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے‬
‫متعلق سائنس دانوں کا بڑا انکشاف‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪10 2021‬‬

‫بیجنگ‪ :‬پیدائش سے قبل ہی بچے میں جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے‬
‫متعلق سائنس دانوں نے اہم انکشاف کیا ہے‪ ،‬چینی اور برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے‬
‫کہ انھوں نے‪ ‬انسانوں میں انٹرنیورانز‪ ±‬کی نشوونما کا پتا‪ ‬چال لیا۔‬
‫تفصیالت کے مطابق چین اور برطانیہ کے سائنس دانوں نے اس بات کا پتا چالیا ہے کہ‬
‫انسانی انٹر نیوران (جو جدید انسانی سرگرمیوں کی اہلیت پیدا کرنے واال ایک اہم قسم کا‬
‫نیوران ہے‪ ،‬اور جو بچپن میں نشوونما پاتا ہے) کس طرح سے ذہنی اور جسمانی نشوونما‬
‫کے مسائل کے حل میں رہنمائی کرتا ہے۔‬
‫جریدے سائنس میں جمعہ کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں جدید انسان کے انٹرنیوران‬
‫کی ‪ 2‬اقسام کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کی خصوصیات چوہوں کے ساتھ مشترکہ نہیں‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح سے انسانی دماغ نے متنوع انٹرنیورانز تیار‬
‫کیے جو انسان کو اس کی منفرد جدید علمی قابلیت فراہم کرتے ہیں۔‬
‫انسانی دماغ کے سیریبرل کارٹکس میں دماغی خلیوں کے ‪ 2‬اہم گروہ ہیں؛ ایک انسان کو‬
‫کسی کام پر اکساتا اور دوسرا اسے کسی کام سے روکتا ہے۔‬
‫کسی کام سے ممانعت کے انٹرنیورانز جی اے بی اے نامی نیورو ٹرانسمیٹر پیدا کرتے ہیں‬
‫جو دماغ کو ضرورت سے زیادہ پرجوش ہونے سے روکتے ہیں‪ ،‬اگر اس نیورو ٹرانسمیٹر‬
‫(جی اے بی اے) میں کسی قسم کی بے ضابطگی آ جائے تو یہ ٓاٹزم‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬سکیزوفرینیا‬
‫یا مرگی کا باعث بن جاتا ہے۔‬
‫چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے ماتحت ادارے‪ ،‬انسٹیٹیوٹ آف بائیو فزکس‪ ،‬بیجنگ نارمل‬
‫یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے انسانی جنین کے پہلی سے دوسری سہ‬
‫ماہی کے ابتدائی دور میں انٹرنیورانز‪ ±‬کی تفصیلی میسنجر آر این اے معلومات حاصل‬
‫کرنے کے لیے سنگل سیل سیکوینسنگ ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی۔‬
‫محققین نے معلوم کیا کہ انسانوں کی پیدائش متنوع انٹرنیورانز‪ ±‬کے ساتھ ہوئی ہے‪ ،‬جو‬
‫انسان کے بھرپور جذبات اور خود شناسی کی بنیاد رکھتے ہیں۔‬
‫مطالعے کے مطابق‪ ،‬یہ صالحیتیں انسان کے دماغ میں راسخ ہیں‪ ،‬جس کی وجہ دماغ کے‬
‫گینگلیونک ایمیننس حصے کا ایک متنوع مالیکیولر ریگولیشن میکانزم ہے جہاں‬
‫انٹرنیوران تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں۔‬
‫ژیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر دوٓان شومین‪ ،‬جو اس تحقیق‬
‫سے وابستہ نہیں ہیں‪ ،‬کا کہنا ہے کہ انسانی جنین کے دور میں انٹرنیوران کی نشوونما کے‬
‫مرحلہ وار مطالعے نے سکیزوفرینیا اور دیگر دماغی بیماریوں کی تحقیق‪ ،‬تشخیص اور‬
‫عالج کا ایک نیا راستہ کھول دیا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/development-of-interneurons-in-humans/‬‬

‫اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا‪ :‬نئی تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 11 2021‬‬
‫کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون‪ ±‬کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو‬
‫زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی‬
‫اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو‬
‫زیادہ بیمار نہیں بناتی۔‬
‫جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ ‪ 2‬ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون‬
‫کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی‬
‫سے پھیل رہی ہے۔‬
‫رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن‬
‫میں زیادہ سے زیادہ ‪ 22‬ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ‬
‫کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ ‪ 26‬ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے ‪ 9‬صوبوں تک پھیل چکا‬
‫ہے مگر دیکھنے میں ٓایا ہے کہ اس قسم میں مبتال ہونے واال شخص زیادہ بیمار نہیں ہو‬
‫رہا۔‬
‫سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم‬
‫عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین عالمات بھی نہیں دکھائی دیتیں‪،‬‬
‫تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت‬
‫ہے‪ ،‬اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔‬
‫اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے ٓاخر میں ‪ 25‬یا ‪ 26‬نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا‬
‫تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔‬
‫اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں ‪ 5‬درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے‪ ،‬تاہم اب تک‬
‫کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح‬
‫کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔‬
‫پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی ‪ 9‬دسمبر کو اومیکرون‪ ±‬کے پہلے کیس کی تصدیق کی‬
‫گئی تھی جبکہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز‬
‫سامنے ٓا چکے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/no-signal-of-increased-omicron-severity/‬‬

‫ناشتے میں کیا کھایا جائے اور کیا نہیں؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 11 2021‬‬

‫ٓاج کل کی مصروف زندگی میں اکثر لوگ اپنا ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں تاہم یہ صحت کے لیے‬
‫نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہر غذائیات ڈاکٹر عائشہ عباس نے‪ ‬اے ٓار وائی نیوز‪ ‬کے مارننگ شو‪ ‬باخبر سویرا‪ ‬میں‬
‫گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بے شمار ریسرچز ہوچکی ہیں جن میں ثابت ہوچکا ہے‬
‫کہ ناشتہ صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ناشتہ کرنے سے دماغ چاق و چوبند اور فعال رہتا ہے‪ ،‬کام کرنے والوں‬
‫اور اسکول جانے والے بچوں کی کارکردگی میں بہتری ٓاتی ہے‪ ،‬بھوک کم لگتی ہے جبکہ‬
‫وزن میں بھی کمی ہوتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ ناشتے میں پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹس کا امتزاج ہونا چاہیئے‪،‬‬
‫جیسے کہ انڈا‪ ،‬گندم (روٹی یا پراٹھا)‪ ،‬دلیہ اور دہی وغیرہ ہونے چاہئیں۔ جوسز کی جگہ‬
‫پھل کھانے چاہئیں یا پھر ملک شیکس لیے جائیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ناشتے میں پراٹھا کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں تیل کی‬
‫مقدار بہت زیادہ نہ ہو‪ ،‬اور اس میں اضافی کیلوریز شامل نہ کی جائیں جیسے ٓالو یا قیمے‬
‫کا پراٹھا بنا کر اسے ہاضمے پر بوجھ بنا لیا جاتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہفتے کے ‪ 6‬دن متوازن غذائیت سے بھرپور ناشتہ کیا جائے اور ساتویں‬
‫دن بدپرہیزی کی جاسکتی ہے جیسے کہ فیملی کے ساتھ نہاری‪ ،‬یا حلوہ پوری کا ناشتہ۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/what-to-eat-in-breakfast/‬‬

‫نہیں’‬ ‫اومیکرون‘ سے متاثرہ شخص کے زیادہ بیمار ہونے کے شواہد‬


‫ملے‪ ،‬سائنسدان‬
‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪10 2021‬‬
‫اومیکرون میں مبتال شخص ہسپتال میں بھی کم عرصے میں صحت یاب ہو رہا ہے‪ ،‬ماہرین‬
‫—فوٹو‪ :‬رائٹرز‬
‫جنوبی افریقی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کورونا کی ’اومیکرون‘ قسم کے اب تک کے ڈیٹا‬
‫اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتی۔‬
‫خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘‪ ±‬کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ دو ہفتوں کے‬
‫دوران رپورٹ ہونے والے’اومیکرون‘‪ ±‬کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے‬
‫بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے۔‬
‫رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’اومیکرون‘ کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن‬
‫میں زیادہ سے زیادہ ‪ 22‬ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ اس سے قبل ’ڈیلٹا‘‬
‫ورینٹ کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ ‪ 26‬ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اب تک ’اومیکرون‘‪ ±‬ورینٹ جنوبی افریقہ کے ‪ 9‬صوبوں تک پھیل چکا‬
‫ہے مگر دیکھنے میں ٓایا ہے کہ اس قسم میں مبتال ہونے واال شخص زیادہ بیمار نہیں ہو‬
‫رہا۔‬
‫سائسندانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ’اومیکرون‘‪ ±‬سے متاثرہ شخص کم‬
‫عرصے تک ہسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین عالمات بھی نہیں دکھائی دیتیں‪،‬‬
‫تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی ’اومیکرون‘‪ ±‬کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از‬
‫وقت ہے‪ ،‬اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔‬
‫اومیکرون‘ کی نئی قسم کو گزشتہ ماہ نومبر کے ٓاخر میں ‪ 25‬یا ‪ 26‬نومبر کو جنوبی’‬
‫افریقہ میں پایا گیا تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم‬
‫قرار دیا تھا۔‬
‫اومیکرن‘ گزشتہ دو ہفتوں میں ‪ 5‬درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے‪ ،‬تاہم اب تک’‬
‫کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح‬
‫کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔‬
‫پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی ‪ 9‬دسمبر کو ’اومیکرون‘ کے پہلے کیس کی تصدیق کی‬
‫گئی تھی جب کہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز‬
‫سامنے ٓا چکے ہیں۔‬
‫اگرچہ زیادہ تر ممالک کے ماہرین نے ’اومیکرون‘‪ ±‬کو سب سے متعدی یعنی پھیلنے والی‬
‫قسم قرار دیا ہے‪ ،‬تاہم تاحال اس سے کوئی موت ریکارڈ نہیں کی گئی اور اب جنوبی‬
‫کہ ’اومیکرون‘‪ ±‬کے تیزی سے پھیلنے یا اس سے متاثرہ شخص ‪ oy‬افریقی ماہرین نے کہا‬
‫کے زیادہ بیمار ہونے کے ثبوت نہیں ملے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173858/‬‬
‫ویکسین کی تین خوراکیں ’اومیکرون‘ کی شدت کم کرتی ہیں‪ ،‬ماہرین‬

‫ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪11 2021‬‬

‫تین خوراکیں ‪ 75‬فیصد تک محفوظ بنادیتی ہیں‪ ،‬ماہرین—فوٹو‪ :‬اے پی‬

‫برطانوی طبی ماہرین نے کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘‪ ±‬پر کی گئی مختصر تحقیق کے‬
‫نتائج کو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی تین ویکسینز لگوانے والے افراد میں‬
‫’اومیکرون‘‪ ±‬کی شدت کم ہوتی ہے۔‬
‫برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق برطانوی ماہرین نے ملک میں‬
‫’اومیکرون‘‪ ±‬کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد ‪ 600‬کے قریب افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لینے‬
‫سمیت ان پر تجربہ بھی کیا۔‬
‫ڈیٹا اور تجربے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسین کی تین خوراکیں لینے والے افراد‬
‫’اومیکرون‘‪ ±‬کی شدت سے محفوظ رہتے ہیں اور ایسے افراد میں ‪ 75‬فیصد عالمات ظاہر‬
‫ہی نہیں ہو پاتیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس سے قبل ’ڈیلٹا‘ ورینٹ پر کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ دو‬
‫خوراکیں کورونا کی خطرناک اقسام پر اتنا اثر نہیں کرتیں اور اب نئے تجربے سے بھی‬
‫معلوم ہوا ہے کہ جن افراد نے بوسٹر ڈوز لگوا رکھے ہیں‪ ،‬ان میں ’اومیکرون‘‪ ±‬کی شدت‬
‫کم ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین نے لوگوں کو تجویز دی کہ ’اومیکرون‘ سمیت ’ڈیلٹا‘ جیسی اقسام کی شدت سے‬
‫بچنے کے لیے کم از کم تین خوراکیں لگوائی جائیں اور جن افراد نے دو خوراکیں لے‬
‫رکھیں ہیں وہ بوسٹر ڈوز لگوائیں۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ تین خوراکیں لینے والے افراد اگر ’اومیکرون‘ کا شکار بھی ہو رہے‬
‫ہیں تو ان میں اس کی شدت کم ہوجاتی ہے اور وہ جلد صحت یاب ہو رہے ہیں۔‬
‫برطانوی ماہرین نے مذکورہ تحقیق ایک ایسے وقت میں کی ہے جب کہ وہاں ’اومیکرون‘‪±‬‬
‫کے پھیالٔو میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور اب تک وہاں ‪ 1200‬سے زائد ’اومیکرون‘‪±‬‬
‫کیسز سامنے ٓا چکے ہیں۔‬
‫برطانیہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں اب کورونا کا شکار ہونے والے ہر تیسرے‬
‫شخص میں ’اومیکرون‘ کی قسم کی تشخیص ہو رہی ہے اور اگر یہی سلسلہ رہا تو دسمبر‬
‫کے ٓاخر تک کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔‬
‫برطانوی سائنسدانوں سے قبل جنوبی افریقی سائنسدانوں نے کہا تھا کہ اب تک کے تجزیے‬
‫کے مطابق ’اومیکرون‘‪ ±‬اتنی تیزی سے نہیں پھیل رہا‪ ،‬جتنا اس کا اندازہ لگایا گیا تھا اور یہ‬
‫کہ مذکورہ نئی قسم میں مبتال ہونے والے افراد حد سے زیادہ بیمار بھی نہیں ہو رہے۔‬
‫اس سے قبل ‪ 25‬یا ‪ 26‬نومبر کو جب جنوبی افریقہ میں پہلی بار ’اومیکرون‘ کی تشخیص‬
‫ہوئی تھی تو وہاں کے سائنسدانوں نے اسے اب تک کی خطرناک قسم قرار دیا تھا۔‬
‫اومیکرن‘ گزشتہ دو ہفتوں میں ‪ 5‬درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے‪ ،‬تاہم اب تک’‬
‫کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح‬
‫کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔‬
‫پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی ‪ 9‬دسمبر کو ’اومیکرون‘ کے پہلے کیس کی تصدیق کی‬
‫گئی تھی جب کہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز‬
‫سامنے ٓا چکے ہیں۔‬
‫اگرچہ زیادہ تر ممالک کے ماہرین نے ’اومیکرون‘‪ ±‬کو سب سے متعدی یعنی پھیلنے والی‬
‫قسم قرار دیا ہے‪ ،‬تاہم تاحال اس سے کوئی موت ریکارڈ نہیں کی گئی‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1173908/‬‬

‫سر کی ُخشکی سے کیسے محفوظ رہا جائے؟‬


‫َ‬
‫دسمبر ‪12 2021 ،‬‬

‫ویسے تو َسر کی خشکی یا ڈینڈرف ایک ایسی چیز ہے‪ ،‬جس کا کسی خاص موسم سے‬
‫تعلق نہیں لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سردیوں کے موسم میں اس کی شدت میں اضافہ‬
‫‪ ‬ہوجاتا ہے۔‬
‫سر میں پیدا ہونے والی اس خشکی کے نتیجے میں سر کی سطح پر بھوسی جیسے سفید‬
‫چھلکے پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ چھلکے سر کی سطح پر جمع ہوتے ہوتے‪ ،‬ذرات کی شکل‬
‫‪ ‬میں شانوں پر گرنے لگتے ہیں۔‬
‫سرکی خشکی کو ایک طرح کا انفیکشن بھی قرار دیا جاسکتا ہے‪ ،‬تاہم اسے صرف ایک‬
‫انفیکشن سمجھنا ُدرست نہ ہوگا۔ اس کے باعث انسان کو سماجی طور پر پریشانی کا بھی‬
‫سامنا کرنا پڑتا ہے۔‬
‫سر کی خشکی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ساری دنیا کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق‬
‫بتاتی ہے کہ ‪ 18‬برس کی عمر سے زائد کے ‪ 20‬فی صد مرد اور خواتین اس مسئلہ کا‬
‫شکار رہتے ہیں‪ ،‬ان میں سے ‪ 5‬فیصد لوگوں میں یہ مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور ان‬
‫‪ ‬کے سروں سے بے تحاشا بھوسی جھڑتی ہے۔‬
‫ان کے شانوں اور قمیض کے کالروں میں چھوٹے چھوٹے سفید چھلکوں کے ڈھیر نظر‬
‫ٓاتے ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے یہ ایک ایسا مسئلہ ہوتا ہے‪ ،‬جس سے وہ برسہا برس سے‬
‫نبردٓازما ہوتے چلے ٓارہے ہیں‪ ،‬جب کہ بعض لوگوں کے سروں میں یہ بیماری وقتا ً فوقتا ً‬
‫پید ا ہوتی رہتی ہے۔‬
‫سر کی خشکی کیوں ہوتی ہے؟‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خشکی عموما ً جسمانی کمزوری یا خون کی کمی کا نتیجہ ہوتی‬
‫ت مدافعت کم ہوجاتی ہے تو ِجلد کی تہہ میں چکنائی پیدا کرنے والے‬ ‫ہے۔ جب جسم کی قو ِ‬
‫غدودوں کی کارکردگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور ان سے خارج ہونے والی رطوبت کی‬
‫مقدار بڑھ جاتی ہے۔‬
‫یہی رطوبت ِجلد پر باریک جھلی کی طرح جم جاتی ہے‪ ،‬جو زیادہ گمبھیر ہوجائے تو‬
‫فنگس میں بدل جاتی ہے۔ سرکی قدرتی چکنائی وہ تیل ہے‪ ،‬جسے ’ ِسیبم‘ کہا جاتا ہے۔ اس‬
‫کے غدود سرکی جلد کے عین نیچے واقع ہوتے ہیں۔ گندگی اور غیر معیاری شیمپو کے‬
‫استعمال سے سیبم کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سر میں خشکی پیدا ہونے کی سب‬
‫سے بڑی وجہ فنگس اور سیبم کا مالپ ہوتا ہے۔‬
‫دراصل‪ ،‬فنگس ایک طرح کی پھپھوندی ہے‪ ،‬جو سر کی نارمل ِجلد پر بھی پائی جاتی‬
‫ہےاور عام طور پر کسی نقصان کا باعث نہیں بنتی۔ تاہم سرکی ِجلد سے پیدا ہونے واال‬
‫اضافی تیل یعنی ِسیبم‪ ،‬پھپھوندی کے لیے زبردست خوراک ثابت ہوتا ہے اور یوں سر کی‬
‫ِجلد پر فنگس کی افزائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہ فنگس سر کی ِجلد سے جھڑنے والے مردہ‬
‫خلیات میں اضافہ کردیتا ہے۔ ذہنی دبأو اور ہارمونز کی تبدیلیاں بھی خشکی کی افزائش‬
‫میں حصہ دار بنتی ہیں۔‬
‫عالج کیا ہے؟‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ‪ ،‬سرکی خشکی میں مبتال خواتین و حضرات کو سب سے پہلے اپنی‬
‫خوراک کا جائزہ لینا چاہیے۔ متوازن غذائیں کھائیں‪ ،‬ساتھ ہی زنک‪ ،‬اومیگا تھری فیٹی‬
‫‪ ‬ایسڈز‪ ،‬وٹامن اے‪ ،‬بی اور وٹامن ای کو اپنی خوراک میں شامل کریں۔‬
‫پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ شکر اور شکر سے تیار کردہ اشیا کا استعمال کم‬
‫کردیں۔ ماہرین کے مطابق‪ ،‬سر کی خشکی میٹھی اور خمیری غذأوں کی بدولت پھلتی‬
‫پھولتی ہے۔ لہٰ ذا اگر ٓاپ مندرجہ باال تجاویز پر عمل کریں تو خشکی پر قابو پانے میں مدد‬
‫مل سکتی ہے۔‬

‫‪:‬شیمپو کی قسم‬
‫سرکی خشکی کو قابو میں رکھنے کے لیے اگر کسی اچھے اور معیاری اینٹی ڈینڈرف‬
‫شیمپو کا استعمال کیا جائے تو وہ خاصا مٔوثر ثابت ہوتا ہے۔ شیمپو کرتے وقت اچھی طرح‬
‫سر کا مساج کریں‪ ،‬تاکہ سر کی ِجلد کےساتھ ٓاپ کے بال بھی صاف ہوجائیں۔ مارکیٹ میں‬
‫دستیاب عمومی اینٹی ڈینڈرف شیمپو اس وقت تک مٔوثر ثابت ہوتے ہیں‪ ،‬جب تک ان کا‬
‫استعمال جاری رکھا جائے۔ اینٹی ڈینڈرف شیمپو کا استعمال ترک کرتے ہی خشکی‬
‫پھرنمودار ہونے لگتی ہے۔ اگر ٓاپ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے تو مزید رہنمائی کے لیے‬
‫ٓاپ کو ِجلد کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔‬
‫‪:‬دیگر اقدامات‬
‫‪: ‬سر کا خشک مساج‬
‫بالوں کو روزانہ برش کیا جائے۔ اس سے بھوسی اُترنے کے عالوہ سر کی ِجلد میں خون‬
‫کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔ لہٰ ذا سر کی ِجلد کا خشک مساج روزانہ کرنا چاہیے۔ یہ مساج‬
‫انگلیوں کی پوروں سے ایک ترتیب کے ساتھ پورے سر پر کیا جائے۔‬
‫‪: ‬ناریل کا تیل‬
‫رات کو سوتے وقت زیتون یا ناریل کا تیل سر میں لگایا جائے۔ اس طرح بھوسی کی پپڑی‬
‫اچھی طرح پھول کر ِجلد سے الگ ہونے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ صبح اُٹھ کر ٓاملہ‪ ،‬سکا‬
‫کائی اور میتھی کے بیجوں کا سفوف جسے رات بھر پانی میں بھگویا ہو‪ ،‬بالوں کی جڑوں‬
‫میں اچھی طرح لگا کر نیم گرم پانی سے سر دھو لیا جائے۔ اس طرح خشکی دور ہو جائے‬
‫گی۔ یہ عمل ہفتے میں دو تین بار کیا جائے۔‬

‫‪: ‬بیسن اور چقندر‬


‫ایک اور تدبیر یہ ہے کہ سر کو چقندر کے پانی یا بیسن سے دھو کر کچھ روز روغ ِن گل‬
‫میں خالص سرکہ مال کر اچھی طرح لگائیں اور صبح بیسن‪ ،‬گندم کی بھوسی‪ ،‬میتھی کے‬
‫بیج‪ ،‬رائی اور خطمی کے سفوف میں عرق گالب اور سرکہ مال کر اچھی طرح سے‬
‫دھوئیں اور بال خشک ہونے پر روغن چنبیلی یا روغن گل لگائیں۔‬
‫مزید برٓاں‪ ،‬ایک اور گھریلو مٔوثر نسخہ یہ ہے کہ خشکی دور کرنے کے لیے صبح کے‬
‫وقت ننگے سر دھوپ میں کچھ دیر تک رہا جائے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1023672‬‬

‫چکوترے کے صحت پر منفی اثرات‬

‫دسمبر ‪11 2021 ،‬‬


‫سٹریس پھلوں‪ ‬میں‪ ‬شمار کیا جانے واال پھل چکوترا ’گریپ فروٹ‘ افادیت کے لحاظ سے‬
‫غیر معمولی اہمیت کا حامل‪ ،‬اس کے استعمال سے صحت پر بہت سارے طبی فوائد بھی‬
‫حاصل ہوتے ہیں جبکہ اس کے باقاعدگی‪ ،‬زیادہ اور غلط استعمال کے نتیجے میں مضر‬
‫اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق چکوترا وٹامن سی کی بھرپور مقدار ہونے کے سبب سردیوں‬
‫میں‪ ‬وائرل‪ ،‬انفیکشنز‪ ،‬موسمی بیماریوں سے دور رکھتا ہے اور قوت مدافعت کو مضبوط‬
‫بناتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق ایک درمیانے سائز کے چکوترے میں کم از کم ‪ 100‬کیلوریز پائی جاتی‬
‫ہیں‪ ،‬اس میں‪ ‬فائبر کی مقدار ‪ 10‬سے ‪ 12‬گرام‪ ،‬پروٹین‪1‬گرام‪ ،‬وٹامن سی‪64‬فیصد‪ ،‬وٹامن‬
‫اے ‪28‬فیصد‪ ،‬پوٹاشیم ‪5‬فیصد‪ ،‬تھائی مائن یعنی وٹامن بی ‪ 1‬کی مقدار ‪4‬فیصد‪ ،‬میگنیشم‬
‫‪3‬فیصد اور‪  ‬فولک ایسڈ ‪4‬فیصد پایا جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق تحقیق میں‪ ‬یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ چکوترے کے روزانہ استعمال‬
‫سے جسم سے اضافی کولیسٹرول کی مقدار ‪15‬فیصد تک کم ہو جاتی ہے اور بھوک میں‬
‫بھی کمی واقع ہوتی ہے مگر اس کے زیادہ استعمال یا جوس پینے کے نتیجے‪  ‬میں صحت‬
‫پر فوائد کے بجائے نقصان زیادہ ٓا سکتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق چکوترا معدے میں تیزابیت کو پیدا ہونے سے روکتا ہے‪ ،‬نظام ہاضمہ‬
‫چھاتی کے ‪ bioflavonoids‬کو‪  ‬مضبوط بناتا ہے‪ ،‬چکوتر ے میں پائے جانے واال جز‬
‫کینسر اور جلد کے مہلک ترین کینسر ’میالنوما‘ کے خطرے کو ‪ 36‬فیصد تک کم کرتا‬
‫ہے‪ ،‬اس کا استعمال کینسر سے متاثر خلیوں کو پورے جسم میں پھیلنے سے روکتا ہےاور‬
‫اس کے خالف غیر معمولی مدافعت بھی پیدا کرتا ہے۔‬
‫شوگر کے مریض یا پھر صحت مند افراد بھی‪  ‬ایک وقت میں اس پھل کو ٓادھا‪  ‬استعمال کر‬
‫سکتے ہیں‪ ،‬چکوترے کے استعمال کے نتیجے میں پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ بھی ممکن ہو‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق یہ پھل فوائد سے بھرپور ہے مگر اس کا غلط استعمال نقصان دہ ثابت‬
‫ہو سکتا ہے‪ ،‬ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائیت سے بھر پور اس پھل میں بہت کم کیلوریز پائی‬
‫جاتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز یہ نہیں‪ ‬ہے کہ وزن میں کمی کے لیے اس کا دن میں‬
‫ایک سے زائد پھل کا استعمال شروع کر دیا جائے‪ ،‬اس سے حاصل کیا گیا جوس بھی وزن‬
‫کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا سکتا ہے ۔‬
‫ماہرین کے مطابق چکوترا کھانے سے فائبر کی مناسب مقدار ملتی ہے جبکہ اس کا جوس‬
‫پینے کے نتیجے میں جسم میں‪ ‬صرف کیلوریز ہی جاتی ہیں اور فابئر نہ ہونے کے سبب‬
‫تیزابیت اور وٹامن سی کی زیادتی کے نتیجے میں ’برین فوگ‘ کا خطرہ بھی الحق ہو‬
‫سکتا ہے۔‬
‫چکوترے کا صحیح استعمال کیسے کیا جائے ؟‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق چکوترا بھوک کنٹرول کرتا ہے مگر اس صورت میں اسے‬
‫گودے سمیت کھانا ضروری ہے‪ ،‬وزن میں‪ ‬کمی کے لیے اس کا کھانے سے قبل ٓادھی‬
‫مقدار میں کھانا مفید ثابت ہوتا ہے جبکہ چکوترے کو مکمل ایک وقت میں‪ ‬کھانے سے‬
‫فوائد کے بجائے نقصانات زیادہ سامنے ٓا سکتے ہیں۔‬
‫تحقیق کے مطابق موٹاپے کے شکار افراد جو کھانے سے قبل ٓادھا چکوترا کھاتے ہیں وہ‬
‫اس پھل کو نہ استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ جسمانی وزن کم کرنے میں‬
‫کامیاب ہوتے ہیں‪ ،‬اس کے استعمال کے نتیجے میں ‪ 12‬ہفتوں میں ‪ 6‬کلو تک وزن کم کیا‬
‫جا سکتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق یہ پھل خود جسمانی وزن میں کمی نہیں التا مگر غذا کے طور پر اس‬
‫کا ایک وقت میں ٓادھا استعمال کرنا سود مند ثابت ہوتا ہے ۔‬
‫‪:‬چکوترے کے استعمال سے قبل معالج سے مشورہ‬
‫اگر کوئی فرد ڈپریشن‪ ،‬ہائپرٹینشن کا مریض ہو اور روزانہ کی بنیاد پر دوائی لے رہا ہو تو‬
‫ایسے افراد کو گریپ فروٹ کے استعمال سے قبل اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے‪،‬‬
‫چکوترے کا استعمال ادویات کے اثرات کو بدل سکتا ہے۔‬
‫اس میں موجود سیٹرک ایسڈ دانتوں کی صحت خراب کر سکتا ہے لہٰ ذا اسے کھانے کے‬
‫فوراً بعد ُکلی کرنا نہ بھولیں۔‬
‫حساس معدے اور کمزور گردوں والے افراد کے لیے یہ پھل تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1023328‬‬
‫اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا‪ :‬نئی تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 11 2021‬‬

‫کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو‬
‫زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی‬
‫اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو‬
‫زیادہ بیمار نہیں بناتی۔‬
‫جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ ‪ 2‬ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون‬
‫کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی‬
‫سے پھیل رہی ہے۔‬
‫رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن‬
‫میں زیادہ سے زیادہ ‪ 22‬ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ‬
‫کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ ‪ 26‬ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے ‪ 9‬صوبوں تک پھیل چکا‬
‫ہے مگر دیکھنے میں ٓایا ہے کہ اس قسم میں مبتال ہونے واال شخص زیادہ بیمار نہیں ہو‬
‫رہا۔‬
‫سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم‬
‫عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین عالمات بھی نہیں دکھائی دیتیں‪،‬‬
‫تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت‬
‫ہے‪ ،‬اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔‬
‫اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے ٓاخر میں ‪ 25‬یا ‪ 26‬نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا‬
‫تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔‬
‫اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں ‪ 5‬درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے‪ ،‬تاہم اب تک‬
‫کی اطالعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتال ہونے والے افراد میں موت کی شرح‬
‫کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔‬
‫پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی ‪ 9‬دسمبر کو اومیکرون‪ ±‬کے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/no-signal-of-increased-omicron-severity/‬‬

‫ناشتے میں کیا کھایا جائے اور کیا نہیں؟‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪11 2021‬‬
‫ٓاج کل کی مصروف‪ F‬زندگی میں اکثر لوگ اپنا ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں تاہم یہ صحت کے لیے‬
‫نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہر غذائیات ڈاکٹر عائشہ عباس نے‪ ‬اے ٓار وائی نیوز‪ ‬کے مارننگ شو‪ ‬باخبر سویرا‪ ‬میں‬
‫گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بے شمار ریسرچز ہوچکی ہیں جن میں ثابت ہوچکا ہے‬
‫کہ ناشتہ صحت کے لیے نہایت ضروری ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ناشتہ کرنے سے دماغ چاق و چوبند اور فعال رہتا ہے‪ ،‬کام کرنے والوں‬
‫اور اسکول جانے والے بچوں کی کارکردگی میں بہتری ٓاتی ہے‪ ،‬بھوک کم لگتی ہے جبکہ‬
‫وزن میں بھی کمی ہوتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ ناشتے میں پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹس کا امتزاج ہونا چاہیئے‪،‬‬
‫جیسے کہ انڈا‪ ،‬گندم (روٹی یا پراٹھا)‪ ،‬دلیہ اور دہی وغیرہ ہونے چاہئیں۔ جوسز کی جگہ‬
‫پھل کھانے چاہئیں یا پھر ملک شیکس لیے جائیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ناشتے میں پراٹھا کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں تیل کی‬
‫مقدار بہت زیادہ نہ ہو‪ ،‬اور اس میں اضافی کیلوریز شامل نہ کی جائیں جیسے ٓالو یا قیمے‬
‫کا پراٹھا بنا کر اسے ہاضمے پر بوجھ بنا لیا جاتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ہفتے کے ‪ 6‬دن متوازن غذائیت سے بھرپور ناشتہ کیا جائے اور ساتویں‬
‫دن بدپرہیزی کی جاسکتی ہے جیسے کہ فیملی کے ساتھ نہاری‪ ،‬یا حلوہ پوری کا ناشتہ۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/what-to-eat-in-breakfast/‬‬

‫بوسٹر شاٹ سے اومیکرون کے خالف کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪11 2021‬‬

‫لندن‪ :‬برطانوی طبی ادارے کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسینز‪ F‬کے بوسٹر شاٹ سے کم شدت‬
‫کے اومیکرون کے خالف ‪ 70‬سے ‪ 75‬فی صد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق برطانوی ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ مریضوں پر براہ‬
‫راست آزمائے جانے کے بعد ابتدائی طور پر جو اعداد و شمار سے حاصل ہوئے ہیں ان‬
‫سے پتا چلتا ہے کہ کرونا ویکسین کی بوسٹر ڈوز لوگوں کو اومیکرون‪ ±‬ویرینٹ سے ہونے‬
‫والی ہلکی بیماری سے بچاتی ہے۔‬
‫لیب اسٹڈیز سے باہر کی جانے والی اس ریسرچ کے ابتدائی اعدا و شمار جمعہ کو جاری‬
‫کیے گئے ہیں۔‬
‫ابتدائی اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ‪ ،‬جب کہ اومیکرون ویرینٹ ابتدائی ‪ 2‬ڈوزز کے‬
‫ویکسینیشن کورس سے ہلکی بیماری کے خالف تحفظ کو بہت حد تک کم کر سکتا ہے‪ ،‬تاہم‬
‫بوسٹرز ڈوز نے اس تحفظ کو ایک حد تک پھر بحال کیا۔‬
‫برطانوی ادارے میں حفاظتی ٹیکوں کی سربراہ میری رامسے نے کہا کہ ان ابتدائی‬
‫تخمینوں کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا جانا چاہیے‪ ،‬کیوں کہ یہ اس بات کی نشان دہی کرتے‬
‫ہیں کہ دوسری ڈوز کے چند ماہ بعد‪ ،‬ڈیلٹا اسٹرین کے مقابلے میں اومیکرون ویرینٹ کے‬
‫الحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شدید بیماری کے خالف تحفظ‬
‫زیادہ رہنے کی امید کی گئی تھی۔‬
‫میری رامسے نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بوسٹر ویکسین کے بعد یہ خطرہ‬
‫نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے‪ ،‬اس لیے میں ہر کسی سے گزارش کرتی ہوں کہ جب اہل‬
‫ہوں تو اپنا بوسٹر ضرور لگوائیں۔‬
‫اس ریسرچ اسٹڈی کے لیے اومیکرون‪ ±‬کے تصدیق شدہ ‪ 581‬کیسز کا تجزیہ کیا گیا‪ ،‬ان‬
‫افراد کو اومیکرون‪ ±‬ویرینٹ کی عالمات بھی ظاہر ہو گئی تھیں‪ ،‬انھیں آسٹرازینیکا اور‬
‫فائزر ویکسینز کی ‪ 2‬ڈوز لگائی گئیں‪ ،‬دیکھا گیا کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں دو ڈوز‬
‫سے انفیکشن کے خالف تحفظ کی بہت کم سطح فراہم ہوئی۔‬
‫تاہم جب فائزر ویکسین کی بوسٹر ڈوز دی گئی تو‪ ،‬ابتدائی طور پر آسٹرازینیکا دو ڈوز‬
‫لگوانے والے لوگوں کے لیے عالمات والے انفیکشن کے خالف تقریبا ً ‪ 70‬فی صد تحفظ‬
‫پایا گیا‪ ،‬جب کہ فائزر کی دو ڈوز حاصل کرنے والوں کے لیے تحفظ کو تقریبا ً ‪ 75‬فیصد‬
‫پایا گیا۔ ڈیلٹا سے اس کا موازنہ کیا جائے تو بوسٹر ڈوز کے بعد ڈیلٹا میں تقریبا ً ‪ 90‬فیصد‬
‫تحفظ پایا گیا۔‬
‫ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ سائنس دان نہیں جانتے کہ اومیکرون سے ہونے والے شدید‬
‫انفیکشن میں یہ ویکسینز کس حد تک کارآمد ہوں گی‪ ،‬تاہم یہ امید کی جا رہی ہے کہ ہلکے‬
‫انفیکشن کے مقابلے میں شدید انفیکشن کے خالف یہ زیادہ مؤثر ہوں گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/booster-shot-for-omicron/‬‬

‫ہانگ کانگ یونیورسٹی نے اومیکرون ویرینٹ کی تصویر شائع کردی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫دسمبر ‪ 11 2021‬‬


‫ہانگ کانگ کی یونیورسٹی‪ F‬نے کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی تصویر‪ F‬شائع‬
‫کردی۔‬
‫غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ یونیورسٹی کی لی کا ِشنگ‬
‫طب فیکلٹی نے کورونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ کے الیکٹران‪ ±‬مائیکرو اسکوپ کے‬
‫ذریعے حاصل کردہ تصویر شائع کی ہے۔‬
‫اومیکرون کے نئے ویرینٹ کی شائع کی گئی تصویر میں متاثرہ خلیے واضح طور پر‬
‫دیکھے جاسکتے ہیں۔‬
‫واضح رہے کہ اومیکرون ویرینٹ عالمی ایجنڈے پر بدستور سرفہرست ہے‪ ،‬متعدد ممالک‬
‫میں اومیکرون کی نشاندہی ہوئی ہے اور اس ویرینٹ کے زیادہ متعدی ہونے کا خدشہ ظاہر‬
‫کیا جارہا ہے۔‬

‫یاد رہے کہ‪ ‬عالمی ادارہ صحت‪( ‬ڈبلیو ایچ او) کا کہنا تھا کہ اومیکرون ویرینٹ کورونا‬
‫وائرس کی دوسری اقسام سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔‬
‫ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین نے بتایا تھا کہ ابتدائی جائزے سے پتا چال اومیکرون‬
‫ڈیلٹا کے مقابلے میں شدید بیماری کا سبب نہیں لیکن یہ وائرس دوسری اقسام سے زیادہ‬
‫تیزی سے پھیل رہا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ اومیکرون کے خالف موجودہ ویکسین کے ناکام ہونے کا امکان نہیں‪،‬‬
‫تاہم نئے ویرینٹ سے متعلق یہ انتہائی ابتدائی جائزہ ہے‪ ،‬محتاط ضروری ہے۔‬
‫دوسری جانب ادویہ ساز کمپنی فائزر اور بائیو این ٹیک نے کورونا کے نئے ویریئنٹ‬
‫اومیکرون کے سد باب کےلیے اپنی تیار کردہ کوویڈ ویکسین کو مفید اور مؤثر قرار دیا‬
‫ہے۔‬
‫‪/https://urdu.arynews.tv/598251-2/‬‬

‫کرونا کی تشخیص‌ اب ایسے ہوگی‪ ،‬نیا اور آسان طریقہ‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 11 2021‬‬

‫ٹوکیو‪ :‬جاپان کے طبی اور تحقیقی ماہرین نے کرونا کی تشخیص کرنے واال فیس ماسک‬
‫ٰ‬
‫دعوی کردیا۔‬ ‫تیار کرنے کا‬
‫بین االقوامی میڈیا‪ ‬رپورٹ‪ ‬کے مطابق جاپان کے مغربی عالقے میں قائم یونیورسٹی کویوٹو‬
‫پرفیکٹل اور طبی ماہر پروفیسر یاسوہیرو ٹوسوکاموٹو نے مشترکہ تحقیق کے بعد کرونا‬
‫کی تشخیص کا نیا طریقہ تالش کیا‪ ،‬جو فیس ماسک کی مدد سے ممکن ہوگا۔‬
‫ماہرین نے فیس ماسک میں شتر مرغ کے اینٹی باڈیز کی تہہ اور ایک کیمیکل شدہ فلٹر‬
‫لگایا۔ جب اس میں وائرس کو داخل کیا گیا تو کیمیکل الٹراوائیڈ الئٹ روشن ہوئی۔‬
‫تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ‪ ‬یہ فیس ماسک الٹرا وائیڈ الئٹ کی مدد سے کرونا کی تشخیص‬
‫کرے گا‪ ،‬متاثرہ شخص جب اسے منہ پر لگائے گا تو اُس میں الٹر وائیڈ الئٹ روشن‬
‫ہوجائے گی جبکہ ناک اور منہ کے اطراف پر غیرمعمولی‪ ±‬چمک اجاگر ہوگی۔‬
‫یونیورسٹی کی جانب سے جاری اعالمیے میں کہا گیا ہے کہ اس فیس ماسک کی مدد سے‬
‫انتہائی کم قیمت اور تیز ترین کرونا کا ٹیسٹ ممکن ہوسکے گا‪ ،‬جسے مستقبل میں پی سی‬
‫ٓار‪  ‬کے متبادل کے طور پر بھی مانا جاسکتا ہے۔‬
‫ویٹنری پروفیسر اور یونیورسٹی کے صدر نے ماسک کی تیاری کو اہم پیشرفت قرار دیتے‬
‫ہوئے بتایا کہ ’ماضی میں ہونے والے مطالعات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شتر مرغ‬
‫کا مدافعتی نظام برڈ فلو سمیت دیگر وائرسز سے مقابلہ کرنے کی صالحیت رکھتا ہے‘۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس ماسک کا ‪ 32‬افراد پر تجربہ کیا گیا‪ ،‬جن کے بعد میں پی سی ٓار‬
‫ٹیسٹ بھی کیے گئے تو حیران کن طور پر دونوں کے نتائج میں مماثلث پائی گئی۔‬
‫ماہرین پُرامید ہیں کہ وہ ایسا ماسک تیار کرلیں گے ‪ ،‬جو خود بہ خود چمک اٹھے گا اور‬
‫اُسے روشنی دکھانے کی ضرورت‪ ±‬بھی نہیں پڑے گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/598258-2/‬‬

‫برطانیہ میں کرونا کی نئی قسم نے پنجے گاڑ لیے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 11 2021‬‬

‫لندن‪ :‬برطانیہ میں کرونا وائرس کی مہلک اور خطرناک قسم اومی کرون نے پنجے گاڑنا‬
‫شروع کردیے ہیں۔‬
‫بین االقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید‬
‫‪ 633‬افراد کو کرونا کی نئی قسم ’اومی کرون‘ کی تشخیص ہوئی ہے۔‬
‫حالیہ کیسز کے بعد برطانیہ میں اومی کرون سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد ‪1‬‬
‫ہزار ‪ 898‬تک پہنچ گئی ہے۔‬
‫محکمہ صحت نے نئے ویریئنٹ کے اتنی بڑی تعداد میں کیسز سامنے ٓانے پر انتہائی‬
‫تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں کو احتیاطی تدابی پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔‬
‫محکمہ صحت کی جانب سے جاری پیغام میں شہریوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ‬
‫فیس ماسک کا استعمال الزمی کریں اور کرونا کی بوسٹر ڈوز لگوائیں اور سماجی فاصلے‬
‫پر عمل کریں۔‬

‫دوسری جانب ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری اعالمیے میں بتایا گیا ہے کہ اومی کرون‬
‫سے اب تک کسی بھی مریض کی موت واقع نہیں ہوئی البتہ یہ وائرس ماضی کے مقابلے‬
‫میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔‬
‫عالمی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا کی عام قسم کے مقابلے میں اومی کرون تیس‬
‫سے زائد جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ سامنے ٓائی جبکہ اس سے قبل سامنے ٓانے والی ڈیلٹا‬
‫قسم میں صرف پانچ تبدیلیاں ہوئیں تھیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/omicron-covid-highest-cases-report/‬‬

‫اومیکرون کے خالف روسی ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫دسمبر ‪ 12 2021‬‬
‫ماسکو‪ :‬روسی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خالف‬
‫روسی ساختہ سپٹنک ویکسین کی جلد جانچ کی جائے گی۔‬
‫روسی میڈیا کے مطابق روس کے گمیلیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ٓاف ایپڈمولوجی اینڈ مائیکرو‬
‫بائیولوجی کے ڈائریکٹر الیگزینڈر‪ِ ±‬گنٹسبرگ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی شکل‬
‫اومیکرون کے خالف روسی اسپٹنک وی ویکسین کی تاثیر کا ‪ 10‬دن کے اندر تجربہ کیا‬
‫جائے گا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں اومیکرون پر اسپٹنک وی کی تاثیر کو جانچنے کے لیے‬
‫‪ 10‬دن کافی ہوں گے۔‬
‫ایک ہفتہ قبل گنٹسبرگ نے کہا تھا کہ گیملیا ریسرچ سینٹر نے تصدیق کی ہے کہ‬
‫اومیکرون سے متاثرہ مریضوں کو‪ ،‬جو جنوبی افریقہ سے روس پہنچے تھے‪ ،‬انہیں‬
‫ویکسین لگائی گئی تھی۔‬
‫نومبر کے ٓاخر میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ ویکسین کو تبدیل کرنے کے بارے میں‬
‫اور اومیکرون‪ ±‬کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔‬
‫گنٹسبرگ کے مطابق اگر ضرورت ہو تو نئی ویکسین تیار کرنے میں ‪ 10‬دن سے زیادہ‬
‫نہیں لگیں گے اور ریگولیٹری عمل میں ڈیڑھ سے ڈھائی ماہ لگیں گے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sputnik-vaccine-against-omicron/‬‬

‫کورونا وائرس سے حفاظت؛ کمزور افراد کےلیے نئی ’اینٹی باڈی دوا‘‬
‫منظور‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 12  ‬دسمبر‪2021  ‬‬

‫یہ دوا ‪ 2‬الگ الگ اینٹی باڈیز پر مشتمل ہے جو ایک ہی دن میں دو انجکشنوں سے لگائی‬
‫جاتی ہیں۔ (فوٹو‪ :‬ایسٹرازنیکا)‬
‫میری لینڈ‪ :‬ادویہ کی منظوری دینے والے مرکزی امریکی ادارے ’ایف ڈی اے‘ نے‬
‫کمزور افراد کو کورونا وائرس سے بچانے کےلیے اینٹی باڈیز پر مشتمل ایک نئی دوا‬
‫دے دی ہے۔ )‪ (EUA‬کے‪ ‬ہنگامی استعمال کی منظوری‬
‫‘انجکشن سے دی جانے والی یہ دوا ’ایسٹرازنیکا‘‪ ±‬کی تیار کردہ ہے جسے ’ایووشیلڈ‬
‫کا نام دیا گیا ہے۔ )‪(Evusheld‬‬
‫ایف ڈی اے کی واضح ہدایات ہیں کہ اسے ‪ 12‬سال یا زیادہ عمر کے وہی افراد استعمال‬
‫کرسکیں گے جن میں بیماریوں سے بچانے واال قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) کمزور‬
‫ہے۔‬
‫ان میں عطیہ کردہ اعضاء پیوند کروانے والے افراد‪ ،‬کینسر کے مریض اور وہ لوگ شامل‬
‫ہیں جو کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے امیون سسٹم کمزور بنانے والی دوائیں کھا رہے‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسینز ان پر اثر نہیں کرتیں۔‬
‫ہیں۔ ان تمام کیفیات کی وجہ سے ِ‬
‫بطور خاص فائدہ پہنچائے گی۔‬
‫ِ‬ ‫کورونا وائرس کی یہ ’اینٹی باڈی دوا‘ ایسے تمام افراد کو‬
‫ایووشیلڈ دو اینٹی باڈیز پر مشتمل ہے جو ایک ہی دن میں دو انجکشنوں سے لگائی جاتی‬
‫ہے‪ ،‬جس کے بعد یہ متعلقہ فرد کو چھ ماہ تک کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫ایف ڈی اے نے اپنی جاری کردہ ہدایات میں یہ بھی کہا ہے کہ اینٹی باڈی دوا صرف‬
‫کمزور امیون سسٹم والے چند فیصد افراد کےلیے ہے۔‬
‫لہذا‪ ،‬جن لوگوں کا امیون سسٹم معمول کے مطابق مضبوط ہے انہیں اس اینٹی باڈی دوا کی‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسین ہی لگوانی ہوگی۔‬‫ضرورت نہیں بلکہ انہیں ِ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کا‬
‫ایسٹرازنیکا کی ٓازمائشوں سے معلوم ہوا ہے کہ ’ایووشیلڈ‘‪ ±‬کے استعمال سے ِ‬
‫خطرہ ‪ 77‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫ایک اندازے کے مطابق‪ ،‬امریکا میں ‪ 66‬الکھ سے ایک کروڑ افراد کمزور امیون سسٹم‬
‫والے ہیں‪ ،‬جو وہاں کی مجموعی ٓابادی کا ‪ 2‬سے ‪ 3‬فیصد بناتے ہیں۔‬
‫امریکی حکومت بھی فوری طور پر ’ایووشیلڈ‘ کی سات الکھ خوراکیں خریدنے کی‬
‫منظوری دے چکی ہے تاہم یہ صرف ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی کسی شخص کو لگائی‬
‫جاسکیں گی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2257492/9812/‬‬

‫چائے یا کافی‪ ،‬دونوں میں سے بہتر کیا؟‬


‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬اتوار‪ 12  ‬دسمبر‪2021  ‬‬
‫پیئے جانے کے لحاظ سے دنیا بھر میں چائے اور کافی‪ ،‬یہ دو مشروبات انتہائی عام ہیں‬
‫تاہم مغربی خطے میں کافی مشہور‪ F‬ہے جبکہ مشرقی تہذیب میں چائے کو مقبولیت حاصل‬
‫ہے۔ دونوں میں شامل اجزا اور اس کے اثرات ملتے جلتے ہی ہیں جس کی وجہ سے کسی‬
‫ایک کو چننا مشکل ہوجاتا ہے۔‬
‫کافی‪:‬‬
‫کافی میں کیفین کی مقدار چائے کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‬
‫کہ کیفین دماغ کو جگادیتی ہے اور نیند بھگا دیتی ہے۔ یہ جسم میں توانائی کا احساس بھی‬
‫پیدا کرتی ہے۔ یہ بیماریوں سے بچاؤ میں بھی معاون ہے۔ ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے‬
‫کہ مناسب مقدار میں اگر کیفین لی جائے تو اس سے ٹائپ ‪ 2‬ذیابیطس کا خطرہ کم ہوسکتا‬
‫ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ کیفین کی زیادہ مقدار بیماریوں کا باعث بھی بن سکتی ہے جیسا‬
‫کہ اسہال‪ ،‬متلی‪ ،‬نیند نہ ٓانا‪ ،‬گھبراہٹ‪ ,‬تیز دھڑکن اور شدید حالتوں میں مرگی کے دورے‬
‫وغیرہ۔‬
‫چائے‪:‬‬
‫چائے میں چونکہ کیفین کم ہوتا ہے اس لیے یہ ایک‪ ‬مناسب مقدار میں‪ ‬توانائی مہیا کرتی‬
‫ہے بنسبت کافی کے۔ چائے میں ایک اور جُز ہوتا ہے جو کافی میں نہیں ہوتا اور وہ ‪L-‬‬
‫جزو بدن بننے کے عمل میں تاخیر کرتا ہے۔ اس حوالے سے‬ ‫ِ‬ ‫‪ theanine‬ہے جو کیفین کے‬
‫کیے گئے ایک مطالعے میں دیکھا گیا کہ‪ L-theanine ‬اور کیفین جب ساتھ لی گئی تو‬
‫توجہ‪ ‬اور ذہنی صالحیت میں بہتری ٓائی۔‬
‫‪/https://www.express.pk/story/2257849/9812‬حۂ اول‬ ‫‪‬‬

‫اومیکرون وائرس‪ ،‬ویکسین کا اثر کم کرتے ہوئے تیزی سے پھیل‬


‫سکتا ہے‪ ،‬عالمی ادارہ صحت‬
‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫اتوار‪ 12  ‬دسمبر‪2021  ‬‬

‫عالمی ادارہ برائے صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون‪ ±‬کا پھیالؤ تیز ہوسکتا ہے اور موجودہ‬
‫ویکسین کی افادیت کم ہوسکتی ہے‬
‫جنیوا‪ :‬عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں سنسنی‬
‫پھیالنے واال کووڈ ‪ 19‬وائرس کی نئی تبدیل شدہ شکل ’اومیکرون‘ کی عالمات کم شدت‬
‫کی‪ ،‬پھیلنے کی رفتار تیزہے۔ جبکہ اس کے سامنے موجودہ تمام ویکسین کی تاثیر کم‬
‫دیکھی گئی ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او نے ابتدائی ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد اپنے بیان میں بتایا ہے کہ نو دسمبر تک‬
‫اومیکرون‪ 63 ±‬ممالک تک جاپہنچا تھا۔ واضح رہے کہ ڈیلٹا وائرس بھارت اور اومیکرون‬
‫جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا ہے۔ اومیکرون‪ ±‬میں جینیاتی تبدیلیوں کی شرح غیرمعمولی‬
‫ہے۔ اس کے بعد افریقی ممالک نے نئی عوامی پابندیاں عائد کی ہیں۔‬
‫اپنی تکنیکی رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ڈیٹا کم ہونے کے باوجود ابتدائی طور‬
‫پر معلوم ہوا ہے کہ اومیکرون ویکسین کی تاثیر کو کم کرسکتا ہے اور اس کا پھیالؤ‬
‫تیزرفتار ہوسکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ تیزی سے پھیلنے کی دوڑ میں اومیکرون‪ ±،‬ڈیلٹا کو‬
‫پیچھے چھوڑ دے گا۔‬
‫واضح رہے کہ ‪ 24‬نومبر کو تبدیل شدہ وائرس سامنے ٓایا تھا لیکن اس کی شدت کم درج‬
‫کی اور بسا اوقات اس کی عالمات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2257941/9812/‬‬

‫رات کی شفٹ میں بے وقت کھانے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ‬


‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬بدھ‪ 8  ‬دسمبر‪2021  ‬‬

‫رات کی شفٹ میں کام کرنے اور رات کو کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ‬
‫بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ہارورڈ‪ :‬جسم کی اندرونی گھڑی ہمارے سونے جاگنے اور دیگر معموالت کو طے کرتی‬
‫ہے‪ ،‬ان میں بگاڑ سے جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‪ ،‬اب معلوم ہوا کہ رات کو‬
‫جاگنے اور کھانے پینے سے ذیابیطس اور موٹاپے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫امراض‬
‫ِ‬ ‫اس سے قبل رت جگوں میں کام سے جسم کے استحالے (میٹابولزم)‪ ±‬متاثر ہونے‪،‬‬
‫قلب اور بلڈپریشر کے درمیان تعلق سامنے ٓاچکا ہے۔ اسی طرح سونے اور جاگنے کے‪ ‬‬
‫قدرتی دورانیے یعنی ‪ ‬جسمانی گھڑی (سرکاڈیئن کالک) بگڑنے سے دل پر منفی اثرات‬
‫بھی سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫اس کے بعد ہارورڈ میڈیکل اسکول کے سائنسدانوں نے نوجوان اور صحت مند رضا‬
‫کاروں کو بھرتی کرکے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک کو دن میں کام‬
‫کرایا گیا اور ان ہی اوقات میں کھانا پینا فراہم کیا۔ دوسرے گروہ کو رات میں جاگنے کو‬
‫کہا اور انہی اوقات میں کھانا دیا گیا۔ یہ عمل کل ‪ 14‬روز تک دہرایا گیا۔‬
‫سب سے پہلے دونوں گروہوں کے خون میں گلوکوز کی مقدار نوٹ کی گئی۔ اب جن‬
‫لوگوں نے دو ہفتے شب بیداری میں گزارے اور رات کو کھانا کھایا تو پہلے کے مقابلے‬
‫گلوکوز کی شرح ساڑھے چھ فیصد بڑھی ہوئی دیکھی گئی۔‬
‫ہارورڈ کے پروفیسر فرینک اے جے ایل نے یہ تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری‬
‫تحقیق سے عیاں ہے کہ بے وقت کھانے سے خون میں شکر کی مقدار بڑھتی ہے لیکن‬
‫انہوں نے اس ضمن میں مزید تحقیق پر زور دیا۔‬
‫اب بھی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ رات کو کھانے کے بجائے رات جاگنے کا عمل زیادہ‬
‫مضر ہے کیونکہ یہ پورے بدن کے نظام کو تتربتر کردیتا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2255704/9812/‬‬

‫باقاعدہ ورزش سے نمونیا کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬

‫‪  ‬اتوار‪ 12  ‬دسمبر‪2021  ‬‬


‫یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں نمونیا سے تحفظ کا اضافی پہلو بھی‬
‫سامنے ٓایا ہے‬
‫ہیلسنکی ‪ /‬لندن‪ :‬فن لینڈ اور برطانیہ کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ‬
‫روزانہ ورزش کرتے ہیں انہیں نمونیا کی شکایت بھی بہت کم ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں دس الکھ سے زیادہ افراد پر کیے گئے دس الگ الگ مطالعات میں جمع شدہ‬
‫معلومات کا تجزیہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ورزش سمیت دیگر اقسام کی‬
‫جسمانی مشقت کرنے کے عادی تھے‪ ،‬ان میں نمونیا کا خطرہ بہت کم تھا۔‬
‫اس کے عالوہ‪ ،‬یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ زیادہ تر بیٹھے رہتے ہیں اور چلنے پھرنے‬
‫سے گریز کرتے ہیں‪ ،‬ان کےلیے صحت کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ نمونیا کا خطرہ‬
‫بھی زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ نمونیا پھیپھڑوں اور سانس کی بیماری ہے جو وائرس یا جراثیم کی وجہ‬
‫سے ہوتی ہے۔‬
‫اگرچہ یہ چھوٹے بچوں کےلیے زیادہ خطرناک اور ہالکت خیز ہے لیکن بزرگ اور عمر‬
‫رسیدہ افراد بھی بڑی تعداد میں اس سے شدید متاثر ہوسکتے ہیں۔‬
‫ورزش اور جسمانی مشقت کے طبّی فوائد پر اب تک کئی تحقیقات ہوچکی ہیں تاہم یہ اپنی‬
‫نوعیت کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں نمونیا سے تحفظ کا اضافی پہلو بھی سامنے‬
‫ٓایا ہے۔‬
‫نوٹ‪ :‬اس تحقیق کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’جیروسائنس‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ٓان الئن‬
‫شائع ہوئی ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2257461/9812/‬‬

‫دھندال پن کا شکار افراد کیلئے خوشخبری‬


‫‪ December 11, 2021‬‬
‫ویب ڈیسک‪ ‬‬

‫امریکی سائنسدانوں نے دھندال پن کے شکار افراد کے لیے ٓانکھوں کے ڈراپس تیار کر‬
‫لیے ہیں جس میں دھندال پن دور کرنے کی صالحیت ہے۔‬
‫غیر ملکی خبر رساں ادارے کی‪ ‬رپورٹ‪ ‬کے مطابق کتاب پڑھنے میں دشواری کا سامنا‬
‫کرنے والے اور کمپیوٹر کے استعمال کے دوران دھندالہٹ کا شکار ہونے والے افراد کے‬
‫لیے موثر ترین ٓائی ڈراپس تیار کئے گئے ہیں۔‬
‫رپورٹ کے مطابق امریکی فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی نے کلینکلی ٓائی ڈراپس کے استعمال کی‬
‫اجازت دے دی ہے۔‬
‫فالج کے خطرے کو کیسے کم کیا جائے؟‬
‫نامی بیماری کا شکار افراد فائدہ )‪ (presbyopia‬ان ٓائی ڈراپس کی مدد سے پریسبائے اوپیا‬
‫اٹھا پائیں گے۔‬
‫یہ بیماری عمومی طور پر ‪ 40‬سال سے زائد افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ایسے افراد کسی‬
‫چیز ہر دھیان دیتے وقت دھندالپن کا شکار ہوتے ہیں۔‬
‫الرجن نامی کمپنی کے مطابق اس دوا کا اثر ‪ 15‬منٹ کے اندر شروع ہوتا ہے اور چھ‬
‫گھنٹے تک رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نظر کی کمی کا شکار افراد اس دوا سے فائدہ نہیں‬
‫اٹھا سکتے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تمام ادویات بیچنے والی کمپنیوں کو اس کی ترسیل کی‬
‫اجازت ہے اور اس کی قیمت ‪ 79‬ڈالر رکھی گئی ہے۔‬
‫‪https://www.humnews.pk/latest/365851/‬‬

‫انسانی دماغ اور کمپیوٹر کا ٓاپس میں ربط ۔۔۔اب کمپیوٹر ٓاپ کی سوچ‬
‫کے مطابق کام کرے گا‪ ،‬لیکن کیسے؟‬

‫‪    ‬‬
‫‪08/12/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ٹیکنالوجی کی دنیا میں ٓائے دن جدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‬
‫دنیا‬
‫سمٹ کر انسان کے ہاتھ میں ٓاچکی ہے‪ ،‬اب اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کچھ‬
‫کہنے یا لکھنے کے بجائے صرف سوچنے پر ہی کمپیوٹر ہمارا مطلوبہ کام شروع کردے‬
‫گا۔کمپیوٹر کی دنیا میں ایسا انقالب ٓانے جا رہا ہے جس کے بعد انسانی دماغ اور کمپیوٹر‬
‫ٓاپس میں ربط ہوجائیں گے اور ہمارے سوچنے سے ہی کام ہوجایا کرے گا۔ایک رپورٹ‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ ان کی کمپنی‬ ‫کے مطابق عالمی ارب پتی صنعت کار ایلن مسک نے‬
‫چپ نصب کر دے گی جس‬ ‫’نیورا لنک‘ ایک سال کے اندر انسانی دماغ میں ایک ایسی ِ‬
‫کے بعد دماغ اور چپ ایک دوسرے سے منسلک ہوکر بغیر کوئی کمانڈ لئے صرف‬
‫سوچنے سے ہی کام کرنا شروع کر دیں گے۔رپورٹ کے مطابق نیورا لنک نے ایک ایسا‬
‫نیورل امپالنٹ تیار کیا ہے جو بغیر کسی بیرونی ہارڈویئر کے دماغ کے اندر چل رہی‬
‫سرگرمی کو ویئرلیس سے براڈ کاسٹ کرسکتا ہے۔ایک انٹرویو کے دوران ایلن مسک نے‬
‫بتایا کہ بندروں کے دماغ میں چپ نصب کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ بندروں پر تجربہ‬
‫کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تکنیک محفوظ اور قابل اعتماد ہے۔انہوں نے بتایا کہ نیورا‬
‫لنک ڈیوائس کو محفوظ طریقہ سے لگایا اور ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ تکنیک ان لوگوں کے‬
‫لئے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی پریشانی میں مبتال ہیں اور‬
‫طویل مدت سے بستر پر ہیں۔ایلن مسک نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کسی‬
‫ایسے شخص کو طاقت دینے کا موقع ہے جو چل نہیں سکتا یا پھر اپنے ہاتھ سے کام نہیں‬
‫کرسکتا۔انہوں‪ ±‬نے بتایا کہ نیورا لنک نے اپریل ‪ 2021‬میں ایک بندر کے دماغ میں اپنی‬
‫چپ نصب کی تھی‪ ،‬جس کے بعد بندر اپنے دماغ کا استعمال کر کے ویڈیو گیم کھیلنے کے‬
‫اہل ہوگیا۔ بندر کے دماغ میں نصب ڈیوائس نے کھیلتے وقت معلومات فراہم کی جس کے‬
‫سبب وہ جان پایا کہ کھیل کے دوران چال کس طرح چلنی ہے۔مسک نے کہا کہ چپ نصب‬
‫کئے جانے کے باوجود بندر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں ٓا رہی تھی اور وہ دور سے ہی‬
‫ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔خیال رہے کہ نیورا لنک چھوٹے لچک دار دھاگوں سے وابستہ‬
‫ایک چپ ہوتی ہے‪ ،‬جسے روبوٹ کے ذریعے دماغ میں سی دیا جاتا ہے۔ یہ ڈیوائس دماغ‬
‫سے پیدا ہونے والی لہروں کی شناخت کرکے اس سے منسلک ہوجاتی ہے اور سوچ کے‬
‫مطابق کام کرنے لگتی ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202112-130310.html‬‬
‫اگر نوجوان کا پاخانہ بوڑھے آدمی کو ٹرانسپالنٹ کیا جائے تو وہ جوان‬
‫ہونا شروع ہوجاتا ہے‘ سائنسدانوں کا نئی تحقیق میں حیران کن‬
‫انکشاف‬

‫‪Dec 10, 2021 | 20:29:PM‬‬

‫‪  ‬‬ ‫‪ ‬‬
‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) سائنسدانوں نے پاخانے کے ذریعے عمر رسیدگی کا عمل‬
‫سست کرنے کا ایک حیران کن طریقہ ڈھونڈ نکاال ہے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق سائنسدانوں‬
‫اس تحقیق میں پتا چالنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اگر عمر رسیدہ لوگوں میں نوجوان‬
‫لوگوں کا پاخانہ ٹرانسپالنٹ کیا جائے تو ان میں عمر رسیدگی کا عمل الٹ سمت میں چلنا‬
‫شروع کر دیتا ہے اور وہ ایک بار پھر جوانی کی طرف چلے جاتے ہیں۔‬
‫سائنسدانوں نے اس تحقیق میں چوہوں پر تجربات کیے جو حیران کن حد تک کامیاب رہے۔‬
‫تحقیق میں سائنسدانوں نے عمررسیدہ چوہوں میں نوجوان چوہوں کا پاخانہ ٹرانسپالنٹ کیا‬
‫جس سے عمر رسیدہ چوہوں میں کچھ حیران کن تبدیلیاں آگئیں۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ‬
‫جان کریان کا کہنا تھا کہ ان عمر رسیدہ چوہوں میں سیکھنے اور سمجھنے کی صالحیت‬
‫کئی گنا بہتر ہو گئی۔ ان کی یادداشت میں حیران کن طور پر اضافہ ہو گیا اور ان میں ذہنی‬
‫پریشانی کا لیول بہت زیادہ کم ہو گیا۔ میں اور میری ٹیم اب مقعد کی صحت اور ذہن کے‬
‫درمیان تعلق کو معلوم کرنے کے لیے تحقیق کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/10-Dec-2021/1376283‬‬

You might also like